140. لباس کا بیان

【1】

لباس کا بیان

لباس اصل میں تو مصدر ہے، لیکن استعمال ملبوس کے معنی میں ہوتا ہے، جیسا کہ کتاب کا لفظ مصدر ہونے کے باوجود مکتوب کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے لباس کے ماضی اور مضارع کے صیغے باب علم یعلم سے آتے ہیں، ویسے اس کا مصدر لبس (لام کے پیش کے ساتھ) بھی آتا ہے ! اور لبس جو لام کے زبر کے ساتھ آتا ہے اس کے معنی التباس و خلط کے ہیں جس کا باب ضرب یضرب ہے۔

【2】

حبرہ آنحضرت ﷺ کا پسندیدہ کپڑا تھا

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو سب کپڑوں میں پہننے کے لئے (نہ کہ کسی دوسری ضرورت جیسے بستر پر پچھانے یا کسی کو دینے وغیرہ کے لئے) حبرہ (چادر) سب سے زیادہ پسند تھی۔ (بخاری ومسلم) تشریح حبرہ (با کے زبر کے ساتھ بروزن زغبۃ) ایک خاص قسم کی یمنی چادر کو کہتے ہیں جو اس زمانہ میں بننے والی چادروں میں سب سے عمدہ ہوتی تھی اس چادر میں اکثر سرخ دھاریاں ہوتی تھیں، بعض ایسی بھی ہوتی تھیں جن میں سبز دھاریاں ہوتی تھیں اس کی بناوٹ میں خالص سوت ہوتا تھا۔ علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اس چادر کو اسی وجہ سے پسند فرماتے تھے، جب کہ بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ اس پسندیدگی کا سبب اس کا سبز رنگ ہوتا تھا کیونکہ سبز کپڑا اہل جنت کے ملبوسات میں سے ہے اور یہ بھی منقول ہے کہ آپ ﷺ کو سبز رنگ بہت زیادہ پسند تھا جیسا کہ طبرانی نے اوسط میں اور ابن نسی اور ابونعیم نے محب میں یہ روایت نقل کی ہے کہ۔ انہ کان احب الالوان الیہ الخضرۃ۔ آنحضرت ﷺ کو تمام رنگوں میں سبز رنگ سب سے زیادہ پسند تھا۔ اور بعض حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ اس چادر کو اس لئے پسند فرماتے تھے کہ اس کی دھاریاں سرخ ہوتی تھیں اور سرخ رنگ میل خورا ہوتا ہے۔

【3】

آنحضرت ﷺ کی نقشی چادر

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ (ایک دن) صبح کے وقت سیاہ بالوں کی نقشی چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لے گئے۔ (مسلم) تشریح بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ لفظ مرجل کے بجائے مرحل زیادہ صحیح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس چادر پر اونٹ کے پالان جیسے نقش و نگار تھے۔

【4】

آنحضرت ﷺ نے تنگ آستینوں کا جبہ پہنا ہے

اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک رومی جبہ پہنا جس کی آستین تنگ تھی۔ (بخاری ومسلم) تشریح یہ ایک سفر کے دوران کا واقعہ ہے جب کہ آپ ﷺ نے تنگ آستینوں والا جبہ پہنا، چناچہ ایک اور روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کی آستینیں اتنی تھیں کہ جب آپ ﷺ وضو فرمانے لگے تو وہ آستینیں اوپر چڑھ سکیں۔ اس لئے آپ ﷺ کو اپنے ہاتھوں کو دھونے کے لئے ان آستینون کے نیچے سے نکالنا پڑا۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ اپنے کرتے و جبہ وغیرہ کی آستینیں تنگ بنوانا سفر کے دوران تو مستحب ہے، سفر کے علاوہ (حضر میں) مستحب نہیں ہے کیونکہ صحابہ کرام فراخ آستینیں بنوایا کرتے تھے جب کہ ابن حجر نے یہ کہا ہے کہ اس بارے میں آئمہ کا قول یہ ہے کہ آستینوں کو فراخ رکھنا ایک قسم کی مذموم بدعت ہے، انہوں نے صحابہ کی آستینوں کے فراخ ہونے کے دوسرے معنی لکھے ہیں، جس کی تفصیل ان کی شرح میں دیکھی جاسکتی ہے، لیکن یہ کہا جاسکتا ہے ہے کہ آئمہ کا قول مفرط یعنی حد سے زیادہ فراخی پر محمول ہے اور صحابہ کی آستینوں کے فراخ ہونے کے بارے میں جو کچھ منقول ہے غیر مفرط (یعنی حد کے اندر) پر محمول ہے۔ اسی لئے منتقی میں، جو آئمہ کی کتابوں میں سے ایک کتاب ہے، یہ لکھا ہے کہ آستینوں کو ایک بالشت کے بقدر فراخ رکھنا مستحب ہے۔

【5】

وہ کپڑے جن میں سرکار دو عالم ﷺ نے سفر آخرت اختیار فرمایا

اور حضرت بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت عائشہ (رض) نے ہمیں دکھانے کے لئے ایک پیوند لگی چادر اور ایک موٹا تہبند نکالا اور فرمایا کہ جب رسول کریم ﷺ کی روح مبارک قبض کی گئی تو آپ ﷺ ۔۔۔ ان ہی دو کپڑوں میں تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح آنحضرت ﷺ نے اپنے حق میں یہ دعا کی تھی کہ دعا (اللہم احیینی مسکینا وامتنی مسکینا) یعنی یا اللہ مجھے مسکین (غریب) رکھ کر جلا اور مسکین رکھ کر موت دے۔ تو یہ اس کا اثر تھا کہ جب آپ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے تو آپ ﷺ کے جسم مبارک پر یہ دو انتہائی معمولی کپڑے تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دنیا اور دنیا کے زرق برق سے بےرغبتی و بےاعتنائی ایک پاکیزہ زندگی کا بہترین سرمایہ ہوتا ہے، لہٰذا امت کو لازم ہے کہ ہر خصلت و عادت میں آنحضرت ﷺ کی پیروی کو اختیار کیا جائے۔

【6】

آنحضرت ﷺ کا پچھونا

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا بچھونا جس پر آپ ﷺ سوتے تھے چمڑے کا تھا اور اس میں (روئی کی جگہ) کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ (بخاری ومسلم) تشریح شمائل ترمذی میں حضرت حفصہ (رض) سے جو روایت منقول ہے اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کا بچھونا ٹاٹ کا تھا، لہٰذا ان دونوں روایتوں میں کوئی تضاد و تناقض نہیں، کیوں کہ آپ ﷺ کے پاس کسی زمانہ میں چمڑے کا بچھونا رہا ہوگا اور کسی زمانے میں ٹاٹ کا یا یہ کہ سونے کا بچھونا تو چمڑے کا ہوگا اور بیٹھنے کا بچھونا ٹاٹ کا ہوگا۔

【7】

آنحضرت ﷺ کا تکیہ

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا تکیہ، کہ جس پر آپ ﷺ تکیہ فرماتے تھے چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ (مسلم) تشریح تکیہ کرتے تھے یعنی اس پر ٹیک لگا کر بیٹھتے تھے یا سوتے وقت اس کو سر کے نیچے رکھتے تھے، ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ سونے کے لئے اور آرام کی خاطر، بچھونا اور تکیہ بنانا مستحب ہے، بشرطیکہ عیش و عشرت اور آسودگئی نفس میں انہماک اور اسراف کے طور پر نہ ہو، چناچہ آنحضرت ﷺ تکیہ کو پسند کرتے تھے اور سوتے وقت اس کو سر کے نیچے رکھتے تھے اور اس پر ٹیک لگا کر بیٹھتے بھی تھے، نیز آپ ﷺ فرماتے کہ اگر کوئی شخص تکیہ اور خوشبو دے تو اس کو قبول کرنے سے انکار نہ کرنا چاہئے۔ یہ اور ان جیسی دوسری روایتوں سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا معمول یہ تھا کہ آپ ﷺ دنیا کی زندگی میں زہد و استغناء اختیار کئے ہوئے تھے اور دنیا کی متاع اور لذتوں سے اعراض کرتے تھے اس لئے آپ ﷺ کا لباس بھی موٹے جھوٹے اور پھٹے پرانے کپڑوں پر مشتمل ہوتا تھا، منقول ہے آپ ﷺ کو جیسا بھی لباس میسر آجاتا اس کو پہن لیتے اس میں کسی تکلف و اہتمام کے روادار نہیں ہوتے تھے، البتہ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ آپ ﷺ کے پاس کوئی نفیس و عمدہ کپڑا آگیا، تو بیان جواز کے لئے اس کو بھی زیب تن فرما لیا لیکن پھر فوراً ہی وہ کپڑا کسی دوسرے شخص کو غنایت فرما دیا، لہٰذا عمدہ و نفیس ہی کپڑے پہننے کی قید اپنے اوپر عائد کرلینا، یا عمدہ و نفیس کپڑا پہننے کی عادت اختیار کرلینا اور اس سلسلے میں بیجا تکلف و اہتمام کرنا سنت کے خلاف ہے اگرچہ اصل کے اعتبار سے مباح ہے، لیکن یہ بھی واضح رہے کہ اگر کوئی اچھے کپڑے پہننے کی استطاعت و حیثیت کے باوجود محض بخل اور خست کی بنا پر موٹے جھوٹے اور پھٹے پرانے کپڑے پہننے، یا لوگوں پر اپنے زہد وتقویٰ کا سکہ جمانے کے لئے اور یا حرص و طمع کے تحت لوگوں سے مانگنے کے لئے ریاکاری کے طور پر معمولی قسم کے خستہ و بوسیدہ کپڑے پہنے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی بلکہ بعض ارباب خیر و مشیخت کے بارے میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے اپنی پرہیز گاری اور اپنے بلند مقام روحانیت کو چشم اغیار سے چھپانے کے لئے، یا تحدیث نعمت کے طور پر اپنی خوشحالی کو ظاہر کرنے کے لئے عمدہ اور نفیس کپڑے پہنے۔ حاصل یہ کہ اگر اللہ نے کسی کو خوشحالی کی نعمت عطا کی ہے اور وہ مالی طور پر اچھی حیثیت و استطاعت رکھتا ہے تو اس کو اعلی و نفیس کپڑے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں، بشرطیکہ وہ اسراف وتکبر کی حد کو نہ پہنچے کیونکہ میانہ روی ہر جگہ اور ہر عمل میں محمود و مطلوب ہے۔

【8】

جب آنحضرت ﷺ ہجرت کا حکم سنانے کے لئے ابوبکر (رض) کے گھر تشریف لائے

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ (ہجرت) سے قبل ایک دن جب کہ ہم دوپہر کی گرمی میں اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کسی کہنے والے نے (حضرت ابوبکر (رض) سے) کہا کہ (دیکھو) وہ رسول کریم ﷺ چادر کے کونے سے اپنا سر مبارک چھپائے ہوئے تشریف لا رہے ہیں۔ (بخاری) تشریح آنحضرت ﷺ کا اپنے سر مبارک کو چادر کے کونے سے ڈھانکنا یا تو تمازت و تپش سے بچنے کے لئے تھا، یا آپ ﷺ نے اپنا سر اس لئے ڈھانک رکھا تھا کہ چہرہ چھپا رہے اور لوگ (دشمنان دین) پہچان نہ سکیں۔ یہ حدیث اصل میں اس حدیث کا ایک ٹکڑا ہے جس میں ہجرت نبوی ﷺ کے واقعہ کو بیان کیا گیا ہے کہ (مکہ میں) بیعت العقبہ کے بعد آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کے حکم کے منتظر تھے ادھر حضرت ابوبکر صدیق (رض) اس بات کے درخواست گزار تھے کہ اس سفر میں ان کو رفاقت کا شرف حاصل ہو، چناچہ آنحضرت ﷺ ان سے فرماتے تھے کہ اگر ہجرت کا حکم نازل ہوا تو ایسا ہی ہوگا (کہ اس سفر میں تم ہی رفیق بنو گے) چناچہ ایک دن اچانک ہجرت کا حکم نازل ہوا تو آپ ﷺ دوپہر میں حضرت ابوبکر (رض) کے گھر تشریف لائے اور ان کو بتایا کہ ہجرت کا حکم نازل ہوگیا ہے اور یہ ہدایت ملی ہے کہ میں ہجرت کے لئے مکہ سے نکل جاؤں اور تم میرے رفیق بنو، پھر آنحضرت ﷺ رات میں حضرت ابوبکر (رض) کو لے کر ان کے مکان کی اس کھڑکی سے نکلے جو مکہ کے نشیبی علاقہ میں واقع ثور پہاڑ کی سمت میں تھی اور غار ثور میں جا کر چھپ گئے۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔۔

【9】

گھر میں تین سے زائد بچھونے نہ رکھو

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان سے فرمایا ایک بچھونا مرد کے لئے، دوسرا بچھونا اس کی بیوی کے لئے تیسرا بچھونا مہمان کے لئے اور چوتھا بچھونا شیطان کے لئے ہوتا ہے۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی گھر میں میاں بیوی ہوں اور وہ استطاعت رکھتے ہوں تو ان کو اپنے یہاں تین بستر رکھنے چاہئیں، ایک تو میاں کے لئے، دوسرا بیوی کے لئے کہ شاید کسی وقت بیماری وغیرہ کی وجہ سے وہ تنہا سونا چاہے ورنہ میاں بیوی کو ایک بستر پر سونا اولی ہے اور سنت کے مطابق ہے کیوں کہ آنحضرت ﷺ ازواج مطہرات کے ساتھ سویا کرتے تھے اور تیسرا بستر اس مقصد کے لئے ہو کہ اگر کوئی مہمان آجائے تو وہ رات میں اس پر سوئے، بس یہ تین بستر کافی ہیں ان سے زیادہ جو بھی بستر ہوگا وہ اسراف کی حد میں آئے گا، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر چوتھا بستر ہوگا تو وہ شیطان کے لئے ہوگا، شیطان کی طرف نسبت اسی لئے گئی ہے کہ وہ (چوتھا بستر) یقینا ضرورت و حاجت سے زائد ہوگا اور ضرورت سے زائد چیز کا ہونا فخر و مباحات کے دائرے میں آنے کی وجہ سے مذموم ہے اور ہر مذموم چیز کی نسبت شیطان ہی کی طرف ہوتی ہے، یا اس نسبت کا سبب یہ ہے کہ وہ چوتھا بستر چونکہ ضرورت سے زائد ہوتا ہے اس لئے شیطان اس پر رات گزارتا ہے۔ تاہم یہ واضح رہے کہ جو شخص سخی اور فراخدل ہو اور کرم نواز طبیعت کا مالک ہو اور اس وجہ سے اس کے یہاں مہمانوں کی آمد کثرت سے ہوتی ہو تو اس کے یہاں بستر اور دوسرے اسباب کی زیادتی بظاہر مذموم نہیں ہوگی، مذموم تو وہ زیادتی و کثرت ہوگی جو محض اپنی بڑائی کے اظہار اور مفاخرت کے تحت ہو۔

【10】

از راہ تکبر ٹخنوں سے نیچے پائجامہ وغیرہ لٹکانا حرام ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا، جو غرور وتکبر سے اپنی ازار (یعنی پائجامہ و تہبند) کو (ٹخنوں سے نیچے) لٹکائے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح غرور وتکبر کی قید سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص غرور وتکبر کے بغیر اپنے پائجامے یا تہبند کو ٹخنوں سے لٹکائے تو یہ حرام نہیں، تاہم مکروہ تنزیہی یہ بھی ہے۔ اور کسی عذر کے سبب جیسے سردی یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے پائجامہ و تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا مکروہ تنزیہی بھی نہیں ہے۔

【11】

تکبر کے طور پر کپڑے کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلنا ممنوع ہے

اور حضرت ابن عمر (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص غرور وتکبر کے طور پر اپنے (بدن کے) کپڑے کو زمین پر گھسیٹتا ہوا چلے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف (رحمت و عنایت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح کپڑے میں عمومیت ہے کہ خواہ تہبند ہو یا پائجامہ ہو، خواہ کرتا ہو انگر کھا ہو اور خواہ فرغل ہو یا دوپٹہ ہو ان سب کا یہی حکم ہے۔

【12】

تکبر کے طور پر کپڑے کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلنا ممنوع ہے

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب وقت ایک شخص غرور وتکبر کے طور پر اپنی ازار (یعنی تہبند یا پاجامہ) کو زمین پر گھسیٹتا ہوا چل رہا تھا تو اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا اب وہ قیامت تک (اسی طرح) زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ (بخاری ) ۔ تشریح جس شخص کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ اسی امت کا کوئی فرد ہوگا اور آنحضرت ﷺ نے یہ بات بطور پیشن گوئی کے فرمائی کہ کسی آنے والے زمانہ میں ایسا ہوگا اور چونکہ اس واقعہ کا وقوع پذیر ہونا ایک یقینی امر تھا اس لئے آیت نے اس بات کی خبر دینے کے لئے ماضی کا پیرایہ بیان اختیار فرمایا۔ یا کسی ایسے شخص کا واقعہ ہے جو پچھلی کسی امت میں رہا ہوگا اس اعتبار سے حدیث کا ظاہری مفہوم اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ آپ ﷺ نے ایک گزرے ہوئے واقعہ کی خبر دی بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس شخص سے مراد قارون ہے (لیکن حدیث کے ظاہری مفہوم اور اس شخص کا نام لئے بغیر ذکر کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ شخص قارون کے علاوہ کوئی اور ہوگا۔ )

【13】

لباس میں ضرورت سے زائد کپڑا صرف کرنا ممنوع ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ از قسم ازار (یعنی پائجامہ وغیرہ) کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ ٹخنوں سے نیچے پیر کے جتنے حصہ پر تہبند وغیرہ لٹکا ہوا ہوگا وہ پورا حصہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ عمل یعنی ٹخنے سے نیچے تہبند وغیرہ لٹکانا) ایک مذموم عمل ہے اور دوزخیوں کا کام ہے ٹخنے سے نیچے ازار وغیرہ لٹکانے کے مسئلہ میں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ اس سلسے میں جو احادیث منقول ہیں ان میں زیادہ تر ازار کے لٹکانے کا ذکر ہے اور ازر لٹکانے والے کے حق میں بہت سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ہے یہاں تک کہ ایک روایت کے مطابق نبی کریم ﷺ نے ایک دن ایک شخص کو اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا کہ اس کے پائچے ٹخنوں سے نیچے تھے تو أپ ﷺ نے اس کو دوبارہ وضو کرنے اور نماز لوٹانے کا حکم دیا اسی طرح ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ شعبان کی پندرھویں شب میں سب ( مسلمانوں) کی بخشش کی جاتی ہے علاوہ عاق، مدمن خمر اور مسبل ازار کے کہ ان لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ساری وعیدوں اور ممانعت کا تعلق محض ازار ہی سے نہیں ہے بلکہ سب کپڑوں سے ہے یعنی بدن پر جو بھی کپڑا ضرورت سے زائد اور سنت کے دائرے سے باہر ہوگا اس پر مذکورہ ممانعت کا حکم عائد ہوگا جہاں تک ازار کی تخصیص کا تعلق ہے تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اس زمانہ میں چادر اور ازار عام طور پر لباس ہوتا تھا اس لئے اس کے استعمال کی کثرت کی بنا پر اس کا ذکر کیا گیا ویسے بعض روایتوں میں ازار کے ساتھ دوسرے کپڑوں جیسے قمیص اور پگڑی کا بھی وضاحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے چناچہ آگے دوسری فصل میں حضرت ابن عمر (رض) کی یہ روایت نقل ہوگی کہ الا سبال فی الا زار والقمیص والعمامۃ من جر منھا شیأ خیلا الخ اسی طرح اسی فصل میں ابھی اوپر حضرت ابن عمر (رض) ہی کی جو روایت گزری ہے اس میں مطلق کپڑے کا ذکر ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ لباس میں ضرورت سے زائد کپڑا رکھنے کی ممانعت کا تعلق ہر کپڑے سے ہے بہر حال عزیمت یعنی اولی درجہ یہ ہے کہ ازار یعنی تہبند وپائجامہ کو نصف پنڈلی تک رکھا جائے چناچہ آنحضرت ﷺ اپنا تہبند نصف پنڈلی ہی تک رکھتے تھے البتہ رخصت یعنی اجازت وا سانی کا درجہ ٹخنوں تک ہے کہ تہبند و پائجامے کو زیادہ سے زیادہ ٹخنوں تک رکھا جاسکتا ہے کرتے و قمیص اور عباد شیروانی وغیرہ کے دامن کا بھی یہی حکم ہے اسی طرح قمیص و کرتے وغیرہ کی آستینوں کی مسنون لمبائی یہ ہے کہ وہ بندوست یعنی ہاتھ کے جوڑ تک ہوں عمامہ کا شملہ زیادہ سے زیادہ اتنا چھوڑاجانا چاہئے جو نصف پشت تک رہے جو شملہ لمبائی یا چوڑائی میں اس سے زائدہو گا وہ بدعت اور اس زائد لٹکانے میں شمار ہوگا جو ممنوع ہے چناچہ بعض علاقوں اور شہروں کے لوگ اپنے لباس میں جو زائد از ضرورت کپڑا استعمال کرتے ہیں جیسے ضرورت سے زائد لمبی لمبی آستینوں اور وسیع و عریض دامنوں والے کرتے کئی کئی گز کے پاجامے اور شلواروں اور بڑے بڑے عمامے اور پگڑ کا رواج بعض جگہ پایا جاتا ہے وہ خلاف سنت ہے بلکہ یہ زائد از ضرورت کپڑے صرف کرنا اگر تکبر و غرور کی نیت سے ہوگا تو اس کو حرام کہیں گے اور اگر لوگوں کی دیکھا دیکھی یا کسی رواج کے تحت ہوگا تو اس کو مکروہ کہا جائے گا کپڑوں میں ضرورت سے زائد لمبائی چوڑائی رکھنا عورتوں کے لئے بھی ممنوع ہے لیکن مردوں کی بہ نسبت ایک بالشت کے بقدر زائد ہونا جائز ہے بلکہ اتنی زائد مقدار تو مستحب ہے جو پردہ پوشی کے بقدر ہو جیسا کہ حضرت ام سلمہ (رض) کی روایت سے معلوم ہوگا جو دوسری فصل میں نقل ہوگی

【14】

کپڑے پہننے کے بعض ممنوع طریقے

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص بائیں ہاتھ سے کھائے یا ایک ( پیر میں) جوتا پہن کر چلے اور یہ کہ کپڑے کو بدن پر اس طرح لپیٹ لے کہ دونوں ہاتھ کپڑے کے اندر آجائیں یا بدن پر کوئی ایک کپڑا لپیٹ کر اس طرح گوٹ مار کر بیٹھے کہ اس کا ستر کھلا ہوا ہو (مسلم) تشریح بائیں ہاتھ سے کھانے کی ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور بعض حضرات کے نزدیک تحریمی کے طور پر ہے ایک پیر میں جوتا پہن کر چلنا ایک طرح کی بد ہئیتی ہے اور وقار کے خلاف ہے دوسرے اگر وہ جوتا اونچی ایڑی کا ہوگا تو اس صورت میں قدم کے ڈگمگانے اور زمین پر گر پڑنے کا باعث ہوگا لہذا اس سے منع فرمایا گیا کپڑے کو بدن پر اس طرح لپیٹ لے۔۔ الخ۔۔۔ اس کو عربی میں اشتمال الصماء کہتے ہیں اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی ایک کپڑے جیسے چادر وغیرہ کو اس طرح اوڑھے یا بدن پر لپیٹ لے کہ پورا جسم ڈھک جائے کسی طرف سے کھلا نہ رہے دونوں ہاتھ بھی بند ہوجائیں اور کسی طرف سے کپڑے کے اٹھنے کی گنجائش نہ رہے کہ اس سے ہاتھ نکالا جائے اس طرح کوئی کپڑا اوڑھنے یا لپیٹنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ اس صورت میں آدمی ایسا ہوجاتا ہے جیسے اس کو طوق پہنا دیا گیا ہو چناچہ اس کو صماء اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ اعضاء جسم کی نقل و حرکت اور منافذ کو بند کردیتا ہے جیسے صخرہ صمار اس سخت و سپاٹ پتھر کو کہتے ہیں جس میں کوئی سوراخ یا شگاف وغیرہ نہیں ہوتا۔ ابن ہمام نے ہدایہ کی شرح میں لکھا ہے کہ نماز میں اشتمال صماء مکروہ ہے جس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص ایک کپڑے میں اپنا سر اور اپنا پورا بدن اس طرح لپیٹ لے کہ ہاتھ نکلنے کی بھی کوئی جگہ نہ چھوڑے۔ لیکن امام محمد نے اس کراہت کے لئے اس کو شرط قرار دیا ہے کہ اس نے ازار (تہبند) بھی نہ پہن رکھا ہو جب کہ دوسروں کے نزدیک یہ شرط نہیں ہے۔ اور نووی نے شرح مسلم میں یہ لکھا ہے کہ فقہا کے نزدیک اشتمال صماء کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایک کپڑے کو اپنے پورے بدن پر لپیٹ لے اور کوئی دوسرا کپڑا (جیسے تہبند و پاجامہ وغیرہ ) اس کے جسم پر نہ ہو اور پھر اس لپیٹے ہوئے کپڑے کا کوئی کنارہ اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈال لے۔ یہ صورت حرام ہے کیوں کہ اس میں ستر کا کچھ حصہ کھل جاتا ہے۔ حاصل یہ کہ اگر ستر کا کھل جانا یقینی ہو اشتمال صماء حرام ہوگا اور اگر ستر کا کھلنا محض احتمال کا درجہ رکھتا ہو تو مکروہ ہوگا۔ گوٹ مار کر بیٹھنا اس ہیئت میں بیٹھنے کو کہتے ہیں کہ دونوں کو لہوں کو زمین پر ٹیک کر پنڈلیوں کو کھڑا کرے اور دونوں ہاتھ ان کے گرد باندھ لے، یا اس طرح بیٹھ کر کوئی کپڑا پیٹھ اور پنڈلوں پر لپیٹ لے (جب کہ اس کپڑے کے علاوہ اور کوئی کپڑا پہنے ہوئے نہ ہو) چناچہ اس طرح بیٹھنا اس صورت میں ممنوع ہے جب کہ اس کے پاس صرف چادر ہو کہ اگر اس کو اس طرح لپیٹے گا تو ستر کھل جائے گا اور اگر چادر کے علاوہ اس نے کوئی اور کپڑا پہن رکھا ہو تو اس طرح بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ نماز کے علاوہ دوسری حالتوں میں اس طرح بیٹھنا مستحب بھی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ ﷺ خانہ کعبہ کے سامنے ایک چادر میں اور ہاتھوں کے ذریعہ بھی گوٹ مار کر بیٹھے تھے اور اگر چادر اتنی بڑی اور چوڑی ہو کہ اس کو لپٹنے سے ستر کھلنے کا احتمال نہ ہو تو صرف ایک چادر میں بھی اس طرح بیٹھنا جائز ہے۔

【15】

ریشمی کپڑا پہننے والے مرد کے بارے میں وعید

اور حضرت عمر (رض) عنہ، حضرت انس (رض) عنہ، حضرت زبیر (رض) اور حضرت ابوامامہ (رض) (چاروں صحابہ کرام) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ جس شخص نے دنیا میں (غیر مشروع ریشم پہنا وہ آخرت میں ریشم نہیں پہنے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس ارشاد گرامی کا تعلق اس شخص سے ہے جو مردوں کے لئے ریشم کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھتے ہوئے ریشمی کپڑا پہننے یا یہ زجر و تہدید پر محمول ہے اور یا اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ ایسا شخص ایک خاص مدت تک جنت میں داخل ہونے سے پہلے ریشمی کپڑا پہننے سے محروم رہے گا کیوں کہ جنت میں جنتیوں کا لباس ریشمی ہوگا اور حافظ سیوطی کے قول کے مطابق اکثر علماء نے اس حدیث کی یہ تاویل بیان کی ہے کہ جو شخص دنیا میں ریشمی کپڑا پہنے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوگا جو ابتداء ہی میں جائز المرام قرار پا کر جنت میں جائیں گے چناچہ اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد نے حضرت جویرہ (رض) سے نقل کی ہے کہ حدیث (من لبس الحریر فی الدنیا البسہ اللہ یوم القیمۃ ثوبا من نار) ۔ یعنی جس شخص نے دنیا میں ریشمی کپڑا پہنا اس کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آگ کا لباس پہنائے گا۔

【16】

ریشمی کپڑا پہننے والے مرد کے بارے میں وعید

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں وہی شخص ریشم پہنتا ہے جس کے لئے آخرت میں حصہ نہیں ہوتا۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ریشم پہننے والا شخص آخرت کے عقیدہ کا حصہ دار نہیں ہوتا یا یہ کہ دنیا میں ریشم پہننے والے کو آخرت (جنت) میں ریشم پہننا نصیب نہیں ہوگا۔ جیسا کہ اوپر کی حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ لم یلبسہ فی الاخرۃ یعنی وہ آخرت میں ریشم نہیں پہنے گا اس اعتبار سے اس ارشاد گرامی کا مقصد کنایۃً یہ بیان کرنا ہے کہ ایسا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ آیت (ولباسہم فیہا حریر) لہٰذا کافر کے حق میں تو یہ بات بالکل ظاہر ہے البتہ مسلمانوں کے حق میں یہ بات بطریق تغلیظ کے ہوگی کہ اس بات کے ذریعہ اس حقیقت کو شدت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ جو مسلمان دنیا میں ریشم پہنے گا وہ شروع میں جنت میں داخل نہیں ہوگا یا یہ کہ وہ اس وقت تک جنت میں نہیں ہوگا جب تک کہ دوسرے بدکاروں کے ساتھ وہ بھی دوزخ کی آگ کے لباس کا عذاب نہ بھگت لے گا۔

【17】

سونے چاندی کے برتن میں کھانا پینا اور ریشمی کپڑے پہننا مردوں کے لئے ناجائز ہے

اور حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں اس سے منع فرمایا کہ ہم سونے چاندی کے برتنوں میں پئیں اور ان میں کھائیں نیز آپ ﷺ نے حریر و دیبا (ایک قسم کا ریشمی کپڑا) پہننے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا۔ (بخاری ومسلم) تشریح سونے چاندی کے برتنوں وغیرہ میں کھانے پینے اور ریشمی کپڑے پہننے کے بارے میں پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہے کہ ریشمی کپڑے کا استعمال جس طرح مردوں کے لئے حرام ہے اسی طرح اس کو بچوں کو بھی پہننا حرام ہے اور پہنانے والوں کو گناہ ہوتا ہے۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ ریشمی کپڑے کو بچھونے میں استعمال کرنا اور اس پر سونا کوئی مضائقہ نہیں رکھتا اسی طرح اگر تکیہ کے غلاف اور پردے ریشمی کپڑے کے ہوں تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ جب کہ حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد نے ان سب کو مکروہ کہا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ (حدیث میں مردوں کے لئے ریشمی کپڑے پہننے اور ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کی جو ممانعت منقول ہے اس میں پہننے کی ممانعت تو متفقہ طور پر سب کے نزدیک تحریم پر محمول ہے لیکن ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کی) ممانعت صاحبین کے نزدیک تو تحریم ہی پر محمول ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک تنزیہہ پر محمول ہے کیونکہ ابھی اوپر ان کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ وہ ریشمی کپڑے کو بچھونے وغیرہ میں استعمال کرنے کے مسئلہ میں یہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جس کا مطلب یہ کہ ان چیزوں میں ریشمی کپڑے کا استعمال بہر حال احتیاط وتقویٰ کے خلاف ہے، کیونکہ کسی عمل کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ ہونے کے شک سے بچنے کے لئے اس عمل کو نہ کرنا ہی بہتر ہے اس خوف کے سبب کہ شاید اس میں کوئی مضائقہ ہو اور یہی معنی اس مشہور حدیث کے بھی ہیں ! دع مالا یریبک الی ما یریبک یعنی اس کام کو چھوڑ دو جس میں شک ہو اور اس کام کو اختیار کرو جس میں شک نہ ہو بہرحال حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کو چونکہ ایسی کوئی دلیل قطعی حاصل نہیں ہوئی جس کی بنیاد پر ریشمی کپڑے پر بیٹھنے یا سونے کو حرام قرار دیا جاسکے اور کپڑے پہننے کی ممانعت میں جو صریح نصوص (یعنی اس کی حرمت کے واضح احکام) منقول ہیں ان کے دائرہ حکم میں ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کا مسئلہ نہیں آتا کیوں کہ پہننا اور بیٹھنا دو الگ الگ چیزیں ہیں کہ پہننے کا اطلاق بیٹھنے پر نہیں ہوسکتا اس لئے انہوں نے اس حدیث میں (ریشمی کپڑے پر بیٹھنے کی ممانعت کو نہی تنزیہہ پر محمول کیا ہے۔

【18】

سونے چاندی کے برتن میں کھانا پینا اور ریشمی کپڑے پہننا مردوں کے لئے ناجائز ہے

اور حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دھاری دار ریشمی جوڑا (جو تہبند اور چادر پر مشتمل تھا بطور ہدیہ پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اس کو میرے پاس بھیج دیا اور میں نے اس کو پہن لیا لیکن میں نے دیکھا کہ (اس جوڑے کو میرے بدن پر دیکھ کر) آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار پیدا ہوگئے ہیں، چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ میں نے اس جوڑے کو تمہارے پاس اس لئے نہیں بھیجا تھا کہ تم اس کو پہن لو بلکہ میں نے تو اس جوڑے کو تمہارے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ تم اس کو پھاڑ کر اوڑھنیاں بنا لو اور ان اوڑھنیوں کو عورتوں میں تقسیم کردو۔ (بخاری ومسلم) تشریح آنحضرت ﷺ نے جب اس جوڑے کو حضرت علی (رض) کے پاس بھیجا تو وہ یہ سمجھے کہ آپ ﷺ نے اس جوڑے کو میرے پہننے کے لئے بھیجا ہے کیونکہ اس کا پہننا جائز نہ ہوتا تو آپ ﷺ میرے پاس کیوں بھیجتے چناچہ انہوں نے پہن لیا اور جہاں تک آنحضرت ﷺ کا تعلق ہے تو آپ ﷺ کے غصہ کا سبب یہ تھا کہ اس کپڑے میں اکثر حصہ یا سب کا سب ریشم تھا اس صورت میں حضرت علی (رض) نے اس کو پہن کر ایک شرعی حکم کی خلاف ورزی کی، یا یہ کہ اگر اس میں ریشم کم مقدار میں تھا اور اس وجہ سے اگرچہ اس کا پہننا جائز تھا لیکن بہرحال حضرت علی (رض) کی شان یہ نہیں تھی کہ وہ اس کو پہنتے اس لئے آپ ﷺ خفا ہوئے کہ انہوں نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ یہ کپڑا متقی و پرہیز گار لوگوں کا لباس نہیں ہوسکتا۔

【19】

سونے چاندی کے برتن میں کھانا پینا اور ریشمی کپڑے پہننا مردوں کے لئے ناجائز ہے

اور حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ریشم (کے کپْڑے) پہننے سے منع فرمایا علاوہ اتنی (یعنی دو انگشت) مقدار کے اور آنحضرت ﷺ نے (یہ ممانعت بیان فرماتے ہوئے مذکورہ مقدار کو ظاہر کرنے کے لئے اپنی درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی کو اٹھایا اور دونوں کو ملایا (یعنی آپ ﷺ نے ان دونوں انگلیوں کو ملا کر دکھایا اور بتایا کہ اس قدر یعنی دو انگشت کے بقدر ریشمی کپڑا لباس میں ہو تو مباح ہے) (بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے (ملک شام کے ایک شہر) جابیہ میں اپنے خطبہ کے دوران یہ فرمایا کہ رسول کریم ﷺ نے ریشمی کپڑا پہننے سے منع فرمایا ہے علاوہ بقدر دو یا تین اور یا چار انگل کے۔ تشریح پہلی روایت سے مردوں کے لئے ریشمی کپڑے کی مباح مقدار دو انگشت معلوم ہوئی اور دوسری روایت سے معلوم ہوا کہ چار انگشت تک کی مقدار مباح ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ چار انگشت تک کے بقدر ریشمی کپڑا مردوں کے لباس میں استعمال ہو تو جائز ہے چناچہ اکثر علماء کا یہی قول ہے۔

【20】

آنحضرت ﷺ کا طیلسانی جبہ

اور حضرت اسماء بنت ابوبکر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے طیلسانی کا کسروانی جبہ نکالا، اس کے گریبان پر (سبخاف یعنی گوٹ کے طور پر) ریشمی کپڑے کا ٹکڑا سلا ہوا تھا اور اس کی دونوں کشادگیوں پر بھی ریشمی بیل ٹکی ہوئی تھی پھر انہوں نے فرمایا کہ یہ رسول کریم ﷺ کا جبہ ہے جو حضرت عائشہ (رض) کے پاس تھا اور جب ان کی وفات ہوئی تو (حضرت عائشہ (رض) کی میراث سے جو میری بہن تھیں) میرے قبضے میں آگیا رسول کریم ﷺ اس جبہ کو (کبھی کبھی) پہن لیا کرتے تھے، ہم اس کو بیماروں کے لئے دھوتے ہیں (یعنی اس کے دھوئے ہوئے پانی کو بیماروں کو پلاتے ہیں) اور اس کے ذریعہ شفا حاصل کرتے ہیں۔ (مسلم) تشریح طیالس اصل میں طیلسان کی جمع ہے اور طیلسان، ایک دوسری زبان کے لفظ تالسان کا معرب ہے جو ایک خاص قسم کی چادر کو کہتے ہیں، یہ چادر سیاہ رنگ کی ہوتی ہے اور صوف (اون) سے بنتی ہے پہلے زمانہ میں اس چادر کو عام طور پر یہودی لوگ اوڑھا کرتے تھے یہاں حدیث میں جس جبہ (چغہ) کا ذکر کیا گیا ہے وہ اسی چادر کا بنایا گیا تھا اور سیاہ رنگ کا مدور تھا چونکہ اس طرح کا جبہ فارس (ایران) کے بادشاہ خسرو کی طرف منسوب ہوتا تھا اور خسرو کا عربی لفظ کسریٰ یا بعض کے مطابق کسریٰ ہے اس لئے اس جبہ کو کسروانی کہا گیا ہے۔ دونوں کشادگیوں سے مراد جبہ کے وہ دونوں کنارے ہیں جہاں سے جبہ کھلا ہوتا ہے اور جو ایک آگے اور ایک پیچھے ہوتا ہے جیسا کہ عام طور پر بعض جبوں کے آگے اور پیچھے دامن میں چاک کھلے ہوتے ہیں انہی دونوں چاکوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان پر جو سبخاف (گوٹ یا بیل) ٹکی ہوئی تھی وہ ریشم کی تھی۔ حضرت اسماء (رض) نے اس جبہ کو اس لئے نکالا تھا کہ لوگوں کو اس نعمت و برکت کا ان (اسماء (رض) کے پاس ہونا معلوم ہوا اور یہ ظاہر کرنا بھی مقصد تھا کہ اگر جبہ پر اس طرح کی ریشمی سبخاف ٹکی ہوئی ہو تو اس کو پہننا جائز ہے۔ واضح رہے کہ اس حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ریشمی سبخاف لگے ہوئے جبہ کو پہنا ہے جب کہ اسی باب کی دوسری فصل میں عمران بن حصین (رض) سے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ میں ایسا کرتا نہیں پہنتا جس پر ریشمی سبخاف ٹکا ہو۔ لہٰذا ان دونوں روایتوں میں بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے اس کو اس توجیہ کے ذریعہ دور کیا جائے گا کہ حضرت عمران (رض) کی روایت اس صورت پر محمول ہے جب کہ وہ ریشمی سبخاف چار انگشت سے زائد ہو اور یہاں جو روایت نقل کی گئی ہے یہ چار انگشت یا اس سے کم ریشمی سبخاف کے ٹکے ہوئے ہونے پر محمول ہے یا یہ کہ حضرت عمران (رض) کی روایت کا منشاء احتیاط وتقویٰ کی صورت کو بیان کرنا ہے اور حضرت اسماء (رض) کی اس حدیث کا مقصد اصل جواز کو ظاہر کرنا ہے۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ بعض اعتبار سے کرتے میں جبہ کی بہ نسبت زیادہ ٹھاٹ باٹ اور آسودگی کا اظہار ہوتا ہے (اس لئے آنحضرت ﷺ نے ریشمی سبخاف کے ٹکے ہوئے کرتے کو پہننا پسند نہیں فرمایا اور ریشمی سبخاف ٹکا ہوا جبہ پہنا۔ اور اس کے ذریعہ شفا حاصل کرتے ہیں کا مطلب یہ ہے کہ یا تو اس کے دھوئے ہوئے پانی کو بیماروں کو پلاتے ہیں جس سے ان کو شفا ملتی ہے یا اس شفایابی کے مقصد سے اس جبہ کو مریض کے سر پر اور آنکھوں پر رکھتے لگاتے ہیں اور یا اس جبہ کو ہاتھ سے چھو کر یا اس کو بوسہ دے کر اس کی برکت سے شفا حاصل کرتے ہیں۔

【21】

کسی عذر کی بنا پر ریشمی کپڑا پہننا جائز ہے

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت زبیر (رض) اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کو ریشمی کپڑا پہننے کی اجازت دے دی کیونکہ ان کے خارش ہوگئی تھی (اور یہ خارش جوئیں پڑجانے کی وجہ سے تھی جیسا کہ آگے کی روایت سے معلوم ہوگا) (بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت انس (رض) نے بیان کیا کہ ان دونوں (حضرت زبیر اور حضرت عبدالرحمن (رض) نے جوئیں پڑجانے کی شکایت کی تو آنحضرت ﷺ نے ان کو ریشمی کپڑا پہننے کی اجازت دے دی۔ تشریح موجز میں لکھا ہے کہ ریشم اپنی اصل کے اعتبار سے گرم اور مفرح ہوتا ہے اور ریشمی کپڑا پہننے سے جوئیں ختم ہوجاتی ہیں۔

【22】

کسم کا رنگا ہوا کپڑا نہ پہنو

اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ کو کسم کے رنگے ہوئے دو کپڑوں میں دیکھا تو فرمایا کہ۔ یہ کافروں کا لباس ہے (کہ نہ وہ حلال و حرام میں تمیز کرتے ہیں اور نہ مرد و عورت کے لباس میں فرق کرتے ہیں) لہٰذا تم ان کو نہ پہنو۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ میں نے عرض کیا کہ کیا ان کو دھو ڈالوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ (نہیں) بلکہ جلا ڈالو۔ (مسلم) اور حضرت عائشہ (رض) کی روایت خرج النبی ﷺ ذات غداۃ الخ انشاء اللہ ہم مناقب اہل بیت نبوی ﷺ کے باب میں نقل کریں گے۔ تشریح شارحین نے لکھا ہے کہ جلا ڈالنے سے آنحضرت ﷺ کی مراد اس بات کو مبالغہ کے ساتھ بیان کرنا تھا کہ ان کپڑوں کو کسی بھی صورت سے اپنی ملکیت اور اپنے قبضے سے نکال دو ، خواہ اس کو کسی دوسرے کے ہاتھ بیچ دو ، یا کسی کو ہبہ کردو غرض کہ جس طرح بھی ہو ان کو اپنے پاس سے جدا کردو۔ جہاں تک اس باب کا تعلق ہے کہ آپ ﷺ نے ان کپڑوں کو دھو ڈالنے کا حکم کیوں نہیں دیا تو اس کا سبب یہ تھا کہ کسم کا رنگا ہوا کپڑا اگرچہ مردوں کے لئے حرام و مکروہ ہے لیکن عورتوں کے لئے مکروہ نہیں ہے لہٰذا اس کو دھو ڈالنے کی صورت میں گویا اپنے مال کو ناقص کردینا یا ضائع کر ڈالنا تھا اس لئے آپ ﷺ نے مذکورہ حکم کے ذریعہ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ان کپڑوں کو چاہئے اپنی عورتوں کو دے دو چاہے بیچ ڈالو اور چاہے دوسروں کی عورتوں کو ہبہ کردو کہ وہ ان کپڑوں سے فائدہ اٹھائیں۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کو بہ نظر ظاہر یہ حکم دیا گیا اور انہوں نے ان کپڑوں کو جلا دیا۔ اور پھر جب اگلے دن وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کے بارے میں عرض کیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے وہ کپڑے اپنی عورتوں کو کیوں نہیں پہنا دیئے کیونکہ ایسے کپڑوں کا پہننا عورتوں کے لئے درست ہے۔ اس روایت کی بنا پر شارحین نے جلا ڈالنے کو اس کے ظاہری حکم کے خلاف پر محمول کیا ہے اور بعض حضرات نے جو یہ کہا ہے کہ جلا ڈالنے کا حکم اصل میں اس بات کو مبالغہ کے ساتھ بیان کرنا ہے کہ ان کپڑوں سے کسم کے رنگ کو ختم کردیا جائے تو یہ قول روایت کے مفہوم سے بھی مطابقت نہیں رکھتا اور روایت کے بھی خلاف ہے۔ واضح رہے کہ مردوں کو کسم کے رنگے ہوئے کپڑے پہننے کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، بعض علماء اس کو مطلق حرام کہتے ہیں اور بعض حضرات مباح کہتے ہیں اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر کپڑے کو بننے کے بعد کسم میں رنگا گیا ہو تو اس کا پہننا حرام ہوگا اور اگر سوت کو رنگنے کے بعد اس کا کپڑا بنا گیا ہو تو اس کا پہننا مباح ہوگا، بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر اس (کسم) کی بو زائل ہوگئی تو مباح ہوگا ورنہ حرام اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ کسم کے رنگے ہوئے کپڑوں کو مجلسوں وغیرہ میں پہننا تو مکروہ ہے، البتہ اگر گھر میں پہنا جائے تو درست ہے جہاں تک حنیفہ کا تعلق ہے تو ان کے مسلک میں مختار قول یہ ہے کہ کسم کا رنگا ہوا کپڑا پہننا مکروہ تحریمی ہے اور اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ کسم کے علاوہ دوسرے سرخ رنگ کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں شیخ قاسم حنفی نے جو مصر کے متاخرین علماء حنیفہ میں بہت بڑی حیثیت کے مالک گزرے ہیں اور قسطلانی کے استاد ہیں، فتویٰ دیا ہے کہ اصل میں رنگ کے سبب سے ہے لہٰذا ہر سرخ رنگ مردوں کے لئے حرام و مکروہ ہے۔

【23】

کرتے کی فضیلت

اور حضرت ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ تمام کپڑوں میں کرتا سب سے زیادہ پسند تھا۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح کرتے کی پسندیدگی کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو اس کے پہننے سے جسم کے اعضاء اچھی طرح ڈھک جاتے ہیں اور دوسرے وہ بہت ہلکا اور جسم کے لئے آرام دہ ہوتا ہے اور تیسرے یہ کہ کرتا پہننے سے آدمی متواضع و منکسر معلوم ہوتا ہے اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جو چیز آنحضرت ﷺ کو پسندیدہ و مرغوب رہی ہوگی اس میں یقینا وہ اسرار و انوار ہوں گے جو اس کے علاوہ کسی چیز میں نہیں ہونگے جیسا کہ تمام مستحبات کا حکم ہے۔

【24】

آنحضرت ﷺ کے کُرتے اور اس کی آستینوں کی لمبائی

اور حضرت اسماء بنت یزید (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے کرتے کی آستینیں پہنچوں تک (بھی) تھیں۔ (ترمذی، ابوداؤد) ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تشریح بعض روایتوں میں آنحضرت ﷺ کے کرتے کی آستینوں کا ہاتھ کی انگلیوں کے سر تک کی ہونا بھی منقول ہے، اسی طرح بعض روایتوں میں یہ بھی منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ کا کرتا لمبائی میں ٹخنوں سے اونچا تھا۔

【25】

کپڑے کو دائیں طرف سے پہننا شروع کیا جائے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب کرتا پہنتے تو دائیں طرف سے پہننا شروع کرتے۔ (ترمذی) تشریح میامن میمنہ کی جمع ہے جس کے معنی دائیں جانب کے ہیں، حدیث میں یہ لفظ جمع کے صیغہ کے ساتھ اس لئے لایا گیا ہے کہ کرتے کی دائیں جانب کا تعلق آستین اور کرتے کے نیچے تک کی بھی دوسری چیزوں جیسے گلے وغیرہ سے ہے۔

【26】

تہبند وپائجامہ کا نصف ساق تک ہونا اولیٰ ہے

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک مؤمن کے تہبند و پائجامہ کی سب سے بہتر صورت تو یہ ہے کہ وہ آدھی پنڈلیوں تک ہو اور آدھی پنڈلیوں سے ٹخنوں تک (کے درمیان) ہونے میں ( بھی) کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اس (ٹخنے) سے نیچے جو حصہ (لٹکا ہوا) ہوگا وہ دوزخ کی آگ میں لے جائے گا۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ الفاظ تین بار فرمائے۔ اور (پھر فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو (رحمت و عنایت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا جو غرور وتکبر سے اپنے تہبند و پائجامہ کو (ٹخنوں سے) نیچے لٹکائے گا۔ (ابوداؤد، ترمذی ) ۔

【27】

اسبال ہر کپڑے میں ممنوع ہے

اور حضرت سالم اپنے والد (یعنی حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اسبال یعنی لٹکانا، ازار، کُرتے اور عمامے میں سے ہے جو شخص ان (کپڑوں) سے کچھ لٹکا کر غرور وتکبر سے کھینچے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف (بنظر کرم) نہیں دیکھے گا ) ۔ (ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ) تشریح اسبال یعنی کپڑے کو شرعی مقدار سے زائد لٹکانے کی جو حرمت و کراہت منقول ہے اس کا تعلق محض ازار یعنی تہبند و پائجامہ ہی سے نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں بلکہ کرتے اور پگڑی میں کپڑے کا اسراف کرنا اور ان کو شرعی مقدار سے زائد لٹکانا حرام و مکروہ ہے، چناچہ اس مسئلہ کی تفصیلی بحث پہلی فصل میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کے تحت گزر چکی ہے۔

【28】

آنحضرت ﷺ کے صحابہ کی ٹوپیاں

اور حضرت ابوکبشہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ کی ٹوپیاں اس طرح کی ہوتی تھیں کہ وہ سروں سے چپکی رہتی تھیں۔ (ترمذی) نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے۔ تشریح اکثر شارحین نے کہا ہے کہ کمام اصل میں کمہ کی جمع ہے جیسے قبہ کی جمع قباب اور کمہ مدور یعنی گول ٹوپی کو کہتے ہیں۔ اور بطح بطحا کی جمع ہے جس کے معنی ہموار پتھریلی زمین کے ہیں، اس صورت میں حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ صحابہ کرام جو ٹوپیاں استعمال کرتے تھے وہ گول اور پھیلی ہوئی ہوتی تھیں کہ وہ سروں سے چپکی رہتی تھیں نہ کہ ہوا میں اوپر اٹھی ہوئی بلندو دراز جیسے اس زمانہ میں ترکی اور ایرانی ٹوپیاں ہوتی ہیں۔ اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ کمام کمہ کی جمع نہیں بلکہ کم کی جمع ہے جس کے معنی آستین کے ہیں جیسے قف کی جمع قفاف (قف کے معنی بلند زمین کے ہیں ) اس صورت میں بطحا کے معنی فراخ و کشادہ کے ہوں گے، کیونکہ بطحا یعنی ہموار پتھریلی زمین، کشادہ بھی ہوتی ہے، اس طرح حدیث کا مطلب یہ ہوجائے گا کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ اپنے کرتوں میں تنگ آستین نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کے کرتوں کی آستینیں ایک بالشت کے بقدر چوڑی ہوتی تھیں۔

【29】

عورتیں اپنے لباس میں مردوں سے زائد کپڑا رکھ سکتی ہیں

اور حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ جس وقت رسول کریم ﷺ ازار بند (تہبند و پائجامہ) کا حکم بیان فرما رہے تھے (کہ اس کا لٹکانا ممنوع ہے) تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اور عورت (کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ یعنی اگر وہ اپنے ازار کو نیچا نہ رکھے تو اس کا ستر پوری طرح نہیں چھپے گا) آپ ﷺ نے فرمایا عورت اپنا تہبند یا پائجامہ (اپنی آدھی پنڈلیوں یا بعض کے قول کے مطابق اپنے ٹخنوں سے) ایک بالشت نیچا لٹکا سکتی ہے۔ حضرت ام سلمہ (رض) نے عرض کیا کہ اس صورت میں بھی کھلا رہے گا یعنی مثلا اس کی پنڈلیاں زیادہ لمبی ہوں اور وہ اپنی آدھی پنڈلیوں سے ایک بالشت اور نیچے تک اپنا پائجامہ لٹکا لے تب بھی اس کا ستر کھلنے کا احتمال رہے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا (اگر اس صورت میں بھی اس کا ستر کھلا رہے تو ) وہ ایک گز اور نیچے لٹکا لے (گز سے شرعی گز یعنی ایک ہاتھ مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں وہ اپنے پائجامہ وغیرہ کو اتنا نیچے لٹکا سکتی ہے کہ وہ زمین تک پہنچ جائے تاکہ اس کے پیر چھپے رہیں اور وہ ایک بالشت کے بقدر زائد ہو یا ایک گز کے بقدر اس کے بعد آپ ﷺ نے حد سے زیادہ لٹکانے کی ممانعت کو تاکیدا بیان کرنے کے لئے یہ فرمایا کہ) کوئی عورت اس ایک گز سے زیادہ نیچے نہ لٹکائے۔ (مالک، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، ) اور ترمذی نسائی کی ایک روایت میں جو حضرت ابن عمر (رض) سے منقول ہے، یوں ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے یہ کہا کہ اس صورت میں ان کے پیر کھلے رہیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ ہاتھ بھر اور نیچے لٹکا لیں لیکن اس سے زائد نہ لٹکائیں۔

【30】

آنحضرت ﷺ کے کُرتے میں گریبان کس جگہ تھا

اور حضرت معاویہ بن قرہ (رض) اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ (ایک دن) میں نے مزینہ قوم کی ایک جماعت کے ساتھ (جو اسلام قبول کرنے آئی تھی) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا چناچہ اس جماعت کے لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے (اسلام پر بیعت کی، اس وقت آنحضرت ﷺ (اپنے کرتے کی) گھنڈیاں کھولے ہوئے بیٹھے تھے، میں نے (موقع غنیمت جانا اور حصول برکت وسعادت کے لئے) اپنا ہاتھ آپ ﷺ کے کرتے کے گریبان میں ڈال کر مہر نبوت پر ہاتھ پھیرلیا۔ (ابوداؤد ) تشریح آنحضرت ﷺ کے کرتے کا گریبان سینہ مبارک پر تھا، چناچہ اس پر بہت حدیثیں دلالت کرتی ہیں، اسی لئے شیخ جلال الدین سیوطی نے لکھا ہے کہ بعض لوگ جو علم سنت سے بےبہرہ ہیں یہ خیال رکھتے ہیں کرتے کا گریبان سینہ پر رکھنا بدعت ہے یہ قول قطعا بےبنیاد اور بالکل باطل ہے۔

【31】

سفید کپڑے کی فضلیت

اور حضرت سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سفید کپڑے پہنا کرو کیونکہ کہ سفید کپڑے بہت پاک اور زیادہ پاکیزہ و خوش تر ہوتے ہیں اسی طرح اپنے مردوں کو کفن بھی سفید کپڑوں کا دو ۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ ) تشریح سفید کپڑے کو بہت پاک تو اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ سفید کپڑا چونکہ جلد میلا ہوجاتا ہے اس لئے وہ باربار اور بہت دھویا جاتا ہے، اس کے برخلاف رنگین کپڑا چونکہ میل خور ہوتا ہے اس لئے وہ کافی عرصہ کے بعد ہی دھویا جاتا ہے ! اور زیادہ پاکیزہ اس اعتبار سے ہوتا ہے کہ وہ دوسرے رنگوں میں مخلوط نہیں ہوتا، اسی طرح سفید کپڑے کو خوش تر اس سبب سے کہا گیا ہے کہ سلیم الطبع لوگ سفید ہی کپڑے کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں۔ البتہ ضرورت کی صورت میں اس سے خارج ہے۔ جیسے صوفیاء نیلا اور یا کسی اور رنگ کے کپڑے کو اس ضرورت کی بناء پر اختیار کرتے ہیں کہ وہ سفید کپڑے کو باربار دھوئے رہنے پر قادر نہیں ہوتے۔ جہاں تک کفن کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ کفن میں سفید ہی کپڑا دینا افضل ہے کیوں کہ اس وقت مردہ گویا فرشتوں کی مجلس میں حاضر ہوتا ہے جیسے کہ سفید کپڑا پہننا اس شخص کے لئے افضل ہے جو مجلسوں اور محفلوں میں جانا چاہے، مثلاً جمعہ یا جماعت کے لئے مسجد میں اور علماء و اولیاء اللہ کی ملاقات کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہو لیکن بعض حضرات نے کہا ہے کہ عید میں وہ کپڑا پہننا افضل ہے جو زیادہ قیمتی ہو تاکہ اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت کا زیادہ سے زیادہ اظہار ہو سکے چناچہ اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ عیدین اور جمعہ میں سرخ دھاریوں والی چادر اوڑھتے تھے۔

【32】

پگڑی کے شملہ کا مسئلہ

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب عمامہ باندھتے تو اس کا شملہ دونوں مونڈھوں کے درمیان ڈالتے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

【33】

پگڑی کے شملہ کا مسئلہ

اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے مجھ کو عمامہ بندھوایا تو اس کا شملہ میرے آگے اور میرے پیچھے (دونوں طرف) لٹکایا۔ (ابوداؤد) تشریح یعنی آپ ﷺ پگڑی کے دونوں سروں کا شملہ چھوڑ کر ایک کو سینہ اور دوسرے کو پیٹھ پر لٹکایا۔ واضح رہے کہ عمامہ باندھنا سنت ہے اور اس کی فضیلت میں بہت زیادہ حدیثیں منقول ہیں، بلکہ ایک روایت میں جو اگرچہ ضعیف ہے یہاں تک منقول ہے کہ عمامہ باندھ کر پڑھی جانے والی دو رکعتیں بغیر عمامہ کے پڑھی جانے والی ستر رکعتوں سے افضل ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ عمامہ میں شملہ چھوڑنا افضل ہے لیکن دائمی طور پر نہیں چناچہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ ﷺ کبھی تو شملہ چھوڑتے تھے اور کبھی نہیں چھوڑتے تھے، اسی طرح بعض دفعہ آپ ﷺ کے عمامہ کا شملہ آپ ﷺ کی گردن سے نیچے تک لٹکا ہوتا تھا اور بعض دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ عمامہ کا ایک سرا عمامہ ہی میں اڑس دیتے تھے اور دوسرا چھوڑ دیتے تھے نیز آپ ﷺ کے عمامہ کا شملہ اکثر اوقات میں پیٹھ پر پڑا ہوتا تھا اور کبھی کبھی دائیں طرف بھی لٹکا لیتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ عمامہ کے دونوں سروں کا شملہ چھوڑ کر دونوں مونڈھوں کے درمیان یعنی ایک کو سینے پر اور دوسرے کو پیٹھ پر لٹکا لیتے تھے لیکن بائیں طرف لٹکانا چونکہ ثابت نہیں ہے اس لئے بدعت ہے اور کنز میں لکھا ہے کہ شملہ کو مونڈھوں کے درمیان چھوڑنا مستحب ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے شملہ کی لمبائی کم سے کم ایک بالشت اور زیادہ سے زیادہ ہاتھ بھر ہونی چاہئے اس سے زائد لمبا شملہ چھوڑنا بدعت ہے اور اس کے خلاف ورزی ہے جس کے ذریعہ اسبال و اسرف سے منع کیا گیا ہے چناچہ مقررہ حد سے زائد لمبائی اگر غرور وتکبر کے طور پر ہوگی تو وہ حرام شمار ہوگی ورنہ مکروہ اور خلاف سنت ! نیز محمد ثین نے یہ لکھا ہے کہ شملہ چھوڑنے کو صرف نماز کے وقت کے ساتھ مختص کرنا بھی سنت کے خلاف ہے۔ یہ ملحوظ رہے کہ شملہ چھوڑنا فقہی اعتبار سے مستحب ہے جس کا تعلق سنت زائدہ سے ہے سنت ہدی سے نہیں اس لئے اس (شملہ چھوڑنے) کے ترک میں کوئی گناہ یا برائی نہیں ہے اگرچہ اس کو اختیار کرنے میں ثواب و فضیلت ہے، جن حضرات نے شملہ چھوڑنے کو سنت مؤ کدہ کہا ہے ان کا یہ قول ہے تحقیق و روایت کے خلاف ہے۔

【34】

ٹوپی پر عمامہ باندھنا مسلمانوں کی امتیازی علامت ہے

اور حضرت رکانہ (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہمارے اور مشرکوں کے درمیان (ایک) فرق یہ (بھی) ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد درست نہیں۔ تشریح اس حدیث کو ابوداؤد نے بھی روایت کیا ہے لیکن انہوں نے سکوت کیا ہے یعنی انہوں نے یہ نہیں کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد درست نہیں، لہٰذا ہوسکتا ہے کہ اس حدیث کی اسناد اصل کے اعتبار سے درست ہو یا دونوں (ترمذی، ابوداؤد، ) کے نقل کرنے کی وجہ سے اس کو درستی حاصل ہوگئی ہو۔ بہرحال حدیث کی عبارت کے دو معنی محتمل ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ ہم (مسلمان) تو ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں جب کہ مشرک لوگ بغیر ٹوپیوں کے (یعنی ننگے سر پر) عمامہ باندھتے ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ۔ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں جب کہ مشرک لوگ عمامہ باندھتے ہی نہیں صرف ٹوپی پہنتے ہیں۔ شارحین نے لکھا ہے کہ ان دونوں معنوں میں سے پہلے ہی معنی مراد ہیں کیونکہ اس زمانہ کے مشرکین کا عمامہ باندھنا تو تحقیق کے ساتھ معلوم ہے لیکن ان کا صرف ٹوپی پہننا ثابت نہیں ہے (اگرچہ ملا علی قاری نے خدری سے نقل کیا ہے کہ دوسرے معنی بھی مراد لئے جاسکتے ہیں نیز انہوں نے کہا ہے کہ بعض علماء کے قول کے مطابق سنت یہ ہے کہ ٹوپی اور عمامہ استعمال کیا جائے صرف ٹوپی پہننا مشرکین کی علامت ہے۔ )

【35】

سونا اور ریشم عورتوں کے لئے حلال اور مردوں کے لئے حرام ہے

اور حضرت ابوموسی اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ میری امت کی عورتوں کے لئے سونا اور ریشم حلال کیا گیا ہے اور امت کے مردوں پر حرام کیا گیا ہے (ترمذی، نسائی) اور ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح مرد کے لفظ میں بچے (لڑکے) بھی داخل ہیں لیکن بچے چونکہ مکلف نہیں ہیں اس لئے ان کے حق میں ان چیزوں کی حرمت کا تعلق پہنانے والوں سے ہوگا کہ اگر کوئی بچہ ریشم یا سونے، کا زیور پہنے گا تو اس کا گناہ اس کے پہنانے والے پر ہوگا۔ نیز سونے سے مراد سونے کے زیورات ہیں ورنہ سونے چاندی کے برتن کا استعمال جس طرح مردوں کے لئے حرام ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی حرام ہے، اسی طرح چاندی کے زیورات کا حلال ہونا بھی صرف عورتوں کے ساتھ مخصوص ہے علاوہ اس مقدار کے جو مردوں کے لئے بھی حلال ہے جیسے انگوٹھی وغیرہ۔

【36】

نیا کپڑا پہنتے وقت کی دعا

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کوئی نیا کپڑا پہنتے تو اس کا جو نام ہوتا یعنی پگڑی یا کرتا اور یا چادر، وہ نام لیتے اور پھر فرماتے۔ اے اللہ تیرے ہی لئے تعریف ہے کہ تو نے مجھ کو یہ کپڑا پہنایا، اے اللہ میں تجھ سے اس کپڑے کی بھلائی کا طلب گار ہوں (کہ یہ کپڑا میرے بدن پر عافیت سے رہے اس کو کوئی نقصان نہ پہنچے) اور تجھ سے اس چیز کی بھلائی چاہتا ہوں جس کے لئے یہ کپڑا بنایا گیا ہے (یعنی یہ کہ میں یہ کپڑا پہن کر تیری اطاعت کروں) اور میں اس کپڑے کی برائی اور اس چیز کی برائی کی جس کے لئے یہ کپڑا بنایا گیا ہے تیری پناہ چاہتا ہوں (یعنی یہ کہ میں کپڑا پہن کر کوئی گناہ نہ کروں ) ۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح نیا کپڑا پہننے کے بارے میں ابن حبان خطیب اور بغوی نے نقل کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ جب کوئی نیا کپڑا پہننے کا ارادہ کرتے تو اس کو جمعہ کے دن زیب تن فرماتے۔ اس کا جو نام ہوتا الخ یعنی آپ ﷺ اس کپڑے کا نام لیتے خواہ کپڑا عمامہ ہوتا یا کرتا یا چادر اور یا کوئی اور لباس، چناچہ مذکورہ جملہ میں لفظ ثوب سے عمومیت مراد ہے اور خاص طور پر جن کپڑوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ محض تمثیل کے طور پر ہیں۔ وہ نام لیتے یعنی اگر مثلا آپ ﷺ کرتا پہنتے تو اس طرح فرماتے کہ رزقنی اللہ، یا اعطانی اللہ۔ یا کسانی اللہ ہذا القمیص اور پھر اس کے بعد مذکورہ دعا پڑھتے۔

【37】

نیا کپڑا پہنتے وقت کی دعا

اور حضرت معاذ بن انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص کھانا کھائے اور پھر یہ کہے یعنی یہ دعا پڑھے۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ کو یہ کھانا کھلایا اور کھانا بغیر میرے کسی حیلہ اور بغیر میری کسی قوت (کے اثر کے) مجھ تک پہنچایا تو اس کے تمام پہلے (صغیرہ) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ (ترمذی) اور ابوداؤد نے اپنی روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ جو شخص کپڑا پہنے اور پھر یہ کہے۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ کو یہ کپڑا پہنایا اور یہ کپڑا بغیر میرے کسی حیلہ اور بغیر میری کسی قوت (کے اثر کے) مجھ تک پہنچایا۔ تو اس کے تمام اگلے پچھلے (صغیرہ) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔

【38】

پرانے کپڑے کو ضائع مت کرو

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا۔ عائشہ (رض) ! اگر تم ( دنیا و آخرت دونوں جگہ مجھ سے (کامل) اتصال و وابستگی چاہتی ہو تو دنیا کی صرف اتنی ہی چیزوں پر اکتفا کرو جو سوار کے زاد راہ کے برابر ہو اور دولت مندوں کی ہم نشینی اختیار کرنے سے اجتناب کرو، نیز کپڑے کو اس وقت تک پرانا سمجھ کر نہ پھینکو جب تک کہ تم اس کو پیوند (لگا کر پہننے) کے قابل سمجھو۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور یہ حدیث ہم تک صالح ابن حسان کی روایت کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے نہیں پہنچی ہے جب کہ محمد بن اسماعیل (یعنی امام بخاری) نے کہا ہے صالح ابن حسان منکر الحدیث ہیں (یعنی ان کی روایت منکر ہے ) ۔ تشریح جو سوار کے زاد راہ کے برابر ہو۔ اس ارشاد گرامی ﷺ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی صرف اتنی ہی چیزوں پر قناعت کرے جو اس کی زندگی اور مقصد حیات کے لئے ضروری ہوں۔ اس جملہ میں سوار کی تخصیص شاید اس لئے ہے کہ وہ اپنا راستہ تیز گامی سے طے کرتا ہے اور منزل پر جلد پہنچتا ہے جس کی وجہ سے اس کو تھوڑا سا بھی زاد راہ کافی ہوجاتا ہے اس کے برخلاف پیادہ کو چونکہ سفر میں دیر لگتی ہے اس لئے اس کو زاد راہ بھی زیادہ لینا پڑتا ہے۔۔ دولت مندوں کی ہمنشینی سے پچھنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ دنیا دار دولت مندوں کی صحبت و مجالست دنیا اور دنیا کی لذات کے تئیں محبت و خواہشات میں زیادتی اور لہو و لعب میں مشغولیت کا باعث بنتی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت (لاتمدن عینیک) الاّ یہ ایک روایت میں منقول ہے کہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مردوں کی ہمنشینی سے اجتناب کرو عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ وہ کون لوگ ہیں ( جن کو مردہ فرمایا جا رہا ہے اور جن کی ہمنشینی سے بچنے کی تلقین فرمائی جا رہی ہے أپ ﷺ نے فرمایا ( دنیا دار) دولت مند۔ جب تک کہ تم اس کو پیوند کے قابل سمجھو۔ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کپڑا پرانا و بوسیدہ ہوجائے یا وہ پھٹ جائے تو اس سے بےاعتنائی نہ برتو اور اس کو ضائع نہ کرو بلکہ اس کو ٹھیک ٹھاک کر کے اور اس میں پیوند لگا کر کم سے کم ایک بار اور استعمال کرلو۔ اس ارشاد کے ذریعہ گویا اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ اگر اپنے پاس پھٹے پرانے کپڑے ہوں تو (زہد و قناعت کا تقاضا یہ ہے کہ ستر پوشی کے لئے انہی پر اکتفا کیا جائے، چناچہ حضرت عمر فاروق (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی خلافت کے زمانہ میں (جب کہ ان کو دنیا کے ایک عظیم ترین حکمران کی حیثیت حاصل تھی) ایک دن اسی حالت میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ انہوں نے جو تہبند باند ھ رکھا تھا اس میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے۔

【39】

پرانے کپڑے کو ضائع مت کرو

اور حضرت ابوامامہ ابن ایاس ابن ثعلبہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ کیا تم سن نہیں رہے (یعنی اے لوگو ! کان لگا کر سنو ! کپڑے کی بوسیدگی و کہنگی (یعنی لباس کی سادگی) کو اختیار کرنا اور دنیا کی زیب وزینت کو ترک کرنا حسن ایمان کی علامت ہے، کپڑے کی بوسیدگی و کہنگی کو اختیار کرنا اور دنیا کی زیب وزینت کو ترک کرنا حسن ایمان کی علامت ہے۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ لباس کے معاملہ میں زیادہ تکلف و اہتمام سے کام لینا، عورتوں کی طرح اپنے آپ کو سنوارنا اور ہر وقت زیب وزینت کا خیال رکھنا مسلمان مرد کے شایان شان نہیں ہے، اگر اللہ تعالیٰ نے اچھے کپڑے پہننے کی استطاعت عطا کی ہے تو بیشک اپنے لباس میں شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے عمدگی و نفاست کا لحاظ رکھنا اور جائز طریقے سے اچھے کپڑے پہننا کوئی معیوب نہیں ہے لیکن کبھی کبھی پرانا کپڑا بھی پیوند لگا کر پہن لینا بہتر ہے۔ حاصل یہ کہ لباس میں تواضع و انکسار اختیار کرنا اور دنیاوی زیب وزینت سے بچنا اہل ایمان کی اچھی عادتوں میں سے ہے اور حسن ایمان کی علامت ہے کیونکہ آخرت اور آخرت کی زینتوں پر ایمان لانا ہی اس زہد و قناعت کا باعث ہوتا ہے۔

【40】

اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے اعلی لباس پہننا اخروی ذلت کا باعث ہے

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص دنیا میں شہرت کا کپڑا پہنے گا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو ذلت کا کپڑا پہنائے گا۔ (احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ ، ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنی عزت طلبی اور اپنی بڑائی کے اظہار کی غرض سے اعلی و نفیس لباس پہنے یعنی اس کا مقصد یہ ہو کہ لوگ میرے جسم پر اعلی لباس دیکھ کر میری عزت کریں اور مجھے شہرت و بڑائی ملے تو ایسے کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ذلیل و حقیر کپڑا پہنائے گا، یعنی اس کو اس کپڑے کے ذریعہ ذلیل و بےعزت کرے گا اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے دنیا میں ایسا لباس پہنے گا جس سے تواضع اور بےنفسی ظاہر ہوتی ہو (یعنی جس کو دنیا دار لوگ ذلیل و حقیر لباس سمجھتے ہوں اس کو اللہ تعالیٰ عقبی میں عزت و عظمت کا لباس پہنائے گا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ شہرت کے کپڑے سے مراد وہ حرام کپڑے ہیں کہ جن کا پہننا مباح نہیں ہے بعض نے یہ کہا ہے کہ وہ کپڑا مراد ہے جو از راہ تمسخر و مذاق یعنی لوگوں کو ہنسانے کے لئے پہنے، یا وہ کپڑا مراد ہے جو اپنے زہد و پارسائی کے اظہار کے لئے پہنے اسی طرح بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں داراصل اعمال کو کپڑے سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی مراد یہ ہے کہ جو شخص از راہ ریا یعنی محض دکھانے سنانے کے لئے اچھے اعمال کرے تاکہ ان کی وجہ سے دنیا والوں کی شہرت و عزت حاصل ہو تو قیامت کے دن اس کا حشر یہ ہوگا ! بہرحال حدیث کے سیاق کو دیکھتے ہوئے یہ بات بلاشک کہی جاسکتی ہے کہ وہی مراد و مطلب زیادہ صحیح ہے جس کو پہلے بیان کیا گیا ہے۔

【41】

تشبہ بقوم کا ذکر

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ۔ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا اس کا شمار اسی قوم میں ہوگا۔ (احمد، ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو شخص جس قوم و جماعت کی مشابہت اختیار کرے گا اس کو اسی قوم و جماعت جیسی خیر و معصیت ملے گی مثلاً اگر کوئی شخص اپنے لباس واطوار وغیرہ کے ذریعہ کسی غیر مسلم قوم یا فساق و فجار کی مشابہت اختیار کرے گا تو اس کے نامہ اعمال میں وہی گناہ لکھے جائیں گے جو اس غیر مسلم قوم کے لوگوں یا فساق و فجار کو ملتا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے آپ کو علماء و مشائخ اور اولیاء اللہ کے نمونے پر ڈھالے گا کہ انہی جیسے لباس پہنے گا انہی جیسے اطوار اختیار کرے گا اور انہی جیسے اعمال کرے گا تو وہ بھلائی وسعادت کے اعتبار سے انہی کے زمرہ میں شمار ہوگا، اس ارشاد گرامی کے الفاظ بہت جامع وہمہ گیر ہیں جن کے دائرے میں بہت سی باتیں اور بہت سی چیزیں آجاتی ہیں یعنی مشابہت کا مفہوم عمومیت کا حامل ہے کہ مشابہت خواہ اخلاق واطوار میں ہو، یا اطوار میں ہو، یا افعال و کردار میں ہو اور خواہ لباس و طرز رہائش میں ہو اور یا کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، رہنے سہنے اور بولنے چالنے میں ہو سب کا یہی حکم ہے۔

【42】

ترک زیب وزینت آخرت میں بڑائی ملنے کا ذریعہ ہے

اور حضرت سوید بن وہب (رض) نبی کریم ﷺ کے صحابی کے بیٹے سے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص زیب وزینت کے لباس کو پہننا چھوڑ دے باوجودیکہ وہ اس کے پہننے کی استطاعت و حیثیت رکھتا ہو۔ اور ایک روایت میں تواضعا کا لفظ بھی آیا ہے یعنی جو شخص زہد تواضع اور کسر نفسی کے سبب زیب وزینت کا لباس پہننا چھوڑ دے اس کو اللہ تعالیٰ عزت و عظمت کا جوڑا پہنائے گا یعنی اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا لباس عطا کرے گا جو اس کی رفعت و عظمت کا باعث ہوگا یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو دنیا و آخرت دونوں جگہ عزت و عظمت عطا کرے گا جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ جو شخص فروتنی اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو بلند مرتبہ بناتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے نکاح کرے اس کو اللہ تعالیٰ بادشاہت کا تاج عطا فرمائے گا۔ (ابوداؤد، ) اور ترمذی نے اس روایت کا صرف وہ حصہ جس میں لباس کا ذکر ہے حضرت معاذ بن انس (رض) سے نقل کیا ہے۔ تشریح حدیث کے پہلے جز کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اعلی و نفیس کپڑے اور زینت و آرائش کا لباس پہننے کی حیثیت رکھتا ہو لیکن اس کے باوجود یا تو اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے، یا آخرت میں بلند مرتبہ پانے کی تمنا میں اور یا دنیا کی زینت و آرائش کے بےوقعت و حقیر جان کر اعلیٰ لباس پہننا چھوڑ دے تو اس کو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں عزت و عظمت کی دولت سے نوازے گا۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے نکاح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرے جو نہ تو کفو اور عزت میں اس کے برابر اور نہ دولت و ثروت میں اس کی برابری رکھتی ہو اور اس شخص نے اس عورت سے محض اس لئے نکاح کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا خوشنودی چاہتا تھا یا وہ اپنے نفس کو بدکاریوں کے فتنہ سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا اور اس کا مقصد دین کی محافظت اور طلب و بقانسل تھا۔ اس کو اللہ تعالیٰ بادشاہت کا تاج عطا فرمائے گا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اس عمل پر اس کو جنت میں بادشاہی عزت و عظمت کا تاج پہنائے گا یا یہ جملہ عزت و توقیر سے کنایہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس کو دنیا و آخرت میں عزت و توقیر عطا فرمائے گا روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ امام ترمذی نے اس حدیث کو معاذ بن انس (رض) سے نقل کیا ہو اور صرف وہ حصہ نقل کیا ہے جس میں لباس کا ذکر ہے، حدیث کا دوسرا جز کہ جس میں نکاح کا ذکر ہے انہوں نے نقل نہیں کیا۔

【43】

حق تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا اظہار ایک مطلوب عمل ہے

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی نعمت کا اثر اس کے بندے پر دیکھا جائے۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو مادی نعمت عطا کرے تو چاہئے کہ وہ اس کو ظاہر کرے مثلاً وہ اپنی حیثیت کے مطابق اور مبالغہ و اسراف کی حد تک جائے بغیر اچھے کپڑے پہنے، لیکن اس کو خوش پوشا کی کسی غرور وتکبر اور اتراہٹ کے جذبہ سے نہیں ہونی چاہئے بلکہ شکر گزاری کی نیت سے ہونی چاہئے تاکہ فقراء محتاج، زکوٰۃ صدقات لینے کے لئے اس کی طرف رجوع کریں، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی دی ہوئی نعمت کو چھپانا اچھا نہیں ہے بلکہ کفران نعمت کا موجب ہے اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے کو روحانی نعمت جیسے علم و فضل کی دولت اور بزرگی و شخصیت عطا فرمائے تو اس کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے سامنے اس نعمت کا اظہار کرے تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ اوپر کی حدیث میں تو ترک زینت کی طرف راغب کیا گیا ہے۔ اور اس حدیث میں خوش پوشا کی کی ذریعہ گویا زیب وزینت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اس صورت میں ان دونوں حدیثوں کے درمیان جو ظاہری تضاد محسوس ہوتا ہے، اس کے دفعیہ کے لئے کیا توجیہ ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ اوپر کی حدیث کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ خوش پوشا کی کی حیثیت و استطاعت نہ ہو، چناچہ اس صورت میں ترک زینت کی طرف راغب کیا گیا ہے تاکہ اگر کسی شخص کو کسی موقع پر خوش پوشا کی کی ضرورت بھی لاحق ہو اور وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس مقصد کی تکمیل کے لئے غیر موزوں تکلیف و اہتمام کر کے اور ناروا زحمت برداشت کر کے اچھے کپڑے حاصل کرنے کی سعی نہ کرے، بلکہ صبر و استقامت کی راہ اختیار کر کے ترک زینت ہی پر عامل رہے اس کے برخلاف جو شخص عمدہ پوشاک پہننے اور لباس کی نفاست و لطافت کو اختیار کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اور وہ اس کے باوجود ترک زینت ہی کو اپنا معمول کی بنا پر پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑے پر قناعت کئے رہے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کیوں کہ اس کی یہ عادت اصل میں بخل و خست پر محمول ہوگی۔

【44】

جسم ولباس کی درستگی اور صفائی ستھرائی پسندیدہ چیز ہے

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ ملاقات کی غرض سے ہمارے پاس تشریف لائے تو وہاں آپ ﷺ نے ایک پراگندہ بال شخص کو دیکھا جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا اس شخص کو وہ چیز یعنی کنگھی وغیرہ میسر نہیں ہے جس کے ذریعہ یہ اپنے بالوں کو درست کرسکے، اسی طرح آپ ﷺ نے ایک ایسے شخص شخص کو دیکھا جس کے بدن پر میلے کچیلے کپڑے تھے تو فرمایا کہ کیا اس شخص کو وہ چیز یعنی صابون یا پانی میسر نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑوں کو دھو ڈالے۔ (احمد، نسائی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جسم کی درستی و نفاست اور لباس کی صفائی و ستھرائی آنحضرت ﷺ کے نزدیک پسندیدہ تھی اور اس کا برعکس ناپسندیدہ مکروہ کیونکہ یہ چیزیں تہذیب و شائستگی کی علامت بھی ہیں اور اسلام کی روح پاکیزگی کے عین مطابق بھی۔ لہٰذا اس ارشاد گرامی البذاذۃ من الایمان (یعنی لباس کی سادگی اور ترک زینت حسن ایمان کی علامت ہے) کی مراد چونکہ موٹے چھوٹے کپڑے پر قناعت کرنا ہے اس لئے یہ بات نہ تو مذکورہ بالا روایت کے منافی ہے اور نہ اس نظافت و پاکیزگی کے خلاف ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ انہا من الذین (یعنی وہ نظافت و پاکیزگی) دین کا ایک جز ہے۔

【45】

اگر اللہ تعالیٰ نے مال و دولت عطا کی ہے تو اس کو اپنی پوشاک سے ظاہر کرو

اور حضرت ابوالاحوص اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں ایک دن رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایسی حالت میں حاضر ہوا کہ میرے بدن پر خراب و خستہ کپڑے تھے آپ صلی اللہ علیہ نے یہ دیکھ کر مجھ سے فرمایا کہ تمہارے پاس مال ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ہر قسم کا مال ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹ گائیں اور بکریاں بھی عطا کی ہیں اور گھوڑا اور غلام بھی دیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتنا زیادہ مال دیا ہے تو اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمت کا اثر ظاہر ہو اور تمہیں اللہ نے جس عزت و عظمت سے نوازا ہے وہ عیاں ہو (نسائی) اور شرح السنہ نے اس روایت کو مصابیح کی روایت سے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے عبادت تو دونوں کی مختلف ہے لیکن دونوں کا مضمون ایک ہی ہے، تشریح مطلب یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتنا کچھ دیا ہے اور تم اچھا لباس پہن سکتے ہو تو پھر تم اچھے کپڑے زیب تن کرو تاکہ لوگ جانیں کہ تم مالدار ہو اللہ کی نعمت کا اظہار کرنے کے لئے خوش پوشا کی اچھے صاف ستھرے اور نئے کپڑے پہننے سے حاصل ہوتی ہے بشرطیکہ وہ کپڑے اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق ہوں اور یہ کہ وہ تو اتنے باریک اور مہین ہوں جس کی ممانعت منقول ہے اور نہ اتنے زیادہ نفیس و عمدہ ہوں جس سے بیجا شان و شوکت کا اظہار ہو اسی طرح وہ کپڑے اوپر تلے یعنی ایک لباس کے اوپر تلے یعنی ایک لباس کے اوپر دوسرا لباس نہ پہنا گیا ہو۔ منقول ہے آنحضرت ﷺ لباس کے تئیں دونوں شہرتوں سے منع فرماتے تھے یعنی باریک کپڑے سے بھی اور موٹے کپڑے سے بھی اور سخت کپڑے سے بھی اور لمبے کپڑے سے بھی اور چھوٹے کپڑے سے بھی۔ الاّ یہ کہ وہ کپڑا درمیانی درجہ کا ہو۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ کپڑے کی کہنگی یعنی کپڑے کا پرانا ہونا اور اس میں پیوند لگا ہوا ہونا ایک پسندیدہ محمود چیز ہے اور افعال ایمان میں سے ہے بشرطیکہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے دنیا میں زہد وفقر اور تواضع و انکسار اختیار کرنے کے مخلصانہ جذبہ سے ہو اور اگر حیثیت و استطاعت کے باوجود یہ (یعنی کپڑے کا پرانا و خستہ و پیوند لگا ہوا ہونا) بخل و خست کی بنا پر ہوگا تو اس کو قبیح و مذموم کہیں گے۔

【46】

مردوں کے لئے سرخ کپڑا پہننا حرام ہے۔

اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص دو سرخ کپڑے پہنے ہوئے گزرا اور نبی کریم ﷺ کو سلام کیا آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح یہ حدیث صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مرد کو سرخ کپڑا پہننا حرام ہے نیز یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو شخص کسی ممنوع چیز کا مرتکب ہو اور وہ سلام کرے تو وہ سلام کا جواب دیئے جانے اور تکریم و توقیر کئے جانے کا مستحق نہیں ہے ! جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے ریشمی کپڑے پر بیٹھنا بھی صاحبین اور تینوں اماموں کے نزدیک مکروہ ہے لیکن حضرت امام اعظم کے نزدیک جائز ہے اور صاحبین کے نزدیک مکروہ ہے۔

【47】

خوشبو کا مسئلہ

اور حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ میں ارغوانی یعنی سرخ رنگ ازین پوش پر سوار نہیں ہوتا نہ میں کسم کا رنگا ہوا کپڑا پہنتا ہوں اور نہ میں ایسا پیرہن (کرتا وغیرہ) پہنتا ہوں جس پر ریشمی سنجاف (یعنی ریشمی گوٹ و بیل وغیرہ) لگی ہو۔ اور پھر فرمایا یاد رکھو ! مرد جو خوشبو لگائیں وہ ایسی ہونی چاہئے جس میں مہک تو ہو رنگ نہ ہو جیسے گلاب اور عطر وغیرہ تاکہ رنگ دار خوشبو لگانے سے کپڑے رنگین نہ ہوجائیں اور عورتیں جو خوشبو لگائیں وہ ایسی ہونی چاہئے جس میں رنگ تو ہو مہک نہ ہو جیسے زعفران و مہندی وغیرہ تاکہ ان کی مہک باہر نکل کر مردوں کے لئے فتنہ و ابتلاء کا سبب نہ بن جائے۔ (ابو داؤد) تشریح ارجوان (الف و جیم کے پیش اور راء کے سکون کے ساتھ) کے معنی ہیں سرخ رنگ کی ریشمی پوش مطلب یہ ہے کہ میں سواری کے کسی ایسے جانور پر نہیں بیٹھتا جس کی زین (پالان) کے اوپر سرخ ریشمی کپڑا پڑا ہو اور نہایہ میں یہ لکھا ہے کہ ارجوان اصل میں ارغوان کا معرب ہے اور ارغوان اس درخت کو کہتے ہیں اور قاموس میں یہ لکھا ہے کہ ارجوان سرخ رنگ کو کہتے ہیں بہرحال ملا علی قاری کے مطابق حدیث میں ارجوان سے مراد سرخ رنگ کا کپڑا ہے خواہ وہ ریشمی ہو یا غیر ریشمی اور گویا یہ ارشاد گرامی اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس حکم کو زیادہ سے زیادہ تاکید کے ساتھ واضح کر رہا ہے کہ مردوں کو سرخ رنگ کا لباس پہننے سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ اگرچہ سوار ہونے پر پہننے کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود أنحضرت ﷺ جب رنگ کے زین پوش پر سوار ہونے سے اجتناب کرتے تھے تو سرخ رنگ کا کپڑا پہننے سے تو آپ ﷺ بطریق اولی اجتناب کرتے ہوں گے اور نہ میں ایسا پیرہن پہنتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ کا مطلب یہ ہے کہ میں ایسا کرتا یا جبہ نہیں پہنتا جس میں ریشمی سنجاف چار انگشت سے زیادہ ہو یا یہ کہ یہ ارشاد گرامی تقویٰ اور احتیاط پر محمول ہے۔ جس میں رنگ تو ہو مہک نہ ہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو اپنے گھر سے باہر نکلتے وقت ایسی کوئی چیز استعمال کرنی درست نہیں ہے جس میں مہک اور خوشبو ہو ہاں۔۔۔۔۔۔ گھر کے اندر رہتے ہوئے اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ حدیث میں خوشبو کے سلسلے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا ظاہری اسلوب بیان خبر کا ہے لیکن معنی میں امر یعنی حکم کے ہے جس کا مطلب یہ ہے جیسا کہ ترجمہ میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ مرد جو خوشبو استعمال کریں اس میں رنگ کی آمیزش نہ ہونی چاہئے، اس کے برخلاف عورت جو خوشبو استعمال کرے اس میں مہک نہ ہونی چاہئے، اسی طرح شمائل ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ مردوں کی خوشبو ایسی چیز ہونی چاہئے جس سے مہک تو نکلتی ہو لیکن اس کا رنگ ظاہر نہ ہو اور عورتوں کی خوشبو ایسی چیز ہونی چاہئے جس کا رنگ تو ظاہر ہو لیکن اس سے مہک نہ نکلتی ہو۔ اس روایت کا مطلب بھی وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے کہ عورت گھر سے باہر نکلتے وقت کوئی ایسی چیز استعمال نہ کرے جس کی مہک پھیلتی ہو کیونکہ اگر یہ مطلب نہ لیا جائے تو عبارت کا مفہوم اس لئے غیر واضح ہوجائے گا کہ کوئی بھی خوشبو بغیر مہک کے نہیں ہوسکتی اس صورت میں اس کی طرف مہک کی نسبت غیر ضروری اور بےفائدہ ہوگی اور اگر یہ کہا جائے کہ کچھ خوشبوئیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں بالکل مہک نہیں ہوتی اور عورتوں کے لئے ایسی ہی خوشبوؤں کا استعمال جائز کیا گیا ہے تو یہ بات بالکل غیر حقیقی اور غیر صحیح ہوگی۔

【48】

دس باتوں کی ممانعت

اور حضرت ابوریحانہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے دس باتوں سے منع فرمایا ہے دانتوں کو تیز کرنے سے، جسم کے کسی حصہ کو گودنے سے، بال اکھاڑ نے سے، مرد کو مرد کے ساتھ سونے سے اگر درمیان میں کپڑا حائل نہ ہو اور آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ مرد اپنے کپڑے کے نیچے ریشم (کا استر) لگائے جیسا کہ عجمی لوگ لگاتے ہیں یا عجمی لوگوں کی طرح مونڈھوں پر ریشمی کپڑا لگائے اور آپ ﷺ نے کسی کا مال لوٹنے سے اور چیتے کی زین پر سونے سے منع فرمایا نیز آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص مہر والی انگوٹھی پہنے الاّ یہ کہ وہ صاحب حکومت ہو۔ (ابوداؤد، نسائی) تشریح عرب میں یہ دستور تھا کہ بوڑھی عورتیں، جوان عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے کے لئے اپنے دانت کے کناروں کو تیز اور باریک کیا کرتی تھیں لہٰذا آپ ﷺ نے اس نے منع فرمایا اسی طرح ایک رواج یہ بھی تھا کہ عورتیں اپنے جسم کے کسی بعض حصوں کو سوئی سے گود کر اس میں نیل یا سرمہ بھر دیتی تھیں (جیسا کہ ہمارے یہاں بھی بعض غیر مسلم میں یہ دستور ہے کہ جسم کے کسی حصہ خاص طور سے ہاتھ پر نام وغیرہ گودتے ہیں) آپ ﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا۔ بال اکھاڑنے سے منع فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ آرائش وزینت کی خاطر داڑھی اور سر کے سفید بال چننا ممنوع ہے یا یہ کہ عورتوں کا اپنے چہرہ یعنی پیشانی کے بال چننا ممنوع ہے ان چیزوں کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اول تو ان سے اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تغیر کرنا لازم آتا ہے دوسرے یہ چیزیں آرائش وزینت کے لئے بےجا اور برے قسم کے تکلفات کا مرتکب ہونے کا باعث ہیں اگرچہ زیب وزینت اختیار کرنا عورتوں کے لئے جائز ہے مگر اس طرح کے مذموم تکلفات ان کے لئے بھی ممنوع ہیں۔ بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں بال اکھاڑنے سے مراد یہ ہے کہ کسی حادثہ و مصیبت کے وقت شدت جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے سر اور داڑھی کے بال نوچنا ممنوع ہے۔ مرد کا مرد کے ساتھ سونے۔۔۔۔۔۔ الخ۔ کا مطلب حدیث کے ظاہری مفہوم کے مطابق تو یہی ہے کہ دو مرد ایک کپڑے (یعنی ایک چادر و لحاف وغیرہ میں ) اس طرح سوئیں کہ دونوں بالکل ننگے ہوں، یا ان کے صرف ستر ڈھکے ہوئے ہوں تو یہ بالکل ممنوع ہے یا یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ اس ممانعت کا تعلق صرف اس صورت سے ہو جب کہ دونوں کے ستر بھی ڈھکے ہوئے نہ ہوں یہی دونوں احتمال عورتوں کے بارے میں بھی ہیں اگر وہ عورتوں کا باہم اس طرح سونا کسی فتنہ و شرانگیزی کا خوف نہ ہو تب بھی یہ صورت تہذیب و شائستگی اور ادب و اخلاق کے منافی اور بےحیائی و بےشرمی کی غماز تو بہر حال ہو ہی گی۔ مرد اپنے کپڑے کے نیچے ریشم کا استر لگائے کا مطلب یہ ہے کہ ریشم کا کپڑا پہننا مرد کے لئے قطعا حرام ہے خواہ وہ کپڑا ایسے لباس کی صورت میں کیوں نہ ہو کہ اس کے اوپر کا حصہ سوتی اور اس کا استر ریشمی ہو یا اس کے اوپر کا حصہ تو ریشمی ہو اور اس کا استر سوتی ہو چناچہ صحیح قول یہی ہے۔ مونڈھوں پر ریشمی کپڑا لگانے کا مطلب یہ ہے کہ کرتے یا جبہ وغیرہ کے مونڈھوں پر بطور سنجاف (بیل) ریشمی کپڑا لگانا یا ریشم کا کام کرنا ایسی صورت میں جائز ہے جب کہ اس کی مقدار چار انگشت تک ہو، چار انگشت سے زائد کی صورت میں ممنوع ہوگا نیز ہوسکتا ہے کہ اس جملہ سے یہ مراد ہو کہ کاندھوں پر دوپٹے کی طرح از راہ تکبر و اتراہٹ ریشمی کپڑا ڈالنا ممنوع ہے۔ چیتے کی کھال کی زین پر سوار ہونے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ اس میں متکبرین کی مشابہت ہے۔ بعض مشائخ نے کہا ہے کہ چوپایوں اور درندوں کی کھال پر بیٹھنے سے ان چوپایوں و درندوں کی خاصیتیں جیسے وحشت و درندگی وغیرہ سرایت کر جاتی ہیں۔ الاّ یہ کہ وہ صاحب حکومت ہو۔ یعنی جیسے بادشاہ، قاضی اور حاکم وغیرہ۔ حاصل یہ کہ مہر والی انگوٹھی کو بلا ضرورت کے محض زینت کی خاطر پہننا مکروہ تنزیہی ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے بایں دلیل کہ حضرت عمر (رض) اور دوسرے خلفاء کے زمانہ میں صحابہ مہر والی انگوٹھی پہنا کرتے تھے اور کوئی اس کو خلاف نہیں کہتا تھا۔

【49】

مردوں کے لئے سونے کی انگوٹھی اور ریشمی کپڑا حرام ہے

اور حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ کو سونے کی انگوٹھی اور قسی کے پہننے سے اور میاثر استعمال کرنے سے منع فرمایا۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی ابن ماجہ، ) اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت علی (رض) نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے ارغوانی یعنی سرخ میاثر استعمال کرنے سے منع فرمایا۔ تشریح مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننا چاروں اماموں کے نزدیک حرام ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بعض صحابہ جیسے حضرت طلحہ، حضرت سعد اور حضرت صہیب (رض) کے بارے میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے سونے کی انگوٹھی پہنی تھی تو اس کا تعلق اس زمانہ سے ہے جب کہ یہ حرمت نافذ نہیں ہوئی تھی۔ قسی اصل میں اس کپڑے کو کہا جاتا تھا جو مصر کے ایک شہر قس میں تیار ہوتا تھا۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ قسی ایک خاص قسم کے کپڑے کو کہا جاتا تھا جس میں ریشمی دھاریاں ہوتی تھیں، اس صورت میں اس ممانعت کا تعلق احتیاط وتقویٰ کی بناء پر نہی تنزیہی سے ہوگا اور حضرت ابن مالک نے کہا ہے کہ مذکورہ ممانعت کا تعلق اس صورت میں سے ہے جب کہ وہ کپڑا یا تو پوری طرح کا ریشم کا ہو یا اس کے بانے میں ریشم ہو اس صورت میں یہ ممانعت نہی تحریمی کے طور پر ہوگی اور طیبی نے یہ کہا ہے کہ قسی جس کپڑے کو کہتے تھے وہ کتان کا ہوتا تھا جس میں ریشم بھی مخلوط ہوتا تھا۔ میاثر مثیر کی جمع ہے جو سرخ رنگ کے زین پوش کو کہتے ہیں اور عام طور پر ریشمی ہوتا تھا چناچہ اس ممانعت کا تعلق بھی اس صورت میں سے ہوگا جب کہ وہ ریشمی ہو، تاہم یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ اس ممانعت کا تعلق اس کے سوتی ہونے کی صورت سے بھی ہو اس صورت میں یہ ممانعت اس کے بیجا قسم شان و شوکت اور اتراہٹ وتکبر میں مبتلا لوگوں کی مشابہت کے مظہر ہونے کی وجہ سے نہی تنزیہی کے طور پر ہوگی۔

【50】

خز اور چیتے کی کھال کے زین پوش پر سوار ہونے کی ممانعت

اور حضرت معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم لوگ خز اور چیتے کی کھال کے زین پوش پر سوار نہ ہوا کرو ( ابوداؤد نسائی) تشریح خز پچھلے زمانہ میں اس کپڑے کو کہتے تھے جو اون اور ریشم ملا کر بنا جاتا تھا اور ایک طرح کے خالص ریشمی کپڑے کو بھی خز کہتے ہیں چناچہ اگر خز سے وہ کپڑا مراد ہو جس میں اون اور ریشم دونوں ہوتے تھے تو ان عجمیوں کی مشابہت کی بنیاد پر جواز راہ تکبر خز کو زین پر ڈالتے تھے نہ ممانعت نہی تنرہیی کے طور پر ہوگی کیونکہ اس خز کا پہننا مباح ہے چناچہ صحابہ اور تابعین اس کو پہنا کرتے تھے اور اگر خز سے مراد خالص ریشمی کپڑا ہو تب یہ ممانعت نہی تحریمی یعنی حرمت کے طور پر ہوگی۔ واضح رہے کہ ایک دوسری روایت میں جو آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی منقول ہے کہ آخر زمانہ میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو خز اور حریر (ریشمی لباس) کو حلال جانیں گے تو اس میں خز سے وہی خالص ریشمی کپڑا مراد ہے۔ چناچہ علماء نے لکھا ہے کہ زمانہ نبوت میں اس کپڑے (یعنی وہ خز جو خالص ریشم کا ہوتا ہے کا وجود نہیں تھا اس صورت میں یہ ارشاد گرامی آپ ﷺ کے معجزہ پر محمول ہوگا کہ آپ ﷺ نے ایک ایسے کپڑے کے بارے میں آگاہ کیا جو بہت بعد کے زمانہ میں وجود پزیر ہونے والا تھا۔

【51】

سرخ زین پوش کی ممانعت

حضرت براء ابن عازب (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سرخ زین پوش سے منع فرمایا ہے۔ (شرح السنۃ)

【52】

آنحضرت ﷺ کے بالوں کی سفیدی

اور حضرت ابورمثہ تیمی (رض) کہتے ہیں کہ جب میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ ﷺ کے بدن پر دو سبز کپڑے تھے یعنی آپ ﷺ نے جو دو کپڑے پہن رکھے تھے وہ یا تو خالص سبز رنگ کے تھے یا ان میں سبز رنگ کی دھاریاں تھیں اور آنحضرت ﷺ کے سر اور داڑھی کے تھوڑے ہی بالوں پر بڑھاپے (یعنی سفیدی) کا غلبہ تھا، نیز آپ کا بڑھاپا سرخ تھا۔ (ترمذی ، ) اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ وفرہ والے تھے اور ان (بالوں) میں مہندی کا رنگ تھا۔ تشریح آنحضرت ﷺ کے سفید بالوں کی مقدار کے بارے میں مختلف روایتیں منقول ہیں، چناچہ ایک روایت میں حضرت انس (رض) کا بیان ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کے سر اور داڑھی کے سفید بالوں کو گنا تو وہ چودہ سے زیادہ نہیں تھے حضرت ابن عمر (رض) کی روایت یہ کہ آنحضرت ﷺ پر بڑھاپے کا اثر تقریبا بیس سفید بالوں سے زیادہ نہیں تھا، اس طرح ایک روایت میں سترہ کی تعداد آئی ہے وفرہ اصل میں سر کے ان بالوں کو کہتے ہیں جو کانوں کی لو تک ہوں لہٰذا آنحضرت ﷺ وفرہ والے تھے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے سر کے بال کان کی لو تک تھے۔ آپ ﷺ کا بڑھاپا سرخ تھا کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے جو چند بال ان پر آپ ﷺ مہدی کا خضاب کئے ہوئے تھے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ سرخ بڑھاپے سے مراد یہ ہے کہ وہ چند بال بھی بالکل سفید نہیں تھے بلکہ مائل بہ سرخی تھے جیسا کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جب بال سفید ہونے لگتے ہیں تو وہ پہلے بھورے ہوتے ہیں اور پھر سفید ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک آنحضرت ﷺ کے خضاب کرنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں محدیثین اور فقہا کے درمیان اختلاف ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خضاب کیا ہے یا نہیں ؟ چناچہ اکثر م حدیثیں یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے خضاب نہیں کیا ہے اور نہ آپ ﷺ کا بڑھاپا سفید بالوں کی اس حد تک پہنچا تھا کہ آپ ﷺ کو خضاب کرنے کی کوئی ضرورت محسوس ہوتی جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے پھر آپ ﷺ کے جو چند بال سفید تھے ان کی بھی صورت یہ تھی کہ اگر آپ ﷺ سر کو تیل لگاتے تو ان بالوں کی سفیدی ظاہر نہیں ہوتی تھی اور جب سر بغیر تیل کے ہوتا تو وہ سفید بال ظاہر رہتے ! اس کے برخلاف فقہاء اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ ﷺ خضاب لگاتے تھے اس کی تفصیل فقہی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ محدثین اس حدیث کے بارے میں جو اوپر نقل ہوئی ہے یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہی مفہوم ہوتا ہے کہ جو چند بال سفید تھے آپ ﷺ صرف انہی پر خضاب کرتے تھے لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ آپ ﷺ ان بالوں پر بھی قصدا خضاب نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ آنحضرت ﷺ اپنے بالوں کو دھونے اور ان کو صاف کرنے کے لئے کبھی کبھی سر میں مہندی ڈال لیا کرتے تھے اسی کی وجہ سے وہ سفید بال رنگین ہوجاتے تھے، ایک روایت میں جو یہ منقول ہے کہ حضرت انس (رض) کے پاس آنحضرت ﷺ کا جو موئے مبارک تھا وہ (دیکھنے والوں کو) ایسا نظر آتا تھا جیسے اس پر مہندی کا خضاب کیا گیا ہو تو اس کے بارے میں محدثین یہ کہتے ہیں کہ بیشک اس بال پر خضاب کا اثر تھا لیکن وہ خضاب آنحضرت ﷺ نے نہیں کیا تھا بلکہ اس کی حقیقت یہ تھی کہ حضرت انس (رض) چونکہ ادب و تعظیم و تبرک کے طور پر اس بال کو خوشبوؤں میں ڈال کر رکھتے تھے اس لئے وہ ان خوشبوؤں کے رنگ کے اثر سے خضاب کے مشابہ نظر آتا تھا یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خود حضرت انس (رض) نے اس بال کی حفاظت و مضبوطی کے لئے اس پر خضاب کردیا ہو اسی طرح بعض روایت میں جو یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ کبھی سرخ خضاب کرتے تھے اور کبھی زرد تو اس کی حقیقیت بھی یہ ہے کہ آپ ﷺ اپنی ریش مبارک کو صفائی و ستھرائی کے لئے مہندی کے ساتھ دھوتے تھے اور کبھی زعفران کے ساتھ چناچہ ریش مبارک کے بال جو بذات خود سیاہ تھے اس طرح دھوئے جانے کی وجہ سے رنگین ہوجاتے تھے۔

【53】

قطری چادر کا ذکر

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی بیماری کے زمانہ میں اس حالت میں باہر (مسجد میں) تشریف لائے کہ اسامہ پر سہارا دیئے ہوئے تھے اور بدن مبارک پر قطر کا کپڑا تھا جس کو آپ ﷺ نے بدھی کی طرح لپیٹ رکھا تھا اور پھر آپ ﷺ نے صحابہ کو نماز پڑھائی۔ (شرح السنۃ) تشریح قطر ایک قسم کی چادر کو کہتے ہیں جس میں سرخ رنگ کی دھاریاں ہوتی ہیں اور اس کا کپڑا کچھ کھرا کھرا ہوتا ہے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جس کپڑے کا ذکر کیا گیا ہے وہ قطر کا تھا جو بحرین کے علاقہ میں ایک بستی کا نام ہے اسی مناسبت سے اس کپڑے کو قطری کہا گیا ہے۔ حضرت انس (رض) نے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے یہ اس وقت کا ہے جب آپ ﷺ مرض الموت میں مبتلا تھے چناچہ حضرت محمد ﷺ کی آخری نماز تھی جو آپ ﷺ نے صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں ادا کی روایت میں منقول ہے کہ اس وقت حضرت ابوبکر (رض) صحابہ کو نماز پڑھانا شروع کرچکے تھے کہ آنحضرت ﷺ مرض اور نقاہت کی وجہ سے حضرت اسامہ (رض) کا سہارا لئے ہوئے حجرہ مبارک سے نکل کر مسجد میں تشریف لائے اور حضرت ابوبکر (رض) کے پہلو میں بیٹھ گئے اور نماز پڑھائی، چناچہ اس واقعہ کی پوری تفصیل کتاب الصلوۃ کے باب الامامت میں گزر چکی ہے۔

【54】

ایک یہودی کی شقاوت کا ذکر

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک زمانہ میں نبی کریم ﷺ کے جسم مبارک پر جو دو کپڑے تھے وہ قطر کے تھے اور بہت زیادہ موٹے تھے چناچہ جب آپ ﷺ زیادہ دیر تک بیٹھتے اور پسینہ آتا تو وہ کپڑے آپ ﷺ کے بدن پر بھاری ہوجاتے جس کی وجہ سے آپ ﷺ کو تکلیف اٹھانی پڑتی آخر کار ایک دن جب کہ فلاں یہودی کے ہاں جس کا نام یہاں ذکر نہیں کیا گیا ہے شام سے کپڑا آیا ہوا تھا تو میں نے عرض کیا کہ اگر آپ ﷺ کسی شخص کو اس یہودی کے پاس بھیج دیتے جو اس سے بوعدہ فراغت یعنی اس وعدہ پر کہ جب کہیں سے کچھ آجائے گا تو قیمت ادا کردی جائے گی دو کپڑے خرید لیتا تو اچھا ہوتا تاکہ آپ ﷺ اس تکلیف سے بچ جائیں جو ان کپڑوں کی وجہ سے اٹھانا پڑ رہی ہے آنحضرت ﷺ نے میرے اس مشورہ کو قبول فرما لیا اور کسی شخص کو مذکورہ وعدہ پر کپڑا خریدنے کے لئے اس یہودی کے پاس بھیج دیا اس شخص نے یہودی کے پاس پہنچ کر جب کپڑا مانگا تو اس نے کہا کہ تمہارا جو ارادہ ہے اس کو میں جانتا ہوں تم اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتے کہ اس وقت تو وعدہ پر میرا کپڑا لے جاؤ اور پھر قیمت ادا کرنے سے انکار کردو بظاہر ان الفاظ کا مخاطب وہ شخص تھا، لیکن حقیقت میں اس کا خطاب آنحضرت ﷺ سے تھا پھر اس شخص نے واپس آ کر جب آنحضرت ﷺ سے یہودی کا قول نقل کیا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس یہودی نے جھوٹ بولا ہے اور وہ خود بھی جانتا ہے کہ اس نے بالکل جھوٹ بات اپنی زبان سے نکالی ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ (تورات کے ذریعہ) یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میں تمام لوگوں سے زیادہ متقی و پرہیز گار ہوں اور ان سے زیادہ اچھی طرح امانت ادا کرنے والا ہوں۔ (ترمذی، نسائی) تشریح اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے موٹا کپڑا پہنا لیکن جب اس کپڑے کی وجہ سے آپ ﷺ کو تکلیف ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنی راحت اور آسودگی کی خاطر دوسرے کپڑے قرض خریدنے کا ارادہ فرمایا اسی طرح اس حدیث سے اس یہودی کی شقاوت بھی ظاہر ہوئی کہ وہ آنحضرت ﷺ کے تئیں کس قدر بغض و نفرت کا شکار تھا۔

【55】

مرد کو کسم کا رنگا ہوا کپڑا پہننا ممنوع ہے

اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے مجھ کو کسم کا رنگا ہوا گلابی رنگ کا کپڑا پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ میں اس ارشاد گرامی سے سمجھ گیا کہ آپ ﷺ نے میرے اس کپڑے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے چناچہ میں فوراً گیا اور اپنے اس کپڑے کو جلا ڈالا، پھر جب میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو) آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ تم نے اپنے اس کپڑے کا کیا کیا ؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے اس کو جلا ڈالا، آپ ﷺ نے فرمایا تم نے اس کپڑے کو اپنی کسی عورت کو کیوں نہیں پہنا دیا کیونکہ عورتوں کے لئے اس قسم کے کپڑے میں کوئی حرج نہیں۔ (ابوداؤد )

【56】

سرخ دھاری دار چادر کا ذکر

اور حضرت بلال ابن عامر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول کریم ﷺ کو منیٰ میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا اس وقت آپ ﷺ خچر پر سوار تھے اور جسم مبارک پر سرخ (دھاریوں کی) چادر تھی، نیز حضرت علی (رض) آپ ﷺ کے سامنے کھڑے تھے جو آپ ﷺ کے الفاظ لوگوں تک پہنچا رہے تھے ! (ابوداؤد) تشریح چونکہ اس موقع پر لوگوں کا بہت ہجوم تھا اور آنحضرت ﷺ کی آواز مبارک مجمع میں دور والوں تک نہیں پہنچ رہی تھی اس لئے حضرت علی (رض) آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے الفاظ بلند آواز میں دوہرا کر لوگوں کو سمجھاتے جاتے تھے۔

【57】

سیاہ چادر کا ذکر

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے لئے سیاہ چادر تیار کی گئی جس کو آپ ﷺ نے استعمال فرمایا لیکن جب اس کی وجہ سے پسینہ آیا اور اس میں سے اون کی بو نکلنے لگی تو آپ ﷺ نے الطافت طبع کی ناگواری کی بنا پر اس چادر کو پھینک دیا !۔ (ابو داؤد ) ۔

【58】

آنحضرت ﷺ کے گوٹ مار کر بیٹھنے کا ذکر

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک موقع پر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ ﷺ ایک چادر کے ذریعہ گوٹ مارے ہوئے بیٹھے تھے اور اس چادر کے کنارے آپ ﷺ کے قدموں پر پڑے ہوئے تھے ! (ابوداؤد) تشریح گوٹ مار کر بیٹھنا اس نشست کو کہتے ہیں جس میں کو لھے زمین پر ٹیک کر دونوں گھٹنے کھڑے کرلیتے ہیں اور سہارے کے لئے دونوں ہاتھ یا کوئی کپڑا گھٹنوں کے گرد لپیٹ لیتے ہیں۔

【59】

عورتیں باریک کپڑا کس طرح پہنیں

اور حضرت دحیہ بن خلیفہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ کے پاس قبطی کپڑے آئے تو آپ ﷺ نے اس میں سے ایک قبطی کپڑا مجھ کو عطا کیا اور فرمایا کہ اس کو پھاڑ کردو ٹکڑے کرلینا، ان میں سے ایک کا کرتہ بنا لینا اور دوسرا اپنی عورت کو دے دینا وہ اس کا دوپٹہ بنا لے گی۔ پھر جب دحیہ یعنی میں واپس ہونے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اپنی عورت کو ہدایت کردینا کہ اس قبطی کپڑے کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لے تاکہ اس کپڑے کے باریک ہونے کی وجہ سے اس کے بال اور جسم نظر نہ آئے۔ (ابوداؤد) تشریح قباطی اصل میں قبطیہ کی جمع ہے، قبطیہ ایک خاص قسم کے کپڑے کو کہتے ہیں جو سفید اور مہین ہوتا تھا اور مصر میں بنا کرتا تھا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر عورت کوئی ایسا کپڑا پہننا چاہے جس کے نیچے بدن جھلکتا ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ خالی وہی کپڑا نہ پہنے بلکہ کپڑے کے نیچے کوئی اور کپڑا لگا لے تاکہ اس کا بدن نہ جھلکے۔

【60】

دوپٹہ کا سر پر ایک ہی پیچ ڈالنا کافی ہے

اور حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو وہ اس وقت دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ دوپٹہ کا ایک ہی سر پر ڈال لیتیں دوسرے پیچ کی ضرورت نہیں تھی۔ (ابوداؤد ) تشریح مطلب یہ تھا کہ دوپٹہ کا سر پر اور گلے کے نیچے ایک ہی پھیر ڈالا کرو دو پھیر نہ دو تاکہ اسراف لازم نہ آئے اور مردوں کے عمامہ کی مشابہت بھی نہ ہو اور یہ بھی محتمل ہے بلکہ یہی زیادہ صحیح ہے کہ یہاں پیچ سے مراد سر پر کپڑا لپیٹنا ہو، جیسا کہ پچھلے زمانہ کی عرب عورتوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے سر کو عصابہ (عورتوں کے سر پر باندھنے کا ایک خاص قسم کا رومال) کی طرح کپڑے لپیٹے رہا کرتی تھیں چناچہ آنحضرت ﷺ نے واضح فرمایا کہ دوپٹہ کا پس ایک پیچ کافی ہے، دوپٹہ کو سر پر زیادہ نہ لپیٹو تاکہ اسراف کی صورت بھی پیدا نہ ہو اور مردوں کی پگڑی کی مشابہت بھی لازم نہ آئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ مردوں جیسا لباس پہنیں اور ان کی مشابہت اختیار کریں جس طرح کہ مردوں کیلئے عورتوں جیسا لباس پہننا اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا درست نہیں ہے۔

【61】

ازار کا نصف ساق تک ہونا پسندیدہ ہے

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ کے قریب سے گزرا اس وقت میرا تہبند لٹکا ہوا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ عبداللہ ! اپنا تہبند اونچا کرو۔ میں نے تھوڑا سا اونچا کرلیا، آپ ﷺ نے فرمایا اور اونچا کرو، میں نے اور اونچا کرلیا پھر حضرت ابن عمر (رض) نے کہا کہ آنحضرت ﷺ اس حکم کے بعد میں برابر عمل (یعنی تہبند کو اونچا کرتے رہنے) کی طرف متوجہ رہتا ہوں، بعض لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ ﷺ اپنے تہبند کو کتنا اونچا رکھتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ آدھی پنڈلیوں تک۔ (مسلم) تشریح اتحراھا کی ضمیر اصل میں فعلہ جو مخدوف ہے کی طرف راجع ہے چناچہ ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے لیکن بظاہر صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ضمیر رفعہ اخیرہ کی طرف راجع ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا کہ میں ہمیشہ اس بات کی طرف متوجہ رہتا ہوں کہ میرا تہبند آنحضرت ﷺ کی منشاء کے مطابق اونچا ہے۔ بہرحال مطلب دونوں صورتوں کا ایک ہی ہے۔

【62】

ٹخنوں سے نیچے ازار کے لٹکنے کی حرمت کی اصل تکبر وغرور ہے

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص از راہ تکبر اپنا تہبند یا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے لٹکائے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف رحمت کی نظر نہیں اٹھائے گا یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کبھی کبھار ایسا ہوجاتا ہے کہ میرے قصد و ارادہ کے بغیر میرا تہبند لٹک جاتا ہے اور ٹخنوں تک یا ٹخنوں سے نیچے پہنچ جاتا ہے الاّ یہ کہ میں ہمہ وقت اس کا دھیان رکھوں یعنی اگر میں ہر وقت اس طرف متوجہ رہوں تو یقینا کسی بھی وقت میرا تہبند نہیں لٹک سکتا لیکن بعض شرعی یا طبعی رکاوٹوں کی وجہ سے اس کی طرف ہر وقت دھیان رکھنا ممکن نہیں ہے تو ایسی صورت میں میرے لئے کیا حکم ہے ؟ رسول کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم ان لوگوں میں سے نہیں جو از راہ تکبر اپنا تہبند یا پائجامہ لٹکاتے ہیں،۔ (بخاری ) تشریح مطلب یہ ہے کہ تہبند یا پائجامہ کا بغیر قصد و ارادہ کے لٹکنا شرعی طور پر نقصان دہ نہیں ہے خاص طور سے اس شخص کے حق میں جو غرور وتکبر سے دور رہتا ہے لیکن افضل یہی ہے کہ بہر صورت متابعت ہی کو اختیار کیا جائے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تہبند و پاجامہ کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی حرمت کی اصل تکبر ہے۔

【63】

اگر تہبند آگے سے لٹکا ہوا ہو لیکن پیچھے سے اٹھا ہوا ہو تو کوئی مضائقہ نہیں

اور حضرت عکرمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کو اس طرح تہبند باندھے ہوئے دیکھا کہ وہ اس تہبند کے آگے کا کنارہ تو اپنے پیروں کے اوپر تک رکھتے اور اس کے پیچھے کا کنارہ ٹخنوں سے اونچا رکھتے تھے، میں نے یہ دیکھ کر حضرت ابن عباس (رض) سے کہا کہ آپ کبھی کبھی اس طرح تہبند کیوں باندھتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ ﷺ بھی کبھی کبھی اس طرح تہبند باندھا کرتے تھے۔ (ابوداؤد ) تشریح اس سے معلوم ہوا کہ تہبند و پاجامہ آگے کی طرف تو لٹکا رہے لیکن پیچھے کی طرف سے ٹخنوں سے اوپر اٹھا رہے تو عدم اسبال یعنی ٹخنوں سے نیچے نہ لٹکانے کے حکم کی تعمیل کے لئے کافی ہے۔

【64】

عمامہ باندھنے کا حکم

اور حضرت عبادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم عمامہ پگڑی باندھنا ضروری سمجھو کیونکہ عمامے فرشتوں کی علامت ہیں (بایں طور کہ بدر کی جنگ کے موقعہ پر جو فرشتے مسلمانوں کی مدد کے لئے نازل ہوئے تھے وہ عمامہ باندھے ہوئے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (یمددکم ربکم بخمسۃ الاف من الملئکۃ مسومین ) اور عمامہ کے شملہ کو اپنی پشت پر چھوڑ دو کیونکہ ملائکہ بھی اسی ہیئت سے آئے تھے۔ (بہیقی شعب الایمان )

【65】

بدن کا باریک کپڑے کے نیچے جھلکنا بدن کے برہنہ ہونے کے برابر ہے

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن اسماء بنت ابوبکر (رض) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں اس حالت میں آئیں کہ ان کے بدن پر باریک کپڑے تھے، آنحضرت ﷺ نے یہ دیکھ کر اس کی طرف سے منہ پھیرلیا اور فرمایا کہ اسماء (رض) ! عورت جب ایام حیض کو پہنچ جائے یعنی (جب وہ بالغ ہوجائے) تو یہ گز درست نہیں ہے کہ اس کے جسم کا کوئی عضو دیکھا جائے علاوہ اس کے اور اس کے یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ عورت کے لئے شرعی پردہ کی حد یہی ہے کہ وہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ باقی اعضاء کو ڈھانکے لیکن شرم و حجاب کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس حالت میں بھی گھر سے باہر نکل کر مردوں کے سامنے نہ آئے کہ اس کا پورا بدن علاوہ چہرے اور ہاتھوں کے چھپا ہوا ہو بلکہ اگر باہر نکلنا ضروری ہو تو چہرے اور ہاتھوں کو بھی چھپائے رکھے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر عورت نے کوئی ایسا باریک کپڑا پہن رکھا ہو جس کے نیچے اس کا بدن جھلک رہا ہو تو وہ برہنہ کے حکم میں ہوگی۔

【66】

نیا کپڑا پہنو تو اللہ کی حمد و ثنا کرو

اور حضرت ابومطر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت علی (رض) نے ایک کپڑا تین درہم کے عوض خریدا اور جب اس کو پہنا تو کہا تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ کو زینت والے اسباب میں سے وہ چیز عطا کی جس کے ذریعہ ہم لوگوں کے سامنے اپنی آرائش بھی کرتے ہیں اور ستر بھی چھپاتے ہیں پھر حضرت علی (رض) نے کہا کہ اسی طرح میں نے رسول کریم ﷺ کو بھی کپڑے پہننے کے بعد یہ حمد و ثنا کرتے ہوئے سنا ہے۔ (احمد )

【67】

نیا کپڑا پہنو تو اللہ کی حمد و ثنا کرو

اور حضرت ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر بن خطاب (رض) نے نیا کپڑا پہنا تو یہ کہا۔ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے وہ کپڑا پہننے کو دیا جس کے ذریعہ میں اپنا ستر بھی چھپاتا ہوں اور اپنی زندگی میں لوگوں کے سامنے اپنی آرائش بھی کرتا ہوں، پھر انہوں نے کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص نیا کپڑا پہننے کے بعد یوں کہے، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے وہ کپڑا پہننے کو دیا جس کے ذریعہ میں اپنا ستر بھی چھپاتا ہوں اور اپنی زندگی میں لوگوں کے سامنے اپنی آرائش بھی کرتا ہوں اور پھر اس کپڑے کو جو پرانا ہوگیا ہے یعنی جو (کپڑا اس نے اپنے جسم سے اتارا ہے) کسی کو اللہ واسطے دے دے تو وہ اپنے جیتے جی اور مرنے کے بعد (یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی) اللہ کی پناہ میں رہے گا اللہ کی محافظت میں رہے گا اور اللہ کے عفو و مغفرت کے پردے میں رہے گا !۔ (احمد ترمذی، ابن ماجہ) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ) ۔

【68】

عورتوں کے لئے باریک کپڑے کی ممانعت

اور حضرت علقمہ بن علقمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ ایک دن حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر (رض) کی صاحبزادی حفصہ، حضرت عائشہ (رض) کے پاس اس حالت میں آئیں، کہ انہوں نے باریک اوڑھنی اوڑھ رکھی تھی۔ حضرت عائشہ (رض) نے وہ باریک اوڑھنی پھاڑ ڈالی اور ان کو ایک موٹی اوڑھنی اڑھا دی۔ (مالک) تشریح حفصہ، حضرت عائشہ (رض) کی بھتیجی تھیں حضرت عائشہ (رض) نے جب ان کو باریک دوپٹہ اوڑھے ہوئے دیکھا تو خفا ہوئیں اور ان کو سبق دینے کے لئے ان کے اس باریک دوپٹے کے دو ٹکڑے کر ڈالے اور پھر اس کے بدلے ان کے سر پر ایک موٹا دوپٹہ ڈال دیا۔

【69】

آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں حضرت عائشہ (رض) کا فقر و زہد

اور حضرت عبدالواحد بن ایمن اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک دن میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت ان کے جسم پر (مصر کے بنے ہوئے) قطری کپڑے کا کرتا تھا جس کی قیمت پانچ درہم تھی، حضرت عائشہ (رض) نے دوران گفتگو مجھ سے فرمایا کہ ذرا میری اس لونڈی کو تو دیکھو یہ کس قدر غرور کرتی ہے یہ گھر میں بھی اس کپڑے کو پہننے پر تیار نہیں ہوتی (چہ جائیکہ اس کو پہن کر باہر نکلے) حالانکہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں میرے پاس اس طرح کے (یعنی قطری کپڑے) کا ایک کرتا تھا اور مدینہ میں جو بھی عورت (اپنی شادی میں یا کسی اور کی شادی کے وقت) اپنی آرائش کرنا چاہتی وہ کسی کو میرے پاس بھیج کر وہی کرتا عاریتا منگواتی۔ (بخاری) تشریح اس حدیث میں حضرت عائشہ (رض) نے یہاں یہ واضح کیا ہے کہ اس تھوڑے سے عرصہ میں ذہنوں میں کیسی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے کہ جس کپڑے کے کرتے کو کل تک عورتیں اپنی آرائش کے لئے ضروری سمجھتی تھیں وہی کرتا اب وہ اپنے گھر میں بھی پہننا پسند نہیں کرتی ہیں وہیں انہوں نے گویا آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اپنے فقر و تنگی اور زہد کو بھی بیان کیا ہے۔

【70】

آنحضرت ﷺ اور ریشمی قبا

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے ایک ریشمی قبا پہنی جو آپ ﷺ کو ہدیہ کے طور پر دی گئی تھی۔ لیکن فورًا ہی اس قبا کو جسم مبارک سے اتار کر حضرت عمر (رض) کے پاس بھیج دیا صحابی نے (یہ دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ نے اس قباء کو اتنی جلد کیوں اتار ڈالا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مجھ کو جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کے پہننے سے منع کردیا تھا (اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے وہ قبا ریشمی کپڑے کی حرمت نازل ہونے سے پہلے پہنی تھی) پھر جب حضرت عمر (رض) کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو وہ روتے ہوئے حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! جس چیز کو آپ ﷺ نے ناپسند فرمایا ہے (یعنی اس ریشمی قبا کے پہننے کو) اس کو مجھے مرحمت فرما دیا ہے (تاکہ میں اس کو پہن لوں) اس صورت میں میرا کیا حال ہوگا ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں نے وہ قبا تمہیں اس لئے نہیں دی ہے کہ تم اس کو پہنو بلکہ اس لئے دی ہے کہ تم اس کو بیچ ڈالو، چناچہ حضرت عمر (رض) نے اس قبا کو دو ہزار درہم کے عوض بیچ دیا۔ (مسلم )

【71】

جس کپڑے کے تانے میں ریشم ہو وہ مردوں کے لئے حلال ہے

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس کپڑے کو پہننے سے منع فرمایا ہے جو خالص ریشم کا ہو، البتہ ریشم کی گوٹ یا بیل (جو چار انگشت سے زائد نہ ہو) اور وہ کپڑا جس کے تانے میں ریشم ہو اس کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (ابوداؤد) تشریح جس کپڑے میں تانا اور بانا دونوں ریشم کا ہو اس کا مردوں کو پہننا حرام ہے اور صاحبین کے نزدیک جنگ میں اس کو پہننا مباح ہے اور جس کپڑے کا تانا ریشم کا ہو اور بانا، سوت وغیرہ کا ہو تو اس کا پہننا بالاتفاق جائز ہے اور اس کا برعکس ناجائز ہے مگر جنگ میں جائز ہے۔ گویا صاحبین کے نزدیک تو جنگ میں وہ کپڑا بھی مباح ہے جو خالص ریشم کا ہو اور وہ کپڑا بھی جس کے بانے میں ریشم ہو۔ لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جنگ میں صرف وہ کپڑا پہننا مباح ہے جس کا بانا ریشم کا ہو اور تانا سوت وغیرہ کا اور جس کپڑا کا تانا ریشم کا ہو اور بانا کسی اور چیز کا وہ ہر حالت میں مباح ہے۔

【72】

اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت کو ظاہر کرنا پسندیدہ ہے

اور حضرت ابورجاء (تابعی) کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمران بن حصین (گھر سے) نکل کر ہمارے پاس آئے تو اس وقت ان کے بدن پر خزکا مطرف (شال) تھا۔ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ اپنی نعمت سے سرفراز فرمائے تو اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے پر اس کی نعمت کا اثر دیکھا جائے۔ (احمد) تشریح مطرف ایک خاص طرح کا چادر نما کپڑا ہوتا تھا، جس کے دونوں طرف کنارے بنے ہوتے تھے اور قاموس میں لکھا ہے کہ مطرف، جو مکرم کے وزن پر ہے خز کی دھاری دار شال کو کہتے ہیں اس صورت میں مطرف من خز اس کپڑے کو کہتے تھے جو ریشم اور اون دونوں سے بنا جاتا تھا۔ اس کا پہننا مباح ہے۔ چناچہ یہاں خز سے یہی مراد ہے۔

【73】

مباحات میں سے جو چاہو کھاؤ پہنو لیکن اسراف اور تکبر سے دامن بچاؤ

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا جائز و مباح چیزوں میں سے جو چاہو کھاؤ اور جو چاہو پہنو تاوقتیکہ دو چیزیں یعنی اسراف اور تکبر تم میں سرایت نہ کریں۔ (بخاری فی ترجمۃ باب) تشریح مطلب یہ ہے کہ کھانے کی ہر مباح چیز کو کھانا اور پہننے کی ہر مباح چیز کو پہننا درست ہے لیکن کھانے اور پہننے میں وہ توسع مکروہ ہے جو اسراف اور تکبر کے طور پر ہو جس توسع میں اسراف اور تکبر نہ ہو وہ مباح ہے۔

【74】

مباحات میں سے جو چاہو کھاؤ پہنو لیکن اسراف اور تکبر سے دامن بچاؤ

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا رسول کریم ﷺ نے فرمایا (اپنی حاجت و ضرورت کے بقدر) کھاؤ اور پیو اور جو چیز تمہاری حاجت اور ضرورت سے زائد ہو اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو (نیز پہننے کی مباح چیزوں میں سے جو چاہو) پہنو جب تک کہ اس میں اسراف اور تکبر نہ ہو۔ (احمد، نسائی، ابن ماجہ )

【75】

سفید کپڑے کی فضیلت

اور حضرت ابودرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ بہترین کپڑا کہ جس کو پہن کر تم اپنی قبروں اور اپنی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرو، سفید کپڑا ہے۔ (ابن ماجہ) تشریح مسجد، اللہ کا گھر ہے۔ جو شخص عبادت کے لئے مسجد میں گیا وہ گویا اللہ سے ملاقات کے لئے گیا لہٰذا وہاں سفید کپڑا پہن کر جانا بہتر ہے اسی طرح بندہ مرنے کے بعد گویا اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتا ہے۔ لہٰذا مردہ کو سفید کفن دینا بہتر ہے۔

【76】

مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننا حرام اور چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سونے کی انگوٹھی بنوائی۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ انگوٹھی کو اپنے داہنے ہاتھ میں پہنا۔ اور پھر اس کو پھینک دیا، پھر آپ ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی جس میں محمد رسول اللہ کے الفاظ کندہ کرائے اور فرمایا کہ کوئی شخص میری اس مہر کی مانند الفاظ (اپنی انگوٹھی میں) کندہ نہ کرائے نیز آنحضرت ﷺ جب انگوٹھی پہنتے تو اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھتے۔ (بخاری ومسلم) تشریح آنحضرت ﷺ نے سونے کی انگوٹھی اس وقت بنوائی تھی جب کہ مردوں کے لئے سونا حرام نہیں ہوا تھا چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ مردوں کے لئے سونا پہننا حرام قرار دے دیا تو آپ ﷺ نے وہ انگوٹھی پھینک دی امام محمد نے اپنی کتاب مؤطا میں کہا ہے کہ مردوں کے لئے جس طرح سونے کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے اسی طرح ان کے لئے لوہے اور کانسی وغیرہ کی انگوٹھی بھی جائز نہیں ہے لہٰذا مرد کو چاندی کے علاوہ اور کسی چیز کی انگوٹھی نہیں چاہئے۔ عورتوں کے لئے سونے کی انگوٹھی اور دوسرے زیورات پہننا جائز ہے بلکہ علماء نے یہ لکھا ہے کہ عورتوں کو چاندی کی انگوٹھی مکروہ ہے، کیونکہ چاندی کی انگوٹھی مرد پہنتے ہیں اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنا مکروہ ہے، لہٰذا اگر کوئی عورت چاندی کی انگوٹھی پہننا ہی چاہئے تو وہ اس کے رنگ کو کسی ملمع وغیرہ کے ذریعہ تبدیل کر دے۔ نیز ہدایہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس بارے میں انگوٹھی کے حلقہ کا اعتبار ہے نہ کہ اس کے نگینہ کا۔ کوئی شخص میری مہر کے مانند الفاظ کندہ نہ کرائے اصل بات یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ یہ دیکھا کرتے تھے کہ مسلمان میری اتباع کے کس قدر حریص اور شیدائی ہیں وہ میرے ہر عمل کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے کوئی بعید نہیں کہ لوگ میری اس مہر کے الفاظ اپنی انگوٹھیوں میں بھی کندہ کرنے لگیں، لہٰذا آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا نیز اس ممانعت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آنحضرت ﷺ کی اس مہر اور اس میں کندہ الفاظ کی ایک قانونی حیثیت بھی تھی کہ آپ ﷺ جو خطوط وغیرہ دنیا کے بادشاہوں اور سربرہان مملکت کے نام بھیجا کرتے تھے ان پر وہی مہر ثبت فرماتے تھے اس صورت میں اگر دوسرے لوگ بھی اپنی انگوٹھیوں میں اسی طرح کی مہر کندہ کراتے تو نہ صرف یہ کہ مہر رسالت کی مخصوص حیثیت ان بادشاہوں کی نظر میں مشتبہ ہوجاتی بلکہ ایک عجیب طرح کی خرابی بھی واقع ہوجاتی۔ قاضی خاں نے کہا ہے کہ چاندی کی انگوٹھی پہننا اس شخص کے حق میں مباح ہے جس کے لئے مہر رکھنا ایک ضرورت کے درجہ کی چیز ہو جیسے قاضی وغیرہ اور جو شخص مہر رکھنے کا ضرورت مند نہ ہو اس کے حق میں افضل یہی ہے کہ چاندی کی انگوٹھی کا بھی استعمال نہ کرے نیز جو شخص انگوٹھی پہنے اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ انگوٹھی کو بائیں ہاتھ کی انگلی میں پہنے اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انگوٹھی کس ہاتھ میں پہنی جائے تو سیوطی کہتے ہیں کہ احادیث تو دائیں ہاتھ میں پہننے کے بارے میں بھی منقول ہیں اور بائیں ہاتھ میں پہننے کے بارے میں بھی، لیکن عمل ان ہی احادیث پر ہے جن میں بائیں ہاتھ میں پہننے کا ذکر ہے اور جو احادیث دائیں ہاتھ کے متعلق ہیں ان کو منسوخ قرار دیا گیا ہے چناچہ عدی وغیرہ نے حضرت ابن عمر (رض) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ پہلے تو دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنا کرتے تھے لیکن پھر بائیں ہاتھ میں پہننے لگے۔ سفر السعادہ کے مصنف نے یہ لکھا ہے کہ اس بارے میں مختلف احادیث منقول ہیں، بعض روایتوں میں تو نقل کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اور بعض روایتوں میں بائیں ہاتھ میں پہننا نقل کیا گیا ہے یہ سب روایتیں صحیح ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کبھی تو آپ ﷺ دائیں ہاتھ میں پہنتے ہوں گے اور کبھی بائیں ہاتھ میں۔ امام نووی یہ لکھتے ہیں کہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انگوٹھی کا دائیں ہاتھ میں بھی پہننا جائز ہے اور بائیں ہاتھ میں بھی لیکن شوافع کے نزدیک دائیں ہاتھ میں پہننا بہتر ہے کیونکہ دایاں ہاتھ بائیں کی بہ نسبت شرف و فضیلت رکھتا ہے اس لئے وہی ہاتھ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی زینت و آرائش اور تو قیر ہو۔

【77】

مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننا حرام اور چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے

اور حضرت علی (رض) کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے (مردوں کو) قسی کپڑے کسم کے رنگے ہوئے کپڑے اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا نیز آپ ﷺ نے رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا۔ (مسلم) تشریح قسی ایک خاص قسم کے ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں جو مصر کے ایک شہر قس میں تیار ہوتا تھا۔ رکوع میں قرآن پڑھنے کی ممانعت کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ آپ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ رکوع میں یا سجدے میں تسبیح کے بجائے قرآن پڑھا جائے، دوسرے یہ کہ آپ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص قیام کی حالت میں اضطراب وبے اطمینانی کا رویہ اختیار کرے اور قرأت کو پورا کئے بغیر اس طرح رکوع میں چلا جائے کہ اس قرأت کا کچھ حصہ رکوع میں واقع ہو۔

【78】

سونے کی انگوٹھی پہننے والے مرد کے بارے میں وعید

اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ ﷺ نے اس کے ہاتھ سے انگوٹھی کو اتار کر پھینک دیا اور پھر فرمایا کہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوزخ کی آگ کے انگارے کو حاصل کرے اور اس کو اپنے ہاتھ میں پہن لے، یعنی جو شخص اپنے ہاتھوں میں سونے کی کوئی چیز پہنے گا اس کا ہاتھ دوزخ کی آگ میں جلایا جائے گا اس صورت میں کسی مرد کا سونے کی انگوٹھی پہننا گویا اپنے ہاتھ میں دوزخ کی آگ کا انگارہ پہننا ہے، پھر جب رسول کریم ﷺ وہاں سے تشریف لے گئے تو اس شخص سے کہا گیا کہ تم اپنی اس انگوٹھی کو اٹھا لو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ یعنی چاہے تو اس کو فروخت کر ڈالو اور چاہے کسی عورت کو دے دو لیکن اس شخص نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم میں اس کو کبھی نہیں اٹھاؤں گا جب کہ اس کو رسول کریم ﷺ نے پھینک دیا ہے ! (مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص قدرت رکھتا ہو وہ اگر کسی خلاف شرع چیز کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے بگاڑ دے اور مٹا دے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے حدیث (اذا رای احد منکم منکر فلیغیرہ بیدہ) یعنی جب تم میں سے کوئی شخص کسی خلاف شرع چیز کو دیکھے تو وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بگاڑ ڈالے۔

【79】

مہر نبوی ﷺ

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے صلح حدیبیہ کے بعد مدینہ واپس آ کر، کسری (فارس کے بادشاہ) قیصر (روم کے بادشاہ) اور نجاشی (حبشہ کے بادشاہ) کو (اسلام کی دعوت دینے کے لئے) خطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو عرض کیا گیا کہ (مروج قاعدہ کے مطابق) یہ (بادشاہ) اسی خط کو قبول کرتے ہیں یعنی مستند سمجھتے ہیں جس پر مہر لگی ہوئی ہو، چناچہ رسول کریم ﷺ نے چاندی کے حلقہ والی انگوٹھی بنوائی جس میں محمد رسول اللہ کندہ کردیا گیا۔ ( مسلم) اور بخاری کی ایک ورایت میں یوں منقول ہے کہ اس انگوٹھی میں جو الفاظ کندہ کرائے گے تھے وہ تین سطروں میں تھے اس طرح کہ ایک سطر میں (جو سب سے نیچی تھی) محمد کا لفظ تھا ایک سطر میں (جو پیچ میں تھی) رسول کا لفظ تھا اور ایک سطر میں (جو سب سے اوپر تھی) اللہ (کا لفظ) تھا۔ تشریح یہاں انگوٹھی کے ضمن میں صرف اس کے حلقہ کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے اس کے نگینہ کے بارے میں ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ انگلی میں خلقہ ہی پہنا جاتا ہے اور وہی محل استبعاد بھی ہے اس لئے بیان جواز کی خاطر اس کا ذکر کیا گیا تاہم دوسری احادیث میں نگینہ کا بھی ذکر ہے چناچہ بعض روایتوں میں یہ ہے کہ آپ ﷺ کی انگوٹھی کا نگینہ بھی چاندی ہی کا تھا اور ایک روایت میں ہے کہ اس کا نگینہ حبشی یعنی عقیق کا تھا چناچہ اس کا ذکر آگے آر ہا ہے مہر نبوی ﷺ میں جو الفاظ کندہ تھے ان کی ہیت امام نووی نے وہی بیان کی ہے جو اوپر ذکر کی گئی یعنی اوپر کی سطر میں اللہ بیچ کی سطر میں رسول اور نییچے کی سطر میں محمد کا لفظ تھا گویا اس مہر کی یہ صورت تھی محمد رسول اللہ ﷺ اور بعض حضرات نے اس مہر کی یہ صورت بیان کی ہے محمد رسول اللہ واللہ اعلم آنحضرت ﷺ کی انگوٹھی حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ہاتھ میں رہا کرتی تھی ان کے بعد حضرت عمر فاروق (رض) کے ہاتھ میں اور ان کے بعد حضرت عثمان (رض) کے ہاتھ میں آئی لیکن حضرت عثمان (رض) کے خلافت کے آخری دور میں وہ انگوٹھی ایک دن معیقیب کے ہاتھ سے جو حضرت عثمان (رض) کے خادم تھے اریس کنویں میں گر پڑی اور پھر اس کو بہت زیادہ تلاش کیا گیا مگر نہیں ملی علماء لکھتے ہیں کہ وہ فتنہ و فساد اور اختلاف و انتشار جو حضرت عثمان (رض) کے آخری دور خلافت میں اور پھر ان کے بعد اسلامی مملکت میں پیدا ہوا اس کا باعث اس مبارک انگوٹھی کا گم ہونا تھا کیونکہ اس انگوٹھی میں حق تعالیٰ نے ایسی برکت عطا فرمائی تھی جو حکومت و مملکت کے انتظام و انصرام کا ایک مؤثر ذریعہ تھی جیسا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی مہر والی انگوٹھی کی خاصیت تھی

【80】

أنحضرت ﷺ کی انگوٹھی کا نگینہ

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی چاندی ہی کا تھا۔ (البخاری)

【81】

أنحضرت ﷺ کی انگوٹھی کا نگینہ

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی چاندی ہی کا تھا ( بخاری) ٦ اور حضرت انس (رض) ہی سے ( یہ بھی) روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی اپنے دائیں ہاتھ میں پہنی جس کا نگینہ حبشی تھا نیز آنحضرت ﷺ انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھتے یعنی آپ ﷺ اپنی انگوٹھی کو اس طرح پہنتے تھے کہ اس کا نگینہ والا حلقہ ہتیھلی کی طرف رہتا تھا ( بخاری ومسلم) تشریح بشی سے مراد عقیق ہے اور عقیق کو حبشہ کی طرف منسوب کر کے حبشی اس لئے کہا گیا ہے کہ عقیق کی کان حبشہ اور یمن میں تھی یا وہ نگینہ عقیق کی بجائے کسی اور قسم کا ہوگا اور وہ قسم حبشہ ہی میں پائی جاتی تھی اس لئے اس کو حبشی کہا گیا یا وہ نگینہ سیاہ رنگ کا تھا جیسا کہ حبشیوں کا رنگ ہوتا ہے اس مناسبت سے اس کو حبشی کہا گیا اور یا یہ کہ اس نگینہ کو کسی حبشی شخص نے بنایا ہوگا اس لئے اس کو حبشی سے تعبیر کیا گیا اس صورت میں دونوں روایتیں تعدد پر محمول ہوں گی یعنی یہ کہا جائے گا کہ آپ ﷺ کی ایک انگوٹھی کا نگینہ چاندی ہی کا تھا اور دوسری انگوٹھی کا نگینہ حبشی یعنی عقیق کا تھا۔

【82】

أنحضرت ﷺ کی انگوٹھی کا نگینہ

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی انگوٹھی (اس انگلی) میں تھی ! حضرت انس (رض) نے یہ کہہ کر بائیں ہاتھ کی چھنگلیا کی طرف اشارہ کیا۔ (مسلم )

【83】

انگوٹھی کس انگلی میں پہنی جائے

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے اس سے منع فرمایا کہ میں اپنی اس انگلی میں یا اس انگلی میں انگوٹھی پہنوں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے (یہ کہہ کر) درمیانی انگلی اور اس قریب والی انگلی یعنی شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔ (مسلم) تشریح درمیانی اور شہادت کی انگلی کے بارے میں تو اس حدیث سے واضح ہوا اور انگوٹھے نیز چھوٹی انگلی کے قریب والی انگلی میں انگوٹھی پہننا نہ تو آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے اور نہ صحابہ وتابعین ہی سے منقول ہے اس سے معلوم ہوا کہ انگوٹھی کو چھوٹی انگلی ہی میں پہننا مستحب ہے۔ چناچہ شوافع اور حنیفہ کا رجحان اسی طرف ہے تاہم یہ بات مردوں کے حق میں ہے، جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے تو ان کے قریب کے لئے سب انگلیوں میں پہننا جائز ہے۔ امام نووی نے کہا ہے کہ مردوں کو درمیانی اور شہادت کی انگلی میں انگوٹھی پہننا مکروہ تنزیہی ہے۔

【84】

آنحضرت ﷺ انگوٹھی دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں میں پہنتے تھے

حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ انگوٹھی کو اپنے دائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔ (ابن ماجہ) ابوداؤد اور نسائی نے اس روایت کو حضرت علی (رض) سے نقل کیا ہے۔

【85】

آنحضرت ﷺ انگوٹھی دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں میں پہنتے تھے

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ انگوٹھی کو اپنے بائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔ (ابوداؤد ) ۔

【86】

ریشمی کپڑا اور سونا مردوں کے لئے حرام ہے

اور حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے ریشمی کپڑا لیا اور اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا اسی طرح سونا لیا اور اس کو اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا اور پھر فرمایا کہ میری امت کے مردوں کے لئے یہ دونوں چیزیں حرام ہیں۔ (احمد، ابوداؤد، نسائی )

【87】

ریشمی کپڑا اور سونا مردوں کے لئے حرام ہے

اور حضرت معاویہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے چیتے کی کھال کی زین پر سوار ہونے سے منع فرمایا اسی طرح آپ ﷺ نے (مردوں کو) سونا پہننے سے منع فرمایا الاّ یہ کہ وہ بہت قلیل مقدار میں ہو۔ (ابوداؤد) تشریح حدیث کے آخری الفاظ سے قلیل مقدار میں سونے کی جو اباحت ثابت ہوتی ہے وہ بھی منسوخ قرار پاچکی ہے ویسے بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان الفاظ سے بظاہر جو جواز ثابت ہوتا ہے وہ حنیفہ کے نزدیک اس پر محمول ہے کہ مثلا کسی چیز پر سونے کا ملمع کیا جائے یا نگینہ وغیرہ میں سونے کی کیل لگائی جائے اور یا کپڑے پر دھاریوں اور بیل کے طور پر سنہرا کام کیا جائے تو یہ حنیفہ کے نزدیک مردوں کے لئے بھی جائز ہیں۔

【88】

پیتل اور لوہے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت

اور حضرت بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ نے ایک شخص سے جو پیتل کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا فرمایا کہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تم میں بتوں کی بو پاتا ہوں یعنی آپ ﷺ نے اس شخص کے سامنے یہ بات بطور تعریض فرمائی۔ کیونکہ عام طور پر پیتل ہی کے بت بنائے جاتے تھے۔ چناچہ اس شخص نے آنحضرت ﷺ کی یہ ناگواری دیکھ کر اس انگوٹھی کو اتار کر پھینک دیا پھر (جب دوبارہ) وہ شخص آیا تو لوہے کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا آنحضرت ﷺ نے (اس کو دیکھ کر) فرمایا کہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تم پر دوزخیوں کا زیور دیکھ رہا ہوں یعنی آپ ﷺ نے یہ بات بھی بطور تعریض اس بناء پر فرمائی کہ کفار میں سے کچھ لوگ دنیا میں لوہے کی چیز پہنتے ہیں یا اس ارشاد میں اس طرف اشارہ تھا کہ کافروں کو دوزخ میں جو طوق و سلاسل پہنائے جائیں گے وہ لوہے کے ہوں گے اس لئے لوہے کی انگوٹھی پہننا دوزخیوں کی مشابہت اختیار کرنا ہے چناچہ اس شخص نے اس انگوٹھی کو (بھی) اتار کر پھینک دیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! پھر کس چیز کی انگوٹھی بناؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا چاندی کی اور وہ چاندی بھی پوری مثقال نہ ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی) محی السنۃ فرماتے ہیں کہ عورت کے مہر کے بارے میں حضرت سہل بن سعد (رض) کی صحیح روایت منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا جو نکاح کرنے کا متمنی تھا کہ بیوی کے مہر کے لئے از قسم مال کوئی چیز تلاش کرو اگرچہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔ تشریح پوری ایک مثقال نہ ہو یہ ممانعت اصل میں احتیاط وتقویٰ اور اولویت کے لئے ہے، یعنی اولیٰ یہ ہے کہ انگوٹھی ایک مثقال (٢٤/١ ماشہ) سے کم چاندی کی ہو ورنہ جہاں تک جواز کا تعلق ہے تو پورے ایک مثقال کی بھی جائز ہے) اور یہ الویت بھی اس بنا پر ہے کہ سونا اور چاندی اصل کے اعتبار سے غیر پسندیدہ ہیں لہٰذا ان کا استعمال بس اسی قدر ہونا چاہئے جو ضرورت کے مطابق ہو اس لئے دو یا اس سے زائد انگوٹھیاں پہننا مکروہ ہے تاہم متعدد انگوٹھیاں بنانا مکروہ نہیں ہے، بشرطیکہ ان کو ایک ساتھ نہ پہنا جائے بلکہ نوبت بنوبت پہنا جائے۔ فتاویٰ قاضی خاں میں لکھا ہے کہ لوہے اور پیتل کی انگوٹھی وغیرہ پہننا مکروہ ہے اور مردوں کے لئے سونے کی انگوٹھی پہننا حرام ہے۔ محی السنۃ نے عورت کے مہر کے بارے میں حضرت سہل (رض) کی جو روایت نقل کی ہے اس سے ان کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس شخص سے جو یہ فرمایا کہ بیوی کو مہر میں دینے کے لئے مال مہیا کرو اگرچہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو تو اس سے معلوم ہوا کہ اوپر روایت میں لوہے کی انگوٹھی پہننے کی جو ممانعت ثابت ہوتی ہے وہ تحریم کے لئے نہیں ہے کیونکہ اگر حقیقت میں لوہے کی انگوٹھی پہننا حرام ہوتا تو آپ ﷺ نکاح کے متمنی شخص کو لوہے کی انگوٹھی مہیا کرنے کے لئے کیوں فرماتے۔ مہر کے مال کے بارے میں مذکورہ ارشاد گرامی ﷺ کے متعلق علماء نے لکھا ہے کہ اس کا مقصد دراصل عورت کے مہر میں مال خرچ کرنے کی اہمیت و ضرورت کو زیادہ سے زیادہ تاکید کے ساتھ بیان کرنا ہے کہ مہر کے طور پر کوئی نہ کوئی مال ضرور مقرر کیا جائے خواہ وہ ادنیٰ ترین چیز ہی کیوں نہ ہو۔ اس ارشاد سے یہ بھی واضح ہوا کہ لوہے کی انگوٹھی پہننے کو اگرچہ ممنوع قرار دیا گیا ہے لیکن دو انگوٹھی مال متقوم مالیت کے دائرے سے باہر نہیں ہے تاہم یہ بھی احتمال ہے کہ لوہے کی انگوٹھی پہننے کی اس ممانعت کے نفاذ وبیان کا زمانہ حضرت سہل (رض) کی مذکورہ روایت کے بعد کا ہو، کیوں کہ یہ ثابت ہے کہ حضرت سہل (رض) کی روایت استقراء سنن اور استحکام شرائع سے پہلے کی ہے اور حضرت بریدہ (رض) کی یہ روایت اس کے بعد کی ہے لہٰذا حضرت سہل (رض) کی روایت منسوخ قرار پائے گی، نیز حضرت سہل (رض) کی روایت باب المہر کی پہلی فصل میں گزر چکی ہے۔

【89】

وہ دس چیزیں جن کو آنحضرت ﷺ برا سمجھتے تھے

اور حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ دس چیزوں کو برا سمجھتے تھے ایک تو زردی یعنی خلوق کے استعمال کو، دوسرے بڑھاپا تبدیل کرنے کو، تیسرے (ٹخنوں سے نیچے) تہبند (یا پاجامہ کو لٹکا کر) کھینچتے ہوئے چلنے کو، چوتھے (مردوں کے لئے) سونے کی انگوٹھی پہننے کو، پانچویں عورت کا بےمحل زینت ظاہر کرنے کو چھویں نرد (چونسر) کھیلنے کو، ساتویں بجز معوذات کے جھاڑ پھونک کرنے کو، آٹھویں کوڑیوں اور منکوں کے باندھنے کو نویں بےموقع عزل یعنی عورت کی شرم گاہ سے باہر منی گرانے کو اور دسویں بچے کے خراب کرنے کو، اگرچہ آپ ﷺ اس کو حرام نہیں فرماتے تھے۔ (ابوداؤد) تشریح خلوق ایک قسم کی خوشبو کو کہتے ہیں جو زعفران وغیرہ سے بنائی جاتی ہے، خلوق استعمال کرنے کی یہ ممانعت صرف مردوں کے لئے ہے عورتوں کو اس کا لگانا درست ہے اگرچہ ایسی احادیث بھی منقول ہیں جن سے مردوں کے لئے بھی خلوق کے استمعال کی اباحت ثابت ہوتی ہے لیکن ایسی احادیث زیادہ منقول ہیں جن سے ممانعت ثابت ہوتی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اباحت کی حدیثیں منسوخ ہیں مردوں کے لئے خلوق کا استعمال اس لئے ممنوع ہے کہ وہ خاص طور پر عورتوں کی خوشبو ہے بڑھاپے کو تبدیل کرنا خواہ سفید بالوں کو چننے کی صورت میں ہو یا سیاہ خضاب لگانے کے ذریعہ ہو یہ بہر صورت ممنوع ہے البتہ مہندی کا خضاب مستثنیٰ ہے کیوں کہ اس کے جواز میں احادیث کے منقول ہونے کی بنا پر وہ بالاتفاق درست ہے، سفید بالوں کو اکھاڑنے اور چننے کے بارے میں حنفیہ کا مختار قول حرمت و کراہت کا ہے۔ والتبرج بالزینۃ لغیرمحلہا میں لفظ محل حاء کے زیر کے ساتھ ہے جو موضع حل کے معنی میں ہے یعنی وہ جگہ جہاں عورت کو اپنا بناؤ سنگار ظاہر کرنا حلال ہے اور وہ جگہ اس کا شوہر اور اس کے محارم جیسے باپ اور بھائی وغیرہ ہیں، گویا مطلب یہ ہے کہ عورت کو اپنے خاوند اور اپنے محارم کے علاوہ دوسرے مردوں کے سامنے بناؤ سنگار ظاہر کرنا درست نہیں ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے آیت (ولایبدین زینتہن الا لبعولتہن او ابآہ ن) الاّ یہ۔ بعض حضرات نے محلہا میں لفظ محل حاء کے زیر کے ساتھ بھی کہا ہے جو حلول سے ہے۔ کعاب کعب کی جمع ہے اور چوسر کی گوٹوں اور مہروں (پانسوں) کے معنی میں ہے جن کو قرعہ کی مانند پھینک پھینک کر چوسر کھیلا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ کھیل ممنوع ہے، چناچہ اہل علم صحابہ کی اکثریت کے نزدیک یہ کھیل حرام تھا، حنفیہ شطرنج کھیلنے کو بھی مکروہ تحریمی کہتے ہیں۔ رقی رقیہ کی جمع ہے جس کے معنی منتر پڑھ کر پھونکنے کے ہیں اور معوذات سے مراد قرآن کی وہ آیتیں ہیں جو استعاذہ کے معنی پر مشتمل ہیں، خواہ وہ یہ دونوں سورتیں ہوں یا ان کے علاوہ دوسری آیات۔ حاصل یہ کہ قرآن کریم کی آیات، احادیث میں منقول دعاؤں اور اسماء الہٰی کے ذریعہ جھاڑ پھونک جائز ہے ان کے علاوہ حرام ہے، خاص طور پر ایسے الفاظ کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا جن کے معنی معلوم نہ ہوں نہ صرف حرام ہے، بلکہ کفر کی حد میں داخل ہوجانے کے خوف کا بھی محتمل ہے۔ تمائم تمیمہ کی جمع ہے اس کے معنی ان منکوں (دانوں) اور ہڈیوں کے ہیں جن کو جوڑ کر عرب نظر نہ لگنے کے لئے بچوں کے گلے میں لٹکاتے تھے یہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا خاص طریقہ تھا لیکن اسلام نے اس کی ممانعت فرما دی، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ تمائم سے مراد وہ گنڈے اور منتر ہیں جن کی نوعیت مشرکانہ ہوتی ہے اور جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھے، لیکن وہ تعویذات وغیرہ جن میں آیات قرآنی منقول دعائیں اور اسماء الہٰی لکھے ہوتے ہیں گلے میں لٹکانا جائز ہیں جیسا کہ حصن حصین میں منقول حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی روایت سے ثابت ہوتا ہے۔ بےموقع عزل کا مطلب یہ ہے کہ حمل ٹھہر جانے کے خوف سے عزل کرنا اس صورت میں جائز ہے جب کہ عورت (بیوی) کی رضامندی حاصل ہو اگر اس کی رضامندی کے بغیر عزل کیا جائے گا تو وہ ایسا عزل ہوگا جو بےموقع کھلائے گا۔ جس کی ممانعت اس حدیث میں مذکور ہے البتہ اگر عورت آزاد نہ ہو بلکہ لونڈی ہو تو وہ (لونڈی) چونکہ محل عزل ہے اس لئے اس کی رضامندی کے بغیر عزل کرنا جائز ہے۔ بچے کو خراب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس عورت کے ساتھ صحبت کی جائے جس کی گود میں دودھ پینے والا بچہ ہو اور اس صحبت کے نتیجے میں وہ حاملہ ہوجائے، چونکہ اس حمل کی وجہ سے اس کا دودھ خراب ہوجاتا ہے اور وہ دودھ بچے کو نقصان پہنچاتا ہے کہ اس کو ضعف وغیرہ لاحق ہوجاتا ہے اس لئے دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ صحبت کرنا گویا بچے کو نقصان پہنچانا ہے۔ دودھ والی عورت کے ساتھ صحبت کرنے کو غیل کہتے ہیں اور اس کا ذکر باب المباشرت میں گزر چکا ہے۔ اگرچہ آپ ﷺ اس کو حرام نہیں فرماتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ آپ ﷺ دودھ پلانے کے زمانے میں عورت کے ساتھ صحبت کرنے اور بچے کو نقصان پہنچانے کو ناپسند فرماتے تھے لیکن اس کو حرام قرار نہیں دیتے تھے کیونکہ منکوحہ عورت کے ساتھ جماع کرنا حلال ہے اور محض حمل کے احتمال سے کہ جس سے بچے کو مذکورہ نقصان پہنچنے کا تعلق ہے وہ عورت حرام نہیں ہوتی۔

【90】

عورت کو بجنے والا زیور پہننا ممنوع ہے

اور حضرت ابن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ ان کی آزاد کی ہوئی لونڈی حضرت زبیر (رض) کی بچی کے پیروں میں کھنگرو تھے، حضرت عمر (رض) نے ان گھنگرؤں کو کاٹ ڈالا اور فرمایا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہر (جرس بجنے والی چیز) کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ شیطان کا مزمار (باجہ) ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے الجرس مذامیر الشیطان لہٰذا ہر جرس کے ساتھ شیطان ہوتا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ شیطان ہر بجنے والی چیز کی طرف لوگوں کو مائل کرتا ہے اور ان کی نظر اس کی آواز کو زیادہ سے زیادہ دلکش بناتا ہے۔

【91】

عورت کو بجنے والا زیور پہننا ممنوع ہے

اور حضرت عبدالرحمن بن حیان انصاری (رض) کی آزاد کی ہوئی لونڈی بنانہ سے روایت ہے کہ وہ (ایک دن) حضرت عائشہ (رض) کے ہاں تھیں کہ حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں ایک چھوٹی لڑکی لائی گئی جو گھنگرو پہننے ہوئے تھی اور وہ بج رہے تھے، حضرت عائشہ (رض) نے (اس لڑکی کو لانے والی عورت سے) فرمایا کہ اس لڑکی کو میرے پاس اس وقت تک نہ لایا جائے جب تک کہ ان گھنگرؤں کو کاٹ کر پھینک نہ دیا جائے کیوں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس گھر میں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں باجے کی کوئی چیز ہوتی ہے۔ (ابوداؤد )

【92】

کسی مجبوری کے تحت سونے کے استعمال کی اجازت

اور حضرت عبدالرحمن ابن طرفہ سے روایت ہے کہ ان کے دادا حضرت عرفجہ بن سعد (رض) کی ناک کلاب کی لڑائی میں کاٹ ڈالی گئی تھی، انہوں نے چاندی کی ناک بنوائی لیکن اس میں بدبو پیدا ہوگئی چناچہ رسول کریم ﷺ نے ان کو سونے کی ناک بنوانے کا حکم دیا۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی) تشریح کلاب ایک جگہ کا نام ہے وہاں لڑائی ہوئی جس میں حضرت عرفجہ (رض) بھی شریک تھے اسی لڑائی کے دوران ان کی ناک کٹ گئی تھی جس کی وجہ سے ان کو چاندی کی ناک بنوا کر چہرے پر لگانی پڑی لیکن اس میں بدبو پیدا ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے اس کو سونے کی ناک بنوانے کی اجازات عطا فرمائی اس حدیث کی بناء پر علماء نے سونے کی ناک بنوانے کو اور اسی طرح دانتوں میں چاندی کا تارا باندھنے کو مباح قرار دیا ہے، لیکن حضرت امام محمد نے دانتوں میں سونے کی تار باندھنے کو بھی جائز کہا ہے۔

【93】

سونے کے زیورات پہننے والی عورت کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے عزیز یعنی بیوی یا اولاد وغیرہ کو (ان کے کان یا ناک میں) آگ کا حلقہ پہنانا پسند کرتا ہو تو وہ اس کو سونے کا حلقہ ضرور پہنائے (یعنی سونے کا بالا وغیرہ پہنانے کی سزا یہ ہے کہ اس کو آگ کا بالا وغیرہ پہنایا جائے گا) جو شخص اپنے عزیز کی گردن میں آگ کا طوق ڈالنا پسند کرتا ہو تو وہ اس کو سونے کا گلوبند ضرور پہنائے اور جو شخص اپنے عزیز کو آگ کا کنگن پہنانا پسند کرتا ہو وہ اس کو کنگن ضرور پہنائے، لیکن چاندی کے استعمال کی تمہیں اجازت ہے کہ تم اس کو اپنے استعمال و تصرف میں لاسکتے ہو۔ (ابوداؤد) تشریح حدیث کے آخری الفاظ فلعبوابھا کا اصل ترجمہ تو یہ ہے کہ تم چاندی سے کھیلو، یعنی چاندی کے زیورات بنوا کر اپنی عورتوں کو پہناؤ، اس کی انگوٹھی بنوا کر خود پہنو اور اگر اپنے ہتھیار جیسے تلوار وغیرہ کی زینت و آرائش چاہو تو اس مقصد کے لئے بھی چاندی استعمال کرسکتے ہو، لیکن حدیث کے ان الفاظ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ دنیا کی زیب وزینت اور دنیا کے زیورات لہو و لعب میں داخل ہیں اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے مباح ہوں، یا اس طرف اشارہ ہے کہ زیور دار عورت کے ساتھ تفریح و دل چسپی لینا گویا اس کے زیور کے ساتھ کھیلنا ہے۔ ابن مالک کہتے ہیں کہ کسی چیز کے ساتھ کھیلنا اس میں خواہش ومرضی کے مطابق تصرف کرنے کے مرادف ہے، لہٰذا ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی عورتوں کے زیور کے اقسام میں سے جس قسم کا زیور چاہو اس میں چاندی کا استعمال کرو، لیکن مردوں کو صرف انگوٹھی، تلواروں اور جنگ کے دوسرے ہتھیاروں کی زینت و آرائش کے لئے چاندی کا استعمال کرنا جائز ہے۔

【94】

سونے کے زیورات پہننے والی عورت کے بارے میں وعید

اور حضرت اسماء بنت یزید (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو عورت سونے کا ہار پہنے قیامت کے دن اس کی گردن میں اسی طرح کا ہار پہنایا جائے گا اور جو عورت اپنے کان میں سونے کا بالا یا بالی پہنے گی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے کان میں اسی طرح کا آگ کا بالا یا بالی ڈالے گا۔ (ابو داؤد )

【95】

سونے کے زیورات پہننے والی عورت کے بارے میں وعید

اور حضرت حذیفہ (رض) کی بہن سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اے عورتوں کی جماعت ! کیا تمہارے لئے چاندی میں وہ بات نہیں ہے کہ تم اس کا زیور بناؤ (یعنی تمہارے لئے چاندی کا زیور بنوانا کافی ہے) یاد رکھو ! تم میں سے جو بھی عورت سونے کا زیور بنوائے گی اور پھر اس زیور کی (بےجا اور بےموقع) نمائش کرتی پھرے گی تو اس کو اس کے عمل کی بنا پر عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ (ابوداؤد، نسائی) تشریح اوپر جو حدیثیں نقل کی گئی ہیں ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عورتوں کو بھی خالص سونا پہننا منع ہے اور جو عورت سونے کے زیوارت پہنے گی وہ حدیث میں مذکورہ وعید کا مورد ہوگی نیز یہ کہ محض چاندی کا زیور پہننا مباح ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے لئے دونوں مباح ہیں وہ سونے کے زیوارت بھی پہن سکتی ہیں اور چاندی کے بھی لہذا علماء نے ان احادیث کی مختلف تاویلیں بیان کی ہیں بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ پہلے تو یہی حکم تھا کہ سونا پہننا عورتوں کے لئے بھی مباح نہیں لیکن بعد میں اس روایت کے ذریعہ اس حکم کو منسوخ قرار دیا گیا جس کو حضرت علی (رض) نے نقل کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حریر یعنی خالص ریشم اور سونا میری امت کے مردوں کے لئے حرام ہے پس اس ارشاد سے ثابت ہوا کہ عورتوں کو سونا اور خالص ریشم پہننا مباح ہے۔ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ مذکورہ احادیث میں جو وعید بیان کی گئی ہے اس کا تعلق اس عورت سے ہے جو زکوٰۃ ادا کئے بغیر سونے کے زیورات پہنے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مذکورہ وعید اس عورت کے حق میں ہے جو زیورات پہن کر اجنبی مردوں کو دکھلائے۔

【96】

اگر جنت میں زیور اور ریشم پہننا چاہتے ہو تو دنیا میں ان چیزوں سے اجتناب کرو

حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ زیور والوں اور ریشم والوں کو منع فرماتے تھے (یعنی ان چیزوں کے پہننے کی ممانعت بیان کرتے تھے) اور فرماتے تھے کہ اگر تم جنت کے زیور اور جنت کے ریشم کی خواہش رکھتے ہو کہ جنت میں تمہیں یہ چیزیں ملیں تو دنیا میں ان چیزوں کو نہ پہنو۔ (نسائی )

【97】

آنحضرت ﷺ کی سونے کی انگوٹھی

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کو پہنا پھر آپ ﷺ نے (حاضرین کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ آج کے دن اس انگوٹھی نے مجھ کو تمہاری طرف سے مشغول رکھا (یعنی میں تمہاری طرف متوجہ نہ رہ سکا) کیونکہ کبھی تو اس انگوٹھی کی طرف دیکھتا ہوں اور کبھی تمہاری طرف دیکھتا ہوں۔ اور (یہ کہہ کر) آپ ﷺ نے اس انگوٹھی کو اتار پھینکا۔ (نسائی ) تشریح بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ حدیث میں جس انگوٹھی کا ذکر کیا گیا ہے وہ سونے کی تھی۔

【98】

بچوں کو بھی سونا پہننا منع ہے

اور حضرت امام مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا میں اس کو برا سمجھتا ہوں کہ لڑکوں کو سونے کی کوئی چیز پہنائی جائے کیونکہ مجھ تک روایت پہنچی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے سونے کی انگوٹھی بھی استعمال کرنے سے منع فرمایا ( اور جب انگوٹھی جیسی ممنوع ہے تو اور چیزیں بطریق اولی ممنوع ہوں گی لہذا میں مردوں کے لئے (سونا پہننا) برا سمجھتا ہوں خواہ وہ بڑے ہوں یا بچے ہوں !۔ (مؤطا) تشریح پس جس طرح مردوں کو سونے کی کوئی چیز خود پہننا یا لڑکوں کو پہننا ممنوع ہے اسی طرح چاندی کی چیزیں بھی ممنوع ہیں علاوہ انگوٹھی کے نیز ریشم کا کپڑا بھی سونے چاندی کے حکم میں ہے۔

【99】

پاپوش کا بیان

نعال نعل کی جمع ہے اور نعل اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ پیروں کو زمین سے بچایا جائے، جس چیز کے ذریعہ پیروں کی حفاظت کی جاتی ہے یعنی پاپوش اس کی ہیئت و قسم ہر دور میں اور ہر قوم و فرقہ کے لوگوں میں مختلف رہی ہے خواہ وہ جوتے کی صورت میں ہو یا چپل و کھڑاؤں وغیرہ کی شکل میں ہو۔ اس بات کی اصل مراد آنحضرت ﷺ کے پاپوشوں کی ہیئت وصفات بیان کرنا ہے جو اس دور میں اہل عرب کے درمیان رائج تھیں، چونکہ اس زمانہ میں رائج پاپوش بھی مختلف اقسام کے ہوتے تھے اس لئے باب کے عنوان میں جمع کا صیغہ، نعال، استعمال کیا گیا ہے۔

【100】

آنحضرت ﷺ کی پاپوش مبارک

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو جو پاپوش مبارک پہنے ہوئے دیکھا ہے اس میں بال نہیں تھے !۔ (بخاری )

【101】

آنحضرت ﷺ کی پاپوش مبارک

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی پاپوش مبارک میں دو تسمے تھے۔ (البخاری) تشریح قبال پاپوش کے تسمے کو کہتے ہیں جو انگلیوں کے بیچ میں ہوتا ہے، چناچہ آنحضرت ﷺ کی پاپوش مبارک میں دو تسمے تھے ایک انگوٹھے اور اس کے برابر والی انگلی کے درمیان رہتا تھا اور دوسرا تسمہ بیچ کی انگلی اور اس کے برابر والی انگلی جس کو عربی میں بنصر کہتے ہیں کے درمیان ہوتا تھا۔ اس پاپوش کو اس زمانے میں اہل عرب چپل کے طور پر استعمال کرتے تھے جس کو ہمارے یہاں عام طور پر گھر میں یا مسجد وغیرہ تک جانے کے لئے پہن لیا جاتا ہے۔

【102】

جوتے کی اہمیت

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک غزوے کے موقع پر کہ جس میں جنگ ہوئی (یعنی کسی جہاد کے لئے روانگی کے وقت) نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بہت سی جوتیاں لے لو، کیونکہ آدمی جب تک جوتیاں پہنے ہوئے ہوتا ہے سوار کی مانند رہتا ہے۔ (مسلم) تشریح جو شخص جوتا پہنے ہوئے ہوتا ہے وہ یقینا ننگے پیر چلنے والوں کی بہ نسبت زیادہ تیز چلتا ہے اور اس کے پیر بھی تکلیف اور نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں اسی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے جوتا پہننے والے شخص کو سوار کی مانند کہا گیا ہے، اس ارشاد گرامی میں گویا اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ اسباب سفر میں سے وہ چیزیں دوران سفر ضرور ساتھ رکھنی چاہئیں جن کی ضرورت پڑتی ہو۔

【103】

پہلے دایاں پیر جوتے میں ڈالو اور پہلے بائیں پیر کا جوتا اتارو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص جوتا پہنے تو اس کو چاہئے کہ دائیں پیر سے ابتدا کرے یعنی پہلے دایاں پیر جوتے میں ڈالے اور جب جوتا اتارے تو چاہئے کہ بائیں پیر سے ابتداء کرے یعنی بایاں پیر جوتے سے نکالے حاصل یہ کہ دائیں پیر کو پہنتے وقت تو مقدم رکھنا چاہئے اور اتارتے وقت مؤخر رکھنا چاہئے۔ (بخاری و مسلم) تشریح مذکورہ مسئلہ میں اصل ضابطہ یہ ہے کہ جو عمل فضیلت و شان رکھتا ہو اس میں دائیں سے ابتداء کرنا مستحب ہے اور جو عمل ایسا نہ ہو اس میں بائیں سے ابتداء ہونی چاہئے، چناچہ جوتا پہننا چونکہ مسجد میں جانے اور دوسرے اعمال خیر کا ذریعہ اور وسیلہ ہے اس لئے جوتا پہنتے وقت دائیں پیر سے ابتداء کرنا مستحب ہے اس ضابطہ کی روشنی میں یہ بھی مستحب ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دائیں پیر رکھنا چائیے اور مسجد سے نکلتے وقت پہلے بایاں پیر نکالنا چاہئے اس کے برخلاف بیت الخلاء جاتے وقت پہلے بایاں پیر اندر رکھنا چاہئے اور وہاں سے نکلتے وقت پہلے دایاں پیر نکالنا چاہئے۔ یہ ضابطہ کی بات تھی اس کے علاوہ اس حقیقت پر بھی نظر رہنی چاہئے کہ بائیں پیر کے مقابلہ میں دائیں پیر کو فضیلت اور برتری کا درجہ حاصل ہے لہٰذا اس کی تکر یم کو ملحوظ رکھنا چاہئے اور اس کی تکریم یہی ہے کہ جب جوتا پہنا جائے تو پہلے دایاں پیر جوتے میں ڈالا جائے اور جب جوتا اتارا جائے تو پہلے بائیں پیر کا جوتا نکالا جائے تاکہ دایاں پیر بائیں پیر کی بہ نسبت جوتے میں زیادہ دیر تک رہے یہ گویا دائیں پیر کے اعزازو احترام کا ذریعہ ہے اسی پر مسجد وغیرہ میں داخل ہونے اور وہاں سے نکلنے کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔

【104】

ایک پیر میں جوتا اور ایک پیر ننگا نہ ہونا چاہئے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایک پیر میں جوتا پہن کر نہ چلے، یہ ضروری ہے کہ یا تو دونوں پیر ننگے ہوں یا دونوں پیروں میں جوتے ہوں۔ (بخاری و مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جوتا پہنے تو دونوں پیروں میں پہنے اور اگر نہ پہنے تو دونوں پیروں میں نہ پہنے ایک پاؤں میں جوتا پہننا اور دوسرے پاؤں کو ننگا رکھنا مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ اول تو یہ طریقہ تہذیب و شائستگی کے خلاف ہے، دوسرے پیروں کے اونچے نیچے پڑنے اور گر جانے کا سبب بن سکتا ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کہ جوتا اونچا اور زمین غیر ہموار ہو۔ علماء نے اس کے ساتھ ایک ہاتھ آستین سے باہر رکھنے کو بھی شامل کیا ہے یعنی اگر کوئی شخص کرتے وغیرہ کی ایک آستین میں تو ہاتھ ڈال لے لیکن دوسری آستین کو خالی چھوڑ کر کندھے پر ڈال لے تو اس کا بھی یہی حکم ہے اسی طرح ایک پاؤں میں جوتا پہننا اور دوسرے پاؤں میں محض موزہ پہن لینا بھی یہی حکم رکھتا ہے۔

【105】

ایک پیر میں جوتا اور ایک پیر ننگا نہ ہونا چاہئے

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کسی شخص کی جوتی یعنی چپل وغیرہ کا تسمہ ٹوٹ جائے تو ایک ہی جوتے میں نہ چلے بلکہ اس جوتی کا تسمہ درست کرلے اسی طرح کپڑے میں گوٹ مارے (جب کہ اس کپڑے کا کوئی حصہ اس کے ستر کو چھپائے ہوئے نہ ہو) اور نہ کسی کپڑے کو بدن پر اس طرح لپیٹ لے کہ ہاتھ بھی اندر رہیں (اور ہاتھ نکالتے وقت ستر کھل جائے ) ۔ (مسلم )

【106】

آنحضرت ﷺ کی پاپوش مبارک کے تسمے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی پاپوش مبارک میں دو تسمے تھے جن میں پیروں کی انگلیاں رہتی تھیں اور ان دونوں میں ہر تسمہ دوہرا تھا تاکہ تسمے کی مضبوطی بھی قائم رہے اور پاؤں میں دھنستے بھی نہیں۔ (ترمذی )

【107】

کھڑے ہو کر جوتا پہننے کی ممانعت

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں رسول کریم ﷺ کھڑے ہو کر جوتا پہننے سے منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی، وابن ماجہ، ) نے اس روایت کو ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے۔ تشریح یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب کہ کھڑے ہو کر جوتا پہننے میں مشقت اٹھانا پڑتی ہو، یعنی ایسا جوتا ہو جس کو پہننے اور اس کا تسمہ باندھنے میں ہاتھ لگانا پڑتا ہو، ویسے مطلق جوتے کے بارے میں یہ ممانعت نہیں ہے۔

【108】

کیا آنحضرت ﷺ ایک پاؤں میں جوتا پہن کر چلتے پھرتے تھے

اور حضرت قاسم بن محمد حضرت عائشہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا نبی کریم ﷺ بعض وقت ایک پاپوش پہن کر چلتے تھے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) ایک پاپوش پہن کر چلیں ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ روایت اسناد کے اعتبار سے یا مفہوم و معنی کے اعتبار سے نہایت صحیح ہے تشریح جن احادیث میں ایک پاؤں میں جوتا پہن کر چلنے کی ممانعت منقول ہے یہ حدیث ان کے بالکل متضاد ہے چناچہ علماء نے اس حدیث کے صحیح ہونے میں شک و شبہ کا اظہار کیا ہے اور لکھا ہے کہ اگر اس حدیث کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس صورت میں آنحضرت ﷺ کا یہ عمل نادر کے درجہ میں ہوگا اور یہ کہ اس کا تعلق گھر کے اندر سے ہوگا نہ کہ باہر سے یعنی اپ ﷺ گھر کے اندر کسی موقع پر ایک جوتا پہن کر چلے ہوں گے اور وہ بھی کسی ضرورت و مجبوری کی بنا پر، یا بیان جواز کی خاطر تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ ایک پیر میں جوتا پہن کر چلنا بالکل حرام نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز امت کے حق میں مکروہ تنزیہی ہے اس کا شارع (علیہ السلام) کے عمل میں آنا اس چیز کے اصل میں جواز کو ظاہر کرنے کے لئے ہوتا ہے اس اعتبار سے وہ چیز گویا شارع کے حق میں مکروہ ہوتی ہی نہیں بلکہ کسی چیز کے جواز کو بیان کرنا شارع پر واجب ہے اس نکتہ کو صاحب مواہب لدنیہ نے آنحضرت ﷺ کے کھڑے ہو کر پانی پینے کے ضمن میں بیان کیا ہے۔

【109】

جوتے اتار کر بیٹھو

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یہ بات سنت سے ثابت ہے کہ جب کوئی شخص بیٹھے تو اپنے جوتے اتارے اور ان کو اپنے پہلو میں رکھ لے !۔ (ابوداؤد ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جوتے سمیت نہ بیٹھے بلکہ ان کو اتار کر بیٹھے کہ یہ آداب مجلس کا تقاضہ بھی ہے اور تہذیب و شائستگی کی علامت بھی، نیز جوتوں کو اپنے بائیں پہلو کی طرف رکھے تاکہ دائیں پہلو کی تکریم برقرار رہے، سامنے کی طرف بھی نہ رکھے، تاکہ اگر مسجد وغیرہ میں بیٹھا ہو تو قبلہ کی تعظیم کے خلاف نہ ہو اور چوری ہوجانے کے خوف سے پیچھے کی طرف بھی نہ رکھے۔

【110】

آنحضرت ﷺ کے لئے نجاشی کی طرف سے پائتابوں کا ہدیہ

اور حضرت ابن بریدہ (رض) اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نجاشی (حبش کے بادشاہ) نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں دو سیاہ موزے (یعنی کالے چمڑے کے پائتابے) بطور ہدیہ بھیجے جو سادہ یعنی غیر منقش تھے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کو بحالت طہارت پہنا۔ (ابن ماجہ) اور ترمذی نے اس روایت کو ابوہریرہ (رض) اور انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا ہے یعنی ترمذی کی روایت میں عن ابن بریدۃ کے بجائے عن ابی بریدۃ ہے اور ان کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے کہ پھر آنحضرت ﷺ نے وضو کیا اور ان موزوں پر مسح کیا۔ تشریح وہ موزے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ ﷺ نے یہ تحقیق و تفتیش نہیں کی کہ یہ موزے جس چمڑے کے ہیں آیا وہ دباغت دیا گیا تھا یا نہیں اور یہ کہ چمڑہ مردار کا ہے یا ذبح کئے ہوئے جانور کا، ان باتوں کو پوچھے بغیر آپ ﷺ نے وہ موزے پہن لئے گویا آپ ﷺ نے ان موزوں کی ظاہری صورت حال کا اعتبار کیا کہ ظاہر میں ان پر کسی نجاست وغیرہ کے آثار نہیں تھے اس لئے ان کو پاک سمجھا اس سے کورے کپڑوں، بوریوں، چٹائیوں، قالین، دریوں اور شطرنجی اور دوسرے فرش و فروش کا یہ حکم معلوم ہوا کہ اگر ان پر ظاہر میں کوئی نجاست وغیرہ محسوس نہ ہو تو وہ پاک سمجھے جائیں گے۔

【111】

کنگھی کرنے کا بیان

ترجل عربی زبان میں کنگھی کرنے کو کہتے ہیں، خواہ اس کا تعلق سر میں کنگھی کرنے کا ہو یا داڑھی میں لیکن عام طور پر ترجل کا استعمال سر میں کنگھی کرنے کے معنی میں ہوتا ہے اور داڑھی میں کنگھی کرنے کو تسریح کے لفظ سے بیان کرتے ہیں۔

【112】

حائضہ کا بدن ناپاک نہیں ہوتا

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے اپنے ایام حیض میں بھی رسول کریم ﷺ کے سر مبارک میں کنگھی کیا کرتی تھی۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ کا بدن ناپاک نہیں ہوتا اور یہ کہ اس (حائضہ) کے ساتھ اختلاط جائز ہے۔

【113】

وہ چیزیں جو|" فطرت |" ہیں

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا پانچ چیزیں فطرت میں (داخل) ہیں ایک تو ختنہ کرانا دوسرے (زیر ناف بالوں کو صاف کرنے کے لئے لوہے) یعنی استرے وغیرہ کا استعمال کرنا، تیسرے لبوں کے بال ترشوانا چوتھے ناخن کٹوانا اور پانچویں بغل کے بال صاف کرانا۔ (بخاری و مسلم) تشریح فطرت کا مطلب یہ ہے کہ پانچ چیزیں تمام انبیاء کرام صلوات اللہ علیہم اجمعین کی شریعت میں مسنون رہی ہیں۔ واضح رہے کہ فطرت سے متعلق حدیث کتاب کے ابتدائی حصے میں باب السواک میں بھی گزر چکی ہے، وہاں دس چیزوں کو فطرت میں شمار کرایا گیا تھا اور یہاں پانچ چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نہ تو وہاں حصر مقصود تھا بلکہ مراد یہ ہے کہ جو چیزیں تمام انبیاء کرام کی سنت ہونے کی وجہ سے فطرت کا درجہ رکھتی ہیں ان میں سے دس چیزیں یہ ہیں (جن کو باب السواک میں بیان کیا گیا ہے) اور پھر ان دس چیزوں میں سے پانچ چیزیں علیحدہ کر کے بیان کی گئی ہیں۔

【114】

اپنے کو اہل شرک سے ممتاز رکھو

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اہل شرک کے خلاف کرو یعنی وہ چونکہ داڑھیاں پست کراتے ہیں اور مونچھیں بڑھاتے ہیں اس لئے ہم بایں طور ان سے اپنے آپ کو ممتاز رکھو کہ تم داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں ہلکی کراؤ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ تم مونچھیں نہایت ہلکی کراؤ اور داڑھیاں چھوڑ دو ۔ (بخاری و مسلم )

【115】

زائد بالوں کو صاف کرنے کی مدت

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ مونچھیں ترشوانے، ناخن کٹوانے، بغل کے بال صاف کرانے اور زیر ناف مونڈنے کے بارے میں ہمارے لئے جو مدت متعین کی گئی ہے وہ یہ کہ ہم ان کو چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔ (مسلم) تشریح ابن مالک کہتے ہیں کہ حضرت ابوعمر (رض) سے منقول ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ ناخن اور لبوں کے بال، ہر جمعہ کو ترشواتے تھے، زیر ناف بال بیس دن میں صاف کرتے تھے اور بغل کے بال چالیس دن میں صاف کراتے تھے۔ قنیہ میں لکھا ہے کہ افضل یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک بار ناخن ترشوا کر، لبوں کے بال ہلکے کرا کر اور جسم کے زائد بال صاف کر کے غسل کے ذریعہ اپنے بدن کو صاف ستھرا کیا جائے اگر ہر ہفتہ یہ ممکن نہ ہو تو ہر پندرھویں دن اس پر عمل کیا جائے، یہاں تک کہ چالیس دن سے زائد کا عرصہ گزر جائے تو یہ بلا عذر ترک کہلائے گا گویا ان چیزوں کے لئے ایک ہفتہ تو افضل مدت ہے پندرہ روزہ مدت اوسط درجہ پر مشتمل ہے اور آخری مدت چالیس دن ہے چالیس سے زیادہ گذارنے والا بلاعذر ترک کرنے والا شمار ہوگا جس پر حنفیہ کے نزدیک وہ وعید کا مستحق ہوگا۔ مظہر کہتے ہیں کہ ابوعمر (رض) اور عبداللہ الاغر (رض) سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ ہر جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کو جانے سے پہلے لبوں کے بال اور ناخن کترتے تھے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ آپ ﷺ بغل کے بال اور ناف کے نیچے کے بال چالیس دن میں اور بعض حضرات کی روایت کے مطابق ایک مہینہ میں صاف کرتے تھے، ایک مہینہ والی روایت ایک معتدل قول ہے۔

【116】

خضاب کرنے کا مسئلہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہودی اور عیسائی خضاب نہیں لگاتے لہٰذا تم ان کے خلاف کرو۔ (بخاری و مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ تم لوگ خضاب لگا کر یہودیوں اور عیسائیوں کی مخالفت کو ظاہر کرو۔ واضح رہے کہ خضاب سے مراد وہ خضاب ہے جو سیاہ نہ ہو کیونکہ سیاہ خضاب لگانا ممنوع ہے، اس کی تفصیلی بحث آگے آئے گی، جہاں تک صحابہ وغیرہ کا تعلق ہے تو وہ مہندی کا سرخ خضاب کرتے اور کبھی کبھی زرد خضاب بھی کرلیا کرتے تھے چناچہ مہندی کا خضاب لگانے کے بارے میں متعدد احادیث منقول ہیں اور علماء نے لکھا ہے کہ مہندی کا خضاب مؤمن ہونے کی ایک علامت ہے، تمام علماء کے نزدیک مہندی کا خضاب لگانا جائز ہے، بلکہ بعض فقہاء نے مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے اس کو مستحب بھی کہا ہے اور اس کے فضائل میں وہ احادیث بھی نقل کرتے ہیں اگرچہ ان احادیث کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ مجمع البحار میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں خضاب کرنے کا حکم ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جن کے بال کھچڑی یعنی کچھ سیاہ اور کچھ سفید ہوں، بلکہ ان لوگوں کے لئے ہے جن کے بال بالکل سفید ہوگئے ہوں اور سیاہ بالوں کا نام و نشان بھی باقی نہ رہ گیا ہو، جیسا کہ حضرت ابوقحافہ (رض) کے بال تھے، جن کے متعلق اگلی حدیث میں ذکر آ رہا ہے، اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ خضاب کے مسئلہ میں علماء کے اقوال مختلف ہیں اور اس اختلاف کی بنیاد احوال کے مختلف ہونے پر ہے۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اس حکم کا تعلق اس مسلم شہر و علاقہ کے لوگوں سے ہے جہاں خضاب لگانے کا عام دستور ہو کہ اگر کوئی شخص اپنے شہر کے لوگوں کے تعامل و عادت سے اپنے آپ کو الگ رکھے گا تو غیر مناسب شہرت کا حامل ہوگا جو مکروہ ہے اور بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے بالوں کی سفیدی اس کے باوقار و پاکیزہ بڑھاپے کی علامت اس کے چہرے مہرے کی نورانیت اور خوشنمائی کا سبب ہو بلکہ، خضاب کرنے سے اس کی شخصیت کا وقار پھیکا پڑجاتا ہو تو اس کے حق میں خضاب نہ کرنا ہی زیادہ بہتر اور زیادہ مناسب ہے اس کے برخلاف جس شخص کے بالوں کی سفیدی اس کے بدنما اور بےوقت بڑھاپے کی غماز ہو جس کی وجہ سے اس کی شخصیت کی دل کشی مجروح ہوتی ہو تو اس کو اپنا یہ عیب چھپانا اور خضاب لگانا زیادہ بہتر و مناسب ہے۔

【117】

خضاب کرنے کا مسئلہ

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ (حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے والد) ابوقحافہ کو فتح مکہ کے دن لایا گیا اور اسی دن انہوں نے اسلام قبول کیا ان کے سر اور داڑھی کے بال گویا ثغامہ تھے یعنی بالکل سفید تھے نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ان بالوں کی سفیدی کو کسی چیز کے ذریعہ بدل ڈالو لیکن سیاہ رنگ سے اجتناب کرنا یعنی سیاہ خضاب استعمال نہ کرنا۔ (مسلم) تشریح ثغامہ ایک قسم کی گھاس کو کہتے ہیں جس کے شگوفے اور پھل سفید ہوتے ہیں اس گھاس کو فارسی میں ورمغہ کہا جاتا ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیاہ خضاب مکروہ حرام ہے اور مطالب المؤمنین میں علماء کا یہ قول لکھا ہے کہ اگر کوئی غازی و مجاہد و دشمنان دین کی نظر میں اپنی ہیبت قائم کرنے کے لئے سیاہ خضاب کرے تو جائز ہے اور جو شخص اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے زینت و آرائش کی خاطر اور عورت کی نظر میں دل کش بننے کے لئے سیاہ خضاب کرے تو یہ اکثر علماء کے نزدیک ناجائز ہے۔ اس سلسلے میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں جو کچھ منقول ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مہندی اور وسمہ (نیل کے پتے) کا خضاب کرتے تھے اور اسی خضاب کی وجہ سے ان کے بالوں کا رنگ سیاہ نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ سرخ مائل بہ سیاہی ہوتا تھا، اسی طرح اس سلسلے میں بعض دوسرے صحابہ کے متعلق جو روایات نقل کی جاتی ہیں وہ بھی اسی پر محمول ہیں۔ حاصل یہ کہ مہندی کا خضاب بالاتفاق جائز ہے اور سیاہ خضاب میں حرمت و کراہت ہے بلکہ اس کے بارے میں بڑی سخت وعید بیان کی گئی ہے، جیسا کہ دوسری فصل میں بیان ہوگا۔

【118】

سر کے بالوں میں فرق وسدل دونوں جائز ہیں

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو جس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نہیں ملتا تھا اس میں آپ ﷺ اہل کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے تھے چناچہ اہل کتاب اپنے (سر کے) بالوں کو یونہی چھوڑے رکھتے تھے ( یعنی وہ مانگ نہیں نکالتے تھے بلکہ اپنے بالوں کو یونہی پڑے رہنے دینے تھے) جب کہ مشرکین اپنے سروں میں مانگ نکالتے اس لئے نبی کریم ﷺ اہل کتاب کے طریقے کے مطابق) اپنی پیشانی کے بال یوں ہی چھوڑے رکھتے تھے لیکن بعد میں مانگ نکالنے لگے تھے ( بخاری و مسلم) تشریح سدل کے معنی ہیں سر کے بالوں کو چاروں طرف یونہی چھوڑے اور لٹکائے رکھنا اور مانگ نکالنے کے لئے دونوں طرف کے بالوں کو اکٹھا نہ کرنا اور فرق کا مطلب ہے سر کے آدھے بالوں کو ایک طرف اور آدھے بالوں کو دوسری طرف اکٹھا کرلینا نیز قاموس میں لکھا ہے کہ فرق بالوں کے درمیان پیدا کی جانے والی راہ یعنی مانگ کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے نبی کریم ﷺ جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو ابتداء میں اہل کتاب کی موافقت میں پیشانی کے بالوں کو سدل کرتے تھے، یعنی یوں ہی بےترتیب چھوڑے رکھتے کیونکہ اہل کتاب کا طریقہ سدل ہی کا تھا واضح رہے کہ سدل کا مطلب اگر بالوں کے سر کے چاروں طرف یونہی رکھنا ہے اور اس میں پیشانی کے بالوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے، لیکن سدل اور فرق کے درمیان امتیاز چونکہ پیشانی کے اوپر کے بالوں ہی سے ظاہر ہوتا ہے اس سبب سے خاص طور سے پیشانی کے بالوں کو ذکر کیا گیا ہے اگرچہ طیبی نے کہا ہے کہ یہاں سدل سے مراد محض پیشانی کے بالوں کو چھوڑے رکھنا ہے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ شروع میں تو آنحضرت ﷺ کا معمول سدل ہی کا تھا لیکن بعد میں فرق یعنی مانگ نکالنا آخری عمل پایا، لہٰذا اس بنا پر بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ سدل یعنی بالوں کو یوں ہی چھوڑے رکھنا منسوخ ہے، کیونکہ آنحضرت ﷺ کو چھوڑ کر فرق کو اختیار کرنا حکم الہٰی (وحی) کے سبب تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو یہ اجازت تھی کہ جس معاملہ میں ابھی کوئی شرعی حکم نازل نہیں ہوا ہے اس اہل کتاب کے دستور کے مطابق عمل کیا جاسکتا ہے، چناچہ جب بالوں کے بارے میں آپ ﷺ کو بذریعہ وحی فرق یعنی مانگ نکالنے کا حکم دیا گیا تو یہ اس بات کی علامت قرار پایا کہ بالوں کے سلسلے میں عارضی طور پر اہل کتاب کے دستور کے مطابق عمل کرنے کی جو اجازت تھی وہ منسوخ ہوئی اس سے خود بخود یہ واضح ہوگیا کہ فرق کا حکم آخری و حتمی ہے اس لئے اس بارے میں اہل کتاب کی مخالفت یعنی سدل کو ترک کرنا بھی حتمی ہی طور پر ہونا چاہئے۔ اس حدیث سے بعض حضرات نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کی شریعت ہمارے لئے قابل اتباع ہے جب تک کہ ہمیں اس کے برخلاف عمل کرنے کا حکم نہ دیا جائے، لیکن یہ اتباع انہیں چیزوں میں ہوگا جن کے بارے میں ہو کہ ان میں کوئی تغیر و تبدل نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ جوں کے توں وہی احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے پچھلی شریعت میں نازل کئے تھے۔ روایت کے ان الفاظ یحب موافقتہم (آپ ﷺ اہل کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے تھے) سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان معالات میں بھی اہل کتاب کی موافقت کرنے کو آنحضرت ﷺ کے محض اختیار پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ اگر آپ ﷺ پسند کریں تو اہل کتاب کے مطابق عمل کریں اور اگر پسند نہ کریں تو عمل نہ کریں اگر یہ (یعنی موافقت کرنے کا حکم) اسی درجہ کا ہوتا، جس درجہ کا کوئی شرعی حکم ہوتا ہے تو اس میں آنحضرت ﷺ کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کا کوئی سوال نہیں ہوتا بلکہ ایک واجب اور لازم امر ہوتا۔ بعض احادیث میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ معمول تھا کہ اگر آپ ﷺ کے بال بےترتیب اور بکھرے ہوئے ہوتے تو ان کو اکٹھا کر کے مانگ نکال لیتے تھے ورنہ ان کی حالت پر چھوڑے رکھتے تھے، گویا عام حالات میں (جب کہ بال بکھرے ہوئے نہ ہوتے) آپ ﷺ سدل یا دونوں میں سے کسی کا بھی اہتمام و تکلف نہیں فرماتے تھے بلکہ ان بالوں کو ان کی حالت پر رہنے دیتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ سدل اور فرق دونوں جائز ہیں لیکن فرق افضل ہے۔

【119】

|" قزع |" کی ممانعت

اور حضرت نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے نبی کریم ﷺ کو قزع سے منع فرماتے ہوئے سنا، حضرت نافع سے پوچھا گیا کہ قزع کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا (قزع اس کو کہتے ہیں کہ) لڑکے کے سر کے بعض حصہ کو مونڈا جائے اور بعض حصے کو چھوڑ دیا جائے۔ (بخاری ومسلم) اور بعض راویوں نے وضاحت کو حدیث کے ساتھ جوڑا ہے یعنی راوی کے مطابق، قزع کے یہ معنی آنحضرت ﷺ ہی نے بیان فرمائے۔ تشریح نووی کہتے ہیں کہ قزع کے معنی مطلق (کسی کے بھی) سر کے کچھ حصے کو مونڈنا (اور کچھ حصے کو بغیر مونڈے چھوڑ دینا ہیں) اور یہی معنی زیادہ صحیح ہیں کیوں کہ حدیث کے روای نے بھی یہی معنی بیان کئے ہیں اور یہ حدیث کے ظاہری مفہوم کے مخالف بھی نہیں ہیں لہٰذا اسی معنی پر اعتماد کرنا واجب ہے ! جہاں تک لڑکے کی تخصیص کا ذکر ہے تو یہ محض عام رواج و عادات کی بنا پر ہے ورنہ قزع جس طرح لڑکے کے حق میں مکروہ ہے، اس طرح بڑوں کے حق میں بھی مکروہ ہے، اسی لئے فقہی روایات میں یہ مسئلہ کسی قید و استثناء کے بغیر بیان کیا جاتا ہے اور قزع میں کراہت اس اہل کفر کی مشابہت اور بد ہئیتی سے بچانے کے لئے ہے۔ راوی نے قزع کا جو مطلب بیان کیا ہے اور جس کو نووی نے زیادہ صحیح کہا ہے اس میں چوٹی (جیسا کہ غیر مسلم اپنے سر چھوڑتے ہیں) (زلف اور بالوں کی) وہ تراش خراش شامل ہے جو مسنون طرز کے خلاف ہو۔

【120】

|" قزع |" کی ممانعت

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے ایک ایسے لڑکے کو دیکھا جس کے سر کا کچھ حصہ مونڈا گیا تھا۔ چناچہ آپ ﷺ نے لڑکے کی پرورش کرنے والوں کو اس سے منع فرمایا اور فرمایا کہ پورے سر کو مونڈو یا پورے سر کو چھوڑ دو !۔ (مسلم) تشریح اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ حج وعمرہ کے علاوہ بھی سر منڈانا جائز ہے۔ ویسے مسئلہ یہ ہے کہ مرد کو اختیار ہے کہ وہ چاہے سر منڈائے اور چاہے سر پر بال رکھے لیکن افضل یہ کہ سوائے حج اور عمرہ کے سر نہ منڈائے، جیسا کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت علی (رض) کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام کا معمول تھا اور کتاب کے ابتدائی حصہ میں باب الجنایت کے دوران اس کا ذکر گزر چکا ہے۔

【121】

مخنث پر آنحضرت ﷺ کی لعنت

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مخنث مردوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان عورتوں پر بھی لعنت فرمائی جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ مخنثوں کو اپنے کو اپنے گھروں سے نکال باہر کرو۔ (بخاری) تشریح مُخَنَث یا مُخَنث (زیادہ صحیح مخنث ہی ہے) کی اصل خنث ہے جس کے لغوی معنی نرمی اور شکستگی کے ہیں۔ مخنث اس مرد کو کہتے ہیں جو عورتوں کا سا لباس پہنے، عورتوں کی طرح ہاتھ پیروں کو مہندی کے ذریعہ رنگین کرے اور بات چیت میں عورتوں کا لب و لہجہ اختیار کرے اور اسی طرح جملہ حرکات و سکنات میں عورتوں کا انداز اپنائے، ایسے مرد کو ہماری بول چال میں ہجڑہ یا زنانہ بھی کہا جاتا ہے۔ مخنث دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو خلقی کہ ان کے اعضاء جسم اور انداز میں خلقی اور جبلی طور پر عورتوں کی سی نرمی و لچک ہوتی ہے، گویا ان میں قدرتی طور پر عورتوں کے اوصاف و عادات ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ بعض مرد اگرچہ اپنے اعضاء جسم اور خلقت وجبلت کے اعتبار سے مکمل مرد ہوتے ہیں مگر جان بوجھ کر اپنے کو عورت بنانا چاہتے ہیں چناچہ وہ بات چیت کے انداز اور رہن سہن کے طور طریقوں میں عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں یہاں تک کہ اپنے فوطے اور عضو تناسل کٹوا کر نامرد بھی بن جاتے ہیں، مخنثوں کی اسی قسم کے حق میں لعنت و مذمت فرمائی گئی ہے، اس کے برخلاف پہلی قسم اس لعنت سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ تو معذوری کی شکل ہے اس میں اپنے قصد و اختیار کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اسی طرح عورتوں پر بھی لعنت فرمائی گئی ہے جو اپنے آپ کو وضع قطع، رہن سہن اور لباس وغیرہ میں مردوں کے مشابہ بناتی ہیں۔ شرعۃ الاسلام کی شرح میں لکھا ہے کہ مہندی لگانا عورتوں کے لئے مسنون ہے اور مردوں کے لئے بلاعذر لگانا مکروہ ہے، کیونکہ اس میں عورتوں کی مشابہت لازم آتی ہے۔ اس قول سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عورتوں کے لئے مہندی سے بالکل عاری رہنا مکروہ ہے کیونکہ اس صورت میں اس کی مردوں کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے۔

【122】

مخنث پر آنحضرت ﷺ کی لعنت

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو مرد عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور جو عورتیں مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ (بخاری )

【123】

انسانی بال سے نفع اٹھانا حرام ہے۔

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو عورت اپنے بالوں میں کسی دوسری عورت کے بالوں کا جوڑا لگائے (خواہ خود لگائے اور خواہ کسی دوسرے سے لگوائے) اور جو عورت کسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جو عورت گودے اور جو عورت گدوائے ان سب پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (بخاری، ومسلم) تشریح بالوں کا جوڑ لگائے یا لگوائے سے مراد یہ ہے کہ بالوں کے حسن و درازی کے لئے کوئی عورت کسی دوسری عورت کے بالوں کا چوٹا لے کر اپنی چوٹی میں شامل کرے یا اپنے بالوں کا چوٹا لے کر کسی دوسری عورت کی چوٹی میں شامل کر دے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ احادیث سے یہ بات صراحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ بلا کسی استثناء و قید کے بالوں کا جوڑ لگانا حرام ہے چناچہ ظاہر و مختار مسئلہ بھی یہی ہے لیکن ہمارے (شافعی) علماء نے اس مسئلہ میں یہ تفصیل بیان کی ہے کہ انسان کے بالوں کا جوڑ لگانا تو بلا اختلاف حرام ہے کیونکہ انسان کو جو بزرگی و شرف حاصل ہے، اس کی بناء پر اس کے بالوں اور اس کے دیگر اجزاء جسم سے فائدہ اٹھانا حرام ہے اور اگر انسان کے علاوہ کسی جانور کے پاک بال ہوں تو ان کی چوٹی میں شامل کرنے کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر عورت کا خاوند یا مالک نہ ہو (یعنی جو عورت آزاد ہو اور مطلقہ یا بیوہ یا کنواری ہو) تو اس کے لئے اپنی چوٹی میں ان بالوں کو شامل کرنا بھی حرام ہے اور اگر عورت خاوند یا مالک والی ہو تو اس کے حق میں تین صورتیں ہیں جن میں سے سب سے زیادہ صحیح صورت یہ ہے کہ وہ خاوند یا مالک کی اجازت کے بعد ان بالوں کو اپنی چوٹی میں شامل کرے تو جائز ہے۔ مالک، طبری اور اکثر علماء یہ کہتے ہیں کہ عورت کے لئے اپنی چوٹی میں کوئی بھی چیز شامل کرنا ممنوع ہے خواہ وہ بال ہوں، خواہ کالے صوف (اون) ہوں، خواہ دھجیاں ہوں اور خواہ ان کے علاوہ کوئی اور چیز ہو، ان حضرات نے اس مسئلہ میں احادیث سے استدلال کیا ہے، جبکہ فقیہ لیث کا قول یہ ہے کہ مذکورہ ممانعت کا تعلق صرف بالوں سے ہے، لہٰذا چوٹی میں بالوں کے علاوہ دوسری چیزیں جیسے صوف وغیرہ شامل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ نیز بالوں کو ایسی ڈوری وغیرہ سے باندھنا کہ جو بالوں کی مشابہت نہ رکھے بلا کراہت جائز ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں یہ لکھا ہے کہ سر کے بالوں میں (یعنی چوٹی میں ) انسان کے بال شامل کرنا حرام ہے لیکن صوف یعنی اون کو شامل کرنا جائز ہے۔ گودنے کا مطلب یہ ہے کہ جسم کے کسی حصہ کی جلد پر سوئیاں یا اسی طرح کی کوئی چیز چبھوئی جائے یہاں تک کہ خون بہنے لگے پھر اس میں سرمہ یا نیل بھر دیا جائے۔ یہ زمانہ جاہلیت کی ایک رسم ہے اور آج کل بعض غیر مسلم قوموں میں اس کا رواج ہے، شریعت اسلامی نے اس کو ممنوع قرار دیا ہے، نووی فرماتے ہیں کہ یہ چیز گودنے والے اور گدوانے والے دونوں کے لئے حرام ہے اور جسم کے جس حصہ پر گودا جاتا ہے وہ حصہ نجس ہوجاتا ہے، لہٰذا اگر کسی مسلمان نے ناسمجھی سے گدوا لیا ہے اور کسی علاج و معالجہ کے ذریعہ اس کا ازالہ ممکن ہو تو اس کا نشان مٹوا دینا واجب ہے اور اگر کسی حرج و تنگی کے بغیر اس کا ازالہ ممکن نہ ہو، نیز اس بات کا خوف ہو کہ اس کو زائل کرنے کی صورت میں جسم کا وہ حصہ تلف یا بیکار ہوجائے گا یا پوری طرح کام نہیں کرے گا یا اس ظاہری عضو میں بہت بڑا عیب پیدا ہوجائے گا تو اس صورت میں اس کا ازالہ واجب نہیں، تاہم اللہ سے معافی مانگنا اور توبہ و استغفار کرنا چاہئے تاکہ اس پر سے گناہ کا بار ہٹ جائے اور اگر مذکورہ چیزوں میں سے کسی چیز کا خوف نہ ہو تو پھر اس کا ازالہ ہی لازم ہوگا اور اس میں تاخیر کرنے سے گنہگار ہوگا۔

【124】

اللہ کی تخلیق میں تغیر کرنے والا اللہ کی لعنت کا مورد ہے

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ گودنے والی اور گدوانے والی عورتیں منہ پر سے بال نچوانے والی عورتیں، افزائش حسن کے لئے دانتوں کو سوہان (ریتی) سے رتوانے والی عورتیں ان سب پر کہ جو اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں میں تغیر کرتی ہیں اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔ (جب ابن مسعود (رض) کی یہ روایت عورتوں تک پہنچی) تو ایک عورت حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ آپ اس طرح (کی عورتوں پر) لعنت بھیجتے ہیں ؟ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ میرے لئے کیا رکاوٹ ہے کہ میں اس پر لعنت نہ بھیجوں جس پر رسول کریم ﷺ نے لعنت فرمائی ہے اور جس کو کتاب اللہ میں ملعون قرار دیا گیا ہے عورت نے کہا کہ میں نے بھی اس چیز کو پڑھا ہے جو دو دفتیوں کے درمیان ہے (یعنی میں نے بھی پورا قرآن کریم پڑھا ہے) لیکن اس میں مجھے یہ بات جو آپ کہتے ہیں (صریح الفاظ میں) کہیں نہیں ملی ہے ؟ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا۔ اگر تم قرآن کریم کو غور و فکر کے ساتھ اور سمجھ کر پڑھتیں تو اس میں تمہیں یقینا اس کا حکم ملتا، کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی ہے (وَمَا اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا) 59 ۔ الحشر 7) (یعنی رسول کریم ﷺ تمہیں جو کچھ دیں اس کو قبول کرو اور اس پر عمل کرو اور جس چیز سے تمہیں منع کریں اس سے باز رہو) اس عورت نے کہا کہ ہاں یہ آیت تو میں نے پڑھی ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ پس یہ وہ چیز ہے جس سے آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح عورتوں کو اپنے چہرے کے بال چنوانا مکروہ ہے لیکن اگر کسی عورت کو چہرے پر داڑھی یا مونچھ نکل آئے تو اس کو صاف کرنا جائز بلکہ مستحب ہے۔ حدیث میں صرف چنوانے والی کا ذکر ہے۔ چننے والی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ جس کو نامصہ کہتے ہیں جب کہ اس مسئلہ سے متعلق جو روایت دوسری فصل میں آئے گی اس میں نامصہ کا ذکر ہے۔ اہل عرب کے نزدیک عورتوں کے دانتوں میں ایک دوسرے دانت کے درمیان کشادگی و فرق کا ہونا پسندیدہ سمجھا جاتا تھا اور عام طور پر چھوٹی عمر کی عورتوں کے دانت اسی طرح کے ہوتے ہیں، چناچہ عرب میں یہ دستور تھا کہ عورتیں جب بوڑھی ہوجاتی تھیں اور ان کے دانت بڑھ جاتے تھے جس کی وجہ سے ان کے دانتوں کے درمیان یہ کشادگی باقی نہیں رہتی تھی، تو وہ باقاعدہ اپنے دانتوں پر سوہان اور ریتی وغیرہ چلا کر کے دانتوں کے درمیان کشادگی پیدا کرتی تھیں اور اس کی بنیاد ان کا یہ جذبہ ہوتا تھا کہ جوان و کمسن نظر آئیں اور حسن و دلکشی ظاہر ہو، چناچہ اسلامی شریعت نے اس طریقہ کو بھی ممنوع قرار دیا۔ لفظ المغیرات تمام مذکورہ عورتوں کی صفت ہے جس کو ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے یعنی جن عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب اس طرح کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز جیسی بنادی ہے اس میں وہ اپنی خواہش کے مطابق ترمیم کرتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مصلحت ومرضی کے خلاف ہے۔ اسی طرح لفظ خلق اللہ مغیرات کا مفعول ہے اور یہ پورا جملہ تعلیل کے درجہ میں ہے جو وجوب لعنت کی علت و وجہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مثلہ اور داڑھی منڈانا وغیرہ میں جو حرمت (ممانعت) ہے اس کی علت و وجہ بھی یہی چیز یعنی اللہ کی تخلیق میں تغیر کرنا ہے، لیکن اس سے یہ ضروری قرار نہیں پاتا کہ ہر تغیر حرام ہو کیونکہ یہ علت کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتی، بلکہ حرمت کی اصل علت تو شرع کی طرف سے منع کیا جانا ہے اور اس ممانعت میں جو حکمت پوشیدہ ہے وہ یہ چیز ہے جس کو ظاہری علت کا درجہ دیا جاتا ہے لہذا حاصل یہ نکلا کہ شارع ( علیہ السلام) نے جن تغیرات کو مباح قرار دیا ہے ان میں اباحت رہے گی اور جن تغیرات کو حرام قرار دیا ہے ان میں حرمت جاری ہوگی مذکورہ عورت نے حضرت ابن مسعود (رض) کی خدمت میں حاضر ہو کر جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ ان عورتوں کو اپنی طرف سے ملعون قرار دیتے ہیں یا اس بات کی اطلاع دیتے ہیں کہ قران کریم میں ان عورتوں کو ملعون قرار دیا گیا ہے حالانکہ قران کریم میں ان عورتوں پر لعنت کا کوئی صریح ذکر نہیں ہے اور یہ مسئلہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے ملعون قرار دیا ہے اس پر لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے ؟ چناچہ حضرت ابن مسعود (رض) نے اس عورت کو بڑے اچھے انداز میں بات سمجھائی اور قران و حدیث کے حوالوں سے مسئلہ کو ثابت کیا تو اس کو اطمینان ہوگیا کیونکہ اس کو حدیث کے بارے میں کوئی شبہ تھا ہی نہیں محض اس حکم قران میں بالفاظ صریح نہ ہونے کی وجہ سے اس کے ذہن میں اشکال پیدا ہوا تھا اور وہ بھی رفع ہوگیا روایت کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ جن امور کی ممانعت بیان فرمائیں ان سے باز رہا جائے اور رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بھی اور دوسری احادیث کے ذریعہ بھی مذکورہ بالا چیزوں سے منع فرمایا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان چیزوں کی ممانعت گویا قرآن میں مذکور ہے۔ طیبی کہتے ہیں کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ مذکورہ عورتوں پر آنحضرت ﷺ کا لعنت فرمانا ایسا ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کو ملعون قرار دیا ہو لہٰذا اس پر عمل کیا جانا واجب ہے۔

【125】

نظر بد ایک حقیقت ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا نظر لگنا برحق ہے نیز آپ ﷺ نے گودنے سے منع فرمایا۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ نظر بد ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اثر ظاہر ہوتا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ سحر کی طرح یہ (نظر بد) بھی انسان وغیرہ پر اثر انداز ہوتی ہے۔

【126】

سر کے بالوں کو گوند وغیرہ سے جمانے کا ذکر

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو ملبد دیکھا ہے ! (بخاری) تشریح ملبد کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے سر کے بالوں کو گوند سے جما دیا تھا کہ جویں نہ پڑیں اور گرد و غبار سے حفاظت رہے۔ ایسا عام طور پر مذکورہ مقصد کے لئے احرام کی حالت میں کیا جاتا ہے، چناچہ حضرت ابن عمر (رض) نے آنحضرت ﷺ کو اس طرح یا تو احرام کی حالت میں دیکھا ہوگا یا کسی دوسرے سفر کے دوران دیکھا ہوگا۔

【127】

مردانہ کپڑے اور جسم کو زعفران سے رنگنے کی ممانعت

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی مرد اپنے بدن یا کپڑوں پر زعفران ملے ! (بخاری، ومسلم ) تشریح یہ ممانعت اس لئے ہے کہ کپڑے یا بدن پر زعفران ملنا عورتوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ رہی یہ بات کہ بعض صحابہ کے بارے میں جو یہ منقول ہے کہ انہوں نے خلوق کا استعمال کیا جو زعفران سے بنائی جانے والی ایک خوشبو ہے تو وہ اس ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہے۔

【128】

رنگ دار خوشبو کا مسئلہ

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ مجھے جو بہترین خوشبو میسر آتی وہ میں نبی کریم ﷺ کو لگاتی، یہاں تک کہ اس خوشبو کی چمک مجھ کو آپ ﷺ کے سر اور داڑھی میں نظر آتی !۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث کے بارے میں اس حدیث کے پیش نظر اشکال واقع ہوتا ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مرد کے لئے خوشبو (عطر وغیرہ) کا استعمال جائز ہے جس کا رنگ ظاہر نہ ہوتا ہو جب کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو جو خوشبو لگائی جاتی تھی اس کا رنگ ظاہر ہوتا تھا کیونکہ اگر اس کی خوشبو کا رنگ ظاہر نہ ہوتا تو اس کی چمک آنحضرت ﷺ کی سر اور داڑھی میں کیسے نظر آتی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس حدیث میں مرد کو رنگ دار خوشبو استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے اس سے مراد وہ رنگ ہے جس کے ظاہر ہونے سے زینت و زیبائش کا انداز نمایاں ہوتا ہو، جسے سرخ اور زرد رنگ اور جو رنگ ایسا نہ ہو جیسے مشک و غنبر وغیرہ کا رنگ تو وہ جائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صندل اور اس طرح کی دوسری چیزوں کا بھی رنگ جائز ہے۔

【129】

خوشبو کی دھونی لینے کا ذکر

اور حضرت نافع (رض) کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) جب خوشبو کی دھونی لیتے تو (کبھی تو صرف) اگر کی دھونی لیتے جس میں مشک وغیرہ مخلوط نہ ہوتا اور (کبھی) کافور کی دھونی لیتے کہ اس اگر ساتھ یعنی دونوں کو ملا کر آگ میں ڈالتے، نیز حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ بھی اسی طرح دھونی لیتے تھے کہ کبھی تو صرف اگر کی دھونی لیتے اور کبھی کافور اور اگر دونوں مخلوط کر کے اس کی دھونی لیتے۔ (مسلم )

【130】

لبیں ترشوانی قدیم سنت ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنی لبوں کو کترتے لیتے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جو اللہ کے دوست تھے وہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے یعنی وہ بھی اپنی لبیں ترشواتے تھے !۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ مونچھیں بالکل ہلکی کرانا ایک ایسی قدیم سنت ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بھی معمول تھا اور دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) کا بھی، چناچہ پیچھے لفظ فطرۃ کی وضاحت میں اس کا ذکر گزر چکا ہے، رہی یہ بات کہ جب یہ (یعنی مونچھیں ہلکی کرانا) دوسرے انبیاء کرام کی بھی سنت ہے تو اس موقعہ پر صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیوں کیا گیا ؟ تو اس تخصیص کی وجہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مخصوص عظمت و جلالت کا اظہار ہے، یا یہ کہ اس سنت کی ابتداء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی سے ہوئی ہے، جیسا کہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے جو تیسری فصل میں نقل ہوگی۔

【131】

مونچھیں ہلکی نہ کرانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص لبوں کو نہ کتروائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (احمد، ترمذی، نسائی) تشریح وہ ہم میں سے نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری سنت اور ہمارے طریقے پر عمل پیرا نہیں ہے۔ اور ملا علی قاری، کے مطابق اس جملہ کے زیادہ صحیح معنی یہ ہیں کہ ایسا شخص ہماری سنت اور ہمارے طریق کو ماننے والوں میں کامل ترین نہیں ہے، یا اس جملہ کے ذریعہ اس سنت کو ترک کرنے والے کی تہدید مقصود ہے، یا ایسے شخص کو اس بات سے ڈرایا گیا ہے کہ اس سنت کا تارک ہوتے ہوئے مرنا گویا امت مسلمہ کے خلاف طریقے پر مرنا ہے۔

【132】

داڑھی کو برابر کرنے کا ذکر

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنی ریش مبارک کو عرض و طول میں یعنی نیچے سے بھی اور دائیں بائیں جانب سے بھی کترتے تھے، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی داڑھی کو ادھر ادھر سے بڑھے ہوئے بال کتروا کر برابر درست کرتے تھے۔ اور آپ ﷺ کا یہ عمل داڑھی کو چھوڑنے اور بڑھانے کے منافی نہیں ہے جس کا حکم دوسری احادیث میں منقول ہے کیونکہ اصل ممانعت کا تعلق منڈانے یا اتنی چھوٹی کرانے سے ہے جو غیر مسلم لوگوں کا شعار ہے ورنہ تو داڑھی کو برابر اور درست رکھنے کے لئے ادھر ادھر سے بڑھے ہوئے بالوں کو کترنا ممنوع نہیں ہے، جیسا کہ خود آنحضرت ﷺ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ ﷺ داڑھی کے طول و عرض میں سے ان بالوں کو ترشتے تھے جو ادھر ادھر بڑھے ہوتے تھے اسی لئے ابن ملک نے کہا ہے کہ داڑھی کے بالوں کو برابر کرنا سنت ہے۔ اور احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ زیادہ بڑھانے کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، چناچہ کچھ حضرات تو یہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر داڑھی کے اس حصے کو کتروائے جو مٹھی سے نیچھے ہو تو اس میں مضائقہ نہیں ہے، یہ قول حضرت ابن عمر (رض) اور تابعین کی ایک جماعت کا ہے اور شعبی اور ابن سیرین نے اس کو اچھا سمجھا ہے، جب کہ حسن قتادہ اور ان کے متبعین نے اس چیز کو (یعنی داڑھی کے اس حصے کے کترنے کو جو مٹھی سے نکلی ہوئی ہو) اچھا نہیں سمجھا ہے ان حضرات نے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد اعفوا للحی ( داڑھیوں کو چھوڑ دو ) کے پیش نظر اسی چیز کو بہتر جانا ہے کہ مٹھی سے بڑھی ہوئی داڑھی کو بھی چھوڑے رکھا جائے۔ ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

【133】

مرد کو خلوق کے استعمال کی ممانعت

اور حضرت یعلی ابن مرہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے ان (یعلی) کے کپڑوں پر (زعفران سے مرکب خوشبو) خلوق لگی ہوئی دیکھی تو فرمایا کہ کیا تم بیوی والے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر اس کو دھو ڈالو پھر دھوؤ اور پھر آئندہ کبھی اس کو استعمال نہ کرنا۔ (ترمذی، نسائی) تشریح کیا تم بیوی والے ہو آپ ﷺ کے اس سوال کا مقصد یہ بیان کرنا تھا کہ اگر بیوی ہے اور اس نے خلوق استعمال کی ہے اور پھر اس کے بدن یا کپڑے سے اس کا اثر تمہارے بدن یا کپڑے پر پہنچا ہے تو اس صورت میں تم معذرو ہو اور اگر خود تم نے خلوق کا استعمال کیا ہے تو پھر معذور نہیں سمجھے جاؤ گے کیونکہ مرد کو خلوق کا استعمال جائز نہیں ہے، اس صورت میں تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم اپنے بدن یا کپڑے کو دھو کر اس کا اثر زائل کرو۔ اس سے واضح ہوا کہ اس سوال کا مقصد یہ ظاہر کرنا نہیں تھا کہ اگر تمہاری بیوی ہے اور تم نے بیوی کی خاطر استعمال کیا ہے تو تم معذور کے حکم میں ہو، جیسا کہ حدیث کے ظاہر مفہوم سے گمان ہوتا ہے۔ اس کو دھو ڈالو اس جملہ کے ذریعہ آپ ﷺ نے تین بار دھونے کا حکم دیا اور تین بار دھونے کا حکم دینا مبالغہ و تاکید کے طور پر تھا لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے تین بار دھونے کا حکم اس لئے فرمایا کہ اس کا رنگ کم از کم تین مرتبہ دھوئے بغیر نہیں چھوٹتا۔

【134】

مرد کو خلوق کے استعمال کی ممانعت

اور حضرت ابوموسی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جس کے بدن پر تھوڑی سی بھی خلوق لگی ہوئی ہو۔ (ابوداؤد) تشریح سید کہتے ہیں کہ نماز قبول نہ کرنے سے مراد عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے اس ثواب کا نہ ملنا ہے جو نماز کامل پر ملتا ہے۔ اور ابن مالک نے کہا ہے کہ یہ ارشاد گرامی خلوق استعمال کرنے کے خلاف زجر و تہدید کے طور پر ہے۔

【135】

مرد کو خلوق کے استعمال کی ممانعت

اور حضرت عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سفر سے واپسی میں اپنے گھر والوں کے پاس اس حال میں پہنچا کہ میرے دونوں ہاتھ پھٹے ہوئے تھا، چناچہ میرے گھر والوں نے (علاج کے طور پر) میرے ہاتھوں پر اس خوشبو کا لیپ کیا جس میں زعفران مخلوط تھی، پھر جب میں صبح کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور آپ ﷺ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا بلکہ فرمایا کہ جاؤ اور اس خوشبو کو اپنے بدن پر سے دھو ڈالو۔ (ابوداؤد) تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے علم میں وہ عذر نہیں آیا ہوگا جس کی بناء پر حضرت عمار (رض) نے اس خوشبو کا استعمال کیا تھا، چناچہ آپ ﷺ نے ان کے سلام کا جواب نہ دے کر اپنی خفگی کا اظہار فرمایا یا یہ کہ آنحضرت ﷺ کو عمار کا اپنے ہاتھوں پر خوشبو لگائے ہوئے باہر نکلنا پسند نہیں آیا۔

【136】

مرد کو خلوق کے استعمال کی ممانعت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ مردانہ خوشبو وہ ہے جس کی بو تو ظاہر ہو لیکن اس کا رنگ ظاہر نہ ہو (جیسے مشک و عنبر اور عطر وغیرہ) اور زنانہ خوشبو وہ ہے جس کا رنگ تو ظاہر ہو لیکن اس کی بو نہ پھیلے جیسے مہندی اور زعفران وغیرہ۔ (ترمذی، نسائی) تشریح جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا رنگ سے مراد وہ رنگ ہے جو زینت و رعنائی کا غماز ہو، جیسے سرخ و زرد رنگ علماء نے لکھا ہے کہ زنانہ خوشبو کی جو وضاحت کی گئی ہے وہ اس عورت کے حق میں ہے جو گھر سے باہر نکلے، جو عورت گھر کے اندر ہو، یا اپنے خاوند کے پاس ہو تو اس کے لئے ہر طرح کی خوشبو استعمال کرنا جائز ہے۔

【137】

آنحضرت ﷺ کے استعمال کی خوشبو

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے پاس سکہ تھی (ایک مرکب خوشبو کا نام) آپ ﷺ اس میں سے خوشبو لگاتے تھے۔

【138】

آنحضرت ﷺ کثرت سے سر میں تیل لگاتے تھے

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنے سر مبارک پر کثرت سے تیل استعمال کرتے تھے، کثرت سے داڑھی میں کنگھی کرتے تھے اور اکثر سر مبارک پر ایک کپڑا رکھتے تھے جو ایسا نظر آتا جیسے تیلی کا کپڑا ہو۔ (شرح السنۃ ) ۔ تشریح کثرت سے کنگھی کرتے تھے یہ بات اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے رواز نہکنگھی سے منع فرمایا ہے، کیوں کہ اول تو یہ ممانعت، نہی تحریمی کے طور پر نہیں ہے بلکہ نہی تنزیہی کے طور پر ہے دوسرے کثرت سے کنگھی کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ ﷺ روزانہ کنگھی کرتے تھے کہ کثرت کا اطلاق اس چیز پر بھی ہوتا ہے کہ کسی کام کو اس ضرورت کے وقت انجام دیا جائے، گویا جس عمل کی جس وقت ضرورت ہو اس وقت اس کو کرنا بھی کثرت کے حکم میں شامل ہوتا ہے، جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو داڑھی میں کنگھی کرنا سنت ہے لیکن جو لوگ ہر وضو کے بعد کنگھی کرتے ہیں اس کی سنت صحیحہ میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ قناع سے مراد وہ کپڑا ہے جو آپ بالوں کو تیل لگانے کے بعد سر پر اس مقصد سے ڈال لیا کرتے تھے کہ عمامہ میلا اور چکنا نہ ہو، چناچہ وہ کپڑا تیل لگنے کی وجہ سے چونکہ بہت تیل آلود ہوجاتا تھا اس لئے اس کو تیلی کے کپڑے سے تشبیہ دی گئی ہے ورنہ یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ وہ کپڑا بہت گندہ رہتا تھا یا آپ کے سارے کپڑے تیلی کے کپڑوں کی طرح رہتے تھے، کیونکہ یہ مراد اس نظافت و پاکیزگی اور صفائی و ستھرائی سے بہت بعید ہے جو آنحضرت ﷺ کے مزاج کا جز تھی، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ سفید کپڑے کو بہت پسند فرماتے تھے۔

【139】

آنحضرت ﷺ کے گیسوئے مبارک

اور حضرت ام ہانی (رض) کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ (فتح مکہ کے دن) رسول کریم ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے تو اس وقت آنحضرت ﷺ کے چار گیسو گندھے ہوئے تھے (یعنی دو دائیں طرف تھے اور دو بائیں طرف۔ (احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے پورے سر کے بالوں کو چار حصوں میں بٹ لیا تھا۔ گویا گیسو سے بالوں کی وہ مخصوص وضع مراد نہیں ہے جس کو ہماری زبان میں زلف کہا جاتا ہے۔

【140】

آنحضرت ﷺ کی مانگ کا ذکر

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں جب رسول کریم ﷺ کے سر مبارک کے بالوں میں مانگ نکالتی تو تالو پر سے بالوں کے دو حصے کر کے مانگ چیرتی اور آپ ﷺ کی پیشانی کے بل دونوں آنکھوں کے درمیان چھوڑتی۔ (ابوداؤد) تشریح یافوخ سر کے درمیانی حصے کو کہتے ہیں جہاں تالو ہوتا ہے، یہ دماغ کے عین اوپر کی سطح ہوتی ہے اور بچپن میں اس جگہ پھڑکن رہتی ہے، حضرت عائشہ (رض) نے گویا آنحضرت ﷺ کی مانگ کی صورت بیان کی ہے کہ اس کا ایک سرا تو تالو کے نزدیک ہوتا ہے اور دوسرا سرا دونوں آنکھوں کے درمیان کی جگہ کے بالمقابل پیشانی کے نزدیک ہوتا تھا۔ روایت کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ میں مانگ کا رخ پیشانی کے اس کنارے پر رکھتی جو دونوں آنکھوں کی عین درمیانی سمت میں ہے اس طرح کی پیشانی کے آدھے بال مانگ کی دائیں طرف ہوتے اور آدھے بال مانگ کی بائیں طرف۔ طیبی نے حدیث کے یہی معنی بیان کئے ہیں۔

【141】

روزانہ کنگھی کرنے کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے کنگھی کرنے سے منع فرمایا الاّ یہ کہ ایک روز ناغہ دے کر کنگھی کی جائے۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی ، ) تشریح قاضی کہتے ہیں، کہ غب کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کام ایک دن کیا جائے اور ایک دن ترک کیا جائے، لہٰذا حدیث کا یہ مطلب ہوا کہ کنگھی ہر روز نہ کی جائے بلکہ ایک دن کا ناغہ کر کے کی جائے، لیکن یہ ممانعت محض نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور اس سے ضرورت و بےضرورت ہر روز کنگھی کرنے کا اہتمام کرنے اور اس کو بطور عادت اختیار کرلینے کی ممانعت مراد ہے کیونکہ یہ زینت و آرائش میں مبالغہ اور بےجا تکلف و اہتمام کرنے کی صورت ہے۔ واضح رہے کہ لفظ غب جب ملاقات کے سیاق میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے زرغبا تزدد حبا تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہفتہ میں ایک مرتبہ ملاقات کی جائے اور جب یہ لفظ بخار کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس سے ایک دن کا ناغہ دے ہوتا ہے۔ ہر روز کنگھی کرنے کی ممانعت میں سر کے بالوں اور داڑھی دونوں میں کنگھی کرنا شامل ہے، لہٰذا جو لوگ ہر وضو کے بعد کنگھی کرتے ہیں اس کا سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسی طرح احیاء العلوم میں امام غزالی کے علاوہ اور کسی نے بھی اس حدیث کو نقل نہیں کیا ہے، بلکہ شیخ ولی الدین العرقی کے قول کے مطابق امام غزالی نے احیاء العلوم میں اس حدیث کے علاوہ بھی بعض ایسی احادیث نقل کی ہیں جن کی کوئی اصل ثابت نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ روزانہ کنگھی کرنے کی ممانعت صرف مرد کے لئے ہے یا مرد عورت دونوں کے لئے ؟ تو بظاہر یہ بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ یہ ممانعت صرف مردوں کے حق میں ہے کیونکہ عورتوں کے لئے زینت و آرائش کرنا مکروہ نہیں ہے تاہم بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس ممانعت کا تعلق مرد و عورت دونوں سے ہے لیکن وہ حضرات بھی یہ کہتے ہیں کہ عورتوں کے حق میں یہ ممانعت ہلکے درجے کی ہے کیونکہ ان کے لئے زینت و آرائش کا دائرہ مردوں کی بہ نسبت بہت وسیع ہے۔

【142】

زیادہ عیش وآرام کی زندگی اختیار کرنا میانہ روی کے خلاف ہے

حضرت عبداللہ بن بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت فضالہ بن عبیدہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ میں آپ کو پراگندہ بال (یعنی آپ کے بال بغیر کنگھی کئے ہوئے) دیکھ رہا ہوں ؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ عیش و آرام کی زیادہ چیزیں اختیار کرنے سے ہمیں منع فرمایا کرتے تھے (اور کنگھی و تیل کا زیادہ استعمال بھی اسی میں شامل ہے) اس شخص نے پھر یہ پوچھا کہ کیا بات ہے کہ میں آپ کے پیروں میں جوتیاں نہیں دیکھ رہا ہوں ! انہوں نے جواب دیا کہ رسول کریم ﷺ ہمیں یہ حکم دیتے تھے کہ ہم کبھی کبھی ننگے پیر بھی پھیرا کریں۔ (ابو داؤد) تشریح عیش و آرام کی زیادہ چیزیں اختیار کرنے سے اجتناب کرنے اور کبھی کبھی ننگے پیر پھرنے کا حکم دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح سے ایک تو مزاج و طبیعت میں تواضع و انکسار پیدا ہوتا ہے دوسری طرف اس ریاضت و مشقت کے ذریعہ نفس پر قابو حاصل ہوتا ہے اور اس کا ایک تو بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ حالات و معیشت کی سختی و تنگی کے وقت وہ ریاضت و مشقت کام آتی ہے اور سختی و تنگی کو انگیز کرنے کی ہمت و توانائی عطا کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ آنحضرت ﷺ بالوں میں تیل بھی لگاتے تھے اور کنگھی بھی کرتے تھے بلکہ اس کو اچھا سمجھتے تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی حکم و ترغیب کے ذریعہ اس پر عمل کراتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی آپ ﷺ بعض حاملین زہد و ریاضت کو اس کے خلاف بھی رکھتے تھے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص آپ ﷺ کے سامنے ان چیزوں کو ترک کرتا تو آپ ﷺ اس کو ٹوکتے نہیں تھے بلکہ ان چیزوں کو ترک کرنے کا حکم بھی فرماتے تھے ! اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس سلسلے میں اصل کراہت جس بات میں ہے وہ یہ ہے کہ عیش و راحت اور خوشحالی و آسودگی میں حد اعتدال سے تجاوز کیا جائے یہاں تک کہ نفس تن آسانی کا خوگر ہوجائے اور تیل لگانے و کنگھی کرنے اور زینت و آرائش میں ایسا انہماک ظاہر کرے جو دین بیزار اور عیش و عشرت کے دلدادگان کا شیوہ ہے لہٰذا جب یہ حکم دیا جاتا ہے کہ زیب وزینت کے ذرائع اختیار نہ کرو اور اپنے رہن سہن میں سادگی و انکساری اور بےتکلفی بلکہ زہد و ریاضت کو اختیار کرو تو اس سے یہ مراد مطلق نہیں ہوتی کہ میلے کچیلے رہ کر پاکیزگی و نظافت کو ترک کردو اور اپنے کو اول جلول بنا کر تہذیب و شائستگی اور خوش ہیتی کا مذاق اڑاؤ۔ بلکہ اس حکم کی مراد یہ ہوتی ہے کہ بہر صورت اعتدال اور میانہ روی کو ملحوظ رکھو ! کسی بھی شرعی حکم کا یہ منشا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ رہن سہن کا ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جو تہذیب و شائستگی کے خلاف اور نفاست و پاکیزگی کے منافی ہو کیونکہ انسان کو مہذب و شائستہ بنانا اسلام کا ایک مقصد اور تہذیب و پاکیزگی، دین کا ایک جزو ہے جیسا آگے آنے والی حدیث میں فرمایا گیا ہے۔

【143】

بالوں کو اچھی طرح رکھنے کا حکم

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص سر پر بال رکھے ہوئے ہو اس کو چاہئے کہ اپنے بالوں کو اچھی طرح رکھے یعنی اس کو دھویا کرے ان میں تیل لگایا کرے، کنگھا کیا کرے اور اول جلول شخص کی طرح ان کو بکھرا ہوا نہ رہنے دے کیونکہ نفاست و صفائی اور خوش ہئیتی ایک پسندیدہ محبوب چیز ہے۔ (ابوداؤد )

【144】

بالوں کو اچھی طرح رکھنے کا حکم

اور حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جن چیزوں کے ذریعہ بڑھاپے یعنی بالوں کی سفیدی کو تبدیل کیا جاسکتا ہے ان میں سب سے بہتر مہندی اور وسمہ ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی) تشریح کتم اور بعض حضرات کے قول کے مطابق کتم ایک گھاس کا نام ہے جو وسمہ کے ساتھ ملا کر بالوں پر خضاب کرنے کے کام میں لائی جاتی ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ کتم اصل میں وسمہ ہی کو کہتے ہیں بہرحال حدیث کے مفہوم کے بارے میں یہ سوال ہوتا ہے کہ آیا یہ مراد ہے کہ مہندی اور وسمہ دونوں کو ملا کر خضاب کیا جائے یا مراد ہے کہ صرف مہندی یا صرف وسمہ کا خضاب کیا جائے ؟ چناچہ نہایہ کے قول کے مطابق بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں صرف کتم، یا صرف مہندی کا خضاب کرنا مراد ہے کیونکہ اگر کتم کو مہندی کے ساتھ ملایا جائے تو اس سے خضاب، سیاہ ہوجاتا ہے اور صحیح روایات میں سیاہ خضاب کی ممانعت مذکور ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ یہ اصل میں۔ بالحناء والکتم ہے (یعنی حرف واؤ کے بجائے او ہے) جس کا مطلب ہے کہ خضاب کرنے والے کو اختیار ہے کہ چاہئے مہندی کا خضاب کرے اور چاہئے کتم کا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت متعدد طریق و اسانید سے منقول ہے اور سب نے بالحناء والکتم ہی نقل کیا ہے اگرچہ اس سے مذکورہ مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کیونکہ حرف و مفہوم کے اعتبار سے حرف او کے معنی میں ہوسکتا ہے۔ بعض حواشی میں یہ لکھا ہے کہ صرف مہندی کا خضاب سرخ رنگ کا ہوتا ہے اور صرف کتم کا خضاب سبز رنگ کا ہوتا ہے۔ بعض حضرات کے قول سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ خالص کتم کا خضاب سیاہ رنگ کا ہوتا ہے اور اگر کتم کو مہندی کے ساتھ ملا کر خضاب کیا جائے تو سرخ مائل بہ سیاہی رنگت پیدا ہوجاتی ہے اس صورت میں اگر یہ کہا جائے کہ حدیث میں کتم اور مہندی دونوں کا مرکب خضاب مراد ہے تو کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا، چناچہ آگے حضرت ابن عباس (رض) کی ایک روایت آرہی ہے (نمبر ٣٦) اس سے یہ بات بصراحت معلوم ہوتی ہے ملاعلی قاری نے یہ لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ کتم اور مہندی کے مرکب خضاب کی مختلف نوعیت ہوتی ہے اگر کتم کا جزء غالب ہو یا کتم اور مہندی دونوں برابر ہوں تو خضاب سیاہ ہوتا ہے اور اگر مہندی کا حصہ غالب ہو تو خضاب سرخ ہوتا ہے۔

【145】

سیاہ خضاب کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابن عباس (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ آخر زمانہ میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو کبوتر کے پوٹے کی مانند اس سیاہی کے ذریعہ خضاب کریں گے، یعنی جو خضاب استعمال کریں گے وہ ایسا ہوگا جیسے بعض کبوتروں کے پوٹے سیاہ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جنت کی بو بھی نہیں پائیں گے۔ (ابو داؤد، و نسائی ) تشریح اس سیاہی سے مراد خالص سیاہی ہے اس صورت میں وہ سیاہی مستثنیٰ ہوگی جو مائل بہ سرخی ہو جیسے کتم اور مہندی کے خضاب کا رنگ ہوتا ہے۔ جنت کی بو نہیں پائیں گے۔ یہ دراصل میں سیاہ خضاب کرنے والے کے حق میں زجر و تہدید کو زیادہ شدت کے ساتھ بیان کرنا ہے یا یہ ارشاد گرامی ﷺ اس شخص پر محمول ہے جو سیاہ خضاب کا نہ صرف استعمال کرے بلکہ اس کو جائز بھی سمجھے ! بعض خواشی میں یہ لکھا ہے کہ ایسے لوگ اگرچہ جنت میں داخل ہوں گے لیکن اس کی بو یعنی اس کے کیف وسر ور سے محفوظ و بہرہ مند نہیں ہوں گے۔ اور بعض حضرات کے قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ موقف میں جنت سے جو فرحت بخش مہک آئے گی اور جس سے مسلمان محفوظ و مسرور ہوں گے اس سے مذکورہ لوگ محروم رہیں گے۔ بہرحال حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ سیاہ خضاب حرام ہے

【146】

زرد خضاب کرنا جائز ہے

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ دباغت دیئے ہوئے اور بغیر بال کے چمڑے کی پاپوش پہنتے تھے اور اپنی ریش مبارک پر روس (ایک گھاس جو یمن کے علاقہ میں ہوتی تھی اور زعفران کے ذریعہ زرد رنگ چڑھاتے تھے نیز حضرت ابن عمر (رض) بھی ایسا ہی کرتے تھے (یعنی مذکورہ پاپوش پہنتے اور مذکورہ خضاب استعمال کرتے ) ۔ (نسائی) تشریح اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ اپنی ریش مبارک پر خضاب کرتے تھے جب کہ کتاب اللباس میں حضرت انس (رض) کی جو روایت گزری ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی خضاب کا استعمال کیا چناچہ ان روایتوں کے درمیان مطابقت کی جو صورت ہے وہ اسی جگہ (حضرت انس (رض) کی روایت کے ضمن میں) بیان کی جا چکی ہے۔

【147】

زرد خضاب کرنا جائز ہے

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کے سامنے سے ایک شخص گزرا جس نے مہندی کا خضاب لگا رکھا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا یہ خضاب کتنا اچھا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر ایک شخض گزرا جس نے مہندی اور وسمہ کا خضاب لگا رکھا تھا جو خالص سیاہ نہیں تھا آپ ﷺ نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ خضاب پہلے سے بھی بہت اچھا ہے اس کے بعد ایک اور شخص گزرا جس نے زرد خضاب لگایا تھا آپ ﷺ نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ ان سب سے زیادہ اچھا ہے۔ (ابوداؤد )

【148】

خضاب کرنے کا حکم

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بڑھاپے (یعنی بالوں کی سفیدی) کو خضاب کے ذریعہ بدل ڈالو اور یہودیوں کی مشابہت اختیار نہ کرو جو خضاب نہیں کرتے (ترمذی) اور نسائی نے اس روایت کو ابن عمر (رض) اور زبیر (بعض نسخوں میں ابن زبیر ہے) سے نقل کیا ہے۔ تشریح احتمال ہے کہ حدیث مذکورہ حکم خاص طور پر ان لوگوں کے لئے ہو جو برسر جہاد ہوں تاکہ اس کے ذریعہ دشمنوں پر مسلمانوں کی طاقت کا اظہار ہو اور وہ (دشمن) خوف میں مبتلا ہوں۔

【149】

بالوں کی سفیدی نورانیت کی غماز ہوتی ہے

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سفید بالوں کو نہ چنو کیونکہ بڑھاپا (یعنی بالوں کا سفید ہونا ) مسلمانوں کے لئے نورانیت کا سبب ہے، جو شخص حالت اسلام میں بڑھاپے کی طرف قدم بڑھاتا ہے یعنی جب کسی مسلمان کا ایک بال سفید ہوتا ہے تو اس کی وجہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور اس کی ایک خطا کو محو کردیتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے۔ (ابوداؤد) تشریح بڑھاپے کی نورانیت کا سبب اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ بڑھاپا اصل میں وقار کا مظہر ہے، جیسا کہ تیسری فصل میں آنے والی ایک روایت سے واضح ہوگا کہ بنی آدم میں سب سے پہلے شخص پر سفید بالوں کی صورت بڑھاپا آیا وہ حضرت ابراہیم علیہ والسلام تھے چناچہ جب انہوں نے پہلے پہل اپنی داڑھی میں سفید بال کی صورت میں بڑھاپا دیکھا تو بار گاہ کبریائی میں عرض کیا کہ میرے پروردگار ! یہ کیا ہے ؟ جواب آیا کہ یہ وقار ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ خداوند ا ! میرے وقار کو زیادہ کر۔ وقار، دراصل ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو گناہ فسق اور بےحیائی کی باتوں سے روکتا ہے اور توبہ و طاعات کی طرف مائل کرتا ہے، اس اعتبار سے یہ وصف انسان میں اس نور کو پیدا کرتا ہے جو میدان حشر میں ظلمت و تاریکیوں کو چیرتا ہوا آگے آگے چلے گا، جیسا کہ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے۔ آیت ( يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ ) 57 ۔ الحدید 12) لہٰذا اس توجیہ کی روشنی میں بڑھاپے کے نور سے قیامت کے دن کا نور مراد ہے چناچہ ایک روایت میں اس کی تفریح بھی ہے اور اگر نورانیت سے شکل و صورت کی خوشنمائی و دل کشی اور باطن کی صفائی نیک سیرتی مراد ہو جو اس دنیا میں بوڑھوں کو حاصل ہوتی ہے تو یہ بھی بعید از حقیقت نہیں ہوگا۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ سفید بالوں کو چننا مکروہ ہے۔

【150】

بالوں کی سفیدی نورانیت کی غماز ہوتی ہے

اور حضرت کعب بن مرہ (رض) رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوتا ہے اس کا بڑھاپا قیامت کے دن نور کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ (ترمذی، نسائی ) تشریح اس موقعہ پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب بڑھاپا (یعنی بالوں کا سفید ہونا) دنیا و آخرت دونوں جگہ نورانیت کا سبب ہے تو خضاب کے ذریعہ اس کو ظاہر نہ ہونے دینا اور اس کو تبدیل کرنا شریعت نے جائز کیوں قرار دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خضاب کی مشروعیت بھی دراصل ایک دینی مصلحت کے سبب سے ہے اور وہ یہ کہ اس کے ذریعہ دشمنوں کے سامنے قوت وہیبت کا اظہار ہوتا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کو ضعیف و نا تو اں جان کر دلیر نہ ہوں اس صورت میں پھر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذکورہ مصلحت کی خاطر خضاب کرنا مشروع ہے تو اسی مصلحت کے لئے بالوں کو جڑ سے اکھاڑنا پڑتا ہے جو اول تو تکلیف کا باعث ہے دوسرے بدہئیی اور بدنمائی کا سبب بھی بنتا ہے جب کہ خضاب کا لگانا خوش ہئیتی میں اضافہ کرتا ہے لہذا اخضاب کرنے اور بالوں کو چننے میں بڑا فرق ہے

【151】

آنحضرت ﷺ کے سر مبارک کے بال

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں اور رسول کریم ﷺ ایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے یعنی پانی سے بھرا ہوا ایک ہی برتن ہم دونوں کے درمیان رکھا رہتا تھا اور آنحضرت ﷺ کے سر کے بال جمہ کے اوپر اور وفرہ کے نیچے ہوتے تھے ( نسائی) تشریح سر کے بالوں کو عربی میں تین ناموں سے تعبیر کیا جاتا ہے ایک تو جمہ دوسرے وفرہ اور تیسرے لمہ۔ چناچہ اگر کسی شخص کے سر پر اتنے لمبے بال ہوں جو کانوں تک پہنچ جائیں تو ان بالوں کو جمہ کہتے ہیں اور اگر کان کے لوؤں تک بال ہوں تو ان کو وفرہ کہتے ہیں اور جو بال کان کی لو اور کاندھے کے بین بین ہوتے ہیں یعنی کان کی لو سے نیچے تھے جن کو لمہ کہتے ہیں ویسے بعض مواقع پر جمہ مطلق بالوں کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ شمائل ترمذی میں یہ منقول ہے کہ وکانت جمۃ تضرب شحمۃ اذنیہ۔

【152】

مردوں کے بالوں کی زیادہ لمبائی ناپسندیدہ

اور حضرت ابن حنظلہ جو نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص ہیں روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ خریم اسدی اچھا آدمی ہے اگر اس کے بال لمبے نہ ہوں اور اس کا تہ بند لٹکتا ہوا نہ ہو۔ جب خریم کو آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا علم ہوا تو انہوں نے ایک استرا لے کر اپنے بالوں کو کانوں کی لوؤں تک کاٹ ڈالا اور اپنے تہبند کو آدھی پنڈلیوں تک کرلیا !۔ (ابوداؤد )

【153】

مردوں کے بالوں کی زیادہ لمبائی ناپسندیدہ

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں میرے سر پر لمبے بال تھے میری والدہ کاٹنے سے منع کرتی تھیں کیونکہ آپ ﷺ ان بالوں کو پکڑتے تھے (لہٰذا میں برکت حاصل کرنے کے لئے ان بالوں کو یونہی چھوڑوں گی۔ (ابوداؤد )

【154】

اگر بالوں کی صفائی ستھرائی میں کوئی امر مانع ہو تو سر کو منڈا دینا چاہئے

اور حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت جعفر کی اولاد کو تین دن کی مہلت دی یعنی جب حضرت جعفر طیار (رض) کی شہادت کی خبر آئی تو آپ ﷺ نے ان کے گھر والوں کو تین دن تک رونے دھونے اور سوگ کرنے کی اجازت دی اور اس عرصہ میں آپ ﷺ ان کے ہاں تشریف نہیں لائے، پھر آپ ﷺ (ان لوگوں کو تسلی دلاسہ دینے کے لئے) ان کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ بس آج کے بعد میرے بھائی (جعفر) پر مت رونا۔ پھر فرمایا کہ میرے بھتیجوں (یعنی عبداللہ، عون اور محمد) کو (جو جعفر کے لڑکے ہیں) میرے پاس لے کر آؤ۔ (چنانچہ ہم سب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر لائے گئے اور اس وقت ہم چوزوں کی طرح یعنی بہت کمسن تھے اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ نائی کو بلا کر میرے پاس لاؤ۔ (جب نائی آگیا تو) آپ ﷺ نے اس کو (ہمارے بال) مونڈنے کا حکم دیا اور اس نے ہمارے سروں کو مونڈا ! (ابوداؤد ) تشریح حضرت جعفر (رض) ابوطالب کے بیٹے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حقیقی بھائی تھے۔ اس اعتبار سے وہ آنحضرت ﷺ کے چچا زاد بھائی ہوئے۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ نوحہ اور جزع فزع کے بغیر میت پر رونا، غمگین و افسردہ ہونا اور رنج و الم کا اظہار کرنا تین دن تک جائز ہے، تین دن کے بعد نہ تو رونا دھونا اور سوگ کرنا جائز ہے اور نہ تعزیت کرنا رواہ ہے۔ حج وعمرہ سے فراغت کے بعد تو سر کو منڈانا افضل ہے لیکن اس کے علاوہ بال رکھنا ہی افضل ہے لیکن اس کے باوجود آنحضرت ﷺ نے حضرت جعفر (رض) کے لڑکوں کے سر مونڈنے کا حکم اس لئے دیا کہ ان کی ماں یعنی اسماء بنت عمیس شوہر کی دائمی جدائی کے سخت ترین صدمہ سے دوچار تھیں، ان کو اپنی اس مصیبت سے اتنی فرصت کہاں ملتی کہ وہ بچوں کے سر کے بالوں کی صفائی ستھرائی اور تیل کنگھے کا خیال رکھتیں اس صورت میں ان کے سروں میں جوئیں وغیرہ پڑجانے کا خدشہ تھا لہٰذا آپ ﷺ نے ان کے بالوں کو منڈوا دینا ہی بہتر سمجھا۔

【155】

عورت کی ختنہ کا ذکر

اور حضرت ام عطیہ انصاری (رض) کہتی ہیں کہ مدینہ میں ایک عورت تھی جو (عورتوں کی) ختنہ کیا کرتی تھی (جیسا کہ اس زمانہ میں عورتوں کی ختنہ کا بھی رواج تھا) نبی کریم ﷺ نے (ایک دن) اس عورت سے فرمایا کہ ٹنہ کو زیادہ مت کاٹا کرو (بلکہ تھوڑا سا اوپر سے کاٹ دیا کرو) کیونکہ یہ (یعنی زیادہ نہ کاٹنا) عورت کے لئے بھی بہت لذت بخش ہوتا ہے اور مرد کو بھی بہت پسندید ہوتا ہے (یعنی اگر اس کو زیادہ کاٹ دیا جائے تو جماع میں نہ عورت کو لذت ملتی ہے اور نہ مرد کو) ابوداؤد نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس کے راوی مجہول ہیں۔ تشریح وراویہ مجہول (اور اس کے راوی مجہول ہیں) میں جس طرح یہ احتمال ہے کہ یہاں جنس راوی مراد ہے یعنی اس حدیث کے سب راوی مجہول ہیں، اسی طرح یہ بھی احتمال ہے کہ اس جملہ سے اصل میں یہ مراد ہے کہ کوئی ایک راوی مجہول ہے جیسا کہ ایک دوسرے صحیح نسخے میں منقول ان الفاظ سے واضح ہوتا ہے وفی روایۃ مجہول بہرحال اس روایت کو طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ اور حاکم نے اپنی مستدرک میں ضحاک ابن قیس سے نقل کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں احفضنی ولاتنہ کی فانہ انضر للزوجۃ واحظی عند الزوج۔

【156】

عورتوں کا سر کے بالوں پر مہندی کا خضاب کرنا پسندیدہ

اور حضرت کریمہ بنت ہمام سے روایت ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ (رض) سے (سر کے بالوں پر) مہندی کا خضاب کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اگرچہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن میں اس کو اچھا نہیں سمجھتی کیونکہ میرے محبوب (یعنی آنحضرت ﷺ اس کی بو کو پسند نہیں فرماتے تھے ! (ابوداؤد، نسائی) تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ عورتوں کے سر کے بالوں پر مہندی کا خضاب کرنے کو ناپسند فرماتے تھے کیونکہ اگر آپ کے نزدیک عورتوں کے لئے مطلق مہندی کا استعمال ناپسندیدہ ہوتا تو آپ ﷺ ہندہ کو محض اس لئے بیعت کرنے سے انکار کیوں فرماتے کہ ان کے ہاتھ مہندی سے عاری تھے جیسا کہ آگے آنے والی حدیث سے واضح ہوگا۔

【157】

عورتوں کو ہاتھوں پر مہندی لگانا مستحب ہے

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ عتبہ کی بیٹی ہندہ نے (جب) یہ کہا اے اللہ کے نبی ﷺ مجھ کو بیعت کرلیجئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک کہ تم اپنے دونوں ہاتھوں کو (مہندی لگا کر ان کی رنگت کو) متغیر نہ کرلو گی میں تم سے (زبانی) بیعت نہیں لوں گا۔ (ابوداؤد) تشریح ہندہ عتبہ کی بیٹی، ابوسفیان کی بیوی اور معاویہ کی ماں تھیں، انہوں نے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا تھا اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث بالا میں جس بیعت کا ذکر کیا گیا ہے وہ فتح مکہ کے دن کے علاوہ کسی اور دن کا واقعہ ہے۔ حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ عورتوں کو اپنے ہاتھوں پر مہندی لگانا مستحب ہے اور اس کو ترک کرنا مکروہ ہے اور یہ کراہت مردوں کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے ہے۔

【158】

عورتوں کو ہاتھوں پر مہندی لگانا مستحب ہے

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک دن ایک عورت نے پردہ کے پیچھے سے اپنے ہاتھ کے ذریعہ اشارہ کیا جس میں ایک پر چہ تھا جو کسی شخص نے رسول کریم ﷺ کو بھیجا تھا (یعنی اس عورت نے پردہ کے پیچھے سے اپنا ہاتھ نکال کر وہ پر چہ آنحضرت ﷺ کو دینا چاہا) لیکن نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ کھینچ لیا یعنی وہ پر چہ نہیں لیا) اور فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ ہاتھ مرد کا ہے یا عورت کا ؟ اس عورت نے عرض کیا کہ یہ ہاتھ عورت کا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم عورت ہوتیں (یعنی تمہیں عورتوں کا طور طریقہ ملحوظ رکھنا آتا) تو اپنے ناخن کی رنگت کو مہندی کے ذریعہ ضرور تبدیل کرتیں۔ (ابوداؤد، نسائی) تشریح یہ حدیث عورتوں کے ہاتھوں پر مہندی لگانے کے استحباب کو اور رہن سہن کے طور طریقوں نیز آداب معاشرت کی تلقین کو پر زور انداز میں واضح کرتی ہے۔

【159】

کسی مرض وعذر کی وجہ سے گودنا اور گدوانا جائز ہے

اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ملانے والی یعنی اپنے بالوں میں انسانی بالوں کا جوڑا لگانے اور لگوانے والی اور بالوں کو چننے والی اور چنوانے والی، نیز بغیر کسی مرض کے گودنے اور گدوانے والی، یہ سب عورتیں ملعون قرار دی گئی ہیں ! (ابوداؤد) تشریح حدیث میں مذکورہ الفاظ کی وضاحت پہلی فصل میں گزر چکی ہے۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر گودنے کی کوئی ضرورت اور حاجت ہو تو اس صورت میں گودنا اور گدوانا جائز ہے اگرچہ اس کے نشان باقی رہیں۔

【160】

مردانہ لباس پہننے والی عورت اور زمانہ لباس پہننے والے مرد پر آنحضرت ﷺ کی لعنت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو زنانہ لباس پہنے، اسی طرح اس عورت پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مردانہ لباس پہنے۔ (ابوداؤد )

【161】

مردانہ لباس پہننے والی عورت اور زمانہ لباس پہننے والے مرد پر آنحضرت ﷺ کی لعنت

اور حضرت ابوملیکہ (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کو بتایا گیا کہ ایک عورت مردانہ جوتے پہنتی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ نے اس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرے۔ (ابوداؤد) تشریح وہ مشابہت مذموم ہے جو لباس، وضع قطع، بول چال اور رہن سہن میں اختیار کی جائے اور جو عورت علم و عقل اور حکمت و دانائی میں مردوں کی مشابہت اختیار کرے تو وہ مذموم نہیں ہے جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کانت عائشہ رجلۃ الرای (یعنی عائشہ کی عقل مردوں کی عقل کی طرح تھی )

【162】

اپنے اہل بیت کا راحت وآرام کی زندگی اختیار کرنا آنحضرت ﷺ کے نزدیک ناپسندیدہ

اور حضرت ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب سفر پر روانہ ہوتے تو اپنے اہل و عیال کے لوگوں میں سب سے آخری وقت حضرت فاطمہ (رض) کو عطا کرتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ (رض) کے ہاں جاتے یعنی سفر کے لئے روانگی کے وقت آپ ﷺ پہلے دیگر اہل بیت سے الوداعی ملاقات فرماتے پھر ان سب سے فارغ ہو کر اور سب کو رخصت کر کے آخر میں حضرت فاطمہ (رض) کے پاس تشریف لے جاتے ان سے جو کچھ کہنا سننا ہوتا کہتے اور جو کوئی وصیت و نصیحت کرنی ہوتی وہ کرتے اور ان کو اللہ حافظ کہہ کر کے روانہ ہوجاتے اور پھر جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ (رض) کے ہاں تشریف لے جاتے اور سب سے پہلے ان سے ملاقات کرتے چناچہ (ایک مرتبہ) آنحضرت ﷺ ایک جہاد کے سفر سے واپس آئے تو اس وقت حضرت فاطمہ (رض) نے اپنے مکان کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ لٹکا رکھا تھا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے وہ پردہ آرائش کی خاطر لٹکایا تھا) کیونکہ اگر پردہ کی ضرورت کی خاطر لٹکایا ہوا ہوتا تو آنحضرت ﷺ کو کوئی ناگواری نہیں ہوتی) نیز انہوں نے (اپنے دونوں صاحبزادوں) حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) کو چاندی کے دو کڑے پہنا رکھے تھے (یعنی ان میں سب سے ہر ایک کو ایک ایک کڑا یا دو دو کڑے پہنا رکھے تھے) جب آنحضرت ﷺ اپنے معمول کے مطابق سفر سے واپسی میں حضرت فاطمہ (رض) کی ملاقات کے لئے ان کے گھر، تشریف لائے اور یہ چیزیں دیکھیں تو آپ ﷺ ان کے گھر میں داخل نہیں ہوئے، حضرت فاطمہ (رض) سمجھ گئیں کہ جس چیز نے آنحضرت ﷺ کو میرے گھر میں داخل ہونے سے روکا وہ یہ ہے جو آپ ﷺ نے دیکھا ہے (یعنی دروازہ پر پردہ لٹکنا اور حسن و حسین (رض) کے ہاتھوں میں کڑے کا ہونا چناچہ حضرت فاطمہ (رض) نے (فورًا) پردہ کو پھاڑ ڈالا اور دونوں صاحبزادوں کے ہاتھ سے دونوں کڑوں کو اتار لیا اور ان کو توڑ ڈالا پھر دونوں صاحبزادے ان ٹوٹے ہوئے کڑوں کو لے کر) روتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں گئے، آپ ﷺ نے آپنے رشتہ داروں میں کسی شخص کا نام لے کر فرمایا کہ اس کے گھر والوں کو دے آؤ کیونکہ وہ محتاج و ضرورت مند تھے، چونکہ یہ دونوں بچے میرے اہل بیت میں سے ہیں اس لئے میں اس کو اچھا نہیں سمجھتا کہ یہ دنیاوی زندگی میں بہترین غذا کھائیں (یعنی میرے نزدیک یہ پسندیدہ) نہیں ہے کہ میرے یہ بچے بہترین غذاؤں اور نفیس پوشاک و اسباب سے لذت و فائدہ اٹھائیں یا آپ ﷺ نے بہترین غذا سے عیش و آرام کی زندگی اختیار کرنا اور دنیا کی لذتیں حاصل کرنا مراد لیا۔ نیز آپ ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ گویا یہ واضح فرمایا کہ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں اس چیز کو اختیار کرتا ہوں کہ وہ اس دنیا میں فقر و زہد اور سختی و مشقت کی زندگی اپنائیں تاکہ آخرت میں ان کے درجات بلند ہوں اور ان کا شمار ان لوگوں میں نہ ہو جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آیت (اذہبتم طیباتکم فی حیوتکم الدنیا) لیکن اس کے ساتھ ہی آنحضرت ﷺ چشم تصور سے اپنی لخت جگر فاطمہ (رض) کی شکستہ دلی کو بھی دیکھ رہے تھے اس لئے ان کے تئیں شفقت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ثوبان ! فاطمہ کے لئے عصب کا ایک ہار اور دونوں بچوں کے لئے ہاتھی دانت کے دو کڑے خرید لینا تاکہ فاطمہ (رض) کی بھی دلجوائی ہوجائے اور بچوں کی اشک شوئی ہوجائے۔ (احمد، ابوداؤد )

【163】

سرمہ لگانے کا حکم

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اصفہانی سرمہ (برابر) لگایا کرو، کیونکہ وہ سرمہ بینائی کو روشن کرتا ہے اور بالوں یعنی پلکوں کو اگاتا ہے جو آنکھوں کی زیبائی و حفاظت کی ضامن ہوتی ہیں) حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک لمبی سرمہ دانی تھی، جس سے آپ ﷺ روزانہ رات میں تین بار اس آنکھ میں اور تین بار اس آنکھ میں سرمہ لگاتے تھے (یعنی مسلسل تین سلائی دائیں آنکھ میں اور تین سلائی بائیں آنکھ میں لگاتے تھے ) ۔ (ترمذی) تشریح بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اثمد مطلق سرمہ کو کہا جاتا ہے لیکن زیادہ صحیح یہ ہے کہ اثمد ایک مخصوص قسم کے سرمہ کو کہا جاتا ہے اور بعض حضرات کے قول کے مطابق وہ مخصوص قسم اصفہانی سرمہ ہے جو آنکھ سے بہنے والے پانی کو روکتا ہے، آنکھ کے اندر اگر زخم پیدا ہوجاتے ہیں اور یا سوزش ہوتی ہے تو اس کو دفع کرتا ہے اور آنکھ کی رگوں کو جو روشنی کا ذریعہ ہیں طاقت دیتا ہے خاص طور پر بڑی عمر والوں اور بچوں کے حق میں زیادہ فائدہ مند رہتا ہے۔ ایک روایت میں بالاثمد کے بجائے بالاثمد المروح کے الفاظ ہیں یعنی وہ سرمہ جس میں خالص مشک مخلوط ہو۔ روزانہ رات میں سے ہر روز رات میں سونے سے پہلے مراد ہے جیسا کہ ایک روایت میں وعند النوم کے الفاظ منقول بھی ہیں، رات میں سونے سے پہلے سرمہ لگانے میں حکمت و مصلحت یہ ہے کہ سرمہ کے اجراء آنکھوں میں زیادہ عرصہ تک رہتے ہیں اور اس کے اثرات آنکھ کے اندرونی پردوں اور جھیلوں تک اچھی طرح سرایت کرتے ہیں۔

【164】

بہترین دوائیں کون سی ہیں

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ (رات میں) سونے سے پہلے ہر آنکھ میں اصفہانی سرمہ کی تین تین سلائیاں لگایا کرتے تھے ! نیز حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم علاج کے لئے جن چیزوں کو اختیار کرتے ہو ان میں بہترین چیزیں چار ہیں ایک تو لدود، دوسرے سعوط تیسرے حجامۃ اور چوتھے مشی ! آنکھوں کے لگانے کی چیزوں میں بہترین چیز اصفہانی سرمہ ہے جو بینائی کو روشن کرتا ہے اور پلکوں کے بالوں کو جماتا ہے، نیز بھری ہوئی سینگی کھنچوانے کے لئے (چاند کی) سترھویں، انیسویں اور اکیسویں (تاریح) بہترین دن ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جب معراج میں تشریف لے گئے تو فرشتوں کی کوئی بھی ایسی جماعت نہیں تھی جس کے پاس سے آپ ﷺ گزرے ہوں اور اس نے یہ نہ کہا ہو کہ بھری ہوئی سینگی کھنچوانا آپ ﷺ کے لئے ضروری ہے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح لدود اس کو کہتے ہیں جو مریض کے منہ میں باچھ کی طرف سے ٹپکائی جائے ! سعوط اس دوا کو کہتے ہیں جو ناک میں ٹپکائی جائے ! حجامہ بھری سینگی کھنچوانے کو کہتے ہیں ! اور مشی اسہال کی دواء کو کہتے ہیں، یہ لفظ مشی بمعنی چلنے سے مشتق ہے چونکہ دست آور دوا کے استعمال سے بیت الخلاء جانے کے لئے بار بار چلنا پڑتا ہے اس مناسبت سے اس دوا کو مشی کہا جاتا ہے۔ چوں کہ مہینہ کی ابتداء سے وسط مہینہ تک خون، بلکہ تمام رطوبات میں بڑھوتری، غلبہ اور جوش رہتا ہے، ادھر مہینہ کی آخری تاریخوں میں ان چیزوں کا عمل سست کمزور اور سرد ہوجاتا ہے اس اعتبار سے گویا مہینہ کے وسط ایام اور خاص طور پر مذکورہ تاریخیں انسانی جسم کے لئے معتدل ہوتی ہیں، لہٰذا ان دنوں میں سینگی کھنچوانا زیادہ سود مند ہوتا ہے حجامۃ کے بارے میں تفصیلی باتیں انشاء اللہ کتاب الطب والرقی میں نقل کی جائیں گی۔

【165】

حمام میں جانے کا ذکر

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مردوں اور عورتوں کو حمام میں جانے سے منع فرما دیا تھا، پھر بعد میں آپ ﷺ نے مردوں کو اس صورت میں جانے کی اجازت دے دی تھی جب کہ ان کے جسم پر تہبند ہو ! (ترمذی، ابوداؤد) تشریح حمام سے مراد وہ غسل خانے ہیں جو عوامی ضرورت کے لئے بازاروں میں بنائے جاتے ہیں اور جہاں ہر کس و ناکس نہانے کی غرض سے آتا جاتا ہے بلکہ پہلے زمانوں میں تو اس قسم کے حمام ہوتے تھے، جہاں علیحدہ علیحدہ نہانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا بلکہ کئی کئی آدمی ایک ہی جگہ ساتھ ساتھ غسل کرتے تھے ظاہر ہے کہ اس صورت میں ستر پوشی ممکن نہیں ہوسکتی تھی اس لئے آپ ﷺ نے مسلمانوں کو حمام میں جانے سے منع کردیا البتہ بعد میں مردوں کو اس شرط کے ساتھ جانے کی اجازت دی کہ وہ بغیر تہبند کے جو گھٹنوں تک ہونا ضروری ہے وہاں غسل نہ کریں۔ مظہر کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے (تہبند کی شرط کے ساتھ بھی) عورتوں کو حمام میں جانے کی اجازت اس لئے نہیں دی کہ ان کے اعضاء ستر کے حکم میں داخل ہیں کہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی کھولنا جائز نہیں ہے تاہم واقعی ضرورت و مجبوری کی صورت میں عورتوں کے لئے بھی اجازت ہے مثلا شدید سردی کے موسم میں حیض و نفاس سے فراغت کے بعد، یا ناپاک ہونے کی صورت میں نہانے کی ضرورت ہو یا کسی علاج کے سلسلے میں گرم پانی سے نہانا ضروری ہو اور گرم پانی کا حمام کے علاوہ اور کہیں انتظام نہ ہو نیز ٹھنڈے پانی سے نہانا ضرر و نقصان کا باعث ہو تو اس صورت میں عورت کو بھی حمام جانے کی مخصوص اجازت ہوگی۔ یہاں یہ خلجان پیدا ہوسکتا ہے کہ اس وضاحت سے وہ وجہ ظاہر نہیں ہوئی جس سے یہ واضح ہوتا کہ اس ممانعت میں مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کیوں کیا گیا ہے کیونکہ عورت کی موجودگی میں عورت کے لئے فرق وہی حکم ہے جو مرد کی موجودگی میں مرد کے لئے ہے جس طرح مرد کو کسی مرد کے سامنے اپنے جسم کو کھولنا جائز ہے۔ علاوہ اس حصہ جسم کے جو شرعی طور پر عورت کے لئے ستر کے حکم میں ہے اس اعتبار سے قیاس کا تقاضا تو یہی ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی یہ اجازت ہونی چاہئے کہ وہ زنانہ حمام میں جاسکتی ہیں بشرطیکہ وہ اپنے جسم کے اس حصے کو ضرور چھپائے رہیں جن کو عورت کے سامنے بھی کھولنا جائز نہیں ہے ؟ اس خلجان کو اس توجیہ کے ذریعہ رفع کیا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عورتوں کو مذکورہ شرط کے ساتھ حمام میں جانے کی اجازت اس لئے نہیں دی ہوگی کہ عام طور پر عورتیں اپنی ہم جنسوں کے سامنے اپنی ستر پوشی کا کوئی خاص لحاظ نہیں رکھتیں، بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو عورتوں کے سامنے حتی کہ اجنبی عورتوں تک کے سامنے اپنے ستر کی عریانیت کو معیوب نہیں سمجھتیں، چہ جائیکہ اپنی اقا رب جیسے ماں یا بیٹی یا بہن وغیرہ کے سامنے ستر کھولنے کو کوئی برائی سمجھیں یہاں تک کہ گھر میں بھی غسل وغیرہ کے مواقع پر عورتیں ایک دوسرے کے سامنے اپنے ستر کو چھپانے کا خیال نہیں رکھتیں چہ جائیکہ حمام میں کہ جہاں ویسے بھی ایک دوسرے کے سامنے ستر پوشی بڑی مشکل سے قائم رکھنی پڑتی ہے بلکہ اکثر عورتیں تو کوئی کپڑا وغیرہ لپٹنیے تک روادار نہیں ہوتیں، لہٰذا آنحضرت ﷺ نے نور نبوت کے ذریعہ عورتوں کی اس حالت کا ادراک کرلیا اور ان کے لئے راستہ ہی کو بند کردیا۔

【166】

حمام میں جانے کا ذکر

اور حضرت ابوملیح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں (ملک شام کے شہر) حمص کی کچھ عورتیں آئیں، حضرت عائشہ (رض) نے ان سے پوچھا تم کہاں کی رہنے والی ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ملک شام کی، حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ شاید تم اس علاقہ کی رہنے والی ہو جہاں کی عورتیں حمام میں جاتی ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ! تب حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو بھی عورت اپنے خاوند کے گھر کے علاوہ کہیں اور کپڑے اتارتی ہے تو (گویا) وہ اس پردہ کو چاک کردیتی ہے جو اس کے اور اللہ عزوجل کے درمیان ہے، یعنی اس روایت میں فی بیت غیر زوجھا کی بجائے فی بیتھا کے الفاظ ہیں۔ (ترمذی، ابوداؤد ) تشریح حضرت عائشہ (رض) نے گویا مذکورہ حدیث عورتوں کے حمام جانے کے خلاف دلیل کے طور پر پیش کی، جس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ پردہ میں رہے اور اس بات سے اپنے آپ کو بچائے کہ کوئی اجنبی اس کو دیکھے، یہاں تک کہ اس کے لئے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے خاوند کی موجودگی کے علاوہ خلوت (تنہائی) میں بھی اپنا ستر کھولے، لہٰذا جب وہ ضرورت شرعی حمام میں گئی اور وہاں اس نے اجنبی نظروں کا لحاظ کئے بغیر اعضاء و جسم کو عریاں کردیا تو اس نے گویا اس پردہ کو چاک کردیا جس میں اپنے جسم کو چھپانے کا حکم اس کو اللہ تعالیٰ نے دیا تھا۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ مذکورہ ارشاد گرامی ﷺ کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لباس کو اس لئے نازل کیا ہے کہ اس کے ذریعہ اپنے ستر کو چھپایا جائے گویا وہ لباس اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کا ذریعہ ہے، لہٰذا جس عورت نے اللہ تعالیٰ کے اس منشاء و حکم کو پورا نہیں کیا اور اپنے ستر کو عریاں کیا تو گویا اس نے اس پردہ کو پھاڑ ڈالا جو اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہے۔

【167】

حمام میں جانے کا ذکر

اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ عنقریب تمہیں عجم کی سر زمین پر فتح حاصل ہوگی جہاں تمہیں ایسے گھر ملیں گے جن کو حمام کہا جائے گا، لہٰذا (خبردار) ان میں داخل ہونے سے بالکل منع کردینا الاّ یہ کہ کوئی عورت بیمار ہو یا نفاس کی حالت میں ہو۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ مردوں کو تو حمام میں جانے کی اس شرط کے ساتھ اجازت بھی ہے کہ وہ تہبند باندھے رکھیں، لیکن عورتوں کو مطلق اجازت نہیں ہے خواہ وہ تہبند باندھے ہوئے ہوں یا بغیر تہبند کے ہوں، کیونکہ عورت کا پورا جسم سر سے پاؤں تک ستر ہے جب کہ مرد کا پورا جسم ستر نہیں ہے بلکہ صرف ناف سے زانوں تک کا حصہ چھپانا اس کے لئے ضروری ہے اس لئے تہبند باندھنے سے ان کی ستر پوشی ہوجاتی ہے تاہم اگر کوئی عورت بیمار ہو اور کسی علاج کے سلسلے میں اس کے لئے گرم پانی سے نہانا ضروری ہو، یا کوئی عورت ولادت سے فارغ ہوئی ہو تو غسل کے لئے یا اسی طرح کے کسی اور شرعی عذر کی بنا پر اس کے زنانہ حمام میں داخل ہونا جائز ہوگا خواہ وہ وہاں تہبند جیسی کوئی چیز لپیٹ کر غسل کرے یا بالکل عریاں حالت میں، بغیر عذر حمام میں داخل ہونا عورتوں کے لئے جائز نہیں ہے۔

【168】

حمام میں جانے کا ذکر

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی عورت کو حمام میں داخل نہ ہونے دے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اس دستر خوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چلتا ہو۔ (ترمذی، نسائی ) تشریح اپنی عورت کو حمام میں داخل نہ ہونے دے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیوی کو حمام میں جانے کی اجازت نہ دے اس حکم میں ماں، بیٹی اور بہن وغیرہ ایسی عورتیں بھی شامل ہیں جو اس (مرد) کے قابو و اختیار میں ہوں، نیز مرد کے لئے یہ مکروہ ہے کہ وہ حمام میں جانے کی اجرت دینے کے لئے اپنی بیوی وغیرہ کو روپیہ پیسہ دے کیونکہ اس صورت میں وہ ایک مکروہ عمل کا مددگار بنے گا۔ فقہ کی بعض کتابوں میں آنحضرت ﷺ کا حمام میں جانا نقل کیا گیا ہے لیکن محدثین کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے اور اس کے بارے میں حدیث منقول ہے اس کو موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ بات درجہ صحت پایہ ثبوت کو پہنچی ہے کہ آنحضرت ﷺ کبھی بھی حمام میں نہیں گئے ہیں بلکہ آپ ﷺ نے حمام کی صورت بھی کبھی نہیں دیکھی ! رہی اس حمام کی بات جو مکہ معظمہ میں حمام النبی ﷺ کے نام سے مشہور ہے تو ہوسکتا ہے کہ جس جگہ آنحضرت ﷺ نے کبھی غسل کیا ہوگا اس کو حمام کی صورت دے دی گئی ہو اور پھر اس کو حمام النبی ﷺ کہا جانے لگا ہو، نیز ایک احتمال یہ بھی ہے کہ وہ جگہ حمام النبی ﷺ اس مناسبت سے زبان زد خاص و عام ہوگئی ہو کہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش مبارک کی جگہ اسی مقام کے اطراف و جوانب میں واقع ہے تاہم احادیث میں حمام کا ذکر ضرور موجود ہے جیسا کہ مذکورہ روایات سے ظاہر ہوا۔ اس دسترخوان پر نہ بیٹھے کا مطلب یہ ہے کہ اس جگہ ہرگز نہ جائے جہاں شراب کا دور چلتا ہو اور شرابی لوگ وہاں مے نوشی کرتے ہوں۔ لہٰذا وہاں جانے والا مسلمان اگر شراب نوشی میں شامل نہ بھی ہو تو اس صورت میں اس پر یہ تو واجب ہو ہی گا کہ وہ وہاں شراب پینے والوں کو اس برے فعل سے روکے لیکن وہاں پہنچ جانے کے باوجود اگر اس نے نہ تو ان لوگوں کو شراب پینے سے روکا، نہ ان سے بےاعتنائی کا برتاؤ کیا اور نہ ان کے خلاف اپنی نفرت و غصہ کا اظہار کیا تو یقینا اس کا شمار کامل مؤمنین میں نہیں ہوگا۔

【169】

آنحضرت ﷺ نے سر مبارک پر کبھی خضاب نہیں کیا

حضرت ثابت (رض) سے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک (رض) سے نبی کریم ﷺ کے خضاب کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر میں آنحضرت ﷺ کے سر مبارک میں سفید بالوں کی تعد اد شمار کرنا چاہتا تو یقینا کرلیتا (یعنی آپ ﷺ کے سر مبارک میں چند ہی بال سفید تھے) اس صورت میں آپ ﷺ کو خضاب کرنے کی کیا ضرورت تھی چناچہ آپ ﷺ نے کبھی خضاب نہیں کیا۔ ایک روایت میں حضرت انس (رض) نے یا حضرت انس (رض) سے ثابت (رض) نے یہ عبارت مزید نقل کی کہ حضرت ابوبکر (رض) نے مہندی اور وسمہ کا خضاب استعمال کیا اور حضرت عمر (رض) نے صرف مہندی کا خضاب استعمال کیا۔ (بخاری، مسلم) تشریح آپ ﷺ نے کبھی خضاب نہیں کیا۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے سر مبارک میں کبھی خضاب کا استعمال نہیں کیا اس صورت میں یہ روایت پیچھے نقل کی گئی اس روایت کے منافی نہیں ہوگی جس میں ریش مبارک پر خضاب کرنے کا ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ آگے بھی حضرت ابن عمر (رض) کی روایت آرہی ہے۔ نیز مہندی اور وسمہ دونوں کے مخلوط اور صرف مہندی کے خضاب کے سلسلے میں جو بحث کی جاتی ہے وہ بھی پیچھے گزر چکی ہے۔

【170】

آنحضرت ﷺ کے خضاب کرنے کا ذکر

اور حضرت ابن عمر (رض) کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اپنی داڑھی پر زرد خضاب کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے کپڑے بھی زرد آلود ہوجاتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ﷺ زرد خضاب کیوں کرتے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (اپنی ریش مبارک پر) زرد خضاب کرتے ہوئے دیکھا ہے اور آپ ﷺ کے نزدیک داڑھی پر خضاب کرنے کے لئے زرد رنگ سے زیادہ پسندیدہ کوئی چیز نہیں تھی، نیز آنحضرت ﷺ اپنے تمام کپڑے یہاں تک کہ عمامہ کو بھی رنگ دیتے تھے۔ (ابوداؤد، نسائی) تشریح زرد خضاب سے مراد ورس کے ذریعہ خضاب کرنا ہے جو ایک گھاس ہوتی ہے اور زعفران کے مشابہ ہوتی ہے۔ بسا اوقات ورس کے ساتھ زعفران کو بھی شامل کرلیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے یصبغ بہا سے ابن عمر (رض) کی مراد یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی ریش مبارک پر زرد خضاب کرتے تھے جیسا کہ ترجمہ کے دوران قوسین میں اس کو واضح کیا گیا، بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ بالوں کو رنگنا مراد ہے اور بعض حضرات کے قول کے مطابق کپڑوں کو رنگنا مراد ہے، نیز سیوطی نے کہا ہے کہ یہی قول اشبہ یعنی صحیح ہے کہ آنحضرت ﷺ کا بالوں کا رنگنا منقول نہیں ہے لیکن ملا علی قاری کہتے ہیں کہ جب یہ بات درجہ صحت کو پہنچ چکی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کسم کے رنگے ہوئے اور زعفرانی کپڑے پہننے سے منع کیا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مذکورہ جملہ کو کپڑوں کے زرد رنگنے پر محمول کیا جائے لہٰذا زیادہ صحیح بات وہی ہے جو صاحب نہایہ نے نقل کی ہے کہ مختار قول یہ ہے کہ کبھی تو آپ ﷺ نے بالوں کو رنگا اور اکثر نہیں رنگا لہٰذا راویوں میں سے ہر ایک نے اسی چیز کو بیان کیا جس کو اس نے دیکھا ہے اس اعتبار سے ہر راوی اپنے بیان میں سچا ہے۔ تمام کپڑے یہاں تک کہ عمامہ کو زرد رنگ دیتے تھے اس سے یہ قطعا مراد نہیں ہے کہ آپ ﷺ خاص طور کپڑوں کو زرد رنگتے تھے اور پھر اس کو پہنتے تھے، کیونکہ زرد رنگ کے کپڑے پہننے کی ممانعت منقول ہے بلکہ عبارت کا مقصد، محض یہ واضح کرنا ہے کہ آنحضرت ﷺ جو زرد خضاب لگاتے تھے اس کے اثر سے آپ ﷺ کے کپڑے بھی زرد ہوجاتے تھے۔

【171】

آنحضرت ﷺ کے خضاب کرنے کا ذکر

اور حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ ایک دن میں ام المؤمنین حضرت ام سلمہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمیں نبی کریم ﷺ کا ایک موئے مبارک نکال کر دیکھایا جو رنگین تھا ! (بخاری) تشریح میرک (رض) کہتے ہیں کہ ابن ماجہ اور احمد نے اپنی روایت میں رنگین کے ساتھ مہندی اور وسمہ کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں یعنی وہ موئے مبارک مہندی اور وسمہ کے مخلوط رنگ سے رنگین تھا۔ بخاری کی جو روایت نقل کی گئی ہے اسی طرح کی ایک روایت ترمذی نے بھی شمائل میں حضرت انس (رض) سے نقل کی ہے کہ انہوں نے (یعنی انس نے) بیان کیا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کا ایسا موئے مبارک دیکھا جو رنگین تھا، لیکن حضرت انس (رض) ہی کی یہ روایت بھی گزر چکی ہے کہ آنحضرت ﷺ خضاب نہیں کرتے تھے تو ہوسکتا ہے کہ جس روایت میں انہوں نے آنحضرت ﷺ کے خضاب کرنے کی نفی کی ہے اس سے ان کی مراد یہ ہو کہ آپ ﷺ اکثر خضاب نہیں کرتے تھے اور جس روایت سے خضاب کا اثبات ہوتا ہو وہ اقل احوال پر محمول ہو یعنی کبھی کبھار آپ ﷺ نے خضاب کیا ہوگا نیز یہ کہنا بھی صحیح ہوسکتا ہے کہ ان دونوں میں سے ایک روایت تو حقیقت پر مبنی ہے اور دوسری مجاز پر محمول ہے یعنی حقیقت تو یہ ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی خضاب نہیں کیا، لیکن کسی موقع پر آپ ﷺ نے درد سر کے دفعیہ کے لئے اپنے سر مبارک پر مہندی لگائی ہوگی اس کے رنگ کا اثر آپ ﷺ کے بالوں پر بھی آگیا ہوگا یا یہ کہ وہ موئے مبارک جو حضرت انس (رض) نے دیکھا تھا خوشبوؤں میں بسا کر رکھا جاتا ہوگا اور ان خوشبوؤں کے اثر سے وہ ایسا نظر آیا ہوگا جیسے خضاب کیا ہو اس اعتبار سے حضرت انس (رض) نے اس موئے مبارک کو رنگین کہا۔ ملا علی قاری کہتے ہیں کہ میرے نزدیک زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ خضاب کی نفی کو اس پر محمول کیا جائے کہ آنحضرت ﷺ نے سفید بالوں کو چھپانے کے لئے اپنے سر مبارک پر کبھی خضاب نہیں کیا اور جس روایت سے خضاب کا اثبات ہوتا ہے اس کو اس پر محمول کیا جائے کہ آپ ﷺ نے اپنی ریش مبارک کے ان چند بالوں پر خضاب کیا تھا جو سفید ہوگئے تھے اور بخاری کی جس روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) کے پاس آنحضرت ﷺ کی ریش مبارک کا ایک بال تھا جس پر مہندی اور وسمہ کے خضاب کا اثر تھا تو اس پر شمائل میں منقول حضرت ابوہریرہ (رض) کی اس مطلق روایت کو محمول کیا جائے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے پوچھا گیا کہ آنحضرت ﷺ خضاب کرتے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں۔

【172】

آنحضرت ﷺ کے حکم سے ایک مخنث کو شہر بدر کرنے کا ذکر

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک مخنث کو لایا گیا جس نے (عورتوں کی طرح) اپنے ہاتھ پر مہندی لگا رکھی تھی رسول کریم ﷺ نے (اس کو دیکھ کر) فرمایا کہ اس کو کیا ہوا ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یہ شخص (اپنے رہن سہن، بول چال اور طور طریقوں میں) عورتوں کی مشابہت کرتا ہے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس کو شہر سے باہر نکال دینے کا حکم دیا اور اس کو (مدینہ کی ایک جگہ) نقیع میں بھیج دیا گیا، پھر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا ہم اس کو موت کے گھاٹ نہ اتار دیں یعنی چونکہ یہ فسق و فساد اور برائی کی گند پھیلا رہا ہے اس لئے اگر آپ ﷺ حکم دیں تو اس کو قتل کردیا جائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مجھ کو نماز پڑھنے والوں کو قتل سے منع کیا گیا ہے۔ (ابوداؤد ) ۔ تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے نماز کے ذریعہ بطور کنایہ اس کے اسلام کو ذکر کیا گویا آپ ﷺ نے واضح کیا کہ چونکہ وہ شخص بہرحال مسلمان ہے اس لئے اس کے قتل کا حکم کیسے دیا جاسکتا ہے ! نماز بول کر اسلام مراد لینے کی بنیاد یہ بھی ہے کہ حقیقت میں نماز ایک ایسا عمل ہے جو اسلام کے اظہار کا ذریعہ ہے اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا تو گویا وہ ظاہر کرتا ہے کہ میرا اسلام سے تعلق نہیں ہے اسی لئے اس قول اگر کوئی مسلمان نماز نہ پڑھے تو اس کو قتل کردیا جائے کو بعض علماء نے اس کے ظاہری مفہوم ہی پر محمول کیا ہے،

【173】

مرد کے لئے رنگدار خوشبو کا استعمال ممنوع ہے

اور حضرت ولید بن عقبہ (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کو مکہ پر فتح حاصل ہوئی ( اور آپ ﷺ مکہ شہر میں رونق افروز ہوئے ) تو مکہ والوں نے اپنے بچوں کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لانا شروع کیا، چناچہ آنحضرت ﷺ ان بچوں کے لئے برکت کی دعا کرتے اور (پیار و شفقت سے) ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے اس موقع پر مجھے بھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لایا گیا لیکن چونکہ میرے بدن پر (زعفران وغیرہ کی بنی ہوئی خوشبو) خلوق لگی ہوئی تھی اس لئے آپ ﷺ نے مجھ کو خلوق آلودہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ نہیں لگایا۔ (ابوداؤد) تشریح خلوق چونکہ عورتوں کی مخصوص خوشبو ہے اس لئے اگر کوئی مرد اس خوشبو کو لگائے تو عورتوں کی مشابہت لازم آتی ہے لہٰذا مرد کے لئے خلوق کا استعمال ممنوع ہے۔

【174】

بالوں کی دیکھ بھال کرنے کا ذکر

اور حضرت ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میرے (سر کے بال) منڈھوں تک ہیں، کیا ان میں کنگھا کیا کروں ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہاں ! اور ان کی تکریم بھی کیا کرو یعنی ان میں تیل وغیرہ لگا کر ان کی دیکھ بھال کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے اس ارشاد ہاں اور ان کی تکریم کیا کرو کی تعمیل میں حضرت ابوقتادہ (رض) اکثر دن بھر میں دو مرتبہ اپنے بالوں میں تیل لگایا کرتے تھے۔ (مالک) تشریح بالوں میں تیل لگانے اور کنگھی کرنے کو کثرت کے ساتھ اختیار کرنا اس صورت میں غیر پسندیدہ اور نا محمود ہے جب کہ اس کا مقصد محض زینت و آرائش ہو اور اس میں بےجا انہماک و اہتمام سے کام لیا جائے، لیکن حضرت ابوقتادہ (رض) کے بارے میں جو نقل کیا گیا ہے اس کی نوعیت بالکل جدا گانہ تھی کہ ان کا یہ عمل یعنی بالوں میں اکثر تیل لگانا اور کنگھی کرنا محض آنحضرت ﷺ کے حکم کی بجا آوری اور منشاء نبوی ﷺ کی تعمیل کی خاطر تھا جو یقینا پسندیدہ و محمود کہلائے گا جیسا کہ حضرت انس (رض) کی والدہ کے بارے میں بیان کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے انس کے گیسو محض اس لئے نہیں کاٹے کہ ان کو آنحضرت ﷺ کھینچا اور پکڑا کرتے تھے۔

【175】

غیر مسلم قوموں کی وضع قطع کے بال رکھنے ممنوع ہیں

اور حضرت حجاج بن حسان کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ یعنی میں اور میرے گھر کے کچھ افراد حضرت انس بن مالک (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اس دن کے واقعہ کو مجھ سے میری بہن نے بیان کیا جن کا نام مغیرہ ہے یعنی اس وقت میں بچہ تھا اور مجھے اس دن حضرت انس (رض) کی خدمت میں حاضر ہونا تو یاد ہے لیکن اس حاضری کی کیفیت اور وہاں جو احوال پیش آئے ان کی تفصیل مجھے یاد نہیں ہے چناچہ میری بہن نے (مجھے بتایا کہ) تم ان دونوں میں بھی تھے اور تمہارے سر پر دو گندھے ہوئے گیسو۔ یا دو گچھے تھے، حضرت انس (رض) نے تمہارے سر پر ہاتھ پھیرا اور تمہارے حق میں برکت کی دعا کی نیز فرمایا کہ ان دونوں کو منڈوا ڈالو یا کاٹ ڈالو کیونکہ یہ یہودیوں کی وضع ہے۔ (ابو داؤد) تشریح یا وہ گچھے تھے یہاں راوی نے اپنے شک کا اظہار کیا ہے کہ حضرت حجاج نے اس موقع پر لفظ قربان کہا تھا یا قصتان قصتان اصل میں قصہ کا تثنیہ ہے جس کے معنی سر کے بالوں کے ہیں جو آگے کی جانب (پیشانی) پر پڑے رہتے ہیں۔

【176】

عورت کو اپنا سر منڈانا حرام ہے

اور حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی عورت اپنا سر منڈائے !۔ (نسائی) تشریح عورت کے حق میں سر کے بالوں کی وہی اہمیت ہے جو مرد کے حق میں داڑھی کی ہے لہٰذا جس طرح مرد کو داڑھی منڈانا حرام ہے اسی طرح عورت کو سر منڈانا حرام ہے۔

【177】

سر اور داڑھی کے بالوں کا بکھرا ہوا ہونا غیر مہذب ہونے کی علامت ہے

اور حضرت عطاء بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ مسجد نبوی ﷺ میں تشریف فرما تھے کہ ایک ایسا شخص آیا جس کے سر کے اور داڑھی کے بال پراگندہ ( یعنی بکھرے اور الجھے ہوئے) تھے رسول اللہ ﷺ نے (اس کو دیکھ کر) اس (کے سر اور داڑھی) کی طرف (اپنے دست مبارک سے اس انداز میں) اشارہ کیا جیسے آپ ﷺ اس کو یہ حکم دے رہے ہوں کہ وہ اپنے سر کے بالوں اور داڑھی کو سنوارے، چناچہ اس شخص نے اپنے سر اور داڑھی کے بالوں کو سنوارا اور پھر واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا یہ اس سے بہتر نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس حالت میں آئے کہ اس کے سر کے بال پراگندہ ہوں اور وہ ایسا دکھائی دے جیسے کوئی شیطان (جن) ہو (یعنی اس نے اپنی شکل و صورت ایسی بنا رکھی ہو جیسے کوئی جن اپنے بال بکھیرے ہوئے اور بدہئیت شکل و صورت میں ہوتا ہے ) ۔ (مالک )

【178】

گھر کے صحن کو صاف ستھرا رکھو

اور حضرت ابن مسیب (تابعی) سے روایت ہے کہ ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا گیا کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے پاکی پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ نہایت ستھرا ہے ستھرائی کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ کرم کرنے والا ہے کرم کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت سخی اور عطا کرنے والا ہے، سخاوت و عطا کو پسند کرتا ہے لہٰذا تم صاف ستھرا رکھو (حضرت ابن مسیب سے روایت کرنے والے) راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ ابن مسیب نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنے صحنوں کو (یعنی فنظفوا کے بعد افنیتکم کا لفظ بھی کہا تھا گویا اس جگہ پورا جملہ یہ ہے کہ تم اپنے صحنوں کو صاف ستھرا رکھو) اور یہودیوں کی مشابہت اختیار نہ کرو (جو اپنے گھروں کے صحن و آنگن کو کوڑے کرکٹ سے ناپاک و گندہ رکھتے ہیں ) ۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن مسیب کا یہ قول حضرت مہاجر بن مسمار تابعی کے سامنے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے حضرت عامر بن سعد (تابعی) نے اور انہوں نے اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) (صحابی) سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث نقل کی ہے۔ لیکن مہاجر نے جو حدیث نقل کی اس میں انہوں نے یہ نقل کیا کہ تم اپنے گھروں کے صحن کو صاف ستھرا رکھو۔ یعنی ان کی روایت میں افنیتکم کا لفظ صریحا مذکور ہے جب کہ ابن مسیب کی روایت میں یہ لفظ گمان کے درجہ میں نقل کیا گیا ہے۔ تشریح اللہ تعالیٰ پاک ہے یعنی وہ ہر عیب، ہر نقصان، ہر برائی اور ہر اس چیز سے پاک و منزہ ہے جو شان الوہیت اور شان ربوبیت کے منافی ہو۔ یحب الطیب میں لفظ طیب طاء کے زیر کے ساتھ ہے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خوش کرداری و خوش کلامی محبوب و پسندیدہ ہے، یا اللہ تعالیٰ کے نزدیک خوشبو ایک پسندیدہ چیز ہے اور چونکہ اس ساری چیزوں کی بنیاد پاکی و پاکیزگی ہے لہذا جو بندہ ان چیزوں کو اختیار و استعمال کر کے اپنے اندر پاکی و پاکیزگی پیدا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے اور اس کے عمل سے خوش ہوتا ہے، ایک نسخہ میں یہ لفظ طاء کے زبر اور یاء مشددہ کے زیر کے ساتھ یعنی طیب لکھا ہوا ہے اس صورت میں اس سے مراد وہ شخص ہوگا جو طیبات یعنی عقائد و خیالات کی اچھائی، اقوال اور زبان وبیان کی پاکیزگی اور اعمال و اخلاق کی بلندی و نیک خوئی کے اوصاف کا حامل ہو، نظافۃ جس کا ترجمہ ستھرائی کیا گیا ہے کے معنی ظاہر و باطن کی صفائی و پاکی کے ہیں۔ طیبی کہتے ہیں کہ گھروں کے صحن کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم اصل میں کرم اور جود اختیار کرنے کا کنایہ ہے، یعنی اس حکم سے اصل مقصد یہ تلقین کرنا ہے کہ اپنے اندر عطاء و بخشش اور سخاوت و مہمان نوازی کے اوصاف پیدا کرو اور ظاہر ہے کہ گھر کی صفائی ستھرائی اس وصف کی تکمیل کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے کیونکہ جس گھر کا صحن و آنگن صاف ستھرا رہتا ہے اور مکان کے در و دیوار سے صفائی و سلیقہ شعاری ہویدا ہوتی ہے اس گھر میں لوگوں کو اور مہمانوں کے آنے اور ٹھہرنے کی ترغیب ملتی ہے۔

【179】

مونچھیں ترشوانے کی سنت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جاری ہوئی

اور یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت سعید بن مسیب کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جو رحمن (اللہ) کے دوست تھے سب سے پہلے انسان ہیں جنہوں نے مہمان کی مہمانداری کی یعنی مہمان کی پذایرائی و مہمانداری کی ابتداء انہوں نے ہی کی وہ سب سے پہلے انسان ہیں جنہوں نے ختنہ کیا، وہ سب سے پہلے انسان ہیں جنہوں نے اپنی مونچھیں کتریں اور وہ سب سے پہلے انسان ہیں جنہوں نے بڑھاپا یعنی سفید بال دیکھا، چناچہ انہوں نے (جب سب سے پہلے اپنے بالوں میں سفیدی کو دیکھا تو) عرض کیا کہ میرے پروردگار ! یہ کیا ہے ؟ پروردگار کا جواب آیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) یہ وقار ہے یعنی یہ اس بڑھاپے کی علامت ہے جو علم و دانش میں اضافہ کا باعث اور عز و وقار کا ذریعہ ہے اور اس کی وجہ سے لہو و لعب کی مشغولیت اور گناہوں کے ارتکاب سے باز رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ پروردگار ! یہ تو تیری بڑی نعمت ہے لہٰذا میرے وقار میں اضافہ فرما۔ (مالک) تشریح سیوطی نے موطا کے حاشیہ میں ایسی اور چیزوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کی ابتداء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ہوئی ہے، جو یہ ہیں ناخن کاٹنا، مانگ نکالنی، استرا استعمال کرنا، پائجامہ پہننا، مہندی اور وسمہ کا خضاب لگانا، منبر پر خطبہ پڑھنا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، میدان جنگ میں لشکر کو میمنہ، میسرہ، مقدمہ اور قلب کی ترتیب کے ساتھ صف آراء کرنا، لوگوں کے ساتھ معانقہ کرنا اور ثرید تیار کرنا۔

【180】

تصاویر کا بیان

تصاویر تصویر کی جمع ہے، جس کے معنی صورت بنانے کے ہیں، یہاں تصاویر سے مراد جاندار کی تصویریں ہیں جو پردوں وغیرہ پر کڑھی یا بنی ہوئی ہوں۔

【181】

تصویر بنانے اور رکھنے کا مسئلہ

حضرت ابوطلحہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو اور نہ اس گھر میں داخل ہوتے ہیں جس میں کتا ہو۔ (بخاری ومسلم) تشریح علماء نے لکھا ہے کہ یہاں وہ تصویر اور کتا مراد ہے جن کا گھر میں رکھنا حرام نہیں ہے جیسے وہ کتا جو شکار یا کھیت کھلیان اور مویشیوں وغیرہ کی حفاظت کے لئے پالا گیا ہو یا ایسی تصویریں جو بچھونوں وغیرہ پر ہوں اور ان کی تحقیر و پامالی کی جاتی ہو چناچہ گھر میں ایسے کتے یا ایسی تصویروں کی موجودگی فرشتوں کے داخل ہونے میں رکاوٹ نہیں بنتی لیکن یہ مسئلہ محض ان تصویروں کے رکھنے یا استعمال کا ہے کیونکہ تصویر بنانا تو ہر صورت میں حرام ہے خواہ بچھونے پر ہو خواہ درہم سکوں اور نوٹوں پر ہوں اور خواہ کسی اور چیز پر بنائی جائے جاندار کی تصویر و مورت وغیرہ کی تصویر بنانا حرام نہیں ہے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مذکورہ حکم عمومی نوعیت کا ہے یعنی کسی گھر میں مطلق تصویر اور کتے کی موجودگی ملائکہ کے داخل ہونے میں رکاوٹ بنتی ہے اگرچہ کتا اور تصویریں اسی نوعیت کی کیوں نہ ہوں جن کا گھر میں رکھنا نہیں ہے۔ فرشتوں سے مراد وہ فرشتے ہیں جو بندوں کے اعمال لکھنے اور ان کی حفاظت پر مامور نہیں ہوتے کیونکہ جو فرشتے اعمال لکھنے اور حفاظت کرنے پر معمور ہوتے ہیں وہ کسی بھی حال میں انسان سے جدا نہیں ہوتے۔

【182】

غیر ضروری کتوں کو مار ڈالا جائے

اور حضرت ابن عباس (رض) ام المؤمنین حضرت میمونہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن صبح کے وقت رسول کریم ﷺ بہت اد اس و غمگین نظر آئے اور اس اداسی و غمگینی کا سبب بیان کرتے ہوئے میمونہ (رض) سے یا کسی اور زوجہ مطہرہ سے یا اپنے دل میں اور یا اظہار تعجب و حیرت کے طور پر خود اپنے سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل نے آج کی رات میرے پاس آنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ میرے پاس نہیں آئے، اللہ کی قسم ! (اس سے پہلے) ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے وعدہ خلافی کی ہو پھر (اچانک) آپ ﷺ کے ذہن میں کتے کے اس پلہ کا خیال آیا جو آپ ﷺ کے خیمے (یعنی کسی تخت یا ٹاٹ وغیرہ) کے نیچے پڑا تھا، چناچہ آپ ﷺ سمجھ گئے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اسی پلہ کی وجہ سے میرے پاس نہیں آئے اور آپ ﷺ نے اس پلے کو نکال دینے کا حکم دیا، جب وہ پلہ وہاں سے نکال دیا گیا تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں میں پانی لے کر اس جگہ چھڑکا جہاں وہ پلہ بیٹھا ہوا تھا، پھر جب شام ہوئی تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ آپ (علیہ السلام) نے تو گزشتہ شب میں مجھ سے ملنے کا وعدہ کیا تھا ؟ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہاں ! لیکن ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔ اس کے بعد دوسرے دن صبح کو رسول کریم ﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا، یہاں تک کہ چھوٹے باغات کے کتوں کو بھی مار ڈالنے کا حکم دے دیا اور بڑے بڑے باغات کے کتوں کو چھوڑنے کا حکم دیا، (کیونکہ ان باغات کی حفاظت کے لئے کتوں کا رکھنا ضروری تھا ) ۔

【183】

آنحضرت ﷺ تصویر دار چیزوں کو ضائع کردیتے تھے۔

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنے گھر میں ایسی کوئی چیز نہ چھوڑتے تھے جس پر تصویر ہو اور آپ ﷺ اس کو توڑ نہ ڈالتے ہوں ! (بخاری) تشریح تصالیب اصل میں تو تصلیب کی جمع ہے جس کی معنی صلیب (سولی) کی تصویر بنانا ہیں اور جن کو عیسائی برکت کے لئے اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس کی پرستش تک کرتے ہیں ان کے خیال میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہودیوں نے سولی پر چڑھا دیا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کر کے اٹھا لیا، چناچہ اس سولی کی تصویر ان کے نزدیک ایک مقدس مذہبی علامت ہوتی ہے۔ لیکن یہاں حدیث میں تصالیب سے مطلق جاندار کی تصاویر مراد ہیں۔

【184】

تصویر بنانے والوں کو آخرت میں عذاب بھگتنا پڑے گا

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ ایسا تکیہ خرید لیا جس پر تصویریں تھیں، چناچہ رسول کریم ﷺ نے حضرت عائشہ (رض) کے حجرہ میں داخل ہوتے وقت اس تکیہ کو دیکھا تو دروازے پر رک گئے اور حجرہ میں داخل نہیں ہوئے، حضرت عائشہ (رض) اس تصویر دار تکیہ کی وجہ سے آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر ناگواری کے اثرات کو بھانپ گئیں ! حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں نافرمانی چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کی طرف متوجہ ہوتی ہوں، میں نے ایسا کونسا گناہ کیا ہے کہ آپ ﷺ میرے حجرے میں داخل نہیں ہو رہے ہیں ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ تکیہ کیا ہے اور تم اس کو کہاں سے لائی ہو ؟ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے جواب دیا۔ میں نے اس تکیہ کو آپ ﷺ کے لئے خریدا ہے کہ آپ ﷺ جس وقت چاہیں اس کا سہارا لے کر بیٹھیں اور جس وقت چاہیں اس کو سوتے وقت سر کے نیچے رکھیں۔ رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ یاد رکھو تصویر بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تصویریں تم نے بنائی ہیں ان میں جان ڈالو اور ان کو زندہ کرو۔ نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس گھر میں تصویر ہوتی ہے اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے اسی طرح انبیاء (علیہ السلام) واو لیا کے لئے بھی یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ تصویر والے گھر میں داخل ہوں ؟ (بخاری ومسلم )

【185】

آرائشی پردے لٹکانا ناپسندیدہ

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے شہ نشین پر ایک ایسا پردہ ڈال دیا جس پر تصویریں تھیں، رسول کریم ﷺ نے اس پردہ کو دیکھا تو اس کو پھاڑ دیا، حضرت عائشہ (رض) نے (اس پھٹے ہوئے پردہ کا یہ مصرف نکالا کہ) اس کے دو تکئے بنا دیئے چناچہ وہ دونوں تکئے گھر میں رکھے رہتے تھے اور ان پر تکیہ لگا کر بیٹھتے تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح بظاہر یہ حدیث اس حدیث کے منافی ہے جو اس سے پہلے گزری ہے کیونکہ پہلی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تکیہ پر بنی ہوئی تصویریں گھر میں ملائکہ کو داخل ہونے سے روکتی ہیں، اگرچہ ایسی تصویروں کا گھر میں رہنے دینا حرام نہ ہو، اس صورت میں وہ دونوں تکیے جن پر تصویریں تھیں حضرت عائشہ (رض) کے گھر میں کیسے رکھے ہوئے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان تکیوں پر جو تصویریں تھیں وہ کسی جاندار کی نہیں تھیں جن کا بنانا اور رکھنا حرام ہے اور آپ ﷺ نے جو اس پردہ کو پھاڑ ڈالا تھا تو اس کی وجہ بھی اس پردے پر تصویروں کی موجودگی نہیں تھی بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ در و دیوار پر بلا ضرورت پردے لٹکانا منشاء الٰہی کے خلاف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ پتھر اور مٹی کو کپڑے پہنائے جائیں جیسا کہ آگے آنے والی حدیث سے معلوم ہوگا اور اگر بالفرض وہ تصویریں کسی جاندار ہی کی تھیں تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ جب تکیہ بنانے کے لئے پردہ کی کانٹ چھانٹ ہوئی تو اس پر جو تصویریں تھیں ان کے سر کٹ گئے تھے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ہتک (کہ جس کا ترجمہ پھاڑ ڈالنا کیا گیا ہے) کے معنی ان تصویروں کا کاٹنا اور مٹا دینا ہیں جو اس پردہ پر تھیں۔

【186】

آرائشی پردے لٹکانا ناپسندیدہ

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ (ایک مرتبہ) نبی کریم ﷺ جہاد کے لئے سفر پر تشریف لے گئے تو میں نے آپ ﷺ کے جانے کے بعد ایک کپڑا حاصل کیا اور اس کا پردہ دروازہ پر لٹکایا جب آنحضرت ﷺ سفر جہاد سے واپس تشریف لائے اور وہ پردہ پڑا ہوا دیکھا تو اس کو کھینچ کر پھاڑ ڈالا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم نہیں دیا ہے کہ ہم مٹی اور پتھر کو کپڑے پہنائیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح نمط ایک عمدہ قسم کے فرش یا بچھونے کو کہتے ہیں جس کے کنارے باریک اور ملائم تانے کے ہوتے ہیں اس کو ہودج پر بھی ڈالتے ہیں اور اس کا پردہ بھی بناتے ہیں، احتمال ہے کہ یہ لفظ نمد کا معرب ہے۔ حضرت عائشہ (رض) نے غالباً اس کپڑے کو دروازے پر آرائش کی خاطر لٹکایا ہوگا ورنہ اگر پردے کے مقصد سے دروازے پر ڈالتیں تو اس پر عتاب ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ اس کپڑے پر گھوڑے کی تصویریں تھیں اس لئے آپ ﷺ نے اس کو ضائع کردیا اور گویا ان تصویروں کو مٹا ڈالا، لیکن یہ قول حدیث کے سیاق کے خلاف معلوم ہوتا ہے کیونکہ حدیث کا ربط مضمون یہ واضح کرتا ہے کہ آپ ﷺ کا اس کپڑے کو پھاڑنا اور گویا اس کو دروازے پر لٹکانے سے منع کرنا تصویر کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ در و دیوار کو کپڑے سے ڈھانپنے کی کراہت کی بنا پر تھا جیسا کہ آپ ﷺ کے ارشاد سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ در و دیوار کو کپڑے سے ڈھانپنے کی ممانعت نہی تنزیہی طور پر ہے کیونکہ اس چیز کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہ ہونا ممانعت پر دلالت نہیں کرتا رہی یہ بات کہ پھر آنحضرت ﷺ نے اس پردے پر اس قدر ناگواری کا اظہار کیوں کیا کہ اس کو پھاڑ بھی ڈالا تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ یہ چیز آپ ﷺ کے نزدیک اہل بیت کی شان اور ان کے ورع وتقویٰ کے خلاف تھی، تاہم یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ گھر کی دیواروں وغیرہ کو کپڑے سے ڈھانپنے سے منع کیا جائے نیز یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اگر کوئی بری چیز دیکھی جائے تو اس کو اپنے ہاتھ سے خراب و برباد کردیا جائے اور اس کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا جائے۔

【187】

تصویر بنانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت عائشہ (رض) رسول کریم ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ؟ (بخاری ومسلم) تشریح مشابہت اختیار کرتے ہیں یعنی صورت بنانا اللہ کا کام ہے لہٰذا جو شخص تصویر بناتا ہے وہ گویا اپنے فعل کو اللہ تعالیٰ کے فعل کے ساتھ مشابہ کرتا ہے۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ تصویر بنانے والا گویا اس چیز (تصویر) کو بناتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے مشابہ ہوتی ہے۔ ابن ملک کہتے ہیں کہ اگر مصور کا فعل تصویر سازی اسی نظرئے (عقیدے) کے تحت ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فعل صورت گری کی مماثلت کرنے والا ہے تو وہ کافر ہوجاتا ہے اور اس صورت میں اس حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کو اس کے اس قبیح کفر کی بنا پر دوسرے کافروں کی بہ نسبت زیادہ سخت عذاب بھگتنا ہوگا اور اگر وہ ایسا عقیدہ نہ رکھتا ہو تو پھر اس کے حق میں یہ حدیث تہدید پر محمول ہوگی۔

【188】

تصویر بنانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو میرے پیدا کرنے کی طرح پیدا کرے یعنی جس طرح میں صورت بناتا ہوں اسی طرح وہ بھی صورت بناتا ہے اگرچہ حقیقت میں وہ اس مادہ سے صورت نہیں بناتا جس مادہ سے اللہ کی بنائی ہوئی صورتیں ہیں تاہم وہ کوئی صورت بناتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ یہ صورت میری بنائی ہوئی ہے اگر تصویر و مورت بنانے والے واقعہ تخلیق کا دعوی کرتے ہیں تو ذرا وہ ایک چیونٹی تو بنائیں یا ایک دانہ تو پیدا کریں یا ایک جو تو پیدا کر کے دکھائیں ؟ (بخاری ومسلم )

【189】

تصویر بنانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ اللہ کے ہاں سخت ترین عذاب کا مستوجب، مصور ہے ! (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کرے گا ان میں مصور بھی ہوگا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو بتوں کی مورتیاں اس لئے بناتا ہے کہ ان کی پوجا کی جائے اور چونکہ ایسا شخص یقینا کافر ہوگا اس لئے اگر اس کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا تو کچھ بعید نہیں اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی مشابہت کی نیت سے تصویر بنائے وہ بھی کافر ہے اور سخت ترین عذاب کا مستوجب۔ اور جو شخص اس نیت کے بغیر تصویر سازی کرے وہ کافر نہیں ہوگا بلکہ فاسق کہلائے گا اور اس کا وہی حکم ہوگا جو مرتکب معاصی کا ہے اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ حدیث میں جس مصور کے بارے میں وعید بیان کی گئی ہے اس سے جاندار کی تصویر بنانے جاندار کی تصویر بنانے والا مراد ہے نہ کہ درختوں اور عمارات وغیرہ کی تصویر بنانے والا اسی لئے عام طور پر مصور کا اطلاق جاندار کی تصویر بنانے والے پر ہوتا ہے اور جمادات و نباتات وغیرہ کی تصویر بنانے والے نقاش کہتے ہیں ! مجاہد نے پھل دار درختوں کی تصویر بنانے کو بھی مکروہ کہا ہے دوسرے محققین کے نزدیک غیر جاندار کی تصویر بنانا کراہت سے خالی نہیں اور لہو و لعب نیز بےمقصد والا یعنی چیزوں میں داخل ہے۔

【190】

تصویر بنانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہر مصور دوزخ میں ڈالا جائے گا اور اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر کے بدلے ایک شخص پیدا کیا جائے گا جو تصویر بنانے والے کو دوزخ میں عذاب دیتا رہے گا حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اگر تمہیں تصویر بنانے کی ضرورت ہی ہو تو درختوں یا کسی غیر ذی روح کی تصویربنا لو۔ (بخاری و مسلم) تشریح یوں تو ہر طرح کی تصویر اور مورت بنانا ناجائز ہے تاہم اکثر علماء نے لڑکیوں کے لئے گڑیوں کو مستثنیٰ رکھا ہے یعنی ان کے نزدیک لڑکیوں کے حق میں گڑیاں بنانا مباح ہے لیکن امام مالک نے مردوں کو ان کا خریدنا مکروہ قرار دیا ہے اور بعض علماء نے مذکورہ اباحت کو منسوخ قرار دیا ہے۔

【191】

تصویر بنانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص ایسا خواب دیکھنے کا دعوی کرے جو کہ اس نے نہیں دیکھا ہے یعنی جھوٹا خواب بیان کرے تو اس کو قیامت کے دن دو جو میں گرہ لگانے پر مجبور کیا جائے گا، جس کو وہ ہرگز نہیں کرسکے گا اور جو شخص کچھ لوگوں کی بات چیت کی طرف اپنا کان لگائے جب کہ وہ لوگ اس شخص کے سننے کو پسند نہ کریں اور اس سے فرار اختیار کریں تو قیامت کے دن اس شخص کے کان میں سیسہ ڈالا جائے گا اور جو شخص تصویر بنائے گا اس کو آخرت میں عذاب دیا جائے گا اور اس کو اس بات پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس تصویر میں روح پھونکے حالانکہ وہ ہرگز روح نہیں پھونک سکے گا۔ (بخاری) تشریح جس کو وہ ہرگز نہیں کرسکے گا کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ وہ جو کے دو دانوں کو آپس میں جوڑ کر ایک کر دے اور جب وہ ایسا نہیں کرسکے گا تو اس کو پھر عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور اسی طرح اس کو عذاب دیا جاتا رہے گا۔ جھوٹا خواب بیان کرنے اور جو کے دو دانوں کو آپس میں جوڑنے کے درمیان مناسبت یہ ہے کہ جس طرح اس شخص نے خواب کی بےبنیاد اور جھوٹی باتوں کو جوڑا اسی طرح اس سے کہا جائے گا کہ اب ذرا جو کے دو دانوں کو جوڑ کر دکھلا ؟ واضح رہے کہ جھوٹا خواب بیان کرنا بھی اگرچہ جھوٹ کی ایک قسم ہے لیکن اس جھوٹا خواب بیان کرنے پر مطلق جھوٹ بولنے کی بہ نسبت زیادہ سخت عذاب اس لئے دیا جائے گا کہ اصل میں خواب کا تعلق عالم غیب سے ہے اور سچا خواب اجزاء نبوت میں سے ایک جزو ہے اور ایک طرح سے وحی کے درجہ کا حکم رکھتا ہے لہٰذا جس شخص نے جھوٹا خواب بیان کیا اس نے گویا حق تعالیٰ پر جھوٹ باندھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا جھوٹ کی سب سے سخت قسم ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو جھوٹے خواب کے ذریعہ نبوت یا ولایت کا دعوے کرے، مثلاً وہ یوں کہے کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو نبی بنایا ہے یا ولی بنایا ہے اور مجھ کو خبر دی ہے کہ فلاں شخص کی مغفرت ہوگئی ہے یا فلاں شخص ملعون ہے وغیرہ وغیرہ، یا یوں بیان کرے کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ کو خواب میں فلاں حکم دیا ہے حالانکہ حقیقت میں اس نے خواب کچھ بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس شخص کے کان میں سیسہ ڈالا جائے گا یہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو ان لوگوں کی باتیں چغل خوری اور فتنہ و فساد پھیلانے کی غرض سے سنے، اس کے برخلاف اگر وہ ان لوگوں کی باتیں اس غرض سے سنے کہ اگر وہ اپنی اس بات چیت کے ذریعہ کسی فتنہ و فساد پھیلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو ان کو اس سے روکے یا ان کی شرانگیزیوں سے اپنے آپ کو یا دوسرے کو محفوظ رکھے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

【192】

نرد شیر کھیلنے کی مذمت

اور حضرت بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جس شخص نے نرد شیر کے ذریعہ کھیلا اس نے گویا سور کے گوشت اور خون میں اپنا ہاتھ ڈبویا۔ (رواہ مسلم) تشریح نرد شیر چوسر کی قسم سے ایک کھیل ہے جس کو فارس (ایران) کے ایک بادشاہ شاپور ابن بابک نے ایجاد کیا تھا چونکہ سور کا گوشت اور لہو نہ صرف یہ کہ نجس ہوتا ہے بلکہ اس سے زیادہ نفرت بھی ہوتی ہے اس لئے خاص طور پر اس کا ذکر کیا گیا تاکہ لوگ اس کھیل سے نہایت بیزاری برتیں۔ واضح رہے کہ مطلق نرد کے ذریعہ کھیلنا تمام علماء کے نزدیک حرام ہے خواہ وہ چوسر کی صورت میں ہو تختہ نرد کی صورت میں اور یا کسی اور طرح کا۔

【193】

بچھونے پر تصویروں کا ہونا مکروہ نہیں

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں گزشتہ شب آپ ﷺ کے پاس آیا تو تھا لیکن مجھ کو گھر میں آنے سے جس چیز نے روکا وہ یہ تھی کہ دروازے کے پردے پر تصویریں تھیں بایں طور کہ گھر میں جو رنگین منقش کپڑا تھا اس کا پردہ بنایا گیا تھا اور اس پر وہ تصویریں بنی ہوئی تھیں نیز گھر میں کتا بھی موجود تھا لہٰذا آپ ﷺ ان تصویروں کے سر کاٹے جانے کا حکم دیجئے جو دروازے (کے پردے) پر ہیں اور ان تصویروں کے سر اس طرح کاٹ دیئے جائیں کہ ان کی ہیئت و شکل بدل جائے اور وہ درخت کی شکل کے ہوجائیں اور پھر اس پردہ کو کاٹ کر ان کے دو تکئے بنانے کا حکم دیجئے جو سہارا لے کر بیٹھنے اور تکیہ لگا کر سونے کے کام میں آنے کے لئے گھر میں فرش پر پڑے رہیں اور روندے جاتے رہیں۔ نیز کتے کو بھی گھر سے نکال باہر کرنے کا حکم دیجئے۔ چناچہ رسول کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا (جیسا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا تھا ) ۔ (ترمذی، ابوداؤد ) تشریح فتاویٰ قاضی خاں میں لکھا ہے کہ اس حالت میں نماز پڑھنا مکروہ ہے کہ مصلے کے آگے یا سر کے اوپر یا دائیں طرف یا بائیں طرف کوئی تصویر موجود ہو یا نمازی کے کپڑے پر تصویر بنی ہو، البتہ بچھونے پر تصویر کے ہونے کے بارے میں دو قول ہیں ان میں سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ بچھونے یا فرش پر تصویر کا ہونا مکروہ نہیں ہے بشرطیکہ اگر اس بچھونے یا فرش پر نماز پڑھی جائے تو اس جگہ سجدہ نہ کیا جائے جہاں کوئی تصویر ہو۔ واضح رہے کہ یہ مسئلہ اس صورت کا ہے جب کہ تصویریں بڑی ہوں اور دیکھنے والوں کو بغیر کسی تکلف کے نظر آئیں اور اگر تصویریں چھوٹی ہوں یا ان کے سر کٹے اور مٹے ہوں تو ان میں کوئی مضائقہ نہیں۔

【194】

قیامت کے دن مصور وغیرہ پر مسلط کیا جانے والا خاص عذاب

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن دوزخ میں سے ایک گردن نکلے گی یعنی آگ کا ایک شرارہ لمبی گردن کی صورت میں نکلے گا اس گردن میں دیکھنے والی دو آنکھیں ہوں گی، سننے والے دو کان ہوں گے اور بولنے والی زبان ہوگی۔ وہ گردن کہے گی کہ میں تین طرح کے لوگوں پر مسلط کی گئی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بات پر متعین کیا ہے کہ میں ان تین طرح کے لوگوں کو دو زخ میں کھینچ کرلے جاؤں اور لوگوں کے سامنے ان کو ذلیل و رسوا کر کے عذاب میں مبتلا کروں ان میں سے ایک طرح کے تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کے ساتھ تکبر وعناد کا برتاؤ کیا (یعنی دنیا میں ان پر حق ظاہر ہوا مگر انہوں نے حق کو قبول نہیں کیا) دوسری طرح کے لوگوں میں ہر وہ شخص شامل ہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارا ہے اور تیسری طرح کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے تصویر سازی کی ہے۔ (ترمذی )

【195】

شراب جوا اور کو بہ حرام ہے

اور حضرت ابن عباس (رض) رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے شراب، جوا اور کو بہ بجانے کو لسان نبوت کے ذریعہ حرام قرار دیا ہے نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ اور بیان کیا گیا ہے کہ کو بہ طبل کو کہتے ہیں۔ (احمد ابوداؤد) تشریح کو بہ کے معنی میں علماء کے تین قول ہیں ایک تو نرد، دوسرے بربط اور تیسرے طبل جیسا کہ مصنف نے حدیث کے کسی راوی سے نقل کیا ہے، ڈھول کی اور ڈھولک وغیرہ کی طرح طبل بھی ایک خاص قسم کا دور خابا جا ہوتا ہے، حدیث میں وہ طبل مراد ہے جو محض لہو و لعب کے لئے ہو نہ کہ غازیان اسلام کا طبل۔

【196】

شراب جوا اور کو بہ حرام ہے

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے شراب، جوئے، کو بہ اور غبیراء سے منع کیا ہے اور غبیراء ایک قسم کی شراب ہوتی ہے جس کو حبشہ کے لوگ جوار سے بناتے ہیں اور اس کو سکرک کہتے ہیں !۔ (احمد، ابوداؤد) تشریح غبیراء کی جو تعریف بیان کی گئی ہے وہ یا تو حضرت ابن عمر (رض) ہی سے منقول ہے یا کسی دوسرے راوی کی بیان کی ہوئی ہے

【197】

نرد سے کھیلنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نا فرمانی کرنا ہے

اور حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے نرد سے کھیلا درحقیقت اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی۔ (احمد، ابوداؤد) تشریح نرد سے کھیلنا اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی کے مرادف اس لئے ہے کہ یہ کھیل اگر بازی لگا کر کھیلا جائے تو حقیقۃ جوا ہے اور بغیر بازی لگائے کھیلا جائے تب بھی صورۃ جوا ہی ہوگا اور یہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ مطلق نرد سے کھیلنا حرام ہے۔

【198】

کبوتر بازی حرام ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو کبوتروں کے پیچھے پڑا ہوا تھا یعنی ان کے ساتھ لہو و لعب کرنے اور ان کو اڑانے میں مشغول تھا آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ شیطان ہے اور شیطان کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ (احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، بیہقی، ) تشریح اس شخص کو شیطان اس لئے فرمایا کہ وہ حق سے بعد اختیار کئے ہوئے تھا اور لایعنی و بےمقصد کام میں مشغول تھا اور ان کبوتروں کو اس بنا پر شیطان فرمایا کہ انہوں نے اس شخص کو بازی اور لہو و لعب میں مشغول کر کے ذکر الہٰی اور دین و دنیا کے دوسرے کاموں سے باز رکھا، اس سے معلوم ہوا کہ کبوتر بازی حرام ہے اور نووی نے لکھا ہے کہ انڈے سے بچے حاصل کرنے کے لئے دل کو بہلانے کی خاطر اور نامہ بری کے مقصد سے کبوتروں کو پالنا بلا کراہت جائز ہے لیکن ان کو اڑانا مکروہ ہے۔

【199】

تصویر کشی کا پیشہ ناجائز ہے

اور حضرت سعید بن الحسن تابعی کہتے ہیں کہ ایک دن میں ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ناگہاں ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا ابن عباس (رض) میری معاشی زندگی کا انحصار میرے ہاتھوں کی محنت مزدوری پر ہے جن کے ذریعہ میں یہ تصویریں بناتا ہوں (اب سوال یہ ہے کہ میں کیا کروں کیونکہ شریعت نے اس پیشہ کو حرام قرار دیا ہے اور کوئی دوسرا پیشہ مجھے آتا نہیں کہ جس کے ذریعہ اپنی روزی کا انتظام کروں تو کیا اس مجبوری کے تحت میرے لئے یہ پیشہ جائز ہے یا نہیں ؟ ) حضرت ابن عباس (رض) نے جب یہ دیکھا کہ تصویر کشی کے کام سے اس شخص کا تعلق سخت نوعیت کا ہے اور شاید میرے منع کرنے سے باز نہ آئے تو انہوں نے اس کے سامنے آنحضرت ﷺ کی حدیث بیان کی، چناچہ انہوں نے فرمایا کہ میں تمہارے سامنے اس بات کے علاوہ اور کوئی بات بیان نہیں کروں گا جس کو میں نے رسول کریم سے سنا ہے (تو تم توجہ سے سنو کہ) میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص تصویر سازی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو عذاب میں مبتلا رکھے گا یہاں تک کہ وہ اس تصویر میں روح پھونک دے درآنحالیکہ وہ اس تصویر میں ہرگز روح نہیں پھونک سکے گا۔ اس شخص نے (یہ وعید سن کر) بڑا گہرا سانس لیا اور اس کا چہرہ خوف کی وجہ سے پیلا پڑگیا، حضرت ابن عباس (رض) نے (اس کی یہ حالت دیکھی تو) فرمایا کہ تم پر افسوس ہے اگر تم اس تصویر کشی کے پیشہ کے علاوہ دوسرے پیشوں (کو قبول کرنے سے) انکار کرتے ہو (کیونکہ تم کوئی اور پیشہ جانتے ہی نہیں) تو ایسا کرو کہ ان درختوں کی اور ان چیزوں کی تصویریں بنانے لگو جو بےجان ہیں۔ (بخاری )

【200】

کنیسہ کا ذکر

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ بیمار ہوئے تو آپ ﷺ کی ازواج میں سے بعض نے ایک کنیسہ کا ذکر کیا جس کو ماریہ کہا جاتا تھا (کنیسہ یہود و نصاری کی عبادت گاہ کہتے ہیں، جو کنشیت کا معرب ہے اسی کے بارے میں حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی بیماری میں آپ ﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی ازواج مطہرات آپ ﷺ کی دلبستگی کے لئے باتوں میں مشغول تھیں کہ بعض ازواج مطہرات یعنی ام سلمہ (رض) اور ام حبیبہ (رض) نے کنیسہ کا ذکر کیا جس کو انہوں نے ملک حبشہ میں دیکھا تھا اور آپ ﷺ کی وہ ازواج مطہرات یعنی ام سلمہ (رض) اور ام حبیبہ (رض) حبشہ جا چکی تھیں جہاں کے لوگ عیسائیت کے پیروکار تھے) چناچہ ان دونوں نے کنیسہ کی خوبصورتی اور اس میں بنی ہوئی تصویروں کا ذکر کیا، آنحضرت ﷺ نے یہ تذکرہ سن کر اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا کہ وہ لوگ (یعنی حبشہ والے یا انصاری ایسا کرتے ہیں کہ) جب ان میں سے کوئی نیک و صالح آدمی مرجاتا ہے تو وہ اس کی قبر پر عبادت گاہ بنا لیتے ہیں (جس کو کنیسہ کہا جاتا ہے) اور اس کنیسہ میں (اپنے نیک و صالح لوگوں کی) یہ تصاویر بناتے ہیں وہ لوگ (حقیقت میں) اللہ کی بدترین مخلوق ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ قبروں پر عبادت گاہ بنانے اور ان قبروں کی طرف منہ کر کے عبادت کرنے کی وجہ سے وہ اللہ کی بدترین مخلوق میں شمار کئے جاتے ہیں۔

【201】

سب سے سخت عذاب کن لوگوں پر ہوگا

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سخت ترین عذاب اس شخص پر ہوگا جو نبی کو قتل کرے یا جہاد میں اس کو نبی قتل کرے یا جو والدین میں سے کسی ایک کو قتل کرے اور جو شخص تصویر بنائے، یا جو عالم اپنے علم سے فائدہ نہ اٹھائے یعنی اپنے علم کے مطابق عمل نہ کرے ان پر بھی سخت ترین عذاب ہوگا۔ تشریح جس شخص کو میدان جہاد میں کسی نبی نے قتل کیا ہوگا اس کا سخت ترین عذاب میں مبتلا ہونا ایک اور روایت سے بھی ثابت ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ اشتد غضب اللہ علی رجل تقتلہ رسول اللہ فی سبیل اللہ یعنی اللہ کا سخت ترین غضب (عذاب) اس شخص پر ہوگا جس کو اللہ کے رسول نے اللہ کی راہ میں یعنی جہاد میں قتل کیا ہوگا ! کیونکہ اللہ کے رسول کا مقتول اصل میں وہی شخض ہوگا جو اللہ کے رسول کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوگا، جہاد کی قید کے ذریعہ گویا اس قتل کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے جو حد اور قصاص کے طور پر ہو۔

【202】

شطرنج کی مذمت

اور حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ وہ فرماتے تھے۔ شطرنج عجمی لوگوں یعنی غیر مسلم قوموں کا جوا ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ غیر مسلم قوموں کے لوگ شطرنج کے ذریعہ حقیقۃ جوا کھیلتے ہیں یا شطرنج کھیلنا صورۃ ان کے جوئے کی مشابہت رکھتا ہے اور ان کی ہر طرح کی مشابہت اختیار کرنا ممنوع ہے۔

【203】

شطرنج کی مذمت

اور حضرت ابن شہاب (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوموسی اشعری (رض) نے فرمایا۔ شطرنج صرف وہ شخص کھیلتا ہے جو خطا کار ہو۔

【204】

شطرنج کی مذمت

اور حضرت ابن شہاب (رض) سے روایت ہے کہ ان سے شطرنج کھیلنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ کھیل ایک باطل شئے ہے اور اللہ تعالیٰ باطل کو پسند کرتا۔ مذکورہ بالا چاروں روایتوں کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ تشریح ہدایہ میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی جس شخص نے شطرنج یا نرد شیر کھیلا اس نے گویا سور کے خون میں اپنا ہاتھ ڈبویا کی بنیاد پر نرد شیر اور شطرنج کھیلنا مکروہ تحریمی ہے۔ جامع ضغیر میں یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ شطرنج کھیلنے والا ملعون ہے اور جس شخص نے دل چسپی ورغبت کے ساتھ شطرنج کی طرف دیکھا گویا اس نے سور کا گوشت کھایا۔ اور بعض کتابوں میں جو یہ نقل کیا گیا ہے کہ امام شافعی نے شطرنج کے کھیل کو کچھ شرائط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے تو نصاب الاحتساب میں امام غزالی سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک بھی یہ کھیل مکروہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ شافعی پہلے اس کے جواز کے قائل رہے ہوں گے لیکن پھر انہوں نے اس قول سے رجوع کرلیا، درمختار وغیرہ کتابوں میں لکھا ہے کہ اس طرح سب کھیل مکروہ ہیں۔

【205】

کتے اور بلی کا فرق

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ انصار میں سے بعض لوگوں کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے، حالانکہ ان کے پڑوس میں اور لوگوں کے بھی گھر تھے (لیکن آپ ﷺ ان کے یہاں نہیں جاتے تھے) ان لوگوں پر یہ بات بڑی گراں گزرتی تھی (کہ ہمارے پڑوس میں دوسرے لوگوں کے گھر تشریف لاتے ہیں لیکن ہمارے یہاں نہیں آتے چناچہ ان لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ فلاں کے گھر تو تشریف لاتے ہیں لیکن ہمارے گھر تشریف نہیں لاتے (ہم نے کیا قصور کیا ہے، کہ ہمارا گھر آپ ﷺ کی تشریف آوری کی سعادت سے محروم ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں تمہارے گھر اس لئے نہیں آتا تمہارے گھروں میں کتے پلے ہوئے ہیں انہوں نے عرض کیا کہ ان کے گھروں میں بلی پلی ہوئی ہے (اور جس طرح کتا درندہ ہے اسی طرح بلی بھی درندہ ہے پھر دونوں میں کے درمیان یہ فرق کیسا ہے ؟ ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا بلی درندہ ہے۔ (دارقطنی )