134. شکار اور ذبیحوں سے متعلق

【1】

شکار کا حکم

حدود حرم سے باہر ہر جگہ شکار کرنا حلال ہے بشرطیکہ شکار کرنے والا حالت احرام میں نہ ہو، چناچہ شکار کا مباح ہونا کتاب و سنت ( یعنی قرآن مجید اور احادیث نبوی) سے ثابت ہے اور اجماع امت بھی اسی پر ہے البتہ حضرت امام مالک کے مسلک کی ایک کتاب رسالہ ابن ابوزید میں لکھا ہے کہ محض لہو و لعب کی خاطر شکار کرنا مکروہ ہے اور لہو و لعب کے قصد و ارادے کے بغیر مباح ہے۔ جہاں تک آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی کا تعلق ہے تو یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے بنفس خود کبھی شکار کیا ہو لیکن یہ ثابت ہے کہ اگر کبھی آپ ﷺ کے سامنے کسی نے شکار کیا تو آپ ﷺ نے اس کو منع نہیں فرمایا۔

【2】

کتے اور تیر کے ذریعہ کئے گئے شکار کا مسئلہ

حضرت عدی ابن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ جب تم اپنے کتے کو چھوڑو تو اللہ کا نام ذکر کرو ( یعنی جب تم شکار کے لئے اپنے سکھائے ہوئے کتے کو چھوڑنے کا ارادہ کرو تو اس کو بسم اللہ کہہ کر چھوڑو) اور پھر اگر اس کتے نے تمہارے لئے شکار کو پکڑ لیا ہو اور وہ شکار تم کو زندہ ملے تو اس کو ذبح کرلو، ( اگر اس کو قصدا ذبح نہیں کرو گے تو اس کا کھانا حرام ہوگا کیونکہ اس صورت میں وہ مردار ہوگا) اور اگر تم اس شکار کو اس حالت میں پاؤ کہ کتے نے اس کو مار ڈالا ہے لیکن اس نے اس میں سے کچھ کھایا نہیں ہے تو اس ( شکار) کو کھاؤ لیکن اگر کتے نے اس میں سے کچھ کھالیا ہے تو پھر تم اس کو نہ کھاؤ کیونکہ اس صورت میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کتے نے اس شکار کو اپنے لئے پکڑا ہوگا ( جو اس بات کی علامت ہوگی کہ کتا سکھایا ہوا نہیں ہے جب کہ اس کتے کا پکڑا ہوا شکار حلال ہے جو سکھایا ہوا ہو) اور اگر تم شکار کے پاس) اپنے کتے کے ساتھ کسی دوسرے کا کتا بھی پاؤ، درآنحالیکہ ( ان دونوں میں سے کسی ایک کتے نے) اس شکار کو مار ڈالا ہو تو اس صورت میں بھی اس شکار کو مت کھاؤ کیونکہ تمہیں یہ معلوم نہیں ہوگا کہ اس شکار کو ان دونوں کتوں میں سے کس نے مارا ہوگا تو ہوسکتا ہے کہ وہ سکھایا ہوا نہ ہو یا اس کو چھوڑنے والے نے چھوڑتے وقت بسم اللہ نہ کہی ہو اور یا اس کو کسی ایسے شخص نے چھوڑا ہو جس کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال نہیں ہوتا جیسے مجوسی یا بت پرست وغیرہ) اور جب تم ( کسی شکار پر) اپنا تیر چلاؤ تو ( اس وقت) اللہ کا نام ذکر کرو یعنی بسم اللہ کہہ کر تیر چلاؤ اور پھر اگر وہ شکار ایک دن تک تم سے اوجھل رہا ( اور اس کے بعد تمہیں ملا) تو تم چاہو تو اس کو کھالو بشیرطی کہ تم نے اس شکار میں اپنے تیر کے نشان کے علاوہ اور کوئی نشان نہ پایا ہو اور اگر وہ شکار تمہیں پانی میں ڈوبا ہوا ملے ( اور اس میں تمہارے تیر کا نشان بھی موجود ہو) تو تم اس کو نہ کھاؤ ( کیونکہ ممکن ہے وہ تمہارے تیر سے نہ مرا ہو بلکہ پانی میں ڈوب کر مرا ہو۔ ( بخاری ومسلم) تشریح اللہ کا نام ذکر کرو کا مطلب یہ ہے کہ کتے کا چھوڑنا بمنزلہ چھری چلانے کے ہے اس لئے جس طرح چھری کے ذریعہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جاتا ہے اس طرح شکار پر سکھایا ہوا کتا چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا جانا یعنی بسم اللہ اللہ اکبر کہنا ضروری ہے۔ اگر کسی نے بھول کر بسم اللہ اللہ اکبر نہیں کہا تو اس صورت میں اس شکار کو کھانا حلال ہوگا اور اگر یہ صورت ہے کہ کتا چھوڑتے وقت قصدا بسم اللہ اللہ اکبر نہیں کہا پھر اس نے کتے کو ڈانٹا کتا جہاں تھا وہیں رک گیا، اب ( کتے کو چھوڑتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر نہیں کہا مگر اس نے شکار کو زندہ پایا اور ذبح کرلیا تو وہ شکار کے حکم میں نہیں رہے گا۔ جس طرح سکھائے ہوئے ذی ناب جانوروں جیسے کتے اور چیتے وغیرہ کا پکڑا ہوا شکار حلال ہے اسی طرح سکھائے ہوئے ذی مخلب جانوروں جیسے باز اور شاہین وغیرہ کا پکڑا ہوا شکار بھی حلال ہے۔ ذی مخلب جانور کے سکھائے ہوئے ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ تین دفعہ شکار کو پکڑ کر چھوڑ دے خود نہ کھائے اور ذی مخلب جانور کے سکھائے ہوئے ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کو چھوڑنے کے بعد بلایا جائے تو فورا واپس آجائے، لہذا اگر ذی مخلب جانور یعنی باز وغیرہ نے شکار میں سے کچھ خود کھالیا تو بھی وہ شکار حلال رہے گا اور اس کو کھانا درست ہوگا جب کہ اگر ذی ناب جانور یعنی کتا وغیرہ شکار میں سے کچھ خود کھالے تو وہ شکار حلال نہیں رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی سکھائے ہوئے کتے وغیرہ نے تین بار شکار کو پکڑ کر چھوڑ دینے کے بعد ایک بار بھی شکار میں سے کچھ کھالیا تو وہ بےسیکھے ہوئے کتے کے حکم میں ہے یہاں تک کہ وہ دوبارہ سیکھا ہوا ہوجائے۔ اور پھر وہ شکار ایک دن تک تم سے اوجھل رہا الخ حنفی علماء کے نزدیک تیر کے ذریعہ مارے گئے شکار کے حلال ہونے کی شرط یہ ہے کہ تیر پھینکتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کہا گیا ہو اس تیر نے شکار کو زخمی کردیا ہو اور یہ کہ اگر وہ شکار اس تیر کے ذریعہ زخمی ہو کر شکاری کی نظر سے غائب ہوگیا تو اس کو تلاش کرنے سے بیٹھ نہ رہا جائے کیونکہ ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب مصنف میں اور طبرانی نے اپنی معجم میں ابورزین سے یہ روایت نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا لعل ہو ام الارض قتلہ نیز عبدالرحمن نے بھی اسی طرح کی روایت حضرت عائشہ (رض) سے بطریق مرفوع نقل کی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شکار پر کوئی کتا یا چیتا یا باز وغیرہ چھوڑا گیا اور اس نے شکار کو مار ڈالا تو وہ ( شکار) حلال ہوگا بشرطیکہ وہ کتا وغیرہ معلم یعنی سیکھا ہوا ہو۔ غیر معلم کتے وغیرہ کا مارا ہوا شکار حلال نہیں ہوگا۔

【3】

کتے اور تیر کے ذریعہ کئے گئے شکار کا مسئلہ

اور حضرت عدی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم تربیت یافتہ ( یعنی سکھائے ہوئے) کتوں کو ( شکار کے پیچھے) چھوڑتے ہیں ! ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہارے کتے تمہارے لئے جو شکار پکڑ کر رکھیں۔ میں نے عرض کیا اگرچہ وہ کتے شکار کو مار ڈالیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اگرچہ مار ڈالیں ! پھر میں نے عرض کیا کہ ہم شکار پر بغیر پر کا تیر چلاتے ہیں ( اور اس کے ذریعہ شکار کرلیتے ہیں تو کیا وہ شکار کھانا درست ہے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا جس شکار کو وہ تیر زخمی کر دے ( یعنی اگر وہ تیر سیدھا جا کر نوک کی جانب سے شکار کو لگے اور وہ مرجائے) تو اس کو کھالو اور اگر وہ تیر ( نوک کی جانب سے نہیں بلکہ) عرض یعنی چوڑائی کی جانب سے جا کر اس شکار کو ( اس طرح) لگے ( کہ وہ شکار کو زخمی نہ کرے) اور وہ مرجائے تو وہ وقیذ ہے اس کو نہ کھاؤ۔ ( بخاری و مسلم) تشریح معراض اس تیر کو کہتے ہیں جو بےپر کا ہو۔ ایسا تیر سیدھا جا کر نوک کی طرف سے نہیں بلکہ چوڑائی کی طرف سے جا کر لگتا ہے۔ وہ وقیذ ہے۔ اصل میں وقیذ اور موقوذ اس جانور کو کہتے ہیں جو غیر دھار دار چیز سے مارا جائے خواہ وہ لکڑی ہو یا پتھر یا اور کوئی چیز۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معراض یعنی بغیر پر کے تیر کے ذریعہ شکار کرنے کی صورت میں اگر وہ ( معراض) اس شکار کو اپنی دھار کے ذریعہ مار ڈالے تو وہ حلال ہوگا اور اگر معراض نے اس کو اپنی چوڑائی کے ذریعہ مارا ہے تو وہ حلال نہیں ہوگا، نیز علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ اس حدیث معراض سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ شکار حلال نہیں ہے جس کو بندقہ یعنی گولی اور غلہ کے ذریعہ مار ڈالا گیا ہو۔ اور وہ شکار جو معراض کے چوڑان کی طرف سے ( چوٹ کھا کر) مرا ہو اس لئے حلال نہیں ہوتا کہ مذکورہ صورت میں شکار کا زخمی ہونا ضروری ہے تاکہ ذبح کے معنی متحقق ہوجائیں جب کہ معراض کا چوڑان شکار کو زخمی نہیں کرتا اسی لئے وہ شکار بھی حلال نہیں ہوتا، جو موٹی دھار کے بندقہ کے ذریعہ مار ڈالا گیا ہو۔ کیونکہ بندقہ ہڈی کو توڑ دیتا ہے زخمی نہیں کرتا اس لئے وہ معراض کے حکم میں ہوتا ہے ہاں اگر بندقہ میں ہلکی دھار ہو اور شکار اس کے ذریعہ مرگیا ہو تو وہ حرام نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں اس کی موت زخم کے ساتھ محقق ہوئی ہے۔ اگر کسی شخص نے شکار پر چھری یا تلوار پھینک کر ماری اور وہ شکار مرگیا تو وہ حلال ہوگا بشرطیکہ وہ چھری یا تلوار دھار کی طرف سے جا کر لگی ہو ورنہ حلال نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر شکار کے کوئی ایسا ہلکا پتھر پھینک کر مارا گیا ہو جس میں دھار ہو اور شکار کو زخمی کر دے تو اس شکار کو بھی کھایا جاسکتا ہے کیونکہ اس صورت میں اس شکار کی موت زخم کے ذریعہ متیقن ہوگی جب کہ اگر شکار کو بھاری پتھر پھینک کر مارا گیا ہو تو اس کو کھانا جائز نہیں ہوگا اگرچہ وہ زخمی بھی کر دے کیونکہ اس صورت میں یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ وہ شکار اس پتھر کی چوٹ کے ذریعہ ( جیسے ہڈی وغیرہ ٹوٹنے کی وجہ سے) مرا ہو۔ حاصل یہ ہے کہ اگر شکار کی موت اس کے زخمی ہوجانے کی وجہ سے واقع ہوئی ہو اور اس کا یقین بھی ہو تو اس کو کھایا جاسکتا ہے اور اگر اس کی موت چوٹ کے اثر سے واقع ہوئی اور اس کا یقین ہو تو اس شکار کو قطعا نہ کھایا جائے اور اگر شک کی صورت ہو ( کہ اس کا مرنا زخمی ہونے کی وجہ سے بھی محتمل ہو اور چوٹ کے اثر سے بھی محتمل ہو) تو بھی احتیاطا اس کو نہ کھایا جائے۔