120. منصب قضا کی انجام دہی اور اس سے ڈرنے کا بیان

【1】

منصب قضاء کی انجام دہی اور اس سے ڈر نے کا بیان

جیسا کے کتاب الامارۃ وقضاء کے ابتدائیہ میں بتایا گیا تھا کہ اسلامی نظام حکومت کا اصل محور و امیر یعنی سربراہ مملکت اور قاضی ہوتے ہیں، چناچہ گذشتہ دونوں ابواب میں امام و امیر کے متعلقات کو بیان کیا گیا اب اس باب میں منصف قضاء کا بیان ہوگا اور اس سلسلہ میں بطور خاص دونوں کا ذکر کیا گیا جائے گا ایک تو یہ قاضی اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی صرف اسلامی قانون کے مآخذ یعنی کتاب سنت اور اجتہاد کو رہنما بنائے اور اس کا کوئی فیصلہ وحکم ان چیزوں کے خلاف نہیں ہونا چاہئے دوسری بات یہ ہے کہ منصب قضاء اپنی اہمیت و عظمت اور اپنی بھر ذمہ داریوں کے اعتبار سے اتنا اونچا ہے۔ کہ صرف یہ کہ ہر شخص کو اس تک پہنچنے کی کوشش نہ کرنی چاہئے، بلکہ جہاں تک ہو سکے اس منصب کو قبول کرنے سے ڈرنا اور اجتناب کرنا چاہئے۔

【2】

غصہ کی حالت میں کسی قضیہ کا فیصلہ نہ کیا جائے

حضرت ابوبکرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی حاکم وقاضی غصہ کی حالت میں ہو تو وہ اس وقت دو آدمیوں (کے نزاعی معاملے) میں فیصلہ نہ دے ( بخاری ومسلم) تشریح غصہ کی حالت میں چونکہ غور و فکر کی قوت مغلوب ہوجاتی ہے اور ایسی صورت میں مبنی بر انصاف کے فیصلے کا صادر ہونا محل نظر ہوجاتا ہے اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ کوئی حاکم وقاضی غیض وغضب کی حالت میں کسی قضیہ کا فیصلہ نہ کرے تاکہ اس کا غیض وغضب، اس کے غور وفکر اور اجتہاد میں رکاوٹ نہ بنے اور وہ منصفانہ فیصلہ دے سکے اسی طرح سخت گرمی سردی، بھوک پیاس اور بیماری کی حالت میں بھی کوئی حکم و فیصلہ نہ دے کیونکہ ان اوقات میں بھی حو اس پوری طرح قابو میں نہیں ہوتے اور دماغ حاضر نہیں رہتا۔ لہٰذا اگر کوئی حاکم وقاضی ان احوال میں حکم و فیصلہ دے گا تو وہ کراہت کے ساتھ جاری ونافذ ہوگا۔

【3】

قاضی کو اجتہاد کا اختیار

اور حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت ابوہریرہ دونوں کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی حاکم فیصلہ دینے کا ارادہ کرے اور اجتہاد کرے یعنی غور وفکر کے ذریعہ حکم و فیصلہ دے) اور پھر اس کا وہ حکم و فیصلہ صحیح یعنی کتاب وسنت کے موافق ہو تو اس کو دوہرا اجر ملے گا (ایک اجر تو اجتہاد کرنے کا اور دوسرا اجر صحیح فیصلہ پر پہنچنے کا) اور اگر اس نے کوئی ایسا حکم و فیصلہ دیا جس میں اس نے اجتہاد کیا لیکن (نتیجہ اخذ کرنے میں) چوک گیا (یعنی صحیح حکم تک پہنچنے میں خطا کر گیا) تو اس کو ایک اجر ملے گا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر حاکم وقاضی کسی سے قضیہ و معاملہ کا حکم و فیصلہ دینا چاہے جس کے بارے میں کتاب وسنت اور اسلامی فقہ میں کوئی صریح اور واضح ہدایت نہیں ہے اور پھر وہ اجتہاد کرے یعنی کتاب وسنت کے احکام وتعلیمات وفقہ اسلامی کے مسائل اور اسلامی عدالتوں کے نظائر میں پوری طرح غور وفکر کرنے کے بعد وہ کسی ایسے نتیجہ پر پہنچ جائے جس کے بارے میں اس کے ضمیر کی رہنمائی نہ ہو کہ یہ مبنی برحق ہے اور پھر وہی نتیجہ اس کا حکم و فیصلہ بن جائے تو وہ حکم و فیصلہ ظاہری قانون کے اعتبار سے تو بالکل صحیح تسلیم کیا جائے گا البتہ عقبیٰ کے لحاظ سے اس کی دو صورتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ اگر حقیقت میں بھی وہ فیصلہ کتاب وسنت کی منشاء کے موافق رہا تو اس کو دو اجر ملیں گے اور اگر اس کا فیصلہ کتاب وسنت کے موافق نہیں ہوا ہے تو اس کو ایک ہی اجر ملے گا۔ بالکل یہی حکم مجتہد کا ہے کہ اگر وہ استنباط مسائل کے وقت اپنے اجتہاد کے نتیجے میں کتاب وسنت کی منشاء تک پہنچ گیا تو اس کو دو اجر ملیں گے اور اگر کتاب وسنت کی منشاء تک پہنچنے میں خطا کر گیا تو اس کو ایک ثواب ملے گا۔ لہٰذا یہ حدیث جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ قاضی اسلام کو ایسی جزئیات میں اجتہاد کا اختیار حاصل ہے جو اسلامی قانون کے ماخذ میں صراحت کے ساتھ مذکور نہیں ہیں اور جن کا کوئی حکم واضح نہیں وہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مجتہد اپنے اجتہاد میں کبھی تو صحیح حکم تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی خطا کرجاتا ہے یعنی صحیح حکم تک نہیں پہنچ پاتا لیکن اجر وثواب اس کو بہرصورت ملتا ہے۔ ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی چیز کا حکم ومسئلہ، نصوص یعنی کتاب اللہ، احادیث رسول اللہ اور اجماع امت میں مذکور نہ ہونے کی وجہ سے قیاس پر عمل کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہو تو اس صورت میں قیاس پر عمل کرنا تحری قبلہ کی مانند ہوگا (جس طرح اگر کسی شخص کو کسی وجہ سے قبلہ کی سمت کا پتہ نہ چلے اور وہ نماز کے وقت غور وفکر اور تحری کر کے اپنے گمان غالب کے مطابق قبلہ کی کوئی سمت مقرر کرلے اور اس طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے تو اس کی نماز صحیح ہوگی اگرچہ حقیقت میں قبلہ اس سمت نہ ہو اسی طرح قیاس پر عمل کرنے والا، مصیبت یعنی درست عمل کرنے والا ہوگا اگرچہ اس قیاس میں اس سے خطا (غلطی) ہوگئی ہو۔

【4】

منصب قضاء ایک ابتلاء ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص لوگوں کے درمیان قاضی مقرر کیا گیا (گویا) اس کو بغیر چھری کے ذبح کیا گیا۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ ) تشریح ذبح سے اس کے متعارف معنی (یعنی ہلاکت بدن) مراد نہیں ہے بلکہ غیر متعارف معنی ذہنی و روحانی ہلاکت مراد ہے۔ چناچہ جس شخص کو قاضی مقرر کیا جاتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ ہمہ وقت کی الجھن و پریشانی اور روحانی، (اذیت) یا یوں کہئے۔ کہ درد بےدواء اور مفت کی بیماری میں مبتلا رہتا ہے بلکہ اس کو اپنی عاقبت کی خرابی کا خوف بھی رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ چھری سے ذبح ہوجانا صرف لمحہ بھر کے لئے اذیت برداشت کرنا ہے جب کہ یہ اذیت عمر بھر کی ہے بلکہ اس کی حسرت و پیشمانی قیامت تک باقی رہنے والی ہے۔

【5】

قاضی بننے کی خواہش نہ کرو

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص (اپنے دل میں) منصب وقضا کی طلب و خواہش کرے اور پھر (سربراہ مملکت سے) اس کا خواستگار ہو (یہاں تک کہ اس کی خواست گاری پر اس کو قاضی بنادیا جائے) تو وہ منصب اس کے نفس کے حوالے کردیا جاتا ہے (یعنی اس کو اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں اللہ تعالیٰ کی مدد توفیق حاصل نہیں ہوتی) اور جس کو (اس کی طلب و خواہش کے بغیر) زبردستی اس منصب پر فائز کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک فرشتے کو مقرر کردیتا ہے جو اس کو گفتار و کردار میں راست و درست رکھتا ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ )

【6】

جنتی اور دوزخی قاضی!

اور حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں ایک طرح کے تو جنت میں جانے والے اور دو طرح کے دوزخ میں جانے والے ! لہٰذا جنت میں جانے والا قاضی تو وہ شخص ہے جس نے حق کو جانا (یعنی یہ جانا کہ حق اس بات میں ہے) اور پھر حق ہی کے مطابق فیصلہ کیا اور جس نے حق کو جانا مگر (اس کے باوجود) اپنے حکم و فیصلہ میں ظلم کیا (یعنی اس نے دیدہ دانسۃ حق کو پامال کیا تو وہ دوزخی ہے، اسی طرح جو اپنی جہالت کی وجہ سے حق کو نہیں پہنچانا اور اسی حالت میں لوگوں کے تنازعات کا فیصلہ کیا تو وہ بھی دوزخی ہے (کیونکہ اس نے حق رسی میں کوتاہی اور تقصر کی۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص مسلمانوں کے منصب قضاء کا طالب اور خواستگار ہوا یہاں تک کہ اس نے اس کو حاصل بھی کرلیا اور پھر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں) اس کا عدل و انصاف ظلم پر غالب ہوگا تو جنت ملے گی اور اگر ظلم غالب ہوگا تو دوزخ ملے گی۔ لیکن علماء نے لکھا ہے کہ دونوں ہی صورتوں میں غالب کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس درجہ کا ہو کہ دوسرے کے لئے رکاوٹ بن جائے۔ مثلًا اس کے عدل و انصاف کا وصف اس طرح حاوی ہو کہ اس کا ظلم سر نہ اٹھا سکے۔ یا اس کے ظلم کی خصلت اتنی حاوی ہو کہ اس کے مقابلہ پر اس کا عدل ظاہر نہ ہو سکے۔

【7】

قیاس واجتہاد برحق ہے

اور حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے جب ان (معاذ) کو (قاضی وحاکم بنا کر) یمن بھیجا تو ان سے (بطور امتحان) پوچھا کہ جب تمہارے سامنے کوئی قضیہ پیش ہوگا تو تم کس طرح فیصلہ کرو گے ؟ انہوں نے کہا کہ میں کتاب اللہ (قرآن کریم) کے موافق فیصلہ کروں گا۔ فرمایا اگر تمہیں وہ مسئلہ (صراحتًہ) کتاب اللہ میں نہ ملا ؟ انہوں نے کہا پھر میں سنت رسول اللہ ﷺ (حدیث نبوی ﷺ کے موافق فیصلہ کروں گا فرمایا اگر تمہیں وہ مسئلہ سنت رسول ﷺ میں بھی نہ ملا ؟ انہوں نے کہا تو پھر میں اپنی عقل سے اجتہاد کروں گا اور (اپنے اجتہاد و حقیقت رسی میں) کوتاہی نہیں کروں گا۔ (یا وہ روای جنہوں نے یہ حدیث معاذ سے روایت کی ہے۔ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) اپنا دست مبارک معاذ کے سینے پر مارا (تاکہ اس کی برکت سے وہ اپنی بات پر ثابت قدم رہیں اور ان کے علم میں اضافہ ہو اور فرمایا) تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے رسول کریم ﷺ کے رسول (یعنی معاذ) کو اس چیز کی توفیق عطا کی جس سے (اللہ) اور اس کا رسول ﷺ راضی ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد، دارمی) تشریح میں اپنی عقل سے اجتہاد کروں گا کا مطلب یہ ہے کہ میں اس قضیہ کا حکم ان مسائل پر قیاس کے ذریعہ حاصل کروں گا جو نصوص یعنی کتاب وسنت میں مذکور ہیں بایں طور کہ کتاب وسنت میں اس قضیہ کے مشابہ جو مسائل مذکور ہیں ان کے مطابق اس قضیہ کا حکم و فیصلہ کروں گا۔ مظہر نے بھی اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے۔ کہ پہلے میں غور وفکر کروں گا کہ میرے سامنے جو قضیہ پیش ہوا ہے کہ جس کا کوئی حکم کتاب وسنت میں مذکور نہیں ہے وہ کون سے ایسے مسئلہ سے مشابہ ہے جو کتاب وسنت میں مذکور ہے جب میں ان دونوں کے درمیان مشابہت پاؤں گا تو اس کا وہی حکم و فیصلہ کروں گا جو کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ میں مذکور مسئلہ کا ہے، چناچہ آئمہ مجتہدین کے یہاں اس قیاس پر بہت سے مسائل کا استنباط کیا گیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان آئمہ مجتہدین نے قیاس کی علت و بنیاد میں اختلاف کی ہے مثلًا گیہوں کے ربوا (سود) کے حرام ہونے کے بارے میں نفس (یعنی صریح حکم ) جب کہ تربوز کے بارے میں ایسی نص نہیں ہے۔ لہٰذا حضرت امام شافعی نے تربوز کو گیہوں پر قیاس کرتے ہوئے اس کے ربوا کو بھی حرام قرار دیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک گیہوں کے ربوا کے حرام ہونے علت اس کا کھائی جانے والی چیز ہے اس لئے گیہوں کے حکم پر قیاس کرتے ہوئے اس کا ربوا بھی حرام ہوگا۔ جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک گیہوں کے ربوا کے حرام ہونے کی علت چونکہ اس کا مکیل (یا موزون) ہونا ہے اس لئے انہوں نے گیہوں پر چونے کو قیاس کیا اور یہ مسئلہ اخذ کیا کہ چونے کا ربوا بھی حرام ہے۔ بہرحال یہ حدیث قیاس و اجتہاد کے مشروع ہونے کی علت کی بہت مضبوط دلیل ہے اور اصحاب ظواہر (غیر مقلدین) کے مسلک کے خلاف ہے جو قیاس و اجتہاد کے منکر ہیں۔

【8】

مدعا علیہ کا بیان سنے بغیر مدعی کے حق میں فیصلہ نہ کیا جائے

اور حضرت علی کہتے ہیں کہ (جب) رسول کریم ﷺ نے مجھے قاضی بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو میں نے عرض کیا کہ آپ مجھ نوجوان کو (قاضی بنا کر) بھیج رہے ہیں (جو کم عمری کی وجہ سے ناتجربہ کار بھی ہے اور) جس کو (منصب قضا کی ذمہ داریوں کا پوری طرح علم بھی نہیں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا (تم اس بارے میں فکر نہ کرو) اللہ تعالیٰ تمہارے دل کو فہم و فراست کی ہدایت عطا کرے گا اور تمہاری زبان کو صحیح اور برحق حکم و فیصلہ کرنے پر) ثابت رکھے گا۔ (پھر آنحضرت ﷺ نے منصب قضاء کی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے سلسلہ میں یہ تعلیم و ہدایت دی کہ جب تمہارے پاس دو آدمی اپنا قضیہ لے کر آئیں تو تم پہلے آدمی (یعنی مدعا علیہ) کا بیان نہ سن لو کیونکہ یہ (مدعا علیہ کا بیان تمہیں) صحیح حکم و فیصلہ دینے میں اچھی مدد دے گا۔ حضرت علی کہتے ہیں کہ (آنحضرت ﷺ کی) اس مبارک دعا کی برکت سے اور آپ ﷺ کی اس ہدایت وتعلیم پر عمل کرنے کے بعد میں کسی بھی قضیہ کا حکم فیصلہ کرنے میں مذبدب نہیں ہوا۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ )

【9】

قیامت کے دن ظالم حاکم کا انجام

حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر وہ حاکم جو لوگوں پر اپنا حکم و فیصلہ جاری ونافذ کرتا ہے قیامت کے دن (ا حکم الحاکمین کی بارگاہ میں) اس طرح پیش کیا جائے گا کہ ایک فرشتہ اس کی گدی پکڑے ہوگا، پھر وہ فرشتہ اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے (کھڑا رہے گا) یہاں تک کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ حکم دے گا کہ اس کو (دوزخ میں) ڈال دو تو وہ اس کو دوزخ کے) گڑھے میں ڈال دے گا جو چالیس برس کی مسافت) کے بقدر (گہرا) ہوگا۔ (احمد، ابن ماجہ، بیہقی اور شعب الایمان ) تشریح پھر وہ فرشتہ اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے گا سے مراد فرشتہ کی اس حالت کو بیان کرنا ہے جس میں وہ حکم الٰہی کا منتظر ہوگا، یعنی جس طرح بادشاہ کے ہاں یہ درباری آداب میں سے ہے کہ جب وہاں کوئی ملزم پیش کیا جاتا ہے کھڑا ہوجاتا ہے اور یہ انتظار کرتا ہے کہ بادشاہ حاکم کی طرف سے کیا حکم و فیصلہ صادر ہوتا ہے، اسی طرح وہ فرشتہ بھی اس حاکم کو بارگاہ رب العزت میں پیش کر کے اس انتظار میں کھڑا رہے گا کہ اس کے بارے میں کیا حکم ہوتا ہے۔ چالیس برس کے بقدر سے مراد اس گڑھے کی گہرائی کو زیادہ سے زیادہ کر کے بیان کرنا ہے نہ کہ اس سے اس کی مدت کی تعین وتحدید مراد ہے اس حدیث میں جس حاکم کا انجام بیان کیا گیا ظالم حاکم ہے، عدل و انصاف پرور کے بارے میں یہ حکم دیا گیا جائے گا کہ اس کو بہشت میں پہنچایا جائے گا۔ جیسا کہ کتاب الامارۃ والقضاء میں حضرت ابوامامہ کی روایت سے واضح ہوچکا ہے

【10】

قیامت کے دن قاضی کی حسرتناک آرزو؟

اور حضرت عائشہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن (جب حاکموں، سرداروں اور قانون و انصاف کے ذمہ داروں سے سخت مؤ اخذہ ہو رہا ہوگا تو) عادل ومنصف قاضی کے لئے بھی ایک ایسا لمحہ آئے گا جس میں وہ یہ آرزو کرے گا کہ کاش اس کو دو آدمیوں کے درمیان کھجور کے (بھی) قضیہ کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری انجام نہ دینا پڑتی ہو۔ (احمد)

【11】

عادل ومنصف کو حق تعالیٰ کی توفیق وتائید حاصل رہتی ہے۔

اور حضرت عبداللہ ابن ابی اوفیٰ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قاضی جب تک ظلم و ناانصافی کی راہ اختیار نہیں کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے یعنی حق تعالیٰ کی توفیق و تائید اس کے شامل حال ہوتی ہے لیکن جب وہ ظلم وناانصافی کی راہ اختیار کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے الگ ہوجاتا ہے (یعنی اس کے اوپر سے حق تعالیٰ کی تائید و توفیق کا سایہ ہٹ جاتا ہے اور شیطان اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) اور ابن ماجہ کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ قاضی جب ظلم وناانصافی کی راہ اختیار کرلیتا ہے تو (اللہ تعالیٰ ) اس کے کام کو اس کے سپرد کردیتا ہے (یعنی اس کو اپنی توفیق و تائید سے محروم کردیتا ہے۔ اور حضرت سعید ابن مسیب راوی ہیں کہ (ایک دن) حضرت عمر فاروق کی خدمت میں ایک مسلمان اور ایک یہودی اپنا جھگڑا لے کر آئے حضرت عمر نے جب (قضیہ کی تحقیق کے بعد) یہ دیکھا کہ یہودی حق پر ہے تو انہوں نے اس (یہودی) کے حق میں فیصلہ دیا اس یہودی نے (اپنے حق میں فیصلہ سن کر) کہا اللہ کی قسم ! آپ نے حق کے مطابق فیصلہ دیا ہے حضرت عمر نے (یہ سن کر) اس کے ایک درہ مارا اور فرمایا تجھے کیسے علم ہوا کہ میں نے حق کے مطابق فیصلہ دیا ہے ؟ یہودی نے کہا اللہ کی قسم ! ہم نے توراۃ میں (یہ لکھا ہوا پایا ہے کہ جو بھی قاضی حق کے مطابق فیصلہ دیتا ہے اس کے دائیں ایک فرشتہ ہوتا ہے اور اس کے بائیں ایک فرشتہ ہوتا ہے اوہ دونوں فرشتے اس کو تقویت پہنچاتے ہیں اور حق کی توفیق دیتے ہیں جب تک وہ حق پر رہتا ہے اور جب قاضی حق کو چھوڑ کردیتا ہے تو وہ فرشتے آسمان پر چلے جاتے ہیں اور اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ (مالک) تشریح ایک خلجان تو یہ واقع ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر نے اس یہودی کو اپنے درے سے کیوں مارا درآنحالیکہ اس نے ان کے فیصلہ کے منصفانہ اور برحق ہونے کا اقرار و اعتراف کیا تھا ؟ اور ایک اشکال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر کے سوال تجھ کو یہ کیسے معلوم ہوا الخ اور یہودی کے جواب ہم نے توارۃ میں پایا ہے الخ میں مطابقت کیا ہوئی۔ پہلے خلجان کا جواب تو یہ ہے کہ حضرت عمر نے یہودی کو کسی سزا یا غصہ کے طور پر نہیں مارا تھا بلکہ نرمی اور خوش طبعی کے طور پر مارا تھا اور دوسرے اشکال کا جواب یہ ہے کہ اس بات کو یہودی سے زیادہ کون جان سکتا تھا کہ اس تنازعہ میں حق پر کون ہے۔ لہٰذا جب اس یہودی نے دیکھا کہ اگر حضرت عمر حق سے انحراف کرتے تو فریق مخالف یعنی مسلمان کے حق میں فیصلہ کرتے، اس صورت میں ان کا فیصلہ مبنی بر انصاف ہوتا اور نہ ان کا حق پر قائم رہنا ظاہر ہوتا۔ لہٰذا جب انہوں نے مسلمان کے خلاف یہودی کے حق میں فیصلہ دیا تو معلوم ہوا کہ حضرت عمر حق پر قائم ہیں اور انہوں نے انصاف سے انحراف نہیں کیا ہے۔

【12】

منصب قضاقبول کرنے سے حضرت ابن عمر کا انکار

اور حضرت ابن موہب کہتے ہیں کہ حضرت عثمان ابن عفان نے (اپنے زمانہ خلافت میں حضرت ابن عمر سے کہا کہ لوگوں کا قاضی بن جاؤ (یعنی حضرت عثمان نے حضرت ابن عمر کی خدمت میں منصب قضا کی پیش کش کی) حضرت ابن عمر نے کہا امیر المؤمنین ! مجھ کو اس کام سے معاف رکھئے۔ حضرت عثمان نے فرمایا تم اس منصب کو کیوں ناپسند کرتے ہو ! حالانکہ تمہارے والد ! حضرت عمر فاروق) تو اپنے دور خلافت کے علاوہ بھی نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں) قضاء کا کام کرتے تھے ؟۔ حضرت ابن عمر نے کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخض قضاء پر فائز ہو اور مبنی بر انصاف فیصلے کرے تو وہ اس لائق ہے کہ وہ اس منصب سے برابر سرابر جدا ہو (یعنی نہ نقصان پہنچائے نہ فائدہ نہ ثواب پائے نہ عذاب۔ ) اس کے بعد حضرت عثمان نے حضرت ابن عمر سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی (ترمذی) اور رزین کی روایت میں جو انہوں نے حضرت نافع سے نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں کہ حضرت ابن عمر نے کہا امیر المؤمنین میں (تو) دو آدمیوں کے درمیان (بھی) کوئی حکم و فیصلہ نہیں کروں گا (چہ جائیکہ بہت زیادہ لوگوں کا قاضی بنوں۔ حضرت عثمان نے فرمایا تمہارے والد (حضرت عمر فاروق) تو لوگوں کے درمیان فیصلے کیا کرتے تھے ؟ حضرت ابن عمر نے کہا میرے (والد کی بات تو یہ تھی کہ) اگر ان کو کوئی دشواری پیش آتی تھی تو وہ رسول کریم ﷺ سے پوچھ لیا کرتے تھے اور اگر رسول کریم ﷺ کو کوئی دشواری پیش آتی تو آپ ﷺ جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھ لیا کرتے تھے جب کہ میں ایسے شخص کو نہیں پاتا جس سے پوچھ لیا کروں گا اور میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی اس نے بڑی ذات کی پناہ مانگی۔ نیز میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ (بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذریعہ پناہ مانگے اس کو پناہ دو ۔ لہٰذا میں نے اللہ تعالیٰ کے ذریعہ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ آپ مجھے قاضی مقرر کریں چناچہ حضرت عثمان نے ان کو معاف کیا، لیکن ان سے فرمایا کہ کسی) اور کو آگاہ نہ کرنا کہ وہ منصب قضا قبول نہ کرے ورنہ لوگ عام طور پر اس منصب کو قبول کرنے سے گریز کرنے لگیں گے اور نظام حکومت معطل ہو کر رہ جائے گا۔