119. حاکموں پر آسانی و نرمی کے واجب ہونے کا بیان

【1】

حاکموں پر آسانی ونرمی کے واجب ہونے کا بیان

گزشتہ باب میں اس بات کا ذکر تھا کہ رعایا کو اپنے حاکموں کی اطاعت و فرمانبرداری کرنی چاہئے اب اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ حاکموں کو بھی اپنی رعایا کے لوگوں پر نرمی و شفقت کرنی چاہئے۔

【2】

حکمران کو اپنی رعایا کے تئیں نرم روی اختیار کرنی چاہئے

حضرت ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب اپنے کسی صحابی کو اپنے کسی کام پر مامور کر کے (یعنی کسی جگہ کا حاکم بنا کر) بھیجتے تو ان کو یہ ہدایت فرماتے کہ لوگوں کو طاعات و عبادات اور نیک کام کرنے پر اجر وثواب کی بشارت دیتے رہنا اور ان کو ان کے گناہوں پر اللہ کے عذاب سے (اتنا زیادہ) مت ڈرانا کہ وہ رحمت الٰہی سے مایوس ہوجائیں) نیز (لوگوں کے ساتھ) آسانی کا برتاؤ کرنا (یعنی ان سے زکوٰۃ وغیرہ کی وصولی میں نرمی و آسانی کا طریقہ اختیار کرنا) اور لوگوں سے زکوٰۃ وغیرہ کامل واجب مقدار سے زیادہ وصول کر کے) ان کو دشواری وتنگی میں مبتلا نہ کرنا۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت ابوبردہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان کے دادا یعنی حضرت ابوموسیٰ اور حضرت معاذ کو یمن بھیجا اور ان سے فرمایا آسانی کہ برتاؤ کرنا، مشکلات اور سختیوں میں مبتلا نہ کرنا بشارت دیتے رہنے، خوف ومایوسی میں مبتلا نہ کرنا، باہم اتفاق و اتحاد کے ساتھ کام کرنا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا۔ (بخاری ومسلم) تشریح صحیح یہ ہے کہ مؤلف مشکوٰۃ یہاں یوں نقل کرتے ہیں عن ابن ابی بردۃ الخ یعنی ابی بردہ کے ساتھ ابن کا لفظ بھی لاتے کیونکہ ابوبردہ حضرت ابوموسی اشعری کے بیٹے ہیں نہ کہ پوتے اور ان (ابو بردہ) سے ان کے صاحبزادگان عبداللہ، یوسف، سعید اور بلال روایت کرتے ہیں حدیث کرتے ہیں، چناچہ یہاں جو حدیث نقل ہوئی ہے سعید ابن بردہ سے مروی ہے جیسا کہ صحیح بخاری نے نقل کیا ہے کہ حضرت سعید ابن ابوبردہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ (حضرت ابوبردہ) سے سنا وہ کہتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے میرے باپ یعنی حضرت ابوموسیٰ ابوموسی اشعری اور حضرت معاذ کو یمن بھیجا۔

【3】

قیامت کے دن عہد شکن کی رسوائی

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن عہد شکن (کی فضیحت و رسوائی کے لئے) ایک نشان کھڑا کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں ابن فلاں کی عہد شکنی کی علامت ہے۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت انس نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے ایک نشان (مقرر) ہوگا جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے۔ (بخاری ومسلم ) اور حضرت ابوسعید نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن (کی رسوائی وفضیحت کی تشہیر) کے لئے اس کے مقعد کے قریب ایک نشان ہوگا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے شکن کے لئے ایک نشان ہوگا جو اس کی عہد شکنی کے بقدر بلند کیا جائے گا۔ (یعنی اس کی جتنی زیادہ عہد شکنی ہوگی اسی قدر وہ نشان اور اس کی تشہیر زیادہ ہوگی) خبردار ! کوئی عہد شکن عہد شکنی کے اعتبار سے امام عام (یعنی حکمران وقت) سے بڑا نہیں (یعنی حکمران کی عہد شکنی سب سے بڑی عہد شکنی ہے۔ (مسلم )

【4】

رعایا کی ضروریات پوری نہ کرنے والے حکمران کے بارے میں وعید

حضرت عمرو بن مرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت امیر معاویہ سے کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے کسی کام کا ولی وحاکم بنایا اور اس نے (مسلمانوں کی حاجت، عرضداشت اور محتاجگی سے حجاب فرمائے گا یعنی اس کو اس کے مطلوب سے دور رکھے گے۔ اور اس کی دعا قبول نہیں کرے گا ) حضرت امیر معاویہ یہ حدیث سن کر بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے ایک شخص کو (اس کام) پر مقرر کردیا کہ وہ لوگوں کی ضروریات پر نظر رکھے اور ان کی حاجتوں کو پورا کرتا رہے۔ (ابو داؤد، ترمذی) اور ترمذی کی ایک روایت میں احمد کی روایت میں یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس (والی حاکم) کی حاجت، عرضداشت اور محتاجگی پر آسمان کے دروازے بند کر دے گا۔ رعایا پر اپنے دروازے رکھنے والے پر رحمت الٰہی کے دروازے بند ہونگے حضرت ابوشماخ ازوی سے روایت ہے کہ ان کے چچا زاد بھائی جو نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی تھے ( ایک دن امیر معاویہ کے پاس آئے ! اور جب ان کی خدمت میں بار یاب ہوئے تو کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص کو لوگوں کے کسی کام کا ولی و والی بنایا گیا اور اس نے مسلمانوں پر یا کسی مظلوم پر اور یا کسی حاجت مند پر اپنے دروازے بند رکھے ( یعنی ان کو ان کی اپنی حاجت و ضرورت کے وقت اپنے پاس نہ آنے دیا یا اس کی حاجت روائی نہ کی) تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کی ضرورت و حاجت اور محتاجگی کے وقت جب کہ وہ اس کی طرف بہت زیادہ حاجت و ضرورت کا اظہار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی اس حاجت و ضرورت کو پورا نہیں کرے گا یا اگر وہ دنیا میں کسی مخلوق سے اپنی کسی احتیاج کا اظہار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی اس حاجت و ضرورت کو بھی پورا نہیں ہونے دے گا۔

【5】

اپنے حکام کو حضرت عمر فاروق کی ہدایات

اور حضرت عمر ابن خطاب کے بارے میں منقول ہے کہ جب عمال ( حکام) کو روانہ کرتے تو ان سے یہ شرط کرلیتے ( یعنی ان کو یہ ہدایات دیتے) کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہونا ( میدہ و باریک آٹے کی روٹی وغیرہ نہ کھانا باریک کپڑے نہ پہننا اور لوگوں کی حاجت و ضرورت کے وقت ان پر اپنے دروازے بند نہ کرنا ( یاد رکھو ! ) اگر تم نے ان میں سے کوئی چیز اختیار کی تو تم دنیا وعاقبت) میں سزا کے مستحق ہوجاؤ گے اس کے بعد حضرت عمر ان کو ( کچھ دور تک) پہنچانے جاتے۔ یہ دونوں حدیثیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔ (بیہقی) تشریح ترکی گھوڑے پر سوار ہونے کی ممانعت کی علت چونکہ تکبر اور اتراہٹ ہے اس لئے عربی گھوڑے پر سوار ہونے کی ممانعت بطریق اولی ہوگی۔ طیبی کہتے ہیں کہ گھوڑے پر سوار ہونے سے منع کرنا دراصل تکبر واتراہٹ سے منع کرنا ہے میدہ کھانے اور باریک کپڑے پہننے سے منع کرنا ؛ اسراف اور عیش و عشرت کی زندگی اختیار کرنے سے منع کرنا ہے اور حاجتوں پر اپنے دروازے بند رکھنے سے منع کرنا ؛ مسلمانوں کی حاجت روائی نہ کرنے سے منع کرنا ہے۔