128. امان دینے کا بیان

【1】

ام ہانی کی طرف سے اپنے ایک عزیز کو امان دینے کا واقعہ

حضرت ام ہانی بنت ابوطالب کہتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال (یعنی فتح مکہ کے موقع پر) میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی آنحضرت ﷺ اس وقت غسل فرما رہے تھے اور آپ ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ کپڑے سے آپ ﷺ کا پردہ کئے ہوئے تھیں۔ میں نے سلام عرض کیا، آپ ﷺ نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں ہوں ام ہانی بنت ابوطالب ! آپ ﷺ نے فرمایا۔ ام ہانی خوش آمدید ! پھر جب آپ ﷺ غسل سے فارغ ہوئے تو جسم پر کپڑے لپیٹے ہوئے آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور (نماز چاشت کی آٹھ رکعتیں پڑھیں اور جب نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری ماں کے بیٹے یعنی حضرت علی نے بتایا ہے کہ وہ اس شخص کو قتل کرنے والے ہیں جس کو میں نے اپنے گھر میں پناہ دی ہے یعنی فلاں شخص کو جو ہبیرہ کا بیٹا ہے ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ام ہانی جس کو تم نے پناہ دی ہے (گویا) اس کو ہم نے پناہ دی۔ حضرت ام ہانی کہتی ہیں کہ یہ واقعہ چاشت کے وقت کا ہے ! اور ترمذی کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ام ہانی نے (آنحضرت ﷺ سے) عرض کیا کہ میں نے دو آدمیوں کو پناہ دی ہے جو میرے خاوند کے رشتہ دار ہیں ! ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہماری طرف سے اس شخض کے لئے امان ہے جس کو تم نے امان دی ہے۔ تشریح حضرت ام ہانی کا اصل نام فاختہ تھا اور بعض نے عاتکہ بیان کیا ہے۔ یہ ابوطالب کی بیٹی اور حضرت علی کی حقیقی بہن ہیں، ہبیرہ ان کے خاوند کا نام ہے، جب ام ہانی نے فتح مکہ کے سال اسلام قبول کیا تو ہبیرہ سے ان کی جدائی واقع ہوگئی کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہوا۔ جس شخص نے حضرت ام ہانی نے پناہ دی تھی وہ اس کے خاوند ہبیرہ کی اولاد میں سے تھا، اغلب یہ ہے کہ وہ ام ہانی کے علاوہ ہبیرہ کی کسی اور بیوی کے بطن سے تھا حضرت علی نے ان کی پناہ کو قبول نہ کرتے ہوئے اس شخص کو قتل کر ڈالنا چاہا تو ام ہانی نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر صورت حال بیان کی، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کی پناہ کو قبول کیا اور وہ شخص حضرت علی کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گیا۔ ترمذی نے جو روایت نقل کی ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اس وقت ام ہانی ہی کے مکان میں غسل فرما رہے تھے، لیکن یہاں بخاری ومسلم کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس کے ظاہری مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنے مکان میں یا حضرت فاطمہ کے گھر میں نہا رہے تھے، اس صورت میں دونوں روایتوں کے درمیان یوں مطابقت ہوگی کہ بخاری ومسلم کی روایت میں یہ عبارت مقرر مانی جائے کہ آنحضرت ﷺ میرے گھر میں غسل فرما رہے تھے یا پھر یہ کہا جائے کہ ترمذی کی روایت میں جو واقعہ نقل کیا گیا ہے وہ کسی اور موقع کا ہے اور بخاری ومسلم کی روایت کسی اور موقع سے متعلق ہے۔

【2】

عورت کے عہد امان کی پاسداری سارے مسلمانوں پر لازم ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا عورت کسی قوم کے لئے ( عہد) لیتی ہے یعنی وہ مسلمانوں کی طرف سے پناہ دے سکتی ہے۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان عورت، کسی کافر کو یا کافروں کی کسی جماعت کو امان و پناہ دے دے تو یہ سارے مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس عورت کے عہد امان کو ملحوظ رکھ کر اس کافر کو یا کافروں کی اس جماعت کو امان و پناہ دیں اور اس عہد امان کو توڑیں نہیں۔

【3】

اپنے عہدامان کو توڑنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت عمرو بن حمق کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص کسی کو اس کی جان کی امان دے اور پھر اس کو مار ڈلے تو قیامت کے دن اس کو بدعہدی کا نشان دیا جائے گا۔ (شرح السنۃ) تشریح اس کو بدعہدی کا نشان دیا جائے گا اس جملہ کے ذریعہ کنایۃً یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس شخص کو میدان حشر میں تمام مخلوق کے سامنے ذلیل ورسوا کیا جائے گا۔ دوسری حدیثوں میں یہ بیان کیا گیا ہے قیامت کے دن عہد شکن کو ایک ایسا نشان دیا جائے گا جس کے ذریعہ اس کو پہچانا جائے گا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے عہد شکنی کا ارتکاب کیا تھا۔

【4】

معاہدہ کی پوری طرح پابندی کرنے چاہئے

اور حضرت سلیم ابن عامر (تابعی) کہتے ہیں کہ امیر معاویہ اور رومیوں کی درمیان (یہ) معاہدہ ہوا تھا کہ (اتنے دنوں تک ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے) اور حضرت معاویہ ( اس معاہدہ کے زمانہ میں) رومیوں کے شہروں میں گشت ( کر کے حالات کا اندازہ) لگایا کرتے تھے تاکہ جب معاہدہ کی مدت گذر جائے تو وہ ان ( رومیوں) پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں ( اور ان کے ٹھکانوں کو تخت و تاراج کردیں جب کہ اگر وہ گشت کے ذریعہ ان کے حالات اور ٹھکانوں کا جائزہ لینے کی بجائے اطمینان کے ساتھ اپنے کیمپ میں پڑے رہتے اور پھر معاہدہ کی مدت ختم ہونے پر حملہ کرتے تو ان رومیوں کے چوکنا ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ جنگی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا تھا پھر ( انہی دنوں میں جب کہ امیر معاویہ اپنے لشکر والوں کے ساتھ رومیوں کے شہر میں پھر رہے تھے) ایک شخص عربی یا ترکی گھوڑے پر سوار یہ کہتے ہوئے آئے کہ اللہ اکبر، اللہ اکبر، وفا کو ملحوظ رکھو نہ کہ بد عہدی کو ! یعنی تم پر معاہدہ کو پورا کرنا لازم ہے نہ کہ تم معاہدہ کی خلاف ورزی کرو ( گویا انہوں نے یہ واضح کیا کہ تم لوگ معاہدہ کے زمانے میں دشمنوں کے شہروں میں گشت لگاتے ہو تو یہ اپنے عہد کی پاسداری کی علامت نہیں ہے بلکہ یہ عہد شکنی اور معاہدہ کی خلاف ورزی کے حکم میں داخل ہے) جب لوگوں نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ شخص ( ایک صحابی) حضرت عمرو ابن عبسہ ہیں، حضرت امیر معاویہ نے ان سے اس بات کو پوچھا ( کہ رومیوں کے شہروں میں ہمارا پھرنا، عہد شکنی کے مرادف کے سے ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص اور کسی قوم کے درمیان معاہدہ ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے عہد کو نہ توڑے اور نہ باندھے، آ ن کہ اس معاہدہ کی مدت گذر جائے یا وہ ان کو مطلع کر کے برابری کی بنیاد پر اپنا عہد توڑے دے ( یعنی مجبوری یا مصلحت کی بناء پر مدت کے دوران ہی معاہدہ توڑنا ضروری ہوگیا ہو اور فریق مخالف کو پہلے سے آگاہ کردیا گیا ہو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا ہم اس کو توڑتے ہیں، اب ہم اور تم دونوں برابر ہیں کہ جس کی ( جو مرضی ہو کرے) حدیث کے راوی حضرت سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ ! حضرت ابن عبسہ کی یہ بات اور آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث سن کر اپنے لوگوں کے ساتھ ( رومیوں کے شہر سے اپنے کیمپ میں) واپس چلے آئے۔ (تر مذی، ابوداؤد ) تشریح اور نہ باندھے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کسی بھی فعل سے معاہدہ کے مقصد ومنشاء میں کوئی تغیر تبدیلی نہ کرے ! گویا اس جملہ کی مراد ایفاء عہد میں کسی طرح کا تغیر نہ کرنا ہے، ورنہ شدنہ کہ جس کے معنی اپنے عہد کو باندھنا اور مستحکم کرنا ہے، شریعت کی نظر میں مستحسن و مطلوب ہے۔

【5】

ایفاء عہد اور احتر ام قاصد کی اہمیت

اور حضرت ابورافع کہتے ہیں کہ ( صلح حدیبیہ کے موقع پر) کفار قریش نے مجھے ( اپنا قاصد بنا کر) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجا، جب میری نظر رسول کریم ﷺ پر پڑی، تو ( بےاختیار میرے دل میں اسلام ( کی صداقت و حقانیت) نے گھر کرلیا، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اللہ کی قسم، میں اب کبھی بھی ان ( کفار قریش کے پاس واپس نہیں جاؤں گا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں نہ تو عہد کو توڑا کرتا ہوں اور نہ قاصدوں کو روکا کرتا ہوں، البتہ تم ( اب تو) واپس چلے جاؤ، اگر تمہارے دل میں وہ چیز ( یعنی اسلام) قائم رہے وقت موجود ہے تو پھر ( میرے پاس) چلے آنا۔ حضرت ابورافع کہتے ہیں کہ ( آنحضرت ﷺ کے حکم کے مطابق، میں (مکہ) واپس ہوگیا اور پھر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آگیا اور اسلام قبول کرلیا ( یعنی اپنے اسلام کا اعلان کردیا۔ ( ابوداؤد) تشریح چونکہ ابورافع کفار مکہ کی طرف سے کوئی پیغام لے کر آئے تھے اس لئے آنحضرت نے ان کو اپنے پاس نہیں روکا، تاکہ وہ مکہ واپس جا کر کفار قریش کو ان کے پیغام کا جواب دے دیں، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کو جو حکم دیا اس کا مطلب یہی تھا کہ اسلام نے تمہارے دل میں گھر لیا ہے اور اب مسلمان ہونے سے تمہیں کوئی چیز نہیں روک سکتی، لیکن احتیاط اور ایفاء عہد کا تقاضا یہ ہے کہ تم ابھی اپنے اسلام کا اظہار و اعلان نہ کرو بلکہ پہلے تم مکہ واپس جاؤ او کفار قریش نے جو ذمہ داری تمہارے سپرد کی تھی اس کو پورا کر آؤ یعنی انہوں نے تمہیں جس بات کا جواب لانے کے لئے یہاں بھیجا تھا ان کو وہ جواب پہنچاؤ اور پھر اس کے بعد وہاں سے ہمارے پاس آ کر اپنے اسلام کا اظہار و اعلان کرنا۔ اور حضرت نعیم ابن مسعود (رض) روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان دونوں آدمیوں سے فرمایا جو مسیلمہ کے پاس سے آئے تھے کہ یاد رکھو ! اللہ کی قسم اگر قاصد کو مارنا شرعی طور پر ممنوع نہ ہوتا تو میں تمہاری گردنیں اڑا دیتا۔ (احمد ابوداؤد ) تشریح مسیلمہ ایک شخص کا نام ہے جس نے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اپنی نبوت کا دعویٰ کیا تھا اسی لئے اس کو مسلیمہ کذاب کہا جاتا ہے۔ وہ دو شخص جو مسیلمہ کذاب کے پاس سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے تھے ان میں سے ایک کا نام عبداللہ ابن نواحہ تھا اور دوسرے کا نام ابن اثال تھا ان دونوں نے آنحضرت ﷺ کے سامنے یہ کہا تھا کہ نشھد ان مسیلمۃ رسول اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے، اسی لئے آپ ﷺ نے خفا ہو کر مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے۔

【6】

زما نئہ جا ہلیت کے ان معاہدوں کو پورا کرنے کا حکم جو اسلام کے منافی نہ ہوں

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (ایک دن) اپنے خطبہ کے دوران یہ فرمایا کہ زمانہ جاہلیت کی قسم کو پورا کرو، کیونکہ وہ یعنی اسلام اس قسم کو زیادہ ہی ( مضبوط) کرتا ہے ( مطلب یہ ہے کہ اپنی قسم اور اپنے عہد کو پورا کرنا اسلام میں کہیں زیادہ ضروری ہے اس اعتبار سے اسلامی احکام اور ایفاء عہد و حلف میں کوئی تضاد نہیں ہے) اور اسلام میں حلف یعنی قسما قسمی کو رواج نہ دو ۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسین ابن ذکوان کی سند سے بہ روایت حضرت عمرو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔ تشریح قسم کو پورا کرو کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم لوگوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل اپنے زمانہ جاہلیت میں اپنے ما بین ایک دوسرے کی مدد کرنے کا عہد و پیمان باندھا ہو یا قسما قسمی کی ہو تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم اوفوا بالعقود ( اپنے معاہدوں کو پورا کرو) کے بموجب اس عہدوپیمان اور قسموں کو پورا کرو جو اسلام کی تعلیمات و عقائد کے منفی اور دین میں نقصان کا سبب نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا کہ (وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان) ۔ (المائدہ ٥ ٢) اور نیکی اور تقوی میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو۔ حاصل یہ کہ اسلام لانے کے بعد زمانہ جاہلیت کے اس عہد و پیمان اور قسم کو پورا کرنا ممنوع ہے جس کا تعلق فتنہ و فساد اور خون ریزی وغیرہ سے ہو جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے (لا حلف فی الاسلام اور زمانہ جاہلیت کے جس عہد و پیمان اور قسم کا تعلق مظلوم و بےکس لوگوں کی امداد و اعانت، قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک اور اسی طرح کے دوسرے نیک امور سے ہو، اسلام ان کا مؤید اور مضبوط کرنے والا ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے حدیث (ایما حلف کان فی الجاھلیۃ لم یزدہ الاسلام الا شدۃ) اسلام میں حلف یعنی قسما قسمی کو رواج نہ دو کیونکہ مسلمانوں پر ایک دوسرے کی مدد اعانت اور باہمی حسن سلوک واجب ہونے کے لئے ان کے مذہب اسلام کی تعلیم و تلقین کافی ہے۔ طیبی کہتے ہیں کہ اسلام میں حلف کو رواج نہ دو میں جو ممانعت بیان کی گئی ہے اس کے بارے میں دونوں احتمال ہیں ایک تو یہ کہ یہ ممانعت جنس کے لئے ہو لیکن ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک دوسرا ہی احتمال زیادہ قومی اور صائب ہے چناچہ مظہر کا یہ قول بھی اس بات کی تائید کرتا ہے جو مذکورہ بالا حدیث کی وضاحت کے طور پر ہے کہ اس ارشاد گرامی کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اگر تم نے اپنے زمانے جاہلیت میں (یعنی مسلمان ہونے سے پہلے) یہ قسم کھائی ہو کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے تو (اب مسلمان ہوجانے کے بعد بھی) اس قسم کو پورا کرو یعنی اپنے باہمی معاہدہ حلف کے مطابق ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو بشرطیکہ جس کی مدد کی جائے وہ حق پر ہو لیکن اسلام میں اس طرح کی قسم کو رواج نہ دو جس کا تعلق تمہیں ایک دوسرے کا وارث قرار دینے سے ہو (جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ کوئی بھی دو شخص آپس میں ایک دوسرے سے قسم کے ساتھ عہد کیا کرتے تھے کہ اگر میں پہلے مرگیا تو تم میرے وارث ہو گے اور اگر تم پہلے مرگئے تو میں تمہارا وارث ہوں گا) وذکر حدیث علی المسلمون تتکا فادمائھم فی کتاب القصاص۔ اور حضرت علی کی یہ روایت، المسلمون تتکا فادمائھم کتاب القصاص میں نقل کی جا چکی ہے۔

【7】

قا صد اور ایلچیوں کو قتل نہیں کیا جا سکتا

حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ مسیلمہ (مدعئی نبوت) کے دو قاصد ابن نواحہ اور ابن اثال نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کیا تم اس حقیقت کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ ان دونوں نے کہا کہ نہیں ! بلکہ) ہم اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ خدا کا رسول ہے۔ نبی کریم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ( میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا ! ) اگر میں قاصدوں اور ایلچیوں کو قتل کرنے والا ہوتا تو یقینًا میں تم دونوں کو بھی قتل کردیتا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی کے پیش نظر) پھر یہ سنت جاری ہوگئی ( یعنی یہ ضابطہ قرار پایا) کہ کسی قاصد و ایلچی کو قتل نہ کیا جائے ( خواہ کتنی ہی غیر مناسب بات کیوں نہ کرے اور قتل ہی کا سزا وار کیوں نہ ہو۔ ( احمد ) تشریح ان ایلچیوں نے جو جواب دیا اس کے ذریعہ انہوں نے گویا آنحضرت ﷺ کی رسالت کا انکار اور مسیلمہ کذاب کے خود ساختہ رسالت کا اقرار کیا اور پھر آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا تو اس کے ذریعہ گویا آپ ﷺ نے اپنے جذبہ طلب حق، صفت حلم و بربادی اور ان کے عذاب الٰہی میں جلد ہی مبتلا ہونے کا اظہار کیا نیز ان الفاظ کے ذریعہ آپ ﷺ نے اس یعنی ( مسیلمہ کذاب) کی نبوت کے انکار اور اس کے دعوے کے جھوٹا ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔