127. قیدیوں کے احکام کا بیان

【1】

وہ کفار قیدی جو جنت میں داخل ہوں گے

حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ اس قوم پر تعجب کرتا ہے یعنی ان لوگوں سے خوش ہوتا ہے جو زنجیروں میں بندھے ہوئے جنت میں داخل ہوتے ہیں۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے خوش ہوتا ہے) جو زنجیروں میں باندھ کر جنت کی طرف لے جائے جاتے ہیں۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ کفار (دشمن) کے جو لوگ جہاد وغیرہ کے موقع پر قیدی بنائے جاتے ہیں اور ان کو زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑ کر دارالاسلام میں لایا جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ان کو ایمان نصیب فرماتا ہے تو ان کو جنت میں داخل کیا جائے گا اس اعتبار سے اگرچہ ان کے دخول جنت کا سبب ان کا ایمان قبول کرلینا ہے لیکن ظاہر میں گویا وہ زنجیروں اور بیڑیوں میں باندھ کر جنت میں داخل کئے گئے ہیں۔

【2】

دشمن کے جاسوس کو قتل کرنے کا حکم

اور حضرت سلمہ ابن اکوع کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) مشرکین، (دشمن) کا ایک جاسوس نبی کریم ﷺ کے پاس آیا جب کہ آپ ﷺ سفر کے دوران تھے، چناچہ اس جاسوس نے (ٹوہ لینے کے لئے) آنحضرت ﷺ کے صحابہ کے پاس بیٹھ کر باتیں کیں اور پھر چلا گیا، نبی کریم ﷺ کو جب اس کے بارے میں معلوم ہوا تو (آپ ﷺ نے فرمایا اس کو تلاش کرو اور قتل کر ڈالو چناچہ میں نے اس کو (ڈھونڈھ نکالا اور) قتل کر ڈالا، آنحضرت ﷺ نے اس کا سامان و اسباب مجھے مرحمت فرمایا۔ ( بخاری ومسلم ) اور حضرت سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کے ساتھ (قبیلہ قیس کی ایک شاخ) ہوازن کے خلاف جہاد میں شریک تھے (ایک دن) اس وقت جب کہ ہم رسول کریم ﷺ کے ہمراہ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، اچانک ایک شخص جو (دشمن کا جاسوس تھا اور) سرخ اونٹ پر سوار تھا آیا، اس نے اونٹ کو بٹھا دیا اور (ادھر ادھر) دیکھنے لگا (یعنی وہ ہماری حالت و کیفیت کی ٹوہ لینے لگا) اس وقت ہم (اپنی خستہ حالی اور پیادہ پائی کی وجہ سے) بہت نڈھال ہو رہے تھے، ہمارے پاس سواریوں کی کمی تھی اور ہم میں سے بعض لوگ پیدل تھے۔ چناچہ (جب اس شخص نے ہماری اس کمزوری کا اندازہ لگا لیا کہ ہم سواریوں کی کمی اور اپنی خستہ حالی کی وجہ سے پریشان اور نڈھال ہیں تو دشمن کو اس کی اطلاع دینے کے لئے) وہ اچانک (ہمارے درمیان سے) دوڑتا ہوا نکلا اور اپنے اونٹ کے پاس پہنچ کر (اس پر سوار ہونے کے بعد) اس کو کھڑا کیا اور وہ اونٹ اس کو لے کر تیزی سے دوڑنے لگا میں (نے یہ صورت حال دیکھی تو میں بھی اپنے لوگوں کے درمیان سے نکلا اور (اس شخص کے پیچھے) دوڑا یہاں تک کہ میں نے (اس کو جا لیا اور) اونٹ کی مہار پکڑ لی اور اس کو بٹھا دیا اور پھر اپنی تلوار سونت کر اس شخص کے سر پر (بھر پور) وار کیا (جس سے اس کا کام تمام ہوگیا) اس کے بعد اونٹ کو، جس پر اس شخص کا سامان اور اس کے ہتھیار تھے، کھینچتا ہوا لایا، جب رسول کریم ﷺ اور دوسرے لوگ میرے سامنے آئے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس شخص کو کس نے قتل کیا ہے ؟ صحابہ نے کہا کہ سلمہ ابن اکوع نے ! آپ ﷺ نے فرمایا اس سارے سامان کے حقدار یہی (سلمہ) ہیں۔ بخاری ومسلم )

【3】

مدینہ کے عہد شکن یہودیوں کے متعلق فیصلہ

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ جب (مدینہ میں آباد) بنوقریظہ (کے یہودی) حضرت سعد ابن معاذ کو حاکم تسلیم کرلینے پر اتر آئے (یعنی وہ اس پر آمادہ ہوئے کہ سعد ابن معاذ جو فیصلہ کریں گے ہم اس کو تسلیم کرلیں گے، تو رسول کریم ﷺ نے حضرت سعد کو بلانے کے لئے ایک آدمی بھیجا، سعد ابن معاذ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے اور جب وہ قریب پہنچے تو رسول کریم ﷺ نے (حاضرین سے) کہا کہ تم لوگ اپنے سردار کی تعظیم یا ان کی مدد کے لئے کھڑے ہوجاؤ سعد ابن معاذ (آپ ﷺ کے قریب) آ کر بیٹھ گئے تو رسول کریم ﷺ نے (ان کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ یہ لوگ (یعنی بنو قریظہ کے یہودی) تمہیں حکم ماننے پر راضی ہوگئے ہیں۔ سعد ابن معاذ نے کہا کہ میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان (یہودیوں) میں سے جو لوگ لڑنے (کی صلاحیت رکھنے) والے ہیں ان کو قتل کردیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا تم نے ان کے بارے میں بادشاہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے یعنی تم نے ایسا فیصلہ کیا ہے جس سے اللہ تعالیٰ بھی راضی ہے) اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تم نے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے ۔ ( بخاری ومسلم) تشریح حضرت سعد ابن معاذ بڑے اونچے درجہ کے صحابی اور مشاہیر انصار میں سے ہیں مدینہ کے انصار ان کو اپنا سردار اور بڑا مانتے تھے۔ بنو قریظہ مدینہ کے یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا، یہ قبیلہ حضرت سعد ابن معاذ کا حلیف اور اس کے یہودی ان کے عہد وامان میں تھے، جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مدینہ پہنچ کر وہاں کے قبائل یہود سے ایک باہمی معاہدہ کیا تھا جس کے تحت یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان، باہمی میل ملاپ کے ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کے شہری اور سیاسی حقوق و مفادات کے تحفظ کے معاملات طے پائے تھے لیکن یہودیوں نے کچھ ہی دنوں بعد اس معاہدہ کو بالائے طاق رکھ دیا اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور ان کو نقصان پہنچانے کے اقدامات میں مشغول ہوگئے، چناچہ دوسرے یہودی قبائل کی طرح بنوقریظہ بھی اس عہد شکنی کے مرتکب ہوئے اور آنحضرت ﷺ نے ٥ ھ میں غزوہ خندق کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان (بنوقریظہ) کے خلاف جہاد کا ارادہ کیا اور ان کا محاصرہ کرلیا اور یہ محاصرہ پچیس ٢٥ روز تک جاری رہا جب بنو قریظہ بالکل مجبور ہوگئے تو انہوں نے کہا کہ سعد ابن معاذ ہمارے بارے میں جو فیصلہ کریں گے ہم ان اس کو منظور کریں گے، ان کا خیال تھا کہ چونکہ ہم سعد کے حلیف اور ان کے عہد وامان میں ہیں اس لئے وہ ہماری رعایت کریں گے اور ہمیں اس محاصرہ سے نجات دلانے کی کوشش کریں گے، لیکن حضرت سعد نے اس تعلق کا لحاظ کئے بغیر وہی فیصلہ دیا جو ان یہودیوں کے حسب حال اور مصلحت و حکمت کے عین مطابق تھا۔ تم اپنے سردار کے لئے کھڑے ہوجاؤ اس حکم کے بارے میں امام نووی کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ صاحب فضل کی تعظیم و توقیر کی جائے اور اس کے آنے پر تعظیمًا کھڑا ہوجانا چاہئے چناچہ اکثر علماء نے اس مسئلہ میں اس ارشاد گرامی کو دلیل قرار دیا ہے اور بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا یہ حکم حضرت سعد کی تعظیم کرنے کی غرض سے نہیں تھا بلکہ اس بنا پر تھا کہ ان (سعد) کی ران پر تیر کا زخم تھا جو غزوہ خندق میں ان کو لگا تھا اور اس کی وجہ سے وہ سواری پر سے خود اترنے سے مجبور تھے، لہٰذا آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ جاؤ اور سواری پر سے اترنے میں سعد کی مدد کرو۔

【4】

سردار یمامہ کے اسلام لانے کا واقعہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک لشکر کو (جہاد کرنے کے لئے) بخد کی طرف روانہ کیا، لشکر کے لوگ (قبیلہ) بنو حنیفہ کے ایک شخص کو پکڑ کر (مدینہ) لائے جس کا نام ثمامہ ابن اثال تھا اور جو شہر یمامہ کا سردار تھا، اس شخص کو مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا (تاکہ وہ بھاگ نہ سکے) رسول کریم ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور اس سے پوچھا کہ کہو ثمامہ ! تمہارے پاس (کہنے سننے کو) کیا ہے ؟ (یعنی بتاؤ تمہارا کیا حال ہے میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کس طرح کا سلوک کروں گا ؟ ) ثمامہ نے کہا کہ میرے پاس بھلائی ہی بھلائی ہے یا میرے پاس بہت مال ہے، اگر آپ ﷺ (مجھ کو قتل کریں گے تو ایک خون والے شخص کو قتل کریں گے (جو قتل ہی کئے جانے کا مستحق ہے، ان الفاظ کے ذریعہ گویا ثمامہ نے اپنی تقصیر کا اعتراف و اقرار کیا، یا اس کے ان الفاظ کا یہ مطلب تھا کہ اگر آپ ﷺ مجھے قتل کردیں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون رائیگاں نہیں جائے گا کیونکہ میری قوم میرا خون معاف نہیں کرے گی بلکہ آپ سے بدلہ لے گی، اس صورت میں اس نے گویا اپنی امارت اور اپنی ریاست و وجاہت کا دعوی کیا) اور اگر آپ (مجھے باعزت رہائی دے کر میرے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو ایک شخص ساتھ اچھا سلوک کریں گے جو شکر گذار وقدر دان سے (یعنی میں بھی اس اچھے سلوک کا آپ ﷺ کو بدلہ دوں گا) اور اگر آپ ﷺ مال چاہتے ہیں تو مانگیے، جتنا مال چاہیں گے دیا جائے گا۔ (یہ باتیں سن کر) آنحضرت ﷺ نے اس کو (اس حال پر) چھوڑ دیا جب دوسرا دن آیا تو آنحضرت ﷺ نے پھر سے پوچھا کہ (کہو ثمامہ ! تمہارے پاس) کہنے سننے کو کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ میرے پاس وہی چیز ہے جو میں کہہ چکا ہوں کہ اگر آپ اچھا سلوک کریں گے تو ایک ایسے شخص کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے جو شکر گزار وقدردان ہے، اگر آپ قتل کریں گے تو ایک خون والے شخص کو قتل کریں گے اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو مانگیے جتنا مال چاہیں گے دیا جائے گا۔ آنحضرت ﷺ نے (اس دن بھی یہ سن کر) اس کو (اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اور جب تیسرا دن آیا تو آپ ﷺ نے پھر اس سے پوچھا کہ (کہو ثمامہ تمہارے پاس کیا ہے ؟ اس نے کہا وہی چیز ہے جو میں کہہ چکا ہوں کہ اگر آپ اچھا سلوک کریں گے تو ایک ایسے شخص کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے جو شکر گذار وقدر دان ہے، اگر قتل کریں گے تو ایک خون والے شخص کو قتل کریں گے اور اگر مال چاہتے ہیں تو مانگیے جتنا مال چاہیں گے دیا جائے گا، رسول کریم ﷺ نے (یہ سن کر) حکم دیا کہ ثمامہ کو رہا کردیا جائے۔ چناچہ (رہائی پانے کے بعد کچھ کہے سنے بغیر) کھجوروں کے ان درختوں (کے جھنڈ) میں چلا گیا جو مسجد نبوی ﷺ کے قریب تھے اور وہاں سے نہا دھو کر پھر مسجد نبوی میں آیا اور (آنحضرت ﷺ کے سامنے) کہا اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ یعنی میں (سچے دل کے اعتراف و اقرار کے ساتھ) گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور (پھر کہنے لگا کہ) اے محمد ﷺ اللہ کی قسم میرے نزدیک روئے زمین پر آپ ﷺ کے چہرے سے زیادہ نفرت انگیز کوئی چہرہ نہیں تھا لیکن اب آپ ﷺ کا چہرہ مبارک میرے نزدیک (دنیا کے) سارے چہروں سے زیادہ پیارا ہے، اللہ کی قسم ! میرے نزدیک آپ ﷺ کے دین سے زیادہ نفرت انگیز کوئی دین نہیں تھا لیکن اب آپ ﷺ کا دین میرے نزدیک سارے دینوں سے زیادہ پیارا ہے اور اللہ کی قسم ! میرے نزدیک آپ ﷺ کے شہر سے زیادہ نفرت انگیز کوئی شہر نہیں تھے لیکن اب میرے نزدیک سارے دنیا کے سارے شہروں سے زیادہ پیارا ہے۔ پھر (اس عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ) آپ ﷺ کے لشکر نے مجھے اس وقت گرفتار کیا تھا جب کہ میں عمرہ (کرنے کے لئے مکہ جانے کا ارادہ کر رہا تھا تو اب آپ ﷺ مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں (آیا میں عمرہ کے لئے مکہ جاؤں یا نہیں ؟ ) رسول کریم ﷺ نے (پہلے تو) اس کو بشارت دی کہ اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے تمہیں شرف و عظمت انسانیت حاصل ہوگئی ہے اور تمہارے پہلے سارے گناہ بخش دیئے گئے ہیں) اور پھر ان کو عمرہ کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ثمامہ جب (عمرہ کرنے کے لئے) مکہ پہنچے تو کسی کہنے والے نے ان سے کہا کہ تم تو بےدین ہوگئے ہو۔ ثمامہ نے جواب دیا کہ نہیں ! میں نے رسول کریم ﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے، میں بےدین نہیں ہوا ہوں اور (یاد رکھو ! ) اللہ کی قسم ! اب یمامہ سے تم کو گہیوں کا ایک دانہ بھی نہیں بھیجا جائے گا جب تک کہ رسول کریم ﷺ اس کی اجازت نہ دیں۔ (مسلم) اس روایت کو بخاری نے بھی اختصار کے ساتھ نقل کیا ہے۔

【5】

جبیر ابن مطعم کو آنحضرت ﷺ کی طرف سے ترغیب اسلام

اور حضرت جبیر ابن مطعم کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں فرمایا کہ اگر مطعم ابن عدی زندہ ہوتے اور مجھ سے ان ناپاک قیدیوں کے حق میں سفارش کرتے، تو میں ان (قیدیوں) کو ان (مطعم) کی سفارش پر رہا کردیتا۔ ( بخاری) تشریح حضرت جبیر اسلام قبول کرنے سے پہلے جنگ بدر کے موقع پر کفار کے ساتھ تھے اور مسلمانوں کے مقابلے پر لڑ رہے تھے جنگ کے بعد ان کفار میں سے جو لوگ قیدی بنا کر مدینہ لائے گئے ان میں حضرت جبیر بھی تھے اس طرح حضرت جبیر نے آنحضرت ﷺ سے یہ حدیث سنی تو کفر کی حالت میں، مگر اس کو بیان کیا اسلام قبول کرنے کے بعد۔ مطعم ابن عدی، حضرت جبیر کے والد تھے اور نوفل ابن عبد مناف کا پوتا ہونے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کے ہم جد قرابتی تھے ان (مطعم) کا آنحضرت ﷺ پر ایک احسان تھا کہ جب آنحضرت ﷺ تبلیغ اسلام کے لئے طائف تشریف لے گئے اور وہاں سے واپس آئے تو مشرکین مکہ نے آپ ﷺ کو اپنے نرغے میں لے کر نقصان پہنچانا چاہا مگر مطعم نے ان مشرکین کو آنحضرت ﷺ سے دور کیا اس لئے آنحضرت ﷺ نے جبیر کے سامنے مذکورہ کلمات ارشاد فرمائے جس کا ایک مقصد جبیر کی تالیف قلب اور ان کو اسلام کی طرف راغب کرنا تھا۔

【6】

حدیبیہ میں آنحضرت ﷺ پر حملے کا ارادہ کرنے والے کفار مکہ گرفتار کر کے چھوڑ دینے کا واقعہ

اور حضرت انس راوی ہیں کہ (صلح حدیبیہ کے سال) نبی کریم ﷺ کے خلاف مکہ کے اسی آدمی ہتھیاروں سے لیس ہو کر تنعیم کے پہاڑ سے اتر آئے جن کا ارادہ یہ تھا کہ نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ پر اچانک حملہ کر کے ان کو نقصان پہنچائیں لیکن آنحضرت ﷺ نے (لڑے بھڑے بغیر) ان سب کو بےبس اور ذلیل کر کے گرفتار کرلیا اور پھر ان کو زندہ چھوڑ دیا۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ۔ اور پھر ان کو رہا کردیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ ) 48 ۔ الفتح 24) اور وہ اللہ ایسا ہے جس نے نواح مکہ میں ان (کفار) کا ہاتھ تمہارے خلاف اور تمہارا ہاتھ ان کے خلاف بند رکھا۔ (مسلم)

【7】

جنگ بدر کے بعد مقتولین مکہ سے آنحضرت ﷺ کا خطاب

اور حضرت قتادہ کہتے ہیں حضرت انس بن مالک نے حضرت ابوطلحہ کے حوالہ سے ہمارے سامنے یہ بیان کیا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے جنگ بدر کے دن (مکہ کے) کفار قریش کے چوبیس (مقتولین) سرداروں کے بارے میں حکم دیا ( کہ ان کو ٹھکانے لگا دیا جائے) چناچہ ان کی نعشوں کو بدر کے ایک کنویں میں ڈال دیا گیا جو ناپاک تھا اور ناپاک کرنے والا تھا۔ نبی کریم ﷺ کی یہ عادت تھی کہ جب آپ ﷺ (جنگ میں) کسی قوم (یعنی دشمنوں) پر غلبہ اور فتح پالیتے تھے تو اس میدان جنگ میں تین راتیں قیام فرماتے تھے چناچہ (اسی عادت کے مطابق آپ ﷺ جنگ جیت لینے کے بعد بدر کے میدان میں بھی تین راتیں قیام فرما رہے اور جب تین دن گذر گئے تو آپ ﷺ نے اپنی سواری کے اونٹ پر کجاوہ باندھنے کا حکم دیا، چناچہ کجاوہ باندھ دیا گیا اور وہاں سے روانہ ہوئے اور آپ کے صحابہ بھی آپ کے پیچھے ہو لئے (جب اس کنوئے پر پہنچے جس میں سرداران قریش کی نعشیں ڈالی گئی تھی تو) آپ ﷺ اس کنوئیں کے کنارے کھڑے ہوگئے اور ان سرداروں کو ان کا اور ان کے باپوں کا نام لے کر پکارنا شروع کیا کہ اے فلاں ابن فلاں اور اے فلاں ابن فلاں (اور پھر گویا ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ) (اب) تمہیں یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ؟ بلاشبہ ہمیں تو وہ چیز حاصل ہوگئی جس کا ہم سے ہمارے رب نے قطعی وعدہ کیا تھا ( یعنی تمہارے مقابلہ پر ہماری فتح اور باطل طاقتوں پر ہمارے غلبہ کا) اور کیا تم نے بھی وہ چیز پالی جس کا تم سے تمہارے پروردگار نے قطعی وعدہ کیا تھا یعنی تمہارے عذاب کا (مطلب یہ کہ ہم کو تو اللہ کے وعدے کے مطابق فتح و کامیابی حاصل ہوگئی کیا تم کو بھی عذاب ملا جس سے تمہارے پروردگار نے تمہیں ڈرایا تھا ؟ گویا آنحضرت ﷺ کا یہ سوال ازراہ توبیخ تھا) حضرت عمر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ ایسے جسموں کو مخاطب کر رہے ہیں جن میں روحیں نہیں ہیں ! ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، ان (جسموں سے میں جو کچھ کہہ رہا ہوں تم اس کو زیادہ سننے والے نہیں ہو اور ایک روایت میں یوں ہے کہ۔ تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو لیکن (فرق صرف اتنا ہے کہ تم جواب دینے پر قادر ہو اور) یہ جواب نہیں دے سکتے۔ (بخاری ومسلم) بخاری نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ حضرت قتادہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ان (سرداران قریش) کو آنحضرت ﷺ کے خطاب کے وقت) زندہ کردیا تھا تاکہ وہ آنحضرت ﷺ کی بات سن لیں اللہ تعالیٰ کے سامنے) ان کو سرزنش ہو اور وہ ذلت و خواری، عذاب اور افسوس وپشیمانی کو محسوس کریں۔ تشریح حضرت عبد الحق محدث دہلوی وغیرہ نے اس حدیث کے ذریعہ سماع موتی کے مسئلہ کو ثابت کیا ہے جس کہ اکثر حنفی علماء نے اس (سماع موتی) کا انکار کیا ہے، ان علماء کی طرف سے مختلف انداز میں جواب دئیے گئے ہیں جن کی تفصیل فقہ کی کتابوں جیسے فتح القدیر وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

【8】

غزوئہ حنین کے قیدیوں کی واپسی

اور حضرت مروان اور حضرت مسور ابن مخرمہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ اس وقت (خطبہ ارشاد کرنے کے لئے) کھڑے ہوئے جب قبیلہ ہوازن کے لوگ اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ ﷺ سے یہ درخواست کی کہ ان کا مال اور ان کے قیدی واپس کر دئیے جائیں، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ دونوں چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کرلو یعنی یا تو قیدیوں کو رہا کرا لے جاؤ یا مال واپس لے لو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم اپنے قیدیوں کو رہا کرانا پسند کرتے ہیں تب رسول کریم ﷺ نے (صحابہ کے سامنے) یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ پہلے آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی جس کا وہ مستحق ہے اور پھر فرمایا کہ ! بعد ازاں یہ (قبیلہ ہوازن کے لوگ) جو تمہارے (دینی یا نسبی) بھائی ہیں (اپنے کفر وشرک سے) توبہ کر کے (اور مسلمان ہو کر) تمہارے پاس آئے ہیں، میں نے اس چیز کو مناسب سمجھا ہے کہ ان کو ان کے قیدی واپس کر دے) اور جو شخص اپنے حصہ پر قائم رہنا چاہے تاوقتیکہ ہم اس کا عوض اس پہلے آنے والے مال میں سے نہ دے دیں جو اللہ تعالیٰ ہمیں غنیمت کے طور پر عطا کرے تو وہ ایسا ہی کرے (یعنی جو شخص اپنے حصے کے قیدی کو بغیر معاوضہ نہ دینا چاہے تو وہ ہمیں بتائے کہ وہ کیا معاوضہ لے گا تاکہ ہم یہ انتظام کردیں کہ اب کہیں سے جو سب سے پہلے مال غنیمت آئے اس میں سے اس کا وہ معاوضہ ادا کردیا جائے ! لوگوں نے (یعنی بعض صحابہ یا بلا امتیاز تمام صحابہ نے) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم اس پر (یعنی قیدیوں کو واپس کردینے پر) خوشی کے ساتھ آمادہ ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہمیں (اس مجمع میں ) یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ تم میں سے کون شخص راضی ہے اور جو شخص راضی نہیں ہے اس کا امتیاز نہیں کیا جاسکتا لہٰذا تم سب لوگ (اپنے اپنے گھر) لوٹ جاؤ اور اپنے خاندان و قبیلہ کے سرداروں سے اس بارے میں مشورہ کرلو) تاآنکہ تمہارے (وہ) سردار تفصیل کے ساتھ) ہمارے سامنے تمہارا فیصلہ پیش کریں۔ چناچہ سب لوگ لوٹ کر چلے گئے اور جب ان کے سرداروں نے ان سے گفتگو کرلی تو وہ لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں واپس آئے اور آپ ﷺ کی بتایا کہ وہ (قیدیوں کو واپس کردینے پر) راضی ہیں اور انہوں نے (اس امر کی) اجازت دے دی ہے۔ (بخاری) تشریح مکہ مکرمہ سے شمال مشرقی جانب طائف کے لئے جو راستہ جاتا ہے اس راستے پر ایک وسیع میدان ملتا ہے جس کے اطراف میں پہاڑیاں ہیں اور اس سے گذرنے کے بعد چھوٹی سی بستی ملتی ہے، اس میدان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے آس پاس قبیلہ ہوازن کے لوگ آباد تھے اور یہیں فتح مکہ کے بعد وہ غزوہ ہوا تھا جس کو غزوہ حنین یا غزوہ ہوازن کہتے ہیں۔ اس غزوہ میں غزوہ میں غنیمت کا بہت زیادہ مال مسلمانوں کے ہاتھ لگا اور دشمن کے بیشمار بال بچے قیدی بنا کر مدینے لائے گئے تھے جن کو صحابہ کے درمیان تقسیم کردیا گیا ہے چناچہ جب اس غزوہ کے بعد قبیلہ ہوازن کے لوگ مشرف بہ اسلام ہوگئے تو وہ دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے اور اپنے مال اور اپنے قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا، چونکہ ان کا مال اور قیدی مجاہدین اسلام (یعنی صحابہ) کی ملکیت ہوگئے تھے اور ان کی اجازت کے بغیر ان کی ملکیت کو واپس کرنا جائز نہیں تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس سلسلے میں صحابہ کے سامنے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا اور ان سے مذکورہ اجازت طلب کی۔

【9】

گرفتاری کے بدلے گرفتاری

اور حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ قبیلہ ثقیف، بنو عقیل کا حلیف تھا، چناچہ جو قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابیوں کو گرفتار کرلیا تو رسول کریم ﷺ کے صحابہ نے بنو عقیل کے ایک آدمی کو گرفتار کرلیا اور اس کو مضبوطی سے باندھ کر حرہ میں ڈال دیا۔ رسول کریم ﷺ ادھر سے گذرے تو اس (قیدی) نے پکارا محمد ﷺ ! محمد ﷺ مجھے کس جرم میں گرفتار کرلیا گیا ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنے حلیف، قبیلہ ثقیف (کے لوگوں کے جرم میں یعنی قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے ہمارے دو مسلمانوں کو پکڑ لیا ہے، ان کے بدلے میں تمہیں پکڑ لیا گیا ہے۔ (یہ کہہ کر) آپ ﷺ نے اس کو اس کے حال پر (اس جگہ) چھوڑ دیا اور آگے بڑھ گئے، اس نے آنحضرت ﷺ کو پھر پکارا محمد ﷺ ! محمد ! رسول کریم ﷺ کو اس پر رحم آگیا، آپ ﷺ اس کے پاس آئے اور فرمایا کہ تم کس حال میں ہو ؟ اس نے کہا کہ میں مسلمان ہوں آپ ﷺ نے فرمایا (کاش ! ) تم یہ بات اس وقت کہتے، جب تم خود اپنے اختیار کے مالک تھے (یعنی جب کہ تم قید ہونے سے پہلے اپنے اوپر اختیار رکھتے تھے اور تم پر کوئی دباؤ نہیں تھا اگر اس وقت بطریق رغبت کے یہ کہتے کہ میں مسلمان ہوں تو تم نجات پا جاتے کامل نجات (یعنی دنیا میں تو یہ نجات ملتی کہ قید نہ ہوتے اور آخرت میں دوزخ کے عذاب سے چھٹکارا پاتے) راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے اس کو ان دونوں آدمیوں کے بدلے میں جن کو ثقیف نے گرفتار کیا تھا چھوڑ دیا۔ (مسلم) تشریح ثقیف عرب کے ایک بڑے اور مشہور قبیلہ کا نام ہے۔ جو بنو ہوازن کی ایک شاخ اور طائف میں آباد تھا، اسی طرح بنوعقیل بھی ایک تھا، یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کے حلیف تھے۔ زمانہ جاہلیت کے عرب میں یہ دستور تھا کہ قبائل آپس میں ایک دوسرے کے درمیان حلف وقسم کے ساتھ یہ عہد و پیمان کیا کرتے تھے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے برے بھلے کام کے ساتھی ہوں گے اور ہم میں سے کسی ایک کا دشمن دوسرے کا بھی دشمن اور کسی ایک کا دوست دوسرے کا بھی دوست ہوگا، لیکن جب اسلام کا زمانہ آیا تو زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق وہ قسما قسمی تو جائز رہی جس کا تعلق حق اور جائز باتوں سے تھا لیکن جس کا تعلق ناحق اور ناجائز باتوں سے تھا اس کو ختم کردیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اسلام کا جو حلف ہے وہ کافی ہے۔ بنو عقیل کے ایک آدمی کو گرفتار کرلیا یعنی قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے جن دو صحابہ کو پکڑ کر اپنے یہاں قید کرلیا تھا ان کے بدلے میں مسلمانوں نے بنوعقیل ایک آدمی پکڑ کر اپنے یہاں باندھ دیا، کیونکہ اس وقت قبائل کا باہمی دستور یہی تھا کہ ایک حلیف کے جرم میں دوسرے حلیف کے حلیف کے آدمی پکڑ لیا جاتا تھا چناچہ مسلمانوں نے بھی اسی دستور کے مطابق عمل کیا اور بظاہر اس میں مصلحت بھی تھی۔ حرہ مدینہ کے مضافات میں پہاڑی علاقہ کے اس قطعہ کو کہا جاتا تھا جس کی زمین کالی پتھریلی تھی۔ میں مسلمان ہوں الخ ان الفاظ کے ذریعہ اس شخص نے گویا یہ بتانا چاہا کہ میں پہلے ہی سے مسلمان ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو غیر مسلم، مسلمانوں کی قید میں ہو اور وہ یہ دعوی کرلے کہ میں مسلمان ہوں تو اس کی بات کو اس وقت تک تسلیم نہ کیا جائے جب تک کہ اس کا دعوی گواہی کے ذریعہ ثابت نہ ہوجائے۔ لیکن یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ ان الفاظ کے ذریعہ اس شخص کی یہ مراد ہو میں اب اسلام قبول کرتا ہوں۔ بہرحال آنحضرت ﷺ نے اس کے دعوی اسلام کو قبول نہیں کیا کیونکہ آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہ تو ازراہ نفاق اپنے اسلام کا دعویٰ کر رہا ہے یا بطریق اضطرار وہ اس دعوے پر مجبور ہے اسی لئے آپ ﷺ نے اپنے جھوٹا سمجھتے ہوئے دارالحرب جانے دیا۔ اس اعتبار سے اس شخص کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا یہ معاملہ گویا آپ ﷺ کے خصائص میں سے ہے۔

【10】

جنگ بدر کے قیدیوں میں سے آنحضرت ﷺ کے داماد ابوالعاص کی رہائی کا واقعہ

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب (جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو کفار مکہ پر غلبہ اور فتح عطا فرمائی اور ان میں سے کچھ کو قتل کر دئیے گئے اور کچھ قیدی بنا کر مدینہ لائے گئے اور پھر آنحضرت ﷺ نے ان کی رہائی کے بدلے میں مال طلب کیا تو) اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کی رہائی کا معاوضہ روانہ کیا، (آنحضرت ﷺ کی صاحبزادی) حضرت زینب نے بھی (اپنے شوہر) ابوالعاص کی رہائی کے بدلے میں کچھ مال بھیجا جس میں ان کا وہ ہار بھی تھا جو (پہلے) حضرت خدیجہ کے پاس تھا اور اس کو انہوں نے ابوالعاص کے ساتھ زینب کے نکاح کے وقت ان کو (جہیز میں) دیا تھا جب رسول کریم ﷺ نے وہ ہار دیکھا تو زنیب کے لئے آپ ﷺ پر رقت طاری ہوگئی (یعنی) اس وقت اپنی بیٹی حضرت زینب کی غربت و تنہائی کا احساس کر کے اور حضرت خدیجہ کی رفاقت کی یاد تازہ ہوجانے کی وجہ سے جن کے گلے میں وہ ہار رہتا تھا آپ ﷺ کا دل امنڈ آیا) اور آپ ﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا کہ اگر تم مناسب سمجھو تو زینب کی خاطر اس کے قیدی (ابو العاص) کو (بلا معاوضہ) رہا کردو اور اس (زینب) کو اس کی (وہ سب) چیزیں (جو اس نے ابوالعاص کی رہائی کی لئے بھیجی ہیں) واپس کردو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ بہتر ہے (ہم زینب کا مال واپس کر کے ابوالعاص کو بلا معاوضہ رہا کردیتے ہیں) چناچہ (ابو العاص کو رہا کردیا گیا اور رہائی کے وقت) آنحضرت ﷺ نے ابوالعاص سے یہ عہد وعدہ لیا کہ وہ آپ ﷺ کے پاس زینب کے آنے کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالیں (یعنی آپ ﷺ نے ابوالعاص کو رہا کرتے وقت ان سے کہا کہ یہ پختہ وعدہ کرو کہ مکہ پہنچ کر زینب کو میرے پاس مدینہ آنے دو گے اور اس کا راستہ نہیں روگے) اور پھر رسول کریم ﷺ نے زید ابن حارثہ اور انصار میں سے ایک شخص کو (مکہ) روانہ کیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ بطن یا جج میں ٹھہر جانا، جب زنیب (مکہ سے روانہ ہو کر) وہاں تمہارے پاس آجائے تو تم اس کے ساتھ ہوجانا اور (مدینہ) لے آنا۔ (احمد، ابوداؤد ) تشریح آنحضرت ﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں اور ابوالعاص ابن ربیع جو عبدالعزی ابن عبد شمس ابن عبد مناف کے پوتے تھے، ام المؤمنین حضرت خدیجہ کے بھانجے تھے اور حضرت زنیب کے شوہر ہونے کی وجہ سے داماد بھی تھے۔ حضرت خدیجہ، آنحضرت ﷺ سب سے پہلی زوجہ مطہرہ ہیں، آپ ﷺ کی ساری اولاد علاوہ ابراہیم کے حضرت خدیجہ ہی کے بطن سے تھی۔ ابراہیم جن کا کم سنی میں انتقال ہوگیا تھا حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے۔ حضرت زینب جو ایک کافر یعنی ابوالعاص کے نکاح میں تھیں تو اس کا سبب یہ تھا کہ اس وقت مسلمان عورت کا کافر مرد کے ساتھ نکاح جائز تھا، نیز مکہ سے حضرت زینب کو لانے کے لئے آنحضرت ﷺ کی طرف سے ایسے دو آدمیوں کا بھیجا جانا جو حضرت زینب کے شرعی محرم نہیں تھے ایک بالکل مخصوص نوعیت کا معاملہ تھا اور وہ ایک ایسی صورت تھی جو ( امن) کی صورت کہلائی جاسکتی ہے کہ حضرت زینب چونکہ صاحبزادی رسول تھیں اس لئے ان کے ساتھ کسی غیر محرم کا ہونا کسی قسم کے شک وشبہ سے بالا تر تھا اور کسی خوف و خطرہ کے پیدا ہونے کا سوال نہیں تھا۔ ویسے یہ ایک عام مسئلہ ہے کہ عورت کو کسی نا محرم کے ساتھ سفر کرنا جائز نہیں ہے بطن یا حج ایک جگہ کا نام تھا جو مکہ سے تقریبا آٹھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس لفظ یا جج کو صاحب قاموس نے یا اور دونوں جیم کے ساتھ یعنی یا جج لکھا ہے اور علماء نے اس کو نون اور یا و جیم کے ساتھ یعنی ناجج بھی نقل کیا ہے چناچہ مشکوۃ المصابیح کے اکثر قدیم نسخوں میں یہ لفظ ناجج ہی مذکور ہے۔ حضرت زینب جب مکہ سے مدینہ آگئیں تو ابوالعاص مکہ ہی میں رہے اور کفر کی حالت پر قائم رہے، کچھ دنوں کے بعد ان کو تجارت کی غرض سے شام کا سفر کرنا پڑا، جب مدینہ کے مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ ابوالعاص اس سفر میں مدینہ کے قریب سے گذرنے والے ہیں تو انہوں نے یہ اسکیم بنائی کہ ابوالعاص جیسے ہی مدینہ کے علاقہ میں داخل ہوں ان کا سارا مال چھین لیا جائے، اس اسکیم کی خبر حضرت زینب کو پہنچی تو ان کا دل شوہر کی محبت میں بےتاب ہوگیا، فورًا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا مسلمانوں میں سے کسی ایک کے عہد امان کا اعتبار نہیں ہے۔ حضرت زینب نے کہا کہ تو پھر یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ گواہ رہئے کہ میں ابوالعاص کو عہد امان دیتی ہوں۔ جب صحابہ نے یہ حال دیکھا تو ان کے لئے اپنی اسکیم پر عمل کرنا قطعًا ممکن نہیں رہا تاہم وہ بغیر ہتھیار واسلحہ کے مدینہ کے قریب ابوالعاص کی گزر گاہ پر پہنچے اور ان سے ملے تو کہا کہ ابوالعاص تم قریش کے ایک معزز شریف اور صاحب حیثیت فرد ہو اور پیغمبر اسلام کے چچا کے بیٹے بھی ہو ( اس نسبت سے تمہارے حق میں اس سے بہتر اور کوئی راہ نہیں ہے کہ) تم مسلمان ہوجاؤ تاکہ ( تمہیں آخرت کی فلاح ونجات تو ملے ہی گی) تمہارا یہ سب مال بھی تمہارے ہی پاس رہے۔ ابوالعاص نے ( یہ سن کر) کہا تم نے جو یہ کہا ہے ( کہ مسلمان ہوجانے کی وجہ سے مال محفوظ رہے گا) تو یہ ایک قطعی نامناسب اور غیرموزوں بات ہے میں اس سے پناہ مانگتا ہوں کہ اپنے اسلام کو مال و دولت ( کی کثافت) سے گندہ کروں ! اس کے بعد ابوالعاص مکہ روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچ کر لوگوں کا مال ان کے سپرد کیا اور پھر ( سب کو جمع کر کے) کہا کہ مکہ والو ! تم لوگوں کے مال تمہارے پاس پہنچ گئے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، پہنچ گئے۔ پھر ابوالعاص نے ان کے سامنے اعلان کیا کہ تم سب گواہ رہو ! میں مسلمان ہوگیا ہوں اشھدان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد الرسول اللہ۔ اس کے بعد حضرت ابوالعاص نے مکہ میں اپنا گھر بار، دوست عزیز اور مال و اسباب سب کچھ چھوڑ کر راہ ہجرت اختیار کی اور مدینہ پہنچ کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے، آنحضرت ﷺ نے بکمال محبت والفت ان کو خوش آمدید کہا اور حضرت زینب کو ان کی سپردگی میں دے دیا۔ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ابوالعاص کے مدینہ پہنچنے پر حضرت زینب سے ان کا دوبارہ ( از سر نو) نکاح کیا تھا یا پہلا ہی نکاح باقی رکھا تھا۔ آنحضرت ﷺ کو ابوالعاص سے بہت زیادہ تعلق تھا، خاص طور سے ان کے مسلمان ہوجانے کے بعد تو آپ ان سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ان سے بہت خوش رہا کرتے تھے۔ وہ حضرت ابوبکر صدیق کے دور خلافت میں جنگ یمامہ کے دوران شہید ہوئے۔

【11】

جنگ بدر کے قیدیوں میں سے قتل کئے جانے والے کفار

اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے بدر (کی جنگ میں مجاہدین اسلام کے خلاف لڑنے) والوں (میں سے جن کفار کو قید کیا تھا ان میں سے عقبہ ابن ابومعیط اور نضر ابن حارث کو قتل کرا دیا اور ابوغرہ کو (بلا معاوضہ رہا کر کے) ممنوع کیا۔ (شرح السنۃ) تشریح امام وقت (یعنی و اسلامی مملکت کے سربراہ) کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جو غیر مسلم (دشمن کے لوگ) اس کی قید میں ہوں اور وہ اسلام قبول نہ کریں تو وہ چاہے ان کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ چاہے غلام بنا کر رکھے اور چاہے مسلمانوں کے عہد امان کی بناء پر ان کو آزاد کر کے چھوڑ دے، البتہ ان کو ممنوع کرنا یعنی بلا کسی معاوضہ کے ان کو رہا کردینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس کا جواز منسوخ ہوگیا ہے۔ اور حضرت ابن مسعود راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جب عقبہ ابن معیط کو مار ڈالنے کا ارادہ کیا تو (اس نے) کہا کہ (میرے بچوں کو کون پالے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا آگ ۔ (ابو داؤد) تشریح آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ بچوں کو آگ پالے گی، گویا ان بچوں کے ضائع ہوجانے کے مفہوم کا حامل ہے، یعنی اگر آگ اس چیز کی صلاحیت رکھتی کہ وہ کسی کی مددوگار وغمخوار ہوسکتی تو یقینا وہ بچوں کی بھی مددوگار وکفیل ہوتی لیکن چونکہ وہ ایسی ہی نہیں رکھتی اس لئے بچوں کا کوئی دوسرا مددگار وکفیل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تباہی لازمی ہے۔ یا آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ تو اب اپنی فکر کر کہ دوزخ کی آگ تیرا ٹھکانا بننے والی ہے، بچوں کی فکر میں مبتلا نہ ہو کہ ان کی پرورش نہ تجھ پر منحصر ہے اور نہ کسی دوسرے پر، ان کا مددگار وکفیل اللہ کی ذات ہے وہی ان کی پرورش کرائے گا۔

【12】

جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں دیا گیا اختیار

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ، آنحضرت کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کو جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں اختیار دے دیجئے کہ خواہ وہ ان کو قتل کردیں یا فدیہ لے لیں (یعنی مال لے کر ان کو چھوڑیں دیں) لیکن فدیہ لینے کی صورت میں آئندہ سال ان (صحابہ) کے اتنے ہی (یعنی ستر) آدمی مارے جائیں گے۔ صحابہ نے (اس اختیار کو سن کر) عرض کیا کہ ہم فدیہ لینے کو اور اپنے ستر آدمیوں کے مارے جانے کو اختیار کرتے ہیں۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح جنگ بدر میں مکہ کے جو کفار قریش مسلمانوں کے مقابلہ پر آئے تھے ان میں سے ستر کفار قریش قتل کر دئیے گئے تھے اور ستر ہی کی تعداد گرفتار کر کے مدینہ لائی گئی تھی، جب یہ ستر قیدی مدینہ میں پہنچے تو آنحضرت ﷺ نے ان کے بارے میں صاحب الرائے صحابہ سے مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے، آیا ان کو قتل کردیا جائے یا فدیہ یعنی مالی معاوضہ لے کر ان کو رہا کردیا جائے ؟ حضرت ابوبکر نے یہ مشورہ دیا کہ آپ ﷺ ان کو قتل نہ کرائیے بلکہ زندہ چھوڑ دیجئے عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو کفر سے توبہ کی توفیق عطا فرما دے اور یہ مسلمان ہوجائیں، البتہ ان سے فدیہ لے لیجئے تاکہ ان سے فدیہ کے طور پر جو مال حاصل ہو وہ آپ کے رفقاء (یعنی مسلمانوں کی تقویت اور ان کی کچھ دینی و دنیوی ضروریات کے تکمیل کا ذریعہ بن جائے۔ حضرت عمر فاروق نے عرض کیا کہ میری رائے یہ ہے کہ آپ ﷺ ان سب کی گردن اڑا دیجئے کیونکہ یہ کفر وشرک کے پیشوا اور سردار ہیں (ان کی موت سے کفر وشرک پر کاری ضرب لگے گی) اور (جہاں تک ان کی رہائی کے ذریعہ کچھ مالی منفعت حاصل ہوجانے کا سوال ہے تو) اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مال حاصل کرنے سے مستغنی وبے نیاز بنا رکھا ہے ! آنحضرت ﷺ نے یہ اختلاف آراء دیکھتے ہوئے (حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے مشورہ پر) صحابہ کو اختیار دے دیا کہ تم لوگ دونوں چیزوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرلو کہ چاہے تو اپنے قیدیوں کی گردن اڑا دو اور چاہے فدیہ لے کر ان کو آزاد کردو لیکن یہ واضح رہے کہ فدیہ لینے کی صورت میں یہ مقدر ہوچکا ہے کہ آئندہ سال تم میں ستر آدمی شہید ہوں گے اور فی الجملہ کفار کو فتح بھی حاصل ہوگی۔ صحابہ نے اس انتباہ کے باوجود فدیہ لینے کو اختیار کیا۔ جب آئندہ سال غزوہ احد ہوا اور میدان جنگ میں مسلمانوں کو زبردست مقابلہ کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ ایک موقع پر پسپائی کی صورت بھی اختیار کرنی پڑی، تو آنحضرت ﷺ نے ایک سال پہلے جس چیز سے متنبہ کیا تھا وہ سامنے آئی یعنی اس غزوہ میں مسلمانوں کو اپنی ستر قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور ان ستر شہیدوں میں حضرت حمزہ ابن عبدالمطلب اور حضرت مصعب ابن عمیر جیسے جلیل القدر صحابہ بھی شامل تھے۔ ہنگامہ جنگ کے بعد حضرت عمر فاروق دربار رسالت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق دونوں رو رہے ہیں انہوں نے پوچھا کہ آپ کیوں رہے ہیں ؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ میں بھی رو وں ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھیوں پر رو رہا ہوں جنہوں نے فدیہ لینے کو اختیار کیا تھا اور (آپ ﷺ کے نزدیک ایک درخت کھڑا تھا اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ) مجھے اس درخت سے بھی زیادہ قریب سے ان کا عذاب دیکھایا گیا ہے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر ان پر عذاب نازل کیا جاتا تو اس عذاب سے عمر اور سعد ابن معاذ کے علاوہ اور کسی کو نجات نہیں ملتی حضرت سعد ابن معاذ بھی حضرت عمر فاروق کی اس رائے کے حامی تھے کہ ان قیدیوں سے فدیہ نہیں لینا چاہئے بلکہ ان کو قتل کردینا ہی مناسب ہے) بہرحال صحابہ کرام نے فدیہ لینے کو اختیار کیا تو اس کی بنیاد ان قیدیوں کے تئیں ان (صحابہ) کی یہ انتہائی خواہش اور رغبت تھی کہ اگر یہ قتل ہونے سے بچ گئے تو کبھی نہ کبھی مسلمان ہوجائیں نیز آئندہ سال خود اپنے شہید ہوجانے کی تمنا بھی اس کا محرک بنی اس کے ساتھ ہی ان قیدیوں کے اہل و عیال اور ان کے اقرباء کے ساتھ ان (صحابہ) کا جذبہ ترحم بھی اس کا متقاضی ہوا کہ یہ قیدی قتل نہ کئے جائیں۔ اس موقع پر ایک یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں کو دو چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو پسند کرنے کا اختیار دے دیا گیا تھا اور اسی اختیار کی بناء پر انہوں نے ایک چیز کو پسند کرلیا تو پھر ان پر عتاب کیوں ہوا، یہ عتاب اس اختیار کے منافی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اختیار دینا دراصل امتحان و آزمائش تھا کہ دیکھیں یہ لوگ (مسلمان اس چیز کو اختیار کرتے ہیں جو پسندیدہ حق ہے یا اس چیز کو اختیار کرتے ہیں جو ان کے دل کی خواہش کے مطابق ہے۔ اسی اعتبار سے وہ لوگ گویا اس امتحان و آزمائش میں کامیاب نہیں رہے کیونکہ انہوں نے اس چیز کو اختیار کیا جس کو ان کے دل نے چاہا لہٰذا ان پر عذاب ہوا۔ علامہ تورپشتی نے اس اختیار دینے والی) حدیث کو بعید جانا ہے کیونکہ یہ بظاہر اس بات کے مخالف ہے جو قرآن کریم سے مفہوم ہوتی ہے نیز ترمذی نے اس روایت پر غرابت کا حکم لگایا ہے لیکن میں نے کہا ہے کہ غریب روایت کے ذریعہ کوئی بات ثابت کرنا موجب طعن نہیں ہے کیونکہ غریب روایت کبھی صحیح بھی ہوتی ہے۔

【13】

قیدیوں کی تحقیق وتفتیش

اور حضرت عطیہ قرظی کہتے ہیں کہ بنو قریظہ کے جو لوگ قیدی بنا کر لائے گئے تھے ان میں میں بھی تھا ہمیں نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا، اس وقت صحابہ نے (یہ طریقہ اختیار کیا کہ قیدیوں میں جو چھوٹی عمر والے تھے ان کے زیر ناف حصے کو کھول کھول کر دیکھ رہے تھے جس کے (زیر ناف حصے پر بال اگ آئے تھے اس کو قتل کردیا جاتا، کیونکہ زیر ناف حصے پر بال اگ آنا بلوغ کی علامت ہے، لہٰذا ایسے شخص کو مسلمانوں سے لڑنے والا شمار کیا جاتا تھا) اور جس کے بال نہ اگے ہوئے تھے اس کو قتل نہیں کیا جاتا تھا (کیونکہ اس کو ذریت یعنی بچوں میں شمار کیا جاتا تھا چناچہ میرے زیر ناف حصہ کو بھی کھولا گیا اور جب وہاں اگے ہوئے بال نہیں پائے گئے تو مجھ کو قیدیوں ہی میں (زندہ) رکھا گیا۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ، دارمی) تشریح علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ زیر ناف حصے پر بالوں کے اگ آنے کو بلوغ کی علامت قرار دینا ضروری مصلحت کی بناء پر تھا کیونکہ اگر ان قیدیوں سے بلوغ کی واقعی علامت یعنی احتلام اور عمر بلوغ کو پوچھا جاتا تو وہ اپنی ہلاکت کے خوف سے یقینا صحیح بات نہ بتاتے۔

【14】

کفار مکہ کے مسلمان ہوجانے والے غلاموں کو واپس کرنے سے آنحضرت ﷺ کا انکار

اور حضرت علی کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے دن (مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان) معاہدہ لکھے جانے سے پہلے کچھ غلام (مکہ سے آ کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے ان کے مالکوں نے آنحضرت ﷺ کو لکھا کہ محمد ﷺ اللہ کی قسم یہ غلام تمہارے پاس اس لئے نہیں پہنچے ہیں کہ وہ تمہارے دین کی طرف رغبت رکھتے ہیں بلکہ یہ لوگ غلامی ( سے نجات پانے کی غرض سے بھاگ کر گئے ہیں ( جب صحابہ میں سے) چند لوگوں نے ( یہ مکتوب دیکھا تو) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ان کے مالکوں نے بالکل صحیح لکھا ہے آپ ﷺ ان غلاموں کو ان کے مالکوں کے پاس واپس بھیج دیجے ( یہ سن کر رسول کریم ﷺ غضب ناک ہوگئے اور فرمایا کہ قریش والو میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنی سرکشی اور نافرمانی سے باز نہیں آؤ گے تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ تم پر اس شخص کو مسلط نہ کر دے جو تمہارے اس فیصلے کہ ان غلاموں کو ان کے مالکوں کے پاس واپس بھیج دیا جائے اور اس طرح ان کے مسلمان ہوجانے کے بعد ان کو دار الحرب کے حوالے کردیا جائے) کی بناء پر تمہاری گردن اڑا دے اور پھر آپ ﷺ نے ان غلاموں کی واپسی کے مطالبہ کو رد کردیا اور فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں ۔ (ابو داؤد) تشریح آنحضرت ﷺ اس لئے غضبناک ہوئے کہ صحابہ نے ان غلاموں کے حق میں اپنی ذاتی رائے کو شرعی حکم کے مقابل پیش کیا اور گویا ان کے مالکوں کے دعوے کی گواہی دی، چناچہ ان غلاموں کے حق میں شرعی حکم یہ تھا کہ وہ چونکہ دار الحرب سے نکل آنے کے سبب محض اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے معصوم اور آزاد ہوگئے تھے ان کو ان کے پاس دارالحرب واپس کردینا جائز نہیں تھا، لہٰذا صحابہ کا ان کی واپسی کے مطالبہ کی تائید کرنا جبر و زیادتی پر ان کے مالکوں کی مدد کرنے کے مترادف تھا۔

【15】

حضرت خالد کی طرف سے عدم احتیاط کا ایک واقعہ

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے خالد ابن ولید کو (ایک قبیلہ) بنی جذیمہ میں بھیجا، خالد نے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، وہ لوگ اضطراب و سراسیمگی کے عالم میں یہ اچھی طرح سے نہیں کہہ سکے کہ ہم اسلام لائے (یعنی وہ اپنی زبانوں سے اسلام کا کلمہ پوری طرح ادا نہیں کرسکے) بلکہ انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ (صبأنا صبأنا) یعنی ہم نے اپنا دین چھوڑ دیا، خالد نے (جب ان کی زبان سے یہ سنا تو) ان (کے بعض لوگوں) کو قتل کرنا اور (بعض کو) گرفتار کرنا شروع کردیا اور پھر ہم (لوگ جو ان کے ساتھ تھے ان) میں سے ہر شخص کو اس کا قیدی سپرد کردیا (یعنی جو لوگ قیدی بنائے گئے ان کو ہمارے درمیان تقسیم کر کے ایک ایک قیدی ہر ایک کے سپرد کردیا اور یہ حکم دیا کہ ہم ان قیدیوں کی اس وقت تک حفاظت و نگرانی کریں جب تک کہ ہمیں ان کو قتل کردینے کا حکم نہ دیا جائے) چناچہ جب ایک (وہ) دن آیا (جس میں خالد نے ان قیدیوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا) تو انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کر دے (یہ حکم سن کر) میں (یعنی ابن عمر) نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی شخص اپنی قیدی کو قتل کرے گا (بلکہ ہم لوگ اپنے قیدیوں کو اس وقت تک اپنی حفاظت میں رکھیں گے جب تک کہ ہم دربار رسالت میں نہ پہنچ جائیں اور اس بارے میں کوئی آخری حکم حاصل نہ کریں چناچہ ہم نے اپنے قیدیوں کو اپنی حفاظت میں رکھا) یہاں تک کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے سامنے پورا واقعہ بیان کیا، آنحضرت ﷺ نے (واقعہ کی تفصیل سن کر) اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کر کے یہ کہا کہ اے اللہ ! میں تیرے حضور میں خالد کے عمل سے اپنی بیزاری وبے رضائی کا اظہار کرتا ہوں۔ آپ نے یہ الفاظ دو مرتبہ ارشاد فرمائے۔ (بخاری) تشریح خطابی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے بار گاہ رب العزت میں حضرت خالد کے عمل سے اس لئے اظہار بیزاری فرمایا کہ خالد نے اس موقع پر احتیاط کی راہ اختیار نہیں کی اور اس بات میں غور وتامل نہیں کیا کہ وہ لوگ صبأنا سے کیا مراد رکھتے تھے کیونکہ یہ لفظ صبأنا دین اسلام اختیار کرلینے کے مفہوم کا بھی احتمال رکھتا تھا لیکن خالد نے محض یہ دیکھ کر کہ ان لوگوں نے قبولیت اسلام کے مفہموم کو واضح طور پر ظاہر کرنے والے الفاظ اسلمنا استعمال کرنے سے روگرادنی کی ہے اس لئے انہوں نے ان لوگوں کی بات کو تسلیم نہیں کیا اور ان کے کہے ہوئے مذکور الفاظ کو ان کے بد دین ہوجانے پر محمول کر کے ان کو قتل کرنا اور قیدی بنانا شروع کردیا۔