139. پینے کی چیزوں کا بیان

【1】

پانی کو تین سانس میں پینے کی خاصیت

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ پانی پینے کے درمیان تین مرتبہ سانس لیتے تھے (بخاری و مسلم) اور مسلم نے ایک روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ۔۔۔۔۔ اور آپ ﷺ فرماتے کہ اس طرح (کئی سانس میں پانی پینا اچھی طرح سیراب کرتا ہے اور پیاس کو بجھاتا ہے بدن کو صحت بخشتا ہے اور خوب ہضم ہوتا ہے اور معدہ میں بڑی آسانی کے ساتھ جاتا ہے۔ تشریح تین مرتبہ سانس لیتے تھے یعنی آپ ﷺ پانی تین سانس میں پیتے تھے، حضرت انس (رض) نے یہ بات اکثر کے اعتبار سے بیان کی ہے کہ آپ ﷺ اکثر و بیشتر اسی طرح پانی پیتے تھے اور بعض روایتوں میں آنحضرت ﷺ کے بارے میں دو سانس میں بھی پینے کا ذکر آیا ہے بہرحال تین یا دو سانس میں پینے کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ﷺ ہر مرتبہ برتن کو منہ سے جدا کرلیتے تھے۔

【2】

مشک کے منہ سے پانی پینے کی ممانعت

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مشک کے دھانے سے پانی پینے سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح مشک یا اس جیسی دوسری چیزوں (جیسے ہینڈ پمپ یا گھڑے وغیرہ) کے دہانہ (منہ) سے پانی پینے کی ممانعت اس بنا پر ہے کہ اس طریقہ سے اول تو پانی ضرورت سے زائد صرف ہوتا ہے، دوسرے وہ پانی کپڑوں وغیرہ پر گر کر ان کو خراب کرتا ہے تیسرے یہ کہ اس طرح پانی پینا کہ زیادہ مقدار میں دفعتا پیٹ میں جائے معدہ کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے اور چوتھے یہ کہ پانی پینے کا جو مسنون طریقہ ہے اس کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

【3】

مشک کے منہ سے پانی پینے کی ممانعت

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مشک کا منہ موڑنے یعنی اس کا منہ موڑ کر پانی پینے سے منع فرمایا ہے۔ اور راوی نے ایک روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ مشک کا منہ موڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اس مشک کا سرا (یعنی منہ) الٹ دیا جائے اور پھر اس سے پانی پیا جائے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس ممانعت کی وجہ سے بھی وہی ہے کہ جو اوپر ذکر کی گئی، مشک کا منہ موڑ کر پانی پینے کی صورت میں ایک خدشہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس مشک میں کوئی کیڑا پتنگا ہو، یا کوئی زہریلا جانور اندر بیٹھا ہو اور وہ یکبارگی منہ کے اندر چلا جائے اور کوئی ضرر پہنچائے۔ ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مشک کے منہ سے پانی پیا ہے، یہ روایت دوسری فصل میں آئے گی اس سے مشک کے منہ سے پانی پینے کا جواز ثابت ہوتا ہے، چناچہ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ جن روایتوں سے ممانعت ثابت ہوتی ہے ان کا تعلق بڑی مشک سے ہے جن کا منہ زیادہ فراخ ہوتا ہے اور جہاں تک آنحضرت ﷺ کے عمل کا تعلق ہے تو وہ چھوٹی مشک پر محمول ہے کہ آپ ﷺ نے کسی ایسی مشک کے منہ سے پانی پیا ہوگا جو چھوٹی ہوگی اور اس کا دہانہ تنگ ہوگا، بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ ممانعت کا تعلق دوام اور عادت سے ہے یعنی مشک کے منہ سے پانی پینے کی عادت نہ ڈالنی چاہئے، کیونکہ اس کیوجہ سے مشک کے منہ سے رفتہ رفتہ بدبو پیدا ہونے لگے گی اور اگر گاہ بگاہ مشک کے منہ سے پانی پی لیا جائے تو یہ ممنوع نہیں ہوگا یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اباحت کا تعلق ضرورت و احتیاج سے ہے کہ اگر فرض کیجئے پانی پینے کی ضرورت ہو اور اس وقت کوئی ایسا برتن موجود نہ ہو جس میں پانی انڈیل کر پیا جاسکتا ہو تو پھر اس صورت میں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا کہ مشک یا گھڑے کے منہ سے پانی پی لیا جائے، ہاں بغیر ضرورت و احتیاج کے اس طرح پانی پینا ممنوع ہوگا کیونکہ اس طریقہ سے پانی پینے میں مذکورہ بالا مضرات کا خدشہ ہوسکتا ہے خاص طور پر مشک کے اندر کسی زہریلے جانور کی موجودگی کے خطرہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، چناچہ ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک شخص نے (مشک کے) دہانہ سے پانی پیا، تو اس کے اندر سے ایک سانپ نکل آیا۔ اور آخر میں ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ اس طرح پانی پینا پہلے مباح تھا مگر بعد میں اس ممانعت کے ذریعہ اس اباحت کو منسوخ قرار دے دیا گیا۔

【4】

کھڑے ہو کر پانی مت پیو

اور حضرت انس (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص کھڑے ہو کر پئے۔ (مسلم )

【5】

کھڑے ہو کر پانی مت پیو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص کھڑا ہو کر نہ پئے اگر کسی شخص نے بھول سے کھڑے ہو کر پی لیا تو اس کو چاہئے کہ وہ قے کر ڈالے۔ (مسلم) تشریح حدیث میں قے کر ڈالنے کا جو امر (حکم) بیان کیا گیا ہے وہ وجوب کے طور پر نہیں ہے بلکہ بطریق استحباب ہے، چناچہ اس حدیث کی صراحت کے مطابق اگر کسی شخص نے بھول سے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے تو اس کے لئے یہ مستحب ہے وہ قے کر ڈالے۔ قاضی نے کہا ہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینے کی یہ ممانعت اصل میں اولی و بہتر طریقہ (یعنی بیٹھ کر پانی پینے) کی تلقین اور اس کے خلاف پر تادیب و تنبیہ کے طور پر ہے نہ کہ یہ ممانعت نہی تحریمی کے طور پر ہے حاصل یہ کہ اس ارشاد سے یہ نہ سمجھا جائے کہ کھڑے ہو کر پانی پینا حرام ہے اس اعتبار سے یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہوگی جس میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک یا دو مرتبہ اس کے برخلاف عمل کیا ہے۔

【6】

آنحضرت ﷺ نے زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پیا

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں زمزم کے پانی کا ایک ڈول لے کر آیا تو آپ ﷺ نے اس کو اس حالت میں پیا کہ آپ ﷺ کھڑے ہوئے تھے۔ (بخاری ومسلم ) ۔ تشریح آپ ﷺ کا زم زم کے پانی کو کھڑے ہو کر پینا یا تو تبرک کی بنا پر تھا، یا اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں کے ازدہام کی وجہ سے آپ ﷺ کے لئے وہاں بیٹھنا ممکن نہیں تھا اور یا جہاں (زم زم کے کنویں کے پاس) آپ ﷺ کھڑے تھے وہاں آس پاس پانی گرنے کی وجہ سے کیچڑ ہوگیا تھا اور اس کیچڑ میں کس طرح بیٹھ سکتے تھے اور یا یہ کہ آپ ﷺ کے کھڑے ہو کر پانی پینے کا مقصد محض بیان جواز تھا۔

【7】

وضو کا پانی اور آب زم زم کھڑے ہو کر پینا مستحب ہے

اور حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ (ایک دن) انہوں نے ظہر کی نماز پڑھی اور پھر لوگوں کے معاملات و مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے کوفہ کی ایک بلندو کشادہ جگہ پر اپنی مجلس قائم کی (اور وہاں لوگوں کے جھگڑوں اور معاملوں کو سن سن کر فیصلہ کرتے رہے) یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا جب (وضو کے لئے) پانی لایا گیا تو انہوں نے (اپنی پیاس بجھانے کے لئے وضو سے پہلے اس پانی میں سے) پیا اور پھر انہوں نے (وضو کے لئے) اپنا منہ اور اپنے ہاتھ دھوئے اور راوی نے یہ ذکر کیا کہ (انہوں نے) اپنا سر کا مسح اور اپنے پاؤں (دھوئے) اس کے بعد حضرت علی (رض) کھڑے ہوئے اور وضو کا بچا ہوا پانی اس حالت میں پیا کہ وہ کھڑے ہوئے تھے اور پھر فرمایا کہ بعض لوگ کھڑے ہو کر پینے کو کراہت پر محمول کرتے ہیں یعنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کھڑے ہو کر پانی پینا مکروہ ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا ہے جیسا کہ (ابھی) میں نے کیا۔ (بخاری) تشریح اور راوی نے یہ ذکر کیا الخ کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اوپر کے (یعنی پہلے) راوی نے جہاں ہاتھ اور منہ دھونے کا ذکر کیا تھا وہیں سر اور پیروں کے بارے میں بھی ذکر کیا تھا لیکن جب نیچے کے (یعنی بعد کے) راوی نے حدیث نقل کی تو وہ پہلے راوی کے قول کی تفصیل بھول گیا اور اسے یاد نہیں رہا کہ پہلے راوی نے یہ کہا تھا (کہ حضرت علی (رض) نے اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے پیروں کو دھویا جیسا کہ بظاہر یہی واضح ہوتا ہے یا یہ کہ پہلے راوی نے یہ بیان کیا تھا کہ انہوں نے اپنے سر کا بھی مسح کیا اور پیروں کا بھی مسح کیا جیسا کہ اسی واقعہ کے بارے میں حضرت علی (رض) سے منقول ایک روایت میں یہی ذکر کیا گیا ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ پیروں کے مسح سے مراد پیروں کو ہلکے طور پر دھونا ہے اور یا یہ کہ حضرت علی (رض) نے اس وقت موزے پہن رکھے ہوں گے، اس لئے انہوں نے پیروں پر مسح کیا۔ اس حالت میں پیا کہ وہ کھڑے ہوئے تھے یہ جملہ دراصل تاکید کے طور پر ہے تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ کھڑے ہونے کے بعد پھر بیٹھ کر انہوں نے پانی پیا ہوگا چناچہ اس بات کو مکرر واضح کیا گیا کہ انہوں نے اسی طرح کھڑے کھڑے وضو کا بچا ہوا پانی پیا۔ واضح رہے کہ احادیث میں کھڑے ہو کر پانی پینے کی ممانعت بیان کی گئی ہے جب کہ آنحضرت ﷺ اور اکابر صحابہ کا عمل اس کے برخلاف بھی ثابت ہے، چناچہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں پہلے گزر ہی چکا ہے اور مواہب لدنیہ میں حضرت جبیر بن مطعم سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو دیکھا کہ وہ کھڑے ہو کر پانی پی رہے تھے اسی طرح حضرت امام مالک نے بیان کیا ہے کہ مجھ تک یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت عمر (رض) عنہ، حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض) نے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ میں جو اس طرح کا تضاد و تعارض واقع ہوا ہے اس کو دور کرنے کے لئے علماء نے یہ کہا ہے کہ اس بارے میں جو ممانعت منقول ہے وہ اصل میں نہی تنزیہہ کے طور پر ہے، یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ممانعت کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو ایک عادت و معمول بنالیں (ویسے گاہ بگاہ یا کسی عذر کی بنا پر کھڑے ہو کر پانی پی لینے میں کوئی مضائقہ) اسی لئے آنحضرت ﷺ نے جو کھڑے ہو کر پانی پیا اس کا مقصد محض اس جواز کو بیان کرنا تھا علاوہ ازیں آب زمزم اور وضو کا بچا ہوا پانی اس ممانعت سے مستثنیٰ ہے بلکہ ان کو تو کھڑے ہی ہو کر پینا مستحب ہے، چناچہ بعض فقہی روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ زمزم اور وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیا جائے البتہ اور پانی کھڑے ہو کر نہ پیا جائے۔

【8】

جانوروں کی طرح منہ ڈال کر پانی پینا مکروہ ہے

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ ایک انصاری (یعنی ابوالہیثم جن کا ذکر پہلے بھی گزرا ہے) کے باغ میں تشریف لے گئے آپ ﷺ کے ہمراہ صحابی (یعنی حضرت ابوبکر (رض) بھی تھے، آنحضرت ﷺ نے (باغ میں پہنچ کر) سلام علیک کی، ان انصاری نے جو اس وقت باغ میں پانی دے رہے تھے آپ کے سلام کا جواب دیا، نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا اگر تمہارے پاس پرانی مشک میں باسی پانی ہو (تو لاؤ تاکہ ہم پئیں) اور اگر تمہارے پاس ایسا پانی نہ ہو تو پھر ہم ندی یا نہر سے منہ لگا کر پانی پی لیں گے۔ (انہوں نے عرض کیا کہ (جی ہاں) میرے پاس پرانی مشک میں باسی پانی موجود ہیں۔ چناچہ وہ جھونپڑی میں گئے جو (انہوں نے اس باغ میں ڈال رکھی تھی) اور ایک پیالہ میں پانی لے کر پھر اس پر (یعنی اس پیالہ میں) گھر کی پلی ہوئی بکری کا دودھ دوہا (اور اس پیالہ کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا) جس کو نبی کریم ﷺ نے نوش فرمایا اس کے بعد وہ انصاری پہلے پیالہ کی طرح ایک اور پیالہ لے کر آئے، جس کو ان صاحب نے پیا جو آنحضرت ﷺ کے ہمراہ آئے تھے۔ (بخاری) تشریح کر عنا کے معنی ہیں ہم کرع میں سے پانی پی لیں گے اور کرع اس جگہ کو کہتے ہیں، جہاں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے، اسی طرح چھوٹی سی نہر اور تالاب کو بھی کرع کہتے ہیں اس اعتبار سے کر عنا کا مفہوم یہ ہوا کہ ہم بغیر کسی برتن کے اور بغیر ہاتھ لگائے نہر یا تالاب وغیرہ سے منہ لگا کر پانی پی لیں گے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ کرع اس کو کہتے ہیں کہ بغیر برتن اور ہاتھ کے منہ ڈال کر پانی پیا جائے جس طرح چوپائے تالاب وغیرہ میں اپنے پاؤں ڈال کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر منہ لگا کر پانی پیتے ہیں۔ سیوطی کہتے ہیں کہ (اس حدیث سے مفہموم ہوتا ہے کہ کرع یعنی منہ ڈال کر پانی پینا جائز ہے جب کہ) ابن ماجہ کی ایک روایت میں کرع کی ممانعت منقول ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ ابن ماجہ کی روایت کا تعلق نہی تنزیہی سے ہے اور یہاں جو بیان کیا گیا ہے وہ جواز کو ظاہر کرنے کے لئے تھا (مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں تو اس طرح جانوروں کے طریقہ پر پانی پینا مکروہ ہے لیکن مخصوص حالات میں اس طرح پانی پینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ) ۔

【9】

سونے چاندی کے برتن میں کھانا پینا حرام ہے

اور حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص چاندی کے برتن میں کوئی چیز پیتا ہے تو اس کا یہ پیتا اس کے علاوہ اور کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرے گا کہ اس کے پیٹ میں دوزخ کی آگ کو غٹ غٹ اتارے گا ( بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جو شخص چاندی اور سونے کے برتن میں کھاتا اور پیتا ہے اس کا حشر بھی یہی ہوگا تشریح تمام علماء اور ائمہ کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لئے چاندی اور سونے کے برتن میں کھانا پینا حرام ہے اسی طرح ان کے برتنوں میں پانی بھر کر وضو کرنے یا ان میں عطر رکھ کر ان سے عطر لگانے اور یا ان میں حقہ رکھ کر حقہ پینے وغیرہ جیسے کاموں میں استعمال کرنا بھی حرام ہے اگر کسی چاندی یا سونے کے برتن میں کھانے پینے کی چیز رکھی ہو تو اس کو پہلے اس میں سے نکال کر کسی دوسرے برتن میں رکھ لیا جائے اور پھر اس کو کھایا جائے، اسی طرح تیل یا عطر وغیرہ ہو تو پہلے اس تیل یا عطر کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر نکال لیا جائے اور پھر اس کو دائیں ہاتھ سے لگایا جائے اور اگر یہ صورت اختیار کی گئی کہ اس تیل یا عطر وغیرہ کو اس چاندی یا سونے کے برتن میں سے کسی ہاتھ کی ہتھیلی پر نکالا گیا اور پھر اسی ہتھیلی سے لگایا گیا تو یہ جائز نہیں ہوگا۔ ہدایہ میں لکھا ہے کہ مفضض برتن میں پانی پینا جائز ہے بشرطیکہ منہ لگانے کی جگہ چاندی نہ ہو، اسی طرح سونے یا چاندی کے مضبب پیالہ میں بھی پانی پینا جائز ہے کیوں کہ پیالہ پر ضباب کا ہونا (یعنی اس پر سونے پر چاندی کا پتر چڑھا ہوا ہونا) اس پیالہ کی مظبوطی کے لئے ہونا ہے نہ زینت و آرائش کے مقصد سے

【10】

سونے چاندی کے برتن میں کھانا پینا حرام ہے

اور حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ریشمی کپڑا نہ پہنو اور نہ دیباج پہنو۔ (جو ایک طرح کا ریشمی ہی کپڑا ہوتا ہے) اسی طرح نہ سونے اور چاندی کے برتن میں پینے کی کوئی چیز پیو اور نہ سونے چاندی کی رکابیوں اور پیالوں میں کھاؤ کیونکہ یہ ساری چیزیں دنیا میں کافروں کے لئے ہیں اور تمہارے لئے آخرت میں ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح ریشمی کپڑا نہ پہنو اس حکم سے چار انگشت کے بقدر ریشمی کپڑا مستثنیٰ ہے جو دوسرے کپڑے کے کنارے پر لگایا جائے، مثلا الحالق (یعنی روئی کی عبایا انگر کھے) وغیرہ کی سنجاف یعنی گوٹ یا جھالر ریشمی کپڑے کی لگانا جائز ہے، بشرطیکہ وہ چار انگشت سے زائد چوڑی نہ ہو۔ اسی طرح وہ کپڑا پہننا جائز ہے جس کے تانے میں ریشم ہو اور بانے میں سوت اور اگر سوت تانے میں ہو اور ریشم بانے میں ہو تو اس کا پہننا جائز نہیں ہوگا لیکن لڑائی کے موقع پر اس کا پہننا بھی جائز ہوگا، اسی طرح اگر کسی کو خارش کا مرض لاحق ہو، یا جوؤں کی کثرت ہوگئی تو اس صورت میں ریشمی کپڑا پہننا جائز ہوگا۔

【11】

دائیں طرف سے دینا شروع کرو

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ (جب ہمارے گھر تشریف لائے تو آپ ﷺ کے لئے گھر کی پلی ہوئی ایک بکری کا دودھ دوہا گیا اور اس دودھ کو اس کنویں کے پانی میں ملایا گیا جو انس (رض) کے گھر میں تھا، پھر یہ دودھ کا پیالہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا جس میں آپ ﷺ نے کچھ دودھ پیا۔ (اس وقت) آنحضرت ﷺ کے بائیں طرف حضرت ابوبکر صدیق (رض) بیٹھے تھے اور دائیں طرف ایک دیہاتی بیٹھا تھا حضرت عمر (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ بچا ہوا دودھ حضرت ابوبکر (رض) کو دیجئے لیکن آپ ﷺ نے اس دیہاتی کو عنایت فرمایا جو آپ ﷺ کی دائیں طرف بیٹھا تھا پھر فرمایا کہ دایاں مقدم ہے اور پھر دایاں۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ (آپ ﷺ نے اس موقع پر یہ فرمایا کہ) یاد رکھو ! دائیں طرف کے زیادہ حق دار ہیں دائیں طرف کے زیادہ حق دار ہیں لہٰذا دائیں طرف والوں کو دیا کرو یعنی جب یہ معلوم ہوگیا کہ دائیں طرف والے زیادہ حق دار ہیں تو تم بھی دائیں طرف والوں کی رعایت ملحوظ رکھا کرو کہ دینے میں انہی سے ابتداء کرو۔ (بخاری ومسلم) تشریح جو انس (رض) کے گھر میں تھا ظاہری اسلوب کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضرت انس (رض) یہاں یہ کہتے کہ جو ہمارے گھر میں تھا کیوں کہ حضرت انس (رض) نے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے وہ انہی کے گھر کا ہے، جس بکری کا دودھ دوہا گیا تھا وہ بھی حضرت انس (رض) کے گھر میں تھی اور وہ کنواں بھی ان ہی کے گھر میں تھا اور خود حضرت انس (رض) ہی اس واقعہ کو بیان کرنے والے ہیں، لیکن انہوں نے ظاہری اسلوب کے تقاضے کے برخلاف یہ کہہ کر کہ جو انس (رض) کے گھر میں تھا گویا تفنن عبارت کے اسلوب کو اختیار کیا جس کو علم عربیت میں وضع مظہر موضع مضمر کہتے ہیں۔ دونوں لفظ ایمن نون کے پیش کے ساتھ ہیں جن کا ترجمہ یہی ہے کہ دایاں مقدم ہے اور پھر دایاں یعنی سب سے پہلے اس شخص کو دیا جائے جو داہنی طرف ہو اور پھر اس شخص کو دیا جائے جو پہلے شخص کے برابر میں اسی طرف ہو، اسی ترتیب سے دیتا چلا جائے، یہاں تک کہ سب سے آخر میں اس شخص کا نمبر آئے جو بائیں طرف ہے۔ ایک روایت میں یہ دونوں لفظ ایمن نون کے زبر کے ساتھ ہیں اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ میں دائیں طرف والے کو دوں گا پھر دائیں طرف والے کو، لیکن نون کے پیش روایت کی تائید مذکورہ بالا دوسری روایت الا یمنون الا یمنون سے بھی ہوتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کے دینے میں اپنی داہنی طرف کی رعایت ملحوظ رکھنا مستحب ہے یعنی اگرچہ داہنی طرف کا شخص بائیں طرف کے شخص کی بہ نسبت کم رتبہ بھی ہو تو تب بھی پہلے اسی کو دیا جائے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اس دیہاتی کو حضرت ابوبکر صدیق (رض) پر اسی لئے مقدم رکھا کہ وہ دائیں طرف تھا، نیز یہ حدیث آنحضرت ﷺ کے کمال عدل و انصاف اور آپ ﷺ کے وصف حق شناسی پر بھی دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر (رض) کے افضل اور مقرب ترین ہونے اور حضرت عمر (رض) کی سفارش کے باوجود دیہاتی کے حق کو نظر انداز نہیں کیا جہاں تک حضرت عمر (رض) کے عرض کرنے کا تعلق ہے تو انہوں نے محض یاد دہانی کے لئے عرض کیا تھا کہ شاید آنحضرت ﷺ کو وہاں حضرت ابوبکر (رض) کی موجودگی یاد نہ رہی ہو۔

【12】

دائیں طرف سے دینا شروع کرو

اور حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں (دودھ یا پانی) کا پیالہ لایا گیا جس سے آپ ﷺ نے پیا اس وقت آپ ﷺ کے دائیں طرف ایک نوعمر تھا جو (حاضرین مجلس میں) سب سے چھوٹا تھا، (یعنی حضرت ابن عباس (رض) اور جو بڑے بوڑھے لوگ تھے وہ بائیں طرف تھے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے لڑکے کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں اس (باقی ماندہ دودھ یا پانی) کو ان بوڑھوں کو دے دوں ؟ اس نوعمر نے کہا کہ (نہیں) یا رسول اللہ ! میں آپ ﷺ کے بچے ہوئے (دودھ یا پانی) کو دینے کے سلسلے میں اپنے اوپر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس بچے ہوئے ( دودھ یا پانی) کو اسی نوعمر کو دے دیا۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت قتادہ (رض) کی روایت (جس کو صاحب مصابیح نے یہاں نقل کیا تھا) ہم انشاء اللہ باب المعجزات میں نقل کریں گے۔ تشریح اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر مجلس میں ایک سے زائد لوگ موجود ہوں اور ان کو کوئی چیز دینی ہو تو دائیں طرف کا شخص اس بات کا اولی اور زیادہ حق دار ہے کہ دینے کی ابتداء اسی سے کی جائے ہاں اگر کسی مصلحت کا یہ تقاضا ہو کہ پہلے اس شخص کو دیا جائے جو بائیں طرف ہے تو دائیں طرف والے سے اس کی اجازت لینی چاہئے، اگر وہ اجازت دے دے تب بائیں طرف والے کو دیا جائے۔ رہی یہ بات کہ اس موقعے پر تو آنحضرت ﷺ نے ابن عباس (رض) سے اجازت مانگی لیکن پچھلی حدیث میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے اس موقع پر آپ ﷺ نے دیہاتی سے اجازت نہیں مانگی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس موقع پر آنحضرت ﷺ کے دائیں طرف جو بڑی عمر والے لوگ بیٹھے تھے ان کا تعلق قریش سے تھا اور ابن عباس (رض) آپ ﷺ کے قرابتدار تھے، لہٰذا آپ ﷺ نے سوچا کہ اگر ابن عباس (رض) سے اجازت لے کر ان لوگوں کو دے جائے تو ابن عباس (رض) کو کوئی ناگواری بھی نہ ہوگی اور ان بڑی عمر والے لوگوں کی تالیف قلوب بھی ہوجائے گی جب کہ اس موقعہ پر آنحضرت ﷺ کے بائیں طرف حضرت ابوبکر صدیق (رض) تھے جن کا آنحضرت ﷺ سے پختہ تعلق تھا اور محبت و اخلاص راسخ تھا ان کی تالیف قلب کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، دوسری طرف اس دیہاتی کے بارے میں بھی یہ خیال تھا کہ اگر اس سے اجازت لے کر ابوبکر (رض) کو دیا گیا تو شاید وہ اس بات کو اپنی حق تلفی سمجھتے ہوئے کسی وحشت و بیگانگی کا شکار ہوجائے، کیونکہ وہ نیا نیا حلقہ بگوش اسلام ہوا تھا گویا آپ ﷺ نے اس کی تالیف قلب اسی میں دیکھی کہ اس سے اجازت نہ لی جائے۔ فقہاء اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ طاعات (یعنی امور اور عبادات) میں ایثار جائز نہیں ہے۔ یہ تو فقہاء کا قول ہے لیکن اس مسئلہ کا زیادہ واضح پہلو یہ ہے کہ اگر ایثار واجبات میں ہو تو حرام ہے اور اگر فضائل و مستحبات میں ہو تو مکروہ ہے، اس کو اور واضح طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے، مثلاً ایک شخص کے پاس صرف اتنا پانی ہے جس سے وہ خود وضو کرسکے لیکن اس نے وہ پانی کسی دوسرے شخص کو دے دیا اور خود تیمم کر کے نماز پڑھی یا اس کے پاس محض اتنا کپڑا تھا جو اس کی ستر پوشی کے بقدر تھا لیکن اس نے وہ کپڑا کسی دوسرے شخص کو دے دیا اور خود ننگے بدن نماز پڑھی، اسی طرح کا ایثار جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے، یہ تو واجبات میں ایثار کی صورت تھی، فضائل و مستحبات میں ایثار کی صورت یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص باجماعت نماز پڑھنے کے لئے پہلی صف میں امام کے قریب بیٹھا تھا لیکن اس نے وہ جگہ کسی دوسرے شخص کو دے دی اور خود پچھلی صف میں آ کر نماز پڑھی اس طرح کا ایثار اچھا نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے، طاعات کے برعکس دنیاوی امور میں ایثار ایک محمود و مستحسن عمل ہے، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بعض صوفیاء کے بارے میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے بعض مواقع پر طاعات میں ایثار کی صورتیں اختیار کیں تو غالباً انہوں نے ایسا غلبہ حال کے سبب کیا ہوگا۔

【13】

چلتے پھرتے کھانا اور کھڑے ہو کر پینا اصل کے اعتبار سے جائز ہے

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں (ایسا بھی ہوتا تھا کہ) ہم چلتے پھرتے کھاتے تھے اور کھڑے ہونے کی حالت میں (پانی وغیرہ) پی لیا کرتے تھے (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تشریح علماء نے کہا ہے کہ چلتے پھرتے کھانا اور کھڑے ہو کر پینا اصل میں تو جائز ہیں لیکن زیادہ بہتر اور پسندیدہ بات یہ ہے کہ چلتے پھرتے ہوئے کھانے سے اجتناب کیا جائے کیونکہ یہ خلاف ادب ہے یہی بات کھڑے ہو کر پانی پینے کی بھی ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔

【14】

چلتے پھرتے کھانا اور کھڑے ہو کر پینا اصل کے اعتبار سے جائز ہے

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول کریم ﷺ کو کھڑے ہو کر بھی پیتے دیکھا ہے اور بیٹھے ہوئے بھی۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ کھڑے ہو کر پیتے ہوئے تو ایک بار دیکھا ہے اور وہ بھی یا تو بیان جواز کی خاطر تھا یا کسی ضرورت و عذر کی بنا پر تھا، اس ایک یا دو بار کے علاوہ اور تمام مواقع پر بیٹھ کر ہی پیتے دیکھا ہے۔

【15】

پیتے وقت برتن میں سانس نہ لو

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ (پانی وغیرہ پیتے وقت) برتن میں یا پیالہ وغیرہ میں سانس لیا جائے، یا پھونک ماری جائے۔ (ابوداؤد، وابن ماجہ) تشریح پیتے وقت برتن میں سانس لینے یا پھونک مارنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے تاکہ پئے جانے والے پانی وغیرہ میں تھوک نہ گرجائے اور دوسرے شخص کو اس سے کراہت محسوس نہ ہو، نیز بسا اوقات منہ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے اور اس صورت میں اگر برتن میں سانس لیا جائے گا یا پھونک ماری جائے گی تو ہوسکتا ہے کہ اس پی جانے والی چیز میں بدبو پہنچ جائے، علاوہ ازیں پانی میں سانس لینا اصل میں چوپایوں کا طریقہ ہے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اگر اس پی جانے والی چیز کو ٹھنڈا کرنے کیلئے پھونک مارنے کی ضروت ہو تو اس صورت میں بھی پھونک نہ ماری جائے بلکہ اس وقت تک پینے میں صبر کیا جائے جب تک کہ وہ ٹھنڈی نہ ہوجائے نیز اگر پانی میں کوئی تنکا وغیرہ پڑجائے تو اس کو کسی تنکے وغیرہ سے نکالا جائے، انگلی سے یا پھونک مار کر نہ نکالا جائے کیونکہ اس سے طبیعت نفرت و کراہت محسوس کرتی ہے۔

【16】

ایک سانس میں پانی مت پیو

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ تم ایک سانس میں پانی مت پیو جس طرح اونٹ پیتا ہے بلکہ دو سانس میں پیو اور جب تم پانی پینے لگو تو بسم اللہ کہو اور جب (پینے کے بعد) برتن کو اپنے منہ سے ہٹاؤ تو حمد کرو، (یعنی ہر بار میں یا آخری بار میں۔ (ترمذی) تشریح ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ پانی دو سانس میں پیا جائے تاکہ اونٹ کی مشابہت لازم نہ آئے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تین سانس میں پینا بہتر اور زیادہ پسندیدہ ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے اور اکثر اوقات میں آنحضرت ﷺ کا یہی معمول تھا۔ تو حمد کرو کے سلسلہ میں احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ پہلے سانس کے بعد الحمد للہ کہے دوسری سانس کے بعد رب العلمین کا اضافہ کرے اور تیسرے سانس کے بعد الرحمن الرحیم۔ نیز پانی پینے کے بعد پڑھی جانے والی یہ دعا بھی منقول ہے۔ الحمد للہ الذی جعلہ عذبا فراتا برحمتہ ولم یجعلہ ملحا اجاجا بذنوبنا۔

【17】

تنکا وغیرہ نکالنے کے لئے بھی پانی میں پھونک نہ مارو

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے پانی میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ایک شخص نے (یہ ممانعت سن کر) عرض کیا کہ اگر میں پانی میں تنکے ونکے پڑے ہوئے دیکھوں (تو کیا کروں ؟ کیونکہ اگر پھونک نہیں ماروں گا تو وہ تنکے کیسے نکلیں گے) آپ ﷺ نے فرمایا تم اس کو پھینک دو یعنی اوپر سے تھوڑا سا پانی پھینک دو تاکہ وہ تنکے وغیرہ نکل جائیں (اور چونکہ وہ شخص پھونک مارنے کی ممانعت سے یہ بھی سمجھا ہوگا کہ اس سے یہ بات بھی ضروری ہوئی کہ پانی پیتے وقت درمیان میں سانس نہ لیا جائے بلکہ ایک ہی سانس میں پانی پیا جائے اس لئے) اس نے عرض کیا کہ میں ایک دم یعنی ایک سانس میں پینے سے سیراب نہیں ہوتا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (اس طرح پانی پیو کہ پہلے تھوڑا سا ٰپی کر) پیالہ کو منہ سے ہٹاؤ اور (برتن سے باہر) سانس لو (اور پھر ایسے ہی دوسرے اور تیسرے سانس میں باقی پانی پی لو۔ (ترمذی، دارمی )

【18】

پینے کا برتن اگر کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہو تو وہاں منہ لگا کر نہ پیو

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے پیالہ کے سوراخ سے پانی پینے سے منع فرمایا نیز آپ ﷺ نے پانی میں پھونک مارنے سے بھی منع فرمایا۔ (ابوداؤد) تشریح سوراخ سے مراد برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر پینے کا برتن کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہو تو اس جگہ سے منہ لگا کر پانی نہ پیو، کیونکہ اس جگہ ہونٹوں کی گرفت اچھی نہیں ہوگی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہاں سے پانی نکل کر بدن اور کپڑوں پر گرے گا، دوسرے یہ کہ برتن کی دھلائی کے وقت اس کی ٹوٹی ہوئی جگہ اچھی طرح صاف نہیں ہو پاتی وہاں مٹی وغیرہ لگی رہ جاتی ہے اس صورت میں پاکیزگی و صفائی کا تقاضا بھی یہی ہے اس جگہ منہ نہ لگایا جائے۔ حدیث کے مفہوم اور مذکورہ بالا وضاحت سے معلوم ہوا کہ سوراخ سے ٹوٹا ہوا برتن مراد نہیں ہے بلکہ اس کی ٹوٹی ہوئی جگہ مراد ہے یعنی اس ممانعت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ٹوٹے ہوئے برتن میں پانی نہ پیا جائے بلکہ یہ مراد ہے کہ برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ پر منہ لگا کر پانی نہ پیا جائے۔

【19】

کبھی کبھار مشک وغیرہ کے منہ سے پانی پینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے

اور حضرت کبشہ (رض) (صحابیہ) کہتی ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ میرے یہاں تشریف لائے تو آپ ﷺ نے کھڑے کھڑے لٹکی ہوئی مشک کے منہ سے پانی پیا، چناچہ میں مشک کے منہ کے پاس جا کر کھڑی ہوئی اور اس کو کاٹ لیا۔ (ترمذی، ابن ماجہ) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ مشک کے منہ کے جتنے حصے پر آپ ﷺ کا دہن مبارک لگا تھا میں نے اتنے حصے کا چمڑا کاٹ کر رکھ لیا اور یہ میں نے تبرک یعنی حصول برکت کی غرض سے کیا یا اس احساس ادب کی بنا پر کیا تاکہ اس حصے پر کسی اور کا منہ نہ لگے جیسا کہ اسی طرح کے ایک واقعہ کے سلسلے میں حضرت ام سلمہ (رض) نے جو روایت بیان کی ہے اس میں انہوں نے صراحت کے ساتھ یہ کہا ہے کہ میں نے مشک کا منہ کاٹ دیا تاکہ آنحضرت ﷺ کے پینے کے بعد کوئی دوسرا شخص اس جگہ منہ لگا کر نہ پئے۔

【20】

آنحضرت ﷺ کو میٹھا اور ٹھنڈا مشرورب بہت پسند تھا

اور حضرت زہری، حضرت عروہ سے اور وہ حضرت عائشہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی حضرت عائشہ (رض) نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کے نزدیک پینے کی چیزوں میں ٹھنڈی میٹھی چیز بہت زیادہ پسندیدہ تھ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ روایت صحیح ہے جو بحوالہ زہری آنحضرت ﷺ سے بطریق ارسال نقل کی گئی ہے۔ تشریح میٹھی چیز سے عموم مراد ہے کہ آپ ﷺ کو ہر میٹھا مشروب بہت زیادہ پسند تھا، خواہ وہ میٹھا پانی ہوتا تھا یا میٹھا دودھ اور خواہ شہد وغیرہ کا شربت ! اس وضاحت سے اس حدیث اور ان دونوں حدیثوں کے درمیان مطابقت و یکسانیت پیدا ہوجاتی ہے، جن میں سے ایک میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو پینے کی چیزوں میں دودھ سب سے زیادہ پسند تھا اور دوسری روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو پینے کی چیزوں میں شہد سب سے زیادہ پسند تھا۔ وہ روایت صحیح ہے الخ کا مطلب یہ ہے کہ زہری نے اس روایت کو دو طریق سے نقل کیا ہے ایک تو مسند یعنی سند کے ساتھ جس طرح اوپر نقل کی گئی ہے کہ عن الزہری عن عروہ عن عائشۃ۔۔۔۔۔۔ الخ۔ اور دوسرے مرسل یعنی بغیر سند کے ذکر کیا ہے اس طرح کہ اس میں انہوں نے عائشہ (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ عبارت کے ظاہری مفہوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عروہ کا ذکر بھی نہیں کیا ہے، کیونکہ زہری خود بھی تابعی ہیں اگرچہ صغیر تابعی ہیں، لہٰذا ترمذی کہتے ہیں کہ زہری کی روایت بطریق ارسال ہم تک پہنچی ہے اس کے سلسلہ سند میں جن راویوں کا ذکر ہے وہ حدیث کی اصطلاح میں قوی تر اور ضابطہ تر ہیں، بخلاف اس روایت کے سلسلہ سند کے جو متصل ہے اس کے بعض راوی ضعیف ہیں۔

【21】

کھانے پینے میں دودھ سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو یوں کہے یعنی یہ دعا پڑھے اللہم بارک لنا فیہ واطعمنا خیرا منہ (اے اللہ ہمیں اس کھانے میں برکت عطا فرما اور ہم کو اس سے بھی اچھا کھانے کو دے) اور جب تم میں سے کسی شخص کو دودھ پینے کو ملے تو وہ یوں کہے، یعنی یہ دعا پڑھے۔ اللہم بارک لنا فیہ وزدنا منہ ( اے اللہ ہمیں ہمارے اس دودھ میں برکت عطا فرما اور ہم کو اس سے زیادہ پینے کو دے اور (دودھ پینے کی اس دعا اس سے بھی اچھا پینے کو دے کے الفاظ نہ کہے کیوں کہ دودھ سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے، جو اللہ سے مانگی جاسکے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ) ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو کھانے اور پینے کا بدل بن سکے علاوہ دودھ کے (کہ وہ شکم سیر کرنے کی بھی خاصیت رکھتا ہے اور سیراب کرنے کی بھی ) ۔ (ترمذی، ابوداؤد )

【22】

آنحضرت ﷺ کے لئے میٹھے پانی کا خاص اہتمام

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے لئے میٹھا پانی سقیا سے لایا جاتا تھا، بعض حضرات نے بیان کیا کہ سقیا ایک چشمہ کا نام ہے، جو مدینہ سے دو منزل کے فاصلہ پر واقع تھا۔ (ابوداؤد )

【23】

سونے چاندی کے برتن میں نہ پئو

حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص سونے یا چاندی کے برتن میں پئے گا یا کسی ایسے برتن میں پئے گا (جو اگرچہ کلیۃ سونے چاندی کا نہ ہو مگر) اس میں سونے یا چاندی کا کچھ حصہ ہو تو اس کا یہ پینا اس کے علاوہ اور کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرے گا کہ اس کے پیٹ میں دوزخ کی آگ کو غٹ غٹ اتارے گا۔ (دارقطنی) تشریح اس میں سونے یا چاندی کا کچھ حصہ ہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ اس میں سونے یا چاندی کی کیلیں وغیرہ لگی ہوئی ہوں۔ اور طیبی نے نووی سے یہ نقل کیا ہے کہ اگر وہ کیلیں وغیرہ چھوٹی چھوٹی ہوں اور اتنی ہی مقدار و تعداد میں استعمال کی گئی ہوں جو ضرورت و حاجت کے بقدر ہوں تو وہ حرام و مکروہ کے حکم میں داخل نہیں ہوں گی، لیکن اگر زیادہ مقدار و تعداد میں بھی ہوں اور بڑی بڑی یا چوڑی ہوں تو پھر وہ حرام کے حکم میں ہوں گی، لیکن جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ اس سلسلے میں حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ جس برتن میں سونے یا چاندی کی کیلیں وغیرہ لگی ہوئی ہوں اس میں پانی پینا جائز ہے بشرطیکہ جس جگہ منہ لگا کر پیا جائے وہاں سونا یا چاندی نہ ہو۔

【24】

نقیع اور نبیذوں کا بیان

آنحضرت ﷺ جو چیزیں پیا کرتے تھے ان میں ایک نقیع اور نبیذ بھی ہے۔ یہ دونوں چیزیں شربت کی قسم سے ہوتی ہیں ان میں سے نقیع کو بنانے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ انگور یا کھجوروں کو پانی میں محض بھگو دیا جاتا ہے اس کو جوش نہیں دیا جاتا، اس طرح انگور یا کھجوروں کی مٹھاس اس پانی میں آجاتی ہے اور ایک عمدہ قسم کا شربت بن جاتا ہے اور یہ شربت بہت مزیدار بھی ہوتا ہے اور بدن کو فائدہ بھی پہنچاتا ہے، چناچہ خرما کا نقیع معدہ کے نظام کو درست کرتا ہے اور کھانے کو جلد ہضم کرتا ہے جب کہ انگور کا نقیع جسم کی زائد حرارت کو دفع کرنے کی خاصیت رکھتا ہے۔ نبیذ بھی اسی طرح بنتا ہے فرق محض یہ ہوتا ہے کہ نبیذ کی صورت میں انگور یا کھجوروں کو پانی میں بھگو کر کچھ عرصہ تک کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ اس میں کچھ ہلکی سی تیزی اور تغیر پیدا ہوجائے، لیکن اتنی تیزی یا اتنا زیادہ تغیر نہیں جو نشہ آور ہوجانے کی حد تک پہنچ جائے کیونکہ جس نبیذ میں نشہ پیدا ہوجاتا ہے اس کا پینا قطعا حرام ہے اسی لئے رسول کریم ﷺ اس نبیذ کو ہرگز نہیں پیتے تھے جس پر تین دن سے زائد کا عرصہ گزر جاتا تھا، جیسا کہ آگے آئے گا، نقیع کی طرح نبیذ بھی ایک فائدہ مند مشروب ہے یہ جسم کی طاقت و قوت میں اضافہ کرتا ہے اور عام صحت کی محافظت کرتا ہے۔ واضح رہے کہ نبیذ انگور اور کھجور کے علاوہ دوسری چیزوں سے بھی بنتی ہے، چناچہ نہایہ میں لکھا ہے کہ نبیذ کھجور سے بھی بنتی ہے اور انگور سے بھی، شہد سے بھی بنتی ہے اور گیہوں اور جو وغیرہ سے بھی، منصف مشکوٰۃ نے اوپر عنوان میں انبذہ جمع کا صیغہ اس لئے استعمال کیا ہے تاکہ اس کی متعدد اقسام و انواع کی طرف اشارہ ہوجائے۔

【25】

حضرت انس (رض) کا پیالہ

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا۔ میں نے رسول کریم ﷺ کو اپنے اس پیالہ میں پینے کی ساری چیزیں پلائی ہیں جیسے شہد، نبیذ، پانی اور دودھ۔ (مسلم) تشریح آنحضرت ﷺ جس پیالہ میں پینے کی چیزیں پیا کرتے تھے وہ حضرت انس (رض) کے پاس تھا، منقول ہے کہ نصر بن انس (رض) نے اس پیالہ کو حضرت انس (رض) کی میراث میں سے آٹھ لاکھ کے عوض خریدا تھا، حضرت امام بخاری نے اس پیالہ کو بصرہ میں دیکھا تھا اور ان کی خوش بختی کے کیا کہنے کہ ان کو اس مبارک پیالے میں پانی پینے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔

【26】

آنحضرت ﷺ کے لئے نبیذ بنانے کا ذکر

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کے لئے ایک مشک میں نبیذ بنایا کرتے تھے جس کو اوپر سے (باندھ کر) بند کردیا جاتا تھا اور ان کے نیچے کے حصے میں بھی اس کا دہانہ تھا ہم اس مشک میں کھجور وغیرہ صبح کے وقت ڈال دیتے تھے تو آپ ﷺ رات کے وقت اس کو پیتے اور اگر اس میں کھجور وغیرہ رات میں ڈالتے تھے تو آپ ﷺ اس کو صبح کے وقت پیتے تھے۔ (مسلم) تشریح عزلاء اصل میں توشہ دان کے دہانہ کو کہتے ہیں، لیکن یہاں مشک کا دہانہ مراد ہے جو اس کے نیچے کی طرف ہو، حاصل یہ کہ اس مشک کے اوپر کی جانب تو منہ تھا ہی، لیکن اس کے نیچے کے حصے میں بھی ایک دہانہ تھا اس کے اوپر کے منہ کو تو باندھ دیا جاتا تھا اور اس کے نیچے کے منہ سے نکال کر پیا جاتا تھا، نبیذ بنانے کے لئے کھجوروں کو ایک دن اور ایک رات سے زائد تک، حتی کہ تین دن و تین رات تک بھگوئے رکھنے کا ذکر ہے ان کا تعلق جاڑے کے موسم سے ہوگا۔

【27】

آنحضرت ﷺ کے لئے نبیذ بنانے کا ذکر

اور حضرت عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے لئے جو نبیذ رات کے ابتدائی حصے میں ڈالی جاتی تھی اس کو آپ ﷺ آنے والے دن کی صبح کو پیتے، پھر آنے والی رات میں پیتے پھر دوسرے دن اور دوسری رات میں پیتے اور پھر اس کے بعد آنے والے (یعنی تیسرے) دن عصر کے وقت تک پیتے اور اگر اس کے بعد بھی اس میں سے کچھ باقی رہ جاتی تو خادم کو پلا دیتے یا پھینک دینے کا حکم دے دیتے چناچہ وہ پھینک دی جاتی تھی۔ (مسلم) تشریح سقاہ الخادم او امر بہ میں حرف او (یا) اظہار شک کے لئے نہیں ہے بلکہ تنویع کے لئے ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ تیسرے دن عصر کے وقت تک پینے کے بعد جو نبیذ بچ جاتی وہ چونکہ تلچھٹ رہ جاتی تھی اس لئے آپ ﷺ اس کو خود نہیں پیتے تھے بلکہ خادم کو پینے کے لئے دے دیتے تھے۔ اور اگر اس میں نشہ کا اثر آجاتا تو پھر خادم کو بھی پینے کے لئے نہیں دیتے تھے بلکہ پھینکوا دیتے تھے۔ مظہر کہتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ مالک و آقا کے لئے جائز ہے کہ وہ خود اوپر کا کھانا کھائے اور نیچے کا کھانا غلام و خادم کو کھلائے۔

【28】

آنحضرت ﷺ کے لئے نبیذ بنانے کا ذکر

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے لئے مشک میں نبیذ بنائی جاتی تھی اور اگر کسی وقت مشک نہ ملتی تو پھر آپ ﷺ کے لئے پتھر کے برتن میں نبیذ بنائی جاتی تھی۔ (مسلم )

【29】

نبیذ کن برتنوں میں نہ بنائی جائے

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کدو کے تو بنے، سبز لاکھی گھڑے، رال ملے ہوئے برتن اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا اور یہ حکم دیا کہ چمڑے کے مشک میں نبیذ بنائی جائے۔ (مسلم) تشریح آنحضرت ﷺ نے اسلام کے ابتدائی دور میں ان برتنوں میں نبیذ بنانے کی ممانعت فرمائی تھی اور اس ممانعت کی بنیاد یہ خوف تھا کہ کہیں ان برتنوں میں بنائی جانے والی نبیذ میں جلد نشہ پیدا نہ ہوجائے اور اس کے بارے میں معلوم بھی نہ ہو سکے، لیکن جب نشہ کی حرمت نازل ہونے پر اچھی خاصی مدت گزر گئی اور لوگوں کے ذہن میں بھی یہ حرمت اچھی طرح راسخ اور مشہور ہوگئی تو پھر ہر طرح کے برتن میں نبیذ کا بنانا مباح کردیا گیا جیسا کہ آگے آنے والی حدیث سے معلوم ہوگا اور اس مسئلہ کی مفصل تحقیق کتاب الایمان میں بھی گزر چکی ہے۔

【30】

اس حکم کی منسوخی جس کے ذریعہ بعض برتنوں میں نبیذ کا بنانا ممنوع قرار دیا گیا تھا

اور حضرت بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میں نے تمہیں (مذکورہ بالا) بعض برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا اور تم نے یہ گمان کرلیا تھا کہ حلت و حرمت کا حکم برتنوں سے تعلق رکھتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے) بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو چیز حرام ہے اس کو کوئی حلال نہیں کردیتا اور جو چیز حلال ہے اس کو کوئی برتن حرام نہیں کردیتا۔ اصل میں حکم تو یہ ہے کہ جو چیز نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے (خواہ وہ کسی بھی برتن میں پی جائے جو چیز نشہ پیدا نہ کرے وہ حلال ہے خواہ وہ کسی بھی برتن میں ہو ) ۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں نے (مذکورہ بالا بعض برتنوں میں تمہیں (نبیذ بنانے اور) پینے سے منع کیا تھا علاوہ چمڑے کے برتنوں کے (لیکن اب میں اس حکم کو منسوخ قرار دے کر ہر طرح کے برتن میں نبیذ بنانے اور پینے کو مباح قرار دیتا ہوں) لہٰذا تم ہر طرح کے برتن میں پی سکتے ہو، لیکن جو چیز نشہ پیدا کرنے والی ہو اس کو (ہرگز) مت پیو۔ (مسلم )

【31】

ہر نشہ آور مشروب حرام ہے خواہ اس کو شراب کہا جائے یا کچھ اور

حضرت ابومالک اشعری (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (ایسا زمانہ آنے والا ہے جب) میری امت کے بعض لوگ پئیں گے اور اس کا نام شراب کے بجائے کچھ اور رکھیں گے۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کے ذہن میں کجی اور فساد ہوگا وہ شراب پینے کے سلسلے میں مختلف حیلے بہانے کریں گے، خاص طور پر نام کو بڑا پردہ بنائیں گے، مثلاً نبیذ یا مباح شربت جیسے ماء العسل وغیرہ کو نشہ آور بنا کر پئیں گے اور یہ گمان کریں گے کہ یہ حرام نہیں ہے کیونکہ نہ اس کو انگور کے ذریعہ بنایا گیا ہے اور نہ کھجور کے ذریعہ، حالانکہ ان کا اس طرح گمان کرنا ان کے حق میں ان مشروبات کے مباح و حلال ہونے کے لئے کارگر نہیں ہوتا بلکہ حقیقت میں وہ شراب پینے والے شمار ہوں گے اور ان کی ان کو سزا ملے گی کیوں کہ اصل حکم یہ ہے کہ ہر نشہ آور شراب حرام ہے خواہ وہ کسی بھی چیز سے بنی ہو۔ ایک صورت یہ بھی ہوگی کہ وہ شراب ہی پئیں گے لیکن اپنی طرف سے اس کا کوئی دوسرا نام رکھ لیں گے اس کو شراب نہیں کہیں گے تاکہ لوگ شراب پینے کا الزام عائد نہ کریں، لیکن حقیقت میں نام کی یہ تبدیلی ان کے حق میں قطعا کارگر نہیں ہوگی اصل میں اعتبار تو مسمی کا ہے نہ کہ اسم کا۔

【32】

ہر نشہ آور مشروب حرام ہے خواہ اس کو شراب کہا جائے یا کچھ اور

حضرت عبداللہ بن اوفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے سبز ٹھلیا میں بنی ہوئی نبیذ پینے سے منع فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ کیا ہم سفید ٹھلیا میں بنی ہوئی نبیذ پی سکتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ (بخاری) تشریح سبز ٹھلیا سے مراد خنتم یعنی سبز لاکھی (روغنی ) گھڑا ہے ! عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سبز کی قید سے یہ سمجھے کہ جو ٹھلیا سبز نہ ہو اس میں بنی ہوئی نبیذ کا پینا مباح ہوگا اس لئے انہوں نے پوچھا کہ کیا ہم سفید ٹھلیا کی پی سکتے ہیں ؟ لیکن آنحضرت ﷺ نے سفید ٹھلیا کی نبیذ پینے سے بھی منع فرما کر گویا اس طرف اشارہ کیا کہ سبز کی قید محض اتفاقی ہے اور اس کا ایک سبب یہ ہے کہ اس زمانہ میں جن ٹھلیوں میں نبیذ بنائی جاتی تھی عام طور پر سبز ہی ہوتی تھی، اس لئے سبز ہی کا ذکر کردیا، ورنہ سبز سفید کا حکم ایک ہی ہے کہ جو بھی لاکھی یعنی روغنی ٹھلیا ہو خواہ وہ سبز رنگ کی ہو یا کسی اور رنگ کی ہو اس میں بنی ہوئی نبیذ پینے سے اجتناب کرو ! لیکن واضح رہے کہ اس حدیث کا حکم بھی منسوخ ہے، جیسا کہ پیچھے ذکر کیا گیا۔

【33】

برتنوں وغیرہ کو ڈھانکنے کا بیان

اس باب میں وہ احادیث مذکور ہوں گی جو رات کو سوتے وقت برتنوں کو ڈھانکنے، دروازوں کو بند کردینے اور چراغ کو بجھا دینے جیسے امور کے سلسلے میں منقول ہیں۔

【34】

رات آنے پر کن چیزوں کا خیال رکھا جائے

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب رات کی تاریکی پھیل جائے یا یہ فرمایا کہ جب شام ہوجائے تو تم اپنے بچوں کو (گھر سے نکلنے اور گلی کوچوں میں پھرنے سے) روک دو کیونکہ اس وقت شیطان یعنی جنات چاروں طرف پھیل جاتے ہیں، پھر جب رات کی ایک گھڑی گزر جائے تو بچوں کو ( کہیں آنے جانے کے لئے) چھوڑ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، نیز اللہ کا نام لے کر (یعنی بسم اللہ پڑھ کر) دروازوں کو بند کردو، کیونکہ (بسم اللہ پڑھ کر) بند (کئے گئے) دروازوں کو شیطان نہیں کھولتا (باوجودیکہ شیاطین اور جنات کو اس پر قدرت حاصل ہے کہ وہ دروازوں اور دیواروں میں بیٹھ جائیں، لیکن اللہ کے ذکر کے سبب وہ بیٹھنے کی مجال نہیں رکھتے) اور اللہ کا نام لے کر (ان) مشکیزوں کے منہ باندھ دو (جن میں پانی موجود ہو تاکہ ان میں کیڑا و پتنگا وغیرہ نہ گھس جائے) اور اللہ کا نام لے کر اپنے برتنوں کو ڈھانک دو اور خواہ برتن پر عرضا ہی کوئی چیز رکھ دو (یعنی اگر برتن پر ڈھکنے کے لئے کوئی ایسی چیز موجود نہ ہو جس سے اس برتن کا پورا منہ چھپ سکے تو اس پر عرضا کوئی لکڑی وغیرہ رکھ دو اگرچہ اس صورت میں برتن پوری طرح نہیں ڈھکے گا لیکن اس طرح کم سے کم کراہت تو ختم ہو ہی جائے گی اور اس حکم کی برکت سے برتن میں موجود کھانے پینے کی چیز اس ضرر و نقصان سے بچ جائے گی جو برتن کے بالکل کھلے ہوئے ہونے کی صورت میں یقینی ہوتا جیسے شیطان کا تصرف) اور (سوتے وقت) اپنے چراغوں کو بجھا دو ۔ (بخاری ومسلم) اور مذکورہ بالا روایت تو یکساں الفاظ میں بخاری و مسلم میں منقول ہے ہی لیکن یہ مضمون مختلف الفاظ کے ساتھ بخاری و مسلم نے الگ الگ بھی نقل کیا ہے چنانچہ) بخاری کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ برتنوں کو ڈھانک دیا کرو، مشکیزوں کے منہ باندھ دیا کرو، دروازوں کو بند کردیا کرو اور اپنے بچوں کو اپنے پاس بٹھائے رکھو (ان کو ادھر ادھر نہ جانے دو ) جب کہ شام ہوجائے کیونکہ (اس وقت) جنات چاروں طرف پھیل جاتے ہیں اور اچک لیتے ہیں اور سوتے سوتے چراغوں کو بجھا دیا کرو کیونکہ (اکثر یا بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ) چوہا بتی کو کھینچ لے جاتا ہے اور گھر والوں کو جلا دیتا ہے۔ اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ برتنوں کو ڈھانک دیا کرو مشکیزوں کے منہ باندھ دیا کرو دروازوں کو بند کردیا کرو اور چراغوں کو بجھا دیا کرو، کیونکہ ( اللہ کا نام لینے کی وجہ سے) شیطان (بندھے ہوئے، مشکیزوں کو نہیں، کھولتا اور نہ (بند) دروازوں کو کھولتا ہے اور نہ ڈھانکے ہوئے) برتنوں کو کھولتا ہے۔ اگر تم میں سے کسی کو (ڈھانکنے کے لئے کوئی چیز) نہ ملے الاّ یہ کہ وہ اللہ کا نام لے کر برتن کے منہ پر عرضا لکڑی ہی رکھ سکتا ہو تو وہ ایسا ہی کرلے (یعنی بسم اللہ پڑھ کر برتن کے منہ پر کوئی لکڑی ہی رکھ دے) اور (سوتے وقت چراغ کو اس لئے بجھا دیا کرو) کہ (چوہا چراغ کی بتی کو کھینچ کر) گھر والوں پر ان کے گھر کو بھڑکا دیتا ہے۔ (یعنی چوہا جلی ہوئی بتی کو لے جا کر کسی ایسی جگہ ڈال دیتا ہے، جہاں کسی چیز میں آگ لگ جاتی ہے اور پھر سارا گھر جل جاتا ہے۔ اور مسلم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ برتن کو ڈھانک دیا کرو اور مشکیزہ کا منہ بند نہیں ہوتا اس وبا کا کچھ حصہ اس میں بھی داخل ہوجاتا ہے۔ تشریح متفق علیہ روایت کے بعد بخاری کی جو روایت نقل کی گئی ہے اور اس میں عند المساء (جب کہ شام ہوجائے) کا جو لفظ مذکور ہوا ہے۔ اس کے بارے میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا تعلق ساری مذکورہ چیزوں سے ہو (یعنی رات شروع ہوجائے تو برتنوں کو ڈھانک دیا جائے، مشکیزوں کے منہ بھی باندھ دیئے جائیں، دروازے بھی بند کردیئے جائیں اور بچوں کو باہر نکلنے سے روک دیا جائے، اس صورت میں شام سے مراد وہ وقت ہوگا جو ابتداء شام سے عشاء تک رہتا ہے کہ دروازوں کو بند رکھنے اور برتنوں کو ڈھانکنے کا یہی وقت ہے اور اگر یہ مراد لیا جائے کہ عند المساء کا تعلق صرف و اکفتوا صبیانکم (اپنے بچوں کو اپنے پاس بٹھائے رکھو) سے ہے جیسا کہ حدیث کا سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے تو مراد انسب ہوگی اس صورت میں یہ مطلب ہوگا کہ رات میں ان سب چیزوں کا اس طرح خیال رکھو کہ رات کے ابتدائی حصے میں یعنی سورج ڈوبنے کے فوراً بعد بچوں کو باہر نکلنے اور ادھر ادھر ہونے سے روک دو ، کیونکہ یہ وقت جنات کے پھیلنے کا ہے اور جب رات کی ایک گھڑی (یعنی ایک گھنٹہ) گزر جائے تو یہ سب کام کرو، یعنی برتن کو ڈھانک دو اور دروازے بند کردو نیز اس وقت بچوں کو باہر جانے دینے میں کوئی حرج نہیں اس توجیہ سے اس روایت کی متفق علیہ روایت کے ساتھ بھی مطابقت ہوجائے گی۔ اور اچک لیتے ہیں شیاطین کا بچوں کو اچک لینا ایک حقیقت ہے جس کی تصدیق بعض واقعات سے بھی ہوئی ہے اگرچہ یہ قلیل الوقوع ہے، یا پھر اچک لینے سے مراد بچوں کے ہوش و حو اس کو زائل کردینا یا ان کو کھیل کود میں لگا دینا ہے۔ جنات و شیاطین اصل میں یہ دونوں ایک ہی ہیں جنات میں سے جو سرکش و فاسق ہیں ان کو شیطان کہتے ہیں ! فحمہ شروع رات میں یعنی مغرب و عشاء کے درمیان جو تاریکی چھا جاتی ہے اس کو فحمہ کہتے ہیں اور عشاء کی نماز سے صبح ہونے تک جو تاریکی رہتی ہے اس کو عسعسہ کہتے ہیں، چناچہ قرآن کریم کی آیت (وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ ) 81 ۔ التکویر 17) سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے واضح رہے کہ اس حدیث میں جو احکام دئیے گئے ہیں وہ بطریق وجوب نہیں ہیں، بلکہ ان کا مقصد محض ان امور کی ہدایت کرنا ہے جو ہماری روز مرہ زندگی میں بھلائی و مصلحت اندیشی کے متقاضی ہوتے ہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان احکام کا تعلق استحباب سے ہے یعنی حدیث میں مذکورہ ہدایت پر عمل کرنا مستحب ہے۔ نووی کہتے ہیں کہ (اگر بنظر عمیق اس حدیث کے مضمون پر غور کیا جائے اور ان ہدایات پر عمل کیا جائے تو واضح ہوگا کہ) اس ارشاد میں مختلف قسم کی بھلائیاں اور کتنے ہی جامع آداب اور تہذیب کے رموز پنہاں ہیں خاص طور سے ان میں سے جو سب سے بہتر تعلیم ہے وہ یہ ہے کہ ہر حرکت و سکون کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینا یعنی بسم اللہ پڑھنا ایک ایسا سہل ذریعہ ہے جو دنیا و آخرت کی آفات و بلاؤں سے سلامتی و حفاظت کا ضامن قرار دیا جاسکتا ہے۔

【35】

جس برتن میں کھانے پینے کی کوئی چیز ہو اس کو ڈھانک کر لاؤ لے جاؤ

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) ابوحمید جو ایک انصاری شخص تھے، نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مقام نقیع سے دودھ سے بھرا ہوا ایک برتن لے کر آئے آنحضرت ﷺ نے (جب اس برتن کو کھلا ہوا دیکھا تو) فرمایا کہ تم نے اس برتن کو ڈھانکا کیوں نہیں، اگرچہ ڈھانکنے کی یہ صورت کیوں نہ ہوتی کہ تم اس برتن پر عرضا کوئی لکڑی رکھ دیتے۔ (بخاری ومسلم )

【36】

سوتے وقت آگ بجھا دو

اور حضرت عمر (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تم سونے لگو تو گھروں میں آگ نہ چھوڑو۔ (بخاری ومسلم) تشریح آگ سے مراد وہ آگ ہے جس سے کسی چیز کے جل جانے کا خوف ہو، وہ چراغ ہو یا چولھے وغیرہ کی آگ، لہٰذا روشنی کی جو چیزیں قندیل وغیرہ کی صورت میں لٹکی ہوئی ہوں اور ان سے آگ لگنے کا کوئی خطرہ نہ ہو تو اس کو چھوڑے رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لہٰذا ایسی چیزیں اس ممانعت کے حکم میں داخل نہیں ہوں گی، کیونکہ اس ممانعت کی جو اصل علت ہے (یعنی آگ لگنے کا خطرہ) جب وہی نہیں پائی جائے گی تو اس حکم پر عمل بھی ضروری نہیں ہوگا، بلکہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی تو یہ فرماتے ہیں کہ اگر آگ کو بھی گھر میں اس طرح رکھ چھوڑا جائے کہ اس سے کسی چیز کے جلنے کا خوف نہ ہو، جیسے جاڑے کے موسم میں شب بیداری کی غرض سے یا کسی دوسری مصلحت و ضرورت کے تحت چولھے وغیرہ میں آگ دبا دیتے ہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ بالا وضاحت پر قیاس کرتے ہوئے یہ بھی ممنوع نہیں ہوگا۔

【37】

سوتے وقت آگ بجھا دو

اور حضرت ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ رات میں ایسا ہوا کہ مدینہ میں ایک شخص کا گھر جل گیا اور گھر والوں پر گرپڑا، چناچہ اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ کے سامنے ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ۔ یہ آگ، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ یہ تمہارے حق میں ایک دشمن ہے (جو جان و مال کو جلا دیتی ہے) لہٰذا جب تم سونے لگو تو اس کو بجھا دو اور اس کے ضرر و نقصان سے اپنے کو محفوظ رکھو۔ (بخاری ومسلم )

【38】

کتے اور گدھے کی آواز سنو تو اللہ کی پناہ چاہو

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم رات میں کتوں کے بھونکنے اور گدھوں کے رینگنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہو کیونکہ وہ (کتے اور گدھے) جس چیز کو دیکھتے ہیں (یعنی شیطان اور اس کی ذریات کو) اس کو تم نہیں دیکھتے اور جب لوگوں کا چلنا پھرنا بند ہوجائے تو اس وقت تم بھی (گھر سے) کم نکلو، کیونکہ (اس وقت) رات میں اللہ عزوجل اپنی مخلوقات میں سے جن کو چاہتا ہے (یعنی جنات و شیاطین اور موذی جانور وغیرہ) ان کو چاروں طرف پھیل جانے دیتا ہے اور اپنے دروازوں کو اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ پڑھ کر بند کیا کرو، کیونکہ جس دروازے کو اللہ کا نام لے کر بند کیا جاتا ہے اس کو شیطان کھولنے پر قادر نہیں ہوتا اور (ان) برتنوں کو ڈھانک دیا کرو (جن میں کھانے پینے کی کوئی چیز ہو ) اور (جن) برتنوں (میں کچھ نہ ہو یعنی وہ خالی ہو ان) کو الٹ دیا کرو اور مشکیزوں کے منہ باندھ دیا کرو۔ (شرح السنۃ )

【39】

چوہے کی شرارت سے بچنے کے لئے سوتے وقت چراغ کو بجھا دو

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن کا واقعہ ہے کہ) ایک چوہا چراغ کی (جلتی ہوئی بتی کھینچ لایا اور اس کو رسول کریم ﷺ کے سامنے اس چٹائی پر ڈال دیا جس پر آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے چناچہ (اس طرح) اس نے ایک درہم کے بقدر چٹائی کو جلا دیا آنحضرت ﷺ نے (یہ دیکھ کر) فرمایا کہ جب تم سونے لگو، تو چراغ کو گل کردو کیونکہ شیطان اس چوہے جیسے موذی کو ایسی حرکت پر آمادہ کرتا ہے اور (اس صورت میں گویا) وہ شیطان تمہیں جلا دیتا ہے (ابو داؤد ) تشریح مصنف مشکوٰۃ نے اس باب میں تیسری فصل شامل نہیں کی ہے اور یہ کہا ہے کہ بہ باب تیسری فصل سے خالی ہے۔ چناچہ یہ نہ کہنے کی وجہ پیچھے (کتاب الاشربہ سے پہلے باب میں بیان کی جا چکی ہے۔