118. امارت وقضا کا بیان

【1】

امارت وقضاء کا بیان

امارت سے مراد سرداری وحکمرانی ہے اور قضاء سے مراد شرعی عدالت ہے اسلامی نظام حکومت کی عمارت کے یہ دو بنیادی ستون ہیں ! امیر و امام (یعنی سربراہ مملکت) اسلام کے قانون اساسی کا محافظ، نظم حکومت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ذمہ دار حفاظت مذہب اور امت اسلامیہ کی طاقت و قوت کا امین اور امور عامہ کا نگہبان ہوتا ہے اسلامی معاشرہ کے افراد کا تعلق جن امور سے ہے ان سب پر امیر و امام ہی کا اختیار کار فرما ہوتا ہے۔ قاضی، اسلامی عدالت کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے شہریوں کے حقوق (امن، آزادی، مساوات) کا محافظ ہوتا ہے اور وہ معاملات کا فیصلہ کرنے میں شریعت کی طرف سے حکم کی حیثیت رکھتا ہے، اس کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے نزاعی مقدمات کا شریعت کے مطابق فیصلہ کرے اور اس کا اس سے بڑا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ عدل و انصاف، دیانت داری اور ایمانداری کے تقاضوں کو ہر حالت میں مدنظر رکھے۔ اسلام اور حکومت اسلام، دنیا کا یگانہ مذہب بھی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی اسلام جس طرح انسانیت عامہ کی دینی، مذہبی اور اخلاقی، اخروی فلاح کا سب سے آخری اور مکمل قانون ہدایت ہے اس طرح وہ ایک ایسی لافانی سیاسی طاقت بھی ہے جو انسانوں کے عام فائدے، عام بہتری اور عام تنظیم کے لئے حکومت وسیاست سے اپنے تعلق کو برملا اظہار کرتی ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ مذہب کی حیثیت سے کچھ اور بھی ہے اس کو حکومت حاکمیت، سیاست اور سلطنت سے وہی تعلق ہے جو اس کائنات کی کسی بھی بڑی حقیقت سے ہوسکتا ہے اس کو محض ایک ایسا نظام نہیں کہا جاسکتا ہے جو صرف باطن کی اصلاح کا فرض انجام دیتا ہے بلکہ اس کو ایسا دینی نظام بھی سمجھنا چاہئے جو اللہ ترس و خدا شناس روح کی قوت سے دنیا کے مادی نظام پر عالمگیر غلبہ کا دعوی رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم جو اسلامی تصورات ونظریات کا سر چشمہ ہے اور احادیث نبوی ﷺ جو ہدایات کی شارح و ترجمان ہیں، ان کا ایک بہت بڑا حصہ اسلام اور حکومت وسیاست کے تعلق کو ثابت کرتا ہے کہیں تاریخی انداز میں، کہیں تعلیمات کے پیرایہ میں اور کہیں نعمت الہٰی کو ظاہری کرتے ہوئے ہم پر یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اسلام اور حکومت اللہ کا حق ہے اس لئے اسلام کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ اس زمین پر اللہ کی حکومت قائم کی جائے اور اس کا اتارا ہوا قانون نافذ کیا جائے۔ ہم میں سے جو کج فکر لوگ مذہب اور سیاست کے درمیان تفریق کی دیوار حائل کر کے اسلام کو سیاست و حکومت سے بالکل بےتعلق وبے واسطہ رکھنا چاہتے ہیں وہ دراصل مسلم مخالف عناصر کے اس شاطر دماغ کی سازش کا شکار ہیں جو خود تو حقیقی معنے میں آج تک حکومت کو مذہب سے آزاد نہ کرسکا لیکن مسلمانوں کی سیاسی پرواز اور ہمہ گیر پیش قدمی کو مضمحل کرنے کے لئے مذہب اور سیاست و حکومت کی مستقل بحثیں پیدا کر کے مسلمانوں کے چشمہ فکر وعمل میں دین اور دنیا کی پلیدگی کا زہر گھول رہا ہے۔ کتاب الامارۃ والقضاء سے اس کتاب جو حصہ شروع ہو رہا ہے اور اس میں جو احادیث نقل ہوں گی وہ اس دعوی کی واضح دلیل ہیں کہ اسلام اور حکومت و سیاست دو متضاد چیزیں نہیں ہیں ان احادیث میں امیر و خلیفہ قاضی و منصف، عوام اور رعایا، ملک و فوج اور نظم مملکت کے دیگر گوشوں سے متعلق جو ہدایات و احکام بیان کئے جائیں گے ان سے واضح ہوگا کہ حکومت وسیاست بھی اسلام کا ایک موضوع ہے۔

【2】

امیر کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص میری فرمانبرداری کرتا ہے اس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جس شخص نے میری نافرمانی کی اس شخص نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس شخص نے اپنے امیر (سردار) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس شخص نے اپنے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ! اور یاد رکھو، امام یعنی سربراہ مملکت (مسلمانوں کے لئے) ڈھال کی مانند ہے جس کے پیچھے سے (یعنی اس کی طاقت کے بل بوتہ پر) جنگ کی جاتی ہے اور جس کے ذریعہ (دشمنوں کی آفات و بلیات سے) حفاظت حاصل کی جاتی ہے ! پس (اگر وہ (امام) اللہ سے ڈر کر (اس کے قانون کے مطابق) فیصلہ کرے اور عدل و انصاف سے کام لے تو اس کی وجہ سے وہ امام بڑے اجر وثواب کا مستحق ہوگا اور اگر وہ ایسا نہ کرے۔ (یعنی اس کے احکام و فیصلے، اللہ کے خوف، قانون الہٰی کی روح اور عدل و انصاف سے خالی ہوں) تو اس کی وجہ سے وہ سخت گنہگار ہوگا۔ (بخاری ومسلم) ۔ تشریح امام (سربراہ مملکت) کو ڈھال کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ سے یہ ہے کہ جس طرح ڈھال جنگ میں (دشمن کے تیر و تلوار سے بچاتی ہے اسی طرح امام کا وجود، مسلمانوں کو دشمنان دین کے حملوں اور ان کی آفات و بلاؤں سے بچانے کا باعث ہے۔

【3】

اگر کسی کمتر شخص کو امیر بنایا جائے تو اس کی اطاعت بھی ضروری ہے

اور حضرت ام حصین کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر کسی نکٹے اور کن کٹے غلام کو بھی تمہارا حاکم بنایا جائے اور وہ اللہ کے قانون کے مطابق تم پر حکمرانی کرے تو تم اس کا حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ (مسلم) تشریح اس ارشاد گرامی کا مقصد اولو الامر کی اطاعت و فرمانبرداری کی اہمیت کو واضح کرنا ہے اور اس اہمیت کو زیادہ سے زیادہ واضح کرنے کے لئے غلام کا ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص مسجد بنائے اگرچہ وہ چڑیا کے گھونسلے کی مانند ہو الخ سے ظاہر ہے کہ مسجد چڑیا کے گھونسلے کی مانند کبھی نہیں ہوسکتی بلکہ اس ارشاد کا مقصد مسجد بنانے کی اہمیت اور اس کی فضیلت کو زیادہ سے زیادہ بیان کرنا ہے اسی طرح یہاں بھی غلام کے ذکر سے مبالغہ مقصود ہے یا پھر یہ مراد ہے کہ وہ غلام جو بادشاہ یا خلیفہ اعظم (سربراہ مملکت) کا نائب ہو یا اسے کسی خاص علاقہ کا حاکم بنایا گیا ہو۔ اس ساری تاویل کی بنیاد یہ ہے کہ غلام کو امیر و امام (سربراہ مملکت) بنانا جائز نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ان تمام احادیث میں بھی یہی تاویل کی جائے گی جن میں غلام کی امارت وسرداری کا ذکر ہے۔ نکٹا اور کن کٹا کے الفاظ بھی مقصد کو مؤ کد کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں اور ان سے مراد حقیر و کمتر غلام ہے حاصل یہ کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے امیر و امام کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور اس کے منصب امارت و امت کی پوری عزت و توقیر کریں خواہ وہ امیر اپنی ذاتی حیثیت میں کتنا ہی کمتر کیوں نہ ہوں۔ اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (اپنے امیر و حاکم کا فرمان سنو ) اور (اس کے اوامرو نواہی کی) اطاعت کرو۔ تاوقتیکہ اس کا کوئی حکم و فرمان اللہ کے اور اس کے رسول کے خلاف نہ ہو) اگرچہ تم پر کسی ایسے غلام ہی کو حکمران کیوں نہ بنایا گیا ہو جس کا سر (چھوٹے پن اور سیاہی میں ) انگور (کی مانند) ہو۔ (بخاری )

【4】

غیر شرعی حکم کی اطاعت واجب نہیں

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا اپنے امیر و حاکم کی بات کو سننا اور (اس کے احکام کی) فرمانبرداری کرنا ہر حالت میں مرد مسلم پر واجب ہے خواہ (اس کا کوئی حکم اس کو پسند ہونا پسند ہو۔ تاوقتیکہ کسی گناہ کی بات کا حکم نہ کیا جائے۔ لہٰذا جب حاکم کوئی ایسا حکم دے جس (پر عمل کرنے میں گناہ ہو تو اس کی اطاعت کرنا واجب نہیں۔ (بخاری ومسلم ) تشریح امیر و حاکم کی بات کو سننا اور اس کے احکام و فرامین کی اطاعت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ اس کا حکم و فرمان طبیعت و پسند کے موافق ہو یا غیر موافق ہو لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا کوئی حکم شریعت کی حدود سے متجاوز نہ ہو لہٰذا اگر امیر و حاکم کوئی ایسا حکم و فرمان جاری کرے جس پر عمل کرنے سے گناہ لازم آتا ہو، اس کی اطاعت و فرمانبرداری واجب نہیں ہوگی لیکن اس صورت میں بھی امیر و حاکم کے خلاف بغاوت کرنا یا اس سے جنگ وجدال کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اور حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کسی بھی ایسے حکم کی اطاعت و فرمانبرداری جائز نہیں ہے جس کا تعلق گناہ سے ہو (خواہ وہ حکم امیر و حاکم کی طرف سے ہو یا ماں باپ اور استاد پیر وغیرہ کی جانب سے ہو) اطاعت و فرمانبرداری تو صرف اچھے حکم میں واجب ہے۔ (بخاری ومسلم)

【5】

اطاعت و فرمانبرداری کا عہد

اور حضرت عبادہ ابن صامت کہتے ہیں کہ ہم نے رسول ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی یعنی آپ کے روبرو ان امور کا عہد کیا کہ ہم (آپ کی ہدایات کو توجہ سے) سنیں گے (اور ہر قسم کے حالات میں آپ ﷺ کے احکام کی) اطاعت کریں گے تنگی اور سخت حالات میں بھی اور آسان و خوش آئند زمانہ میں بھی، خوشی کے موقع پر بھی اور ناخوشی کی حالت میں ہم پر ترجیح دی جائے گی (تو ہم صبر کریں گے۔ ہم امر کو اس کی جگہ سے نہیں نکالیں گے ہم (جب زبان سے کوئی بات کہیں کے تو) حق کہیں گے خواہ ہم کسی جگہ ہوں (اور کسی حال میں ہوں) اور ہم اللہ کے معاملے میں (یعنی دین پہنچانے اور حق بات کہنے میں) کسی ملامت کرنے والے شخص کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ (ہم نے اس بات کا عہد کیا کہ ہم امر کو جگہ سے نہیں نکالیں گے۔ (چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ امر کو اس کی جگہ سے نہ نکالو) ہاں اگر تم صریح کفر دیکھو جس پر تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے (یعنی قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کی صورت میں دلیل ہو (اور اس میں کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو تو اس صورت میں امر کو اس کی جگہ سے نکالنے کی اجازت ہے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح ہم پر ترجیح دی جائے گی کا مطلب یہ ہے کہ ہم انصارنے یہ بھی عہد کیا کہ اگر ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے گی ہم صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں گے۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے انصار سے فرمایا تھا کہ (میرے بعد تم لوگوں سے ترجیحی سلوک ہوگا یعنی بخشش و انعام اور اعزاز مناصب کی تقسیم کے وقت تم پر دوسرے لوگوں کو ترجیح و تفصیل دی جائے گی ایسے موقع پر تم لوگ صبر کرنا چناچہ آپ کی یہ پیش گوئی ثابت ہوئی کہ خلفاء راشدین کے زمانے کے بعد جب امراء کا عہد حکومت شروع ہوا تو انصار کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا گیا اور انصار نے بھی آپ کے ارشاد کی تعمیل میں اور اپنا عہد نباہتے ہوئے اس ترجیحی سلوک کے خلاف شکوہ شکایت کرنے کی بجائے صبر و تحمل کی راہ کو اختیار کیا۔ ہم امر کو اس کی جگہ سے نہیں نکالیں گے کا مطلب یہ ہے کہ ہم امارت و حکومت کی طلب و خواہش نہیں کریں گے ہم پر جس شخص کو امیر وحاکم بنادیا جائے گا ہم اس کو معزول نہیں کریں گے اور اپنے امیر وحاکم کے خلاف ہنگامہ آرائی کر کے کوئی شورش پیدا نہیں کریں گے۔ روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر امیر وحاکم کے قول وفعل میں صریح کفر دیکھو تو اس کو معزول کردینے کی اجازت ہے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا واجب ہوگا۔

【6】

فسق وفجور، عزل منصب کی بنیاد بن سکتا ہے یا نہیں ؟

اس ارشاد گرامی سے یہ واضح ہوا کہ امام یعنی سربراہ مملکت کو معزول کرنے کی اسی صورت میں اجازت ہے جب کہ وہ صریح طور پر کفر کا مرتکب ہو اور اس کا کفر قرآن و حدیث کی روشنی میں اتنے واضح طور پر ثابت ہو کہ اس امام کے لئے کفر کی کوئی بھی تاویل کرنا ممکن نہ ہو۔ چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ اگر امام فسق فجور میں مبتلا ہوجائے تو اس کو معزول کیا جاسکتا ہے یہی مسئلہ ہر قاضی و امیر کا ہے۔ واضح رہے کہ اس مسئلہ میں ان ائمہ کے اختلافی اقوال کی بنیاد یہ ہے کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک توفاسق شخص اس بات کا اہل نہیں ہوگا کہ اس کو ولایت (کسی کا ولی ہونے) کی ذمہ داری سونپی جائے جب کہ امام اعظم ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ فاسق، ولایت کا اہل ہوسکتا ہے چناچہ ان کے نزدیک فاسق باپ کے لئے اپنی نابالغ لڑکی کا نکاح کردینا جائز ہے۔ فرمانبرداری بقدر طاقت اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ جب ہم رسول کریم ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرتے (یعنی اس بات کا عہد کرتے) کہ ہم (آپ کی ہدایات کو توجہ سے سنیں گے اور (آپ کے احکام کی) اطاعت کریں گے تو آپ ﷺ ہم سے فرماتے کہ ان امور میں جن کو تم طاقت رکھتے ہو۔ ( بخاری ومسلم) تشریح آنحضرت ﷺ نے یا تو اپنے ارشاد کے ذریعہ صحابہ کو یہ رخصت (یعنی آسانی و سہولت) عطا فرمائی کہ تم سے جس قدر فرمانبرداری ہوسکے اس قدر کرو۔ یا یہ ارشاد اسی بات کی تاکید و تشدید کے لئے تھا کہ تم جتنی فرمانبرداری کرسکو اس میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی یا قصور واقع نہ ہونا چاہئے۔

【7】

ملت کی اجتماعیت میں رخنہ ڈالنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابن عباس راوی ہیں کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص اپنے امیر و سردار کی طرف سے کوئی ایسی بات دیکھے جو اس کو (شرعًا یا طبعًا) پسند نہ ہو تو اس کو اس پر صبر کرنا چاہئے اور اس کی وجہ سے امام کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند نہ کرنا چاہئے کیونکہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر (بھی) جدا ہوا اور (توبہ کئے بغیر اسی حالت میں) مرگیا تو اس کی موت اہل جاہلیت کی موت کی مانند ہوگی۔ ( بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے امام و امیر کی اطاعت و فرمانبرداری سے اپنے کو آزاد کرلیا اور مسلمانوں کی جماعت (تنظیم) سے علیحدگی اختیار کرلی اور تمام مسلمانوں کے اجتماع و اتحاد کی مخالفت پر کمر بستہ رہا اور پھر اسی حالت میں وہ مرگیا تو گویا زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی موت مرا اور اس مشابہت کی بنیاد ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ چونکہ دین سے بےبہرہ تھے اس لئے وہ اپنے امیر و سردار کی اطاعت کرتے تھے نہ اپنے امام (رہنما) کی ہدایت کو مانتے تھے بلکہ ان سے وہ علی الاعلان بیزاری کا اظہار کرتے تھے اسی طرح چونکہ ان کے یہاں ملی شیرازہ بندی اور اجتماعی تنظیم کا کوئی اہتمام نہیں تھا اس لئے وہ نہ کسی چیز پر اجتماع و اتحاد کا مظاہرہ کرتے تھے اور نہ کسی رائے پر متفق ہوتے تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں ملت کی شیرازہ بندی، مسلمانوں کی مضبوط اجتماعی تنظیم، لیڈر شب پر مکمل اعتماد اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری اور ملی امور میں آپس میں اتفاق و اتحاد کی بڑی اہمیت ہے بلکہ یہ چیزیں دین کا مطلوب ہیں اور دین کی سربلندی کا بنیادی عنصر ہیں۔

【8】

تعصب کے خلاف تنبیہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص امام (سربراہ مملکت) کی اطاعت و فرمانبرداری سے نکل جائے اور اسلام کی جماعت (ملت کی اجتماعی ہیت) سے علیحدگی اختیار کرے اور پھر اس حالت میں مرجائے تو اس کا مرنا جاہلیت پر مرنے کے مرادف ہوگا، جو شخص کسی ایسے جھنڈے کے نیچے یعنی ایسے مقصد کے لئے) لڑا جس کا حق و باطل ہونا ظاہر نہ ہو درآنحالیکہ وہ تعصب سے غضبناک ہوا اور متعصب ہوا اور تعصب کی وجہ سے لوگوں کو اپنی طرف بلایا یا تعصب کی وجہ سے کسی کی مدد کی (یعنی اس کا لڑنا غضبناک ہونا لوگوں کو اپنی مدد کے لئے بلانا یا کسی کی مدد کرنا اعلاء کلمۃ الحق اور دین سے اظہار کے لئے نہیں تھا بلکہ محض تعصب یعنی اپنی قوم کے ظلم کی حمایت اور اس کی ناروا جانب داری کی بنیاد پر تھا) اور اسی حالت میں) وہ مارا گیا تو اس کا مرنا جاہلیت پر مرنے کے مترادف ہوگا اور جس شخص نے میری امت کے خلاف تلوار اٹھائی اور اس کے ذریعہ میری امت کے اچھے اور برے آدمیوں کو مارا اور میری امت کے مسلمان کی پرواہ نہیں کی (یعنی اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ ایک مسلمان کو مارنا کتنا بڑا جرم ہے اور اس کا وبال و عذاب کتنا سخت ہے) اور نہ اس نے عہد والے کے عہد کو پورا کیا تو نہ وہ میری امت میں سے ہے (یعنی میرے راستے پر چلنے والوں میں سے نہیں ہے اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ (مسلم )

【9】

بہترین اور بدترین حاکم

اور حضرت عوف ابن مالک اشجعی رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے تمہارے حاکموں میں سے بہترین حاکم وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور تم ان کے لئے اور وہ تمہارے لئے دعا کریں اور اس کی وجہ سے آپس میں ربط وتعلق اور محبت پیدا ہو) اور تمہارے حاکموں میں سے بدترین حاکم وہ ہیں جن سے تم بغض و عداوت رکھو اور وہ تم سے بغض و عداوت رکھیں اور تم ان پر اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ حضرت عوف کہتے ہیں کہ ہم (صحابہ) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا اس صورت میں ہم ان سے کئے ہوئے عہد وفاداری توڑ نہ ڈالیں (یعنی کیا ان بدترین حاکموں کو معزول نہ کریں اور ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کردیں ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ! جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کریں ! خبردار ! جس شخص کو تم پر حاکم مقرر کیا جائے اور تم اس کا کوئی ایسا فعل دیکھو۔ جو اللہ کی نافرمانی (گنا ہ) پر مبنی ہو تو اس کے اس گناہ کے فعل کو برا سمجھنا چاہئے۔ لیکن اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے دست بردار نہ ہونا چاہئے۔ (مسلم) تشریح جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کریں اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اسلامی مملکت کے سربراہ کا نماز کو ترک کردینا مسلمانوں کے کئے ہوئے عہد وفاداری کو توڑ ڈالنے کا موجب اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے دست بردار ہوجانے کا سبب ہے کہ جس طرح اگر سربراہ مملکت صریح کفر کا مرتکب ہوجائے تو مسلمان اپنا عہد وفاداری توڑ کر اس کو معزول کرسکتے ہیں اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے دستبردار ہوسکتے ہیں، اسی طرح اگر وہ نماز چھوڑ دیں تو مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کے تئیں اپنا عہد وفاداری توڑ دیں اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے انکار کردیں ! کیونکہ نماز دین کا ستون ہے اور کفر و ایمان کے درمیان فرق و امتیاز کرنے والی ہے۔ اس کے برخلاف دوسرے گناہ چونکہ ترک نماز کی طرح نہیں ہیں اس لئے ان کا ارتکاب عہدوفاداری کو توڑنے اور اطاعت و فرمانبرداری سے دست بردار ہونے کا موجب نہیں ہوسکتا۔ اس ارشاد گرامی میں ترک نماز پر سخت ترین زجر و تنبیہ اور عظیم تہدید ہے۔

【10】

حاکم کی بے راہ روی پر اس کو ٹوکنا ہر مسلمان کی ایک ذمہ داری ہے۔

اور حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایسے لوگ بھی تم پر حاکم مقرر کئے جائیں گے جو اچھے برے دونوں قسم کے کام کریں گے لہٰذا جس شخص نے انکار کیا (یعنی جو شخص اپنے حاکم کے سامنے زبان سے یہ کہنے پر قادر ہو کہ تمہارا یہ فعل برا ہے اور اس نے اس طرح کہہ بھی دیا) تو وہ نفاق اور مداہنت سے پاک اور (اپنی ذمہ داری سے) بری ہوگیا اور جس شخص نے مکروہ جانا (یعنی جو شخص حاکم کے منہ پر اس کے برے فعل کو بیان کردینے پر قادر نہ ہو لیکن اپنے دل سے اس کے اس فعل کو برا سمجھے) تو وہ سالم رہا) یعنی اس فعل کی برائی و گناہ اور اس کے وبال میں شریک ہونے سے محفوظ رہا) لیکن جو شخص (حاکم کے برے افعال پر دل سے) خوش ہوا اور (خود بھی برے افعال میں مبتلا ہو کر گویا حاکم کی اتباع کی (تو وہ گناہ اور اس کے وبال میں شریک ہوا صحابہ نے عرض کیا کہ (ایسی صورت میں جب کہ حکام برائیوں میں مبتلا ہوجائیں اور ان کی بےراہ روی کا اثر عوام پر بھی پر نے لگے تو) کیا ہم ان کے خلاف جنگ نہ کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں جب تک وہ نماز پڑھیں، نہیں ! جب تک وہ نماز پڑھیں۔ یعنی جس شخص نے اپنے دل سے برا سمجھا اور اپنے دل سے انکار کیا۔ (مسلم) تشریح روایت کے آخری الفاظ یعنی جس شخص نے اپنا دل سے برا سمجھا اور اپنے دل سے انکار کیا کے بارے میں حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے تو یہ لکھا ہے کہ راوی کی عبارت ہے جس کے ذریعہ انہوں نے حدیث کے الفاظ ومن کرہ فقد سلم کی توضیح کی ہے، جب کہ ملا علی قاری نے یہ لکھا ہے کہ راوی نے اس عبارت کے ذریعہ حدیث کے ان دونوں جملوں (فمن انکر) اور (ومن کرہ) الخ کی توضیح کی ہے۔

【11】

اگر حاکم کی طرف سے کسی کی حق تلفی ہوتب بھی اس کی فرمانبرداری کی جائے۔

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ تم میرے بعد اپنے ساتھ ترجیحی سلوک اور بہت سی ایسی چیزوں کو دیکھو گے جس کو تم برا سمجھو گے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر آپ ﷺ ہمیں کیا ہدایت دیتے ہیں (ہمیں کیا ہدایت دیتے ہیں (کہ اس وقت ہمارا رویہ کیا ہو ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا تم ان (حاکموں) کا حق ادا کرو اور اپنا حق اللہ تعالیٰ سے مانگو۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارے حاکم تمہارے ساتھ ترجیحی سلوک کریں بایں طور کہ تمہاری حق تلفی کریں تو ایسی صورت میں بھی ان کے تئیں تمہارا رویہ یہی ہونا چاہئے کہ تم ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرو یعنی ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرو اور ان کے مددگار ومعین بنے رہو اور وہ تمہارے حق کی ادائیگی میں جو کوتاہی کریں ان پر صبر کرو اور بارگاہ کبریائی میں التجاء کرو کہ وہ تمہیں تمہارے حق کا نعم البدل عطا کرے۔ اور حضرت وائل بن حجر کہتے ہیں کہ حضرت سلمہ ابن یزید جعفی نے رسول کریم ﷺ سے سوال کیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! اس بارے میں ہمارے لئے آپ ﷺ کی کیا ہدایت ہے کہ اگر ہم پر ایسے حاکم مقرر ہوں جو ہم سے تو اپنے حق (یعنی اطاعت و فرمانبرداری کا مطالبہ کریں لیکن ہمیں ہمارا حق ( یعنی عدل و انصاف اور مال غنیمت کا حصہ نہ دیں ؟ آپ نے فرمایا تم ظاہر میں ان کی بات سنو اور باطن میں) ان کی فرمانبرداری کرو (یعنی ان کی بات اور ان کے احکام کو سننا ظاہری اطاعت ہے) اور ان کے احکام پر عمل کرنا باطنی فرمانبرداری ہے) یاد رکھو ! ان پر وہ چیز فرض ہے جو ان کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے (یعنی رعایا کو عدل و انصاف دینا اور ان کے حقوق ادا کرنا اور تم پر وہ چیز فرض ہے جو تمہارے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے (یعنی اپنے حاکم و سردار کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اور اگر ان حاکموں کی طرف سے تمہاری حق تلفی ہو یا اور کوئی مصیبت پیش آئے تو اس پر صبر کرنا۔ (مسلم) تشریح حدیث کا حاصل و رعایا میں سے ہر ایک کے سپرد ذمہ داریاں ہیں ان کو پورا کرنا ہر ایک پر واجب ہے جس طرح حاکم کے کاندھوں پر عوام کے حقوق کا تحفظ اور ان کو عدل و انصاف دینے کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنا اس پر واجب ہے، اسی طرح رعایا کے کاندھوں پر اپنے حاکم کی مدد واعانت اور اس اطاعت کی فرنبرداری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنا رعایا واجب ہے لہٰذا دونوں ہی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔

【12】

امام کی اطاعت سے دست بردار ہونے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص امام یعنی اسلامی مملکت کے سربراہ کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے وہ قیامت کے دن بارگاہ رب العزت میں اس طرح حاضر ہوگا کہ اس کے پاس (ایمان کی) دلیل نہیں ہوگی اور جو شخص اس حال میں مرے کہ اس کی گردن امام کی بیعت (یعنی امام برحق کی اطاعت) سے آزاد ہو (یعنی وہ امام برحق کا باغی ہو کر مارا جائے) تو اس کی موت جاہلیت پر مرنے کے مترادف ہوگی۔ (مسلم )

【13】

خلیفہ وامیر کی موجودگی میں اگر کوئی شخص خلافت وامارت کا دعوی کرے تو اس کو تسلیم نہ کرو

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بنی اسرائیل کو انبیاء ادب وتہذیب سکھایا کرتے تھے چناچہ جب ایک نبی کی وفات ہوجاتی تو اس کا جانشین کوئی دوسرا نبی ہوجاتا (اس طرح یکے بعد دیگرے انبیاء اپنی قوم کی تربیت کیا کرتے تھے۔ ) لیکن میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے البتہ میرے بعد امراء وخلفاء ہونگے اور بہت ہوں گے (جن کے ذمے) امت کی راہنمائی ونگہبانی ہوگی صحابہ نے عرض کیا کہ جب بیک وقت متعدد امراء ملک وامت کی سیادت کے دعویدار ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت کریں گے تو) اس وقت کے لئے آپ ہمیں کیا ہدایت فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پہلے امیر کی بیعت پوری کرو (پھر دوسرے زمانہ میں) پہلے امیر کی (یعنی جب بھی بیک وقت مثلًا امیر اپنی سیادت کا دعویٰ کریں تو اس امیر کی بیعت وطاعت کرو جو پہلے مقرر ہوا ہو اور دوسرے کی مطلق پیروی نہ کرو) اور ان کے حقوق ادا کرو اور جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی مخلوق کی نگہداشت و حکومت کی ذمہ داری سونپی ہے اس کے بارے میں وہ خود ان سے پوچھ لے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح ( فوابیعۃ الا ول فالاول) کا مطلب یہ ہے کہ خلفیہ و امیر کی بیت پوری کرو جو پہلے مقرر ہوا پھر اس خلیفہ و امیر کی و اطاعت کرو جو اس کے بعد مقرر ہوا ! اور اس دوسرے خلیفہ و امیر کو اول اس امیر و خلیفہ کی نسبت سے فرمایا گیا ہے جو اس کے بعد مقرر ہوگا۔ گویا حاصل یہ ہے کہ جس طرح علی الترتیب ایک کے بعد دوسرا خلیفہ مقرر ہو اس طرح تم بھی ترتیب کے ساتھ ایک کے بعد دوسرے خلیفہ کی بیعت و اطاعت کرنا ہے ہاں اگر ایک ہی وقت میں دو شخص امارت و خلافت کا دعوی کریں تو تم اس شخص کی بیعت وطاعت کرو جو پہلے مقرر ہوا ہے اور دوسرے کے بارے میں یہ سمجھو کہ یہ شخص حکومت و سیاست کے لالچ میں غلط دعوی کر رہا ہے لہٰذا اس کو اپنا خلیفہ و امیر ماننے سے انکار کردو چناچہ آگے جو حدیث آرہی ہے اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے۔ (اعطوہم حقہم) (ان کے حقوق ادا کرو) گویا پہلے جملہ (فوبیعۃ الاول) (پہلے امیر کی اطاعت پوری کرو) کا بدل ہے اور حدیث کے آخری الفاظ یعنی (فان اللہ سائلہم) الخ دراصل پہلے جملہ کی علت کو بیان کرتے ہیں جس میں خلیفہ و امیر کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، گویا اس جملہ میں اختصار کو اختیار کیا گیا ہے پورا مفہوم یہ ہے کہ تم ان کے حقوق ادا کرو اگرچہ وہ تمہارے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کریں۔ حدیث کے آخر میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ خلیفہ و امیر (سربراہ مملکت) کو رعایا کے حقوق کی حفاظت و ادائیگی کی جو (ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ اس کے لئے قیامت کے دن احکم الحاکمین کی بارگارہ میں جواب دہ ہوگا، اس نے دنیا میں جن لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہوگی اس سے ان لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کرائی جائے گی اور وہ اس پر قادر نہ ہو سکے تو سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ اور حضرت ابوسعید راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو ان میں سے جو بعد کا ہے اس کو قتل کر ڈالو۔ (مسلم) تشریح اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ پہلے سے مقرر خلیفہ و امیر کی موجودگی میں کوئی دوسرا شخص اپنی خلافت وامارت کا اعلان کر دے اور لوگوں سے بیعت لینے لگے تو اس سے جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ راہ راست پر آجائے اور اللہ کے حکم کے مطابق پہلے سے مقرر خلیفہ و امیر کی اطاعت قبول کرلے یا اسی حالت میں مارا جائے کیونکہ وہ اللہ کے حکم اور اسلامی مملکت کا باغی ہے اور باغی کی یہی سزا ہے کہ اگر وہ اپنی بغاوت سے باز نہ آئے تو اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ بعض حضرات نے اس کو قتل کر ڈالو کی مراد یہ بیان کی ہے کہ جن لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا عہد کرلیا ہے اور وہ اپنی بیعت اور اپنا عہد فسخ کردیں اور اس شخص کو اس طرح کمزور کردیں کہ وہ خلیفہ کے خلاف شورش نہ پھیلا سکے۔

【14】

جو شخص امت میں تفرقہ پیدا کرے اس کو موت کے گھاٹ اتار دو

اور حضرت عرفجہ کہتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب تخریب و فساد رونما ہوں گے لہٰذا جو شخص اس میں تفریق پیدا کرنا چاہے درا نحالی کہ امت آپس میں متحد ومتفق ہو تو اس شخص کو تلوار سے اڑا دو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ (مسلم) تشریح عنقریب تخریب و فساد رونما ہوں گے کا مطلب یہ ہے کہ جوں جوں زمانہ گذرتا جائے گا توں توں دین کے مخالف اور دشمن طاقتوں کی فتنہ پردازیاں بڑھتی جائیں گی، وہ مختلف طریقے سے امت میں انتشار پیدا کر کے تخریب و فساد کے شعلے بھڑکائیں گے وہ کوشش کریں گے کہ ملت اسلامیہ کے درمیان سے اتحاد و اتفاق کی رو کو نکال لیں اور چونکہ امارت وسیادت انسان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے اس لئے کچھ مسلمان اس انسانی کمزوری سے مجبور ہو کر ان کی سازشوں کا شکار ہوجائیں گے اور طلب امارت و حصول جاہ کے لئے مسلم مخالف طاقتوں کا آلہ کار بن کر طرح طرح کے فتنوں کو جگائیں گے۔ جس کا انجام یہ ہوگا کہ تمام بدامنی و انتشار کی فضا پیدا ہوجائے گی اور امت گروہ بندیوں اور تفرقوں کا شکار ہوجائے گی۔ ایسے وقت میں مسلمانوں کو چاہئے کو جو شخص پہلے سے ان کی قیادت کے مرتبہ پر فائز ہے اور جس کو وہ شروع میں اپنا مرجع اطاعت بنا چکے ہیں اسی کے جھنڈے کے نیچے جمع رہیں اور پہلے سے ان کی قیادت میں ہر اس طبقہ اور فرد کے فتنوں کی سرکوبی کریں جو امت کے اتحاد و اتفاق میں رخنہ اندازی کر رہا ہو، کیونکہ (اصل میں امیر و خلیفہ وہی شخص ہے اور اسی کی قیادت قابل اطاعت ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو کے ذریعے اس حقیقت کو طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ امت کا اتحاد، فرد کی حیثیت و شخصیت پر مقدم ہے اگر امت کے اتحاد اور ملت کی اجتماعی حیثیت کو بچانے کے لئے کسی بھی بڑے سے بڑے فرد کو راستہ سے ہٹانا پڑے تو اس میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرنی چاہئے خواہ وہ شخص کتنا ہی کوئی بڑا عالم کیوں نہ ہو۔ اور دیکھنے میں کتنا ہی بڑا شیخ طریقت اور کتنا ہی معزز و حیثیت دار کیوں نہ ہو بلکہ یہاں تک ملحوظ رہنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص امارت وسیادت کا دعوی کرے جو حقیقت میں بھی اس منصب کا زیادہ سے زیادہ اہل ہے تو علماء لکھتے ہیں کہ اس کو قتل کردینا چاہئے کیونکہ فتنہ و فساد اور امت میں تفریق پیدا کرنے کا باعث ہونے کی وجہ سے وہ قتل ہی کا مستحق ہے بشرطیکہ جو شخص پہلے منصب امارت و امامت پر فائز ہے وہ اپنے منصب کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا اہل ہو اور اس کو معزول کرنے کی کوئی وجہ نہ ہو۔ اور حضرت عرفجہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص (امام وقت کے خلاف بغاوت کر کے اور اپنی خلافت وامارت کا اعلان کر کے) تمہارے پاس آئے در آنحالیکہ تم سب ( پہلے سے) ایک شخص پر متفق اور ایک خلیفہ پر متحد ہو اور وہ شخص تمہاری لاٹھی کو چیرے یا تمہاری اجتماعی تنظیم میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتا ہو تو تم اس کو قتل کردو۔ (مسلم ) تشریح لاٹھی چیرنے کو کنایۃ مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے، گویا مسلمانوں کے اتفاق واتحاق و اتحاد اور کسی ایک رائے پر مجتمع ہوجانے کو لاٹھی سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس، اتفاق و اتحاد اور اجتماعیت میں رخنہ اندازی کو چیرنے کا مفہوم دیا گیا ہے۔ (او یفرق جماعتکم) (یا تمہاری اجتماعی تنظیم میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتا ہو) بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں راوی نے اپنے شک کو ظاہر کیا ہے۔ کہ آنحضرت ﷺ نے یا تو پہلا جملہ (ان یشق عصاکم) ( ارشاد فرمایا تھا یا یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا، لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں ہی جملے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمائے تھے، اس صورت میں پہلے جملہ کو دنیاوی امور یعنی مسلمانوں کی سیاسی طاقت میں انتشار پیدا کرنے پر محمول کیا جائے اور دوسرے جملہ کو دینی احکام یعنی مسلمانوں کی زندگی اور ان کے مذہبی معاملات میں فتنہ پردازی پر محمول کیا جائے اور حضرت عبداللہ ابن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے امام سے بیعت کی بایں طور کہ اس کو اپنا ہاتھ دے کر اطاعت و فرمانبرداری کرے اور پھر اگر کوئی دوسرا شخص اپنی امامت کا اعلان کر دے اور اپنے امام کے خلاف بغاوت کرے تو اس کی گردن اڑا دو ۔ (مسلم )

【15】

حکومت وامارت کے طلب گار نہ بنو

اور حضرت عبدالرحمن ابن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تم حکومت و سیادت کو طلب نہ کرو کیونکہ اگر تمہاری خواہش اور طلب پر تم کو حکومت وسیادت دی گئی تو تمہیں اسی کے سپرد کردیا جائے گا (تا کہ تم اس منصب کی ذمہ داریوں کو انجام دو درآنحالیکہ منصب وامارت کی ذمہ داریاں اتنی دشوار اور مشقت طلب ہیں کہ بغیر مدد الہٰی کے کوئی شخص ان کو انجام نہیں دے سکتا اور اگر تمہاری خواہش وطلب کے بغیر تمہیں حکومت وسیادت ملے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری مدد کی جائے گی (یعنی حق تعالیٰ کی طرف سے تمہیں یہ توفیق بخشی جائے گی کہ تم عدل و انصاف اور نظم وضبط کے ساتھ اس کی ذمہ داریوں کو انجام دے سکو۔ (مسلم ) اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا (میں دیکھ رہا ہوں) تم آنے والے زمانے میں حکومت وسیادت کی حرص میں مبتلا ہو گے حالانکہ وہ حکومت وسیادت (جو حرص وطلب کے ساتھ ملے) قیامت کے دن پشیمانی کا موجب ہے (یاد رکھو) حکومت وسیادت دودھ چھڑانے والی عورت کی طرح بری لگتی ہے لہٰذا یہ بات مرد دانا کے لائق نہیں ہے کہ وہ ایسی لذت کے حصول کی خواہش و کوشش کرے جس کا انجام حسرت وغم ہے۔ اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ مجھے (کسی جگہ کا) عامل (حاکم) کیوں نہیں بنا دیتے ؟ حضرت ابوذر کا بیان ہے (میری یہ بات سن کر) آنحضرت ﷺ نے (ازراہ لطف و شفقت) میرے مونڈھے پر اپنا ہاتھ مارا اور پھر فرمایا کہ ابوذر ! تم نا تو اں ہو اور یہ سرداری (خدا کی طرف سے) ایک امانت ہے) جس کے ساتھ بندوں کے حقوق متعلق ہیں اور اس میں خیانت نہیں کرنی چاہئے) اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ) سرداری قیامت کے دن رسوائی و پیشمانی کا باعث ہوگی الاّ یہ کہ جس شخص نے اس (سرداری کو حق کے ساتھ حاصل کیا اور اس حق کو ادا کیا جو اس سرداری کے تئیں اس پر ہے (یعنی جو شخص مستحق ہونے کی وجہ سے سردار بنایا گیا اور پھر اس نے اپنے زمانہ میں حکومت میں عدل و انصاف کا نام روشن کیا اور رعایا کے ساتھ احسان وخیر خواہی کا برتاؤ کیا تو وہ سرداری اس کے لئے رسوائی اور وبال کا باعث نہیں ہوگی) اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ابوذر ! میں تمہیں نا تو اں دیکھتا ہوں (کہ سرداری کا بار برداشت نہیں کرسکو گے) اور میں تمہارے لئے اس چیز کو پسند کرتا ہوں جو میں اپنے نفس کے لئے پسند کرتا ہوں تم دو آدمیوں کا بھی سردار وعامل نہ بننا اور کسی یتیم کے بھی مال کی کار پردازی و نگرانی نہ کرنا۔ (مسلم) تشریح جو میں اپنے نفس کے لئے پسند کرتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں تمہاری طرح ضعیف ونا تو اں ہوتا تو میں اس سرداری وحاکمیت کے بوجھ کو نہ اٹھاتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے قوت بھی دی ہے اور پھر تحمل بھی عطا کیا ہے، اگر حق تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو تحمل عطا نہ ہوتا تو میں ہرگز اس بار کو برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ حکومت وسیادت سے پرہیز کرنے کے بارے میں یہ حدیث اصل میں عظیم اور سب سے بڑی رہنما ہے بطور خاص اس شخص کے لئے جو اس منصب کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی قوت نہ رکھتا ہو !۔

【16】

جو شخص خود کسی عہدہ ومنصب کا طلب گار ہو اس کو اس منصب کا طلب گار ہو اس کو منصب پر فائز نہ کرو :

اور حضرت ابوموسی کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں اور میرے چچا کی اولاد میں سے دو شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ان میں سے ایک نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو (تمام مسلمانوں اور روئے زمین کا) حاکم بنایا ہے، مجھ کو کسی جگہ یا کسی کام کا حاکم و والی فرمائی۔ دوسرے نے بھی اسی طرح کی خواہش کا اظہار کیا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم ! ہم (دین و شریعت کے ) ان امور میں کسی بھی شخص کو والی اور ذمہ دار نہیں بناتے جو ہم سے ولایت وذمہ داری کا طلبگار ہو یا اس کی حرص رکھتا ہو۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہم اپنے کام پر اس شخص کو (عامل کار پرداز) مقرر نہیں کرتے جو اس کا ارادہ (یعنی عامل ہو نیکی خواہش رکھے۔ (مسلم) تشریح آنحضرت ﷺ کا یہ معمول تھا کہ جو شخص کسی خدمت ذمہ داری کا طالب ہوتا اور آپ ﷺ سے اس کی درخواست کرتا تو آپ ﷺ اس کو کام پر مقرر نہ فرماتے کیونکہ کسی منصب کا طالب ہونا حب جاہ پر دلالت کرتا ہے جو آخرکار طالب کے حق میں خرابی کا باعث ہوتا ہے۔

【17】

حکومت وامارت سے انکار کرنے والا بہترین شخص ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا لوگوں میں بہتر تم اس شخص کو پاؤ گے جو اس چیز (یعنی حکومت وسیادت) کو ناپسند کرنے کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت ہو یہاں تک کہ وہ اس میں مبتلا ہوجائے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو شخص حکومت وسیادت کے منصب و اختیارات کو قبول کرنا سخت ناپسند کرے اس کو لوگوں میں بہترین شخص جانو یہاں تک کہ وہ اگر کسی وجہ سے اس منصب کو قبول کر بیٹھا تو اس کو بھی آخر کار وہی ندامت وپشیمانی ہوگی جو اس منصب کا آخری انجام ہے۔ طیبی نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ ایسے شخص کو جو حکومت وسیادت سے سخت متنفر ہو) تو ایک بہترین شخص پاؤ گے یہاں تک کہ اگر وہ اپنی اس نفرت پر قائم نہ رہ سکا اور حکومت وسیادت کی طلب میں مبتلا ہوگیا تو اس وقت وہ لوگوں میں کا بہترین بلکہ بدترین شخص ہوگا۔

【18】

قیامت کے دن ہر شخص کو اپنی ذمہ داری کی جواب دہی کرنی ہوگی

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا خبردار تم میں سے ہر شخص اپنی رعیت کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) تم سے ہر شخص کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہونا پڑے گا، لہٰذا امام یعنی سربراہ مملکت و حکومت جو لوگوں کا نگہبان ہے اس کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی، مرد جو اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اس کو اپنے گھر والوں کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی عورت جو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے، اس کو ان کے حقوق کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی اور غلام مرد جو اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اس کو اس کے مال کے بارے میں جواب داہی کرنا ہوگی لہٰذا آگاہ رہو ! تم میں سے ہر ایک تم میں سے ہر ایک شخص نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک شخص اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہوگا۔ (بخاری ومسلم) تشریح رعیت اس چیز کو کہتے ہیں جو نگہبان کی حفاظت و نگرانی میں ہو چناچہ کسی ملک کے باشندوں کو اس ملک کے حکمران کی رعیت اور رعایا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ سب حکمران کی حفاظت و نگرانی میں ہوتے ہیں اور اسی اعتبار سے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اپنی اپنی جگہ پر ہر شخص نگہبان ہے کہ مرد کے لئے گھر والے اس کی رعیت ہیں، عورت کے لئے خاوند کا گھر بار اور اس کے بچے اس کی رعیت ہیں اور غلام کے مالک کا مال اس کی رعیت ہے۔ یہاں تک کہ علماء نے لکھا ہے کہ ہر شخص اپنے جسم کے اعضاء جو اس کا نگہبان ہے اور وہ اعضاء اس کی رعیت ہیں لہٰذا قیامت کے دن ہر شخص سے اس کے اعضاء حو اس کے بارے میں بھی جواب طلب کیا جائے گا کہ تم نے ان اعضاء کو کہاں کہاں اور کس کس طرح استعمال کیا ؟ اور اس کو حدیث میں اس لئے نقل نہیں کیا گیا کہ یہ بالکل ظاہر بات ہے۔

【19】

خائن وظالم حاکم کے بارے میں وعید

اور حضرت معقل ابن یسار کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو بھی شخص حکومت وسیادت حاصل کر کے اپنی رعیت پر حکمرانی کرے اور پھر اس حالت میں مرجائے کہ وہ اپنی رعیت پر ظلم اور ان کے حقوق میں خیانت کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح جنت کے حرام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ ابتداء میں جنت میں داخل ہونے سے محروم کردیا جائے گا۔ یا یہ ارشاد گرامی مستحل یعنی اس حاکم پر محمول ہے جو خیانت اور ظلم کو حلال جان کر ظالم وخائن بنا ہو اور یا یہ کہ آپ نے زجر و تنبیہ اور سخت وعید کے طور پر یہ فرمایا ہو۔

【20】

رعایا کے حق میں بھلائی وخیر خواہی نہ کرنے والا حاکم جنت کی بو سے محروم رکھا جائے گا

اور حضرت معقل ابن یسار کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص سے رعیت کی نگہبانی کرائے یعنی جس کو رعیت کا حاکم ونگہبان بنائے) اور وہ بھلائی وخیر خواہی کے ساتھ نگہبانی نہ کرے تو وہ بہشت کی بو نہ پائے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح تو وہ جنت کی بو نہ پائے گا۔ کا مطلب یا یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن بہشت کی بو پانے والوں کے ساتھ بو نہ پائے گا حالانکہ بہشت کی بو پانچ سو برس کی مسافت کے فاصلے سے بھی آئے گی یا یہ مطلب ہے کہ وہ نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ بہشت کی بو نہیں پائے گا اور یا یہ کہ اگر وہ کفر پر مرے گا یا رعایا پر ظلم کرنے کو حلال جانے اور اسی عقیدے پر مرجائے تو اس کو مطلق بہشت کی بو میسر نہیں ہوگی۔ بدترین حاکم وہ ہے جو اپنی رعایا پر ظلم کرے اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (بارگاہ قاضی الحاجات میں یہ عرض کی) اے میرے پروردگار جس شخص کو میری امت کے (دینی و دنیاوی) امور میں سے کسی کا ولی و متصرف بنایا گیا اور پھر اس نے (اپنے اختیارولایت اور تصرف کے ذریعہ) میری امت کے لوگوں پر مشقت اور سختی مسلط کردی تو اس شخص پر تو بھی مشقت و سختی مسلط کر دے اور جس شخص کو میری امت کے امور میں کسی چیز کا والیو متصرف بنایا گیا اور اس نے میری امت کے لوگوں کے ساتھ نرمی و بھلائی کا برتاؤ کیا تو اس شخص کے ساتھ تو بھی نرمی و عنایت کا معاملہ فرما۔ (مسلم)

【21】

عادل حکمران کا مرتبہ عظیم

اور حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن العاص کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بلاشک عادل حکمران اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر جگہ پائیں گے جو رحمن (اللہ) کے داہنے ہاتھ کی طرف ہوں گے اور اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں اور عادل حکمران وہ ہیں) جو اپنے احکام اپنے اہل اور اپنے زیر تصرف معاملات میں عدل و انصاف کرتے ہیں۔ (مسلم) تشریح داہنے ہاتھ کی طرف الخ یہ اللہ کے نزدیک عادل حکمران کے مرتبہ عظیم اور جلالت قدر کا کنایۃ پیرایہ بیان ہے کیونکہ جو شخص عظیم قدر ہوتا ہے۔ وہ دائیں طرف کھڑا ہوتا یا بیٹھتا ہے۔ اور اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں یہ دفع تو ہم کے لئے فرمایا گیا ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ داہنا ہاتھ، بائیں ہاتھ کے مقابل میں کہا گیا ہے کیونکہ بایاں نسبتًا کمزور ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کی کمزوری اور نقصان سے پاک ومنزہ ہے واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہاتھ کی نسبت متشابہات میں سے ہے کہ اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تاہم ظاہری طور پر ہاتھ سے مراد قوت و غلبہ ہے۔ حکام میں عدل و انصاف کا مطلب یہ ہے کہ حکومت وامارت کے تعلق سے ان کے ذمے جو امور ہیں ان کی انجام دہی میں وہ انصاف، ایمان داری اور دیانت کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ اہل میں عدل و انصاف کا مطلب یہ ہے کہ ان کے زیر تسلط جو لوگ ہیں خواہ وہ ان کے اہل و عیال ہوں یا رعیت کے عام لوگ ہوں سب کے حقوق کی ادائیگی میں جو ان پر واجب ہیں پورا پورا انصاف کرتے ہیں۔ اسی طرح زیر تصرف معالات میں عدل و انصاف کا مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں ان کی ولایت ونگہبانی میں ہیں جیسے یتیم اور غربا کی پرورش اور وقف کے مال کی خبر گیری وغیرہ، ان میں وہ پوری دیانت داری اور انصاف کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتی ہیں۔ ایک مرد حق گو کا قول ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کے بارے میں بھی عدل و انصاف کرے بایں طور کہ اپنے اوقات ایسی چیزوں میں ضائع نہ کرے جن میں اپنا وقت صرف کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا ہے بلکہ اپنے اوقات کو اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی چیزوں اور مخلوق اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں مشغول رکھے اور حق تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری اور ممنوع چیزوں سے اجتناب پر مداومت اختیار کرے جیسا کہ اولیاء کرام اور اہل اللہ کا طریقہ ہے، یا اپنے وقت کا اکثر حصہ ان چیزوں میں مشغول رکھے جیسا کہ مؤمنین و صالحین کا معمول ہے۔

【22】

ہر حاکم وامیر کے ہمراہ ہمیشہ دو متضاد طاقتیں رہتی ہیں۔

اور حضرت ابوسعید روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی نبی نہیں بھیجا اور ایسا کوئی خلیفہ مقرر نہیں کیا جس کے لئے دو چھپے ہوئے رفیق نہ ہوں ایک چھپا ہوا رفیق تو نیک کام کرنے کا حکم دیتا ہے اور نیکی کی طرف راغب کرتا ہے اور دوسرا چھپا ہوا رفیق برائی کا حکم دیتا ہے اور برائی کی طرف کرتا ہے اور معصوم (بےگناہ) وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے محفوظ رکھا۔ (بخاری) تشریح دو چھپے ہوئے رفیقوں سے مراد فرشتہ اور شیطان ہیں یہ دونوں انسان کے باطن میں رہتے ہیں چناچہ فرشتہ اور شیطان ہیں یہ دونوں انسان کے باطن میں رہتے ہیں چناچہ فرشتہ تو نیک کام کرنے کی ہدایت کرتا رہتا ہے اور نیکی کی ترغیب دیتا ہے جب کہ شیطان برے کام کرنے پر اکساتا رہتا ہے اور برائی کی طرف دھکیلتا رہتا ہے۔ اور معصوم وہ ہے الخ کے ذریعہ انبیاء کرام صلوٰۃ اللہ علیہم اجمعین، خلفاء راشدین اور بعض دوسرے خلفاء وامراء کا حال بیان کیا گیا ہے جن کو اللہ نے شیطان کے شر و فتنہ سے محفوظ رکھا ہے۔ دو رفیقوں سے مراد وزیر و مشیر ہوسکتے ہیں جو خلیفہ کے ساتھ ہر دم رہنے کی وجہ سے بطانہ (استرا) سے مشابہ ہوگئے ہیں، چناچہ ہر نبی اور خلیفہ کے ساتھ جو مشیر کار اور مصاحب رہتے تھے ان میں دو مختلف خیالات کے حامل افراد بھی ہوتے تھے یا ان کے ساتھ دو جماعتیں ہوتی تھیں جو آپس میں مختلف الرائے ہوتی تھیں جیسا کہ عام طور پر امراء و سلاطین اور والیان ریاست کے یہاں دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ ان کے صاحب، مشیران کار اور کار پرداز ہوتے ہیں ان کے خیالات اور آراء کا بعد بین المشرقین ہوتا ہے، چناچہ ان میں سے جو لوگ اچھے خیالات کے اور صائب ہوتے ہیں وہ اپنے والیو امیر کو اچھے مشورہ دیتے ہیں اور جن کے خیالات فاسد ہوتے ہیں یا جن کے طبائع میں برائی کا مادہ ہوتا ہے وہ اپنے والیو امیر کو غلط مشورے دیتے ہیں اور ان کو برائی کی راہ پر چلانا چاہتے ہیں آگے اللہ کی مصلحت کار فرما ہوتی ہے کہ وہ جس والیو امیر کو چاہتا ہے برے مصاحبین کے خیالات اور ان کے مشورے قبول کرنے سے بچاتا ہے۔

【23】

آنحضرت ﷺ کے ہاں حضرت قیس ابن سعد کا منصب

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے ہاں حضرت قیس ابن سعد کے سپرد وہ خدمت تھی جو امراء سلاطین کے ہاں کو توال انجام دیتے ہیں۔ (بخاری ) تشریح مطلب یہ ہے کہ حضرت قیس ابن سعد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے تاکہ آنحضرت ﷺ جو احکام دین وہ ان کو جاری ونافذ کریں جیسا کہ امراء و سلاطین کے ہاں کو توال اس خدمت پر مقرر رہتے ہیں۔

【24】

عورت کو اپنا حاکم بنانے والی قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی

اور حضرت ابوبکرہ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کے پاس یہ خبر پہنچی کہ فارس والوں نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا حکمران بنا لیا ہے تو فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جس نے (ملک کے) امور کا حاکم والی کسی عورت کو بنایا ہو۔ (بخاری) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولایت وحکمرانی کا اہل مرد ہی ہوسکتا ہے عورت حکمرانی وسربراہی کے منصب کی اہل نہیں۔

【25】

ملت کی اجتماعی ہئیت سے علیحدگی اختیار کرنے والے کے بارے میں وعید

حضرت حارث اشعری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں۔ (١) مسلمانوں کی جماعت کا (قول و عمل اور اعتقاد میں) اطاعت کرو یعنی ملت کی اجتماعی ہئیت کو بہرصورت برقرار کرو اور سربراہان ملت کی طرف سے جو احکام جاری ہوں ان کو ہر حالت میں تسلیم کرو اور ان کی اطاعت کرو۔ (٢) امراء علماء (شریعت کے مطابق) جو ہدایت دیں ان کو سنو اور تسلیم کرو۔ (٣) علماء کے احکام کی اطاعت و فرمانبرداری کرو (٤) ہجرت کرو (٥) اللہ کی راہ میں جہاد کرو ! جو شخص ملت کی اجتماعی ہئیت سے بالشت بھر بھی الگ ہوا اس نے (گویا) اسلام کی رسی کو اپنی گردن سے نکال دیا الاّ یہ کہ وہ واپس آجائے اور جس شخص نے پکارا جاہلیت کا سا پکارنا، وہ (گویا) دوزخیوں کی جماعت کا فرد ہے اگرچہ وہ روزے رکھے، نماز پڑھے اور یہ کہے کہ میں مسلمان ہوں۔ (احمد، ترمذی) تشریح ہجرت کرو اس حکم میں ہجرت سے مراد ہے کہ دارالکفر میں رہنے والا مسلمان ترک وطن کر کے دار الاسلام چلا جائے یا اگر کسی ایسے مسلم ملک یا شہر میں ہو جو بدعات ومنہیات کا گڑھ ہونے کی وجہ سے دارالبدعۃ کے حکم میں ہو تو اس کو چھوڑ کر ملک یا ایسے شہر میں چلا جائے جو سنت دین کا مرکز ہونے کی وجہ سے دارالسنۃ کے حکم میں ہو ! اسی طرح گناہ معصیت کی زندگی کو چھوڑ کر توبہ وانابت الی اللہ کی راہ کو اختیار کرلینا بھی ہجرت کے حکم میں ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے المہاجر من ہجر مانہی اللہ عنہ۔ وہ شخص (بھی) مہاجر ہے جس نے ان چیزوں کو چھوڑ دیا جس سے اللہ نے روکا۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرو اس حکم میں جہاد سے مراد یہ ہے کہ اسلام کی ترقی و شوکت، دین کی سربلندی اور روئے زمین پر قانون الہٰی کے غلبہ کے لئے اسلام دشمن طاقتوں اور کافروں سے جنگ کرو، نیز اپنے نفس کو اس کی خواہشات سے باز رکھ کر اس کو مارنا بھی جہاد ہے کیونکہ انسان کے ساتھ اس کے نفس کی دشمنی سے زیادہ سخت اور نقصان دہ اور چیز نہیں ہے۔ جو شخص ملت کی اجتماعی ہئیت سے بالشت بھر بھی الگ ہو الخ یعنی جس مسلمان نے اس چیز کو ترک کیا جس پر پوری ملت عمل پیرا ہے جیسے سنت کو اختیار کرنا، بدعات سے اجتناب کرنا، امام و امیر کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اور اگرچہ اس نے ان چیزوں کو بہت معمولی درجے میں ترک کیا ہو تو اس نے گویا اسلام کی فرمانبرداری کا پٹہ اپنی گردن سے نکال دیا یعنی اس نے اسلام کے تئیں اپنے کئے ہوئے عہد کو توڑ دیا اور اپنی اس ذمہ داری کو ختم کردیا جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس پر واجب تھی۔ یا یہ کہ خود (اسلام اس سے بری الذمہ ہوگیا۔ ہاں اگر وہ اپنے اس (فعل) (ملت کی اجتماعی ہئیت سے علیحدگی) سے باز آگیا اور اس نے اپنی بدعملی سے رجوع کرلیا تو پھر وہ پہلے ہی کی طرح اسلام کا ایک فرمانبردار فرد ہوجائے گا۔ اور جس شخص نے پکارا جاہلیت کا سا پکارنا الخ سے مراد یہ ہے کہ جس شخص نے زمانہ جاہلیت کے رسم و رواج کی طرف بلایا اور اس طرح وہ مخلوق کو اسلام مخالف عقائد ونظریات اور باطل رسوم و عادات میں مبتلا کرنے کا باعث ہوا اور بعض حضرات یہ مراد بیان کرتے ہیں کہ اس نے کسی حادثہ و حملہ کے وقت اس طرح لوگوں کو اپنی مدد کے لئے بلایا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ جب کسی شخص پر دشمن غالب آجاتا تھا تو اپنی مدد کے لئے لوگوں سے بآواز بلندیوں فریاد کرتا اے فلاں شخص کے خاندان والو ! اے فلاں شخص کے خاندان والو۔ چناچہ وہ لوگ اس کی مدد کے لئے دوڑ پڑتے قطع نظر اس بات کے وہ شخص ظالم ہے یا مظلوم۔

【26】

امیروالی کی اہانت کرو

اور حضرت زیاد ابن کسیب عدوی (تابعی) کہتے ہیں (ایک دن) میں حضرت ابوبکرہ (صحابی) کے ہمراہ حضرت عامر کے منبر کے نیچے بیٹھا تھا جب کہ وہ (ابن عامر) خطبہ دے رہے تھے اور انہوں نے باریک کپڑے پہن رکھے تھے (اسی موقع پر ایک تابعی) ابوبلال نے کہا کہ ذرا تم ہمارے اس امیر کو تو دیکھو، اس نے فاسقوں کے سے کپڑے پہن رکھے ہیں ! ؟ حضرت ابوبکرہ نے کہا خاموش ! میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص بادشاہ کی اہانت کرے گا جس کو اللہ نے (اپنی مخلوق کے کاموں کی انجام دہی کے لئے) زمین پر مقرر کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو سبک و خوار کرے گا اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح اس نے فاسقون کے سے کپڑے پہن رکھے ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت ابن عامر نے کسی ایسے کپڑے کا لباس زیب تن کر رکھا تھا جس کا پہننا مردوں کے لئے ہے جیسے حریر یا کوئی ریشمی کپڑا، حضرت ابوبکرہ نے حضرت بلال کو اس بات سے منع کیا کہ وہ حضرت ابن عامر کو مطعون نہ کریں تو اس کی بنیاد یہ تھی کہ ایسے موقع پر ابوبلال کی نصیحت کہیں تکا فضیحتی اور مسلمانوں میں فتنہ و فساد پیدا ہوجانے کا باعث نہ بن جائے۔ یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے کپڑے ریشمی نہ رہے ہوں بلکہ بہت اعلیٰ قسم کے اور بہت زیادہ باریک رہے ہوں جو عام طور پر ابل عیش وتنعم کا لباس ہوتا ہے اور زاہد وعابد لوگ جس سے پرہیز کرتے ہیں اس لئے حضرت ابوبلال نے اس کپڑے کو فاسقوں کے لباس سے تشبیہ دی ہے بعض عارفین کا یہ قول ہے کہ۔ (من رق ثوبہ رق دینہ ) جس شخص نے بہت باریک کپڑے پہنے اس نے اپنے دین کو باریک کیا۔

【27】

اگر امیر وحاکم کسی گناہکا حکم دے تو اس کی اطاعت نہ کرو

اور حضرت نو اس ابن سمعان کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مخلوق کے کسی ایسے حکم کی بھی تابعداری جائز نہیں جس سے خالق کی نافرمانی ہو۔ (شرح السنۃ) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر مخلوق (کوئی انسان) خواہ وہ امیر و حاکم ہی کیوں نہ ہو کوئی ایسا حکم دے جس پر عمل کرنے سے خالق (یعنی اللہ تعالیٰ ) کی نافرمانی ہوتی ہو اور گناہ لازم آتا ہو تو اس حکم کو مطلقا نہ ماننا چاہئے۔ ہاں کسی شخص کو اس کی اطاعت پر بزور طاقت مجبور کیا گیا تو اس صورت میں گناہ نہیں۔

【28】

امیروحاکم کا انجام

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر امیر وحاکم، خواہ وہ دس ہی آدمیوں کا امیر وحاکم کیوں نہ ہو قیامت کے دن اس طرح لایا جائے گا اس کی گردن میں طوق ہوگا یہاں تک کہ اس کو اس طوق سے یا تو اس کا عدل نجات دلائے گا یا اس کا ظلم ہلاک کرے گا۔ (دارمی ) تشریح مطلب یہ ہے کہ ایک بار تو ہر حاکم خواہ وہ عادل ہو یا ظالم، بارگاہ رب العزت میں باندھ کر لایا جائے گا اور پھر تحقیق کے بعد اگر وہ عادل ثابت ہوگا اس کو نجات دے دی جائے گی اور اگر ظالم ثابت ہوگا تو ہلاکت یعنی عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

【29】

قیامت کے دن امراء وحکام کی حسرت ناکی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا افسوس ہے امراء و حکام پر، افسوس ہے چودھریوں پر، افسوس ہے امینوں پر ! بہت سے لوگ قیامت کے دن آرزو کریں گے کہ (کاش دنیا میں) ان کی پیشانیوں کے بال ثریا میں باندھ کر ان کو لٹکا دیا جاتا اور زمین و آسمان کے درمیان جھولتے رہتے لیکن ان کو کسی کام کی ولایت وسرداری نہ ملتی۔ (شرح السنۃ) تشریح لفظ ویل کے معنی ہیں وہ غم، ہلاکت اور دکھ و تکلیف جو عذاب کی وجہ سے۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ویل دوزخ کے ایک (نالے) کھائی کا نام ہے۔ چناچہ منقول ہے کہ ویل دوزخ کا ایک نالا ہے جس میں کافر چالیس برس تک گرتا لڑھکتا چلا جائے گا۔ مگر تہ تک نہیں پہنچے گا۔ امین اس کار پرداز کو کہتے ہیں کہ جس کو حاکم نے صدقات اور خراج محصولات لینے پر مقرر کیا ہو۔ یا وہ مسلمانوں کے دوسرے قسم کے مال و اسباب کا نگران ومحافظ بنایا گیا ہو۔ اور یا حاکم کے علاوہ کسی اور شخص نے اس کو اپنے مال کا امانت دار بنایا ہو۔ ثریا ان پانچ ستاروں کا مجموعہ کا نام ہے جو پاس پاس رہتے ہیں اور جن میں روشنی کم ہوتی ہے۔ پیشانی کے بل دریا میں باندھ کر لٹکانا دراصل ذلت و خواری کی تمثیل ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب امراء و حکام قیامت کے دن یہ دیکھیں گے کہ دنیا میں ہمیں لوگوں میں جو برتری وحاکمیت، شان و شوکت اور عزت و ریاست حاصل تھی آج اس کے بدلے میں ہمیں یہاں کی ذلت و خواری اور سبکی وسزا مل رہی ہے تو وہ آرزو کریں گے کہ کاش ہمیں دنیا میں لوگوں پر وہ برتری و فوقیت اور عزت اور ریاست حاصل نہ ہوتی بلکہ ان کے مقابلہ میں ذلت و خواری اور کمتری ملتی جو یہاں کی ذلت و خواری سے کہیں کم وہل کی ہوتی یہاں تک کہ ہمارے سر کے بالوں کو کسی بلند چیز سے باندھ کر ہمیں معلق کردیا جاتا اور لوگ ہماری عزت و ریاست اور رفعت کی بجائے اس ذلت وکمتری کا مشاہدہ کرتے حدیث کا مقصد یہ تلقین کرنا ہے کہ اگر کسی شخص کے ذمہ کوئی خدمت سپرد کی جائے یا اس کو کسی جگہ کا یا کچھ لوگوں کا امیر و والی بنایا جائے تو وہ عدل انصاف کرے کہ عادل ومنصف امیر وحاکم کے حق میں بہت زیادہ ثواب کی بشارتیں ہیں اور نہ کسی کے ساتھ ظلم وجور کا معاملہ کرے اور نہ کسی کی حق تلقی کرے کہ ظلم وجبر اور حق تلفی کرنے والوں کا یہ حشر ہوگا جو حدیث میں مذکور ہوا۔ امیر وچودھریوں اور امینوں پر افسوس کا اظہار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مناصب اور ذمہ داریاں عام طور پر لغزش میں مبتلا کردیتی ہیں اور باطل کی طرف مائل کرتی ہیں اور ان کے امور کی انجام دہی میں عدل و انصاف اور راہ راست پر جمے رہنے کے تقاضے کم ہی پورے ہوتے ہیں ہاں جن کو حق تعالیٰ کی حفاظت ومدد اور توفیق نیک حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنے مناصب کی ذمہ داریوں کو ان کے شرائط کے مطابق پورا کرتے ہیں۔

【30】

اکثر چودھری دوزخ میں جائیں گے

اور حضرت غالب قطان ایک شخص اپنے والد سے اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا چودھرایت ایک حقیقت ہے اور لوگوں کے لئے چودھری ہونا ضروری ہونا ہے لیکن چودھری دوزخ میں جائیں گے۔ (ابوداؤد) تشریح چودھرایت ایک حقیقت ہے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لئے چودھری ہونا ایک امر واقع ہے اور ان کی طرف لوگوں کی احتیاج مسلم ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ (اکثر) چودھری دوزخ میں جائیں گے کیونکہ وہ اپنی چودھرایت میں حق و انصاف سے کام نہیں لیں گے اور عدل و ایمانداری کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھیں گے۔ اس اعتبار سے چودھرایت کو قبول کرنا ہلاکت و عذاب کا سخت خطرہ مول لینا ہے لہٰذا عاقل و دانا کو چاہئے کہ وہ اس بارے میں ہوشیار رہے اور اس منصب کو قبول کرنے سے حتی الامکان پرہیز کرے تاکہ وہ کسی ایسے فتنہ میں مبتلا نہ ہوجائے جو اس کو دوزخ کے عذاب کا مستوجب بنا دے۔

【31】

احمق سردار وحاکم سے اللہ کی پناہ چاہو

اور حضرت کعب ابن عجرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا میں تم کو بیوقوف لوگوں کی سرداری کے طور طریقوں سے یا ان کی مصاحبت و حمایت) سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں، کعب فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ کیا ہے ؟ (یعنی اس طرح کی سرداری کب ہوگی اور کیونکر ہوگی اور وہ کون لوگ ہوں گے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میرے بعد (بعض زمانوں میں) جو لوگ امیر وحاکم ہوں گے (وہ احمق ونادان آئیں جہانبانی سے نابلد اور جھوٹے اور ظالم ہوں گے، لہٰذا جو لوگ ان (احمق ونادان اور کذاب و ظالم امیروں وحاکموں) کے پاس گئے (یعنی ان کی مصاحبت اختیار کی اور ان کے جھوٹ کو سچ کہا (اور اپنے قول وفعل کے ذریعہ) ان کے ظلم کی امداد و حمایت کی تو نہ ان کا مجھ سے کوئی تعلق ہے اور نہ میں ان سے کوئی تعلق رکھتا ہوں (بلکہ ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتا ہوں) اور نہ وہ لوگ حوض پر میرے پاس آئینگے اور جو لوگ نہ تو ان امیروں اور حاکموں کے پاس گئے اور نہ ان کے جھوٹ کو سچ کہا اور نہ ان کے ظلم کی امداد و حمایت کی تو وہ لوگ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں اور وہ حوض پر میرے پاس آئینگے۔ (ترمذی، نسائی ) تشریح اور نہ وہ لوگ میرے پاس حوض پر آئیں گے میں حوض سے مراد یا تو حوض کوثر ہے کہ ان لوگوں کو حوض کوثر پر میرے پاس آنے کی اجازت نہیں ہوگی یا جنت مراد ہے کہ ان لوگوں کو جنت میں میرے پاس نہیں آنے دیا جائے گا۔ یہ ارشاد گرامی گویا اس بات کو سخت وعید کے طور پر واضح کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی شخص ایسی حکومت اور نظام مملکت کی رکنیت اختیار کرتا ہے یا اس کی امداد و حمایت کو اپنا شیوہ بناتا ہے جس کی باگ ڈور کم ظرف اور احمق لوگوں کے ہاتھ میں ہے اور جس کا سایہ میں اللہ کے بندوں پر ظلم وجور کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس شخص میں ایمان کا فقدان ہے اور وہ شخص مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔

【32】

سربراہان حکومت کی حاشیہ نشینی دین و دنیا کی تباہی کا باعث ہے

اور حضرت ابن عباس نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص جنگلی (دیہات) میں رہتا ہے وہ جاہل ہوتا ہے جو شخص شکار کے پیچھے پڑا رہتا ہے وہ غافل ہوتا ہے اور جو شخص بادشاہ کے پاس آتا جاتا ہے وہ فتنہ میں مبتلا ہوجاتا ہے (احمد، ترمذی، نسائی) اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ ( جو شخص بادشاہ کی ملازمت میں رہتا ہے (یعنی اس کے ہاں ہر وقت حاضر باش و حاشیہ نشین اور مددگار رہتا ہے وہ فتنہ میں مبتلا ہوتا ہے اور جو شخص بادشاہ کا جتنا زیادہ قرب چاہتا ہے اتنا ہی اللہ سے دور ہوجاتا ہے۔ تشریح جو شخص جنگل (دیہات) میں رہتا ہے الخ سے دیہات میں رہنے والوں کی ہتک وتضحیک مراد نہیں ہے اور نہ ان کو کمتر بنانا مقصود ہے بلکہ یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ دیہات وگاؤں میں رہنے والے لوگوں کو چونکہ علماء وصلحاء اور اولیاء اللہ کی صحبت میسر نہیں ہوتی اس لئے ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں اور ان میں علم و معرفت عقل و دانش اور فہم وذکاوت کی روشنی پیدا نہیں ہوتی۔ جو شخص شکار کے پیچھے پڑا رہتا ہے الخ کا مطلب یہ ہے کہ لہو ولعب اور حصول لذت و خوشی کی خاطر ہر وقت شکار کی دھن میں رہتا ہے وہ طاعات و عبادت اور جمعہ اور جماعت نماز کے التزام سے غافل ہوجاتا ہے نیز اس میں شفقت و محبت اور نرم خوئی کی صفات ختم ہوجاتی ہیں، واضح رہے کہ اس ارشاد کے ذریعہ ان لوگوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے جو شکار کو عادت بنا لیتے ہیں اور حلال رزق حاصل کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ محض تفریح اور وقت گزاری کے لئے اپنے اوقات کا اکثر حصہ اس میں مصروف رکھتے ہیں ورنہ تو جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے مطلق شکار کے مباح و حلال ہونے میں شبہ نہیں ہے اور بعض صحابہ نے شکار کیا ہے البتہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ آپ نے خود بہ نفس نفیس کبھی شکار کرنے سے منع نہیں کیا ہے۔ حدیث کے آخر میں بادشاہ وحاکم کی حاشیہ نشینی اور دربار حکومت میں حاضر باشی کی خرابی کو واضح کیا گیا ہے کہ جو شخص بغیر کسی ضرورت و حاجت کے بادشاہ وحاکم کی چوکھٹ پر گیا وہ فتنہ میں مبتلا ہوگیا کیونکہ اگر وہ بادشاہ حاکم کے ان افعال و اعمال کی موافقت و حمایت کرے گا جو خلاف شرع ہوں تو اس کا دین خطرہ میں پڑے گا اور اگر ان کی مخالفت کرے گا تو اپنی دنیا خراب کرے گا مظہر کہتے ہیں کہ جو شخص بادشاہ وحاکم کے دربار میں حاضر ہوا اور وہاں مداہنت اختیار کی (یعنی ان کے خلاف شرع امور پر ان کو ٹوکا نہیں) تو اس نے فتنہ میں اپنے آپ کو مبتلا کیا (یعنی اپنا دین خطرے میں ڈالا) اور اگر اس نے مداہنت اختیار نہیں کی بلکہ ان کو نصیحت کی اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا تو اس صورت میں دربار حکومت میں اس کی حاضری جہاد سے بھی افضل ہوگی۔ دہلوی نے مسند فردوس میں حضرت علی (رض) سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ حدیث (من ازداد علما ولم یزدد فی الدنیا زہدا لم یزدد من اللہ الا بعدا ) ٫٫ جس شخص نے اپنا علم تو زیادہ کیا لیکن دنیا کے (مال ومتاع) میں بےرغبتی کو زیادہ نہیں کیا تو اس نے اللہ سے دوری کو زیادہ کیا۔

【33】

گمنامی راحت کا باعث ہے اور شہرت، آفت کا باعث

اور حضرت مقدام ابن معد یکرب روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ان (یعنی مقدام) کے مونڈھے پر اپنے ہاتھ) مار کر فرمایا اے قدیم ! اگر اس حالت میں تمہاری موت ہو کہ نہ تو تم امیر وحاکم ہو، منشی ہو اور نہ چودھری تو تم نے فلاح پائی۔ (ابو داؤد) تشریح اس ارشاد گرامی میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ گمنامی وبے منصبی راحت ہے اور شہرت ومنصب آفت ہے۔

【34】

لوگوں سے خلاف شرع محصول وٹیکس وصول کرنے والاحاکم جنت سے محروم رہے گا

اور حضرت عقبہ ابن عامر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ صاحب مکس جنت میں داخل نہیں ہوگا صاحب مکس سے آنحضرت ﷺ کی مراد (حاکم کار پرداز) ہے جو لوگوں سے خلاف شرع محصولات وٹیکس وصول کرتا ہے۔ (احمد، ابوداؤد، درامی )

【35】

امام عادل کی فضیلت

اور حضرت سعید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سے زیادہ محبوب اور مجلس (یعنی مرتبہ) کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب جو شخص ہوگا وہ عادل امام وحاکم ہے اور قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ نفرت کا مستحق اور سب سے زیادہ عذاب کا سزاوار ! اور ایک روایت میں یہ ہے کہ۔ اللہ سے سب سے زیادہ دور جو شخص ہوگا وہ ظالم امام وحاکم ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【36】

ظالم حاکم کے سامنے حق گوئی سب سے بہتر جہاد ہے۔

اور حضرت ابوسعید کہتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا سب سے جہاد اس شخص کا ہے جو ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) اور احمد و نسائی نے اس روایت کو طارق ابن شہاب سے نقل کیا ہے تشریح جابر و ظالم حکمران کے سامنے حق گوئی کو بہترین جہاد اس لئے فرمایا گیا کہ جو شخص کسی دشمن سے جہاد کرتا ہے وہ خوف وامید دونوں کے درمیان رہتا ہے اگر اس کو یہ خوف ہوتا کہ شاید دشمن مجھ پر غالب آجائے اور میں مجروح یا شہید ہوجاؤں تو اس کے ساتھ ہی اس کو یہ امید ہوتی ہے کہ میں اس دشمن کو زیر کر کے اپنی جان کو پوری طرح بچا لوں گا۔ اس کے برخلاف جو شخص ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کہنے کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لئے امید کی کوئی ہلکی سی کرن بھی نہیں ہوتی بلکہ خوف ہی خوف ہوتا ہے چناچہ وہ اس حکمران کے مکمل اختیار و قبضہ میں ہونے کی وجہ سے اس یقین کے ساتھ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فرض ادا کرتا ہے کہ اس کا انجام دنیا میں نری تباہی و نقصان کے علاوہ اور کچھ نہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جس مہم میں انسان کو اپنی زندگی اور اپنے مال ومتاع کے باقی رہنے کی ہلکی سی امید بھی نہ ہو اس کو انجام دینا اس مہم کو انجام دینے سے کہیں زیادہ صبر آزما، ہمت طلب اور مردانگی کا کام اور بدرجہا افضل ہوگا جس کی انجام دہی میں اپنی زندگی اور اپنے مال ومتاع کے باقی رہنے کی بہتر حد تک امید ہو۔ اس کو بہترین جہاد اس لئے فرمایا گیا ہے کہ حکمران کا ظلم وجور ان تمام لوگوں کو متاثر کرتا ہے جو اس کی رعیت میں ہوتے ہیں وہ کوئی دو چار دس آدمی نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں بندگان اللہ ہوتے ہیں لہٰذا جب کوئی شخص اس حکمران کو اس کے ظلم وجور سے روکے گا وہ اپنے اس عمل سے اللہ کی کثیر مخلوق کو فائدہ پہنچائے گا۔ جب کہ دشمن سے جہاد کرنے میں یہ بات نہیں۔

【37】

ظالم حکمران کے سامنے حق گوئی کا انداز

شیخ ابوحامد نے احیا میں لکھا ہے کہ بادشاہ وحکمران کو امر بالمعروف یہ ہے کہ اس کی بےراہ روی سے روکا جائے اور اس کے جو اعمال و افعال مبنی بر غلط ہوں۔ ان کو اس پر واضح کیا جائے یعنی اسے یہ بتایا جائے یعنی یہ بتایا جائے کہ تمہارے یہ کام عدل و انصاف کے خلاف ہے، تمہارا یہ فیصلہ یا یہ فرمان، قانون اور نظام حکمرانی کے مطابق نہیں ہے اور تمہارا یہ فعل دین و اخلاق اور اللہ کے حکم کے منافی ہے، لیکن رعایا کے کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ حکمران کو اس کے غلط کام وفعل سے تشدد کے ذریعہ روکے کیونکہ یہ ملک میں فتنہ و فساد اور قوم میں انتشار وافتراق کا باعث ہوگا اب رہی یہ بات کہ اگر کوئی شخص کسی حکمران کو اس کی غلط روی سے روکنے کے لئے تند وتیز الفاظ، درشت وغضبناک لب و لہجہ اور سخت کلامی اختیار کرے مثلًا وہ اس کو ظالم کہہ کر مخاطب کرے یا یوں کہے (من لایخاف اللہ) (اے اللہ سے نہ ڈرنے والے شخص) وغیرہ وغیرہ تو اس بارے میں یہ مسئلہ ہے کہ اگر اس شخص کا درشت لب و لہجہ اور اس کے تند و تیز الفاظ اس شخص کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی اس حکمران کے عتاب کا نشانہ بن جانے کا باعث ہوں تو یہ (سخت کلامی) جائز نہیں۔ اور اگر اس شخص کو اس کا خوف نہیں کہ میری سخت کلامی کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی حکمران کے عتاب کا نشانہ بن جائیں گے بلکہ صرف میری ہی جان پر بنے گی تو یہ جائز ہے بلکہ مستحب ہے کیونکہ سلف (پہلے زمانوں کے مردان حق آگاہ) کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ اپنی جان کی ہلاکت کا خوف لئے بغیر حکمرانوں کو ان کی غلط روی سے پوری پوری سختی سے ٹوکا کرتے تھے اس لئے وہ جانتے تھے کہ اگر وہ اپنی جان کی ہلاکت کا باعث بن گیا تو اس سے بڑی سعادت کیا ہوسکتی ہے۔ کہ جہاد میں شہادت کا درجہ نصیب ہوگا۔

【38】

حکمران کے صالح مشیرکار اس فلاح کا باعث ہوتے ہیں

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی امیر (حکمران) کی (دینی و دنیاوی) بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لئے سچا (یعنی راست گفتار و راست کردار) وزیر ومشیر مقرر فرما دیتا ہے کہ جب وہ امیر (خدا کے احکام کو) بھول جاتا ہے تو وہ وزیر اس کو یاد دلاتا ہے (اور اگر وہ یاد رکھتا ہے تو وہ وزیر اس کو (یاد رکھنے میں مدد دیتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی امیر کی بھلائی کا ارادہ نہیں کرتا تو اس پر بد وزیر و مشیر مسلط کردیتا ہے۔ اور اگر امیر اللہ کے احکام کو فراموش کردیتا ہے تو وہ وزیر اس کو یاد نہیں دلاتا اگر وہ فراموش نہیں کرتا تو وہ وزیر اس کی مدد نہیں کرتا۔ (ابو داؤد، نسائی )

【39】

رعایا کے تئیں حکمران کا شک وشبہ انتشار وبددلی کا باعث ہے۔

اور حضرت ابوامامہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے کہ آپ نے فرمایا حکمران جب لوگوں میں شک وشبہ کی بات ڈھونڈتا ہے تو لوگوں کو خراب کردیتا ہے۔ (ابو داؤد) تشریح اس ارشاد گرامی کے ذریعہ آئین جہانبانی کے ایک بڑے ہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ ملک وقوم کی سالمیت عوام کی فلاح وبہبودی اور عام اطمینان وامن کے لئے یہ ضروری ہے کہ حکمران اور رعایا کے درمیان مکمل اعتماد ہو بطور خاص حکمران کو یہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اس کو اپنی رعایا کے تئیں اپنے اعتماد کا اظہار کرنا ہے ! جو تنگ نظر اور کم ظرف حکمران اپنی مملکت کے عام لوگوں یا کسی خاص طبقے کے بارے میں مستقل طور پر شک وشبہ میں مبتلا رہتے ہیں اور ان کی وفاداری پر یا ان کی حرکات و سکنات پر بدگمانی کرتے ہیں اور ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کر کے ان سے مؤ اخذہ کرتے ہیں اور ان کو مختلف قسم کی سزاؤں اور عقوبتوں میں گرفتار کرتے ہیں اور اپنے ہی ہاتھوں اپنی حکمرانی کی جڑیں کھودتے ہیں کیونکہ اس صورت حال سے نہ صرف یہ کہ جن طبقوں پر مستقل شک وشبہ کا اظہار کیا جاتا ہے ان کے حالات دگرگوں ہوجاتے ہیں بلکہ ملک وقوم میں بےاطمینانی اور اضطراب و انتشار کی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ اس حدیث کا مقصد جہاں لوگوں کے احوال کے تجسس اور ان کے عیوب تلاش کرنے سے منع کرنا ہے وہیں اس بات کا حکم دینا بھی ہے کہ اگر لوگوں میں کچھ عیوب ہوں تو ان کی پردہ پوشی کی جائے اور ان جو گناہ ولغزشیں سرزد ہوں ان سے درگزر کیا جائے۔ اور حضرت معاویہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ جب تم لوگوں کے (پوشیدہ) عیوب کو تلاش کرو گے تو ان کو خرابی میں مبتلا کرو گے۔ (بیہقی )

【40】

حق تلفی کرنے والے حاکم کے خلاف تلوار اٹھانے سے صبر کرنا بہتر ہے

اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (ہمیں مخاطب کر کے) فرمایا میرے بعد تم حاکموں اور سرداروں کے ساتھ اس وقت کیا برتاؤ کرو گے جبکہ وہ اس فئی کو خود رکھ لیں گے (یا آیا صبر کی راہ اختیار کرو گے یا ان کے خلاف تلوار اٹھاؤ گے ؟ ) میں نے عرض کیا سن لیجئے قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں ! اپنی تلوار کاندھے پر رکھوں گا اور پھر اس کے سبب) آپ سے جا ملوں گا۔ (آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں اس تلوار اٹھانے) سے بہتر بات نہ بتادوں ؟ (تو سنو) تم اس وقت صبر کی راہ اختیار کرنا یہاں تک کہ تم مجھ سے آ ملو ! (کیونکہ کسی دنیاوی حق کے تلف ہونے کی صورت میں تلوار اٹھانے سے صبر کرنا اور خاموش رہنا بہتر بھی ہے اور دنیا کی چیزوں سے بےرغبتی اور زہد کے شایان شان بھی ہے۔ (ابو داؤد) تشریح فئی اس مال کو کہتے ہیں کہ جو کفار سے بغیر جنگ وجدل کے حاصل ہو، جیسے خراج و جزیہ یا اس قسم کے وہ دوسرے ٹیکس جو اسلامی مملکت میں غیر مسلموں سے وصول کئے جاتے ہیں اور کفار سے جو مال جنگ وجدل سے حاصل ہوتا ہے اس کو غنیمت کہتے ہیں۔ فئی کا حکم یہ ہے کہ حاصل شدہ مال کے چار حصے تو تمام مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ ان کے درمیان تقسیم کیا جائے اور پانچواں حصہ بیت المال میں داخل کردیا جائے جب کہ غنیمت میں جو مال حاصل ہوتا ہے اس کے چار حصے بیت المال میں داخل ہوتے ہیں اور پانچواں حصہ مسلمانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اس فئی کے بارے میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ اگر کوئی حکمران اس کو اپنے تصرف میں لے آئے اور مستحقین میں تقسیم نہ کرے تو اگرچہ یہ حق تلفی ہے اور مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس حکمران سے اپنا اپنا حصہ وصول کریں لیکن محض اس مال کے لئے اس حکمران کے خلاف تلوار اٹھانے اور تشدد کی راہ اختیار کرنے سے یہ بہتر یہ ہے کہ صبر کی راہ اختیار کی جائے۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی کے مفہوم میں فئی اور غنیمت دونوں شامل ہیں، نیز اس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ جو حکمران فئی یا غنیمت کے سارے مال کو اپنے تصرف میں لا کر بیت المال کو نقصان پہنچائے گا اور مسلمانوں کو حق تلفی کرے گا وہ ظالم ہے۔

【41】

امام عادل کی فضیلت

حضرت عائشہ رسول کریم ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا جانتے ہو قیامت کے دن سب سے پہلے کون لوگ اللہ تعالیٰ کے عرش یا اس کے فضل و کرم کے سایہ میں جائیں گے ؟ ) صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جاننے والے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا سبقت لے جانے والے وہ لوگ ہیں جن کے سامنے حق بات رکھی جاتی ہے تو وہ قبول کرتے ہیں، جب ان سے حق کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ خرچ کرتے ہیں اور لوگوں کے حق میں وہی فیصلہ کرتے ہیں جو اپنی ذات کے بارے میں کرتے ہیں۔ تشریح اسی حدیث میں عادل حکمرانوں کے تین اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ ان کی وجہ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عنایات و کرم اور ان کے سایہ کے سب سے پہلے مستحق ہوں گے عادل حکمرانوں کا پہلا وصف تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب ان کے سامنے رعایا کی بھلائی و بہتری اور عدل ومساوت کے تعلق سے کوئی صحیح اور حق بات پیش کی جاتی ہے تو وہ اس کو قبول کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ دوسرا وصف یہ ہے کہ جب رعایا ان سے اپنا حق مانگتی ہے تو وہ اس کا حق دیتے ہیں اور لوگوں کی بھلائی اور بہتری اور ان کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتے اور تیسرا وصف یہ ہے کہ وہ جس چیز کو اپنے لئے پسند کرتے ہیں اسی کو رعایا کے لئے بھی پسند کرتے ہیں اگر وہ راحت اور اپنا چین چاہتے ہیں تو رعایا کے حق میں بھی یہ یہی چاہتے ہیں کہ عام لوگ راحت وچین اور امن و سکون کے ساتھ رہیں، خود غرض اور عیش کوش حکمرانوں کی طرح کا شیوہ یہ نہیں ہوتا کہ خود تو عیش وعشریت اور شہوت رانیوں میں مبتلا رہیں اور رعایا کو سختی اور تنگی اور بدحالی میں رہنے دیں۔

【42】

حکمرانوں کے ظلم سے آنحضرت ﷺ کا خوف

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں اپنی امت کے حق میں تین باتوں سے ڈرتا ہوں کہ (کہیں وہ ان کو اختیار کر کے گمراہی میں مبتلا نہ ہوجائے) ایک تو چاند کی منازل کے حساب سے بارش مانگنا، دوسرے بادشاہ کا ظلم کرنا اور تیسرے تقدیر کا جھٹلانا (یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ تقدیر الہٰی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ انسان جو بھی فعل کرتا ہے وہ خود اس کا خالق ہوتا ہے جیسا کہ ایک جماعت قدریہ کا مسلک ہے۔ تشریح انواء نوء۔ کی جمع ہے جس کے لغوی معنی تو اٹھنا اور (گرنا) ہیں لیکن عام طور پر اس کا استعمال چاند کی منازل کے مفہوم میں ہوتا ہے ! قدیم علماء فلکیات کے مطابق چاند کی اٹھائیس منزلیں ہوتی ہیں کہ وہ ہر شب ایک منزل میں رہتا ہے غالبًا اٹھنے اور گرنے سے طلوع اور غروب مراد لے کر انواء کو چاند کو منازل کے مفہوم استعمال کیا جاتا ہے۔ بہرحال عرب کے مشرکین بارش کو ان منازل کی طرف منسوب کرتے تھے اور جب بارش ہوتی تو وہ یہ کہتے کہ چاند کی فلاں منزل کی وجہ سے بارش ہوئی ہے چونکہ یہ ایک باطل عقیدہ ہے کہ اس لئے دوسری احادیث میں یہ عقیدہ رکھنے سے صریح ممانعت مذکور ہے۔ توحید کی اہمیت کو واضح کرنے اور شرک کے ایہام سے دور رکھنے کے لئے اس پر لفظ کفر کا اطلاق کیا گیا ہے۔

【43】

بلاوجہ نہ تو امین بنو اور نہ حاکم بنو

اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ چھ دن تک مجھ سے یہ فرماتے رہے کہ ابوذر ! بعد میں جو بات تم سے کہی جانے والی ہے اس کے لئے تیار رہو (یعنی آنحضرت ﷺ چھ دن تک مجھے آگاہ کرتے رہے کہ میں تمہیں ایک ہدایت دوں گا تم اس پر خوب غور کرنا اس کو یاد رکھنا اور اس پر عمل کرنا) چناچہ جب سا تو اں دن ہوا تو آپ نے فرمایا میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ظاہر و باطن میں اللہ سے ڈرتے رہنا، جب تم سے کوئی برائی سرزد ہوجائے تو ساتھ ہی نیکی بھی کرنا کیونکہ وہ برائی کو مٹا دیتی ہے یا یہ مقصد ہے کہ اگر تم کسی کے ساتھ کوئی برا سلوک کر بیٹھو تو اس کے ساتھ (نیکی کا) سلوک بھی کرو) کسی (مخلوق) کے آگے دست سوال دراز نہ کرنا اگرچہ تمہارا کوڑا ہی کیوں نہ گرپڑا ہو (یعنی اگر کوڑا گرے تو اس کو اٹھانے کے لئے بھی کسی سے نہ کہو) کسی کی امانت اپنے پاس نہ رکھنا اور دو آدمیوں کے حکم نہ بننا۔ ۔ تشریح کسی کے امانت اپنے پاس نہ رکھنا کا مطلب یہ ہے کہ بلاضرورت کسی کی امانت اپنے پاس رکھنا احتیاط اور دور اندیشی کے خلاف ہے کیونکہ نفس کا کوئی بھروسہ نہیں کہ وسوسہ اور شیطان کے فریب میں مبتلا ہوجائے اور امانت میں خیانت کا ارتکاب ہوجائے یا اگر خیانت کا ارتکاب نہ بھی ہو تو یہ چیز تہمت کا محل تو ہے ہی کہ کسی وجہ سے خود امانت کا مالک یا کوئی دوسرا شخص تم پر خیانت کی تہمت لگا دے۔

【44】

حکمران کے حق میں حکومت کے تین تدریجی مرحلے

اور حضرت ابوامامہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے (دس آدمیوں کی) بھی یا اس سے زائد لوگوں کی حکمرانی قبول کی اس کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس طرح طوق میں جکڑا ہوا حاضر کرے گا (یعنی میدان حشر میں اٹھائے گا) کہ اس کے ہاتھ نے اس کی گردن کو جکڑ رکھا ہوگا یہاں تک کہ یا تو اس کی نیکی اس کو چھڑائے گی (یعنی اگر اس نے دنیا میں اپنے زیردستوں کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ اور حسن سلوک کیا ہوگا تو یہ اس کی نجات کا باعث بنے گا یا اس کا گناہ (یعنی اپنے زیردستوں پر اس کا کیا ہوا ظلم وغیرہ ) اس کی ہلاکت (عذاب) میں مبتلا کر دے گا۔ (یاد رکھو) سرداری وحکمرانی کی ابتداء ملامت ہے اس کا درمیان پیشمانی و ندامت ہے اور اس کا آخر قیامت کے دن کی ذلت و رسوائی ہے۔ تشریح حکومت وسرداری کی حقیقت اور اس کا مآل کیا ہے ؟ اس کو یہ حدیث واضح کر رہی ہے کہ جب کوئی شخص حکومت وسیادت کی مسند پر فائز ہوتا ہے تو اس کا ابتدائی مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو ہر طرف سے ملامت کے تیر کا نشانہ بننا پڑتا ہے، لوگ مطعون کرتے ہیں کہ اس نے ایسا ویسا کیا، کوئی اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام عائد کرتا ہے، کوئی خویش پروری اور جننہ داری کی تہمت لگاتا ہے تو کوئی فرائض حکومت کی انجام دہی میں غفلت کا ملزم گردانتا ہے عرضی کہ ہر طرف سے طعن وتشنیع، سب وشتم اور اعتراضات کی بوچھاڑ ہوتی ہے اس کے بعد درمیانی مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ حکمران حکومت کی سخت کوشیوں اور لوگوں کے طعن وتشنیع سے بددل ہو کر سخت ندامت وپیشیمانی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس منصب کو کیوں قبول کیا اور اس محنت و مصیبت میں اپنے آپ کو مبتلا کیا اور پھر اس کا آخری حصہ ذلت و رسوائی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ دنیا کی ذلت و رسوائی بھی اور آخرت کی ذلت و رسوائی بھی ! دنیا کی ذلت رسوائی تو یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے اس منصب سے معزول کردیا جاتا ہے تو اس کی خواری و تحقیر ہوتی ہے یا اگر رعایا اس کے طرز حکومت میں اور انتظام سلطنت سے مطمئن نہیں ہوتی تو ان کے دل ان کے دلوں میں اس کے تئیں سخت قسم کی نفرت و حقارت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایک حکمران کے لئے اس سے بڑھ کر دنیا میں ذلت و رسوائی اور کیا ہوسکتی ہے اور آخرت کی ذلت و رسوائی یہ ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں جو کچھ کرتا ہے اس کی جواب دہی احکم الحاکمین کی بارگاہ میں کرنی ہوتی ہے یہاں تک کہ اس سے جو کو تاہیاں، جو ظلم اور جو غلط افعال سرزد ہوئے ہیں ان کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہونا پڑتا ہے۔ ( فاعتبروا یا اولی الابصار) ۔ یہاں حدیث میں صرف قیامت کے دن کی ذلت و رسوائی کا ذکر کیا گیا ہے دنیا کی خواری مذکور نہیں ہے اس کی وجہ یہ کہ قیامت کے دن کی ذلت و رسوائی دنیا کی ذلت و رسوائی کہیں زیادہ سخت ہے اسی لئے اس کے ذکر پر اکتفا کیا گیا۔

【45】

حضرت معاویہ کے حق میں آنحضرت ﷺ کی پیش گوئی

اور حضرت امیر معاویہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا سے معاویہ ! اگر تمہیں کسی کام (یا کسی جگہ) امیر وحاکم بنایا جائے تو امور حکومت کی انجام دہی میں) اللہ سے ڈرتے رہنا اور عدل و انصاف کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔ حضرت معاویہ کہتے ہیں برابر خیال کرتا رہا کہ آنحضرت ﷺ کے فرمانے کے بموجب میں کسی کام (یعنی امارت وسرداری میں مبتلا کیا جاؤں گا۔ یہاں تک کہ میں مبتلا کیا گیا (یعنی آنحضرت ﷺ کا فرمان صحیح ہوا اور امارت وسرداری نصیب ہوئی۔

【46】

آنے والے زمانے کے بارے میں پیشن گوئی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا ستر سال کی ابتداء سے اور بچوں کی حکومت سے اللہ کی پناہ مانگو، مذکورہ بالا چھ حدیثوں کو امام احمد نے اور امیر معاویہ کی روایت کو بہیقی بھی دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔ تشریح ستر سال کی ابتداء سے مراد سن کی ساتویں دہائی ہے جس کی ابتداء ٦١ ھ کے آخر میں حضرت معاویہ کا دور حکومت ان کی وفات پر پورا ہوا اور یزید ابن معاویہ کی امارت قائم ہوئی اس کے ساتھ ہی حکومت پر سے صحابیت کا بابرکت سایہ اقتدار مکمل طور اٹھ گیا اور اس کے بعد سے امت کی تاریخ حکومت کا وہ دور شروع ہوگیا جو افتراق اور انتشار، فتنہ و فساد، ظلم وجور حصول اقتدار کی کشمکش اور ملوکیت کی فتنہ سامانیاں اپنے دامن میں لے کر آیا۔ یزید کل تین سال آٹھ ماہ تخت حکومت پر رہا اس دوران میں اس کی حکومت کا سب سے شرمناک واقعہ سانحہ کربلا ہے۔ یزید کے بعد اس کا بیٹا معاویہ ابن یزید ابن معاویہ برائے نام تخت نشین ہوا اور آخر میں حکومت کی باگ ڈور بنو امیہ کے سفیانی خاندان سے نکل کر بنی مروان کے ہاتھ آگئی۔ حدیث میں انہی بنی مروان کی حکومت کو بچوں کی حکومت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بنی مروان کے زمانہ حکومت میں اقتدار کی رسہ کشی استبداد وجبر، مذہبی انتشار وتشتت، دین سے برگشتگی، خاندانی وقبائلی عصبیت، اسلامی شعائر سے لاپرواہی اور بزرگان حق کے ساتھ سختی وتشدد کا جو مظاہرہ ہوا اس پورے نظام حکومت ومملکت کو بازیچہ اطفال بنا کر رکھ دیا تھا۔ رسوائے تاریخ ظالم حجاج ابن یوسف بنی مروان ہی کے عہد حکومت کا سب سے بڑا معتمد والی تھا جو ظلم وستم میں چنگیز ہلاکو سے کم بدنام نہیں ہے۔ سن ہجری کی ساتویں دہائی کی ابتداء سے یزید ابن معاویہ کی امارت کی صورت میں رونما ہونے والی ہولنا کیوں اور اس کے بعد کے عرصہ میں بنی مروان کی حکومت کی ستم رانیاں وقوع پزیر ہونے سے سالہا سال پہلے نبوت کے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند تھیں اور آپ ﷺ کی فراست محکم آنے والے اس زمانے کا ادراک کر رہی تھی جس میں نبوت کی اجتماعی اور اس کی ملی خصوصیات کو چند خود غرض، مفاد پرست اور دنیا دار حکمران اپنے اقتدار طلبی اور عیش رانیوں پر قربان کرنے والے تھے۔ لہٰذا آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا اس وقت پیش آنے والے سخت حالات اور عاقبت نااندیش حکمرانوں کے عہد حکومت سے اللہ کی پناہ مانگو کہ اللہ تم میں سے کسی کو وہ زمانہ نہ دکھلائے۔

【47】

جیسے عمل کرو گے ویسے ہی حکمران مقرر ہوں گے

اور حضرت یحییٰ بن ہاشم، حضرت یونس ابن اسحاق سے اور اور وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں۔ کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جیسے تم ہوگے ویسے ہی تمہارے اوپر حکمران مقرر کئے جائیں گے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ تمہارے طور طریقے اور تمہارے اعمال جیسے ہوں گے ویسے ہی تم پر حاکم وعامل مقرر ہوں گے اگر تمہارے اعمال اچھے ہوں گے تو تمہارے حاکم بھی اچھے ہوں گے اور تم برے اعمال کرو گے تو تمہارے حاکم بھی برے ہوں گے۔

【48】

بادشاہ روئے زمین پر اللہ کا سایہ ہوتا ہے

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ بادشاہ روئے زمین پر اللہ کا سایہ ہے جس کے نیچے اللہ کے بندوں میں سے مظلوم بندہ پناہ حاصل کرتا ہے لہٰذا جب بادشاہ عدل و انصاف کرتا ہے تو اس کو ثواب ملتا ہے اور رعایا پر اس کا شکر واجب ہوتا ہے اور جب وہ ظلم و طغیانی کرتا ہے تو وہ گنہ گار ہوتا ہے اور رعایا پر صبر لازم ہوتا ہے۔ بادشاہ کے وجود کو خود کا سایہ اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے جس طرح کسی چیز کا سایہ سورج کی تپش و گرمی کی ایذاء سے بچاتا ہے اسی طرح بادشاہ اپنی رعیت کے لوگوں کو مختلف قسم کی ایذاؤں اور سختیوں سے بچاتا ہے ! نیز بسا اوقات لفظ سایہ سے کنایۃ محافظت و حمایت کا مفہوم بھی مراد لیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو بادشاہ کے وجود کا بجا طور پر اپنی رعایا کے لئے محافظت و حمایت کا سب سے بڑا ذریعہ ہونا بالکل ظاہر ہے۔ طیبی نے یہ وضاحت کی ہے کہ لفظ ظل اللہ ایک تشبیہ ہے اور عبادت (یاوی الیہ کل مظلوم) الخ اس تشبیہ کی وضاحت اور مراد بیان کرتی ہے یعنی لوگ جس طرح سایہ کی ٹھنڈک میں سورج کی گرمی سے راحت پاتے ہیں اسی طرح بادشاہ کے عدل کی ٹھنڈک میں ظلم وجور کی گرمی سے راحت پاتے ہیں۔ ظل اللہ میں اللہ کی طرف (سایہ) کی نسبت اس (سایہ) کی عظمت و برتری کے اظہار کے لئے ہے جیسا کہ بیت اللہ میں اللہ کی طرف بیت کی نسبت اس (بیت) کی عظمت و برتری کو ظاہر کرنے کے لئے ہے اور اس سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ وہ سایہ (یعنی بادشاہ) دوسرے سایوں کی طرح نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کے تعلق سے اپنی الگ شان اور خصوصیت و برتری رکھتا ہے کیونکہ اس کو روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ (نائب) قرار دیا گیا ہے کہ اس کا فریضہ اللہ تعالیٰ کے عدل و احسان کو اس کے بندوں پر پھیلانا ہے۔

【49】

قیامت کے دن سب سے بلند مرتبہ نرم خو اور عادل حکمران ہوگا

اور حضرت عمر ابن خطاب کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بندوں میں بلند مرتبہ کے اعتبار سے سب سے بہتر جو شخص ہوگا وہ میں مرتبہ کے اعتبار سے سب سے بدتر جو شخص ہوگا وہ ظالم اور سختی کرنے والا حاکم ہے۔

【50】

کسی مسلمان کو محض ڈرانا دھمکانا بھی عذاب کا سزاوار کرتا ہے

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے کسی بھائی کی طرف ڈراوے والی نظر سے دیکھے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو ڈرائے گا۔ مذکورہ چاروں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور نقل کیا ہے اور یحییٰ ابن ہاشم کی روایت کے بارے میں کہا ہے کہ یہ منقطع ہے اور یحییٰ کی روایت ضعیف (سمجھی جاتی) ہے۔ تشریح اس حدیث کو اس باب میں نقل کرنے سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ جب کسی مسلمان کو محض ڈرانا دھمکانا قیامت کے دن عذاب کا سزاوار بنائے گا تو مسلمانوں پر ظلم وستم کرنے والے کا کیا حشر ہوگا ؟

【51】

حکمران کے ظلم پر اس کو برا بھلا کہنے کی بجائے اپنے اعمال درست کرو

اور حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ (حدیث قدسی) میں ارشاد فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ (یعنی میرے قبضہ قدرت) میں ہیں لہٰذا جب میرے (اکثر) بندے میری اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں (ظالم) بادشاہوں کے دلوں کو رحمت و شفقت کی طرف پھیر دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حق (عادل ونرم خو) بادشاہوں کے دلوں کو غضبناکی اور سخت گیری کی طرف پھیر دیتا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ (بادشاہ) ان کو سخت عقوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں، اس لئے (ایسی صورت میں) تم اپنے آپ کو ان بادشاہوں کے لئے بدعا کرنے میں مشغول نہ کرو بلکہ (میری بارگاہ میں تضرع وزاری کر کے اپنے آپ کو (میرے) ذکر میں مشغول کرو تاکہ میں تمہارے ان بادشاہوں کے شر سے تمہیں بچاؤں۔ اس روایت کو ابونعیم نے اپنی کتاب حلیۃ الاولیاء میں نقل کیا ہے۔ تشریح اس حدیث میں اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ رعایا کے تئیں حکمرانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال و کردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال و معاملات بالعموم راست بازی ونیک کرداری کے پابند ہوتے ہیں تو ان کا ظالم حکمران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور شفیق و کرم گستر بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی و طغیانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان کے اعمال و معاملات عام طور پر بد کر داری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکمران بھی ان کے حق میں غضبناک اور سخت گیر ہوجاتا ہے لہٰذا حکمران کے ظلم کے ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وانصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لئے بدعا کرنے کی بجائے یہ راہ اختیار کرنی چاہئے کہ اللہ کی طرف رجوع کیا جائے، اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے، اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی وزاری کے ساتھ التجاء فریاد کی جائے اور اپنے اعمال و اپنے معاملات کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع کردیا جائے تاکہ رحمت الٰہی متوجہ ہو اور ظالم حکمران کے دل کو عدل و انصاف اور نرمی و شفقت کی طرف پھیر دے۔