12. وتر کا بیان

【1】

نماز وتر کا بیان

وتر ( لفظ وتر میں واؤ کو زیر اور زبر دونوں کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں مگر زیر کے ساتھ پڑھنا زیادہ مشہور ہے۔ ( ہر اس نماز کو کہہ سکتے ہیں جس میں طاق رکعتیں ہوں مگر فقہا کے ہاں وتر اسی خاص نماز کو کہتے ہیں جس کا وقت عشاء کی نماز کے بعد ہے جو عام طور پر عشاء کے فورا بعد ہی پڑھی جاتی ہے اور اس باب میں اسی نماز وتر کا بیان ہوگا۔ نماز وتر واجب ہے یا سنت نماز وتر کے سلسلہ میں ائمہ کے ہاں دو چیزوں میں اختلاف پایا جاتا ہے پہلی چیز تو یہ کہ آیا نماز وتر واجب ہے یا سنت ؟ چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ وتر کی نماز واجب ہے حضرت امام شافعی اور حضرت قاضی ابویوسف فرماتے ہیں کہ سنت ہے۔ نماز وتر کی ایک رکعت ہے یا تین رکعتیں علماء کے نزدیک دوسرا اختلاف یہ ہے کہ نماز وتر کی ایک رکعت ہے یا تین ؟ حنفیہ کے ہاں وتر کی تین رکعتیں ہیں جب کہ اکثر ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ نماز وتر صرف ایک ہی رکعت ہے تاہم ان حضرات کے نزدیک بھی وتر کے لئے صرف ایک رکعت پڑھنا مکروہ ہے بلکہ ان حضرات کا کہنا ہے کہ پہلے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرا جائے اس کے بعد ایک وتر پڑھی جائے۔ نماز وتر کا طریقہ وتر کی نماز مغرب کی نماز کی طرح (حنفیہ کے مسلک کے مطابق) تین رکعت پڑھی جاتی ہے، اس کے پڑھنے کا وہی طریقہ ہے جو فرض نمازوں کا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ محض دو رکعتوں میں سورت فاتحہ کے بعد دوسری سورت ملائی جاتی ہے جب کہ وتر کی نماز میں تینوں رکعتوں میں دوسری سورت پڑھنے کا حکم ہے اور تیسری رکعت میں دوسری سورت کے بعد دونوں ہاتھ تکبیر کے ساتھ کانوں تک اٹھا کر (جس طرح کہ تکبیر تحریمہ کے وقت اٹھاتے ہیں) پھر باندھے جائیں اور بآواز آہستہ دعا قنوت پڑھی جائے، دعا قنوت یہ ہے۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَھْدِیْکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنُثْنِی عَلَیْکَ الْخَیْرَوَ نَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّی وَنَسْجُدُ وَاِلَیْکَ نَسْعَی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخْشَی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقْ ۔ اے اللہ ! تجھی سے مدد مانگتے ہیں تجھی سے ہدایت کے طالب ہیں، تجھی سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں ہم تیرے ہی سامنے توبہ کرتے ہیں، تیرے ہی اوپر ایمان لاتے ہیں تیری ہی اچھی تعریفیں بیان کرتے ہیں، ہم تیرا ہی شکر ادا کرتے ہیں نا شکری نہیں کرتے اور جو آدمی تیری نا شکری نافرمانی کرے ہم اس کو چھوڑتے ہیں۔ اے پروردگار ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تیری ہی نماز پڑھتے ہیں تجھی کو سجدہ کرتے ہیں، تیری ہی طرف دوڑتے آتے ہیں، تیری ہی عبادت میں جلد مستغرق ہوجاتے ہیں، تیری رحمت کے امیدوار ہیں ہم تیرے ہی عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تیرا عذاب کافروں پر نازل ہونے ولا ہے۔ اگر اس کے بعد یہ دعا بھی پڑھ لی جائے تو بہتر ہے۔ اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ وَعَا ِفنِیْ فِیْ مَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِیْ فِیْمَنْ تَوَلَیْتَ وَبَارِکْ لِیْ فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَقِنِیْ شَرَّ مَا قَضَیْتَ فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ اِنَّہ لا یُذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّمَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ ۔ اے اللہ ! ان لوگوں کے ساتھ مجھ کو ہدایت دے جنہیں تو نے ہدایت بخشی، مجھے ان لوگوں کے ساتھ مصیبتوں اور آفتوں سے بچا جنہیں تو نے بچایا ہے، ان لوگوں کے ساتھ مجھ سے محبت کر جن سے تو نے محبت کی اور جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے ان برائیوں سے بچا جو مقدر ہوں بیشک تو حاکم ہے محکوم نہیں اور جس سے تو محبت کرے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا اور جس سے تجھ کو عداوت ہو وہ عزت نہیں پاسکتا، اے اللہ تیری ذات بزرگ و برتر ہے۔ اگر کسی کو دعاء قنوت یاد نہ ہو تو وہ بجائے دعا قنوت کے یہ پڑھ لے۔ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃَ وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی آرام دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ اور اگر کوئی اس کے پڑھنے پر بھی قادر نہ ہو تو پھر اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ یا یَا رَبِّ تین مرتبہ کہہ لے۔

【2】

نماز وتر کی رکعتوں کا مسئلہ

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور جب کسی کو صبح ہونے کا اندیشہ ہونے لگے تو ایک رکعت پڑھ لے، یہ (ایک رکعت) پہلی پڑھی ہوئی نماز کو طاق کر دے گی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ رات کو پڑھی جانے والی نفل نمازیں دو دو رکعت کر کے پڑھی جائیں چناچہ حضرت امام شافعی، حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد نے اس حدیث کے پیش نظر کہا ہے کہ افضل یہی ہے کہ رات میں نفل نمازیں اس طرح پڑھی جائیں کہ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا جائے یعنی دو دو رکعت کر کے پڑھی جائیں۔ حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ رات کو نماز میں مشغول رہنے والا آدمی جب یہ دیکھے کہ رات ختم ہو رہی ہے اور صبح نمودار ہونے والی ہے تو وہ ان نمازوں کے بعد ایک رکعت پڑھ لے تاکہ یہ ایک رکعت پہلی پڑھی ہوئی نمازوں کو طاق کر دے، اس طرح یہ حدیث امام شافعی کی دلیل ہے کیونکہ ان کے نزدیک وتر کی ایک ہی رکعت ہے۔ امام طحاوی حنفی نے صلی رکعۃ واحدۃ الخ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ایک رکعت اس طرح پڑھے کہ اس سے پہلے دور رکعتیں پڑھ لے تاکہ یہ رکعت شفع یعنی اس ایک رکعت سے پہلے پڑھی گئی دونوں رکعتوں کو طاق کر دے۔ گویا ایک رکعت علیحدہ نہ پڑھی جائے بلکہ دو رکعتوں کے ساتھ ملا کر پڑھی جائے۔ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے تو یہ کہیں ثابت ہی نہیں ہوتا کہ وتر کی ایک رکعت علیحدہ تکبیر تحریمہ کے ساتھ پڑھی جائے لہٰذا اس کے ذریعے وتر کی ایک رکعت ہونے پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ پھر وتر کی تین ہی رکعتیں ہونے کے سلسلہ میں حنفیہ کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صلوۃ بتیرا یعنی تنہا ایک رکعت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ جہاں تک صحابہ اور سلف کے عمل کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اکثر فقہا صحابہ اور سلف کا معمول وتر کی تین رکعتیں ہی پڑھنا تھا۔ چناچہ حضرت عمر فاروق کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے ان کو تو اس سلسلے میں بہت زیادہ اہتمام تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ حضرت سعید بن مسیب کو وتر ایک رکعت پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ کیسی ناقص نماز پڑھتے ہو ؟ دو رکعت اور پڑھو ورنہ تمہیں سزادوں گا۔ (نہایہ) جامع ترمذی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے وتر کی تین رکعتیں نقل کی ہیں اور اسی کو عمران بن حصین، حضرت عائشہ، عبداللہ ابن عباس اور ابوایوب کی طرف منسوب کیا ہے اور آخر میں انہوں نے صراحت کردی ہے کہ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت اسی طرف ہے۔ حضرت عمر فاروق اور حضرت عبداللہ ابن مسعود کے بارے میں موطا امام محمد میں مذکور ہے کہ ان کے نزدیک بھی وتر کی تین ہی رکعتیں ہیں۔ حضرت امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ سلف کا اسی پر معمول تھا۔ (ہدایہ) تین رکعت کی وتر صحابہ میں مشہور تھی، ایک رکعت کی وتر تو عام طور پر لوگ جانتے بھی نہ تھے چناچہ حضرت معاویہ کو عبداللہ ابن عباس کے مولیٰ نے ایک رکعت وتر پڑھتے ہوئے دیکھا تو ان کو بہت تعجب ہوا انہوں نے حضرت عباس کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کو بڑے اہتمام کے ساتھ بیان کیا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس نے ان کی وحشت و حیرت یہ کہہ کر ختم کردی کہ معاویہ فقیہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے مشرف ہوچکے ہیں ان پر اعتراض نہ کرو (صحیح البخاری ) بہر حال ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وتر کی تین ہی رکعتیں ہیں جن احادیث سے وتر کی ایک رکعت ثابت ہوتی ہے وہ سب قابل تاویل ہیں جو انشاء اللہ حسب موقع بیان کی جائیں گی۔ یا یہ کہ ان میں رسول اللہ ﷺ کی پہلی حالتوں کا ذکر ہے آخر فعل آپ ﷺ کا بھی تین ہی رکعت پر تھا جو صحابہ میں مشہور ہوا اور ظاہر ہے کہ امت کے لئے آپ کا وہی فعل حجت اور دلیل بن سکتا ہے جس پر آپ ﷺ نے آخر میں عمل اختیار فرمایا ہو۔

【3】

نماز وتر کی رکعتوں کا مسئلہ

اور حضرت عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا آخر رات کو وتر (پڑھنا افضل ہے اور اس کی ایک رکعت ہے ) ۔ صحیح مسلم تشریح الوتر رکعۃ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے پڑھی گئی دو رکعتوں کے ساتھ ملی ہوئی وتر کی ایک رکعت ہے گویا کہ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وتر سے ہٹ کر تاویل کا راستہ اختیار کرتے ہوئے یہ معنی اس لئے بیان کئے گئے ہیں تاکہ ان حدیث میں جن سے وتر کے لئے تین رکعتیں پڑھنا ثابت ہے اور ان احادیث میں جن سے وتر کی ایک رکعت کا اثبات ہوتا ہے تطبیق پیدا ہوجائے اور احادیث کے حقیقی معنی و مفہوم میں کوئی تعارض پیدا نہ ہو۔ وتر کے پڑھنے کا مختار اور افضل وقت آخری رات ہے جب کہ تہجد وغیرہ کی نماز پڑھ لی جائے لیکن عام طور سے چونکہ لوگ رات کو تہجد کی نماز کے لئے نہیں اٹھتے اس لئے عشاء کی نماز کے فورًا بعد ہی وتر بھی پڑھ لئے جاتے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ وتر ایک ہی رکعت ہے۔ جن احادیث سے وتر کی تین رکعتیں پڑھنا ثابت ہے وہ آگے ذکر کر جائیں گی۔

【4】

ایک تشہد کے ساتھ پانچ رکعت پڑھنے کا مسئلہ

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ رات کو (تہجد کے وقت) تیرہ رکعت پڑھتے تھے جن میں سے پانچ رکعتوں میں وتر پڑھتے اور ان میں سوائے آخری رکعت کے کسی میں بھی (تشہد کے لئے) نہیں بیٹھتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح رات کو رسول اللہ ﷺ کی نماز کئی طریقوں سے ذکر کی گئی ہے ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پہلے آپ ﷺ آٹھ رکعتیں چار سلام کے ساتھ یعنی دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے اور پھر آخر میں پانچ رکعتیں ایک تشہد اور ایک سلام کے ساتھ اس طرح پڑھتے تھے کہ اسی میں وتر کی نیت بھی کرلیتے تھے یعنی وتر کی نماز بھی انہیں پانچ رکعتوں میں شامل ہوتی تھی اور ان پانچ رکعتوں میں سے کسی ایک رکعت میں بھی نہ تو تشہد کے لئے بیٹھتے تھے اور نہ سلام پھیرتے تھے بلکہ آخری رکعت میں تشہد کے لئے بیٹھتے اور سلام پھیرتے۔ لہٰذا یہ حدیث صریح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ پانچ رکعتیں اس طرح ملا کر پڑھنا کہ ان میں سے کسی ایک رکعت میں بھی تشہد کے لئے نہ بیٹھا جائے بلکہ صرف آخری یعنی پانچویں رکعت کے بعد قعدہ کیا جائے جائز ہے لیکن فقہا کے ہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے چناچہ جن حضرات کے ہاں یہ جائز نہیں ہے وہ عدم جلوس کی تاویل عدم سلام سے کرتے ہیں یعنی ان کے نزدیک لا یجلس فی شی الا فی اخرھا کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ پانچ رکعتوں میں سے صرف آخری رکعت کے بعد سلام پھیر تے تھے درمیان میں کسی بھی رکعت کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے چناچہ بعض روایتوں میں مذکور بھی ہے کہ لم یسلم الا فی آخرین بعض حضرات نے یہ تاویل بھی کی ہے کہ ان پانچ رکعتوں میں سوائے آخری رکعت کے کسی میں بھی جلوس دراز نہیں کرتے تھے یعنی طویل قعدہ نہیں کرتے تھے صرف آخری رکعت میں آپ ﷺ کا قعدہ طویل ہوتا تھا۔ بہر حال چار سے زیادہ رکعتوں کو ملا کر ایک سلام کے ساتھ پڑھنا متفقہ طور پر تمام علماء کے ہاں جائز ہے لیکن حنفیہ کے ہاں اتنا فرق ہے کہ ان کے نزدیک آٹھ رکعت تک ملا کر ایک سلام کے ساتھ پڑھنا تو بلا کراہت جائز ہے مگر آٹھ رکعتوں کے بعد کراہت کے ساتھ جائز ہے۔

【5】

رسول اللہ ﷺ کی نماز تہجد و نماز و تر

اور حضرت سعد بن ہشام فرماتے ہیں کہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ام المومنین ! مجھے سرور کونین ﷺ کے خلق کے بارے میں بتلائیے ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کیا تم نے قرآن کریم نہیں پڑھا َ ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! پڑھا ہے ! فرمایا رسول اللہ ﷺ کا خلق قرآن ہی تھا (یعنی قرآن کریم میں جتنے بھی اخلاق کریمہ اور صفات حمیدہ مذکور ہیں رسول اللہ ﷺ نے ان سب کو اپنی ذات میں سمو لیا تھا۔ گویا ً رسول اللہ ﷺ کی اخلاقی زندگی قرآن حکیم کا عملی نمونہ تھی پھر میں نے عرض کی ام المؤمنین ! اچھا رسول اللہ ﷺ کے وتر کے بارے میں مجھے بتائیے کہ (آپ ﷺ وتر کس وقت اور کس طرح نیز کتنی رکعت پڑھا کرتے تھے) حضرت عائشہ نے فرمایا میں (پہلے ہی سے) رسول اللہ ﷺ کی مسواک اور وضو کے لئے پانی کا انتظام کئے رہی تھی اور جب اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو رات کو اٹھانا چاہتا تھا اٹھاتا، چناچہ (آپ بیدار ہو کر پہلے) مسواک کرتے، پھر وضو کرتے اور نو رکعت نماز پڑھتے اور سوائے آٹھویں رکعت کے اور کسی رکعت میں نہ بیٹھتے، جب آٹھویں رکعت پڑھ لیتے تو (تشہد میں) بیٹھتے اور اللہ کا ذکر کرتے، اس کی تعریف بیان کرتے اور دعا مانگتے (یعنی التحیات پڑھتے کہ اس میں اللہ کا ذکر، حمد اور دعا سب ہی کچھ ہے پھر سلام پھیرے بغیر نویں رکعت پڑھے کھڑے ہوجاتے، پھر نویں رکعتی پوری کر کے تشہد میں بیٹھتے اور اللہ کا ذکر کرتے، اس کی تعریف بیان کرتے اور اس سے دعا مانگتے یعنی التحیات پڑھ کر جو دعا پڑھی جاتی ہے) وہ دعا پڑھتے پھر ہمیں سناتے ہوئے بآواز بلند سلام پھیرتے، پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کردو رکعت پڑھتے اور اے میرے بچے، یہ کل گیارہ رکعتیں ہوگئیں اور جب آپ کی عمر زیادہ ہوگئی اور بڑھاپے کی وجہ سے بدن پر گوشت چڑھ گیا تو سات رکعتیں مع وتر کے پڑھنے لگے اور دو رکعت پہلے ہی کی طرح (یعنی بیٹھ کر) پڑھتے رہے۔ اے میرے بچے یہ کل نو رکعتیں ہوئیں اور رسول اللہ ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو اس بات کو پسند کرتے کہ اسے ہمیشہ پڑھا جائے اور جب کسی دن آپ ﷺ کو نیند زیادہ آجاتی یا کوئی اور تکلیف پیش آجاتی جس کی وجہ سے آپ ﷺ کے لئے رات کو کھڑے ہونا ممکن نہ ہوتا تو آپ ﷺ دن کے پہلے حصے میں (یعنی زوال سے پہلے) بارہ رکعت پڑھ لیتے اور میں نہیں جانتی کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی ایک رات میں پورا قرآن مجید پڑھایا صبح تک (یعنی شروع رات سے آخر رات تک، نماز پڑھی ہو اور نہ آپ ﷺ نے کبھی سوائے رمضان کے پورے مہینے روزے رکھے۔ (صحیح مسلم) تشریح جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مداومت عمل کو بہت زیادہ پسند فرماتے تھے۔ چناچہ آپ ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب کوئی نفل نماز پڑھتے یا اسی طرح کوئی بھی نفل عبادت کرتے تو اس پر دوام اختیار فرماتے۔ ہاں اگر کوئی عذر پیش آجاتا یا بیان جواز کا اظہار مقصود ہوتا تو کبھی ترک بھی فرما دیتے تھے۔ یہاں تو حضرت عائشہ فرما رہی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے علاوہ کسی بھی مہینہ میں پورے مہینے روزے نہیں رکھتے تھے جب کہ ان کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ شعبان میں پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے۔ لہٰذا حضرت عائشہ کی ان دونوں روایتوں کے ظاہری تعارض کو خود انہیں کی ایک تیسری روایت نے ختم کردیا ہے جس میں انہوں نے تصریح کردی ہے کہ رسول اللہ ﷺ شعبان (میں پورے مہینے کے نہیں بلکہ) اس کے اکثر دنوں میں روزے رکھتے تھے۔ وتر کے بعد دو رکعت نفل پڑھنے کا مسئلہ وتر کے بعد دو رکعت نفل پڑھنے کا اثبات نہ صرف یہ کہ اسی روایت سے ہوتا ہے بلکہ اور بھی بہت سے روایتیں وارد ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وتر پڑھنے کے بعد دو رکعت نفل نماز پڑھی جاسکتی ہے لیکن ابھی اس کے بعد ہی ایک روایت آرہی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ اجعلو اخر صلاتکم باللیل وتر اپنی رات کی نماز میں آخری نماز وتر کو رکھو لہٰذا بظاہر ان تمام روایتوں میں بڑا سخت تعارض نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس تعارض کو رفع کرنے کے لئے علماء کو بڑی محنت کرنا پڑی ہے۔ حضرت امام احمد نے درمیانی راہ نکالنے کی کوشش کی ہے چناچہ وہ فرماتے ہیں کہ وتر کے بعد دو رکعت نماز نہ تو میں خود پڑھتا ہوں اور نہ کسی دوسرے کو پڑھنے سے منع کرتا ہوں۔ جمہور علماء کا کہنا ہے کہ چونکہ وتر کے بعد دو رکعت نفل کا پڑھنا بہر حال حدیث صحیح سے ثابت ہے اس لئے اس سے بالکل صرف نظر بھی نہیں کیا جاسکتا لہٰذا یہ حضرات دونوں رکعتوں کے پڑھنے کے قائل ہیں جہاں تک احادیث کے باہم تعارض کو رفع کرنے کا سوال ہے تو ان حضرات کی جانب سے ان حادیث میں دو طرح کی تطبیق پیدا کی گئی ہے۔ ایک تو یہ کہ اجعلو اخر صلاتکم باللیل وترا میں صلوٰۃ سے مراد ان دو رکعتوں کے علاوہ دوسرے نوافل ہیں اس طرح اس حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ رات کو وتر پڑھ لینے کے بعد ان دونوں رکعتوں کے علاوہ دوسرے نوافل نہ پڑھو۔ دوسری تطبیق جمہور علماء کی طرف سے یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس سلسلے میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ کبھی تو وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھ لی جائیں اور کبھی نہ پڑھی جائیں تاکہ دونوں احادیث پر عمل ہوتا رہے۔ گویا یوں کہنا چاہیے کہ حدیث اجعلوا اخر صلو تک الخ استحباب پر محمول ہے نہ کہ وجوب پر یعنی اس میں جو حکم دیا گیا ہے وہ استحباب کے طور پر ہے وجوب کے طور پر نہیں ہے۔ اس کے بعد یہ بات بھی اختلافی ہے کہ آیا رسول اللہ ﷺ وتر کے بعد دو رکعت اس صورت میں پڑھتے تھے جب کہ آپ ﷺ وتر رات کے ابتدائی حصے میں ہی یعنی عشاء کے بعد ادا کرتے تھے یا اس شکل میں پڑھتے تھے جب کہ آپ ﷺ وتر آخر رات کو تہجد کے بعد ادا کرتے تھے ؟ چناچہ اس سلسلے میں ابوامامہ سے جو حدیث منقول ہے وہ تو مطلق ہے اس میں صرف اتنا ہی مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ یہ کچھ ذکر نہیں ہے کہ جو حدیث منقول ہے وہ تو مطلق ہے اس میں صرف اتنا ہی مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ یہ کچھ ذکر نہیں ہے کہ اول شب میں پڑھتے تھے یا آخر شب میں مگر ثوبان سے جو حدیث منقول ہے وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ ﷺ کا وتر کے بعد پڑھنا اس صورت میں تھا جبکہ آپ ﷺ اول شب میں وتر ادا کرتے تھے۔ یہ دونوں حدیثیں اسی باب کے آخر میں آرہی ہیں صحیح البخاری و صحیح مسلم اور موطا کی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ قیام لیل کی صورت میں تھا یعنی آپ ﷺ رات کو تہجد کی نماز پڑھتے تو وتر کے بعد رکعت بھی پڑھا کرتے تھے اور یہی صحیح بھی ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ دونوں رکعتیں وتر کے ملحق ہیں اور وتر کی سنتوں کے قائم مقام ہیں۔ یعنی جس طرح فرض نماز کی سنتیں ہوتی ہیں کہ وہ فرض نماز سے پہلے یا بعد میں پڑھی جاتی ہیں اسی طرح یہ دونوں رکعتیں وتر کی سنتوں کے قائم مقام ہیں جو وتر کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔

【6】

وتر رات کی آخری نماز ہونی چاہیے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا اپنی رات کی نماز میں آخری نماز وتر کو قرار دو ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کے بارے میں اوپر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے مگر اس موقع پر بھی ایک مرتبہ پھر جان لیجئے کہ اس حدیث میں جو حکم دیا جا رہا ہے وہ وجوب کے طور پر نہیں ہے بلکہ استحباب کے طور پر ہے۔

【7】

وتر رات کی آخری نماز ہونی چاہیے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا صبح (آثار نمایاں ہونے پر) وتر میں جلدی کرو۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ صبح ہونے سے پہلے پہلے وتر پڑھ لیا کرو حنفیہ کے نزدیک یہ حکم وجوب کے لئے ہے اگر رات کو وتر کی نماز رہ جائے تو دن کو اس کی قضا دینا واجب ہے۔

【8】

وتر کے اوقات

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جس آدمی کو اس بات کا خوف ہو کہ آخر رات کو وتر پڑھنے کے لئے نہ اٹھ سکوں گا تو اسے چاہیے کہ وہ شروع رات ہی میں (یعنی عشاء کے فورا بعد) وتر پڑھ لے اور جس آدمی کو آخر رات میں اٹھنے کی امید ہو تو وہ آخر رات ہی میں وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی نماز مشہودہ ہے (یعنی) اس وقت رحمت کے فرشتوں اور انوارو برکات کا نزول ہوتا ہے اور یہ (یعنی آخررات میں و تر پڑھنا) افضل ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح آخر رات کی فضیلت و برکات کے بارے میں آپ گزشہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں کہ رات کے اس حصے میں جو بھی عبادت کی جائے گی وہ ثواب وسعادت کے اعتبار سے بہت زیادہ افضل ہوگی۔ اسی لئے آخر رات میں وتر کی نماز پڑھنا افضل ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ اس افضل وقت میں وتر کی ادائیگی ہوتی ہے بلکہ اس وقت رحمت کے فرشتوں اور حق تعالیٰ کے انواروبرکات کے نزول کی وجہ سے ثواب بھی بہت زیادہ ملتا ہے۔

【9】

وتر کے اوقات

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے رات کے ہر حصے میں وتر کی نماز پڑھی ہے۔ یعنی ابتدائی رات میں بھی اور عشاء کی نماز کے فورا بعد رات کے درمیانی حصے میں بھی اور آخر رات میں بھی مگر آخر عمر میں آپ ﷺ نے وتر کے لئے سحر کا وقت یعنی رات کا چھٹا حصہ مقرر کرلیا تھا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

【10】

رسول اللہ ﷺ کی طرف سے حضرت ابوہریرہ کو تین باتوں کی وصیت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میرے دوست یعنی سرور کونین ﷺ نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی تھی ایک تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھنے کی دوسری دو رکعت ضحی کی نماز پڑھنے کی اور تیسری یہ کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لوں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح ہر مہینے کے تین روزے کے تعین میں مختلف اقوال ہیں چناچہ بعض علماء نے کہا ہے کہ مہینے کے تین روزوں سے ایام بیض یعنی ہر مہینے کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں تاریخ کے روزے مراد ہیں۔ بعض حضرات کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ایک روزہ ابتدائی مہینے میں ایک روزہ درمیان میں اور ایک روزہ آخر مہینہ میں رکھا جائے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ مطلق ہے یعنی اختیار ہے کہ پورے مہینے میں جب چاہے تین روزے رکھے لے۔ ضحی کی دو رکعتوں سے نماز اشراق یا نماز چاشت مراد ہے جو آفتاب بلند ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے ان نمازوں کا ادنیٰ درجہ دو رکعت ہے مگر اشراق کی نماز کا اکثر درجہ چھ رکعت اور چاشت کی نماز کا بارہ رکعت ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کو اول شب میں وتر پڑھ لینے کے لئے اس وجہ سے فرمایا کہ وہ رات کے ابتدائی حصے میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث کو یاد کرنے اور ان کی تکرار میں مشغول رہتے تھے جس کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا تھا اس وجہ سے ان کے لئے آخر رات میں اٹھنا بہت مشکل تھا چناچہ اسی مشغولیت علم کی وجہ سے انہیں اشراق یا چاشت کی بھی دو ہی رکعتیں پڑھنے کے لئے فرمایا۔ لہٰذا اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علم دین کے حصول اور اس کی ترویج و اشاعت میں رہنا نفل عبادت کی مشغولیت سے بہتر ہے۔

【11】

رسول اللہ ﷺ رات کے شروع بھی وتر پڑھتے تھے

حضرت غضیف ابن حارث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے پوچھا کہ سرور کونین ﷺ غسل جنابت شروع رات میں کرتے تھے یا آخر رات میں ؟ یعنی آپ ﷺ جماع سے فارغ ہوتے ہی نہا لیتے تھے یا اس وقت تو سور ہتے اور جب تہجد کی نماز کے لئے اٹھتے تو نہاتے حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ کبھی آپ ﷺ (جماع سے فارغ ہوتے ہی) شروع رات ہی میں نہا لیتے تھے اور کبھی آخر میں غسل فرماتے میں نے کہا اللہ بہت بڑا ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے زیبا ہیں جس نے دینی امور میں آسانی عطا فرمائی اور پھر پوچھا کہ آپ ﷺ وتر کی نماز شروع رات میں (عشاء کے فورا بعد ہی) پڑھ لیتے تھے یا آخر شب میں پڑھتے تھے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کبھی تو شروع رات ہی میں پڑھ لیتے تھے اور کبھی آخر رات میں پڑھتے تھے میں نے کہا اللہ بہت بڑا ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے زیبا ہیں جس نے دینی امور میں آسانی عطا فرمائی اور پھر پوچھا آپ ﷺ تہجد کی نماز میں یا مطلقاً کسی بھی نماز میں قرأت بآواز بلند فرماتے تھے یا آہستہ آواز سے ؟ انہوں نے فرمایا کبھی تو بآواز بلند قرأت فرماتے تھے اور کبھی آہستہ آواز سے میں نے کہا بڑا اللہ بہت بڑا ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے زیبا ہیں جس نے دینی امور میں آسانی عطا فرمائی ابوداؤد، ابن ماجہ نے اس روایت کا صرف آخری فقرہ (جس میں قرأت کا ذکر ہے) نقل کیا ہے۔

【12】

نماز تہجد ووتر کی رکعتوں کی تعداد

اور حضرت عبداللہ بن ابی قیس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے پوچھا سرور کونین ﷺ کتنی رکعتوں کے ساتھ وتر پڑھتے تھے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کبھی چار اور تین (یعنی سات) کبھی چھ اور تین (یعنی نو) رکعتوں کے ساتھ، کبھی آٹھ اور تین (یعنی گیارہ) رکعتوں کے ساتھ اور کبھی دس اور تین (یعنی تیرہ) رکعتوں کے ساتھ وتر پڑھتے تھے اور آپ ﷺ سات سے کم اور تیرہ سے زیادہ رکعتوں کے ساتھ کبھی وتر نہیں پڑھتے تھے۔ (ابوداؤد) تشریح چار اور تین رکعتوں کے ساتھ کا مطلب یہ ہے کہ چار رکعتیں تو تہجد کی ہوتی تھیں اور تین رکعتیں وتر کی، اس طرح مجموعی طور پر سات رکعتیں ہوگئی۔ گویا پہلی چار رکعتوں کو بھی مجازا وتر ہی میں شمار کیا اسی طرح چھ رکعتیں تہجد کی اور تین وتر کی ان کی مجموعی تعداد نو رکعتیں ہوئی، آٹھ رکعتیں تہجد کی اور تین رکعتیں وتر کی ان کی مجموعی تعداد گیارہ رکعت ہوئی اور دس نماز تہجد کی اور تین رکعتیں وتر کی، ان کی مجموعی تعداد تیرہ رکعتیں ہوئی۔ بہر حال یہ حدیث صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے کہ وتر کی ایک رکعت نہیں بلکہ تین رکعتیں ہیں۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ﷺ نے کبھی بھی وتر کی نماز سات سے کم اور تیرہ سے زیادہ رکعت کے ساتھ نہیں پڑھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اکثر آپ ﷺ سات رکعتیں سے کم کے ساتھ وتر نہیں پڑھتے، چناچہ آپ ﷺ سے پانچ رکعتیں بھی ثابت ہیں۔ اسی طرح اکثر آپ ﷺ تیرہ رکعتوں سے زیادہ کے ساتھ وتر نہیں پڑھتے تھے چناچہ پندرہ رکعتیں بھی آپ ﷺ سے پڑھنی ثابت ہیں۔

【13】

نماز وتر واجب ہے

اور حضرت ابوایوب (رض) راوی ہیں کہ سرو کونین ﷺ نے فرمایا وتر کی نماز ہر مسلمان پر حق یعنی لازم ہے لہٰذا جو آدمی وتر پانچ رکعتیں پڑھنا چاہے وہ پانچ رکعتیں پڑھ لے، جو آدمی تین رکعتیں پڑھنا چاہیے وہ تین رکعتیں پڑھ لے اور جو آدمی ایک ہی رکعت پڑھنا چاہے وہ ایک ہی رکعت پڑھ لے۔ (ابوداؤد، سنن نسائی، ابن ماجہ) تشریح حق کے معنی ہیں واجب اور ثابت، لہٰذا حضرت امام ابوحنیفہ تو حق کے معنی واجب مراد لیتے ہیں، اس لئے وہ فرماتے ہیں کہ وتر کی نماز واجب ہے، حضرت امام شافعی حق کے معنی ثابت مراد لیتے ہیں یعنی وتر کی نماز سنت سے ثابت ہے لہٰذا وہ فرماتے ہیں کہ وتر کی نماز سنت ہے چونکہ اس حدیث میں وتر کی رکعتوں کی تعداد پانچ بھی ثابت ہے اور تین اور ایک بھی، اس لئے حضرت سفیان ثوری اور دیگر ائمہ نے تو پانچ کے عدد کو اختیار کیا ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے تین کے عدد کو قبول کیا ہے اور حضرت امام شافعی نے ایک کے عدد کو اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وتر کی ایک ہی رکعت ہے۔

【14】

وتر کی فضیلت

اور حضرت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ اللہ تعالیٰ وتر ہے، وتر کو دوست رکھا ہے لہٰذا اے اہل قرآن وتر پڑھو۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح اللہ تعالیٰ وتر ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنی ذات وصفات میں یکتا ہے، تنہا ہے اس کا کوئی مثل نہیں ہے اسی طرح اپنے افعال میں بھی وہ یکتا ہے کہ کوئی اس کا مددگار اور شریک نہیں ہے۔ وتر کو دوست رکھتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ وتر کی نماز پڑھنے والے کو بہت زیادہ ثواب سے نوازتا ہے اور اس کی اس نماز کو قبول فرماتا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ جل شانہ، چونکہ اپنی ذات وصفات اور اپنے افعال میں یکتا و تنہا ہے کہ کوئی اس کا مثل، شریک اور مددگار نہیں اس لئے وہ طاق عدد کو پسند فرماتا ہے اور چونکہ وتر بھی طاق ہے اس لئے اس کو بھی پسند کرتا ہے اور اس کے پڑھنے والے کو بہت زیادہ ثواب کی سعادت سے نوازتا ہے۔

【15】

وتر کی فضیلت

اور حضرت خارجہ بن حذافہ (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرور کونین ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ جل شانہ نے ایک ایسی نماز سے تمہاری امداد کی ہے (یعنی نماز پنج گانہ سے ایک اور زیادہ نماز تمہیں دی ہے) جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے اور وہ وتر کی نماز ہے اور تمہارے لئے یہ نماز عشاء کی نماز کے بعد سے فجر نکلنے تک کے درمیان مقرر کی گئی ہے۔ (یعنی اس وقت ان اوقات کے درمیان درمیان ہے جب چاہو پڑھو) ۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد) تشریح چونکہ عرب میں اونٹ بہت قیمتی ہوتے ہیں اور عرب والوں کے لئے اموال میں یہ سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں اس لئے رسول اللہ ﷺ نے رغبت دلانے کے لئے فرمایا کہ وتر کی نماز سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے گویا مراد یہ ہے کہ وتر کی نماز دنیا کی تمام متاع سے زیادہ بہتر ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وتر کی نماز واجب ہے اور اس کو عشاء کی نماز سے پہلے پڑھنا جائز نہیں ہے۔

【16】

وتر کی قضا کا حکم

اور حضرت زید بن اسلم راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا جو آدمی وتر سے غافل ہو کر (یعنی وتر پڑھے بغیر) سو جائے تو اسے چاہیے کہ صبح ہو تو پڑھ لے اس روایت کو ترمذی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔ تشریح اگر کسی ایسے آدمی کی وتر کی نماز رات کو پڑھنے سے رہ جائے جو صاحب ترتیب ہے تو صبح اٹھ کر اگر اس کے لئے ممکن ہو یعنی اتنا وقت ہو کہ وتر پڑھ سکے تو فجر کی فرض نماز سے پہلے وتر کی قضا پڑھ لے۔ اور اگر فجر کے فرض سے پہلے اس کا پڑھنا ممکن نہ ہو یعنی اتنا وقت نہ ہو تو پھر فجر کی فرض نماز پڑھنے کے بعد پڑھے۔ ہاں اگر ایسے آدمی کے وتر رہ گئے ہوں جو صاحب ترتیب نہیں ہے تو اسے اختیار ہے چاہے تو نماز فجر سے پہلے پڑھ لے اور چاہے نماز فرض کے بعد پڑھے۔

【17】

رسول اللہ ﷺ وتر میں کون کونسی سورتیں پڑھتے تھے

اور حضرت عبدالعزیز بن جریج فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عائشہ (رض) پوچھا کہ سرور کونین ﷺ وتر میں کون کون سے سورتیں پڑھا کرتے تھے ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ آپ ﷺ پہلی رکعت میں سَبَّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی دوسری رکعت میں قُلْ ٰیاَ یُّھَا الْکٰفِرُوْنَ اور تیسری رکعت میں اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھا کرتے تھے (جامع ترمذی وسنن ابوداؤد) اور اس روایت کو امام نسائی نے حضرت عبدالرحمن بن ابزی سے، امام احمد نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے اور امام دارمی نے حضرت عباس (رض) سے نقل کیا ہے مگر امام دارمی نے اپنی روایت میں لفظ معوذتین ذکر نہیں کیا یعنی انہوں نے محض یہ نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ وتر کی تیسری رکعت میں صرف قل ھو اللہ پڑھتے تھے۔ تشریح محقق علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ حنفیہ نے آخری روایت یعنی درامی کی نقل کردہ روایت پر عمل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی تیسری رکعت میں قل ھو اللہ پڑھا کرتے تھے۔ چناچہ حنفی حضرات وتر کی تیسری رکعت میں صرف قل ہو اللہ ہی پڑھتے ہیں۔ حنفی حضرات کے پیش نظر صرف یہی روایت نہیں بلکہ حضرت عائشہ ہی کی ایک دوسری روایت بھی ان کے مسلک کی دلیل ہے جس میں منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ تیسری رکعت میں قل ہو اللہ ہی پڑھتے تھے۔ جہاں تک حضرت عائشہ کی اس روایت کا تعلق ہے جو یہاں نقل کی گئی ہے اور جس سے وتر کی تیسری رکعت میں قل ہو اللہ کے علاوہ معوذتین (یعنی قل اعوذ برب الفلق و قل اعوذ برب الناس) کا پڑھنا بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس پر حنفیہ اس لئے عمل نہیں کرتے کہ اول تو اس روایت کی سند میں ضعف ہے، نیز یہ کہ اس میں جو طریقہ ذکر کیا گیا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کی عادت کے خلاف معلوم ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں تو یہ صراحت سے ثابت ہوچکا ہے کہ آپ ﷺ بعد کی رکعت کو پہلی رکعتوں کی بنسبت مختصر کرتے تھے جب کہ اس روایت کے پیش نظر تیسری رکعت میں پہلی دونوں رکعتوں کی بنسبت کہیں زیادہ طویل ہوجاتی ہے ملا علی قاری نے اس سلسلے میں تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے اور حنفیہ کی طرف سے اور بھی دلائل پیش کئے ہیں جسے اہل علم ان کی کتاب مرقاۃ میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ حدیث بصراحت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی تینوں رکعتیں ایک ہی سلام سے پڑھتے تھے۔

【18】

وتر میں پڑھی جانے والی دعا

اور حضرت حسن بن علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے مجھے کچھ کلمات سکھائے تاکہ میں انہیں وتر کی دعا قنوت میں پڑھا کروں اور وہ کلمات دیا یہ ہیں اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِی فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِی فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِی فِیْمَآ اَعْطَیْتَ وَقِنِی شَرَّ مَاقَضَّیْتَ فَاِنَّکَ تَقْضِی وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ اِنَّہ، لَّا یُذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ اے اللہ ! مجھے ہدایت کر ان لوگوں کے ساتھ (یعنی انبیاء و اولیا کے ساتھ) جن کو تو نے ہدایت کی مجھے دنیا اور آخرت کی مصیبتوں اور آفتوں سے بچا اور لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے بچایا اور مجھ سے محبت کر ان لوگوں کے ساتھ جن سے تو نے محبت کی اور جو کچھ تو نے مجھے عطا کیا ہے (یعنی عمر، مال، علم اور نیک اعمال) ان میں برکت عطا فرما اور مجھے ان برائیوں سے بچا جو مقدر ہوں، بیشک تو جو چاہتا ہے وہ حکم کرتا ہے اور تجھے کوئی حکم نہیں کرتا (یعنی تو حاکم مطلق ہے محکوم نہیں ہے اور جسے تو دوست رکھتا ہے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا اے ہمارے رب تو بابرکت ہے (یعنی دارین پر تیرا خیر ہی خیر محیط ہے) اور تیری ذات بلندو برتر ہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی) تشریح حضرت حسن کے الفاظ اقولھن فی قنوت الوتر (تاکہ میں وتر کی دعا قنوت میں پڑھا کروں) سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قنوت الوتر کو مطلقاً زکر کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دعا تمام سال یعنی تمام دنوں میں پڑھنی مراد ہے جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے مگر حضرت شوافع دعائے قنوت کو رمضان کے آخری نصف ایام میں وتر کے ساتھ مقید کرتے ہیں گویا کہ شافعی حضرات کے یہاں تو صرف رمضان کے نصف آخری ایام میں وتر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے جب کہ حنفی حضرات تمام دنوں میں نماز وتر میں دعائے قنوت پڑھتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ اَھْدِنِی اے اللہ ! مجھے ہدایت کر یعنی ہدایت کے راستے پر مجھے ثابت قدم رکھ۔ یا ہدایت کے اسباب و ذرائع زیادہ سے زیادہ مجھے عطا فرماتا کہ ان کو اختیار کر کے اعلیٰ مرتبے اور علیٰ درجے پر پہنچ سکوں۔ انہ لا یذل من والیت (جسے تو دوست رکھتا وہ ذلیل نہیں ہوسکتا کا مطلب یہ ہے کہ جسے تو نے اپنا دوست بنا لیا بایں طور کہ اسے نیک راستے پر چلنے اور صالح اعمال اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما کر سعادت و خوشی بختی کے مرتبے پر فائز کیا وہ آخرت میں ذلیل و شرمسار نہیں ہوسکتا۔ پھر یہاں مطلقاً ذلت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرما نبردار بندہ جسے وہ محبوب رکھتا ہے، نہ آخرت میں نادم و شرمسار ہوسکتا ہے اور نہ ہی دنیا میں ذلت و رسوائی اس کے پاس پھٹک سکتی ہے۔ اگرچہ بظاہر دنیا کی نظروں میں وہ کسی بلاو مصیبت میں گرفتار ہو یا کوئی آدمی اسے ذلیل و خوار کرے مگر حقیقت میں وہ اللہ کے نزدیک با عظمت و با عزت ہی ہوتا ہے جیسا کہ دنیا کے لوگوں نے اللہ کے پیغمبر اور نبی حضرت زکریا (علیہ السلام) کو آرے سے چیرا اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو ذبح کیا۔ لہٰذا ان جلیل القدر پیغمبروں کو ظلم و ستم کے اس اسٹیج سے اس لئے گزرنا نہیں پڑا کہ معاذ اللہ وہ اللہ کے محبوب اور دوست نہیں تھے بلکہ درحقیقت ان کو امتحان و آزمائش میں ڈالا گیا۔ غرضیکہ دنیا والوں کے ذلیل کرنے سے اللہ کے نیک و محبوب بندے ذلیل نہیں ہوتے اللہ کے نزدیک وہ عزت والے ہی ہوتے ہیں۔ بعض روایتوں میں اِنَّہ لَّا یُذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ کے بعد ولا یعزمن عادیت (اور جس سے تجھ کو عداوت ہو وہ عزت نہیں پاسکتا) کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ اسی طرح بعض روایتوں میں وَتَعَالَیْتَ کے بعد نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ الیک (اے اللہ ہم اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور تیرے ہی سامنے توبہ کرتے ہیں) اور بعض روایتوں میں اس کے بعد الفاظ مزید نقل کئے گئے ہیں۔ بہر حال حضرات شوافع کی دعا قنوت یہ ہے کہ وہ حضرات اسی دعا کو وتر اور فجر نماز میں پڑھتے ہیں حنفی حضرات کے ہاں وتر کی نماز میں جو دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے وہ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ الخ ہے جو ہم شروع باب میں نقل کرچکے ہیں۔ بعض علماء کی رائے ہے کہ وتر کی نماز میں اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُک الخ اور اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ الخ دونوں دعائیں پڑھنا افضل ہے جیسا کہ شروع باب میں ہم نے دونوں دعائیں نقل کی ہیں۔ دعائے قنوت کے سلسلہ میں ائمہ کے ہاں مختلف فیہ چیزیں محقق علامہ ابن ہمام علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ سلسلے میں ائمہ کے ہاں تین باتیں مختلف فیہ ہیں ایک تو یہ کہ دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھی جائے یا بعد میں ؟ دوسری بات یہ کہ دعاء قنوت و ترکی نماز میں تمام دنوں میں پڑھی جائے یا صرف رمضان کے آخری نصف حصے میں ؟ تیسری چیز یہ کہ دعاء قنوت وتر کے علاوہ کسی اور نماز میں پڑھی جائے یا نہیں ؟ چناچہ حضرت امام شافعی تو فرماتے ہیں کہ دعائے قنوت رکوع کے بعد پڑھی جائے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی دلیل بہت زیادہ قوی ہے اس سلسلے میں اہل علم اور محققین حضرات مرقاۃ میں پوری تفصیل دیکھ سکتے ہیں جہاں تک دوسری اور تیسری مختلف باتوں کا تعلق ہے تو ہم انشاء اللہ ان دونوں مسئلوں کو آگے آنے والے باب باب القنوت میں تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔

【19】

نماز وتر کے سلام کے بعد تسبیح

اور حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ جب وتر کی نماز میں سلام پھیرتے تو یہ کہتے سُبْحَانَ الْمَلَکُ الْقُدُّوْسِ (یعنی پاک ہے بادشاہ نہایت) ( ابوداؤد و سنن نسائی) نسائی نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ آپ ﷺ یہ (تسبیح) تین مرتبہ کہتے تھے اور تیسری مرتبہ آواز بلند فرماتے تھے، نیز نسائی نے ایک روایت عبدالرحمن بن ابزی سے نقل کی ہے جس میں وہ (عبدالرحمن) اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ (رسول اللہ ﷺ جب سلام پھیر لیتے تو تین مرتبہ سُبْحَانَ الْمَلَکُ الْقُدُّوْسِ فرماتے ہیں اور تیسری مرتبہ بآواز بلند فرماتے ہیں۔ تشریح دار قطنی نے جو روایت نقل کی ہے اس میں رَبُّ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوْحِ کے الفاظ بھی مذکور ہیں، گویا پوری تسبیح یوں ہے سُبْحَانَ الْمَلَکُ الْقُدُّوْسِ رَبُّ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوْحِ ۔

【20】

نماز وتر میں رسول اللہ ﷺ کی دعا

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ اپنی نماز و تر کے آخر میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِرَضَائِکَ مِنْ سَخَطِکَ بِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ اَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِیَ ثَنَاءُ عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ اے اللہ میں پناہ چاہتا ہوں تیری رضا و خوشنودی کے ذریعے تیرے غضب سے اور تیری عافیت کے ذریعے تیرے عذاب سے اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے ذریعہ تیرے آثار صفات (یعنی غضب و غصہ سے (مجھ میں طاقت نہیں کہ تیری تعریف کرسکوں کیونکہ) تیری تعریف کا شمار نہیں تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے اپنی تعریف کی۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) تشریح رسول اللہ ﷺ یہ دعا وتر کی تیسری رکعت میں رکوع کے بعد پڑھا کرتے تھے چناچہ حضرت امام مالک (رح) نے اس کو اختیار کیا ہے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ یہ دعا سلام کے بعد پڑھتے تھے اور بعض کا قول ہے کہ سلام سے پہلے التحیات میں پڑھتے تھے اسی طرح بعض محققین کا کہنا ہے کہ آپ یہ دعا سجود میں پڑھا کرتے تھے۔ سنن نسائی نے ایک روایت اور نقل کی ہے جس میں صراحت کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنی نماز سے فارغ ہوجاتے اور بستر پر تشریف لاتے تو یہ دعا پڑھتے۔ وا اللہ اعلم مستقل طور پر کسی خاص دعاء قنوت کو مقرر کرلینے کا مسئلہ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ دعائے قنوت کے سلسلے میں تو قیف نہ کی جائے یعنی ایک ہی دعا کو پڑھنے کے لئے بطور خاص مقرر نہ کرلیا جائے کیونکہ کسی دعا کو مقرر کرلینے اور پھر اسی کو مستقل طو پر پڑھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ دعا زبان پر بایں طور جاری ہوجاتی ہے کہ قلب زبان کی ہمنوائی سے محروم ہوتا ہے۔ یعنی اس دعا کے پڑھنے کے وقت عادت کے مطابق صرف زبان ہی کام کرتی ہے دل میں نہ تو دعا کے مقصود کی لگن ہوتی ہے اور نہ اس کی طرف رغبت کا احساس ہوتا ہے لہٰذا دعا کا جو مقصود اور مطلوب ہوتا ہے وہ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ دعا تو وہی کام کرتی ہے جو قلب کی گہرائیوں سے نکلتی ہے اور جو احساس و شعور اور دلی رغبت زبان کی ہمنوا ہوتی ہے۔ لیکن بعض دوسرے علماء یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ حکم اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُک الخ کے علاوہ دوسری دعاؤں کے بارے میں ہے یعنی اسی دعا کو بطور خاص مستقل طور پر پڑھنے کے لئے مقرر کرلینا منع نہیں ہے البتہ اس کے علاوہ دوسری دعاؤں کو مستقل طور پر اختیار نہ کیا جائے بلکہ کبھی کوئی دعا پڑھ لی جائے اور کبھی کوئی کیونکہ صحابہ کرام نے اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُک الخ کے پڑھنے پر اتفاق کیا ہے اور یہی دعا مستقل طور پر پڑھتے تھے اگرچہ اس کے علاوہ دوسری دعائے قنوت بھی جائز ہے۔ اسی طرح محیط میں اَللّٰہُمَّ اھْدِنِیْ کو بھی متسثنیٰ قرار دیا گیا ہے یعنی اس دعا کی تو قیف بھی ممنوع نہیں ہے۔

【21】

حضرت معاویہ کا ایک رکعت وتر پڑھنا

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ امیر المومنین حضرت معاویہ (رض) کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو وتر کی ایک رکعت پڑھتے ہیں ؟ حضرت عباس نے فرمایا وہ فقیہ ہیں (جو کچھ کرتے ہیں) اچھا کرتے ہیں ایک دوسری روایت میں حضرت ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ (رض) نے عشاء کی نماز کے بعد وتر کی ایک رکعت پڑھی، ان کے پاس ہی حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کے آزاد کردہ غلام بھی موجود تھے (جب انہوں نے یہ دیکھا تو) وہ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں بتایا (کہ حضرت معاویہ نے وتر کی ایک رکعت پڑھی ہے) حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ان کے بارے میں کچھ نہ کہو، انہیں رسول اللہ ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل ہے ( ہوسکتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا کوئی ایسا عمل دیکھا ہو جو دوسرے نہ دیکھ سکے ہوں) ۔ (صحیح البخاری ) تشریح بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ (رض) نے وتر کی ایک ہی رکعت پڑھی ہوگی جس پر دیکھنے والوں کو تعجب ہوا ہو کہ جب دوسرے صحابہ کرام وتر کی تین رکعتیں پڑھتے ہیں تو یہ ایک ہی رکعت کیوں پڑھتے ہیں ؟ اور پھر انہوں نے اس کا تذکرہ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے کیا لیکن یہ بھی، احتمال ہوسکتا ہے کہ حضرت معاویہ (رض) نے پہلے پڑھی گئی دو رکعت سے ملی ہوئی وتر کی رکعت پڑھی ہو، اس صورت میں دیکھنے والوں نے اس لئے اعتراض کیا کہ حضرت معاویہ (رض) نے صرف وتر ہی پر اکتفا کیا ہوگا اور عشاء کی نماز یا تہجد کی نماز چھوڑ دی ہوگی۔

【22】

وتر پڑھنے کی تاکید

اور حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وتر حق ( یعنی واجب ہے) لہٰذا جو آدمی وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے (یعنی ہمارے تابعداروں میں سے) نہیں ہے، وتر حق ہے لہٰذا جو آدمی وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ (سنن ابوداؤد) تشریح وتر کی اہمیت اور اس کی حقیقت کو اس انداز سے بار بار بیان کرنا اور پھر اس کے نہ پڑھنے والے کے بارے میں یہ کہنا کہ جو آدمی وتر نہ پڑھے وہ ہمارے تابعداروں میں سے نہیں ہے اس بات پر صریح دلیل ہے کہ وتر کی نماز واجب ہے جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے۔

【23】

وتر کی قضاء پڑھنی چاہیے

اور حضرت ابوسعید (رض) راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جو آدمی و تر پڑھے بغیر سو جائے یا اسے پڑھنا بھول جائے تو اسے چاہیے کہ جب بھی اسے یاد آئے یا نیند سے بیدار ہو تو (اس کی قضاء) پڑھ لے۔ (جامع ترمذی ِ ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

【24】

نماز وتر واجب ہے یا سنت

اور حضرت امام مالک (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے سوال کیا کہ وتر کی نماز واجب ہے (یا سنت ہے) حضرت عبداللہ (رض) نے (کوئی صریح جواب دینے کی بجائے) فرمایا کہ وتر کی نماز رسول اللہ ﷺ نے بھی پڑھی ہے اور دوسرے مسلمانوں نے بھی ! وہ آدمی بار بار یہی سوال کرتا تھا اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) یہی کہے جاتے تھے کہ وتر کی نماز رسول اللہ ﷺ نے بھی پڑھی ہے اور دوسرے مسلمانوں نے بھی پڑھی ہے۔ موطا تشریح کسی سوال کے جواب دینے کا ایک بلیغ طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر مدلول (اصل جواب) کا ذکر نہ کیا جائے اور صرف دلیل بیان کردی جائے، چناچہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے جب ایک آدمی نے وتر کی نماز کے وجوب یا سنت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے مدلول کے بجائے صرف دلیل پر اکتفا کیا گو ان کا مطلب یہ تھا کہ وتر کی نماز واجب ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا مستقل طور پر بطریق مواظبت وتر کی نماز پڑھنا اور اہل اسلام کا اس پر متفق ہونا اس بات کی دلیل ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ جب سائل حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے صریح جواب چاہنے کے لئے ان سے باربار سوال کرتا تھا تو انہوں نے صاف طریقہ سے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ وتر کی نماز واجب ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے انداز بیان اور جواب کا یہ طریقہ احتیاط کے پیش نظر اختیار کیا کیونکہ انہوں نے اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی صریح بات نہیں سنی تھی اس لئے انہوں نے بھی صریح جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔

【25】

نماز وتر کی قرأت

اور امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ وتر کی تین رکعتیں پڑھا کرتے تھے جن میں آپ ﷺ مفصل کی نو سورتیں (اس طرح) پڑھا کرتے تھے (کہ) ہر رکعت میں تین تین سورتیں پڑھتے اور آخری سورت قل ہو اللہ ہوا کرتی تھی۔ (جامع ترمذی ) تشریح بعض روایتوں میں اس اجمال کی تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ پہلی رکعت اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ اِنَّا اَنْزَلْنٰہ ُ اور اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ پڑھتے، دوسری رکعت میں وَالْعَصْرِ ۔ اِذَا جَآءَ نَصْرُ ا اور اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ پڑھتے اور تیسری رکعت میں قل یا ایھا الکافرون۔ تبت یدا اور قل ھو اللہ پڑھتے تھے۔

【26】

حضرت عبداللہ ابن عمر کا واقعہ

اور حضرت نافع (رح) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے ہمراہ مکہ معظمہ میں تھا اور اس دن رات کو آسمان ابر آلود تھا، جب حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کو صبح ہوجانے کا اندیشہ ہوا تو انہوں نے ایک رکعت وتر کی پڑھ لی، پھر ابر صاف ہوگیا اور انہوں دیکھا کہ ابھی رات کافی باقی ہے چناچہ انہوں نے ایک رکعت اور پڑھ کر (پہلی رکعت کے ساتھ ملا کر اسے) دوگانہ کردیا اور اس کے بعد دو دو رکعت (نفل کی) پڑھتے رہے، جب پھر صبح ہوجانے کا اندیشہ ہوا تو انہوں نے وتر کی ایک رکعت پڑھ لی۔ (مالک)

【27】

بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ایک اور طریقہ

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ (آخر عمر کو دن یا رات میں اس طرح بھی) بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے (طویل قرأت کی وجہ سے) بیٹھے بیٹھے قرأت فرماتے اور جب تیس یا چالیس آیات باقی رہ جاتیں تو کھڑے ہوجاتے اور انہیں کھڑے کھڑے پڑھتے پھر رکوع کرتے اور سجدے میں جاتے اسی طرح دوسری رکعت میں بھی پڑھتے۔ (صحیح مسلم) تشریح اس طرح نماز پڑھنی بالا تفاق جائز ہے لیکن اس کا عکس جائز نہیں چناچہ اس کی تفصیل باب السنن میں بیان کی جا چکی ہے۔ بظاہر اس باب سے اس حدیث کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس حدیث میں چونکہ شفع (دوگانہ) کا ذکر ہے جو وتر کا مقدمہ ہے اس لئے اسے اس باب میں نقل کیا گیا ہے۔

【28】

وتر کے بعد کی دو رکعتیں

اور ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ (جامع ترمذی) ابن ماجہ نے اس روایت میں خَفِیْفَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں یعنی رسول اللہ ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔

【29】

وتر کے بعد کی دو رکعتیں

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ وتر کی ایک رکعت پڑھتے پھر دو رکعتیں (نفل کی) پڑھتے جن میں آپ ﷺ بیٹھتے بیٹھتے قرأت فرماتے اور جب رکوع کرنا چاہتے تو کھڑے ہوتے اور رکوع کرتے۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح علامہ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پہلی حدیث کے منافی ہے کیونکہ کبھی تو آپ ﷺ وتر کے بعد کی دونوں رکعتیں کھڑے ہوئے بغیر مطلقاً بیٹھے بیٹھے پڑھتے اور کبھی اس طرح بیٹھ کر قرأت کے بعد جب رکوع میں جانے کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہوجاتے اور رکوع کرتے۔

【30】

وتروں کے بعد دو رکعتوں کی فضیلت

اور حضرت ثوبان (رض) راوی ہیں کہ سرکار کونین ﷺ نے فرمایا (تہجد کے لئے) رات کو بیدار ہونا مشکل اور گراں ہوتا ہے اس لئے جب تم میں سے کوئی آدمی (رات کے آخری حصے میں جاگنے) کا یقین نہ رکھتا ہو اور سونے سے پہلے یعنی عشاء کی نماز کے بعد وتر پڑھے تو اسے چاہیے کہ دو رکعتیں پڑھ لے، اگر وہ نماز تہجد کے لئے رات کو اٹھ گیا تو بہتر ہے اور اگر نہ اٹھ سکا تو پھر دو رکعتیں کافی ہوں گی (یعنی ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے کی وجہ سے اسے نماز تہجد کا ثواب مل جائے گا۔ (جامع ترمذی و دارمی)

【31】

وتروں کے بعد کی دونوں رکعتوں کی قرأت

اور حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے اور ان میں اذا زلزلت الارض اور قل یا ایھا لکافرون پڑھتے تھے۔ (جامع ترمذی و دارمی)

【32】

قنوت کا بیان

لغوی طور پر قنوت کے کئی معنی ہیں۔ (١) طاعت کرنا (٢) نماز میں کھڑے ہونا (٣) اللہ تعالیٰ کے سامنے خاکساری کرنا، اسی طرح دعا کو بھی قنوت کہتے ہیں، اصطلاحا دعاء مخصوص کو کہتے ہیں جو یہاں مراد ہے، چناچہ شوافع کے یہاں دعاء قنوت اَللّٰھُمَّ اھْدِنٰی الخ ہے۔ حضرات حنفیہ کے نزدیک دعاء قنوت اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ الخ ہے (دونوں دعائیں مکمل طور پر پچھلے باب میں نقل کی جا چکی ہیں) جسے حنفی علماء صحیح سند و طریق کے ساتھ طبرانی وغیرہ سے نقل کرتے ہیں۔ نیز محقق علامہ حضرت ابن ہمام (رح) نے ابوداؤد سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ (ایک روز) قبیلہ مضر کے لوگوں کے (ظلم و ستم اور ان کی دہشت و بربریت کے پیش نظر ان) کے لئے بد دعا فرما رہے تھے کہ حضرت جبرائیل تشریف لائے اور آپ ﷺ کو خاموش ہوجانے کا اشارہ کر کے فرمایا کہ یا محمد ﷺ ان اللہ لم یبعثک سبابا الا لعانا انما بعثک رحمۃ۔ اے محمد ﷺ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے برا کہنے والا اور لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ آپ ﷺ کو تو (دونوں جہان کے لئے) رحمت کا باعث بنا کر بھیجا گیا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی (لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ) 3 ۔ ال عمران 128) (یعنی اس چیز میں آپ ﷺ کا کوئی دخل نہیں ہے) بعد ازاں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے رسول اللہ ﷺ کو یہ دعا اللھم انا نستعینک الخ سکھائی شیخ جلال الدین سیوطی نے بھی اپنی کتاب درمنثور میں اس دعا کو کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔

【33】

رحمت عالم ﷺ کو بد دعا کی ممانعت

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ جب کسی کو بدعا دیتے یا کسی کے لئے دعا کرنے کا ارادہ فرماتے تو رکوع کے بعد قنوت پڑھتے، چناچہ بعض وقت جب کہ آپ ﷺ سمع اللہ لم حمدہ ربنا لک الحمد کہہ لیتے تو یہ دعا کرتے الِلّٰھُمَّ اَنْجِ الْوَلِیْد ابنَ الَوَلِیْدِ وَسَلَمَۃَ بْنَ ھِشَامٍ وَعَیَّاشَ بْنَ اَبِیْ رَبِیْعَۃَ الِلَّھُمَّ اشْدُدْ وَطْاَ تَکَ عَلٰی مُضَرَ وَ اجْعَلْھَا سِنِیْنَ کَسِنِیْ یُوْسُفَ (اے اللہ ! ولید بن سلمہ بن ہشام کو اور عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے اور اے اللہ ! قوم مضر پر تو اپنا سخت عذاب نازل کر اور اس عذاب کو ان پر قحط کی صورت میں مسلط کر، ایسا قحط جو یوسف کے قحط کی مانند ہو (یعنی قوم مضر پر تو اپنا عذاب اس قحط کی شکل میں مسلط کر جو حضرت یوسف کے زمانہ میں قوم پر مسلط گیا تھا) یہ دعا آپ ﷺ بآواز بلند کرتے تھے اور کسی نماز میں آپ ﷺ عرب کے (ان) قبائل کے لئے جو کافر تھے) اس طرح بددعا فرماتے اَللّٰھُمَّ الْعَنْ فُلَاناً وَفُلاَناً (اے اللہ ! فلاں فلاں پر لعنت فرما) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لیس لک من الامر شییء الایۃ (اس معاملہ میں آپ ﷺ کا کچھ دخل نہیں ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح بعض صحابہ کرام جو کفار کی قید میں تھے اور ان کے ظلم و ستم کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے ان کی رہائی ونجات کے لئے رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمایا کرتے تھے اور عرب کے وہ قبائل جو مسلمانوں کا قافیہ تنگ کئے رہتے تھے ان کے لئے بد دعا فرماتے تھے، چناچہ ولید ابن الولید قریشی مخزومی جو اسلام کے مایہ ناز فرزند اور اسلامی فوج کے کمانڈر انچیف حضرت خالد بن ولید کے بھائی تھے، جنگ بدر کے موقع پر کفار مکہ کی جانب سے حضرت عبداللہ بن جحش کے ہاتھوں گرفتار ہوئے، ان کے بھائی خالد اور ہشام دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور اسیر بھائی کی طرف سے چار ہزار در ہم بطور فدیہ دے کر ان کو رہا کرایا اور مکہ لے گئے۔ ولید جب رہا ہو کر مکہ پہنچے تو وہاں اسلام کی مقدس روشنی نے ان کے قلب و دماغ کو منور کیا اور وہ مسلمان ہوگئے لوگوں نے ان سے کہا کہ جب تم مسلمانوں کے پاس مدینہ میں قید تھے تو اسی وقت فدیہ دینے سے پہلے ہی مسلمان کیوں نہیں ہوگئے کیونکہ وہاں مسلمان ہوجانے کی شکل میں چار ہزار درہم جو فدیئے میں دئیے وہ بھی بچ جاتے اور مسلمان بھی ہوجاتے ؟ انہوں نے کہاں کہ مجھے یہ کچھ اچھا نہیں لگا کہ لوگ یہ کہیں کہ قید سے گھبرا کر سلام لے آیا۔ مکہ کے کفار اور قبیلے کے لوگوں کو یہ کیسے گوارا ہوتا کہ ولید اسلام لے آئیں اور اس کی سزا انہیں نہ ملے چناچہ بھائیوں نے انہیں قید میں ڈال دیا اور جتنا بھی ظلم ان پر ہوسکتا تھا کیا گیا، رسول اللہ ﷺ کو جب ان کی حالت مظلومیت کا پتہ چلا تو آپ ﷺ نے پروردگار کی بارگاہ میں ان کی رہائی اور نجات کے لئے دعا مانگی، اس طرح وہ کفار مکہ کے چنگل سے بچ کر مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آگئے۔ سلمہ بن ہشام، ابوجہل کے بھائی تھے اور بالکل ابتدائی دور میں اسلام لے آئے تھے، کفار مکہ نے انہیں بھی قید کر رکھا تھا اور ان پر انتہائی ظلم و جور کرتے تھے، یہ بھی ان کے ہاتھوں سے نکل کر مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آگئے۔ عیاش بن ابی ربیعہ بھی ابوجہل کی ماں کی طرف سے اخیافی بھائی تھے، قدیم الاسلام ہیں، ابتدائی دور میں اسلام کی دولت سے مشرف ہو کر حبشتہ ہجرت کر گئے تھے۔ جب مدینہ آئے اور ان سے کہا گیا کہ تمہاری ماں تمہارے لئے سخت بےچین ہے اور اس نے قسم کھائی ہے کہ جب تک تمہیں دیکھ نہیں لے گی، سائے میں نہیں بیٹھ گی۔ عیاش کو ماں کی محبت ابوجہل جیسے ظالم آدمی کے پاس کھینچ لائی۔ مکہ پہنچ کر ابوجہل نے انہیں باندھ کر قید میں ڈال دیا اور ان پر ظلم کر کے اپنے جذبہ و حشت و بربریت کی تسکین حاصل کرتا رہا تاآنکہ یہ بھی اس قید سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئے اور پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مدینہ آگئے۔ آخر میں معرکہء تبوک کے موقع پر کفار سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔ یہ وہ خوش نصیب اصحاب تھے جن کی رہائی و نجات کے لئے رسول اللہ ﷺ کی لسان مقدس دعا میں مشغول ہوتی تھی، گویا حدیث کی پہلی دعا اللھم انج الخ اس بات کی مثال ہے کہ رسول اللہ ﷺ قنوت میں مومنین کے لئے دعا فرماتے تھے۔ حدیث کی دوسری دعا اللھم اشددالخ اس بات کی مثال ہے کہ آپ ﷺ قنوت میں ظلم و ستم کے پیکر کفار کے لئے بد دعا فرماتے ہیں، چناچہ آپ ﷺ کی بد دعا کا اثر یہ ہوا کہ اہل مکہ سات سال تک مسلسل قحط میں گرفتار رہے یہاں تک کہ انہوں نے مردار کی ہڈیاں کھا کر زندگی کے وہ سخت دن پوری کئے۔ آیت (لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ) 3 ۔ آل عمران 128) کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شان رحمت کے مناسب چونکہ یہ نہیں تھا کہ آپ ﷺ کسی کے لئے بدد عا فرمائیں اس لئے آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے منع فرما دیا گیا کہ کسی آدمی کے لئے اس کا نام لے کر آپ ﷺ بد دعا نہ فرمائیں چناچہ شروع باب میں اس کی تفصیل ذکر کی جا چکی ہے۔ کسی آفت و بلا کے وقت دعاء قنوت فرضی نمازوں میں پڑھنی چاہیے علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے مثلاً دشمن حملہ آور ہو، قحط اپنی لپیٹ میں لے لے، کوئی وبا پھیل جائے، خشک سالی ہوجائے، یا اس قسم کی کوئی بھی صورت پیش آجائے جس سے مسلمان مصیبت و تکلیف میں مبتلا ہوجائیں تو لوگوں کو چاہیے کہ وہ تمام فرض نمازوں میں دعا قنوت پڑھنے کا اہتمام کریں۔ چنانچہ حضرات حنفیہ کے یہاں بھی کسی حادثہ اور وبا کہ وقت فرض نمازوں میں دعاء قنوت پڑھنا جائز ہے۔

【34】

دعاء قنوت پڑھنے کا وقت

اور حضرت عاصم احول فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا کہ (صبح کی نماز میں یا وتر کی یا کسی حادثہ کی یا وبا پھیلنے کے وقت ہر فرض) نماز میں وہ رکوع سے پہلے پڑھی جاتی تھی یا رکوع کے بعد ؟ حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے (اور فرمایا کہ) رسول اللہ ﷺ نے (صبح کی نماز میں یا سب نمازوں میں) رکوع کے بعد دعاء قنوت صرف ایک مرتبہ پڑھی تھی (اور وہ بھی) اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے چند صحابہ کو جنہیں قراء کہتے تھے اور تعداد میں ستر تھے (تبلیغ کے لئے کہیں) بھیجا تھا وہاں کے لوگوں نے انہیں شہید کردیا اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ایک مہینہ تک رکوع کے بعد دعاء قنوت پڑھ کر قراء کو شہید کرنے والوں کے لئے بد دعا کی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رکوع کے بعد دعاء قنوت کا پڑھنا منسوخ ہوگیا ہے چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے۔ قراء سبعون کی شہادت کا واقعہ قراء سبعون یعنی ستر قاری اصحاب صفہ میں سے تھے انہیں قراء اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم بہت زیادہ پڑھتے اور بہت یاد کرتے تھے۔ حالانکہ یہ حضرات بہت زیادہ غریب اور زاہد تھے اور ان کا کام صرف یہ تھا کہ صفہ میں ہر وقت قرآن اور علم کے سیکھنے میں مشغول رہتے تھے لیکن اس کے باوجود جب بھی مسلمان کسی حادثے میں مبتلا ہوتے تو یہ حضرات پوری شجاعت اور بہادری کے ساتھ حادثے کا مقابلہ کرتے اور مسلمانوں کی مدد کرتے۔ ان میں سے بعض حضرات تو ایسے تھے جو دن بھر جنگل سے لکڑیاں جمع کر کے لاتے اور انہیں بیچ کر اہل صفہ کے لئے کھانا خریدتے تھے اور رات کو قرآن کریم کی تلاوت و درود میں مشغول رہتے تھے۔ ان خوش نصیب صحابہ کو رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کی طرف بھیجا تھا تاکہ یہ وہاں پہنچ کر ان قبائل کو اسلام کی طرف بلائیں اور ان کے سامنے قرآن کریم پڑھیں جو کفر و شرک اور ظلم وجہل میں پھنس کر تباہی و بربادی کے راستے پر لگے ہوئے ہیں جب یہ لوگ بیر معونہ پر جو مکہ اور عسفان کے درمیان ایک موضع ہے، اترے تو عامر بن طفیل، رعل، ذکوان اور قارہ نے ان قراء صحابہ پر بڑی بےدردی سے حملہ کیا اور پوری جماعت کو شہید کر ڈالا، ان میں سے صرف ایک صحابی حضرت کعب بن زید انصاری بچ گئے وہ بھی اس طرح کہ جب یہ زخمی ہو کر گرگئے اور جسم بالکل نڈھال ہوگیا، تو ان بدبختوں نے یہ سمجھ کر کہ ان کی روح نے بھی جسم کا ساتھ چھوڑ دیا ہے ان سے الگ ہوئے مگر خوش قسمتی سے ابھی ان میں زندگی کے آثار موجود تھے چناچہ وہ کسی نہ کسی طرح بچ کر نکلنے میں کامیاب ہوئے اور اللہ نے ان کو صحت و تندرستی عطا فرمائی یہاں تک کہ غزوہ خندق میں شہید ہوئے۔ بہر حال جب سرور دو عالم ﷺ کو اس عظیم حادثے اور ظالم کفار کے ظلم و بربریت کا علم ہوا تو آپ ﷺ کو بےحد غم ہوا، حضرت انس (رض) کا بیان ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کو کسی کے لئے اتنا غمگین نہیں دیکھا جتنا کہ آپ ﷺ ان مظلوم صحابہ کے لئے غمگین ہوئے چناچہ آپ ﷺ مسلسل ایک مہینہ تک قنوت میں ان بدبخت کفار کے لئے بد دعا کرتے رہے، یہ واقعہ ٤ ھ میں پیش آیا۔

【35】

دعاء قنوت کس وقت پڑھنی چاہیے؟

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے مسلسل ایک مہینہ تک (یعنی ہر روز) ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازوں کی آخری رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد قنوت پڑھی ہے جس میں آپ ﷺ بنی سلیم کے چند قبیلوں رعل، ذکوان اور عصیہ کے لئے بد دعا کرتے تھے اور پیچھے کے لوگ (یعنی مقتدی) آمین کہتے تھے۔ (ابوداؤد) تشریح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہمیشہ فرض نمازوں میں دعا قنوت نہیں پڑھنی چاہیے بلکہ جب مسلمانوں کے لئے کوئی حادثہ پیش آجائے مثلاً کوئی دشمن حملہ کر دے، قحط پڑجائے یا کوئی وبا پھیل جائے تو ایسے وقت میں فرض نمازوں میں دعا قنوت پڑھی جائے۔

【36】

دعاء قنوت کس وقت پڑھنی چاہیے؟

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے ایک مہینہ تک (رکوع کے بعد) دعاء قنوت پڑھی ہے پھر آپ ﷺ نے (مطلقاً فرض نمازوں میں یا یہ کہ رکوع کے بعد قنوت پڑھنے کو ترک کردیا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی ) تشریح اکثر اہل علم یہی فرماتے ہیں کہ دعاء قنوت نہ تو فجر کی نماز میں مشروع ہے اور نہ وتر کے علاوہ کسی دوسری نماز میں، چناچہ یہ حضرات اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث بھی ہیں جو فرض نمازوں میں ترک قنوت پر دلالت کرتی ہیں، اہل علم اور محققین اس کی تفصیل مرقاۃ میں ملا حظہ فرما سکتے ہیں۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ فجر کی نماز میں تو دعاء قوت ہمیشہ پڑھنی چاہیے اور نمازوں میں کسی حادثے اور وبا کے وقت پڑھی جائے۔

【37】

دعاء قنوت کس وقت پڑھنی چاہیے؟

اور حضرت ابومالک اشجعی (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد مکرم سے دریافت کیا کہ ابا جان ! آپ نے سرور کونین ﷺ کے پیچھے، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ (رض) کے پیچھے یہیں کوفہ میں تقریباً پانچ سال تک نماز پڑھی ہے کیا یہ حضرات دعاء قنوت پڑھتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ میرے بیٹے ! قنوت بدعت ہے۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) تشریح حضرت ابومالک اپنے والد محترم سے یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اور خلفاء اربعہ بھی فجر کی نماز میں اور دیگر نمازوں میں قنوت پڑھتے تھے جیسا کہ اب بھی بعض لوگ ان نمازوں میں قنوت پڑھتے ہیں ؟ اس کا جواب ان کے والد نے یہ دیا کہ جو لوگ فجر کی اور دوسری نمازوں میں مستقل طریقے سے یعنی ہمیشہ دعاء قنوت پڑھتے ہیں وہ بدعت میں مبتلا ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے تو وتر کے علاوہ فجر کی نماز میں صرف ایک مہینہ تک قنوت پڑھی ہے اس کے بعد آپ ﷺ نے ترک کردیا تھا جیسا کہ ابھی پچھلی حدیث میں ذکر کیا گیا، گویا کہ یہ حدیث حضرت امام ابوحنیفہ کی دلیل ہے۔ حضرات شوافع فرماتے ہیں کہ جن احادیث میں نماز فجر کے اندر قنوت نہ پڑھنا ذکر کیا گیا ہے وہ سب ضعیف ہیں لیکن ملا علی قاری نے اس قول کا جواب بہت معقول اور مدلل طریقے سے دیا ہے نیز انہوں نے خلفاء اربعہ سے بھی اس طرح کی روایتیں نقل کی ہیں اس بحث کی تفصیل ان کی شرح میں دیکھی جاسکتی ہے۔

【38】

آخری نصف رمضان میں اور رکوع کے بعد قنوت پڑھنے کا مسئلہ

حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب (رض) نے لوگوں کو رمضان میں نماز تراویح کے لئے) جمع کیا اور حضرت ابی بن کعب (رض) کو امام بنایا، حضرت ابی بن کعب نے ان کو بیس راتوں تک نماز پڑھائی اور انہوں نے لوگوں کے ساتھ دعا قنوت سوائے آخری نصف رمضان کے اور دنوں میں نہیں پڑھی اور جب آخر کے دس روزے رہ گئے تو حضرت ابی بن کعب مسجد میں نہ آئے بلکہ (وتر کی) نماز اپنے گھر میں پڑھنے لگے، لوگ کہتے کہ ابی بھاگ گئے (ابوداؤد) اور حضرت انس بن مالک (رض) سے کسی نے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا کہ (رکوع سے پہلے پڑھی جائے یا بعد میں ؟ ) تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا قنوت رکوع کے بعد پڑھی ہے ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے دعا قنوت کبھی رکوع سے پہلے اور کبھی رکوع کے بعد پڑھی ہے۔ تشریح حضرت ابی بن کعب ایک جلیل القدر اور بڑی عظمت و شان کے مالک صحابی تھے، جہاں ان کی اور بہت سی امتیازی خصوصیات تھیں وہیں آپ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے ہی میں پورا قرآن کریم حفظ کرلیا تھا۔ نیز یہ کہ صحابہ میں بڑے اونچے درجے کے قاری مانے جاتے تھے، اسی وجہ سے آپ کو سید القراء کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، چناچہ حضرت عمر فاروق (رض) نے ان کی انہیں خصوصیات کی بنا پر انہیں رمضان میں تراویح کی نماز کے لئے امام مقرر فرمایا تاکہ لوگ ان کی اقتدا میں نماز تراویح پڑھیں۔ یہ دونوں حدیثیں جو حضرت حسن بصری سے منقول ہیں حضرات شوافع کی مستدل ہیں۔ پہلی حدیث تو اس بات کی دلیل ہے کہ دعاء قنوت صرف رمضان کے آخری نصف حصے میں پڑھی جائے علماء احناف فرماتے ہیں کہ اول تو مطلقا ً وتر میں دعا قنوت کا پڑھنا مشروع ہوا ہے اور چونکہ وتر کی نماز ہمیشہ پڑھی جاتی ہے اس لئے دعاء قنوت بھی ہمیشہ پڑھی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ زیادہ ایسی ہی احادیث وارد ہیں جن میں بلا تخصیص رمضان، وتر کی نماز میں دعاء قنوت پڑھنا ثابت ہوتا ہے لہٰذا اس اعتبار سے بھی ہمیشہ وتر کی نماز میں دعاء قنوت کا پڑھنا اولیٰ اور ارجح ہوگا۔ دوسری حدیث شوافع کے لئے اس بات کی دلیل ہے کہ دعاء قنوت رکوع کے بعد پڑھی جائے اس کا جواب حنفی علماء کی جانب سے یہ دیا جاتا ہے کہ رکوع سے پہلے دعاء قنوت پڑھنے کے سلسلے میں احادیث زیادہ تعداد میں منقول ہیں، پھر یہ کہ صحابہ کا عمل بھی انہیں احادیث کے مطابق نقل کیا گیا ہے اس لئے احادیث عمل کرنا چاہیے۔ جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن سے رکوع کے بعد دعا قنوت پڑھنا ثابت ہوتا ہے تو اس کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ ان احادیث کا تعلق صرف ایک مہینے سے ہے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے رکوع کے بعد قنوت پڑھی ہے۔ مستقل طریقے سے رکوع کے بعد عاء قنوت پڑھنے سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رمضان کے آخری نصف حصے میں اللہ کے رسول ﷺ کے باغیوں کے لئے بد دعا کرنے کی وجہ سے دعاء قنوت پڑھتے ہوں گے کیونکہ صحیح سند کے ساتھ حضرت عمر فاروق (رض) سے منقول ہے کہ جب آدھا رمضان گذر جائے تو (رمضان کے آخری نصف حصے میں) وتر میں کفار پر لعنت بھیجنا سنت ہے۔ ابق ابی کے الفاظ کہہ کر لوگوں نے حضرت ابی کو بھاگنے والے غلام کے ساتھ تشبیہ دی، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کی نظر میں حضرت ابی کا یہ عمل کہ آخری دس دنوں میں مسجد میں نہیں آئے مکروہ معلوم ہوا۔ حالانکہ حضرت ابی کسی عذر کی بناء پر ہی رمضان کے آخری عشرے میں مسجد نہیں آئے ہوں گے۔ اور عذر یہی ہوسکتا ہے کہ وہ ان ایام میں خلوت اختیار کرتے تھے تاکہ عبادت کا وہ کمال خلوت میں حاصل ہوجائے جو جلوت میں حاصل نہیں ہوتا۔ حدیث کے الفاظ رسول اللہ ﷺ نے دعاء قنوت رکوع کے بعد پڑھی ہے سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ نے صرف ایک مہینے تک (فجر کی نماز میں) رکوع کے بعد دعاء قنوت پڑھی ہے اور اس پر دلیل صحیح البخاری و صحیح مسلم کی وہ روایت ہے جو عاصم احول سے منقول ہے (ملا حظہ فرمائے اسی باب کی حدیث نمبر ٢) آخری روایت کا مفہوم یہ ہے کہ کبھی (یعنی وتر میں) تو آپ ﷺ دعاء قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے اور کبھی (یعنی کسی حادثے و وباء کے وقت) رکوع کے بعد پڑھتے تھے اس مفہوم سے ان تمام احادیث میں تطبیق ہوجائے گی جن میں سے بعض روایات تو رکوع کے بعد دعاء قنوت پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں اور بعض روایتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ رکوع سے پہلے دعاء قنوت پڑتے تھے