132. یہودیوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دینے کا بیان

【1】

یہودیوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دینے کا بیان

جزیرۃ اصل میں زمین و خشکی کے اس قطعہ کو کہتے ہیں جس کو چاروں طرف سے پانی نے گھیر رکھا ہو اور جزیرۃ العرب اس علا قے کو کہتے ہیں جس کو بحر ہند، بحر شام اور دجلہ و فرات نے گھیر رکھا ہے، یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ جزیرۃ العرب کا اطلاق عرب دنیا کے اس خطہ ارض پر ہوتا ہے جو لمبائی میں عدن سے شام کی سرحد تک اور چوڑائی میں جدہ سے ریف عراق تک پر مشتمل ہے۔

【2】

جزیرۃ العرب سے یہودیوں کا اخراج

حضرت ابوہریرۃ (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) جب کہ ہم لوگ مسجد نبوی ﷺ میں بیٹھے ہوئے تھے نبی کریم ﷺ ( اپنے حجرہ مبارکہ سے) برآمد ہوئے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ چناچہ ہم لوگ آنحضرت ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک کہ یہودیوں کے مدرسہ میں پہنچے، نبی کریم ﷺ کھڑے ہوگئے اور فرمایا اے جماعت یہود ! تم لوگ مسلمان ہوجاؤ تاکہ ( دنیا کی پریشانیوں اور آخرت کے عذاب سے سلامتی پاؤ ! تمہیں جان لینا چاہئے کہ زمین اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ہے ( یعنی اس زمین کا خالق ومالک حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور اس کا رسول اس کا نائب و خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اس زمین پر متصرف و حکمران ہے) لہٰذا ( اگر تم مسلمان ہونے سے انکار کرتے ہو تو پھر) سن لو کہ ( میں نے یہ ارادہ کرلیا ہے کہ تم کو اس زمین ( یعنی جزیرۃ العرب) سے جلا وطن کر دوں، پس تم میں سے کوئی شخص اپنے مال و اسباب میں سے ( کوئی ایسی) چیز رکھتا ہو ( جس کو اپنے ساتھ لے جانا ممکن نہیں ہے جیسے جائداد غیر منقولہ وغیرہ) تو اس کو چاہئے کہ وہ اسے فروخت کر دے۔ ( بخاری ومسلم )

【3】

جزیرۃ العرب سے یہودیوں کا اخراج

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) امیر المؤمنیں حضرت عمر فاروق (رض) خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور ( اس خطبہ میں) فرمایا کہ ( تم سب جانتے ہو گے کہ) رسول کریم ﷺ نے خیبر کے یہودیوں سے ان کے مال و جائداد سے متعلّق ایک معاملہ طے فرمایا تھا ( اور وہ یہ کہ ان یہودیوں کو خیبر ہی میں رہنے دیا جائے گا نیز ان کے کھجوروں کے باغات اور کھیت کھلیان کو بھی انہی کی تحویل و ملکیت میں باقی رکھاجائے گا البتہ ان کی پیداوار اور آمدنی میں سے آدھا حصہ لیا جایا کرے گا اور آنحضرت ﷺ نے ان پر اسی طرح جزیہ بھی مقرر کیا تھا) اور آپ ﷺ نے ( اسی وقت) ان یہودیوں سے فرمادیا تھا کہ ہم تمہیں ( خیبر میں) اس وقت تک رہنے دیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں رہنے دے گا ( یعنی تم لوگ اس وقت تک خیبر میں مقیم رہنے کے حق دار ہو گے جب تک کہ ہمیں اللہ تعالیٰ تم کو جلا وطن کردینے کا حکم نہ دے دے) لہٰذا ( حضرت عمر (رض) نے کہا کہ) اب میں ان کو جلا وطن کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔ پھر جب حضرت عمر (رض) نے اس بات کا فی صلہ کرلیا ( کہ ان کو جلا وطن کردیا جائے) تو ( ان یہودیوں کے) قبیلہ بنی ابی الحقیق کا ایک شخص ( جو اپنی قوم کا بڑا بوڑھا سردار تھا) حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ امیر المؤمنین ! کیا آپ ہمیں جلا وطن کر رہے ہیں حالانکہ آپ ﷺ نے ہمیں (خیبر میں) رہنے دیا تھا اور ہمارے مال و اسباب سے متعلّق ہم سے ایک معاملہ بھی طے کیا تھا ! ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ میں رسول کریم ﷺ کی (یہ) بات بھول گیا ہوں ( جو آپ ﷺ نے تم کو مخاطب کر کے کہی تھی) کہ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا اور تو کیا کرے گا جب تجھ کو خیبر سے جلا وطن کردیا جائے گا اور رات کے بعد رات میں تیری اونٹنی تیرے پیچھے دوڑ رہی ہوگی ( گویا آنحضرت ﷺ نے تجھ کو اس آنے والے وقت سے ڈرایا تھا جب تجھ کو راتوں رات خیبر سے نکل جانا پڑے گا) اس شخص نے ( یہ سن کر) کہا کہ یہ بات تو ابوالقاسم ﷺ نے بطور مذاق کہی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اے اللہ کے دشمن، تم جھوٹ بکتے ہو ( آنحضرت ﷺ نے یہ بات مذاق کے طور پر نہیں کہی تھی بلکہ ازراہ معجزہ تمہیں ایک غیبی بات کی خبر دی تھی) اور پھر حضرت عمر (رض) نے یہودیوں کو جلا وطن کردیا اور ان کے پاس از قسم میوہ جو کچھ تھا جیسے کھجوریں وغیرہ ان کی قیمت میں ان کو مال، اونٹ اور اسباب جیسے رسیاں اور پالان وغیرہ دے دیئے۔ ( بخاری )

【4】

مشرکین کو جزیرۃ العرب سے جلا وطن کردینے کیلئے آنحضرت ﷺ کی وصیت

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ( وفات کے وقت) تین باتوں کی وصیت کی چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مشرکوں کو جزیرۃ العرب ( یعنی مکہ اور مدینہ سے باہر نکال دینا اور قاصدوں اور ایلچیوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا جو میں کیا کرتا تھا ( یعنی وہ جب تک تمہارے پاس رہیں ان کی دیکھ بھال کرنا اور انہیں ان کی ضروریات زندگی مہیّا کرنا) ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے تیسری بات سے خاموشی اختیار کی، یا حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ تیسری بات کو میں بھول گیا ہوں۔ (بخاری ومسلم ) تشریح قاضی عیاض کہتے ہیں کہ احتمال ہے کہ وہ تیسری بات آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد ہو کہ لاتتخذوا قبری وثنا یعبد یعنی میری قبر کو بت ( کی طرح) نہ قرار دینا جس کی پوجا کی جائے۔ اس ارشاد کو امام مالک نے اپنی کتاب مؤطا میں نقل کیا ہے۔

【5】

جزیرۃ العرب سے یہودو نصاریٰ کی جلا وطنی

اور حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ عرب سے ضرور باہر نکال دوں گا یہاں تک کہ مسلمانوں کے سوا ( جزیرہ عرب میں) کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ ( مسلم) اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے یوں فرمایا کہ اگر میری زندگی رہی تو میں انشاء اللہ یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ عرب سے ضرور باہر نکال دوں گا۔ الفصل الثانی لیس فیہ الا حدیث ابن عباس لایکون قبلتان وقد مرفی باب الجزیۃ ( مصابیح کی) دوسری فصل میں ابن عباس (رض) کی صرف یہ ایک حدیث لایکون قبلتان الخ تھی اور وہ جزیہ کے بیان میں نقل کی جا چکی ہے

【6】

حجاز سے یہودو نصاریٰ کی جلا وطنی کا کام حضرت عمر کے ہاتھوں انجام پایا

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ سر زمین حجاز یعنی جزیرۃ العرب سے یہود و نصاریٰ کی جلا وطنی کا کام حضرت عمر ابن خطاب (رض) کے ہاتھوں انجام پایا۔ (اس سے پہلے) جب رسول کریم ﷺ کو اہل خیبر پر غلبہ حاصل ہوا تھا تو آپ ﷺ نے یہودیوں کو خیبر سے نکال دینے کا ارادہ کیا تھا کیونکہ (جس بھی) زمین پر ( دین حق کو) غلبہ حاصل ہوتا ہے وہ زمین اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کی ہوجاتی ہے ( کہ وہاں صرف اللہ ہی کا دین غالب اور مسلمانوں ہی کو حق تصرف و حکمرانی حاصل ہوتی ہے) لیکن یہودیوں نے رسول کریم ﷺ سے یہ درخواست کی کہ آپ ﷺ ان ( یہودیوں کو) اس شرط پر ( خیبر کی زمینوں پر قابض و متصرف) رہنے دیں کہ وہ محنت کریں ( یعنی باغات کی دیکھ بھال اور ان کی سیرابی وغیرہ کا سارا کام کریں گے) اور ( ان سے پیدا ہونے والے) پھلوں کا آدھا حصہ آپ ﷺ کا ہوگا۔ چناچہ رسول کریم ﷺ نے ( ان کی یہ درخواست منظور کرلی لیکن یہ) فرمایا کہ ہم تمہیں اس شرط پر ( خیبر میں) اسی وقت رہنے دیں گے جب تک کہ ہم چاہیں گے اس کے بعد ان کو خیبر میں رہنے دیا گیا یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ان سب کو تیماء اور اریحاء کی طرف جلا وطن کردیا۔ ( بخاری ومسلم )