116. تعزیر کا بیان

【1】

تعزیر کا بیان

تعزیر کی اصل ہے عزر جس کے لغوی معنی ہیں منع کرنا، باز رکھنا، ملامت کرنا۔ اصطلاح شریعت میں اس لفظ (تعزیر) کا استعمال اس سزا کے مفہوم میں کیا جاتا ہے جو حد سے کم درجہ کی ہو اور تنبیہ اور تادیب کے طور پر کسی کو دی جائے اور اس سزا کو تعزیر اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ آدمی کو اس فعل (گناہ وجرم) کے دوبارہ ارتکاب سے باز رکھتی ہے جس کی وجہ سے اسے وہ سزا (تعز یر) بھگتنی پڑی ہے۔ حد اور تعزیر میں فرق حد اور تعزیر میں فرق یہ ہے کہ حد تو وہ خاص سزا ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اور ساتھ ہی متعین ہے، حاکم کو صرف اس سزا کے نفاذ کا اختیار حاصل ہے اس کو قانون سازی یا اس میں کسی تغیر وتبدل کا حق اس کو حاصل نہیں ہے، اس کے برخلاف تعزیر وہ سزا ہے جس کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ نے متعین نہیں کیا ہے بلکہ اس کا تعین حاکم کی رائے پر موقوف رکھا گیا ہے کہ وہ موقع ومحل اور اقتضاء وقت وضروت کے مطابق جو سزا چاہئے متعین کرے۔

【2】

بطور تعزیر زیادہ سے زیادہ کتنی سزادی جاسکتی ہے

اور حضرت ابوبردہ بن ینار نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جو حدود مقرر کی ہیں ان میں سے دس کوڑوں سے زیادہ کی سزا نہ دی جائے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بطور تعزیر دس سے زیادہ کوڑے مارنے کی سزا دینا جائز نہیں ہے لیکن علماء نے لکھا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔ اس بارے میں فقہاء کے اختلافی اقوال ہیں کہ بطور تعزیر زیادہ سے زیادہ کتنے کوڑے مارنے کی سزا دی جاسکتی ہے ؟ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد کا قول یہ ہے کہ انتالیس سے زیادہ نہ ہو، جب کہ حضرت امام ابویوسف یہ فرماتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ پچھتر کوڑے ہوسکتے ہیں، البتہ کم سے کم تعداد کے بارے میں تین کوڑے پر سب کا اتفاق ہے، اسی طرح اس مسئلہ پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ تعزیر میں جو کوڑے مارے جائیں ان کی تعداد حد میں مارے جانے والی تعداد تک نہ پہنچے لیکن سختی وشدت میں اس سے بھی بڑھ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

【3】

مجرم کے منہ پر نہ مارو

حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص (کسی مجرم کو سزاء) مارے تو اس کو چاہئے کہ وہ (اس مجرم کے) منہ کو بچائے۔ (ابوداؤد ) تشریح مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو بطور حد کوڑے مارے جائیں یا بطور تعزیر وتادیب اس کی پٹائی کی جائے تو بہرصورت یہ ضروری ہے کہ اس کے چہرے کو بچایا جائے یعنی اس کے چہرے پر نہ مارا جائے۔

【4】

بدزمانی کی سزا

اور حضرت ابن عباس نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص کسی (مسلمان) کو کہے اے یہودی تو اس کو بیس کوڑے مارو اور اگر اے مخنث کہے تب بھی اس کے بیس کوڑے مارو اور جو شخص محرم عورت سے زنا کا مرتکب ہوا اس کو مار ڈالو۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح مخنث اس کو کہتے ہیں جس کے اعضاء اور بات چیت کے انداز میں زنانہ پن ہو اور حرکات و سکنات میں عورتوں کے مشابہ ہوا جس کو زنخا اور زنانہ بھی کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی غلام پر یا کسی کافر پر زنا کی تہمت لگائے تو اس کو تعزیر (کوئی سزا) دی جانی چاہئے۔ اسی طرح اس شخص کو بھی تعزیر دی جائے جو کسی مسلمان پر زنا کے علاوہ کسی اور برائی کی تہمت لگائے مثلاً ان الفاظ کے ذریعہ اس کو مخاطب کرے اے فاسق، اے فاجر، اے کافر، اے خبیث اے چور، اے منافق، اے لوطی یعنی اغلام باز، اے یہودی، اے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے والے، اے سود خوار، اے دیوث اے مخنث، اے خائن، اے رنڈی کی اولاد اے بدکار عورت کے بچے، اے زندیق، اے کتے، اے زانیوں یا چوروں کے پشت پناہ اور اے حرام زادے اگر کوئی شخص کسی مسلمان شخص کو ان الفاظ کے ذریعہ مخاطب کرے تو وہ قابل تعزیر نہیں ہوگا، اے گدھے، اے کتے، اے بندر، اے بکرے، اے الو، اے سانپ، اے بیل، اے بھیڑئیے، اے حجام، اے حجام کی اولاد (درا نحالی کہ وہ کسی حجام کی اولاد نہ ہو) اے ولد الحرام، اے ناکس، اے منکوس، اے مسخرے، اے ٹھٹھے باز، عیار اے بیوقوف اور اے وہمی، لیکن اس سلسلہ میں یہ واضح رہے کہ علماء نے اس شخص کو تعزیر دینا پسند کیا ہے جو مذکورہ بالا الفاظ کے ذریعہ کسی ایسے شخص کو مخاطب کرے جو شرفاء میں سے ہو۔ خاوند کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو تعزیر (کوئی سزا) دے جب کہ وہ کہنے کے باوجود اس کے سامنے زینت و آرائش کرنے سے اجتناب کرتی ہو یا وہ اس کو اپنے بستر پر (ہم بستری) بلائے اور وہ انکار کر دے، یا وہ نماز نہ پڑھتی ہو، یا غسل جنابت ترک کرتی ہو اور یا اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے باہر آتی جاتی ہو۔ جو شخص محرم عورت سے زنا کا مرتکب ہو اس کو مار ڈالو۔ حضرت امام احمد نے اس ارشاد کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا ہے جب کہ جمہور علماء کے نزدیک اس کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق صرف زجر، تہدید سے ہے۔ بعض حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ یہ ارشاد اس بات پر محمول ہے کہ جو شخص حلال اور ہلکا جان کر کسی محرم عورت سے زنا کرے اس کو مار ڈالا جائے ورنہ محرم عورت کے ساتھ زنا کا بھی وہی حکم ہے جو دوسری عورتوں کے ساتھ زنا کا ہے کہ اگر زانی محصن (شادی شدہ) ہو تو اس کو سنگسار کیا جائے اور اگر غیر محصن (کنوارا) ہو تو کوڑے مارے جائیں۔

【5】

مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کی سزا

اور حضرت عمر فاروق راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر تم کسی ایسے شخص کو پکڑو جس نے اللہ کی راہ میں خیانت کی ہو (یعنی اس نے مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کچھ چرا لیا ہو) تو اس کا مال و اسباب جلا ڈالو اور اس کی پٹائی کرو۔ (ابو داؤد، ترمذی) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح اس کا مال و اسباب جلا ڈالو کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، بعض حضرات تو یہ فرماتے ہیں کہ جو شخص مال غنیمت میں سے کچھ چرائے بطور سزا اس کا مال و اسباب جلانا جائز نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکم کہ اس کا مال و اسباب جلا ڈالو اسلام سے ابتدائی زمانہ میں نافذ تھا مگر بعد میں منسوخ قرار دے دیا گیا۔ یا یہ کہ یہ ارشاد دراصل تغلیط اور تشدید پر محمول ہے حضرت امام احمد نے اس حکم کو اس کے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس شخص کا تمام مال و اسباب جلا دیا جائے۔ البتہ اگر اس کے سامان میں قرآن کریم، ہتھیار اور جانور بھی ہوں تو ان کو نہ جلایا جائے، نیز بطریق تعزیر اس کی پٹائی کی جائے اور یہ بات پہلے بیان کی چکی ہے کہ مال غنیمت کی چوری کرنے والا قطع ید کا سزا وار نہیں ہوتا۔