115. جس پر حد جاری کی جائے اس کے حق میں بد دعا نہ کرنے کا بیان

【1】

جس پر حد جاری کی جائے اس کے حق میں بددعا نہ کرنے کا بیان

اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے گناہ کا ارتکاب کرے جس کی وجہ سے وہ حد (شرعی سزا) کا مستوجب ہوتا ہو اور پھر اس پر وہ حد جاری ہوجائے تو اس کے حق میں کسی طرح کی بد دعا نہ کی جائے جیسا کہ جب ایک شخص نے ایک شراب پینے والے کے حق میں یہ بددعا کی ( اخزاک اللہ) یعنی اللہ تعالیٰ تجھ کو ذلیل ورسوا کرے تو آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا کہ یوں نہ کہو بلکہ اس کے حق میں مغفرت ورحمت کی دعا کرو۔

【2】

کسی گنا ہگار پر لعنت بھیجنا جائز ہے

حضرت عمر فرماتے ہیں کہ ایک شخص تھا جس کا نام عبداللہ تھا مگر اس کی بیوقوفی کی وجہ سے اس کو حمار یعنی گدھا کہا جاتا تھا وہ اپنی حماقت آمیز باتوں سے نبی کریم ﷺ کو ہنسایا کرتا تھا نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ شراب پینے کے جرم میں اس پر حد جاری فرما چکے تھے پھر وہ ایک اور دن آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اس کو کوڑے مارنے کا حکم دیا اور اس کو کوڑے مارے گئے حاضرین مجلس میں سے ایک شخص نے کہا اے اللہ تیری لعنت ہو، اس کو کتنی کثرت کے ساتھ بار بار شراب پینے کے جرم میں پکڑ کر لایا جاتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس پر لعنت نہ بھیجو اللہ کی قسم میں یہ جانتا ہوں کہ یہ شخص اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے۔ (بخاری) تشریح اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ کسی گنہگار کو مخصوص کر کے اس پر لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت قرب الہٰی کا سبب ہے لہٰذا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت رکھنے والے پر لعنت بھیجنا کسی حالت میں بھی جائز نہیں ہے کیونکہ لعنت کے معنی ہیں اللہ کی رحمت سے دور کرنا۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک ایسے شخص کو پیش کیا گیا جس نے شراب نوشی کا ارتکاب کیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا اس کی پٹائی کرو چناچہ ہم میں سے بعض نے اس کو اپنے ہاتھ سے مارا بعض نے اپنے جوتوں سے مارا اور بعض نے اپنے کپڑے کا کوڑا بنا کر اس سے مارا جب وہ شخص واپس جانے لگا تو بعض لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو ذلیل ورسوا کرے آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا اس طرح نہ کہو اور اس پر غالب ہونے میں شیطان کی مدد نہ کرو۔ (بخاری)

【3】

جو مجرم سزا پاچکا ہے اس کی آبروریزی مردار کھانے کے مترادف ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ماعز اسلمی نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے بارے میں چار بار یعنی چار مجلسوں میں یہ گواہی دی (یعنی یہ اقرار کیا) کہ اس نے ایک عورت کے ساتھ بطریق زنا، جماع کیا ہے اور آنحضرت ﷺ ہر بار (اس کے اقرار کرنے پر) منہ پھیر لیتے تھے (تاکہ وہ اپنے اقرار سے رجوع کرے اور حد سے بچ جائے) اور پھر پانچویں بار اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ کیا تو نے اس عورت کے ساتھ صحبت کی ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا (کیا تو نے اس طرح صحبت کی کہ وہ (یعنی تیرا عضو مخصوص) اس (عورت کے حصہ مخصوص) میں غائب ہوگیا ؟ اس نے کہا کہ ہاں ! آپ ﷺ نے پوچھا جانتے ہو زنا کیا ہے کہا ہاں ! میں نے اس عورت کے ساتھ حرام طور پر وہ کام کیا ہے جو ایک مرد اپنی بیوی کے ساتھ حلال طور پر کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا (اچھا یہ بتا) یہ جو کچھ تو نے کہا ہے اس سے تیرا مقصد کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ (مجھ پر حد جاری فرما کر) مجھ کو (اس گناہ سے) پاک کر دیجئے۔ چناچہ (اتنی جرح کرنے کے بعد جب اس کا جرم زنا بالکل ثابت ہوگیا تو) آنحضرت ﷺ نے (اس کو سنگساری کا) حکم جاری فرمایا اور اس کو سنگسار کردیا گیا پھر نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ میں سے دو آدمیوں کو یہ گفتگو کرتے ہوئے سنا کہ ان میں سے ایک اپنے ساتھی سے یہ کہہ رہا تھا اس شخص کو دیکھو، اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی لیکن اس کے نفس نے اس کو (اپنے اقرار گناہ سے) باز نہ رکھا یہاں تک کہ وہ ایک کتے کی مانند سنگسار کیا گیا۔ آپ ﷺ نے یہ سن کر اس وقت تو ان دونوں سے کچھ نہیں کہا البتہ کچھ دیر تک چلنے کے بعد ایک مرے ہوئے گدھے کے قریب سے گذرے جس کے پاؤں ( اس کا جسم بہت زیادہ پھول جانے کے سبب) اوپر اٹھے ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ فلاں فلاں (یعنی وہ دونوں) شخص کہا ہیں (جنہوں نے ماعز کی اس وجہ سے تحقیر کی تھی کہ اس کو سنگسار کیا گیا تھا ) انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم دونوں (حاضر) ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم دونوں اترو اور اس گدھے کا مردار گوشت کھاؤ۔ انہوں نے (بڑی حیرت کے ساتھ) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس کا گوشت کون کھاتا ہے ؟ (یعنی اس کا گوشت کھائے جانے کے قابل نہیں ہے آپ ہم سے اس کے کھانے کو کیوں فرماتے ہیں ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا تم نے ابھی اپنے بھائی کی جو آبروریزی کی ہے وہ اس گدھے کا گوشت کھانے سے بھی زیادہ سخت (بری بات) ہے قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بلا شبہ وہ (ماعز) جنت کی نہروں میں غوطے لگا رہا ہے۔ (ابو داؤد) اور حضرت خزیمہ ابن ثابت کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی ایسے گناہ کا مرتکب ہو جو حد کو واجب کرنے والا ہو اور پھر اس پر اس گناہ کی حد جاری کی جائے مثلاً کسی شخص نے زنا کیا اور اس کے کوڑے مارے گئے، یا کسی شخص نے چوری کی اور اس کا ہاتھ کاٹا گیا) تو وہ حد اس کے اس گناہ کا کفارہ ہے (یعنی حد جاری ہونے کے بعد وہ شخص اس گناہ سے پاک وصاف ہوجائے گا) (شرح السنۃ)

【4】

جس گناہ پر سزا جاری ہوچکی ہے اس پر آخرت میں مواخذہ نہیں ہوگا۔

اور حضرت علی نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص، حد کا سزاوار ہو (یعنی کوئی ایسا گناہ کرے جس پر حد متعین ہے) اور پھر اسی دنیا میں اس کو سزا دے دی گئی (یعنی اس پر حد جاری کی گئی یا تعزیری یعنی کوئی اور سزا دی گئی تو) آخرت میں اس کو اس گناہ کی کوئی سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ) اللہ تعالیٰ کی شان عدل یہ بعید ہے کہ وہ آخرت میں اپنے بندے کو دوبارہ سزا دے اور جو شخص کسی حد (یعنی گناہ) کا مرتکب ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے اس گناہ کو چھپالیا اور اس کو معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ کی شان کریمی سے یہ بعید ہے کہ وہ اس چیز پر دوبارہ مؤ اخذہ کرے جس کو وہ معاف کرچکا ہے (ترمذی، ابن ماجہ، ) ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ کو چھپالیا الخ کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے ندامت وشرم ساری کے ساتھ اپنے گناہ سے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کا طلب گار ہوا یہاں تک کہ حق تعالیٰ نے اس کے اس گناہ کی پردہ پوشی فرمائی اور اس طرح اس کو اسی دنیا میں معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ اس کی شان کریمی سے یہ امید ہے کہ آخرت میں بھی اس کو معاف کر دے۔

【5】

اپنے گناہ کی پردہ پوشی کرنا اس کو ظاہر کرنے سے بہتر ہے

جمہور علماء کا یہ مسلک ہے کہ اگر کوئی بندہ کسی گناہ کا مرتکب ہوجائے تو (اسی دنیا میں اس سزا بھگتنے کے لئے) اس کو ظاہر کرنا (یعنی حاکم کے سامنے خود اپنے گناہ کا اقرار کرنا) اگرچہ اس کے ایمان کی پختگی، اس کے قلب و احساس کی سلامتی اور اس اللہ ترسی کا مظہر ہوگا لیکن اس کے حق میں زیادہ بہتر اور اولی یہی ہے کہ وہ اپنے گناہ کو چھپا کر اپنے نفس کی پردہ پوشی کرے اور اللہ تعالیٰ سے توبہ وطلب مغفرت و بخشش کرے ،