121. حکام کو تنخواہ اور ہدایا تحائف دینے کا بیان

【1】

حکام کو تنخواہ اور ہدایا وتحائف دینے کا بیان

اس باب میں یہ بیان ہوگا کہ حکام وعمال کے لئے بیت المال سے بطور تنخواہ واجرت کچھ مقرر کیا جائے یا نہیں اور یہ کہ اگر کوئی شخص حاکم کے لئے بطور ہدیہ وتحفہ کوئی چیز لائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

【2】

بار گاہ رسالت سے مال کی تقسیم

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں نہ تو تمہیں عطا کرتا ہوں اور نہ تمہیں محروم رکھتا ہوں، میں تو صرف بانٹنے والا ہوں کہ جس جگہ مجھے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے میں وہاں رکھ دیتا ہوں۔ (بخاری) تشریح آنحضرت ﷺ نے صحابہ کے درمیان مال تقسیم کرتے ہوئے مذکورہ بالا جملے ارشاد فرمائے تاکہ وہ تقسیم و کمی بیشی کی وجہ سے اپنے دل میں کوئی خیال نہ لائیں، چناچہ (ما اعطیکم) الخ کا مطلب یہ ہے کہ نہ عطا کرنا میرے بس میں ہے اور نہ تمہیں محروم رکھنا میرے اختیار میں ہے کہ اگر میں کسی کو کچھ دیتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں نے اپنی خواہش اور اپنی مرضی سے اس کو دیا ہے یا اگر کسی کو نہیں دیتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرا دل اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ اس لئے میں نے اس کو نہیں دیا، بلکہ میں صرف بانٹنے والا ہوں اس لئے جو کچھ بھی دیتا ہوں یا نہیں دیتا ہوں یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر ہے، جہاں اور جس کو دینے کا مجھے حکم دیا گیا ہے وہاں اور اس کو دیتا ہوں اور جہاں اور جس کو نہ دینے کی ہدایت کی گئی ہے میں وہاں اور اس کو نہیں دیتا۔

【3】

قومی خزانے اور بیت المال میں ناحق تصرف کرنے والوں کے بارے میں وعید

اور حضرت خولہ انصاریہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بہت سے لوگ اللہ کے مال میں ناحق تصرف کرتے ہیں (یعنی زکوٰۃ غنیمت اور بیت المال کے مال میں امام و حکمران کی اجازت کے بغیر تصرف کرتے ہیں اور اپنے حق اور اپنی محنت سے زیادہ وصول کرتے ہیں وہ قیامت کے دن دوزخ کی آگ کے سزاوار ہوں گے۔ (بخاری)

【4】

امام وقت بیت المال سے اپنی تنخواہ لینے کا حقدار ہے

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق جب خلیفہ بنائے گئے تو فرمایا کہ میری قوم کے لوگ (یعنی مسلمان جانتے ہیں کہ میرا کاروبار میرے اہل عیال کے اخرجات کے لئے کافی تھا، اب میں مسلمانوں کے امور میں مشغول ہوگیا ہوں (اور اس کی وجہ سے ابوبکر کے اہل و عیال بیت المال) کے مال سے کھائیں گے اور ابوبکر اس بیت المال کی آمدنی میں اضافہ کرنے اس کی حفاظت کرنے اور اس کو مسلمانوں کی ضروریات و دیگر مصارف میں اس کو خرچ کرنے کے ذریعہ مسلمانوں کی خدمت کرے گا۔ (بخاری) تشریح حضرت ابوبکر صدیق بازار میں کپڑے کی تجارت کرتے تھے اور اس کے ذریعہ اپنے اہل و عیال کے مصارف پورے کرتے تھے لیکن جب مسلمانوں نے ان کو منصب خلافت پر فائز کیا تو انہوں نے صحابہ کو اطلاع دے دی کہ اب میں امور خلافت کی انجام دہی اور مسلمانوں کی خدمت میں مشغول ہوگیا ہوں اس لئے اپنا کاروبار جاری نہیں رکھ سکتا لہٰذا اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات کے بقدر بیت المال سے تنخواہ لیا کروں گا۔

【5】

جلیل القدر صحابہ کی تجارتیں

حضرت ابوبکر کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے، اسی طرح حضرت عمر فاروق غلہ کی تجارت کرتے تھے، حضرت عثمان کے ہاں کھجوروں اور کپڑے کا کاروبار ہوتا تھا اور حضرت عباس عطاری کرتے تھے۔ علماء نے لکھا ہے کہ تجارت کی انواع میں سب سے بہتر تجارت کپڑے کی اور پھر عطر کی ہے نیز حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر جنتی تجارت کرتے تو کپڑے کی تجارت کرتے اور دوزخی تجارت کرتے تو صرف یعنی سونے چاندی کی تجارت کرتے۔

【6】

تنخواہ سے زیادہ لینا خیانت ہے

حضرت بریدہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص کو ہم نے کسی کام پر مامور کیا اور اس کو رزق دیا (یعنی اس کے اس کام کی اجرت وتنخواہ مقرر کردی اس کے بعد اگر وہ (اپنی تنخواہ سے زائد) کچھ وصول کرے گا تو یہ مال غنیمت میں خیانت ہے۔ (ابو داؤد)

【7】

عامل کی اجرت

اور حضرت عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں مجھے عامل بنایا گیا اور اس کی اجرت (تنخواہ) مجھ کو دی گئی۔ (ابوداؤد)

【8】

حضرت معاذ کو ہدایت

اور حضرت معاذ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے (عامل ) بنا کر بھیجا (جب میں یمن جانے کے لئے روانہ ہوا اور کچھ دور چلا گیا) تو آپ ﷺ نے (مجھے بلانے کے لئے ایک شخص کو) میرے پیچھے بھیجا میں لوٹ کر آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو، میں نے تمہیں بلانے کے لئے (آدمی) کیوں بھیجا تھا ؟ (میں یہ آگاہی دینے کے لئے تمہیں بلایا ہے کہ) تم (اپنی مدت ملازمت کے دوران) میری اجازت کے بغیر کچھ نہ لینا کیونکہ یہ خیانت ہے اور جو شخص خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن وہ چیز لے کر آئے گا جس میں اس نے خیانت کی ہے یہی کہنے کے لئے میں نے تمہیں بلایا تھا اب تم اپنے کام پر جاؤ۔ (ترمذی) ۔

【9】

بلا تنخواہ حاکم کے مصارف کا بیت المال کفیل ہوگا

اور حضرت مستورد ابن شداد کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کو ہم نے عامل (کسی جگہ کا حاکم وکار پرداز) بنایا (اگر اس کے بیوی نہ ہو تو) اس کو چاہے کہ وہ ایک بیوی بیاہ لے اگر اس کے پاس کوئی خادم (غلام و لونڈی) نہ تو اس کو چاہئے کہ وہ ایک خادم خرید لے اور اگر اس کا کوئی گھر نہ ہو تو اس کو چاہئے کہ ایک گھر بنا لے یا خرید لے۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اگر وہ اس کے علاوہ کچھ لے گا تو وہ خیانت کرنے والا ہوگا۔ (ابو داؤد ) ۔ تشریح حدیث کا حاصل یہ ہے کہ عامل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے زیر تصرف بیت المال سے اپنی بیوی کے مہر، اس کے نان نفقے اور اس کے لباس کے بقدر حاجت (بلا اسراف) روپیہ ومال لے سکتا ہے اسی طرح وہ اپنی رہائشی ضروریات کے مطابق ایک مکان اور خدمت کے لئے خادم (کی قیمت واجرت کے بقدر بھی اس بیت المال سے لے سکتا ہے البتہ اگر وہ ان ضرورت و حاجت سے زیادہ لے گا تو وہ اس کے حق میں حرام ہوگا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ اس عامل کے لئے کوئی تنخواہ واجرت مقرر نہ کی گئی ہو اور بیت المال اس کی (تنخواہ واجرت کا اور اس کے مذکورہ مصارف) کا کفیل ہوسکتا ہو۔

【10】

قومی محاصل وبیت المال میں خیانت نہ کرو

اور حضرت عدی ابن عمیرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (ایک دن مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے) فرمایا لوگو ! تم میں سے جو شخص ہماری طرف سے کسی کام کا عامل بنایا جائے (یعنی جس کو ہم کسی خدمت مثلًا زکوٰۃ وغیرہ وصول کرنے پر مامور کریں) اور وہ اپنے اس کام کے حاصل (آمدنی) میں سے سوئی برابر یا اس سے زائد ہم سے چھپائے (یعنی وہ جو کچھ وصول تحصیل کرے اس میں سے ہماری اجازت اور ہمارے علم کے بغیر تھوڑا یا بہت لے لے ) تو وہ خیانت کرنے والا ہے اور وہ قیامت کے دن اس (خیانت کی ہوئی چیز) کو لے کر آئے گا۔ (یہ سن کر) ایک انصاری شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے (وصول تحصیل کا) جو کام میرے سپرد کیا ہے وہ مجھ سے واپس لے لیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کیوں ؟ اس نے عرض کیا کہ میں نے جو آپ کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے (یعنی آپ ﷺ نے اس کام کے سلسلے میں جو وعید بیان فرمائی ہے اس کی وجہ سے میں بہت خوفزدہ ہوگیا ہوں، کیونکہ یہ کام لغزش سے خالی نہیں ہے، اگر میں کسی لغزش میں مبتلا ہوگیا تو قیامت کے دن کیا جواب دوں گا ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا ہاں، میں پھر یہی کہتا ہوں کہ ہم جس شخص کو عامل مقرر کریں اس کو چاہئے کہ وہ جو کچھ وصول کریں، وہ تھوڑا ہو یا زیادہ سب ہمارے پاس لے کر آئے اور اس میں سے اس کو (اس کی اجرت تنخواہ کے طور پر) جس قدر دیا جائے وہ اس کو لے لے اور جو نہ دیا جائے اس سے باز رہے (اب اس واضح ہدایت و تنبیہ کے بعد جو شخص اس کام کو انجام دے سکے وہ اس کی ذمہ داری قبول کرے اور جو شخص ان شرائط کے ساتھ اس کی انجام دہی میں اپنے معذور سمجھے وہ اس کی ذمہ داری کو قبول نہ کرے۔ مسلم وابو داؤد۔ الفاظ ابوداؤد، کے ہیں۔

【11】

رشوت دینے، لینے والے پر آنحضرت ﷺ کی لعنت

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے رشوت لینے اور رشوت دینے والے (دونوں) پر لعنت فرمائی ہے۔ ابوداؤد، ابن ماجہ۔ ترمذی نے اس روایت کو حضرت عبداللہ ابن عمرو اور حضرت ابوہریرہ (رض) اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ثوبان سے نقل کیا ہے نیز بیہقی کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے رائش یعنی وہ شخص جو رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے کے درمیان واسطہ و ذریعہ بننے اس پر بھی لعنت فرمائی ہے۔ تشریح رشوت (یا راء کے پیش کے ساتھ یعنی رُشوَت) اس مال کو کہتے ہیں جو کسی (حاکم وعامل وغیرہ) کو اس مقصد کے لئے دیا جائے کہ وہ باطل (ناحق) کو حق کر دے اور حق کو باطل کر دے۔ ہاں اگر اپنا حق ثابت کرنے یا اپنے اوپر ہونے والے کے دفعیہ کے لئے کچھ دیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

【12】

حلال ذرائع سے کمایا ہوا مال ایک اچھی چیز ہے

اور حضرت عمرو ابن العاص کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے کسی شخص کے ذریعہ میرے پاس یہ کہلا بھیجا کہ تم اپنے ہتھیاروں اور کپڑوں کو اکٹھا کرلو (یعنی سفر کی تیاری کرلو) اور پھر میرے پاس آجاؤ حضرت عمرو کہتے ہیں کہ میں (آنحضرت ﷺ کے فرمان کے مطابق سفر کی تیاری کر کے) آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت وضو کر رہے تھے۔ (مجھے دیکھ کر فرمایا کہ عمرو ! میں نے تمہارے پاس آدمی بھیج کر تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ میں تمہیں ایک طرف (یعنی کسی جگہ کا حاکم یا عامل بنا کر) بھیجوں، اللہ تعالیٰ تمہیں عافیت و سلامتی کے ساتھ رکھے، تمہیں مال غنیمت عطا فرمائے اور میں بھی تمہیں کچھ مال دوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرا ہجرت کرنا (یعنی میرا ایمان قبول کرنا اور اپنا وطن چھوڑ کر آپ ﷺ کے پاس آجانا) مال کی خاطر نہیں تھا (بلکہ میرا ایمان قبول کرنا خالصۃً للہ تھا اور) میری ہجرت صرف اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی ورضا ) کے لئے تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا نیک بخت آدمی کے لئے اچھا مال اچھی چیز ہے۔ شرح السنۃ) امام احمد نے بھی اس طرح کی روایت نقل کی ہے اور ان کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (نیک مرد کے لئے اچھا مال اچھی چیز ہے۔ تشریح حضرت عمرو بن العاص نے ٥ ھ میں اسلام قبول کیا اور حضرت خالد ابن ولید کی ہمراہی میں حبشہ سے مدینہ کو ہجرت کی بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ٨ ھ میں اسلام قبول کیا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو عمان کا حاکم مقرر فرمایا تھا۔ اغلب ہے کہ اس روایت کا تعلق اس وقت سے ہے جب کہ ان کو بطور حاکم عامل عمان بھیجا جا رہا تھا۔ اچھا مال وہ ہے جو حلال ذریعہ سے کمایا گیا ہو اور اچھی جگہوں اور نیک مصارف میں خرچ کیا گیا ہو اور نیک بخت مرد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حقوق کو بھی ادا کرے اور بندوں کے حقوق کی بھی ادائیگی کرے۔

【13】

سفارش کرنے والا کوئی ہدیہ وتحفہ قبول نہ کرے

حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص (کسی بادشاہ وحاکم سے) کسی (شخص مثلاً زید) کی سفارش کرے اور وہ (زید) اس (سفارش کرنے والے) کے پاس سفارش کے عوض کوئی چیز بطور ہدیہ تحفہ بھیجے اور وہ سفارش کرنے والا) اس تحفہ کو قبول کرے تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازہ میں داخل ہوا۔ (ابو داؤد) تشریح اس طرح کا تحفہ ہدیہ اگرچہ رشوت کی تعریف میں آتا ہے مگر اس کو سود اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ وہ شفارش کرنے والے کو بلا کسی عوض کے حاصل ہوا ہے۔