113. حدود کے مقدمہ میں سفارش کا بیان

【1】

حدود کے مقدمہ میں شفارش کا بیان

اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے یہ معلوم ہوگا کہ امام یعنی حاکم کو سفارش کرنا کہ وہ فلاں مجرم کو معاف کر دے اور اس پر حد جاری نہ کرے، جائز ہے یا نہیں اور یہ کہ حاکم اس سفارش کو قبول کرنے کا اختیار رکھتا ہے یا نہیں ،

【2】

حدود میں سفارش نہیں قبول کی جاسکتی

حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ (ایک مرتبہ) قریشی صحابہ ایک مخزومی عورت کے بارے میں بہت فکر مند تھے جس نے چوری کی تھی (اور لوگوں سے عاریۃ) سامان لے کر مکر بھی جاتی تھی اور آنحضرت ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا) ان قریشی صحابہ نے آپس میں یہ مشورہ کیا کہ اس عورت کے مقدمہ میں کون شخص آنحضرت ﷺ سے گفتگو (یعنی سفارش) کرسکتا ہے اور پھر انہوں نے یہ کہا کہ حضرت اسامہ ابن زید سے رسول کریم ﷺ کو بہت محبت وتعلق ہے اس لئے اس بارے میں آپ سے کچھ کہنے کی جرأت اسامہ کے علاوہ اور کسی کو نہیں ہوسکتی (چنانچہ ان سب نے حضرت اسامہ کو اس پر تیار کیا کہ وہ اس عورت کے بارے میں آنحضرت ﷺ سے گفتگو کریں ) حضرت اسامہ نے (ان لوگوں کے کہنے پر ) آنحضرت ﷺ سے گفتگو کی، رسول کریم ﷺ نے (ان کی بات سن کر) فرمایا کہ تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو ؟ اور پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے خطبہ دیا اور (حمد وثنا کے بعد اس خطبہ میں) فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ جو گذرے ہیں ان کو اسی چیز نے ہلاک کیا کہ ان میں سے کوئی شریف آدمی (یعنی دنیاوی عزت و طاقت رکھنے والا) چوری کرتا تو وہ اس کو (سزا دیئے بغیر) چھوڑ دیتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی کمزور و غریب آدمی چوری کرتا تو سزا دیتے تھے، قسم ہے اللہ کی ! اگر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں۔ (بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ نے بیان کیا ایک مخزومی عورت (کی یہ عادت) تھی کہ وہ لوگوں سے عاریۃً کوئی چیز لیتی اور پھر اس سے انکار کردیتی تھی، چناچہ نبی کریم ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹ ڈالنے کا حکم دے دیا (جب) اس عورت کے اعزا (کو اس کا علم ہوا تو وہ) حضرت اسامہ کے پاس آئے اور ان سے اس بارے میں گفتگو کی (کہ وہ آنحضرت ﷺ سے سفارش کریں) اور پھر حضرت اسامہ نے آنحضرت ﷺ سے اس کے متعلق عرض کیا۔ اس کے بعد حدیث کے وہی الفاظ مذکور ہیں جو اوپر کی حدیث میں نقل کئے گئے ہیں۔ تشریح حدیث میں جس عورت کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام فاطمہ بنت اسود ابن الاسد تھا اور وہ حضرت ابوسلمہ کے بھائی کی بیٹی تھی، چونکہ وہ بنی مخزوم سے تھی جو قریش کا ایک بڑا قبیلہ تھا۔ اس لئے قبیلہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے اس کو مخزومیہ کہا گیا ہے۔ اس حدیث کے بموجب علماء کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ جب حد کا کوئی قضیہ امام (حاکم) کے پاس پہنچ جائے تو اس کے بعد مجرم کے حق میں امام سے سفارش کرنا بھی حرام ہے اور کسی دوسرے سے سفارش کرانا بھی حرام۔ ہاں امام کے پاس قضیہ پہنچنے سے پہلے سفارش کرنے کرانے کی اکثر علماء نے اجازت دی ہے بشرطیکہ جس شخص کے حق میں سفارش کی جائے وہ شریف اور لوگوں کو ایذاء پہنچانے والا نہ ہو۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی ایسے جرم و گناہ کا ارتکاب کیا ہو جس میں حد جاری نہ ہوتی ہو بلکہ تعزیر نافذ ہوتی ہو تو اس کے حق میں سفارش کرنا اور سفارش کرانا بہرصورت جائز ہے خواہ اس کا قضیہ امام کے پاس پہنچ چکا ہو یا نہ پہنچا ہو کیونکہ ایسی صورت میں سفارش کرنا نہ صرف یہ کہ آسان ہے بلکہ مستحب بھی ہے بشرطیکہ جس شخص کے حق میں سفارش کی جائے وہ کوئی شریف اور لوگوں کو ایذاء پہنچانے والا نہ ہو۔ مسلم کی جو دوسری روایت نقل کی گئی ہے اس کے الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس عورت کو اس جرم میں ہاتھ کاٹنے کی سزا دی تھی کہ وہ لوگوں سے عاریۃً چیزیں لے کر مکر جاتی تھی حالانکہ یہ واقعہ کے بھی خلاف ہے اور شرعی مسئلہ کے بھی منافی ہے، چناچہ اس کا جواب یہ ہے کہ دوسری روایت میں انکار کا ذکر محض اس عورت کا حال بتانے کے لئے ہے کہ وہ عورت اس قسم کی تھی اور اس کو قطع ید کی جو سزا دی گئی اس کا تعلق اس کے چوری کے جرم سے تھا جیسا کہ پہلی روایت (جس کو بخاری ومسلم دونوں نے نقل کیا ہے) میں بیان ہوا۔ گویا حاصل یہ نکلا کہ دوسری روایت لفظ وتجحدہ کے بعد لفظ فسرقت مقدر ہے، یعنی یہ لفظ فسرقت اگرچہ عبارت میں نہیں ہے مگر اس کے معنی مراد لئے جائیں گے۔ جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ جو شخص کسی سے عاریۃً کوئی چیز لے کر اس سے مرجائے اس کو ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی جائے گی جب کہ حضرت امام احمد اور اسحاق کا قول یہ ہے کہ ایسے شخص کا بھی ہاتھ کاٹنا واجب ہے۔ ہذا الباب خال عن الفصل الثانی۔ اس باب میں دوسری فصل نہیں ہے۔

【3】

حد میں سفارش کرنے والا گویا اللہ کے حکم کی مخالف کرنے والا ہے

حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کی سفارش اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کسی حد کے درمیان حائل ہو (یعنی جو شخص اپنی سفارش کے ذریعہ حاکم کو نفاذ حد سے روکے) اس نے اللہ تعالیٰ سے ضد کی (اور گویا اس طرح اس نے اللہ تعالیٰ کی خلاف ورزی کی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہی ہے کہ حد جاری کی) اور جو شخص جانتے ہوئے بھی کسی ناحق اور جھوٹی بات میں کسی سے جھگڑتا ہے) تو وہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہتا ہے جب کہ اس سے باز نہ آجائے۔ اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہیں پائی جاتی (یعنی مؤمن کو کوئی عیب لگائے یا اس کی طرف کسی غلط بات کی تہمت کر کے اس کو نقصان پہنچائے) تو اس کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ، پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے یعنی جب تک کہ وہ توبہ کر کے اس گناہ سے نہ نکل آئے وہ دوزخیوں کی سی حالت میں رہے گا، یا یہ کہ جب تک کہ وہ اس گناہ عذاب کو بھگت کر پاک نہ ہوجائے دوزخیوں کے درمیان رہے گا) اس روایت کو احمد اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے۔ اور بہیقی نے شعب الایمان میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ جو شخص کسی ایسے جھگڑے میں مدد کرے جس کے حق و ناحق ہونے کا اس کو علم نہیں تو جب تک کہ وہ اپنی مدد سے باز نہ آجائے اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہے گا۔

【4】

اقرار جرم پر چوری کی سزا

اور حضرت ابوامیہ مخزومی بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک چور کو پیش کیا گیا جس نے اپنے جرم کا صریح اعتراف و اقرار کیا لیکن (چوری کے مال میں سے) کوئی چیز اس کے پاس نہیں نکلی چناچہ رسول کریم ﷺ نے اس سے فرمایا کہ میرا خیال نہیں ہے کہ تم نے چوری کی ہے اس نے کہا کہ ہاں ! میں نے چوری کی ہے آنحضرت ﷺ نے دو بار یا تین بار یہ کہا (کہ میرا خیال نہیں ہے کہ تم نے چوری کی ہے) مگر وہ ہر بار یہ اعتراف و اقرار کرتا تھا (کہ میں نے چوری کی ہے) آخر کار آنحضرت ﷺ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم جاری کیا پھر کٹنے کے بعد) اس کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو رسول کریم ﷺ نے اس سے فرمایا کہ (اپنی زبان کے ذریعہ) اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرو (اور اپنے دل کے ذریعہ) اس کی طرف متوجہ ہو۔ اس نے کہا میں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں اور اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں (یعنی توبہ کرتا ہوں) رسول کریم ﷺ نے تین بار فرمایا اے اللہ ! اس کی توبہ قبول فرما۔ (ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) اور صاحب مشکوٰ ۃ فرماتے ہیں کہ) میں نے اس روایت کو ان چاروں اصل کتابوں (ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) میں جامع الاصول میں، بہیقی کی شعب الایمان میں اور خطابی کی معالم السنن میں اسی طرح یعنی ابوامیہ سے منقول پایا ہے لیکن مصابیح کے بعض نسخوں میں اس روایت میں ابورمثہ (ہمزہ اور یا کی بجائے را مکسورہ اور ثا مثلثہ کے ساتھ) منقول ہے مگر حضرت شیخ حافظ ابن حجر عسقلانی نے وضاحت کی ہے کہ اس روایت کا ابورمثہ سے منقول ہونا غلط ہے اور ابورمثہ اگرچہ صحابی ہیں لیکن یہ روایت ان سے منقول نہیں ہے۔ تشریح اس ارشاد میں، میں خیال نہیں کرتا الخ سے آنحضرت ﷺ کا منشاء یہ تھا کہ وہ شخص اپنے اعتراف سے رجوع کرے تاکہ اس پر حد ساقط ہوجائے اور اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے، جیسا کہ آنحضرت ﷺ زنا کا اقرار کرنے والوں کے سامنے اس طرح کے جملے ارشاد فرماتے تھے جن کا مقصد تلقین عذر ہوتا تھا۔ یہ حضرت امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور دوسرے آئمہ کے نزدیک اس طرح کی تلقین عذر اور تلقین رجوع صرف زنا کی حد کے ساتھ مخصوص ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس شخص کو جو استغفار کا حکم دیا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس شخص پر حد جاری ہوئی ہے اس کو وہ حد بالکل (یعنی تمام گناہوں سے) پاک نہیں کرتی بلکہ اس کے اسی گناہ کو ختم کرتی ہے جس کی وجہ سے اس پر حد جاری ہوئی ہے کہ حد جاری ہوجانے کے بعد وہ پروردگار کی جانب سے اس کے سبب دوبارہ عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا۔