130. جزیہ کا بیان

【1】

جزیہ کا بیان

جزیہ کس کو کہتے ہیں ؟ جزیہ اسلامی قانون کی ایک خاص اصطلاح ہے جس کا اطلاق اس خاص محصول (ٹیکس) پر ہوتا ہے جو اسلامی مملکت میں بسنے والے غیر مسلم افراد (ذمّیوں) سے طے شدہ مرضی کے مطابق لیا جاتا ہے۔ جزیہ اصل میں جزاء سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی بدلہ کے ہیں ! اس خاص محصول (ٹیکس) کو جزیہ اس لئے کہا جاتا ہے وہ گویا اسلامی ریاست میں ترک اسلام اور کفر پر قائم رہنے کا ایک بدلہ اور عوض ہے جو ان کے مال، جائداد، عزّت و آبرو کی حفاظت کے لئے وصول کیا جاتا ہے۔

【2】

مجو سیوں سے جزیہ لیا جاسکتا ہے

حضرت بجالہ (رح) (تابعی) کہتے ہیں کہ میں حضرت جزء ابن معاویہ (رح) (تابعی) کے ہاں جو حضرت احنف (رض) (صحابی) کے چچا تھے، منشی تھا۔ ایک مرتبہ) ہمارے پاس حضرت ( امیر المؤ منین) عمر بن خطاب (رض) کا ان کی وفات سے ایک سال پہلے ایک مکتوب آیا جس میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ مجو سیوں یعنی آتش پرستوں میں ان کے محارم کے درمیان تفریق کرادو۔ نیز ( راوی کہتے ہیں کہ) عمر (رض) (پہلے) مجو سیوں سے جزیہ نہیں لیا کرتے تھے یہاں تک کہ جب حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف (رض) نے گواہی دی ( یعنی انہوں نے یہ بیان کیا) کہ رسول کریم ﷺ نے ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا ( تب حضرت عمر (رض) نے مجو سیوں سے جزیہ لینا شروع کیا۔ (بخاری) ِ تشریح محرم اس قریبی رشتہ دار کو کہتے ہیں جس سے نکاح جائز ہو ماں، بیٹی اور بہن وغیرہ۔ مجوسیوں میں یہ دستور تھا کہ وہ اپنے محرم سے شادی کرلیا کرتے تھے، چناچہ حضرت عمر فاروق (رض) نے یہ حکم بھیجا کہ جن مجوسیوں نے اپنے محارم سے شادی کر رکھی ہو ان میاں بیوی کے درمیان تفریق کرادو یعنی ان کی شادی فسخ قرار دے دو ۔ اگرچہ اسلامی قانون کا یہ ضابطہ ہے کہ جو غیر مسلم اسلامی ریاست کے ذمہ و حفاظت میں ہوں ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے بلکہ ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی دی جائے اور یہ بات ( یعنی اپنے محرم سے شادی) چونکہ ان کے مذہب میں جائز تھی اس لئے حضرت عمر (رض) کا یہ حکم دینا بظاہر ایک سوالیہ نشان ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ اسلامی ریاست کی طرف سے ذمّیوں کو اپنے مذہبی معاملات میں پوری آزادی حاصل ہوتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امام وقت کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اسلامی قلم رو میں جہاں صرف اللہ کا اتارا ہوا قانون نافذ و جاری ہوتا ہے کسی بھی ایسے عمل کو روک دے جو براہ راست اسلامی شعار کے منافی اور دین کے بنیادی اصولوں اور قانون حکومت کے مخالف ہو۔ چناچہ مجوسیوں کا اپنے محرم سے شادی کرنا بھی چونکہ نہ صرف اسلامی شعار کے صریح مخالف ہی تھا بلکہ اخلاقی اور سماجی طور پر بھی نہایت مذموم اور شنیع فعل تھا اس لئے حضرت عمر (رض) نے اس طرح کی شادیوں کو ختم کردینے کا حکم صادر فرمایا۔ مجوسیوں کے بارے میں جمہور علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ان سے جزیہ لیا جائے بلکہ حنفیہ کے نزدیک عجمی بت پرستوں سے بھی جزیہ لیا جائے لیکن اس میں حضرت امام شافعی (رح) کا اختلافی قول ہے۔ ہجر ایک جگہ کا نام ہے جو بعض حضرات کے نزدیک یمن میں بحرین کے قریب ایک شہر تھا، مگر موجودہ محققین کے مطابق جزیرہ نمائے عرب کا مشرقی ساحل جو احساء کہلاتا ہے پہلے ہجر کے نام سے موسوم تھا اور اسی کو بحرین بھی کہتے تھے۔ وذکر حدیث بریدۃ اذا امرا میرا علی جیش فی باب الکتاب الی الکفار اور حضرت بریدہ کی روایت اذا امرا میرا الخ باب الکتاب الی الکفار میں نقل کی جاچکی ہے۔

【3】

جزیہ کی مقدار

حضرت معاذ (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول کریم ﷺ نے ان ( معاذ) کو ( قاضی و حاکم بنا کر) یمن روانہ کیا تو ان کو یہ ہدایت کی کہ وہ ( وہاں کے) ہر حاکم یعنی ہر بالغ سے ایک دینار یا ایک دینار کی قیمت کا معافری کپڑا جو یمن میں تیار ہوتا ہے (جزیہ کے طور پر) لیں ( ابوداؤد) تشریح ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ جزیہ نہ تو عورت پر عائد ہوتا ہے اور نہ بچے پر۔ ( اسی طرح مجنوں، اندھے اور فالج زدہ پر بھی) جز یہ واجب نہیں ہوتا۔ نیز وہ بوڑھا جو لڑنے اور کام کرنے پر قادر نہ ہو اور وہ محتاج جو کوئی کام کرنے پر قادر نہ ہو جز یہ سے مستثنیٰ ہے یہ حدیث بظاہر امام شافعی (رح) کے مسلک کی دلیل ہے جن کے نزدیک جزیہ کی واجب مقدار کے بارے میں غنی اور فقیر (یعنی امیر و غریب) برابر ہیں کیونکہ اس حدیث میں کوئی تخصیص کا ذکر نہیں ہے۔ لیکن حنفیہ کے نزدیک غنی ( امیر) پر ہر سال اڑتالیس درہم واجب ہوتے ہیں جو ہر مہینے چار درہم کے حساب سے ادا کرنے ہوتے ہیں، درمیانی درجہ والے پر ہر سال چوبیس درہم ہوتے ہیں جنہیں وہ ہر ماہ دو دو درہم کر کے ادا کرے گا اور فقیر یعنی نچلے طبقہ والے پر جو کمانے والا ہو بارہ درہم واجب ہوتے ہیں جنہیں وہ ہر ماہ ایک ایک درہم کرکے ادا کرے گا۔ اسی حنفی مسلک کے بارے میں ہدایہ میں لکھا ہے کہ یہ مسلک حضرت عمر، حضرت عثمان (رض) سے منقول ہے نیز انصار و مہاجرین میں سے کسی سے بھی اس کے خلاف منقول نہیں ہے اور جہاں تک اس حدیث کا سوال ہے جس میں ہر بالغ سے ایک ایک دینار لینا روایت کیا گیا ہے تو یہ صلح کی صورت پر محمول ہے کہ یمن چونکہ جنگ وجدال کے ذریعے فتح نہیں ہوا تھا بلکہ باہمی صلح کے ذریعہ یمن والوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے تسلّط و اقتدار میں دے دیا تھا لہٰذا جزیہ کے بارے میں بھی ان کے ساتھ مذکو رہ مقدار پر مصالحت ہوئی۔ یا یہ اس پر محمول ہے کہ اہل یمن چونکہ مالی طور پر بہت پس ماندہ اور خستہ حال تھے اس لئے ان پر جزیہ کی وہی مقدار واجب کی گئی جو فقراء ( غریبوں) پر واجب کی جانی چاہئے تھی۔

【4】

مسلمانوں پر جزیہ واجب نہیں

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک زمین میں دو قبلے نہیں ہونے چاہئیں اور مسلمان پر جزیہ عائد نہیں ہوسکتا۔ ( احمد، ترمذی ابوداد د) تشریح ایک زمین میں دو قبلے کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک علاقے میں دو مذہب برادری کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہیئں۔ گویا اس کے ذریعہ مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ کافروں یعنی اپنے دین کے دشمنوں کے درمیان دارالحرب میں سکونت اختیار نہ کریں اور نہ اس کے ذر یعہ اپنے آپ کو ذلیل و رسوا کریں۔ اسی طرح اسلامی ریاست کو چاہیے کہ وہ اپنی حدود میں کافروں یعنی دشمنان دین کو بغیر جزیہ کے سکونت اختیار نہ کرنے دے اور ان کے جزیہ دینے کی صورت میں ان کو اس طرح سر اٹھانے کا موقع نہ دے وہ علی الاعلان اسلامی ریاست کے بنیادی اصول و قوانین اور دینی عقائد و نظریات کے خلاف امور انجام دیں اور یہ آگاہی اس حقیقت کے پیش نظر ہے کہ ان دونوں ہی صورتوں میں دین اسلام اور کفر دونوں کا مساوی ہوجا نا لازم آتا ہے جب کہ اسلام کی نظر میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اسلام اس امر کا متقاضی ہوتا ہے کہ مسلمان جہاں بھی رہیں، قوت و شوکت اور عزت و رفعت کے مقام پر ہوں اور اسلام دشمن عنا صر ضعیف و کمزور اور بےوقعت رہیں۔ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اس حدیث میں یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرۃ العرب سے جلا وطن کردینے کی طرف اشارہ ہے جو اہل کتاب ہونے کی وجہ سے اہل قبلہ بھی ہیں اور ان دونوں کا الگ الگ قبلہ ہے جو اہل اسلام کے قبلہ کے خلاف ہے، تاکہ اس علا قہ میں دو قبلوں کو ماننے والوں کا وجود نہ رہے بلکہ صرف ایک قبلہ حقیقی کو ماننے والے یعنی مسلمان ہی رہیں۔ مسلمان پر جزیہ عائد نہیں ہوسکتا۔ میں اس صورت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مثلاً کوئی غیر مسلم، ذمی ہونے کی حیثیت میں اسلامی ریاست کا شہری بنا لیکن وہ جزیہ ادا کرنے سے پہلے مسلمان ہوگیا تو اب اس سے جزیہ کا مطالبہ نہ کیا جائے کیونکہ وہ مسلمان ہے اور مسلمان پر جزیہ عائد نہیں ہوتا۔

【5】

جزیہ پر صلح

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت خالد بن ولید (رض) کو اکیدر دومہ کے مقابلے پر بھیجا، چناچہ حضرت خالد (رض) اور ان کے ساتھیوں نے اس کو پکڑ لیا اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لے آئے، آنحضرت ﷺ نے اس کا خون معاف کردیا اور جزیہ پر اس سے صلح کرلی۔ ( ابوداو د) تشریح اکیدر الف کے پیش، کاف کے زیر یا کے جزم اور دال کے زیر کے ساتھ۔ دومہ کا بادشاہ تھا اور دومہ ایک شہر کا نام تھا۔ جو شام میں تبوک کے پاس واقع تھا اکیدر ایک نصرانی (عیسائی) تھا اس کے بارے میں آحضرت ﷺ نے یہ حکم دیا تھا کہ اس کو قتل نہ کیا جائے بلکہ زندہ پکڑ کر میرے پاس لایا جائے۔ چناچہ جب اس کو دربار رسالت میں لایا گیا آپ ﷺ نے اس پر جز یہ مقرر کیا۔ پھر بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس کو ہدایت بخشی اور وہ کامل مسلمان ہوگیا۔

【6】

یہود و نصاریٰ سے مال تجارت پر محصول لینے کا مسئلہ

حضرت حرب ابن عبیداللہ اپنے جد (نانا) سے اور وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ یہود و نصاریٰ پر عشر یعنی دسواں حصہ واجب ہے مسلمانوں پر ( چالیسواں حصہ واجب ہے، ان پر عشر واجب نہیں ہے۔ ( احمد، ابوداو د) تشریح یہاں عشر یعنی دسویں حصہ کا تعلّق مال تجارت سے ہے صدقات واجبہ ( یعنی زمینی پیداوار) کا عشر مراد نہیں ہے، کیونکہ مسلمانوں پر زمینی پیدوار کا عشر واجب ہوتا ہے۔ خطابی کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ پر عشر کی قسم سے جو چیز واجب ہوتی ہے وہ بس وہی ہے جس پر ان کو ذمی بناتے وقت صلح ہوئی ہو اور جس کا ان کے ساتھ معاہدہ ہوا ہو اور اگر ان کو ذمی بناتے وقت ان سے کسی چیز پر صلح نہیں ہوتی ہے تو اس صورت میں ان پر جزیہ کے علاوہ اور کچھ واجب نہیں ہوگا، چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک یہی ہے۔ اس سلسلے میں حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر یہود و نصاریٰ اپنے شہروں میں مسلمانوں کے داخل ہونے کے وقت ان کے مال تجارت پر محصول (ٹیکس) وغیرہ لیتے ہوں تو مسلمانوں کو بھی یہ حق حاصل ہوگا کہ جب ان کے شہروں میں یہود و نصاریٰ آئیں تو ان کے تجارت پر مسلمان بھی ان سے محصول لیں اور اگر وہ مسلمانوں سے کسی طرح کا کوئی محصول نہ لیتے ہوں تو پھر مسلمان بھی ان سے کوئی محصول نہیں لیں گے۔

【7】

ذمّیوں سے معاہدہ کی شرائط زبر دستی کرائی جا سکتی ہیں

اور حضرت عقبہ ابن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم جب ( جہاد کو جاتے) ہوئے ایک (فلاں) قوم ( کی آبادی) میں سے گذرتے ہیں تو وہ لوگ نہ ہماری میزبانی کرتے ہیں اور نہ ہمیں وہ چیز دیتے ہیں جس کا ہم ( از روئے اسلام) ان پر حق رکھتے ہیں ( یعنی اسلام کی رو سے ان پر ہمارا جو یہ حق ہے کہ وہ قرض وغیرہ دے کر ہماری ضرورتیں پوری کریں اور ہماری دیکھ بھال کریں وہ اس کو پورا نہیں کرتے) اور (چونکہ) ہم ان سے کوئی چیز ( زبردستی) حاصل نہیں کرتے ( اس لئے ہم سخت پریشان ہوتے ہیں اور ان کے اس رویہ کی وجہ سے ہمیں بڑی اضطراری حالت اور بڑے نقصان میں مبتلا ہونا پڑتا ہے) چناچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ لوگ ( تمہاری میزبانی کرنے یا تمہارے نقد و ادھار کوئی چیز فروخت کرنے سے انکار کریں اور (اس صورت میں) ان سے کوئی چیز زبردستی لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو (زبردستی) لے لو۔ (ترمذی) تشریح جن لوگوں کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے وہ دراصل ذمی تھے ( جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا بلکہ جزیہ ادا کر کے اسلامی قلم رو میں آباد تھے) اور ان کو ذمی بناتے وقت ان کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اس میں ان پر یہ شرط عائد کی گئی تھی جو مسلمان جہاد کے لئے جاتا ہو اور ان کے ہاں سے گذرے وہ اس کی میز بانی کریں، لیکن انہوں نے اس شرط سے رو گردانی کی چناچہ جو مسلمان جہاد کو جاتے ہوئے ان کے ہاں ٹھہر تے وہ نہ صرف یہ کہ ان کی میزبانی نہ کرتے بلکہ ان کے ہاتھ غلہ وغیرہ بھی فروخت نہیں کرتے تھے، جب مسلمانوں نے اس صورت حال سے تنگ آکر آنحضرت ﷺ سے اس بارے میں عرض کیا تو آپ ﷺ نے مذکو رہ حکم ارشاد فرمایا۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ ان ذمیوں پر پہلے سے اس طرح کی کوئی شرط عائد نہ کی گئی ہو تو اس صورت میں ان کے ہاں ٹھہر نے والے مسلمان کے لئے جو غیر مضطر ہو، یہ جائز نہیں ہوگا کہ وہ ان کے مال و اسباب ان کی رضا اور خوشی کے بغیر لے۔

【8】

ذمیوں پر جزیہ کی مقررہ مقدار کے علاوہ مسلمانوں کی ضیافت بھی واجب کی جا سکتی ہے

حضرت اسلم (رح) (تابعی) کہتے ہیں کہ حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے ( اپنے دور خلافت) ان ( ذمیوں) پر، جو ( بہت زیادہ) سونا رکھتے تھے، چار دینار جزیہ مقرر کیا اور جو ( ذمی) چاندی رکھتے تھے ان پر چالیس درہم جز یہ مقرر کیا اور اس کے علاوہ ان پر مسلمانوں کا خوردو نوش اور تین دن کی میزبانی بھی مقرر کی تھی۔ ( مالک) تشریح اور تین دن کی میزبانی الخ یہ اصل میں خوردو نوش کی وضاحت ہے، یعنی ان غیر مسلموں کو ذمی بناتے وقت ان پر جزیہ کی جو مذکو رہ مقدار مقرر کی گئی تھی اس کے ساتھ ہی ان کے لئے یہ بھی ضروری قرار دیا گیا تھا کہ جب ان کے ہاں کوئی مسلمان پہنچے تو وہ کم سے کم تین دن تک اس کی میزبانی کے فرائض انجام دیں۔ چناچہ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ ذمیوں سے ایک دینار سے زائد کی مقدار پر مصالحت کرنا کہ اگر ان کے ہاں سے مسلمان گذریں تو ان کی میزبانی کے فرائض انجام دیں، یہ جائز ہے اور اس میزبانی کے اخراجات اصلی جزیہ سے وضع نہیں ہو نگے بلکہ وہ جزیہ کی مقررہ مقدار سے ایک زائد چیز ہوگی۔ اس مسئلہ کی باقی تفصیل مرقات وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔