131. صلح کا بیان

【1】

صلح کا بیان

صلح اصل میں صلاح اور صلوح کا اسم ہے جو فساد بمعنی تباہی کے مقابلہ پر استعمال ہوتا ہے۔ اسلامی مملکت کے سر براہ کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ نظریہ توحید کے مطابق عالمگیر امن کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے، تبلیغ اسلام کی مطمح نظر کی خاطر انسانی سلامتی و آزادی کی حفاظت اور سیاسی و جنگی مصلح کے پیش نظر دشمن اقوام سے معاہدہ صلح و امن کرلے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ٦ ھ میں اپنے سب سے بڑے دشمن کفار مکہ سے صلح کی جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدہ صلح کی مقدار دس سال مقرر کی گئی تھی اور حدیث و تاریخ کے اس متفقہ فیصلہ کے مطابق کہ حدیبیہ کا یہی وہ معاہدہ صلح ہے جس نے نہ صرف اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی راہ میں بڑی آسانیاں پیدا کی بلکہ دنیا کو معلوم ہوگیا کہ اسلام، انسانیت اور امن کے قیام کا حقیقی علم دار ہے اور مسلمان اس راہ میں اس حد تک صادق ہیں کہ جنگ جو عرب اور بالخصوص کفار مکہ کے وحشیانہ تشدد اور عیارانہ سازشوں کے باوجود اس معاہدہ کی پوری پوری پابندی کرتے رہے لیکن اس معاہدہ صلح کی مدت پر تین سال ہی گذرے تھے کہ کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ کے حلیف بنو خزاعہ کے مقابلہ پر جنگ کرنے والے بنو بکر کی مدد کرکے اس معاہدہ کو توڑ ڈالا۔

【2】

صلح حدیبیہ

اور حضرت مسور ابن مخرمہ اور حضرت مروان ابن حکم سے روایت ہے۔ یہ دونوں کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ حدیبیہ کے سال اپنے ایک ہزار کچھ سو صحابہ کو لے کر (مدینہ سے) روانہ ہوئے، جب آپ ﷺ ذوالحلیفہ پہنچے ( جو مدینہ منورہ سے جنوب میں تقریباً چھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور جس کو ابیار علی بھی کہتے ہیں) تو ہدی ( یعنی اپنی قربانی کے جانور) کی گردن میں قلادہ باندہ اور اشعار کیا اور پھر ذوالحلیفہ (ہی) سے عمرہ کے لئے احرام باندھ کر آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کے جب ثنیہ ( یعنی اس گھاٹی پر) پر پہنچے جس طرف سے اہل مکہ پر اترا جاتا ہے تو آنحضرت ﷺ کی اونٹنی ( جس کا نام قصواء تھا) آپ ﷺ کو لے کر بیٹھ گئی، ( جب) لوگوں نے ( یہ دیکھا تو) کہنا شروع کیا حل حل ( یہ لفظ اونٹ کو اٹھا نے کے لئے کہا جاتا ہے) قصواء اڑ گئی قصو اء اڑگئی۔ نبی کریم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا نہیں ! قصواء نے اڑ نہیں کی ہے اور نہ اس کو اڑ نے کی عادت ہے، بلکہ اس کو اس ذات ( اللہ تعالیٰ ) نے روک دیا ہے جس نے ہاتھی کو روکا تھا۔ اور پھر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے قریش مجھ سے ایسی جو بات بھی چاہیں گے جس میں اللہ تعالیٰ (کے حرم) کی عظمت ہو تو میں ان کی اس بات کو پورا کروں گا یعنی آج مکہ کے لوگ صلح کے وقت ایسی جس بات کا بھی مطالبہ کریں گے جس میں حرم مکہ کی عظمت کا لحاظ ہو تو میں اس کو پورا کروں گا۔ پھر آپ ﷺ نے اونٹنی کو اٹھایا جو فورًا اٹھ گئی اور آپ ﷺ اہل مکہ کا راستہ چھوڑ کر دوسری سمت کو چلنے لگے تاآنکہ حدیبیہ کے آخری کنارہ پر پہنچ کر جہاں ( ایک گھڑے میں) تھوڑا سا پانی تھا اتر گئے ( اور وہاں پڑاو، ڈال دیا) لوگوں نے اس گھڑے میں سے تھوڑا تھوڑا سا پانی لے کر استعمال کرنا شروع کیا یہاں تک کے ذرا ہی دیر میں سارے پانی کو کھینچ ڈالا ( یعنی اس گھڑے میں پانی چونکہ بہت تھوڑا تھا اس لئے لوگوں کے کم سے کم مقدار لینے کے باوجود وہ پانی بہت جلد ختم ہوگیا) لوگوں نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پیاس کی شکایت کی۔ آپ ﷺ نے اپنے تر کش میں سے ایک تیر نکالا اور صحابہ کرام کو حکم دیا کہ تیر کو پانی کے ( اس گڑھے) میں ڈال دیا جائے۔ اور پھر ( راوی کہتے ہیں کہ) اللہ کی قسم ! ( اس تیر کی برکت سے) ان لوگوں کو سیراب کرنے کے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا پانی ( گویا) موجیں مارتا رہا تاآنکہ سب اس پانی پر سے ہٹ گئے ( یعنی اللہ تعالیٰ نے اس گھڑے میں اتنا زیادہ پانی پیدا فرمایا کہ سب لوگوں کی ضرورتیں نہایت اطمینان سے پوری ہوتی رہیں بلکہ جب وہاں سے واپسی ہوئی تو اس وقت بھی پانی باقی رہا) بہر حال صحابہ اسی حالت میں تھے، اچانک بدیل ابن ورقہ خزاعی، خزا عہ کہ کچھ لوگوں کے ساتھ ( کفار مکہ کی طرف سے مصالحت کے لئے) آیا، پھر عروہ ابن مسعود بھی آپ ﷺ کی خدمت میں پہنچا۔ اس کے بعد بخاری نے ( وہ طویل گفت و شنید نقل کی، جو آنحضرت ﷺ اور بدیل اور عروہ کے درمیان ہوئی، جس کو صاحب مصابیح نے اختصار کے پیش نظر یہاں نقل نہیں کیا اور پھر یہ) بیان کیا کہ آخر کار جب سہیل ابن عمر و ( اہل مکہ کا آخری سفیر اور نمائندہ بن کر آیا تو نبی کریم ﷺ نے (حضرت علی) سے فرمایا کہ لکھو۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ سہیل نے ( یہ الفاظ دیکھ کر) کہا کہ واللہ ! اگر ہم یہ مانتے کہ تم اللہ کے رسول ہو تو نہ ہم تمہیں خانہ کعبہ ( میں جانے) سے روکتے اور نہ جنگ کرتے۔ لہٰذا یوں لکھو کہ ( یہ وہ معاہدہ ہے جس پر) محمد ابن عبداللہ ( نے صلح کی ہے ) ۔ نبی کریم ﷺ نے ( یہ سن کر) فرمایا کہ اللہ کی قسم ! میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم مجھو کو جھوٹا سمجھتے ہو ( خیر میں مصالحت کی خاطر الفاظ میں تمہاری اس ترمیم کو تسلیم کئے لیتا ہوں) علی ! تم محمد ابن عبداللہ ہی لکھ دو ۔ پھر سہیل نے یہ کہا کہ اور اس معاہدہ صلح میں اس بات کو بھی تسلیم کرو کہ ( تم میں سے جو شخص ہمارے ہاں آجائے گا ہم تو اس کو واپس نہ جانے دیں گے لیکن) ہم میں سے جو شخص تمہارے ہاں چلا جائے گا اگرچہ وہ تمہارے دین کو قبول کرچکا ہو اس کو تم ہمارے ہاں واپس کردو گے۔ ( چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس کو بھی قبول کرلیا، اس موقع پر بھی واقعہ میں اختصار سے کام لیا گیا ہے یعنی صاحب مصابیح نے اسی معاہدہ سے متعلّق بخاری کی بیان کردہ ساری تفصیل کو نقل نہیں کیا ہے یا یہ بخاری کی کوئی اور روایت ہے جس میں صرف اسی قدر بیان کیا گیا ہے) بہر حال جب آنحضرت ﷺ ( یا حضرت علی) صلح نامہ لکھے جانے سے فارغ ہوئے تو رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ اٹھو جاؤ، اب ( ہدی کے جانوروں کو) ذبح کر ڈالو اور سر منڈھواؤ۔ اس کے بعد ( مکہ سے) کئی عورتیں مسلمان ہو کر آئیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا۔ آیت ( يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ ا اِذَا جَا ءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّ ) 60 ۔ الممتحنہ 10) اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں ہجرت کرکے آئیں الخ ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ( اس آیت کے ذریعہ) مسلمانوں کو اس بات سے منع کیا کہ وہ ان عورتوں کو ( کفار مکہ کے ہاں) واپس کردیں اور انہیں اس بات کا حکم دیا کہ ان کا مہر واپس کردیں، اس کے بعد آنحضرت ﷺ مدینہ واپس تشریف لے آئے ( کچھ دنوں کے بعد) قریش کے ایک شخص ابوبصیر جو مسلمان ہوگئے تھے ( مکہ سے نکل کر) آنحضرت ﷺ کے پاس آئے، قریش مکہ نے دو آدمیوں کو ان کی تلاش میں ( مدینہ) بھیجا، آنحضرت ﷺ نے ( معاہدہ صلح کے مطابق) ابوبصیر کو ان دونوں آدمیوں کے حوالے کردیا، وہ دونوں آدمی ابوبصیر کو لے کر ( مکہ) روانہ ہوئے اور جب ( پہلی منزل) ذوالحلیفہ میں قیام کیا اور ان کے پاس جو کھجوریں تھیں ان کو کھانے لگے تو ابوبصیر نے ان میں سے ایک شخص کو مخاطب کرکے کہا اللہ کی قسم، اے فلاں شخص ! میرا خیال ہے کہ تمہاری یہ تلوار ( بہت اچھی ہے) ذرا مجھے تو دکھلاؤ میں بھی اس کو دیکھوں، اس شخص ابوبصیر کو وہ تلوار دیکھنے کا موقع دے دیا یعنی ( اس نے اپنی تلوار ابوبصیر کے ہاتھ دے دی، بس اتنا موقع کافی تھا) ابوبصیر نے اس پر ( اس تلوار سے اتنا بھر پور وار) کیا کہ وہ فوراً ٹھنڈا ہوگیا ( یعنی مرگیا) اور دوسرا شخص ( یہ دیکھتے ہی وہاں سے) بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ مدینہ میں (واپس آگیا اور اپنے قتل کے خوف سے) دوڑتا ہوا مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوا رسول کریم ﷺ نے (اس کی حالت دیکھ کر) فرمایا کہ یہ شخص خوفزدہ معلوم ہوتا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ ( جی ہاں) اللہ کی قسم میرا ساتھی تو مارا گیا اور میرے بھی مارے جانے میں کوئی شبہ نہیں ہے ( یعنی مجھ پر خوف سوار ہے کہ میں بھی مارا جاؤں گا میں بچ ہی گیا ورنہ میں بھی مارا جاتا) پھر ابوبصیر بھی آگئے نبی کریم ﷺ نے ( ان کو دیکھ کر) فرمایا کہ افسوس ہے اس کی ماں پر ! ( یعنی تعجب وحیرت کا مقام ہے) یہ ابوبصیر تو لڑائی کی آگ بھڑکا نے والا ہے اگر اس کا کوئی مددگار ہوتا، تو وہ اس کی مدد کرتا) ۔ جب ابوبصیر نے آنحضرت ﷺ کی یہ بات سنی تو وہ سمجھ گئے کہ آنحضرت ﷺ مجھے ( پھر) کافروں کے پاس واپس بھیج دیں گے چناچہ ابوبصیر ( دوبارہ کافروں کے حوالے کئے جانے کے خوف سے روپوش ہونے کے لئے) مدینہ سے نکل گئے یہاں تک کے وہ سمندر کے ساحل پر ایک علاقہ میں پہنچ گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ ابوجندل ابن سہیل بھی کفار کے قبضے سے نکل بھاگے اور ابوبصیر سے آکر مل گئے اور پھر تو یہ حال ہوا کہ ( مکہ میں) جو بھی شخص اسلام قبول کر کے قریش کے قبضہ سے نکل بھاگتا وہ ابوبصیر سے جاملتا یہاں تک کے ( چند ہی روز میں ابوبصیر کے پاس) قریش سے چھوٹ کر آنے والوں کا ایک بڑا گروہ جمع ہوگیا اور اللہ کی قسم ! جب بھی یہ لوگ سنتے کہ قریش کا کوئی قافلہ ( تجارت وغیرہ کے لئے) شام کی طرف روانہ ہوا ہے، وہ اس کا پیچھا کرتے اور اس کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کا سارا مال و اسباب لے لیتے آخر کار ( جب ان لوگوں کی وجہ سے) قریش ( کا ناطقہ بند ہوگیا اور وہ سخت پریشانی میں مبتلا ہوگئے تو ان کو احساس ہوا کہ ہم نے مسلمانوں سے ایک انتہائی غیر معقول شرط منوا کر کتنی بڑی نادانی کی ہے اور اس کا خمیازہ کس طرح بھگتنا پڑ رہا ہے لہٰذا انہوں) نے کسی شخص کو ( اپنا سفیر و نمائندہ بنا کر) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجا اور اس کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کو اللہ کی قسم دلائی اور (اس) قرابت کے حق کا واسطہ دیا ( جو ان میں اور آنحضرت ﷺ میں تھی اور یہ التجا کی کہ آپ کسی نہ کسی طرح صرف اتنا کرم ضرور کردیں کہ اپنے کسی آدمی کو ابوبصیر اور ان کے ساتھیوں کے پاس بھیج کر یہ حکم دیں کہ وہ مدینہ میں آجائیں اور ہمارے کسی قافلہ کے ساتھ تعرص نہ کریں) اور جب آپ ان کو یہ حکم بھیج دیں ( اور وہ لوگ آپ کے پاس چلے آئیں) تو پھر ( ہم اہل مکہ میں سے) جو بھی شخص ( مسلمان ہو کر) آپ کے پاس آئے گا وہ امن میں رہے گا (یعنی نہ صرف یہ کہ اس کی راہ میں کوئی رکا وٹ نہیں ڈالی جائے گی بلکہ اس کو ہمارے پاس) واپس بھیجنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ نیز انہوں نے کہا کہ آپ ابوبصیر کو ان کے طریقہ کار سے روک دیں ہم معاہدہ صلح کی اس شرط سے باز آئے) چناچہ نبی کریم ﷺ نے کسی شخص کو ابوبصیر اور ان کے ساتھیوں کے پاس بھیجا ( جس کے ذریعہ ان کو یہ حکم دیا کہ وہ قریش کے قافلوں سے کوئی تعرض نہ کریں اور میرے پاس چلے آئیں ) ۔ ( بخاری) تشریح حدیبیہ مکہ مکرمہ سے مغربی جانب تقریباً پندرہ سو میل کے فاصلے پر واقع ایک جگہ کا نام ہے یہیں جبل الشمیسی نامی ایک پہاڑ ہے جس کی وجہ سے اب اس کو شمیسیہ بھی کہتے ہیں، حدود حرم یہاں سے بھی گذرتے ہیں بلکہ اس جگہ کا اکثر حرم ہی میں داخل ہے۔ ایک ہزار کچھ سو صحابہ الخ میں بضع کا اطلاق تین سے نو تک کی تعداد پر ہوتا ہے۔ یہاں تعداد کو متعین کی بجائے مبہم اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ اس موقع پر صحابہ کی جو تعداد آنحضرت ﷺ کے ہمراہ تھی اس کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔ بعض روایتوں میں چودہ سو کی تعداد بیان کی گئی ہے بعض میں پندرہ سو اور بعض روایتوں میں ایک ہزار چار سو یا اس سے زیادہ کے الفاظ بھی ہیں۔ علماء نے ان روایتوں میں یوں مطابقت پیدا کی ہے کہ ابتداء میں تو آنحضرت ﷺ چودہ سو صحابہ کے ساتھ روانہ ہوئے تھے لیکن بعد میں مختلف مراحل پر اس تعداد میں اضافہ ہوتا رہا چناچہ جس راوی نے سو سے پہلے شمار کیا اس نے چودہ سو کی تعداد پائی اور پھر بعد میں جن لوگوں کا اضافہ ہوا اس نے ان کو نہیں دیکھا لہٰذا اس نے اپنی روایت میں چودہ سو کی تعداد بیان کی لیکن جس راوی نے بعد میں آنے والے لوگوں کو بھی دیکھا اس نے پندرہ سو کی تعداد کا ذکر کیا اور جس راوی نے تعداد کی تعین و تحقیق نہیں کی اس نے اپنی روایت میں ایک ہزار چار سو یا اس سے زیادہ کو بیان کیا۔ ذبح کر ڈالو اور پھر منڈھواؤ احصار یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھ لینے کے بعد اس حج یا عمرہ کی ادائیگی سے روک دیئے جانے کی صورت میں یہی حکم ہے، چناچہ حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ جس کو حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد اس حج یا عمرہ سے روک دیا گیا ہو جس کو محصر کہتے ہیں۔ تو وہ اپنے ہدی کو اسی جگہ ذبح کر ڈالے جہاں وہ روک دیا ہے اگرچہ وہ جگہ حدود حرم میں واقع نہ ہو وہ اپنے قول کی دلیل میں یہ بات پیش کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر حدیبیہ میں ہدی کو ذبح کرنے کا حکم دیا تھا جب کہ حدیبیہ حدود حرم میں نہیں ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک ہدی کا چونکہ حدود حرم میں ذبح ہونا شرط ہے اس لئے ان کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ حدیبیہ کا سارا علاقہ حدود حرم سے باہر نہیں ہے بلکہ اس کا بعض حصہ بلکہ اکژ حصہ حدود حرم میں داخل ہے اور ظاہر ہے کہ اس موقع پر ہدی اسی حصے میں ذبح کی گئی تھی جو حدود حرم میں ہے۔ ان کو مہر واپس کردیں اس حکم کا مطلب یہ تھا کہ اگر ان مسلمان عورتوں کے کافر خاوند ان کو لینے کے لئے آئیں اور وہ ان کے مہر ادا کرچکے ہوں تو وہ مہر ان کو واپس کردیا جائے۔ تفسیر مدارک وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مہر کو واپس کردینے کا یہ حکم اسی موقع کے لئے مخصوص تھا پھر بعد میں اس کو منسوخ قرار دے دیا گیا۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ معاہدہ صلح کی یہ شرط کہ مکہ سے جو شخص آپ کے پاس آئے گا اگرچہ وہ مسلمان ہو کر آئے تو اس کو کفار مکہ کے حوالے کرنا ضروری ہوگا ۔ صرف مردوں سے متعلّق تھی اسی لئے جب مکہ کی یہ عورتیں مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئیں تو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا کہ صلح نامہ میں صرف مردوں کو واپس کرنا طے پایا تھا نہ کہ عورتوں کو بھی، اس لئے ان عورتوں کو جو اپنے آپ کو بڑی آزمائش اور سخت ابتلاء میں ڈال کے آئیں ہیں واپس نہ کیا جائے۔ اگر اس کا کوئی مددگار ہوتا الخ کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ سے واضح ہوا اور ایک مطلب یہ ہے کہ کاش ! اس وقت کوئی خیر خواہ ابوبصیر کے پاس ہوتا جو اس کو یہ بتادیتا کہ وہ اب میرے پاس نہ آئے تاکہ میں اس کو دوبارہ واپس نہ کردوں۔ حدیث کے سیاق کے مطابق یہی مطلب زیادہ مناسب ہے۔ جب ابوبصیر نے آنحضرت ﷺ کی یہ بات سنی الخ یعنی جب آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا کہ یہ ابوبصیر تو لڑائی کی آگ بھڑکانے والا ہے۔ تو وہ سمجھ گئے کہ یہاں مدینہ میں مجھے پناہ نہیں ملے گی بلکہ مجھے دوبارہ کفار کے حوالے کردیا جائے گا کیونکہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد صریحاً اس طرف اشارہ کر رہا تھا کہ آپ ﷺ ہر حالت میں صلح کی پابندی کریں گے اور نہ تو ابوبصیر کو اپنے پاس رکھیں گے اور نہ ان کی کوئی مدد کریں گے۔ حضرت ابوجندل (رض) اسی سہیل کے بیٹے تھے جو صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش مکہ کا سفیر اور نمائندہ بن کر آیا اور جس نے حضور اکرم ﷺ کے ساتھ معاہدہ صلح کیا تھا) حضرت ابوجندل (رض) مکہ ہی میں اسلام قبول کرچکے تھے جس کے نتیجے میں ان کے باپ سہیل نے ان کو قید کردیا تھا چناچہ پہلے تو وہ کسی نہ کسی طرح مکہ سے بھاگ کر حدیبیہ گئے تھے لیکن آنحضرت ﷺ نے معاہدہ صلح کی مذکورہ شرط کے مطابق انہیں تسلی، دلاسہ کے ذریعے سمجھا بجھا کر اور بڑی بحث و تکرار کے بعد مکہ واپس کردیا تھا مگر پھر دوبارہ وہ مکہ سے بھاگ نکلے اور ابوبصیر سے آکر مل گئے۔

【3】

صلح حدیبیہ کی تین خاص شرطیں

اور حضرت براء ابن عازب (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حدیبیہ کے دن تین باتوں پر صلح کی تھی۔ اول تو یہ کہ ( مکہ کے) مشرکین میں سے جو شخص ( مسلمان ہو کر) آنحضرت ﷺ کے پاس آئے گا آنحضرت ﷺ اس کو مشرکین کے پاس واپس کردیں گے اور مسلمانوں میں سے جو شخص مشرکین کے پاس آئے گا اس کو مشرکین واپس نہیں کریں گے، دوم یہ کہ آنحضرت ﷺ ( حج وعمرہ کے لئے اس سال مکہ میں داخل نہ ہوں بلکہ) آئندہ سال مکہ آئیں اور صرف تین دن مکہ میں ٹھہریں اور سوم یہ کہ ( آئندہ سال) مکہ میں جب داخل ہوں تو اپنے تمام ہتھیار، تلوار، کمان اور اسی طرح کی دوسری چیزیں غلاف میں رکھ کر لائیں۔ اس موقع پر ابوجندل (رض) آنحضرت ﷺ کے پاس اس حال میں پہنچے کہ ان کے پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئیں تھیں جن کی وجہ سے وہ کود ( کود کر چل رہے تھے لیکن آنحضرت ﷺ نے ان کو مشرکین کے پاس واپس بھیج دیا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح جلبان چمڑے کا ایک تھیلا ہوتا تھا جس کا مصرف یہ تھا کہ جب لوگ سفر کرتے تو نیام سمیت تلواریں اور دوسرے ہتھیار وغیرہ اس میں رکھ کر گھوڑے کی زین کے پچھلے حصہ میں لٹکا دیتے تھے۔ یہاں جلبان یعنی غلاف میں ہتھیاروں کو رکھ کر لانے کی شرط سے مشرکین کی مراد یہ تھی کہ جب آئندہ سال مسلمان مکہ آئیں تو اپنے ہتھیار ننگے کھلے لے کر شہر میں نہ داخل ہوں بلکہ ان کو نیام وغیرہ میں رکھیں تاکہ اس طرح مسلمانوں کے غلبہ ان کی طاقت کی فوقیت و برتری اور ان کے جنگی ارادوں کا اظہار نہ ہو۔ حضرت ابوجندل ابن سہیل جن کے بارے میں پچھلی حدیث کے ضمن میں بھی بیان کیا جا چکا ہے، مکہ ہی میں اسلام قبول کرچکے تھے اور جن دنوں صلح حدیبیہ ہوئی ہے وہ مشرکین مکہ کی قید میں تھے، چناچہ وہ کسی طرح مکہ سے بھاگ کر آنحضرت ﷺ کے پاس حدیبیہ پہنچے لیکن آنحضرت ﷺ نے معاہدہ صلح کے پیش نظر ان کو مشرکین کے حوالے کردیا اور انہیں صبر و استقامت کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ ابوجندل ! صبر و استقامت کی راہ اختیار کرو اور آخرت کے اجر وثواب کی امید رکھو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بھی اور دوسرے ضعیف و بےبس لوگوں کے لئے بھی ( جلد ہی) خلاصی و نجات اور شادمانی کے سامان پیدا کر دے گا۔ علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا اہل مکہ کی ان شرائط کو قبول کرنا جو بظاہر مسلمانوں کے لئے سوہان روح اور ان کی ملی حمیت و وقار کے منافی تھیں، اس وجہ سے تھا کہ ایک تو اس وقت مسلمان بہرحال کمزور و خستہ حال تھے اور ان میں اتنی مادی طاقت اور ان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے جن کے ذریعہ وہ اہل مکہ کا مقابلہ کر پاتے، دوسرے یہ کہ آنحضرت ﷺ بھی مدینہ سے کسی جنگ کے ارادے سے نہیں چلے تھے بلکہ عمرہ کے لئے روانہ ہوئے تھے اور اس کے لئے احرام بھی باندھ چکے تھے، ادھر حدود حرم کی عظمت اور ان کے شرعی تقاضوں کا لحاظ بھی ضروری تھا، نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنگ کرنے کا حکم بھی نازل نہیں ہوا تھا ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مصلحتیں تھیں جو آپ ﷺ کے پیش نظر تھیں۔ چناچہ انجام کار اس معاہدہ صلح کے بہت زیادہ فائدے ظاہر ہوئے کہ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے ایسے مواقع میسر آئے جنہوں نے دور دراز تک کی فضا کو مسلمانوں کے حق میں بدل دیا اور اسلام کی آواز چار دانگ عالم میں پھیل گئی، پھر اللہ تعالیٰ نے مکہ کی فتح عظیم عطا فرمائی، وہاں کے لوگوں کو اسلام کے دامن میں پہنچادیا اور اس طرح یہ ثابت ہوگیا کہ اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے اہل مکہ کی پیش کردہ شرائط پر معاہدہ صلح کر کے اپنے جذبہ امن پسندی و انسانیت نوازی ہی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنی بےمثال سیاسی بصیرت و بالغ نظری اور دور اندیشی کا نمونہ بھی پیش کیا اور سب سے بڑھ کر حقیقت میں منشاء الٰہی اور حکم الٰہی کی فرماں برداری کی اور کمال عبودیت کا اظہار کیا۔

【4】

صلح حدیبیہ کی تین خاص شرطیں

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ( مکہ کے) قریش نے نبی کریم ﷺ سے مصالحت کی۔ چناچہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے یہ شرط منوائی کہ آپ میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے ہم اس کو واپس نہیں کریں گے اور ہم میں سے جو شخص آپ کے پاس آئے آپ ﷺ اس کو ہمارے پاس واپس کردیں گے۔ صحابہ نے ( اس شرط کو اپنی ملی حمیّت و وقار کے منافی اور اصول مصالحت کے تقاضوں سے بعید جان کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم ان شرائط کو لکھ دیں یعنی کیا یہ شرائط آپ تسلیم کرتے ہیں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ! بات یہ ہے کہ ہم میں سے جو شخص ان کے پاس جائے گا، تو ( ظاہر ہے کہ وہ مرتد ہو کر بھاگے گا اس اعتبار سے) وہ ( ایک ایسا) شخص ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور کردیا ہوگا اور ان میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا ( اس کو اگرچہ اس وقت ہم واپس کرنے پر مجبور ہوں گے لیکن آخر کار) اللہ تعالیٰ جلد ہی اس کے لئے شادمانی و کشادگی اور خلاصی ونجات کے سامان پیدا کر دے گا۔ (مسلم)

【5】

عورتوں کی بیعت

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) عورتوں کی بیعت کے بارے میں فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ ان عورتوں کو ( جو مکہ سے آتیں اور قبولیت اسلام کا اظہار کرتیں) اس آیت کریمہ کی روشنی میں پرکھتے تھے آیت (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَا ءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ ) 60 ۔ الممتحنہ 12) اے نبی ! جب مؤمن عورتیں آپ ﷺ کے پاس بیعت کے لئے حاضر ہوں الخ ۔ چناچہ ان میں سے جو عورت اس آیت میں مذکورہ شرائط کو ماننے کا اقرار کرتی آپ اس سے فرماتے کہ میں نے تم کو بیعت کیا۔ درآنحالیکہ آپ گفتگو کرتے اور عورت سے یہ بات فرماتے مگر اللہ کی قسم ! کبھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے کسی عورت کو بیعت کیا ہو اور اس کے ہاتھ کو آپ ﷺ کے ہاتھ نے چھوا ہو۔ ( بخاری و مسلم) تشریح اس آیت کریمہ کی روشنی میں پرکھتے تھے۔ یعنی اس آیت میں عورتوں کے لئے جن احکام کی پابندی کو بیعت کی شرط قرار دیا گیا ہے آپ ﷺ ان عورتوں سے ان احکام پر عمل کرنے کا عہد کرتے جب وہ عہد و اقرار کرتیں تو آپ ﷺ ان کو بیعت کرتے چناچہ اس پوری آیت کا مفہوم و مضمون یہ ہے کہ مسلمان عورتیں ان شرائط پر ( یعنی ان احکام پر عمل کرنے کی) بیعت کریں کہ وہ ( عورتیں) کسی ذات اور کسی چیز کو اللہ کا شریک نہیں مانیں گیں ( یعنی ہر طرح کے شرک سے کلیۃ اجتناب کریں گیں) چوری نہیں کریں گیں، زنا کی مرتکب نہیں ہونگی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گیں ( جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ بیٹیوں کو مار ڈالا جاتا تھا) کسی پر تہمت نہیں لگائیں گیں اور عصیان نہیں کریں گیں ( یعنی اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے رو گردانی نہیں کریں گیں، اس اعتبار سے یہ آیت کریمہ کی تفسیر و وضاحت ہے جو پہلی حدیث میں گذر چکی ہے یعنی آیت ( يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَا ءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ ) 60 ۔ الممتحنہ 12) حدیث کے آخری جزء کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ بیعت، ہاتھ میں ہاتھ لے کر یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کرلی جاتی ہے لیکن آنحضرت ﷺ عورتوں سے زبانی بیعت لیتے تھے یعنی ان سے یہ فرماتے تھے کہ میں نے تمہاری بیعت قبول کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض مشائخ عورتوں سے بیعت لینے کا جو یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ مرید کرتے وقت کسی برتن میں رکھے ہوئے پانی میں اپنے ہاتھ ڈالتے ہیں اور وہ عورت بھی اپنا ہاتھ اس پانی میں ڈالتی ہے، یا بعض حضرات یہ کرتے ہیں کہ کسی کپڑے کا ایک آنچل اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہیں اور دوسرا آنچل عورت پکڑ لیتی ہے، تو اس طرح کے تکلّفات کی ضرورت نہیں بلکہ جو طریقہ آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے اسی پر اکتفا کرنا افضل و احسن ہے۔ مؤلف کتاب نے بیعت سے متعلّق اس حدیث کو یہاں باب الصلح میں اس لئے نقل کیا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ کا صحابہ کرام سے بیعت لینے کا مرحلہ بھی آیا تھا جو بیعت الرضوان کے نام سے مشہور ہے اور جس کو قرآن کریم نے بھی اس آیت ( لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 48 ۔ الفتح 18) میں بیان کیا ہے اسی مناسبت سے عورتوں کی بیعت سے متعلّق اس حدیث کو یہاں نقل کیا گیا ہے اگرچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر عورتوں سے بیعت نہیں لی گئی تھی۔

【6】

معاہدہئ حدیبیہ کی کچھ اور دفعات

حضرت مسور اور حضرت مروان سے روایت ہے کہ قریش مکہ نے ( حدیبیہ میں) جن باتوں پر مصالحت کی تھی ان میں سے ایک بات ( یہ بھی) تھی کہ دس سال تک ( فریقین کے درمیان) کوئی جنگ نہیں ہوگی تاکہ ان دنوں میں لوگ امن وامان کے ساتھ رہیں۔ یہ بات بھی معاہدہ صلح میں شامل تھی ہمارے درمیان بندھی ہوئی گٹھری رہے اور یہ کہ ہم آپس میں نہ تو چھپی ہوئی چوری کریں اور نہ خیانت۔ (ابو داو د) تشریح بندھی ہوئی گٹھری سے مراد یہ تھی کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے لئے اپنے سینوں کو مکر و فریب، کینہ و عداوت اور شر و فساد سے پاک رکھیں اور صلح و وفا کا ہر وقت خیال رکھیں۔ نہ چھپی ہوئی چوری کریں اور نہ خیانت کا مطلب یہ تھا کہ ہر فریق اس بات کو ملحوظ رکھے کہ اس کا کوئی فرد دوسرے فریق کے کسی فرد کا کوئی مال اور اس کی کوئی چیز نہ تو چوری چھپے ہتیائے اور نہ کھلم کھلا غصب کرے۔ غیر مسلموں سے کئے ہوئے معاہدوں کی پابندی نہ کرنے والوں کے خلاف آنحضرت ﷺ کا انتباہ

【7】

معاہدہئ حدیبیہ کی کچھ اور دفعات

اور حضرت ابن صفوان ابن سلیم رسول کریم ﷺ کے کچھ صحابہ کے صاحبزدوں سے، وہ ( صاحبزادے) اپنے ( صحابی) باپوں سے اور وہ رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا یاد رکھو جس شخص نے اس ( غیر مسلم) شخص پر ظلم کیا جس سے معاہدہ ہوچکا ہے ( جیسے ذمی اور مستامن) یا اس کے حقوق کو نقصان پہنچایا، یا اس پر اس کی طاقت و استطاعت سے زیادہ بار ڈالا ( جیسے کسی ذمی سے اس کی حیثیت و استطاعت سے زیادہ جزیہ لیا یا اس حربی مستامن سے جو دارالاسلام میں تجارت کی غرض سے آیا ہو اس کے مال تجارت میں سے عشر یعنی دسویں حصے سے زیادہ لیا) اور یا اس کی مرضی و خوشنودی کے بغیر اس سے کوئی چیز لے لی تو میں قیامت کے دن اس شخص کے خلاف احتجاج کروں گا۔ ( ابوداو د )

【8】

عورتوں کی اجتماعی بیعت کا مسنون طریقہ

اور حضرت امیمہ بنت رقیقہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے کچھ عورتوں کے ساتھ نبی کریم ﷺ سے بیعت کی ( یعنی ہم چند عورتوں نے اجتماعی طور پر آپ ﷺ سے بیعت کی) چناچہ ( اس وقت) آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ ( اے خواتین ! میں نے تمہیں اسی چیز پر بیعت کیا ہے) جس ( پر عمل کرنے) کی طاقت و استطاعت رکھتی ہو ( یعنی آنحضرت ﷺ نے ازراہ شفقت ان عورتوں کی بیعت کو ان کی عملی استطاعت وہمّت تک محدود رکھا ) ۔ میں نے کہا کہ ( بےشک) اپنی ذات پر ہم خود مہر بان اور رحم دل ہوسکتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہمارے حق میں اللہ اور اس کا رسول ﷺ رحم کرنے والے ہیں اور پھر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمیں بیعت کرلیجئے ۔ اس بات سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہم سے مصافحہ کیجئے یعنی بیعت کرتے وقت ہمارا ہاتھ اپنے دست مبارک میں پکڑیئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ میرا سب عورتوں سے کچھ کہنا ایک عورت سے کہہ دینے کی طرح ہے، یعنی اوّل تو عورتوں کو بیعت کرتے وقت صرف زبان سے یہ کہہ دینا کافی ہے کہ میں نے تمہیں بیعت کیا اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوم یہ کہ اگر کچھ عورتیں اجتماعی طور پر بیعت ہو رہی ہوں تو زبان سے یہ کہنے کے لئے بھی الگ الگ ہر عورت سے مخاطب ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف ایک عورت سے کہہ دینا سب عورتوں کے لئے کافی ہے۔ تشریح مشکوٰۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مؤلف مشکوٰۃ کو اس حدیث کے مآخذ کی تحقیق نہیں ہوسکی ہے۔ لیکن حاشیہ میں بعض شارحین نے یہ عبارت لکھ دی ہے کہ رواہ الترمذی والنسائی وابن ماجہ ومالک فی الموطا کلہم من حدیثی محمد بن المنکدر انہ سمع من ائمۃ الحدیث و قال الترمذی حدیث حسن صحیح لایعرف الا من حدیث ابن المنکدر۔

【9】

معاہدہئ حیبیہ کی کتابت آنحضرت ﷺ کے قلم سے

حضرت براء ابن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ماہ ذیقعدہ (٦ ھ) میں عمرہ کے لئے ( مدینہ سے) تشریف لے گئے مگر اہل مکہ نے اس سے انکار کردیا کہ وہ آنحضرت ﷺ کو مکہ میں داخل ہونے کا موقع دے دیں ( یعنی انہوں نے آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کو مکہ میں آنے سے روک دیا) تاآنکہ آنحضرت ﷺ نے اہل مکہ سے اس بات پر مصالحت کرلی کہ آپ ﷺ ( آئندہ سال) مکہ میں آئیں اور اس وقت بھی ( صرف) تین دن مکہ میں قیام کریں، چناچہ جب صلح نامہ لکھا گیا تو ( آنحضرت ﷺ کی طرف سے) صحابہ کرام نے ( آنحضرت ﷺ کا اسم گرامی اس طرح لکھا کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے مصالحت کی ہے اہل مکہ نے ( یہ الفاظ دیکھ کر آنحضرت ﷺ سے کہا ہم تمہاری رسالت کو تسلیم نہیں کرتے اگر ہمارا علم یہ ہوتا ( یعنی ہمیں اس پر اعتقاد ہوتا) کہ تم اللہ کے رسول ہو تو ہم تمہیں ( مکہ میں داخل ہونے سے) روکتے ہی کیوں، البتہ ( ہم تو صرف اتنا مانتے ہیں کہ) تم محمد ہو جو عبداللہ کے بیٹے ہیں، لہٰذا اس صلح نامہ میں محمد رسول اللہ کے بجائے محمد بن عبداللہ لکھو ) ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں ( یہ محض تمہاری ضد اور ہٹ دھرمی ہے ورنہ تم خوب جانتے ہو میری یہ دونوں صفتیں یعنی اللہ کا رسول ہونا اور محمد ابن عبداللہ ہونا آپس میں اس طرح لازم ملزوم ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو ہی نہیں سکتیں، لہٰذا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دونوں کو ذکر کیا جائے یا ایک ہی کو ذکر کردیا جائے) پھر آپ ﷺ نے حضرت علی ابن ابی طالب (رض) سے فرمایا ( جو صلح نامہ لکھ رہے تھے) کہ رسول اللہ لفظ کو ہٹادو۔ حضرت علی (رض) نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں تو آپ کا نام کبھی بھی نہیں مٹاسکتا۔ ( یہ سن کر) آنحضرت ﷺ نے ( حضرت علی کے ہاتھ سے وہ صلح نامہ) لے لیا اور باوجود یکہ آپ ﷺ لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن آپ ﷺ نے ( رسول اللہ کا لفظ مٹا کر) یہ لکھا کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد ابن عبداللہ نے مصالحت کی ہے ( اور اس معاہدہ میں یہ شرطیں تھیں) کہ وہ ( آنحضرت ﷺ اور صحابہ) مکہ میں ہتھیاروں کے ساتھ داخل نہیں ہوں گے الاّ یہ کہ ان کی تلواریں نیاموں میں ہوں اور یہ کہ اگر اہل مکہ میں سے کوئی شخص آپ کے ساتھ جانے کا ارادہ کرے تو اس کو مکہ سے جانے نہیں دیا جائے گا ( یعنی جب آپ ﷺ مکہ میں آئیں اور پھر واپس جانے لگیں تو اہل مکہ میں سے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے کر نہ جائیں) اور یہ کہ اگر آپ ﷺ کے صحابہ میں سے کوئی شخص مکہ میں ٹھہر جانے کا ارادہ کرے تو آپ ﷺ اس کو ( مکہ میں ٹھہرنے سے) منع نہیں کریں گے۔ چناچہ جب ( اگلے سال) آنحضرت ﷺ مکہ میں تشریف لائے اور (مکّہ میں ٹھہر نے کی تین دن کی) وہ مدت ( جو معاہدہ صلح میں طے پائی تھی) گذر گئی ( یعنی تین دن پورے ہونے کو ہوئے) تو اہل مکہ حضرت علی (رض) کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ تم اپنے سردار ( یعنی آنحضرت ﷺ سے کہو کہ ( طے شدہ) مدت پوری ہوگئی ہے اب ہمارے شہر سے چلے جاؤ۔ چناچہ نبی کریم ﷺ مکہ سے روانہ ہوگئے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح حضرت علی (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے لفظ کو مٹانے سے جو انکار کیا گویا وہ یہ سمجھے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ حکم بطریق وجوب نہیں ہے ورنہ وہ ہرگز انکار نہ کرتے اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ انکار نہیں تھا بلکہ عین اتباع کے درجہ کی چیز تھی کیونکہ اس انکار کی بنیاد آنحضرت ﷺ کے تئیں وہ غایت محبت اور انتہائی عقیدت تھی جو حضرت علی کرام اللہ وجہہ کی واحد سرمایہ روح و جان بھی تھی اور ان کی کائنات تسلیم و رضاء بھی، آخر وہ کس دل سے یہ گوارہ کرسکتے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اس سب سے بڑی حقیقت کو مٹا دیں جس کو صفحہ قرطاس پر انہیں کے قلم نے الفاظ کی صورت میں مرتسم کیا تھا اور جس کی ابدی سچائی کو دنیا بھر کے قلب و ذہن میں راسخ کرنا ہی انکا حاصل ایمان بھی تھا اور مقصد حیات بھی۔ یہ بات علماء کے درمیان اختلافی نوعیت کی ہے کہ اس صلح نامہ کو آنحضرت ﷺ نے خود لکھا تھا جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ اکثر حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ یہ صلح نامہ آنحضرت ﷺ نے خود قطعاً نہیں لکھا تھا اور نہ آپ ﷺ لکھ ہی سکتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو امی فرمایا ہے اور امی وہی شخص ہوتا ہے جو نہ لکھ سکے اور نہ پڑھ سکے۔ جب کہ دوسرے حضرات یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا اس صلح نامہ کو لکھنا ایک حقیقت ہے کیونکہ اگرچہ آپ کو نبی امی فرمایا گیا ہے لیکن جب آپ کی نبوت و رسالت کے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک شبہات ختم ہوگئے اور آپ ﷺ کے رسول اللہ ہونے کے دلائل روز روشن کی طرح عیاں ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو لکھنے پر قادر کردیا اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت آپ ﷺ کا لکھنا بطریق معجزہ کے تھا۔ اس حدیث کا ظاہری مفہوم ان حضرات کی دلیل ہے۔ لیکن اوّل الذکر حضرات کی طرف سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ نے لکھا سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت علی کرام اللہ وجہہ کو لکھنے کا حکم دیا اور یہ جملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ کہا جائے کہ بادشاہ نے فلاں شہر کو تعمیر کیا۔ ظاہر ہے اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے شہر کو تعمیر کیا بلکہ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ بادشاہ نے اس شہر کو تعمیر کرنے کا حکم دیا۔