133. فئی تقسیم کر نے سے متعلق

【1】

فئی کا بیان

فئی کس کو کہتے ہیں ؟ فئی اس مال کو کہا جاتا ہے جو مسلمانوں کو کفار سے جنگ کے بغیر حاصل ہوا ہو، اس مال کا حکم یہ ہے کہ وہ سب کا سب مسلمانوں کا حق ہے، اس میں سے نہ تو خمس نکالا جاتا ہے اور نہ اس کو مجاہدین کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے چناچہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں جب کوئی لشکر کسی جگہ سے مال فئی لے کر آتا تو اس پر آنحضرت ﷺ کو پورا اختیار حاصل ہوتا تھا کہ اس میں سے جس کو چاہتے دیتے اور جس کو چاہتے نہ دیتے اسی طرح جس کو چاہتے زیادہ دیتے اور جس کو چاہتے کم دیتے۔ اور جو مال جنگ کے ذریعہ کفار پر غالب آنے کے بعد مسلمانوں کو حاصل ہوتا ہے اس کو مال غنیمت کہتے ہیں اس مال کا یہ حکم ہے کہ پہلے اس میں سے خمس نکالا جائے اور پھر بقیہ کو مجاہدین کے درمیان اس طرح تقسیم کردیا جائے کہ پیادے کو ایک اور سوار کو دو حصے ملیں۔

【2】

مال فئی کا مصرف

حضرت مالک ابن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس مال فئی کے سلسلے میں اپنے رسول ﷺ کو ایک خاص خصوصیت عطاء کی تھی کہ آپ ﷺ کے علاوہ کسی اور کو وہ خصوصیت عطاء نہیں کی۔ پھر حضرت عمر (رض) نے یہ آیت ( وَمَا اَفَا ءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِه مِنْهُمْ فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّ طُ رُسُلَه عَلٰي مَنْ يَّشَا ءُ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) 59 ۔ الحشر 6) پڑھی اور فرمایا کہ چناچہ یہ مال صرف رسول کریم ﷺ کے لئے مخصوص ہوگیا تھا، جس میں سے آنحضرت ﷺ اپنے گھر والوں کو سال بھر کا خرچ دیا کرتے تھے اس کے بعد اس میں سے جو کچھ بچ رہتا تھا اس کو ان جگہوں میں خرچ کرتے جو اللہ کا مال خرچ کئے جانے کی جگہیں ہیں ( یعنی اس باقی مال کو مسلمانوں کے مفاد و مصالح جیسے ہتھیاروں اور گھوڑوں وغیرہ کی خریداری پر خرچ کردیا کرتے تھے، نیز محتاج و مساکین میں سے جس کو چاہتے اس کی مدد کرتے تھے۔ ( بخاری و مسلم) تشریح مذکورہ آیت کریمہ سورت حشر کی ہے جو پوری اس طرح ہے۔ آیت ( وَمَا اَفَا ءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِه مِنْهُمْ فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّ طُ رُسُلَه عَلٰي مَنْ يَّشَا ءُ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) 59 ۔ الحشر 6) اور جو کچھ ( مال) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان سے دلوایا ہے وہ رسول کے لئے مخصوص ہوگیا ہے) تم نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ ( یعنی تم نے اس کے حصول کے لئے کسی جنگ وجدال کی مشقّت برداشت نہیں کی ہے نہ سفر کی پریشانیاں جھیلی ہیں، بلکہ پیدل ہی چلے گئے تھے) لیکن اللہ تعالیٰ ( کی عادت ہے کہ) اپنے رسولوں کو جس پر چا ہے ( خاص طور پر) مسلّط فرما دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت حاصل ہے۔ اس آیت کریمہ کے ذریعہ گویا مسلمانوں پر یہ واضح کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر کے مال وجائداد کا جو مالک و متصرف بنایا ہے تو وہ مال اس طرح کا ہے جس کو تم نے جنگ وجدال کے ذریعہ ان ( بنو نضیر) پر غلبہ پاکر اور دور دراز کے سفر کی مشقّت برداشت کر کے حاصل نہیں کیا ہے بلکہ بلا کسی جدوجہد کے ہاتھ لگا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب بنو نضیر کو مدینہ سے جلا وطن کردینے کا حکم دیا گیا اور بنو نضیر نے اس حکم کی تعمیل کرنے میں چوں و چراں کی تو آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ کو لے کر اس جگہ کے لئے روانہ ہوئے جہاں بنو نضیر کے محلات، قلعے اور جائدادیں تھیں۔ وہ جگہ چونکہ مدینہ سے صرف دو میل کے فاصلے پر تھی اس لئے آنحضرت ﷺ کے علاوہ اور سب ہی لوگ پیدل تھے، وہاں پہنچنے پر جنگ وجدال کی نو بت نہیں آئی، کچھ عرصہ کے محاصرہ کے بعد بنو نضیر نے ہتھیار ڈال دیئے اور وہ جو کچھ سامان اپنے ساتھ لے جاسکتے تھے اونٹوں پر لاد کر خیبر کو روانہ ہوگئے اس طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ان پر غلبہ وتسلّط عطاء فرمایا جیسا کہ حق تعالیٰ کی عادت یہی ہے کہ وہ اپنے رسولوں اور دین کے علمبرداروں کو دشمنان دین پر غلبہ وتسلّط عطاء فرماتا ہے۔ چناچہ ان کی جائداد و زمین وغیرہ بحق آنحضرت ﷺ ضبط کرلی گئیں اور وہاں کا سارا مال ( فئی) کے حکم میں ہونے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کے تصرف و اختیار میں آگیا۔ اسی لئے جب مسلمانوں نے اس مال کو تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا تو مذکورہ آیت نازل ہوئی اور اس مال کا یہ حکم بتایا گیا کہ اس طرح کا مال مال غنیمت کی طرح تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے تصرف و خرچ کا سارا اختیار صرف آنحضرت ﷺ کو ہے کہ آپ ﷺ جس طرح چاہیں خرچ کریں اور جس کو چاہیں اس میں سے دیں۔ چناچہ احادیث میں اس مال کے مصرف بھی بیان کیئے گئے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اس مال میں سے اپنی بیویوں کو انکا سال بھر کا خرچ دیا کرتے تھے اور پھر جو باقی بچتا اس کو مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح میں خرچ کرتے اور جن فقراء و مساکین وغیرہ کو چاہتے ان کو دیتے۔ مال فئی کے مسئلہ میں حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے جو اوپر بیان ہوا لیکن طیبی نے حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک اس طرح بیان کیا کہ مال فئی میں چار خمس اور ایک خمس کے پانچویں حصے پر آنحضرت ﷺ کا حق ہوتا تھا، یعنی وہ مال پچیّس حصّوں میں تقسیم ہو کر اکیّس حصے تو آنحضرت ﷺ کے ذاتی تصرف و اختیار میں آتا اور باقی چار حصے آپ اپنے ذوی القر بیٰ یتیموں مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرتے تھے تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد مال فئی کے مصرف کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ چناچہ ایک جماعت کا قول تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد مال فئی اسلامی مملکت و خلافت کے سربراہ کا حق ہے۔ امام شافعی (رح) کے دو قول ہیں ایک قول تو یہ ہے کہ وہ مجاہدین و مقاتلین کا حق ہے کہ اس کے ان کے درمیان تقسیم کیا جائے۔ اور دوسرا قول ہے کہ اس مال کے عام مسلمانوں کے اجتماعی مفادو مصالح میں خرچ کیا جائے۔ سال بھر کا خرچ دیا کرتے تھے اس موقع پر ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ احادیث میں تو یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ کل تک کے لئے کوئی بھی چیز بچا کر نہیں رکھتے تھے تو پھر سال بھر کا خرچ کس طرح جمع کر کے رکھتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جن احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کل تک کے لئے کوئی بھی چیز بچا کر نہیں رکھتے تھے تو اس کا تعلّق آپ ﷺ کی ذات سے ہے کہ آپ ﷺ اپنی ذات کے لئے کسی چیز کو بچا کر یا جمع کر کے رکھنا گوارا نہیں کرتے تھے اور یہاں جس بات کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلّق آپ ﷺ کے اہل و عیال سے ہے۔ لیکن واضح رہے کہ آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر خرچ کبھی کبھی دیتے تھے مستقل طور پر یہ معمول نہیں تھا، تاہم امام نووی فرماتے ہیں کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ سال بھر کی ضروریات زندگی کی چیزیں مہیّا کر کے رکھ لینا جائز ہے اور یہ توکل کے منافی نہیں ہے۔

【3】

مال فئی کا مصرف

اور حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ ( یہود کے قبیلہ) بنو نضیر کا مال اس قسم کے مال میں سے تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ( کسی جدوجہد کے بغیر) عطا فرمایا تھا اس کے لئے نہ تو مسلمانوں نے گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ، اس لئے وہ مال آنحضرت ﷺ کے لئے مخصوص ہوگیا تھا کہ جس میں سے آپ اپنے گھر والوں کی سال بھر کی ضروریت میں خرچ کرتے تھے اور پھر اس میں سے جو بچا کچھا بچ رہتا تھا اس کو ہتھیاروں اور گھوڑوں کی خریداری پر خرچ کردیا کرتے تھے تاکہ وہ اللہ کی راہ ( یعنی جہاد) میں کام آئیں۔ (بخاری ومسلم )

【4】

آنحضرت ﷺ کی طرف سے مال فئی کی تقسیم

حضرت عوف ابن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کے پاس مال فئی آتا تو آپ ﷺ اس کو اسی دن (ضرورتمندوں کے درمیان) تقسیم فرمادیتے تھے، جو بیوی والا ہوتا اس کو تو دو حصے دیتے اور مجرد کو ایک حصہ عطا فرماتے، چناچہ (ایک مرتبہ) مجھ کو بھی بلایا اور آپ ﷺ نے مجھے دو حصے عطا فرمائے کیونکہ میری بیوی تھی اور پھر میرے بعد عمار بن یاسر کو بلا یا گیا ( جن کی بیوی نہیں تھی) ان کو آپ ﷺ نے ایک حصہ دیا۔ ( ابوداؤد)

【5】

آنحضرت ﷺ کی طرف سے مال فئی کی تقسیم

اور حضرت عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ مال فئی کے آنے کے بعد اس میں سے سب سے پہلے ان لوگوں کو مرحمت فرماتے جن کو ( حال ہی میں غلامی سے آزاد کیا گیا ہوتا۔ (ابو داؤد) تشریح مال فئی میں سے سب سے پہلے حال ہی میں غلامی سے نجات پائے ہوئے لوگوں کو اس لئے عطا کیا جاتا کہ وہ بےٹھکانہ اور بےسہارا ہوتے تھے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آزاد کئے گئے لوگوں سے مراد مکاتب ہیں۔ نیز بعض حضرات کے نزدیک منفردین لطاعۃ اللہ مراد ہیں۔

【6】

آنحضرت ﷺ کی طرف سے مال فئی کی تقسیم

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ ( ایک مرتبہ) نبی کریم ﷺ کے پاس ایک تھیلا آیا جس میں نگینے بھرے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے ان نگینوں کو بیبیوں ( یعنی آزاد عورتوں) اور باندیوں کو بانٹ دیا۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میرے والد یعنی حضرت ابوبکر صدیق (رض) (کے پاس نگینے آتے تو وہ ان نگینوں کو) آزاد اور غلام مردوں کو ( بھی) بانٹتے۔ ( ابوداؤد) تشریح اگرچہ آنحضرت ﷺ نگینوں کی تقسیم کو صرف عورتوں تک محدود رکھتے تھے لیکن حضرت ابوبکر (رض) کے عمل سے معلوم ہوا کہ نگینوں کی تقسیم صرف عورتوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتی تھی بلکہ مردوں کو بھی بانٹا کرتے تھے۔

【7】

مال فئی کی تقسیم میں فرق مراتب کا لحاظ

اور حضرت مالک ابن اوس ابن حدثان کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر فاروق (رض) نے مال فئی کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس مال فئی کا میں تم سے زیادہ مستحق نہیں ہوں اور نہ ہم میں سے کوئی شخص اس مال فئی کا کسی دوسرے شخص سے زیادہ مستحق ہے البتہ ہم عزوجل کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی تقسیم کے مطابق اپنے اپنے مرتبہ پر ہیں چناچہ ایک وہ شخص ہے جو ( قبولیت اسلام) قدامت رکھتا ہے، ایک وہ شخص ہے جو ( دین کی راہ میں) شجاعت و بہادری کے ( کارہائے نمایاں) اور سعی و مشقّت ( کے اوصاف) رکھتا ہے، ایک وہ شخص ہے جو اہل و عیال رکھتا ہے اور وہ شخص ہے جو ضرورت و حاجت رکھتا ہے۔ (ابو داؤد) تشریح میں تم سے زیادہ مستحق نہیں ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے یہ بات اس وہم و گمان کو دور کرنے کے لئے فرمائی کہ وہ چونکہ خلیفہ رسول ہیں اس لئے جس طرح آنحضرت ﷺ اس مال کا سب سے زیادہ استحقاق رکھتے تھے ہوسکتا ہے کہ آپ کے بعد اب وہ ( حضرت عمر) اس کے سب سے زیادہ مستحق ہوں ! حضرت عمر (رض) نے اس کی نفی کی کہ دوسرے مسلمان کی طرح میں بھی اس مال کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں، پھر انہوں نے اس مال کا سب سے زیادہ استحقاق رکھنے کی نفی عمومیت کے طور پر فرمائی کہ ہم میں سے کوئی بھی شخص دوسرے شخص سے زیادہ حق دار نہیں ہے بلکہ اس مال کے استحقاق کی اصل بنیاد وہی فرق مراتب ہے جو کتاب اللہ کے اس ارشاد للفقراء والمہاجرین تین آیتوں تک اور والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار آخر آیت تک، یا ان آیتوں سے ظاہر ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مسلمانوں کے مراتب میں تفاوت ہے کہ ہر شخص کو اس کے مرتبے کے مطابق کم یا زیادہ دیا جائے گا۔ اللہ عز وجل کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی تقسیم میں رسول اللہ ﷺ کی تقسیم کا عطف کتاب اللہ پر کیا گیا ہے، یعنی جس طرح کتاب اللہ کی مذکورہ آیتوں سے مسلمانوں کے فرق مراتب کا اظہار ہوتا ہے اسی طرح آنحضرت ﷺ کے طریقہ تقسیم سے بھی مراتب میں تفاوت کا پتہ چلتا ہے کہ آپ اس مال کی تقسیم کے وقت دوسرے مسلمانوں کے بنسبت جنگ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ کرام کو زیادہ حصہ دیا کرتے تھے، اسی طرح جو صحابہ کرام ( صلح حدیبیہ کے موقع پر) بیعت رضوان میں شریک تھے، ان کا لحاظ عام مسلمانوں سے زیادہ رکھتے تھے، یا جو شخص اہل و عیال والا ہوتا تھا اس کو مجرد شخص سے زیادہ دیتے تھے۔ ایک وہ شخص ہے الخ حضرت عمر (رض) نے اپنے اس ارشاد کے ذریعہ اوپر کی بات کو اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا کہ مال فئی کی تقسیم کے وقت ہر شخص کے مرتبہ اور اس کی حیثیت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اگر کوئی شخص قدیم الاسلام ہے تو اس کی اس خصوصیت کو دیکھنا چاہئے۔ اگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں شجاعت و بہادری کے کارنامے انجام دینے والا اور دین کو پھیلانے میں سخت جدوجہد کرنے اور مشقّت برداشت کرنے والا ہے تو اس کے اس وصف کو سامنے رکھنا چاہیے، اسی طرح اگر کوئی اہل و عیال والا زیادہ حاجت مند ہے تو اس کی اس حیثیت و حالت کا خیال کیا جانا چاہیے غرضیکہ جس شخص کو جس طرح کی احتیاج و ضرورت ہو اس کو اسی کے مطابق دینا چاہیے۔

【8】

قضیہ فدک میں حضرت عمر کا استدلال

اور حضرت مالک ابن اوس کہتے ہیں کہ ( ایک موقع پر) حضرت عمر فاروق (رض) نے یہ آیت پڑھی ( جس میں زکوٰۃ کے مصارف کا بیان ہے) آیت (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَا ءِ وَالْمَسٰكِيْنِ ) 9 ۔ التوبہ 60) اور اس آیت کو انہوں نے علیم حکیم تک پڑھا اور فرمایا کہ اس ( زکوٰۃ کے مال) کو پانے کے مستحق یہی لوگ ہیں ( جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے یعنی فقراء مساکین وغیرہ) پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی آیت (وَاعْلَمُوْ ا اَنَّ مَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَه وَلِلرَّسُوْلِ ) 8 ۔ الانفال 41) اور اس آیت کو وابن السبیل تک پڑھا اور فرمایا کہ ( خمس کا مال) انہی لوگوں کا حق ہے ( جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے یعنی ذوی القربیٰ وغیرہ) اس کے بعد انہوں نے یہ آیت پڑھی ( جس میں مال فئی کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ وہ کس کس کو دیا جائے) آیت (مَا اَفَا ءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِه مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى) 59 ۔ الحشر 7) اس آیت کو للفقراء والذین جاء وا من بعدہم تک پڑھا ( ایک نسخہ میں یہ عبارت ہے کہ حتی بلغ للفقراء ثم قراء والذین جاء وا اس کے مطابق مفہوم یہ ہوگا کہ انہوں نے اس آیت ماافاء اللہ کو پڑھنا شروع کیا اور للفقراء تک دو آیتوں کو پڑھا اور پھر یہ آیت والذین جاء وا من بعد ہم پڑھی) اور پھر فرمایا کہ اس آیت نے سارے مسلمانوں کا احاطہ کرلیا ہے۔ لہٰذا اگر میری زندگی رہی تو ( میری حدود خلافت میں کوئی ایسا مسلمان نہیں بچے گا جس کو اس کے حصہ کا مال نہ پہنچے یہاں تک کہ) اس چروا ہے کو بھی مال فئی میں سے اس کا حصہ پہنچے گا جو مقام بسر اور حمیر میں ہوگا درآنحالیکہ اس ( مال کے حاصل کرنے) میں اس کی پیشانی بھی عرق آلود نہیں ہوئی ہوگی۔ ( شرح السنّہ) تشریح اس آیت نے سارے مسلمانوں کا احاطہ کرلیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جن لوگوں کو دینے کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سارے ہی مسلمان آجاتے ہیں بخلاف پہلی دونوں آیتوں کے کہ ایک میں تو صرف مستحقین زکوٰۃ کا ذکر ہے اور دوسری میں مستحقین خمس کا۔ حضرت عمر (رض) مال فئی میں سے خمس نکالنے کے قائل نہیں تھے جیسا کہ مال غنیمت میں سے نکالا جاتا ہے، ان کے نزدیک پورا مال فئی مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح اور ان کی فلاح و اعانت میں خرچ کیا جانا چاہیے جو قرآن و حدیث میں مذکور فرق مراتب کے ساتھ ان کا حق ہے، چناچہ امام شافعی (رح) کے سوا اکثر ائمہ فقہ کا مسلک بھی یہی ہے، نیز حضرت عمر (رض) اس کے بھی قائل تھے کہ مال فئی کی تقسیم کے سلسلے میں مسلمانوں کے درجات و مراتب کے تفاوت کا لحاظ ضروری ہے جب کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہر مسلمان کا برابر، برابر حصہ لگاتے تھے وہ قدامت اسلام اور نسب کی برتری وغیرہ کا لحاظ ضروری نہیں سمجھتے تھے بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ اس چیز کا تعلّق آخرت سے ہے اگر کوئی شخص پہلے مسلمان ہوا ہے اور کسی شخص نے دین کی راہ میں زیادہ شجاعت و بہادری اور زیادہ سعی و مشقّت اختیار کی ہے تو ان کا یہ عمل اللہ کے لئے ہے اور ان کا اجر بھی اللہ ہی پر موقوف ہے ان چیزوں کو زیادہ مال کے استحقاق کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے لیکن حضرت عمر (رض) چونکہ فرق مراتب اور تفاوت درجات کو ملحوظ رکھتے تھے اس لئے وہ جب مال تقسیم کرتے تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو زیادہ دیتے اور حضرت حفصہ (رض) کو کم اور ان ( حضرت حفصہ) سے فرماتے کہ ( بیٹی ! تمہاری بنسنت عائشہ صدیقہ (رض) کو اس خصوصیت کی بناء پر زیادہ دیتا ہوں کہ) آنحضرت ﷺ کے نزدیک وہ ( عائشہ) تم سے زیادہ چہیتی تھیں اور آنحضرت ﷺ کو تمہارے باپ ( یعنی میری) بہ نسبت عائشہ (رض) کے باپ ( یعنی حضرت ابوبکر) سے زیادہ تعلّق خاطر تھا۔ اسی طرح حضرت عمر (رض) ( اپنے بیٹے) حضرت ابن عمر (رض) کی بہ نسبت حضرت اسامہ ابن زید کا حصہ زیادہ لگایا کرتے تھے اور ان ( ابن عمر) سے بھی یہی فرماتے تھے کہ اسامہ کو تمہارے اوپر یہ فضیلت حاصل ہے کہ آنحضرت ﷺ کو تمہاری بہ نسبت اسامہ سے زیادہ تعلّق خاطر تھا اور تمہارے باپ سے زیادہ ان کا باپ آپ ﷺ کی نظر میں پسندیدہ تھا۔ حمیر یمن کے ایک علاقہ کا نام ہے جہاں یمن کا مشہور قبیلہ حمیر کے لوگ آباد تھے۔ اس طرح سرو ایک جگہ کا نام تھا، جو حمیر کے علاقہ میں تھا۔ روایت کے آخر میں حضرت عمر (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ رکھا اور میری خلافت کے زمانے میں اسلام کو زیادہ سے زیادہ شہروں اور ملکوں پر تسلّط و غلبہ حاصل ہوا اور اس کے نتیجہ میں مال فئی بھی بہت ہاتھ لگا تو ان میں سے تمام مسلمانوں کو ان کا حصہ پہنچے گا خواہ وہ کتنے ہی دور دراز کے شہروں اور دیہاتوں میں کیوں نہ رہتے ہوں اور اس کے باوجود کہ اس مال کو حاصل کرنے میں انہیں ذراسی بھی مشقّت برداشت نہیں کرنا پڑی ہوگی۔

【9】

قضیہ فدک میں حضرت عمر کا استدلال

اور حضرت مالک ابن اوس کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے جس بات سے استدلال کیا وہ یہ تھی کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کے پاس تین صفایا تھیں۔ ١ بنو نضیر۔ ٢ خیبر۔ ٣ فدک۔ چناچہ بنو نضیر ( کے جلا وطن ہوجانے کے بعد ان کی جو زمین جائداد قبضے میں آئی تھی اس سے حاصل ہونے والا مال) آنحضرت ﷺ کے اخراجات ( جیسے مہمانوں کی ضیافت و تواضع اور مجاہدین کے لئے ہتھیاروں اور گھوڑوں کی خریداری وغیرہ) کے لئے مخصوص تھا۔ فدک کے محاصل (ان) مسافروں ( کی امداد و اعانت کرنے کے لئے) مخصوص تھے ( جو اگرچہ اپنے وطن میں تو مال رکھتے ہوں مگر سفر کے دوران ان کے پاس مال و اسباب ختم ہوگیا ہو ) ۔ اور خیبر ( کے محاصل) کے رسول کریم ﷺ نے تین حصے کر رکھے تھے، ان میں سے دو حصے تو آپ ﷺ مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے اور ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے اخراجات کے لئے رکھتے تھے اور اس میں سے بھی اہل و عیال کے خرچ سے جو کچھ بچ جاتا اس کو آپ ﷺ نادار مہاجرین پر خرچ کردیتے تھے۔ ( ابوداؤد) تشریح جس بات سے استدلال کیا الخ یعنی جب حضرت عباس اور حضرت علی (رض) فدک کے مال کے بارے میں اپنا مطالبہ لے کر حضرت عمر (رض) کے پاس آئے تو حضرت عمر (رض) نے ان کے مطالبہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور جن جائداد و زمینوں پر آنحضرت ﷺ کا ذاتی حق تھا ( جیسے بنو نضیر، خیبر اور فدک کی زمین، جائدادیں) ان کے بارے میں مذکورہ بالا تفصیل بیان کی اور چونکہ اس تفصیل کے بیان کے وقت دوسرے صحابہ بھی موجود تھے جن میں سے کسی نے بھی حضرت عمر کی بیان کردہ تفصیل کی تردید نہیں کی اس لئے گویا یہ بات ان کے فیصلے کی دلیل قرار پائی۔ اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے اتنا ضرور کیا کہ حضرت عباس اور حضرت علی (رض) کو فدک کے محاصل کا متولّی بنادیا کہ وہ دونوں اس محا صل کو اسی طرح صرف کریں جس طرح آنحضرت ﷺ صرف کیا کرتے تھے۔ صفایا صفیہ کی جمع ہے صفیہ اس کو کہتے ہیں کہ امام وقت ( اسلامی مملکت کا سربراہ) مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کوئی چیز چھانٹ کر اپنے لئے مخصوص کرے۔ یہ بات صرف آنحضرت ﷺ کے لئے مخصوص تھی کہ آپ ﷺ مال غنیمت میں سے خمس کے علاوہ اور بھی جو چیز جیسے لونڈی، غلام، تلوار اور گھوڑا وغیرہ چاہتے اس کو لے لینے کا حق رکھتے تھے، لیکن آنحضرت ﷺ کے بعد کسی دوسرے امام وقت کے لئے یہ بات جائز نہیں۔ فدک ایک بستی کا نام تھا جو خیبر کے مواضعات میں سے تھی اور مدینہ سے دو روز کے فاصلہ پر واقع تھی یہ ایک شاداب اور سرسبز جگہ تھی جہاں زیادہ تر کھجور کے اور تھوڑے بہت دوسرے پھلوں کے باغات تھے۔ رسول کریم ﷺ کو فدک پر صلح کے ذریعہ تسلّط حاصل ہوا تھا اور صلح کی بنیاد یہ معاہدہ تھا کہ وہاں کی آدھی زمین تو فدک والوں کی رہے گی آدھی زمین پر آنحضرت ﷺ کا حق ہوگا، چناچہ فدک کی وہ آدھی زمین آنحضرت ﷺ کی ذاتی ملکیت میں رہی جس کی آمدنی اور پیداوار سے آپ ﷺ حدیث کے مطابق محتاج مسافروں کی امداد و اعانت فرماتے تھے۔ خیبر کے محاصل کو آپ ﷺ تین حصوں میں اس لئے تقسیم کرتے تھے کہ خیبر کا علاقہ اصل میں بہت سارے مواضعات اور بستیوں پر مشتمل تھا ان میں سے بعض گاؤں تو بزور طاقت فتح کئے گئے تھے اور بعض گاؤں بغیر جنگ وجدال کے صلح کے ذریعہ قبضہ واختیار میں آئے تھے، چناچہ جو گاؤں بزور طاقت فتح کئے گئے تھے ان سے حاصل ہونے والا مال چونکہ مال غنیمت تھا اس لئے اس میں سے آپ ﷺ خمس لیتے تھے اور جو گاؤں بذریعہ صلح قبضہ واختیار میں آئے تھے ان سے حاصل ہونے والا مال چونکہ مال فئی تھا اس لئے وہ تمام تر آپ ﷺ کی ذاتی ملکیت تھا جس کو آپ ﷺ اپنی ضروریات اپنے اہل و عیال کے اخراجات اور عام مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح میں جہاں مناسب سمجھتے خرچ کرتے تھے۔ لہٰذا اس بنا پر تقسیم و مساوات کا تقاضہ یہی تھا کہ آپ ﷺ خیبر کے سارے مال کو اپنے اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے تین حصوں میں کر کے دو حصے مسلمانوں کو دیں اور ایک حصہ اپنے پاس رکھیں۔

【10】

قضیہ فدک وغیرہ کی تفصیل

اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن عبد العزیز ابن مروان ابن حکم (رح) خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے مروان کے بیٹوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ رسول کریم ﷺ فدک ( کی زمین و جائداد) پر اپنا ذاتی حق رکھتے تھے جس کے محاصل ( آمدنی۔ وپیداوار) کو آپ ﷺ ( اپنے اہل و عیال و مساکین پر) خرچ کرتے تھے، اسی میں سے بنو ہاشم کے چھوٹے بچوں ( کی امداد و اعانت پر خرچ کر کے ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے اور بےشوہر عورتوں اور بغیر زن مردوں کی شادی کرتے تھے ! ( ایک مرتبہ) حضرت فاطمہ (رض) نے آنحضرت ﷺ سے یہ درخواست کی تھی کہ فدک ( کی زمین و جائداد دیجئے لیکن آپ ﷺ نے ان کی درخواست کو رد کردیا، رسول کریم ﷺ کی زندگی میں اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ آپ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو خلیفہ بنایا گیا تو ان کا معمول بھی وہی رہا جو رسول کریم ﷺ کا اپنی حیات مبارکہ میں رہا تھا یعنی آنحضرت ﷺ کے مذکورہ معمول کی طرح حضرت ابوبکر صدیق (رض) بھی فدک کے محاصل کو آنحضرت ﷺ کے اہل و عیال اور بنو ہاشم کے بچوں پر اور نادار مردوں و عورتوں کی شادی میں خرچ کیا کرتے تھے) یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اللہ کو پیارے ہوگئے اور ( ان کے بعد) جب حضرت عمر ابن خطاب (رض) کو خلیفہ بنایا گیا تو اس سلسہ میں ان کا بھی عمل وہی رہا جو ان دونوں ( یعنی آنحضرت ﷺ اور ابوبکر) کا رہا تھا یہاں تک کہ حضرت عمر (رض) بھی اللہ کو پیارے ہوگئے اور پھر مروان نے ( حضرت عثمان (رض) کی خلافت کے زمانے میں یا اپنی حکمرانی کے دور میں) اس ( فدک) کو اپنی ( اور اپنے وارثین کی) جاگیر قرار دیا چناچہ ( اب) وہ جاگیر عمر ابن عبدالعزیز ابن مروان کی ہوگئی ہے، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جس چیز کو رسول کریم ﷺ نے ( اپنی بیٹی) فاطمہ (رض) کو نہیں دیا اس کا مستحق میں بھی نہیں ہوسکتا، لہٰذا میں تمہیں ( اپنے اس فیصلہ کا) گواہ بناتا ہوں کہ میں نے فدک کو اس کی اسی حیثیت پر واپس کردیا ہے۔ جس پر وہ تھا یعنی رسول کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) کے زمانے میں ( جس طریقہ پر اس کے محاصل کو خرچ کیا جاتا تھا اب پھر اسی طریقہ پر خرچ کیا جائے گا اور فدک کسی شخص کی ذاتی جاگیر نہیں بنے گا۔ ( ابوداؤد) تشریح جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے بنو نضیر، فدک اور خیبر کی زمین، جائدادیں آنحضرت ﷺ کی ذاتی ملکیت تھیں چونکہ وہ زمین جائدادیں آنحضرت ﷺ کے بعد بھی باقی رہیں تھیں اس لئے آپ ﷺ کے اہل بیت اور خاندان کے کچھ افراد نے ان پر اپنی میراث کا دعویٰ کیا اور خلقت سے اس کا مطالبہ کیا، پھر ان میں آپس میں بھی کچھ اختلافات پیدا ہوئے اس طرح ان زمین جائدادوں کا قصہ بڑا عجیب و غریب ہوگیا اگرچہ وہ ایک وقتی قضیہ تھا جس کی بنیاد کسی غلط جذبہ پر نہیں تھی لیکن پھر بھی بعد کے زمانوں میں کم فہم اور کج رو لوگوں نے اس سے غلط نتائج اخذ کرنے شروع کردیئے اور ایسے ایسے افسانے تراشے جن سے دوسرے لوگوں کے ذہن بھی فاسد ہوئے اس سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتب صحاح سے منتخب کر کے اس قضیہ کی کچھ تفصیل اور اس کے بارے میں کچھ باتیں نقل کردی جائیں۔ صحیح بخاری میں حضرت مالک ابن عوس ابن حدثان سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دن امیر المؤ منین حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے مجھ کو اپنے پاس بلاوا بھیجا، میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کا غلام یرفاء آیا اور کہا کہ امیر المؤمنین حضرت عثمان ابن عفان حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف حضرت زبیر بن عوام اور حضرت سعد ابن ابی وقاص (رض) دروازہ پر بیٹھے ہوئے ہیں اور حاضری کی اجازت چاہتے ہیں حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ آجا نے دو وہ سب حضرات آگئے، تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آیا اور کہا کہ ( حضرت عباس اور حضرت علی (رض) ( حاضری کی) اجازت چاہتے ہیں، اگر حکم ہو تو آنے دیا جائے حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ آنے دو جب وہ بھی آگئے تو حضرت عباس (رض) نے کہا کہ امیر المؤمنین ! ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کیجئے ( یعنی میرے اور علی کے قضیہ کو نمٹائیے) یہ بنو نضیر کے اس مال و جائداد کے بارے میں جھگڑے کی صورت اختیار کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے حق میں فئی قرار دیا تھا۔ پھر حضرت عباس اور حضرت علی (رض) آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے، وہاں موجود دوسرے لوگوں ( یعنی حضرت عثمان (رض) وغیرہ) نے بھی کہا کہ ہاں امیرالمؤمنین ! ان دونوں کے معاملہ کا تصفیہ کر دیجئے اور ان کو ایک دوسرے ( کے جھگڑے) سے نجات دلائے (یہ سن کر) حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ذرا صبر و سکون سے کام لو، میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا کہ ہم یعنی انبیاء میراث نہیں چھوڑتے ( یعنی ہمارا چھوڑا ہوا مال کسی کا ورثہ نہیں ہوتا) ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے۔ حاضرین نے کہا کہ ہاں ! ( ہم کو یاد ہے) بیشک آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت علی اور حضرت عباس (رض) کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ میں تم دونوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم کو نہیں معلوم کہ آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا تھا ؟ حضرت علی اور حضرت عباس (رض) نے فرمایا کہ ہاں ! ( ہم کو بھی یاد ہے) آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تو میں تم کو اس بات سے ( بھی آگاہ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مال فئی کے بارے میں اپنے رسول ﷺ کو وہ خاص خصوصیت عطا کی تھی جو آپ ﷺ کے علاوہ اور کسی کو عطا نہیں کی پھر حضرت عمر (رض) نے یہ آیت (مَا اَفَا ءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِه مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى) 59 ۔ الحشر 7) آخر تک پڑھی اور فرمایا کہ۔ پس یہ سارا مال آنحضرت ﷺ کے لئے مخصوص تھا، لیکن اللہ کی قسم ! آپ ﷺ نے اس مال کو تمہارے پاس جمع نہیں کیا اور نہ اس کے ذریعہ تم پر کوئی ایثار کیا، ( بلکہ) آپ ﷺ وہ مال تمہیں ( ہی) دیا کرتے تھے اور تمہارے درمیان تقسیم کرتے تھے، پھر جو کچھ بچتا آپ ﷺ اس میں سے اپنے اہل و عیال کا خرچ چلاتے اس کے بعد بھی جو بچ جاتا اس کو آپ ﷺ نیک کاموں ( جیسے فقراء و مساکین کی امداد و اعانت) اور عام مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح ( جیسے ہتھیاروں اور گھوڑوں وغیرہ کی خریداری) میں صرف کرتے۔ رسول کریم ﷺ کا اپنی زندگی کے آخر تک یہی معمول رہا، پھر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہ کہہ کر کے میں رسول اللہ کا خلیفہ ہوں۔ اس مال کو اپنے قبضے میں لے لیا اور اس کے خرچ و تصرف کا وہی نظام باقی رکھا جو آنحضرت ﷺ نے جاری کیا۔ ( اس موقع پر) حضرت علی وحضرت عباس (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم اس وقت حضرت ابوبکر (رض) کا ذکر برائی کے ساتھ کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس بارے میں ابوبکر صدیق (رض) صحیح راستے پر نہیں ہیں، حالانکہ تم جو کہتے تھے ویسا نہیں تھا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اپنے اس عمل میں صادق، نیکو کار، ہدایت یافتہ اور حق کے تابع تھے، پھر جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) اللہ کو پیارے ہوگئے ( اور میں خلیفہ بنا) تو میں نے کہا کہ میں رسول اللہ کا خلیفہ اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا ولی ( جانشین) ہوں، اس لئے میں نے اس مال و جائداد کو دو سال تک اپنے اختیار و قبضے میں رکھا اور اس کے خرچ و تصرف کا وہی نظم و طریقہ اختیار کیا جو آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا تھا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں اپنی اس بات اور اپنے اس عمل میں صادق، نیکو کار، ہدایت یافتہ اور حق کے تابع ہوں، ڈیڑھ دو سال کے بعد تم دونوں ( علی و عباس (رض) میرے پاس آئے اور تم دونوں نے ایک ہی بات کہی ( کہ آنحضرت ﷺ کا مال ہم کو دے دو ) میں نے ( تمہارے مطالبہ کے جواب میں) تم سے کہا تھا کہ رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ ہم ( انبیاء) میراث نہیں چھوڑتے بلکہ ہم جو کچھ چھورتے ہیں وہ صدقہ ( ہوتا) ہے۔ لیکن جب میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ مجھے اس مال و جائداد کو تمہارے سپرد کردینا چاہئے تو میں نے تم سے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو تو میں یہ مال وجائداد اس شرط پر تمہارے سپرد کرسکتا ہوں کہ تم ( اس بات کا عہد کرو کہ) اس مال کو خرچ کرنے کا وہی نظم و طریقہ باقی رکھو گے جو آنحضرت ﷺ نے جاری کیا تھا اور جس پر حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اور خلیفہ ہونے کے بعد میں نے عمل کیا تھا اور اگر تم لوگوں کو یہ شرط منظور نہ ہو تو پھر آئندہ اس بارے میں مجھ سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم نے ( اس شرط کو منظور کرلیا اور) کہا کہ آپ اس مال و جائداد کو اس شرط پر ہمارے حوالے کر دیجئے۔ چناچہ میں نے تمہارے سپرد کردیا۔ ( تم لوگوں کو یہ ساری بات اچھی طرح یاد ہوگی) تو کیا تم لوگ اب مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ ( اس سلسلے میں جو بات میرے اور تمہارے درمیان طے ہوچکی ہے) میں اس کے خلاف فیصلہ کروں ؟ نہیں ! اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، میں قیامت تک بھی اس کے خلاف فیصلہ نہیں کرسکتا، ہاں اگر تم اس مال و جائداد کے انتظام سے عاجز آگئے ہو تو اس کو دوبارہ میرے حوالے کردو میں تمہیں اس کے انتظامی جھمیلوں سے بےپرواہ کر دوں گا اور خود مشقّت اٹھا کر ( بھی) اس کا انتظام کروں گا۔ اس روایت کے راوی حضرت امام زہری (رح) کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کے بارے میں حضرت عروہ ابن زبیر (رض) سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ مالک ابن اوس نے بالکل صحیح بیان کیا ہے۔ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد ( کچھ) ازواج مطہرات نے حضرت عثمان (رض) کو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس بھیج کر اس مال وجائداد کی اپنی میراث کا مطالبہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو مال فئی کے طور پر عطا کیا تھا ( جب مجھے یہ معلوم ہوا تو) میں نے ان کی مخالفت کی اور ان سے کہا کہ تمہیں اللہ کا خوف محسوس نہیں ہوتا ؟ کیا رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد تمہارے علم میں نہیں ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے بلکہ ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ( ہوتا) ہے اور آل محمد اس میں سے کھائے گی۔ تب ازواج مطہرات آنحضرت ﷺ کی میراث کے مطالبہ سے باز آئیں اور میری بیان کی ہوئی حدیث کی بناء پر انہوں نے رجوع کرلیا۔ حضرت عروہ کہتے تھے ( حضرت عمر (رض) نے جب آنحضرت ﷺ کا وہ صدقہ یعنی بنو نضیر کا وہ مال جو مدینہ میں تھا اور جس کے بارے میں مذکورہ بالا قضیہ تھا حضرت علی و حضرت عباس (رض) کی تولیت میں دے دیا تھا تو کچھ دنوں کے بعد) حضرت علی (رض) نے حضرت عباس (رض) پر غلبہ حاصل کر کے ان کو تنہا اپنے قبضہ تولیت میں لے لیا تھا، ان کے بعد حضرت حسن ابن علی (رض) کے قبضے میں آیا، حضرت حسن (رض) کے بعد حضرت حسین (رض) کے قبضے میں آیا۔ اس کے بعد حضرت علی ابن حسین اور حسن ابن حسین کے قبضے میں رہا کہ یہ دونوں باری باری اس کو اپنے قبضے میں رکھتے تھے، ان کے بعد زید ابن حسن کے پاس آگیا۔ اور ایمانداری و سچائی کے ساتھ یہ (مال وجائداد) رسول کریم ﷺ کا صدقہ ہے کسی شخص کی میراث و ملکیت نہیں ہے۔ یہ بخاری کی حدیث کا اختصار ہے جس کو انہوں نے کتاب المغازی میں بنو نضیر کے واقعہ کے تحت نقل کیا ہے۔ کتاب الخمس میں بھی بعض الفاظ کے فرق کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے۔ یہ روایت بھی بخاری کی ہے کہ حضرت عائشہ صدیق (رض) بیان فرماتی تھیں کہ آنحضرت ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ (رض) اور عباس، حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس فدک کی زمین و جائداد و خیبر کے حصے کی میراث کا مطالبہ لے کر آئے، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان سے فرمایا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہم کسی کو اپنے مال کا وارث نہیں چھوڑتے، ہم جو کچھ چھوڑیں صدقہ ہے۔ اس مال میں سے آل محمد ﷺ کھائے گی۔ اللہ کی قسم میرے نزدیک رسول اللہ کی قرابت ( والوں کے حقوق کی حفاظت کرنا) اور ان کے ساتھ حسن سلوک و بھلائی کا معاملہ کرنا اپنے قرابت والوں کے ساتھ حسن سلوک سے زیادہ محبوب اور عزیز تر ہے۔ پیچھے جو طویل حدیث نقل کی گئی ہے اور جس میں حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حضرت عباس اور حضرت علی (رض) کے اپنا قضیہ لے کر آنے کا ذکر ہے اس کو صاحب جامع الاصول نے بھی اپنی کتاب میں بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ( اس حدیث کے سلسلے میں) ابوداؤد نے یہ وضاحت کی ہے کہ حضرت عباس اور حضرت علی (رض) نے حضرت عمر فاروق (رض) سے جو مطالبہ کیا تھا اس کا مقصد صرف یہ درخواست کرنا تھا کہ آپ نے جس مال وجائداد کو مشترکہ طور پر ہم دونوں کی تولیت میں دیا تھا اب اس کے آدھوں آدھ بانٹ کر ہم دونوں کی تولیت اور سپردگی میں الگ الگ حصہ دے دیجئے، نہ کہ وہ دونوں حضرات آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد ہم ( انبیاء) میراث نہیں چھوڑتے۔ سے غافل و لا علم تھے اور واقعۃً ان کا مقصد اس مال و جائداد کو اپنی میراث قرار دینا تھا، چناچہ ان دونوں کی نیت بھی صادق تھی اور ان کا مطالبہ بھی ایک درست عمل ( یعنی اس مال و جائداد کے انتظام میں زیادہ بہتری پیدا کرنے کے تقاضے کے پیش نظر تھا تاہم اس کے باوجود حضرت عمر (رض) نے ان کے مطالبہ کو پورا نہیں کیا بلکہ انہوں نے یہ واضح کردیا کہ میں اس کو گوارا نہیں کرسکتا کہ کسی بھی صورت میں اس مال و جائداد پر تقسیم کا نام آئے بلکہ اس کو جوں کا توں رکھنا ہی میرے نزدیک زیادہ ضروری ہے۔ بخاری نے کتاب الخمس میں حضرت عروہ (رض) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ان ( عروہ) سے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ (رض) نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے مطالبہ کیا کہ ان کو میراث دی جائے جو رسول اللہ ﷺ اس مال وجائداد میں سے چھوڑ گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مال فئی کے طور پر عطا فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان کو جواب دیا کہ (تمہارا یہ مطالبہ قابل تسلیم نہیں ہے کیونکہ) رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ لانورث ماترکناہ صدقۃ یعنی ہم انبیاء میراث نہیں چھوڑتے ہم جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہے۔ اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ انہوں یہ حدیث بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ وہ مال میرے قبضہ و اختیار میں ہے اور جب میں مرجاؤں گا تو اس شخص کے قبضہ واختیار میں ہوگا جو میرے بعد خلافت و امارت کی ذمہ داریاں سنبھالے گا۔ حضرت فاطمہ (رض) کو اس بات سے سخت ناگواری ہوئی یہاں کہ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے ہجران (یعنی ترک سلام و کلام) کرلیا اور اپنی وفات تک اسی ترک سلام و کلام پر قائم رہیں۔ واضح رہے کہ حضرت فاطمہ (رض) آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد صرف چھ مہینے تک بقید حیات رہیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا۔ حضرت فاطمہ، حضرت ابوبکر صدیق سے اس مال وجائداد میں سے اپنے مال وحصے کا مطالبہ کیا کرتی تھیں جو آنحضرت ﷺ نے خیبر وفدک کی زمین و باغات اور مدینہ میں اپنے صدقہ (یعنی بنو نضیر کے مال و جائداد) کی صورت میں چھوڑا تھا، لیکن حضرت ابوبکر صد یق (رض) نے ان کے اس مطالبہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا کرتے تھے میں کسی ایسی چیز کو ترک نہیں کروں گا جس پر آنحضرت ﷺ کا معمول رہا ہو، اس مال وجائداد کے بارے میں میرا وہی عمل رہے گا جو آنحضرت ﷺ کا رہا ہے، مجھے خوف محسوس ہوتا ہے کہ اگر میں کسی ایسی چیز پر عمل کرنے سے باز رہوں جو آنحضرت ﷺ کے حکم و منشاء کے مطابق ہے تو یقینًا میرا یہ فعل راہ حق سے اعراض و گریز کے مرادف ہوگا۔ چناچہ (حضرت ابوبکر صدیق آخر تک اپنے اسی فیصلے پر قائم رہے اور پھر ان کی وفات کے بعد) حضرت عمر فاروق (رض) نے یہ صورت اختیار کی آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں جو صدقہ چھوڑا تھا (یعنی بنو نضیر کی زمین وجائداد) اس کو تو حضرت عباس اور حضرت علی (رض) کے سپرد کردیا (کہ وہ دونوں حضرات مشترکہ طور پر اس کی تولیت کے فرائض انجام دیں) اور خیبر وفدک کی زمین، جائداد کو اپنی تولیت میں رکھا اور فرمایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا (چھوڑا ہوا) صدقہ ہے جس سے آپ ﷺ کے حقوق متعلق تھے۔ نیز انہوں نے (کسی فرمان یا وصیت کے ذریعہ) ان زمین و جائدادوں کا متولی و نگران اسی شخص کو قرار دیا جو خلافت وامارت کی ذمہ داریاں سنبھالے۔ چناچہ وہ اب تک اسی صورت حال کے مطابق ہیں۔ بہرحال، اس بارے میں اوپر جو احادیث نقل کی گئیں یا وہ احادیث جو اسی مفہوم و مضمون سے متعلق صحاح ستہ میں متعدد طرق واسانید سے منقول ہیں ان سب سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ارشاد گرامی لا نورث ماترکناہ صدقۃ کا صحیح تر ثابت اور معمول بہ ہونا، آنحضرت ﷺ نے مال و جائداد کی قسم سے جو کچھ چھوڑا اس کا عام مسلمانوں کے درمیان مشترک ہونا اور ان کے اجتماعی مفاد و مصالح میں خرچ کیا جانا اور اس کا اس شخص کے قبضہ اختیار میں ہونا جو خلافت و امارت کا منصب سنبھالے ہوئے ہو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حتی کے حضرت عباس کے (رض) کے نزدیک بھی ایک متفقہ علیہ مسئلہ تھا۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس مال وجائداد کو حضرت عباس (رض) اور حضرت علی (رض) کی تولیت میں دیا جانا ایک درست عمل اور بہتر طریقہ تھا تو حضرت عمر (رض) نے شروع ہی میں یہ صورت اختیار کیوں نہ کرلی اور اگر وہ کوئی درست عمل اور بہتر طریقہ نہیں تھا تو پھر انہوں نے بعد میں اس مال وجائداد کو ان لوگوں کی تولیت میں کیوں دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شروع میں ان دونوں کا مطالبہ چونکہ یہ تھا اس مال وجائداد کو ان کی ملکیت میں دے دیا جائے اس لئے حضرت عمر (رض) نے ان کے مطالبہ کو منظور نہیں کیا اور پھر بعد میں جو ان لوگوں کو دیا تو اس کی بنیاد یہ تھی کہ ان لوگوں کو اس مال و جائداد کا مالک نہیں بنایا گیا بلکہ صرف متولی و منتظم بنایا گیا تھا اور یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ اس کو انہیں مصارف میں خرچ کیا جائے گا جن میں آنحضرت ﷺ خرچ کیا کرتے تھے۔ مگر بات یہیں صاف نہیں ہوجاتی بلکہ جیسا کہ خطابی نے کہا ہے، مسئلہ میں ایک دوسری طرف سے الجھاؤ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس سوال کی صورت میں کہ جب حضرت عباس اور حضرت علی (رض) نے اس مال وجائداد کو مذکورہ شرط پر قبضہ میں لیا تھا اور ان لوگوں یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ یہ مال وجائداد آنحضرت ﷺ کا ورثہ نہیں ہے اور جلیل القدر مہاجر صحابہ کرام نے اس کی تصدیق بھی کی تھی تو پھر آخر ان لوگ کے درمیان یہ اختلاف وخصومت کی شکل کیوں پیدا ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس تولیت میں شرکت دونوں ہی پر شاق گزر رہی تھی لہٰذا انہوں نے یہ درخواست کی کہ اس مال و جائداد کو تقسیم کرکے ہر ایک کو ایک ایک حصے کا منتظم ومتولی بنادیا جائے تاکہ دونوں ایک دوسرے سے کوئی واسطہ رکھے بغیر اپنے اپنے حصے کی دیکھ بھال اور اس کے اور خرچ و تصرف کا انتظام آزادی ویکسوئی کے ساتھ کرتے رہیں لیکن حضرت عمر (رض) نے ان کی درخواست کو اس لئے قبول نہیں کیا کہ مبادا یہ تقسیم ملکیت کی صورت کے مشابہ ہوجائے کیونکہ تقسیم املاک میں ہوا کرتی ہے دوسرے یہ کہ فی الوقت نہ صحیح لیکن طویل زمانہ گزر جانے پر اس میں خود باخود ملکیت کا شائبہ ہونے لگتا ہے۔ حضرت عباس اور حضرت علی (رض) سے زیادہ الجھا ہوا مسئلہ حضرت فاطمہ الزہرا (رض) کا ہے کیونکہ اگر ان کے مطالبہ کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی اس حدیث اور آپ ﷺ کے اس عمل سے قطعا لاعلم تھیں تو یہ بات بعید از حقیقت ہوگی اور اگر یہ کہا جائے کہ بہرحال ممکن ہے کہ ان کو آنحضرت ﷺ سے یہ ارشاد سننے کا اتفاق نہ ہوا ہو تو پھر یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان کے سامنے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد بیان فرمایا اور دوسرے صحابہ کرام نے بھی اس کی تصدیق کی تو پھر انہوں نے اس بات کو قبول کرنے سے کیوں انکار کیا اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ساتھ اس قدر ناراضگی کی صورت کیوں اختیار کی یا اگر ناراضگی کی صورت اس حدیث کو سننے سے پہلے پیدا ہوچکی تھی تو سننے کے بعد انہوں نے اس کو ختم کیوں نہیں کیا جس نے اتنا طول کھینچا کہ وہ زندگی کے آخری لمحہ تک حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے ترک سلام و کلام پر قائم رہیں ؟ کرمانی نے بخاری کی شرح میں اس کا جواب یہ لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ الزہرا (رض) کی ناراضگی اصل میں ایک ایسی صورت تھی جو ان میں بتقاضائے بشریت پیدا ہوگی اور ہجران سے ہجران محرم یعنی ترک وسلام و کلام اور انقطاع تعلق مراد نہیں ہے بلکہ ملنے جلنے سے طبیعت میں انقباص و کوفت کا پیدا ہوجانا مراد ہے۔ علاوہ ازیں بعض روایت میں منقول ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت فاطمہ (رض) کے درمیان مذکورہ صورت حال پیدا ہوگئی (کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی طرف سے حضرت فاطمہ (رض) کا مطالبہ تسلیم نہ کئے جانے کی وجہ سے وہ ان سے ناراض ہوگئیں) تو (ایک دن) حضرت ابوبکر (رض) حضرت فاطمہ (رض) کے ہاں تشریف لے گئے اور آفتاب کی سخت گرمی اور دھوپ کی شدید تمازت کے باوجود ان کے دروازے پر کھڑے رہے اور ان سے عذر خواہی کرتے رہے اور یہ فرمایا کہ اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ کی قرابت (کے حقوق کی رعایت و حفاظت) مجھے اپنی قرابت سے زیادہ محبوب اور عزیز تر ہے لیکن میں کیا کروں کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے اس حدیث کو سنا ہے اور دوسرے صحابہ کرام اس پر گواہ ہیں۔ تب حضرت فاطمہ (کا دل صاف ہوگیا اور ان) کی ناراضگی ختم ہوگئی۔ تمت بالخیر