135. شکار کا بیان

【1】

کتے اور تیر کے ذریعہ کئے گئے شکار کا مسئلہ

اور حضرت ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! ہم ایک ایسی قوم کے درمیان سکونت پذیر ہیں جو اہل کتاب ہے، تو کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا پی سکتے ہیں اور ہم ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں شکار بہت ہیں میں اپنی کمان ( یعنی تیر) اور تربیت یافتہ کتے کے ذریعہ بھی شکار مارتا ہوں اور غیر تربیت یافتہ کتے کے ذریعہ بھی شکار کرتا ہوں تو میرے لئے کون سی چیز درست ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جہاں تک اس چیز کا تعلق ہے جو تم نے اہل کتاب کے برتنوں کے بارے میں پوچھی ہے تو ( ان کے متعلق یہ حکم ہے کہ) اگر ان برتنوں کے علاوہ اور برتن مل سکیں تو پھر ان کے برتنوں میں مت کھاؤ پیو اور اگر دوسرے برتن نہ مل سکیں تو ( پہلے) ان کو دھو مانج لو اور پھر ان میں کھا پی لو۔ رہی شکار کی بات تو جس جانور کو تم نے اپنے تیر سے شکار کیا ہے اور ( تیر چھوڑتے وقت) اللہ کا نام لیا ہے اس کو کھالو اسی طرح جس جانور کو تم نے تربیت یافتہ کتے کے ذریعہ شکار کیا ہے اور ( اس کتے کو چھوڑتے وقت) اللہ کا نام لیا ہے تو اس کو بھی کھا سکتے ہو۔ (بخاری و مسلم) تشریح ان کے برتنوں میں مت کھاؤ یہ حکم احتیاط کے پیش نظر ہے اور اس کے کہی سبب ہیں ایک تو یہ کہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے دع ما یریبک الی مالا یریبک دوسرے اس بات سے آگاہ کرنا مقصود ہے کہ حتی الامکان ان کے مستعمل برتنوں میں کھانے پینے سے احتراز کیا جائے اگرچہ ان کو دھو لیا گیا ہو۔ اور تیسرے مسلمانوں کے ذہن میں یہ بات زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ راسخ کرنا بھی مقصود ہے کہ مسلمانوں کے سامنے ان کا یہ ملی تقاضہ بہر صورت رہنا چاہئے کہ وہ ان ( اہل کتاب) کے ساتھ رہن سہن اور باہمی اختلاط رکھنے سے نفرت کریں۔ تاہم یہ حکم کہ ان کے برتنوں میں مت کھاؤ دراصل تقوی کی راہ ہے اور اس بارے میں جو کچھ فتوی ہے وہ خود حدیث نے آگے بیان کردیا ہے۔ ان کو دھو مانج لو یہ حکم اس صورت میں تو بطریق وجوب ہوگا جب کہ ان برتنوں کے نجس و ناپاک ہونے کا ظن غالب ہو اور اس صورت میں بطریق استحباب ہوگا جب کہ ان کی نجاست کا ظن غالب نہ ہو۔ برماوی نے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر ان ( اہل کتاب) کے برتنوں کے علاوہ اور دوسرے برتن مل سکتے ہوں تو اس صورت میں ان کے برتنوں کو دھو کر بھی اپنے کھانے پینے کے استعمال میں نہیں لانا چاہئے۔ جب کہ فقہاء نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ ان کے برتنوں کے دھو لینے کے بعد استعمال کرنا بہر صورت جائز ہے۔ خواہ اور دوسرے برتن مل سکتے ہوں یا نہ مل سکتے ہوں۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ حدیث سے جو کراہت ثابت ہوتی ہے وہ ان برتنوں پر محمول ہے جن میں وہ لوگ سور کا گوشت پکاتے کھاتے ہوں یا جن میں شراب پینے کے لئے رکھتے ہوں، لہذا ایسے برتن چونکہ ایمانی نقطہ نظر سے بےحد گھناؤ نے ہوتے ہیں، اس لئے ان کو اپنے استعمال میں لانا مکروہ ہے خواہ ان کو کتنا ہی دھو مانج کیوں نہ لیا جائے اور فقہاء نے جو مسئلہ بیان کیا ہے وہ ان برتنوں پر محمول ہے جو سور کے گوشت جیسی نجاستوں اور ناپا کیوں میں زیادہ مستعمل نہیں ہوتے۔

【2】

بدبودار گوشت کا حکم

اور حضرت ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر تم ( اللہ کا نام لے کر کسی شکار پر) اپنا تیر چلاؤ اور پھر وہ ( شکار تیر کھا کر تمہاری نظروں سے اوجھل ہوجائے۔ ( یعنی کسی ایسی جگہ گر کر مرجائے جو اس وقت تمہیں نہ مل سکے) اور پھر وہ تمہارے ہاتھ لگ جائے ( اور تم اس میں اپنے تیر کا نشان دیکھ کر یہ یقین کرلو کہ یہ تمہارے اس تیر کے لگنے سے مرا ہے) تم اس کو کھا سکتے ہو جب تک کہ اس ( کی بو) میں تغیر پیدا نہ ہوجائے۔ ( مسلم) تشریح حنفی علماء لکھتے ہیں جب تک کہ اس میں تغیر پیدا نہ ہوجائے کا حکم بطریق استحباب ہے، ورنہ تو گوشت میں بو کا پیدا ہوجانا اس گوشت کے حرام ہونے کو واجب نہیں کرتا۔ چناچہ ایک روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا گوشت کھایا ہے جس میں بو پیدا ہوچکی تھی۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ بد بودار گوشت کھانے کی ممانعت، محض نہی تنزیہہ پر محمول ہے نہ کہ نہی تحریم پر، بلکہ یہی حکم ہر اس کھانے کا ہے جو بد بودار ہوگیا ہو الاّ یہ کہ اس کو کھانے کی وجہ سے کسی تکلیف و نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

【3】

بدبودار گوشت کا حکم

اور حضرت ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس شکاری کے حق میں کہ جو اپنے شکار کو تین دن کے بعد پائے فرمایا ( اس کو کھالو تاوقتیکہ اس میں بو پیدا نہ ہوگئی ہو۔ ( مسلم )

【4】

مشتبہ ذبیحہ کا حکم

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ( ایک مرتبہ) صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ! یہاں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے شرک کا زمانہ بہت قریب کا ہے ( یعنی وہ نو مسلم جنہوں نے اسلام کے احکام اور دینی مسائل پوری طرح ابھی نہیں سیکھے ہیں) وہ لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں اور ہمیں اس کا علم نہیں ہوتا کہ آیا انہوں نے اس کے ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں ( تو کیا ان کا لایا ہوا گوشت ہم کھا سکتے ہیں یا نہیں ؟ ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم اللہ کا نام لے لیا کرو اور اس کو کھالیا کرو ( بخاری) تشریح تم اللہ کا نام لے لیا کرو الخ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم بسم اللہ پڑھ کر اس گوشت کو کھالو تو اس وقت تمہارا بسم اللہ پڑھنا ذبح کرنے والے کے بسم اللہ پڑھنے کے قائم مقام ہوجائے گا بلکہ ذراصل اس ارشاد کے ذریعہ آپ ﷺ نے یہ بیان فرمایا ہے، کہ کھانے کے وقت بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جو گوشت تمہارے پاس لایا گیا ہے اس کے بارے میں تم یہ نہیں جانتے کہ آیا وہ اس ذبیحہ کا ہے جو بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا گیا ہے یا بسم اللہ پڑھے بغیر ذبح کردیا گیا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس گوشت کو کھانا جائز ہے بشرطیکہ اس کو ذبح کرنے والا ان میں سے ہو جن کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا شرعا جائز ہے اور یہ جواز اس حسن ظن کی بنیاد ہے جو ایک مسلمان کی حالت و کیفیت کو صلاح و نیکی ہی پر محمول کرنے کا متقاضی ہوتا ہے لہٰذا اگر اس طرح کا کوئی شخص تمہیں گوشت دے جائے تو تم یہی حسن ظن رکھو کہ وہ چونکہ بہر حال مسلمان ہے اس لئے اس نے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام ضرور لیا ہوگا۔

【5】

غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام ہے

اور حضرت ابوطفیل کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا رسول کریم ﷺ نے آپ ( اہل بیت) کو کسی چیز کے ذریعہ خصوصیت و امتیاز عطا کیا ہے یعنی کیا یہ صحیح ہے کہ آنحضرت ﷺ نے آپ لوگوں کو جو اہل بیت رسول ﷺ ہیں کچھ ایسے احکام دیئے ہیں جو اور دوسرے لوگوں کو نہیں دیئے ہیں ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا ( نہیں ! ) آنحضرت ﷺ نے ہمارے لئے کوئی ایسی چیز مخصوص نہیں کی ہے جو اور دوسروں کے لئے عام نہ کی گئی ہو، علاوہ اس چیز کے جو میری تلوار کی نیام میں ( چند احکام کے مجموعہ کی صورت میں) موجود ہے ( لیکن ان احکام کے بارے میں بھی، میں یہ نہیں جانتا کہ وہ احکام آیا محض ہم اہل بیت کے لئے خاص ہیں یا ان کا تعلق عمومی طور پر پوری امت سے ہے) پھر حضرت علی (رض) نے ( اپنی تلوار کی نیام میں سے) ایک کاغذ نکالا جن میں یہ احکام درج تھے کہ اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو غیر اللہ کے نام پر کسی جانور کو ذبح کرے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو زمین کا نشان چرائے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ( اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو) جو زمین کے نشان میں تغیر و تبدل کرے۔ اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو اپنے باپ پر لعنت کرے اور اس شخص پر لعنت ہو جو کسی بدعتی کو ٹھکانا دے۔ ( مسلم ) تشریح زمین کے نشان سے مراد وہ علامتی پتھر وغیرہ ہے جو زمین کی حدود پر نصب ہوتا ہے اور جس کے ذریعہ ایک دوسرے کی زمین کے درمیان فرق و امتیاز کیا جاتا ہے۔ اور اس نشان کو چرانے یا اس میں تغیر و تبدل کرنے کا مطلب یہ ہے، کہ وہ شخص بزور و زبردستی اپنے ہمسایہ کی زمین دبا لینا چاہتا ہو۔ جو اپنے باپ پر لعنت کرے یعنی یا تو اپنے باپ پر خود صریحا لعنت کرے یا کسی دوسرے شخص کے باپ پر لعنت کرے اور وہ شخص انتقاما اس کے باپ پر لعنت کرے، اس دوسری صورت میں اس نے اگرچہ اپنے باپ پر خود صریحا لعنت نہیں کی ہے مگر اس لعنت کا سبب چونکہ وہی بنا ہے اس لئے کہا جائے گا کہ گویا اس نے اپنے باپ پر لعنت کی ہے۔ جو کسی بدعتی کو ٹھکانا دے بدعتی اس شخص کو کہتے ہیں جو دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے جس کی کچھ اصل موجود نہ ہو اور وہ بات شریعت کے خلاف اور سنت میں تبدیلی پیدا کرنے والی ہو۔ ایسے شخص یعنی بدعتی کو ٹھکانا دینا اس کی عزت و تعظیم کرنا اور اس کی مدد و حمایت کرنا۔ شریعت کی نظر میں قابل مواخذہ ہے۔

【6】

جو چیز بھی خون بہا دے اس سے ذبح کرنا جائز ہے

اور حضرت رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کل دشمن ( یعنی کفار) سے ہمارا مقابلہ ہونے والا ہے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں ( یعنی ہوسکتا ہے کہ جنگی ہنگاموں کی وجہ سے ہمارے پاس چھریاں موجود نہ رہیں اور ہمیں جانوروں کو ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس صورت میں) کیا ہم کھپچ ( کھپچی) سے ذبح کرسکتے ہیں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس چیز سے خون بہہ جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اس کو کھا سکتے ہو ( یعنی اس جانور کو کھانا جائز ہے جو کسی بھی ایسی چیز سے ذبح کیا گیا ہو جس سے خون بہہ جائے خواہ وہ لوہا ہو یا کوئی اور چیز) مگر دانت اور ناخن کے ذریعہ ( ذبح کرنا جائز نہیں ہے اور میں تمہیں ان دونوں کے بارے میں بتاتا ہوں ( کہ ان کے ذریعہ ذبح کرنا کیوں جائز نہیں ہے) تو ( سنو کہ) دانت تو ہڈی ہے اور جہاں تک ناخن کا تعلق ہے تو وہ حبشیوں کی چھری ہے۔ ( حضرت رافع (رض) کہتے ہیں کہ دشمن کے) کچھ اونٹ اور بکریاں لوٹ میں ہمارے ہاتھ آئیں، ان میں سے ایک اونٹ ( بھڑک کر) بھاگ نکلا، لیکن ( ہم میں سے) ایک شخص نے تیر مار کر اس کو روک دیا ( یعنی وہ اونٹ تیر کھا کر زمین پر ڈھر ہوگیا) آنحضرت ﷺ نے ( یہ دیکھ کر) فرمایا ان اونٹوں میں بعض اونٹ بھی اس طرح انسانوں سے بھڑکنے والے ہوتے ہیں جس طرح جنگلی جانور۔ انسانوں سے بھڑکتے ہیں، لہٰذا اگر ان اونٹوں میں سے کوئی اونٹ تمہارے قبضے سے نکل بھاگے تو اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرو۔ ( بخاری ومسلم) تشریح دانت تو ہڈی ہے یعنی دانت چونکہ ہڈی ہے اور ہڈی سے ذبح کرنا درست نہیں ہے اس لئے دانت کے ذریعہ ذبح کیا ہوا جانور کھانا جائز نہیں ہوگا۔ شیخ ابن صلاح کہتے ہیں کہ اس موضوع پر بہت زیادہ تحقیق و تفتیش اور غور و فکر کے باوجود میں یہ جاننے میں ناکام رہا ہوں کہ ہڈی کے ذریعہ ذبح کرنے کی ممانعت کا کیا مطلب ہے اور اس کی کیا وجہ ہے ! شیخ عبدالسلام سے بھی اس طرح کی بات منقول ہے، جہاں تک حدیث کا تعلق ہے اس میں بھی صرف یہی فرمایا گیا ہے کہ دانت سے ذبح کرنا اس لئے درست نہیں کہ وہ ہڈی ہے اس کے علاوہ اور کسی ظاہری علت و سبب کی طرف اشارہ نہیں ہے لیکن حضرت امام نووی نے ہڈی سے ذبح کرنے کی ممانعت کی یہ علت بیان کی ہے کہ اگر ہڈی سے ذبح کیا جائے گا تو وہ ہڈی، ذبیحہ کے خون سے نجس ہوجائے گی اور ہڈی کو نجس و ناپاک کرنے کی ممانعت منقول ہے کیونکہ ( ) ( ہڈی) کو جنات کی خوراک بتایا گیا ہے۔ وہ حبشیوں کی چھری ہے یہ گویا ناخن سے ذبح کرنے کی علت ہے، یعنی اگر ناخن کے ذریعہ ذبح کیا جائے گا تو اس میں حبشیوں کی مشابہت اختیار کرنا لازم آئے گا کیونکہ ناخن کے ذریعہ جانوروں کو چیر پھاڑ کر کھانا حبشیوں کے ساتھ مخصوص ہے اور وہ حبشی غیر مسلم ہیں، جب کہ مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ غیر مسلموں کے طور طریقوں کو اختیار نہ کریں بلکہ ان کے خلاف کریں ! واضح رہے کہ دانت اور ناخن کے ذریعہ ذبح کرنے کی ممانعت تینوں آئمہ کے نزدیک مطلق ہے، جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ ان دانتوں اور ناخنوں سے ذبح کرنا تو جائز نہیں ہے جو اپنی جگہ پر یعنی منہ اور انگلیوں میں ہوں ہاں جو دانت اور ناخن اپنی جگہ سے اکھڑ کر ( منہ اور انگلیوں سے) الگ ہوچکے ہوں ان کے ذریعہ ذبح کرنا جائز ہے لیکن یہ جواز کراہت کے ساتھ ہے تاہم اس ذبیحہ کا گوشت کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ تینوں آئمہ کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جس میں دانت اور ناخن کے ذریعہ ذبح کرنے کی ممانعت کسی قید اور کسی استثناء کے بغیر منقول ہے، جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی دلیل آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ انھر الدم بما شئت اور وافر الاوداج۔ اور جہاں تک حضرت رافع (رض) کی اس روایت کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں حضرت امام اعظم کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث بغیر اکھڑے ہوئے دانت اور ناخن کے ذریعہ ذبح کرنے پر محمول ہے کیونکہ حبشیوں کا یہی طریقہ تھا۔ تو اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرو کا مطلب یہ ہے کہ اگر گھر کا پالتو کوئی جانور جیسے اونٹ، گائے اور بکری وغیرہ بھاگ کھڑا ہو تو وہ ذبح کے معاملہ میں وحشی جانور کے شکار کی مانند ہوگا کہ جس طرح وحشی جانور پر بسم اللہ پڑھ کر مثلا تیر چلایا جائے تو وہ تیر اس جانور کے جسم کے جس حصہ پر بھی لگ کر اس کو ختم کر دے گا وہ ذبیحہ کے حکم میں ہوجائے گا، اسی طرح اس بھاگنے والے پالتو جانور کا سارا جسم اور اس کے سارے اعضاء بھی ذبح کی جگہ ہوں گے، چناچہ بسم اللہ پڑھ کر اس پر چلایا جانے والا تیر اس کے جسم کے جس حصے میں لگ کر اس کو ختم کر دے گا اس کا گوشت حلال ہوگا۔ اور یہی حکم اس صورت میں ہے جب کہ اونٹ وغیرہ کنوئیں یا اس طرح کے کسی اور کھڈ وغیرہ میں گرپڑیں ! یہاں خاص طور پر صرف اونٹ کا ذکر شاید اس لئے کیا گیا ہو کہ اس میں تو حش بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ذبح کی دو قسمیں ہیں، ایک قسم تو اختیاری ہے اور دوسری قسم اضطراری ہے اختیاری کی ایک صورت تو جانور کے لیہ اور لحیتین کے درمیان کسی دھار دار چیز جیسے چھری وغیرہ سے جراحت کے ساتھ رگوں کو کاٹنے کی ہوتی ہے اور دوسری صورت نحر کے ساتھ یعنی اونٹ کے سینے میں نیزہ وغیرہ مارنے کی ہوتی ہے اور اضطراری کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جانور کے جسم کے کسی بھی حصے کو زخمی کر کے مار دیا جائے۔

【7】

پتھر کے ذریعہ ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے

اور حضرت کعب بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ان ( کعب) کے پاس ( بکریوں کا) ایک ریوڑ تھا جو مدینہ کی ایک پہاڑی سلع پر چرا کرتا تھا، ( ایک دن) ہماری ایک لونڈی نے ایک بکری کو دیکھا کہ وہ مرا ہی چاہتی ہے تو اس نے ایک پتھر کا ٹکڑا توڑا اور اس ٹکڑے کے ذریعہ اس بکری کو ذبح کردیا، پھر ( کعب نے) نبی کریم ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا ( اس صورت میں اس بکری کا گوشت کھانا حلال ہے یہ نہیں ؟ ) آنحضرت ﷺ نے اس کو اس بکری ( کے گوشت) کو کھانے کا حکم دے دیا ) ۔ ( بخاری )

【8】

ذبح کئے جانے والے جانوروں کو خوبی ونرمی کے ساتھ ذبح کرو

اور حضرت شداد بن اوس (رض) رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آب ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کرنے کو لازم کیا ہے یعنی حق تعالیٰ کی طرف سے ہر کام کو حسن و خوبی اور نرمی کے ساتھ انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ سزاء کسی کو قتل کرنے یا جانوروں کو ذبح کرنے میں بھی مہربانی و نرم دلی اور خوبی و نرمی کا طریقہ اختیار کرنا لازم ہے) لہٰذا جب تم ( کسی شخص کو قصاص یا حد کے طور پر) قتل کرو تو اس کو نرمی و خوبی کے ساتھ کرو ( تاکہ اس کو ایذاء نہ ہو جیسے تیز تلوار استعمال کرو اور قتل کرنے میں جلدی کرو) اور جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو خوبی و نرمی کے ساتھ ذبح کرو لہٰذا یہ ضروری ہے کہ تم میں سے کوئی بھی شخص ( جو جانور کو ذبح کرنا چاہتا ہو) اپنی چھری کو ( خوب تیز کرلے اور ذبح کئے جانے والے جانور کو آرام دے۔ ( مسلم ) تشریح آرام دے کا مطلب یہ ہے کہ ذبح کرنے کے بعد اس جانور کو چھوڑ دے تاکہ اس کا دم نکل جائے اور وہ ٹھنڈا ہوجائے ! گویا اوپر کی عبارت اور یہ جملہ اصل میں ذبح کرنے میں احسان کرنے کی توضیح ہے کہ خوبی و نرمی کے ساتھ ذبح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس جانور کو تیز چھری سے ذبح کرے اور جلدی ذبح کر ڈالے نیز ذبح کے بعد اس کو اچھی طرح ٹھنڈا ہوجانے دے۔ حنفی علماء فرماتے ہیں کہ ذبح کئے ہوئے جانور کی کھال اتارنا اس وقت تک مکروہ ہے جب تک کہ وہ اچھی طرح ٹھنڈا نہ ہوجائے ! نیز مستحب یہ ہے کہ جس جانور کو ذبح کیا جانے والا ہے اس کے سامنے چھری تیز نہ کی جائے، اگر ایک سے زائد جانور ذبح کئے جانے والے ہیں تو ان کو ایک دوسرے کے سامنے ذبح نہ کیا جائے اور ذبح کئے جانے والے جانور کے پاؤں پکڑ کر کھینچتے ہوئے ذبح کی جگہ نہ لے جایا جائے ،

【9】

جانور کو باندھ کر نشانہ لگانے کی ممانعت

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہے، آپ ﷺ اس بات سے منع فرماتے تھے کہ کسی چوپایہ وغیرہ کو مارنے کے لئے باندھ کر اس پر نشانہ لگایا جائے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح اس کے یا تو یہ معنی ہیں کہ کسی جانور کو باندھ کر پھر اس کو تیروں پتھروں یا گولیوں سے مارنا ممنوع ہے یا یہ معنی ہیں کہ کسی جانور کو بغیر دانے پانی کے بند کر ڈالنا ممنوع ہے۔

【10】

جانور کو باندھ کر نشانہ لگانے کی ممانعت

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو کسی جاندار چیز کو باندھ کر اس پر نشانہ لگائے۔ ( مسلم )

【11】

جانور کو باندھ کر نشانہ لگانے کی ممانعت

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کسی جاندار چیز کو ( باندھ کر) نشانہ نہ بناؤ۔ ( مسلم ) تشریح یہ ممانعت نہی تحریم کے طور پر ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے جس شخص نے ایسا کیا اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اور اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس فعل کے ذریعہ نہ صرف ذی روح ( جانور) کو اذیت و تکلیف میں مبتلا کرنا ہے بلکہ مال کا ضائع کرنا بھی ہے۔

【12】

منہ پر مارنے یا منہ کو داغنے کی ممانعت

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے منہ پر مارنے اور منہ پر داغ دینے سے منع فرمایا ہے یعنی کسی آدمی یا جانور کے منہ پر طمانچہ یا کوڑا وغیرہ نہ مارا جائے اور نہ کسی کے منہ پر داغ دیا جائے۔ ( مسلم )

【13】

منہ پر مارنے یا منہ کو داغنے کی ممانعت

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) نبی کریم ﷺ کے سامنے سے ایک گدھا گزرا جس پر داغ دیا گیا تھا آپ ﷺ نے ( اس کو دیکھ کر) فرمایا کہ اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جس نے اس کو داغا ہے۔ ( مسلم ) تشریح اگر یہاں یہ سوال پیدا ہو کہ آنحضرت ﷺ نے اس گدھے کے منہ پر داغ دینے والے پر لعنت فرمائی حالانکہ مسلمانوں پر لعنت کرنے سے منع کیا گیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ ہوسکتا ہے کہ داغنے والا مسلمان نہ رہا ہو یا منافقین میں سے ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ ﷺ کا یہ لعنت کرنا بد دعا کے طور پر نہ ہو بلکہ اخبار بالغیب کے طور پر ہو یعنی آپ ﷺ نے اس جملہ کے ذریعہ گویا یہ خبر دی کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں لعنت کا مستوجب قرار پا گیا ہے۔ جاننا چاہئے کہ کسی بھی جاندار کے منہ پر داغ دینا متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک ممنوع ہے، خواہ آدمی ہو یا کوئی بھی جانور و حیوان ! جانور کے منہ کے علاوہ اس کے جسم کے کسی اور حصہ پر داغ دینے کا مسئلہ یہ ہے کہ امتیاز و تعین کے مقصد سے زکوٰۃ اور جزیہ کے جانوروں کو داغنے کو تو بعض علماء نے مستحب کہا ہے اور ان کے علاوہ دوسرے جانوروں کو داغنا بھی محض جائز ہے۔ جہاں تک آدمیوں پر داغ دینے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں آنحضرت ﷺ اور صحابہ وغیرہ کے مختلف اخبار و آثار قولا اور فعلا منقول ہیں۔ بعض اقوال اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کوئی اچھا فعل نہیں ہے، بعض اقوال مدح ترک پر دلالت کرتے ہیں اور بعض اقوال صریح ممانعت کو ثابت کرتے ہیں، جب کہ آنحضرت ﷺ کا یہ عمل جواز پر دلالت کرتا ہے آپ ﷺ نے ایک طبیب کو حضرت ابی بن کعب (رض) کے پاس بھیجا جس نے ان کی فصد کھولی اور داغا، نیز حضرت جابر (رض) اور حضرت سعد بن معاذ (رض) زخمی ہوئے تو آنحضرت ﷺ نے ان پر داغ دینے کی اجازت دی، بلکہ جب ورم ہوا تو ان پر اور داغ دیا گیا، نیز حضرت جابر (رض) اور حضرت ابوذرارہ (رض) کے جسم پر داغ دیا جانا بھی منقول ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ جن اقوال میں انسانی جسم کو داغنے کی ممانعت مذکور ہے ان کا تعلق قصدا بلا ضرورت و امتیاج داغنے سے ہے، ہاں اگر کسی مرض وغیرہ کے سلسلے میں داغ دینے کی ضرورت ہو تو جائز ہے۔ علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ( علاج کی نیت سے) انسانی جسم کے کسی حصہ کو داغنا، اسباب و ہم یہ میں سے ہے کہ اس کو اختیار کرنا جذبہ توکل و اعتماد علی اللہ کے اعتبار سے مناسب نہیں ہے جب کہ دوسرے علاج اسباب طنیہ میں سے ہونے کی وجہ سے توکل کے قطعا منافی نہیں ہیں، ہاں اگر اس بات کا ظن غالب ہو کہ داغنا، مرض کے دفعیہ کے لئے ایک سود مند علاج ہوگا تو اس صورت میں اس کو اختیار کرنا غیر مناسب نہیں ہوگا۔ چناچہ اہل فتویٰ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے کہ داغنا بذاتہ مکروہ تحریمی ہے مگر ظن غالب حاصل ہونے کی صورت میں بایں طور کہ طبیب حاذق یہ کہہ دے کہ مرض کے دفعیہ کا انحصار صرف داغنے پر ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا علاج نہیں ہے تو داغنا مکروہ تحریمی نہیں ہوگا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ داغنے کی ممانعت اس بنیاد پر ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اس بات کا پختہ عقیدہ رکھتے تھے کہ داغنا مرض کے دفعیہ کے لئے ایک قطعی اور یقینی علاج ہے، ظاہر ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ ایک باطل عقیدہ تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو اس سے منع کیا گیا تاکہ وہ اس کو اختیار کرنے سے شرک خفی کے جال میں نہ پھنس جائیں۔

【14】

جانوروں کو کسی ضرورت ومصلحت کی وجہ سے داغنا جائز ہے

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ میں ( ایک دن) صبح کے وقت عبداللہ بن ابوطلحہ (رض) کو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لے گیا تاکہ آپ ﷺ کھجور چبا کر اس کے تالو میں لگا دیں، چناچہ اس وقت میں نے آپ ﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ آپ ﷺ کے دست مبارک میں داغنے کا آلہ تھا جس کے ذریعہ زکوٰۃ کے اونٹوں کو داغ رہے تھے۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح عبداللہ بن طلحہ (رض) ماں کی طرف سے حضرت انس (رض) کے بھائی تھے یعنی ماں کی طرف سے حقیقی بھائی تھے اور باپ کی طرف سے سوتیلے بھائی تھے اور ابوطلحہ (رض) عنہ، حضرت انس (رض) کی ماں کے دوسرے خاوند تھے جن سے عبداللہ پیدا ہوئے تھے کھجور چبا کر اس کا لعاب بچے کے تالو میں لگانا سنت ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ان اونٹوں کو داغنا کسی خلجان کا باعث نہیں بننا چاہئے کیونکہ آپ ﷺ منہ کے علاوہ جسم کے دوسرے حصوں پر داغ دے رہے تھے اور داغنے کی جو ممانعت منقول ہے اس کا تعلق خاص طور پر منہ سے ہے، یا بلا ضرورت داغنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جب کہ زکوٰۃ کے اونٹوں کو اس ضرورت کے تحت داغا جا رہا تھا کہ ان کے اور دوسرے اونٹوں کے درمیان فرق و امتیاز کیا جاسکے۔

【15】

جانوروں کو کسی ضرورت ومصلحت کی وجہ سے داغنا جائز ہے

اور حضرت ہشام ین زید، حضرت انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں ( ایک دن) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ ﷺ جانوروں کے باڑے میں تھے، میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ بکریوں وغیرہ کے کسی عضور پر داغ دے رہے تھے۔ ہشام کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ حضرت انس (رض) نے یہ بیان کیا تھا کہ ( آپ ﷺ ان بکریوں وغیرہ کے کان پر ( داغ دے رہے تھے۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ منہ یعنی چہرہ میں کان شامل نہیں ہے، کیونکہ ( چہرہ) پر داغ دینے سے تو منع فرمایا گیا ہے اگر کان کا تعلق بھی چہرہ سے ہوتا تو آپ ﷺ کان پر داغ کیوں دیتے۔

【16】

جو چیز خون بہا دے اس کے ذریعہ ذبح کرنا درست ہے

اور حضرت عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے یہ بتائیے کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص ( کسی جانور کا) شکار پکڑے اور اس وقت اس کے پاس چھری نہ ہو تو کیا وہ کسی پتھر کے ٹکڑے یا کسی لکڑی کی کھپچ سے اس شکار کو ذبح کرسکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم جس چیز سے چاہو بسم اللہ پڑھ کر خون بہا دو ۔ ( ابوداؤد، نسائی )

【17】

ذبح اضطراری کا حکم

اور حضرت ابوالعشراء اپنے والد محترم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ( شرعی) ذبح کا تعلق حلق اور سینہ کے سرے کے درمیانی حصے سے ہے ؟ یعنی کیا شرعی طور پر ذبح صرف اسی کو کہا جائے گا کہ جانور کے حلق اور سینے کے سرے کے درمیان جراحت کے ساتھ خون بہایا جائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم شکار کی ران میں بھی جراحت پہنچا دو گے تو تمہارے لئے کافی ہوگا۔ ( ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ یہ ( یعنی حدیث میں مذکورہ ذبح کی اجازت دینا، اس جانور سے متعلق ہے جو کنویں میں گرپڑا ہو یعنی یہ ذبح اضطراری کی صورت کا حکم ہے اور امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ ضرورت کی حالت کا حکم ہے۔ تشریح امام ترمذی نے گویا امام ابوداؤد کی وضاحت کو اور زیادہ توسع کے ساتھ بیان کیا تاکہ اس حکم میں بھاگے ہوئے اونٹ کو ذبح کرنے کی صورت بھی شامل ہوجائے۔

【18】

اگر تربیت یافتہ کتے وغیرہ کا پکڑا ہوا شکار مر بھی جائے تو اس کا کھانا جائز ہے

اور حضرت عدی ابن حاتم (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس جانور کو تم نے سکھلایا خواہ وہ کتا ہو یا باز اور پھر تم نے ( ان میں سے) کسی کو شکار پر چھوڑا اور ( چھوڑتے وقت) اللہ کا نام لیا تو تم اس جانور کو کھالو جس کو اس ( کتے یا باز نے) تمہارے لئے پکڑا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگرچہ اس نے اس ( شکار) کو مار ڈالا ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جب کہ وہ کتا یا باز شکار کو مار ڈالے اور خود اس میں سے کچھ نہ کھائے تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ اس نے اس شکار کو تمہارے ( ہی) لئے پکڑ رکھا ہے۔ ( ابوداؤد )

【19】

تیر کے شکار کا حکم

اور حضرت عدی ابن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں شکار پر اپنا تیر چلاتا ہوں اور پھر اگلے دن ( جب وہ شکار کہیں پڑا ہوا مجھے ملتا ہے تو) اس میں میں اپنا تیر پاتا ہوں ( کیا میں وہ شکار کو کھا سکتا ہوں ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا اس صورت میں اگر تم یہ جانور کہ اس شکار کو تمہارے ہی تیر نے مار ڈالا ہے اور اس ( شکار) میں تم کسی درندے کا کوئی نشان نہ پاؤ تو اس کو کھا سکتے ہو ( اور اگر اس شکار میں کسی درندے کے دانت یا پنجے وغیرہ کوئی نشان پاؤ یا کسی دوسرے کے تیر کی علامت پاؤ تو اس صورت میں اس کو مت کھاؤ۔ ( ابوداؤد ) جس غیر مسلم کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال نہیں، اس کا کتے وغیرہ کے ذریعہ پکڑا ہوا شکار بھی حلال نہیں

【20】

تیر کے شکار کا حکم

اور حضرت حابر (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں مجوسیوں کے کتے کا پکڑا ہوا شکار کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ ( ترمذی ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس شکار کو مجوسی اپنے کتے یا کسی مسلمان کے کتے کے ذریعہ پکڑے اس کو کھانا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ شکار زندہ ہاتھ لگے اور اس کو ذبح کرلیا جائے تو اس صورت میں اس کو کھانا جائز ہوگا اور اسی طرح اگر مسلمان نے مجوسی کے کتے کے ذریعہ شکار مارا ہے تو اس کو کھانا بھی جائز ہوگا اور اگر کتے چھوڑنے یا تیر چلانے میں مسلمان اور مجوسی دونوں شریک ہوں اور وہ شکار مارے تو وہ شکار بھی حلال نہیں ہوگا۔

【21】

غیر مسلم کے برتن میں کھانے پینے کی مشروط اجازت

اور حضرت ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ﷺ ! ہم ( اکثر) سفر کرنے والے لوگوں میں سے ہیں، ہمارا گزر یہودیوں، عیسائیوں اور مجوسیوں ( کی آبادیوں) پر سے ( بھی) ہوتا ہے، اس وقت ان کے برتنوں کے علاوہ اور برتن ہمارے پاس نہیں ہوتے ( تو کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا پی سکتے ہیں ؟ ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر تمہیں ان کے برتنوں کے علاوہ برتن دستیاب نہ ہوں تو ان کے برتنوں کو پانی سے دھو مانج لو اور پھر ان میں کھاؤ پیو۔ ( ترمذی ) تشریح غیر مسلم کے برتن میں کھانے پینے کے سلسلے میں الفصل الاول میں بھی حدیث گزری ہے اور اس موقع پر اس مسئلہ کی وضاحت کی جا چکی ہے۔

【22】

غیر مسلموں کے ہاں کا کھانا حلال ہے

اور حضرت قبیصہ (رض) بن ہلب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عیسائیوں کے کھانوں کے بارے میں دریافت کیا ( کہ ہم لوگ کھائیں یا نہیں ؟ ) اور ایک رویت میں یوں ہے کہ ( اس بارے میں) ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے مسئلہ پوچھا، چناچہ اس نے عرض کیا کہ کھانوں میں سے ایک کھانا ( یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کا کھانا) ایسا ہے جس سے میں پرہیز کرتا ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے دل میں کسی چیز یعنی شک و شبہ کی کھٹک نہ پیدا ہونی چاہئے، تم نے اپنے اس عمل کے ذریعہ عیسائیت کی مشابہت اختیار کی ہے۔ ( ترمذی ابوداؤد ) تشریح تم نے اپنے اس عمل کے ذریعہ عیسائیت کی مشابہت اختیار کی کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے سائل پر یہ واضح کیا کہ تمہارا عیسائیوں کے تیار کئے ہوئے کھانے سے پرہیز کرنا ایک ایسا عمل ہے جس نے تمہیں عیسائیوں کے مشابہ کردیا ہے کیونکہ یہ عیسائیوں ہی کا شیوہ ہے کہ انہوں نے کھانے پینے کے معاملہ میں اپنے اوپر بےجا پابندیاں عائد کرلی ہیں اور ان کے پادریوں نے دین میں سختی پیدا کردی ہے چناچہ اگر ان کے دل میں کسی بھی اچھے خاصے اور حلال کھانے کے بارے میں یہ کھٹک پیدا ہوجاتی ہے کہ یہ حرام ہے یا مکروہ ہے تو وہ بلا سوچے سمجھے اس سے پرہیز کرنے لگتے ہیں۔ لہٰذا تم بلا دلیل شک و شبہ میں پڑ کر ان کے کھانے سے پرہیز نہ کرو، تم مسلمان ہو اور تمہارا دین نہایت سیدھا سادا اور آسان ہے اس میں سختی اور دشواری کا نام نہیں ہے، تمہیں اپنے عمل سے اپنے دین کی نرمی اور آسانی کو ظاہر کرنا چاہئے، اگر تم بلا تحقیق کسی کھانے کو حرام سمجھنے لگو گے تو یہ اپنے اوپر بےجا قسم کی پابندی عائد کرنے اور اپنے دین کو سخت ظاہر کرنے کے مرادف ہی نہیں ہوگا بلکہ عیسائیت کی مشابہت اختیار کرنے کے برابر بھی ہوگا۔ بعض حضرات نے حدیث کے آخری جزو کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ تمہارے دل میں کوئی خدشہ اس بات کا نہ گزرے کہ عیسائیوں کا کھانا کھانے سے تم ان کے مشابہ ہوگئے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ کسی کھانے کو محض اس لئے اپنے اوپر حرام نہ کرلو کہ وہ کسی غیر مسلم کا تیار کیا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے اس غیر مسلم کی مشابہت لازم آئے گی کیونکہ کھانے پینے کی چیزوں میں کسی قوم کی مشابہت ضرر نہیں کرتی بشرطیکہ تشبیہ کی نیت نہ ہو۔ اس ارشاد گرامی میں عیسائیت کی تخصیص محض اس بنیاد پر ہے کہ سوال کرنے والے صحابی حضرت عدی بن حاتم (رض) تھے جو اسلام قبول کرنے سے پہلے عیسائیت کے پیرو تھے۔ بہر حال ! حدیث سے یہ واضح ہوا کہ جب تک کسی کھانے کی حرمت کا یقین نہ ہو محض شک کی وجہ سے اس سے پرہیز کرنا یا اس کو کھانے میں تردد کرنا مناسب نہیں ہے، غیر مسلم اقوام کی طرح اسلام میں کھانے پینے کا پرہیز نہیں ہے کہ ذرا کسی کا ہاتھ لگ گیا تو وہ کھانا چھوت ہوگیا، بلکہ مسلمانوں کو اجازت ہے کہ وہ ہر قوم کا پکا ہوا کھانا کھا سکتے ہیں، بشرطیکہ یہ یقین نہ ہو کہ اس کھانے میں کوئی حرام چیز ملائی گئی ہے یا وہ نجس برتنوں میں پکایا گیا ہے۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی غیر مسلم کوئی حرام چیز پکائے مثلا غیر مذبوحہ گوشت یا مردار یا سؤر اور یا کھانے میں شراب ملائے تو اس کو بھی کھالیا جائے۔

【23】

مجثمہ کا کھانا ممنوع ہے

اور حضرت ابودرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجثمہ کو کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اور مجثمہ اس جانور کو کہتے ہیں، جس کو باندھ کر نشانہ کی مانند کھڑا کیا جائے اور پھر اس پر تیر مارا جائے۔ ( ترمذی ) تشریح روایت میں مجثمہ کی وضاحت کے لئے جو الفاظ منقول ہیں وہ کسی راوی کے ہیں۔ یہ جاہل اور بےرحم لوگ کیا کرتے ہیں، کہ بےزبان پرندوں اور جانوروں کو بانتدھ کر ان کو نشانہ بناتے ہیں، شریعت نے اس عمل سے بھی منع کیا ہے اور ایسے جانور کا گوشت کھانا بھی ممنوع قرار دیا ہے کیونکہ اس طرح قتل کئے جانے سے ذبح کا مقصد اور مفہوم حاصل نہیں ہوتا اور جب وہ جانور شرعی طور پر ذبیحہ نہیں ہوگا تو اس کا کھانا بھی حرام ہوگا۔

【24】

وہ جانور جن کا کھانا حرام ہے

اور حضرت عرباض بن ساریہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے خیبر کے دن ان جانوروں کو کھانے سے منع فرمایا کچلی والا درندہ، پنجہ والا پرندہ، گھر کے پالتو گدھوں کا گوشت، مجثمہ اور خلیہ۔ نیز آپ نے ( جہاد میں پکڑی گئی) ان لونڈیوں سے جماع کرنے سے بھی منع فرمایا جو حاملہ ہوں جب تک کہ وہ اس بچہ کو نہ جن لیں جو ان کے پیٹ میں ہے۔ حضرت محمد بن یحیٰی ( جو امام ترمذی کے شیخ و استاد ہیں اور حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں) کہتے ہیں کہ ( میرے شیخ و استاد) حضرت ابوعاصم سے مجثمہ کے معنی دریافت کئے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ ( مجثمہ کا مطلب یہ ہے کہ) کسی پرندہ یا چرندہ کو ( باندھ کر) کھڑا کیا جائے اور پھر اس پر تیر مارا جائے۔ اسی طرح حضرت عاصم سے خلیہ کے معنی دریافت کئے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ ( اس کا مطلب یہ ہے کہ) بھیڑیے یا کسی اور درندے نے کسی جانور کو پکڑ لیا ہو اور پھر کوئی شخص اس ( درندے) سے وہ جانور چھین لے اور وہ جانور ذبح کئے جانے سے پہلے ہی اس ( شخص) کے ہاتھ میں مرجائے۔ ( ترمذی ) تشریح خیبر کے دن سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مذکورہ چیزوں کی ممانعت کا حکم اس سال جاری فرمایا جس میں خیبر فتح ہوا تھا، یا عین خیبر کی فتح کے وقت جاری فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ جن دنوں میں خیبر میں جہاد جاری تھا انہی دنوں میں سے کسی ایک دن یہ حکم جاری فرمایا گیا۔ ذی ناب اس درندے کو کہتے ہیں جس کے کچلی یعنی نوکدار دانت ہوں اور اپنی کچلی کے ذریعہ ( جانور وغیرہ) کو پھاڑتا ہو جیسے شیر، بھیڑیا، چیتا، ریچھ، سؤر، لومڑی اور بجو وغیرہ۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اگر لومڑی اور بجو درندوں میں شامل نہیں ہیں تو وہ حلال ہیں۔ ذی مخلب اس پرندے کو کہتے ہیں جو اپنے پنجے سے شکار کرتا ہے، جیسے باز، بحری شکرہ، چرغ، الو، چیل اور گدھ وغیرہ۔ گھر کے پالتو گدھوں سے مراد وہ گدھے ہیں جو بستی میں رہتے ہیں، چناچہ جنگلی گدھے کا گوشت حلال ہے، حدیث میں مذکورہ ممانعت سے پہلے پالتو گدھے کا گوشت بھی حلال تھا۔ لونڈیوں سے جماع کرنے سے بھی منع فرمایا الخ یہ حکم ان لونڈیوں کا ہے جو حاملہ ہونے کی حالت میں کسی کے شرعی قبضہ و تسلط میں آئی ہوں اور جو لونڈی ایسی حالت میں کسی کے شرعی قبضہ و تسلط میں آئی ہو کہ وہ حاملہ نہ ہو تو اس کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اس کے ساتھ اس وقت تک ہم بستری نہ کی جائے جب تک کہ اس کو ایک حیض نہ آجائے۔

【25】

شریطہ کا کھانا ممنوع ہے

حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے شریطہ شیطان سے منع فرمایا ہے۔ ابن عیسیٰ ( حدیث کے ایک راوی) نے یہ مزید بیان کیا کہ شریطہ شیطان یہ ہے کہ جانور ( کے حلق کے اوپر) کی کھال کاٹ دی جائے اور اس کی پوری رگیں نہ کاٹی جائیں اور پھر اس کو چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔ ( ابوداؤد ) تشریح زمانہ جاہلیت میں مشرک ایسا کرتے تھے کہ جانور حلق کے اوپر کی ٹھوڑی کی کھال کاٹ کر چھوڑ دیتے تھے چونکہ ان کی رگیں پوری نہیں کٹتی تھیں اس لئے وہ آسانی کے ساتھ مرنے کی بجائے بڑی سختی کے ساتھ تڑپ تڑپ کر مرجاتا تھا۔ اس کو شریط اس سبب سے فرمایا گیا ہے کہ شرط جو شرط حجام سے ماخوذ ہے، کے معنی نشتر مارنے کے ہیں، یا شرط علامت کے معنی میں ہے اور اس کی نسبت شیطان کی طرف اس اعتبار سے کی گئی ہے کہ اس فعل شنیع کا باعث وہی ( شیطان) ہے اور وہ اس طرح کا ذبیحہ کرنے والے سے بہت خوش ہوتا ہے۔

【26】

ذبیحہ کے پیٹ کے بچہ کا حکم

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ماں کا ذبح کرنا اس کے پیٹ کا بھی ذبح کرنا ہے۔ ( ابوداؤد، دارمی ) ۔ ترمذی نے اس روایت کو حضرت ابوسعید (رض) سے نقل کیا ہے۔ تشریح حدیث کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ ماں کا ذبح ہونا اس کے پیٹ کے بچہ کے حلال ہونے کے لئے کافی ہے، مثلا کسی شخص نے اونٹنی کو نحر کیا یا بکری کو ذبح کیا اور اس کے پیٹ سے مرا ہوا بچہ نکلا تو اس کو کھانا جائز ہے، چنانچھ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہ مسلک ہے لیکن حضرت امام شافعی کے نزدیک تو اس بچہ کا کھانا ہر حال میں درست ہوگا، خواہ اس کے جسم پر بال ہوں یا نہ ہوں اور حضرت امام مالک کے نزدیک اس بچہ کو کھانا اسی صورت میں جائز ہوگا جب کہ اس کی جسمانی ساخت مکمل ہوچکی ہو اور اس کے بدن پر بال نکل چکے ہوں۔ ان تینوں ائمہ کے برخلاف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اس بچہ کو کھانا حلال نہیں ہے ہاں اگر وہ بچہ ماں کے پیٹ سے زندہ نکلے اور پھر اس کو ذبح کیا جائے تو اس صورت میں اس کو کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حنفیہ میں سے امام زفر اور حضرت امام حسن ابن زیاد کا بھی یہی قول ہے، ان حضرات کی طرف سے اپنے مسلک کی دلیل کے طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر شکار ( گولی یا تیر وغیرہ کھا کر) پانی میں گرپڑے اور پھر اس میں سے مردہ نکلے تو اس کو کھانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ احتمال ہے کہ وہ شکار پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے مرا ہو۔ جب آنحضرت ﷺ نے جان نکلنے کے سبب میں شک واقع ہوجانے کی وجہ سے اس شکار کو کھانا حرام قرار دیا تو چونکہ وہی چیز یعنی جان نکلنے کے سبب میں شک کا واقع ہونا، ذبیحہ کے پیٹ سے نکلنے والے مردہ بچہ کے بارے میں بھی موجود ہے اس لئے وہ بھی حرام ہوگا کیونکہ جس طرح پانی میں گرجائے اور شکار کی موت کا سبب معلوم نہیں ہوسکتا اسی طرح اس مردہ بچہ کی موت کا سبب بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ آیا وہ اپنی ماں کے ذبح کئے جانے کے سبب سے مرا ہے یا دم گھٹنے کی وجہ سے مرگیا ہے۔ جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو حضرت امام اعظم کے نزدیک اس حدیث کے صحیح ہونے میں کلام کیا گیا ہے۔

【27】

ذبیحہ کے پیٹ کے بچہ کا حکم

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ جب ہم اونٹنی کو نحر کرتے ہیں یا گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں تو ( بسا اوقات) ہم اس ذبیحہ کے پیٹ میں مردہ بچہ پاتے ہیں، آیا ہم اس بچہ کو پھینک دیا کریں یا کھالیا کریں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر تم چاہو تو اس کو کھالیا کرو کیونکہ اس کی ماں کا ذبح کرنا اس بچہ کا بھی ذبح کرنا ہے۔ ( ابوداؤد، ابن ماجہ ) تشریح مفہوم کے اعتبار سے یہ روایت بھی وہی ہے جو اوپر نقل کی گئی ہے۔ اور اس سلسلے میں ائمہ کے جو اختلافی اقوال ہیں ان کو بھی اوپر ہی ذکر کیا جا چکا ہے۔ نحر اور ذبح کی تفصیل پہلے صفحات میں بتایا گیا تھا کہ ذبح کرنے کی دو قسمیں ہیں ایک تو اختیاری اور دوسری اضطراری، پھر اختیاری کی بھی دو صورتیں ہیں ایک تو نحر اور دوسری ذبح چناچہ نحر تو یہ ہے کہ اونٹ کے سینہ میں نیزہ مارا جائے ( یعنی اس کے سینے کو نیزہ سے چیرا دیا جائے) اور اونٹ میں مستحب نحر کرنا ہے اگرچہ اس کو ذبح کرنا جائز ہے لیکن کراہت کے ساتھ۔ اور ذبح یہ ہے کہ جانور کی حلق کی رگ کو کاٹا جائے، ذبح کی صورت میں جانور کی حلق کی جو رگیں کاٹی جاتتی ہیں وہ چار ہیں۔ ایک تو نرخڑہ کہ جس کے ذریعہ سانس کی آمدورفت ہوتی ہے، دوسری مری یعنی وہ رگ جس سے منہ سے پانی جاتا ہے اور دو شہ رگیں جو نر خرہ کے دائیں بائیں ہوتی ہیں۔ ان چاروں رگوں کو کاٹنا ہی شرعی طور پر ذبح کہلاتا ہے، اگر ان چاروں میں سے تین ہی رگیں کٹ جائیِں تب بھی ذبح درست ہے اور اس جانور کا کھانا حلال ہے اور اگر دو ہی رگیں کٹیں تو وہ جانور مردار ہوجائے گا جس کا کھانا حلال نہیں ہوگا۔ جس طرح اونٹوں میں نحر کرنا مستحب ہے اسی طرح گائے اور بکریوں وغیرہ میں ذبح کرنا مستحب ہے لیکن اگر کسی نے ان کو نحر کرلیا تب بھی جائز ہوگا مگر کراہت کے ساتھ۔ اگر کسی شخص نے بکری وغیرہ کو گدی کی طرف سے ذبح کیا تو اگر وہ اتنی دیر تک زندہ رہی کہ اس شخص نے اس کی رگیں کاٹ دیں تو اس کا کھانا جائز ہے لیکن کراہت کے ساتھ کیونکہ اس طرح ذبح کرنا سنت کے خلاف ہے اور اگر وہ رگوں کے کٹنے سے پہلے ہی مرگئی تو اس کا کھانا جائز نہیں۔ اگر کسی شخص نے کسی جانور مثلا مرغی کو ذبح کرتے ہوئے چھری کو حرام مغز تک پہنچا دیا اور سر کٹ کر جدا ہوگیا تو اس کا کھانا جائز ہے اور مکروہ بھی نہیں ہے لیکن اتنا زیادہ ذبح کرنا یا اس طرح ذبح کرنا کہ سر جدا ہوجائے مکروہ ہے۔

【28】

بلا وجہ کسی جانور وپرندہ کو مار دینا ناجائز ہے

اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اگر کوئی شخص کسی چڑیا یا اس سے چھوٹے بڑے کسی اور جانور و پرندہ کو ناحق مار ڈالے گا تو اللہ تعالیٰ اس شخص سے اس ( ناحق مارنے) کے بارے میں باز پرس کرے گا۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ اور اس ( چڑیا وغیرہ) کا حق کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کہ اس کو ذبح کیا جائے ( کسی اور طرح اس کی جان نہ ماری جائے) اور پھر اس کو کھایا جائے، یہ نہیں کہ اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا جائے۔ ( احمد، النسائی، دارمی ) تشریح اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ کی اس وسیع کائنات میں ہر جاندار اپنی جان کی حفاظت کا حق رکھتا ہے خواہ وہ اشرف المخلوقات انسان ہو یا حیوان، جس طرح کسی انسان کی جان کو ناحق مارنا شریعت کی نظر میں بہت بڑا گناہ اور بہت بڑا ظلم ہے، اسی طرح کسی حیوان کی جان ناحق ختم کرنا بھی ایک انتہائی غیر مناسب فعل اور ایک انتہائی بےرحمی کی بات ہے۔ اگر قادر مطلق نے انسان کو طاقت و قوت عطا کر کے حیوانات پر تسلط و اختیار عطا کیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اپنی اس طاقت اور اپنے اس اختیار کے بل پر محض اپنا شوق پورا کرنے کے لئے یا محض تفریح طبع کی خاطر بےزبان جانوروں کو اپنا تختہ مشق بنائے۔ اور ان کی جانوں کو کھلونا بنا کر ان کو ناحق مارتا رہے۔ جس جانور کے گوشت کو حق تعالیٰ نے انسان کے لئے حلال قرار دیا ہے اگر وہ اس جانور کو بطور شکار مار کر یا اس کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتا ہے اور اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے اختیار کا جائز استعمال کرتا ہے اور اگر محض لہو و لعب اور تفریح طبع کے لئے اس جانور کی جان ناحق یعنی بلا فائدہ ختم کرتا ہے اور اس کے گوشت وغیرہ سے کوئی نفع حاصل کئے بغیر اس کو مار کر پھینک دیتا ہے تو اس طرح نہ صرف وہ اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کرتا ہے بلکہ ایک جاندار پر ظلم کرنے والے کے برابر ہوتا ہے اس لئے حدیث میں ایسے شخص کو آگاہ کیا گیا ہے کہ تمہارا یہ فعل ( یعنی جانوروں اور پرندوں کو ناحق مارنا) بارگاہ احکم الحاکمین میں قابل مواخذہ ہے۔ اور کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تم سے اس بارے میں سخت باز پرس کرے گا اور تمہیں عتاب و عذاب میں مبتلا کرے گا۔ طیبی کہتے ہیں کہ کسی جانور کا حق، اس سے منتفع ہونے سے عبارت ہے، جس طرح کہ بلا مقصد اس کا سر کاٹ کر پھینک دینا، اس کا حق ضائع کرنے سے عبارت ہے، لہٰذا کہا جائے گا کہ حدیث کے یہ الفاظ ولا یقطع رسھا فیرمی بھا ما سبق کی عبارت کی گویا تاکید و توثیق کے طور پر ہے

【29】

زندہ جانور کے جسم سے کاٹا گیا کوئی بھی حصہ مردار ہے

اور حضرت ابو واقد لیثی (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ ( مکہ سے ہجرت فرما کر) مدینہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ کے لوگ ( ایسا کرتے تھے کہ) اونٹ کے کوہان اور دنبوں کی چکتیاں کاٹ لیا کرتے تھے ( اور پھر اس کو کھاتے تھے) چناچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو چیز بھی کہ ایسے جانور کے جسم سے کاٹی جائے جو زندہ ہو تو وہ ( کاٹی گئی چیز) مردار ہے، اس کو نہ کھایا جائے۔ ( ترمذی، ابوداؤد ) تشریح زمانہ اسلام سے قبل چونکہ جاہلیت نے انسانی عقل و طبائع کو ماؤف کر رکھا تھا اس لئے اس وقت کے انسان ایسے ایسے طور طریقوں میں مبتلا تھے جن سے انسانیت بھی پناہ مانگتی تھی، انھی طور طریقوں میں ایک رواج مدینہ والوں میں یہ بھی جاری تھا کہ وہ جب چاہتے اپنے زندہ اونٹوں کے کوہان، زندہ دنبوں کی چکتیاں کاٹ لتیے تھے اور ان کو بھون پکا کر کھالیتے تھے۔ یہ جانوروں کے تئیں ایک انتہائی بےرحمانہ طریقہ ہی نہیں تھا بلکہ طبع سلیم کے منافی بھی تھا، چناچہ آنحضرت ﷺ نے مدینہ پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو اس مذموم فعل سے باز رکھا اور ان پر واضح کیا کہ زندہ جانور کے جسم سے جو بھی عضو کاٹا جائے گا وہ مردار ہوگا اور اس کا کھانا حرام ہوگا۔

【30】

ذبح کی اصل، جراحت کے ساتھ خون کا بہنا ہے

اور حضرت عطاء بن یسار (رض) قبیلہ بنی حارثہ کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ( ایک دن) اونٹنی کو جو بیانے کے قریب تھی احد پہاڑ کے ایک درہ میں چرا رہا تھا کہ اس نے اونٹنی میں موت کے آثار پائے یعنی اس نے دیکھا کہ اونٹنی کسی وجہ سے مرا ہی چاہتی ہے، ( اس وقت) اس کو کوئی ایسی چیز دستیاب نہیں ہوسکی جس کے ذریعہ وہ اونٹنی کو نحر کرتا، آخر کار اس نے ایک میخ اٹھائی اور اس کو نوک کی طرف سے) اس کو اونٹنی کے سینے میں گھونپ دیا، تاآنکہ اس کا خون بہا دیا، پھر اس نے ( اس واقعہ کو) رسول کریم ﷺ سے بیان کیا ( اور اس کے گوشت کے بارے میں دریافت کیا کہ اس صورت میں اس کا کھانا کیسا ہے ؟ ) آنحضرت ﷺ نے اس کو اس ( کے گوشت) کے کھانے کی اجازت دی ( ابوداؤد، مالک) اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آخر کار اس نے ایک دھار دار لکڑی سے ذبح کردیا۔ تشریح وتد لکڑی کی اس میخ یا کھونٹی کو کہتے ہیں جو زمین یا دیوار میں گاڑی جاتی ہے۔ اور شظاظ اس لکڑی کو کہتے ہیں جس کے دونوں کنارے نوکدار ہوتے ہیں اس کو دونوں تھیلوں کے درمیان اڑا کر اونٹ پر لادتے ہیں تاکہ وہ دونوں تھیلے الگ الگ ہو کر گریں نہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شرعی طور پر ذبح یا نحر کا اصل مفہوم یہ ہے کہ جراحت کے ساتھ خون بہایا جائے اور یہ بات جس چیز سے بھی حاصل ہوجائے اس کے ذریعہ جانور کو ذبح یا نحر کیا جاسکتا ہے خواہ وہ لوہے کی چھری وغیرہ ہو، یا کوئی دھار دار اور نوکدار لکڑی وغیرہ ہو۔

【31】

دریائی جانوروں میں سے صرف مچھلی حلال ہے

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا پانی کا ایسا کوئی جانور نہیں ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کے لئے ذبح نہ کردیا ہو۔ ( دارقطنی) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دریائی جانوروں کو بغیر ذبح کئے ہوئے کھانا حلال ہے، ان کو محض شکار کرلینا اور پانی میں سے زندہ نکال لینا ذبح کا حکم رکھتا ہے۔ اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام دریائی جانور حلال ہیں، خواہ وہ خود سے مرجائیں اور خواہ ان کا شکار کیا جائے۔ لیکن جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے وہ یوں نہیں ہے، بلکہ مچھلی کے حلال ہونے پر تو تمام علماء کا اتفاق ہے اور مچھلی کے علاوہ دوسرے جانوروں کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ دریائی جانوروں میں سے مچھلی کے علاوہ اور کوئی جانور حلال نہیں ہے اور وہ مچھلی بھی حلال نہیں ہے جو سردی و گرمی کی آفت کے بغیر خود بخود مر کر پانی کے اوپر آجائے اور الٹی تیرنے لگے۔ اور جو مچھلی سردی و گرمی کی آفت سے مر کر پانی کے اوپر آجائے تو وہ حلال ہے۔ ذبیحہ سے متعلق چند مسائل جو جانور اور جو پرندے شکار کر کے کھاتے رہتے ہیں یا ان کی غذا صرف گندگی ہے، ان کا کھانا جائز نہیں ہے جیسے شیر، بھیڑیا، گیدڑ، بلی، کتا، بندر، شکرا، باز اور گدھ وغیرہ اور جو جانور اس طرح کے نہ ہوں جیسے طوطا، مینا، فاختہ، چڑیا، پیڑ، مرغابی، کبوتر، نیل گائے، ہرن، بطخ اور خرگوش وغیرہ ان کا کھانا جائز ہے۔ بجو، گوہ، کچھوا، خچر اور گدھا، گدھی کا گوشت کھانا اور گدھی کا دودھ پینا جائز نہیں ہے، جو حلال جانور ( بغیر ذبح کئے ہوئے) خود بخود مرجائے گا وہ مردار ہوگا اس کا کھانا حرام ہے۔ اگر کسی چیز میں چیونٹیاں گر کر مرجائیں تو ان چیونٹیوں کا نکالے بغیر اس چیز کو کھانا درست نہیں ہے، اگر قصدا ایک آدھ چیونٹی کو بھی حلق کے نیچے جانے دیا تو مردار کھانے کا گناہ ہوگا۔ مسلمان کا ذبح کرنا ہر حالت میں درست ہے چاہے عورت ذبح کرے اور چاہے مرد، اسی طرح خواہ پاک ہو یا ناپاک، ہر حال میں اس کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا حلال ہے۔ کافر یعنی مرتد، آتش پرست اور بت پرست وغیرہ کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا حرام ہے۔ اگر کوئی کافر گوشت بیچتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میں نے مسلمان سے ذبح کرایا ہے تو اس سے گوشت خرید کر کھانا درست نہیں، البتہ جس وقت مسلمان نے ذبح کیا ہے اگر اسی وقت سے کوئی مسلمان اس گوشت کے پاس برابر بیٹھا رہا ہے، یا وہ جانے لگا تو کوئی دوسرا مسلمان اس کی جگہ بیٹھ گیا ہے، تب اس گوشت کا کھانا درست ہوگا۔ اگر کسی ایسے جانور کو ذبح کیا گیا جس کا کھانا حلال نہیں ہے تو اس کی کھال اور گوشت پاک ہوجاتے ہیں ( کہ ان کو کھانے کے علاوہ کسی اور استعمال میں لانا بلا کراہت درست ہوتا ہے) علاوہ آدمی اور سؤر کے کہ ان دونوں میں ذبح کرنے کا کوئی اثر نہیں ہوتا، آدمی کی کھال کا ناپاک ہونا تو اس کی عزت و حرمت کی وجہ سے ہے اور سور کی کھال وغیرہ کا ناپاک ہونا اس کے نجس ہونے ہی کی وجہ سے ہے کہ وہ پاک کرنے سے بھی ہرگز پاک نہیں ہوسکتی۔ جو مرغی، گندی اور پلید چیزیں کھاتی پھرتی ہو، اس کو تین دن بند رکھ کر ذبح کرنا چاہئے، اس کو بغیر بند کئے ذبح کر کے اس کا گوشت کھانا مکروہ ہے۔ جانور کو کند چھری سے ذبح کرنا مکروہ اور ممنوع ہے کیونکہ اس میں جانور کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اسی طرح ذبح کے بعد ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کی کھال کھینچنا، ہاتھ پاؤں توڑنا کاٹنا اور ذبح میں جن چار رگوں کو کاٹنا چأہئے ان کے کٹ جانے کے بعد بھی گلا کاٹے جانا، یہ سب مکروہ ہے۔ ٹڈی کو کھانا جائز ہے اور مچھلی کی طرح اس کو بھی ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے اور جن کا نہیں کھایا جاتا، شکار دونوں کا کرنا جائز ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ شکار کا مقصد محض لہو و لعب اور تفریح طبع نہ ہو بلکہ اس سے فائدہ حاصل کرنے کی نیت ہو، جو جانور حلال ہیں ان کا گوشت کھانا ہی ان سے سب سے بڑا نفع حاصل کرنا ہے، ہاں جو جانور حلال نہیں ہیں انکا شکار اگر اس مقصد سے کیا جائے کہ ان کی کھال وغیرہ سے فائدہ اٹھایا جائے گا تو کوئی مضائقہ نہیں۔ حاصل یہ کہ جانوروں کی جان کی بھی قدر کرنی چاہئے، ان کو خواہ مخواہ کے لئے مار ڈالنا اور بلا ضرورت و بلا مقصد کے ان کا شکار کرتے پھرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ ذبح کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جانور کا منہ قبلہ کی طرف کر کے تیز چھری ہاتھ میں لے کر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کے اس کے گلے کو کاٹا جائے، یہاں تک کہ چاروں رگیں کٹ جائیں۔

【32】

کتے سے متعلق احکام کا بیان

اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے کتوں سے متعلق احکام معلوم ہوں گے کہ کن مقاصد کے لئے اور کون سا کتا پالنا جائز ہے اور کون سا ناجائز ہے اور یہ کہ کس کتے کا مارنا جائز ہے اور کس کا مارنا جائز نہیں ہے۔

【33】

بلا ضرورت کتا پالنا، اپنے ذخیرہ ثواب میں کمی کرنا ہے

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتے اور شکاری کتے کے علاوہ کوئی کتا پالتا ہے اس کے اعمال ( کے ثواب) میں سے روزانہ دو قیراط کے برابر کمی کردی جاتی ہے۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح قیراط اصل میں ایک وزن کا نام ہے جو آدھے دانگ، یا بقول بعض، دینار کے ٤/٦ اور بقول بعض دینار کے دسویں حصے کے آدھے حصے کے برابر ہوتا ہے اور ایک دانگ چھ رتی کے وزن، یا ایک درم کے چھٹے حصے کے برابر ہوتا ہے، لیکن حدیث میں قیراط کا اسعتمال اس مقدار کے لئے کیا گیا ہے جس کا حقیقی علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اگرچہ بعض احادیث میں اس مقدار کو احد پہاڑ کے برابر بتایا گیا ہے، اس بنیاد پر اس حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ شریعت نے جن مقاصد کے لئے کتوں کو پالنے کی اجازت دی ہے جیسے مویشیوں ( یا گھر، کھیت) کی حفاظت اور شکار، ان کے علاوہ محض تفریح طبع اور شوق کی خاطر اگر کوئی شخص کتا پالے گا تو اس نے جو نیک اعمال کئے ہیں اور حق تعالیٰ نے ان اعمال کی بناء پر اپنے فضل و کرم سے اس کے نامہ اعمال میں اجر وثواب کے جو ذخیرے رکھے ہیں، ان میں سے روزانہ اس مقدار میں کمی آتی رہے گی کہ اگر اس مقدار کو جسم تصور کیا جائے تو وہ دو احد پہاڑ کے برابر ہو ! یا یہ کہ دو قیراط سے مراد اس شخص کی نیکیوں کے حصول میں سے دو حصے کی کمی و نقصان ہے۔ بہر حال دو قیراط سے کچھ ہی مراد لیا جائے، حدیث کا اصل منشاء تو صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ بلا ضرورت شرعی، کتا پالنا اپنے اعمال کے اجرو ثواب کے ایک بہت بڑے حصے سے ہاتھ دھو نا ہے، جہاں تک اس سبب کا تعلق ہے جو کتے پالنے کی وجہ سے ثواب اعمال میں کمی کی بنیاد ہے تو اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ چنانچہ بعض حضرات کے نزدیک اس کمی و نقصان کا سبب ملائکہ رحمت کا گھر میں نہ آنا ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ جس گھر میں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ اور بعض حضرات نے یہ سبب بیان کیا ہے کہ وہ شخص ( کتا پال کر) دوسرے لوگوں کو ایذاء پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ کمی و نقصان اس سبب سے ہے کہ جب گھر میں کتا پلا ہوا ہوتا ہے تو وہ گھر والوں کی بیخبر ی میں کھانے پینے کے برتن باسن میں منہ ڈالتا رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ گھر والے چونکہ بیخبر ہوتے ہی اس لئے وہ ان برتنوں کو دھوئے مانجے بغیر ان میں کھاتے پیتے ہیں۔

【34】

بلا ضرورت کتا پالنا، اپنے ذخیرہ ثواب میں کمی کرنا ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص مویشیوں کی حفاظت کرنے والے شکار پکڑنے والے اور کھیت کھلیان کی چوکسی کرنے والے کتے کے علاوہ کوئی کتا پا لتا ہے تو اس کے ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط کے برابر کمی کردی جاتی ہے۔ ( بخاری و مسلم ) تشریح مضمون و مفہوم کے اعتبار سے یہ حدیث بھی پہلی حدیث کی طرح ہے، البتہ اس حدیث میں اس کتے کے استثناء کو بھی ذکر کیا گیا ہے جو کھیت کھلیان کی حفاظت کرنے کے لئے پالا جاتا ہے، نیز اس حدیث میں ایک قیراط کا ذکر ہے جب کہ پہلی حدیث میں دو قیراط کا ذکر کیا گیا ہے، چناچہ یہ فرق کتوں کی مختلف اقسام کی بنیاد پر ہے کہ بلا ضرورت پالے جانے والے کتوں میں بعض کتے ایسے ہوتے ہیں جو لوگوں کو کم ایذاء پہنچاتے ہیں، ان کو پالنے کی صورت میں ایک قیراط کے برابر کمی کی جاتی ہے یا یہ فرق مقام و جگہ کے اعتبار سے ہے کہ بعض جگہ تو بلا ضرورت کتے پالنے کی وجہ سے ثواب میں دو قیرط کے برابر کمی کی جاتی ہے۔ جیسے مکہ اور مدینہ کہ دونوں مقدس شہر اپنی عظمت و بزرگی کے لحاظ سے ایسے ہیں کہ اگر ان کی حدود میں رہنے والا کوئی شخص بلا ضرورت کتا پالتا ہے تو وہ زیادہ گنہگار ہوتا ہے اس لئے اس کے ذخیرہ ثواب میں روزانہ دو قیراط کے برابر کمی ہوجاتی ہے جب کہ ان دونوں مقدس شہروں کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں کتا پالنے والا نسبتا کم گنتہگار ہوتا ہے، اس لئے اس کے ثواب میں دو قیراط کے برابر کمی ہوتی ہے اور جو لوگ جنگل و بیابان میں کتا پالتے ہیں ان کے ثواب میں ایک قیراط کی کمی ہوتی ہے کیونکہ آبادی میں کتے پالنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ایذاء پہنچانے کا ذریعہ پیدا ہو جب کہ جنگل و بیابان میں یہ صورت نہیں ہوتی۔ اور یا یہ فرق اختلاف زمانہ کے سبب سے ہے کہ پہلے تو ایک ہی قیراط کے برابر کم ہونے کے ساتھ تنبیہ کی گئی تھی، مگر جب بعد میں لوگوں نے کتوں کو زیادہ پالنا شروع کردیا اور ان کے ساتھ رہن سہن اختیار کیا، نیز ان کی طرف زیادہ رغبت و شوق رکھنے لگے تو شریعت کی طرف سے زجر و تنبیہ میں بھی زیادتی اور شدت اختیار کی گئی اور ثواب میں روازانہ دو قیراط کے برابر کمی ہوجانے کی وعید بیان فرمائی گئی۔

【35】

کتوں کو مار ڈالنے کا حکم

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں ( مدینہ کے) کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دے دیا تھا چناچہ ( ہم مدینہ اور اطراف مدینہ کے کتوں کو مار ڈالتے تھے) یہاں تک کہ جو عورت جنگل سے آتی اور اس کا کتا اس کے ساتھ ہوتا تو ہم اس کو بھی ختم کردیتے تھے، پھر بعد میں آنحضرت ﷺ نے عام کتوں کو مار ڈالنے سے منع فرما دیا اور یہ حکم دیا کے خالص سیاہ کتے کو جو دو نقطوں والا ہو مار ڈالنا تمہارے لئے ضروری ہے کیونکہ وہ شیطان ہے۔ ( مسلم ) تشریح علماء نے لکھا ہے کہ کتوں کو مار ڈالنے کا حکم صرف مدینہ منورہ کے ساتھ مخصوص تھا کیونکہ وہ شہر مقدس محض اسی اعتبار سے تقدیس کا حامل نہیں تھا کہ اس میں سرکار دو عالم ﷺ اقامت پذیر تھے بلکہ اس اعتبار سے بھی اس کو پاکیزگی کی عظمت حاصل تھی کہ وہ وحی کے نازل ہونے اور ملائکہ کی آمدورفت کی جگہ تھا، لہذا یہ بات بالکل موزوں اور مناسب تھی کہ اس کی سر زمین کو کتوں کے وجود سے پاک رکھا جاتا۔ عورتوں کی تخصیص یا تو اس وجہ سے ہے کہ جو عورتیں جنگل میں بود وباش رکھتی تھیں ان کو ( مویشیوں وغیرہ کی حفاظت کے لئے) کتوں کی زیادہ ضرورت ہوتی تھی اور جب وہ شہر میں آتیں تو اس وقت بھی ان کا کتا ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔ یا یہ کہا جائے کہ یہاں عورت کی قید محض اتفاقی ہے اور مراد یہ ہے کہ ان کتوں کو بھی زندہ نہیں چھوڑا جاتا تھا جو جنگل سے شہر آجاتے تھے خواہ وہ کسی عورت کے ساتھ آتے یا کسی مرد وغیرہ کے ساتھ۔ جو دو نقطوں والا ہو یعنی وہ کالا بھجنگ کتا جس کی دونوں آنکھوں پر دو سفید نقطے ( ٹپکے) ہوتے ہیں۔ اس قسم کا کتا چونکہ انتہائی شریر اور لوگوں کے لئے سخت تکلیف اور ایذاء پہنچانے والا ہوتا ہے اس لئے اس کو شیطان فرمایا گیا ہے۔ اس کو شیطان کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسا کتا نہ نگہبانی کے کام کا ہوتا ہے اور نہ شکار پکڑنے کے مصرف کا، چناچہ اسی سبب سے حضرات امام احمد و اسحق نے یہ کہا ہے کہ سیاہ کتے کا پکڑا ہوا شکار حلال نہیں کیونکہ وہ شیطان ہے۔ حضرت امام نووی فرماتے ہیں کہ عقور یعنی کٹ کھنے کتے کو مار ڈالنے پر تو علمار کا اتفاق ہے اگرچہ وہ سیاہ رنگ کا نہ ہو لیکن اس کتے کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں جو نقصان و ضرر پہنچانے والا نہ ہو۔ امام حرمین کہتے ہیں کہ کتوں کو مار ڈالنے کے حکم کی اصل صورت حال یہ ہے کہ پہلے تو نبی کریم ﷺ نے ہر قسم کے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا تھا، بعد میں اس حکم کی عمومیت منسوخ کر کے اس کے صرف یک رنگ سیاہ کتے تک محدود کردیا گیا اور پھر آخری طور پر ان تمام کتوں کو مار ڈالنے کی ممانعت نافذ ہوئی جو نقصان و ضرر پہنچانے والے نہ ہوں، یہاں تک کہ یک رنگ سیاہ کتے کو بھی اس حکم میں شامل کردیا گیا اگر اس سے نقصان و ضرر پہنچنے کا خطرہ نہ ہو تو اس کو بھی ختم نہ کیا جائے۔ اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہم کو ( سارے کتوں کے یا مدینہ کے) کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا، لیکن شکاری کتوں اور بکریوں کی حفاظت کرنے والے کتوں اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتوں کو مستثنی رکھا۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح او ماشیۃ ( اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتے) یہ جملہ تعمیم بعد تخصیص کے طور پر ہے۔ یعنی استثناء کے سلسلے میں پہلے تو خاص طور پر بکریوں کو حفاظت کرنے والے کتوں کا ذکر کیا پھر اور بعد میں عمومی طور پر تمام جانوروں کی حفاظت کرنے والے کتوں کا ذکر کردیا، لہٰذا اس صورت میں حرف او تنویع کے لئے ہوگا جیسا کہ ماقبل کی عبارت میں ہے۔ یا یہ کہ او ماشیۃ میں حرف او راوی کے شک کو ظاہر کرنے کے لئے ہے یعنی اس کے ذریعہ حدیث کے راوی نے بتانا چاہا ہے کہ مجھے صحیح یاد نہیں ہے کہ اس موقع پر الا کلب صید او کلب کے بعد غنم فرمایا گیا تھا یا ما شیۃ۔

【36】

سارے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دینے کی علت

حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے ( بھی) گروہوں میں سے ایک گروہ ہیں تو میں یقینا یہ حکم دے دیتا کہ ان سب کو مار ڈالا جائے پس ان میں جو ( بھی) کتا خالص سیاہ رنگ کا ہو اس کا مار ڈالوں ( ابوداؤد، دارمی) اور ترمذی و نسائی نے یہ عبارت مزید نقل کی ہے کہ اور جو گھر والے بلا ضرورت کتا پالتے ہیں ان کے عمل ( کے ثواب میں سے روازانہ ایک قیراط کے بقدر کمی کردی جاتی ہے، ہاں شکاری کتا اور کھیت کی حفاظت کرنے والا اور ریوڑ کی چوکسی کرنے والا کتا اس سے مستثنٰی ہے۔ تشریح کتے ( بھی) گروہوں میں سے ایک گروہ ہیں الخ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے گویا قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ فرمایا آیت (وَمَا مِنْ دَا بَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰ ى ِرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّا اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ) 6 ۔ الانعام 38) ۔ اور جتنی قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنی قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازؤوں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح گروہ نہ ہوں۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسان ایک امت اور ایک جنس ہیں اسی طرح جانور بھی ایک امت اور ایک جنس ہیں، خواہ وہ زمین پر چلنے والے ہوں یا فضا میں اڑنے والے ہوں، جس طرح انسان اپنے مختلف نام اور اپنے مختلف انواع کے ذریعہ ایک دوسرے سے پہچانے جاتے ہیں، اسی طرح جانوروں کے بھی مختلف نام اور مختلف نوع ہیں جن کے ذریعہ ایک دوسرے کے درمیان فرق امتیاز کیا جاتا ہے۔ اور جس طرح انسان اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہیں۔ کہ ہر شخص کو اپنے اپنے مقدر کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق ملتا ہے، اسی طرح جانوروں کو بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے رزق ملتا ہے، نیز یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی خاص مصلحت و حکمت کی بناء پر پیدا کیا ہے اسی طرح جانوروں کو بھی مصلحت و حکمت ہی کے مطابق پیدا کیا ہے، اس اعتبار سے جس طرح انسان کی جان کی اہمیت ہے، اسی طرح جانوروں کی جان کی بھی اہمیت ہے کہ ان کو بلا ضرورت اور بلا مقصد مار ڈالنا تخلیق الٰہی کی مصلحت و حکمت کے منافی ہے۔ لہٰذا آنحضرت ﷺ نے ارشار فرمایا کہ اس آیت کریمہ کے بموجب یہ تو ممکن نہیں ہے کہ سارے کتوں کو مار ڈالا جائے کیونکہ مخلوق الٰہی میں جتنے گروہ اور جتنی جماعتیں ہیں ان میں ایک گروہ اور ایک جماعت کتے بہی ہیں اور کسی جماعت کے گروہ کے فنا کردینا اللہ تعالیٰ کی اس حکمت و مصلحت کے بالکل منافی ہے جو ہر جاندار کی تخلیق میں کار فرما ہے، البتہ ان کتوں میں جو کتے خالص سیاہ رنگ کے ہوں ان کو مار ڈالنا چاہئے کیونکہ اس قسم کے کتے نہایت شریر اور سخت خطرناک ہوتے ہیں جن سے لوگوں کو سوائے تکلیف و ایذاء کے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور باقی دوسری قسم کے کتے چونکہ کھیت کھلیان اور مویشیوں کی چوکسی کرنے وغیرہ کے کام میں آتے ہیں اور وہ ایک طرح سے انسان کی خدمت کرتے ہیں اس لئے آیت کریمہ کی تعلیم کے علاوہ یوں بھی مفاد عامہ کے پیش نظر ان کو زندہ رکھنا ہی زیادہ بہتر اور فائدہ مند ہے۔ حدیث میں لفظ فاقتلوا ترکیب نحوی کے اعتبار سے جواب ہے شرط محذوف کا، گویا آپ ﷺ نے یوں فرمایا کہ جب مذکورہ سبب (آیت کریمہ کے بموجب) تمام کتوں کو مار ڈالنے کا کوئی راستہ نظر آتا تو کم سے کم ان کتوں کو مار ڈالو جو خالص سیاہ رنگ کے ہوں۔

【37】

جانوروں کو لڑانے کی ممانعت

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جانوروں کو ایک دوسرے پر ابھارنے ( یعنی ان کو آپس میں لڑانے سے) منع فرمایا ہے۔ ( ترمذی، ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اونٹوں، ہاتھیوں، مینڈھوں، بیلوں، بھینسوں اور ان کے علاوہ دوسرے چوپایوں کو آپس میں لڑانا نہیں چاہئے، اسی طرح پرند جانوروں کا بھی یہی حکم ہے۔ مرغیوں اور بیٹروں وغیرہ کا بھی آپس میں لڑانا ممنوع ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب جانوروں کو لڑانے کی ممانعت ہے تو آدمیوں کو آپس میں لڑانا بطریق اولی ممنوع ہوگا۔

【38】

جن جانوروں کا کھانا حلال ہے اور جن جانوروں کا کھانا حرام ہے ان کا بیان

واضح رہے کہ جس چیز کا حرام ہونا کتاب اللہ ( یعنی قرآن مجید) سے ثابت ہے وہ اول تو میتہ یعنی مردار ہے۔ دوم دم مسفوح یعنی بہتا ہوا خون ہے، سوم سؤر کا گوشت ہے اور چہارم اس جانور کا گوشت ہے جس کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو چناچہ اس آیت کریمہ سے یہی ثابت ہے۔ ا یت (قُلْ لَّا اَجِدُ فِيْ مَا اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُه اِلَّا اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّه رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِه) 6 ۔ الانعام 145) ( اے محمد ﷺ کہہ دیجئے کہ جو احکام ( بذریعہ وحی) میرے پاس آئے ہیں ان میں تو میں کوئی حرام غذا پاتا نہیں کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ( مرا ہوا جانور) ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو ( جانور) شرک کا ذریعہ ہو کہ غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو۔ اس کے بعد سنت نبوی ﷺ نے ان حرام چیزوں میں کچھ اور جانوروں کا اضافہ کیا جیسے ذی ناب، ذی مخلب اور گھر کے پلے ہوئے گدھے وغیرہ۔ چناچہ جن جانوروں کا احادیث نبوی کے ذریعہ حرام قرار پانا ثابت ہے ان میں سے بعض جانور تو بسبب قطعیت احادیث کے متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک حرام ہیں اور بعض جانوروں کے بارے میں ائمہ حضرات کے اختلافی مسلک ہیں کیونکہ ان کے سلسلے میں احادیث بھی مختلف منقول ہیں بعض جانوروں کے سلسلے میں اس آیت کریمہ کی بناء پر بھی علماء کے درمیان اختلاف پیدا ہوا ہے۔ ا یت ( وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَ بٰ ى ِثَ ) 7 ۔ الاعراف 157) ۔ اور وہ ( رسول کریم ﷺ پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال بناتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں۔ چنانچہ حنفی علماء نے اسی آیت کی بنیاد پر مچھلی کے علاوہ پانی کے اور تمام جانوروں کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ ان حضرات کے نزدیک مچھلی کے علاوہ پانی کا اور جو بھی جانور ہے وہ خبیث یعنی گندا ہے۔ بایں دلیل کہ خبیث سے مراد وہ چیز ہے جس کو طبیعت سلیم، طیب کی ضد یعنی گندی اور گھناؤنی جانے اور پانی میں مچھلی کے علاوہ جو بھی جاندار چیز ہوتی ہے اس کو طبیعت سلیم گھناؤنی جانتی ہے ؟ ہدایہ میں لکھا ہے کہ حضرت امام مالک اور علماء کی ایک جماعت کا مسلک یہ ہے کہ پانی کے تمام جانور مطلق حلال ہیں لیکن ان میں سے بعض علماء نے دریائی سور، دریائی کتے اور دریائی انسان کا استثناء کیا ہے۔ حضرت امام شافعی کے نزدیک مطلق دریا کے جانور حلال ہیں۔ ان کی دلیل یہ آیت کریمہ ہے (اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُه) 5 ۔ المائدہ 96) ۔ تمہارے نزدیک دریا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے۔ نیز وہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد سے بھی استدلال کرتے ہیں جو آپ ﷺ نے دریا کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہو الطھور ماؤہ والحل میتتہ۔ اس ( دریا) کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔

【39】

ذی ناب درندہ حرام ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ درندوں میں جو جانور کچلی والا ہو ( یعنی جو دانت سے اپنا شکار پکڑتا ہو جیسے شیر اور بھیڑیا وغیرہ) اس کا کھانا حرام ہے ( مسلم )

【40】

ذی مخلب پرندہ کا گوشت کھانا حرام ہے

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہر اس درندے ( کے گوشت) کو کھانے سے منع فرمایا ہے جو کچلی والا ہو اور ہر اس پرندے ( کا گوشت کھانے) سے منع فرمایا ہے جو چنگل گیر ہو یعنی جو اپنے پنجہ سے شکار کرتا ہو جیسے باز وغیرہ۔ ( مسلم )

【41】

گھریلو گدھے کا گوشت کھانا حرام ہے

اور حضرت ابوثعلبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے گھریلو گدھوں کا گوشت حرام قرار دیا ہے۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح لیکن جنگلی گدھے کہ جن کو گور خر کہتے ہیں بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک حلال ہیں۔

【42】

گھوڑا حلال ہے

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے کی ممانعت جاری فرمائی تھی اور گھوڑوں کا گوشت کھانے کی اجازت دی تھی۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح دیگر ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ گھوڑے کا گوشت کھانا مباح ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کا قول یہ ہے کہ گھوڑے کا گوشت کھانا مکروہ ہے، بعضے کہتے ہیں کہ کراہت تحریمی مراد ہے اور بعضے کراہت تنزیہی مراد لیتے ہی لیکن کفایت المنتہی میں منقول ہے کہ بعض علماء نے واضح کیا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ نے اپنے انتقال سے تین دن پہلے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا تھا یعنی دیگر ائمہ کی طرح وہ بھی گھوڑے کے گوشت کی اباحت کے قائل ہوگئے تھے چناچہ حنفی مسلک میں اسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح فقہ حنفی کی مشہور اور معتبر کتاب درمختار میں بھی یہ لکھا ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک گھوڑے کا گوشت حلال نہیں ہے جب کہ حضرت امام شافعی اور حنفیہ میں سے حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک حلال ہے اور بعض علماء نے صراحت کی ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے اپنے انتقال سے تین دن پہلے حرمت کے قول سے رجوع کرلیا تھا چناچہ اسی پر فتوے ہے۔ حضرت مولانا شاہ محمد اسحق محدث دہلوی (رح) بھی اسی روایت کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے کہ حضرت امام اعظم نے اپنے قول سے رجوع کرلیا تھا اور حنفی مسلک میں گھوڑے کا گوشت کھانا حلال ہے۔

【43】

گور خر کا گوشت حلال ہے

اور حضرت ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے گورخر کو دیکھا اور اس کو مار ڈالا ( اور پھر رسول کریم ﷺ سے اس گوشت کھانے کا مسئلہ پوچھا) تو نبی کریم ﷺ نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ موجود ہے ؟ ابوقتادہ نے کہا کہ ہمارے پاس اس کے پائے موجود ہیں چناچہ آنحضرت ﷺ نے وہ پائے لے لئے اور اس کو کھایا۔ ( بخاری ومسلم )

【44】

خرگوش حلال ہے

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) ہم نے مقام مرالظہران میں ( شکار کے لئے) ایک خرگوش کا تعاقب کیا چناچہ میں نے ( دوڑ کر) اس کو پکڑ لیا اور پھر اس کو ابوطلحہ کے پاس لایا۔ ابوطلحہ نے اس کو ذبح کیا اور اس کا ایک سرین اور دونوں رانیں رسول کریم ﷺ کے پاس بھیجیں آنحضرت ﷺ نے اس کو قبول فرما لیا۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خرگوش ایک حلال جانور ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اس کا گوشت قبول فرمایا اگر اس کا گوشت کھانا حلال نہ ہوتا تو آپ ﷺ اس کو قبول نہ فرماتے بلکہ دوسرے کو بھی اس کے کھانے سے منع فرماتے۔ چناچہ کتاب الرحمۃ فی اختلاف الائمۃ میں لکھا ہے کہ بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک خرگوش حلال ہے۔

【45】

گوہ کا گوشت کھانے کا مسئلہ

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ گوہ کو نہ میں کھاتا ہوں اور نہ اس کو حرام قرار دیتا ہوں۔ (بخاری ومسلم ) تشریح گوہ کو گور پھوڑ بھی کہتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس کی عمر سات سو سال تک کی ہوتی ہے، اس کی بڑی عجیب خصوصیات بیان کی جاتی ہیں مثلا یہ پانی نہیں پیتی بلکہ ہوا کے سہارے زندہ رہتی ہے، چالیس دن میں ایک قطرہ پیشاب کرتی ہے اور اس کے دانت کبھی نہیں ٹوٹتے۔ بعض علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا گوہ کو نہ کھانا کراہت طبعی کی بناء پر تھا اور اور اس کو حرام قرار نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک آنحضرت ﷺ کے پاس وحی کے ذریعہ اس کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ آگے وہ حدیث آرہی ہے جو گوہ کی حرمت پر دلالت کرتی ہے چناچہ اسی حدیث کے بموجب حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک گوہ کا کھانا حرام ہے، جب کہ حضرت امام احمد اور حضرت امام شافعی کے نزدیک اس کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ان کی دلیل مذکورہ بالا حدیث ہے۔

【46】

گوہ کا گوشت کھانے کا مسئلہ

اور حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید (رض) نے ان سے بیان کیا کہ ( ایک دن) وہ ( خالد) رسول کریم ﷺ کے ہمراہ حضرت میمونہ (رض) کے گھر گئے جو ان ( خالد) کی بھی خالہ تھیں اور حضرت ابن عباس (رض) کی بھی وہاں ان کے پاس انہوں نے ( یعنی آنحضرت ﷺ نے یا حضرت خالد (رض) نے) ایک گوہ بھنی ہوئی رکھی پائی ! حضرت میمونہ (رض) نے اس گوہ کو رسول کریم ﷺ کے سامنے پیش کیا لیکن رسول کریم ﷺ نے اس گوہ کی طرف سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا حضرت خالد (رض) نے ( یہ دیکھا تو) پوچھا کہ یا رسول اللہ ! کیا گوہ حرام ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ نہیں بلکہ یہ میری قوم کی زمین ( یعنی حجاز) میں نہیں پائی جاتی اس لئے میں اس سے اپنے اندر کراہت ( یعنی طبعی کراہت) محسوس کرتا ہوں۔ حضرت خالد (رض) کا بیان ہے کہ (یہ سن کر) میں نے اس گوہ کو اپنی طرف کھینچ لیا اور کھانے لگا اور آنحضرت ﷺ میری طرف دیکھتے رہے۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح آگے جو حدیث آئے گی اور جس میں گوہ کو کھانے کی ممانعت منقول ہے، یہ واقعہ اس سے پہلے کا ہے اس اعتبار سے یہ حدیث منسوخ قرار پائے گی۔

【47】

مرغ کا گوشت کھانا حلال ہے

اور حضرت ابوموسی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو مرغ کا گوشت کھاتے دیکھا ہے۔ ( بخاری ومسلم )

【48】

ٹڈی کا کھانا جائز ہے

اور ابن ابی اوفیٰ (رض) کہتے ہیں ہم نے رسول کریم ﷺ کے ہمراہ سات جہاد کئے، ہم ( ان موقعوں پر) آنحضرت ﷺ کے ساتھ ٹڈی کھاتے تھے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح کنانا کل معہ الجراد میں لفظ معہ ( آنحضرت ﷺ کے ساتھ) نہ تو مسلم کی اصل روایت میں ہے اور نہ ترمذی میں، بلکہ اس حدیث کو جن اور محدثین نے نقل کیا ہے ان میں سے اکثر کی روایت اس لفظ سے خالی ہے، تاہم جن محدثین نے اپنی روایت میں یہ لفظ مزید نقل کیا ہے انہوں نے اس عبارت کے یہ معنی مراد لئے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے ہمراہ رہتے ہوئے ٹڈی کھاتے تھے۔ اور آنحضرت ﷺ ہمیں اس سے منع نہیں فرماتے تھے۔ نہ یہ کہ ہم اور آنحضرت ﷺ ساتھ ٹڈی کھاتے تھے۔ یہ تاویل اگرچہ حدیث میں منقول ہے الفاظ کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے لیکن یہ ضروری اس لئے ہے کہ یہ ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ٹڈی نہیں کھائی ہے۔ بلکہ اس کے بارے میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ نہ میں کھاتا ہوں اور نہ حرام قرار دیتا ہوں۔

【49】

دریا کے مرے ہوئے جانور کو کھانے کا واقعہ

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ جیش الخبط یعنی پتے جھاڑ کر کھانے والے لشکر کے ساتھ جہاد کے لئے جانے والوں میں میں بھی شریک تھا، حضرت ابوعبیدہ (رض) اس لشکر کے امیر ( سپہ سالار) بنائے گئے تھے چناچہ ( جب) ہم سخت بھوکے ہوئے تو دریا ( سمندر) نے ایک مری ہوئی مچھلی ( اپنے کنارے پر) پھینک دی ہم نے اتنی بڑی مچھلی کبھی نہیں دیکھی تھی اس قسم کی مچھلی کو عنبر کہا جاتا تھا۔ چناچہ ہم نے اس میں سے آدھے مہینے تک ( بڑی فراخی کے ساتھ) کھایا، پھڑ حضرت ابوعبیدہ (رض) نے اس کی ہڈیوں میں سے ایک ہڈی یعنی اس کی ایک پسلی کھڑی کی تو اس کے نیچے سے ایک اونٹ سوار ( بڑی آسانی کے ساتھ) گزر گیا، اس کے بعد جب ہم ( مدینہ واپس) آئے تو ہم نے نبی کریم ﷺ کے سامنے اس واقعہ کا ذکر کیا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ جس رزق کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے بہم پہنچایا ہے اس کو کھاؤ ( یعنی تم نے یہ اچھا کیا کہ اس مچھلی کو کھایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو تمہارا رزق بنا کر تمہارے لئے بہم پہنچایا تھا۔ یا یہ کہ اگر اس طرح کا کوئی اور رزق پاؤ تو اس کو کھاؤ) اور اگر اس مچھلی میں کوئی حضہ تمہارے پاس ( باقی رہا) ہو تو ہم کو بھی کھلاؤ ( یہ بات گویا آپ ﷺ نے ان کا دل خوش کرنے کے لئے اور اس مچھلی کے حلال ہونے کے حکم کو مؤ کد کرنے کی غرض سے فرمائی تاکہ ان لوگوں کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ وہ مچھلی اصل میں تو جائز نہیں تھی مگر ہماری اضطراری حالت کے پیش نظر اس کو ہمارے لئے حلال کردیا گیا ہے) حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ چناچہ ہم نے اس مچھلی کا کچھ حصہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا اور آپ ﷺ نے اس میں سے کھایا۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح خبط اصل میں تو خ اور ب کے زبر کے ساتھ لیکن ب کے جزم کے ساتھ بھی منقول ہے۔ اس کے معنی ہیں درخت کے پتے جو لاٹھی و ڈنڈے سے مار کر گرائے جائیں۔ حدیث میں مذکورہ واقعہ کا تعلق جس اسلامی لشکر سے ہے اس کو اتنی سخت صورت حال سے دوچار ہونا پڑا تھا کہ زاد راہ کے فقدان کی وجہ سے لشکر والوں کو اپنی زندگیاں بچانے کے لئے مجبورا درختوں کے پتے جھاڑ جھاڑ کر کھانے پڑتے تھے یہاں تک کہ اس کی وجہ سے ان کے منہ اور ہونٹ زخمی ہوگئے تھے بلکہ ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کے مشابہ ہوگئے تھے۔ اسی بناء پر اس لشکر کا نام جیش الخبط یعنی پتے جھاڑ کر کھانے والا لشکر مشہور ہوگیا۔ یہ واقعہ ٦ ھ میں صلح حدیبیہ سے پہلے کا ہے۔ عنبر ایک خوشبو کا نام ہے جس کے بارے میں قاموس میں لکھا ہے کہ یہ اصل میں ایک سمندری جانور کا فضلہ ہوتا ہے، یا یہ ایک خاص قسم کے چشمے سے برآمد ہوتا ہے جو سمندر کی تہہ میں ہے۔ اور ایک قسم کی بڑی سمندری مچھلی کو بھی عنبر کہتے ہیں جس کی کھال سے ڈھال بنائی جاتی ہے۔ آدھے مہینہ تک۔ بعض روایتوں میں ایک مہینہ تک کے الفاظ ہیں اور بعض روایت میں یہ آیا ہے کہ لشکر والوں نے اس مچھلی میں سے اٹھارہ دن تک کھایا۔ ان تمام روایتوں میں یوں مطابقت پیدا کی جائے کہ اس مچھلی میں سے آدھے مہینہ تک تو پورا لشکر کھاتا رہا اس کے بعد لشکر میں سے کچھ لوگ اٹھارہ دن تک اور کچھ لوگ پورے مہینے تک کھاتے رہے۔

【50】

کھانے پینے کی چیز میں مکھی گر پڑے تو اس کا حکم

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب تم میں سے کسی شخص کے برتن میں ( کہ جس میں کھانے پینے کی کوئی چیز ہو) مکھی گرپڑے تو اس کو چاہئے کہ وہ اس پوری مکھی کو غوطہ دے اور پھر نکال کر پھینک دے کیونکہ اس ( مکھی کے دونوں پروں میں سے ایک پر میں شفا ہے اور دوسرے پر میں بیماری ہے۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح اسی طرح کی ایک حدیث جو حضرت ابوہریرہ (رض) ہی سے منقول ہے دوسری فصل میں بھی نقل ہوگی۔ اس میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مکھی بیماری کے پر کو پہلے ڈالتی ہے لہٰذا پوری مکھی کو غوطہ دے لو تاکہ اس کا دوا والا پر بھی ڈوب جائے اور اس طرح اس کھانے پینے کی چیز سے وہ مضر اثرات زائل ہوجائیں جو بیماری والے پر کے ذریعہ پہنچے ہیں۔

【51】

جس گھی میں چوہا گر جائے اس کا حکم

اور حضرت میمونہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک چوہا گھی میں گرپڑا اور مرگیا۔ چناچہ رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا ( اس گھی کا کیا کیا جائے) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس چوہے کو اور اس کے اردگرد کے گھی کو نکال کر پھینک دو اور ( باقی) گھی کو کھاؤ۔ ( بخاری ) تشریح یہ اس گھی کا حکم ہے جو جما ہوا ہو اور جو گھی پگھلا ہوا ہو وہ تو اس صورت میں سارا نجس ہوجاتا ہے اور بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک اس کا کھانا جائز نہیں، اس طرح اس گھی کو بیچنا بھی اکثر ائمہ کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ البتہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے اس کے بیچنے کو جائز رکھا ہے۔ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آیا اس گھی سے کوئی اور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ چناچہ بعض حضرات کے نزدیک اس سے کوئی بھی فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے، جب کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس کو چراغ میں جلانے، کشتیوں پر ملنے یا اس طرح کے کسی اور مصرف میں لا کر اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ یہ قول حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا ہے اور حضرت امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول جو زیادہ مشہور ہے، بھی یہی ہے۔ لیکن یہ جواز کراہت کے ساتھ ہے۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد سے دو روایتیں منقول ہیں۔ حضرت امام مالک سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس گھی کو مسجد کے چراغ میں جلانا جائز نہیں ہے۔

【52】

سانپ کو مار ڈالنے کا حکم

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ( عموماً تمام) سانپوں کو مار ڈالو اور ( خصوصا) اس سانپ کو کہ جس کی پشت پر دو سیاہ دھاریاں ہوں اور اس سانپ کو جس کو بتر کہتے ہیں مار ڈالو کیونکہ یہ دونوں قسم کے سانپ بینائی کو زائل کردیتے ہیں ( یعنی محض ان کو دیکھنے سے آدمی اندھا ہوجاتا ہے اور اس کا سبب اس زہر کی خاصیت ہے جو ان سانپوں میں ہوتا ہے اسی طرح (یہ ہدونوں سانپ) حمل کو گرا دیتے ہیں ( یعنی اگر حاملہ عورت ان کو دیکھے تو اس زہر کی خاصیت کے سبب سے یا خوف و دہشت کی وجہ سے اس کا حمل گر جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ ( ایک دن) جب کہ میں ایک سانپ پر حملہ کر کے اس کو مار ڈالنے کے درپے تھا کہ ( ایک صحابی) حضرت ابولبابہ انصاری نے مجھ کو آواز دے کر کہا کہ اس کو مت مارو، میں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے تمام سانپوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت ابولبابہ نے کہا کہ لیکن آنحضرت ﷺ نے اس ( عام حکم) کے بعد گھر میں رہنے والے سانپوں کو مار ڈالنے سے منع فرمادیا تھا کیونکہ وہ گھر کو آباد کرنے والے ہیں۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح وہ گھر کو آباد کرنے والے ہیں۔ اصل میں عمر اور عمر کے معنی ہیں آباد کرنا، مدت دراز تک زندہ رہنا، چناچہ ان سانپوں کو عوامر اسی لئے کہا گیا ہے کہ ان کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس وجہ سے وہ ہمیشہ گھر میں رہتے ہیں، ہمارے یہاں اس قسم کے سانپ کو بھومیا کہا جاتا ہے۔ اور تورپشتی نے کہا ہے کہ اصل میں عوامر کا اطلاق جنات پر ہوتا ہے، اس اعتبار سے وہ گھر کو آباد کرنے والے ہیں۔ سے مراد یہ ہوگی کہ گھروں میں اکثر وبیشتر جو سانپ نظر آتے ہیں وہ حقیقت میں جنات ہوتے ہیں جو سانپ کی صورت اختیار کئے ہوئے ہیں، لہٰذا گھروں میں رہنے والے سانپوں کو قتل کرنے میں احتیاط کرنی چاہئے کہ مبادا جس سانپ کو مار ڈلا گیا ہے وہ حقیقت کے اعتبار سے گھر میں رہنے والا جن رہا ہو اور اس کے قتل سے گھر والوں کو کوئی نقصان وضرر پہنچ جائے۔ طبرانی نے ابن عباس (رض) سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ اقتلو الحیۃ والعقرب وان کنتم فی الصلوۃ۔ سانپ اور بچھو کو مار ڈالو اگر چھ تم نماز کی حالت میں کیوں نہ ہو۔ اسی طرح ابوداؤد و نسائی نے حضرت ابن مسعود (رض) اور طبرانی نے جریر سے اور انہوں نے حضرت عثمان بن ابوالعاص سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ اقتلو الحیات کلھن فمن خاف ثارھن فلیس منی۔ ہر قسم کے سانپوں کو مار ڈالو، جو شخص ان ( سا نپوں کے بدلے انتقام سے ڈرا اس کی وجہ سے ان کو نہیں مارا) تو وہ مجھ سے نہیں ہے۔ لیکن یہ روایتیں کہ جن سے مطلق سانپوں کو مار ڈالنے کا حکم ثابت ہوتا ہے، اصل میں یہ گھروں میں رہنے والے سانپوں کے علاوہ دوسرے سانپوں پر محمول ہیں جیسا کہ حضرت ابن عمر کی مذکورہ بالا روایت یا آگے آنے والی دوسری روایتوں سے واضح ہوتا ہے۔

【53】

سانپ کو مار ڈالنے کا حکم

اور حضرت سائب ( جو حضرت ہشام ابن زہرہ کے ازاد کردہ غلام تھے اور تابعی ہیں) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) ہم حضرت ابوسعید خدری (رض) کے پاس ان کے گھر گئے، چناچہ جب کہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے اچانک ہم نے ان ( ابوسعید) کے تخت کے نیچے ایک سرسراہٹ سنی ہم نے دیکھا تو وہاں ایک سانپ تھا، میں اس کو مارنے کے لئے جھپٹا، مگر حضرت ابوسعید (رض) نماز پڑھ چکے تو انہوں نے مکان کے ایک کمرے کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ کیا تم نے اس کمرے کو دیکھا ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں ! پھر حضرت ابوسعید (رض) نے کہا کہ اس کمرے میں ہمارے خاندان کا ایک نوجوان رہا کرتا تھا جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ حضرت ابوسعید نے کہا کہ ہم سب لوگ ( یعنی وہ نوجوان بھی) رسول کریم ﷺ کے ہمراہ غزوہ خندق میں گئے، ( جس کا محاذ مدینہ کے مضافات میں قائم کیا گیا تھا) ( روزانہ) دوپہر کے وقت رسول کریم ﷺ سے ( گھر جانے کی) اجازت مانگ لیا کرتا تھا ( کیونکہ دلہن کی محبت اس کو اس پر مجبور کرتی تھی) چناچہ ( اجازت ملنے پر) وہ اپنے اہل خانہ کے پاس چلا جاتا ( اور رات گھر میں گزار کر صبح کے وقت پھر مجاہدین میں شامل ہوجاتا) ایک دن حسب معمول، اس نے رسول کریم ﷺ سے اجازت طلب کی تو آنحضرت ﷺ نے ( اس کو اجازت دیتے ہوئے) فرمایا کہ اپنے ہتھیار اپنے ساتھ رکھو، کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں بنو قریظہ تم پر حملہ نہ کردیں ( بنو قریظہ مدینہ میں یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو اس موقع پر قریش مکہ کا حلیف بن کر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک تھا اس نوجوان نے ہتھیار لے لئے اور ( اپنے گھر کو) روانہ ہوگیا) جب وہ اپنے گھر کے سامنے پہنچا تو) کیا دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی ( گھر کے) دونوں دروازوں ( یعنی اندر اور باہر کے دروازے) کے درمیان کھڑی ہے، نوجوان نے عورت کو مار ڈالنے کے لئے اس کی طرف نیزہ اٹھایا کیونکہ ( یہ دیکھ کر کہ اس کی بیوی باہر کھڑی ہے) اس کو بڑی غیرت آئی لیکن عورت نے ( جبھی) اس سے کہا کہ اپنے نیزے کو اپنے پاس روک لو اور ذرا گھر میں جا کر دیکھو کہ کیا چیز میرے باہر نکلنے کا سبب ہوئی ہے۔ ( یہ سن کر) وہ نوجوان گھر میں داخل ہوا، وہاں یکبارگی اس کی نظر ایک بڑے سانپ پر پڑی جو بستر پر کنڈلی مارے پڑا تھا۔ نوجوان نیزہ لے کر سانپ پر جھپٹا اور اس کو نیزہ میں پرو لیا پھر اندر سے نکل کر باہر آیا اور نیزے کو گھر کے صحن میں گاڑ دیا، سانپ نے تڑپ کر نوجوان پر حملہ کیا، پھر یہ معلوم نہ ہوسکا کہ دونوں میں سے پہلے کون مرا، سانپ یا نوجوان ؟ ( یعنی وہ دونوں اس طرح ساتھ مرے کہ یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ پہلے کس کی موت واقع ہوئی ) ۔ حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ہم رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے سامنے یہ ماجرا بیان کر کے عرض کیا کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ اس نوجوان کو ہمارے لئے زندہ کر دے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اپنے ساتھی اور رفیق کے لئے مغفرت طلب کرو۔ اور پھر فرمایا کہ۔ ( مدینہ کے ان گھروں میں عوامر یعنی جنات رہتے ہیں ( جن میں مؤمن بھی ہیں اور کافر بھی) لہٰذا جب تم ان میں سے کسی کو ( سانپ کی صورت میں) دیکھو تو تین بار یا تین دن اس پر تنگی اختیار کرو پھر اگر وہ چلا جائے تو فبہا ورنہ اس کو مار ڈالو کیونکہ ( اس صورت میں یہی سمجھا جائے گا کہ) وہ ( جنات میں کا) کافر ہے۔ پھر آپ ﷺ نے انصار سے فرمایا کہ۔ جاؤ اپنے ساتھی کی تکفین و تدفین کرو۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ مدینہ میں ( کچھ) جن ہیں ( اور ان میں وہ بھی ہیں) جو مسلمان ہوگئے ہیں ان میں سے جب تم کسی کو ( سانپ کی صورت میں) دیکھو تو تین دن اس کو خببردار کرو، پھر تین دن کے بعد بھی اگر وہ دکھائی دے تو اس کو مار ڈالو کہ وہ شیطان ہے۔ ( مسلم ) تشریح آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے۔ علماء نے لکھا ہے کہ صحابہ کی یہ روش نہیں تھی کہ وہ اس طرح کی کوئی استدعا آنحضرت ﷺ سے کریں۔ اس موقع پر ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ نوجوان حقیقت میں مرا نہیں ہے بلکہ زہر کے اثر سے بیہوش ہوگیا ہے۔ اس خیال سے انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اس دعا کی استدعا کی تھی۔ مغفرت طلب کرو۔ اس ارشاد سے آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اس کو زندہ کرنے کی دعا کی درخواست کیوں کرتے ہو کیونکہ وہ تو اپنی راہ پر چل کر موت کی گود میں پہنچ گیا ہے جس کے حق میں زندگی کی دعا قطعا فائدہ مند نہیں ہے، اب تو اس کے حق میں سب سے مفید چیز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت اور بخشش کی درخواست کرو۔ اس پر تنگی اختیار کرو یا اس کو خبردار کرو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب سانپ نظر آئے تو اس سے کہو کہ تو تنگی اور گھیرے میں ہے اب نہ نکلنا اگر پھر نکلے گا تو ہم تجھ پر حملہ کریں گے اور تجھ کو مار ڈالیں گے، آگے تو جان۔ ایک روایت میں آنحضرت ﷺ سے یہ منقول ہے کہ سانپ کو دیکھ کر یہ کہا جائے انشدکم بالعہد الذی اخذ علیکم سلیمان بن داؤد علیماالسلام لا تاذونا ولا تظہروا لنا۔ میں تجھ کو اس عہد کی قسم دیتا ہوں جو حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے تجھ سے لیا تھا کہ ہم کو ایذاء نہ دے اور ہمارے سامنے مت آ۔ وہ شیطان ہے۔ یعنی خبردار کردینے کے بعد بھی وہ غائب ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ مسلمان جن نہیں ہے بلکہ یا تو کافر جن ہے یہ حقیقت میں سانپ ہے اور یا ابلیس کی ذریات میں سے ہے اس صورت میں اس کو فورا مار ڈالنا چاہئے۔ اس کو شیطان اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ آگاہی کے بعد بھی نظروں سے غائب نہ ہو کر اس نے اپنے آپ کو سرکش ثابت کیا ہے اور عام بات کہ جو بھی سرکش ہوتا ہے خواہ وہ جنات میں کا ہو یا آدمیوں میں کا اور یا جانوروں میں کا اس کو شیطان کہا جاتا ہے۔

【54】

گرگٹ کو مار ڈالنے کا حکم

اور حضرت ام شریک (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے گرگٹ کو مار ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہ (گرگٹ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر آگ پھونکتا تھا۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح آگ پھونکتا تھا یہ گویا گرگٹ کی خباثت کو بیان کیا گیا ہے کہ جب نمرود نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا تو یہ (گرگٹ) اس آگ کو بھڑکانے کے لئے اس میں پھونک مارتا تھا۔ یوں بھی تجربہ سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ یہ جانور بڑا زہریلا اور موذی ہوتا ہے، اگر کھانے پینے کی چیزوں میں اس کے زہریلے جراثیم پہنچ جائیں تو اس سے لوگوں کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔

【55】

گرگٹ کو مار ڈالنے کا حکم

اور حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے گرگٹ کو مار ڈالنے کا حکم دیا اور اس کا نام فویسق رکھا۔ ( مسلم ) تشریح فویسق اصل میں فاسق کی تصغیر ہے جس کے معنی ہیں چھوٹا فاسق۔ گرگٹ کو فویسق یعنی چھوٹا فاسق اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ یہ فواسق خمسہ یعنی ان پانچ بد جانوروں کی قسم سے ہے جن کو ہر حالت میں مار ڈالنے کا حکم ہے خواہ وہ حل میں یعنی حدود حرم سے باہر ہوں یا حرم میں ہوں۔ ویسے لغت میں فسق کے معنی خروج کے ہیں اور شرعی اصطلاح میں فسق سے مراد ہوتا ہے اطاعت حق سے نکل جانا اور صحیح راستہ سے رو گردانی کرنا۔

【56】

گرگٹ کو مار ڈالنے کا حکم

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص گرگٹ کو ایک ہی وار میں مار ڈالے۔ اس کے لئے سو نیکیاں لکھی جائیں گی، دوسرے وار میں اس سے کم اور تیسرے وار میں اس سے بھی کم نیکیاں لکھی جائیں گی۔ ( مسلم ) تشریح اس حدیث کے ذریعہ گویا اس بات کی طرف راغب کیا گیا ہے کہ گرگٹ کو جلد سے جلد مار ڈالا جائے۔

【57】

چیونٹی کو مارنے کا مسئلہ

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ( اللہ کے جو) انبیاء ( پہلے گزر چکے ہیں ان میں سے کسی نبی ( کا واقعہ ہے کہ ایک دن ان کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا، انہوں نے چیونٹیوں کے بل کے بارے میں حکم دیا کہ اس کو جلا دیا جائے، چناچہ بل کو جلا دیا گیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ وحی نازل کی کہ تمہیں ایک چیونٹی نے کاٹا تھا اور تم نے جماعتوں میں سے ایک جماعت کو جلا ڈالا جو تسبیح ( یعنی اللہ کی پاکی بیان کرنے) میں مشغول رہتی تھی۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح چناچہ بل کو جلا دیا گیا کے بارے میں بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی نے اس درخت کو جلانے کا حکم دیا تھا جس میں چیونٹیوں کا بل تھا، چناچہ اس درخت کو جلا ڈالا گیا۔ اس واقعہ کا پس منظر یہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ ان نبی ﷺ نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا تھا کہ ( پروردگار ! تو کسی آبادی کو اس کے باشندوں کے گناہوں کے سبب عذاب میں مبتلا کرتا ہے اور وہ پوری آبادی تہس نہس ہوجاتی ہے، درآنحالیکہ اس آبادی میں مطیع و فرمانبردار لوگوں کی بھی کچھ تعداد ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کرلیا کہ ان کی عبرت کے لئے کوئی مثال پیش ہونی چأہئے۔ چناچہ ان نبی ﷺ پر سخت ترین گرمی مسلط کردی گئی، یہاں تک کہ وہ اس گرمی سے نجات پانے کے لئے ایک سایہ دار درخت کے نیچے چلے گئے، وہاں ان پر نیند کا غلبہ ہوگیا اور وہ سو رہے تھے تو ایک چیونٹی نے ان کو کاٹ لیا، انہوں نے حکم دیا کہ ساری چیونٹیوں کو جلا دیا جائے، کیونکہ ان کے لئے یہ آسان نہیں تھا کہ وہ اس خاص چیونٹی کو پہچان کر جلواتے جس نے ان کو کاٹا تھا یا یہ کہ ان کے نزدیک ساری چیونٹیاں موذی تھیں اور موذی کی پوری جنس کو مار ڈالنا جائز ہے۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ قریۃ نمل سے چیونٹیوں کا بل مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی الخ یہ گویا ان نبی پر حق تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہ اس بات پر محمول ہے کہ نبی ﷺ کی شریعت میں چیونٹیوں کو مار ڈالنا یا جلا ڈالنا جائز تھا اور عتاب اس سبب سے ہوا کہ انہوں نے ایک چیونٹی سے زیادہ کو جلایا۔ لیکن واضح رہے کہ شریعت محمدی ﷺ میں کسی بھی حیوان و جانور کو جلانا جائز نہیں ہے اگرچہ جوئیں اور کھٹمل وغیرہ ہی کیوں نہ ہوں، نیز موذی جانوروں کے علاوہ دوسرے جانوروں کو مار ڈالنا بھی جائز نہیں ہے۔ چناچہ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کسی بھی جاندار کو مار ڈالنے سے منع فرمایا ہے الاّ یہ کہ وہ ایذاء پہنچانے والا ہو۔ مطالب المؤمنین میں محمد بن مسلم سے چیونٹی کا مار ڈالنے کے بارے میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ اگر چیونٹی نے تمہیں ایذاء پہنچائی ہے تو اس کو مار ڈالو اور اگر اس نے کوئی ایذاء نہیں پہنچائی ہے تو مت مارو، چناچہ فقہاء نے کہا ہے کہ ہم اسی قول پر فتویٰ دیتے ہیں۔ اسی طرح چیونٹی کو پانی میں ڈالنا بھی مکروہ ہے۔ نیز کسی ایک چیونٹی کو ( جس نے ایذاء پہنچائی ہو) مار ڈالنے کے لئے ساری چیونٹیوں کے بل کو نہ جلایا جائے اور نہ تباہ کیا جائے۔

【58】

گھی میں چوہے کے گر جانے کا مسئلہ

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر گھی میں چوہا گرجائے ( اور مرجائے) اور وہ گھی جما ہوا ہو تو اس چوہے کو اور اس کے چاروں طرف کے گھی کو نکال کر پھینک دو ( اور باقی گھی کھانے کے مصرف میں لاؤ) اور اگر وہ گھی پتلا یعنی پگھلا ہوا ہو تو پھر اس کے نزدیک ( بھی) مت جاؤ یعنی اس کو مطلقا نہ کھاؤ) احمد اور دارمی نے اس روایت کو ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے۔

【59】

سرخاب کا گوشت کھانا جائز ہے

اور حضرت سفینہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کے ساتھ حباری کا گوشت کھایا ہے۔ ( ابوداؤد ) تشریح حباری یعنی تعذری وہ جانور ( پرندہ) ہے جس کے بارے میں عربی میں مشہور ہے کہ وہ احمق ترین پرندہ ہوتا ہے اسی وجہ سے کسی شخص کی حماقت ظاہری کرنے کے لئے حباری کی مثال دی جاتی ہے اردو میں حباری سرخاب کو کہتے ہیں۔

【60】

جلالہ کا گوشت کھانے کی ممانعت

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں، رسول کریم ﷺ نے جلالہ کا گوشت کھانے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا ہے ( ترمذی) اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے کہا۔ آنحضرت ﷺ نے جلالہ پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے۔ تشریح جلالہ اس جانور کو کہتے ہیں۔ جس کا گوشت کھانا حلال ہو، لیکن اس کو نجاست، پلیدی کھانے کی عادت ہو، اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ جانور کبھی کبھی نجاست و پلیدی کھاتا ہو تو اس کو جلالہ نہیں کہیں گے اور اس کا گوشت کھانا حرام نہیں ہوگا۔ جیسے مرغی اور اگر وہ جانور ایسا ہو کہ اس کی خوراک ہی عام طور پر نجاست و پلیدی ہو، یہاں تک کہ اس کی وجہ سے اس کے گوشت اور دودھ میں بدبو آنے لگے، تو اس کا گوشت کھانا حلال نہیں ہوگا۔ الاّ یہ کہ اس کو باندھ کر یا بند کر کے رکھا جائے اور اس کو غیر نجس چیزیں کھلائی جائیں تاآنکہ اس کا گوشت اور دودھ ٹھیک ہوجائے تو اس کا گوشت کھانا اور دودھ پینا درست ہوگا۔ یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام محمد کا قول ہے لیکن حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بھی یعنی اس کو بند کر کے رکھنے اور غیر نجس چیزیں کھلانے کے بعد اس کا گوشت مبالغہ کی حد تک دھونا ضروری ہوگا۔ فتاویٰ کبری میں لکھا ہے کہ جب تک مخلات مرغ کو تین روز تک اور جلالہ کو دس روز تک بند کر کے یا باندھ کر نہ رکھا جائے اس وقت تک اس کا گوشت کھانا حلال نہیں ہوگا۔ جلالہ پر سواری کرنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ اس کا پسینہ جو گوشت کے پیدا ہونے کی وجہ سے گندا اور پلید ہوتا ہے، سوار کے جسم کو لگے گا۔

【61】

گوہ کا گوشت کھانا حرام ہے

اور حضرت عبدالرحمن بن شبل (رض) سے ورایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گوہ کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ ( ابوداؤد ) تشریح یہ حدیث گوہ کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رض) کا مسلک ہے۔ اور شاید کہ پہلے گوہ کا کھانا مباح رہا ہو اور پھر بعد میں اس حکم ممانعت کے ذریعہ اس اباحت کو منسوخ قرار دیا گیا ہو۔

【62】

بلی حرام ہے

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بلی کا گوشت اور اس کی قیمت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی) تشریح بلی کا گوشت کھانا تو بالاتفاق تمام علماء کرام کے نزدیک حرام ہے البتہ بلیک و بیچنا اور اس کی قیمت کو کھانے پینے کی چیزوں میں خرض کرنا حرام نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے۔

【63】

گھریلو گدھے، خچر اور درندوں اور ذی مخلب پرندوں کا گوشت حرام ہے

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے خبیر کے دن گھر میں پلے ہوئے گدھوں، خچر، ہر کچلی والے درندے اور پنجوں سے شکار کرنے والے پرندے کا گوشت حرام قرار دیا تھا امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【64】

گھوڑے کا گوشت کھانے کی ممانعت

اور حضرت خالد بن ولید (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے گھوڑے، خچروں اور گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ ( ابوداؤد، نسائی ) تشریح یہ حدیث کہ جس سے گھوڑے کا گوشت کھانے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے ضعیف ہے اس لئے یہ حضرت جابر (رض) کی اس حدیث کے معارض نہیں ہوسکتی جو پہلے گزر چکی ہے اور جس سے گھوڑے کے گوشت کی اباحت ثابت ہوتی ہے، تاہم گھوڑے کے گوشت کھانے کی یہ ممانعت اکثر علماء کے نزدیک اس حدیث کے ذریعہ منسوخ قرار پائی ہے جو پہلے گزر چکی ہے جیسا کہ حضرت جابر (رض) کی روایت کی تشریح میں یہ مسئلہ پوری وضاحت کے ساتھ بیان ہوچکا ہے۔

【65】

معاہدے کے مال کا حکم

اور حضرت خالد بن ولید (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ خیبر کے دن جہاد میں شریک تھا ( ایک موقع پر) یہودی آپ ﷺ کی خدمت میں آئے اور یہ شکایت کی کہ لوگوں نے ان کی کھجوروں کی طرف جلد روی اختیار کی ہے ( یعنی مسلمانوں نے ہمارے کھجور کے درختوں پر سے پھل توڑ لئے ہیں جب کہ ہم معاہد ہیں) چناچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ خبردار ! ان لوگوں کا مال حلال نہیں ہے جس سے عہد و پیمان ہوچکا ہے۔ علاوہ اس حق کے جو اس مال سے متعلق۔ ( ابوداؤد ) تشریح معاہد اس شخص کو کہتے ہیں کہ جس سے عہد و پیمان ہوا ہو، چناچہ اگر وہ معاہد ذمی ہے تو وہ حق جو اس کے مال سے متعلق ہے جزیہ ہے اور اگر وہ معاہد مستامن ہے اور اس کے پاس مال تجارت ہے۔ تو اس کے مال سے جو حق متعلق ہوگا وہ اس پر لاگو ہونے والا عشر ہے۔

【66】

مچھلی، ٹڈی، کلیجی اور تلی حلال ہے

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ہمارے لئے دو بغیر ذبح کے مری ہوئی چیزیں اور دو خون حلال ہیں۔ دو بغیر ذبح کے مری ہوئی چیزیں تو مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون کلیجی اور تلی ہیں ( کہ یہ دونوں اصل میں بستہ خون ہیں نہ کہ گوشت۔ (احمد، ابن ماجہ، دارقطنی )

【67】

جو مچھلی پانی میں مر کر اوپر آ جائے اس کا مسئلہ

اور حضرت ابوزبیر (رض) عنہ، حضرت جابر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس ( مچھلی) کو دریا نے کنارے پر پھینک دیا ہو، یا پانی سے اس کا ساتھ چھوٹ گیا ہو ( یعنی دریا کا پانی بالکل خشک ہوگیا ہو یا کسی دوسری طرف چلا گیا ہو) تو اس مچھلی کو کھالو اور جو مچھلی دریا میں مر کر پانی کے اوپر آجائے اس کو مت کھاؤ۔ ( ابوداؤد، ابن ماجہ) اور محی السنۃ نے کہا ہے کہ اکثر ( محدثین) اس بات کے قائل ہیں کہ یہ حدیث حضرت جابر (رض) پر موقوف ہے۔ یعنی ان کے نزدیک یہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد نہیں ہے بلکہ حضرت جابر (رض) کا اپنا قول ہے۔ تشریح یہ حدیث حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے اس مسلک کی دلیل ہے کہ طافی مچھلی ( یعنی وہ مچھلی جو پانی میں مر کر اوپر آجائے حرام ہے۔ چناچہ صحابہ کی ایک جماعت سے بھی اسی طرح منقول ہے، لیکن حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کے نزدیک اس مچھلی کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیوں کہ آنحضرت ﷺ مطلق ( بلا قید اور استثناء کے) احل لکم المیتتان ( تمہارے لئے دو بغیر ذبح کے مری ہوئی چیزیں حلال ہیں، فرمایا ہے لہٰذا میتہ بحر یعنی پانی کی مری ہوئی چیز ( مچھلی) مطلق حلال ہوگی ( خواہ وہ پانی سے نکلنے کے بعد مری ہو، یا پانی میں مر کر اوپر آگئی ہو) جب کہ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ میتہ بحر سے وہ مچھلی مراد ہے جس کو بحر یعنی دریا باہر پھینک دے اور وہ اس کی وجہ سے مرجائے نہ کہ وہ مچھلی مراد ہے جو بغیر کسی آفت کے پانی میں خود مرگئی ہو۔

【68】

ٹڈی کا حکم

اور حضرت سلمان (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے ٹڈی کے ( کھانے اور اس کی حقیقت کے) بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ٹڈیاں اللہ تعالیٰ کا ( پرندوں میں) سب سے بڑا لشکر ہیں، نہ تو میں اس کو کھاتا ہوں ( کیونکہ طبعا مجھے کراہت محسوس ہوتی ہے) اور نہ ( دوسروں پر) شرعا اس کو حرام قرار دیتا ہوں ( کیوں کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلال کیا گیا ہے جیسا کہ پہلے یہ حدیث گزری ہے کہ احلت لنا میتتان ابوداؤد ٠! اور محی السنۃ نے کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ تشریح ٹڈیاں اللہ تعالیٰ کا لشکر اس اعتبار سے ہیں کہ جب کسی گروہ اور کسی قوم پر غضب آتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف ٹڈیوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیجتا ہے تاکہ وہ اس قوم کی کھیتوں اور ان کے درختوں کو کھا جائیں۔ جس سے ان میں قحط پھیل جائے۔ چناچہ پچھلے زمانوں میں ایسا بارہا ہوا ہے کہ جب کسی جگہ کے کھیتوں اور باغات کو غضب الٰہی کی بنا پر تڈیوں نے نست و نابود کردیا اور اس کی وجہ سے وہاں قحط پھیل گیا تو ایک انسان دوسرے انسان کو کھانے لگا اس طرح وہاں کی پوری کی پوری آبادی تباہ و برباد ہوگئی۔ جہاں تک ٹڈی کا مسئلہ ہے تو اس کا کھانا اکثر احادیث کے بموجب حلال ہے، چناچہ چاروں أئمہ کا یہ مسلک ہے کہ ٹڈی کو کھانا حلال ہے، خواہ وہ خود سے مرگئی ہو یا اس کو ذبح کیا گیا ہو، یا شکار کے ذریعہ مری ہو اور شکار بھی خواہ کسی مسلمان نے کیا ہو، یا مجوسی نے اور خواہ اس میں سے کچھ کاٹا جائے یا نہیں۔

【69】

مرغ کو برا کہنے کی ممانعت

اور حضرت زید بن خالد (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مرغ کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ بلا شبہ وہ ( مرغ) نماز کے لئے آگاہ کرتا ہے۔ ( شرح السنۃ) تشریح نماز سے تہجد کی نماز مراد ہے ! حدیث شریف میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ تہجد کی نماز کے لئے اس وقت اٹھتے تھے جب کہ مرغ بانگ دیا کرتا تھا اور یہ بھی احتمال ہے کہ فجر کی نماز مراد ہو، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنی بانگ کے ذریعہ آگاہ کرتا ہے کہ فجر کی نماز کا وقت قریب آگیا ہے اور پھر دوبارہ اس کی بانگ تاکید و تنبیہ کے لئے ہوتی ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب حیوان میں بھی پائی جانے والی اچھی خصلتیں اس کو برا کہنے سے روکتی ہیں، تو کسی مؤمن کو برا کہنے والے کا کیا حشر ہوگا ؟

【70】

مرغ کو برا کہنے کی ممانعت

اور حضرت زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مرغ کو برا نہ کہو، کیوں کہ وہ نماز کے لئے جگاتا ہے۔ ( ابوداؤد )

【71】

گھر میں سانپ دکھائی دے تو اس سے کیا کیا جائے

اور حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ حضرت ابولیلی نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب گھر میں سانپ نکلے تو اس کے سامنے کہا جائے کہ۔ ہم تجھ سے حضرت نوح ( علیہ السلام) کے عہد اور حضرت سلیمان بن داؤد ( علیہما السلام) کے عہد کا واسطہ دے کر یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں ایذاء نہ پہنچا۔ اگر اس کے بعد وہ پھر نظر آئے تو اس کو مار ڈالو۔ ( ترمذی، ابوداؤد) تشریح حضرت نوح (علیہ السلام) نے سانپ سے عہد اس وقت لیا تھا جب کہ انہوں نے اپنی کشتی میں حیوانات کو داخل کیا تھا۔

【72】

انتقام کے خوف سے سانپ کو نہ مارنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت عکرمہ (رض) عنہ، حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا کہ حضرت ابن عباس (رض) نے بطریق مرفوع یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ سانپوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو شخص بدلے ( انتقام) کے خوف سے ان ( سانپوں) کو مارنا چھوڑ دے تو وہ ایک موذی کو نہ مارنے اور قضا و قدر الہٰی پر بھروسہ نہ کرنے کے سبب) ہم میں سے نہیں ہے۔ یعنی ہمارے راستے پر گامزن نہیں ہے۔ ( شرح السنۃ) تشریح بدلے کے خوف کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس ڈر کی وجہ سے سانپ کو نہ مارے کہ کہیں اس کا جوڑا مجھ سے انتقام نہ لے، چنانچھ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص نے کسی سانپ کو مار ڈالا اور پھر اس کے جوڑے نے آ کر اس شخص کو کاٹ لیا اور بدلہ لیا، مارا جانے والا سانپ اگر نر ہوتا ہے تو اس کی مادہ انتقام لینے آتی ہے اور اگر وہ مادہ تھی تو اس کا نر بدلہ لینے آتا ہے، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کے ہاں یہ خوف ایک عقیدے کی حد تک تھا وہ کہا کرتے تھے کہ سانپ کو ہرگز نہیں مارنا چاہئے، اگر اس کو مارا جائے گا تو اس کا جوڑا آ کر انتقام لے گا۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے اس طرح کے قول و اعتقاد سے منع فرمایا۔

【73】

انتقام کے خوف سے سانپ کو نہ مارنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب سے ہم نے سانپوں سے لڑائی شروع کی ہے اس وقت سے ہم نے ان سے مصالحت نہیں کی ہے۔ لہٰذا جو شخص ان سانپوں میں سے کسی سانپ کو ( اس) خوف کی وجہ سے (مارنے) باز رہے ( کہ خود وہ سانپ یا اس کا جوڑا نقصان پہنچائے گا اور بدلہ لے گا، تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ( ابوداؤد ) تشریح ایک دوسری روایت میں منذ حار بناہم کے بجائے منذ عا دینا ہم کے الفاظ منقول ہیں۔ یعنی جب سے ہمارے اور سانپوں کے درمیان لڑائی اور دشمنی واقع ہوئی ہے بہر حال مراد یہ ہے کہ انسان اور سانپ کے درمیان دشمنی اور لڑائی ایک طبعی اور جبلی چیز ہے کہ ہر ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتا ہے، اگر انسان سانپ کو دیکھتا ہے تو اس کو ضرور مار ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر سانپ موقع پاتا ہے تو اس کو کاٹے اور ڈسے بغیر نہیں رہتا، بلکہ بعض علماء نے تو یہ کہا ہے کہ اس لڑائی اور دشمنی سے مراد دراصل وہ عداوت ہے جو اولاد آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے بھی پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) اور سانپ کے درمیان قائم ہوئی تھی، جیسا کہ ایک روایت میں بیان کیا جاتا ہے کہ جب ابلیس لعین نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو بہکانے کے لئے جنت میں داخل ہونا چاہا، تو جنت کے داروغہ نے اس کو روک دیا چناچہ یہ سانپ ہی تھا جو ابلیس کا کام آیا اس نے ابلیس کو اپنے منہ کے اندر لے کر جنت میں پہنچا دیا اور پھر ابلیس لعین نے حضرت آدم (علیہ السلام) و حوا کے لئے اپنے مکر و فریب کا جال پھیلا کر ان کو وسوسہ میں ڈال دیا اور ان دونوں نے جنت کے اس درخت سے کھالیا، جس کے پاس جانے سے بھی ان کو منع کردیا تھا اور آخر کار ان دونوں کو جنت سے نکال دیا گیا اور حق تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) و حوا علیھا اور ابلیس و سانپ کو خطاب کر کے فرمایا آیت (اھبطوا بعضکم لبعض عدو ) ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ پہلے سانپ کی شکل و صورت بہت اچھی اور خوشنما تھی مگر اس کے اس سخت جرم کے عذاب میں کہ وہ ابلیس کا آلہ کار بنا اس کی صورت مسخ کردی گئی، لہٰذا سانپ اس کے مستحق ہے کہ اس کے تئیں یہ عداوت و نفرت ہمیشہ باقی رکھی جائے۔ واضح رہے کہ ما سلمانھم منذ حاربنا ہم میں سانپوں کے لئے ذوی العقول کی ضمیر اس لئے استعمال ہوئی ہے کہ ان کی طرف صلح کی نسبت کی گئی ہے جو ذوی العقول کے افعال میں سے ہے۔ جیسے کہ اس آیت کریمہ ( وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُهُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ ) 12 ۔ یوسف 4) میں سورج اور چاند کے لئے ذوی العقول کی ضمیر لائی گئی ہے ورنہ قاعدے کے اعتبار سے ان کے لئے غیر ذوی العقول کی ضمیر استعمال کرتے ہوئے یہ کہنا چاہئے تھا ما سالمنا ہن منذ حاربناہن۔

【74】

انتقام کے خوف سے سانپ کو نہ مارنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمام سانپوں کو قتل کردو اگر کوئی شخص ان کے انتقام سے خوف زدہ ہوا تو وہ مجھ سے نہیں ہے۔ ( ابوداؤد، نسائی ) تشریح اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے تو یہ واضح ہوتا ہے ہر قسم کے سانپوں کو مارنا چاہئے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس عمومی حکم سے عوامر یعنی گھروں میں رہنے والے سانپوں کا استثناء کیا جانا چاہئے یا پھر یہ کہا جائے کہ قتل سے مراد یہ ہے کہ أگاہ کرنے کے بعد مارو، جیسا کہ پہلے حضرت ابوسائب کی حدیث میں بیان ہوا ہے۔

【75】

انتقام کے خوف سے سانپ کو نہ مارنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت عباس (رض) سے روایت ہے انہوں نے ( ایک دن) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم زمزم کے کنوئیں کی صفائی کرنا چاہتے ہیں لیکن اس میں سانپ یعنی چھوٹے سانپ ہیں ؟ چناچہ رسول کریم ﷺ نے ان سانپوں کو مار ڈالنے کا حکم دے دیا۔ ( ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہر قسم کے چھوٹے سانپوں کو مار ڈالنے کا حکم دے دیا تھا، لیکن آگے جو حدیث آرہی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے ان میں سے ایک قسم کے سانپوں کو مارنے سے منع فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس موقع پر چاہ زمزم کو صاف کرنا ان سب سانپوں کو مار ڈالنے کے بغیر ممکن نہیں تھا، جب کہ دوسری صورتوں میں ان میں سے بعض قسم کے سانپوں کا استثناء ممکن ہے۔

【76】

سفید چھوٹے سانپ کو مارنے کی ممانعت

اور حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمام سانپوں کو مارو علاوہ جان یعنی سفید چھوٹے سانپ کے جو چاندی کی چھڑی کی طرح ہوتا ہے۔ ( ابوداؤد) تشریح اس سانپ کو مارنے سے شاید اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ وہ ضرر نہیں پہنچاتا۔

【77】

کھانے پینے کی چیز میں مکھی گر جائے تو اس کو غوطہ دے کر نکال دو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب تم میں سے کسی شخص کے برتن میں ( کہ جس میں کھانے پینے کی کوئی چیز ہو) مکھی گرجائے تو اس کو غوطہ دو کیوں کہ اس کے ایک بازو میں بیماری ہے اور دوسرے بازو میں شفاء اور مکھی ( کسی چیز میں) پہلے اپنے اسی بازو کو ڈالتی ہے جس میں بیماری ہے لہٰذا پوری مکھی کو غوطہ دینا چاہئے ( تاکہ شفا والے بازو سے ان جراثیم کا دفعیہ ہوجائے جو بیمار والے بازو کی وجہ سے کھانے پینے کی چیز میں پہنچ گئے ہیں۔ ( ابوداؤد )

【78】

کھانے پینے کی چیز میں مکھی گر جائے تو اس کو غوطہ دے کر نکال دو

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب کھانے میں مکھی گرجائے تو اس کو غوطہ دے لو۔ کیونکہ اس کے ایک بازو میں زہر ہے اور دوسرے بازو میں شفا ہے اور مکھی اپنے زہر والے بازو کو پہلے ڈالتی ہے اور پھر شفا والے بازو کو۔ ( شرح السنۃ )

【79】

وہ چار جانور جن کا مارنا ممنوع ہے

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ( ان) چار جانوروں کو مارنے سے منع فرمایا ہے چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور کلچڑی۔ ( ابوداؤد، دارمی ) تشریح چیونٹی کو مارنے سے منع کرنے کی مراد یہ ہے کہ اس کو اس وقت تک نہ مارا جائے جب تک کہ وہ نا کاٹے، اگر وہ کاٹے تو پھڑ اس کو مارنا جائز ہوگا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جس چیونٹی کو مارنے سے منع فرمایا گیا ہے اس سے وہ بڑی چیونٹی مراد ہے جس کے پیر لمبے لمبے ہوتے ہیں اور اس کو مارنا ممنوع اس لئے ہے کہ اس کے کاٹنے سے ضرر نہیں پہنچتا۔ شہد کی مکھی کو مارنا اس لئے ممنوع ہے کہ اس سے انسان کو بہت زیادہ فوائد پہنچتے ہیں بایں طور کہ شہد اور موم اسی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ ہدہد ایک پرندہ ہے جس کو کھٹ بڑھئی کہتے ہیں، صرد بھی ایک پرندہ ہے جو بڑے سر، بڑی چونچ اور بڑے بڑے پر والا ہوتا ہے، وہ آدھا سیاہ ہوتا ہے اور آدھا سفید اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ شکاری پرندہ ہوتا ہے جو چڑیوں کا شکار کرتا ہے، ان دونوں پرندوں کو مارنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ ان کا گوشت کھانا حرام ہے اور جو جانور و پرندہ کھایا نہ جاتا ہو اس کو مارنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ ہدہد میں بدبو ہوتی ہے اس لئے وہ جلالہ کے حکم میں ہوگا۔ اہل عرب ہدہد اور صرد کے آوازوں کو منحوس اور بدفالی سمجھتے تھے، اس لئے بھی آنحضرت ﷺ نے ان کو مارنے سے منع فرمایا کہ لوگوں کے دلوں سے ان کی نحوست کا اعتماد نکل جائے۔

【80】

حلت وحرمت کے احکام میں خواہش نفس کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ ( اپنی خواہش نفس کے مطابق) کچھ چیزوں کو کھاتے تھے اور کچھ چیزوں کو جھوڑ دیتے تھے، یعنی جن چیزوں سے ان کو نفرت ہوتی ان کو نہیں کھاتے تھے) چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو مبعوث فرمایا اور ( ان نبی ﷺ پر اور ان کے ذریعہ ان کی امت پر) اپنی کتاب نازل کی اور اپنی حلال چیزوں کو حلال قرار دیا اور اپنی حرام چیزوں کو حرام قرار دیا ( یعنی یہ بیان کردیا کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام ہے نیز اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حلال کیا ہے وہی حلال ہے اس کے علاوہ حلال نہیں ہے) اور جس چیز کو حرام کہا ہے وہی حرام ہے اور جس چیز سے سکوت اختیار کیا ( یعنی جس چیز کے بارے میں یہ نہیں بتایا کہ یہ حلال ہے یا حرام) تو وہ چیز معاف ہے ( کہ اس پر مواخذہ نہیں) اور پھر حضرت ابن عباس (رض) نے یہ آیت پڑھی اے محمد ﷺ کہہ دیجئے کہ جو احکام بذریعہ وحی میرے پاس آتے ہیں ان میں تو میں کوئی حرام غذا پاتا نہیں کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا خون الخ۔۔ ( ابوداؤد) تشریح لفظ حلالہ میں مصدر استعمال کیا گیا ہے جو مفعول کے قائم مقام ہے، معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی بعثت اور اپنی کتاب ہدایت ( قرآن مجید) کے نزول کے ذریعہ اس چیز کو ظاہر واضح کردیا جو حلال کی گئی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے جو آیت تلاوت کی وہ پوری یوں ہے ا یت (قُلْ لَّا اَجِدُ فِيْ مَا اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُه اِلَّا اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّه رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِه ) ۔ 6 ۔ الانعام 145) ( اے محمد ﷺ کہہ دیجئے کہ جو احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ہیں ان میں تو کوئی حرام غذا پاتا نہیں کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ( مرا ہوا جانور) ہو یا بہتا ہوا خون ہو، یا سور کا گوشت ہو کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو جانور شرک کا ذریعہ ہو کہ غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو۔ یہ آیت کریمہ حضرت ابن عباس (رض) نے ان لوگوں کی تردید میں پڑھی جو محض اپنی خواہش نفس کی بنا پر کسی چیز کی حلت و حرمت کے فیصلہ کرتے تھے، کہ جس چیز کی طرف ان کی طبیعت راغب ہوئی اس کو حلال جان کر کھاتے اور جس چیز سے ان کو کراہت و نفرت ہوتی، اس کو حرام سمجھ کر ترک کردیتے، لہٰذا حضرت ابن عباس (رض) نے ان لوگوں پر اس آیت کے ذریعہ گویا یہ واضح کیا کہ حلال وہی چیز ہے، جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (علیہ السلام) نے حلال قرار دیا ہو اور حرام وہی چیز ہے، جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا ہو نہ کہ حلت و حرمت کا تعلق خواہش نفس سے ہے۔ از قسم جانور و گوشت جن چیزوں کے حرام ہونے کا حکم کتاب اللہ میں بیان کیا گیا ہے، وہ بس یہی ہیں جو اس آیت میں ذکر ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ اور دوسری چیزوں کی حرمت سنت نبوی ﷺ سے ثابت ہوئی ہے۔ اور وہ چونکہ زیادہ ہیں اس لئے حضرت ابن عباس (رض) نے ان کے بارے میں منقول احادیث بیان نہیں کیں، محض اس آیت کی تلاوت پر اکتفا کیا۔

【81】

گدھے کا گوشت کھانے کی ممانعت

اور حضرت زاہر اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) میں اس ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہا تھا، جس میں گدھے کا گوشت ( پکنے کے لئے رکھا ہوا) تھا کہ اچانک رسول کریم ﷺ کی طرف سے اعلان کرنے والے نے یہ اعلان کیا کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرماتے ہیں۔ ( بخاری )

【82】

جنات کی قسمیں

اور حضرت ابوثعلبہ خشنی (رض) بطریق مرفوع نقل کرتے ہیں کہ ( آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنات کی تین قسمیں ہیں، ایک تو وہ جن کے پر ہوتے ہیں اور وہ ہوا میں اڑتے ہیں، دوسری قسم وہ ہیں جو سانپ اور کتے ( کی شکل میں نظر آتے ہیں اور تیسری قسم وہ ہیں جو منزل پر اترتے اور کوچ کرتے ہیں۔ ( شرح السنۃ )

【83】

عقیقہ کا بیان

عقیقہ عق سے مشتق ہے، لغت میں عق کے معنی ہیں چیرنا، پھاڑنا اصلاح میں عقیقہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو نوزائیدہ کے سر پر ہوتے ہیں۔ ان بالوں کو عقیقہ اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ وہ بال ساتویں دن مونڈے جاتے ہیں اور اس مناسبت سے عقیقہ اس بکری کو بھی کہتے ہیں جو بچے کے سر مونڈنے کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ عقیقہ کی شرعی حیثیت عقیقہ کی شرعی حیثیت کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں، ائمہ ثلاثہ یعنی حضرت امام احمد، حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کے نزدیک عقیقہ سنت ہے اور اکثر احادیث سے بھی اس کا سنت ہونا معلوم ہوتا ہے حضرت امام احمد سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ عقیقہ واجب ہے۔ جہاں تک حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک عقیقہ سنت نہیں ہے بلکہ مستحب ہے جو سنت سے ثابت ہے۔ مشہور حنفی مجتہد حضرت امام محمد نے اپنی کتاب مؤطا میں یہ لکھا ہے کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ عقیقہ ( اصل میں) زمانہ جاہلیت کی ایک رسم تھی جو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی رائج رہی مگر پھر قربانی نے ہر اس ذبح ( کے وجوب) کو منسوخ قرار دیا جو قربانی سے پہلے رائج تھا، رمضان کے روزوں نے ہر اس روزے ( کے وجوب) کو منسوخ قرار دیا جو اس سے پہلے رائج تھا، غسل جنابت نے ہر اس غسل ( کے وجوب کو) منسوخ قرار دے دیا جو اس سے پہلے رائج تھا، زکوٰۃ نے ہر اس صدقہ ( کے وجوب) کو منسوخ قرار دے دیا جو اس سے پہلے رائج تھا۔ عقیقہ کے احکام جو احکام و شرائط قربانی کے سلسلے میں منقول و معتبر ہیں وہی احکام و شرائط عقیقہ کے بارے میں بھی مقبول و معتبر ہیں۔

【84】

عقیقہ کرنے کا حکم

حضرت سلمان بن عامر ضبی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ کرنا ( مسنون یا مستحب) ہے لہٰذا اس کی طرف سے جانور ذبح کرو اور اس سے ایذاء ( یعنی اس کے سر کے بال اور میل کچیل) دور کرو ) ۔ ( بخاری )

【85】

تحنیک ایک مسنون عمل ہے

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ کے پاس ( نو زائیدہ) بچے لائے جاتے چناچہ آپ ﷺ ان کے لئے برکت کی دعا کرتے یعنی ان کے سامنے فرماتے، بارک اللہ علیک اللہ تعالیٰ تجھ پر برکت و رحمت نازل فرمائے) اور ان کے تحنیک کرتے۔ ( مسلم ) تشریح تحنیک یہ ہے کہ کھجور یا کسی اور میٹھی چیز کو چبا کر بچے کے تالو میں لگایا جائے چناچہ یہ تحنیک ایک مسنون عمل ہے اور بہتر یہ ہے کہ تحنیک کرنے والا کوئی نیک اور صالح آدمی ہو۔

【86】

تحنیک ایک مسنون عمل ہے

حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت ہے کہ مکہ میں عبداللہ ابن زبیر (رض) ان کے پیٹ میں آئے، حضرت اسماء (رض) کہتی ہیں کہ قباء کے مقام پر میرے ولادت ہوئی تو میں ان ( عبداللہ) کو لے کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور ان کو آنحضرت ﷺ کی گود میں دے دیا آنحضرت ﷺ نے کھجور منگائی اور اس کو چبایا، پھر اپنا آب دہن ان کے منہ میں ڈالا یعنی آپ ﷺ نے، اس کھجور کو جو آپ ﷺ کے لعاب مبارک کے ساتھ مخلوط ہوگئی تھی، عبداللہ کے منہ میں رکھا اور پھر وہ کھجور ان کے تالو میں لگائی، اس کے بعد آپ ﷺ نے ان کے لئے دعا کی اور برکت چاہی ( یعنی یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس پر برکت نازل فرمائے) چناچہ عبداللہ بن زبیر (رض) پہلے شخص تھے، جو اسلام ( کے عہد) میں پیدا ہوئے۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح قبا مدینہ شہر سے جنوب مغربی سمت تقریبا ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ایک آبادی ہے۔ مکہ سے مدینہ کے لئے سفر ہجرت میں آنحضرت ﷺ کی یہ آخری منزل تھی، جہاں آپ ﷺ مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے اترے اور تین دن یا چار دن قیام فرمایا جس جگہ آپ ﷺ نے قیام فرمایا تھا اس جگہ آپ ﷺ نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی، جس کو مسجد قبا کہتے ہیں، قبا اگرچہ مدینہ منورہ سے باہر ہے، لیکن اس کا تعلق ایک طرح سے ایسا ہی ہے جیسا کہ محلہ کا ہوتا ہے۔ اس جگہ بڑی شادابی ہے۔ اور مختلف پھلوں اور میووں کے باغات ہیں، اسی قبا میں بئراریس نامی کنواں ہے، جہاں آپ ﷺ نے چند صحابہ کو جنت کی بشارت دی تھی اور جس میں حضرت عثمان (رض) کے عہد میں آنحضرت ﷺ کی وہ انگوٹھی گرگئی تھی، جس سے آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے بعد خلفائے راشدین مہر لگایا کرتے تھے، اس کنویں کا پانی بہت کھارا تھا کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنا لعب دہن شامل فرمایا جب سے اس کا پانی میٹھا ہے، مگر اب یہ کنواں خشک ہوگیا ہے۔ عبداللہ بن زبیر (رض) پہلے شخص تھے الخ کا مطلب یہ ہے کہ ہجرت کے بعد مہاجرین میں جو سب سے پہلا بچہ پیدا ہوا وہ عبداللہ بن زبیر (رض) تھے، مہاجرین کی قید اس لئے لگائی گئی کہ ہجرت کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کی پیدائش سے بھی پہلے مدینہ میں مسلمانوں کے یہاں سب سے پہلا پیدا ہونے والا بچہ نعمان بن بشیر انصاری (رض) تھے۔

【87】

عقیقہ کے جانوروں کی تعداد

حضرت ام کرز (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں قرار دو ، ام کرز (رض) کہتی ہیں کہ۔ اور میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ ( عقیقہ میں) لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے اور اس میں تمہارے لئے کوئی نقصان نہیں ہے کہ وہ ( بکری) نر ہو یا مادہ، یعنی اس بات کا لحاظ ضروری نہیں کہ لڑکے کے عقیقہ میں بکرے ذبح کئے جائیں اور لڑکی کے عقیقہ میں بکری ذبح کی جائے ( ابوداؤد، ترمذی) نسائی کی روایت میں یقول عن الغلام سے آخر تک ہے۔ نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ تشریح مکنات میم کے زبر اور کاف کے زیر اور زبر کے ساتھ ہے اور مشکوٰۃ کے ایک نسخہ میں کاف کے پیش کے ساتھ بھی منقول ہے۔ اس کے معنی مکان کے ہیں۔ اس ارشاد گرامی پرندوں کو ان کے کھونسلوں میں قرار دو کا مطلب یہ ہے کہ ان ( پرندوں) کو ان کے گھونسلوں میں رہنے دو اڑاؤ نہیں۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مکنات اصل میں جمع ہے مکنۃ کی جس کے معنی سو سمار ( گوہ) کے انڈے کے ہیں، لیکن یہاں یہ لفظ مطلق انڈوں کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، اس صورت میں اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر پرندے انڈوں پر بیٹھے ہوں تو ان کے گھونسلوں کو ہلا کر ان کو ستاؤ مت۔ یا پھر اس ارشاد گرامی کا تعلق تطیر اور فال بد لینے کی ممانعت سے ہے، جیسا کہ عرب میں لوگوں کا قاعدہ تھا کہ جب کوئی شخص کسی کام کا قصد کرتا، یا کہیں کا سفر کرنے کا ارادہ کرتا، تو پرندے کے گھونسلے پر آتا اور اس کو چھیڑ کر اڑاتا، اگر وہ پرندہ داہنی طرف اڑتا تو مبارک جان کر اور فال نیک سمجھ کر اس کام کو کرتا، یا سفر پر روانہ ہوجاتا اور اگر وہ پرندہ بائیں طرف اڑتا تو اس کو منحوس سمجھ کر اس کام یا سفر سے باز رہتا، اس کو تطیر کہتے ہیں۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ پرندہ جہاں ہو اس کو وہیں رہنے دو کہ اس کو مت اڑاؤ اور نہ اس سے بد فالی لو۔

【88】

عقیقہ کی اہمیت

اور حضرت حسن بصری (رض) حضرت سمرہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر ( بچہ) اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے ( اس کی پیدائش کے) ساتویں دن اس کے ( عقیقہ کے) لئے ( جانور) ذبح کیا جائے ( ساتویں ہی دن) اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر مونڈا جائے۔ اس روایت کو احمد، ترمذی، نسائی نے نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد نسائی کی روایت میں مرتھن کے بجائے رھینۃ ہے اور احمد و ابوداؤد کی ایک روایت میں یسمی کے بجائے و یدمی ہے اور ابوداؤد نے کہا ہے کہ لفظ یسمی ہی زیادہ صحیح ہے۔ تشریح ظاہر ہے کہ بچہ چونکہ مکلف نہیں ہے کہ اگر اس کا عقیقہ نہ کیا جائے تو اس کے ماخوذ و معتوب ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوگا، اس صورت میں بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر عقیقہ کے عوض بچے کے گروی ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ چناچہ حضرت امام احمد نے تو اس ارشاد گرامی ﷺ کا مطلب یہ بیان کیا ہے، کہ جس بچے کا عقیقہ نہیں ہوتا اور وہ کم سنی میں مرجاتا ہے تو اس کو اپنے والدین کی شفاعت کرنے سے روک دیا جاتا ہے کہ جب تک والدین اس کا عقیقہ نہ کردیں وہ اس کے حق میں شفاعت کرنے کا اہل نہیں ہوگا۔ بعض حضرات نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جب تک والدین بچہ کا عقیقہ نہیں کرتے اس کو بھلائیوں سلامتی آفات اور بہتر نشو نما سے باز رکھا جاتا ہے اور پھر اس کے جو برے نتائج پیدا ہوتے ہیں وہ حقیقت میں والدین کے مواخذہ کا سبب بنتے ہیں کہ ترک عقیقہ انہوں نے ہی کیا ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ گروی ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ بچہ اپنے بالوں وغیرہ کی گندگی و اذیت میں مبتلا رہتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے۔ فامیطوا عنہ الاذی ( بچے کو اذیت سے ہٹاؤ) یعنی اس کے بال میل کچیل اور خون وغیرہ صاف کرو) لہٰذا جب بچہ کا عقیقہ ہوتا ہے تو وہ گویا سر کے بال وغیرہ صاف ہوجانے سے اس اذیت سے نجات پا جاتا ہے۔ لفظ یدمی۔ یا کے پیش دال کے زبر اور میم مفتوحہ کی تشدید کے ساتھ تدمیہ سے مشتق ہے جس کے معنی، خون آلود کرنے۔ کے ہیں۔ لہٰذا ایک روایت میں ویسمی ( اور اس کا نام رکھا جائے) کی جگہ ویدمی ہے۔ لیکن جیسا کہ ابوداؤد نے کہا ہے کہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ اس جگہ لفظ ویسمی ہی ہونا چاہئے۔ تاہم قتادہ نے ویدمی کی تشریح یہ کی ہے کہ جب عقیقہ کے جانور کو ذبح کیا جائے تو اس کے تھوڑے سے بال لے کر اس کی گردن کے سامنے رکھ دیا جائے تاکہ وہ ( بال) اس کے خون سے آلودہ ہوجائیں جو ذبح کے وقت اس جانور کی گردن کی رگوں سے نکلے اور پھر وہ خون آلودہ بال اس بچے کی چندیا پر اس طرح رکھ دیا جائے کہ خون اس کی چندیا پر ایک لکیر کی صورت میں بہے اور اس کے بعد بچہ کا سر دھو کر منڈوا دیا جائے۔ سفر السعادۃ کے مصنف نے لکھا ہے کہ یہ ( تدمیہ) نہ کیا جائے کیونکہ روایت میں لفظ یدمی دراصل کسی روای کی طرف سے تحریف ہے جس کا آنحضرت ﷺ کے ارشاد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ آنحضرت ﷺ سے تدمیہ ثابت ہے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت امام حسن (رض) اور حضرت امام حسین (رض) کا عقیقہ کیا، لیکن یہ عملی ( تدمیہ) نہیں کیا تھا، نیز یہ بھی لکھا ہے کہ یہ عمل دراصل زمانہ جاہلیت کی ایک رسم تھی جس کو منسوخ قرار دیا گیا ٫ جیسا کہ اس باب کی تیسری فصل میں آنے والی حدیث سے واضح ہوگا۔ علماء نے لکھا ہے کہ ابوداؤد کی روایت میں لفظ یدمی کا منقول ہونا حدیث کے ایک راوی ہمام کا وہم ہے اور قتادہ نے اس لفظ کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے وہ منسوخ ہے، خطابی نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے بچے کے بدن سے اذیت اور سوکھی پلیدی کو دور کرنے کا حکم فرمایا تو اس کے سر کو تر خون سے آلودہ کر کے نجس کرنے کا حکم کیسے دیا جاسکتا ہے، تاہم بعض علماء نے بچے کے سر کو خون سے آلودہ کرنے کے بجائے خلوق اور زعفران جیسی خوشبوؤں سے لتھیڑنا نقل کیا ہے۔

【89】

لڑکے کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح کرنے کا مسئلہ

حضرت محمد بن علی بن حسین (رض) ( یعنی حضرت امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین شہید (رض) حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا رسول کریم ﷺ نے ( اپنے نواسے اور میرے بچے) حسن کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح کی تھی اور فرمایا کہ فاطمہ (رض) ! اس ( حسن (رض) کا سر مونڈو اور اس کے بال کے ہم وزن چاندی صدقہ کردو۔ چناچہ ہم نے ان بالوں کا وزن کیا تو وہ ایک درہم یا ایک درہم سے کم وزن کے تھے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اور اس کی اسناد متصل یعنی مسلسل نہیں ہے۔ کیونکہ محمد بن علی بن حسین نے حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا زمانہ نہیں پایا ہے۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کے عقیقہ میں ایک بکری یا بکرا بھی ذبح کیا جاسکتا ہے، نیز ابوداؤد نے بھی حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) کی طرف سے عقیقہ میں ایک مینڈھا ذبح کیا، یہ حدیث آگے آرہی ہے۔ لیکن نسائی نے حضرت ابن عباس (رض) سے دو دو مینڈھے روایت کئے ہیں اور حضرت بریدہ (رض) نے مطلق نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) کی طرف سے عقیقہ کیا۔ سفر السعادۃ کے مصنف نے لکھا ہے کہ اگرچہ ایک بکری کی روایت بھی صحیح ہے۔ لیکن زیادہ مضبوط اور زیادہ صحیح وہی روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ لڑکے کے عقیقہ میں دو بکریاں ذبح کی جائیں، کیونکہ اس روایت کو صحابہ کی ایک پوری جماعت نے نقل کیا ہے نیز لڑکے کے عقیقہ میں دو بکری کو ذبح کرنے کو ترجیح دینے کی ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ایک بکری ذبح کرنا آپ ﷺ کے عمل سے ثابت ہے۔ اور دو بکریاں ذبح کرنا آپ ﷺ کے ارشاد سے ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ جو چیز قول سے ثابت ہو وہ فعل سے کہیں زیادہ مضبوط اور کہیں زیادہ مکمل سمجھی جاتی ہے، کیوں کہ فعل کے بارے میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ کسی مخصوص حالت سے متعلق ہو، جب کہ قول میں عمومیت واکملیت ہوتی ہے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ فعل تو محض جواز پر دلالت کرتا ہے اور قول سے جواز کے ساتھ استحباب بھی ثابت ہوتا ہے، ترمذی نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں جن صحابہ کی روایتیں منقول ہیں، وہ یہ ہیں، حضرت علی (رض) عنہ، حضرت عائشہ (رض) ، حضرت ام کرز (رض) ، حضرت بریدہ (رض) عنہ، حضرت سمرہ (رض) عنہ، حضرت ابوہریرہ (رض) عنہ، حضرت عبداللہ بن عمر (رض) عنہ، حضرت انس (رض) عنہ، حضرت سلمان بن عامر (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) ۔ اور ملا علی قاری نے یہ لکھا ہے، احتمال ہے کہ لڑکے کے حق میں استحباب کا کم سے کم درجہ ایک بکری ہو اور کمال استحباب دو بکری ہو جس حدیث میں ایک بکری یا ایک منڈھے کا ذکر ہے اس کے بارے میں احتمال ہے کہ یہ حدیث کم سے کم درجہ پا اکتفا کرنے کے جواز کو ظاہر کرنے کے لئے ہو یا یہ کہ یہ حدیث دراصل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ لازم اور ضروری نہیں ہے کہ لڑکے کے عقیقہ میں جو دو بکری یا جو دو منڈھے ذبح کئے جاتے ہیں، وہ دونوں ساتویں ہی دن ذبح ہوں، لہٰذا ممکن ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حسن و حسین (رض) کی طرف سے ایک ایک بکری یا ایک ایک مینڈھا تو ان کی پیدائش کے دن ہی ذبح کردیا ہو اور دوسری بکری یا دوسرے منڈھے کو ساتویں دن ذبح کیا ہو اس تاویل و توضیح کی صورت میں تمام روایتوں کے درمیان مطابقت و یکسانیت پیدا ہوجائے گی اور کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا، یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک ہی مینڈھا یا ایک بکری کے ذریعہ عقیقہ کیا اور اس کے ساتھ حضرت علی (رض) یا حضرت فاطمہ (رض) کو حکم فرمایا کہ دوسرا مینڈھا یا دوسری بکری وہ ذبح کردیں، لہٰذا جس روایت میں ایک بکری یا ایک منڈھے کا ذکر ہے اس میں تو گویا آنحضرت ﷺ کی طرف یہ نسبت کہ آپ ﷺ نے ایک بکری یا ایک منڈھے کے ذریعہ عقیقہ کیا حقیقت کے اعتبار سے ہے۔ اور جس روایت میں آپ ﷺ کی طرف دو بکری یا دو دنبے کو ذبح کرنے کی نسبت کی گئی ہے وہ مجاز ہے۔ اس کا سر مونڈو ۔ یہ حکم یا تو حقیقۃ تھا کہ فاطمہ (رض) تم اپنے ہاتھ سے اس کا سر مونڈو، یا یہ مطلب تھا کہ کسی دوسرے شخص کو حکم دو کہ اس کا سر مونڈ دے۔ یہ امر ( یعنی آنحضرت ﷺ کی طرف سے سر مونڈنے کا حکم دیا جاتا، استحباب کے طور پر ہے۔ اسی طرح بالوں کو وزن کرنے کا حکم بھی بطریق استحباب کے ہے۔

【90】

لڑکے کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح کرنے کا مسئلہ

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین (رض) کے عقیقہ میں ایک ایک مینڈھا ذبح کیا۔ ( ابوداؤد، نسائی )

【91】

بچے کو عقوق سے بچانے کے لئے اس کا عقیقہ کرو

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا رسول کریم ﷺ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عقوق کو پسند نہیں کرتا۔ گویا آنحضرت ﷺ نے اس فعل کو لفظ عقیقہ سے موسوم کئے جانے کو ناپسند فرمایا۔ اور پھر فرمایا کہ جس شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہو اس کو چاہئے، کہ وہ اس لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ذبح کرے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔ (ابوداؤد و نسائی) تشریح اللہ تعالیٰ عقوق کو پسند نہیں کرتا کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا لڑکا بڑی عمر میں پہنچ کر والدین کے حق میں عاق نہ ہو یعنی والدین کی نافرمانی کرنے والا نہ ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کی چوٹی عمر میں عقیقہ (کا جانور) ذبح کرے، کیونکہ والدین کا عقوق ( یعنی والدین کا اپنے بچے کا عقیقہ نہ کر کے گویا ایک طرح کی نافرمانی کرنا) دراصل لڑکے کے عقوق ( یعنی لڑکے کے نافرمانبردار ہوجانے) کا باعث ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو کسی حالت میں پسند نہیں کرتا۔ اس اعتبار سے حدیث کے الفاظ گویا من ولد لہ ( جس شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہو الخ) کی تمہید کے طور پر ہیں۔ گویا آنحضرت ﷺ نے اس فعل کو لفظ عقیقہ سے موسوم کئے جانے کو ناپسند فرمایا۔ روایت کے یہ الفاظ کسی راوی کے اپنے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے عقیقہ کو عقیقہ کے لفظ سے موسوم کئے جانے کو پسند نہیں فرمایا۔ تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ یہ عقیقہ عقوق سے مشتق ہے، جس کے معنی والدین سے سرکشی اور ان کی نافرمانی کرنا ہیں) جب کہ آپ ﷺ نے یہ پسند فرمایا کہ اس کو اس سے بہتر نام جیسے ذبیحہ یا نسی کہ سے موسوم کیا جائے ( نہایہ) لیکن تور پشی نے کہا ہے۔ کہ آنحضرت ﷺ کی طرف اس بات کی نسبت کہ ( گویا آپ ﷺ نے عقیقہ کہے جانے کو ناپسند فرمایا) غیر موزوں ہے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اپنے کتنے ہی ارشادات میں عقیقہ ہی کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اگر آپ ﷺ کے نزدیک یہ لفظ ناپسندیدہ ہوتا، تو آپ ﷺ اس کا ذکر کیوں فرماتے، لیکن اس سلسلے میں اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ کہ یہ احتمال ہے کہ سوال کرنے والے نے یہ گمان کیا ہو کہ مادہ اشتقاق میں عقیقہ اور عقوق کا مشترک ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ حکم کے اعتبار سے عقیقہ کی زیادہ اہمیت نہ ہو۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے اپنے جواب کے ذریعہ یہ واضح کردیا کہ امر واقعی اس کے خلاف ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے نہایہ کی مذکورہ بالا وضاحت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ جن احادیث میں آنحضرت ﷺ کا عقیقہ کا لفظ ذکر کرنا منقول ہے وہ اس کراہت سے پہلے کی ہوں گی۔

【92】

بچے کے کان میں اذان دینا مسنون ہے

اور حضرت ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے حسن بن علی (رض) کے کان میں اذان دی، جب کہ حضرت فاطمہ (رض) کے ہاں ان کی ولادت ہوئی اور وہ اذان نماز کی اذان کی طرح تھی۔ ( ترمذی، ابوداؤد، ) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچہ کی پیدائش کے بعد اس کے کان میں اذان دینا سنت ہے۔ مسند ابولیلی موصلی میں حضرت حسین (رض) نے بطریق مرفوع ( یعنی آنحضرت ﷺ کا ارشاد) نقل کیا ہے کہ جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کے دائیں کان میں اذان دے اور بائیں کان میں تکبیر کہے، تو اس کو ام الصبیان سے ضرر نہیں پہنچے گا۔ نیز امام نووی کے کتاب الروضہ میں لکھا ہے کہ بچے کے کان میں یہ الفاظ کہنے بھی مستحب ہے۔ آیت (انی اعیذھا بک وذریتھا الشیطن الرجیم) ۔