114. شراب کی حد کا بیان

【1】

شراب کی حد بیان

شراب کی حرمت شراب جس کو ام الخبائث کہا گیا ہے، بعثت نبوی ﷺ سے پہلے ہی جزوزندگی کا درجہ رکھتی تھی اس لئے بعثت نبوی کے بعد ابتداء اسلام میں بھی اس کا رواج برقرار رہا اور عام طور پر لوگ اس کو پینے پلانے میں مبتلا رہے لیکن اس کی برائی اور اس کے نقصان کی وجہ سے مسلمانوں کے دل میں کھٹک بھی پیدا ہوتی تھی اور حضرت عمر کے قول (انہا تذہب المال وتذہب العقل) (یہ شراب مال کو بھی برباد کرتی اور عقل کو بھی ختم کرتی ہے) کے پیش نظر لوگوں میں یہ احساس تمنا بھی روز بروز بڑھتا جاتا تھا کہ اس کی اباحت جتنی جلد ختم ہوجائے اتنا ہی اچھا ہے، ادھر چونکہ پوری سوسائٹی اس لعنت میں گرفتار تھی اور ایک ایسی عادت تھی جس کی جڑیں پورے معاشرے میں بہت دور تک پھیلی ہوئی تھیں اس لئے مصلحت شریعت یہ تھیں کہ اس کی حرمت کا نفاذ دفعتًا کرنے کی بجائے بتدریج روبہ عمل میں لایا جائے کہ شریعت کا مقصد بھی پورا ہوجائے اور لوگ اس لعنت سے بھی نجات پاجائیں، چناچہ جب کچھ صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے شراب کے بارے میں دریافت کیا تو اس سلسلہ میں سب سے پہلے یہ آیت نازل ہوئی (يَسْ َ لُوْنَكَ عَنِ الْخَ مْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيْهِمَا اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْ مُهُمَا اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا) 2 ۔ البقرۃ 219) (اے محمد ﷺ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور (بظاہر) ان میں لوگوں کے لئے کچھ فائدے ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائدوں سے بہت بڑھا ہوا ہے۔ جو سعید روحیں پہلے ہی سے شراب کے مضر اثرات کا احساس رکھتی تھیں اور جو لوگ اس کی برائی سے طبعًا بیزار تھے ان کے لئے تو بس اتنا ہی کافی تھا کہ قرآن کریم نے شراب کو گناہ کہہ دیا لہٰذا انہوں نے شراب نوشی قطعًا ترک کردی، لیکن چونکہ اس آیت میں شراب کی حرمت کا کوئی واضح اور قطعی حکم نہیں ہے اس لئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مے نوشی کا مشغلہ بدستور جاری رکھا۔ اور پھر اس سلسلہ میں یہ دوسری آیت نازل ہوئی ( يٰ اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ ) 4 ۔ النساء 43) ۔ اے ایمان والو ! تم ایسی حالت میں نماز کے پاس مت جاؤ کہ تم نشہ کی حالت میں مست ہو، یہاں تک کہ تم سمجھنے لگو کہ منہ سے کیا کہتے ہو۔ اس آیت نے شراب نوشی کے جاری مشغلہ پر ایک ضرب لگائی اور نماز کے اوقات میں شراب نوشی بالکل ترک کردی گئی البتہ نماز کے علاوہ اوقات میں بعض لوگوں کے یہاں اب بھی شراب نوشی کا مشغلہ بند نہیں ہوا اور آخر کا ر ٣ ھ میں یہ تیسری آیت نازل ہوئی جس میں حرمت شراب کو واضح کردیا گیا (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْ ا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ 90) اے ایمان والو ! اس میں شبہ نہیں کہ شراب اور جوا اور بت اور قرعہ کے بیریہ سب گندی چیزیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد شراب نوشی بالکل بند ہوگئی، شراب کے مٹکے توڑ ڈالے گئے اور شراب مدینہ کی گلیوں میں پانی کی طرح بہنے لگی اور اس شراب کی حرمت کا حکم نافذ ہوگیا۔ شراب نوشی کی سزا تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن وسنت کے حکم اور اجماع امت کے مطابق شراب حرام ہے اور جو شخص شراب پئے وہ حد (شرعی سزا) کا مستوجب ہے جو جمہور علماء کے قول کے مطابق اسی ٨٠ کوڑے مارنا ہے حنیفہ کا بھی یہی مسلک ہے اور حضرت امام شافعی اور کچھ دوسرے علماء کے قول کے مطابق چالیس کوڑے مارنا ہے۔ سزا کا نفاذ اگر کوئی شخص شراب پئے اگرچہ اس نے ایک ہی قطرہ پی ہو اور پھر اس کو حاکم وقاضی کے سامنے پیش کیا جائے اور اس وقت شراب کی بو موجود ہو یا اس کو نشے کی حالت میں پیش کیا گیا ہو اگرچہ وہ نشہ نبیذ پینے کی وجہ سے ہو اور دو شخص اس کی شراب نوشی کی گواہی دیں یا وہ خود اپنی شراب نوشی کی گواہی دیں یا وہ خود اپنی شراب کا ایک مرتبہ اور امام ابویوسف کے قول کے مطابق دو مرتبہ اقرار کرلے نیز یہ معلوم ہوجائے کہ اس نے اپنی خوشی سے شراب پی ہے کسی کی زبردستی سے نہیں پی ہے تو اس پر حد جاری کی جائے یعنی اگر وہ شخص آزاد ہو تو اس کو اسی ٨٠ کوڑے مارے جائیں اور اگر غلام ہو تو چالیس کوڑے مارے جائیں اور یہ کوڑے اس وقت مارے جائیں جب کہ اس کا نشہ ختم ہوجائے نیز زنا کی حد اور اس حد میں بھی اس طرح کوڑے مارے جائیں کہ بدن کے مختلف حصوں پر چوٹ آئے یعنی پورے کوڑے بدن کے کسی ایک ہی حصہ پر نہ مارے جائیں بلکہ مختلف حصوں پر مارے جائیں۔ اگر کسی شخص نے اپنی شراب نوشی کا اقرار اس وقت کیا جب کہ شراب کی بو ختم ہوگئی ہو یا دو آدمیوں نے کسی کی شراب نوشی کی گواہی اس وقت دی جب کہ بو ختم ہوگئی تو اس پر حد جاری نہ کی جائے اس طرح اگر کسی شخص میں صرف شراب کی بو پائی گئی یا اس نے صرف شراب کی قے کی، یا اس نے پہلے تو اپنی شراب نوشی کا اقرار کیا مگر بعد میں مکر گیا۔ اور یا اس نے نشے کی حالت میں اقرار کیا تو ان صورتوں میں بھی اس پر حد جاری نہ کی جائے۔ واضح رہے کہ جو نشہ حد کو واجب کرتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ شخص مرد و عورت اور زمین و آسمان کے درمیان امتیاز نہ کرسکے۔ لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کا قول یہ ہے کہ نشہ سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص ہزیان اور واہی تباہی باتیں بکنے لگے۔ حنفی مسلک میں فتویٰ اسی قول پر ہے۔

【2】

آنحضرت ﷺ کے زمانے میں شراب نوشی کی سزا

حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے شراب نوشی کی حد (سزا میں کھجور کی ٹہنیوں (چھڑیوں) اور جوتوں سے مارا (یعنی مارنے کا حکم دیا) اور حضرت ابوبکر نے (اپنے دور خلافت میں شراب پینے والے کو چالیس کوڑے مارے۔ (بخاری، مسلم) اور روایت میں حضرت انس ہی سے یوں منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ شراب نوشی کی حد (سزا) میں چالیس کھجور کی ٹہنیوں اور جوتوں سے مارتے تھے یعنی مارنے کا حکم دیتے تھے۔ تشریح پہلی روایت میں تو حد کا ذکر عدد کے تعین کے بغیر ہے اس اعتبار سے وہ مجمل ہے جس کی وضاحت دوسری روایت نے کی ہے جس میں عدد کا تعین کیا گیا ہے اور وہ چالیس ہے چناچہ یہ حدیث حضرت امام شافعی کے مسلک کی دلیل ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں مے نوشی کی شرعی سزا اسی کوڑے مارنا بیان کیا گیا ہے ملا علی قاری نے اپنی کتاب مرقات میں نقل کیا ہے۔

【3】

اسی کوڑے کی سزا عہد صحابہ میں متعین ہوئی ہے

اور حضرت سائب ابن یزید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے عہد مبارک میں حضرت ابوبکر کے ایام خلافت میں اور حضرت عمر فاروق کے زمانہ خلافت کے ابتدائی دور میں یہ معمول تھا کہ جب کوئی شراب پینے والا لایا جاتا تو ہم اٹھ کر اس کو اپنے ہاتھوں اپنے جوتوں اور اپنی چادروں سے یعنی چادروں کو کوڑے بنا کر اس کی پٹائی کرتے پھر حضرت عمر فاروق اپنی خلافت کے آخری دور میں چالیس کوڑے مارنے کی سزا دینے لگے یہاں تک کہ جب شراب پینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور سرکشی بڑھ گئی تو حضرت عمر نے اسی کوڑے کی سزا متعین کی۔ (بخاری) تشریح حضرت سائب ابن یزید کی مراد یہ ظاہر کرنا ہے کہ اس وقت شراب نوشی کی حد نفاذ عدد کے تعین کئے بغیر ہوتا تھا لیکن زیادہ صحیح یہ ہے کہ ان کی مراد یہ ظاہر کرنا ہے کہ اس زمانہ میں شراب پینے کی سزا چالیس کوڑوں سے بھی کم تھی جیسا کہ ان کے قول پھر حضرت عمر فاروق اپنی خلافت کے دور میں چالیس کوڑے مارنے کی سزا دینے لگے سے ثابت ہوتا ہے۔ بہرکیف اس حدیث سے واضح ہوا کہ شراب کی حد کے طور پر اسی کوڑے کی سزا عہد نبوی ﷺ میں نافذ نہیں تھی بلکہ عہد صحابہ میں طے پائی ہے چناچہ حضرت عمر فاروق نے شراب کے معاملہ میں بڑھتی ہوئی شرکشی کو دیکھتے ہوئے اور قانونی اور وانتظامی مصالح کے پیش نظر شراب پینے والے کو اسی ٨٠ کوڑے مارنے کی سزا متعین کی اور اسی پر تمام صحابہ کا اجماع و اتفاق ہوگیا لہٰذا اب کسی کے لئے جائز نہیں ہے چناچہ حضرت علی کا یہ ارشاد ہے کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق نے شراب پینے والے کو چالیس کوڑے کی سزا دی اور اس سزا کو حضرت عمر فاروق نے کامل کیا بایں طور کہ انہوں نے اسی کوڑے کی سزا متعین کی اور اگرچہ سب سنت ہے لیکن اسی کوڑے ہی پر اجماع و اتفاق ہے۔

【4】

شرابی کو قتل کردینے کا حکم منسوخ ہے

حضرت جابر نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص شراب پئے اس کو کوڑے مارو اور جو شخص بار بار پئے یہاں تک کہ چوتھی مرتبہ پیتا ہوا پایا جائے تو اس کو قتل کر ڈالو حضرت جابر کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے بعد ایک دن آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک ایسے شخص کو پیش کیا گیا جس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تھی تو آپ ﷺ نے اس کی پٹائی کی اور اس کو قتل نہیں کیا۔ (ترمذی) ابو داؤد کی ایک روایت میں نسائی ابن ماجہ اور دارمی کی روایت میں جو انہوں نے رسول کریم ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت سے نقل کی ہے جس میں حضرت ابن عمرو، حضرت ابوہریرہ اور حضرت ثرید بھی شامل ہیں یہ حدیث لفظ (فاقتلوہ) تک منقول ہے یعنی ان روایتوں میں (ثم اتی) الخ کی عبارت نہیں ہے۔ تشریح تو اس کو قتل کر ڈالو اس حکم سے یہ تو یہ مراد ہے کہ اس شخص کی بہت پٹائی کرو اور خوب مارو، یا پھر یہ کہ آپ ﷺ نے یہ حکم زجر و تہدید کے طور پر اور قانونی وانتظامی مصالح کے پیش نظر دیا تھا اس کا تعلق کسی مستقل قانون اور وجوب سے نہیں تھا نیز بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ابتداء اسلام میں یہی حکم تھا مگر بعد میں منسوخ ہوگیا۔ اس کو قتل نہیں کیا اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ قتل کردینے کا حکم زجروتہدید اور قانونی وانتظامی مصلحتوں کی بناء پر تھا یا پہلے تو یہی حکم تھا مگر بعد میں آپ نے خود اپنے اس عمل سے کہ اس کو قتل نہیں کیا یہ حکم منسوخ قرار دے دیا۔ نووی نے امام ترمذی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میری کتاب میں دو حدیثوں کے علاوہ اور کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جس کو متروک العمل قرار دینے پر پوری امت کا اجماع و اتفاق ہو ان دونوں میں سے ایک حدیث تو وہ ہے کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی خوف و دہشت یا بارش نہ ہو تب بھی جمع بین الصلوتین کی اجازت ہے اور دوسری حدیث یہ ہے کہ جس میں چوتھی بار شراب پینے والے کو قتل کردینے کا حکم ہے گویا امام ترمذی کے اس قول کو نقل کرنے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ حدیث جس میں چوتھی بار شراب پینے والے قتل کردینے کا حکم ہے منسوخ ہے اور اس کی منسوخی پر سب کا اتفاق واجماع ہے۔

【5】

شرابی کی تحقیر

اور حضرت عبدالرحمن بن ازہر کہتے ہیں کہ گویا وہ منظر اس وقت بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ ایک دن رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک ایسے شخص کو پیش کیا گیا جس نے شراب پی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کی پٹائی کرو چناچہ ان لوگوں میں سے بعض نے اس کو جوتوں سے مارا اور بعض نے کھجور کی ٹہنی (چھڑی) سے مارا۔ حضرت ابن وہب جو اس حدیث کے راوی ہیں کہتے کہ حضرت عبدالرحمن نے میتخہ سے کھجور کی ہری ٹہنی جس پر پتے نہ ہوں یعنی چھڑی مراد لی تھی۔ پھر حضرت عبدالرحمن نے بیان کیا کہ جب سب لوگ اس شرابی کی پٹائی کرچکے تو آنحضرت ﷺ نے زمین سے مٹی اٹھائی اور اس کے منہ پر پھینک دی اس کے منہ پر مٹی پھینک کر گویا آپ ﷺ نے اس کے تئیں حقارت کا اظہار کیا کیونکہ اس نے شراب پی کر ایک بہت ہی شنیع فعل کا ارتکاب کیا تھا۔ (ابو داؤد)

【6】

شرابی کو سزا دو اس کو عار دلاؤ لیکن اس کے حق میں بدعا نہ کرو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ایک دن رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے شراب پی تھی آنحضرت ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ اس کی پٹائی کرو۔ چناچہ ہم میں سے بعض نے جوتیوں سے اس کی پٹائی کی پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب زبان سے اس کو تنبیہ کردو اور عار دلاؤ۔ چناچہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے کہنا شروع کیا کہ تو نے اللہ کی مخالفت سے اجتناب نہیں کیا تو اللہ سے نہیں ڈرا اور تو رسول اللہ ﷺ کی متابعت ترک کرنے یا اس حالت میں آپ کے سامنے آنے سے بھی نہیں شرماتا۔ اور پھر جب بعض لوگوں نے یہ کہا اللہ تعالیٰ تجھ کو (دنیا وآخرت دونوں جگہ یا آخرت میں) ذلیل ورسوا کرے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح نہ کہو اور اس پر شیطان کے غالب ہوجانے میں مدد نہ کرو بلکہ یوں کہو کہ اے اللہ ! اس گناہ کو مٹا کر اس کو بخشش دے اور اس کو طاعت ونی کی کی توفیق عطا فرما کر اس پر رحم کر یا اس کو دنیا میں بخشش دے اور عاقبت میں اس پر اپنا رحم فرما۔ (ابو داؤد) تشریح آنحضرت ﷺ نے زبان سے تنبیہ کرنے کا جو حکم دیا وہ استحباب کے طور پر تھا جب کہ آپ ﷺ کا پہلا حکم کہ اس کی پٹائی کرو وجوب کے طور پر تھا۔ اس پر شیطان کے غالب ہوجانے میں مدد نہ کرو کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی بدعا کر کے شیطان کی اعانت نہ کرو کیونکہ جو اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل و رسوا کر دے گا تو اس پر شیطان کا تسلط ہوجائے گا یا جب وہ تم کو یہ بدعا کرتے ہوئے سنے گا۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید و مایوس ہوجائے گا اور یہ مایوسی ونا امیدی اس کو گناہوں میں منہمک رکھے گی اس طرح اس پر اپنا غلبہ رکھنے کا شیطان کا مقصد بھی پورا ہوگا اور اس کا گناہوں اصراروتکرار اللہ کے غضب کا سبب بھی ہوگا لہٰذا اس اعتبار سے تمہاری بدعا شیطان کے بہکانے میں مدد گا ہوگی۔ بلکہ یوں کہو اس حکم کا مطلب یا تو یہ تھا کہ شروع ہی میں اس کے لئے مغفرت ورحمت کی دعا کرنی چاہئے یا یہ کہ اب اس کے لئے دعاء مغفرت ورحمت کرو اور زیادہ صحیح یہی بات ہے کیونکہ شروع میں تو اس کو عار دلانا مطلوب تھا اور ظاہر ہے کہ اس دعا (اللہم اغفرلہ) کے ساتھ عار دلانے یا اس کو تنبیہ کرنے کا کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔

【7】

ثبوت جرم کے بغیر سزا نہیں

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک شخص نے شراب پی اور بدمست ہوگیا یہاں تک کہ لوگوں نے اس کو راستہ میں اس حال میں پایا کہ وہ جھومتا چلا جاتا تھا جیسا کہ شرابیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ نشہ کی حالت میں لڑکھڑاتے جھومتے راستہ چلتے ہیں، چناچہ لوگوں نے اس کو پکڑ لیا اور رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لے چلے، لیکن جب وہ حضرت عباس کے مکان کے قریب پہنچا تو لوگوں کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور حضرت عباس کے پاس پہنچ کر ان سے چمٹ گیا یعنی اس نے اس طرح حضرت عباس سے سفارش اور پناہ چاہی جب نبی کریم ﷺ سے یہ بیان کیا گیا تو آپ ﷺ ہنس دیئے اور فرمایا کیا اس نے ایسا کہا اور پھر آپ ﷺ نے اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا۔ (ابو داؤد) تشریح آنحضرت ﷺ نے نہ تو اس شخص پر حد جاری کرنے کا حکم دیا اور نہ اس کو کوئی دوسری سزا دی اس کا سبب یہ تھا کہ اس کا شراب پینا نہ تو خود اس کے اقرار سے اور نہ عادل گواہوں کی گواہی کے ذریعہ ثابت ہوا۔ اگر وہ دربار رسالت میں حاضر ہو کر اپنی شراب نوشی کا اعتراف و اقرار کرتا یا گواہوں کے ذریعہ اس کی شراب نوشی کا جرم ثابت ہوتا تو یقینا اس پر حد جاری کرنے کا حکم دیا جاتا۔ اور جہاں تک اس شخص کا راستہ میں نشہ کی حالت میں پائے جانے کا تعلق ہے تو یہ مسئلہ ہے کہ شرعی قانون کی نظر میں کسی شخص کا محض راستہ میں لڑکھڑاتے اور جھومتے ہوئے چلنا اس نشہ کے ثبوت کے لئے کافی نہیں ہے جو اس پر حد کے جاری ہونے کو واجب کرے۔

【8】

جو شخص سزاء کوڑے کھاتے ہوئے مرجائے اس کی دیت واجب نہیں ہوگی

حضرت عمیر ابن سعید نخعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر میں کسی شخص پر حد جاری کروں اور وہ شخص حد مارے جانے کی وجہ سے مرجائے تو مجھ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا یعنی مجھے کوئی غم نہیں ہوگا کیونکہ اس پر حد جاری کرنا شریعت کے حکم کے مطابق ہوگا اور شریعت کے حکم کے نفاذ میں رحم و شفقت کا کوئی محل نہیں ہے ہاں شراب پینے والے کی بات دوسری ہے کہ اگر وہ چالیس سے زیادہ کوڑے مارے جانے کی وجہ سے مرجائے تو میں اس کی دیت بھروں گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے شراب پینے کی حد سزا متعین نہیں فرمائی۔ (بخاری ومسلم) تشریح حد مقرر نہیں فرمائی کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے شراب پینے کی حد سزا کو متعین نہیں کیا ہے کہ اتنے کوڑے مارنے چاہئیں اگرچہ بعض احادیث میں چالیس یا چالیس کے مانند کے عدد کا ذکر ہے اس لئے اگر میں نے شراب پینے والے کو اسی ٨٠ کوڑے مارے اور وہ مرگیا تو میں ڈرتا ہوں کہ شاید یہ زیادتی میری طرف سے منسوب ہوجائے اس اعتبار سے میں اس مرنے والے کی دیت ادا کروں گا۔ حضرت علی کی یہ بات محض احتیاط پسندی پر محمول ہے حالانکہ جب حضرت عمر نے شراب پینے والے کو سزاء مارے جانے والے کوڑوں کی تعداد متعین کرنی چاہی اور صحابہ سے اس بارے میں مشورہ کیا تو خود حضرت علی نے یہ فرمایا کہ شرابی کو اسی کوڑے مارنا میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔

【9】

حضرت عمر کی طرف سے شراب نوشی کا سزا کا تعین

اور حضرت ثور ابن زید دیلمی کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق نے شراب کی حد سزا کے تعین کے بارے میں صحابہ سے مشورہ کیا تو حضرت علی نے ان سے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ شرابی کو اسی کوڑے مارے جائیں کیونکہ جب وہ شراب پیتا ہے تو بدمست ہوجاتا ہے اور ہذیان بکتا ہے اور جب ہذیان بکتا ہے تو بہتان لگاتا ہے۔ چناچہ حضرت عمر نے حکم جاری کیا کہ شراب پینے والے کو اسی کوڑے مارے جائیں۔ (مالک) تشریح حضرت علی نے اپنی رائے کی دلیل میں بڑی جاندار بات فرمائی کہ شراب پینے والے کی عقل ماؤف ہوجاتی ہے اور وہ نشہ کی حالت میں اول فول بکتا ہے اور خواہ مخواہ کسی پر الزام لگاتا پھرتا ہے یہاں تک کہ نیک پارسا اور پاکدامن عورتوں پر زنا کا بہتان لگانے سے بھی باز نہیں رہتا، اس اعتبار سے اس کا نشہ گویا قذف پر قیاس کرتے ہوئے شرابی کی سزا بھی زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتی ہے گویا حضرت علی نے یہ بات اغلب کا اعتبار کرتے ہوئے فرمائی کہ زیادہ تر شرابی اپنے نشے کی حالت میں اول فول بکتے ہیں اور دوسروں پر الزام لگاتے ہیں اور چونکہ حکم کا انحصار اغلب پر ہوتا ہے اس لئے ہر شرابی کے لئے یہ ایک ہی سزا مقرر ہوگئی خواہ نشہ کی حالت میں اول فول بکے یا نہ بکے اور کسی پر الزام لگائے یا نہ لگائے بہرحال حضرت عمر نے حضرت علی کی اس رائے کو تسلیم کیا اور شراب پینے کی سزا اسی کوڑے متعین فرمائی جس پر تمام صحابہ نے اجماع و اتفاق کیا۔