13. تراویح کا بیان

【1】

ماہ رمضان میں قیام کا بیان

ماہ رمضان میں قیام سے مراد ہے اس بابرکت مہینے کی مقدس راتوں کو عبادت الٰہی کے لئے یعنی نماز تراویح اور تلاوت قرآن وغیرہ کے لئے جاگتے رہنا۔ نماز تراویح یہاں اس باب کے تحت زیادہ تراویح سے متعلق احادیث نقل کی جائیں گی اور اس نماز کی فضیلت اور اس کے احکام و مسائل بیان کئے جائیں گے اس موقع پر نماز تراویح کے چند احکام بیان کئے جاتے ہیں۔ (١) رمضان میں نماز تراویح مرد و عورت دونوں کے لئے سنت موکدہ ہے۔ (٢) جس رات کو رمضان کا چاند دیکھا جائے اسی رات سے تراویح شروع کی جائے اور جب عید کا چاند دیکھا جائے تو چھوڑ دی جائے۔ (٣) نماز تراویح روزے کی تابع نہیں ہے جو لوگ کسی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکیں ان کے لئے بھی تراویح کا پڑھنا سنت ہے اگر نہ پڑھیں گے تو ترک سنت کا گناہ ان پر ہوگا۔ (٤) نماز تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے اگر کوئی عشاء کی نماز کے بعد تراویح پڑھ چکا ہو اور اس کے بعد معلوم ہو کہ عشاء کی نماز میں کچھ سہو ہوگیا جس کی وجہ سے عشاء کی نماز نہیں ہوئی تو اسے عشاء کی نماز کے بعد تراویح کا اعادہ بھی کرنا چاہیے۔ (٥) اگر عشاء کی نماز جماعت سے نہ پڑھی گئی ہو تو تراویح بھی جماعت سے نہ پڑھی جائے اس لئے کہ تراویح عشاء کے تابع ہے ہاں جو لوگ جماعت سے عشاء کی نماز پڑھ کر تراویح جماعت سے پڑھ رہے ہوں ان کے ساتھ شریک ہو کر اس آدمی کے لئے بھی تراویح کا جماعت سے پڑھ لینا درست ہوجائے گا۔ جس نے عشاء کی نماز بغیر جماعت کے پڑھی ہے اس لئے کہ وہ ان لوگوں کا تابع سمجھا جائے گا جن کی جماعت درست ہے۔ (٦) اگر کوئی مسجد میں ایسے وقت پہنچے کہ عشاء کی نماز ہوچکی ہو تو اسے چاہیے کہ پہلے عشاء کی نماز پڑھے پھر تراویح میں شریک ہو اور اس درمیان میں تراویح کی جو رکعتیں ہوجائیں ان کو وتر پڑھنے کے بعد پڑھ لے۔ (٧) مہینے میں ایک مرتبہ قرآن مجید کا ترتیب وار تراویح میں پڑھنا سنت مؤ کدہ ہے لوگوں کی کاہلی یا سستی کی وجہ سے اس کو ترک نہیں کرنا چاہے ہاں اگر یہ اندیشہ ہو کہ پورا قرآن مجید پڑھا جائے گا تو لوگ نماز میں نہیں آئیں گے اور جماعت ٹوٹ جائے یا ان کو بہت ناگوار ہوگا تو بہتر ہے کہ جس قدر لوگوں کو گراں گذرے اسی قدر پڑھا جائے۔ باقی الم ترکیف سے آخر کی دس سورتیں پڑھ دی جائیں۔ ہر رکعت میں ایک سورت پھر جب دس رکعتیں ہوجائیں تو انہیں سورتوں کو دوبارہ پڑھ دے یا اور جو سورتیں چاہے پڑھے۔ (٨) ایک قرآن مجید سے زیادہ نہ پڑھا جائے تاوقتیکہ کہ لوگوں کا شوق نہ معلوم ہوجائے۔ (٩) ایک رات میں پورے قرآن مجید کا پڑھنا جائز ہے بشر طی کہ کہ لوگ شوقین ہوں کہ انہیں گراں نہ گذرے اگر گراں گذرے اور ناگوار ہو تو مکروہ ہے۔ (١٠) تراویح میں کسی سورت کے شروع پر ایک مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھ دینا چاہیے اس لئے کہ بسم اللہ بھی قرآن مجید کی ایک آیت ہے۔ اگرچہ کسی سورت کا جز نہیں پس اگر بسم اللہ بالکل نہ پڑھی جائے تو مقتدیوں کا قرآن مجید پورا نہ ہوگا۔ (١١) تراویح کا رمضان کے پورے مہینے میں پڑھنا سنت ہے اگرچہ قرآن مجید مہینہ پورا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے مثلاً پندرہ روز میں یا بیس روز میں پورا قرآن مجید پڑھ دیا جائے تو بقیہ پندرہ یا دس روز میں تراویح کا پڑھنا سنت موکد ہے۔ (١٢) صحیح یہ ہے کہ تراویح میں قل ہو اللہ کا تین مرتبہ پڑھنا جیسا کہ آجکل دستور ہے مکروہ ہے۔ (١٣) نماز تراویح کی نیت اس طرح کی جائے نَوَیْتُ اَنْ اُصَلِّیْ رَکَعَتِیْ صَلٰوۃِ التَّراوِیْحِ سُنَّۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَصْحَابِہ میں دو رکعت نماز تراویح پڑھنے کی نیت کرتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کی سنت ہے۔ (١٤) نماز تراویح پڑھنے کا وہی طریقہ ہے جو دیگر نمازوں کا ہے۔

【2】

با جماعت نماز تراویح سنت ہے

حضرت زید ابن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (رمضان میں) مسجد میں بورئیے کا ایک حجرہ بنایا اور کئی راتیں اس میں (تراویح کے علاوہ نفل) نماز پڑھی (جب لوگ جمع ہوجاتے تو رسول اللہ ﷺ حجرے سے باہر تشریف لاتے اور فرائض و تراویح جماعت کے ساتھ پڑھتے) یہاں تک کہ (ایک روز بہت زیادہ) لوگ جمع ہوگئے (رسول اللہ ﷺ چونکہ فرض نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جا چکے تھے اور جیسا کہ آپ ﷺ کا معمول تھا کچھ دیر کے بعد باہر تشریف نہ لائے اس لئے لوگوں نے آپ کی کوئی آہٹ محسوس نہیں کی چناچہ وہ یہ سمجھے کہ آپ ﷺ سو گئے اور لوگوں نے کھنکارنا شروع کیا تاکہ آپ ﷺ (بیدار ہوجائیں اور نماز تراویح کے لئے) باہر تشریف لے آئیں (جیسا کہ آپ ﷺ گذشتہ راتوں میں تشریف لاتے تھے) رسول اللہ ﷺ نے (حجرہ سے باہر نکل کر یا اندر ہی سے) فرمایا کہ تمہارا کام جو میں دیکھ رہا ہوں برابر جاری رہے (یعنی جماعت سے تراویح پڑھنے کا شوق اور عبادت کے معاملہ میں تمہارا جذبہ ہمیشہ رہے اور پھر فرمایا) لیکن مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہوجائے (یعنی اگر میں ہمیشہ نماز تراویح جماعت سے پڑھتا تو یہ نماز تم پر فرض ہوجاتی) اور اگر یہ نماز فرض ہوجاتی تو تم اس کی ادائیگی سے قاصر رہتے، لہٰذا اے لوگو ! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ انسان کی بہترین نماز وہی ہے جسے اس نے اپنے گھر میں پڑھا ہو سوائے فرض نماز کے (کہ اسے مسجد میں ہی پڑھنا افضل ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ نے مسجد نبوی میں اعتکاف کے لئے بورئیے کا ایک حجرہ سا بنا لیا تھا۔ اسی میں آپ ﷺ رمضان کی بابرکت اور مقدس ساعتوں میں عبادت الٰہی اور ذکر اللہ میں مشغول رہا کرتے تھے اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں بورئیے کا یا اسی قسم کی کسی دوسری چیز کا معتکف بنا لینا جائز ہے لیکن یہ شرائط کہ اپنی حاجت و ضرورت سے زیادہ جگہ نہ روکی جائے ورنہ تو بصورت دیگر حرام ہوگا کیونکہ زیادہ جگہ گھیرنے سے دوسرے نمازیوں کو تنگی ہوگی بشرطیکہ جگہ ایسی ہو جس کی لوگوں کو احتیاج اور ضرورت ہو اگرچہ کبھی کبھی ہی ضرورت ہو ہاں اگر کوئی آدمی قرینے سے جانتا ہو کہ اگر لوگ بہت تعداد میں بھی مسجد میں آجائیں گے تب بھی متعکف کے لئے گھیری ہوئی جگہ کی انہیں احتیاج نہیں ہوگی تو ایسی صورت میں ضرورت سے زیادہ بھی جگہ گھیر لینا حرام نہیں ہوگا یہ تفصیل اس بات پر بصراحت دلالت کرتی ہے کہ ایام حج میں مسجد حرام کے اندر لوگوں کو تنگی میں مبتلا کرنا حرام ہے۔ یہ حدیث جہاں رسول اللہ ﷺ کی امت کے حق میں انتہائی شان رحمت کی غمازی کر رہی ہے کہ آپ ﷺ نے نماز تراویح کی جماعت پر اس لئے مداومت نہیں فرمائی کہ کہیں یہ نماز امت کے لئے فرض ہی قرار نہ دیدی جائے جس سے امت کے لوگ تنگی و پریشانی میں مبتلا ہوجائیں۔ وہیں یہ حدیث اس بات کی بھی صریح دلیل ہے کہ تراویح کی نماز با جماعت پڑھنا سنت ہے۔ فَصَلُّوْا یِھَا النَّاسِ الخ (لہٰذا، اے لوگو ! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو) میں امر استحبابی ہے یعنی آپ ﷺ نے یہ حکم وجوب اور لزوم کے طور پر نہیں دیا بلکہ مقصد یہ ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دیگر سنن و نوافل گھروں میں پڑھنا بہتر اور مناسب ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عام نگاہوں سے بچ کر گھروں میں سنت و نفل نماز پڑھنے میں ریاء و نمائش کا کوئی ادنیٰ ساجذبہ بھی ظاہر نہیں ہوتا جو ظاہر ہے کہ عبادت کے سلسلے میں انتہائی مستحسن اور مطلوب ہے۔ فَاِنَّ اَفْضَلَ الصَّلٰوۃِ الخ ( انسان کی بہترین نماز وہی ہے جسے اس نے اپنے گھر میں پڑھا ہو) یہ حکم تمام سنن و نوافل نمازوں کے بارے میں ہے کہ کوئی بھی سنت یا نفل نماز ہو سب سے بہتر وہی نماز ہے جسے نمازی نے عام نگاہوں سے بچ کر اپنے گھر میں پڑھا ہو مگر وہ نوافل اس حکم میں شامل نہیں ہیں جو شعار اسلام میں سے ہیں مثلاً نماز کسوف، نماز استسقاء اور نماز عیدین کیونکہ ان نمازوں کو مسجد میں ہی پڑھنا افضل ہے۔ نیز مسافروں کے لئے کعبہ اور مسجد نبوی بھی ان احکام میں شامل نہیں ہیں یعنی اگر کسی خوش نصیب کو کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی کی زیارت کا شرف حاصل ہو اور وہ مسافر ہو تو اس کے لئے افضل یہی ہے کہ وہ فرض نمازوں کے ساتھ سنن و نوافل بھی مسجد حرام یا مسجد نبوی میں ہی پڑھے کیونکہ مسافروں کو یہ موقعہ کبھی کبھی نصیب ہوتا ہے کہ وہ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرسکیں اس لئے مسافر اس موقعہ کو غنیمت جانے اور زیادہ سے زیادہ نمازیں مسجد حرام اور مسجد نبوی میں پڑھے۔ اور یہ (یعنی مسجد حرام اور مسجد نبوی کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دینا) اس بات پر قیاس کیا جاتا ہے کہ مشائخ نے فرمایا ہے کہ مسافروں کے لئے کعبۃ اللہ کا طواف نفل نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ وا اللہ اعلم

【3】

رمضان کی راتوں میں عبادت کرنے کی فضلیت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قیام رمضان (یعنی نماز تراویح) کی ترغیب دیا کرتے تھے لیکن تاکید کے ساتھ صحابہ کو کوئی حکم نہیں دیا کرتے تھے چناچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو آدمی صحیح اعتقاد کے ساتھ حصول ثواب کے لئے (یعنی ریاء و نمائش کے جذبہ کے ساتھ نہیں بلکہ محض اللہ جل شانہ کی رضاء و خوشنودی کے لئے رمضان میں قیام کرتا ہے اس کے لئے پہلے گناہ صغیرہ بخش دئیے جاتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اور قیام رمضان کا معاملہ اسی طرح رہا (یعنی نماز تراویح کے لئے جماعت مقرر نہیں تھی بلکہ جو جانتا تھا حصول ثواب کے لئے پڑھ لیتا تھا) پھر حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت میں بھی یہی صورت رہی اور حضرت عمر کے زمانہ خلافت کے ابتدائی ایام میں بھی یہی معمول رہا ( اور حضرت عمر نے نماز تراویح کے لئے جماعت کا حکم دیا اور اس کا التزام کیا۔ (صحیح مسلم) تشریح صحیح اعقتاد اور حصول ثواب کے لئے رمضان میں قیام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کی مقدس و بابرکت راتوں میں عبادت الٰہی کے لئے شب بیداری کرنا یا اس سے یہ بھی مراد ہے کہ جو آدمی صحیح اعتقاد کے ساتھ نماز تراویح پڑھے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات پر ایمان رکھتا ہو اور اس بات کو سچ جاننا ہو کہ رمضان کی راتوں کو عبادت الٰہی میں مشغول ہونا مثلاً نماز تراویح وغیرہ کا پڑھنا اللہ تعالیٰ کے قریب اور اس کی رضا و خوشنودی کا باعث ہے تو اس کے وہ گناہ صغیرہ جو اس سے سرزد ہوچکے ہیں معاف کر دئیے جاتے ہیں۔

【4】

سنت و نفل نماز گھر میں پڑھنے کی فضیلت اور اس کے اثرات

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی اپنی (فرض) نماز مسجد میں پڑھے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی نماز کا کچھ حصہ اپنے گھر کے لئے بھی رکھ لے (یعنی سنت و نوافل بلکہ قضاء بھی گھر میں پڑھے) کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کی نماز کے سبب اس کے گھر میں بھلائی پیدا کرتا ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کے ذریعے گھروں میں سنن و نوافل پڑھنے کی فضیلت اور گھر میں ان نمازوں کے پڑھنے کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کو بتایا جا رہا ہے چناچہ فرمایا کہ جو آدمی فرض نماز مسجد میں پڑھتا ہے اور سنت و نفل گھر میں پڑھتا ہے اس کے گھر میں اللہ تعالیٰ اس نماز کے سبب سے بھلائی پیدا فرماتا ہے یعنی گھر والوں کو نیک توفیق دیتا ہے اور مکینوں کے رزق و عمر میں برکت عطا فرماتا ہے۔ نماز تراویح اس حکم میں شامل نہیں ہے کیونکہ بالاتفاق یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز تراویح مسجد میں پڑھا کرتے تھے اور صحابہ کا بھی اس پر اجماع تھا۔ اس حدیث کو جو بظاہر اس باب سے متعلق نہیں ہے اس باب میں نقل کر کے گویا (اس طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ رمضان میں بھی کچھ نمازیں گھر میں بھی پڑھنی چاہیں۔

【5】

رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں رسول اللہ ﷺ کی عبادت

حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے (رمضان میں) سر تاج دو عالم ﷺ کے ہمراہ روزے رکھے، آپ ﷺ نے مہینے کے اکثر ایام میں ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا (یعنی آپ ﷺ نے رمضان کی راتوں میں ہمارے ساتھ فرض نماز کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں پڑھی) یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں (یعنی تئیسویں آئی) تو آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ تہائی رات تک قیام (یعنی ہمیں نماز تراویح پڑھائی) جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں (یعنی پچیسویں شب آئی) تو آپ نے ہمارے ساتھ آدھی رات تک قیام کیا میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کاش آج کی رات قیام اور زیادہ کرتے (یعنی اگر آپ ﷺ آدھی رات سے بھی زیادہ تک ہمیں نماز پڑھاتے رہتے تو بہتر ہوتا) آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب کوئی آدمی (فرض) نماز امام کے ساتھ پڑھتا ہے تو اس سے فارغ ہو کر واپس جاتا ہے تو اس کے لئے پوری رات کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے (یعنی عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھنے کی وجہ سے اسے پوری رات کی عبادت کا ثواب ملتا ہے نیز یہ کہ نوافل کا اسی وقت تک پڑھتے رہنا مناسب اور بہتر ہے جب تک دل لگے) جب چار راتیں باقی رہ گئیں (یعنی چھبیسویں شب آئی) تو ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا یہاں تک کہ تہائی رات باقی رہ گئی) ہم اسی انتظار میں لگے رہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائیں اور ہمیں نماز پڑھائیں) جب تین راتیں باقی رہ گئیں (یعنی ستائیسویں شب آئی) تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر والوں، اپنی عورتوں اور سب لوگوں کو جمع کیا اور ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تمام رات نماز پڑھتے رہے) یہاں تک کہ ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں فلاح فوت نہ ہوجائے راوی فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا فلاح کیا ہے ؟ حضرت ابوذر نے فرمایا کہ (فلاح سے مراد) سحر کا کھانا (ہے) پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمارے ساتھ مہینہ کے باقی دنوں میں (یعنی اٹھائیسویں اور انتیسویں شب میں) قیام نہیں کیا سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) ابن ماجہ نے بھی اس طرح کی روایت نقل کی ہے نیز ترمذی نے اپنی روایت میں ثم لم یقم بنا بقیۃ الشھر ( یعنی آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ مہینے کے باقی دنوں میں قیام نہیں کیا، کے الفاظ ذکر نہیں کئے۔ تشریح اس حدیث میں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے پہلے دو عشروں میں تراویح کی نماز صحابہ کو نہیں پڑھائی اس کا سبب وہی ہے جو پہلی حدیث میں گذر چکا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے اندیشہ ہے کہ یہ نماز فرض نہ ہوجائے حدیث کے الفاظ حتی بقی سبع الخ) یعنی یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں) کے بارے میں علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ حساب باعتبار یقین کی ہے یعنی انتیس دن کا مہینہ یقینی ہو اسی پر حساب لگایا ہے جیسا کہ ترجمہ کے دوران قوسین میں اس کی وضاحت کر کے اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ سحر کھانے کو فلاح اس لئے کہا ہے کہ اس کے ذریعے روزہ رکھنے کی قوت و طاقت حاصل ہوتی ہے جو درحقیقت فلاح کا سبب ہے۔ آخری راتوں میں قیام کا تفاوت فضیلت کے اعتبار سے تھا یعنی جن راتوں کی فضیلت کم تھی ان راتوں میں قیام کم کیا اور جن راتوں کی فضیلت زیادہ تھی ان میں فضیلت کی اسی زیادتی کے مطابق قیام بھی زیادہ کیا یہاں تک کہ ستائیسویں شب میں آپ ﷺ نے تمام رات قیام کیا۔ کیونکہ اکثر علماء کے قول کے مطابق لیلۃ القدر ستائیسویں ہی شب ہے یہی وجہ کہ آپ ﷺ نے اس رات کو اپنے گھر والوں، عورتوں کو جمع کیا اور سب کے ساتھ پوری رات عبادت الٰہی میں مشغول رہے۔

【6】

ماہ شعبان کی پندرویں شب کی فضیلت

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک ( مرتبہ اپنی باری میں) رات کو میں نے سر تاج دو عالم ﷺ کو بستر پر نہیں پایا (جب میں نے تلاش کیا تو) یکایک کیا دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ بقیع میں موجود ہیں (مجھے دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں اس بات کا خوف تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے ؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے خیال ہوا تھا کہ آپ ﷺ اپنی کسی اور بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نصف ماہ شعبان کی رات (یعنی شعبان کی پندرہویں شب) کو آسمان دنیا (یعنی پہلے آسمان) پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب (کی بکریوں) کے ریوڑ کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں گناہ بخشتا ہے اور رزین نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ مومنین میں سے) جو لوگ دوزخ کے مستحق ہوچکے ہیں انہیں بخشتا ہے۔ امام ترمْذی فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) تشریح بقیع مدینہ منورہ میں ایک قبر ستان کا نام ہے اسی کو جنت البقیع بھی کہتے ہیں۔ یہاں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا ہے ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ اسی واقعہ کو ذرا تفصیل کے ساتھ اس طرح بیان فرماتی ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ ﷺ کو رات کو اپنی باری کے موقعہ پر بستر پر نہیں پایا تو میں نے اپنے بدن پر اپنے کپڑے لپیٹے اور آپ ﷺ کے نقش قدم ڈھونڈتی ہوئی باہر نکل گئی اچانک میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ بقیع میں سجدے میں پڑے ہوئے اور سجدہ بھی آپ ﷺ نے اتنا دراز کیا کہ مجھے تو یہ شبہ ہوا کہ (خدا نخواستہ) آپ ﷺ کا وصال ہوگیا ہے جب آپ ﷺ ( بہت دیر کے بعد سجدے سے اٹھ کر سلام پھیر چکے تو میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم ڈرتی تھی کہ اللہ اور اس کا رسول تمہارے ساتھ ظلم کا معاملہ کریں گے، یعنی تمہیں یہ خیال ہوگیا تھا کہ میں تمہاری باری چھوڑ کر کسی اور بیوی کے ہاں چلا گیا ہوں ؟ ( اس جملے میں اللہ کا ذکر زینت اور حسن کلام کے لئے ہے) اس کے بعد حضرت عائشہ کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ یا رسول اللہ ! میں نے یہ گمان نہیں کیا (نعوذ با اللہ) اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے میرے ساتھ ظلم کا معاملہ کیا ہے بلکہ مجھے تو خیال ہوگیا تھا کہ یا تو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یا اپنے ہی اجتہاد سے میرے پاس سے اٹھ کر کسی دوسری بیوی کے ہاں چلے گئے ہیں۔ حضرت علامہ ابن حجر حضرت عائشہ کے اس جواب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ خدانخواستہ اگر حضرت عائشہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے جواب میں نعم (جی ہاں) فرما دیتیں تو معاملہ اتنا نازک تھا کہ حضرت عائشہ کا یہ جواب کفر شمار ہوتا مگر حضرت عائشہ اپنی فراست اور ذہانت سے صورت حال سمجھ گئیں اس لئے جواب انہوں نے اس پیرایہ سے دیا کہ اس کی پریشانی و حیرانی کا عذر بیان کیا پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ کے پاس سے اٹھ آنے کا عذر بیان کیا کہ شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ جل شانہ آسمان دنیا پر نزول جلال فرماتا ہے یعنی اس کی رحمت کاملہ کا فیضان اس بیکراں طور پر ہوتا ہے۔ کہ قبیلہ بنو قلب کے ریوڑ کے جتنے بال ہیں اس سے بھی زیادہ لوگوں کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ وقت چونکہ برکات ربانی اور تجلیات رحمانی کے اترنے کا تھا اس لئے میں نے چاہا کہ ایسے بابرکت اور مقدس وقت میں اپنی امت کے لوگوں کلئے بخشش کی دعا کروں چناچہ میں جنت البیقع میں پہنچ کر اپنے پروردگار کی مناجات اور اس سے دعا مانگنے میں مشغول ہوگیا۔ یہ حدیث ضعیف ہے جیسا کہ آخر روایت میں حضرت امام ترمذی کے قول سے معلوم ہوا۔ لیکن جیسا کہ پہلے بھی کئی جگہ بتایا جا چکا ہے کہ فضائل اعمال کے سلسلہ میں ضعیف احادیث پر عمل کرنا بالا تفاق جائز ہے۔ یہ حدیث اگرچہ اس باب سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی لیکن معنوی طور پر اس حدیث کو باب سے مناسبت یہ ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب بھی اس فضیلت و برکت کی زیادتی کی بناء پر قیام رمضان کے مقدمہ کی مانند ہے۔ وا اللہ اعلم۔

【7】

نفل نماز گھر میں پڑھنے کی فضیلت

اور حضرت زید بن ثابت (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدمی کی اپنے گھر میں پڑھی ہوئی نماز اس نماز سے بہتر ہے جو میری مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں پڑھی جائے علاوہ فرض کے (کہ فرض نماز مسجد میں ہی پڑھنی بہتر ہے) ۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی ) تشریح باوجود یہ کہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ہزار نماز کے ثواب کے برابر ہوتا ہے لیکن نفل نمازوں کو گھروں میں ہی پڑھنا مسجد نبوی میں نفل نماز پڑھنے سے افضل قرار دیا گیا ہے کیونکہ گھروں میں پڑھی گئی نماز ریا و نمائش کے جذبے سے بالکل پاک و صاف ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد اس وقت کا ہے جب کہ آپ ﷺ نے رمضان میں چند شب کا قیام ترک کردیا تھا اور اس کا عذر بیان کرتے ہوئے گھروں میں نماز پڑھنے کی فضیلت بیان کی اور پھر فرمایا کہ جاؤ اپنے گھرو میں نماز پڑھو ! نماز تراویح گھر میں پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں اس حدیث سے استنباط کرتے ہوئے حضرت امام مالک، حضرت امام ابویوسف اور بعض شوافع نے یہ کہا ہے کہ نماز تراویح کے سلسلے میں افضل یہ ہے کہ یہ نماز گھر میں تنہا پڑھی جائے جہاں تک رسول اللہ ﷺ کے عمل کا سوال ہے کہ آپ نے نماز تراویح مسجد میں پڑھی ہے تو اس بارے میں ان حضرات کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں نماز تراویح بیان جواز کے خاطر پڑھی تھی۔ مزید یہ کہ آپ ﷺ معتکف تھے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام شافعی، شوافع علماء کی اکثریت اور بعض مالکیہ حضرات کا متفقہ طور پر مسلک ہے کہ نماز تراویح کا مسجد میں پڑھنا ہی افضل ہے جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) اور اس کے بعد کے دوسرے صحابہ کرام نے اس نماز کو مسجد ہی میں پڑھنا مقرر کیا اور پھر اسی پر تمام مسلمانوں کا ہمیشہ عمل رہا، کیونکہ نماز تراویح شعار دین ہے۔ اور نماز عیدین کے مشابہ ہے۔ فقہ کی کتابوں میں اس مسئلے میں مختار اور بہتر طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی ایسا آدمی ہو جو مسلمانوں کی پیشوائی و رہبری کے مرتبے پر فائز ہو اور اس کی وجہ سے جماعت میں کثرت ہوتی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ نماز تراویح مسجد میں پڑھے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جائز ہے کہ گھر ہی میں پڑھ لی جائے

【8】

حضرت عمر کا نماز تراویح کے لئے جماعت مقرر کرنا

حضرت عبدالرحمن ابن عبدالقاری فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ رمضان کی) رات کو میں حضرت عمر فاروق (رض) کی ہمراہ مسجد میں گیا وہاں ہم نے کیا دیکھا کہ لوگ متفرق اور بکھرے ہوئے تھے (یعنی کوئی تو عشاء کی نماز کے بعد نفل نماز تنہا پڑھ رہا تھا اور کوئی اس طرح پڑھ رہا تھا کہ چند آدمی اور بھی اس کے ساتھ تھے (گویا کچھ لوگ تو الگ الگ تراویح کی نماز پڑھ رہے تھے اور کچھ لوگ جماعت کے ساتھ پڑھ رہے تھے یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا اگر میں ان لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو بہتر ہوگا چناچہ انہوں نے اس کا ارادہ کرلیا اور سب لوگوں کو حضرت ابی بن کعب کے پیچھے جمع کردیا (یعنی انہیں نماز تراویح کے لئے لوگوں کا امام مقرر کردیا) حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ (پھر اس کے بعد) میں ایک رات حضرت عمر کے ہمراہ مسجد میں گیا، وہاں سب لوگ اپنے امام یعنی حضرت ابی ابن کعب کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے (یہ دیکھ کر) حضرت عمر نے فرمایا کہ اچھی بدعت ہے اور (تراویح کی) اس وقت کی نماز جب کہ تم سوتے رہتے ہو اس وقت کی نماز سے بہتر ہے اس سے حضرت عمر (رض) کی مراد آخری رات تھی (یعنی حضرت عمر کے اس ارشاد کا یہ مطلب تھا کہ تراویح کی نماز رات کے آخری حصہ میں پڑھنا رات کے اول وقت پڑھنے سے بہتر ہے کیونکہ) اس وقت لوگ تراویح کی نماز اول وقت پڑھ لیا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری ) تشریح نعمت البدعۃ (یہ اچھی بدعت ہے) کا مطلب یہ ہے کہ یہ جماعت کا مقرر ہونا اچھی بدعت ہے ہے کہ اصل جماعت گویا حضرت عمر (رض) نے تقرر جماعت کو اچھی بدعت کہا نہ کہ اچھی بدعت سے ان کی مراد اصل جماعت تھی کیونکہ جماعت تو رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ثابت ہوچکی ہے کہ آپ ﷺ نے کئی مرتبہ تراویح کی نماز جماعت سے پڑھی جیسا کہ پچھلی حدیثوں میں گذر چکا ہے ویسے اگر حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تقرر جماعت بھی اچھی بدعت سے آگے بڑھ کر سنت کے درجے میں آجاتا ہے کیونکہ خلفائے راشدین کے قائم کئے ہوئے طریقے بھی سنت ہیں۔ بہر حال حاصل یہ ہے کہ یہاں بدعت کے لغوی معنی کا اعتبار ہے نہ کہ اس معنی کا جو فقہا کی اصطلاح میں ہوتا ہے

【9】

تراویح کی رکعتوں کی تعداد

حضرت سائب ابن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ رمضان (کی راتوں) میں لوگوں کو (تراویح) کی گیارہ رکعت نماز پڑھائیں اور (اس وقت) امام (تراویح) میں وہ سورتیں پڑھا کرتا تھا جن میں سے ہر ایک میں ایک سو سے زیادہ آیتیں ہیں، چناچہ قیام کے طویل ہونے کی وجہ سے ہم اپنے عصاء کا سہارا لے کر کھڑے ہوتے تھے اور فجر کے قریب نماز سے فارغ ہوتے تھے۔ (مالک) تشریح حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری دونوں کو امامت کے حکم کا مطلب یہ تھا کہ کبھی وہ امام بنیں اور کبھی وہ، لہٰذا اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے دونوں کو باری باری نماز پڑھانے کا اس طرح حکم دیا ہو کہ کچھ رکعتیں حضرت ابی بن کعب پڑھائیں اور کچھ رکعتیں تمیم داری پڑھائیں اور یہ احتمال بھی ہے کہ دونوں کو الگ الگ راتوں میں امامت کا حکم دیا ہو بایں طور کہ کچھ راتوں میں ایک امامت کرے اور کچھ راتوں میں دوسرا۔ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تراویح کی گیارہ ہی رکعتیں ہیں جیسا کہ حضرت عمر (رض) نے حکم دیا، حالانکہ علماء لکھتے ہیں کہ یہ بات پایہ ثبوت کو صحت کے ساتھ پہنچ چکی ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) کے عہد خلافت میں تراویح کی بیس رکعتیں پڑھی جاتی تھی لہٰذا اس حدیث کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ حضرت عمر (رض) کبھی تو بیس رکعتیں پڑھتے ہونگے اور کبھی گیارہ رکعتوں پر ہی اکتفا کرتے ہوں گے۔ یا یہ کہ رسول اللہ ﷺ سے چونکہ تراویح کی گیارہ رکعتیں پڑھنی ثابت ہوئی ہیں اس لئے رسول اللہ ﷺ کے عمل مبارک سے مشابہت کے قصد سے حضرت عمر (رض) نے بعض راتوں میں گیارہ رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا پھر اس کے بعد تراویح کی بیس رکعتیں ہی مستقل طور پر مقرر کی گئیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ سے بھی ایک روایت میں تیس رکعتیں پڑھنی منقول ہوئی ہیں جن میں تین رکعتیں وتر کی شامل ہیں۔ نفل نماز میں سہارا لینا جائز ہے حدیث کے الفاظ کنا نعتمد علی العصاء کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تراویح میں اتنی طویل قرأت کی جاتی تھی کہ ہم لوگ قیام میں کھڑے کھڑے تھک جاتے تھے جس کی وجہ سے اپنے اعصاء سے ٹیک لگا کر کھڑے ہونے پر ہم لوگ مجبور ہوتے تھے چناچہ اس سلسلے میں مسئلہ یہ ہے کہ نفل نمازوں میں یوں تو عام طور پر بھی لیکن خاص طور پر ضعف کی حالت میں ٹیک لگانا یا کسی چیز کا سہار لے لینا جائز ہے۔

【10】

تراویح کی رکعتوں کی تعداد

اور حضرت اعرج (تابعی) فرماتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ لوگوں کو دیکھا کہ وہ رمضان (کے روزوں) میں کفار پر لعنت بھیجا کرتے تھے اور (اس زمانے میں) قاری (یعنی نماز تراویح کا امام) سورت بقرہ کو آٹھ رکعتوں میں پڑھا کرتا تھا اور اگر (کبھی) سورت بقرہ کو بارہ رکعتوں میں پڑھتا تو لوگ سمجھتے کہ نماز ہلکی پڑھی گئی ہے۔ (مالک) تشریح گو حدیث سے بصراحت یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کفار پر لعنت پورے رمضان کے وتروں کے ساتھ مخصوص تھا۔ اس طرح تمام حدیثوں میں تطبیق پیدا ہوجائے گی چناچہ اس مفہوم کو اختیار کرنے کے بعد یہ حدیث حضرت عمر کی اس حدیث کے منافی نہیں ہوگی جس سے ثابت ہوچکا ہے کہ جب رمضان کا نصف حصہ گذ رجائے تو وتروں میں کفار پر لعنت بھیجنا سنت ہے۔ کفار پر لعنت بھیجنے کا سبب یہ تھا کہ جب کفار نے اس بابرکت اور مقدس و باعظمت مہینے کی تعظیم نہ کی جس کی عظمت و بزرگی خودباری تعالیٰ عزاسمہ نے بیان فرمائی ہے اور سر چشمہ ہدایت و فیضان کلام اللہ سے ذرہ برابر بھی ہدایت حاصل نہیں کی جو اسی باعظمت مہینے میں نازل ہوا ہے تو وہ اس بات کے مستحق ہوئے کہ ان پر لعنت بھیجی جائے۔ نماز تراویح کی رکعتوں کی تعداد کے بارے میں ابھی پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے ایک مرتبہ پھر سمجھ لیجئے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز تراویح کی رکعتوں کی کوئی تعداد متعین نہیں فرمائی تھی بلکہ اس سلسلے میں آپ ﷺ کا عمل مختلف رہا ہے۔ آپ ﷺ سے آٹھ رکعتیں بھی مسنون ہیں اور یہ بھی آتا ہے کہ آپ ﷺ نے گیارہ رکعتیں پڑھی ہیں۔ اسی طرح تیرہ اور بیس رکعتیں بھی آپ ﷺ سے پڑھنی منقول ہیں مگر حضرت عمر (رض) نے اپنے دور خلافت میں تراویح کی بیس رکعتیں متعین فرما دیں اس کے بعد تمام صحابہ کا اسی پر عمل رہا حضرت عثمان اور حضرت عملی (رض) نے بھی اپنے اپنے زمانہ خلافت میں اس کا انتظام رکھا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ میری سنت اور میرے خلفاء راشدین کی سنت اپنے اوپر لازم قرار دو ، اسے اپنے دانتوں سے پکڑو لہٰذا اگر کوئی آدمی رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کی موجودگی میں تراویح کی بیس رکعتوں کا اس لئے قائل نہیں ہوتا کہ ان کا ثبوت قطعی رسول اللہ ﷺ سے نہیں ہے تو اس کے بارے میں سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ کہ وہ منشاء نبوت اور حقیقت سنت کی صریح خلاف ورزی کر رہا ہے۔

【11】

نماز تراویح کا انتہائی وقت

اور حضرت عبداللہ ابن ابی بکر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہم رمضان المبارک میں جب قیام (یعنی نماز تراویح) سے فارغ ہوتے تھے تو خادموں سے اس خوف سے کہ کہیں سحری کا وقت ختم نہ ہوجائے جلد کھانے کے لئے کہتے تھے ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ فجر ہوجانے کے خوف سے (ہم خادموں کو جلد کھانے کے لئے کہتے تھے) (مالک)

【12】

پندرہویں شعبان کی شب میں بنی آدم کی پیدائش و موت لکھی جاتی ہے

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ سر تاج دو عالم ﷺ نے (مجھ سے) فرمایا کہ کیا تم جانتی ہو کہ اس شب میں یعنی پندرہویں شعبان کی شب میں کیا ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (مجھے تو معلوم نہیں آپ ﷺ ہی بتائیے کہ) کیا ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا بنی آدم کا ہر وہ آدمی جو اس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے اس رات کو لکھا جاتا ہے، بنی آدم کا ہر وہ آدمی جو اس سال مرنے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھا جاتا ہے اس رات میں بندوں کے اعمال (اوپر) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں بندوں کے رزق اترتے ہیں حضرت عائشہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! کوئی آدمی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر بہشت میں داخل نہیں ہوسکتا آپ نے یہ الفاظ تین مرتبہ فرمائے میں نے عرض کیا اور نہ آپ یا رسول اللہ ﷺ یعنی (آپ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہونگے ؟ ) رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک اپنے سر مبارک پر رکھا اور فرمایا اور نہ میں ! (یعنی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوں گا) مگر یہ کہ اللہ جل شانہ (اپنے فضل و کرم کے صدقہ) مجھے اپنی رحمت کے سائے میں لے لے یہ الفاظ بھی آپ ﷺ نے تین بار فرمائے (بیہقی نے یہ روایت دعوات کبیر میں نقل کی ہے) ۔ تشریح دنیا میں جتنے بھی انسان پیدا ہونگے یا وفات پائیں گے ان سب کی پیدائش و موت کے بارے میں بہت پہلے ہی عمومی طور پر لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے مگر شعبان کی پندرہویں شب میں پھر دوبارہ ان لوگوں کی پیدائش اور موت کا وقت لکھ دیا جاتا ہے جو اس سال پیدا ہونے والے یا مرنے والے ہوتے ہیں۔ اعمال اٹھائے جاتے ہیں کا مطلب یہ ہے کہ اس سال بندے سے جو بھی نیک و صالح اعمال سرزد ہونے والے ہو نگے وہ اس رات میں لکھ دئیے جاتے ہیں جو ہر روز سرزد ہونے کے بعد بارگاہ رب العزت میں اٹھائے جائیں گے۔ رزق اترنے سے مراد رزق کا لکھا جانا ہے یعنی اس سال جس بندے کے حصہ میں جتنا رزق آئے گا اس کی تفصیل اس شب میں لکھی جاتی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں منقول ہے کہ اس شب میں موت اور رزق لکھے جاتے ہیں اور اس سال میں حج کرنے والے کا نام بھی اس شب میں لکھا جاتا ہے۔ جب حضرت عائشہ (رض) نے سنا کہ وہ اعمال صالحہ جو سال بھر میں بندے سے سرزد ہونے والے ہوتے ہیں کرنے سے پہلے ہی لکھ دئیے جاتے ہیں تو سمجھیں کہ جنت میں داخل ہونے کا دارومدار محض تقدیر اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر ہے، دخول جنت عمل پر موقوف نہیں ہے چناچہ انہوں نے فرمایا یا رسول اللہ مَا مِنْ اَحَدٍ یُدْخِلُ الخ اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیشک جنت میں داخل ہونا تو محض اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل و کرم ہی پر موقوف ہے وہ جسے چاہے اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخل کرے اور جسے چاہے نہ داخل کرے۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد قرآن کریم کی اس آیت ( وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِيْ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 72) 43 ۔ الزخرف 72) یہ جنت وہ ہے جو تمہیں اس چیز کے بدلے میں دی گئی ہے جو تم کرتے تھے۔ (یعنی دنیا میں نیک اعمال کرتے تھے) ۔ کے معارض نہیں ہے کیونکہ نیک اعمال تو جنت میں داخل ہونے کے ظاہری اسباب ہیں مگر دخول جنت کا حقیقی سبب تو اللہ جل شانہ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہی ہے نہ کہ اعمال نیک پھر یہ کہ نیک اعمال بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہیں۔ اگر کسی بندے کے ساتھ اللہ کی توفیق شامل حال نہ ہو اور اس کے فضل و کرم اور اس کی رحمت کا سایہ اس پر نہ ہو تو وہ نیک اعمال کیسے کرسکتا ہے نیک و صالح اعمال تو بندہ تب ہی کرتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی رحمت بندے کی رہنمائی کرتی ہے۔ لہٰذا اس طرح بھی یہی کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہونا تو محض پروردگار کی رحمت پر موقوف ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ جنت میں داخل ہونا تو محض پروردگار کی رحمت کے سبب ہے اور جنت میں درجات کا تفاوت اعمال کے تفاوت پر موقوف ہے یعنی بندہ جنت میں داخل تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وجہ سے ہوگا ہاں اعمال کار فرمائی اس درجہ کی ہوگی جس بندہ کے نیک اعمال جس درجہ کے ہونگے جنت میں اسے اس کے مطابق درجہ ملے گا۔

【13】

شب برات میں کینہ توز اور مشرک، پروردگار کی عام بخشش سے محروم ہوتا ہے

اور حضرت ابوموسی اشعری (رض) راوی ہیں کہ سر تاج دو عالم ﷺ نے فرمایا اللہ جل شانہ، نصف شعبان کی رات کو (یعنی شب برأت کو دنیاوالوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور مشرک اور کینہ رکھنے والے کے علاوہ اپنی تمام مخلوق کی بخشش فرماتا ہے (سنن ابن ماجہ) ، امام احمد نے اس روایت کو عبداللہ ابن عمرو ابن العاص سے نقل کیا ہے اور ان کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ کینہ رکھنے والے (اور ناحق کسی کی) زندگی ختم کردینے والے (کے علاوہ اللہ تعالیٰ ) اس شب کو تمام مخلوق کی بخشش فرماتا ہے) ۔ تشریح حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بابرکت اور مقدس رات کو اپنی رحمت کاملہ کے ساتھ دنیا والوں پر متوجہ ہوتا ہے تو اس کا دریائے رحمت اتنے جوش میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کو بھی معاف کردیتا ہے اور اپنی بندگی و عبادت اور اطاعت و فرمانبرداری میں سرزد ہوئی کو تاہیوں اور لغزشوں سے درگزر فرما دیتا ہے۔ مگر کفر اور حقوق العباد (بندوں کے حق) کو معاف نہیں فرماتا اور ان کے معاملے میں اتنی مہلت دیتا ہے کہ اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کی توبہ قبول کی جائے اور اگر توبہ نہ کریں اور اپنی بد اعتقادی اور بد عملی سے باز نہ آئیں تو انہیں عذاب میں مبتلا کیا جائے۔ کینہ توز (کپٹ رکھنے والے) سے مراد وہ آدمی ہے جو شرعی جہت سے نہیں بلکہ نفس امارہ کی فریب کاریوں میں مبتلا ہو کر خواہ مخواہ دوسروں کے لئے اپنے سینے میں بغض و حس کی آگ جلائے رکھتا ہے ایسا بد باطن آدمی بھی اس بابرکت رات کو پروردگار کی عام بخشش سے کوئی حصہ نہیں پاتا شب برأت کو بھی جو بدبخت رحمت الہٰی کے سائے میں نہیں ہوتا بایں طور کہ ان کی بخشش نہیں ہوتی ان کی تفصیل مختلف روایات میں مذکور ہے چناچہ یہاں تو کفر کرنے والے، کینہ توز اور ناحق کسی کی جان لینے والے کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض روایتوں میں اتنا اور منقول ہے کہ ناتا کاٹنے والے (یعنی رشتہ داری اور بھائی بندی کو منقطع کرنے اور کرانے والے، کو بھی اللہ تعالیٰ نہیں بخشتا، اسی طرح بعض روایتوں میں ازار لٹکانے والوں یعنی ٹخنوں سے نیچاپائجامہ، لنگی لٹکانے والوں، ماں باپ کی نافرمانی کرنے والوں، ہمیشہ شراب پینے والوں، بعض روایتوں میں زنا کرنے والوں، بعض روایتوں میں عشار یعنی ظلم کے ساتھ محصول لینے والوں، جادو کرنے والوں، کاہن، عریف یا غیب کی باتیں بتانے والوں اور صاحب عرطبہ یعنی باجا بجانے والوں کا ذکر کیا گیا ہے یعنی یہ وہ بدبخت لوگ ہیں جو اس مقدس شب میں پروردگار کی عام رحمت سے محروم رہتے ہیں۔

【14】

پندرہویں شعبان کے روزے اور شب برات کی عبادت کا حکم

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جب نصف شعبان کی رات ہو (یعنی شب برات) تو اس رات کو نماز پڑھو اور اس کے دن میں (یعنی پندرہویں کو) روزہ رکھو، کیونکہ اللہ جل شانہ، اس رات کو آفتاب چھپنے کے وقت آسمان دنیا (یعنی نیچے کے آسمان) پر نزول فرماتا ہے (یعنی اپنی رحمت عام کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے) اور (دنیا والوں سے) فرماتا ہے کہ آگاہ ! ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ میں اسے بخشوں ؟ آگاہ ! ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں ؟ آگاہ ! ہے کوئی گرفتار مصیبت کہ میں اسے عافیت بخشوں ؟ آگاہ ! ہے کوئی ایسا اور ایسا (یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر ضرورت اور ہر تکلیف کا نام لے کر اپنے بندوں کو پکارتا رہتا ہے مثلاً فرماتا ہے مثلاً کوئی مانگنے والا ہے کہ میں عطا کروں ؟ ہے کوئی غمگین کہ میں اسے خوشی و مسرت کے خزانے بخشوں ؟ وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح شب برأت کی عظمتوں اور فضیلتوں کا کیا ٹھکانہ ؟ یہی وہ مقدس شب ہے کہ پروردگار عالم اپنی رحمت کاملہ اور رحمت عامہ کے ساتھ اہل دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے دنیا والوں کو اپنی رحمت کی طرف لاتا ہے، ان کے دامن میں رحمت و بخشش اور عطاء کے خزانے بھرتا ہے۔ خوشخبری ہو ان نفوس قدسیہ کو اور ان خوش بختوں کو جو اس مقدس شب میں اپنے پروردگار کی رحمت کا سایہ ڈھونڈھتے ہیں عبادت و بندگی کرتے ہیں اپنے مولیٰ کی بارگاہ میں اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کی درخواست پیش کرتے ہیں اور مولیٰ ان کی دخواستوں کو اپنی رحمت کاملہ کے صدقے قبول فرماتا ہے۔ واحسرتا ! ان حرماں نصیبوں پر، جو اس بابرکت و باعظمت شب کی تقدیس کا استقبال لہو و لعب سے کرتے ہیں، آتش بازی جیسے قبیح فعل میں مبتلا ہو کر اپنی نیک بختی وسعادت کو بھسم کرتے ہیں، کھیل کود اور حلوے مانڈے کے چکر میں پڑ کر رحمت الٰہی سے بعد اختیار کرتے ہیں۔ ا اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم شب برأت کی عظمت و فضیلت کا احساس کریں۔ اس رات کی تقدیس کا احترام کریں اور عبادت و بندگی کا مخلصا نہ نذرانہ پروردگار کی بارگاہ میں پیش کر کے اس کی رحمت عامہ سے اپنے دین و دنیا کی سعادتوں اور کامرانیوں کو حاصل کریں اکثر صحابہ مثلاً حضرت عمر فاروق (رض) اور حضرت عبداللہ ابن مسعود وغیرھما سے منقول ہے کہ وہ اس رات کو یہ دعا بطور خاص پڑھا کرتے تھے اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْنَا اَشْقِیَاء فَاَمْحُہ، وَاکْتُبْنَا سَعداء وَاِنْ کُنْتَ کَتَبْنَا سَعْدَاء فَاثْبِتْنَا فَاِنَّکَ تَمْھُوْمَنْ تَشَاْءَ وَتُثْبِتْ عِنْدَکَ اُمُّ الْکِتَابُ ۔ اے پروردگار ! اگر تو نے (لوح محفوظ میں) ہمیں شقی لکھ رکھا ہے تو اسے مٹا دے اور ہمیں سعید و نیک بخت لکھ دے اور اگر تو نے (لوح محفوظ میں) ہمیں سعید و نیک بخت لکھ رکھا ہے تو اسے قائم رکھ، بیشک جسے تو چاہے مٹائے اور جسے چاہے قائم رکھے اور تیرے ہی پاس امر الکتاب (لوح محفوظ) ہے۔ پندرہویں شعبان کی شب میں اس دعا کا پڑھنا حدیث میں منقول ہے لیکن یہ حدیث قوی نہیں ہے اس دعا کے الفاظ ان کنت کتبنا اشقیاء میں کتابت سے مراد کتابت معلقہ ہے کہ اس میں تغیر و تبدل ممکن ہے یہاں کتابت محکمہ مراد نہیں ہے۔ کیونکہ لوح محفوظ میں آخری طور پر جو بات محکم لکھ دی گئی ہے اس میں تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے۔ پندرہویں شعبان کی شب میں نماز الفیہ پڑھنے کی حقیقت۔ کتاب الآلی میں لکھا ہے کہ اس رات کو نماز الفیہ یعنی سو رکعتیں نفل نماز اس طرح پڑھی جائیں کہ ہر رکعت میں دس دس قل کی قرأت ہو جیسا کہ دیلمی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ لیکن یہ روایت موضوع ہے چناچہ اس سلسلے میں بعض رسائل میں لکھا ہے کہ علی بن ابراہیم نے فرمایا کہ یہ جو طریقہ رائج کیا گیا ہے کہ پندرہویں شعبان کی شب کو نماز الفیہ پڑھی جاتی ہے۔ (یعنی سو رکعتیں اس طرح پڑھتے ہیں کہ ہر رکعت میں دس دس قل کی قرأت ہوتی ہے اور اس کو جماعت سے ادا کرتے ہیں۔ پھر یہ کہ اس میں نماز جمعہ و عیدین سے بھی زیادہ اہتمام کرتے ہیں اس کے بارے میں نہ کوئی صحیح حدیث ہی ثابت ہے نہ کسی صحابی و تابعی کا کوئی مضبوط ارشاد ہی منقول ہے الاّ یہ کہ اس سلسلے میں ضعیف اور موضوع روایتیں ضرور نقل کی جاتی ہیں لہٰذا کوئی آدمی صاحب قوت القلوب اور صاحب اخبار وغیرھما کے منقولات سے اس سلسلے میں غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائے (یعنی یہ نماز نہ پڑھی جائے کیونکہ) عوام اس نماز کی وجہ سے زیادہ فتنوں میں مبتلا ہوچکے ہیں، یہاں تک کہ اس نماز کی ادائیگی کے وقت روشنی و چراغاں کو جائے کیونکہ) عوام اس نماز کی وجہ سے زیادہ فتنوں میں مبتلا ہوچکے ہیں، یہاں تک کہ اس نماز کی ادائیگی کے وقت روشنی و چراغاں کو ضروری قرار دیدیا گیا تھا جس کی وجہ سے اکثر فسق وفجور کے کام صادر ہونے لگے۔ چنانچہ بہت سے اولیاء اللہ ان امور کی وجہ سے ڈرے کہ کہیں اللہ کا کوئی اور ادبار و عذاب نازل نہ ہوجائے چناچہ وہ اتنے زیادہ خوف زدہ اور پریشان ہوئے کہ وہ آبادیوں کو چھوڑ کر اور عبادت الٰہی کی آڑ میں ہونے والے فسق و فجور سے منہ موڑ کر جنگلوں میں چلے گئے اس نماز کی ابتدا کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اول اول یہ نماز بیت المقدس میں ٤٤٨ ھ میں شروع ہوئی اور اس طریقے کے رائج ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے کے جاہل اور اقتدار طلب ائمہ مساجد نے اپنے جذبہ اقتدار اور جاہ طلبی کی تسکین کے لئے اور عوام کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اپنے اردگرد جمع کرنے کے لئے ڈھونگ رچایا چناچہ اس طرح انہوں نے بہت سے فائدے بھی حاصل کئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے نیک و صالح ائمہ کو پیدا کیا، انہوں نے اس بدعت کی بیخ کنی میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا۔ چناچہ اللہ کے ان نیک بندوں کی سعی و کوشش سے یہ طریقہ ختم ہوا یہاں تک کہ ٨٠٠ ھ کے اوائل میں مصر و شام کے شہروں میں یہ بدعت بالکل ہی ختم ہوگئی۔ ملا علی قاری (رح) مذکورہ بالا مضمون نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں کہ۔ اس سلسلے میں میں یہ کہتا ہوں (اتنی بات تو طے ہے کہ نماز الفیہ کے سلسلہ میں حدیث ضعیف منقول ہے اور نفل اعمال کے سلسلے میں، ضعیف حدیث پر بھی عمل کرنا جائز ہے علماء نے اس نماز کے پڑھنے سے جو منع کیا ہے وہ اس لئے کہ اس کے ساتھ بہت زیادہ منکرات (مثلاً چراغاں وغیرہ) کا اجتماع ہوگیا تھا لہٰذا اگر کوئی آدمی تنہا اور مذکورہ بالا منکرات کے بغیر اس نماز کو پڑھنا تو جائز ہے پڑھ سکتا ہے اس نماز کے وقت چراغاں کی ابتدا اور اس کی وجہ کے بارے میں منقول ہے کہ اول اول چراغاں کا رواج قوم برام کہ میں ہوا۔ کیونکہ یہ قوم پہلے آتش پرست تھی جب یہ لوگ مسلمان ہوگئے تو چونکہ ان کے قلب کی گہرائیوں نے ایمان اور اسلام کو پوری طرح قبول نہیں کیا تھا اور ان کے دل میں اپنے قدیم مذہب کی کسی نہ کسی حیثیت محبت باقی تھی اس لئے انہوں نے ایک ایسی چیز کو اسلام میں داخل کیا جو اس وہم میں مبتلا کر دے کہ یہ سنت اور شعار دین میں سے ہے۔ یعنی اس نماز کے وقت چراغاں کرنے لگے جس سے دراصل ان کا مقصد آگ کی عبادت کرنا تھا کیونکہ وہ عام مسلمانوں کے ساتھ اس (چراغ کی شکل میں) آگ کی طرف رکوع و سجدے کرتے تھے۔ کسی بھی عمل کے وقت چراغاں کرنا مستحب نہیں ہے کسی دوسری ضرورت و حاجت کے وقت کسی بھی جگہ چراغاں کرنا شریعت میں مستحب نہیں ہے چناچہ بعض حاجی جو پڑھے لکھے نہیں ہوتے جبل عرفات مشعر حرام اور منیٰ میں چراغ وغیرہ جلاتے ہیں اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ اختراع محض ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔ تراویح کی ختم رات میں نمائشی اجتماع بدعت ہے علامہ طرطوسی کی تحقیق یہ ہے کہ جس رات میں تراویح ختم ہوتی ہے اس موقع پر (محض ختم میں شرکت کے لئے) عوام کا اجتماع یا منبر وغیرہ نصب (یا چراغاں) کرنا بدعت ہے۔ ملا علی قاری علامہ طرطوسی کی اس تحقیق کے بارے میں فرماتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ طرطوسی پر اپنی رحمت نازل فرمائے انہوں نے کیا (عمدہ) تحقیق کی ہے اور (بڑے تعجب کی بات یہ ہے) اس غلط طریقے کو اہل حرمین شریفین نے اختیار کیا ہوا ہے چناچہ وہاں جس رات کو تراویح ختم ہوتی ہے اس موقع پر مردوں، عورتوں، لڑکوں اور غلاموں کا اس قدر ( اتنے اہتمام کے ساتھ) اجتماع ہوتا ہے کہ نماز عیدین، نماز جمعہ اور نماز کسوف میں بھی اتنے زیادہ لوگ جمع نہیں ہوتے۔ اس اجتماع کے موقع پر بہت زیادہ نئے نئے منکرات اور غلط اور فاسد اعمال اور افعال کا صدور ہوتا ہے لوگ چراغوں کی طرف منہ کرتے ہیں اور بیت اللہ شریف کی طرف پیٹھ کرتے ہیں اور مطاف کے درمیان بالکل آتش پرستوں کی طرح اس اژدہام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں کہ وہاں کی جگہ طواف کرنے والوں کے لئے تنگ اور پریشان کن ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس وقت طواف کرنے والے اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنے والے نمازی اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے بہت زیادہ تکلیف و پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں فَنَسْأَلُ ا الْعَفُوّ وَالْعَافِیَۃَ وَالْغُفْرَانَ وَالْرِّضْوَانَ وَا الْمُسْتَعَانُ ۔

【15】

نماز ضحی کا بیان

ضحٰی مشتق ہے الضحو والضحوۃ سے جس کے معنی ہیں آفتاب کا بلند ہونا، دن کا چڑھنا، چاشت کا وقت، چناچہ آفتاب بلند ہونے کے بعد پڑھی جانے والی نماز کو نماز ضحی کہتے ہیں۔ ضحی کی دو نمازیں ہیں نماز اشراق اور نماز چاشت ضحی کی دو نمازیں ہیں ایک نماز کو اشراق کہتے ہیں اور دوسری نماز نماز چاشت کہلاتی ہے یعنی بقدر ایک یا دو نیزے تک آفتاب بلند ہونے کے بعد، جب کہ وقت مکروہ ختم ہوجاتا ہے اور نماز پڑھنے کا وقت شروع ہوجاتا ہے تو پہلے پہر تک ضحی کی جو نماز پر ھی جاتی ہے اسے اصطلاح میں نماز اشراق کہتے ہیں اور جب آفتاب خوب بلند ہوجائے، فضاء میں اچھی طرح گرمی پیدا ہوجائے اور دھوپ اتنی زیادہ پھیل جائے کہ دوسرا پہر شروع ہوجائے تو زوال سے پہلے پہلے ضحی کی نماز پڑھی جاتی ہے وہ اصطلاح میں نماز چاشت کہلاتی ہے عربی میں ان دونوں کو ضحوۃ صغری اور ضحوۃ کبری کہتے ہیں۔ نسائی نے ایک روایت نقل کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب آفتاب مشرق کی جانب ایسا ہوتا ہے جیسا کہ عصر کے وقت مغرب کی جانب ہوتا ہے تو رسول اللہ ﷺ دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ اور جب آفتاب مشرق کی جانب ایسا ہوتا جیسا کہ ظہر کے وقت مغرب کی جانب ہوتا ہے تو آپ ﷺ چار رکعت نماز پڑھتے۔ اسی حدیث سے معلوم ہوا کہ ضحی کی دو نمازیں ہیں۔ نما زاشراق کی کم از کم دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ چھ رکعتیں۔ اسی طرح نماز چاشت کی کم سے کم دو رکعتیں ہیں اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں لیکن علماء کے نزدیک مختار چار رکعتیں ہی پڑھنا ہے کیونکہ جن احادیث سے رسول اللہ ﷺ کا چار رکعتیں پڑھنا ثابت ہے وہ احادیث زیادہ صحیح ہیں پھر یہ کہ زیادہ احادیث و آثار چار رکعتوں ہی کے بارے میں منقول ہیںَ نماز ضحی کی بہت زیادہ فضیلت منقول ہے یہ نماز اکثر علماء کے قول کے مطابق مستحب ہے یہ نماز اس نیت سے پڑھی جاتی ہے۔ نَوَیْتُ اَنْ اُصَلِّیَ اَرْبَعَ رَکَعَاتٍ صَلٰوۃِ الضُّحٰی سُنَّۃَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہ عَلیْہِ وَسَلَّمَ ۔ میں نے یہ ارادہ کیا کہ چار رکعت نماز ضحی جو رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے پڑھوں۔ شیٰخ ولی الدین ابن عراقی فرماتے ہیں کہ صلوٰۃ ضحی کے بارے میں صحیح اور مشہور حدیثیں بہت زیادہ منقول ہیں یہاں تک کہ محمد ابن جریر طبرانی نے کہا ہے کہ اس بارے میں جو احادیث منقول ہیں وہ درجہ تو اتر معنوی کو پہنچی ہوئی ہیں۔ قاضی ابوبکر صدیق فرماتے ہیں کہ یہ نماز پچھلے انبیاء اور رسولوں کی نماز ہے۔ علامہ سیوطی نے دیلمی سے حضرت ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ نماز ضحی حضرت داؤد (علیہ السلام) کی اکثر نماز ہے۔ ابن بخار نے حضرت ثوبان کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ نماز ضحی وہ نماز ہے جسے حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ و آدم (علیہم السلام) ہمیشہ پڑھا کرتے تھے۔

【16】

نماز چاشت کی آٹھ رکعتیں

حضرت ام ہانی (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب فتح مکہ کے دن میرے مکان میں تشریف لائے تو (پہلے) آپ ﷺ نے غسل فرمایا اور اس کے بعد آٹھ رکعت نماز پڑھی میں نے اس سے پہلے حضور اکرم ﷺ کی اس سے ہلکی کوئی نماز نہیں دیکھی لیکن آپ رکوع و سجود پورا کرتے تھے۔ ایک دوسری روایت میں انہوں نے فرمایا کہ یہ نماز چاشت تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح حضرت ام ہانی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بہن ہیں۔ ان کا نام فاختہ تھا یہ بڑی عظمت و فضیلت کی مالک صحابیہ ہیں مکہ میں رسول اللہ ﷺ کی زیادہ ترتبلیغی جدوجہد کا مرکز انہیں کا مکان تھا۔ چاشت کی نماز آپ ﷺ نے آٹھ رکعتیں یا تو دو سلام کے ساتھ یعنی چار چار رکعت کر کے پڑھی ہوں گی یا یہ بھی احتمال ہے کہ چار سلام کے ساتھ یعنی دو رکعت کر کے پڑھی ہوں بہر حال ہلکی نماز کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت آپ ﷺ نے زیادہ طویل سورتوں کی قرأت نہیں فرمائی اسی طرح تسبیحات وغیرہ بھی زیادہ نہیں پڑھیں۔

【17】

نماز ضحی میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی رکعتوں کی تعداد

اور حضرت معاذہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نماز ضحی کی کتنی رکعتیں پڑھتے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ چار رکعتیں پڑھتے تھے اور اس سے زیادہ بھی جس قدر اللہ چاہتا تھا پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح حدیث کے آخری الفاظ و یزید ماشاء اللہ کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ نماز ضحٰی کی آپ ﷺ زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں پڑھتے تھے بارہ سے زیادہ کی تعداد کسی حدیث میں منقول نہیں ہے۔ یہ حدیث دونوں وقت کی نماز کو محتمل ہے یعنی ہوسکتا ہے کہ حدیث میں مذکورہ سوال و جواب کا تعلق نماز اشراق سے ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ نماز چاشت سے ہو۔ کتاب احبار میں لکھا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ ان نمازوں میں سورت الشمس، سورت واللیل، سورت والضحی اور الم نشرح کی قرأت کی جائے۔

【18】

نماز ضحی کی فضیلت

اور حضرت ابوذر (رض) راوی ہیں کہ سر تاج عالم ﷺ نے فرمایا صبح ہوتے ہی تمہاری ہر ہڈی پر صدقہ لازم ہوجاتا ہے لہٰذا ہر تسبیح یعنی سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے ہر تحمید یعنی الحمد اللہ کہنا صدقہ ہے۔ ہر تحلیل یعنی لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے۔ نیکی کا حکم کرنا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے اور ان سب کے بدلے میں نماز ضحی کی دو رکعتیں پڑھ لینا ہی کافی ہوتا ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ جب انسان صبح کرتا ہے اور اس کی ایک ایک ہڈی اور ایک ایک جوڑ آفت و بلا سے صحیح وسالم ہوتا ہے ہے تو اس کی وجہ سے وہ کاروبار اور دنیا کی دیگر مصروفیات میں مشغول رہنے کے قابل رہتا ہے۔ لہذا اس عظیم نعمت پر ادائیگی شکر کے لئے ایک ایک ہڈی کے عوض اسے صدقہ دینا لازم ہوتا ہے اور یہ صدقہ چند کلمات ہیں جن کو پڑھنے سے ایک ایک ہڈی اور ایک ایک جوڑ کی طرف سے صدقہ ادا ہوجاتا ہے اور وہ کلمات بھی بھاری بھر کم نہیں ہیں، زیادہ طویل اور سخت نہیں ہیں بلکہ نہایت آسان اور بلا تکلف ادا ہونے والے ہیں یعنی سبحان اللہ، الحمد اللہ اور اللہ اکبر۔ ویجزی من زلک کا مطلب یہ ہے کہ ان کلمات کے کہنے کی بجائے اگر ضحی کی دو رکعتیں پڑھ لی جائیں تو شکرانہ ادا ہوجاتا ہے ان کلمات کے کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کیونکہ نماز تو پورے بدن اور تمام اعضاء جسمانی کا عمل ہے جس کے ذریعہ بدن کا ایک ایک عضو مصروف عبادت ہو کر اپنا اپنا شکرانہ کرتا ہے لہذا مناسب اور بہتر یہ ہے کہ اس نماز کو ہمیشہ پڑھنا چاہیے۔

【19】

نماز چاشت کا بہتر وقت

اور حضرت زید ابن ارقم کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک جماعت کو ضحی کے وقت (چاشت کی) نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ یہ لوگ (احادیث کے ذریعے) جانتے ہیں کہ اس وقت کے علاوہ دوسرے وقت میں نماز پڑھنا بہتر ہے (یعنی اس وقت زیادہ۔ ثواب ملتا ہے چنانچہ) سرتاج دو عالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ جل شانہ کی جانب کامل توجہ رکھنے والوں کی نماز کا وقت وہ ہے۔ جب کہ اونٹوں کے بچے (یعنی ان کے پیر) گرم ہونے لگیں۔ (صحیح مسلم) تشریح جب حضرت زید (رض) نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ انہوں نے نماز چاشت کے مختار اور بہتر وقت کا انتظار نہیں کیا بلکہ اول وقت ہی نماز پڑھنے لگے تو انہیں بہت تعجب ہوا اور ان کے بارے میں فرمایا کہ اگرچہ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی حدیث سن چکے ہیں اور انہیں علم ہے کہ یہ وقت نماز چاشت کا افضل وقت نہیں ہے بلکہ افضل اور بہتر وقت تو اس کے بعد شروع ہوگا اس کے باوجود یہ لوگ اس وقت نماز نہ معلوم کیوں پڑھ رہے ہیں ؟ چناچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں بتایا کہ نماز چاشت کا بہتر اور افضل وقت وہ ہے جب کہ اونٹوں کے بچے گرم ہونے لگیں یعنی آفتاب بلند ہوجائے اور دھوپ اتنی پھیل جائے کہ گرمی کی شدت سے زمین گرم ہوجائے جس کی وجہ سے اونٹوں کے پیر جلنے لگیں اور دھوپ و گرمی میں اتنی دھوپ و گرمی میں اتنی شدت تقریبا ڈیڑھ پہر گذرنے پر آتی ہے۔ بہر حال اس حدیث سے صریح طور پر معلوم ہوگیا کہ نماز چاشت کا وقت یہ ہے کہ آفتاب خوب بلند ہوجائے، دھوپ اچھی طرح پھیل جائے اور ایک پہر ختم ہونے کے بعد دوسرا پہر شروع ہوجائے اس طرح اس نماز کا آخری وقت دوپہر یعنی زوال سے پہلے پہلے تک ہوگا۔ نماز چاشت کا مذکورہ وقت افضل اس لئے ہے کہ اس وقت عام طور پر طبیعت میں کسل و سستی پیدا ہوجاتی ہے اور جی یہی چاہتا ہے کہ آرام کیا جائے لہٰذا ایسے وقت میں آرام اور طبیعت کے تقاضے کو پس پشت ڈال کر وہی بند گان اللہ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جو بارگاہ رب العزت کی طرف کامل رجوع اور توجہ رکھتے ہیں۔

【20】

نماز چاشت کی برکت

حضرت ابودرداء (رض) اور حضرت ابوذر (رض) (دونوں) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم ! تو دن کے شروع کے حصے میں چار رکعت نماز خالص طور پر میرے لئے (یعنی جذبہء نمائش وریاء سے پاک ہو کر) پڑھ ! میں تجھ کو اس دن کی شام تک کفایت کروں گا۔ (جامع ترمذی) ابوداؤد، ودارمی نے نعیم ابن ہمار غطفانی سے اور امام احمد نے ان سب سے یہ روایت نقل کی ہے۔ تشریح اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اے بندے ! تو دن کے ابتدائی حصے میں محض میری رضا اور خوشنودی کی خاطر چار رکعت نماز پڑھ لیا کر جس کے بدلے میں دن کے آخر حصے یعنی شام تک تیری حاجتوں اور ضرورتوں کو پورا کرتا رہوں گا۔ اور تیرے دل میں جو کچھ برائی یعنی پریشانی اور تنگی ہے میں اسے ختم کروں گا گویا دن کے ابتدائی حصے میں میری عبادت کے لئے اپنا دل فارغ رکھ میں دن کے آخری حصے تک تیری حاجتوں اور ضرورتوں کو پورا کر کے تیرے دل کو اطمینان و فراغت بخشوں گا۔ َمنْ کاَنَ ِ کاَنَ ا لہَ ٰ (یعنی جو کوئی آدمی اللہ کا ہوجاتا ہے اللہ اس کا ہوجاتا ہے) دن کے شروع حصے میں چار رکعت نماز سے اشراق بھی مراد لی جاسکتی ہے اور نماز چاشت بھی مراد ہوسکتی ہے۔ وا اللہ اعلم

【21】

نماز اشراق کی فضیلت

اور حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انسان (کے جسم) میں تین سو ساٹھ بند (جوڑ) ہیں لہٰذا ہر انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے جسم کے ہر جوڑ کے بدلے میں صدقہ دے صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کون اس کی طاقت رکھتا ہے ؟ (کہ اپنے جسم کے ہر ہر جوڑ کے بدلے میں صدقہ دے) آپ ﷺ نے فرمایا مسجد میں پڑے ہوئے تھوک کو دفن کردینا (صدقہ ہی دینا ہے) راستے سے کسی (تکلیف دہ) چیز (مثلاً نجاست کا نٹے، پتھر) کو ہٹا دینا (بھی ایک صدقہ ہے) اور اگر تو (تین سو ساٹھ جوڑوں کی طرف سے صدقہ دینے والی کوئی چیز) نہ پاؤ تو ضحٰی ( یعنی اشراق) کی دو رکعتیں پڑھ لینا تمہارے لئے کافی ہے۔ (اس کے بعد کسی دوسرے صدقے کی ضرورت نہیں ہے) ۔ (ابوداؤد) تشریح لازم سے مراد وجوب شرعی نہیں ہے کہ جس کو چھوڑنے والا گنہ گار ہوتا ہے بلکہ تاکید مراد ہے کیونکہ نہ تو ضحی کی دو رکعتوں کو خواہ وہ نماز اشراق ہو یا نماز چاشت کسی بھی امام اور عالم نے واجب کہا ہے اور نہ کسی کے نزدیک مذکورہ بالا دونوں صدقے ہی واجب ہیں۔ اگرچہ نہ صرف یہ کہ شریعت کی رو سے بلکہ عقلا بھی دیکھا جائے تو فیصلہ یہی کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت پر اجمالی اور تفصیلی دونوں طریقوں سے شکر ادا کرنا ہر انسان پر واجب ہے۔

【22】

نماز اشراق کی فضیلت

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا جو آدمی ضحی کی بارہ رکعتیں پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں سونے کا محل بناتا ہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے کیونکہ ہم بجز اسی سند کی (یعنی جو ترمذی نے اپنی کتاب میں نقل کی ہے) اور کسی سند سے اسے نہیں جانتے۔

【23】

نماز اشراق کی فضیلت

اور حضرت معاذ ابن انس جہنی (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی فجر کی نماز پڑھ کر اسی جگہ (برابر) بیٹھا رہے یہاں تک کہ (آفتاب طلوع اور بلند ہونے کے بعد) ضحی کی دو رکعتیں پڑھے اور ان دونوں یعنی فجر و نماز ضحی کے درمیان) نیک کلام کے علاوہ دوسری بات نہ کرے تو اس کے تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں اگرچہ وہ دریا کے جھاگ سے زیادہ کیوں نہ ہوں۔ (ابوداؤد) تشریح حدیث کے پہلے جز من قعدالخ کے فائدے میں ملا علی قاری نے جو کچھ لکھا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مراد یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی فجر کی نماز پرھ کر ذکر و فکر میں مشغول اور نیک کاموں مثلاً علم کے سیکھنے سکھانے، وعظ و نصیحت اور بیت اللہ کے طواف میں مصروف رہے اور جب سورج طلوع ہو کر بلند ہوجاتا ہے تو خواہ گھر میں خواہ مسجد میں نماز ضحی کی دو رکعتیں پڑھ لے اور یہ کہ نماز فجر اور نماز ضحی کے درمیان سوائے نیک اور صالح کلام کے کوئی اور گفتگو و کلام نہ کرے تو اس کے صغیرہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ جل شانہ اپنے فضل و کرم کے صدقہ گناہ کبیرہ بھی بخش دے۔ لہٰذا ملا علی قاری کی اس تقریر سے یہ معلوم ہوا کہ ارشاد گرامی من قعد (جو آدمی بیٹھا رہے) بطور تمثیل کے فرمایا گیا ہے ورنہ تو یہاں ذکر اللہ اور نیک کاموں میں مشغول رہنامراد ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) اس حدیث کے فائدہ میں فرماتے ہیں کہ یہاں ضحی کی نماز سے اشراق کی نماز مراد ہے جب کہ دوسری احادیث میں ضحی سے اشراق اور چاشت دونوں نمازیں متحمل ہوتی ہیں اور بظاہر حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ثواب اس آدمی کو ملتا ہے جو نماز فجر سے فارغ ہو کر اسی جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے اور کوئی آدمی اس جگہ سے اٹھ کر خلوت میں جا کر بیٹھ گیا اور وہاں ذکر اللہ و عبادت میں مشغول رہا تو اسے مذکورہ ثواب نہیں ملے گا۔ اگرچہ بعض علما نے لکھا ہے کہ اگر پریشانی کا ڈر ہو یا یہ کہ ریا و نمائش کا وسوسہ پیدا ہوجانے کا خدشہ تو ایسی صورت میں خلوت میں جا کر عبادت و ذکر اللہ میں مشغولیت اختیار کی جائے علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایسے موقع پر قلبہ رخ بیٹھنے کو ضروری سمجھا جائے اور اگر نیند کا غلبہ ہونے لگے تو اسے دفع کیا جائے۔ شیخ الاسلام شہاب الدین سہروردی (رح) نے کہا ہے کہ ایسا عمل جس کی جزا دنیا ہی میں فی الوقت باطن کی نورانیت کی شکل میں حاصل ہوتی ہے یہی عمل ہے۔

【24】

نماز اشراق کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا جو آدمی ضحی کی دو رکعتوں پر محافظت کرتا ہے (یعنی ہمیشہ پڑھتا ہے) تو اس کے تمام (صغیرہ) گناہ بخش دیئے جائیں گے اگرچہ وہ دریا کے جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں۔ (احمد بن حنبل، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

【25】

حضرت عائشہ اور نماز ضحی

اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ وہ نماز ضحی کی آٹھ رکعتیں پڑھا کرتی تھیں فرماتیں کہ میرے لئے میرے ماں باپ بھی زندہ کر دئیے جائیں تو بھی میں اس نماز کو نہ چھوڑوں۔ (امام مالک) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا یہ ارشاد مبالغے کے لئے تعلیق بالمحال ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اس نماز کو پڑھ کر اتنی زیادہ لذت حاصل ہوتی ہے اور اتنا سرور ہوتا ہے کہ اگر میرے ماں باپ بھی زندہ ہوجائیں باوجود اس کے کہ ان کا زندہ ہونا محال ہے تو ان سے ملاقات کی خوشی اور مسرت بھی مجھے اس نماز سے نہیں روک سکتی۔ گویا حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے اس کے ذریعے لوگوں کو ترغیب دلائی ہے کہ اس نماز کو ہمیشہ باقاعدگی کے ساتھ پڑھا جائے۔

【26】

نماز ضحی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا معمول

اور حضرت ابوسعید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (جب) ضحی کی نماز پڑھتے تو ہم کہتے کہ اب آپ اس نماز کو چھوڑیں گے نہیں اور جب (کبھی) چھوڑتے تو ہم کہتے کہ اب آپ اس نماز کو نہیں پڑھیں گے۔ (جامع ترمذی ) تشریح جیسا کہ نفل اعمال کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ ﷺ کوئی بھی نفل عمل ہمیشہ نہیں کرتے تھے تاکہ اس التزام کی وجہ سے وہ عمل فرض نہ ہوجائے۔ اسی طرح ضحی کے بارے میں بھی آپ ﷺ کا یہی معمول تھا کہ آپ ﷺ امت کے حق میں انتہائی شفقت کا معاملہ فرماتے ہوئے، اس نماز کو کبھی کبھی ترک فرما دیتے تھے تاکہ التزام کے طور پر ہمیشہ اس نماز کو پڑھنے سے اس کی فرضیت کا حکم نازل نہ ہوجائے جس امت کے لوگ تنگی میں مبتلا ہوجائیں۔ اس موقعہ پر اتنی بات سمجھ لیجئے کہ یہ رسول اللہ ﷺ ہی کی خصوصیت تھی کوئی بھی فعل رسول اللہ ﷺ کے التزام کی وجہ سے فرض ہوجاتا تھا اگر امت کے لوگ کوئی فعل التزام کے ساتھ کریں تو فرض نہیں ہوگا۔ لہٰذا اب تمام مسلمان التزام کے ساتھ نماز ضحی ہمیشہ پڑھیں گے تو یہ نماز فرض نہیں ہوگی بلکہ مستحب ہی رہے گی۔

【27】

نماز ضحی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا معمول

اور حضرت مورق عجلی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے پوچھا کہ کیا آپ ضحی کی نماز پڑھتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ نہیں میں نے کہا کہ حضرت عمر (رض) ؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ بھی نہیں پڑھتے تھے پھر میں نے پوچھا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ بھی نہیں پڑھتے تھے۔ پھر میں نے پوچھا کہ اچھا رسول اللہ ﷺ ؟ انہوں نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ بھی نہیں پڑھتے۔ (صحیح البخاری ) تشریح حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں نماز ضحی پڑھنے کی جو نفی فرمائی اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کا یہ انکار اس بات پر مبنی ہے کہ آپ مسجد میں ضحی کی نماز پڑھتے تھے یا حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) رسول اللہ ﷺ کے عمل مبارک اور اس نماز کے پڑھنے کے بارے میں آپ ﷺ کے ارشاد پر مطلع نہیں ہونگے یا پھر یہ کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے مطلقاً نفی نہیں فرمائی۔ بلکہ ان کا مطلب یہ تھا آپ ﷺ اس نماز کو مستقل طور پر ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے تاکہ یہ نماز فرض قرار نہ دیدی جائے۔ بہر حال اس نماز کا رسول اللہ ﷺ سے پڑھنا اور دوسروں کے لئے اس کے پڑھنے پر تاکید کرنا بہت روایتوں سے ثابت ہے۔ اس لئے اس نماز کے ثبوت میں اس روایت سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ ملا حنفی (رح) فرماتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد اس نماز کے فرض ہوجانے کا کوئی اندیشہ نہیں رہا اس لئے یہ کہنا زیادہ مناسب اور بہتر ہے کہ نماز مسلمانوں کا اس نماز پر مداومت کرنا ( یعنی ہمیشہ پابندی کے ساتھ پڑھنا) مستحب ہے۔ چناچہ اکثر علماء اور مشائخ کا یہ مسلک ہے۔

【28】

نفل نماز کا بیان

تطوع طوع وطاعت سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں انقیاد اور فرما نبرداری کرنا نافلہ عبادت کو تطوع اور نافلہ کرنے والے کو تطوع کہتے ہیں لہٰذا اس باب کے تحت ان نمازوں سے متعلق احادیث نقل کی جائیں گی جو نفل ہیں۔ یوں تو فرض و واجب کے سوا ہر نماز کو نفل کہتے ہیں خواہ سنت ہو یا مستحب لیکن تطوع کا اطلاق اکثر ان نمازوں پر ہوتا ہے جو غیر مرتب غیر سنت مؤ کدہ ہوتی ہے۔

【29】

تحیۃ الوضو کی فضیلت

حضرت ابوہریرۃ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر کے وقت حضرت بلال (رض) سے فرمایا کہ بلال ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے حالت اسلام میں کون سا عمل کیا ہے جس سے تمہیں ثواب کی بہت زیادہ امید ہے کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی ہے۔ حضرت بلال (رض) نے عرض کیا میں نے ایسی زیادہ امید کا کوئی عمل نہیں کیا سوائے اس کے کہ رات دن میں جب بھی میں پاکی حاصل کرتا ہوں تو اس پاکی سے جس قدر میرے مقدر میں ہے میں نماز ضرور پڑھتا ہوں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح رسول اللہ ﷺ کا جنت میں اپنے آگے حضرت بلال (رض) کے قدموں کی آواز سننا بذریعہ مکاشفہ تھا کہ عالم غیب سے آپ ﷺ پر نیند کی حالت میں یا حالت بیداری میں یہ ظاہر کیا گیا یا پھر یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے شب معراج میں جنت میں اپنے آگے حضرت بلال کے جو توں کی آواز سنی ہوگی۔ حضرت بلال کا رسول اللہ کے آگے چلنا (جیسا کہ آپ نے ان کے جو توں کی آواز سنی) اسی درجہ میں تھا جس درجہ میں کہ خدام کا مخدوم کے آگے چلنا ہوتا ہے۔ پاکی سے مراد وضو بھی ہوسکتا ہے اور غسل تیمم بھی۔ اس طرح یہ تینوں بھی اس سے مراد لئے جاسکتے ہیں۔ اس حدیث میں جس نماز کی فضیلت کا بیان کیا گیا ہے وہ نماز وہ ہے جو وضو کرنے کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کو اصطلاح میں تحیۃ الوضو یا شکر وضو کہتے ہیں۔

【30】

استخارہ کی نماز و دعا

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ سر تاج دو عالم ﷺ ہمارے تمام کاموں کے لئے دعائے استخارہ اس طرح سکھاتے تھے۔ جیسے قرآن کریم کی کوئی سورت سکھاتے تھے (یعنی آپ ﷺ اس دعا کی تعلیم کا بہت اہتمام رکھتے تھے) چناچہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی آدمی کسی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت (نفل) پڑھے پھر یہ دعائے پڑھے۔ اے اللہ ! میں تیرے علم کے وسیلے سے تجھ سے بھلائی مانگتا ہوں اور تیری قدرت کے واسطے سے (نیک عمل کرنے کی) تجھ سے قدرت مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں کیونکہ تو ہی (ہر چیز پر) قادر ہے میں (تیری مرضی کے بغیر کسی چیز پر) قادر نہیں ہوں، تو (سب چیزوں کو) جانتا ہے میں کچھ نہیں جانتا اور تو پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے، اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (یعنی مقصد) میرے لئے میرے دین میں، میری دنیا میں، میری زندگی اور میری آخرت میں، یا فرمایا اس جہان (یعنی دنیا) میں اس جہان (آخرت) میں بہتر ہے تو اسے میرے لئے مہیا فرما دے اور اسے میرے لئے آسان فرما دے، پھر اس میں میرے واسطے برکت دے اور اگر تو اس امر (یعنی میرے مقصد اور میری مراد) کو میرے دین، میری زندگی اور میری آخرت میں، یا فرمایا اور اس جہان اور اس جہان میں برا جانتا ہے تو مجھے اس سے اور اسے مجھ سے پھیر دے اور میرے لئے جہاں بھلائی ہو وہ مہیا فرما پھر اس کے ساتھ مجھے راضی کر۔ روای کہتے ہیں کہ لفظ ہذا لامر کی جگہ) اپنی حاجت کا نام لینا چاہیے۔ (صحیح البخاری ) تشریح اگر ایسے کام کا ارادہ کیا جائے جو مباح ہو اور اس کی کامیابی و بھلائی میں شک و تردد ہو مثلاً سفر کا ارادہ ہو، تجارت شروع کرنے کا خیال ہو، نکاح کرنا چاہتا ہو یا اسی قسم کے دوسرے مباح کام تو ایسے موقع پر مناسب اور بہتر یہ ہے کہ استخارے کو اپنا راہبر و مشیر بنایا جائے۔ کھانے پینے یا اسی قسم کے دوسرے مقرر و متعین کاموں کے لئے استخارہ نہیں کرنا چاہیے اگر کوئی کام خیر محض ہو تو اس میں استخارہ نہ کیا جائے استخارے کی برکت یہ ہے کہ کام شروع کرنے والے کے حق میں جو بات بھی بہتر ہوتی ہے وہ اس کے دل میں جگہ لے لیتی ہے اور دل اپنے حق میں بہتر بات ہی کا فیصلہ کرتا ہے۔ استخارے کا طریقہ یہ ہے کہ باوضو ہو کر کسی بھی وقت علاوہ اوقات مکروہ کے استخارے کی نیت سے دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے بعد مذکورہ دعا پڑھی جائے۔ اگر سنت کی، تحیۃ المسجد کی یا تحیۃ الوضو کی پڑھی جانے والی نمازوں میں سے ہی دو رکعت پڑھنے کے بعد دعاء استخارہ پڑھ لی جائے تو بھی جائز ہے لیکن اولیٰ یہی ہے کہ علیحدہ سے دو رکعت نماز بطور خاص استخارہ کی نیت ہی سے پڑھنی چاہیے۔ اس نماز میں جو بھی سورت پڑھنی چاہیے پڑھ سکتا ہے کسی خاص سورت کا تعین نہیں ہے تاہم بعض روایتوں میں ہے کہ قل یا اَیُّھَا الکافرون اور قل ہو اللہ پڑھنا بہتر ہے۔ دعا کے الفاظ او عاجل امری میں صرف اور صرف راوی کے شکل کو ظاہر کر رہے ہیں، یعنی راوی کو شک واقع ہوگیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فی دینی و معاشی و عاقبۃ امری فرمایا ہے یا ان تینوں الفاظ کی جگہ عاجل امری و اجلہ فرمایا۔ بہر حال افضل یہ ہے کہ اس دعا میں یہ دونوں جملے پڑھے جائیں۔ حدیث کی آخری الفاظ ویسمی حاجتہ کا مطلب یہ ہے کہ دعا میں لفظ ھذا الا مر بطریق عموم واقع ہے استخارہ کرنے والا اپنی دعا میں اس جگہ اپنا مقصد اور اپنی مراد ظاہر کرے مثلا ھذا الامر کی بجائے یوں کہے ھذا السفر یا ھذا الا قامۃ یا اسی طرح جو بھی مقصد ہو ذکر کرے نیز یہ بھی جائز ہے کہ پہلے ھذالامر کہہ لے اس کے بعد اپنا مقصد اور اپنی مراد کا ذکر کرے۔ ایک اور روایت میں یہ مختصر استخارہ بھی منقول ہے کہ اگر کسی آدمی کو جلدی ہو اور کوئی وقتی و ہنگامی کام ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صرف یہ پڑھ لے۔ اَللّٰھُمَّ اخِرْلِیْ وَاَخْتَرْلِیْ وَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی اِخْتِیَارِیْ ۔ اے اللہ ! ( میرے حق میں تیرے نزدیک جو بہتر اور مناسب ہو اسے) میرے لئے پسند اور میرے لئے اختیار فرما اور مجھے میرے اختیار کا پابند نہ بنا۔ حضرت انس (رض) ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ انس ! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے سات مرتبہ استخارہ کرو، پھر اس کے بعد (اس کا نتیجہ) دیکھو، تمہارے دل میں جو کچھ ڈالا جائے (یعنی استخارے کے نتیجے میں بارگاہ حق کی جانب سے، جو چیز القاء کی جائے اسی کو اختیار کرو کہ تمہارے لئے وہی بہتر ہے۔

【31】

نماز توبہ کا بیان

امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مجھ سے فرمایا اور حضرت ابوبکر (رض) نے بالکل سچ فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ ارشاد سنا ہے کہ جو آدمی گناہ کرتا ہے اور گناہ پر ندامت ہونے کی وجہ سے، اٹھ کر وضو کرتا ہے اور نماز پڑھتا ہے اور پروردگار سے اپنے گناہ کی مغفرت چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا گناہ معاف فرما دیتا ہے پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی۔ اور ایسے لوگ کہ جب کوئی ایسا کام کر گذرتے ہیں جس میں زیادتی ہو یا اپنی ذات پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو (یعنی اس کے عذاب کو) یاد کرلیتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی چاہنے لگتے ہیں اور اس روایت کو جامع ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے مگر ابن ماجہ نے آیت ذکر نہیں کی۔ تشریح صدق ابوبکر (حضرت ابوبکر (رض) نے بالکل سچ فرمایا) یہ جملہ معترضہ کے طور پر ہے جس کے ذریعے حضرت علی المرتضیٰ نے حضرت ابوبکر کی بزرگی ان کی عظمت اور ان کے انتہائی سچے ہونے کو ظاہر فرمایا ہے جن کی سچائی اور صداقت اس پایہ کی تھی کہ خود رسول اللہ ﷺ نے انہیں صدیق کے لقب سے سرفراز فرمایا۔ حضرت علی المرتضیٰ کے بارے میں منقول ہے کہ ان کی عادت تھی کہ وہ کسی بھی راوی کی نقل کردہ حدیث کو اس وقت تک قبول نہیں کرتے تھے جب تک کہ راوی سے وہ قسم نہ کھلوا لیتے تھے چناچہ جب راوی ان سے کہتا کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث اسی طرح سنی ہے تو آپ اسے قبول فرماتے لیکن جب کوئی حدیث حضرت ابوبکر (رض) سے سنتے تو بغیر قسم کے قبول کرلیتے تھے۔ فیتطھر کا مطلب تو یہی ہے کہ گناہ کرنے والا وضو کر کے نماز پڑھے لیکن افضل غسل کرنا ہے نہ صرف یہ بلکہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرنا سب سے زیادہ افضل ہے۔ یصلی کا مطلب یہ ہے کہ دو رکعت نماز پڑھے جس میں سے ایک رکعت میں سورت فاتحہ کے ساتھ قل یا ایھا الکافرون پڑھی جائے۔ اور دوسری رکعت میں قل ہو اللہ کی قرأت کی جائے اس کو نماز تو بہ کہا جاتا ہے۔ حدیث کے الفاظ ثم یستغفر اللہ (پھر پروردگار کی بارگاہ میں توبہ مانگتا ہے اور نہ صرف یہ کہ اس گناہ کو چھوڑ دیتا ہے بلکہ آئندہ کبھی گناہ میں مبتلا نہ ہونے کا پختہ عزم کرتا ہے اور اس عزم پر ثابت قدم رہتا ہے پھر یہ کہ اگر اس کے ذمے کسی کا کوئی حق ہوتا ہے تو اس کا تدارک کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشاد کے بعد بطور دلیل کے اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں یہی خداوند کریم بھی فرماتا ہے لِذُنُوْبِھِمْ کے بعد آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے۔ آیت ( وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ڞ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ ١٣٥ اُولٰ ى ِكَ جَزَا ؤُھُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَجَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا وَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ ١٣٦) 3 ۔ ال عمران 135 ۔ 136) اور ہے کون ؟ جو گناہوں کو بخشتا ہو اور یہ لوگ اپنے فعل (گناہ) پر اصرار نہیں کرتے اور وہ جانتے ہیں، ان لوگوں کی جزاء بخشش ہے۔ ان کے رب کی طرف سے اور ایسے باغ ہیں جن کے نیچے سے نہریں چلتی ہونگی اور وہ ان میں ہمیشہ بستے رہیں گے اور (اچھے) کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے۔ اس آیت کا شان نزول بعض مفسرین کی روایت کے مطابق ایک مخصوص واقعہ ہے۔ ایک صحابی سے بتقاضائے ایک لغزش ہوگئی مگر وہ فورًا متنبہ ہوگئے جس سے وہ انتہائی نادم اور شرمندہ ہوئے ان کی ندامت و شرمندگی اور رب العزت کی بارگاہ میں اس لغزش سے ان کی صدق دل سے توبہ و استغفار کے پیش نظریہ آیت نازل فرمائی گئی۔ یہ دو آیتیں ہیں پہلی آیت میں لفظ والذین مبتداء ہے، دوسری آیت میں اولئک خبر ہے یعنی پہلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان اللہ سے ڈرنے والے اور اس کے ثواب و عذاب پر یقین رکھنے والے جب بتقاضائے بشریت کسی خطا و لغزش اور گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو ایمان و یقین سے بھر پور ان کا ضمیر انہیں فورًا متنبہ کرتا ہے وہ ایسے موقع پر اپنے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ہیں اس کی عبادت و بندگی کر کے اس سے اپنی لغزش کی معافی چاہتے ہیں اپنی خطا و گناہ پر شرمندگی و ندامت کا اظہار کر کے توبہ مانگتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ کسی گناہ پر ڈھٹائی کے ساتھ عمل پیرا نہیں رہتے۔ بلکہ آئندہ کے لئے کسی گناہ میں مبتلا نہ ہونے کا عزم کرتے ہیں اور اپنے پختہ عزم پر قائم رہتے ہیں۔ دوسری آیت میں ایسے لوگوں کی جزاء بیان کی جا رہی ہے کہ خداوند کریم اپنی رحمت کے صدقے ان لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ان کی غلطی سے درگزر کرتا ہے اور چونکہ یہ گناہوں سے صدق دل کے ساتھ معافی کے خواستگار ہوتے ہیں اس لئے ان کی بخشش فرماتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جنت اور جنت کی نعمتوں کے حقدار ہوتے ہیں۔

【32】

مصیبت کے وقت نماز نفل

اور حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی مصیبت سے دو چار ہوتے تو (نفل) نماز پڑھتے۔ (ابوداؤد) فائدہ مطلب یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی رنج و غم ہوتا یا کوئی مصیبت رونما ہوتی تو آپ ﷺ رنج و غم اور مصیبت سے چھٹکارا پاتے اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے طور پر نماز پڑھتے کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے۔ آیت (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ) 2 ۔ البقرۃ 153) اے اہل ایمان ! صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگو۔ علماء لکھتے ہیں کسی رنج اور مصیبت کے وقت نماز نفل پڑھنے کی حکمت یہ ہے کہ جب انسان نماز میں مشغول ہوتا ہے اس کے سامنے عالم ربوبیت کھل جاتا ہے اور جب اس پر عالم ربوبیت منکشف ہوجاتا ہے تو دنیا از خود اس کی نظروں میں بالکل حقیر و بےوقعت ہوجاتی ہے جس کا نیتجہ یہ ہوتا ہے۔ کہ اس کے دل میں دنیا کے ہونے ( یعنی دنیا کی راحت و آسائش) اور دنیا کے نہ ہونے (یعنی دنیا کی تکلیف و مصیبت) کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں رہتا۔ لہٰذا اگر دنیا اسے نہیں ملتی بایں طور کہ وہ دنیا کے رنج و غم اور تکلیف و مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو متوحش اور پریشان نہیں ہوتا اگر دنیا اسے نہیں ملتی ہے بایں طور کہ دنیا کی راحت و چین اور آرام و آسائش اسے حاصل ہوتی ہے تو وہ خوش نہیں ہوتا جیسا کہ یہ عارفانہ مقولہ کہا گیا ہے۔ اگر ہے تو خوشی نہیں اور اگر نہیں تو غم نہیں۔

【33】

تحیۃ الوضو کی فضیلت

اور حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے صبح کے وقت فجر کی نماز کے بعد حضرت بلال (رض) کو طلب کیا اور (جب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کس عمل کے ذریعے تم نے جنت میں مجھ سے پیش روی اختیار کی ہے (کیونکہ) میں جب بھی جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میں نے جب بھی اذان دی ہے تو اس کے بعد دو رکعت نماز (ضرور) پڑھی ہے اور جب بھی میرا وضو ٹوٹا ہے میں نے اسی وقت وضو کرلیا اور میں نے اللہ کے واسطے دو رکعت نماز پڑھنی ضروری سمجھا ہے۔ (یعنی ہر وضو کے بعد پابندی کے ساتھ دو رکعت پڑھنی میں نے اپنے اوپر لازم قرار دے رکھی ہے) رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اسی وجہ سے تم اس (عظیم درجہ کو پہنچے ہو۔ (جامع ترمذی ) تشریح حدیث میں مذکورہ مضمون کی وضاحت اس باب کے شروع میں پہلی حدیث کے فائدے کے ضمن میں کی جا چکی ہے۔ چناچہ وہاں یہ بتایا جا چکا ہے کہ جنت میں حضرت بلال (رض) کا رسول اللہ ﷺ کے آگے آگے ہونا خادم کی حیثیت سے تھا۔ جو خود ایک بہت بڑا درجہ اور بڑی فضیلت کی بات ہے چناچہ اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم آخر وہ کون سا عمل کرتے ہو جس کی وجہ سے تمہیں خدمت خاص کا یہ عظیم مرتبہ حاصل ہوا ؟ حدیث کے حقیقی معنی یہی ہیں۔ اس کے ظاہری معنی و مفہوم مراد لے کر کسی قسم کی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ کہ اس حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ (نعوذ با اللہ) حضرت بلال (رض) کو رسول اللہ ﷺ پر بھی اس موقع پر فضیلت حاصل تھی کہ وہ آپ ﷺ سے پہلے جنت میں داخل ہوئے کیونکہ یہ مرتبہ تو کسی نبی اور پیغمبر کو بھی حاصل نہیں ہوگا کہ وہ آنحضرت ﷺ سے پہلے جنت میں داخل ہوجائے چہ جائیکہ آپ کی امت کے ایک فرد کو یہ امتیاز حاصل ہوجائے کہ ان دو چیزوں یعنی ہمیشہ باوضو رہنے اور نماز تحیۃ الوضو پڑھنے کی وجہ سے آپ ﷺ سے پہلے وہ جنت میں داخل ہو۔ چہ نسبت خارا با عالم پاک۔

【34】

نماز حاجت

اور حضرت عبداللہ ابن ابی اوفیٰ راوی ہیں کہ سر تاج دو عالم ﷺ نے فرمایا جس آدمی کو اللہ تعالیٰ یا کسی آدمی کی طرف کوئی حاجت ہو (یعنی خواہ دینی حاجت) تو اسے چاہیے کہ (پہلے) وضو کرے اور اچھا وضو (یعنی پورے آداب کی رعایت کے ساتھ) کرے اور دو رکعت نماز پڑھے، پھر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کر کے اور نبی و ﷺ پر درود بھیج کر یہ دعا پڑھے۔ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ چشم پوشی اور بخشش کرنے والے کے پاک ہے اللہ جو مالک ہے عرش عظیم کا اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو سارے جہان کا پروردگار ہے، اے اللہ میں تجھ سے ان چیزوں کو مانگتا ہوں جن پر رحمت ہوتی ہے اور جو تیری بخشش کا سبب ہوتی ہیں اور مانگتا ہوں اپنا حصہ ہر نیکی سے اور بچنا چاہتا ہوں ہر گناہ سے، اے اللہ ! میرے کسی گناہ کو بےبخشے ہوئے اور کسی غم کو بےدور کئے ہوئے اور کسی جماعت کو جو تیرے نزدیک پسند ہو، بےپورا کئے ہوئے نہ چھوڑا اے بہت رحم کرنے والے رحم کرنے والوں سے۔ (امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے) تشریح جب کسی کو کوئی حاجت یا ضرورت پیش آئے تو خواہ وہ حاجت بلا واسطہ اللہ تعالیٰ سے ہو یا بالواسطہ کسی بندے سے متعلق ہو مثلاً کسی کو نوکری کی خواہش ہو، یا کسی سے نکاح کرنا چاہتا ہو، یا ایسی کوئی اور ضرورت ہو، جسے کسی آدمی سے پورا کرنا مقصود ہو تو اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے پھر اللہ تعالیٰ جل شانہ کی تعریف و بڑائی بیان کر کے درود شریف پڑھے جو نماز میں التحیات کے بعد پڑھا جاتا ہے اس کے بعد حدیث میں مذکورہ دعا پڑھے۔ دعا کے بعد اس کی جو حاجت و ضرورت ہو، اسے پروردگار کی بارگاہ میں پیش کرے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے اپنے مقصد برآری کے لئے دعا کرے۔ حاجت روائی اور مقصد برآری کے لئے یہ نماز کہ جسے اصطلاح میں صلوۃ الحاجت یعنی نماز حاجت کہتے ہیں کہ بہت مجرب ہے بعض بزرگوں کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے اپنی ضرورتوں میں اس طریقے سے نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت بیان کی، اللہ تعالیٰ نے ان کے مقصد اور ان کی حاجت کو پورا فرمایا۔ (علم الفقہ) علامہ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ حاجت مند کو اپنی حاجت روائی اور اس نماز و دعا کو پڑھنے کے لئے شنبہ کے دن صبح کے وقت کو اختیار کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو آدمی شنبہ کے دن صبح کے وقت (نماز حاجت اور اس کی دعا پڑھ کر اپنی حلال و جائز حاجت کو طلب کرے تو میں اس کی حاجت روائی کا ضامن ہوں۔ (ملا علی قاری) یوں تو یہ نماز اور یہ دعا تمام حاجتوں اور ضرورتوں کے لئے ہے لیکن قوت حافظہ کی اگر حاجت ہو تو اس کے لئے بطورخاص الگ نماز ہے جس کو صلوٰۃ الحافظ (حافظ کی نماز) کہتے ہیں جو حصن حصین میں مذکور ہے اس کی اردو شرح میں اس نماز کی روایت بالتفصیل لکھی گئی ہے وہاں ملا حظہ فرمایا جاسکتا ہے۔

【35】

نماز تسبیح کا بیان

نماز تسبیح مستحب ہے جس کا بیشمار اجر وثواب ہے اس کی چار رکعتیں پڑھنی رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں بہتریہ ہے کہ چاروں رکعتیں ایک ہی سلام سے پڑھی جائیں۔ اگر دو سلام سے پڑھی جائیں تب بھی درست ہیں۔ ہر رکعت میں پچھتر مرتبہ تسبیح کہنا چاہیے اور پوری نماز میں تین سو مرتبہ۔ نماز تسبیح پڑھنے کا طریقہ نماز تسبیح کی نیت اس طرح کی جائے نَوَیْتُ اَنْ اُصَلِّی اَرْبَعَ رَکَعَاتٍ صَلٰوۃَ التَّسْبِیْحِ میں نے چار رکعت نماز تسبیح پڑھنے کا ارادہ کیا۔ اس نیت کے بعد تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھے جائیں اور سبحانک اللھم پڑھ کر پندرہ مرتبہ یہ تسبیح کہی جائے سُبْحَانَ اللہ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَ اللہ اَکْبَرُ پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر الحمد اور سورت پڑھی جائے اس کے بعد دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھی جائے پھر رکوع میں اور رکوع سے اٹھ کر سَمِیْعَ ا لِمَنْ حَمِدَہ وَ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدِ کہہ کر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھی جائے پھر سجدے میں جا کر اور دونوں سجدوں میں سبحان ربی الاعلی کے بعد اور دونوں سجدوں کے درمیان دس دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھی جائے پھر دوسری رکعت میں الحمد سے پہلے پندرہ مرتبہ الحمد اور دوسری سورت کے بعد دس مرتبہ رکوع اور قومہ، دونوں سجدوں اور درمیان میں دس دس مرتبہ اسی تسبیح کو پڑھا جائے اسی طرح تیسری اور چوتھی رکعت پڑھی جائے اور ان میں یہی تسبیح اس تعداد میں پڑھی جائے۔

【36】

نماز تسبیح کی فضیلت

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عباس ابن عبدالمطلب (رض) سے فرمایا کہ اے عباس ! اے میرے چچا کیا نہ دوں میں آپ کو ؟ کیا نہ دوں میں آپ کو ؟ کیا نہ بتاؤں میں آپ کو ؟ کیا آپ کو دس خصلتوں کا مالک نہ بنادوں ؟ کہ اگر آپ ان کو اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے اور پچھلے، پرانے اور نئے، قصدًا اور سہواً ، چھوٹے اور بڑے، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہوں کو بخش دے (تو سنئے کہ) آپ چار رکعت نماز (اس طرح) پڑھئے کہ ہر رکعت میں سورت فاتحہ اور کوئی سورت پڑھیے۔ جب آپ پہلی رکعت میں قرأت سے فارغ ہوجائیں تو کھڑے ہی کھڑے پندرہ مرتبہ (یہ تسبیح) کہئے۔ سُبْحَانَ اللہ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَ اللہ اَکْبَرُ پھر رکوع میں جائیے اور (رکوع کی تسبیح سبحان ربی العظیم کہنے کے بعد) رکوع میں یہ تسبیح دس مرتبہ کہئے پھر رکوع سے سر اٹھائیے اور (سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد) یہ تسبیح دس مرتبہ کہے۔ پھر سجدے میں جائیے اور (سبحان ربی الاعلیٰ کہنے کے بعد) یہ تسبیح دس مرتبہ کہے، پھر سجدے سے سر اٹھائیے اور یہ تسبیح دس مرتبہ کہیے پھر (دوسرے) سجدے میں جائیے اور (سجدے کی تبلیغ کہنے کے بعد) یہ تسبیح دس مرتبہ کہے۔ پھر سجدے سے سر اٹھائیے اور یہ تسبیح دس مرتبہ کہئے یہ سب پچھتر تسبیحات ہوئیں ہر رکعت میں اسی طرح چاروں رکعت میں کیجئے ( یعنی مذکورہ طریقے سے یہ تسبیح پچھتر مرتبہ پڑھئے۔ اگر ہر ہفتہ میں نہ پڑھ سکیں تو مہینے میں ایک مرتبہ پڑھئے اگر ہر مہینہ میں نہ پڑھ سکیں تو سال میں ایک مرتبہ پڑھیے اور اگر ہر سال نہ پڑھ سکیں تو کم سے کم پوری عمر میں ایک مرتبہ (تو ضرور ہی) پڑھ لیجئے۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ، بیہقی، فی دعوات الکبیر) امام ترمذی نے اسی طرح کی روایت حضرت ابورافع سے نقل کیا ہے۔ تشریح کیا آپ کو دس خصلتوں کا مالک نہ بناؤں ؟ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ایسی چیز بتائے دیتاہوں جس کو آپ اگر اختیار کریں گے تو آپ کے دس قسم کے گناہ (جو حدیث میں ذکر کئے گئے ہیں) بخش دئیے جائیں گے۔ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ دس خصلتوں سے مراد اس نماز میں حالت قیام کی پندرہ مرتبہ تسبیح کہنے کے علاوہ بقیہ حالتوں میں دس دس مرتبہ تسبیح کہنا ہے۔ حدیث میں لفظ علانیۃ کے بعد عَشَرَ خِصَالٍ کے الفاظ یہاں مشکوٰۃ میں ذکر نہیں کئے گئے ہیں۔ لیکن اصول میں موجود ہیں۔ چناچہ حصن حصین میں بھی یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں اسی لئے طیبی نے لکھا ہے کہ سیاق حدیث کے پیش نظریہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ دس خصلتوں سے مراد یہ چیزیں ہیں۔ (١) چار رکعت نماز پڑھنا۔ (٢) ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنا۔ (٣) سورت فاتحہ کے ساتھ کوئی اور صورت پڑھنا۔ (٤) حالت قیام میں پندرہ مرتبہ مذکورہ تسبیحات کا کہنا۔ (٥) ان تسبیحات کا رکوع میں دس مرتبہ کہنا۔ (٦) ان تسبیحات کا دس مرتبہ قومہ میں کہنا۔ (٧) ان تسبیحات کا دس مرتبہ سجدے میں کہنا۔ (٨) ان تسبیحات کا دس مرتبہ جلسے میں کہنا۔ (٩) ان تسبیحات کا دس مرتبہ سجدے میں کہنا۔ (١٠) ان تسبیحات کا دس مرتبہ جلسہء استراحت میں کہنا۔ اس روایت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیام میں قرأت کے بعد پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھی جائے اسی طرح روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے سجدہ سے اٹھ کر بھی یہ تسبیح پڑھی جائے جب کہ ہم نے ابتداء باب میں یہ طریقہ نقل کیا ہے کہ حالت قیام میں سبحانک اللھم کے بعد پندرہ مرتبہ تسبیح پڑھی جائے پھر قرأت کے بعد دس مرتبہ تسبیح پڑھی جائے اور دوسرے سجدے سے اٹھنے کے بعد تسبیح پڑھنے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ تو یہ دونوں طریقے الگ الگ روایتوں میں مذکور ہیں پھر یہ کہ ان دونوں طریقوں میں تسبیح کی تعداد میں کوئی فرق نہیں ہے صرف پڑھنے کے مواقع میں فرق ہے اس لئے اختیار ہے کہ ان دونوں طریقوں میں سے جس طریقے کو چاہے اختیار کیا جائے اور بہتر یہ ہے کہ کبھی اس طریقے کے مطابق عمل کیا جائے اور کبھی اس طریقے کے مطابق تسبیحات پڑھی جائیں تاکہ قعدوں میں یہ تسبیحات بخلاف اور ارکان کے التحیات کے پہلے پڑھی جائیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے یہ منقول ہے کہ اس نماز میں یہ سورتیں پڑھی جائیں اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرْ ۔ وَالْعَصْرِ ، قُلْ یَا اَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ اور قُلْ ھُوَ ا اَحَدٌ بعض روایتوں میں اذا زلزلت وا لعادیات، اذاجاء اور سورت اخلاص کا پڑھنا بھی منقول ہے۔ جلال الدین سیوطی نے امام احمد سے یہ نقل کیا ہے کہ نماز تسبیح میں سلام پھیرنے سے پہلے یہ دعا بھی پڑھنی چاہیے۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ تَوْفِیْقَ اَھْلِ الْھُدٰی وَاَعْمَالَ اَھْلِ الْیَقِیْنِ وَمُنَا صِحَۃِ اَھْلِ التَّوْبَۃِ وَعَزْمَ اَھْلِ الصَّبْرِ وَجَدَّاَھْلِ الْخَشْیَۃِ وَطَلَبُ اَھْلِ الرَّغْبَۃِ وَتَعَبُّدَ اَھْلِ الْوَرْعِ وَعِرْفَانَ اَھْلِ الْعِلْمِ حَتّٰی اَخَافَکَ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مَخَافَۃَ تَحْجِزُنِیْ عَنْ مُعَاصِیْکَ وَحَتّٰی اَعْمَلَ بِطَاعَتِکَ عَمَلًا اَسْتَحِقُّ بِہ رَضَاکَ وَحَتّٰی اَنَا صِحُکَ بِالتَوْبَۃِ خَوْفًا مِنْکَ وَحَتّٰی اَخْلُصَ لَکَ النَصِیْحَۃَ حَیَائً مِنْکَ وَحَتّٰی اَتَوَکَّلَ عَلَیْکَ فِی الْاُمُوْرِ کُلِّھَا وَحُسْنَ ظَنٍّ بِکَ سُبْحَانَ خَالِقِ النُّوْرِ ۔ اے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں اہل ہدایت کی سی توفیق اہل یقین (یعنی راسخ العقیدہ اور راسخ العمل لوگوں) کے سے اعمال، اہل توبہ کی سی خالص توبہ، اہل صبر کی سی پختگی، اہل خشیت کی سخت کوشش، طالبین حق کی سی طلب، پرہیز گاروں کی سی عبادت اور اہل علم کی سی معرفت یہاں تک کہ میں تیری ہی ذات سے ڈرنے لگوں۔ اے اللہ ! میں تجھ سے (تیرے) خوف کا طلبگار ہوں جو مجھے تیری نافرمانیوں سے روک دے تاکہ میں تیری فرما نبرداری و خوشنودی کے وہ عمل کرنے لگوں جو مجھے تیری رضا کا مستحق گردانے تیرے خوف سے سچی توبہ کرنے لگوں یہاں تک کہ تیری ذات پر اچھا گمان رکھتے ہوئے تمام امور میں تیری ذات پر بھروسہ کرنے لگوں اور اپنے نور کے پیدا کرنے والے آپ ہر عیب اور برائی سے پاک ہیں۔ اس نماز کی فضیلت کے بارے میں عبدالعزیز ابن داؤد لکھتے ہیں کہ جو آدمی جنت میں داخل ہونا چاہے تو وہ نماز تسبیح کو اپنے اوپر لازم قرار دے لے۔ ابو عثمان زاہد نے فرمایا ہے کہ مصیبت و پریشانی کے دفیعہ اور غم و ھزن کو دور کرنے کے لئے اس نماز کے علاوہ میں نے کوئی اور چیز نہیں پائی۔ یعنی نماز تسبیح پڑھنے سے یہ چیزیں جاتی رہتی ہیں۔ اس نماز کی انہیں عظیم فضیلتوں کے پیش نظر اکثر ائمہ و مشائخ اور بزرگ اس نماز کو پڑھتے رہے ہیں۔ جمعہ کے روز دوپہر ڈھلنے کے بعد اس نماز کا پڑھنا مستحب ہے اگر اس نماز میں سجدہ سہو کی ضرورت پڑجائے تو سجدہ سہو کے اندر یہ تسبیحات نہ پڑھی جائیں کیونکہ اس طرح تسبیحات کی مقدار تین سو سے آگے بڑھ جائے گی۔ جن مسلمانوں کو اللہ نے اپنی عبادت و اطاعت کی توفیق دی ہے اور انہیں زیادہ سے زیادہ عمل خیر کرنے کی سعادت سے نوازا ہے ان کیلئے اس نماز کے پڑھنے کے سلسلہ میں درجہ اعتدال یہ ہے کہ یہ نماز ہر جمعہ کو پڑھی جائے چناچہ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کا اسی پر عمل تھا کہ وہ ہر جمعہ کے روز زوال کے بعد اس نماز کو پڑھتے تھے اور انہیں سورتوں کی قرأت کرتے تھے جو ابھی اوپر ان سے نقل کی گئی ہیں۔

【37】

قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کی پرستش ہوگی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سر تاج دو عالم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے روز بندہ کے اعمال میں سب سے پہلے جس عمل کے بارے میں محاسبہ کیا جائے گا وہ اس کی نماز ہوگی، لہٰذا اگر اس کی نماز درست ہوگی (یعنی اس نے نماز کو صحیح ادا کیا ہوگا۔ یا یہ کہ اس کی نماز مقبول ہوئی ہوگی۔ تو وہ فلاح اور کامیابی پائے گا اور اگر نماز فاسد ہوگی (یعنی نماز ادا نہ کی گئی یا ادا تو کی گئی مگر غیر صحیح اور غیر مقبول) تو وہ ثواب سے ناامید ہوگا اور (عذاب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے) خسارے میں رہے گا۔ ہاں اگر (کسی کی) فرض نماز میں کچھ کمی رہ گئی (یعنی نماز کے فرض، واجب اور سنت مؤ کدہ اور ارکان میں سے کوئی رکن رہ گیا اور نماز مکمل ہوگئی) تو اللہ بزرگ و برتر (فرشتوں سے) فرمائے گا کہ دیکھو میرے بندے کے پاس (یعنی اس کے نامہء اعمال میں) کچھ نفل یا سنت نماز بھی ہے۔ لہذا اگر اس کے نامہء اعمال میں سنت ونفل نماز ہوگی تو اس کے ذریعے سے اس کی فرض نماز کی کمی پوری کی جائے گی، پھر اسی طرح بندے کے دوسرے اعمال کا حساب ہوگا۔ ایک دوسری روایت میں آخری الفاظ یوں ہیں پھر ایسے ہی زکوٰۃ کا حساب ہوگا اور پھر بقیہ اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ یہ روایت ابوداؤد نے نقل کی ہے اور امام احمد بن حنبل (رح) نے یہ روایت ایک (دوسرے) آدمی سے نقل کی ہے۔ تشریح ایک دوسری روایت میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے جس چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا وہ خون ہوگا اور یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ سب سے پہلے نماز کا محاسبہ ہوگا۔ لہٰذا ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے تو سب سے پہلے نماز کا مواخذہ ہوگا اور بندوں کے حقوق میں سب سے پہلے خون کا حساب لیا جائے گا۔ حدیث کے آخری الفاظ پھر اسی طرح بندے کے دوسرے اعمال کا حساب ہوگا کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح فرض نماز کی کوئی کمی سنت و نفل نماز سے پوری کی جائے گی اسی طرح دوسرے فرض اعمال میں بھی کوئی کوتاہی ہوگی تو اسے نفل اعمال کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔ مثلاً اگر فرض روزوں میں کوئی نقصان واقع ہوگا تو وہ نقصان نفل روزے سے پورا کیا جائے گا اگر زکوٰۃ میں کچھ نقصان ہوگا تو صدقے نفل سے اسے پورا کیا جائے گا۔ اگر فرض حج میں کوئی کمی رہ گئی تو نفل حج یا عمرہ سے پوری کی جائے گی اور اگر کسی پر کسی کا کوئی حق (مطالبہ) ہوگا تو اس کے اعمال صالحہ سے اس مطالبہ کی بقدر حصہ لے کر صاحب مطالبہ کو دے دیا جائے گا اسی طرح تمام اعمال کے بارے میں پورا پورا محاسبہ کیا جائے گا۔

【38】

نماز اور نمازی کی عظمت و فضیلت

اور حضرت ابوامامہ (رض) راوی ہیں کہ سر تاج دو عالم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ جل شانہ، بندے کے کسی عمل پر اپنی رحمت کے ساتھ اتنا زیادہ متوجہ نہیں ہوتا جتنا کہ اس کی پڑھی ہوئی دو رکعت نماز پر (چونکہ تمام اعمال میں نماز سب سے زیادہ افضل ہے اس لئے بندے پر اس کے اور اعمال کی بسبب نماز پڑھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عنایت بہت زیادہ ہوتی ہے) اور بندہ جب تک نماز میں مشغول رہتا ہے اس کے سر پر نیکی و بھلائی چھڑ کی جاتی ہے (یعنی اس کے اوپر رحمت وثواب کا جو نیکی کا نتیجہ ہے نزول ہوتا ہے) بندہ اللہ کا تقرب حاصل کرنے میں جس قدر اس سے نکلے ہوئے سر چشمہ ہدایت یعنی قرآن کریم سے فائدہ اٹھاتا ہے اتنا کسی چیز سے نہیں (یعنی اللہ کا قرب جتنا زیادہ قرآن کریم پڑھنے سے ہوگا اتنا اور کسی چیز سے حاصل نہیں ہوگا۔ (احمد بن حنبل، جامع ترمذی )