125. کفاروں کا بیان

【1】

کفار کو خطوط لکھنے اور ان کو اسلام کی دعوت دینے کا بیان

جو لوگ اللہ تعالیٰ کو اس کائنات کا حقیقی مالک و فرما روا مانتے ہیں اور اس کے اتارے ہوئے قانون کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں ان کو اس بات کا ذمہ دار بنایا گیا ہے کہ وہ پوری کائنات کو خدائے بزرگ و برتر کے احکام کی تبلیغ کریں اور گم کردہ گان راہ ہدایت کو ضلالت و تباہی کے راستوں سے ہٹا کر خدائے واحد کی اطاعت و فرمانبرداری کی صراط مستقیم پر لے آئیں اور اس طرح روئے زمین پر اللہ کا نام اور اس کے جھنڈا سربلند کریں اور جو لوگ (کفار) اس تبلیغ کے باوجود سرکشی وتمرد سے باز نہ آئیں اور اللہ کے دین کے جھنڈے کو سرنگوں کرنے کی ناپاک جسارت کریں اور اس روئے زمین پر مالک حقیقی کے احکام کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالیں اور گویا دوسرے لفظوں میں وہ اپنے عقائد و کردار کے ذریعہ اللہ کی سر زمین پر فتنہ و فساد کا بازار گرم کریں ان کے خلاف تلوار اٹھائی جائے اور ان سے اس وقت تک جنگ کی جائے جب تک کہ وہ اپنے تمرد اور اپنی سرکشی سے باز آ کر خدائے واحد کی حاکمیت اعلیٰ کا اقرار نہ کرلیں۔ یا جزیہ (ٹیکس) ادا کر کے اسلامی مملکت کا وفادار شہری بننا قبول نہ کرلیں۔ کفار کے خلاف اعلان جنگ سے پہلے ان کو اسلام کی دعوت دینا واجب ہے اسلام نے یہ ضابطہ مقرر کیا ہے کہ مخالفین اسلام کے خلاف اس وقت اعلان جنگ نہ کیا جائے جب تک کہ ان کو اسلام کی دعوت نہ دی جائے۔ چناچہ اسلامی قانون کے مطابق کفار سے جنگ کرنے سے پہلے ان کو اسلام کی دعوت دینا واجب ہے اور ان کو اسلام کی دعوت دینے سے پہلے ان سے جنگ کرنا حرام ہے بشرطیکہ کہ ان کو اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو۔ اور اگر ان کو اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہے تو اس صورت میں جنگ سے پہلے ان کو پھر دوبارہ اسلام کی دعوت دینا مستحب ہے۔ اسلام کی دعوت دینے کے مختلف طریقے ہیں انہی میں سے ایک طریقہ خط و کتابت بھی ہے خاص طور پر سربراہان مملکت، سلاطین اور امراء کو عام طور پر خط و کتابت ہی کے ذریعہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے چناچہ آنحضرت ﷺ نے مختلف غیر مسلم بادشاہوں اور سربراہان مملکت وقوم جیسے قیصر، کسری اور نجاشی کو مکتوبات گرامی ارسال فرمائے جن میں انہیں ضلالت و تباہی کا راستہ چھوڑ کر اسلام کے سیدھے راستے پر آنے کی دعوت دی گئی۔ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ جب صلح حدیبیہ کے بعد مدینہ تشریف لائے اور قیصر روم کو مکتوب بھیجنے کا ارادہ کیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ شاہان روم وایران کا دستور یہ ہے کہ وہ کسی تحریر کو اس وقت تک مستند نہیں مانتے جب تک اس پر مہر نہ لگی ہوئی ہو۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے مہر کے لئے چاندی کی انگوٹھی تیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا اور اس میں تین سطریں کندہ کرائیں اور ان تینوں سطروں میں اپنا اسم مبارک ﷺ اس طرح نقش کرایا کہ اوپر کی سطر میں اللہ درمیانی سطر میں رسول اور نیچے کی سطر میں محمد تھا ! اس طرح آپ ﷺ نے بادشاہوں کے نام مکتوب ارسال فرمائے ان پر یہ مہر ثبت فرمائی۔ طبرانی نے یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ کر امۃ الکتاب ختمہ یعنی مکتوب کی عظمت اس کی مہر ہے۔

【2】

قیصر روم کے نام مکتوب نبوی ﷺ

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے قیصر روم کے بادشاہ کو ایک گرامی نامہ لکھا جس میں اس کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی اور آپ ﷺ نے اپنا وہ گرامی نامہ لکھا جس میں اس کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی اور آپ ﷺ نے اپنا وہ گرامی نامہ دحیہ کلبی (صحابی) کے ہاتھ روانہ فرمایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ اس گرامی نامہ کو بصریٰ کے حاکم کے پاس پہنچا دیں تاکہ وہ حاکم بصریٰ اس کو قیصر کے پاس پہنچا دے۔ اس گرامی نامہ میں یہ لکھا تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد ﷺ کی جانب سے جو اللہ کا بندہ خاص اور رسول ہے۔ ہرقل کے نام جو روم کا حکمران اعلیٰ ہے اس پر سلامتی ہو (جو قبولیت اسلام اور اپنے نیک کردار و اعمال کے ذریعہ) ہدایت کا پیرو ہے۔ بعد ازاں میں آپ کو اسلام کلمہ شہادت کی دعوت دیتا ہوں آپ اسلام قبول کرلیجئے دنیا کے اور آخرت کے عذاب سے محفوظ ومامون رہے گا آپ مسلمان ہوجایئے اللہ تعالیٰ آپ کو دوہرا اجر عطا فرمائے گا کہ ایک اجر تو اپنے نبی ﷺ پر ایمان لانے کا اور ایک اجر مجھ ﷺ پر ایمان لانے کا اور اگر آپ منہ پھریں گے یعنی اسلام قبول نہیں کریں گے تو آپ کو واضح رہنا چاہئے کہ اس انکار و اعراض کی وجہ سے آپ پر صرف اپنے ہی گناہ کا وبال نہیں ہوگا بلکہ آپ کے ملک والوں اور آپ کی رعیت کا گناہ (بھی) آپ پر ہوگا کیونکہ آپ کے اسلام نہ لانے سے وہ بھی کفر میں مبتلا رہیں گے اس لئے ان کی گمراہی کی ذمہ داری بھی آپ ہی پر ہوگی) اے اہل کتاب ! ایسے کلمے اور ایسے دین کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں اور مشترک ہے۔ (یعنی اس کلمہ اور دین میں ہمارے اور تمہارے رسولوں اور کتابوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور وہ کلمہ ودین یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور ہم میں کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائے (جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو رب بنا لیا ہے) پس اگر اہل کتاب اس بات کو قبول کرنے سے انکار کریں تو (اے مؤمنو) تم یہ اعلان کردو کہ (اے کافرو ! ) گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ ( بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں من محمد عبداللہ ورسولہ کی جگہ من محمد رسول اللہ ہے اور (اثم الاریسیین) کی جگہ (اثم الیریسییین) ہے اور بداعیۃ الاسلام کی جگہ (بدعایۃ الاسلام) ہے۔ تشریح آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت روم (رومن امپائر) کی حکومت اپنی سطوت وجبروت اور طاقت و عظمت کے لحاظ سے دنیا کی ایک بڑی عظیم طاقت اور پرشوکت حکومت تھی۔ روم کی حکومت کا دار السلطنت قسطنطنیہ تھا اور اس وقت یورپ کے مختلف ممالک کے علاوہ شام و فلسطین اور مصر بھی اسی کے زیر اقتدار تھے، قیصر روم کے بادشاہ کا لقب ہوا کرتا تھا جیسا کہ فارس ( ایران) کے بادشاہ کو کسری حبش کے بادشاہ کو نجاشی ترک بادشاہ کو خاقان قبط کے بادشاہ کو فرعون مصر کے بادشاہ کے عزیز اور حمیر کے بادشاہ کو تبع کہا جاتا تھا۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے زمانے میں روم کا جو قیصر تھا اور جس کو آپ ﷺ نے یہ گرامی نامہ بھیجا تھا اس کا نام ہرقل (ہرل یوس) تھا یہ ہرقل جس طرح اپنی شان و شوکت میں ممتاز سمجھا جاتا تھا اسی طرح مذہبی علوم یعنی تورات و انجیل کا بھی زبردست عالم تھا۔ دحیہ کلبی ایک صحابی تھے ان کی سب سے بڑی امتیازی شان یہ تھی کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اکثر انہیں کی صورت میں اترتے تھے۔ بصریٰ شام کے ایک شہر کا نام تھا جو ایک بڑا متمدن اور تجارتی مرکز تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی ابتدائی زندگی میں جو دو تجارتی سفر فرمائے تھے اس میں ایک سفر میں آپ ﷺ بصریٰ بھی تشریف لے گئے تھے۔ حضرت دحیہ کلبی کا سفارت پر مامور ہو کر قیصر کے نام آنحضرت ﷺ کا مکتوب گرامی لے جانا سنہ ٦ ھ یا ٧ ھ کے شروع کا واقعہ ہے روایات اور تاریخ سے ثابت ہے کہ قیصر روم نے اس نامہ مبارک سے اس حد تک اثر قبول کیا تھا کہ اس نے آپ ﷺ کی نبوت کی تصدیق کی تھی اور اس کے دل میں نور اسلام جلوہ فگن ہوچکا تھا مگر رعایا اور اہل دربار کے خوف سے اور تخت وتاج کی محبت میں وہ روشنی بجھ کر رہ گئی اور مسلمان نہیں ہوسکا چناچہ منقول ہے کہ اس نے نامہ مبارک پڑھے جانے کے بعد اپنے اہل دربار کی برہمی دیکھ کر حضرت دحیہ سے کہا کہ اگر مجھے اپنے لوگوں سے اپنی جان کا خوف نہ ہوتا تو میں ضرور تمہارے نبی کا اتباع کرتا وہ محمد ﷺ بلاشبہ وہی نبی ہیں جن کے ہم منتظر تھے ابن ملک کہتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ خط لکھنے کا یہ بہترین طریقہ ہے کہ تحریر کی ابتداء بسم اللہ سے ہو اور خط لکھنے والے کا نام بھی پہلے لکھا جائے ملا علی قاری کہتے ہیں یہ بات حدیث ہی سے ثابت نہیں بلکہ قران کریم کی اس آیت (انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم) سے بھی مفہوم ہوتی ہے ہرقل چونکہ غیر مسلم تھا اس لئے أنحضرت ﷺ نے اپنے نامہ مبارک میں اس کو خطاب کرتے ہوئے سلام علیک تم پر سلامتی ہو نہیں لکھا بلکہ یہ بلیغ اسلوب اختیار فرمایا کہ (وسلام علی من اتبع الہدی) اس پر سلامتی ہو جو ہدایت کا پیرو ہے اس میں گویا اس طرف اشارہ ہے کہ غیر مسلم کے ساتھ تخاطب کی ابتداء کنایتًہ سلام کے ساتھ کرنا جائز ہے۔

【3】

مکتوب نبوی ﷺ کے ساتھ شہنشاہ ایران کا نخوبت أمیز معاملہ اور اس پر اس کا وبال

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے کسری کے نام اپنا نامہ مبارک عبداللہ ابن خدا فہ سہمی کے ہاتھ روانہ کیا جو تقریبا اسی مضمون پر مشتمل تھا جو قیصر وغیرہ کو بھیجا گیا تھا اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ اس نامہ مبارک کو بحرین کے حاکم نے اس کو کسری کے پاس پہنچا دیا جب کسری تک پہنچا دے چناچہ عبداللہ ابن حزافہ نامہ مبارک بحرین کے حاکم کے پس لے گئے اور بحرین کے حاکم نے اس کو کسری کے پاس پہنچا دیا جب کسری نے وہ نامہ مبارک پڑھا تو بجائے اس پر عمل کرنے کے اس کو پھاڑ ڈالا حدیث کے ایک راوی ابن مسیب کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے کسری اور اس کی رعایا کے لئے یہ بددعا فرمائی کہ وہ پارہ پارہ کردیئے جائیں بالکل پارہ پارہ (بخاری) تشریح روم کی طرح فارس (ایران) بھی قدیم ترین شہنشاہیت کا گہوارہ تھا اور ایشیاء کی ایک عظیم الشان سلطنت تھی اس وقت اس کی حدود سلطنت ایک طرف سندھ تک پھیلی ہوئی تھیں اور دوسری جانب عرق اور عرب کے اکثر حصے یمن بحرین اور عمان بھی فارس ہی کے زیر اقتدار تھے اس کی اخلاقی حالت بھی گردو پیش کے ممالک کی طرح نہایت ابتر تھی یزدان اور اہرمن نیکی اور بدی کے دو اللہ سمجھے جاتے تھے ا اتش پرستی ملک کا عام مذہب تھا اس سلطنت کے شہنشاہ کا لقب خسرو ہوا کرتا تھا جس کا عربی لفظ کسری بنا لیا گیا تھا آنحضرت ﷺ نے جس خسرو یا کسری کے پاس نامہ مبارک بھیجا تھا اس کا نام پرویز تھا جو ہرمز ابن نوشیروان کا بیٹا تھا۔ تاریخی روایات میں آتا ہے کہ اس وقت ایران کا دستور یہ تھا کہ بادشاہوں کو جو خطوط لکھے جاتے تھے ان میں سب سے پہلے بادشاہ کا نام ہوتا تھا لیکن چونکہ نامہ مبارک کو وقت ایران کا دستور یہ تھا کہ بادشاہوں کو جو خطوط لکھے جاتے ہیں ان میں سب سے پہلے بادشاہ کا نام ہوتا تھا نامہ مبارک کو اللہ کے نام (بسم اللہ) سے شروع کیا گیا تھا، پھر سرور کائنات ﷺ کا نام تھا اس لئے جب وہ خسرو پرویز کے سامنے پڑھا گیا تو وہ سخت غضب ناک ہوا اور کہنے لگا کہ میرے غلام کو یہ جرأت ہے کہ وہ میرے نام اس طرح خط لکھے۔ اور پھر طیش میں آکر نامہ مبارک کو پر زے پر زے کردیا۔ قاصد رسول کریم ﷺ نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ عرض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح اس کی حکومت کے بھی پر زے پر زے ہوجائیں گے چناچہ نامہ مبارک کے ساتھ خسرو پرویز کے اس نخوت آمیز رویہ پر سرکار عالم ﷺ کی بددعا کا یہ نتیجہ نکلا کہ کچھ ہی عرصہ بعد طبری کی روایت کے مطابق ٣۔ جمادی الاول ٦٢٩ ء کی شب میں پرویز کو اسی کے بیٹے شیرویہ نے قتل کردیا اور پھر چھ مہینے کے بعد ہی اس کا بیٹا شیرویہ بھی مرگیا اور اس طرح اس کی حکومت و سلطنت پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایسا وبال پڑا اور ایسی لعنت نازل ہوئی کہ تھوڑی ہی مدت کے بعد ہزاروں برس کی اس عظیم الشان سلطنت کے پر زے اڑ گئے۔

【4】

آنحضور ﷺ کے تمام سربراہان مملکت کو خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت دی

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ فارس یعنی ایران کے بادشاہ کسریٰ روم کے بادشاہ قیصر اور حبش کے بادشاہ نجاشی اور ہر متکبر و مقتدر بادشاہ کو خطوط لکھے جن میں انہیں اللہ یعنی دین اسلام کی طرف بلایا گیا تھا اور یہ نجاشی کہ جس نے یہ خط بھیجا تھا وہ نجاشی نہیں ہے جس کے لئے نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھی تھی۔ (مسلم) تشریح روایت کے آخری جزء کا مقصد ان لوگوں کے خیال کی تردید کرنا ہے جن کے نزدیک یہ نجاشی کہ جس کو مکتوب بھیجا گیا تھا وہی نجاشی ہے جس کا نام اصحمہ تھا اور جو آنحضرت ﷺ کا مطیع و فرنبردار اور آپ ﷺ کے اصحاب کا اپنے ملک میں خادم ونگہبان تھا جب مدینہ میں اس کا انتقال کی خبر آئی تو آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ مرد صالح اور تمہارا بھائی اصحمہ اللہ کو پیارا ہوگیا ہے، اٹھو اور اس کا نماز جنازہ پڑھو چناچہ آپ ﷺ نے اس کی غائبانہ جنازہ پڑھائی۔ لیکن بعض محققین کے نزدیک اس تردید کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے دونوں نجاشیوں کو مکتوب بھیجے پہلے تو اصحمہ کا نام بھیجا تھا اور پھر اصحمہ کے بعد جو شخص نجاشی ہوا اس کے پاس بھی آپ ﷺ نے مکتوب بھیجا۔ اب رہی یہ بات کہ جس طرح پہلا نجاشی یعنی اصحمہ مسلمان ہوگیا تھا اس طرح دوسرا نجاشی بھی مسلمان ہوگیا تھا یا نہیں ؟ اس بارے میں تحقیقی روایات مختلف ہیں بعض کے نزدیک وہ بھی مسلمان ہوگیا تھا مگر بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہوا تھا۔ چونکہ پہلے قیصر اور کسریٰ کے بارے میں ذکر کیا جا چکا ہے اس لئے نجاشی کے بارے میں بھی کچھ باتیں ذکر کردینا ضروری ہے حبش عرب کی جنوبی سمت میں مشرقی افریقہ میں واقع ایک ملک ہے آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت اس ملک پر جو شخص حکمران تھا اس کا نام اصحمہ اور پورا ملک عیسائیت کا پیرو تھا۔ حبش اصل میں عربی نام ہے یونانی میں اسے اتھوپیا کہتے ہیں اور دنیا کے موجودہ نقشہ میں بھی یہ اتھوپیا ہی کے نام سے موسوم ہے۔ حبشی زبان میں بادشاہ کو نجوس کہتے ہیں نجاشی اسی نجوس کا معرب ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس وقت کے حبش کا ذکر نہایت ہی عزت و احترام اور شکر گذاری وممنونیت کے انتہائی جذبات کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ نے جب اپنی بعثت کے فورًا بعد دنیا کو اللہ کے آخری دین اسلام کی طرف بلایا اور اپنی رسالت کا اعلان کر کے دنیا والوں کو اپنی اطاعت کی دعوت دی اور رفتہ رفتہ مکہ کے لوگ آپ ﷺ کے حلقہ اطاعت میں داخل ہونے لگے اور اس طرح اللہ کے نام کا جھنڈا سربلند ہونے لگا تو مکہ کے کفار اس کو برداشت نہ کرسکے اور ان کی طرف سے مکہ مکرمہ کی وسیع سر زمین حلقہ بگوشان اسلام پر اللہ واحد کا نام لینے کے جرم میں تنگ کردی گئی چناچہ اس وقت جب قریش مکہ کے مظالم انسانیت کی تمام حدوں کو پیچھے چھوڑ گئے اور پرستاران توحید پر ظلم وستم اور بربریت کی انتہا ہوگئی اور آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کر کے چلے جانے کی اجازت دی تو یہ حبش ہی تھا جس نے اپنے ملک کے دروازے ان مظلوموں کے لئے پوری فراخدلی کے ساتھ کھول دیئے اور ان کو اپنی سر زمین پر انتہائی عزت و احترام کے ساتھ پناہ دی۔ مسلمانوں کا پہلا قافلہ جس نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی حضرت عثمان غنی کی سربراہی میں حبش پہنچا اس کے بعد جب دوسرا قافلہ حبشہ پہنچا اور جس کے قائد حضرت علی کے بڑے بھائی حضرت جعفر طیار تھے تو اس مرتبہ آنحضرت ﷺ نے شاہ حبش کے نام ایک مکتوب گرامی بھی ارسال فرمایا اور بعض مؤرخین کے قول کے مطابق مکتوبات نبوی ﷺ میں یہ پہلا نامہ مبارک ہے اس میں نجاشی کو صرف اسلام کی دعوت ہی نہیں دی گئی تھی بلکہ اس بات کی نصیحت کی گئی تھی کہ وہ حکومت کے غرور وتکبر کو ترک کر کے حبش میں پناہ لینے کے لئے جانے والے مظلوم مکی مسلمانوں کے ساتھ تواضع سے پیش آئے۔ قریش مکہ کو چونکہ یہ بھی گوارہ نہ تھا کہ مسلمان حبش میں امن و سکون کی زندگی گذار سکیں اس لئے انہوں نے معززین مکہ کا ایک وفد عمرو بن العاص جیسے زبردست موقع شناس اور دانش مند سیاستدان کی سربراہی ہی میں شاہ حبش کے دربار میں بھیجا تاکہ وہ ان مہاجر مسلمانوں کو حبش سے واپس لے آئے اور مکہ میں انہوں نے پھر سے اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جائے اس وفد نے شاہ حبش کے سامنے مسلمانوں کی شکایت کی اور نجاشی کو مشتعل کرنے کے لئے یہ کہا کہ یہ لوگ عجیب و غریب عقائد رکھتے ہیں جن سے نہ ہم واقف ہیں اور نہ آپ ۔ نجاشی شاہ حبش نے وفد کی اس شکایت پر مہاجرین سے حقیقت حال کی وضاحت کے لئے کہا اور ان سے ان کے عقائد دریافت کئے تو اس موقع پر حضرت جعفر طیار نے جو معرکۃ آلا راء تقریر کی وہ حق گوئی وبے با کی اور ایک شاہی دربار میں اسلامی عقائد ونظریات کا جرأت مندانہ ذریعہ تعارف ہونے کی وجہ سے صرف اسلامی تاریخ ہی کا ایک بیش بہا سرمایہ نہیں ہے بلکہ دنیا کی ادبی تاریخ کا ایک زرین ورق اور فن خطابت وتقریر کا ایک انمول شاہکار بھی ہے انہوں نے نے شاہ حبش کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ شاہ ذی جاہ ! ہم ایک سخت جاہل قوم تھے، مصنوعی اور خود ساختہ بتوں کی پرستش ہمارا مذہبی شعار تھا مردار خوری، بدکاری اور بےرحمی ہماری معاشرت کا اہم جزو بن گیا تھا ہم نہ ہمسایہ کے حقوق سے واقف تھے اور نہ اخوت و ہمدردی کے جذبہ سے آشنا، ہر طاقتور، کمزوروں کو ہڑپ کر جانے پر فخر کرتا تھا۔ یہ تھا ہمارا معیار زندگی۔ ہماری اس تباہ حالی کا دور عرصہ سے قائم تھا کہ یک بیک خدائے برتر نے ہماری قسمت کا پانسہ پلٹ دیا اور ہم میں ایک ایسا پیغمبر بھیجا جس کے نسب وحسب سے ہم واقف ہیں جس کی سچائی اور امانت کا حال ہم پر روشن ہے اور جس کی عفت وپاک دامنی ہر وقت ہماری نظروں میں رہی ہے اور وہ آیا اور اس نے ہمیں ہدایت کی وہ روشن شمع دکھلائی جس نے ہماری آنکھوں سے بد کر داری اور جہالت کی تاریکی کے تمام پردے چاک کر دئیے۔ اس پیغمبر نے ہمیں بتایا کہ تم صرف خدائے واحد کی پرستش کرو اور اسی کو اپنا خالق ومالک سمجھو، بت پرستی کو چھوڑ دو تمہارے یہ خود ساختہ معبود نہ تمہیں کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان ! (یاد رکھو) گمراہی کی بنیاد باپ دادا کی کو رانہ تقلید ہے۔ اس نے ہمیں تعلیم دی کہ ہمیشہ سچ بولو امانت میں کبھی خیانت نہ کرو، ہمسایہ کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک کو ہمیشہ اپنا شعار بنائے رکھو ، خون ریزی اور اللہ کی حرام کی ہوئی باتوں سے بچو، فحش کاموں اور جھوٹ کے قریب نہ جاؤ یتیم کا مال نہ کھاؤ اور پاکدامن کو تہمت نہ لگاؤ، خدائے واحد کی عبادت کرو، روزہ رکھو اور اموال کی زکوٰۃ دیا کرو۔ بادشاہ سلامت ! اس نبی ﷺ نے اس قسم کے اور بہت سے بہترین امور کی ہمیں تعلیم دی دے ہے ہم نے اس کی تصدیق کی، اس کو اللہ کا پیغمبر سمجھا اور اس پر ایمان لائے اور جو کچھ اس نے اللہ کا حکم ہمیں سنایا، ہم نے اس کی پیروی کی، ہم نے اللہ کو ایک جانا، شرک سے توبہ کی، حلال کو حلال سمجھا اور حرام کو حرام جانا۔ یہ ہے ہمارا جرم جس پر ہمارے ہم وطنوں نے ہمیں اپنا گھر بار چھوڑ دینے پر مجبور کردیا اور ہم نے آپ کے ملک میں آ کر پناہ لی ہے۔ شاہ حبش اس پر حقائق اور بصیرت افروز تقریر کا بہت اثر ہوا، اس نے قریش کے وفد کو صاف جواب دے دیا کہ ایسے پاکیزہ عقائد رکھنے والے نیکو کار لوگوں کو میں واپس کر کے ظالموں کے ظلم وستم کا شکار ہرگز ہرگز نہ بننے دوں گا۔ ٦ ھ کے آخر میں آنحضرت ﷺ حدیبیہ کے بعد مدینہ واپس آئے اور محرم ٧ ھ = ٦٢٩ ء میں آپ ﷺ نے شاہان عالم کے نام نامہ ہائے مبارک روانہ فرمائے تو شاہ حبش کو پھر ایک مکتوب گرامی ارسال فرمایا بارگاہ رسالت کے سفیر حضرت عمرو ابن امیہ ضمری آپ ﷺ کا نامہ مبارک لے کر شاہ حبش کے دربار میں پہنچے تو پہلے انہوں نے نجاشی کے سامنے ایک اثر انگیز تقریر کی جس میں انہوں نے نجاشی کے اس مشفقانہ رویہ پر اظہار اطمینان کیا جو اس نے مکہ کے مظلوم مسلمانوں کے تئیں اختیار کیا ہوا تھا اور پھر اسلامی عقائد اور آنحضرت ﷺ کی پیروی اختیار کرنے کی مؤثر تبلیغ کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ۔ میری طرح رسول کریم ﷺ کی جانب سے بعض دیگر اشخاص مختلف بادشاہوں کے پاس دعوت اسلام کے لئے قاصد بنا کر بھیجے گئے ہیں مگر سرور کائنات ﷺ کو جو امید آپ کی ذات سے وابستہ ہے دوسروں سے ایسی امید نہیں ہے آپ سے اس بارے میں پورا اطمینان ہے کہ آپ اپنے اور اللہ کے درمیان اپنی گذشتہ نیکی اور آئندہ کے اجر وثواب کا خیال رکھیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے حضرت جعفر طیار کی معجز بیانی سے نجاشی اسلام کی دعوت سے واقف ہوچکا تھا اب حضرت عمرو ابن امیہ کی اثر انگیز تبلیغ نے اس کے سینے میں ایمان کی شمع روشن کردی، وہ تخت شاہی سے نیچے اتر کر زمین پر بیٹھ گیا، نامہ مبارک کو ہاتھ میں لے کر تعظیمًا اس کو چوما اور دونوں آنکھوں سے لگایا اور پھر ترجمان کو بلوا کر پڑھنے کا حکم دیا، نجاشی فرمان رسالت ﷺ کو سنتا جاتا تھا اور متأثر ہوتا جاتا تھا جوں ہی مضمون ختم ہوا اور وہ اس کے مندرجات پر مطلع ہوا فرط شوق میں نامہ مبارک کو بوسہ دے کر سر پر رکھ لیا اور کہا (اشہد ان لا الہ الا اللہ وان محمد الرسول اللہ) اور پھر کہا کہ اگر میں جاسکتا تو آنحضرت ﷺ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوتا پھر اس نے اپنے بیٹے آرہا کو تحفے تحائف دے کر بارگاہ رسالت میں بھیجا مگر بدقسمتی سے آ رہا راستہ میں ہی انتقال کر گیا اور بارگاہ رسالت میں نہیں پہنچ سکا۔ اس کے بعد پھر آنحضرت ﷺ نے حضرت عمرو ابن امیہ ضمری کو نجاشی کے نام اپنے ایک مکتوب گرامی دے کر حبش بھیجا نجاشی نے ان مبارک ناموں کو احتیاط کے ساتھ ہاتھی دانت کے ایک صندوق میں محفوظ کر کے اپنے خزانہ میں رکھ دئیے اور کہا کہ جب تک یہ فرمان موجود ہیں مجھے یقین ہے کہ اہل حبش مامون و محفوظ رہیں گے۔ چناچہ یہ مبارک نامے جب تک حبشہ کے خزانے میں موجود رہے ہر والی سلطنت اس مکتوب گرامی کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتا اور پورے ملک کے لوگ اس کے ذریعہ برکت حاصل کرتے۔

【5】

جہاد کرنے والوں کے بارے میں چند ہدایات

اور حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے اپنے والد (حضرت بریدہ) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ جب کسی شخص کو کسی چھوٹے یا بڑے لشکر کا امیر مقرر فرماتے تو خاص طور پر اس کی ذات سے متعلق تو اس کو اللہ سے ڈرتے رہنے کی اور اس کے ساتھ (جہاد میں) جانے والے مسلمانوں کے متعلق اس کو نیکی و بھلائی کرنے کی نصیحت فرماتے (کہ مجاہدین کا جو لشکر تمہاری کمان میں جا رہا ہے ہمیشہ ان کے ساتھ خیر و بھلائی کا معاملہ کرنا اور ان کے حق میں حسن سلوک و احسان اور نرمی وملاطفت کا رویہ اختیار کرنا) اور اس کے بعد یہ فرماتے کہ جاؤ اللہ کا نام لے کر اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے اور ان کے دین کا جھنڈا سربلند کرنے کی غرض سے اسلام دشمن طاقتوں سے جنگ کرو اس شخص کے خلاف جہاد کرو جس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ہے جہاد کرو، غنیمت کے مال میں خیانت نہ کرنا، عہد شکنی نہ کرنا مثلہ نہ کرنا یعنی کسی کے اعضاء جسم جیسے ناک کان وغیرہ نہ کاٹنا اور بچوں کو قتل نہ کرنا اور (اے امیر لشکر) جب تم اپنے مشرک دشمنوں کے سامنے پہنچو تو پہلے ان کو تین چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرلینے کی دعوت دو یا حدیث کے راوی اپنے شک کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ نے (ثلث خصال) کے بجائے (ثلث خلال) فرمایا (خصال اور خلال دونوں کے ایک ہی معنی ہیں) ان تین چیزوں میں سے وہ مشرک جس چیز کو تم سے اختیار کریں اور اپنے لئے پسند کریں تم اس کو منظور کرلو اور ان کو اس سے زیادہ کسی اور چیز پر مجبور کرنے سے باز رہو پھر یعنی ان تین چیزوں میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ان کو اسلام کی دعوت دو اگر وہ اس دعوت کو قبول کریں تو تم بھی اس کو منظور کرلو اور ان سے جنگ کرنے سے باز رہو، (پھر وہ اسلام قبول کریں تو) ان کو اپنے ملک یعنی (دار الحرب سے) مہاجرین کے ملک (یعنی دار السلام) کو منتقل ہوجانے یعنی ہجرت کرنے کی) دعوت دو اور ان کو یہ بتادو کہ ایسا کریں گے یعنی ہجرت کر کے دار الاسلام آجائیں گے تو ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مہاجرین کو حاصل ہیں اور ان پر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو مہاجرین پر عائد ہیں، اگر وہ ترک سکونت اختیار کرنے پر تیار نہ ہوں تو ان کو بتادو کہ ایسی صورت میں وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے اور ان پر اللہ کا ایسا حکم کیا جائے گا جو تمام مسلمانوں پر نافذ ہوتا ہے یعنی نماز و زکوٰۃ وغیرہ کا واجب ہونا اور قصاص ودیت جیسے احکام کا نافذ ہونا اور غنیمت وفئی کے مال میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا البتہ اس وقت حصہ ملے گا جب کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو کر جہاد کریں اور اگر وہ اسلام کی دعوت قبول نہ کریں اور مسلمان ہونے سے انکار کریں تو دوسری چیز یہ ہے کہ ان سے جزیہ دینا بھی قبول نہ کریں تو تیسری چیز یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر کے ان سے جنگ شروع کردو۔ اور جب تم کسی قلعہ یا بستی کے لوگوں یعنی دشمن کا محاصرہ کرو اور وہ قلعہ یا بستی والے تم سے اللہ اور اس کے نبی ﷺ کا عہد مان لینا چاہیں تو تم ان کو اللہ اور اس کے نبی ﷺ کی طرف سے امان دینے کا عہد نہ کرنا البتہ اپنے اور اپنے رفقاء جہاد کی طرف سے عہد امان دے دینا کیونکہ اگر تم اپنے اپنے رفقاء کے دیئے ہوئے عہد امان کو توڑ دو گے تو یہ اللہ اور اس کے رسول کے عہد وامان کو توڑنے سے زیادہ سہل ہوگا۔ اور جب تم کسی قلعہ کے لوگوں کا محاصرہ کرو اور وہ قلعہ والے تم سے اللہ کے حکم پر اپنا محاصرہ اٹھا لینے کی درخواست کریں تو تم اللہ کے حکم پر ان کا محاصرہ نہ اٹھانا بلکہ اپنے حکم پر ان کا محاصرہ اٹھانا کیونکہ تمہیں یہ نہیں معلوم ہوسکتا کہ تم ان کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت اللہ کے حکم تک پہنچ گئے ہو یا نہیں (یعنی تمہیں یہ کیسے معلوم ہوگا کہ تم نے ان کا محاصرہ اٹھا لینے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ اللہ کے نزدیک صحیح بھی ہے یا نہیں اور اس کے حکم کے مطابق بھی ہے یا نہیں اور ہوسکتا ہے کہ تم سے چوک ہوجائے گا جیسا کہ مجتہد کی شان ہے کہ وہ صحیح حکم تک بھی پہنچ جاتا ہے اور خطاء میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے ) ۔ (مسلم) تشریح اس حدیث میں اس ضابطہ کا اظہار کیا گیا ہے جو اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے کے سلسلہ میں شریعت نے نافذ کیا ہے اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ جب دشمن (مخالفین اسلام) سامنے آئیں تو سب سے پہلے ان کو اسلام کی دعوت دو ، اگر وہ اس دعوت کو قبول نہ کریں تو ان سے یہ مطالبہ کرو کہ جزیہ ادا کر کے اسلامی مملکت کے وفادار شہری بن جاؤ اور اگر اس پر بھی تیار نہ ہوں تو پھر آخری صورت یہ ہے کہ ان کے خلاف جہاد کرو۔ (ثم ادعہم) (پھر ان کو اسلام کی دعوت دو ) اس جملہ سے ان تین چیزوں کا اظہار شروع کیا گیا ہے جن کا تعلق مذکورہ بالا ضابطہ سے ہے اور لفظ ثم (پھر) ذکر فرما کر گویا مخاطب امیر لشکر کو آگاہ کرنا مقصود ہے کہ جب تم نے ان تین چیزوں کو اجمالی طور پر جان لیا تو اب ان تینوں چیزوں کا تفصیلی حکم جان لو اور وہ یہ کہ پہلے ان کو اسلام کی دعوت دو پھر ان کے خلاف جہاد کرو۔ امام نووی فرماتے کہ تمام نسخوں میں (ثم ادعہم) ہی ہے لیکن قاضی عیاض نے فرمایا ہے کہ روایت کی زیادہ صحت اور موزونیت اسی میں معلوم ہوتی ہے کہ یہ یعنی ابتداء میں ادعہم بغیر لفظ ثم کے ہو چناچہ کتاب ابوعبید اور سنن ابوداؤد وغیرہ میں بھی یہ لفظ ثم کے بغیر ہے کیونکہ اس جملہ سے دراصل (ثلث خصال) (تین چیزوں) کی وضاحت بیان کی جا رہی ہے نہ کہ ان تینوں چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز کی وضاحت مقصود ہے، حضرت مازری یہ کہتے ہیں کہ یہاں لفظ ثم معنی کے اعتبار سے تو زائد ہے لیکن جملہ میں اس کا استعمال آگے کی جانے والی بات کی ابتدائیہ کے طور پر ہے اور گویا یہ ان تین چیزوں میں سے پہلی چیز کی توضیح وبیان کے لئے ہے اور لفظ مع المسلمین تک اسی کا تتمہ ہے اس کے بعد دوسری چیز یعنی جزیہ کا مطالبہ کرنا اور پھر تیسری چیز یعنی جہاد کرنا کیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے جو یہ حکم فرمایا کہ (اگر وہ لوگ اسلام کی دعوت قبول کریں تو) ان کو ہجرت کرنے کی دعوت دو تو بعض حضرات کے نزدیک اس حکم کی بنیاد یہ ہے کہ فتح مکہ سے ہجرت کرنا اسلام کا ایک رکن تھا۔ ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے یعنی مدینہ کے مہاجرین کو جو ثواب و فضیلت اور مال فئی کا جو استحقاق حاصل ہے یہی سب کچھ تمہیں بھی حاصل ہوگا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں مہاجرین کو استحقاق حاصل ہے یہی سب کچھ تمہیں بھی حاصل ہوگا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں مہاجرین کو استحقاق بایں طور پر حاصل تھا کہ ان کو امام کی طرف سے جہاد کا حکم ہوجانے پر جہاد کے لئے نکلنے کے وقت ہی سے ان پر مال فئی خرچ کیا جاتا تھا اور دشمن کے مقابلہ پر لڑنے والے مسلمانوں کی تعداد کافی ہونے کی صورت میں ان پر جہاد کے لئے نکلنا واجب نہیں تھا چناچہ اس ارشاد گرامی۔ (وعلیہم ما علی المہاجرین (اور ان پر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی) کا مطلب بھی یہی ہے کیونکہ ذمہ داری سے مراد جہاد ہے۔ دیہاتی مسلمانوں سے مراد وہ مسلمان ہیں جو دار السلام کے دیہات وجنگلات میں رہتے ہوں نہ کہ دار الکفر میں بسنے والے دیہاتی مسلمان۔ غنیمت اور فئی کے ایک ہی معنی ہیں یعنی وہ مال جو کفار سے مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ لیکن بعض حضرات نے ان دونوں میں فرق کیا ہے کہ غنیمت اس مال کو کہتے ہیں جو جنگ کے ذریعہ اور محنت ومشقت کے ساتھ کفار سے حاصل ہو اور فئی اس مال کو کہتے ہیں جو جنگ اور مشقت کے بغیر کفار سے ہاتھ لگے۔ اگر تم اپنے اور اپنے رفقاء کے دئیے ہوئے عہد امان کو توڑ دو گے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے عہد امان دو گے اور وہ کفار اس عہد امان کو کسی وقت توڑیں بایں طور کہ وہ ان شرائط کو پورا کرنے سے انکار کریں جن کی بنیاد پر ان کو وہ عہد امان ملا ہے تو اس صورت میں تمہارے لئے ان کے تئیں کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے گا تاآنکہ تمہیں وحی یا دربار رسالت ﷺ کے ذریعے ان کے حق میں کوئی فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے جو اس وقت ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ تم وحی یعنی دربار رسالت ﷺ سے دور رہو گے اس کے برخلاف اگر تم ان کو اپنی صورت میں تمہارے لئے ان کے تئیں فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ تم ان کا پھر محاصرہ کر کے چاہے تو ان کو قتل کردو گے، چاہے جزیہ کا مطالبہ کرو گے، چاہے ان کو قیدی بنا لو گے اور یا ان علاوہ ان کے خلاف از روئے مصلحت جو بھی اقدام کرنا چاہو گے اس میں تمہیں مکمل اختیار حاصل ہوگا۔

【6】

سورج ڈھلنے کے بعد جنگ شروع کرنے کی حکمت

اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنے دنوں میں سے ایک دن جب کہ آپ ﷺ دشمن کے مقابلہ پر تھے (یعنی جہاد کے موقع پر میدان جنگ میں تھے) سورج ڈھلنے تک جنگ شروع کرنے کا انتظار کرتے رہے پھر جب سورج ڈھل گیا تو آپ ﷺ لوگوں کے سامنے (خطبہ دینے کے لئے) کھڑے ہوئے اور فرمایا ! تم اپنے دشمن سے مقابلہ کی آرزو نہ کرو (یعنی یہ نہ چاہو کہ کفار سے قتل و قتال کا بازار گرم ہو کیونکہ یہ چاہنا گویا ابتلاء و مصیبت کی خواہش کرنا ہے جو ممنوع ہے) بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کے طالب رہو، ہاں جب دشمن سے تمہارا مقابلہ ہوجائے تو پھر پوری بہادری کے ساتھ ڈٹ جاؤ اور صبر و استقامت سے کام لو اور اس بات کو جان لو کہ جنت، تلواروں کے سائے کے نیچے ہے (یعنی تم جنت کے بالکل قریب ہو) اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی۔ اے اللہ ! کتاب کو نازل فرمانے والے بادلوں کو چلانے والے اور کفار کی جماعت کو شکت دینے والے ان دشمنوں کو شکست دے اور ہم کو ان پر فتح عطا فرما۔ (بخاری ومسلم) تشریح سورج ڈھلنے تک جنگ کی ابتداء، نہ کرنے میں یہ حکمت تھی کہ تپتی ہوئی دوپہر کے بعد جب سورج ڈھل جاتا ہے، تو تمازت وتپش میں کمی آجاتی ہے، ہوا چلنے لگتی ہے جو فرحت پہنچاتی ہے اور اس طرح وہ وقت طبیعت کے انبساط ونشاط کا ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ وہ نماز و دعا کا بھی وقت ہوتا ہے۔ نیز حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس وقت آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور انسانوں کے اعمال اوپر محل قبولیت میں اٹھائے جاتے ہیں لہٰذا ایسے وقت میں جب کہ انوار و برکات اور فتح ونصرت کے نزول کی امید ہوتی ہے آنحضرت ﷺ نے چاہا کہ جہاد جو افضل ترین عمل ہے اسی بابرکت وقت میں واقع ہو۔

【7】

آنحضرت ﷺ صبح ہونے سے پہلے دشمن آبادی پر حملے نہیں کرتے تھے

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ ہمارے ساتھ کسی (دشمن) قوم سے جہاد کرتے (یعنی جب جہاد کے موقع پر کسی ایسی دشمن آبادی پر حملہ آور ہونے کا ارادہ فرماتے جس کے حالات کا علم نہیں ہوتا اور ہم لوگ آپ ﷺ کے ہمراہ شریک جہاد ہوتے) تو صبح ہونے سے پہلے ہمارے ساتھ ان پر حملہ آور نہیں ہوتے، پھر صبح ہوجاتی تو ان (دشمنوں کی آبادی اور ان کے ٹھکانوں) پر نظر ڈالتے (تاکہ مشاہدہ یا قرائن سے یہ معلوم ہوجائے کہ یہ کون لوگ ہیں) اگر (ان کی طرف سے) اذان کی آواز سنتے تو ان سے (جنگ کرنے سے) باز رہتے اور اگر اذان کی آواز نہیں سنتے (اور اس پر قرینہ سے یہ ثابت ہوجاتا کہ (ان لوگوں میں مسلمان نہیں ہیں) تو ان پر حملہ کردیتے۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ چناچہ جب ہم (آنحضرت ﷺ کے ہمراہ جہاد کے لئے) خیبر روانہ ہوئے تو ان کی سرحدوں پر رات کے وقت پہنچے، جب صبح ہوگئی اور (ان کی طرف سے) اذان سنائی نہ دی تو آنحضرت ﷺ سواری پر سوار ہوئے اور میں ابوطلحہ کی سواری پر ان کے پیچھے بیٹھا اور (ہماری سواری آنحضرت ﷺ کی سواری کے اتنے قریب تھی کہ) میرے پاؤں آنحضرت ﷺ کے قدم مبارک سے لگتے تھے، حضرت انس کہتے کہ جب صبح ہونے پر) خبیر والے (ہماری آمد سے بیخبر اپنے کھیتوں میں جانے کے لئے) اپنے پھاوڑے تھیلے (یعنی کھیتی باڑی کا سامان) لئے ہوئے (اپنے گھروں سے نکلے اور ہماری طرف آئے اور انہوں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا تو (چیخ چیخ کر) کہنے لگے، محمد ﷺ آگئے، اللہ کی قسم محمد ﷺ اور ان کے لشکر آگئے، یہ کہتے ہوئے وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور قلعہ میں پناہ گزیں ہوگئے، جب رسول کریم ﷺ نے ان کو اس طرح بھاگتے ہوئے دیکھا تو (گویا اس کو ان کی شکست سے تعبیر کرتے ہوئے اور از راہ تفاول) فرمایا اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، خیبر برباد ہوگیا، اس میں کوئی شک نہیں، ہم (مسلمانوں کی جماعت یا انبیاء) جب کسی قوم کے میدان میں (جنگ کے لئے) اترتے ہیں تو اس ڈرائی گئی قوم کی صبح بڑی خراب ہوجاتی ہے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کا یہ جنگی معمول بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ جب دشمنوں کی آبادی پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتے تو طلوع فجر کے بعد اس آبادی کے بارے میں غور وتامل فرماتے اور آبادی والوں کی حرکات و سکنات اور ان کے افعال کے ذریعہ ان کے عقائد کا پتہ چلاتے کہ یہ کون لوگ ہیں، اگرچہ آپ ﷺ کو یہ معلوم ہوتا کہ یہ کفار کی آبادی ہے لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ محض اس احتمال کے پیش نظر یہ تامل فرماتے کہ شاید اس آبادی میں مسلمان بھی ہوں اگر آپ ﷺ کو اس آبادی کی طرف سے (فجر کی ) اذان سنائی دیتی تو اس کو اس بات کی علامت اور قرینہ سمجھ کر کہ یا تو یہ آبادی مسلمانوں ہی کی ہے یا اس آبادی میں مسلمان بھی ہیں آپ ﷺ حملہ آور ہونے کا ارادہ موقوف فرما دیتے اور اس آبادی کو جنگی شعلوں کے حوالے نہ کرتے، ہاں اگر اذان نہ سنائی دیتی تو پھر آپ ﷺ اس پر حملہ کردیتے اور اس کو جنگی میدان میں تبدیل کردیتے، کیونکہ اس زمانے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ مسلمان اذان ترک کرسکتے ہیں۔ اس لئے اس آبادی کی طرف سے اذان کی آواز نہ آنا اس بات کی واضح دلیل ہوتی کہ یہ آبادی کی طرف سے اذان کی آواز نہ آنا اس بات کی واضح دلیل ہوتی کہ یہ آبادی اللہ کے نام لیواؤں سے بالکل خالی ہے اور یہاں صرف کفر کا ٹھکانا ہے خطابی کہتے ہیں کہ یہ اس بات کی مستحکم دلیل ہے کہ اذان اسلام کے شعار میں سے ہے اور اس کو ترک کرنا قطعًا جائز نہیں ہے بلکہ اگر کسی آبادی وشہر کے لوگ اذان ترک کرنے پر اتفاق کر کے بیٹھ جائیں اور اذان دینا چھوڑ دیں تو اس صورت میں امام وقت (اسلامی مملکت کے سربراہ) پر واجب ہوگا کہ ان سے جنگ و قتال کرے اور ان کو اس عام گمراہی سے بچائے، چناچہ حنفی فقہاء نے بھی یہی لکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہم جب کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں الخ یہ جملہ مستانفہ ہے، جس کا مقصد ماقبل کی بات خیبر کی بربادی کی وضاحت کرنا اور اس کی وجہ بیان کرنا ہے۔ ڈرائی گئی قوم سے مراد کفار ہیں۔ اس جملہ سے آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ ان پر قتل و غارت گری کی صورت میں اللہ کی طرف سے نازل ہونے والے عذاب کی وجہ سے ان کی صبح بڑی بھیانک ہوگئی ہے۔ نیز آپ ﷺ نے یہ بات قرآن کریم کی اس آیت کریمہ سے پیدا کی کہ (فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَا ءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِيْنَ ) ۔ (37 ۔ الصافات 77) کیا یہ (کفار) ہمارے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں ؟ پس جب ان کے میدان میں ہمارا عذاب اترے گا تو ان کی صبح بڑی خراب ہوگی جن کو ڈارایا گیا۔ نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دشمن کے مقابلہ پر پہنچنے کے وقت (یعنی میدان جنگ میں) نعرہ تکبیر (اللہ اکبر) بلند کرنا مستحب ہے اور ایسے موقع کے مثل حالات کے امور محققہ میں قرآن کریم کے ذریعہ استشہاد جائز ہے چناچہ اسی کے مثل وہ صورت تھی جب کہ آنحضرت ﷺ نے فتح مکہ کے وقت کہا تھا (جَا ءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ) ۔ 17 ۔ الاسراء 81) حق آیا اور باطل گیا گزرا ہوا۔ نیز علماء نے کہا ہے کہ قرآن کریم سے ایسا استشہاد جو محاورات میں بطریق ضرب المثل ہو یا لغو وبے فائدہ گفتگو و کلام کے دوران ہو، مکروہ ہے۔ بلکہ ملا علی قاری کہتے ہیں کہ ہمارے بعض علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ کسی شخص کا اپنے مفہوم و ادائیگی کے لئے اپنے الفاظ، استعمال کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا کلام یعنی قرآن کریم کی کوئی آیت یا کسی آیت کا ٹکڑا استعمال کرنا کفر ہے جیسے کوئی شخص اپنے مخاطب کو جس کا نام یحییٰ ہو، کوئی کتاب دیتے وقت یوں خطاب کرے۔ یا یحییٰ خذالکتباب بقوۃ (یہ دراصل ایک آیت کا ٹکڑا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے یحییٰ ! اس کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو) یا کوئی شخص اپنے مخاطب کو مثلاً کھانا کھانے کے لئے یا آگے بڑھنے کے لے کہنا چاہتا ہے مگر اپنے الفاظ کھاؤ یا آگے بڑھو کی بجائے بسم اللہ کہتا ہے اور اسی طرح کی کسی بھی صورت میں قرآن کریم کے الفاظ کو استعمال کرنا۔ نیز ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا (جآء الحق وزھق الباطل) فرمانا کہ استشہاد کے طور پر نہیں تھا بلکہ دراصل امتثال امر (اطاعت حکم) کے طور پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو حکم دیا تھا۔ (قل جآء الحق وزھق الباطل) (الاسراء ١٧ ٨١) یعنی (اے محمد ﷺ کہہ دیجئے کہ (دین) حق (غالب ہونے کو) آیا اور باطل گیا گزرا ہوا۔ اسی طرح آپ ﷺ کا (رب زدنی علماً ) کہنا اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق تھا کہ (وقل رب زدنی علماً ) ۔ (طہ ٢٠ ١١٤) یعنی (اے محمد ﷺ یوں دعا کیجئے کہ اے میرے رب ! مجھے زیادہ سے زیادہ علم عطا فرما۔ غرضیکہ اس طرح کے جتنے منقولات آپ ﷺ سے ثابت ہیں وہ سب در اصل حکم الہٰی کی اطاعت وبجاآوری ہے اور یہ مستحب ہے۔

【8】

ظہر کے وقت آنحضرت ﷺ کی طرف سے جنگ کی ابتداء

اور حضرت نعمان بن مقرن کہتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ جنگ میں شریک ہوا ہوں، چناچہ جب (کسی دن) آپ ﷺ صبح کے وقت جنگ شروع نہ کرتے تو اس وقت کا انتظار فرماتے جب کہ ہوا چل پڑے اور (ظہر کی) نماز کا وقت آجائے۔ (بخاری ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظہر کی نماز کے وقت جنگ کی ابتداء اس صورت میں ہوتی جب کہ کسی وجہ سے صبح کے وقت جنگ شروع نہ ہو پاتی، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کی ابتداء حالات و مصلحت کے مطابق کی جاتی تھی، اگر حالات کا تقاضہ صبح کے وقت جنگ چھیڑنے کا ہوتا تو صبح کے وقت لڑائی شروع کی جاتی اور اگر کسی وجہ سے صبح کے وقت جنگ چھیڑنا مناسب نہیں ہوتا تو پھر دوپہر ڈھلے جنگ کی ابتداء کی جاتی۔

【9】

دوپہر ڈھلے جنگ کی ابتداء

حضرت نعمان ابن مقرن کہتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کے ہمراہ (لڑائیوں میں) شریک ہوا ہوں، چناچہ آنحضرت ﷺ جب دن کے ابتدائی حصہ میں (یعنی صبح کے وقت) جنگ نہ چھیڑتے تو اس وقت تک (جنگ کی ابتداء کرنے کا) انتظار کرتے جب تک کہ سورج نہ ڈھل جاتا، ہوا نہ چلنے لگتی اور نصرت (یعنی فتح کی ہوا) نازل نہ ہوجاتی، (یا نصرت نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ظہر کی نماز کے بعد مجاہدین اسلام کے لئے مسلمانوں کی دعا کی برکت سے فتح کے آثار ظاہر نہ ہوجاتے ) ۔ (ابو داؤد)

【10】

آنحضرت ﷺ کی جنگ کے اوقات

اور حضرت قتادہ، حضرت نعمان ابن مقرن سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا میں نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ جہاد کیا ہے چناچہ آنحضرت ﷺ طلوع فجر کے بعد اس وقت تک (جنگ شروع کرنے سے) رکے رہتے جب تک کہ (آپ ﷺ فجر کی نماز سے فارغ نہ ہوجاتے اور سورج نہ نکل آتا، پھر جب سورج نکل آتا تو جنگ شروع کردیتے اور جب دوپہر ہوجاتی (یعنی شرعی دوپہر کہ وہ چاشت کا وقت ہے جو دوپہر کے قریب ہوتا ہے) تو دوپہر ڈھلنے تک کے لئے (جنگ سے) رک جاتے۔ پھر جب دوپہر ڈھل جاتی (اور ظہر کی نماز پڑھ لیتے) تو عصر تک جنگ کرتے اور پھر رک جاتے یہاں تک کہ عصر کی نماز پڑھنے کے بعد پھر جنگ میں مشغول ہوجاتے قتادہ کہتے ہیں کہ کہا جاتا تھا (یعنی صحابہ آنحضرت ﷺ کے اس جنگی نظام الاوقات کی حکمت کے بارے میں کہا کرتے تھے) کہ یہ اس وجہ سے تھا کہ ان اوقات میں نصرت کی ہوائیں چلتی ہیں اور مسلمان اپنی نماز میں اپنے لشکروں کے لئے (فتح و کامرانی کی) دعائیں کرتے ہیں (یعنی نماز کے بعد دعائیں مانگتے ہیں یا نماز کے دوران ہی دعائیں کرتے ہیں جیسا کہ قنوت پڑھنے کے سلسلہ میں احادیث منقول ہیں ) ۔ (ترمذی)

【11】

مجاہدین اسلام کو ایک خاص ہدایت

اور حضرت عصام مزنی کہتے کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں (جہاد کے لئے) ایک چھوٹے لشکر میں روانہ کیا اور فرمایا کہ جب (کسی جگہ) تم کوئی مسجد دیکھو یا مؤذن کو اذان دیتے سنو تو وہاں کسی کو قتل نہ کرنا۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر تم کسی جگہ شعار اسلام میں کوئی قولی یا فعلی علامت پاؤ تو اس وقت تک کسی کو قتل نہ کرو جب کہ یہ ظاہر نہ ہوجائے کہ کون مؤمن ہے اور کون کافر ہے۔

【12】

زعماء ایران کے نام حضرت خالد بن ولید کا مکتوب

حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید نے فارس یعنی ایران کے لوگوں (یعنی ان کے زعماء اور سرداروں) کو یہ مکتوب بھیجا آیت (بسم اللہ الرحمن الرحیم) خالد ابن ولید کی طرف سے رستم ومہران کے نام جو زعماء ایران میں سے ہیں اس شخص پر سلامتی ہو جو حق و ہدایت کی پیروی کرے۔ بعد ازاں ! واضح ہو کہ ہم تمہیں اسلام (قبول کرنے) کی دعوت دیتے ہیں، اگر تم اسلام قبول نہیں کرتے ہو تو ذلت و خواری کے ساتھ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کرو اور اگر تم اس (جزیہ ادا کرنے) سے (بھی) انکار کرو گے تو تمہیں آگاہ ہوجانا چاہئے کہ ہلاکت و پشیمانی تمہارا مقدر بن چکی ہے کیونکہ) بلاشک وشبہ میرے ساتھ ایسے لوگوں کی جماعت ہے جو خون بہانے کو (یا اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کردینے کو) اسی طرح پسند کرتے ہیں جس طرح ایران کے لوگ شراب کو پسند کرتے ہیں (یعنی جس طرح تم ایران والوں کو شراب کے نشہ میں کیف و سرور حاصل ہوتا ہے اسی طرح میری جماعت کے لوگوں کو قتل و قتال میں سرمستی و سرشاری حاصل ہوتی ہے یا ان کو جان لینے اور جان دینے میں وہی خوشی اور وہی لذت حاصل ہوتی ہے جو تم شراب میں محسوس کرتے ہو) اور سلامتی ہو اس پر جو حق و ہدایت کی پیروی کرے۔ (شرح السنۃ )