14. نماز قصر سے متعلقہ احادیث

【1】

نماز سفر کا بیان

مسافر جب اپنے گاؤں یا شہر کی آبادی سے باہر نکل جائے تو اس پر قصر واجب ہے، پوری چار رکعت والی فرض نماز کی دو رکعتیں ہی پڑھنا واجب ہے اگر کوئی آدمی سفر کی حالت میں جب کہ اس پر قصر واجب ہے، پوری چار رکعتیں پڑھے گا تو گنہگار ہوگا اور دو واجب کو چھوڑنے والا ہوگا یعنی ایک واجب تو قصر کا ترک ہوگا اور دوسرے قعدہ اخیرہ کے بعد فورًا سلام پھیرنا، کیونکہ مسافر کے حق میں پہلا قعدہ ہی قعدہ اخیرہ ہوتا ہے اس کے بعد اسے فورا سلام پھیر دینا چاہیے اگر اس نے نہیں پھیرا بلکہ کھڑا ہوگیا اس طرح اس نے دوسرے واجب کو ترک کیا۔ اس موقع پر اتنی بات بھی جانتے چلئے کہ مسافر کے لئے قصر کے جواز میں کسی بھی عالم اور کسی بھی امام کا اختلاف نہیں ہے صرف اتنی بات ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک تو قصر واجب ہے لیکن امام شافعی کے ہاں قصر اولیٰ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسافر قصر نہیں کرے گا تو وہ امام صاحب کے مسلک کی رو سے گنہگار ہوگا، مگر حضرت شافعی کا مسلک اسے گنہگار نہیں قرار دے گا۔ بلکہ اولیٰ و افضل چیز کو ترک کرنے والا کہلائے گا۔ مسافت قصر قصر اتنی مسافت کے لئے واجب ہوتا ہے جو متوسط چال سے تین دن سے کم میں طے نہیں ہوسکتی۔ متوسط چال سے مراد آدمی یا اونٹ کی متوسط رفتا رہے تین دن کی مسافت ہے یہ مراد ہے کہ صبح سے دوپہر تک چلے نہ یہ کہ صبح سے شام تک، اسی لئے فقہاء نے موجودہ زمانے میں اس مسافت کا اندازہ اڑتالیس میل کیا ہے گویا اگر کوئی آدمی اڑتالیس میل (تقریباً ٧٨ کلومیٹر) کی مسافت کے لئے اپنے گھر سے سفر پر نکلے تو جیسا کہ او پر ذکر کیا گیا اپنے گاؤں یا شہر کی آبادی سے باہر نکلتے ہی اس پر قصر واجب ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی آدمی مسافت قصر (یعنی ٤٨ میل یا ٧٨ کلو میٹر) کو کسی تیز سواری مثلاً گھوڑے یا ریل وغیرہ کے ذریعے تین دن سے کم میں طے کرے تب بھی وہ مسافر سمجھا جائے گا اسے بھی قصر نماز پڑھنی چاہیے۔ مدت قصر مسافر کو اس وقت تک قصر کرنا چاہیے۔ جب تک کہ اپنے وطن اصلی نہ پہنچ جائے یا کسی مقام پر کم سے کم پندرہ دن ٹھہرنے کا قصد نہ کرے بشر طی کہ وہ مقام ٹھہرنے کے لائق ہو اگر کوئی آدمی دریا میں ٹھہرنے کی نیت کرے یا دارلحرب میں یا اسی طرح جنگل میں تو اس نیت کا کچھ اعتبار نہ ہوگا۔ ہاں خانہ بدوش لوگ اگر جنگل میں بھی پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کریں تو یہ نیت صحیح ہوجائے گی اس لئے کہ وہ جنگلوں میں ہی رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی اس مقدار مسافت کو قطع کرنے سے قبل کہ جس کا سفر میں اعتبار کیا گیا ہے کسی مقام پر ٹھہرنے کی یا اپنے وطن لوٹ جانے کی نیت کرے تو وہ مقیم ہوجائے گا۔ اگرچہ پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کی ہو اب یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے سفر کے ارادے کو ختم کردیا ہے۔ قصر کے کچھ مسائل (١) مندرجہ ذیل صورتوں میں اگر کوئی مسافر مسافت سفر پوری کرنے کے بعد پندرہ دن سے بھی زیادہ ٹھہر جائے تو وہ مقیم نہ ہوگا اور اس پر قصر کرنا واجب رہے گا۔ (الف) ۔ پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو مگر کسی وجہ سے بلا قصد و ارادہ زیادہ ٹھہرنے کا اتفاق ہوجائے۔ (ب) ۔ کچھ نیت ہی نہ کی ہو، بلکہ امروز، فردا میں اس کا ارادہ وہاں سے چلے جانے کا ہو مگر وہ اسی پس و پیش میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہر جائے۔ (ج) ۔ پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرے مگر وہ مقام قابل سکونت نہ ہو۔ (د) پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے مگر دو مقام پر، بشرطیکہ ان دونوں مقامات میں اس قدر فاصلہ ہو کہ ایک مقام کی اذان کی آواز دوسرے مقام میں نہ جاسکتی ہوں، مثلا دس روز مکہ معظمہ میں رہنے کا ارادہ کرے اور پانچ روزمنی میں مکہ سے منیٰ تین میل کے فاصلے پر ہے اور اگر رات کو تو ایک مقام میں رہنے کی نیت کرے اور دن کو دوسرے مقام پر تو جس موضع میں رات کو ٹھہرنے کی نیت کرلی ہے وہ اس کا وطن اقامت ہوجائے گا وہاں اس کو قصر کی اجازت نہ ہوگی اب دوسرا مقام جہاں وہ دن کو رہتا ہے اگر اس پہلے مقام سے سفر کی مسافت پر ہے تو وہاں جانے سے مسافر ہوجائے گا ورنہ مقیم رہے گا اور اگر ایک مقام دوسرے مقام سے اس قدر قریب ہو کہ ایک جگہ کی اذان کی آواز دوسری جگہ جاسکتی ہے۔ تو وہ دونوں مقام ایک ہی سمجھے جائیں گے اور دونوں جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کے ارادے سے مقیم ہوجائے گا۔ (٢) مقیم کی اقتداء مسافر کے پیچھے ہر حال میں درست ہے خواہ اداء نماز ہو یا قضا، مسافر امام جب دو رکعتیں پڑھ کے سلام پھیر دے تو مقیم مقتدی کو چاہیے کہ اٹھ کر اپنی نماز پوری کرلے اور اس میں قرأت نہ کرے بلکہ چپ کھڑا رہے اس لئے کہ وہ لاحق ہے اور قعدہ اولیٰ اس مقتدی پر بھی فرض ہوگا مسافر امام کے لئے مستحب ہے کہ سلام پھیرنے کے فوراً بعد مقتدیوں کو اپنے مسافر ہونے کی اطلاع یہ کہہ کر دے دے کہ میں مسافر ہوں، مقتدی اپنی نماز پوری کرلیں۔ مسافر بھی مقیم کی اقتداء کرسکتا ہے مگر وقت کے اندر، وقت کے بعد نہیں۔ اس لئے کہ مسافر جب مقیم کی اقتداء کرے گا تو امام کی اتباع میں چار رکعت یہ بھی پڑھے گا اور امام کا قعدہ اولیٰ نفل ہوگا اور اس کا فرض، امام کی تحریمہ قعدہ اولیٰ کے نفل ہونے کے ساتھ ہوگی اور مسافر مقتدی کی اس کی فرضیت کے ساتھ پس فرض نماز پڑھنے والے کی اقتداء نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے ہوئی اور یہ درست نہیں۔ مسافر فجر کی سنتوں کو ترک نہ کرے اور مغرب کی سنت کو بھی ترک کرنا بہتر نہیں ہے اور باقی اور سنتوں کے ترک کا اختیار ہے مگر بہتر یہ ہے کہ اگر چل رہا ہو اور اطمینان نہ ہو تو نہ پڑھے ورنہ پڑھ لے۔ (علم الفقہ)

【2】

رسول اللہ ﷺ کی قصر نماز

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت پڑھی اور ذی الحلیفہ میں عصر کی نماز دو رکعت پڑھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے سفر کا حال بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حج کے لئے مکہ کے سفر کا ارادہ فرمایا تو مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت پڑھی پھر جب مدینہ سے نکلے اور ذوالحلیفہ پہنچے۔ تو وہاں قصر فرمایا اور عصر کی نماز دو رکعت پڑھی ذوالحلیفہ ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تین کوس کے فاصلے پر واقع ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے کہ جب مسافر شرعی اپنے شہر یا گاؤں کے مکانات سے باہر نکل جائے تو قصر نماز پڑھنے لگے۔

【3】

رسول اللہ ﷺ کی قصر نماز

اور حضرت حارثہ ابن وہب خزاعی (رض) فرماتے ہیں کہ سر تاج دو عالم ﷺ نے ہمیں منیٰ میں دو رکعتیں پڑھائیں اور اس موقعہ پر ہم اتنی تعداد میں تھے کہ اس سے پہلے کبھی نہ تھے اور امن کی حالت میں تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح یہ حجۃ الوداع کا ذکر ہے اس موقع پر چونکہ اسلام کی حقانیت و صداقت اکثر دلوں میں اپنا گھر کرچکی تھی اور مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی تھی اس لئے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرام اتنی زیادہ تعداد میں تھے اس سے پہلے کسی موقع پر نہ تھے۔ امن کی حالت میں تھے کا مطلب یہ ہے کہ کفار کے کسی حملے اور ان سے کسی جنگ وغیرہ کا کوئی خوف نہیں تھا۔ بلکہ بہت اطمینان اور سکون کی حالت میں تھے اس کا ذکر بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ قصر کی مشروعیت کفار کے فتنوں کے خوف پر موقوف نہیں ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت سے ظاہری پر معلوم ہوتا ہے بلکہ سفر پر بہر صورت قصر کرنا چاہیے چناچہ اگلی حدیث میں اس کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

【4】

آیت قصر میں خوف کی قید اور اس کی وضاحت

اور حضرت یعلی ابن امیہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) سے عرض کیا کہ اللہ جل شانہ کا ارشاد یہ ہے کہ کم نماز پڑھو (یعنی قصر کرو) اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے ۔ تو اب جب کہ لوگ امن میں ہیں (اور کافروں کے ستانے کا خوف جاتا رہا ہے تو قصر کی کیا ضرورت ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا۔ جس پر تمہیں تعجب ہے اسی پر مجھے بھی تعجب ہوا تھا چناچہ میں نے سر تاج دو عالم ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ (نماز میں قصر) اللہ تعالیٰ کا ایک احسان ہے جو تم پر کیا گیا ہے لہٰذا تم اس کا صدقہ (یعنی احسان) قبول کرو۔ (صحیح مسلم) تشریح مسافر کے لئے نماز میں قصر کی اجازت کے بارے میں جو آیت نازل ہوئی تھی اور جس کا ایک جز یہاں حدیث میں نقل کیا گیا ہے وہ پوری یوں ہے۔ آیت ( وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ڰ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا) 4 ۔ النساء 101) اور (مسلمانو ! ) جب تم کہیں سفر کرو، تم تمہارے لئے یہ گناہ نہیں ہے کہ کم (یعنی قصر) نماز پڑھو اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے۔ اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حالت سفر میں قصر کی اجازت اسی وقت ہوگی جب کافروں کے ستانے اور ان کے پریشان کرنے کا خطرہ ہو، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آیت میں خوف کی قید عادت اور اغلب کی اعتبار سے لگائی گئی ہے کہ اکثر مسافروں کو خوف ہوتا ہے خصوصاً اس زمانے میں جب کہ کافر ہر وقت اور ہر موقع پر درپے آزاد ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاقبلوا صدقتہ فرما کر اس طرف اشارہ فرما دیا کہ حالت سفر میں قصر نماز پڑھنے کا حکم صرف کافروں کے خوف کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ بلکہ یہ آسانی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان تمام بندوں پر جو حالت سفر میں ہوتے ہیں۔ ایک احسان ہے جس سے ہر مسافر فیضیاب ہوسکتا ہے خواہ کسی بھی قسم کا کوئی خوف ہو یا نہ ہو۔ فاقبلوا میں حکم وجوب کے لئے ہے یعنی ہر شرعی مسافر کے لئے قصر کرنا واجب ہے اور ضروری ہے چناچہ اس سے حنیفہ کے مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ حالت سفر میں قصر واجب ہے اور قصر نہ کرنا یعنی پوری نماز پڑھنا غیر پسندیدہ ہے۔

【5】

مدت اقامت

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حجتہ الوداع کے موقع پر مدینہ سے مکہ گئے اور آپ ﷺ نے (چار رکعتوں والی نماز کی) دو دو رکعتیں پڑھیں یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آئے۔ حضرت انس (رض) سے پوچھا گیا کہ کیا آپ لوگ مکہ میں کچھ دن ٹھہرے تھے ؟ حضرت انس نے فرمایا کہ (ہاں) ہم لوگ مکہ میں دس دن ٹھہرے تھے۔ (بخاری و صحیح مسلم) تشریح حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ اور آپ کے رفقاء صحابہ کا قیام مکہ میں دس دن اس طرح رہا کہ آپ ﷺ مکہ میں ذی الحجہ کی چار تاریح کو پہنچے تھے اور ارکان حج وغیرہ سے فراغت کے بعد چودہویں ذی الحجہ کی صبح کو وہاں سے مدینہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ بہر حال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالت سفر میں کسی جگہ دس دن ٹھہرنے سے کوئی آدمی مقیم نہیں ہوتا اس کے لئے قصر نماز پڑھنی جائز ہے جب کہ یہ حدیث بظاہر حضرت امام شافعی کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک اگر کوئی آدمی کہیں چار دن سے زیادہ ٹھہرے گا تو پھر اس کے لئے قصر جائز نہیں اسے پوری نماز پڑھنی ضروری ہوگی اس کی پوری تفصیل اگلی حدیث میں آرہی ہے۔

【6】

مدت اقامت

اور حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ (کہیں) سفر پر تشریف لے گئے اور وہاں انیس دن قیام فرمایا (دوران قیام) آپ ﷺ دو دو رکعتیں نماز پڑھتے رہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ بھی جب مکہ اور اپنے (یعنی مدینہ) کے درمیان کہیں انیس دن قیام کرتے ہیں تو دو دو رکعتیں نماز پڑھتے ہیں اور جب اس سے زیادہ ٹھہرتے ہیں تو چار رکعت نماز پڑھتے ہیں۔ (صحیح البخاری ) تشریح فاقام تسعۃ عشر یوما کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ انیس دن بغیر اقامت کے اس طرح ٹھہرے کہ امروز فردا میں وہاں سے روانہ ہوجانے کا ارادہ فرماتے رہے مگر بلاقصد و ارادہ آپ ﷺ کا قیام وہاں انیس دن ہوگیا۔ مگر اس سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے یہ نیتجہ اخذ کیا کہ اگر کوئی آدمی حالت سفر میں کہیں انیس دن ٹھہر جائے تو وہ قصر نماز پڑھ سکتا ہے۔ ہاں انیس دن بعد اس کے لئے قصر جائز نہیں ہوگا اس مسئلے میں حضرت عبداللہ ابن عباس منفرد ہیں اور کسی کا بھی یہ مسلک نہیں ہے۔ مدت اقامت کے سلسلے میں ابتداء باب میں تفصیل کے ساتھ مسئلہ بیان کیا جا چکا ہے۔ اس موقع پر پھر جان لیجئے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی حالت سفر میں کسی جگہ پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تو اس کے لئے قصر جائز نہیں ہے بلکہ وہ پوری نماز پڑھے اور اگر کوئی آدمی پندرہ دن یا پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو قصر نماز پڑھے بلکہ اگر وہ اقامت کی نیت نہ کرے اور آج کل میں وہاں سے روانہ ہونے کا ارادہ کرتا رہے اور اس طرح بلا قصد ارادہ اس کے قیام کا سلسلہ برسوں تک بھی دراز ہوجائے تب بھی وہ قصر نماز پڑھتا رہے امام طحاوی (رح) نے یہی مسئلہ جلیل القدر صحابہ مثلاً حضرت عبداللہ ابن عمر وغیرہ سے نقل کیا ہے۔ حضرت امام محمد نے کتاب الآثار میں نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر آزربائیجان میں چھ مہینے اس طرح ٹھہرے رہے کہ آج کل میں وہاں سے چلنے کا ارادہ کرتے رہے مگر بلا قصد و ارادہ ان کا قیام اس قدر طویل ہوگیا چناچہ وہ اس مدت میں برابر قصر نماز پڑھتے رہے اس موقع پر دیگر صحابہ بھی ان کے ہمراہ تھے اسی طرح حضرت انس بھی مروان کے بیٹے عبدالملک کے ہمراہ شام میں دو مہینے تک بلا قصد ارادہ ٹھہرے رہے اور وہاں دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے۔ اس مسئلے میں حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی جگہ علاوہ دو دن آنے اور جانے کے چار روز سے زیادہ قیام کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ مقیم ہوجاتا ہے اس کے لئے قصر جائز نہیں ہے وہ پوری نماز پڑھے اسی طرح اقامت کی نیت کے بغیر امروز و فردا میں چلنے کا ارادہ کرتے کرتے بلا قصد و ارادہ اٹھارہ دن سے زیادہ ٹھہر جائے تو تب بھی اس کے لئے قصر جائز نہیں ہوگا وہ پوری نماز پڑھے امام شافعی کی فقہ میں یہی معتمد اور صحیح قول ہے۔

【7】

مسافر حالت سفر میں اگر نفل نہ پڑھے تو کوئی مضائقہ نہیں

اور حضرت حفص ابن عاصم فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) مکہ اور مدینہ کے درمیان راستے میں مجھے حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا (جب وقت ہوگیا تو) انہوں نے ہمیں ظہر کی نماز دو رکعت پڑھائیں اور اس کے بعد جب وہ اپنے خیمے میں واپس آئے تو دیکھا کہ لوگ کھڑے ہوئے ہیں انہوں نے پوچھا کہ لوگ یہ کیا کر رہے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ نفل پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر مجھے نفل نماز پڑھنی ہوتی تو میں اپنی فرض نماز پوری نہ پڑھتا (یعنی اگر یہ موقع نفل نماز پڑھنے کا ہوتا تو فرض نمازیں پوری پڑھنی زیادہ اہم ہوتیں مگر جب آسانی کے پیش نظر فرض نماز کو قصر پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے تو نفل نماز کو ترک کرنا ہی اولیٰ ہوگا کیونکہ فرض کو اداء کرنا نفل پڑھنے سے اولیٰ ہے) مجھے رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کا شرف حاصل ہے آپ ﷺ سفر کی حالت میں دو رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، نیز مجھے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان (رض) کی رفاقت کا شرف بھی حاصل ہے ان حضرات میں بھی یہی معمول ہوتا ہے (کہ سفر میں دو رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ تشریح حضرت ابن ملک (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ حالت سفر میں نفل نہ پڑھے جائیں۔ سنت راتبہ نمازوں کا حکم دوسری فصل میں انشاء اللہ مذکور ہوگا۔

【8】

جمع بین الصلوٰتین

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر میں ہوتے تو ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھتے تھے اور (اسی طرح) مغرب و عشاء کی نماز (بھی) ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ (صحیح البخاری ) تشریح حضرات شوافع نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم کو اپنا مستدل بناتے ہوئے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ سفر کی حالت میں جمع بین الصلوٰتین یعنی ظہر و عصر کی نماز ایک ہی وقت میں ایک ساتھ پڑھ لیناجائز ہے خواہ عصر کی نماز ظہر کے وقت پڑھ لی جائے خواہ ظہر کی عصر کے وقت اسی طرح مغرب و عشاء کی نمازوں کو بھی ایک ساتھ پڑھ لینا جائز ہے چاہے مغرب کے وقت عشاء کی نماز پڑھ لی جائے اور چاہے عشاء کی نماز مغرب کے وقت۔ حضرت امام اعطم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک چونکہ جمع بین الصلوٰتین جائز نہیں ہے اس لئے ان کی طرف سے اس حدیث کی جو شوافع کی سب سے بڑی مستدل ہے یہ تاویل کی ہے کہ یہ حدیث جمع صوری پر محمول ہے یعنی رسول اللہ ﷺ ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ اس طرح پڑھتے تھے کہ ظہر کو تو اس کے بالکل آخری وقت پڑھتے اور عصر کی نماز اس کے بالکل ابتدائی وقت میں ادا فرماتے۔ لہٰذا ظاہری صورت کے اعتبار سے تو یہ جمع بین الصلوٰتین ہے۔ کہ آپ ﷺ نے دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھیں لیکن حقیقت میں دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت میں پڑھی جاتی تھیں اسی طرح مغرب کی نماز تاخیر سے بالکل آخری وقت میں پڑھتے اور عشاء کی نماز ابتدائی وقت میں ادا فرماتے۔

【9】

سواری پر نماز پڑھنے کا مسئلہ

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر میں ہوتے تو رات کی نماز علاوہ فرض نماز کے اپنی سواری پر اشارے سے پڑھتے اور سواری کا منہ جس سمت ہوتا اسی سمت آپ ﷺ کا بھی منہ ہوتا نیز نماز وتر بھی آپ ﷺ سواری ہی پر پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح حَیْثُ تَوَجَّھْتُ بِہ کا مطلب یہ ہے کہ کہ جدھر سواری کا منہ ہوتا (ادھر ہی کو آپ ﷺ بھی منہ کئے ہوئے نماز پڑھتے رہتے تھے لیکن تکبیر تحریمہ کے وقت اپنا روئے مبارک بہر صورت قبلے ہی کی طرف رکھتے تھے۔ جیسا کہ حضرت انس (رض) کی روایت سے معلوم ہوگا اشارے سے نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ رکوع اور سجدہ اشارہ سے کرتے تھے نیز یہ کہ آپ ﷺ سجدہ کا جو اشارہ کرتے وہ رکوع کے اشارے سے پست ہوتا تھا۔ اس حدیث سے دو مسئلے مستنبط ہوتے ہیں اول تو یہ کہ سواری پر نفل نماز پڑھنی جائز ہے لیکن فرض نہیں اس حدیث میں اگرچہ رات کی نماز کا ذکر کیا گیا ہے لیکن دوسری روایتوں میں عام نفل نمازوں کا ذکر موجود ہے لہٰذا یہ حکم سنت موکدہ اور اس کے علاوہ دیگر سنن و نوافل نمازوں کو بھی شامل ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ (رح) سے ایک روایت میں ثابت ہے کہ فجر کی سنتوں کے لئے سواری سے اتر جانا مستحب ہے بلکہ ایک دوسری روایت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ فجر کی سنتوں کو سواری سے اتر کر پڑھنا واجب ہے۔ اسی لئے اس نماز کو بغیر کسی عذر کے بیٹھے بیٹھے پڑھنا جائز نہیں ہے فرض نماز سواری پر پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن مندرجہ ذیل اعذار کی صورت میں فرض نماز بھی سواری پر پڑھ لینا جائز ہے۔ (١) کوئی آدمی جنگل میں ہو اور اپنے مال یا اپنی جان کی ہلاکت کا خوف غالب ہو مثلاً یہ ڈر ہو کہ اگر سواری سے اتر کر نماز پڑھنے لگوں گا تو کوئی چور یا راہزن مال و اسباب لے کر چلتا بنے گا یا کوئی درندہ نقصان پہنچائے گا یا قافلے سے بچھڑ جاؤں گا یا راستہ بھول جاؤں (٢) سواری میں کوئی ایسا سرکش جانور ہو یا کوئی ایسی چیز ہو جس پر اترنے کے بعد پھر چڑھنا ممکن نہ ہو۔ (٣) نماز پڑھنے والا اتنا ضعیف اور بوڑھا ہو کہ خود نہ تو سواری سے اتر سکتا ہو اور سواری پر چڑھنے پر قادر ہو اور نہ کوئی ایسا آدمی پاس موجود ہو جو سواری سے اتار سکے اور اس پر چڑھا سکے۔ (٤) زمین پر اتنا کیچڑ ہو کہ اس پر نماز پڑھنا ممکن نہ ہے۔ (٥) یا بارش کا عذر ہو۔ بہر حال ان صورتوں میں فرض نماز بھی سواری پر پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ اعذار اور ضروتیں شرعی و قواعد و قوانین سے مشتثنی ہوتی ہیں۔ جہاں تک رسول اللہ ﷺ کے اس عمل کا تعلق ہے کہ آپ ﷺ وتر کی نماز بھی سواری پر پڑھ لیتے تھے تو اس کے بارے میں امام طحاوی فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ پہلے نماز وتر کے حکم کی تاکید کے پیش نظر اور اس کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے سواری پر وتر کی نماز پڑھ لیتے تھے مگر جب لوگوں کے ذہن میں اس نماز کی تاکید و اہمیت بیٹھ گئی اور اس کے بعد آپ ﷺ نے اس کی اتنی تاکید فرما دی کہ اس کے چھوڑنے کو روا نہیں رکھا تو بعد میں آپ ﷺ وتر کی نماز بھی سواری سے اتر کر زمین پر پڑھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اسی طرح کرتے تھے حضرت امام محمد نے اپنی کتاب موطا میں صحابہ وتابعین کے ایسے بہت آثار نقل کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حضرات وتر کی نماز پڑھنے کے لئے اپنی سواریوں سے اتر جاتے تھے۔ علامہ شمنی فرماتے ہیں کہ نماز فرض کی طرح جنازہ کی نماز، منت مانی ہوئی نماز نذر اور وہ سجدہ تلاوت کہ جس کی آیت سجدہ کی تلاوت زمین پر کی گئی سواری پر جائز نہیں ہے۔ حدیث سے دوسرا مسئلہ یہ مستنبط ہوتا ہے کہ سواری پر نماز پڑھنا سفر کے ساتھ مشروط ہے چناچہ ائمہ جمہور کا یہی مسلک ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ و حضرت امام ابویوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے لیکن حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کا محقق اور صحیح مسلک یہ ہے کہ سواری پر نماز کا جواز نمازی کے شہر سے باہر ہونے کے ساتھ مشروط ہے خواہ مسافر ہو یا نہ ہو، چناچہ اگر کوئی مسافر بھی شہر کے اندر ہو تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کے لئے سواری پر نفل نماز پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن حضرت امام محمد کے نزدیک جائز ہے اگرچہ مکروہ ان کے نزدیک بھی ہے حضرت امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ مسافر شہر کے اندر بھی سواری پر نفل پڑھے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اب اس کے بعد اس میں اختلاف ہے کہ شہر سے کتنے فاصلے پر ہونے کی صورت میں سواری پر نماز پڑھنا جائز ہے چناچہ بعض حضرات کے نزدیک کم سے کم دو فرسخ (چھ میل) شہر سے باہر ہونا ضروری ہے بعض حضرات نے تین فرسخ اور بعض حضرات نے ایک کوس متعین کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ شہر و آبادی کے مکانات سے باہر ہوتے ہی سواری پر نماز نفل پڑھنا جائز ہے جیسا کہ قصر نماز کے جواز کے سلسلے میں قاعدہ ہے۔

【10】

رسول اللہ ﷺ کا نماز قصر نہ پڑھنا

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سب کچھ کیا ہے آپ ﷺ نے (سفر کی حالت میں) کم رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور پوری بھی پڑھی ہیں۔ (شرح النسۃ) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ حالت سفر میں دونوں طریقوں پر عمل فرماتے تھے یعنی چار رکعت والی نماز کی دو رکعتیں بھی پڑھتے تھے اور پوری چار رکعتیں بھی پڑھتے تھے۔ چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کا عمل اسی حدیث پر ہے وہ فرماتے ہیں کہ سفر میں قصر کرنا بھی جائز ہے اور پوری نماز پڑھنا بھی جائز ہے جب کہ حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک سفر میں پوری نماز پڑھنی جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی آدمی قصر نہیں کرے گا بلکہ پوری نماز پڑھے گا تو وہ گنہگار ہوگا۔ یہ حدیث اگرچہ امام شافعی کی دلیل ہے لیکن اہل نظر کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے سلسلہ روایت میں ابراہیم بن یحییٰ کا نام بھی آتا ہے جس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف قرار دی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ صاحب سفر السعادۃ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرتبہ صحت کو پہنچی ہوئی نہیں ہے اور سفر کی حالت میں رسول اللہ ﷺ سے پوری نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے اور دارقطنی اور بیہقی وغیرہ نے جو روایت نقل کی ہے جس سے حالت سفر میں اتمام اور قصر دونوں کا جواز ثابت ہوتا ہے بلکہ دار قطنی نے اس کی صراحت بھی کی ہے کہ اس کی سند صحیح ہے تو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا تعلق حکم اول سے ہوگا یعنی ابتداء میں تو اتمام اور قصر دونوں جائز تھے۔ مگر بعد میں قصر ہی کو ضروری قرار دیدیا گیا۔ یہاں حضرت عائشہ کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس کے ایک معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ حدیث کے پہلے جزء کا تعلق تو ان نمازوں سے ہے جن میں قصر کیا جاتا ہے مثلاً چار رکعتوں والی نماز اور دوسرے جز کا تعلق ان نمازوں سے ہے جن میں قصر ہوتا ہی نہیں جیسے تین یا دو رکعتوں والی نماز یعنی چار رکعتوں والی نماز میں تو قصر کرتے تھے اور تین و دو رکعتوں والی نماز کو پورا کر کے پڑھتے تھے اسی مفہوم کو مراد لینے سے ظاہری معنی و مفہوم سے زیادہ دور جانا نہیں پڑتا کیونکہ قصر و اتمام دونوں ہی اپنی اپنی جگہ مفہوم ہوجاتے ہیں اور یہ تو جیہہ بہت مناسب اور قریب از حقیقت ہے۔ بلا قصد و ارادہ پندرہ دن سے زیادہ قیام کی صورت میں قصر جائز ہے

【11】

رسول اللہ ﷺ کا نماز قصر نہ پڑھنا

اور حضرت عمران ابن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوات میں شامل ہوا ہوں چناچہ فتح مکہ میں (بھی) میں آپ ﷺ کے ہمراہ موجود تھا۔ آپ ﷺ (اس موقع پر) مکہ میں اٹھارہ راتیں مقیم رہے اور (چار رکعتوں کی نماز) دو رکعت پڑھتے رہے اور یہ فرما دیا کرتے تھے کہ اے اہل شہر تم لوگ چار رکعت نماز پڑھو میں مسافر ہوں۔ (صحیح البخاری ) تشریح پہلے بتایا جا چکا ہے کہ کسی جگہ بلا قصد و ارادہ پندرہ روز سے زیادہ بھی قیام کی صورت میں مسافر نماز قصر پڑھ سکتا ہے چناچہ فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں آپ ﷺ کا قیام اٹھارہ راتیں رہا۔ آپ ﷺ آج کل میں وہاں سے روانگی کا پروگرام بناتے رہے مگر قیام بغیر قصد و ارادہ کے اتنا طویل ہوگیا چناچہ آپ ﷺ قصر نماز پڑھتے رہے چونکہ مکہ کے قیام کے دوران آپ ﷺ ہی امامت فرماتے تھے۔ اس لئے آپ اپنی دو رکعتیں پوری کر کے سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں کو فرما دیا کرتے تھے کہ اہل شہر چار رکعت نماز پوری کرو میں مسافر ہوں چناچہ مسافر امام کے لئے مقیم مقتدیوں کو اس طرح مطلع کردینا مستحب ہے۔ اسی حدیث سے معلوم ہوگیا کہ اگر مقیم مسافر کی اقتداء کرے تو اس کے لئے چار رکعت نماز پوری پڑھنی ضروری ہے امام کی متابعت میں دو رکعتیں ہی پڑھنی جائز نہیں ہے ہاں اگر مسافر مقیم کی اقتداء کرے تو اس کو متابعت کے پیش نظر چار رکعتیں ہی پڑھنی چاہیے۔

【12】

قصر صرف چار رکعتوں والی نمازوں ہی میں جائز ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سفر کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ظہر کی دو رکعتیں اور اس کے بعد (یعنی سنت کی) دو رکعتیں پڑھی ہیں۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سفر میں بھی نماز پڑھی ہے اور شہر (یعنی حضر) میں بھی، چناچہ میں نے شہر میں تو آپ ﷺ کے ہمراہ ظہر کی چار رکعتیں اور اس کے بعد (سنت کی) دو رکعتیں پڑھی ہیں آپ ﷺ اس نماز میں سفر و شہر میں کوئی (زیادتی) نہیں کرتے تھے اور مغرب ہی کی نماز دن کے وتر (کہلاتے) ہیں اور اس کے بعد (سنت کی) دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ (جامع ترمذی ) تشریح اس حدیث سے یہ بات بصراحت معلوم ہوئی کہ سفر کی حالت میں قصر ان ہی نماوں میں جائز ہے جو چار رکعتوں والی ہیں جیسے ظہر، عصر اور عشاء جو نماز چار رکعت والی نہیں ہیں جیسے مغرب اور فجر ان میں قصر جائز نہیں ہے۔ یہ نمازیں جس طرح حضر میں پڑھی جاتی ہیں اسی طرح انہیں سفر میں پڑھنا چاہیے۔ وھی وتر النھار کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح نماز وتر رات کے وتر ہیں اسی طرح مغرب کی نماز دن کے وتر ہیں گویا اس قول سے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے قول کی تائید ہوتی ہے کہ وتر کی نماز ایک سلام کے ساتھ تین رکعتیں ہیں۔ ابن ملک (رح) نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سنت مؤ کدہ حضر کی طرح سفر میں پڑھنی چاہیے۔ مگر حنفیہ کے ہاں معتمد اور صحیح قول یہ ہے کہ جب مسافر کسی جگہ منزل کرے تو وہاں سنتیں پڑھ لے مگر راستے میں چھوڑ دے نہ پڑھے۔

【13】

جمع بین الصلوٰتین

اور حضرت معاذ ابن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک میں (اسی طرح عمل فرماتے تھے) کہ جب کوچ کرنے سے پہلے دوپہر ڈھل جاتی تو آپ ﷺ ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھ لیتے تھے اور جب آپ ﷺ دوپہر ڈھلنے سے پہلے ہی کوچ فرماتے تو ظہر کی نماز میں تاخیر فرماتے اور عصر کے لئے اترتے (یعنی ظہر و عصر دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھتے) مغرب کی نمازیں ایک ساتھ پڑھتے اور اگر آفتاب غروب ہونے سے پہلے ہی کوچ فرماتے تو نماز مغرب میں تاخیر فرماتے یہاں تک کہ عشاء کی نماز کے لئے اترتے اور (اس وقت) دونوں نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی ) تشریح اس حدیث سے شوافع نے جمع بین الصلوٰ تین کے سلسلے میں جمع تقدیم و جمع تاخیر ثابت کی ہے اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے کہ ان کے نزدیک سفر میں دو نمازوں کو ایک ایک ساتھ پڑھ لینا جائز ہے اور ان دونوں نمازوں کو ان میں سے کسی ایک وقت بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ حنفیہ کے ہاں چونکہ جمع بین الصلوٰتین جائز نہیں ہے اس لئے وہ اس سلسلے میں ابوداؤد کا قول نقل کرتے ہیں کہ وقت سے پہلے ہی نماز پڑھ لینے کے سلسلے میں کوئی بھی حدیث قوی ثابت نہیں ہے۔ گویا ابوداؤد کا یہ قول اس حدیث کے ضعیف ہونے پر دلیل ہے پھر یہ کہ حنفیہ کی دلیل صحیح البخاری و صحیح مسلم کی وہ روایت ہے جو حضرات عبداللہ ابن مسعود (رض) سے منقول ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کوئی بھی نماز غیر مقرر وقت میں پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ لہٰذا ان دونوں حدیثوں کے تعارض کی شکل میں حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کی یہ حدیث ہی راجح ہوگی۔ کیونکہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کے بارے میں اس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے تفقہ اور علم کی زیادتی اور روایت حدیث کے سلسلے میں احتیاط پسندی میں سب سے ممتاز ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کی روایت کردہ حدیث سب سے زیادہ صحیح اور معتمد ہوگی۔

【14】

سواری پر نماز پڑھنا

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے (یعنی شہر سے باہر نکلتے خواہ مسافر ہوتے یا مقیم) اور نماز نفل پڑھتے کا ارادہ فرماتے تو اپنی اونٹنی کا منہ قبلے کی طرف کرتے اور تکبیر تحریمہ کہتے، پھر جس طرف سواری منہ کرتی آپ ﷺ اسی طرف نماز پڑھتے رہتے۔ (سنن ابوداؤد) تشریح امام شافعی (رح) کے نزدیک مذکورہ شکل میں قبلے کی طرف منہ کرنا شرط ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک فرض نماز میں تو شرط ہے مگر نفل نماز میں شرط نہیں ہے یعنی جو عذر (حدیث نمبر ٨ میں) ذکر کئے جا چکے ہیں ان کی وجہ سے اگر سواری پر فرض نماز پڑھی جائے تو قبلہ رو ہو کر تکبیر تحریمہ کہنی ضروری ہے۔

【15】

سواری پر نماز پڑھنا

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے کسی کام سے (کہیں) بھیجا۔ جب میں واپس آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر مشرق کی طرف منہ کئے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور سجدہ رکوع سے پست تر کرتے تھے۔ (ابوداؤد) تشریح حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ آپ رکوع و سجدہ دونوں اشارہ سے کرتے تھے، چناچہ سجدے کے لئے تو زیادہ اور رکوع کے لئے کم جھکتے تھے۔

【16】

حضرت عثمان کا منی میں قصر نہ کرنا

حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں ( چار رکعتوں والی نماز کی) دو رکعت نماز پڑھی ہے آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے بھی دو رکعت نماز پڑھی ہے ان کے بعد حضرت عمر فاروق (رض) نے بھی دو رکعت پڑھی ہے حضرت عثمان غنی (رض) نے بھی ابتدائے خلافت میں تو دو ہی رکعت پڑھی ہے لیکن بعد میں چار رکعت پڑھنے لگے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جب امام (یعنی حضرت عثمان (رض) کے ساتھ) نماز پڑھتے تھے تو چار رکعتیں پڑھتے تھے اور جب اکیلے (یعنی سفر میں) نماز پڑھتے تو دو رکعتیں ہی پڑھتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ کہ رسول اللہ ﷺ اور اپنے زمانہ خلافت میں حضرت ابوبکر و عمر فاروق (رض) جب حج کے لئے سفر کرتے اور منیٰ میں پہنچتے تو وہاں بھی مسافرانہ نماز (یعنی قصر نماز) پڑھتے تھے۔ اسی طرح حضرت عثمان غنی (رض) نے بھی اپنی خلافت کے ابتدائی زمانے میں تو دو ہی رکعت نماز پڑھی ہے مگر بعد میں وہ چار رکعت نماز پڑھنے لگے تھے۔ حضرت عثمان (رض) کے اس عمل کے بارے میں کئی سبب نقل کئے جاتے ہیں چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ اس کی وجہ یا تو یہ تھی کہ وہ مکہ میں متاہل تھے اس کی تائید امام احمد کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں تو لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا، انہوں نے فرمایا کہ لوگو ! میں مکہ میں متاہل یعنی قبیلہ دار ہوں اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی کسی شہر میں متاہل ہو تو وہ مقیم کی طرح نماز پڑھے۔ حضرت عثمان (رض) کے اس عمل پر لوگوں کی حیرت اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں پوری نماز نہیں پڑھتے تھے اور یہ کہ حالت سفر میں قصر لازم ہے ورنہ لوگ حیرت کا اظہار کیوں کرتے۔ حضرت عثمان کے اس عمل کی ایک دوسری توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ موسم حج میں بہت زیادہ مسلمان منیٰ میں جمع ہوتے تھے اور ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جو نو مسلم تھے اور دین کے احکام پوری طرح نہیں جانتے تھے اس لئے حضرت عثمان (رض) ان کو دکھانے کے لئے چار رکعتیں پڑھتے تھے تاکہ ناواقف مسلمان جان لیں کہ نماز کی چار رکعتیں ہیں اگر قصر کرتے اور دو رکعت پڑھتے تو وہ لوگ یہ جانتے کہ دو ہی رکعتیں فرض ہیں۔ یا پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آخر میں حضرت عثمان (رض) کا عمل حضرت عائشہ (رض) کی رائے کے مطابق ہوگیا تھا کیونکہ حضرت عائشہ (رض) کے نزدیک سفر میں قصر اور اتمام دونوں ہی جائز تھے۔

【17】

قصر رخصت سے زیادہ عزیمت ہے

اور حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا (ابتداء سفر و حضر میں) نماز کی دو ہی رکعتیں فرض ہوئی تھیں پھر سر تاج دو عالم ﷺ نے ہجرت فرمائی تو (مقیم کے لئے) چار رکعتیں فرض قرار دیدی گئیں اور حالت سفر میں پہلی ہی دو رکعتیں فرض رہیں۔ زہری فرماتے ہیں کہ میں نے عروہ سے عرض کیا کہ حضرت عائشہ (رض) کو کیا ہوا کہ وہ سفر میں پوری (چار رکعتیں) نماز پڑھتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا وہ بھی ایسی تاویل کرتی ہیں جیسا کہ حضرت عثمان (رض) نے تاویل کی ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں نماز کی دو دو رکعتیں فرض کی گئی تھیں لیکن بعد میں ظہر، عصر و عشاء کی چار چار رکعتیں فرض قرار دیدی گئیں۔ البتہ مغرب کی نماز کو پہلے ہی حکم پر قائم رکھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سفر کی حالت میں چار رکعتیں والی نماز کی دو رکعتیں پڑھنا چار رکعتیں مشروع ہونے کے بعد رخصت نہیں ہے بلکہ اصل میں مشروع ہی چونکہ دو رکعتیں ہیں اس لئے قصر عزیمت یعنی لازم ہے نہ کہ رخصت جس کا مطلب یہ ہوا کہ جس کا جی چاہے قصر کرے اور جس کا جی چاہے پوری نماز پڑھے۔ چناچہ اس سے حضرت امام اعظم (رح) کے مسلک کی تائید ہوتی ہے لہٰذا اگر کوئی حالت سفر میں جب کہ اس پر قصر لازم ہو۔ پوری چار رکعتیں اس طرح پڑھے گا کہ پہلے قعدے میں نہ بیٹھے گا کہ حکما وہی قعدہ اخیر ہے تو اس کی فرض نماز باطل ہوجائے گی۔ حدیث کے آخر الفاظ تاولت کما تاول عثمان کا مطلب یہ ہے جس طرح حضرت عثمان غنی (رض) سفر کی حالت میں چار رکعت نماز پڑھتے تھے اور اپنے اس عمل کی تاویل کرتے تھے اسی طرح حضرت عائشہ (رض) بھی سفر میں چار رکعت نماز پڑھتی تھیں اور اپنے اس عمل کی تاویل کرتی تھیں اب سوال یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی اور (رض) انہیں کی طرح حضرت عائشہ (رض) کی تاویل کیا تھی ؟ تو علماء لکھتے ہیں کہ اس تاویل کے بارے میں صحیح قول یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت عثمان و حضرت عائشہ (رض) دونوں ہی سفر کی حالت میں قصر و اتمام دونوں طرح جائز سمجھتے تھے۔

【18】

قصر اللہ کا حکم ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ جل شانہ نے تمہارے نبی سر تاج دو عالم ﷺ کی زبانی حضر میں چار رکعتیں فرض کی ہیں۔ اور سفر میں دو رکعتیں اور خوف کی حالت میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح وفی السفر رکعتین حنفیہ کی مسلک کی صریح دلیل ہے کہ سفر کی حالت میں دو ہی رکعتیں پڑھی جائیں پوری نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ وفی الخوف رکعۃ (خوف کی حالت میں ایک رکعت فرض ہے) اس کے ظاہری مفہوم پر علماء سلف میں سے ایک جماعت نے عمل کیا ہے جس میں حسن بصری اور اسحق بھی شامل ہیں لیکن جمہور علماء فرماتے ہیں کہ نماز کی رکعتوں کے اعتبار سے امن اور خوف کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے جتنی رکعتیں حالت امن میں پڑھی جاتی ہیں اتنی ہی رکعتیں خوف کی حالت میں بھی پڑھنی چاہئیں ان کی طرف سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دو گانہ حقیقی یا حکمی امام کے ساتھ پڑھنے کے سلسلے میں یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ ایک رکعت تو امام کے ساتھ پڑھی جائے اور ایک رکعت تنہا پڑھی جائے جیسا کہ خوف کی حالت میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام سے نماز پڑھنے کا طریقہ احادیث صحیحہ میں ثابت ہے۔ اور شہر میں مطلقاً خوف کی حالت میں چار رکعتیں اور تین رکعتیں اس طرح پڑھی جائیں کہ امام کے ساتھ دو رکعتیں پڑھی جائیں اور بقیہ تنہا پڑھی جائیں۔ اس کی تفصیل صلوٰۃ الخوف کے باب میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔

【19】

قصر قرآن و سنت سے ثابت ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عباس و حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر کی نماز کے لئے دو رکعتیں مقرر کی ہیں اور وہ ناقص نہیں ہیں پوری ہیں اور سفر میں وتر سنت ہے۔ (ابن ماجہ) تشریح سفر کی حالت میں قصر نماز پڑھنا تو قرآن کریم سے ثابت ہے لہٰذا حدیث کے الفاظ کو رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے قول و فعل سے واضح کیا ہے۔ وھما تمام غیر قصر ( اور وہ ناقص نہیں ہیں پوری ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ سفر کی نماز کے لئے مشروع ہی دو رکعتیں ہیں نہ یہ کہ پہلے چار رکعتیں مشروع تھیں پھر بعد میں دو رکعتیں کم کردی گئی ہیں۔ اور وتر سفر میں سنت ہے۔ یعنی سفر میں نماز وتر پڑھنا سنت سے ثابت ہے یا یہ کہ سفر کی حالت میں نماز وتر پڑھنا اسلام کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے یہ مفہوم وجوب وتر کے منافی نہیں ہوگا۔ کیونکہ نماز وتر جس طرح حضر میں واجب ہے اسی طرح سفر میں بھی واجب ہے۔

【20】

مسافت قصر کی حد

اور حضرت امام مالک (رح) راوی ہیں کہ ان کو حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کے بارے میں خبر پہنچی ہے کہ وہ (یعنی حضرت عبداللہ ابن عباس) اس مسافت کے دوران جو مکہ اور طائف مکہ اور عسفان مکہ اور جدہ کے درمیان ہے قصر نماز پڑھتے تھے۔ امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ یہ مسافت چار برید ہے۔ (موطا) تشریح چار برید سولہ فرسخ کے برابر ہیں، ایک فرسخ تین میل کو کہتے ہیں ایک میل (محد ثین کے ہاں) چار ہزار ہاتھ کی مسافت کو کہتے ہیں۔ اس طرح چار برید اڑتالیس میل کی مسافت ہوئی۔ اگر ایک منزل کو بارہ میل کی مسافت مانی جائے تو چار برید کی چار منزلیں ہوئیں۔ بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جن تین مسافتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ یکساں ہوں یعنی جتنی مسافت مکہ اور طائف کے درمیان ہو اتنی ہی مسافت مکہ اور عسفان کے درمیان ہو اسی طرح جتنی مسافتیں ان دونوں کی الگ الگ ہو اتنی ہی مسافت مکہ اور جدہ کے درمیان ہو۔ حالانکہ حقیقت میں یہ تینوں مسافت برابر نہیں ہیں۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے کہ حضرت امام مالک کے قول ذلک اربعۃ برید (یہ مسافت چار برید ہے) کا تعلق آخری مسافت یعنی مکہ اور جدہ کے درمیان کی مسافت ہے کہ مکہ اور جدہ کا درمیانی فاصلہ چار برید ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس کے مذکورہ بالا فعل کے بارے علماء لکھتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں مسافت قصر کی کوئی حد بیان نہیں کی گئی ہے بلکہ مطلقاً سفر ذکر کیا گیا ہے قصر نماز کے باب کی احادیث پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جہاں جہاں بھی قصر نماز کا ذکر کیا گیا ہے اور آپ ﷺ کے قصر نماز پڑھنے کو بیان کیا گیا ہے ان تمام مواقع کی مسافت میں فرق ہے بعض زیادہ کم ہیں اور بعض مسافتیں زیادہ ہے آپ ﷺ کے بعد صحابہ، تابعین اور آئمہ و علماء امت کی آسانی کے لئے اپنے اپنے اجتہاد کے ذریعے اور غور و فکر کے ساتھ مسافت قصر کی حد مقرر کی ہے کہ اس حد سے کم مسافت میں نماز قصر نہیں ہوگی بلکہ پوری ہی پڑھی جائے گی اور اس مسافت یا اس سے زائد مسافت کی صورت میں قصر واجب ہوگا۔ چنانچہ امام شافعی (رح) نے ایک روایت کے مطابق ایک روز کی مسافت اور دوسری روایت کے مطابق دو روز کی مسافت کو مقرر کیا ہے لیکن ان کے مسلک کی کتاب حاوی میں سولہ فرسخ کا تعین کیا گیا ہے اور یہی مسلک حضرت امام مالک و حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ نے مسافت قصر کے سلسلے میں تین منزلیں کی حد مقرر کی ہیں اور ایک منزل اتنی مسافت پر ہو کہ چھوٹے دنوں میں قافلہ صبح کو چل کردو پہر کے بعد منزل پر پہنچ جائے۔ حضرت امام ابویوسف دو روز اور تیسرے روز کے اکثر حصہ کی مسافت کو مسافت قصر قرار دیا ہے۔ اصحاب ظواہر (وہ جماعت جو صرف حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل پیرا ہوتی ہے) نے مطلقاً سفر کا اعتبار کیا ہے یعنی ان کے نزدیک مسافت قصر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے خواہ سفر لمبا ہو یا چھوٹا ہو ہر صورت میں نماز قصر ادا کی جائے گی۔ اس سلسلے میں اگر چاروں ائمہ کے مسلک کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ حقیقت اور نتیجے کے اعتبار سے سب کا یکساں ہی مسلک ہے کیونکہ حنفیہ کے نزدیک مشہور مسلک کے مطابق مسافت قصر (٤٨) میل مقرر ہے، حاوی قول کے مطابق شوافع کے ہاں سولہ فرسخ مقرر ہے اور سولہ فرسخ حساب کے اعتبار سے (٤٧) میل کے برابر ہے اسی طرح حضرت امام مالک و حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے لہٰذا چاروں مسلک میں مسافت قصر (٤٨) میل ہوئی۔ وا اللہ اعلم

【21】

سفر میں نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت براء (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے سر تاج دو عالم ﷺ کے ہمراہ اٹھارہ دن سفر کا شرف حاصل رہا ہے میں نے اس دوران میں یہ کبھی نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ نے زوال آفتاب کے بعد نماز ظہر سے پہلے دو رکعتیں چھوڑی ہوں۔ (ابوداؤد، ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے) تشریح بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ زوال آفتاب کے بعد اور نماز ظہر سے پہلے دو رکعتیں فرض سے پہلے کی سنتیں پڑھتے ہوں گے اور سفر کی وجہ سے چار رکعتوں پر اکتفا کرتے ہوں گے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دو رکعتیں تحیۃ الوضو کی ہوں۔

【22】

سفر میں نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) اپنے صاحبزادے حضرت عبیداللہ کو سفر کی حالت میں نفل پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے اور منع نہیں کرتے تھے۔ (مالک) فائدہ ہو سکتا ہے کہ حضرت عبیداللہ سنت مؤ کدہ پڑھتے ہوں گے۔ یا یہ کہ وہ اس اعتقاد کے باوجود کہ سفر کی حالت میں نفل نماز کو چھوڑ دینا جائز ہے۔ اگر وقت میں وسعت دیکھتے ہوں گے، تو دوسرے نوافل پڑھنے لگتے ہوں گے۔ لہٰذا اس مفہوم کی صورت میں حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کے بارے میں اس روایت کو جس میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنے قافلے کے لوگوں کو سفر میں نفل نماز پڑھنے سے منع کردیا تھا۔ (دیکھئے حدیث نمبر ٦٠) اس بات پر محمول کیا جائے کہ انہوں نے یہ گمان کیا ہوگا، کہ وظائف مثلاً نوافل وغیرہ اس قدر لازم ہیں کہ انہیں سفر کی حالت میں بھی نہ چھوڑنا چاہیے۔ حالانکہ ایسا کوئی حکم نہیں ہے۔ اس لئے حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے ان کو نوافل پڑھنے سے روک کر ان کے اس گمان و خیال کی تردید فرمائی۔ کیونکہ اللہ جل شانہ تو اپنے فضل و کرم سے مسافر بندہ کے نامہ اعمال میں اس عمل کا ثواب بھی لکھتا ہے جو وہ از قسم عبادت حضر ہو یعنی اپنے گھر میں کرتا تھا۔ ورنہ تو جہاں تک نفس نماز کا تعلق ہے اس سے بہتر کون سی مشغولیت ہوسکتی ہے اور بغیر کسی وجہ کے اس کے پڑھنے سے کون روک سکتا ہے۔ جب کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) خود جانتے تھے کہ نماز سے روکنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ ارشاد ربانی ہے آیت (اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْهٰى۔ عَبْدًا اِذَا صَلّٰى 10) 96 ۔ العلق 9) بھلا تم نے اس آدمی کو دیکھا جو منع کرتا ہے (یعنی) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ؟