129. مال غنیمت کی تقسیم اور اس میں خیانت کرنے کا بیان

【1】

غنیمت کا مال مسلمانوں کے لئے حلال ہے

حضرت ابوہریرہ رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا پس غنیمت کا مال ہم سے پہلے کسی ( امت کے لئے حلال نہیں تھا، جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں ( مالی طور پر) کمزور عاجز دیکھا تو اس ( مال غنیمت) کو ہمارے لئے حلال قرار دیا۔ تشریح طیبی کہتے ہیں کہ فلم تحل میں حرف فا ( پس) عاطفہ ہے جس کے ذریعہ ارشاد گرامی کے ان جملوں پر عطف کیا گیا ہے جو اس سے پہلے فرمائے گئے تھے، حاصل یہ کہ یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے وہ دراصل اس ارشاد گرامی کا تتمہ ہے جو یہاں نقل نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس باب کی تیسری فصل میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں منقول ہے۔

【2】

مقتول سے چھینا ہوا مال قاتل کا ہے

اور حضرت ابوقتادہ کہتے ہیں کہ ( فتح مکہ کے بعد) غزوہ حنین کے سال ہم ( جہاد کے لئے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے، جب کافروں سے ہمارا مقابلہ ہوا تو ( کچھ دیر کے لئے) مسلمانوں کو شکست کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، میں نے دیکھا کہ ایک مشرک ایک مسلمان پر غالب آگیا ہے، میں نے اس کے پیچھے سے اس کی گردن کی رگ پر تلوار کا ( بھر پور) وار کر کے اس کی زرہ کاٹ ڈالی، مجھ پر جھپٹ پڑا اور اس نے اتنے زور سے مجھے دبوچا کہ اس کی وجہ سے موت کا مزہ آگیا ( یعنی میں مرنے کے قریب ہوگیا، پھر ( میرے ایک اور وار سے) موت نے اسے دبا لیا اور میں اس سے چھوٹ گیا، اس کے بعد میں حضرت عمر ابن خطاب سے ملا اور کہا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا (کہ دشمن کے مقابلہ سے بھاگ رہے ! ؟ ) انہوں نے کہا اللہ کا حکم یہی ہے یعنی یہ جو کچھ ہو رہا ہے قضا وقدر الہیٰ کے مطابق ہو رہا ہے۔ پھر لوگ ( اس عارضی پسپائی کے بعد دوبارہ لڑنے کے لئے میدان جنگ میں) واپس آگئے اور نبی کریم ﷺ ( ایک جگہ) بیٹھ گئے اور فرمایا کہ جو شخص دشمن کے) کسی آدمی کو قتل کر دے اور اس کے قتل کرنے کا کوئی گواہ ہو ( اور خواہ ایک ہی گواہ ہو تو مقتول کا چھینا ہوا مال اسی ( قتل کرنے والے) شخص کا ہوگا۔ ( یہ سن کر میں کھڑا ہوا اور ارادہ کیا کہ اس مشرک کو قتل کرنے کا واقعہ بیان کروں، لیکن ( دل میں) میں نے کہا کہ میری گواہی کون شخص دے گا ( کہ میں نے اس مشرک کو قتل کیا ہے۔ ) آخر میں بیٹھ گیا، نبی کریم ﷺ نے اسی طرح پھر فرمایا ( کہ جو شخص دشمن کے کسی آ دمی کو قتل کرنے کا کوئی گواہ ہو تو مقتول کا چھینا ہوا مال اسی کا ہوگا) میں نے پھر ( کھڑے ہو کر اپنے واقعہ بیان کرنا چاہا لیکن میں نے دل میں) کہا کہ میری گواہی کون شخص دے گا ! ؟ اور میں پھر بیٹھ گیا نبی کریم ﷺ نے پھر اسی طرح (تیسری مرتبہ) فرمایا میں ( جب اس مرتبہ بھی) کھڑا ہوا ( لیکن زبان سے کچھ نہ کہہ سکا) تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابوقتادہ ! کیا بات ہے (تم کسی غرض مند اور طالب حاجت کی طرح بار بار کھڑے ہوتے ہو اور بیٹھ جاتے ہو مگر زبان سے کچھ نہیں کہتے ؟ ) تب میں نے آنحضرت ﷺ کو بتایا ( کہ میں نے فلاں مشرک کو قتل کیا ہے) ایک شخص نے ( میری بات سن کر) کہا کہ ابوقتادہ سچ کہتے ہیں اور اس مشرک کا مال میرے پاس موجود ہے، آپ ﷺ ان کو میری طرف سے راضی کر دیجئے ( کہ یہ اپنے حق سے دستبر دار ہوجائیں اور ان کو اس مشرک کے مال کے عوض کوئی اور چیز دے دی جائے یا ان کو اس بات پر رضا مند کر دیجئے کہ یہ میرے ساتھ کسی اور طرح مصالحت کرلیں ) ۔ حضرت ابوبکر صدیق نے ( یہ سن کر اس شخص سے) کہا کہ نہیں، اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا، رسول کریم ﷺ اس معاملہ میں ان ( ابوقتادہ) کی مرضی کے خلاف کوئی ارادہ نہیں کریں گے ابوقتادہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خو شنودی کے لئے ( دشمن سے) لڑتا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جس مال پر ان ( ابوقتادہ) کا حق ہے وہ تمہیں دے دیں ! ؟ نبی کریم ﷺ نے اس شخص سے فرمایا کہ ابوبکر ٹھیک کہتے ہیں، تم ابوقتادہ کو اس مشرک ( مقتول) کا مال دے دو ۔ چناچہ اس شخص نے اس کا مال مجھ کو دے دیا اور میں نے ( بعد میں) اس مال کے ذریعہ ایک باغ خریدا جو قبیلہ بنو سلمہ میں واقع تھا اور یہ سب سے پہلا مال تھا جو مجھے اسلام لانے کے بعد حاصل ہوا۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح اس غزوہ ( جنگ) میں مسلمانوں کو کچھ دیر کے لئے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ اسلامی لشکر کے کچھ لوگوں نے ایک موقع پر پسپائی اختیار کی جس سے دشمن کے لشکر کو بظاہر حاوی ہونے کا موقع مل گیا لیکن آنحضرت ﷺ میدان جنگ میں اپنی جگہ پر قائم رہے، آپ ﷺ ایک خچر پر سوار تھے جس کی باگ حضرت عباس ابن عبد المطلب اور حضرت ابوسفیان بن الحارث نے تھام رکھی تھی۔ اس عارضی پسپائی کے موقع پر جب کہ اسلامی لشکر میں تقریبا افراتفری کا عالم تھا آپ ﷺ نہ صرف بڑی بہادری کے ساتھ دشمن کے مقابلے پر ڈٹے رہے بلکہ آگے بڑھ بڑھ کر دشمن کے لشکر پر تن تنہا حملہ کرنے کا ارادہ کرتے تھے اور یہ فرمائے جاتے تھے۔ انا النبی لا کذب، انا ابن عبد المطلب۔ یعنی میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں اور جھوٹ نہیں کہتا سچا نبی ہوں۔ لیکن یہ دونوں حضرات جنہوں نے آپ ﷺ کے خچر کی باگ تھام رکھی تھی آپ ﷺ کو روک دیتے تھے، آخر کار حق تعالیٰ نے اسلامی لشکر کو ثابت قدمی بخشی اور اس نے دوبارہ دشمن پر حملہ کر کے اس کے لشکر کو تہس نہس کردیا اور آخر فتح حاصل کی۔

【3】

مال غنیمت کی تقسیم

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ( مال غنیمت میں سے) ایک شخص اور اس کے گھوڑے کے لئے تین حصے دئیے یعنی ایک حصہ تو خود اس کا اور دو حصے اس کے گھوڑے کے۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح اکثر علماء کا مسلک اسی حدیث کے مطابق ہے، جب کہ بعض علماء کے نزدیک مال غنیمت میں سوار مجاہد کے دو حصے ہیں، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک بھی یہی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے سوار مجاہد کو دو حصے دئیے جیسا کہ اسی باب کی دوسری فصل میں منقول روایت سے واضح ہوگا، نیز حضرت علی اور حضرت ابوموسی ٰ اشعری سے بھی یہی منقول ہے بلکہ ھدایہ نے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر سے بھی یہی نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ جب اس بارے میں خود حضرت ابن عمر کی دو روایتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ اس روایت کو ترجیح دی جائے گی جو ان کے علاوہ دوسرے نے نقل کی ہے

【4】

مال غنیمت میں غلام اور عو رتوں کا کوئی حصہ مقرر نہیں

اور حضرت یزید ابن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ حروری نے حضرت ابن عباس کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے غلام اور عورت کے بارے میں یہ دریافت کیا تھا کہ جب وہ مال غنیمت کی تقسیم کے وقت موجود ہو تو ان کو بھی اس مال غنیمت سے حصہ دیا جائے یا نہیں ؟ حضرت ابن عباس نے یزید ( یعنی مجھ سے) فرمایا کہ تم ( میری طرف سے) نجدہ کو یہ جواب لکھ دو کہ ان دونوں کا حصہ مقرر نہیں ہے البتہ ( تقسیم کے وقت) ان کو یوں ہی کچھ دے دیا جائے۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابن عباس نے اس ( نجدہ) کو یہ جواب لکھا کہ تم نے خط لکھ کر مجھ سے یہ دریافت کیا تھا کہ کیا رسول کریم ﷺ جہاد میں عورتوں کو ساتھ لے جایا کرتے تھے اور کیا آپ ﷺ ان ( عورتوں) کو مال غنیمت میں سے حصہ دیتے تھے ؟ تو ( اس کا جواب یہ ہے کہ) آنحضرت جہاد میں عورتوں کو ساتھ لے جاتے تھے جو بیماروں کی دوا دارو کرتی تھیں ( اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں) اور ان کو مال غنیمت میں سے یوں ہی کچھ دے دیا جاتا تھا لیکن ان کے لئے حصہ مقرر نہیں کیا گیا تھا۔ ( مسلم) تشریح نجدہ اس شخص کا نام ہے جو خوارج یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ، کے مخالفین کا سردار تھا اور حروری دراصل حروراء کی طرف منسوب ہے جو کوفہ کے نواح میں ایک آبادی کا نام تھا، کہا جاتا ہے کہ خوارج کا سب سے پہلا اجتماع اسی آبادی میں ہوا تھا اکثر علماء کا یہی مسلک ہے کہ غلام بچوں اور عورتوں کو مال غنیمت میں سے یوں ہی کچھ دے دیا جائے۔ یعنی حصہ سے کم دیا جائے پورا حصہ نہ دیا جائے، حنیفہ کا مسلک بھی یہی ہے۔ اور ھدایہ میں لکھا ہے کہ غلام کو مال غنیمت میں سے کچھ اس صورت میں دیا جائے جب کہ وہ جنگ میں شریک رہ کر دشمن سے لڑا ہو، اسی طرح عورت کو بھی اس صورت میں دیا جائے جب کہ وہ بیمار اور زخمی مجاہدین کی تیمار داری اور ان کی دوا دارو کرے۔

【5】

مخصوص طور پر بعض مجا ہدوں کو ان کے حصے سے زائد دیا جا سکتا ہے

اور حضرت سلمہ ابن اکوع کہتے ہیں کہ ( مسلمانوں اور کفار قریش کے درمیان معاہدہ ہوجانے کے بعد حدیبیہ سے واپسی کے دوران راستہ میں) رسول کریم ﷺ نے اپنی، سواری کے اونٹ رباح کے ساتھ، جو رسول کریم ﷺ کے غلام تھے، آگے روانہ کر دئیے میں بھی رباح کے ساتھ ہو لیا، ( ہم دونوں نے رات میں ایک جگہ قیام کیا اور) جب صبح ہوئی تو ہمیں معلوم ہوا کہ عبدالرحمن فزاری نے ( جو مسلمانوں کا ایک مشہور دشمن اور کافر تھا) رسول کریم ﷺ کے اونٹوں پر چھاپہ مارا اور ان کو ہنکا کرلے گیا، میں ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور مدین کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ یا صباحاہ ( یعنی خبردار ! دشمن آپہنچا) کا نعرہ بلند کیا اور تیر پر تیر پھینکتا ہوا اس قوم یعنی عبدالرحمن اور اس کے ساتھیوں کے نشانات قدم پر ( یعنی ان کے پیچھے) چل پڑا اس وقت میری زبان پر ( بلند آواز میں) رجز یعنی رزمیہ شعر تھے، میں نے کہا تھا (انا ابن الاکوع والیوم یوم الرضع) یعنی ( اے دین کے دشمنو ! کان کھول کر سن لو) میں اکوع کا بیٹا ہوں، آج کا دن برے لوگوں ( یعنی تم دشمنان دین) کے ہلاک ہونے کا دن ہے ! میں اسی طرح برابر تیر مارتا اور ان کی سواریوں کی کونچیں کاٹتا ( آ گے بڑھتا) رہا یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ کے اونٹوں میں سے اللہ کا پیدا کیا ہوا ایسا کوئی اونٹ باقی نہیں بچا جس کو میں نے اپنے پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو، میں تیر برساتا ہوا ان کا تعاقب جاری رکھے ہوئے تھا یہاں تک کہ انہوں نے ہلکا ہوجانے کے خیال سے اپنی تیس سے زیادہ چادریں اور تیس کپڑے پھینک دئیے ( یعنی وہ بھاگتے ہوئے اپنی چادریں اور کپڑے بھی پھینکتے جا رہے تھے تاکہ جسم ہلکا ہوجانے کی وجہ سے بھاگنے میں آسانی ہو) اور وہ جس چیز کو بھی پھینکتے تھے میں اس پر نشان کے طور پر پتھر رکھ دیتا تھا تاکہ رسول کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے رفقاء ( اگر پیچھے سے آئیں تو) اس کو پہچان لیں یہاں تک میں نے رسول کریم ﷺ کے سواروں کو ( آتے دیکھا اور پھر ( یہ دیکھا کہ) حضرت ابوقتادہ نے جنہیں رسول کریم ﷺ کا سوار کہا جاتا تھا، عبدالرحمن کو جا لیا ( جس نے آنحضرت ﷺ کے اونٹوں کو ہنکا لے جانا چاہا تھا) اور اس کو قتل کردیا۔ پھر ( اس ہنگامہ کے ختم ہونے کے بعد) رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ آج ہمارے سواروں میں سب سے بہتر سوار ابوقتادہ ہیں اور پیادوں میں سب سے بہتر پیادہ سلمہ ابن اکوع ہیں۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے ( جب ان کافروں سے ہاتھ لگے ہوئے مال کو ہمارے درمیان تقسیم فرمایا تو) مجھ کو دو حصے دئیے ( ایک حصہ سوار کا ( کہ وہ بحسب اختلاف مسلک دو حصے ہیں یا تین حصے) اور ایک حصہ پیادہ کا، دونوں حصے اکٹھا کر کے مجھے عطا فرمائے اور پھر رسول کریم ﷺ نے اپنی اونٹنی عضباء پر مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ( مسلم ) تشریح رضع دراصل راضع کی جمع ہے جیسے ارکع کی جمع رکع ہے ! راضع پاجی اور کمینہ شخص کو کہتے ہیں آرام ( پہلے الف کے مد کے ساتھ) ارم کی جمع ہے جیسے عنب کی جمع اعناب ہے ! ارم اس پھتر کو کہتے ہیں جو منگل و میدان میں راستہ یا کسی دفینہ کے نشان و علامت کے طور پر نصب کیا گیا ہو۔ اہل عرب کی یہ عادت تھی جب وہ راستہ میں کوئی چیز پاتے اور اس کو اپنے ساتھ نہ لے جاسکتے تو اس پر بطور نشان کو یا پتھر رکھ دینے یا پتھروں کا ڈھیر کر کے اس کے نیچے اس کو چھپا دیتے اور پھر آ کر اسی نشان سے وہ چیز نکال کرلے جاتے۔ حضرت سلمہ اگرچہ پیادہ تھے لیکن آنحضرت ﷺ نے ان کو پیادہ کا حصہ دینے کے ساتھ سوار کا حصہ بھی دیا کیونکہ یہ سارا معرکہ ایک طرح سے انہی کی جدوجہد سے سر ہوا گویا وہ اس غزوے کے ایک بڑے منتظم بھی تھے، اس سے معلوم ہوا کہ امام وقت کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ مال غنیمت میں سے کسی ایسے مجاہد کو اس کے حصے سے زیادہ دے دے۔ جس نے جہاد میں بہت زیادہ محنت و جدوجہد کی ہو تاکہ لوگ جہاد میں زیادہ سے زیادہ محنت و جدوجہد کرنے کی طرف راغب ہوں اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جن لوگوں کو جہاد کے لئے بھیجتے تھے ان میں سے بعض لوگوں کے لئے عام لشکر والوں کی بہ نسبت مخصوص طور پر کچھ زیادہ حصہ لگا دیا کرتے تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ مال غنیمت کی تقسیم کے وقت بعض مجاہدوں کو ان کے مقررہ حصوں سے کچھ زیادہ دے دیا کرتے تھے تاکہ انہیں دشمنوں کے مقابلہ پر لڑنے کی ترغیب ہو۔ اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ نے ہم لوگوں کو خمس مال میں سے ہمارے مقررہ حصوں کے علاوہ بھی کچھ زیادہ مرحمت فرمایا چناچہ میرے حصے میں ایک شارف آئی اور شارف اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو بوڑھی اور بڑی ہو۔ (بخاری ومسلم )

【6】

مسلمانوں کے ان جانوروں اور غلا موں کا حکم جو دشمنوں کے ہاتھ لگ جائیں اور پھر مال غنیمت میں واپس آئیں

اور حضرت ابن عمر کے بارے میں منقول ہے کہ ( ایک مرتبہ) ان کا گھوڑا بھاگ گیا جس کو دشمنوں ( یعنی کافروں) نے پکڑ لیا، پھر جب مسلمانوں کو ان دشمنوں پر فتح حاصل ہوئی اور ان کے مال غنیمت میں وہ گھوڑا بھی آیا) تو ابن عمر کو ان کا گھوڑا واپس کردیا گیا ( اور اس کو مال غنیمت میں شمار نہیں کیا گیا) یہ واقعہ رسول کریم ﷺ کے زمانے کا ہے۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ ابن عمر کا غلام بھاگ کر روم پہنچ گیا، پھر جب مسلمانوں رومیوں پر فتح حاصل ہوئی تو خالد بن ولید نے ابن عمر کو ( ان کا غلام) واپس کردیا۔ یہ نبی کریم ﷺ کے زمانے کے بعد کا واقعہ ہے۔ ( بخاری) تشریح ابن ملک کہتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا اگر کافر مسلمانوں کے بھاگے ہوئے غلام کو پکڑ لیں تو وہ اس کے مالک نہیں ہوتے، چناچہ ان کافروں پر مسلمانوں کے غلبہ حاصل کرلینے کی صورت میں اگر وہ غلام مال غنیمت کے ساتھ مسلمانوں کے قبضے میں آجائے تو یہ واجب ہے کہ وہ غلام اس کے مالک کو واپس کردیا جائے خواہ یہ واپسی مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے عمل میں آجائے یا تقسیم کے بعد واپس کرنا پڑے۔ اور ابن ہمام کہتے ہیں کہ اگر کسی مسلمان یا ذمی کا مسلمان غلام بھاگ کر دارالحرب پہنچ جائے اور وہاں کے کافر اس کو پکڑ لیں تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک وہ کافر اس کے مالک نہیں قرار پائیں گے جب کہ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک وہ کافر اس کے مالک ہوجائیں گے، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا بھی یہی قول ہے لیکن اگر وہ غلام مرتد ہو کر بھاگا ہو اور کافروں نے اس کو پکڑ لیا ہو تو اس صورت میں تمام آئمہ کے نزدیک وہ اس کے مالک قرار پائیں گے۔ اسی طرح اگر کسی مسلمان یا ذمی کا کوئی اونٹ بھاگ کر چلا گیا اور کافروں نے اس کو پکڑ لیا تو وہ اس کے مالک ہوجائیں گے۔

【7】

خیبر کے مال خمس میں سے بنو عبد شمس اور بنو نو فل کی محرومی

اور حضرت جبیر ابن مطعم کہتے ہیں کہ میں اور حضرت عثمان ابن عفان نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ ﷺ نے خیبر کے خمس میں سے بنو مطلب کو حصہ دیا اور ہم کو نہیں دیا حالانکہ آپ ﷺ کے اعتبار سے ہم سب ایک ہی مرتبہ کے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ( میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ( جانتا) کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہیں۔ حضرت جبیر کہتے ہیں کہ اور نبی کریم ﷺ نے بنو عبد شمس ( یعنی حضرت عثمان وغیرہ) اور بنو نوفل ( یعنی حضرت جبیر وغیرہ) کو کوئی حصہ نہیں دیا۔ ( بخاری ) تشریح ہم سب ایک ہی مرتبہ کے ہیں کا مطلب یہ تھا کہ میں، حضرت عثمان بنو ہاشم اور بنو مطلب، آپ ﷺ کے اعتبار سے ایک ہی درجہ کے ہیں بایں طور کہ ہم سب ایک ہی جد اعلی یعنی عبد مناف کی اولاد ہونے کی وجہ سے ایک ہی سلسلہ کی کڑی ہیں اور وہ یوں کہ ہاشم، مطلب، نوفل اور عبد شمس، یہ چاروں عبد مناف کے بیٹے تھے جو ہمارے اور آپ ﷺ کے چوتھے جد ہیں، چناچہ میں، جبیر ابن مطعم ابن عدی ابن نوفل ابن عبد مناف ہوں، حضرت عثمان ابن عفان ابن ابوالعاص ابن امیر ابن عبد شمس ابن عبد مناف ہیں اور آپ ﷺ محمد ابن عبداللہ ابن عبدالمطلب ابن ہاشم ابن عبد مناف ہیں۔ اس طرح ہم سب ایک ہی سلسلہ نسب کی کڑی ہیں تو پھر ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آپ ﷺ نے خیبر سے آئے ہوئے مال کے خمس میں سے اس سلسلہ نسب کی ایک شاخ بنو مطلب کو تو حصہ دیا لیکن ہمیں یعنی عبد شمس اور بنو نوفل کو کیوں محروم رکھا ؟ اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہیں تو اس کا حاصل یہ تھا کہ اگرچہ یہ چاروں ایک ہی سلسلہ نسب کی کڑی اور ایک ہی جد اعلی عبد مناف کی اولاد ہونے کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے فرد ہیں لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ تعلقات و معاملات کے اعتبار سے اصل میں صرف بنو ہاشم اور بنو مطلب ہی ایک مرتبہ کے اور چیز واحد کے مانند ہیں کیونکہ وہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے ممد ومعاون رفیق و غمگسار اور ایک دوسرے کے دست وبازو ہیں۔ ان دونوں کے درمیان نہ زمانہ جاہلیت میں مخالفت و منافرت تھی اور نہ اب زمانہ اسلام میں کوئی اختلاف و انتشار ہے جب کہ تم دونوں یعنی بنو عبد شمس اور بنو نوفل زمانہ جاہلیت میں بنو ہاشم اور بنو مطلب کے حریف و مخالف رہے ہو چناچہ اس کی تفصیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مرتبہ نبوت پر فائز ہونے کے بعد مکہ میں اسلام کی تبلیغ شروع کی اور کفار قریش کو اللہ کی وحدانیت اور اپنی رسالت کی طرف بلایا تو بنو عبد شمس اور بنو نوفل ( کے لوگوں) نے آپ ﷺ کی دعوت و تبلیغ کی سخت مخالفت ہی نہیں کی بلکہ آپ ﷺ کے درپے آ زار بھی ہوئے، یہاں تک کہ ان دونوں یعنی بنو عبد شمس اور بنو نوفل نے اسی مخالفت و عداوت کی بناء پر آپس میں ایک دوسرے سے عہد کیا کہ جب تک بنو ہاشم کے لوگ، محمد ﷺ کو ہم میں سے کسی ایک کے حوالے نہ کردیں اس وقت تک ہم بنو ہاشم کے ساتھ بیاہ شادی، لین دین اور خریدو فروخت کا کوئی معاملہ نہیں کریں گے۔ اس وقت بنو مطلب نے بنو ہاشم کے ساتھ پورا تعاون کیا اور ان کے ساتھ متفق و متحد رہے ! لہذا آنحضرت ﷺ نے بنو عبد شمس ( یعنی حضرت عثمان وغیرہ) بنو نوفل ( یعنی حضرت جبیر وغیرہ) کو خیبر کے خمس میں سے کوئی حصہ نہیں دیا باوجودیکہ وہ آنحضرت ﷺ کے ذوی القربی میں سے تھے کیونکہ ان کے اور بنو ہاشم کے درمیان کوئی اتفاق و اتحاد نہیں تھا جب کہ بظاہر دونوں کے درمیان مخالفت و منافرت تھی۔

【8】

مال فئی کا حکم

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس بستی میں تم جاؤ اور اس میں قیام کرو تو اس ( کے مال) میں تمہارا حصہ ہے اور جو بستی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرے تو اس ( کے مال) میں پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے اور بقیہ تمہارا ہے۔ ( مسلم) تشریح اور اس میں قیام کرو کا مطلب یہ ہے کہ تم جہاد کے لئے کسی بستی میں گئے اور بستی میں گئے اور بستی والے لڑے بھڑے بغیر اس بستی کو چھوڑ کر بھاگ گئے یا انہوں نے تمہارے ساتھ مصالحت کر کے اس بستی اور اپنے آپ کو تمہارے حوالے کردیا اور تم اس میں قیام پذیر ہوگئے۔ تو اس میں تمہارا حصہ ہے کے ذریعہ یہ واضح کیا گیا ہے کہ مذکورہ بستی سے جو مال و اسباب تمہارے ہاتھ لگے گا وہ صرف تمہارا حق نہیں ہوگا بلکہ تمہارے اور ان مجاھدین کے درمیان مشترک رہے گا جو تمہارے ساتھ جہاد کے لئے نہیں جاسکے ہیں بلکہ اپنے گھروں میں رہ گئے ہیں کیونکہ اس طرح کا مال ( جو مسلمانوں کو کفار سے جنگ و جدل کے بغیر حاصل ہو) فئی کہلاتا ہے اور مال فئی کا حکم یہ ہے کہ وہ صرف انہی مجاھدین کے لئے مخصوص نہیں ہوتا جو جنگ میں شریک ہونے کے لئے اپنے گھروں سے نکلے ہوں۔ جو بستی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے الخ کا مطلب یہ ہے کہ جس بستی کے لوگوں نے نہ تو دعوت اسلام قبول کی اور نہ مصالحت کے ذریعہ اپنے آپ کو تمہارے حوالے کیا بلکہ تمردو سرکشی کی راہ اختیار کر کے تمہارے ساتھ جنگ کی اور تم نے لڑائی اور طاقت کے ذریعہ ان پر غلبہ حاصل کرلیا تو اس صورت میں اس بستی سے جو مال اسباب ہاتھ لگے گا وہ مال غنیمت کہلائے گا، اس مال میں سے پہلے خمس یعنی پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے علیحدہ کردیا جائے گا اور پھر جو باقی بچے گا وہ اس جنگ میں شریک ہونے والے مجاہدین کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خمس صرف مال غنیمت میں سے نکالا جائے گا مال فئی میں سے بھی نکالا جائے اس اعتبار سے یہ حدیث حضرت امام شافعی کے خلاف مسلک کی دلیل ہے۔ بعض حنفی علماء نے اس حدیث کی تشریح یوں کی ہے پہلے جزو سے مراد وہ صورت ہے جس میں مسلمانوں نے کسی آبادی و بستی کو اس حال میں فتح کیا ہو کہ ان کے ساتھ رسول کریم ﷺ نہ رہے ہوں اور دوسرے جزو سے مراد وہ صورت ہے جس میں مسلمانوں نے کسی آبادی وبستی کو اس حال میں فتح کیا ہو کہ آنحضرت ﷺ بذات خود اس جہاد میں شریک رہے ہوں، لہذا اس دوسری صورت میں آنحضرت ﷺ خمس وصول فرماتے تھے اور باقی لشکر والوں کے درمیان تقسیم ہوتا تھا۔

【9】

مال غنیمت میں خیانت کرنے والوں کے بارے میں وعید

اور حضرت خولہ انصاریہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بعض لوگ اللہ کا مال یعنی غنیمت فئی اور زکوٰۃ کے مال میں ناحق یعنی بغیر کسی استحقاق کے تصرف کرتے ہیں، لہذا ایسے لوگ قیامت کے دن آگ کے سزاوار ہو گے۔ ( بخاری) تشریح یعنی اگر انہوں نے حلال جان کر ناحق تصرف کیا ہوگا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ کی آگ میں جلیں گے اور اگر انہوں نے اس گناہ کا ارتکاب اس کو حلال جان کر نہیں کیا ہوگا پھر حق تعالیٰ جتنی مدت کے لئے چاہے گا ان کو دوزخ کے عذاب میں مبتلا رکھے گا اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دن ہمارے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا اور ( اس خطبہ کے دوران) مال غنیمت میں خیانت کا ذکر فرمایا چناچہ آپ ﷺ نے اس کو بہت بڑا گناہ بتایا اور بڑی اہمیت کے ساتھ اس کو بیان کیا اور پھر فرمایا کہ خبردار ) میں تم سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ اپنی گردن پر بلبلاتے ہوئے اونٹ کو لادے ہوئے ( میدان حشر میں) آئے ( یعنی جو شخص مال غنیمت میں سے مثلا اونٹ کی خیانت کرے گا وہ شخص میدان حشر میں اس حالت میں آئے گا کہ اس کی گردن پر وہی اونٹ سوار ہوگا اور بلبلا رہا ہوگا) اور پھر مجھ سے یہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری فریاد رسی ( شفاعت) کیجئے اور میں اس کے جواب میں یہ کہہ دوں کہ میں (اب) تمہاری کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میں نے تمہیں شریعت کے احکام پہنچا دئیے تھے ( یعنی تمہیں پہلے ہی آگاہ کردیا گیا تھا کہ مال غنیمت میں خیانت یا کسی چیز میں ناحق تصرف بہت بڑا گناہ ہے ) ۔ ( اور خبردار) میں تم سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ اپنی گردن پر ممیاتی ہوئی بکری لادے ہوئے ( میدان حشر میں) آئے اور پھر مجھ سے یہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری فریا درسی کی جائے اور میں اس کے جو اب میں یہ کہہ دوں کہ میں ( اب) تمہاری کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میں نے تمہیں شریعت کے احکام پہنچا دئیے تھے۔ ( اور خبردار ! ) میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ اپنی گردن پر کسی چلاتے ہوئے آدمی کو ( یعنی اس غلام یا باندی کو جو اس نے غنیمت کے قیدیوں میں سے خیانت کر کے لئے ہو) لادے ہوئے ( میدان حشر میں) آئیے اور پھر مجھ سے یہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری فریاد رسی کیجئے اور میں اس کے جواب میں یہ کہہ دوں کہ میں ( اب) تمہاری کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میں نے تمہیں شریعت کے احکام پہنچا دئیے تھے۔ ( اور خبردار ! میں تم سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ اپنی گردن پر لہراتے ہوئے کپڑے رکھے ہو ( میدان حشر میں) آئے اور پھر مجھ سے یہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری فریاد رسی کیجئے اور میں اس کے جواب میں یہ کہے دوں کہ میں ( اب) تمہاری کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میں نے تمہیں شریعت کے احکام پہنچا دئیے تھے۔ (خبر دار ! ) میں تم میں کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ اپنی گردن پر سونا چاندی لادے ہوئے ( میدان حشر میں) آئے اور پھر مجھ سے یہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری فریا درسی کیجئے اور میں اس کے جواب میں یہ کہہ دوں کہ میں ( اب) تمہاری کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میں نے تمہیں شریعت کے احکام پہنچا دئیے۔ اس روایت کو ( معنی و مضمون کے اعتبار سے) بخاری و مسلم دونوں نے نقل کیا ہے، الفاظ مسلم کے ہیں جو بخاری کے الفاظ کی بہ نسبت) پورے و مکمل ہیں۔

【10】

جس مال سے مسلمانوں کے حقوق متعلق ہوں اس میں ناحق تصرف کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک غلام ھدیہ کے طور پر پیش کیا جس کا نام مدعم تھا ( ایک دن کسی میدان جنگ میں) وہ رسول کریم ﷺ کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ اچانک کسی نامعلوم شخص کا تیر آ کر اس کو لگا جس سے جان بحق ہوگیا، لوگوں کہا مدعم کو جنت مبارک ہو یعنی مدعم خوش قسمت رہا کہ آنحضرت ﷺ کی خدمت کرتے ہوئے شہید ہوا اور جنت میں پہنچ گیا ( یہ سن کر) رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ! ایسا نہیں ہے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں جان ہے، وہ چادر جس کو مدعم نے خیبر کے دن مال غنیمت میں سے اس کی تقسیم سے قبل لے لیا تھا، آگ بن کر مدعم پر شعلے برسا رہی ہے۔ جب ان لوگوں نے ( اس شدید وعید و تنبیہ کو سنا) ( جنہوں نے مال غنیمت میں خیانت کرنے کو سہل سمجھ لیا تھا اور یہ گمان کرلیا تھا کہ چھوٹی موٹی اور حقیر چیزوں کو لے لینے پر کوئی مؤ اخذہ نہیں ہوگا تو وہ کانپ گئے اور انہوں نے مال غنیمت میں سے جو چھوٹی موٹی چیزیں لے لی تھیں ان کو لا لا کر واپس کرنے لگے یہاں تک کہ) ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے ( واپس کرنے کے لئے) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لایا۔ آپ ﷺ نے ( اس کو دیکھ کر) فرمایا کہ یہ آگ کا ایک تسمہ ہے یا آگ کے دو تسمے ہیں یعنی خیانت کی چیز ہر حالت میں دوزخ کی آگ کا سزا وار کرے گی خواہ وہ کتنی ہی معمولی اور حقیر کیوں نہ ہو۔ ( بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث میں اس شخص کے لئے سخت تنبیہ اور شدید وعید ہے جو کسی ایسے مال میں سے کھائے جس کے ساتھ مسلمانوں کے حقوق متعلق ہوں۔ جیسے اوقاف اور بیت المال وغیرہ کیونکہ کسی ایک شخص کا حق تو واپس کیا جاسکتا ہے لیکن بہت سوں کے حقوق کی واپسی اور ان کی حق تلفیوں کی تلافی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ اور حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کا نام کر کرہ تھا ( کسی غزوے میں) رسول کریم ﷺ ( کی طرف سے سامان و اسباب) کا نگران مقرر ہوا، جب اس کا انتقال ہو تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ ( کر کرہ) دوزخ میں ڈالا گیا ہے۔ چناچہ لوگوں نے ( اس کے سامان کو) دیکھنا شروع کیا تو اس میں ایک کملی پائی گئی جس کو اس نے مال غنیمت میں سے خیانت کر کے لیا تھا۔ ( بخاری ) تشریح یحییٰ کہتے ہیں کہ لفظ فذھبوا میں حرف فا عاطفہ ہے، گویا اس لفظ سے پہلے یہ مفہوم مخدوف ہے کہ صحابہ نے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد سنا تو انہیں معلوم ہوا کہ کرہ کے حق میں یہ وعید اس سبب سے ہے کہ اس نے مال غنیمت میں خیانت کی تھی چناچہ انہوں نے اس کے سامان کو دیکھنا شروع کیا الخ

【11】

مجاہدین کو مال غنیمت میں سے خورد ونوش کی چیزوں کو تقسیم سے پہلے استعمال کرنے کی اجا زت

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ ہمیں غزوات میں شہد اور انگور ملتے تو ہم ان کو کھاتے تھے اٹھا کرلے نہیں جاتے تھے۔ ( بخاری) تشریح یعنی ہم اس شہد اور انگور کو تقسیم کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ کے پاس اٹھا کر نہیں جاتے تھے ! گویا اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ آنحضرت ﷺ ہمارے اس فعل کو جائز رکھتے تھے، چناچہ اس مسئلہ پر علماء کا اتفاق ہے، کہ مجاھدین اسلام جب تک دارالحرب یعنی دشمن کے محاذ جنگ پر رہیں اس وقت ان کو مال غنیمت میں سے خورد ونوش کی چیزوں کو ان کی تقسیم سے پہلے بقدر ضرورت و حاجت کھانے پینے کے مصرف میں لانا جائز ہے اور حضرت عبداللہ ابن مغفل کہتے ہیں کہ خیبر کے دن مجھ کو چربی سے بھری ہوئی ایک تھیلی ملی میں نے اس کو اٹھا کر اپنے ( سینے سے) لگایا اور ( دل میں زبان سے) کہا کہ آج میں اس چربی میں سے کسی کو کچھ نہیں دوں گا پھر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رسول کریم ﷺ ( کھڑے ہوئے) مجھ پر ( یعنی میرے اس فعل پر) مسکرا رہے تھے۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح جیسا کہ اوپر کی حدیث کے ضمن میں بیان کیا گیا، اس روایت سے بھی یہی معلوم ہوا کہ مجاھدوں کو مال غنیمت میں سے بقدر ضرورت کھانے پینے کی چیز لے لینا جائز ہے۔ وذکر حدیث ابی ہریرہ ما اعطیکم فی باب رزق الولاۃ۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ما اعطیکم الخ رزق ولاۃ کے باب میں ذکر کی جا چکی ہے

【12】

مال غنیمت کے جواز کے ذریعہ امت محمدی ﷺ کو دوسری امتوں پر فضیلت

حضرت ابوامامہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو انبیاء پر فضیلت بزرگی عطا فرمائی ہے۔ یا یہ فرمایا کہ میری امت کو دوسری امتوں پر فضیلت و بزرگی عطا کی ہے اور مال غنیمت کو ہمارے لئے حلال قرار دیا۔ ( تر مذی) تشریح حدیث کا آخری جملہ مذکورہ فضیلت و بزرگی کی وضاحت کے طور پر ہے یعنی حق تعالیٰ نے ہمارے لئے مال غنیمت کو مخصوص طور پر حلال قرار دے کر ہمیں دوسری امتوں پر فضیلت و بزرگی عطا کی ہے۔ یا یہ مراد ہے کہ حق تعالیٰ نے ہمیں دوسری امتوں پر جہاں اور بہت سی فضیلتیں عطا کی ہیں وہیں ایک فضیلت یہ بھی عطا کی ہے کہ ہمارے لئے مال غنیمت کو حلال کیا ہے۔

【13】

مقتول کا مال قاتل کو ملے گا

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس روز یعنی غزوہ حنین کے دن فرمایا جو شخص کسی کافر ( دشمن) کو قتل کرے گا اس ( مقتول) کا مال و اسباب اسی ( قاتل) کو ملے گا۔ چناچہ ابوطلحہ نے اس دن ( دشمن کے) بیس آ دمیوں کو قتل کیا اور ان کا سب مال اور اسباب حاصل کیا !۔ ( دارمی) حضرت عوف ابن مالک اشجعی اور حضرت خالد ابن الولید سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مقتول کے مال و اسباب کے بارے میں حکم فرمایا کہ وہ قتل کرنے والے کا حق ہے، نیز اس مال و اسباب میں سے آپ ﷺ نے خمس نہیں نکالا ( جیسا کہ مال غنیمت میں سے نکالتے تھے ) ۔ ( ابوداؤد) اور حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جنگ بدر کے دن مجھ کو ابوجہل کی تلوار ( میرے حصہ سے) زائد دی۔ واضح ہو کہ ابوجہل کو عبداللہ بن مسعود ہی نے قتل کیا تھا۔ ( ابوداؤد) تشریح جنگ بدر میں ابوجہل کو اصل میں تو انصار مدینہ کے دونوں عمروں نے قتل کیا تھا لیکن حضرت ابن مسعود اس کے قتل کرنے میں ان کے شریک تھے بایں طور کہ اس کا سر تن سے انہوں نے ہی جدا کیا تھا، اسی لئے آنحضرت ﷺ نے اس کے سامان کی ایک چیز یعنی تلوار حضرت عبداللہ ابن مسعود کو عطا فرمائی۔

【14】

غلام کو مال غنیمت میں سے تھو ڑا بہت دیا جا سکتا ہے

اور حضرت عمیر ابی اللحم کے آ زاد کردہ غلام تھے کہتے ہیں کہ میں اپنے مالکوں کے ساتھ غزوہ خیبر میں شریک ہوا ہوں ( اس غزوہ کے لئے روانگی کے وقت) میرے مالکوں نے میرے بارے میں رسول کریم ﷺ سے گفتگو کی ( یعنی انہوں نے میری تعریف و توصیف کی اور عرض کیا کہ میدان جنگ میں لڑنے کے لئے یا خدمت کی غرض سے عمیر کو بھی ساتھ لے چلیے) نیز انہوں نے آنحضرت ﷺ کو یہ بھی بتایا کہ میں ایک مملوک ( غلام) ہوں، آپ ﷺ نے ( میرے مالکوں کی درخواست منظور فرمائی اور) مجھ کو حکم دیا کہ میں مسلح ہوجاؤں مجاھدین کے ساتھ شامل رہوں، چناچہ مجھے تلوار سے مسلح کیا گیا ( یعنی تلوار میری گردن میں ڈال دی گئی) میں ( جب چلتا تو صغر سنی کی وجہ سے یا اپنے کوتاہ قد ہونے کے سبب) اس تلوار کو زمین پر گھسیٹتا ہوا چلتا، پھر ( دشمنوں پر غلبہ حاصل کرلینے کے بعد مال غنیمت کی تقسیم شروع ہوئی تو) آنحضرت ﷺ نے اس مال غنیمت میں سے تھوڑا بہت مجھے بھی دئیے جانے کا حکم صادر فرمایا۔ نیز (ایک موقع پر) میں نے آنحضرت ﷺ کو اپنا وہ منتر پڑھ کر سنایا جو میں دیوانگی کے مریضوں پر پڑھا کرتا تھا اور آپ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے مجھے اس کے بعض حصوں کو موقوف کردینے اور بعض حصوں کو باقی رکھنے کا حکم دیا۔ اس روایت کو ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد کی روایت لفظ المتاع پر پوری ہوگئی ہے۔ تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمیر جو منتر جانتے تھے اس سے بعض کلمات اسلامی عقائد کے منافی ہوں گے، لہذا آپ ﷺ نے ان کلمات کو ترک کردینے کا حکم دیا البتہ جو کلمات اسلامی عقائد وتعلیمات کے منافی نہیں تھے ان کو باقی رکھنے کی اجازت دے دی۔

【15】

خیبر کے مال غنیمت کی تقسیم

اور حضرت مجمع بن جاریہ کہتے ہیں کہ خیبر ( میں حاصل شدہ مال غنیمت اور زمین) کو ان لوگوں کے درمیان تقسیم کیا گیا جو حدیبیہ کی صلح میں شریک تھے، چناچہ رسول کریم ﷺ نے اس ( خیبر کے مال غنیمت اور زمین) کو اٹھارہ حصوں پر تقسیم کیا اور (صلح حدیبیہ میں شریک) لشکر کی تعداد پندرہ سو آدمیوں پر مشتمل تھی جن میں تین سو سوار تھے، اس طرح سوار کو آپ ﷺ نے دو حصے دئیے اور پیادہ کو ایک حصہ۔ ابوداؤد نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس بارے میں ابن عمر کی روایت زیادہ صحیح ہے اور اسی پر اکثر آئمہ نے عمل کیا ہے نیز مجمع کی ( اس) روایت میں واہمہ واقع ہوا ہے کہ انہوں ( مجمع) نے کہا ہے کہ تین حالانکہ سواروں کی تعداد دو سو تھی۔ تشریح جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ مال غنیمت میں اسلامی لشکر کے سوار مجاہد کے دو حصے ہیں جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے، وہ اس حدیث مجمع کو اپنے مسلک کی دلیل قرار دیتے ہیں، کیونکہ جب اٹھارہ حصوں میں سے تین سو سواروں میں ہر سو سوار کو دو دو حصے دئیے گئے تو چھ حصے ہوگئے اور بارہ حصے باقی بچے۔ چناچہ ان بارہ حصوں کو بارہ سو پیادوں کے درمیان اس طرح تقسیم کیا گیا کہ ہر سو پیادوں کو ایک حصہ ملا۔ جب کہ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ مال غنیمت میں سوار مجاہد کے تین حصے ہیں، ان کے اعتبار سے یہ حساب درست نہیں۔ بیٹھتا، کیونکہ اس صورت میں سواروں پر نو حصوں کی تقسیم لازم آتی ہے اور بارہ حصے پیادوں کے ہوئے، اس حساب سے ان حصوں کی مجموعی تعداد اکیس ہوتی ہے حالانکہ حدیث میں مجموعی تعداد اٹھارہ بیان کی گئی ہے، دوسرے یہ کہ حضرت ابن عباس اور خود حضرت ابن عمر سے بھی حضرت مجمع جیسی روایت منقول ہے، ان سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ سواروں کو دو دو ہی حصے دئیے گئے تاہم جن حضرات کے نزدیک سواروں کے تین حصے ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں حضرت ابن عمر ہی کی روایت ( جو اسی باب کی پہلی فصل میں نقل کی جا چکی ہے) زیادہ صحیح و ثابت اور فیصلہ کن ہے۔ جہاں تک حنیفہ کا تعلق ہے، وہ حضرت ابن عمر کی اس روایت پر جس وجہ سے عمل نہیں کرتے وہ اس روایت کی تشریح میں بیان کی جا چکی ہے۔ روایت کے آخر میں جس واہمہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کی بنیاد اختلاف روایت پر ہے، چناچہ اس بارے میں مختلف روایتیں منقول ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اسلامی لشکر کی تعداد کتنی تھی، ایک روایت تو یہی ہے جو حضرت مجمع نے نقل کی ہے کہ پندرہ سو کی تعداد تھی جس میں تین سو سوار تھے لیکن ایک روایت میں یہ تعداد چودہ سو بیان کی گئی ہے جو بارہ سو پیادوں اور دو سو سواروں پر مشتمل تھی۔

【16】

جہاد میں زیادہ سعی ومحنت کرنے والو کے لئے مال غنیمت میں سے خصوصی حصہ

اور حضرت حبیب ابن مسلمہ فہری کہتے ہیں کہ ( کسی غزوے کے موقع پر) میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ نے جنگ کی ابتداء میں ( لڑنے والوں کو) مال غنیمت چوتھائی حصہ زائد عطا کیا اور واپسی کے وقت ( لڑنے والوں کو) تہائی حصہ زائد عطا کیا۔ تشریح اس حدیث میں مال غنیمت کی تقسیم کے سلسلے میں ایک مخصوص نوعیت کے معاملہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر میدان جنگ میں جہاد کے شروع ہونے کے وقت اسلامی لشکر کا کوئی دستہ اپنے لشکر سے آگے نکل کر دشمن کے مقابلہ پر پہنچ جاتا اور اپنے پورے لشکر کے پہنچنے سے پہلے دشمن کے ساتھ جنگ میں مشغول ہوجاتا تو آنحضرت ﷺ اس دستہ کو مخصوص طور پر مال غنیمت کا چوتھائی حصہ عطا فرماتے اور پھر جب باقی تین چوتھائی حصے تقسیم ہوتے تو اس میں بھی پورے لشکر کے ساتھ اس دستہ کو شریک کرتے، اسی طرح میدان جنگ میں دشمن کے مقابلہ سے اسلامی لشکر کے واپس آنے کے بعد اگر مجاہدین کا کوئی دستہ بدستور جنگ میں مشغول رہتا تو آنحضرت ﷺ اس دستہ کو مخصوص طور پر مال غنیمت کا تہائی حصہ عطا فرماتے اور پھر جب باقی دو تہائی حصے تقسیم ہوتے تو اس میں بھی پورے لشکر کے ساتھ اس دستہ کو شریک کرتے۔ اور اس دستہ کو تہائی حصہ اس لئے عطا فرماتے کہ پورے لشکر کی واپسی کے بعد صرف چند مجا ہدین کا دشمن کے مقابلہ پر جمے رہنا اور لڑائی جاری رکھنا ایک انتہائی سخت مرحلہ اور نہایت خطرناک اقدام اور غیر معمولی حوصلے کا کام ہوتا تھا جب کہ ابتداء میں اتنا سخت مرحلہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس وقت تو پورا لشکر آجاتا تھا اور ان مجاہدین کی مدد کرتا تھا، اس کے برخلاف لشکر کی واپسی کی صورت میں جب کہ سارے مجاہدین واپس آجاتے تھے تو اس وقت جنگ کرنا اور دشمن کا مقابلہ کرنا سخت مشکل اور انتہائی سخت ہوتا تھا بہرحال ان مجاہدین کو مال غنیمت میں سے ان کے حصے سے زیادہ عطا کرنا جنگ میں ان کی بہادری، غیر معمولی حوصلہ اور سخت ترین جدوجہد کے امتیازی کارنامے کی بنا پر تھا اور حضرت حبیب ابن مسلمہ فہری راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ (جنگ کی ابتداء میں اسلامی لشکر کے پہنچنے سے پہلے لڑنے والے مجاہدین کو مال غنیمت میں سے خمس نکالنے کے بعد چوتھائی حصہ زیادہ دیتے تھے اور ( لشکر کے) واپس آجانے کی صورت میں (لڑنے والے مجاہدین کو) خمس نکلنے کے بعد تہائی حصہ زیادہ دیتے تھے۔ ( ابوداؤد) تشریح اوپر کی حدیث میں یہ تو بیان کیا گیا تھا کہ ابتدائے جنگ میں لڑنے والے مجاہدین کو چوتھائی حصہ اور لشکر کے واپس آجانے کے بعد لڑنے والے مجاہدین کو تہائی حصہ دیا جاتا تھا لیکن یہ وضاحت نہیں کی گئی تھی کہ یہ چوتھائی یا تہائی حصہ خمس نکالنے کے بعد دیا جاتا تھا اس سے پہلے ؟ چناچہ اس حدیث میں اسی کو واضح کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ پورے مال غنیمت میں سے پہلے خمس نکالتے، اس کے بعد چوتھائی یا تہائی حصہ اور پھر اس کو پورے لشکر کے درمیان تقسیم فرماتے۔

【17】

مال فئی میں کوئی خصوصی حصہ نہیں

اور حضرت ابوجویریہ کہتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ کی خلافت کے زمانہ میں (ایک دن) میں نے روم کی زمین میں ایک سرخ رنگ کی ٹھل یا پائی جس میں دینار ( بھرے ہوئے) تھے، اس وقت ہمارے علاقے کے حاکم، رسول کریم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص تھے جن کا نام معن ابن یزید تھا، میں وہ ٹھلیا لے کر ان کے پاس آیا، انہوں نے ان دیناروں کو مسلمانوں ( یعنی مجاہدین اسلام) کے درمیان تقسیم کردیا اور ان میں سے مجھ کو بھی اتنا ہی دیا، جتنا کسی ایک شخص کے حصے میں آیا تھا ( یعنی مجھے بھی سب کے برابر دیا کوئی زیادہ حصہ نہیں دیا) اور پھر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ خمس نکالنے کے بعد ہی حصے سے زیادہ دیا جاسکتا ہے۔ تو یقینا میں بھی تمہیں دوسروں سے زیادہ) دیتا۔ ( ابوداؤد) تشریح حضرت معن ابن یزید کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق کسی مجاہد کو مخصوص طور پر کوئی زیادہ حصہ اس مال میں سے دیا جاسکتا ہے جس میں سے خمس نکالنا ضروری ہو اور وہ خمس نکالا جا چکا ہو اور یہ ظاہر ہے کہ خمس اس مال میں سے نکالا جاتا ہے جو کفار سے جنگ وجدال کے بعد ہاتھ لگا ہو جس کو مال غنیمت کہتے ہیں جب کہ یہ مال جو تمہارے ہاتھ لگا ہے مال فئی ہے اور مال فئی میں کوئی زائد حصہ نہیں لگتا اس لئے تمہیں بھی اس مال میں سے دوسرے سے زیادہ نہیں ملے گا۔

【18】

شریک معرکہ نہ ہونے والوں کو مال غنیمت میں سے خصوص عطیہ

اور حضرت ابوموسی اشعری کہتے ہیں کہ ( جب) ہم حبشہ سے) آئے اور رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے تو آپ اس وقت خیبر کو فتح کرچکے تھے، چناچہ آپ ﷺ نے ( خیبر کے مال غنیمت میں سے) ہمیں بھی حصہ عطا فرمایا۔ یا ابوموسی اشعری نے یہ کہا کہ۔ چناچہ آپ ﷺ نے خیبر کے مال غنیمت میں سے ہمیں بھی عطا فرمایا اور آپ ﷺ نے اس ( مال غنیمت) میں سے کسی بھی ایسے شخص کو کوئی حصہ نہیں دیا جو فتح خیبر کو موقع پر موجود نہ رہا ہو علاوہ اس شخص کے جو ( غزوہ خیبر کے وقت) آپ ﷺ کے ساتھ تھا اور علاوہ ہم کشتی والوں یعنی حضرت جعفر اور ان کے رفقاء کے کہ آپ ﷺ ( ہم) کشتی والوں کو بھی ان (عز وہ خیبر میں شریک ہونے والے مجا ہدوں کے ساتھ حصہ دیا ( باوجودیکہ ہم اس غزوہ میں شریک نہیں تھے۔ ( ابوداؤد) تشریح حضرت ابوموسی اشعری دعوت اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ میں یمن سے مکہ آئے اور اسلام قبول کیا اور پھر ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے جہاں حضرت جعفر ابن ابوطالب اور دوسرے صحابہ بھی مکہ سے ہجرت کر کے چلے گئے تھے، جب ان سب لوگوں نے حبشہ میں یہ خبر سنی کہ آنحضرت ﷺ بھی مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ چلے گئے ہیں تو یہ لوگ بھی حبشہ سے کشتیوں کے ذریعہ مدینہ کے لئے روانہ ہوئے اور آنحضرت ﷺ کے پاس اس وقت پہنچے۔ جب کہ آپ ﷺ خیبر کو فتح کرچکے تھے بعض حضرات یہ کہتے ہی کہ حبشہ سے آنے والے ان لوگوں کو خیبر کے مال غنیمت میں سے اس لئے حصہ دیا گیا کہ اگرچہ ان کا آنا جنگ کے بعد ہوا تھا لیکن وہ مال غنیمت کے جمع کرنے اور اس کی تقسیم سے پہلے پہنچ گئے تھے، یہ تاویل ان علماء کی طرف سے کی جاتی ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی مجاہد جنگ میں شریک نہ ہو سکے مگر مال غنیمت کے جمع ہونے اور اس کی تقسیم کے وقت موجود ہو تو اس مال غنیمت میں سے اس کو بھی لشکر والوں کے ساتھ حصہ ملے گا جیسا کہ حضرت امام شافعی کا ایک قول ہے لیکن جو علماء اس بات کے قائل نہیں ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو خیبر کے مال غنیمت میں سے حصہ دینا آنحضرت ﷺ کی طرف سے ایک خصوصی نوعیت کا عطیہ تھا جو غزوہ خیبر میں شریک ہونے والے مجاہدین کی رضا مندی سے دیا گیا تھا اور یہی قول زیادہ صحیح ہے۔

【19】

مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھنے سے آنحضرت ﷺ کا انکا ر

اور حضرت یزید ابن خالد راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص کا خیبر کے دن انتقال ہوگیا، صحابہ نے رسول کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا ( یعنی آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ فلاں شخص کا انتقال ہوگیا ہے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ اس کے جنازہ کی نماز پڑھ لو ( میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھوں گا) لوگوں ( کا یہ سننا تھا کہ ان) کے چہروں کا رنگ اس ( خوف کی) وجہ سے بدل گیا ( کہ نہ معلوم کیوں آنحضرت ﷺ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھیں گے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( میں اس کی نماز جنازہ اس وجہ سے نہیں پڑھوں گا کہ) تمہارے ( اس) ساتھی نے اللہ کی راہ میں ( یعنی مال غنیمت میں) خیانت کا ارتکاب کیا تھا۔ چناچہ جب ہم نے اس اسباب کی تلاشی لی تو اس میں ہمیں یہودیوں ( یعنی یہودی عورتوں) کے پہننے کے ( گلے کے) ہار ملے جو دو درہموں کے برابر بھی نہیں تھے ( یعنی ان کی قیمت دو درہم سے کم تھی۔ ( مالک ابوداؤد، نسائی )

【20】

مال غنیمت جمع کرنے میں تا خیر کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب مال غنیمت کو جمع کرا کر تقسیم کرنے کا ارادہ فرماتے تو حضرت بلال کو ( اعلان کرنے کا) حکم دیتے چناچہ وہ لوگوں کے درمیان اعلان کردیتے اور ( اس اعلان کو سنتے ہی) لوگ اپنی اپنی غنیمت لے آتے ( یعنی جس کے ( پاس مال غنیمت کو) لوگوں ( یعنی مجاہدین) کے درمیان تقسیم فرما دیتے۔ (ایک دفعہ ایک شخص ( مال غنیمت میں سے خمس نکالنے اور اس کو مجاہدین کے درمیان تقسیم کرنے کے) ایک دن بعد بالوں کی بنی ہوئی ایک مہار لے کر آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! جو مال غنیمت ہمارے ہاتھ لگا تھا اس میں یہ مہار بھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بلال نے تین بار جو اعلان کیا تھا اس کو تم نے سنا تھا ؟ اس نے کہا کہ ہاں ! میں نے سنا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر اس کو ( اسی وقت) لانے سے تمہیں کس چیز نے روکا تھا ؟ اس نے ( اس تاخیر کے لئے) کوئی عذر بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا بس ( اب) یوں ہی رہو ( یعنی اس کو اپنے پاس ہی رکھو، اب تو) کل قیامت کے دن ہی اس کو لے کر آنا ( اور تب اللہ کو اس کا جواب دینا) میں ( اب) اس کو تم سے ہرگز نہ لوں گا۔ ( ابوداؤد تشریح آنحضرت ﷺ نے اس مہار کو اس لئے قبول نہیں کیا کہ اس میں سارے مجاھدوں کا حق تھا اور اس وقت چونکہ سارے مجاہد منتشر ہوگئے تھے اس لئے اس میں ہر ایک کو اس کا حصہ پہنچانا مشکل تھا۔

【21】

مال غنیمت میں خیانت کی سزا

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد ( حضرت شعیب) سے اور وہ ( شعیب) اپنے دادا ( حضرت عبداللہ ابن عمرو) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اور حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق نے مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کا سامان و اسباب جلا ڈالا اور اس کی پٹائی ( بھی) کی۔ ( ابوداؤد) تشریح اس خیانت کی سزا یہ دی کہ اس کا سامان و اسباب نذر آتش کردیا اور ازراہ تعزیر اس کی پٹائی بھی کی۔ بعض علماء جیسے حضرت امام احمد ابن حنبل وغیرہ نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا ہے اور کہا ہے کہ جو شخص مال غنیمت میں خیانت کرے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کے گھر کا سارا سامان و اسباب جلا دیا جائے، علاوہ جانوروں اور مصحف مجید ( قرآن کریم) کے، نیز اس چیز کو بھی نہ جلایا جائے جس کو اس نے مال غنیمت میں سے خیانت کر کے لیا ہے کیونکہ وہ ( اس کی ملکیت میں داخل نہیں ہے بلکہ) مجاہدین کا حق ہے۔ جب کہ تینوں آئمہ یعنی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ اس کا سامان و اسباب نہ جلایا جائے بلکہ اس کو کوئی اور تعزیر جو حاکم وقاضی مناسب جانے دے۔ ان حضرات نے اس حدیث کو سخت تنبیہ و وعید پر محمول کیا ہے۔

【22】

خائن کی اطلاع نہ دینے والا بھی خائن کے حکم میں ہے

اور حضرت سمرہ ابن جندب کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جس شخص نے مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کی خیانت کو چھپایا ( یعنی وہ امیر و حاکم کے علم میں یہ بات نہیں لایا کہ فلاں شخص نے خیانت کی ہے) تو گنہگار ہونے کے اعتبار سے) وہ (بھی) خیانت کرنے والے کی طرح ہے۔ ( ابوداؤد )

【23】

غنیمت کا مال تقسیم ہونے سے پہلے اس کی خر ید فروخت کی مما نعت

اور حضرت ابوسعید کہتے کہ رسول کریم ﷺ نے غنیمت کا مال تقسیم ہونے سے پہلے اس کو خریدنے سے منع فرمایا ہے (کیونکہ تقسیم سے پہلے اس کا کوئی مالک نہیں ہوتا۔ (تر مذی) اور حضرت ابوامامہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس کی ممانعت کا اعلان فرمایا کہ ( مال غنیمت کے) حصے جب تک تقسیم نہ ہوجائیں ان کو فروخت نہ کیا جائے۔ (دارمی ) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مال غنیمت کے اپنے حصہ کو تقسیم سے پہلے بیچنے لگے تو یہ جائز نہیں ہوگا ایک تو اس وجہ سے کہ جس حصہ کو وہ بیچنا چاہتا ہے ابھی وہ اس کی ملکیت میں نہیں آیا ہے ( جیسا کہ بعض علماء کا قول ہے کہ تقسیم سے پہلے کسی بھی حصہ کی ملکیت موقوف رہتی ہے) دوسرے اس وجہ سے کہ ( حصہ دار کو تقسیم سے پہلے مالک مان بھی لیا جائے تو خود اس (مالک) کو تقسیم سے پہلے تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے حصے میں کیا چیز آئے گی اور وہ چیز کیسی ہوگی، اس صورت میں اس حصے کو بیچنا گویا ایک ایسی چیز کو بیچنا لازم آئے گا جو غیر معلوم وغیر متعین ہے اور یہ ناجائز ہے۔

【24】

مال غنیمت میں ناحق تصرف کرنے والے دوزخ کی آگ کے سزاوار ہوں گے

حضرت خولہ بنت قیس کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بلاشبہ یہ مال ایک سبز و شیریں چیز ہے (یعنی مال ایک ایسی چیز ہے جو انسان کی نظر کو بھاتا ہے اور دل کو لبھاتا ہے) لہٰذا جو شخص اس مال کو حق یعنی حلال ذریعہ سے حاصل کرتا ہے اس کے لئے اس میں برکت عطا کی جاتی ہے اور یاد رکھو بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مال یعنی مال غنیمت میں سے جس چیز کو ان کا دل چاہتا ہے اپنے تصرف میں لے آتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے صرف دوزخ کی آگ ہوگئی۔ (ترمذی )

【25】

ذوالفقار تلوار کا ذکر

اور حضرت ابن عباس کہتے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی تلوار جس کا نام ذوالفقار تھا، جنگ بدر کے دن حصے سے زیادہ لی تھی۔ ( ابن ماجہ) اور ترمذی نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ اور یہ وہی تلوار ہے جس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے جنگ احد کے دن خواب دیکھا تھا۔ تشریح حصے سے زیادہ لی تھی کا مطلب یہ ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر جو مال غنیمت ہاتھ لگا تھا اس میں یہ تلوار بھی تھی، جس کو آنحضرت ﷺ نے پسند کر کے اپنے حصے سے زائد لے لیا تھا۔ یہ بات صرف آنحضرت ﷺ کے لئے جائز تھی اور کسی کے لئے جائز نہیں۔ جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوا، اس تلوار کا نام ذوالفقار تھا، جو ایک کافر منبہ ابن حجاج کی ملکیت تھی، وہ جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھا، آنحضرت ﷺ کو یہ تلوار پسند آگئی، چناچہ آپ ﷺ نے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت اس کو اپنے حصے سے زائد اپنے پاس رکھ لیا۔ چناچہ کتنی ہی جنگوں میں اور تلواروں کے ساتھ یہ تلوار بھی آنحضرت ﷺ کے پاس رہی۔ اور قاموس میں یہ لکھا ہے کہ یہ تلوار منبہ کے بیٹے عاص کی ملکیت تھی جو جنگ بدر میں ( حضرت علی کے ہاتھوں) مارا گیا، پھر آنحضرت ﷺ نے وہ تلوار حضرت علی ہی کو عطا فرما دی۔ اس تلوار کا نام ذوالفقار اس مناسبت سے تھا کہ اصل میں فقار پشت کی ہڈی کو کہتے ہیں، چونکہ اس تلوار کی پشت پر چھوٹے چھوٹے خوبصورت گڑھے تھے یا پشت کی ہڈیوں کی طرح جوڑ تھے، اس لئے اس کو ذوالفقار کہا جانے لگا۔ غزوہ احد کے موقع پر ذوالفقار سے متعلق خواب دیکھنے کا قصہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک خواب میں یہ دیکھا کہ آپ ﷺ نے اس تلوار ( ذوالفقار) کو ہلایا تو وہ درمیان سے ٹوٹ گئی، پھر دوبارہ اس ہلایا تو وہ پہلے سے بھی زیادہ اچھی ہوگئی چناچہ غزوہ احد کے دن اس خواب کی یہ تعبیر سامنے آئی کہ پہلے کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن آخر میں فتح و کامرانی حاصل ہوئی۔

【26】

تقسیم سے پہلے مال غنیمت کی کسی چیز کو استعمال کرنے کی مما نعت

اور حضرت رویفع ابن ثابت سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے قطعًا روا نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے ( مشترک) مال غنیمت کے کسی جانور پر ( بلا ضرورت شرعی) سوار ہو اور پھر جب وہ ( جانور) دبلا ہوجائے تو اس کو مال غنیمت میں واپس کر دے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے یہ قطعا روا نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے (مشترک) مال غنیمت کے کسی کپڑے کو ( بلا ضرورت شرع پہنے اور پھر جب وہ (کپڑا) پرانا ہوجائے تو اس کو مال غنیمت میں واپس کر دے۔ ( ابودؤد) تشریح اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر اپنی سواری کے مصرف میں لانے کی وجہ سے وہ جانور دبلا نہ ہو تو اس صورت میں اس پر سوار ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن حقیقت میں نہ یہ مفہوم مراد ہے اور نہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے بلکہ یہ بات محض محاورۃ فرمائی گئی ہے کہ عام طور پر جانور سواری کے کام آنے سے دبلے ہوجاتے۔

【27】

مال غنیمت میں کھانے کی جو چیزیں ہاتھ آئیں ان کا حکم

اور حضرت محمد ابن ابوالمجالد، حضرت عبداللہ بن اوفی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ( حضرت عبداللہ) سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں کھانے کی چیزوں میں سے بھی خمس یعنی پانچواں حصہ نکالتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ غزوہ خیبر کے دن کھانے کی چیزیں بھی ہمارے ہاتھ لگی تھیں، چناچہ ہر کوئی شخص آتا اور ان میں سے بقدر کفایت لے کر واپس چلا جاتا۔ ( ابوداؤد) تشریح سوال کا مطلب یہ تھا کہ آیا ان چیزوں میں سے بھی خمس نکالا جاتا تھا یا جو چیزیں کھانے کی قسم سے ہوتیں، ان کو تقسیم سے متشنیٰ رکھا جاتا تھا کہ جو شخص چاہتا ان کو اپنے مصرف میں لے آتا ؟ جواب کا حاصل یہ تھا کہ کھانے پینے کی چیزوں میں سے خمس نہیں نکالنا چاہئے لیکن اس بات کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ ایسی چیزوں میں سے جو کچھ بھی لیا جائے وہ بس اتنی ہی مقدار میں ہو کہ ضرورت و حاجت پوری ہوجائے اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ( ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ کے زمانے میں ( مسلمانوں کا) لشکر (جب جہاد سے واپس آیا تو) مال غنیمت میں کھانے کی چیزیں اور شہد لے کر آیا۔ چناچہ ( ان لشکر والوں نے ان چیزوں میں سے جو کچھ کھا پی لیا تھا یا وہ جو کچھ بچا کرلے لئے تھے اس میں سے) ان سے خمس یعنی پانچواں حصہ نہیں لیا گیا۔ ( ابوداؤد) اور حضرت قاسم ( تابعی) جو عبدالرحمن کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے بعض صحابہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ( یعنی ان بعض صحابہ نے بیان کیا کہ ہم غزو وں میں اونٹ کا گوشت کھاتے اور اس کو تقسیم نہ کرتے ( یعنی ہم محاذ جنگ پر ضرورت کے وقت مال غنیمت کے اونٹوں کو ذبح کرتے اور انکا گوشت تقسیم کئے بغیر اپنی اپنی حاجت کے بقدر لے لیتے) یہاں تک کہ جب ہم ( سفر کے دوران) اپنے ڈیروں، خیموں میں واپس آتے تو ہمارے تھیلے گوشت سے بھرے ہوئے ہوتے۔ ( ابوداؤد) تشریح ابن ہمام فرماتے ہیں کہ جب مسلمان ( جہاد کے بعد) دارالاسلام واپس آتے ہوئے دارالحرب کی سرحدوں سے پار ہوجائیں تو اس کے بعد ان کے لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ وہ اپنے جانوروں کو مال غنیمت میں سے گھاس دانہ کھلائیں یا مال غنیمت کی کھانے پینے کی چیزوں میں سے خود کچھ کھائیں کیونکہ اس صورت میں وہ ضرورت اپنی باقی نہیں رہ گئی ہے جس کی بناء پر دارالحرب میں مال غنیمت کی کھانے پینے کی چیزوں کا اپنے مصرف میں لانا مجاہدین کے لئے مباح تھا۔ نیز جس شخص کے پاس دارالحرب میں غیر تقسیم شدہ مال غنیمت کا گھاس دانہ یا کھانے پینے کی چیزیں اس کی ضرورت و حاجت سے زائد ہوں وہ ان کو مال غنیمت میں واپس کر دے۔

【28】

خیانت کرنے والوں کو قیامت کے دن بے عزت ہونا پڑے گا

اور حضرت عبادہ ابن صامت (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ دھاگے اور سوئی کی بھی ادائیگی کرو ( یعنی مال غنیمت میں سے اس قدر معمولی چیزیں بھی چھپا کر نہ رکھو) اور تم ( مال غنیمت میں یا مطلق خیانت کرنے سے اجتناب کرو کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خیانت کرنا خیانت کے مرتکب لوگوں کے لئے قیامت کے دن بےعزتی لانے والا ہوگا دارمی اور نسائی نے اس روایت کو عمر ابن شعیب سے اور انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے نقل کیا ہے۔

【29】

مال غنیمت میں حقیر ترین چیز کی خیانت مستو جب مواخذہ ہے

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ( ایک دن) نبی کریم ﷺ (مال فئی میں آئے ہوئے) ایک اونٹ کے پاس تشریف لائے اور اس کے کوہان کے ( دو ایک) بال اکھاڑ کر فرمایا لوگو ! حقیقت یہ ہے کہ اس مال فئی میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے اور۔ ( آپ ﷺ کی جس انگلی پر وہ بال تھے، لوگوں کو دکھانے کے لئے) اس انگلی کو اٹھا کر فرمایا کہ یہ ( مال بھی اتنا معمولی حصہ بھی) میرے لئے نہیں ہے البتہ خمس یعنی پانچویں حصے کا میں حقدار ہوں لیکن خمس بھی ( میری ذات پر خرچ نہیں ہوتا بلکہ، تمہارے ہی اوپر خرچ کیا جاتا ہے ( یعنی خمس کا مال تمہاری ہی بھلائی میں خرچ ہوتا ہے بایں طور کہ اس سے تمہارے لئے ہتھیار اور گھوڑے وغیرہ حاصل کئے جاتے ہیں) لہذا (اگر تمہارے پاس مال غنیمت میں کا) سوئی داگہ بھی ہو تو اس کو) کا اجر جمع کرا دو ۔ ( ایک شخص جس کے ہاتھ میں بالوں کی رسی کا ایک ٹکڑا تھا، کھڑا ہوا اور کہا کہ میں نے رسی کے اس ٹکڑے کو اپنے پاس رکھ لیا تھا تاکہ اس کے ذریعہ پالان کے نیچے کی کملی کو ( گانٹھ کر) ٹھیک کرلو ( اب) اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جہاں تک اس چیز کا سوال ہے جو میرے اور بنو عبدالمطلب کے حصے کی ہے تو وہ تمہاری ہے ( یعنی اس ٹکڑے میں سے جو کچھ میرے خاندان بنو ہاشم اور ان کے حلیف و ساتھی بنو عبد المطلب کے لوگوں کے حصے کا ہے وہ تو ہم نے تمہیں بخش دیا لیکن اس میں سے جو کچھ ہمارے علاوہ دوسرے مجاہدین کا حصہ اس کے بارے میں تم جانو، اگر تم ان سے بھی ان کے حصے معاف کرا لو گے تو کوئی مؤ اخذہ نہیں ہوگا اور اگر ان کے حصے معاف نہیں کرائے تو قیامت کے دن پکڑے جاؤ گے ہے۔ اس شخص نے ( یہ سن کر کہا) کہ جب یہ رسی ( گناہ کی) اس حد تک پہنچ گئی ہے جو میرے سامنے ہے تو پھر مجھ کو اس بات کی ضرورت نہیں ہے اور ( یہ کہہ کر) اس نے اس رسی کو پھینک دیا۔ ( ابوداؤد )

【30】

آنحضرت ﷺ خمس کا مال بھی مسلمانوں ہی کے اجتماعی مفاد میں خرچ کرتے تھے

اور حضرت عمرو ابن عبسہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ( ایک موقع پر) مال غنیمت کے ایک اونٹ کو سترہ قرار دے کر ہمیں نماز پڑھائی، جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا (اور نماز سے فارغ ہوگئے) تو اس اونٹ کے پہلو سے (دو ایک) بال اکھاڑے اور پھر فرمایا کہ تمہارے مال غنیمت میں میرے لئے اتنا (یعنی ان بالوں کے بقدر) بھی حصّہ نہیں ہے علاوہ خمس کے اور وہ خمس بھی تمہاری ضرورتوں میں خرچ کیا جاتا ہے ۔ (ابوداود) تشریح اگر پہلو سے یہ مراد ہو کہ آپ ﷺ نے اونٹ کے کوہان کی کسی جانب سے بال اکھاڑے تو اس صورت میں یہ وہی واقعہ ہوگا جس کا ذکر اوپر کی حدیث میں تھا اور اگر ظاہری مفہوم یعنی اونٹ کا پہلو مراد لیا جائے تو اس صورت میں یہ کوئی دوسرا واقعہ ہوگا۔

【31】

ذوی القربیٰ میں مال خمس کی تقسیم کے موقع پر حضرت عثمان وغیرہ کی محرومی

اور حضرت جبیر ابن مطعم کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ نے (مال غنیمت میں سے اپنے قرابتداروں کا حصّہ (یعنی خمس کہ جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے) بنو ہاشم اور بنو مطلب کے درمیان تقسیم کیا تو میں یعنی جبیر (بنو نوفل کی طرف سے) اور عثمان ابن عفان ( بنو عبد شمس کی طرف سے) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہمارے یہ بھائی جن کا تعلق بنو ہاشم سے ہے، ہم ان کی فضیلت و بزرگی کا تو انکار نہیں کرتے کیونکہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ان میں پیدا کیا ہے لہٰذا اس اعتبار سے ہماری بہ نسبت وہ آپ کے زیادہ قریب ہیں ( کیونکہ ان کے اور آپ ﷺ کے جد ایک ہی ہیں (یعنی ہاشم) اگرچہ ہمارے اور ان کے جد اعلیٰ بھی ایک ہی ہیں) (یعنی عبد مناف) لیکن ہمیں یہ بتایئے کہ اس کا کیا سبب ہے کہ آپ ﷺ نے (خمس کے مال میں سے جو ذوی القربیٰ کا حصّہ ہے) ہمارے ان بھائیوں کو تو حصّہ دیا جن کا تعلق بنو مطلب سے ہے اور ہمیں محروم رکھا جب کہ ہماری یعنی بنو نوفل اور بنی عبد شمس کی اور ان کی یعنی بنی مطلب کی قرابت ایک ہی ہے (بایں طور کہ جس طرح ان کے دادا ہاشم کے بھائی تھے اسی طرح ہمارے دادا بھی ہاشم کے بھائی تھے گویا ان دونوں حضرات کی غرض کا حاصل یہ تھا کہ مال غنیمت میں سے جو خمس نکالا جاتا ہے وہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق آپ ﷺ کے قرابت داروں کا حصّہ ہے، چناچہ آپ ﷺ نے اپنے قرابت داروں کی ایک شاخ بنو مطلب کو مال خمس میں سے دیا لیکن دوسری دو شاخوں یعنی بنو نوفل اور بنو عبد شمس کو کچھ نہیں دیا، جب کہ یہ ساری شاخیں ایک ہی جد اعلیٰ یعنی عبد مناف کی اولاد ہیں، تو اس امتیازی سلوک کی کیا وجہ ہے ؟ ) آنحضرت ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان داخل کر کے (اور اس کی طرف اشارہ کر کے) فرمایا کہ (میں) اس کے علاوہ اور کچھ نہیں (جانتا) کہ (جس طرح دونوں ہاتھوں کی یہ انگلیاں باہم مل کر ایک چیز ہوگئی ہیں اسی طرح) بنو ہاشم اور بنو مطلب بھی ایک چیز ہیں۔ (شافعی) ابوداو د اور نسائی کی روایت بھی اسی طرح ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہم اور مطلب کی اولاد، نہ زمانہ جاہلیت میں کبھی ایک دوسرے کے مخالف ہوئے اور نہ زمانہ اسلام میں، لہٰذا اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ہم اور وہ، دونوں ایک چیز ہیں یہ کہہ کر آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کیں۔

【32】

ابوجہل کے قتل کا واقعہ

حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف کہتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن میں ( دشمن کی مقابل) صف میں کھڑا تھا، جب میں نے دائیں بائیں نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں دو انصار لڑکوں کے درمیان کھڑا ہوں، جو بالکل نوعمر تھے، مجھے یہ تمنّا ہوئی کہ کاش (اس وقت) میں ان دونوں سے زیادہ طاقتور اور تجربہ کار دو آدمیوں کے درمیان کھڑا ہوتا (یعنی) میں نے دونوں نوعمروں کو حوصلہ اور شجاعت کے اعتبار سے بےوقعت جانا اور یہ خیال کیا کہ چونکہ یہ نوعمر اور نا آزمودہ کار ہیں، اس لئے ہوسکتا ہے کہ دشمن کے حملہ کی تاب نہ لائیں اور معرکہ کے وقت بھاگ کھڑے ہوں جس سے میری ذات کو بھی بٹہ لگے، میں انہیں خیال میں غلطاں و پیچاں تھا کہ) ( اچانک ان دونوں میں سے ایک نے مجھے ٹہوکا دیا اور کہا کہ چچا جان ! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں، وہ کونسا ہے اور کہاں ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں ! میں جانتا ہوں، لیکن میرے بھتیجے ! تمہیں ابوجہل سے کیا غرض ہے ؟ اس نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ (لعین ابوجہل) رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیا کرتا ہے، اس ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر میں اس کو دیکھ لوں تو میرا جسم اس کے جسم سے اس وقت تک جدا نہ ہوگا جب تک ہم میں سے کوئی ایک موت کی طرف بڑھنے میں جلدی نہ کرے ( یعنی ابوجہل کے خلاف میرے دل میں اتنی نفرت ہے کہ میں اس کو دیکھتے ہی اس پر جھپٹ پڑوں گا اور اس وقت تک اس سے لڑوں گا جب تک ہم دونوں میں سے جس کی موت پہلے آنی والی ہوگی وہ نہ مرجائے خواہ میں شہید ہوجاؤں، خواہ میں اس کو جہنم رسید کروں ) ۔ حضرت عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ میں اس نوعمر کی اس بات کو سن کر حیران رہ گیا ( کہ خدایا، ان نوعمروں کے دل میں آنحضرت ﷺ کی کتنی محبت ہے اور ان کے جذبات میں ہمت و حوصلہ اور شجاعت و بہادری کا کیسا محشر بپا ہے) عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ( پھر دوسرے لڑکے نے مجھے ٹہوکا دیا اور اس نے بھی وہی الفاظ کہے جو پہلے نے کہے تھے، اس کے بعد میں نے کوئی توقف نہ کیا اور ابوجہل کو دیکھا جو (دشمن کے) لوگوں میں پھر رہا تھا، میں نے (اس کی طرف اشارہ کر کے) ان لڑکوں سے کہا کیا تم اس شخص کو نہیں دیکھ رہے جو (دشمن کے گروہ میں) پھر رہا ہے ؟ یہی تمہارا وہ مطلوب ہے جس کے بارے میں تم مجھ سے پوچھ رہے تھے (یعنی اس شخص کو پہچان لو یہی ابوجہل ہے ) ۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ (یہ سنتے ہی) وہ دونوں لڑکے اپنی تلوار سنبھال کر فورًا ابوجہل کی طرف لپکے اور اس پر حملہ کردیا۔ یہاں تک کہ اس کو قتل کر ڈالا، پھر دونوں رسول کریم ﷺ کے پاس لوٹ کر آئے اور آپ کو (اس واقعہ سے) آگاہ کیا، آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم دونوں میں سے کس نے اس کو قتل کیا ہے ؟ ان میں سے ہر ایک نے عرض کیا کہ اس کو میں نے قتل کیا ہے آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم دونوں نے اپنی تلواریں پونچھ ڈالی ہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں چناچہ آپ ﷺ نے ان دونوں کی تلواروں کو دیکھا اور فرمایا کہ تم دونوں ہی نے اس کو قتل کیا ہے نیز رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ ابوجہل کا سامان معاذ ابن عمرہ ابن جموح کو دیا جائے۔ اور وہ دونوں لڑکے (جنہوں نے ابوجہل کو موت کے گھاٹ اتارا) معاذ ابن عمرو ابن جموح اور معاذ ابن عفراء تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح صحیح بخاری کی روایت میں معاذ ابن عفراء کے بجائے معوذ ابن عفراء ہے۔ نیز آگے جو روایت آرہی ہے اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ابوجہل کو عفراء کے دونوں بیٹوں نے قتل کیا، جب کہ اوپر جو روایت نقل کی گئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان دونوں قتل کرنے والوں میں عفراء کا ایک ہی بیٹا تھا، اس طرح دونوں روایتوں میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے چناچہ علماء محققین نے اس تضاد کو اس توجیہہ کے ذریعے دور کیا ہے کہ وہ دونوں ایک ماں کے بیٹے تھے لیکن ان کے باپ الگ الگ تھے، اس اعتبار سے وہ دونوں ماں کی طرف سے تو حقیقی بھائی تھے اور باپ کی طرف سے سوتیلے بھائی تھے، ان کی ماں کا نام عفراء تھا۔ ان میں سے ایک کے باپ کا نام عمرو ابن جموح تھا اور دوسرے کے باپ کا نام قسطلانی کے قول کے مطابق حارث تھا، چناچہ ان میں سے ایک کو اس کے باپ کی طرف منسوب کر کے معاذ ابن جموح کہا گیا اور دوسرے کو اس کی ماں کی طرف منسوب کر کے معاذ ابن عفراء یا معوذ ابن عفراء کہا گیا۔ اس موقع پر دو سوال اور بھی پیدا ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ جب آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابوجہل کو تم دونوں ہی نے قتل کیا ہے تو پھر آپ ﷺ نے ابوجہل کا سامان ان دونوں کو دینے کے بجائے ان میں سے ایک ہی کو دینے کا حکم کیوں دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ابوجہل کو قتل کرنے میں شریک تو شاید دونوں ہی رہے ہوں گے لیکن اصل میں جس نے پہلے ابوجہل پر حملہ کر کے اس کو بھاگنے اور چلنے پھرنے وغیرہ سے مجبور اور بےدم بنادیا ہوگا وہ ایک ہی رہا ہوگا پھر بعد میں دوسرے نے بھی آ کر اس پر مزید وار کر کے اس کو اور زیادہ زخمی کردیا ہوگا، اس اعتبار سے اس کے سامان کا مستحق اسی کو قرار دیا گیا جس نے پہلے حملہ کر کے اس کو بھاگنے یا مدافعتی حملہ کرنے سے ناکارہ کردیا تھا لیکن آپ ﷺ نے دوسرے کو بھی خوش کرنے کے لئے یہ فرما دیا کہ اس کو تم دونوں نے قتل کیا ہے۔ دوسرا سوال وہی ہے جو دوسری فصل میں حضرت ابن مسعود، کی اس روایت کے ضمن میں بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ابوجہل کی تلوار میرے حصے سے زائد مجھ کو عطا کی، اس روایت میں یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ ابوجہل کو حضرت ابن مسعود نے قتل کیا، اس اعتبار سے گویا ان دونوں روایتوں میں تضاد واقع ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں نوعمروں نے ابوجہل کو زخمی کر کے زمین پر ڈال دیا، جب ابن مسعود نے دیکھا اس میں زندگی کی رمق موجود ہے تو انہوں نے اس کا سر تن سے جدا کردیا، اس طرح، حضرت ابن مسعود کے اس عمل کو ابوجہل کے قتل سے تعبیر کیا گیا، نیز آنحضرت ﷺ نے اس بناء پر کہ اس کے قتل میں بہر حال ابن مسعود کا بھی کچھ نہ کچھ حصّہ تھا اس لئے ان کو بھی اس کے سامان کی ایک چیز یعنی تلوار عطا فرمائی۔ ایک بات یہ بھی ملحوظ رکھنی چاہئے، کہ حضرت امام مالک کے بعض متبعین کا یہ قول ہے کہ اس بارے میں امام سردار کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جو چاہے فیصلہ کرے اور مقتول کا سامان جس کو چاہے دے دے، اس صورت میں مذکورہ بالا دونوں سوالوں کے پیدا ہونے کا بھی موقع باقی نہیں رہ جاتا۔ اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جنگ بدر کے دن (میدان جنگ میں) فرمایا کہ کون شخص ہے جو دیکھ کر ہمیں بتائے کہ ابوجہل نے کیا کیا ( یعنی اس کا حشر کیا ہوا، آیا وہ مارا گیا، یا زندہ ہے ؟ ) چناچہ ابن مسعود گئے اور انہوں نے ابوجہل کو اس حالت میں پایا کہ عفراء کے دونوں بیٹوں نے اس کو مار مار کر ٹھنڈا یعنی قریب المرگ کردیا تھا۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے (یہ دیکھ کر) ابوجہل کی ڈاڑھی پکڑ لی اور اس سے کہا کہ تو ابوجہل ہی ہے نا ! ؟ ابوجہل نے (ابن مسعود کے اس سوال کے پیچھے چھپے ہوئے طنز اور حقارت کو محسوس کرلیا اور) کہا کہ بیشک میں ابوجہل ہی ہوں لیکن) کیا اس شخص سے زیادہ بڑے مرتبے کے ہو جس کو تم نے قتل کیا ہے ؟ یعنی جس شخص کو تم نے قتل کیا ہے (اس سے زیادہ بڑے مرتبے کا کوئی شخص نہیں ہے ( ان الفاظ کے ذریعہ گویا ابوجہل نے یہ دعویٰ کیا کہ قریش میں مجھ سے زیادہ بڑے مرتبے کا کوئی شخص نہیں ہے ) ۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ ابوجہل نے (اس موقع پر) کہا کہ اگر غیر زراعت پیشہ لوگ مجھے قتل کرتے تو بہت بہتر ہوتا۔ (بخاری ومسلم ) تشریح اگر غیر زراعت پیشہ لوگ مجھے قتل کرتے الخ سے ابوجہل کا مطلب یہ تھا کہ مجھے اس میں کوئی عار محسوس نہیں ہوئی ہے کہ تم لوگوں نے مجھے قتل کردیا ہے لیکن اس بات کا افسوس ضرور ہے کہ مجھے ان آدمیوں نے مارا ہے جو کھیتی باڑی کرنے والے ہیں اگر کاش ! مجھے ان کے علاوہ دوسرے لوگ مارتے تو میرے نزدیک یہ زیادہ بہتر ہوتا۔ گویا ابوجہل نے عفراء کے دونوں بیٹوں کی طرف اشارہ کیا جنہوں نے اس کو قتل کیا تھا چناچہ وہ دونوں انصار سے تعلّق رکھتے تھے اور انصار کھیتی باڑی کرتے تھے۔ بایں طور کہ ان کے پاس کھیت بھی تھے اور کھجور کے باغات بھی۔

【33】

کسی کو مال دینے سے اس کی دینی فضیلت لازم نہیں آتی

حضرت ابن ابی وقاص کہتے ہیں کہ (ایک دن) جب کہ میں مجلس نبوی ﷺ میں بیٹھا ہوا تھا، رسول کریم ﷺ نے ایک جماعت کو کچھ مال عطا فرمایا اور ( اس جماعت میں سے) ایک شخص کو رسول کریم ﷺ نے چھوڑ دیا ( یعنی اس کو کچھ نہیں دیا) حالا ن کہ وہ شخص میرے نزدیک ( دین کے اعتبار سے ان میں سب سے بہتر تھا، ( یہ دیکھ کر) میں کھڑا ہوا اور آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ فلاں شخص کے لئے کیا ہے یعنی آپ ﷺ نے اس کو اپنے عطیہ سے کیوں محروم رکھا ؟ اللہ کی قسم ! ( میں تو) اس کو مؤمن صادق سمجھتا ہوں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ یوں نہ کہو کہ میں اس کو مؤمن صادق سمجھتا ہوں بلکہ یہ کہو کہ میں اس کو مسلمان سمجھتا ہوں۔ سعد نے ( آپ ﷺ کے سامنے) تین بار یہ بات کہی اور آنحضرت ﷺ نے بھی (ہر بار) اسی طرح جواب دیا اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں ایک شخص کو (مال) دیتا ہوں درآنحالیکہ اس کی نسبت دوسرا شخص میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ شخص منہ کے بل دوزخ میں نہ ڈالا جائے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح بلکہ یہ کہو الخ اس ارشاد کے ذریعے آنحضرت ﷺ نے یہ واضح کیا کہ ایمان حقیقی کہ جس کا تعلق قلب کی گہرایئوں اور صدق باطن سے ہوتا ہے، بہت اعلیٰ مرتبہ ہے اور چونکہ یہ کوئی ظاہری چیز نہیں ہوتی اس لئے اس پر مطلع ہونا ممکن نہیں ہے (یعنی کسی شخص کے ظاہری احوال کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ناممکن ہے کہ اس کے باطنی اعمال کیسے ہیں اور اس کا ایمان کس درجہ کا ہے، کیونکہ ایمان حقیقی کوئی نظر آنے والی چیز نہیں ہے ) ۔ اس کے برخلاف اسلام، ایک نظر آنے والی چیز ہے کیونکہ اسلام نام ہے ظاہری اطاعت و فرمانبرداری کا، اس لئے اگر تمہاری نظروں میں اس شخص کے ظاہری اعمال بہت اچھے ہیں تو تم اس کے بارے میں یقین کے ساتھ یہ تو کہہ سکتے ہو کہ میں اس کو اچھا مسلمان سمجھتا ہوں لیکن یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں اس کو مؤمن صادق سمجھتا ہوں۔ گویا اس طرح آنحضرت ﷺ کا مقصد سعد کو اس غیر مناسب بات پر متنبّہ کرنا تھا کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے سامنے اس شخص کے مستحق مال ہونے کو اپنی دلیل کے ساتھ بیان کیا اور آنحضرت ﷺ کی طرف سے اس شخص کو مال نہ دیئے جانے کو بعید از حقیقت جانا نیز انہوں نے اس شخص کے ایمان حقیقی کا دعویٰ کیا۔ اس کی وجہ یہ اندیشہ ہوتا ہے الخ اس سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ کسی شخص کو مال دینے سے اس کو پسندیدہ سمجھنا یا اس کو افضل جاننا لازم نہیں آتا اور نہ یہ ضروری ہے کہ مال کا دیا جانا دینی فضیلت و امتیاز کے اعتبار سے ہو بلکہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس شخص کا ایمان کمزور ہوتا ہے اس کو تالیف قلب کے پیش نظر مال عطا کیا جاتا ہے تاکہ وہ محض مال نہ پانے کی وجہ سے کسی مایوسی اور غصہ کا شکار ہو کر کفر کے اندھیروں میں نہ چلا جائے اور پھر دوزخ میں ڈالا جائے۔ لہٰذا اے سعد ! اس شخص کو مال دیئے جانے کا مطالبہ اتنے بڑے دعوے کے ساتھ نہ کرو کہ وہ کامل الایمان مؤمن ہے جب کہ اس کے حقیقی و کامل ایمان کا یقین کرنا بھی تمہارے لئے ممکن نہیں ہے۔ اسلام کلمہ کا نام ہے الخ واضح رہے کہ اصل میں تو زہری کو یوں کہنا چاہیے تھا کہ اسلام، عمل صالح اور احکام شریعت کی اطاعت و فرمانبرداری سے عبارت ہے اور ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے، لیکن انہوں نے اس مشہور تعریف کے بجائے اسلام کو کلمہ سے اور ایمان کو عمل صالح سے تعبیر کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اقرار اسلام کا تعلّق کلمہ شہادت کو زبان سے ادا کرنے سے ہے، جس شخص نے کلمہ شہادت پڑھا اس نے گویا اپنے اسلام کا اقرار کیا اور یہ اقرار اس بات کے لئے کافی ہے کہ اس کو ظاہری طور پر مسلمان مانا جائے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت سعد سے یہی فرمایا تھا کہ تم اس شخص کے مسلمان ہونے کا تو یقین کرسکتے ہو کیونکہ اس نے اپنی زبان سے کلمہ شہادت پڑھ کر اپنے اسلام کا اقرار کیا اور یہ اقرار اس بات کے لئے کافی ہے کہ اس کو بظاہر مسلمان ثابت کرنے لئے کافی ہے، اسی بات کو زہری نے اس سے تعبیر کیا کہ اسلام کلمہ کا نام ہے کہ جس شخص نے کلمہ شہادت پڑھ لیا اس پر مسلمان ہونے کا حکم لگا دیا جائے گا، اب رہی ایمان کو عمل صالح سے تعبیر کرنے کی بات، تو اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ عمل صالح صادر ہونے کی بنیاد کیا ہوتی ہے ؟ بالکل ظاہر سی بات ہے کہ اس کی بنیاد تصدیق قلبی یعنی دل سے ایمان لانا ہے، جو شخص اخلاص کے ساتھ عمل صالح کرتا ہے وہ گویا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کے قلب میں ایمان جاگزیں ہے اور اس سے عمل صالح کا صادر ہونا تصدیق قلبی اور کمال ایمان کی بناء پر ہے، اس اعتبار سے زہری نے ایمان کی وضاحت عمل صالح سے کی۔

【34】

جنگ میں شریک نہ ہونے کے باوجود مال غنیمت میں سے حضرت عثمان کا حصہ

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ جنگ بدر کے دن ( خطبہ دینے کے لئے) کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ بلا شبہ عثمان، اللہ اور اس کے رسول کے کام سے گئے ہیں اس لئے میں (خود) ان کی طرف سے بیعت کرتا ہوں۔ پھر رسول کریم ﷺ نے حضرت عثمان کے لئے (جنگ بدر کے مال غنیمت میں سے حصہ مقرر کیا اور آپ ﷺ نے حضرت عثمان کے علاوہ اور کسی ایسے شخص کے لئے حصہ مقرر نہیں کیا جو جنگ میں شریک نہیں تھا۔ (ابو داو د) تشریح آنحضرت ﷺ جب اپنے صحابہ کے ہمراہ بدر پہنچے تو اس وقت آپ ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ جو حضرت عثمان کے نکاح میں تھی سخت بیمار تھی، چناچہ آنحضرت ﷺ نے عثمان کو مدینہ بھیج دیا تاکہ وہ وہاں جا کر حضرت رقیہ کی تیمار داری کریں۔ اور پھر جب مال غنیمت کی تقسیم کا وقت آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس جنگ کے تئیں عثمان پر جو ذمہ داری عائد ہوئی تھی اس کو انہوں نے پورا کیا اور وہ جنگ میں شریک ہونے کے لئے یہاں آئے، لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا یہ حکم ہوا کہ وہ مدینہ واپس چلے جائیں اور رقیہ کی دیکھ بھال کریں، اس اعتبار سے وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی کے کام سے گئے ہیں، لہٰذا میں خود ان کی طرف سے بیعت کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ پر مارا اور فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور پھر آپ ﷺ نے مال غنیمت میں حضرت عثمان کا بھی حصہ لگایا۔

【35】

ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر ہے

اور حضرت رافع ابن خدیج کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ مال غنیمت کی تقسیم کے وقت ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دیتے۔ (نسائی )

【36】

پہلی امتوں میں مال غنیمت کو آسمانی آگ جلا ڈالتی تھی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انبیاء میں سے ایک نبی ( یعنی حضرت یوشع ابن نون (علیہ السلام) کا ذکر ہے کہ ایک مرتبہ انہوں) نے جہاد کا ارادہ کیا اور جب وہ جہاد کے لئے روانہ ہونے لگے تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ میرے ساتھ وہ شخص نہ چلے جس نے کسی عورت سے نکاح کیا ہو اور اس عورت کو اپنے گھر لا کر اس سے مجامعت کا ارادہ رکھتا ہو اور ابھی تک اسے مجامعت نہ کی ہو اور میرے ساتھ نہ وہ شخص چلے جس نے گھر بنایا ہو لیکن (ابھی تک) اس کی چھت نہ ڈال سکا ہو نیز وہ شخص (بھی) میرے ساتھ نہ چلے جس نے گابھن بکریاں یا گابھن اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے بچے جننے کا منتظر ہو۔ اس کے بعد وہ نبی ( اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ) جہاد کے لئے روانہ ہوئے اور جب اس بستی کے قریب پہنچے کہ جہاں وہ جہاد کرنے کا ارادہ رکھتے تھے تو نماز عصر کا وقت ہوچکا تھا (یعنی وہ ایسے وقت اس بستی کے قریب پہنچے جب عصر کی نماز کا وقت ہوتا ہے یا ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے) اس نبی نے آفتاب کو مخاطب کر کے کہا کہ تو بھی (چلنے پر) مامور ہے اور میں بھی ( اس بستی کو فتح کرنے پر) مامور ہوں۔ اے اللہ ! تو اس آفتاب کو ٹھہرا دے۔ چناچہ آفتاب ٹھہرا دیا گیا ( یعنی قدیم ماہرین فلکیات کے نظریہ کے مطابق آفتاب کی رفتار کو یا جدید نظریہ کے مطابق زمین کی گردش کو حکم الٰہی سے روک دیا گیا تاکہ رات کی تاریکی سے پہلے پہلے وہ نبی جہاد کرلیں) تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے اس نبی کو فتح عطاء فرما دی۔ پھر جب مال غنیمت جمع کیا گیا اور اس کو جلا ڈالنے کے لئے آگ آئی تو اس آگ نے مال غنیمت کو نہیں جلایا، (یہ دیکھ کر) اس نبی نے (اپنے ساتھیوں سے) فرمایا کہ (یقینا تمہارے اندر مال غنیمت میں خیانت واقع ہوئی ہے یعنی تم میں سے کسی نے مال غنیمت کے اندر خیانت کی ہے ( جس کی وجہ سے یہ آگ اپنا کام نہیں کر رہی ہے) لہٰذا تم میں سے ہر قبیلہ کے ایک ایک شخص کو چاہئے کہ وہ بیعت کرے، چناچہ ( جب بیعت شروع ہوئی اور ہر قبیلہ کا ایک ایک آدمی اپنا ہاتھ اس نبی کے ہاتھ میں دینے لگا) تو ایک شخص کا ہاتھ اس نبی کے ہاتھ کو چپک کر رہ گیا، نبی نے ( اس شخص سے) فرمایا کہ ( اس ذریعہ سے ثابت ہوگیا ہے کہ) خیانت تمہارے قبیلے کی طرف سے ہوئی ہے۔ پھر اس قبیلے کے لوگ سونے کا ایک سر لائے جو بیل کے سر کی مانند تھا اور اس کو رکھ دیا، اس کے بعد آگ آئی اور اس نے اس کو جلا دیا۔ اور ایک روایت میں راوی سے یہ عبارت بھی نقل کی ہے کہ ( آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا کہ) چناچہ ہم سے پہلے کسی کے لئے مال غنیمت حلال نہیں تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت کو ہمارے لئے حلال قرار دیا، اللہ تعالیٰ نے ہمیں (مالی طور پر) ضعیف و کمزور دیکھا تو مال غنیمت کو ہمارے لئے حلال کردیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح حضرت یوشع (علیہ السلام) نے جہاد کے لئے روانگی کے وقت ان چند لوگوں کو اپنے ساتھ چلنے سے اس لئے روک دیا تھا کہ جب دل کسی اور چیز میں اٹکا ہوا ہوتا ہے تو اس چیز کے علاوہ کسی اور کام میں طبیعت نہیں لگتی لہٰذا اگر مذکورہ لوگوں کو جانے والے لشکر میں شریک کیا جاتا تو وہ پورے جوش و جذبہ اور چستی و تندہی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے پر قادر نہیں ہوسکتے تھے اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں وہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا تھا جس کے لئے ان کو لے جایا جاتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنگی مہمات وغیرہ کے موقع پر اپنے تمام ضروری امور و معاملات سے فراغت و یکسوئی حاصل کر لینی چاہئے تاکہ جس مہم میں نکلا جائے اس کو بخوبی سر انجام دیا جاسکے۔ آفتاب ٹھہرا دیا گیا الخ ۔ مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ (نظام شمسی کی پوری مدت عمر) میں حضرت یوشع ابن نون (علیہ السلام) کے علاوہ اور کسی کے لئے سورج کو کبھی نہیں ٹھہرایا گیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سورج کا ٹھہر جانا صرف حضرت یوشع (علیہ السلام) کے خصائص میں سے ہے حالانکہ آنحضرت ﷺ کے لئے بھی سورج کا ٹھہرایا جانا ثابت ہے ! اس طرح دونوں باتوں میں جو ظاہری تضاد ہے اس کو اس توجیہہ کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے کہ حضرت یوشع (علیہ السلام) کے متعلّق آنحضرت ﷺ کا جو ارشاد ہے ( کہ یوشع کے علاوہ اور کسی کے لئے سورج نہیں ٹھہرایا گیا ) ۔ اس سے آنحضرت ﷺ کی مراد یہ ہے کہ پیغمبروں میں حضرت یوشع (علیہ السلام) کے سوا کوئی ایسا پیغمبر نہیں ہے جس کے لئے سورج ٹھہرایا گیا ہو سوائے میرے۔ نیز یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کے لئے سورج ٹھہرایا گیا تھا آپ ﷺ نے اس سے پہلے یہ ارشاد فرمایا ہو۔ موہب لدنیہ کی روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ کے لئے سورج ٹھہرنے کا واقعہ دو مرتبہ پیش آیا ہے۔ ایک بار تو شب معراج کے دوسرے دن اور دوسری بار غزوہ خندق کے دن جب کے کفار نے آپ ﷺ کو جنگ میں الجھائے رکھ کر عصر کی نماز پڑھنے سے روک دیا تھا یہاں تک کے سورج ڈوب گیا تھا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے لئے سورج کو واپس کیا (یعنی عصر کا وقت لوٹایا) تب آپ ﷺ نے عصر کی نماز پڑھی۔ اسی طرح ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کے حکم سے حضرت علی کے لئے بھی سورج واپس ہوا ہے وہ یوں کہ ایک دن آنحضرت ﷺ ان کے زانوں پر سر رکھ کر لیٹے ہوئے تھے کہ اسی حالت میں آپ ﷺ پر وحی کا نزول شروع ہوگیا، اس صورت میں حضرت ﷺ کا سر مبارک اپنے زانوں پر سے نہ اٹھا سکے یہاں تک کہ عصر کا وقت ختم ہوگیا اور وہ نماز نہیں پڑھ پائے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کے لئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے سورج کو واپس کیا، تب انہوں نے عصر کی نماز وقت پر ادا کی، مواہب لدنیہ نے اس واقعہ کو بھی تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے لیکن علماء نے اس واقعہ میں کلام بھی کیا ہے۔ اس کو جلا ڈالنے کے لئے آگ آئی الخ جیسا کہ پہلے بھی معلوم ہوچکا ہے، یہ صرف امّت محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ اس کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا ہے۔ پچھلی امتوں کو غنیمت کا مال اپنے مصرف میں لانے کی اجازت نہیں تھی۔ بلکہ حکم الٰہی کے مطابق یہ دستور تھا کہ جنگ کے بعد غنیمت کا سارا مال جمع کر کے جنگل میں رکھ دیا جاتا تھا، اس کے بعد آسمان سے آگ آتی اور اس کو جلا دیتی، جو قبولیت کی علامت ہوتی۔

【37】

مال غنیمت میں خیانت کرنے والا دوزخ میں ڈالا جائے گا

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت عمر ابن خطاب نے ہم سے یہ بیان کیا کہ جب خیبر کا دن آیا ( یعنی جب غزوہ خیبر ختم ہو گیا) تو نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے چند لوگ آئے اور (آپس میں) کہنے لگے کہ فلاں شخص شہید ہوگئے تھے ان کے نام لے لے کر ان کی شہادت کا ذکر کرتے تھے) یہاں تک وہ لوگ ایک شخص (کی لاش) پر سے گذرے اور کہا کہ (یہ) فلاں شخص شہید ہے، رسول کریم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ہرگز نہیں، ( تم لوگ جس معنی میں اس کو شہید کہتے ہو وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ) میں نے اس شخص کو مال غنیمت میں سے ایک چادر یا ایک دھاری دار کملی چرانے کے سبب دوزخ میں (جلتے) دیکھا ہے۔ پھر رسول کریم ﷺ نے ( مجھ کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ ابن خطاب جاؤ اور لوگوں کے درمیان تین مرتبہ یہ منادی کردو کہ جنّت میں (ابتداءً ) صرف مؤمن (یعنی کامل مؤمن) ہی داخل ہوں گے۔ حضرت عمر کہتے ہیں کہ چناچہ میں نکلا اور تین مرتبہ یہ منادی کی کہ خبردار ! جنّت میں صرف مؤمن ہی داخل ہوں گے۔ ( مسلم) تشریح جنّت میں صرف مؤمن ہی داخل ہوں گے۔ ابن ملک کہتے ہیں کہ شرعی اصطلاح اور عرف عام میں مؤمن اس شخص کو کہتے ہیں جو آنحضرت ﷺ پر اور آپ ﷺ کی شریعت پر ایمان لائے۔ اس اعتبار سے جس شخص نے خیانت کا ارتکاب کیا اس نے گویا آنحضرت ﷺ کی رسالت و شریعت کی تصدیق سے انکار کیا بایں طور کہ اس تصدیق کے نتیجہ میں اس پر جو احکام نافذ ہوتے ہیں اس نے ان پر عمل نہیں کیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بہر حال نہیں ہوسکتا کہ جس شخص نے خیانت کا ارتکاب کر کے آنحضرت ﷺ کی تصدیق کے منافی عمل کیا وہ سرے سے مؤمن نہیں رہا، لہٰذا اس اعلان کے ذریعہ کہ جنّت میں صرف مؤمن ہی داخل ہوں گے۔ آنحضرت ﷺ کا اس شخص کو بظاہر زمرہ مؤمنین سے خارج کرنا اصل میں سخت زجر و تنبیہ اور وعید کے طور پر تھا یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس ارشاد میں مؤ من سے مراد متقی و پرہیزگار مؤمن ہے اور داخل ہونے سے مراد بلا عذاب داخل ہونا ہے، اس طرح اس ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ جو مؤمن، تقوی، و پرہیز گاری کی راہ پر گامزن ہوں گے وہ جنّت میں بغیر عذاب کے داخل کئے جائیں گے، لیکن جو مؤمن متقی و پرہیز گار نہیں ہوں گے اور گناہ کا ارتکاب کریں گے انہیں پہلے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا تاکہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت لیں اور پھر بعد میں انہیں بھی جنّت میں داخل کردیا جائے گا چونکہ یہ ارشاد میں نے اس کو دوزخ میں دیکھا ہے بظاہر ان نصوص کے خلاف ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کسی کا حقیقتاً دوزخ میں ڈالا جانا، حشر کے بعد ہی واقع ہوگا۔ لہٰذا اس ارشاد گرامی کو تمثیل پر محمول کیا جائے، یعنی آنحضرت ﷺ نے اس اسلوب بیان کے ذریعے درحقیقت اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ شخص دوزخ میں ڈالا جائے گا جیسا کہ ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال کے انتقال سے پہلے ہی ان کے جنّت میں داخل ہونے کو تمثیل کے طور بیان فرمایا تھا، میرے نزدیک یہ احتمال بھی ہے کہ یہ ارشاد مجازی اسلوب بیان کا مظہر ہو، یعنی آنحضرت ﷺ کی مراد یہ تھی کہ میں اس شخص کو ایک ایسے گناہ کا مرتکب جانتا ہوں جو دوزخ کے عذاب کو واجب کرنے والا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ (اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ ) 82 ۔ الانفطار 13) (نیک لوگ جنّت میں ہیں) ظاہر ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نیک لوگ ابھی سے جنّت میں پہنچ گئے ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ نیک لوگ ان اوصاف حمیدہ کے حامل ہوتے ہیں جو ان کو جنّت میں لے جائیں گے۔