141. طب کا بیان

【1】

طب اور جھاڑ پھونک کا بیان

طب عام طور پر طاء کے زیر کے ساتھ مستعمل ہے، لیکن سیوطی کہتے ہیں کہ یہ لفظ طاء کے زبر، زیر اور پیش تینوں کے ساتھ منقول ہے، اس کے معنی ہیں علاج کرنا، دوا کرنا۔ بعض مواقع پر اس لفظ کو طاء کے زیر کے ساتھ سحر کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہم اسی اعتبار سے مطبوب اس شخص کو کہتے ہیں جس پر سحر (جادو) کیا گیا ہو۔ طب کا تعلق جسم (ظاہر) سے بھی ہوتا ہے اور نفس (باطن) سے بھی، چناچہ حفظان صحت اور دفع مرض کے ذریعہ بدن کے علاج معالجہ کو جسمانی طب کہتے ہیں اور باطنی ہلاکت و تباہی تک پہنچانے والے افکار و اعمال اور بری عادات واطوار کے ترک و ازالہ کے ذریعہ نفس کا علاج کرنے کو طب نفسانی کہتے ہیں، جس طرح طب کی دو قسمیں ہیں، اسی طرح دوا کی بھی دو قسمیں ہیں ایک تو جسمانی اور طبعی، خواہ وہ مفردات کی شکل میں ہو یا مرکبات کی شکل میں (جیسا کہ ظاہری دوائیں ہوتی ہیں) اور دوسری قسم روحانی و لسانی ہے، جو قرآن کریم اور قرآن کریم کے حکم میں شامل دوسری چیزوں کی صورت میں ہے۔ نبی کریم ﷺ اپنی امت کے لوگوں کے علاج و اصلاح کے لئے ظاہری و طبعی دواؤں کو بھی اختیار فرماتے تھے اور باطنی و روحانی معالجہ کو بھی۔ رقی اصل میں رقیہ کی جمع ہے جس کے معنی افسون کے ہیں ہماری زبان میں اس کو منتر اور روز مرہ کی بول چال میں جھاڑ پھونک بھی کہا جاتا ہے، علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآنی آیات، منقول دعاؤں اور اسماء الہٰی کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا جائز ہے ان کے علاوہ ایسے منتروں کے ذریعہ بھی جائز ہے جن کے الفاظ و کلمات کے معنی معلوم ہوں اور وہ دین و شریعت کے مخالف نہ ہوں جن منتروں کے الفاظ و کلمات ایسے ہوں کہ ان کے معنی معلوم نہ ہوں یا ان کے الفاظ و کلمات دین و شریعت کی تعلیمات و احکام کے برخلاف ہوں ان کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا قطعا، جائز نہیں ہے اسی طرح وہ اہل عزائم و تکثیر جو علم نجوم و رمل کی مدد لے کر عملیات کرتے ہیں اور حفظ ساعات و تعین اوقات جیسی چیزوں کو اختیار کرتے ہیں ان کا یہ طریقہ بھی اہل دیانت وتقویٰ کے نزدیک مکروہ و حرام ہے۔

【2】

اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کا علاج پیدا کیا ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری ہے اور پیدا نہیں کی ہے جس کے لئے شفا نہ کی ہو یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کے ساتھ اس کا علاج بھی پیدا کیا ہے، تاکہ اگر وہ مرض لاحق ہو تو اس علاج کے ذریعہ شفا بخشے۔ (بخاری )

【3】

دوا صرف ایک ظاہری ذریعہ ہے حقیقی شفا دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر بیماری کی دوا ہے، لہٰذا جب وہ بیماری کے موافق ہوجاتی ہے تو بیمار اللہ کے حکم یعنی اس کی مشیت و ارادہ سے اچھا ہوجاتی ہے۔ (مسلم) تشریح اللہ کے حکم کی قید اس لئے لگائی گئی ہے تاکہ یہ گمان نہ کیا جائے کہ مرض سے شفایابی کا اصل میں تعلق دوا سے ہے اور مریض کو صحت بخشنے میں علاج و معالجہ حقیقی اور مستقل بالذات مؤثر ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اصل میں شفا یابی تو محض اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ پر موقوف ہے، دوا اور علاج و معالجہ محض ایک ظاہری ذریعہ اور وسیلہ ہے، کسی بھی مرض پر کوئی دوا اسی وقت اثر انداز ہوتی ہے، جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے، چناچہ روایت حمیدی میں اس کی تفصیل یوں منقول ہے کہ ایسا کوئی بھی مرض نہیں ہے جس کا علاج نہ ہو چناچہ جب کوئی شخص بیمار ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جس کے ساتھ ایک پردہ ہوتا ہے وہ فرشتہ اس پردہ کو بیمار کے مرض اور دوا کے درمیان حائل کردیتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیمار جو بھی دوا استعمال کرتا ہے وہ مرض کو نہیں لگتی اور شفا حاصل نہیں ہوتی یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت ہوتی ہے کہ بیمار اچھا ہوجائے تو وہ فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ مرض اور دوا کے درمیان سے پردہ اٹھا دیا جائے اس کے بعد بیمار جب دوا پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس دوا کے ذریعہ اس کو شفا دیدیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی مرض لاحق ہوجائے تو اس کا علاج کرنا اور دوا مستحب ہے، چناچہ صحابہ کرام اور اکثر علماء کا یہی مسلک ہے۔ نیز اس سے ان حضرات کے نظریہ کی بھی تردید ہوتی ہے جو علاج معالجہ اور دواء کی افادیت و ضرورت سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر چیز کی طرح مرض بھی قضا و قدر کے زیر اثر ہے اس لئے کسی بیمار کا علاج کرنا لاحاصل ہے۔ جمہور علماء جو علاج و معالجہ کے قائل ہیں کی دلیل مذکورہ احادیث ہیں اور انکا اعتقاد یہ ہے کہ بیشک امراض کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، لیکن امراض کے ازالہ کے ذرئع پیدا کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور جس طرح مرض و بیماری قضا و قدر کے تابع ہے اسی طرح علاج و معالجہ کرنا بھی تقدیر الہٰی ہی سے ہے اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسا کہ ہر انسان کی موت کا وقت بالکل اٹل ہے جس کی موت جس صورت میں لکھی جا چکی ہے اسی صورت میں آ کر رہے گی۔ لیکن اس کے باوجود اپنی حفاظت و سلامتی کے ذرئع اختیار کرنا اور اپنی جان کو کسی حادثہ یا دشمن کے حملہ سے محفوظ رہنے کی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یا میدان جنگ میں دشمنان دین کو قتل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ حاصل یہ کہ جان و صحت کی حفاظت و سلامتی کے لئے دوا وغیرہ جیسے اسباب ذرائع اختیار کرنا نہ تو حکم الٰہی کے خلاف ہے اور نہ توکل کے منافع ہے جیسا کہ کھانے کے ذریعہ بھوک کو دفع کرنا توکل کے منافع نہیں ہے چناچہ رسول کریم ﷺ سے بڑھ کر توکل کرنے والا کون انسان ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ سید المتوکلین تھے، لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ علاج بھی کرتے تھے اور بیماری کو دور کرنے کے ذرائع اختیار فرماتے تھے۔

【4】

تین چیزوں میں شفا ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا شفا تین چیزوں میں ہے بچھنے والی سینگی لگانے میں، یا شہد پینے میں خواہ خالص شہد پیا جائے یا پانی وغیرہ میں ملا کر پیا جائے اور آگ سے داغنے میں۔ لیکن میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔ (بخاری) تشریح محجم میم کے زیر اور جیم کے زبر کے ساتھ سینگی کو کہتے ہیں، لیکن یہاں اس لفظ سے مراد نشتر یا استرا ہے جس سے پچھنے دیئے جاتے ہیں۔ شرطۃ شین کے زبر کے ساتھ، پھچنے لگاؤ کے لئے کو پچھنے کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ رگ سے خون نکالا جاتا ہے لہذا فی شرطۃ معجم کا ترجمہ یہ ہوگا کہ نشتر یا استرے کے ذریعہ پچھنے لگانے میں (شفا ہے) سفر السعادۃ کے مصنف کے مطابق علماء کہتے ہیں کہ اس حدیث میں تمام مادی ( جسمانی) امراض کے علاج معالجہ کی طرف راہنمائی و اشارہ ہے کیونکہ مادی امراض یا تو دموی ہوتے ہیں یا صفراوی یا بلغمی ہوتے ہیں یا سوداوی چناچہ اگر کوئی مرض دموی یعنی فساد خون کی بنا پر ہوتا ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ اس کو جسم سے باہر نکال دیا جائے جس کی صورت پچھنے لگوانا ہے اور باقی تینوں صورتوں میں مرض کا بہترین علاج اسہال ہوتا ہے آپ ﷺ نے شہد کے ذریعہ اس طرف متوجہ کیا کہ اسہال کے لئے شہد ایک بہترین اور معتدل دوا کا کام دیتا ہے نیز آگ سے داغنے کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا کہ اگر مرض کی نوعیت ایسی ہو کہ طبیب و معالج اس کے علاج سے عجز ہوجائیں تو پھر آگ سے داغا جائے کیونکہ یہ جب کوئی مغلظ باغی ہوجاتی ہے اور اس کا مادہ منقطع نہیں ہوتا تو اس کے انقطاع کا واحد ذریعہ اس کو داغ دینا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ اخر الدوال کی یعنی آخری دوا داغنا ہے۔ رہی یہ بات کہ داغنا جب ایک علاج ہے تو آپ ﷺ نے اس کی ممانعت کیوں فرمائی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب داغنے کو اتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ان کا یہ عقیدہ ہوگیا تھا کہ مادہ مرض کا باعث ہے اس کے دفیعہ کے لئے داغنا یقینی ہے۔ چناچہ ان کے یہاں یہ مشہور تھا کہ اخر الدوال کی۔ ظاہر ہے کہ یہ بات اسلامی عقیدے کے سراسر خلاف ہے کیونکہ کوئی بھی علاج خواہ وہ کتنا ہی مجرب کیوں نہ ہو یقین کا درجہ نہیں رکھ سکتا، صرف ظاہری سبب اور ذریعہ ہی سمجھا جاسکتا ہے یقینی شفا تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم پر موقوف ہے لہٰذا آپ ﷺ نے اس فاسد عقیدے کی تردید اور لوگوں کو شرک خفی میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے اس کی ممانعت فرمائی اور یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے ورنہ اگر کوئی شخص داغنے کو مرض کے دفعیہ کا ایک ظاہری سبب و ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کو بطور علاج اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ سے شفا کی امید رکھے جائز ہے، بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ داغنے کی ممانعت کا تعلق خطرہ اور تردد کی صورت سے ہے یعنی اگر ایسی صورت ہو کہ داغنے سے فائد ہے کے جزم کی بجائے نقصان اور ہلاکت جان کا خوف اور خطرہ ہو تو پھر داغنا نہ چاہئے۔ اس مسئلہ میں بعض شارحین حدیث نے یہ تفصیل بیان کی ہے کہ داغنے کے سلسلہ میں مختلف احادیث منقول ہیں بعض احادیث تو اس کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور بعض نہی کو ثابت کرتی ہیں جیسے مذکورہ بالا احادیث اور دوسری احادیث اسی طرح بعض احادیث میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں داغنے کو پسند نہیں کرتا اور بعض احادیث میں داغنے کو اختیار نہ کرنے پر مدح و تعریف کی گئی ہے اس طرح ان احادیث کے باہمی تعارض و تضاد کو دور کرنے اور ان میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء نے یہ لکھا ہے کہ جن احادیث سے آپ ﷺ کا یہ فعل منقول ہے کہ آپ ﷺ نے داغا تو یہ اصولی طور پر داغنے کے جواز پر دلالت کرتا ہے اور جن احادیث سے آپ ﷺ کی عدم پسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے وہ اس جواز کے منافی نہیں ہے کیونکہ عدم پسندیدگی عدم جواز پر دلالت نہیں کرتا چناچہ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کو آپ ﷺ تو پسند نہیں فرماتے تھے لیکن دوسروں کے لئے اس کی ممانعت بھی نہیں فرماتے تھے، اسی طرح جن احادیث میں داغنے کو اختیار نہ کرنے پر مدح و تعریف منقول ہے وہ بھی عدم جواز پر دلالت نہیں کرتیں کیونکہ مدح و تعریف کا مقصد صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ داغنے کو اختیار نہ کرنا محض اولی اور افضل ہے نہ کہ ضروری ہے البتہ جن احادیث میں داغنے کی ممانعت صراحت کے ساتھ منقول ہے تو وہ ممانعت دراصل اس صورت پر محمول ہے جب کہ داغنے کو اختیار کرنا یا تو سبب مرض کے بغیر ہو یا مرض کے دفعیہ کے لئے اس کی واقعی حاجت نہ ہو بلکہ وہ مرض دوسرے علاج معالجہ سے دفع ہوسکتا ہے، نیز جیسا کہ او پر بیان کیا گیا ہے یہ ممانعت اس بات پر بھی محمول ہے کہ یہ ممانعت داغنے دراصل داغنے کے بارے میں مذکورہ بالا فاسد عقیدے اور شرک خفی میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے ہے اور اگر اس طرح کا فاسد عقیدہ نہ رکھا جائے تو یہ ممانعت نہیں ہوگی بعض حضرات کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا بعض صحابہ کے بارے میں داغنے کا حکم دینا (جیسا کہ آگے آ رہا ہے) اس بنا پر تھا کہ ان صحابہ کے زخم بہت خراب ہوگئے تھے اور بعض عضو کے کٹ جانے کی وجہ سے اخراج خون میں کمی نہیں ہو رہی تھی، نیز آپ کو یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ داغنے کے صحت یقینی ہے حاصل یہ کہ کسی عضو کو داغنا یا جلانا مکروہ ہے ہاں اگر کوئی واقعی ضرورت پیش آجائے اور طبیب خاذق یہ کہے کہ اس مرض کا آخری علاج داغنا ہی ہے تو پھر داغنا جائز ہوگا۔

【5】

داغنے کا ذکر

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ احزاب (کہ جس کو غزوہ خندق بھی کہتے ہیں) کے دن حضرت ابی کی رگ ہفت اندام پر تیر آ کر لگا (جس سے خون جاری ہوگیا) تو رسول کریم ﷺ نے ان کو داغ دیا، یعنی آپ ﷺ نے زخم کے منہ کو داغنے کا حکم فرمایا یا خود اپنے دست مبارک سے داغا تاکہ خون بند ہوجائے۔ (مسلم )

【6】

داغنے کا ذکر

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ کی رگ ہفت اندام پر تیر آ کر لگا (جس سے خون جاری ہوگیا) چناچہ نبی کریم ﷺ نے اپنے دست مبارک پر تیر کے پیکان کے ذریعہ (زخم کو) داغ دیا، پھر جب ان کے ہاتھ پر ورم آگیا تو آپ ﷺ نے دوبارہ داغا۔ (مسلم ) ۔

【7】

داغنے کا ذکر

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ابی بن کعب (رض) کے پاس ایک طبیب بھیجا طیب نے ان کی ایک رگ کو کاٹ ڈالا اور اس (زخم) پر داغ دیا۔ (مسلم)

【8】

کلونجی کی خاصیت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سیاہ دانہ سام کے وقت کے علاوہ ہر بیماری کے لئے شفا ہے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ سام سے موت مراد ہے اور سیاہ دانہ سے کلونجی مراد ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح طیبی کہتے ہیں کہ اگرچہ حدیث کے مفہوم میں عمومیت ہے کہ کلونجی کو ہر بیماری کو دوا فرمایا گیا لیکن یہ کلونجی خاص طور پر انہی امراض میں فائدہ مند ہے۔ جو رطوبت اور بلغم میں پیدا ہوتے ہیں کیونکہ کلونجی ماء یابس و خشک و گرم ہوتی ہے اس لئے یہ ان امراض کو دفع کرتی ہے جو اس کی ضد ہیں، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث کا مفہوم عمومیت پر ہی معمول ہے یعنی کلونجی ہر بیماری میں فائدہ مند ہے بایں طور کہ اگر اس کو کسی بھی دوا میں خاص مقدار و ترکیب کے ساتھ شامل کیا جائے تو اس کے صحت بخش اثرات ظاہر ہوتے ہیں کرمانی نے کہا کہ حدیث کا مفہوم عام ہے کیونکہ حدیث میں استثناء صرف موت کا کیا گیا ہے۔ سفرالسعادۃ کے منصف نے لکھا ہے کہ اکابر و مشائخ کی ایک جماعت کا معمول تھا کہ وہ اپنے تمام امراض میں کلونجی کو بطور دوا استعمال کرتے تھے اور ان کے حسن اعتقاد کی برکت سے ان کے امراض دور ہوجایا کرتے تھے۔

【9】

شہد کی شفا بخش تاثیر

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میرے بھائی کا پیٹ چل رہا ہے یعنی اس کو دست پر دست آ رہے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کو شہد پلا دو ، اس شخص نے (جا کر) اپنے بھائی کو شہد پلایا (کچھ دیر کے بعد) پھر آیا اور کہنے لگا کہ میں نے شہد پلا دیا تھا لیکن شہد نے اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا کہ اس کے پیٹ چلنے میں اور زیادتی کردی ہے (یعنی شہد پلانے کے بعد سے دستوں میں پہلے سے بھی زیادتی ہوگئی ہے) آنحضرت ﷺ نے اس شخص کو تین مرتبہ یہی حکم دیا (یعنی آپ ﷺ ہر بار یہی فرماتے کہ اس کو شہد پلا دو اور وہ شخص شہد پلاتا رہا، پھر آ کر کہتا کہ میں نے شہد پلا دیا مگر دستوں میں پہلے سے بھی زیادتی ہوگئی ہے) یہاں تک کہ وہ جب چوتھی مرتبہ آیا ( اور کہنے لگا کہ اس کے دستوں میں زیادتی ہوگئی ہے) تو آنحضرت ﷺ نے پھر یہی فرمایا کہ اس کو شہد پلا دو ، اس نے عرض کیا کہ میں نے شہد پلا دیا ہے، مگر شہد نے اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا کہ اس کے پیٹ چلنے میں اور زیادتی کردی ہے، تب آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تو سچ فرمایا ہے مگر تمہارے بھائی کا پیٹ ہی جھوٹا ہے۔ آخر کار اس شخص نے اپنے بھائی کو پھر شہد (خالص یا پانی میں ملا کر پلایا) تو وہ اچھا ہوگیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح کسی بیماری کی صورت میں شہد استعمال کرنے کا ایک خاص طریقہ حضرت علی (رض) سے یوں منقول ہے کہ جب کوئی شخص بیمار ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی سے کہے کہ وہ اپنے مہر میں سے کچھ مال دے اور پھر اس مال کے ذریعہ شہد خریدے اور شہد کو بارش کے پانی میں ملا کر پی لے انشاء اللہ بابرکت شفا پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے تو سچ فرمایا ہے ان الفاظ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے اس آیت کریمہ (فِيْهِ شِفَا ءٌ لِّلنَّاسِ ) 16 ۔ النحل 69) کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ شہد میں لوگوں کے لئے شفا ہے، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو وحی کے ذریعہ بتادیا تھا کہ اگر وہ مریض شہد پئے گا تو اس کے پیٹ میں آرام ہوجائے گا اور دست بند ہوجائیں گے اسی بات کو آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا ہے کہ شہد پینے سے اس کو فائدہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات غیر صحیح نہیں ہوسکتی لہٰذا مریض کو شہد پلائے جاؤ اس کو یقینا فائدہ ہوگا۔ پھر آپ نے تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے کے ذریعہ گویا صحت یابی میں تاخیر ہونے کی علت بیان فرمائی کہ تمہارے بھائی کے پیٹ میں کوئی سخت مادہ جمع ہو رہا ہے اس کی وجہ سے شہد کی دی ہوئی مقدار کار گر نہیں ہو رہی ہے جب تک وہ مادہ باہر نہیں آجائے گا تب تک اسے آرام نہیں آئے گا یا یہ کہ پیٹ خطا کر رہا ہے، یعنی ٹھیک طرح سے کام نہیں کر رہا ہے اور ابھی شفا کو قبول نہیں کر رہا ہے جب وہ ٹھیک کام کرنے لگے گا اور شفا قبول کرے گا تو دست بند ہوجائیں گے واضح رہے کہ اہل عرب اپنے کلام میں اکثر لفظ کذب یعنی جھوٹ کو خطا کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ جب انہیں کہنا ہوتا ہے کہ فلاں شخص کے کان نے خطاء کی یعنی اس نے جو بات سنی ہے اس کی حقیقت کو نہیں پہنچا ہے تو وہ یوں کہتے ہیں۔ کذب سمعہ یعنی اس کے کان نے جھوٹ کہا۔

【10】

طب نبوی ﷺ اور مروج طب میں فرق اور اس کی وجہ

اس موقع پر یہ بات واضح کر دینی ضروری ہے کہ اگرچہ علماء نے حتی الامکان طب نبوی (علیہ السلام) اور مروجہ طب میں مطابقت و موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں فرق ضرور موجود ہے اسی لئے صاحب سفر السعادۃ نے لکھا ہے کہ طب نبوی (ظاہری طور پر) طباء کے قواعد و اصول کے ساتھ کوئی نسبت نہیں رکھتی کیونکہ طب نبوی ﷺ کا مصدر وحی الہٰی، قلب نبوت اور کمال عقل ہے ظاہر ہے کہ جو طب وحی الہٰی کے ذریعہ حاصل ہوئی ہو یا جو علاج معالجہ قلب نبوت اور کمال عقل کا بتایا ہوا اس کا کامیاب ہونا اور اس کے ذریعے شفا پانا درجہ یقین کا حامل ہے اس کے برخلاف اطباء و حکماء کی جو طب ہے اور ان کے اصول و قواعد کے مطابق جو علاج معالجہ ہوتا ہے اس کا کلیۃ کامیاب اور افادیت بخش ہونا یقینی درجہ کی چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس میں غلطی و خطا ہونے کا بھی گمان ہے کیونکہ اس طب کی بنیاد انسانی ذہن و تجربہ پر ہے اس اعتبار سے یہ طب اس طب نبوی ﷺ کے برابر ہو ہی نہیں سکتی جس کی بنیاد وحی الہٰی، قلب نبوت اور کمال عقل ہے۔ طب نبوی اور مروجہ طب کے درمیان یہی فرق ہے جو بعض مواقع پر کچھ لوگوں کو شک شبہ اور الجھن میں ڈال دیتا ہے چناچہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے کسی مرض کا ایسا علاج تجویز فرمایا ہے جو فن طب کے اصول و قواعد کے خلاف ہے تو وہ مختلف قسم کے اعتراض کرتے ہیں حالانکہ انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ وہ جس طب کے اصول و قواعد کی بات کرتے ہیں وہ چونکہ انسان کے اپنے ذہن اور اپنی عقل و تدبیر کی پیداوار ہے اس لئے اس میں غلطی و خطا کا ہونا اور حقیقت حال تک نہ پہنچنا عین ممکن ہے جب کہ طب نبوی کا مصدر وحی الہٰی اور قلب نبوت ہے جس میں کسی خطا کا امکان ہی نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے کسی مرض کا جو بھی علاج تجویز فرمایا ہے اس کے بارے میں تو ہوسکتا ہے کہ ہمارا ناقص علم اور ذہن اس کی حقیقت تک نہ پہنچ سکے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ علاج مرض کے مطابق نہ ہو مثال کے طور پر یہاں حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق بعض اطباء سخت حیرانی اور الجھن میں مبتلا ہوئے ہیں کیونکہ شہد اپنے خواص کے اعتبار سے سہل اور پیٹ جاری کرنے والا ہے لہٰذا دستوں کے روکنے کے لئے شہد پلانے کا حکم نبوی کریم ﷺ بظاہر اطباء کے اصول و قواعد کے بالکل خلاف ہے بناء بریں وہ اطباء کہتے ہیں کہ ہر مرتبہ شہد پلانے کے بعد دستوں میں زیادتی کا ہونا اسی وجہ سے تھا کہ شہد اسہال پیدا کرتا ہے ؟ اس بارے میں ایک بات تو یہی کہی جاسکتی ہے کہ یہ ایک بالکل مخصوص نوعیت کا معاملہ تھا جس میں دوا کی تاثیر سے زیادہ آنحضرت ﷺ کی دعا کی برکت اور آپ ﷺ کے اعجاز سے وہی شہد اس کے حق میں شفا یابی کا ذریعہ بن گیا اور وہ اچھا ہوگیا، یہ بات اگرچہ حسن اعتقاد کے نقطہ نظر سے ایک اچھی تعبیر و ترجمانی ہے جو اہل ایمان کو مطمئن کرسکتی ہے اور پھر وہ بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ محض اس واقعہ پر قیاس کر کے طب نبوی ﷺ کو مروج طب کے اصول و قواعد کے متضاد قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن اس کے علاوہ اگر فنی نقطہ نظر سے بھی آنحضرت ﷺ کے تجویز کردہ اس علاج پر پوری تحقیق اور گہری نظر کے ساتھ غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ آنحضرت ﷺ کا مریض کو شہد پلانے کا حکم دینا اطباء کے اصول و قواعد کے خلاف نہیں تھا۔ کیونکہ دستوں کا آنا جس طرح بدہضمی کی وجہ سے ہوتا ہے اسی طرح وہ فاسد مادہ بھی دست جاری ہونے کا سبب بنتا ہے جو جمع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا جو دست معدے میں جمع ہونے والے فاسد مادہ کی وجہ سے آتے ہیں ان کو بند کرنا اور اس مادے کو باہر نکالنا ضروری ہوتا ہے اور اس کا بہترین علاج شہد ہے۔ خصوصًا شہد کو گرم پانی میں ملا کر پلانا بہت مفید ہے کہ وہ مادہ کو دفع کرتا ہے اور خارج بھی کردیتا ہے پس وہ شخص جو بدہضمی کا شکار تھا اور اس کے معدے میں فاسد مادہ بھی جمع ہوگیا تھا اس کے لئے بہترین علاج یہی تھا کہ شہد پلا کر اس کے معدے میں جمع ہوجانے والا فاسد مادہ نکالا جائے چناچہ آپ ﷺ اس کو شہد پلانے کا حکم دیتے رہے یہاں تک کہ جب اس کا معدہ فاسد مادے سے بالکل صاف ہوگیا تو وہ اچھا ہوگیا، اس سلسلے میں یہ بات بطور خاص ذہن میں رکھنے کی ہے کہ علاج معالجہ میں حسن اعتقاد اور معالج کی تشخیص و تجویز پر مکمل اعتبار و بھروسہ بنیادی چیز ہے، چناچہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے معالج کے بارے میں بھی کسی قسم کے شک وشبہ میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس سے حسن اعتقاد نہیں ہوتا تو اس کا مزاج معالج کے اس علاج کو قبول نہیں کرتا اور شفا یابی سے محروم رہتا ہے خواہ وہ معالج کتنے ہی اونچے درجے کا کیوں نہ ہو اس کے برخلاف اگر وہ شخص پورے یقین و اعتقاد کے ساتھ کوئی انتہائی معمولی درجہ کا بھی علاج کرتا ہے تو وہ علاج اس کے لئے فائدہ مند ہوجاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص طب نبوی ﷺ کے ذریعہ اپنا علاج کرے جس کی کامیابی یقینی ہے اور اس کو اس علاج سے فائدہ نہ ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اس کے ایمان میں کھوٹ ہے اور اس کو یقین و اعتقاد کی نعمت حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا جو شخص اپنے کسی مرض کا علاج طب نبوی ﷺ کے ذریعہ کرنے کا خواہش مند ہو تو اس کو اپنا یقین کامل اور اپنا اعتقاد مضبوط کرنا چاہئے اور پھر صدق نیت و اخلاص عمل کے ساتھ اس علاج کو اختیار کرنا چاہئے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں، امراض باطنی و روحانی اور فساد و ذہن کے لئے شفاء کامل کا درجہ رکھتا ہے۔ لہٰذا جو شخص قرآن کریم کو اخلاص و خلوص کے جذبہ سے سیکھتا ہے اور پڑھتا ہے اس کی تعلیمات پر یقین و اعتقاد کے ساتھ عمل کرتا ہے۔ اس کے قلب و روح کو یقینا جلا و شفا حاصل ہوتی ہے، اس کے برخلاف جو شخص عدم اخلاص و قبول اور بےیقینی وبے اعتمادی کے ساتھ قرآن کریم کو سیکھتا پڑھتا ہے تو اس کے باطن میں اور زیادہ برائی اور اس کے قلوب میں اور زیادہ فساد پیدا ہوتا ہے۔ اسی بناء پر بعض حضرات نے حدیث کے الفاظ کذب بطن اخیک (تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے) کو مریض کے عدم صدق نیت اور عدم خلوص اعتقاد پر بھی محمول کیا ہے یعنی ان حضرات کے نزدیک آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا یہ واضح کیا کہ تمہارے بھائی نے چونکہ شہد کو یقین و اعتقاد اور اخلاص و قبول کے ساتھ نہیں پیا ہے، اس لئے فائدہ ہونے کے بجائے اس مرض میں زیادتی ہوگئی ہے۔

【11】

قسط کے فوائد

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جن چیزوں کو تم دوا علاج کے طور پر اختیار کرتے ہو ان میں بہترین چیز سینگی کھچوانا اور بحری قسط کا استعمال کرنا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح قسط ایک جڑ کا نام ہے جس کو کوٹ بھی کہتے ہیں اور دوا کے کام میں آتی ہے اطباء نے اس کے بہت فوائد لکھے ہیں مثلا نفاس والی عورتیں اس کی دھونی لیں تو رکا ہوا فاسد خون جیسے حیض اور پیشاب جاری ہوجاتا ہے۔ یہ مسموم جراثیم کو دور کرتی ہے۔ دماغ کو قوت بخشتی ہے اعضاء رئیسہ باہ اور جگر کو طاقتور بناتی ہے اور قوت مردی میں تحریک پیدا کردیتی ہے۔ ریاح کو تحلیل کرتی ہے، دماغی بیماریوں جیسے فالج لقوہ اور رعشہ کے لئے مفید ہے۔ پیٹ کے کیڑے باہر نکالتی ہے۔ چوتھے دن کے بخار کے لئے بھی فائدہ مند ہے اس کا لیپ کرنے سے چھائیاں اور چھیپ جاتی رہتی ہے، زکام کی حالت میں اس کی دھونی لینا ایک بہترین علاج ہے اس کی دھونی سے سحر و وبا کے اثرات بھی جاتے رہتے ہیں غرض کہ طب کے کتابوں میں اس کے بہت زیادہ فوائد لکھے ہیں اسی لئے اس کو سب سے بہتر دوا فرمایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ قسط دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو قسط بحری جس کا رنگ سفید ہوتا ہے اور دوسری کو قسط ہندی کہا جاتا ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے دونوں کی خاصیت گرم و خشک ہے لیکن بحری قسط ہندی قسط سے بہتر ہوتی ہے کیونکہ اس میں گرمی کم ہوتی ہے۔

【12】

بچوں کے حلق کی مخصوص بیماری |" عذرہ |" کا علاج

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم اپنے بچوں کے حلق کی بیماری کو ہاتھ یا کپڑے سے ان کو اذیت نہ پہنچاؤ بلکہ تمہیں قسط کا استعمال کرنا چاہئے۔ (بخاری ومسلم) تشریح عذرہ ایک بیماری ہے جو شیر خوار بچے کو ہوجایا کرتی ہے اس کا سبب خون کا ہیجان ہوتا ہے عام طور پر مائیں یا دائیاں اس کو دفع کرنے کے لئے بچے کے حلق میں انگلی ڈال کر اس کو دباتی ہیں جن سے سیاہ خون نکلتا ہے اور بچے کو بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس طریقہ علاج سے منع فرمایا اور دفعیہ مرض کے لئے قسط کو بطور دوا تجویز فرمایا اس مرض میں قسط کو استعمال کرنے کی صورت یہ ہے کہ اس کو پانی میں حل کر کے ناک میں ٹپکایا جائے جس کو سحولا کہتے ہیں یہ محلول ناک کے ذریعہ عذرہ پر پہنچ کر اس کو دور کر دے گا۔ واضح رہے کہ عذرہ کے علاج کے لئے قسط کی تجویز بعض اطباء کے نزدیک حیرانی کا باعث ہے کیونکہ ان کے کہنے کے مطابق قسط چونکہ گرم ہے اور عذرہ بھی گرمی کی وجہ سے ہوتا ہے خاص طور پر حجاز میں کہ جہاں کی آب و ہوا گرم ہے اس لئے اس بیماری کو قسط سے کیونکر فائدہ ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عذرہ کا مادہ اصل میں وہ خون ہوتا ہے جس پر بلغم کا غلبہ ہوتا ہے گویا عذرہ خون اور بلغم دونوں سے ملکر بنتا ہے لیکن بلغم زیادہ ہوتا ہے اور خون کم لہٰذا بلغم کی رطوبت کو قسط کی گرمی جذب کرلیتی ہے ! بسا اوقات دوا کا فائدہ بالخاصیت بھی ہوتا ہے اس اعتبار سے عذرہ میں قسط کا استعمال باعث حیرت نہیں ہونا چاہئے، علاوہ ازیں ایک جواب یہ بھی ہے کہ عذرہ کا علاج قسط کے ذریعہ کرنا اعجاز نبوی ﷺ کا ایک کرشمہ ہے جس میں عقل کی کوئی دخل نہیں ہے۔

【13】

ذات الجنب کا علاج

اور حضرت ام قیس (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم اپنے بچوں کے حلق کا علاج اس طرح دبا کر کیوں کرتی ہو بلکہ تمہیں ان کا علاج عود ہندی یعنی کوٹ کے ذریعہ کرنا چاہئے کیونکہ عود ہندی میں سات بیماریوں کی شفا ہے جن میں ایک ذات الجنب ہے۔ عذرہ کی صورت میں توسط کیا جائے (یعنی عذرہ بیماری کو دور کرنے کے لئے عود ہندی کو پانی میں گھول کر ناک میں ٹپکایا جائے) اور ذات الجنب کی صورت میں لدود کیا جائے یعنی ذات الجنب کی بیماری کو دور کرنے کے لئے عود ہندی کو پانی میں گھول کر باچھ کی طرف سے منہ میں ٹپکایا جائے۔ (بخاری ومسلم) تشریح تدغرن وغر کا مطلب ہے عذرہ بیماری میں حلق کو انگلی کے ذریعہ دبانا، جیسا کہ جب بچوں کو حلق کی بیماری ہوتی ہے تو عورتیں ان کے حلق میں انگلی ڈال کر ورم کو دباتی ہیں اور کوے کو اوپر اٹھا دیتی ہیں، چناچہ اس بارے میں اس سے پہلے کی حدیث میں بھی گزر چکا ہے کہ آپ ﷺ نے اس تکلیف دہ طریقہ علاج سے منع فرمایا ہے اور یہاں بھی آپ ﷺ نے بطریق انکار فرمایا کہ تم اپنے بچوں کے حلق کو انگلی سے کیوں دباتی ہو، یعنی اس طریقہ علاج سے اجتناب کرو۔ اعلق کے معنی بھی وہی ہیں جو وغر کا مطلب بیان کیا گیا ہے، بعض روایت میں علاق کے بجائے اعلاق مذکور ہے، لیکن علماء نے لکھا ہے کہ یہی روایت اولی اور اصوب ہے، ویسے اعلاق کے بھی وہی معنی ہیں جو علق کے ہیں، حاصل یہ کہ عورتوں کو آپ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ عذرہ کی بیماری میں انگلی کے ذریعہ حلق کو دبانے کا طریقہ علاج اختیار کیا جائے، بلکہ عود ہندی کے ذریعہ اس کا علاج کیا جائے جس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو پانی میں گھول کر بچے کی ناک میں ٹپکایا جائے۔ حدیث میں عود ہندی کا ذکر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ پچھلی حدیث میں قسط بحری سے مراد یہی عود ہندی ہے تاہم یہ بھی احتمال ہے کہ قسط ہندی کو عود ہندی فرمایا گیا ہو، جیسا کہ بعض حضرات نے اس کی وضاحت عود ہندی کی ہے اور یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ فائدہ مند تو دونوں ہیں لیکن قسط بحری زیادہ فائدہ مند ہے۔ ذات الجنب ایک بیماری ہے اس کی صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ سینے میں ورم ہوجاتا ہے اور یہ اگرچہ عضلات میں پیدا ہوتا ہے مگر پھر باطن سے ظاہر میں آجاتا ہے اور یہ صورت خطرناک ہے اور اس کا شمار مہلک امراض میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ذات الجنب کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ریاح غلیظہ کے رک جانے کی وجہ سے پہلو میں ایک درد ہوتا ہے یہاں حدیث میں جس ذات الجنب کا ذکر ہے اس سے مراد یہی دوسری صورت ہے کیونکہ عود ہندی ریاحی امراض کی دوا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد گرامی میں سات بیماریوں کا ذکر فرمایا لیکن نام صرف دو بیماریوں کا لیا، باقی پانچ کے بارے میں سکوت فرمایا کیونکہ اس موقع پر ان پانچوں کی وضاحت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ پانچ بیماریاں ایسی ہوں گی جو عرب میں مشہور رہی ہوگی اور ان کے بارے میں لوگ خود جانتے ہوں گے اور چونکہ ان دونوں بیماریوں کے بارے میں لوگوں کا علم محدود ہوگا اس لئے آپ ﷺ نے صرف دو بیماریوں کا نام لیا، لیکن حدیث میں سات بیماریوں کا ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ قسط بس سات بیماریوں کے کام میں آنے والی دوا ہے سات سے زیادہ کسی اور بیماری کے لئے فائدہ مند نہیں ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دوا کا فائدہ بہت وسیع ہے اور بہت سی بیماریوں میں استعمال کی جاتی ہے جن میں سے کچھ بیماریوں وہ ہیں جن کو پہلے بیان کیا چکا ہے ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ سات بیماریوں کے لئے یہ فائدہ مند ہوگی اس لئے اس کو یہاں ذکر کیا گیا، علاوہ ازیں بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ سات سے مراد مخصوص عدد نہیں ہے بلکہ کثرت مراد ہے چناچہ اہل عرب کے کلام میں بسا اوقات سات کا اطلاق کثرت پر ہوتا ہے۔

【14】

بخار کا علاج اور پانی

اور حضرت عائشہ (رض) اور حضرت خدیجہ (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا بخار جہنم کی بھاپ ہے لہٰذا تم اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔ (بخاری ومسلم) تشریح بعض حضرات نے کہا ہے کہ ارشاد گرامی کا مقصد بخار کی حرارت کو دوزخ کی آگ سے مشابہت دینا ہے یعنی بخار دوزخ کی آگ کی تپش کا نمونہ ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ حقیقی معنی پر محمول ہیں جیسا کہ باب مواقیت میں یہ روایت گزری ہے کہ موسم گرما کی تپش و حرارت اصل میں دوزخ کی بھاپ کا اثر ہے، لہٰذا ہوسکتا ہے کہ بخار کی حرارت و جلن بھی دوزخ کی بھاپ کا اثر ہو۔ اس حدیث کے اصل مخاطب اہل حجاز ہیں کیونکہ مکہ اور مدینہ کے رہنے والے کو عام طور پر سورج کی شدید تمازت، گرم آب و ہوا اور دھوپ میں ان کی محنت مشقت کرنے اور ان کے مزاج کی تیزی و گرمی کی وجہ سے بخار ہوجایا کرتا تھا، چناچہ جو بخار آفتاب کی حرارت و تمازت، کوئی گرم دوا وغیرہ کھانے دھوپ و تپش میں زیادہ چلنے پھرنے اور حرکت کرنے اور آب و ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ہو اس کا بہترین علاج پانی ہے کہ ٹھنڈے پانی میں غوطہ لگایا جائے یا یہ ٹھنڈا پانی اپنے بدن پر بہایا جائے، یا بخار کو پانی سے ٹھنڈا کیا جائے کہ مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس طرح کے بخار میں ٹھنڈی دوائیں پانی میں مخلوط کر کے استعمال کی جائیں اور بعض حضرات کے مطابق اس سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ جس شخص کو بخار ہو وہ پیاسوں کو اللہ واسطے ٹھنڈا پانی پلائے، اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کے بخار کو دور کر دے گا۔

【15】

جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جھاڑ پھونک کے ذریعہ نظر بد، دنک اور نملہ کا علاج کرنے کی اجازت دی ہے۔ (مسلم) تشریح افسوں سے مراد وہ جھاڑ پھونک ہے، جس میں حصول شفا کے لئے منقول دعائیں اور قرآنی آیات پڑھی جاتی ہیں ، نظر بد ایک حقیقت ہے جس کو بعض حضرات نے زہر سے تعبیر کیا ہے ان حضرات کا کہنا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے بچھو کے ڈنک اور سانپ کے منہ میں زہر رکھا ہے اسی طرح بعض آدمیوں کی آنکھوں میں بھی زہر رکھا ہے کہ ان کی نظر جس چیز کو بھی لگ جاتی ہے خواہ وہ انسان ہو یا مال و اسباب، زمین جائیداد ہو یا کھیتی و باغات اور جانور ہو، اس کو کھا جاتی ہے۔ چناچہ نظر بد کے دفیعہ کے لئے دعا و تعویز اور جھاڑ پھونک نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ آنحضرت ﷺ نے اس مقصد کے لئے مختلف دعائیں بھی تعلیم فرمائی ہیں جو دعاؤں کے باب میں گزر چکی ہیں۔ ڈنک سے مراد زہریلہ ڈنک ہے جیسے بچھو کا ڈنک، سانپ کا ڈسنا بھی اسی کے حکم میں ہے اگر کسی شخص کو بچھو ڈنک مار دے یا سانپ ڈس لے تو اس کا زہر اتارنے کا بہترین ذر یعہ جھاڑ پھونک ہے۔ نملہ اصل میں چیونٹی کو کہتے ہیں لیکن یہاں وہ پھوڑا مراد ہے جو آدمی کے پہلو میں ہوجایا کرتا ہے، کبھی یہ پھوڑا چھوٹی چھوٹی پھنسیوں کی صورت میں بھی ہوتا ہے جو پسلی کے اوپر نکل آتی ہیں۔ نملہ پھوڑے میں آدمی کو ایسا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے چیوٹیاں رینگ رہی ہوں اور غالباً اسی مناسبت سے اس پھوڑے کو نملہ کہا گیا ہے اور اگر نملہ چھوٹی چھوٹی پھنسیوں کی صورت میں ہو تو اس میں وجہ مشابہت یہ ہوگی کہ وہ پھنسیاں چیونٹیوں کی طرح پھیلی اور بکھری ہوتی ہیں۔ واضح رہے کہ جھاڑ پھونک کے ذریعہ ہر مرض کا علاج کرنا جائز ہے، اس صورت میں خاص طور پر ان تین چیزوں کا ذکر محض اس لئے کیا گیا ہے کہ دوسرے امراض کی تہ نسبت ان تینوں میں جھاڑ پھونک کا اثر زیادہ اچھا ہوتا ہے اسی طرح جس روایت میں بطور حصر یہ فرمایا گیا ہے کہ جھاڑ پھونک صرف ان تین چیزوں میں جائز ہے اس کی تاویل بھی یہی ہوگی علاوہ ازیں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب جن الفاظ و کلمات کے ذریعہ جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے ان سے اجتناب کی خاطر آنحضرت ﷺ نے ابتداء اسلام میں مسلمانوں کو جھاڑ پھونک کرنے سے منع فرما دیا تھا پھر جب ان تینوں چیزوں میں جھاڑ پھونک کی اہمیت اور لوگوں کو اس سے حاصل ہونے والے فائدے کی بنا پر آپ ﷺ نے ان تین چیزوں میں منتر پڑھ کر پھونکنے کی اجازت دیدی بشرطیکہ اس منتر میں مشرکانہ الفاظ و کلمات استعمال نہ ہوں یہاں تک کہ بعد میں اس اجازت کو عام کردیا گیا کہ کسی بھی مرض میں منقول دعاؤں اور قرآنی آیات کے ذریعہ جھاڑ پھونک کی جاسکتی ہے

【16】

جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ ہم نظر بد کا اثر دور کرنے کے لئے جھاڑ پھونک کرائیں۔ (بخاری ومسلم )

【17】

جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت

اور حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے گھر میں ایک لڑکی کو دیکھا جس کے چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر منتر پڑھواؤ۔ یعنی اس کی جھاڑ پھونک کراؤ۔ کیونکہ اس کو نظر لگی ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے ظاہری مفہوم سے تو عمومیت ظاہر ہوتی ہے کہ اس لڑکی کو نظر لگ گئی تھی خواہ کسی انسان کی نظر لگی ہو یا کسی جن کی لیکن شارحین نے وضاحت کی ہے کہ اس لڑکی پر کسی جن کی نظر بد کا اثر تھا۔ جنات کی نظر برچھے کی نوک سے بھی زیادہ تیز ہوتی ہے۔

【18】

جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منتر پڑھنے اور پھونکنے سے منع فرما دیا تو عمرو بن حزم کے خاندان کے لوگ (جو منتروں کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرتے تھے) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے پاس ایک منتر ہے جس کو ہم بچھو کے کاٹے پر پڑھا کرتے تھے اب آپ نے منتروں سے منع فرما دیا ہے اس کے بعد انہوں نے منتر کو پڑھ کر آنحضرت ﷺ کو سنایا (تاکہ آپ ﷺ اس منتر کو درست یا غلط ہونے کا فیصلہ فرمائیں) آنحضرت ﷺ نے (منتر کو سن کر) فرمایا کہ میں اس منتر میں کوئی حرج نہیں دیکھتا تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے تو وہ ضرور نفع پہنچائے خواہ جھاڑ پھونک کے ذریعہ اور خواہ کسی اور طرح سے بشرطیکہ اس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہو۔ (بخاری ومسلم )

【19】

جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت

اور حضرت عوف بن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ منتر پڑھا کرتے تھے (جب اسلام کا زمانہ آیا تو) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ ان منتروں کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم ان منتروں کو پڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو میں کوئی حرج نہیں دیکھتا۔ (مسلم) تشریح جب تک ان میں شرک نہ ہو کا مطلب یہ ہے کہ جس منتر و افسوں میں جن و شیاطین کے اسماء اور ان سے استعانت نہ ہو اور ان کے مفہوم و معنی ایسے نہ ہوں جن سے کفر لازم آتا ہے تو ان کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی لئے علماء نے کہا ہے کہ ایسے الفاظ و کلمات پر مشتمل منتر و افسوں کے ذریعہ جھاڑ پھونک جائز نہیں ہے۔ جن کے مفہوم و معانی معلوم نہ ہوں البتہ بعض ایسے منتر جن کے الفاظ و کلمات صحیح روایت میں شارع سے منقول ہیں اور ان کے مفہوم و معانی معلوم نہیں ہیں ان کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا جائز ہے۔ واضح رہے کہ جس طرح شیطان ازل ہی سے انسانی عداوت میں مبتلا ہے اسی طرح جنات بھی بالطبع انسان کے ساتھ عداوت رکھتے ہیں اور اس اعتبار سے جنات و شیاطین آپس میں ایک دوسرے کے دوست و رفیق ہوتے ہیں۔ چناچہ جب کسی انسان پر جنات کا سایہ و اثر ہوتا ہے اور اس سایہ و اثر کو دور کرنے کے لئے ایسے منتر و افسوں پڑھے جاتے ہیں جن میں شیاطین کے نام اور ان سے استعانت ہوتی ہے تو جنات اس منتر و افسوں کو قبول کر کے اس انسان کا پیچھا چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح بعض اوقات مارگزیدہ (سانپ کا ڈسا ہوا) شخص اصل میں جنات کے زیر اثر ہوتا ہے، بایں طور پر کہ کوئی شریر جن سانپ کی صورت اختیار کر کے کسی انسان کو ڈس لیتا ہے لیکن لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ اس کو درحقیقت سانپ نے کاٹ کھایا ہے۔ جب ایسے شخض پر منتر پڑھے جاتے ہیں جن میں شیاطین کے نام ہوتے ہیں تو وہ زہر جو حقیقت میں جن کا اثر ہوتا ہے اس شخص کے بدن سے زائل ہوجاتا ہے اس طرح گویا جنات و شیاطین دونوں انسان کی گمراہی کا ذریعہ بنتے ہیں، چناچہ علماء امت کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ کتاب اللہ اور اسماء وصفات الہٰی کے بغیر افسوں ومنتر پڑھنا اور جھاڑ پھونک کرنا جائز نہیں ہے، سب سے زیادہ مہتم بالشان خود قرآن مجید ہے کہ اس کا ہر ہر فقرہ اور ہر ہر لفظ کائنات انسانی کے لئے تاثیر وشفا اور خیر و برکت کا خزانہ ہے اور جن کا فائدہ یقینی ہے اور پھر اس میں بھی بعض سورتیں اور آیتیں جھاڑ پھونک کے لئے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں جیسے سورت فاتحہ، معوذتین آیت الکرسی اور وہ آیات کریمہ جو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کے مفہوم پر مشتمل ہیں، اسی طرح وہ دعائیں اور عملیات بھی افضل ہیں جو احادیث صحیحہ میں آنحضرت ﷺ سے منقول و ثابت ہیں۔ سفر السعادۃ کے مصنف نے لکھا ہے کہ حدیث شریف میں منقول ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی ایسے مال و اسباب وغیرہ یا بچے پر نظر ڈالے جو اس کو اچھا لگتا ہو تو چاہئے کہ ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ کہے (تاکہ اس مال یا بچے کو نظر نہ لگے) اسی حضرت عثمان غنی (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک بہت ہی خوبصورت بچے کو دیکھا تو فرمایا کہ اس کی تھوڑی کے گڑھے میں ذرا سی سیاہی لگا دو ، تاکہ اس کو نظر نہ لگے۔

【20】

آیات شفا

حضرت شیخ ابوالقاسم قشیری سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا، ایک مرتبہ میرا بچہ سخت بیمار ہوا یہاں تک کہ ہم سب اس کی زندگی سے مایوس ہوگئے اسی دوران میں نے رسول کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا اور آپ ﷺ سے اپنے بچے کی بیماری کے بارے میں عرض کیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم آیات شفا سے بیخبر کیوں ہو ؟ پھر جب میں بیدار ہوا اور قرآن کریم سے آیات شفا کی تلاش شروع کی یہاں تک کہ میں نے قرآن میں چھ جگہوں پر آیات شفا پائیں جو یہ ہیں۔ ا یت (1) (وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ ) 9 ۔ التوبہ 14) ا یت (2) (وَشِفَا ءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ) 10 ۔ یونس 57) ا یت (3) ( شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُه فِيْهِ شِفَا ءٌ لِّلنَّاسِ ) 16 ۔ النحل 69) ا یت (4) (وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَا ءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ) 17 ۔ الاسراء 82) ا یت (5) (وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ ) 26 ۔ الشعرا 80) ا یت (6) (قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَا ءٌ) 41 ۔ فصلت 44) چنانچہ میں نے ان آیات کو لکھا اور پانی میں دھو کر بچے کو پلا دیا جس سے وہ اتنی جلدی اچھا ہوگیا کہ جیسے ان کے پیروں کا بند کھول دیا گیا ہے۔ قاضی بیضاوی نے بھی اپنی تفسیر میں ان آیات شفا کی طرف اشارہ کیا ہے، اسی طرح سعد حلیبی نے تفسیر بیضاوی کے حاشیہ میں ان آیات شفا کا تعین کرتے ہوئے ابوالقاسم قشیری کی مذکورہ بالا حکایات کو نقل کیا ہے۔ لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھنے، ان آیات کو پڑھ کر مریض پر دم کرنے اور ان کو چینی کے برتن پر لکھ کر اور اس کو دھو کر مریض کو پلانے کا ذکر کیا ہے۔ نیز حضرت شیخ تاج الدین سبکی سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے بہت سے مشائخ کو دیکھا کہ وہ بیماریوں سے شفا حاصل کرنے کے لئے ان آیات کو لکھا کرتے تھے۔ رہی یہ بات کہ حصول شفا کے لئے ان آیات کے صرف مذکورہ بالا اجزاء کو لکھا جائے یا پوری آیتیں لکھی جائیں تو اس سلسلہ میں نقل کرنے والوں نے اکابر ومشائخ کا جو عمل دیکھا ہے وہ صرف ان ہی مذکورہ اجزاء کو لکھا جانا ہے۔

【21】

نظر بد کا لگنا ایک حقیقت ہے

اور حضرت ابن عباس (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا نظر بد حق ہے یعنی نظر لگنا ایک حقیقت ہے اگر تقدیر پر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی تو وہ نظر ہی ہوتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دو ۔ (مسلم ) تشریح نظر حق ہے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے والے کی نظر میں کسی چیز کا کھب جانا اور اچھا لگنا خواہ وہ چیز جاندار یعنی انسان و حیوان ہو، یا غیر جاندار جیسے مال و اسباب ہو اور پھر اس چیز پر دیکھنے والے کی نظر کا اثر انداز ہوجانا ایک ایسی ثابت شدہ حقیقت ہے جو تقدیر الہٰی سے متعلق ہے، چناچہ حق تعالیٰ نے سحر و جادو کی طرح بعضوں کی نظر میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ جس چیز کو لگ جاتی ہے اس کی ہلاکت و تباہی اور نقصان کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اگر تقدیر الہٰی بر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا مرکز اور۔۔۔۔۔ و منبع، تقدیر الہٰی ہے کہ بڑی سے بڑی طاقت کا اثر و نفوذ بھی تقدیر الہٰی سے پابستہ ہے اور چھوٹے سے چھوٹے تک کی حرکت و سکون بھی تقدیر الہٰی کے بغیر ممکن نہیں، گویا کوئی چیز بھی تقدیر کے دائرہ سے باہر نکلنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اگر بالفرض کوئی چیز ایسی طاقت رکھ سکتی کہ وہ تقدیر کے دائرہ کو توڑ کر نکل جائے تو وہ نظر بد ہوتی کہ وہ تقدیر کو بھی پلٹ دیتی اور اس پر غالب آجاتی، گویا یہ بات اشیاء میں تاثیر نظر کی شدت اور اس کے سرعت نفوذ کو زیادہ سے زیادہ کے ساتھ بیان کرنے کے لئے فرمائی گئی ہے۔ اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے۔ اس وقت عرب میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو نظر لگتی تھی اس کے ہاتھ پاؤں اور زیر ناف حصے کو دھو کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے تھے جس کو نظر لگتی تھی اور اس چیز کو شفا کا ذریعہ سمجھتے تھے اس کا سب سے ادنیٰ فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اس ذریعہ سے مریض کا وہم دور ہوجاتا تھا۔ چناچہ رسول کریم ﷺ نے اس کی اجازت دی اور فرمایا کہ اگر تمہاری نظر کسی کو لگ جائے اور تم سے تمہارے اعضاء دھو کر مریض پر ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کو منظور کرلو اعضاء جسم کو اس مقصد کے لئے دھونے کا طریقہ دوسری فصل کے اخیر میں ذکر ہوگا ۔۔ واضح رہے کہ جمہور علماء اہل حق کا مسلک تو یہی ہے کہ جاندار خواہ وہ انسان ہو یا حیوان اور اموال میں جائیداد وغیرہ میں نظر کی تاثیر یعنی نظر لگنے سے نقصان پہنچنا ثابت ہے جب کہ بعض لوگ جیسے معتزلہ وغیرہ اس کے منکر ہیں جیسا کہ وہ اموال وغیرہ میں دوا اور صدقہ و خیرات کی تاثیر کے قائل نہیں ہیں ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جس چیز کا وقوع پذیر ہونا مقدر میں لکھ دیا گیا ہو اس میں کسی اور چیز کا دخل نہیں ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ تقدیر کے لکھے کو کوئی چیز متغیر نہیں کرسکتی۔ لیکن وہ لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ تقدیر عالم اسباب کے ساتھ کوئی تضاد و منافات نہیں رکھتی، چناچہ نظر کی تاثیر اور سببیت اس بناء پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں اس طرح کی خاصیت رکھ دی ہے کہ وہ ہلاکت و نقصان کا سبب بن جائے علاوہ ازیں علماء اہل حق کے مسلک کی دلیل کے یہ ارشاد گرامی ﷺ العین الحق ہے کہ جب شارع (علیہ السلام) نے اس حقیقت کو واضح کردیا ہے کہ نظر کی تاثیر برحق ہے تو اس کا اعتقاد رکھنا واجب اور ضروری ہے۔ رہی بات یہ کہ نظر لگنے کی کیفیت و صورت کیا ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے نظر زدہ کو نقصان و ضرر کیسے پہنچتا ہے تو اس سلسلے میں علماء نے مفصل بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ اس سلسلے میں بعض ایسے لوگوں نے جن کی نظر عام طور پر کسی نہ کسی کو لگتی رہتی ہے بیان کیا کہ جب ہمیں کوئی چیز اچھی لگتی ہے اور ہم اس پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری آنکھوں سے حرارت نکل رہی ہو، بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ نظر لگانے والے کی آنکھ سے ایک خاص قسم کی حرارت سمیہ نکلتی ہے جو ہوا میں مخلوط ہوجاتی ہے اور وہ ہوا پھر نظر زدہ تک پہنچتی ہے تو اس کے نقصان و ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے جیسا کہ بعض قدیم محققین کے مطابق اس سانپ کی زہر کی کیفیت ہوتی ہے جو محض اپنی نظر کے ذریعہ زہر کو منتقل کرتا ہے کہ اس کی نظر جس پر بھی پڑجاتی ہے اس تک اس کا اثر پہنچ جاتا ہے اور وہ ہلاک ہوجاتا ہے حاصل یہ کہ دکھائی نہ دینے والی کوئی شئے نظر لگانے والے کی نظر سے تیر کی طرح روانہ ہوتی ہے اور اگر کوئی ایسی چیز درمیان میں نہ ہوتی ہے جیسے حرز و تعویز اور دوا وغیرہ تو وہ شئے نظر زدہ تک نہیں پہنچتی اور اس میں اثر و نفوذ نہیں کرتی بلکہ اگر وہ حرز و تعویز قوی و مضبوط قسم کا ہوتا ہے تو وہ شئے نظر لگانے والے ہی کی طرف پلٹ آتی ہے جیسا کہ اگر مقابل کے پاس سخت و مضبوط سپر ہوتا ہے تو تیر مارنے والے کا تیر سپر سے ٹکرا کر الٹا مارنے والے کو آ کر لگتا ہے، چناچہ حق تعالیٰ نے جس طرح بعض لوگوں کی نظر میں مذکورہ خاصیت و تاثیر پیدا کی ہے اسی طرح نفوس کاملہ یعنی اہل اللہ اور کاملین کو بھی اس نظر بد کے دفعیہ کی قوت اور اس میں تصرف کی طاقت عطا فرما دی ہے تاکہ وہ عوام کو دعا و تعویز کے ذریعہ نظر بد کے اثرات سے محفوظ رکھنے میں مدد دیں۔

【22】

حق تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج پیدا کیا ہے

حضرت اسامہ بن شریک (رض) کہتے ہیں کہ بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا ہم بیماری میں دوا و علاج کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اے اللہ کے بندوں دوا وعلاج کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری پیدا نہیں کی ہے جس کی شفا نہ رکھی ہو، علاوہ ایک بیماری کے اور وہ بڑھاپا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد ، ) تشریح اے اللہ کے بندو ! آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو ان الفاظ سے مخاطب کر کے گویا اس طرف اشارہ کیا ہے کہ علاج معالجہ کرنا اور بیماری کو دور کرنے کے ذرائع اختیار کرنا عبودیت و توکل کے منافی نہیں ہے بشرطیکہ محض علاج پر ہی اعتماد بھروسہ نہ کیا جائے بلکہ دوا علاج کو شفا کا صرف ایک ضروری سبب و ذریعہ سمجھو اور شافی حقیقی اللہ تعالیٰ ہی کو جانا جائے

【23】

مریض کو زبر دستی نہ کھلاؤ پلاؤ

اور حضرت عقبہ ابن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اپنے مریضوں کو زبردستی نہ کھلاؤ کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کھلاتا پلاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ مریض کسی چیز کے کھانے پینے پر راضی نہ ہو تو اس کو وہ چیز زبردستی نہ کھلاؤ پلاؤ اور وہ چیز خواہ از قسم طعام ہو یا از قسم دوا۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے جو جسم انسان کو طاقت بخشتی ہے اور اصل میں اس کی مدد کھانے پینے جیسی چیزوں کے فائدے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے گویا کسی بھی جاندار کا زندہ رہنا اور اس کو قوت و طاقت کا حاصل ہونا کھانے پینے پر منحصر نہیں ہے بلکہ قدرت الہٰی پر موقوف ہے۔ لہٰذا نفس کے کسی چیز میں مبتلا و مشغول ہونے کی وجہ سے اگر طبیعت کھانے پینے پر آمادہ نہ ہو تو کھانے پینے کے معاملہ میں زبر دستی نہ کرنی چاہئے۔ کیونکہ طبیعت و خواہش کے علی الرغم کھانا پینا فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان دہ ہوجاتا ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جسم و جان کی بقا کے لئے نظام قدرت و عادت انسانی کے تحت کوئی نہ کوئی ظاہری سبب ذریعہ ہونا چاہئے تو اس مقصد کے لئے وہ رطوبت بدن کافی ہوتی ہے جس کو فقدان غذا کی صورت میں حرارت غزیزی تحلیل کر کے بقاء جسم و جان کا ذریعہ بنا دیتی ہے۔

【24】

سرخ بادہ کا علاج

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سعد ابن زرارہ کے جسم پر سرخ بادہ (کی بیماری کے علاج) کے لئے داغ دیا۔ اور اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح داغ دیا یعنی آپ ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے داغا یا کسی کو داغنے کا حکم دیا۔ یہ بات واضح نہیں ہوسکی ہے کہ مذکورہ بیماری کے علاج کے لئے حضرت سعد (رض) کے جسم کے کس حصے پر داغ دیا گیا تھا۔

【25】

ذات الجنب کا علاج

اور حضرت زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں ہدایت فرمائی کہ ہم ذات الجنب کی بیماری میں قسط بحری اور زیتون کے تیل کے ذریعہ علاج کریں۔ (ترمذی )

【26】

ذات الجنب کا علاج

اور حضرت زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ذات الجنب کے علاج کے لئے زیتون کے تیل اور ورس کی تعریف کیا کرتے تھے۔ (ترمذی) تشریح ورس ایک قسم کی گھاس کو کہتے ہیں جس کا رنگ زرد مائل بہ سرخ ہوتا ہے اور اس کے ریشے زعفران کی مانند ہوتے ہیں اور زعفران ہی کی طرح یہ گھاس بھی رنگنے کے کام آتی ہے ویسے اطباء نے مختلف بیماریوں کے لئے اس کے بہت فوائد بیان کئے ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذات الجنب کے علاج کے لئے ان دونوں چیزوں کا استعمال بطریق لدود یعنی منہ میں ٹپکانے کے ذریعہ ہوگا۔

【27】

ثناء بہترین دوا ہے

اور حضرت اسماء بنت عمیس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم کس چیز سے جلاب (مسہل) لیتی ہو، انہوں نے کہا شبرم سے آپ ﷺ نے فرمایا شبرم تو گرم ہے گرم۔ اسماء (رض) کہتی ہیں کہ پھر میں نے ثناء سے جلاب لیا اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر کسی چیز میں موت سے شفاء ہوتی یعنی موت کا علاج کسی دوا میں ہوتا تو وہ ثناء ہوتی۔ (ترمذی، ابن ماجہ) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تشریح شبرم ایک گھاس ہے جو دست آور ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ شبرم سے اس گھاس کے دانے مراد ہیں دو مسور کے برابر ہوتے ہیں اور اسہال کے لئے ان دانوں کو پانی میں جوش دے کر اس کو پیا جاتا ہے دونوں لفظ حار حار کے زبر اور راہ کی تشدید کے ساتھ ہیں، جیسا کہ مشکوٰۃ کے اکثر صحیح نسخوں اور اصل کتاب یعنی ترمذی وابن ماجہ میں نقل کیا گیا ہے، لیکن بعض حضرات نے دوسرے لفظ کو جیم کے ساتھ یعنی (جار) کو پہلے لفظ (حار) کا تابع مہمل قرار دیا ہے، جیسا کہ جب کسی لفظ کو زیادہ اہمیت و تاکید کے ساتھ بیان کرنا ہوتا ہے تو اس اصل لفظ کے بعد اس کے مناسب و ہم وزن کوئی دوسرا مہمل لفظ بول دیتے ہیں۔ جیسے پادر وادر اور پانی وانی وغیرہ، بہر صورت آنحضرت ﷺ نے اس جملہ کے ذریعہ گویا یہ واضح فرمایا کہ شبرم نہایت گرم ہے اور دست لانے کے لئے اس کو استعمال کرنا مناسب نہیں ہے چناچہ اطباء لکھتے ہیں کہ شبرم حار درجہ چار ہے اور چونکہ اس کا استعمال بہت زیادہ دست لاتا ہے اس لئے اس میں احتیاط شرط ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ کے ذریعہ سناء کی فضیلت و تعریف کو بطور مبالغہ بیان فرمایا گیا ہے اور یہ واقعہ ہے کہ سناء اور خاص طور پر سناء مکی (جو زیادہ بہتر ہے) بڑی عجیب و غریب دوا ہے جس کے فوائد مشہور ہیں اور اطباء اس کو اکثر امراض میں شفا کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس میں کسی ضرر و نقصان کا خوف نہیں ہوتا یہ باعتدال ہے اور حار درجہ ایک ہے، صفرا، سودا اور بلغم کے اسہال و تنقیہ کے لئے بہترین چیز ہے اور جرم قلب کو بہت زیادہ طاقت و قوت بخشتی ہے، نیز اس کی جملہ خاصیتوں میں سے ایک بڑی خاصیت یہ بھی ہے کہ واسو اس سوداوی کے لئے فائدہ مند ہے۔

【28】

حرام چیزوں کے ذریعہ علاج معالجہ نہ کرو

اور حضرت ابودرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے بیماری بھی اتاری ہے اور دوا بھی اور ہر بیماری کے لئے دوا بھی اور ہر بیماری کے لئے دوا مقرر کی ہے لہٰذا تم دوا سے بیماری کا علاج کرو، لیکن حرام چیز سے دوا علاج نہ کرو۔ (ابوداؤد) تشریح حرام چیز سے مراد وہ شراب، خنزیر اور ان جیسی وہ چیزیں ہیں جن کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ (علاج معالجہ کے طور پر مطلق کسی بھی حرام چیز اور خاص طور پر شراب کو اختیار کرنے کی حرمت و کراہت کے سلسلے میں متعدد احادیث منقول ہیں۔ جن سے حرام چیزوں کے ذریعہ علاج معالجہ کرنے کی ممانعت ہی ثابت نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایسی چیزوں کا استعمال قطعا لاحاصل رہے گا۔ کیونکہ ان کے ذریعہ حصول شفا ممکن نہیں، چناچہ حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری شفا ان چیزوں میں نہیں رکھی جن کو تمہارے لئے حرام قرار دیا گیا ہے، اسی طرح منقول ہے کہ ایک صحابی حضرت طارق جعفی (رض) نے نبی کریم ﷺ سے شراب بنانے کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا اور جب انہوں نے کہا کہ میں دوا کے طور پر شراب استعمال کرنے کے لئے بناتا ہوں آنحضرت ﷺ نے فرمایا شراب دوا نہیں ہے بلکہ وہ درد و مرض ہے نیز آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ آیت (من تداوی بالخمر فلاشفاء اللہ) ۔ یعنی جو شخص شراب کے ذریعہ علاج معالجہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو شفاء نہیں دے گا۔ تاہم بعض فقہی روایت میں یہ اجازت دی گئی ہے کہ اگر کسی مرض کے بارے میں قابل اعتماد اور حاذق اطباء معالجین کا اس پر اتفاق ہو کہ اس کا علاج شراب کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہے تو اس مرض میں شراب کے بطور دوا استعمال کرنا جائز ہے لیکن یہ بات بجائے خود تقریبا ناممکن ہوگی کیونکہ اول تو قابل اعتماد اور حاذق اطباء کا پایا جانا اور دوسرے ان اطباء کا اس بات پر اتفاق کرلینا کہ اس مرض کا علاج صرف شراب پر منحصر ہے کچھ آسان نہیں ہے۔

【29】

جس دوا کو طبیعت قبول نہ کرے وہ زیادہ کارگر نہیں ہوتی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے خبیث دوا سے منع فرمایا۔ (احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، ) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ایسی دوا استعمال کرنے سے منع فرمایا جو نجس و ناپاک یا حرام ہو یا خبیث سے وہ دوا مراد ہے جو بدمزہ اور بد بودار ہو کہ جس کے استعمال سے طبیعت نفرت کرتی ہے، چناچہ ایسی دوا ابھی بہتر نہیں سمجھی جاتی کیونکہ جس دوا کو طبیعت قبول نہیں کرتی اس کی افادیت کم ہوجاتی ہے اس اعتبار سے حدیث میں مذکورہ نفرت کا تعلق نہی تنزیہی سے ہوگا۔

【30】

سر اور پاؤں کے درد کا علاج

اور حضرت سلمی (رض) جو نبی کریم ﷺ کی خادمہ تھیں کہتی ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی شخص نبی کریم ﷺ سے سر کی (ایسی) بیماری کی شکایت کرتا ( جس کا تعلق خون کی زیادتی و دباؤ سے ہوتا) تو آپ ﷺ فرماتے کھجری ہوئی سینگی گچواؤ اور جو شخص پاؤں کے درد کی شکایت کرتا یعنی ایسا درد جو گرمی حرارت کی بنا پر ہوتا تو آپ ﷺ فرماتے کہ پیروں پر مہندی لگا لو۔ (ابوداؤد) تشریح ویسے تو یہ حدیث مطلق ہے کہ اس کے حکم میں مرد عورت، دونوں شامل ہیں، لیکن بہتر یہ ہے کہ مرد صرف تلوؤں پر مہندی لگا لینے پر اکتفا کرے۔ اور ناخونوں پر لگانے سے اجتناب کرے تاکہ عورتوں کی مشابہت سے حتی الامکان اختراز ہونا چاہئے۔

【31】

زخم کا علاج

اور حضرت سلمی (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے جسم کے کسی حصہ پر) جب بھی زخم آجاتا (خواہ وہ تلوار، چھری، یا اور کسی چیز کے کٹ جانے کی صورت میں ہوتا) یا پتھر اور کانٹے سے آپ ﷺ زخمی ہوجاتے تو مجھ کو حکم دیتے کہ میں اس زخم پر مہندی (کی چھٹس) رکھ دوں۔ (ترمذی) تشریح مہندی کی تاثیر چونکہ سرد ہے اور جلدی امراض کو نافع ہے اس لئے اس کی برودت زخم کی گرمی اور سوزش کو ختم کردیتی ہے۔

【32】

سینگی کھنچوانے کا ذکر

اور حضرت کبشہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنے سر مبارک پر اور اپنے دونوں مونڈہوں کے درمیان بھری ہوئی سینگیاں کھنچواتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ان خونوں میں سے کچھ نکال دیا کرے اور پھر وہ کسی بیماری کا علاج نہ کرے تو اس کو کوئی نقصان و ضرر نہیں پہنچے گا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح احتمال ہے آپ ﷺ کبھی تو سر مبارک پر سینگی کھنچواتے ہوں گے اور کبھی دونوں مونڈہوں کے درمیان۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ ایک ساتھ دونوں جگہ سینگی کھنچواتے ہوں۔ ان خونوں میں سے کچھ نکال دیا کرے۔ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ خون سے مراد مذکورہ دونوں عضو کا خون ہے لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ مطلق فاسد خون مراد ہو، یعنی جسم کے جس حصہ میں بھی فاسد خون جمع ہوگیا ہو اس کو نکلوا دینا چاہئے۔

【33】

سینگی کھنچوانے کا ذکر

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے کو ل ہے پر بھری ہوئی سینگی کھنچوائی کیونکہ آپ ﷺ کے پائے مبارک پر موچ آگئی تھی۔ (ابوداؤد) تشریح وثاء واؤ کے زبر اور ثاء کے جزم کے ساتھ، اس درد اور چوٹ کو کہتے ہیں جو کسی عضو کو اس ہڈی ٹوٹے بغیر پہنچے جس کو ہماری زبان میں موچ کہا جاتا ہے۔

【34】

سینگی کھنچوانے کا ذکر

اور حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے شب معراج کے واقعات بتاتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ آپ ﷺ ملائکہ کی جس جماعت کے پاس سے گزرے اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا کہ آپ ﷺ اپنی امت کو پچھنے لگوانے کا حکم دیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح پچھنے کی یہ اہمیت و فضیلت اس بنا پر ہے کہ فساد خون کی وجہ سے بہت زیادہ امراض پیدا ہوتے ہیں جن کو امراض دموی کہتے ہیں، امراض دموی کا سب سے بڑا علاج خون نکلوانا ہے، نیز خون نکلوانے کے دوسرے طریقوں کی بہ نسبت پچھنے کو زیادہ پسند اس لئے بھی کیا گیا ہے کہ وہ خون کو نواحی جلد سے خارج کرتا ہے چناچہ تمام اطباء اس کے قائل ہیں کہ گرم آب و ہوا میں رہنے والوں کو فصد کے مقابلہ پر پچھنے لگوانا زیادہ مفید رہتا ہے کیونکہ ان لوگوں کا خون رقیق اور پختہ ہوتا ہے جو سطح بدن پر آجاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس خون کو پچھنے ہی کے ذریعہ سے نکالا جاسکتا ہے۔ نہ کہ فصد کے ذریعہ۔ امت سے مراد اہل عرب ہیں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے یا امت سے آنحضرت ﷺ کی قوم و وطن کے لوگ مراد ہوسکتے ہیں، نیز یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہاں امت کا عام مفہوم مراد ہے، یعنی آنحضرت ﷺ کی پوری امت میں سے ہر وہ شخص مراد ہے جس کو خون نکلوانے کی ضرورت لاحق ہو۔

【35】

مینڈک کی دوا بنانے کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ بن عثمان (رض) سے روایت ہے کہ کہ ایک طبیب نے نبی کریم ﷺ سے مینڈک کو دوا میں شامل کرنے کے بارے میں پوچھا کہ یہ درست ہے یا نہیں ؟ تو نبی کریم ﷺ نے اس کو مینڈک کے مارنے سے منع فرمایا۔ (ابو داؤد) تشریح مینڈک کے مارنے سے منع فرمایا کا مطلب یہ ہے کہ مینڈک کو مار ڈالنے اور پھر اس کو دوا میں شامل کرنے سے منع فرمایا اس وضاحت سے سوال و جواب کے درمیان مطابقت ہوجاتی ہے اس بات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو جامع میں منقول ہے کہ نھی عن القتل الصفدع للدواء یعنی آنحضرت ﷺ نے دوا بنانے کے لئے مینڈک مارنے سے منع فرمایا۔ قاضی کہتے کہ آنحضرت ﷺ کا مینڈک کے مارنے سے منع کرنا شاید اس بناء پر تھا کہ آپ ﷺ نے مینڈک کی دوا بنانے کو مناسب نہیں سمجھا یا تو مینڈک کے نجس و حرام ہونے کی وجہ سے تھا کہ نجس و حرام چیزوں کے ذریعہ علاج کرنا جائز نہیں ہے یا اس لئے مناسب نہیں سمجھا کہ مینڈک سے طبیعت کراہت و تنفر محسوس کرتی ہے اور جس چیز سے طبیعت نفرت کرے اس کو دوا کے طور پر استعمال کرنا لاحاصل ہے اور یہ کہ طبیب نے مینڈک میں جو فوائد سمجھے ہوں گے اس کے مقابلہ پر آنحضرت ﷺ نے اس کی مضرت زیادہ دیکھی ہوگی اس لئے آپ ﷺ نے اس کی دوا بنانے کو مناسب نہیں سمجھا۔

【36】

آنحضرت ﷺ کے پچھنے لگوانے کا ذکر

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ گردن کی دونوں رگوں میں مونڈھوں کے درمیان بھری ہوئی سینگی کھنچواتے تھے (ابو داؤد ) ۔ ترمذی اور ابن ماجہ نے یہ عبارت بھی نقل کی ہے کہ اور آنحضرت ﷺ سترھویں انیسوی اور اکیسویں تاریخ کو سینگی کھنچواتے تھے۔

【37】

پچھنے لگوانے کے دن

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سترھویں، انیسویں اور اکیسویں تاریخ کو سینگی کھنچوانا ناپسند فرماتے تھے۔ (شرح السنۃ )

【38】

پچھنے لگوانے کے دن

اور حضرت ابوہریرہ (رض) رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص سترھویں، انیسویں اور اکیسویں تاریخ کو سینگی کھنچوائے گا اس کو ہر بیماری سے شفا ہوتی ہے۔ (ابو داؤد )

【39】

پچھنے لگوانے کے دن

اور حضرت کبشہ بنت ابی بکرہ (رض) سے روایت ہے کہ ان کے باپ اپنے گھر والوں کو منگل کے دن سینگی لگوانے سے منع کرتے تھے اور رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے تھے کہ منگل کا دن خون کے غلبہ کا دن ہے اور اس دن ایسی گھڑی آتی ہے خون بند نہیں ہوتا (لہٰذا اس دن خون نکلوانے کی صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ وہی گھڑی پڑجائے اور خون رکنے کا نام نہ لے جس سے ہلاکت بھی واقع ہوسکتی ہے ) ۔ (ابو داؤد )

【40】

پچھنے لگوانے کے دن

اور حضرت زہری تابعی نبی کریم ﷺ سے بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص ہفتہ کے دن یا بدھ کے دن سینگی کھنچوائے اور پھر اس کو کوڑھ کی بیماری لگ جائے تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے (ابوداؤد، احمد) ابوداؤد نے کہا ہے کہ یہ حدیث (ایک روایت میں) مسند بیان کی گئی ہے، (یعنی وہ روایت راویوں کے اعتبار سے متصل ہے اور وہ اسناد صحیح نہیں ہے ) ۔ تشریح اگرچہ اس دوسری روایت مسند کو صحیح نہیں کہا گیا ہے لیکن اس کے ذریعہ اس مرسل حدیث کو تقویت و تائید حاصل ہوتی ہے اور ویسے بھی مرسل حدیث حنفیہ اور دیگر اصحاب جرح تعدیل کے نزدیک حجت (یعنی قابل عمل ہوتی ہے ) ۔

【41】

پچھنے لگوانے کے دن

اور حضرت زہری (رض) بطریق ارسال کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص ہفتہ یا بدھ کے دن بھری ہوئی سینگی کھنچوائے یا (اپنے بدن کے کسی عضو پر) لیپ کرے تو وہ کوڑھ میں مبتلا ہوجانے کی صورت میں اپنے آپ کو ملامت کرے۔ (شرح السنۃ،

【42】

ٹوٹکہ کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب (رض) کہتی ہیں کہ ایک دن حضرت عبداللہ نے میرے گردن میں دھاگا پڑا ہوا دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا یہ دھاگا ہے جس پر میرے لئے منتر پڑھا گیا ہے (یعنی منتروں کے ذریعہ اس دھاگے کا گنڈہ بنوا کر میں نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے) زینب (رض) کہتی ہیں کہ حضرت عبداللہ نے (یہ سن کر) اس دھاگے کو (میری گردن سے) نکال لیا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور پھر کہا کہ اے عبداللہ کے گھر والو، تم شرک سے بےپرواہ ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بلا شبہ منتر منکے اور ٹوٹکے شرک ہیں۔ میں نے کہا آپ یہ بات کس طرح کہہ رہے ہیں (یعنی آپ گویا منتر سے اجتناب کرنے اور توکل کو اختیار کرنے کی تلقین کر رہے ہیں جب کہ مجھ کو منتر سے بہت فائدہ ہوا ہے) چناچہ میری آنکھ (درد کے سبب) نکلی پڑی تھی اور میں فلاں یہودی کے ہاں آیا جایا کرتی تھی اس یہودی نے جب منتر پڑھ کر آنکھ کو دم کیا تو آنکھ کو آرام مل گیا۔ حضرت عبداللہ نے کہا کہ (یہ تمہاری نادانی و غفلت ہے) اور وہ درد اس کا اچھا ہوجانا منتر کے سبب سے نہیں تھا بلکہ (حقیقت میں) وہ شیطان کا کام تھا، شیطان تمہاری آنکھ کو کو نچتا تھا (جس سے تمہیں درد محسوس ہوتا تھا) پھر جس منتر کو پڑھا گیا تو (چونکہ وہ ایک شیطان کا کام تھا اس لئے) شیطان نے کونچنا چھوڑ دیا، تمہارے لئے وہ دعا بالکل کافی تھی جو رسول کریم ﷺ پڑھا کرتے تھے کہ۔ اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لاشفاء الا شفائک شفاء لا یغادر سقما (یعنی اے لوگوں کے پروردگار تو ہماری بیماری کو کھودے اور شفا عطا فرما (کیونکہ) تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ شفا نہیں ہے، ایسی شفا جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے !۔ (ابوداؤد) تشریح تم شرک سے بےپرواہ ہو کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان و اسلام کی دولت دے کر کفر شرک سے دور کردیا ہے، لہٰذا تمہیں اس چیز کی حاجت نہیں ہے کہ تم اپنی بیماریوں اور مضرتوں کو ختم کرنے کے لئے ایسے افعال و ذرئع اختیار کرو جو شرک میں مبتلا کردیتے ہیں اور شرک کی حاجت نہیں ہے کہ تم اپنی بیماریوں اور مضرتوں کو ختم کرنے کے لئے ایسے افعال و ذرئع اختیار کرو جو شرک میں مبتلا کردیتے ہیں اور شرک کو متضمن ہیں، حضرت عبداللہ نے یہ باب یہ بات اس بناء پر فرمائی کہ اس زمانہ میں جھاڑ پھونک اور تعویز گنڈے کے لئے منتر و افسوں کئے جاتے تھے وہ مشرکانہ مضامین پر مشتمل ہوتے تھے، ملا علی قاری نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ یہاں شرک سے مراد یہ اعتقاد رکھنا ہے کہ یہ عمل یعنی جھاڑ پھونک وغیرہ بیماری و مضرت کو دفع کرنے کا ایک قوی سبب ہے اور خود اس میں تاثیری طاقت ہے اس صورت میں یہ شرک خفی ہوگا اور یہ اعتقاد ہو کہ یہ چیز بذات خود مؤثر حقیقی ہے تو یہ شرک جلی کہلائے گا۔ جس منتر کو شرک کہا گیا ہے اس سے وہ منتر اور جھاڑ پھونک مراد ہے جس میں بتوں، دیویوں اور شیاطین کے نام لئے گئے ہوں جو کفریہ کلمات اور ایسی چیزوں پر مشتمل ہو جس کو شریعت نے جائز قرار نہ دیا ہو، نیز اس حکم میں ایسے منتر و افسوں بھی داخل ہیں جن کے معنی معلوم نہ ہوں۔ تمائم تمیمہ کی جمع ہے اور تمیمہ اس تعویذ کو کہتے ہیں جو گلے میں لٹکایا جاتا ہے۔ یہاں وہ تعویز مراد ہے جس میں اسماء الہٰی، قرآنی آیات اور منقول دعائیں نہ ہوں ! اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ تمیمہ منکے کو کہتے ہیں یعنی عرب میں عورتیں چتکبرے مہروں کو جوڑ کر بچوں کے گلے میں ڈال دیتی تھیں اور یہ عقیدہ رکھتی تھیں اس کی وجہ سے بچوں کو نظر نہیں لگتی، اسی کو تمیمہ کہتے ہیں۔ تولۃ ایک قسم کے ٹوٹکے کو کہتے ہیں جو مرد و عورت کے درمیان محبت قائم کرنے کے لئے دھاگے یا کاغذ تعویذ کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ منتر منکے اور ٹوٹکے شرک ہیں۔ کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب عملیات اور کام وہ ہیں جو اہل شرک کرتے ہیں اور یہ چیزیں شرک خفی یا شرک جلی کے ضمن میں آتی ہیں جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا۔ بلکہ شیطان کا کام تھا ۔ یعنی تمہاری آنکھ میں جو درد تھا، وہ حقیقۃً درد نہیں تھا۔ بلکہ شیطان کی ان ایذاء رسانیوں میں سے ایک ایذاء رسانی تھی جس میں وہ انسان کو مبتلا کرتا رہتا ہے۔

【43】

|" نشرہ |" شیطان کا کام ہے

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے نشرہ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ وہ شیطانی کام ہے۔ (ابو داؤد) تشریح نشرہ ایک قسم کا سفلی عمل ہے جو آسیب کے دفعیہ کے لئے کیا جاتا ہے۔ اور قاموس میں ہے کہ نشرہ ایک رقیہ یعنی منتر ہے جس کے ذریعہ مجنون و مریض کا علاج کیا جاتا ہے۔ حاصل یہ کہ نشرہ کے لفظی معنی منتر یا تعویز کے ہیں، لہٰذا جس نشرہ کو شیطان کا کام فرمایا گیا ہے اس سے مراد وہ منتر ہوگا جو اسماء الہٰی، قرآن اور منقول دعاؤں پر مشتمل نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ زمانہ جاہلیت کے ان عملیات میں سے ایک عمل تھا جو بتوں اور شیاطین کے اسماء اور ان سے اعانت پر مشتمل ہوتے تھے، یا اس منتر کے الفاظ عبرانی زبان کے ہوں گے کہ جن کے معنی معلوم نہ ہوں گے۔

【44】

لاپرواہ لوگوں کے کام

اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں ہر عمل سے لاپرواہ ہوں اگر میں تریاق پیؤں یا گلے میں منکا ڈالوں اور یا میں اپنے دل سے اور اپنے قصد و ارادہ سے شعر لکھوں (یعنی اشعار بناؤں ) ۔ (ابو داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر ان چیزوں میں سے کوئی بھی چیز مجھ سے سرزد ہوجائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ میرا شمار ان لوگوں میں سے ہو جو ہر عمل سے لاپرواہ ہوتے ہیں یعنی وہ کسی بھی کام کو کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ آیا ان کو یہ کام کرنا چاہئے یا نہیں، نتیجۃ وہ نامشروع افعال و حرکات سے پرہیز نہیں کرتے۔ گویا اس ارشاد گرامی سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ان چیزوں کو اختیار کرنا اسی شخص کا کام ہوسکتا ہے جو مناسب چیزوں اور غیر مشروع اعمال کو اختیار کرنے کے غیر پابند اور لاپرواہ ہوتے ہیں۔ مذکورہ چیزوں کے استعمال کو آنحضرت ﷺ نے اس لئے مذموم سمجھا کہ تریاق میں تو سانپ کا گوشت اور شراب پڑتی تھی اور یہ چیزیں حرام ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جس تریاق کے اجزاء ترکیبی حرام چیزوں پر مشتمل نہ ہوں اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اگرچہ بعض حضرات نے حدیث کے مطلق مفہوم پر عمل کرنے کے پیش نظر اس کے ترک کو بھی اولیٰ قرار دیا ہے، اسی طرح تمیمہ یعنی منکے اور گنڈے سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کو زمانہ جاہلیت کے لوگ جھاڑ پھونک اور عملیات کے ضمن میں استعمال کرتے تھے، لہٰذا ایسے تعویز اور گنڈے وغیرہ جو اسماء الہٰی اور آیات قرآنی وغیرہ پر مشتمل ہوں وہ حکم سے خارج ہیں۔ بلکہ ان کا مستحب ہونا ثابت ہے اور ان کی برکت سے حصول مقصد کی ایک امید کی جاسکتی ہے جہاں تک شعر و شاعری کا تعلق ہے تو آپ ﷺ کے نزدیک اس کا مذموم ہونا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ) کی بناء پر تھا، چناچہ آنحضرت ﷺ خود کوئی شعر نہیں کہتے تھے بلکہ حق تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شعر گوئی سے پاک و منزہ رکھا تھا، اسی لئے آپ ﷺ شعر کہنے پر قادر ہی نہیں تھے اور یہ بات ہے کہ آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بےساختہ اور بلا قصد و ارادہ جو موزوں و مقفٰی جملے ادا ہوتے تھے اور آپ ﷺ کا کلام جس فصاحت و بلاغت سے بھرپور ہوتا تھا وہ بذات خود وصف شعر گوئی سے کہیں اعلی معیار کی چیز ہوتی تھی، مگر ظاہر ہے کہ یہ چیز نہ تو شعر کہنے کے زمرے میں آتی ہے اور نہ یہ مذموم ہے اور ویسے بھی اہل فن و اصطلاح اس پر بےساختہ اپنے کلام میں دوسروں کے اشعار استعمال کرنے کے باوصف آپ ﷺ کا خود شعر کہنے پر قادر نہ ہونا آپ ﷺ کے علاوہ دوسرے لوگوں کے حق میں اشعار اور شعر گوئی کی حیثیت دوسرے اصناف سخن و کلام کی طرح ہے کہ اچھے مضامین کو اشعار کا جامہ پہنانا اور صالح و پاکیزہ خیالات کو شعر گوئی کے ذریعہ ظاہر کرنا اچھا ہے اور برے مضامین اور گندے خیالات پر مشتمل شعر گوئی کرنا برا ہے تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ اس صورت میں بھی اپنے باطن کو شعر گوئی ہی کی طرف متوجہ کرلینا، اسی میں عمر کو ضائع کرنا اور اس میں اتنا زیادہ انہماک و تفکر اختیار کرنا کہ ان دینی امور میں رکاوٹ اور نقصان پیدا ہو جو ضروری اور واجب ہیں یقینا مذموم ہوگا۔ ابن مالک نے اس حدیث کی وضاحت میں کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ شعر کہنا، تریاق پینا اور گلے میں تعویز و گنڈے لٹکانا میرے لئے حرام ہے البتہ امت کے حق میں نہ تو شعر گوئی حرام ہے اور نہ گلے میں تعویذ و گنڈے لٹکانا حرام ہے، بشرطیکہ اس شعر گوئی کے ذریعہ کسی مسلمان کی ہجو نہ کی گئی اور نہ وہ اشعار جھوٹ اور بری باتوں پر مشتمل ہوں اور نہ ہی وہ تعویذ و گنڈے غیر مشروع عملیات سے متعلق ہوں اسی طرح امت کے حق میں وہ تریاق بھی حرام نہیں ہے جس میں کوئی حرام چیز جیسے سانپ کا گوشت وغیرہ شامل نہ ہو،۔

【45】

جھاڑ پھونک وغیرہ توکل کے منافی

اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے داغ دلوایا یا منتر پڑھوایا تو وہ توکل سے بری ہوا ( احمد ترمذی ابن ماجہ ) تشریح مطلب یہ ہے کہ کسی مرض کے لئے جسم کے کسی حصہ پر داغ لینا یا کسی ضرورت و حاجب کی صورت میں جھاڑ پھونک اور تعویز گنڈے کرانا اگرچہ مباح ہے لیکن توکل اور اعتماد علی اللہ کا جو مرتبہ و مقام ہے وہ اس سے بلند وبالا ہے حق تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (وعلی اللہ فلیتوکل المومنین) ۔ لہٰذا اسباب و ذرائع کے اختیار کرنے میں زیادہ انہماک ورغبت گویا رب الارباب سے غافل ہوجانے کی دلیل ہے اسی لئے امام غزالی نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص کہیں جانے کے لئے اپنے مکان کے دروازوں کو دو تالوں سے مقفل کرے یا ایک تالا ڈالے اور پھر اپنے پڑوسی سے بھی مکان کی حفاظت و نگرانی کے لئے کہے تو وہ توکل کے دائرے سے نکل گیا

【46】

جھاڑ پھونک وغیرہ توکل کے منافی

اور حضرت عیسیٰ بن حمزہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عبداللہ بن عکیم کے پاس گیا تو دیکھا کہ ان کا بدن سرخی کی بیماری میں مبتلا تھا میں نے کہا کہ آپ تعویذ کیوں نہیں باندھ لیتے ؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کام سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص کوئی چیز لٹکاتا ہے یا (باندھتا ہے) تو اسی چیز کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ (ابو داؤد) تشریح طیبی کے قول کے مطابق بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ نے تعویذ باندھنے سے اللہ کی پناہ چاہی تھی کیونکہ وہ مقام توکل و رضا پر فائز تھے اور انہوں نے تعویذ باندھنے کو مرتبہ کو توکل کے منافی سمجھا۔ اگرچہ دوسروں کے لئے یہ جائز ہے آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص تعویذ باندھتا ہے یا گنڈا ڈالتا ہے اور جھاڑ پھونک وغیر جیسے عملیات کا سہارا لیتا ہے اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ چیزیں فائدہ مند ہیں اور ضرر کو دفع کرتی ہیں تو اس کو اس حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور انہی چیزوں کے سپرد کردیا جاتا ہے یعنی اس کو حق تعالیٰ کی مدد اعانت سے محروم کردیا جاتا ہے اور وہ شفا نہیں پاتا کیونکہ ذات حق تعالیٰ کے علاوہ نہ کوئی چیز فائدہ دیتی ہے اور نہ نقصان پہنچاتی ہے، گویا اس ارشاد گرامی ﷺ کا مقصد تفویض و توکل کی طرف راغب کرنا ہے۔

【47】

جھاڑ پھونک کے اثر کا ذکر

اور حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا منتر یعنی جھاڑ پھونگ کا اثر تو بس نظر یا زہر دار جانور (جیسے بچھو وغیرہ کے) ڈنگ ہی پر ہوتا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، ) اور ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت بریدہ (رض) سے نقل کیا ہے۔

【48】

جھاڑ پھونک کے اثر کا ذکر

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا منتر تو بس نظر یا زہریلے ڈنک اور خون پر اثر کرتا ہے۔ (ابوداؤد ) تشریح اس سے پہلی حدیث میں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس حدیث میں تین چیزوں کا ذکر ہے گویا اس حدیث میں خون کا لفظ مزید نقل کیا گیا ہے۔ علماء نے خون سے نکسیر کا خون مراد لیا ہے اور اگر لفظ خون کو اس کے عمومی مفہوم پر محمول کیا جائے یعنی یوں کہا جائے کہ خون سے وہ تمام امراض مراد ہیں جو خون کے سبب سے لاحق ہوتے ہیں کہ خواہ ان کا تعلق، خون کی روانی، دباؤ اور غلبہ سے ہو اور خواہ فساد خون سے تو یہ بھی صحیح ہوگا۔ ابوداؤد کی ایک روایت میں۔ الافی عین کے بجائے الافی نفس کے الفاظ منقول ہیں، لیکن علماء نے کہا ہے کہ نفس سے مراد عین یعنی نظر ہی ہے اسی طرح اودم کے بجائے اولدغۃ کے الفاظ منقول ہیں۔ جن کے معنی دانتوں سے کاٹنے کے ہیں جیسا کہ سانپ اور اس طرح کے دوسرے جانور دانتوں کے ذریعہ ڈستے ہیں اور کاٹتے ہیں۔ واضح رہے کہ جھاڑ پھونک اور عملیات کے ذریعہ علاج معالجہ کرنا اور درد سر دانتوں کے درد جیسی تقریبا ہر بیماری کے لئے فائدہ مند ہے جس کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے، نیز بخاری ومسلم کی روایت میں منقول ہے کہ جب آنحضرت ﷺ بیمار تھے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ بسم اللہ ارقیک من کل داء یوذیک۔ لہٰذا مذکورہ بالا حدیثوں میں جھاڑ پھونک کے اثر کو محض تین چیزوں میں منحصر کرنا دراصل مبالغہ کے طور پر ہے اور مراد یہ ہے کہ دوسری چیزوں کی بہ نسبت ان تین چیزوں میں جھاڑ پھونک زیادہ فائدہ مند اور بہتر ہے جیسا کہ عام طور پر لوگ انہی چیزوں میں عملیات کا سہارا زیادہ لیتے ہیں۔

【49】

تیز نظر کا ذکر

اور حضرت اسماء بنت عمیس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! جعفر طیار کی اولاد (چونکہ خوبصورت و خوب سیرت ہے اس لئے ان) کو نظر بہت جلدی لگتی ہے تو کیا ان کے لئے کوئی منتر پڑھوائیں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہاں کیونکہ اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جاسکتی تو وہ نظر ہوتی (یعنی نظر کا اثر یقینا ایک سخت ترین چیز ہے۔ لہٰذا اس کے دفعیہ کے لئے جھاڑ پھونک کرانا جائز ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ ، ) تشریح عطاء نے لکھا ہے کہ جس طرح بعض نظر بسبب حسد اور خبث طبع کے نقصان و ضرر پہنچاتی ہے اسی طرح اس کے مقابلہ میں عارفین اور اہل اللہ کی نظر اکسیر کی مانند فائدہ مند ہوتی ہے کہ ان کی ایک نگاہ ہدایت کافر کو مؤمن فاسق کو صالح اور جاہل کو عالم بنا دیتی ہے۔

【50】

نملہ کا منتر

اور حضرت شفاء بنت عبداللہ (رض) کہتی ہیں کہ (ایک دن) میں ام المؤمنین حضرت حفصہ (رض) کے پاس بیٹھی تھی کہ رسول کریم ﷺ اندر تشریف لائے اور مجھ کو (دیکھ کر) فرمایا کہ کیا تم ان کو (یعنی حفصہ کو) نملہ کا منتر نہیں سکھا دیتیں جس طرح کہ تم نے ان کو لکھنا سکھایا ہے۔ (ابو داؤد) تشریح شفاء۔ عبداللہ بن شمس کی بیٹی اور قریشی عدوی ہیں ان کا اصلی نام لیلی تھا اور شفاء لقب تھا جو اتنا مشہور ہوا کہ اصل نام پر غالب آگیا، انہوں نے ہجرت سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا اونچے درجہ کی عاقلہ فاضلہ عورتوں میں سے تھیں، نبی کریم ﷺ دوپہر کو قیلولہ کے لئے ان کے یہاں تشریف لے جاتے اور وہاں آرام فرماتے انہوں نے آنحضرت ﷺ کے لئے بستر اور لنگی کا انتظام کر رکھا تھا تاکہ آرام کے وقت یہ دونوں چیزیں آپ ﷺ کی خدمت میں آئیں۔ نملہ کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ان پھنسیوں کو نملہ کہتے ہیں جو پسلیوں پر نکلتی ہیں اور بہت تکلیف پہنچاتی ہیں، جو شخص ان پھنسیوں میں مبتلا ہوتا ہے، اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان پھنسیوں کی جگہ چیونٹیاں رینگ رہی ہوں اور غالباً اسی مناسبت سے ان پھنسیوں کو نملہ چیونٹی کہا جاتا ہے۔ حضرت شفاء (رض) مکہ میں ان نملہ کے دفعیہ کے لئے منتر پڑھ کر جھاڑ پھونک کرتی تھیں، جب انہوں نے اسلام قبول کیا اور آنحضرت ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے آئے اور یہ بھی وہاں پہنچیں تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے زمانہ جاہلیت میں نملہ کے دفعیہ کے لئے ایک منتر پڑھا کرتی تھیں، اب چاہتی ہوں کہ وہ منتر پڑھ کر آپ ﷺ کو سناؤں تاکہ آپ ﷺ اس کے بارے میں حکم دیں کہ اس منتر کا پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟ چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس منتر کو سن کر اس کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنے کی اجازت دیدی اور پھر فرمایا کہ یہ منتر حفصہ (رض) کو بھی سکھا دو ۔ رقیہ نملہ سے مراد وہ چند کلمات ہیں جو عرب کی عورتوں میں مشہور تھے، جن کو وہ رقیہ نملہ کہتی تھیں ورنہ نملہ کا جو منتر حقیقی منتر تھا وہ تو دراصل خرافات کا مجموعہ تھا جس کو پڑھنے سے آنحضرت ﷺ نے منع فرما دیا تھا ظاہر ہے کہ آپ ﷺ اس منتر کے سکھانے کا حکم کیوں فرماتے وہ مشہور کلمات جن کو عرب کو عورتیں رقیہ نملہ کہتی تھیں یہ ہیں الغروس تنتعل وتختضب وتکعل وکل شیء تفتعل غیر انہا والا نقصی الرجل یعنی دلہن کو چاہئے کہ مانگ چوٹی اور زیب وزینت کرے، ہاتھ پاؤں رنگے، سرمہ لگائے ہر بات کرے مگر مرد کی نافرمانی نہ کرے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا شفاء سے یہ فرمانا کہ حفصہ (رض) کو نملہ کا منتر سکھا دو حقیقت میں تعریض کے طور پر تھا اور اس کا ایک خاص پس منظر تھا اور وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت حفصہ (رض) کو ایک راز کی بات سنائی تھی، لیکن حفصہ (رض) نے اس کو فاش کردیا اس کا ذکر قرآن کریم کی سورت تحریم میں بھی کیا گیا ہے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے شفاء سے مذکورہ ارشاد فرما کر گویا حضرت حفصہ (رض) کو نصیحت کی اور ان کو متنبہ کیا کہ تم نے میرے بتائے ہوئے راز کو ظاہر کر کے شوہر کی نافرمانی کی ہے جو نہ صرف تمہارے مقام و مرتبہ کے منافی بات ہے بلکہ وفا شعار عورت کی اس خصوصیت کے بھی منافی ہے کہ وہ شوہر کی نافرمانی کرنا گوارا نہیں ہوتی۔ ایک حدیث میں عورتوں کو لکھنا سکھانے کی ممانعت منقول ہے، چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا لاتعلم الکتابۃ اس کے برخلاف اس حدیث میں اس کا جواز ثابت ہوتا ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ اس حدیث کا تعلق اس وقت سے ہو جب کہ آنحضرت ﷺ نے یہ ممانعت ارشاد نہیں فرمائی تھی گویا ممانعت والی حدیث بعد کی ہے اور یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے وہ پہلے کی ہے۔ بعض حضرات اس بارے میں کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کی ایک خاص حیثیت تھی اس بنا پر بعض احکام و فضائل میں بھی ان کو مخصوص رکھا گیا ہے لہٰذا ممانعت کا تعلق اور تمام عورتوں سے ہے کہ ان کا اس فتنہ و برائی میں مبتلا ہوجانا عین ممکن ہے جو مذکورہ ممانعت کی بنیاد ہے۔ جب کہ ازواج مطہرات کے بارے میں اس طرح کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے اس لئے ان کو لکھنا سیکھنے کی اجازت تھی۔ خطابی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کو لکھنا سکھانا مکروہ ہے اور ملا علی قاری نے کہا ہے کہ یہ احتمال ہے کہ اس وقت یعنی زمانہ رسالت میں عورتوں کو لکھنا سکھانا جائز ہو لیکن فتنہ و فساد میں مبتلا ہوجانے کے خوف کے سبب سے بعد کی عورتوں کے لئے جائز نہ ہو بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ لکھنا سکھانے کا مذکورہ حکم صرف حضرت حفصہ (رض) کے لئے تھا دوسری عورتوں کے لئے نہیں۔

【51】

نظر لگنے کا ایک واقعہ

اور حضرت ابوامامہ (رض) بن سہل ابن حنیف کہتے ہیں کہ (ایک دن) عامر بن ربیعہ (رض) نے (میرے والد) سہل بن حنیف (رض) کو نہاتے ہوئے دیکھا۔ تو کہنے لگا کہ اللہ کی قسم (سہل کے جسم اور ان کے رنگ و روپ کے کیا کہنے) میں نے تو آج کے دن کی طرح (کوئی خوبصورت بدن کبھی) نہیں دیکھا۔ اور پردہ نشین (خوبصورت عورت) کی بھی کھال (سہل کی کھال جیسی نازک وخوش رنگ) نہیں دیکھی۔ ابوامامہ کہتے ہیں کہ (عامر کا) یہ کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوا (جیسے) سہل کو گرا دیا گیا (یعنی ان کو عامر کی ایسی نظر لگی کہ وہ فوراً غش کھا کر گرپڑے) چناچہ ان کو اٹھا کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ سہل کے علاج کے لئے کیا تجویز کرتے ہیں ! اللہ کی قسم یہ تو اپنا سر بھی اٹھانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ آنحضرت ﷺ نے سہل کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ کیا کسی شخص کے بارے میں تمہارا خیال ہے کہ اس نے ان کو نظر لگائی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ( جی ہاں) عامر بن ربیعہ (رض) کے بارے میں ہمارا گمان ہے کہ انہوں نے نظر لگائی ہے راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ( یہ سن کر) عامر کو بلایا اور ان کو سخت سست کہا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں مار ڈالنے کے درپے ہوتا ہے تم نے سہل کو برکت کی دعا کیوں نہیں دی ( یعنی اگر تمہاری نظر میں سہل کا بدن اور رنگ و روپ بھا گیا تھا تو تم نے یہ الفاظ کیوں نہ کہے بارک اللہ علیک تاکہ ان پر تمہاری نظر کا اثر نہ ہوتا) پھر آپ ﷺ نے عامر کو حکم دیا کہ ( تم سہل کے لئے اپنے اعضاء کو) دھوؤ اور اس پانی کو اس پر ڈال دو چناچہ عامر نے ایک برتن میں اپنا منہ ہاتھ کہنیاں گھٹنے دونوں پاؤں کی انگلیوں کے پورے اور زیر ناف جسم ( یعنی ستر اور کو لھوں) کو دھویا اور پھر وہ پانی جس سے عامر نے یہ تمام اعضاء دھوئے تھے سہل پر ڈالا گیا اس کا اثر یہ ہوا کہ سہل فورا اچھے ہوگئے اور اٹھ کر لوگوں کے ساتھ اس طرح چل پڑے جیسے ان کو کچھ ہوا ہی نہیں تھا ( شرح السنتہ مؤطا امام مالک) اور امام مالک کی ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ٹوکنے والے سے فرمایا کہ نظر بد حق ہے تم نظر زدہ کے لئے وضو کرو چناچہ اس نے نظر زدہ کے لئے وضو کیا تشریح نووی کہتے ہیں کہ علماء کے نزدیک نظر لگانے والے کے وضو کی صورت یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ تحیقق ہو کہ اس نے نظر لگائی ہے کہ اس کے سامنے کسی برتن یعنی پیالہ وغیرہ میں پانی لایا جائے اس برتن کو زمین پر نہ رکھا جائے پھر نظر لگانے والا اس برتن میں سے ایک چلو پانی لے کر کلی کرے اور اس کلی کو اسی برتن میں ڈالے پھر اس سے پانی لے کر اپنا منہ دھوئے پھر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر دائیں کہنی اور دائیں کہنی اور دائیں ہاتھ میں پانی لے کر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر بائیں کہنی دھوئے اور ہتھیلی و کہنی کے درمیان جو جگہ ہے اس کو نہ دھوئے پھر داہنا پیر اور پھر اس کے بعد بایاں پیر دھوئے پھر اسی طرح پہلے داہنا گھٹنا اور بعد میں بایاں گھٹنا دھوئے اور پھر آخر میں تہبند کے اندر زیر ناف جسم کو دھوئے اور ان سب اعضاء کو اسی برتن میں دھویا جائے ان سب کو دھونے کے بعد اس پانی کو نظر زدہ کے اوپر اس کی پشت کی طرف سے سر پر ڈال کر بہا دے واضح رہے کہ اس طرح کا علاج اسرار و حکم سے تعلق رکھتا ہے جو عقل وسمجھ کی رسائی سے باہر کی چیز ہے لہذا اس بارے میں عقلی بحث کرنا لا حاصل ہے مارزی نے کہا ہے کہ مذکورہ اعضاء جسم کو دھونے کا حکم وجوب کے طور پر ہے لہذا نظر لگانے والے کو اس بات پر طاقت کے ذریعہ مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ نظر زدہ کے لئے مذکورہ وضو کرے نیز انہوں نے کہا ہے کہ اس حکم کی خلاف ورزی کرنا انسانیت سے بعید ہے خاص طور سے اس صورت میں جب کہ نظر زدہ کے ہلاک ہوجانے کا خوف ہو قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ جو شخص نظر لگانے کے بارے میں مشہور و معروف ہوجائے تو اس سے اجتناب کرنا اور اس کے سامنے آنے میں احتیاط کرنا لازم ہے اور امام سربراہ حکومت کے لئے مناسب ہے کہ وہ ایسے شخص کو لوگوں میں آنے جانے اور بیٹھنے اٹھنے سے روک دے اور اس پر یہ پابندی عائد کر دے کہ وہ اپنے گھر میں ہی رہا کرے گھر سے باہر نہ نکلا کرے اور اگر وہ شخص محتاج و فقیر ہو کہ اپنی گزر و بسر کرنے کے لئے لوگوں کے پاس آنے جانے پر مجبور ہو تو بیت المال سرکاری خزانے سے اس کے لئے بقدر کفایت وظیفہ مقرر کر دے تاکہ وہ گزر اوقات کرسکے حاصل یہ کہ ایسے شخص کا ضرر جذامی کے ضرر سے بھی سخت و شدید ہے لہذا اس بارے میں احتیاط لازم ہے امام نووی نے اس قول کی تائید کی ہے اور کہا کہ یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے بالکل صحیح اور ناقابل بردید ہے کیونکہ اس کے متعلق علماء میں سے کسی کا بھی کوئی اختلافی قول ہمارے علم میں نہیں ہے

【52】

پناہ مانگنے کا ذکر

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جنات سے اور انسان کا نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے یہاں تک کہ معوذات یعنی سورت قل اعوذ برب الناس اور سورت قل اعوذبرب الفلق نازل ہوئیں جب یہ سورتیں نازل ہوئیں تو آپ ان سورتوں کے ذریعہ دعا مانگنے لگے اور ان کے علاوہ دوسری چیزوں سے پناہ مانگنی چھوڑ دی ( ترمذی ابن ماجہ) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

【53】

پناہ مانگنے کا ذکر

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تمہارے اندر (یعنی انسانوں میں) میں مغربون دکھائی دیتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا مغربون کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔ مغربون وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ جنات یعنی شیاطین شریک ہوتے ہیں ؟ (ابوداؤد) اور حضرت ابن عباس (رض) کی روایت خیر ما تداویتم الخ الترجل میں نقل کی جا چکی ہے۔ تشریح حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے جماع کرتے وقت اللہ کا ذکر نہ کرے یعنی یہ دعا نہ پڑھے بسم اللہ اللہم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان ما رزقنا تو اس پر شیطان اثر انداز ہوتا ہے بایں طور پر شیطان اس شخص کے نطفہ اور اس کے ہونے والی اور اس کے ستر سے اپنا ملا لیتا ہے اور اس کے ساتھ عورت سے جماع کرتا ہے اس طرح شیطان اس شخص کے نطفہ اور اس کے ہونے والی اولاد میں شریک ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں بھی فرمایا گیا ہے کہ آیت (وشارکہم فی الاموال والاولاد) اس سے معلوم ہوا کہ مغربون کے معنی ہیں وہ لوگ جو جماع کے وقت الٰہی سے روگردانی کرتے ہیں اور اپنے نفس کو ذکر حق سے دور کردیتے ہیں۔ یا وہ جماع کے وقت الٰہی سے غفلت اختیار کر کے اور گویا وظیفہ زوجیت میں شیطان کو اپنا شریک بنا کر اپنی پیدا ہونے والی اولاد کو اپنی جنس سے دور کردیتے ہیں اور اپنی نسل اور اپنے نسب میں گویا اجنبی خون کو شامل کرتے ہیں لہذا جماع کا وقت چونکہ سر شاری و غلفت کا وقت ہوتا ہے اس لئے اس موقع پر اختیاط و ہوشیاری اختیار کر کے ذکر الٰہی یعنی مذکورہ دعا پڑھنے سے چوکنا نہ چاہئے تاکہ اس بلاء و فتنہ سے محفوظ رہے۔ واضح رہے کہ آج کے ابناء روز گار (افراد انسانی میں) جو عام بےراہ روی، فتنہ و فساد اور مختلف قسم کی برائیاں پائی جاتی ہیں ان کا سبب اس حدیث کی روشنی میں بالکل ظاہر ہے کہ لوگوں نے عام طور پر مذکورہ ہدایت کو فراموش کر کے ذکر الٰہی کو ترک کردیا ہے جس کے نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ پیدا ہونے والی نسل پوری طرح شیطانی اثرات لئے ہوئے دنیا میں آتی ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں، شیطان کی شرکت کا مطلب یہ ہے کہ شیطان ان لوگوں کو زنا کی طرف راغب کرتا ہے اور ان کی نظر میں بدکاری کو اچھے سے اچھے روپ میں پیش کرتا ہے جس کی بنا پر وہ اس برائی میں مبتلا ہو کر نالائق اور غیر صالح او لاد کی پیدائش کا ذریعہ بنتے ہیں یا یہ شیطان ان لوگوں کی عورتوں و بیویوں کو زنا کی طرف مائل کرتا ہے اور ان کو غیر مردوں کے ساتھ ملوث کراتا ہے اور اس کے نتیجہ میں نالائق اولاد پیدا ہوتی ہے۔

【54】

معدے کی مثال

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (آدمی کا) معدہ بدن کا حوض ہے اور پیٹ کی رگیں (جو اعضاء جسم سے پیوستہ ہیں) معدہ کی طرف (پانی پینے والے کی طرح) آتی ہیں جب معدہ درست ہوتا ہے تو یہ رگیں معدہ سے صحت بخش رطوبات کے ساتھ اعضاء کی طرف جاتی ہیں (جس سے بدن کو صحت و طاقت حاصل ہوتی ہے) اور جب معدہ خراب ہوتا ہے تو یہ رگیں فاسد رطوبات کے ساتھ اعضاء کی طرف جاتی ہیں (جس سے بدن کو بیماری اور ضعف لاحق ہوجاتا ہے ) ۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ انسان کے بدن اور اس کے معدہ کے درمیان وہی نسبت ہے جو پانی کے تالاب وغیرہ اور درخت کے درمیان ہے کہ جس طرح کسی تالاب کے کنارے یا پانی میں کھڑا ہوا درخت اپنے رگ و ریشہ کے ذریعہ پانی سے حیات بخش رطوبات حاصل کرتا ہے اسی طرح جسم انسانی مختلف رگوں کے ذریعہ اپنے معدہ سے صحت و طاقت کی رطوبات حاصل کرتا ہے چناچہ اگر پانی صاف و شیریں ہوتا ہے تو وہ درخت کی تازگی اور نشو و نما کا سبب بنتا ہے اور اگر پانی گدلا اور کھارا ہوتا ہے تو وہ درخت کی پژمزدگی وخش کی کا باعث بن جاتا ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حدیث کو طب نبوی پر محمول کیا جائے اس صورت میں مذکورہ بالا ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہوگا کہ انسان کے اقوال و افعال، کردار و عادات اور اخلاق واطوار اس کی غذا و خوراک کے مطابق ہوتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے پیٹ میں حرام غذا داخل ہوتی ہے تو اس کے اعضاء جسم سے حرام افعال و اقوال صادر ہوتے ہیں اسی طرح اگر کسی شخص کے پیٹ میں کھانے پینے کی فضول وغیرہ مناسب چیزیں جاتی ہیں تو اس کے جسم کے ہر چھوٹے بڑے عضو سے فضول و غیر مناسب افعال وغیرہ صادر ہوتے ہیں اس کے برخلاف جس شخص کے پیٹ میں حلال و پاک غذائیں جاتی ہیں اس کے اعضاء وجسم سے صالح و پاکیزہ افعال صادر ہوتے ہیں گویا انسان کی غذا اس کے افعال کا تخم ہے اور افعال بمنزلہ روئیدگی کے ہیں اور اس کے پیٹ میں جس طرح کی غذا جائے گی اس کے اعضاء سے اسی طرح کے افعال ظاہر ہوں گے جیسا کہ کہا گیا ہے۔ اناء یترشح بما فیہ یعنی ہر برتن سے وہی چیز ٹپکتی اور نکلتی ہے جو اس کے اندر ہوتی ہے۔ اسی لئے حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ آیت (کلوا من الطبیت واعملوا صالحا) ۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے من نبت لحمہ من سحت فالنار اولی بہ۔ بعض محدثین نے اس حدیث کے بارے میں کلام کیا ہے اور بعض نے تو اس کو موضوع من گھڑت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ لااصل لہ (یعنی اس حدیث کو کوئی اصل نہیں ہے) لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ باطل ہے اور اس کی کوئی اصل نہیں ہے غیر صحیح بات کیونکہ تعدد طرق کے سبب اور طبرانی وبہیقی کی روایت کی بنا پر اس کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور اس بنا پر اس حدیث کو بلا شک و شبہ حسن یا ضعیف کہا جاسکتا ہے۔

【55】

بچھو کے کاٹے کا علاج

اور حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ ایک روز رات میں رسول کریم ﷺ نے نماز پڑھتے ہوئے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا تھا کہ اس (ہاتھ) کی انگلی میں بچھو نے کاٹ لیا، آپ ﷺ نے اپنی پاپوش مبارک کے ذریعہ اس بچھو کو مار ڈالا اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ بچھو پر اللہ کی لعنت ہو، نہ نمازی کو چھوڑتا ہے نہ غیر نمازی کو یا یہ فرمایا کہ نبی کو چھوڑتا ہے نہ غیر نبی کو اس کے بعد آپ ﷺ نے نمک اور پانی منگوایا اور دونوں کو ایک برتن میں گھول دیا اور پھر آپ ﷺ اس چیز کو (جو برتن میں تھی یعنی پانی اور نمک) کو انگلی کے اس حصے پر ڈالتے جاتے تھے جہاں بچھو نے کاٹا تھا اور انگلی کو ملتے جاتے تھے، نیز قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھتے جاتے تھے، ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

【56】

آنحضرت ﷺ کے موئے مبارک کی برکت

اور حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ ایک دن میرے گھر والوں نے مجھ کو پانی کا ایک پیالہ دے کر ام المؤمنین حضرت ام سلمہ (رض) کے پاس بھیجا۔ معمول یہ تھا کہ جب کسی کو نظر لگتی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو ام سلمہ (رض) کے پاس ایک پیالہ بھیجا جاتا اور ام سلمہ (رض) رسول پاک ﷺ کا موئے مبارک نکالتیں جس کو وہ چاندی کی ایک نلکی میں رکھتی تھیں اور اس موئے مبارک کو پانی میں ڈال کر ہلاتیں اور پھر مریض اس پانی کو پی لیتا جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کو شفا عطا فرما دیتا راوی کہتے ہیں کہ میں نے چاندی کی اس نلکی میں جھانک کر دیکھا تو مجھ کو آنحضرت ﷺ کے کئی سرخ بال نظر آئے۔ ! (بخاری) تشریح طیبی کہتے ہیں کہ اس موقع پر چاندی کا استعمال موئے مبارک کی تعظیم و توقیر کے پیش نظر تھا، جیسا کہ کعبہ مکرمہ پر ریشمی کپڑے کا پردہ ڈالا جاتا ہے۔ جہاں تک ان بالوں کی سرخی کا تعلق ہے تو ہوسکتا ہے کہ موئے مبارک خلقی طور پر سرخ ہی تھے۔ یا تھے تو بھورے مگر دیکھنے میں سرخ معلوم ہوتے تھے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان پر مہندی کا خضاب ہوگا جس کی وجہ سے وہ سرخ تھے۔ یا چونکہ ان کو خوشبوؤں میں رکھا جاتا تھا اس لئے ان خوشبوؤں کی وجہ سے ان کا رنگ متغیر ہوگیا تھا۔ اور وہ سرخ نظر آنے لگتے تھے۔

【57】

کھنبی کے خواص

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کئی حضرات نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کھنبی زمین کی چیچک ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (نہیں) بلکہ کھنبی من کی قسم سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے اور عجوہ (جو کھجور کی سب سے نفیس اور عمدہ قسم ہے) جنت کی کھجور ہے اور اس میں زہر سے شفا کی خاصیت ہے حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد سن کر) میں نے تین یا پانچ یا سات کھنبیاں لیں اور ان کو نچوڑ لیا (یعنی کوٹ کر ان کا عرق نکال لیا) اور اس پانی (عرق) کو ایک شیشی میں بھر کر رکھ لیا پھر میں نے اس پانی کو اپنی ایک چندھی لونڈی کی آنکھوں میں ڈالنے لگا تو وہ اچھی ہوگئی۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔ تشریح کھنبی زمین کی چیچک ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح چیچک کے دانے دراصل جسم میں پیدا ہوجانے والے ناقص، فضلات ہوتے ہیں جو جلد میں سے باہر نکل آتے ہیں، اسی طرح یہ کھنبی بھی زمین کا فضلہ ہے۔ جو زمین سے باہر نکل آتی ہے۔ صحابہ نے یہ بات گویا کھنبی کی مذمت کے طور پر کہی، لیکن آنحضرت ﷺ نے ان کے خیال کو رد کرنے کے لئے کھنبی کی فضیلت و تعریف اور اس کی منفعت بیان فرمائی کہ کھنبی من کی قسم سے ہے یعنی یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جو اس نے اپنے بندوں کو بطور احسان عطا فرمائی ہے اس کو حاصل کرنے کے لئے نہ زمین کو کھودنے بونے کی مشقت کرنا پڑتی ہے اور نہ پانی دینے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے بلکہ یہ خود بخود زمین کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور بہت سے لوگوں کے کھانے اور پیٹ بھرنے کی ضرورت پوری کرتی ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس جملہ کے ذریعہ کھنبی کو اس من کے ساتھ مشابہت دی جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم پر اتری تھی، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم پر ان کی محنت و مشقت کے بغیر من اترتی تھی اسی طرح یہ کھنبی بھی تخم ریزی کی محنت ومشقت کے بغیر زمین سے نکلتی ہے یہ قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ ایک روایت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ الکمأۃ من المن والمن من الجنۃ یعنی کھنبی من کی قسم سے ہے اور من جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے کے بارے میں نووی لکھتے ہیں کہ بعض علماء کے نزدیک محض کھنبی کا پانی آنکھ کو شفا بخشتا ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس کا پانی اس صورت میں شفا دیتا ہے جب کہ اس میں آنکھ کے امراض کے مطابق دوسری دوائیں بھی ملائی جائیں، نیز بعضوں کے نزدیک یہ تفصیل ہے کہ اگر آنکھ کو گرمی سے ٹھنڈک پہنچانا مقصود ہو (یعنی آنکھ گرمی کی وجہ سے دکھتی ہو) تو صرف اس کا پانی ہی مفید ہے ورنہ دوسری صورتوں میں اس کے پانی کو دوسری دواؤں میں ملا کر آنکھ میں ڈالنا مفید ہوگا۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ہر صورت میں کہ آنکھ خواہ گرمی کی وجہ سے دکھتی ہو یا کسی اور وجہ سے محض اس کا پانی شفا بخش ہے، چناچہ بعض مشائخ کے بارے میں منقول ہے کہ اس کی بنیائی بالکل جاتی رہی تھی اور انہوں نے آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی ﷺ پر مکمل اعتقاد رکھتے ہوئے اور اس کو متبرک جانتے ہوئے اپنی آنکھوں میں محض کھنبی کا پانی ڈالنا شروع کیا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حسن اعتقاد اور آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کی برکت کی بناء پر ان کی آنکھوں کو شفائے کامل عطا فرمائی۔

【58】

شہد کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص ہر مہینے میں تین دن صبح کے وقت شہد چاٹ لیا کرے تو وہ کسی بڑی مصیبت میں مبتلا نہیں ہوتا۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ شہد کی برکت و خاصیت سے بڑی مصیبت و بلا تک دفع ہوجاتی ہے خواہ وہ کسی سخت بیماری کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں چہ جائیکہ کوئی چھوٹی مصیبت و بلا ہو۔ سفر السعادۃ کے مصنف نے لکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ روزانہ ایک پیالہ میں شہد کو پانی میں ملا کر گھونٹ گھونٹ نوش فرماتے تھے، علماء نے لکھا ہے کہ شہد کو پانی میں ملا کر پینے سے حفظان صحت وہ نعمت حاصل ہوتی ہے جس کی معرفت کی راہ عارفین ہی جان سکتے ہیں چناچہ شہد کے جو بیشمار فوائد و خواص ہیں ان کی بناء پر ارباب طب و تحقیق کا یہ فیصلہ ہے کہ شہد بلا شبہ ایک ایسی نعمت الہٰی ہے جس کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا، جالینوس کا کہنا ہے کہ خالص طور پر بیماریوں کے لئے شہد بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ اطباء لکھتے ہیں کہ نہار منہ شہد کو پینا یا چاٹنا بلغم کو چھانٹتا ہے۔ معدے کو صاف کرتا ہے لزوجت اور فصلات کو دور کرتا ہے، معدے کو اعتدال کے ساتھ گرمی پہنچاتا ہے اور سدوں کو کھولتا ہے، علاوہ ازیں یہ جلندر، استرخاء اور ہر قسم کے ریاح کو زائل کرتا ہے، پیشاب، حیض اور دودھ کو جاری کرتا ہے مثانہ و گردہ کی پتھری کو توڑتا ہے اور رطوبت ردیہ کو دفع کرتا ہے۔

【59】

شہد کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ شفا دینے والی دونوں چیزوں کو اپنے اوپر لازم کرلو، ایک تو شہد دوسرے قرآن۔ ان دونوں روایتوں کو ابن ماجہ اور بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے نیز بہیقی نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ دوسری حدیث (یعنی علیکم بالشائین) مرفوع (آنحضرت ﷺ کا ارشاد) نہیں ہے بلکہ ابن مسعود (رض) پر موقوف ہے یعنی ان کا اپنا قول ہے۔ تشریح شہد کی یہ فضیلت اس لئے ہے کہ اس میں شفا کا ہونا قرآن کریم سے ثابت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فیہ شفاء للناس۔ یعنی اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے اور خود قرآن مجید بھی کائنات انسانی کے لئے شفاء و رحمت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت (ھدی و شفاء الما فی الصدور) (یعنی یہ قرآن دلوں کی بیماریوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے) لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ شہد تو محض ظاہری جسمانی بیماریوں کے لئے شفا ہے جب کہ قرآن کریم ظاہر و باطن یعنی جسم و روح دونوں کی بیماریوں کے لئے شفا ہے اسی لئے قرآن کریم کے حق میں ہدی وشفآء فرمایا گیا ہے۔

【60】

بلا ضروت سر پر پچھنے لگوانا قوت حافظہ کے لئے نقصان دہ ہے

اور حضرت ابوکبشہ انماری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس بیماری کے سبب کہ جو بکری کا زہر آلود گوشت کھا لینے کی وجہ سے لاحق ہوگئی تھی اپنے پر سینگی کھنچوائی۔ (حدیث کے ایک راوی) معمر کا بیان ہے کہ میں نے کوئی زہر آلود چیز کھائے بغیر اس طرح اپنے سر پر سینگی کھنچوائی، تو میں اپنے حافظہ کی خوبی سے محروم ہوگیا۔ یہاں تک کہ مجھ کو نماز میں الحمد سیکھنے کی ضرورت پیش آتی تھی !۔ (رزین ) تشریح اس سے معلوم ہوا کہ کسی علت و سبب کے بغیر کہ جو سر میں سے خون نکلوانے کو ضروری قرار دے، سر پر سینگی کھنچوانا اور خون نکلوانا قوت حافظہ کو نقصان پہنچانے کا باعث ہے۔

【61】

سینگی کھنچوانے کے دن

اور حضرت نافع (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ نافع (رض) میرے جسم میں خون جوش کھا رہا ہے۔ ذرا تم سینگی کھنچنے والے کو بلا لاؤ، لیکن جوان آدمی کو لانا، کسی بوڑھے یا بچے کو مت پکڑ لانا (کیونکہ طاقت ور آدمی زیادہ اچھی طرح سینگی کھنچے گا) نافع (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ بھری ہوئی سینگی نہار منہ کھنچوانا زیادہ بہتر ہے اس سے عقل میں زیادتی ہوتی ہے (جس شخص کے حافظہ نہیں ہوتا) اس کے حافظہ تیز ہوتا ہے اور جس شخص کے حافظہ تیز ہوتا ہے اس کے حافظہ میں زیادتی ہوتی ہے، لہٰذا جو شخص سینگیاں کھنچوانا چاہے وہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جمعرات کے دن سینگی کھنچوائے اور جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو سینگی کھنچوانے سے اجتناب کرو، پھر پیر اور منگل کے دن کھنچوائے اور بدھ کے دن سینگی کھنچوانے سے اجتناب کرو، کیونکہ بدھ کا دن وہ دن ہے جس میں حضرت ایوب (علیہ السلام) مبتلائے بلاء ہوئے اور جذام یا کوڑھ کی بیماریاں بدھ کے دن یا بدھ کی رات میں ظاہر ہوتی ہیں۔ (ابن ماجہ) تشریح جس میں حضرت ایوب (علیہ السلام) مبتلائے بلا ہوئے سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کا بلاء میں مبتلا رہنا اسی سبب سے تھا کہ انہوں نے بدھ کے دن سینگی کھنچوائی تھی اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مفسرین نے اس کے مبتلائے بلاء ہونے کے اور بھی اسباب بیان کئے ہیں۔ تو ہوسکتا ہے کہ ان اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہوگا۔ علماء نے لکھا ہے کہ دوسری فصل میں حضرت کبشہ بنت ابی بکرہ (رض) کی جو روایت گزری ہے تو اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ منگل کے دن سینگی کھنچوانا مناسب نہیں ہے جب کہ یہاں اس کے برخلاف بیان کیا گیا ہے۔ لہٰذا ان دونوں روایتوں کے درمیان اس تضاد کو اس قول کے ذریعہ دور کیا جاسکتا ہے کہ اگر حضرت کبشہ (رض) کی روایت کو صحیح مان لیا جائے تو یہاں نقل کی گئی روایت میں منگل سے مراد وہ منگل ہوگا۔ جو چاند کی سترھویں تاریخ کو واقع ہوتا ہو جیسا کہ آگے آنے والی روایت سے واضح ہوتا ہے۔ روایت کے آخری الفاظ کے ذریعہ جو حصر بیان کیا گیا ہے کہ جذام اور کوڑھ کی بیماریاں صرف بدھ کے دن یا بدھ کی رات میں پیدا ہوتی ہیں تو یہ حصر اکثر کے اعتبار سے اور از راہ مبالغہ ہے۔

【62】

سینگی کھنچوانے کے دن

اور حضرت معقل بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ منگل کے دن سترھویں تاریخ کو سینگی کھنچوانا سال بھر کی بیماریوں کا علاج ہے اس روایت کو حرب بن اسماعیل کرمانی نے نقل کیا ہے جو امام احمد بن حنبل کے مصاحب ہیں اور روایت کی اسناد ایسی قوی نہیں ہے کہ اس پر اعتماد کیا جاسکے (ابن جارود) منتقی میں بھی اسی طرح منقول ہے، نیز اسی طرح کی روایت رزین نے بھی حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کی ہے۔ تشریح منگل کے دن سینگی کھنچوانے کے سلسلے میں چوں کہ مختلف روایتیں منقول ہیں اس لئے زیادہ بہتر اور مناسب یہی ہے کہ منگل کے دن سینگی کھنچوانے سے اجتناب کیا جائے۔ تاوقتیکہ کوئی شدید ضرورت پیش آئے۔

【63】

سحر کے احکام

اس باب میں منتر و افسوں اور جھاڑ پھونک وغیرہ کے متعلق احکام و مسائل بیان ہوئے ہیں اب جب کہ باب ختم ہو رہا ہے، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مناسبت سے سحر و جادو کے احکام و اقسام کے سلسلے میں کچھ تفصیل بیان کردی جائے اس مقصد کے لئے خاص طور حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے منقولات کو منتخب کیا گیا ہے جو انہوں نے آیت کریمہ (وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ ) 2 ۔ البقرۃ 102) کے تحت سحر کے اقسام و احکام کی وضاحت میں بیان کئے ہیں ان معقولات و فرمودات کا ترجمہ و خلاصہ اور اس کی روشنی میں چند دوسری باتیں نقل کی جاتی ہیں۔ جاننا چاہئے کہ سحر کے حکم کی مختلف صورتیں ہیں اگر سحر کرنے والے نے کوئی ایسا قول و فعل اختیار کیا جو کفر کا موجب ہو جیسے بتوں، دیوی، دیوتاؤں اور ارواح خبیثہ کا نام ایسی تعظیم وصفت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہو جو صرف رب العزت ہی کے شایان شان ہے مثلا ان بتوں وغیرہ کے لئے عموم علم، قدرت و تصرف اور غیب دانی و مشکل کشائی وغیرہ ثابت کی گئی ہو، یا غیر اللہ کے لئے ذبح کیا گیا ہو، غیر اللہ کے لئے سجدہ کیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ تو ایسا سحر بلا شبہ کفر ہوگا اور اس سحر کو کرنے والا مرتد قرار پائے گا اسی طرح جس شخص نے اپنے کسی مطلب کے حصول کے لئے اس طرح کا سحر دیدہ دانتسہ کرایا ہوگا تو وہ بھی کافر ہوجائے گا اور اس پر ارتداد کے احکام نافذ ہوں گے، اگر وہ مرد ہے تو پہلے اس کو تین دن کی مہلت دینی چاہئے اگر تین دن کے بعد اس نے صحیح توبہ نہ کی تو اس کو مار ڈالا جائے اور اس کی لاش کو پھینک دیا جائے نہ مسلمان میت کی طرح اس کی تجہیز وتکفین کی جائے نہ اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے اور نہ فاتحہ و درود و صدقات کے ذریعہ ایصال ثواب کیا جائے اور اگر وہ عورت ہے تو حضرت امام شافعی کے مسلک کے مطابق اس کو بھی مردوں کی طرح تین دن کی مہلت کے بعد قتل کردیا جائے اور جب کہ حضرت امام اعظم کے نزدیک عورت کو ہمیشہ کے لئے قید میں ڈال دیا جائے جب تک کہ وہ توبہ نصوح نہ کرے۔ اور اگر سحر میں کوئی ایسا قول وفعل نہ ہو ارتداد و کفر کا موجب ہوتا ہے، لیکن سحر کرنے والا اس بات کا دعوی کرے کہ میں اپنے اس جادو کے زور سے وہ کام کرسکتا ہوں جو اللہ کرتا ہے۔ مثلا میں انسان کو جانور کی صورت میں تبدیل کرسکتا ہوں یا لکڑی کو پتھر اور پتھر کو لکڑی بنا سکتا ہوں یا ایسے کام کرسکتا ہوں جو پیغمبر کرسکتے ہیں اور ان معجزات کی طرح میں بھی معجزہ دکھا سکتا ہوں مثلاً میں ہوا میں اڑ سکتا ہوں یا ایک مہینے کی مسافت ایک لمحے میں طے کرسکتا ہوں تو اس کو بھی اس دعوے کی وجہ سے مرتد و کافر قرار دیا جاسکتا ہے نہ کہ نفس سحر کے سبب۔ اگر وہ یوں کہے کہ میرے عملیات میں ایک خاصیت ہے اور وہ یہ کہ میں اپنے عمل جادو کے ذریعہ کسی جاندار کو جان سے مار سکتا ہوں، یا کسی تندرست کو بیمار اور بیمار کو تندرست کرسکتا ہوں یا میں لوگوں کے خیالات تک کو اچھا یا برا بنا سکتا ہوں تو اس کا یہ سحر جھوٹ بولنے اور فسق اختیار کرنے کے حکم میں ہوگا اور وہ (سحر کرنے والا) فاسق و کا ذب قرار پائے گا اور وہ اپنے اس عمل (سحر) کے ذریعہ کسی بےگناہ کو ہلاک کر ڈالے تو اس کو قزاق اور قاتل کی طرح سزائے موت دے کر مار ڈالا جائے کیونکہ وہ اپنے اس عمل کے ذریعہ فتنہ و فساد پھیلانے اور بےگناہوں کو ہلاکت میں ڈالنے کا مجرم قرار پائے گا۔ اس بارے میں ساحر اور ساحرہ کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔ ایک روایت میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ سے یہ منقول ہے کہ جس شخض کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ سحر کرتا ہے اور اقرار و تنبیہ کے ذریعہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو اس کو مار ڈالنا چاہئے اس سے توبہ کا مطالبہ کرنے یا مہلت دینے کی ضرورت نہیں ہے اگر وہ کہے کہ میں سحر کو ترک کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں تو اس کی بات کو قبول نہ کرنا چاہئے۔ ہاں اگر وہ یوں کہے کہ میں پہلے تو بیشک سحر کرتا تھا مگر ایک مدت سے اپنے فعل سے باز آگیا ہوں تو اس کے اس قول کو قبول کرلیا جائے اور اس کو معاف کردیا جائے۔ حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے سحر کیا اور اس کے سحر کی وجہ سے سحر زدہ مرگیا تو ساحر سے جواب طلب کرنا چاہئے اگر وہ اقرار کرے کہ میں نے اس شخص پر سحر کیا تھا اور میرا سحر اکثر اوقات جان لے لیتا ہے تو اس پر قصاص واجب ہوگا اور اگر یہ کہے کہ میں نے اس شخص پر سحر کیا تھا اور میرا سحر کبھی جان لے لیتا ہے اور کبھی جان نہیں لیتا ہے تو یہ قتل عمد کے حکم میں ہوگا اور اس پر شبہ عمد کے احکام نافذ ہوں گے اور اگر وہ یوں کہے کہ سحر تو میں نے کسی دوسرے شخص کے لئے سحر کیا گیا تھا اور اس وجہ سے اس کا اثر اس شخص پر ہوگیا اور یہ ہلاک ہوگیا تو یہ قتل خطاء کے حکم میں ہوگا اور اس ( ساحر) پر قتل خطاء کے احکام نافذ ہوں گے اس موقع پر ایک اشکال واقع ہوتا ہے جو اکثر ذہنوں میں خلجان پیدا کرسکتا ہے اور وہ یہ کر خرق عادت افعال کہ جو محض قدرت الٰہی سے صادر ہوتے ہیں اکثر اولیاء اللہ کے ذریعہ ظہور میں آتے ہیں جیسے تقلیب اعیان یا تبدیلی صورت یا اسی طرح کے وہ افعال جو پیغبروں کے معجزات کے مشابہ ہوتے ہیں جیسے مردہ کو زندہ کردینا یا دور دراز کے سفر کو ایک لمحہ میں طے کرلینا علاوہ ازیں اولیاء اللہ سے اسی طرح کی اور بہت سی چیزوں کا صادر ہونا ثابت جن کو ان اولیاء اللہ کے مستند سوائح نگاروں نے ان کے مناقب و کرامت کے ضمن میں لکھا ہے۔ لہٰذا اگر افعال الہٰی کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا کفر ہے تو ان اولیاء اللہ سے صادر ہونے والے خرق عادت افعال کی صورت میں بھی کفر لازم آنا چاہئے اور اگر یہ کہا جائے کہ اولیاء اللہ سے جو خرق عادت فعل ہونے کا ایک ظاہری سبب و ذریعہ بنتے ہیں اس لئے ان پر کفر کا اطلاق نہیں ہوتا تو پھر ساحروں کے حق میں کفر کا حکم کیوں کیا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی ان افعال کے صادر ہونے کا ظاہری سبب و ذریعہ ہی تو ہوتے ہیں نہ کہ حقیقی فاعل بلکہ علاوہ ازیں دعا تعویذ کرنے والے اور عاملین کہ جو اپنے کہ جو اپنے عملیات اور دعاؤں کے ذریعہ ساحروں کی طرح کتنے ہی محیر العقول کارنامہ انجام دیتے ہیں اور اس طرح وہ بھی گویا پوری طرح ساحروں کے مشابہ ہوتے ہیں تو ان کے افعال پر بھی کفر کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا اور ان کے اور ساحروں کے درمیان فرق کیوں کیا جاتا ہے ؟ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ خرق عادت افعال خواہ وہ معجزات کے مشابہ ہوتے ہیں اور خواہ کسی اور طرح کے ہوں سب اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اسی ارادہ و حکم سے اور اسی کے پیدا کرنے سے صادر و ظاہر ہوتے ہیں اس اعتبار سے اولیاء اللہ سے جو چیزیں (کرامت کی صورت میں) صادر ہوتی ہیں وہ بھی صرف اللہ تعالیٰ کے حکم و ارادہ سے ظہور میں آتی ہیں اور جو چیزیں ساحروں سے صادر ہوتی ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم و ارادہ ہی سے پیدا ہوتی ہیں، لیکن ان دونوں صورتوں میں جو فرق ہے اور جس فرق کی وجہ سے کفر اور عدم کفر کا حکم لگتا ہے وہ یہ ہے کہ اولیاء اللہ یا دعا تعویذ کرنے والے اور عاملین ان افعال کی نسبت غیر اللہ کی طرف نہیں کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت یا اس کے اسماء پاک کے خواص کی طرف کرتے ہیں اسی لئے ان پر کفر و شرک کا اطلاق نہیں ہوتا، جب کہ ساحر ان افعال کو غیر اللہ، یعنی ارواح خبیثہ، دیوی دیوتاؤں، بتوں کے نام اور منتروں کے خواص کی طرف کرتے ہیں اسی لئے وہ ان افعال کو اپنے قبضہ و قابو اور اپنے زیر حکم جانتے ہیں اور ان افعال کے عوض اجرت لیتے ہیں، بھینٹ چاہتے ہیں، ان دیوی دیوتاؤں اور بتوں کے نام پر نذر کرنے اور قربانی دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ظاہر ہے یہ چیزیں شرک و کفر لازم کرتی ہیں، اس کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی کو بچہ عطا ہونا، رزق میں وسعت وفراخی ملنا اور مریض کا شفایاب ہونا وغیرہ امور اللہ تعالیٰ کے افعال ہیں اور اسی کے حکم و ارادہ کے تحت ہیں لیکن گمراہ لوگ ان کی نسبت ارواح خبیثہ، دیوی، دیوتاؤں اور پیروں فقیروں وغیرہ کی طرف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں دیوی دیوتا سے بچہ مانگا تھا تو اس نے ہمیں بچہ دیا ہم نے فلاں کی روح کے نام پر بھینٹ چڑھائی تھی تو اس نے ہمیں رزق میں وسعت دی اور ہم نے فلاں بزرگ و فقیر سے درخواست کی تھی اور اس مقصد کے لئے ان کے مزار پر نذرانے چڑھائے تھے تو انہوں نے ہمیں شفا دی۔ گویا ان کے نزدیک ان چیزوں کا دینے والا اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ غیر اللہ ہوتا ہے، لہٰذا ایسے لوگ کافر ہوجاتے ہیں اس کے برخلاف اللہ کو ماننے والے اور اس کے احکام پر عمل کرنے والے لوگ اگر ان چیزوں کے لئے جائز ذرائع و اسباب، جیسے دعا، تعویذ، جھاڑ پھونک یا علاج معالجہ کا سہارا لیتے ہیں اور ان کو اپنے مقصد میں کامیابی ہوتی ہے تو ان امور کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمیں جو چیز ملی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملی ہے البتہ اس کے حصول میں اسماء الہٰی دعاؤں اور تعویذ گنڈے کی تاثیر یا دوا کے خواص ایک ظاہری سبب و ذریعہ کا درجہ رکھتے ہیں اس بناء پر ان کے ایمان میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا۔

【64】

سحر کی تعریف وحقیقت

اس موقع پر یہ بتادینا ضروری ہے کہ سحر کی تعریف و حقیقت کیا ہے اور یہ سحر کی کونسی قسم موجب کفر ہے کونسی موجب فسق ہے اور کونسی قسم مباح ہے یعنی شریعت میں جائز ہے ؟ اس کی تفصیل اگرچہ بہت طویل ہے لیکن اجمالی طور پر اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ سحر کی حقیقت و تعریف یہ ہے دعاؤں اور اسماء الہٰی کے عملیات وغیرہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد طاقت حاصل کرنے کی بجائے خفیہ اسباب کی مزاولت (یعنی مخفی طاقتوں کی پرستش وجہیہ سائی اور ان کی تسخیر) کے ذریعہ خوارق عادات اور افعال عجیبیہ پر قدرت حاصل کرنا اور ان خوراق عادات اور افعال عجیبیہ کی نسبت قادر مطلق پروردگار عالم کی طرف کرنے کی بجائے غیر اللہ یعنی ان مخفی طاقتوں یا اپنی ذات کی طرف کرنا۔ اور چونکہ عالم میں اسباب خفیہ کئی طرح کے ہیں اس لئے سحر کی قسمیں بھی متعدد ہیں جن کو منضبط طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ خفیہ سبب یا تو روحانیت کی تاثیر ہے، یا جسمانیت کی تاثیر پھر روحانیت یا تو کلیہ مطلق ہیں جیسے کواکب و افلاک یا عناصر کی روحانیت، یا وہ روحانیت جزیہ خاصہ ہیں جیسے امراض اور جن و شیاطین کی روحانیات اور وہ ارواح جو جسم انسانی سے نکل کر جاتی ہیں اور جن کو مسخر کر کے اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جہاں تک جسمانیات کا تعلق ہے تو وہ جسمانیات یا تو ترکیب اور اجتماع کیفیات کے سبب سے تاثیر کرتے ہیں جس سے عجیب و غریب باتیں ظہور میں آتی ہیں یا خواص کے سبب سے تاثیر کرتے ہیں یعنی ان کی صورت نوعیہ کسی ترکیب اور اجتماع کیفیات کے توسط کے بغیر خود بخود تاثیر کرتی ہے جس طرح کہ مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے۔ رہی یہ بات کہ ان روحانیات یعنی ان پوشیدہ ومخفی طاقتوں سے مناسبت کیونکر حاصل ہوتی ہے اور ان کی تاثیر کو کس طرح مائل کیا جاتا ہے تو اس کے مختلف طریقے ہیں، بعض لوگ چند مخصوص شرائط کے ساتھ ان روحانیت کا نام جپتے ہیں اور حصول مقصد کے لئے ان سے ملتجی ہوتے ہیں بعض لوگ ان کی تصویر بنا کر اس کے سامنے نذر بھینٹ چڑھاتے ہیں اور وہ کام کرتے ہیں جو ان کو مرغوب ہوسکتے ہیں، یا مخصوص طریقہ اور مخصوص شرائط کے ساتھ کچھ حروف والفاظ بلالحاظ ترکیب پڑھتے ہیں جن کے ذریعہ وہ ارواح میں سے کسی روح کی بڑائی کی طرف یا ایسے عجیب و غریب فعل کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو اس سے کبھی سرزد ہوا تھا اور جس کی وجہ سے عام وخاص اس کی مدح وثناء میں رطب اللسان ہوئے تھے، غرضیکہ سحر کرنے کی مختلف عملیات اور مختلف صورتیں ہیں اور ان عملیات اور صورتوں کے نتیجہ میں سحر کی متعدد اور کثیر قسمیں سامنے آتی ہیں، لیکن جو قسمیں زیادہ مشہور ہیں وہ چند ہیں اور ان میں پہلی قسم جو سب سے بڑی قسم سمجھی جاتی ہے کلدانیوں اور بابل کا سحر ہے اور اسی کو باطل کرنے کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے اس سحر کے علم کی اصل ہاروت وماروت سے چلی ہے کہا جاتا ہے کہ بابل کے لوگ ہاروت و ماروت سے اس سحر کا علم اور طریقہ سیکھتے تھے اور پھر اس کے ذریعہ اپنے مقصد حاصل کیا کرتے تھے، نیز انہوں اس میں مختلف تحقیق و تجربے کئے تھے اور اس کے علم کو بہت وسیع و ہمہ گیر بنایا، اسی طرح کلدانیین، جو بابل میں سکونت رکھتے تھے اس علم کے حصول کے لئے مختلف محنت و جستجو میں لگے رہتے تھے اور اس کے ذریعہ نت نئی چیزیں پیدا کرتے تھے۔ تاریخ کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ بابل کے حکماء اور اس فن کے ماہرین نے نمرود کے زمانہ میں اپنے شہر بابل میں کہ جو نمرود کا دارالسلطنت تھا اس سحر کے ذریعہ ایسے چھ ہوشربا اور محیر العقول طلسمات بنا رکھے تھے، جن کی حقیقت و کیفیت جاننے سے انسان کی عقل و ذہانت عاجز رہتی تھی۔ اول یہ کہ انہوں نے تانبے کی ایک بطخ بنار کھی تھی جو شہر میں ناپسندیدہ اور مضر افراد کے داخل ہونے کی خبر دیتی تھی، چناچہ اگر کسی دوسرے ملک سے کوئی جاسوس یا دشمن یا کوئی چور وغیرہ شہر میں داخل ہوتا تو اس بطخ میں سے مخصوص آواز نکلنے لگتی تھی، شہر کے تمام لوگ اس آواز کو سن کر اس کا مقصد جان لیتے تھے۔ اور اس طرح وہ اس جاسوس اور چور کو پکڑ لیتے تھے، دوسرے یہ کہ انہوں نے ایک نقارہ بنار کھا تھا جس کا مصرف یہ تھا کہ شہر میں جس شخص کی کوئی چیز گم ہوجاتی تو وہ اس نقارہ پر چوٹ مارتا، جس کے نتیجے میں اس سے یہ آواز نکلتی کہ تمہاری فلاں چیز فلاں جگہ ہے، چناچہ تلاش کرنے کے بعد وہ اسی جگہ سے ملتی۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے گم شدہ لوگوں کو دریافت کرنے کے لئے ایک آئینہ بنا رکھا تھا۔ جب شہر میں کسی کے گھر کا کوئی فرد غائب ہوجاتا تو وہ اس آئینے کے پاس آتا اور اس میں اپنے گمشدہ فرد کو حال دیکھ لیتا وہ گمشدہ خواہ کسی شہر میں ہوتا، خواہ جنگل میں اور خواہ کسی کشتی وغیرہ میں سفر کرتے ہوئے یا کسی پہاڑ پر، اسی طرح خواہ وہ بیمار ہوتا یا تندرست، خواہ مفلس وقلاش ہوتا یا مال دار اور خواہ زخمی ہوتا یا مقتول، غرضیکہ وہ جس جگہ اور جس حالت میں ہوتا اسی جگہ اور اسی حالت کے ساتھ اس آئینہ میں نمودار ہوجاتا۔ چوتھا طلسم یہ تھا کہ انہوں نے ایک حوض بنایا تھا جس کے کنارے وہ سال بھر میں ایک دن جشن مناتے تھے چناچہ شہر کے تمام سردار اور معززین اپنی پسند کے مشروب لے کر اس حوض کے کنارے جمع ہوتے اور جو شخص اپنے ساتھ جو مشروب لاتا اس کو اس حوض میں ڈال دیتا، پھر جب ساقی کا فرض انجام دینے والے لوگ اس کے کنارے کھڑے ہو کر لوگوں کو پلانا شروع کرتے اور اس حوض میں سے نکال نکال کردیتے تو ہر شخص اس کو وہی پسندیدہ مشروب ملتا جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ پانچواں طلسم یہ تھا کہ انہوں نے لوگوں کے لڑائی جھگڑوں کو نمٹانے کے لئے ایک تالاب بنایا تھا اگر دو آدمیوں کا آپس میں کوئی تنازعہ ہوتا اور یہ ثابت نہ ہو پاتا کہ کون حق پر ہے اور کون ناحق پر۔ تو دونوں فریق اس تالاب کے کنارے آتے اور پھر اس میں اتر جاتے چناچہ جو شخص حق پر ہوتا اس تالاب کا پانی اس کے ناف کے نیچے رہتا اور وہ غرق نہ ہوتا اور جو شخص حق پر نہ ہوتا اس کے سر سے اوپر چلا جاتا اور اس کو ڈبو دیتا ہاں اگر وہ فریق مخالف کے حق کو مان لیتا اور اپنے دعوے کو ترک کردیتا تو پھر غرقابی سے نجات پاتا۔ اور چھٹا طلسم یہ تھا کہ انہوں نے نمرود کے محل کے میدان میں ایک درخت لگا رکھا تھا، جس کے سایہ میں درباری بیٹھتے تھے لوگوں کی تعداد جس قدر بڑھتی رہتی اسی قدر اس کا سایہ بھی بڑھتا رہتا تھا یہاں تک کہ اگر تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جاتی تو سایہ بھی اسی اعتبار سے زیادہ ہوجاتا تھا مگر جب اس عدد سے ایک آدمی بھی زیادہ ہوجاتا تو پھر سایہ بالکل ختم ہوجاتا تھا اور تمام لوگ دھوپ میں بیٹھے رہ جاتے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس بارے میں بابل کے لوگ ہی شغف ودلچسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کا بادشاہ نمرود بھی بہت زیادہ غلو رکھتا تھا اور اس علم کی پوری طرح سرپرستی کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سحر کی یہ قسم سب سے زیادہ سخت اور مشکل ہے لیکن اگر کوئی شخص سخت ترین ریاض و محنت اور مسلسل جدوجہد اس کی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے اور اس فن کو جان لیتا ہے اور پھر اس کی اتنی زبردست طاقت وقدرت حاصل ہوجاتی ہے۔ کہ وہ انسانی عادت مخالف امور کو ظاہر کرنے اور انسانی عادات کے موافق امور کو روک دینے پر قادر ہوجاتا۔ جیسے وہ ان امراض کا علاج بھی کرسکتا ہے جس کے معالجہ سے دنیا بھر کے طبیب عاجز ہوگئے ہوں مثلاً برص اور جذام وغیرہ کیونکہ ایسا شخص روحانیات یعنی طاقتوں (جیسے جن و شیاطین) کے ذریعہ تدبیر وعمل کرتا ہے جب کہ طبیب جسمانیت (دواؤں) کے ذریعہ تدبیر کرتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر اجسام و ارواح کے ساری حقیقتیں منکشف کردیں اور انہوں نے ہر جسم اور ہر روح کو قادر مطلق کے دست قدرت کے تحت مجبور و بیکس دیکھا تو سب سے منہ پھیر کر ذات واحد حقیقی کی طرف متوجہ ہوگئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورت انعام میں فرمایا۔ آیت (وکذلک نری ابراہیم ملکوت السمٰوٰت والا رض تا وما انامن المشرکین) یعنی ہم نے ایسے طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں تاکہ وہ عارف ہوجائیں اور کامل یقین کرنے والوں سے ہوجائیں پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا اور کہا کہ یہی میرا رب ہے سو جب وہ غروب ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا رہے تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں۔ جب سورج کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہی میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے سو جب وہ غروب ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ اے قوم ! بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں۔ واضح رہے کہ اوپر سحر کی جو قسم ذکر کی گئی ہے وہ خالص کفر اور شرک محض ہے کیونکہ اس سحر کے علم کا حصول جن، پندرہ شرائط کی پانبدی پر موقوف ہے ان میں سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ ارواح کو عالم الغیب اور احوال قلب پر مطلع مانا جائے۔ اور ان کے تئیں عجز و جہل کا گمان ہرگز نہ کیا جائے ورنہ وہ ارواح اس کا کہنا بالکل نہیں مانیں گی اور اس کے مقصد تک نہیں پہنچائیں گی۔۔ کواکب و سیارات کی روحانیات یعنی ان کی قوتوں سے استمداد کرنے اور ان کی تاثیر کو متوجہ کرنے کے لئے جو طریقہ بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے روحانیات قمر کی تاثیر کو ان الفاظ کے ورد کے ذریعہ متوجہ کرتے ہیں۔ ایہا الملک الکریم والسید الرحیم مرسل الرحمۃ ومنزل النعمۃ اور عطارد کی تاثیر کو متوجہ اور اپنے زیر اثر کے لئے ان الفاظ کا ورد کیا جاتا ہے۔ کل ماحصل لی من السحر فہو منک وکل ما یندفع من الشر منی فہو منک دیگر کواکب وسیارات سے استمداد کرنے اور ان کی تاثیر کو متوجہ کرنے کے لئے جن الفاظ کا سہارا لیا جاتا ہوگا ان کو بھی انہی پر قیاس کیا جاسکتا ہے، ظاہر ہے کہ اس طرح کا عقیدہ رکھنا جو ان الفاظ سے آشکار ہوتے ہیں اور اس طرح کے الفاظ زبان سے نکالنا عقیدہ تو حید، تعلیمات اسلامی اور ملت حنفی کے سراسر منافی ہے۔ سحر کی دوسری قسم وہ ہے جس میں جنات و شیاطین کو مسخر کیا جاتا ہے اور ان سے امداد واعانت طلب کر کے مقصد حاصل کیا جاتا ہے یہ قسم سہل الحصول بھی ہے اور کثیر ارواج بھی ہے، جنات و شیاطین کی اس تسخیر میں جن چیزوں کا اختیار کرتا ضروری ہوتا ہے ان میں بعض مخصوص الفاظ و اعمال کے ذریعہ ان سے تعلق پیدا کرنے کے علاوہ ان کی جہیہ سائی کرنا ان کے نام پر نذریں چڑھانا، بھینٹ دینا، ان کی پسندیدہ خوشبو وغیرہ ان کے آنے کی جگہوں پر رکھنا اور بسانا، جس جگہ ان کے آنے کا تصور ہو وہاں ہاتھ جوڑ کر بیٹھنا اور ان کو اپنے سامنے موجود جانتے ہوئے رونا گڑگڑانا، منت خوشامد کرنا اور ان سے حاجت براری کی التجا کرنا وغیرہ وغیرہ خاص عمل ہیں اور ان سب چیزوں سے صریح کفر لازم آتا ہے۔ سحر کی تیسری قسم وہ ہے۔ جس میں ارواح کو مسخر کیا جاتا ہے جو جسم چھوڑ چکی ہوتی ہیں، اس قسم کو اختیار کرنے کے لئے سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کسی ایسے مرے ہوئے انسان کا پتہ لگایا جائے جو قوی القلب رہا ہو، پھر بعض مخصوص عملیات اور مخصوص الفاظ کے ورد کے ذریعہ کہ جو بڑے بڑے جنات و شیاطین کے ذکر اور ان کی بہت زیادہ تعظیم و توقیر کے مضامین پر مشتمل ہوتے ہیں ان ارواح کو اپنی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔ چناچہ ان الفاظ وعملیات کے زور سے اور نذرانے و بھینٹ چڑھانے کے ذریعہ اس روح کو اس طرح اپنے قابو واختیار میں کرلیا جاتا ہے کہ غلام و نوکر کی طرح اس کو جو کام کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اس کو وہ انجام دیتی ہے یہ عمل بھی کفر کو لازم کرتا ہے یا کفر کے قریب پہنچا دیتا ہے، نیز اغلب یہ ہے کہ اس طرح کی ارواح کہ جو ان سفلی وشہوانی عملیات کے ذریعہ متوجہ ہوتی ہیں دراصل ان انسانوں کی ارواح ہوتی ہیں۔ جو کفر و شرک و فسق وخبث کی حالت میں مرجاتے ہیں لہٰذا اس عمل سحر میں خباثت کی مخالفت بھی لازم آتی ہے ، سحر کی چوتھی قسم وہ ہے جس میں بعض جنات کی ارواح کے ذریعہ کسی شخص کے خیالات و تصورات میں خلل ڈالتے اور اس کے ذہن کو فاسد کردیتے ہیں کہ اس کو حقیقت کے خلاف کچھ کا کچھ نظر آنے لگتا ہے یا وہ اپنی ہی صورت ہائلہ متخلیہ سے ڈرنے لگتا ہے اور یا غیر واقعی چیزوں کو واقعی سمجھنے لگتا ہے، سحر کی اس قسم کو نظر بندی یا خیال بندی کہتے ہیں اور بعض مفسرین نے آیت کریمہ (يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي) 20 ۔ طہ 66) کے تحت کہا ہے کہ فرعون کے ساحروں کا سحر اسی قسم کا تھا جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو واسطہ پڑا تھا، چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں وہ سب لکڑیاں اور رسیاں سانپ بن کر نظر آنے لگی تھیں جو فرعون کے جادوگروں نے ان کو ڈرانے کے لئے ان کے سامنے ڈال دی تھیں، اس طرح کا سحر اگر نبی کریم ﷺ کے لئے اس کے مقابلہ پر ہوگا کہ اس کی نبوت کی دلیل و شہادت کو ختم کردیا جائے یا کسی ولی یا بزرگ کی حیثیت کو مجروح کرنے کے لئے اس کے مقابلہ پر پیش کیا جائے، تو حرام اور گناہ کبیرہ کے حکم میں ہوگا اور اگر اس کی نظر بندی کا مقصد کسی شخص کو دھوکا و فریب میں مبتلا کرنا یا کسی شخص کی عزت و آبرو یا اس کے مال میں خیانت کرنا ہو تو گناہ کبیرہ کے حکم میں ہوگا اس سے معلوم ہوا کہ سحر کی یہ قسم بنفسہ کفر نہیں ہے لیکن کسی شخص کے خیالات و تصورات پر اثر انداز ہونے کے لئے یا یوں کہا جائے کہ اس نظر بندی یا شعبدہ بازی کو کامیاب کرنے کے لئے چونکہ جنات کی ارواح سے استمداد کرنا یا جنات کے ارواح کو جپنا ضروری ہوتا ہے اس لئے کفر لازم آتا ہے، بشرطیکہ اس استمداد اور اسماء کو جپنے میں ان جنات کی اتنی زیادہ تعظیم و توقیر کا اظہار کیا جائے جو عقیدہ توحید کے منافی ہو۔ سحر کی پانچویں قسم وہ ہے جس میں انسان خود اپنے دھیان اور حو اس خمسہ کی قوتوں کو دماغ میں مجتمع کرتے ہوئے کمال یکسوئی پیدا کر کے ایک ایسی قوت وقدرت حاصل کرلیتا ہے اس کے ذریعہ وہ اس خیال کو جو اس کی قوت متخلیہ میں ہوتا ہے (اور جس کو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے) مشکل کر کے سامنے لے آتا ہے، جسمانی طول، عرض عمق کی حدود وقیود سے آزادی حاصل کرتے ہوئے مسمریزم کی طاقت سے شعبدے دکھلاتا ہے اور نظر ایک سے دو متصل چیزوں کو متصل کر دکھاتا ہے۔ اور دو علیحدہ علیحدہ چیزوں کو ملا کر دکھلا دیتا ہے۔ سحر کی اس قسم کا اب نام و نشان بھی موجود نہیں ہے، لیکن پچھلے زمانہ میں ہندوستان کی بعض قدیم اقوام میں یہ قسم بہت رائج تھی اس قسم کے حصول کے لئے جہاں اور بھی شرائط ہیں، انہیں میں دو سب سے زیادہ اہم اور ضروری شرط کھانے پینے میں بالکل کمی اور لوگوں سے گوشہ نشینی اختیار کرلینا ہے اس کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر اس کے ذریعہ کسی مباح چیز کا حصول مقصود ہو جیسے دو زنا کاروں کے درمیان جدائی ڈالنا یا کسی ظالم کو مار ڈالنا تو سحر کی یہ قسم جائز ہوگی اور اگر کسی ممنوع چیز کا حصول مقصود ہو جیسے میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا یا کسی معصوم انسان کو ہلاک کردینا تو پھر یہ قسم بھی حرام ہوگی۔ سحر کی چھٹی قسم وہ ہے جس میں دواؤں یا اشیاء کے مخفی خواص معلوم کر کے ان کے ذریعہ عجیب و غریب کرشمے دکھائے جاتے ہیں اور چونکہ عام لوگ اس مخفی خواص سے قطعا لاعلم ہوتے ہیں اس لئے اکثر دنیا اور پیر و فقیر اور جوگی اپنی حیلہ سازیوں سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ میں لوگوں پر اپنی کرامت ظاہر کرنے کے لئے اپنی انگلیوں کو روشن کر دوں تو اس کا طریقہ اختیار کیا سکتا ہے کہ تھوڑا سا نورہ کابلی سرکہ میں بھگو کر اس میں تھوڑا سا کف دریا ملا دیا جائے اور پھر انگلی پر اس کا لیپ کیا جائے اور جس جگہ لیپ کیا جائے وہاں رال ٹپکا دی اب لوگوں کی کسی ایسی مجلس میں کہ جہاں شمع یا چراغ جلتا ہو اس انگلی کو چراغ کے سامنے کردیا وہ انگلی روشن ہوجائے گی اور جلے گی نہیں۔ سحر کی ساتویں قسم وہ ہے جس میں ایجاد کئے گئے عجیب و غریب آلات کی مدد سے بعض چیزوں کو ترکیب دے کر حیرت انگیز امور انجام دیئے جائیں ! ان آلات کو ایجاد کرنا عام طور پر مختلف علوم وفنون میں تعمق اور تحقیق و جستجو پر منحصر ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ فرعون کے ساحروں کی جادو گری نظر بندی اور شعبدہ بازی کے ساتھ اس طرح کی جنی مہارت کا بھی پر تو تھی، آج کل کی سائنسی ایجادات کی بھی اس قسم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ سحر کی اٹھویں قسم وہ ہے جس میں ہاتھ کی صفائی کے ذریعہ مختلف شعبدے دکھلا کر لوگوں کو متحیر کیا جاتا ہے سحر کی اس قسم میں ہاتھ کا سرعت کے ساتھ چند مخصوص پوشیدہ حرکات اور تبدیل امثال کردینا ہے خفیہ سبب ہوتا ہے۔ سحر کی یہ تینوں آخری قسمیں نہ تو کفر ہیں اور نہ حرام، ہاں اگر ان کو کسی حرام چیز کے حصول یا کسی حرام کام کے اظہار کا ذریعہ بنایا جائے تو اس بنا پر ان پر حرمت کا حکم ثابت ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ سحر کی جو آٹھ قسمیں بیان کی گئی ہیں یہ صرف لفظی اعتبار سے ہیں، کیونکہ عربی زبان میں سحر یعنی جادو ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو محیر العقول ہو اور جس کا سبب و ذریعہ نظروں سے پوشیدہ ہو اگر سحر یا جادو کے اصطلاحی وحرفی مفہوم اور اس کی مشہور و تعریف و حقیقت کا اعتبار کیا جائے تو اصولی طور پر سحر کی تین ہی قسمیں ہونی چاہئیں ایک تو وہ سحر جس میں کواکب و سیارات کی قوتوں سے استمداد کر کے ہوشربا کرشمے اور محیر العقول طلسمات ظاہر کئے جائیں۔ دوسرا وہ سحر جس میں جنات و شیاطین اور مردہ انسانوں کی ارواح کو مسخر کر کے حاجت روائی کی جائے۔ اور تیسرا وہ سحر جس میں اپنے دھیان اور خو اس خمسہ کی قوتوں کو دماغ میں مجتمع کرتے ہوئے نظر بندی اور شعبدہ بازی کا کمال حاصل کیا جائے۔

【65】

سحر کا بدل کیا ہے ؟

اس بات کو بھی جاننا ضروری ہے کہ اس امت کے اذکیاء و عارفین نے سحر کی مذکورہ بالا قسموں میں سے اکثر کی اصطلاح کر کے اور اس کی بنیاد سے کفر و شرک کی غلاظتوں کو دور کر کے ان کو عملیات کی صورت میں پیش کیا ہے جس سے مختلف قسم کے روحانی اور جسمانی فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں، چناچہ سحر کی پہلی قسم کی اصلاح دعوت علوی ہے یہ وہ عمل ہے جس میں ملائکہ علویہ کو اسماء الہٰی اور آیات قرآنی کی استعانت سے مسخر کیا جاتا ہے، دوسری قسم کی اصلاح عزائم اور دعوت سفلی ہے، اس عمل میں زمین کے موکلات اور جنات کو مسخر کیا جاتا ہے، لیکن اس تسخیر میں بھی کفر و شرک کی آمیزش ہوتی ہے اور غیر اللہ کی تعظیم و توقیر، بلکہ ان جنات و شیاطین کو حکم و استیلاء کے ذریعہ مسخر کیا جاتا ہے، تیسری قسم کی اصلاح وہ عملیات ہیں جن کے ذریعہ صلحاء اور اولیاء اللہ کی ارواح طیبہ سے ربط وتعلق پیدا کیا جاتا ہے اور عام طور اویسی مشرب بزرگ ان عملیات کو اختیار کر کے اپنے اور مخلوق اللہ کے مقاصد و حوائج میں فائدہ حاصل کرتے ہیں ان عملیات کی بنیاد، طہارت و پاکیزگی، تلاوت قرآن اور وظائف اور ان ارواح کو صدقات و خیرات کا ثواب پہنچانے پر ہوتی ہے پانچویں قسم کی اصلاح عقد ہمت ہے جو اونچے درجے کے مشائح اور صوفیاء کرام حل مشکلات کے لئے اختیار کرتے ہیں جس میں دنیاوی امور سے کامل بیخبر ی پیدا کر کے اور اپنے دھیان و اپنے خیالات کو یکسو کر کے اسماء الہٰی میں سے کسی اسم پاک کے غور و فکر میں استغراق کا درجہ حاصل کیا جاتا ہے اور چھٹی قسم کی اصلاح وہ عملیات ہیں جن میں آیات قرآن اور اسماء الہٰی کے خواص میں تعمق و جستجو کر کے ان کو مخصوص ترکیب و شرائط کے ساتھ یا ان کے اعداد کی صورت میں نقش و تعویذات لکھے جاتے ہیں، یا دعاؤں کے ذریعہ جھاڑ پھونک کی جاتی ہے جیسا کہ نقش و تعویذات اوراد و عملیات کی کتابوں میں اس کی تفصیل لکھی ہوتی ہے۔ حاصل یہ کہ سحر میں جو برائی ہے وہ محض اس وجہ سے کہ اس کی بنیاد کفر و شرک، نیز کواکب و سیارات، جنات و شیاطین اور ارواح خبیثہ کی تاثیر کی اعتقاد پر ہوتی ہے اور اس سے فائدہ حاصل کرنا اس پر موقوف ہوتا ہے کہ غیر اللہ سے رو واعانت کی التجا کی جائے، ان کو حاجت روا مانا جائے اور اسباب و ذرائع پر اس طرح اعتماد کیا جائے کہ سبب یعنی حق تعالیٰ کی قدرت سے بالکل صرف نظر کرلیا جائے اور جب برائی کی یہ وجہ بالکل دور ہوجائے تو پھر اصل حرمت و حلت کا مدار غرض و مقاصد پر ہوگا کہ اگر کوئی نیک و مباح مقصد پیش نظر ہے تو سحر وعملیات کی طاقت سے فائدہ اٹھانا جائز ہوگا اور اگر غرض و مقصد کسی بری چیز اور ناجائز امور سے متعلق ہو تو اس صورت میں بھی سحر کی طاقت سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہوگا۔

【66】

جو علم نفع پہنچانے والا نہ ہو اس سے احتراز کرنا ہی دانشمندی ہے

مولانا شاہ عبد العزیز آیت کریمہ (يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي) 20 ۔ طہ 66) کے اس ٹکڑے آیت (وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ ) 2 ۔ البقرۃ 102) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہودی ان دونوں طرح کے سحر سیکھنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے۔ جو انتہائی مذموم و قبیح ہیں بلکہ وہ اپنے اوقات اور اپنی صلاحیتوں کو دوسرے ایسے علوم کے حصول میں بھی صرف کرتے تھے جو علم شریعت اور وحی الہٰی سے دور کردینے کا ذریعہ اور موجب بنتے ہیں، چناچہ وہ اس طرح کے علوم سیکھتے تھے جو ان کے لئے نقصان دہ ہوتے تھے گو دوسروں کو نقصان نہ پہنچاتے ہوں اور ان سے خود ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا تھا، گو اوروں کو فائدہ پہنچتا ہو، لہٰذا عقلمندی، سمجھداری کا تقاضہ یہی ہے کہ انسان ہر اس علم وفن سے احتراز کرے جو نفع بخش ہونے کی بجائے کسی طرح کا نقصان پہنچانے والا ہو۔ مگر واضح رہے کہ کسی شخص کے حق میں کسی علم کا مذموم و معیوب ہونا ان تینوں جہتوں میں سے کسی ایک جہت کے سبب سے ہوتا ہے ایک تو یہ کہ اس علم سے خود اپنے کو یا دوسروں کو نقصان پہنچنے کا خوف ہو، جیسے سحر و طلسمات کا علم نجوم کا علم بھی اسی میں شامل ہے کیونکہ اس کے ذریعہ اکثر لوگ عقیدہ کی گمراہی میں مبتلا ہو کر اپنا اخروی نقصان کرتے ہیں، چناچہ جب وہ زمین اور کواکب سیارات کا باہم ربط دیکھتے ہیں اور علم نجوم ان کو بتاتا ہے کہ کرہ ارضی پر رونما ہونے والے تغیرات و واقعات اجرام فلکی کی حرکت و سکون اور سیارگان کی چال کے زیر اثر ہوتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ عالم میں جو بھی حادثہ و تغیر وقوع پذیر ہوا ہو وہ فلاں ستارے فلاں برج اور فلاں درجے کی تاثیر کے سبب سے ہے، اس طرح وہ اپنے مقاصد کے حصول کی امید یا مقاصد کے فوت ہوجانے کے خوف کو ستاروں اور ان کے بروج و منازل سے وابستہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اگر فلاں ستارہ فلاں برج اور فلاں منزل میں ہوگا تو ہمارا فلاں مطلب حاصل ہوگا اور اگر فلاں ستارہ فلاں برج و منتری میں داخل ہوگا تو ہمارا فلاں مطلب حاصل نہیں ہوگا گویا ان کی توجہ ذات حق جل مجدہ کی طرف سے ہٹ جاتی ہے۔ جو نفع و نقصان کا حقیقی مالک ہے اور ان کے دل پر ایسا پردہ پڑجاتا ہے جو ان کو نظر الی اللہ سے روک دیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ علم اگرچہ بذات خود نقصان پہنچانے والا نہ ہو لیکن اس کو حاصل کرنے کا دعویدار اس کے حقائق و نکات اور اس کے باریک و مخفی گوشوں تک اپنی عدم صلاحیت اور عدم استعداد کی وجہ سے نہ پہنچ سکتا ہو، ظاہر ہے کہ ایسا شخص جو علم کے حقائق و دقائق تک رسائی ہی نہ حاصل کرسکا ہو اس علم کا فاضل و ماہر تو ہونے سے رہا، البتہ جہل مرکب میں ضرور مبتلا ہوجائے گا، اسی لئے بےصلاحیت لوگوں کا اسرار و رموز الہٰیہ احکام شرعیہ کے بارے میں بحث و تمحیص کرنا، اکثر وبیشتر فلسفیانہ علوم میں جان کھپانا، قضا و قدر اور صبر و اختیار کے مسئلے میں تحقیق و جستجو کرنا مسئلہ توحید وجودی و شہودی کی راہ پر لگنا اور بعض صحابہ کے درمیان آپسی نزاعات وخصومات کی جو صورتیں پیدا ہوگئی تھیں ان کو علم و تحقیق کے نام پر اچھالنا یا ان کی کھوج کرید کرنا وغیرہ وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جن کو مذکورہ بالا علم کے زمرہ میں شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح شعر و شاعری کے فن کو بھی کچھ اچھا علم نہیں سمجھا جاتا، کیونکہ شعر و شاعر کی بنیاد زیادہ تر حسن و عشق کے مضامین اور غیر پاکیزہ خیالات و تصورات پر ہوئی ہے اور یہ چیز عوام کے حق میں کہ جن کے دل و دماغ نفساتی خواہشات اور جنسی جذبات سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں زہر جیسی تاثیر رکھتی ہے اور تمام امور میں تخیل پردازی و مبالغہ آرائی کا ملکہ پیدا کرتی ہے۔ اور تیسرے یہ کہ شریعت سے متعلق علوم محمودہ میں بےجا فکر اور تعمق کیا جائے اور اس میں افراط وتفریط سے کام لیا جائے، جیسے عقائد و توحید کے علوم میں فلسفیانہ موشگافیاں اور دیگر شرعی علوم و قواعد میں عقل و منطق کی غیر موزوں اور غیر ضروری نکتہ آفرینیاں کی جائیں اور فقہی احکام و مسائل میں کھوج کرید کر کے بےاصل حیلوں اور نادر روایات و اقوال کو بیان کیا جائے اسی طرح سلوک و ریاضت کے علم میں ایسے اصول و قواعد اور اعمال و اشغال داخل کرنا جو جوگیوں وغیرہ کا طریقہ ہے۔ یا دعوت اسماء الہٰی اور دوسرے عملیات دعا تعویذ اور جھاڑ پھونک میں سحر و طلسمات کے اصول و قواعد کو شامل کرنا، یا انبیاء (علیہ السلام) کے قصص و حالات میں یہود و روافض جیسے معاندین حق کے بیان کردہ جھوٹے قصے اور روایات کو سننا ان کو بیان کرنا کہ جن سے عقائد وغیرہ بھی اسی حکم میں شامل ہیں۔ غرضیکہ علم کی یہ جو قسمیں بیان کی گئی ہیں ان کے متوقع فوائد لوگوں کو نہیں پہنچتے بلکہ ان کے حق میں نقصان دہ ہوتے ہیں، یہودی عام طور پر انہی جیسے لاحاصل، بےمقصد اور غیر نفع بخش علوم میں مشغول و مصروف رہتے تھے اور اصل علوم محمودہ سے اعراض کرتے تھے۔

【67】

فال اور طیرہ کا بیان

فال اصل میں تو مطلق شگون کو کہتے ہیں، لیکن عام طور پر اس لفظ کا استعمال نیک شگون یا اچھی فال کے معنی میں ہوتا ہے۔ نیک شگون یا اچھی فال کا مطلب ہے کسی اچھی بات کو سننا یا کسی اچھی چیز کو دیکھنا جس سے اپنی مراد حاصل ہونے کی توقع پیدا ہو، مثلا کوئی شخص بیمار ہو اور اس بات کے تردد اندیشہ میں ہو کہ صحت پاؤں گا یا نہیں اور اس حالت میں وہ سنے کہ کوئی کہہ رہا ہے۔ یا سالم یا کوئی شخص میدان جنگ رہا تھا کہ ایک شخص سے ملاقات ہوگئی۔ جس کا نام ظفر خاں یا فتح علی تھا اور مثلاً کوئی شخص کسی چیز کا طالب ہو یا اس کی کوئی چیز گم ہوگئی ہو اور وہ اس کو تلاش کر رہا ہو اور اسی اثناء میں اس کے کان میں یا واجد کی آواز آئے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ کبھی لفظ فال برائی کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز کا واقع ہونا بری فال ہے۔ یا زبان سے بری بات نکالنا بدفالی ہے۔۔ طیرۃ نظیر (یعنی بدفالی لینا) کا مصدر ہے جیسا کہ خیرہ تخیرہ کا مصدر ہے ان دونوں لفظوں کے سوا پر مطلق فال یعنی شگوں کے معنی میں بھی ہوتا ہے جو وہ فال اچھی ہو یا بری۔ تطیر کی اصل اور اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب عام طور پر اس طرح شگون لیتے تھے کہ جب وہ کوئی کام کرتے یا کسی سفر پر جانے کا ارادہ کرتے تو کسی پرندے یا ہرن کو چھچھکار دیتے اگر وہ داہنی سمت میں اڑ جاتا یا دائیں طرف کو بھاگتا تو اس کو مبارک جانتے اور نیک فال لیتے اور پھر اس کام کو شروع کرتے یا سفر پر روانہ ہوتے اور اگر وہ پرندہ یا ہرن بائیں سمت میں اڑ جاتا یا بائیں طرف کا بھاگتا تو اس کو نجس جانتے اور اس کام سے باز رہتے۔ واضح رہے کہ شکار کے اس جانور کو سنوح یا سانع کہتے ہیں جو سامنے سے نمودار ہو کر بائیں طرف سے دائیں طرف کو جا رہا ہو اور شکار کا جو جانور دائیں طرف سے بائیں طرف کو جا رہا ہو اس کو بروح یا بارح کہتے ہیں عرب کے لوگ سنوح کو مبارک اور بروح کو منحوس سمجھتے تھے چناچہ بعض مواقع پر سوانح اور بوارح اور ان کے ذریعہ شگون لینے کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے یہی منعی ہیں۔ یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ نیک فال لینا محمود و مستحسن بلکہ مستحب ہے جب کہ تطیر یعنی بری فال لینا مذموم و ممنوع ہے چناچہ نبی کریم ﷺ کثرت کے ساتھ اور خاص طور پر لوگوں کے ناموں اور جگہوں کے ذریعہ اچھی فال لیتے تھے ان دونوں میں فرق و امتیاز اس بنا پر ہے کہ نیک فال میں اول اول تو اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی ہے دوسرے اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے اچھائی اور بھلائی کی امید آوری ہوتی ہے۔ نیز دل میں اچھائی اور بھلائی ہی کا خیال آتا ہے اور یہ آمید آوری اور یہ خیال ہر حالت میں بندے کے لئے بہتر ہے گو اس کی مراد پوری نہ ہو اور بد فالی اس لئے ممنوع و مذموم ہے کہ اس میں خواہ مخواہ رنج اور تردد پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے قطع امید ہوتی ہے اور نا امیدی و نامرادی کا احساس اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کردیتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ چیزیں شرعا مذموم و ممنوع بھی ہیں اور عقل و دانش کے منافی بھی ہیں جب کہ بہر صورت ہوگا وہی جو اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے۔ بہر حال اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جو فال وطیرہ سے متعلق اور جن کی تحقیق اوپر بیان کی گئی نیز مؤلف مشکوٰۃ نے اس باب میں وہ احادیث نقل کی ہیں، جن میں عدویٰ ، ہامہ اور ان جیسی دوسری اور چیزوں کا ذکر ہے اور یہ سب بھی تطیر یعنی بد فالی کے مفہوم کی حامل اور اسی کے حکم میں داخل ہیں۔

【68】

بدشگونی لینا منع ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ۔ بد شگونی بےحقیقت ہے اس سے بہتر تو اچھی فال ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اور فال کیا چیز ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اچھا کلمہ جس کو تم میں سے کوئی شخص سنے اور اس سے اپنی مراد پانے کی توقع پیدا کرے۔ (بخاری ومسلم) تشریح بدشگونی بےحقیقت ہے کا مطلب یہ ہے کہ حصول منفعت یا دفع مضرت میں بدفالی لینے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ شریعت نے اس کو سبب اعتبار قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس کا کوئی اعتقاد و اعتبار نہ کرنا چاہئے۔ چونکہ ہوگا وہی جو قادر مطلق (اللہ تعالیٰ ) کی مرضی ہوگی اس لئے بد فالی لے کر اپنے آپ کو خواہ مخواہ خوف و اندیشہ اور نامیدی میں کیوں مبتلا کیا جائے۔ طیرہ یعنی بد فالی کی نفی کرنے اور اس کی ممانعت کو ظاہر کرنے کے بعد آپ ﷺ نے فال کی تعریف کی اور یہ فرمایا کہ طیرہ کی بہترین صورت اچھی فال ہے۔ گویا حدیث میں طیرہ مطلق فال لینے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے لیکن اس موقع پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ حدیث کی عبارت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اچھی فال لینا بہتر ہے۔ اور بدفالی لینا بھی کسی نہ کسی درجہ میں اچھی چیز ہے حالانکہ حقیقت میں بدفالی اچھی چیز نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس عبارت میں لفظ خیر اصل میں بہ کے مفہوم میں ہے نہ کہ بہتر کے معنی میں جیسا کہ یہ جملہ ہے۔ آیت (والاخرۃ خیر وابقی) ۔ واصحاب الجنۃ خیر۔ ایک جواب یہ بھی ہے کہ یہ ارشاد گرامی ﷺ دراصل اہل عرب کے گمان و اعتقاد پر مبنی ہے کہ وہ بدفالی کو بھی پسندیدہ چیز سمجھتے تھے یا یہ کہ اس عبارت کی بنیاد یہ ہے کہ اگر طیرہ کا اچھا ہونا بالفرض ممکن بھی ہوتا تو فال اس سے بہتر چیز ہوتی۔ وہ اچھا کلمہ۔۔۔۔۔ کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو کوئی ایسا جملہ سنائی دے جس سے اس کے دل میں اپنے مطلوب و مقصود کے حاصل ہوجانے کی امید پیدا ہوجائے اور وہ اس لفظ یا جملے کو اپنے حق میں گویا اچھی پیشگوئی سمجھے جیسے کوئی شخص اپنی کسی گمشدہ چیز کو تلاش کر رہا ہو کہ وہ یہ آواز سنے یا واجد یا کوئی شخص راستہ بھول گیا ہو اور اس کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہا ہو کہ اس کے کان میں کسی طرف سے یہ آواز آئے۔ یا راشدا۔

【69】

چند بے اصل باتیں اور ان کا بطلان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگنا بد شگونی ہامہ اور صفریہ سب چیزیں بےحقیقت ہیں (البتہ) تم جذامی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔ (بخاری) تشریح یہ خیال کہ ایک شخص کی بیماری دوسرے کو لگ جاتی ہے، زمانہ جاہلیت کی یادگار ہے، چناچہ اہل عرب کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص بیمار کے پہلو میں بیٹھ جائے یا اس کے ساتھ کھائے پئے تو وہ بیماری اس میں بھی سرایت کر جائے گی، علماء لکھتے ہیں کہ عام طور پر اطباء کے نزدیک سات بیماریاں ایسی ہیں جو ایک دوسرے کو لگتی ہیں (١) جذام (٢) خارش (٣) چیچک (٤) آبلے جو بدن پر پڑجاتے ہیں (٥) گندہ دہنی (٧) وبائی امراض۔ لہذا شارع (علیہ السلام) نے اس اعتقاد خیال کو رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ مرض کا ایک سے دوسرے میں سرایت کرنا اور اڑ کر لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا بلکہ اس کا تعلق نظام قدرت اور قادر مطلق کی مشیت سے ہے کہ جس طرح پہلا شخص بیمار ہوا ہے اسی طرح دوسرا شخص بھی اس بیماری میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ جب تمام امراض کے ہی بارے میں چھوت کے اعتقاد و نظریہ کی تردید کی گئی ہے تو پھر جذامی سے بھاگنے کا حکم کیوں دیا گیا اور اس طرح خود اس حدیث کے مفہوم میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے تو اس کا جواب انشاء اللہ فصل کے آخر میں نقل کیا جائے گا۔ بد شگونی کے بارے میں تو او پر بیان کیا جا چکا ہے ! ھاما کے اصل میں معنی سر کے ہیں، لیکن یہاں اس لفظ سے ایک خاص جانور مراد ہے جو عربوں کے گمان کے مطابق میت کے استخوان سے پیدا ہو کر اڑتا ہے، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر کسی شخص کو قتل کردیا جاتا ہے تو اس مقتول کے سر سے ایک جانور جس کو ہامہ کہتے ہیں باہر نکلتا ہے اور ہر وقت یہ فریاد کرتا رہتا ہے کہ مجھے پانی دو ، پانی دو ، یا وہ قاتل سے انتقام لینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جب قاتل (خود اپنی موت سے یا کسی کے قتل کردینے سے) مرجاتا ہے تو وہ جانور اڑ کر غائب ہوجاتا۔ بعض لوگ یہ کہا کرتے تھے خود مقتول کی روح اس جانور کا روپ اختیار کرلیتی ہے اور فریاد کرتی ہے تاکہ قاتل سے بدلہ لے سکے جب اس کو قاتل سے بدلہ مل جاتا ہے تو اڑ کر غائب ہوجاتا ہے۔ شارع (علیہ السلام) نے اس اعتقاد کو بھی باطل قرار دیا اور فرمایا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہامہ سے مراد الو ہے کہ جب وہ کسی گھر پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ گھر ویران ہوجاتا ہے۔ یا اس گھر کا کوئی فرد مرجاتا ہے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اس عقیدہ کو بالکل مہمل قرار دیا اور واضح رہے فرمایا کہ تطیر یعنی پرندہ کے ذریعہ بدفالی لینے کے حکم میں ہے جو ایک ممنوع چیز ہے۔ صفر کی وضاحت میں متعدد اقوال بیان کئے جاتے ہیں، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس سے تیرہ تیزی کا مہینہ مراد ہے جو محرم کے بعد آتا ہے اور جس کو صفر کہتے ہیں، چونکہ کمزور عقیدہ لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مہینے میں آفات و بلاء اور حوادث و مصائب کا نزول ہوتا ہے اس لئے اس ارشاد کے ذریعہ اس عقیدے کو باطل وبے اصل قرار دیا گیا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اہل عرب یہ کہا کرتے تھے کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ ہوتا ہے۔ جس کو صفر کہا جاتا ہے ان کے گمان کے مطابق جب پیٹ خالی ہوتا ہے اور بھوک لگتی ہے تو وہ سانپ کاٹتا ہے اور تکلیف پہنچاتا ہے ان کا کہنا تھا کہ بھوک کے وقت پیٹ میں جو ایک قسم کی تکلیف محسوس ہوتی ہے اور اسی سانپ کے سبب سے ہوتی ہے اور اس کے اثرات ایک دوسرے میں سرایت کرتے ہیں، نووی نے شرح مسلم میں یہ لکھا ہے کہ بعض لوگوں کے گمان کے مطابق صفر ان کیڑوں کو کہتے ہیں جو پیٹ میں ہوتے ہیں اور بھوک کے وقت کاٹتے ہیں۔ بسا اوقات ان کے سبب سے آدمی زرد رنگ کا ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہلاک بھی ہوجاتا ہے۔ یہ سب بےاصل باتیں ہیں جن کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔

【70】

کسی بیماری کا متعدی ہونا بے حقیقت بات ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کسی بیماری کا ایک دوسرے کو اڑ کر لگنا ہامہ اور صفر، اس سب کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (ایک دیہاتی نے کہ جو اپنے ناقص مشاہدے و تجربہ کی بنا پر خارش کو متعدی بیماری سمجھتا تھا) آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! تو پھر ان اونٹوں کے بارے میں کہا جائے گا (جو اپنی تندرستی اور اپنی کھال کی صفائی ستھرائی کے اعتبار سے) ہرن کی مانند ریگستان میں دوڑے پھرتے ہیں، لیکن جب کوئی خارشی اونٹ ان میں مل جاتا ہے تو وہ دوسروں کو بھی خارش زدہ بنا دیتا ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا (اچھا تو یہ بتاؤ) پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ بنایا ؟ یعنی خارش پیدا ہونے کے لئے یہی ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی سے اڑ کر لگے لہٰذا جس طرح ان تندرست اونٹوں میں آملنے والے خارش زدہ اونٹ میں خارش کا پیدا ہونا بتقدیر الہٰی ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسرے اونٹوں کا خارش زدہ ہونا جانا بھی حکم الٰہی کے تحت اور نظام قدرت کے مطابق ہوتا ہے ( مسلم )

【71】

کسی بیماری کا متعدی ہونا بے حقیقت بات ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک دوسرے کو بیماری لگنا ہامہ نوء اور صفر کی حقیقت نہیں ہے ( مسلم) تشریح نوء کا مطلب ہے کہ ایک ستارہ کا غروب ہونا اور دوسرے کا طلوع ہونا اہل عرب کے خیال میں بارش کا ہونا یا نہ ہونا ستاروں کے اسی طلوع و غروب کے زیر اثر ہے جیسا کہ علم نجوم پر اعتقاد رکھنے والے لوگ کہا کرتے ہیں کہ بارش کا تعلق پخھتروں سے ہے کہ فلاں فلاں پنھتر اگر فلاں فلاں تاریخ میں پڑجائیں اور ان تاریخیوں میں بارش ہوجائے تو آگے چل کر برسات کے مہینوں میں فلاں فلاں تاریخوں میں بارش ہوگی نہل میں لکھا ہے کہ نوء کی جمع انواء ہے جس کے معنی قمر کے ہیں منازل یعنی نچھتروں کے ہیں اور وہ منازل اٹھائیس ہیں قرآن کریم کی آیت کریمہ (وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ ) 36 ۔ یس 39) میں ان ہی منازل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے چناچہ اہل عرب نزول باراں کو انہی منازل کی طرف منسوب کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ جب چاند ان سے فلاں فلاں منازل میں آتا ہے تو بارش یقینا ہوتی ہے گویا ان کے نزدیک چاند کا ان منازل میں آنا بارش ہونے کی علت اور مؤثر حقیقی کا درجہ رکھتا ہے۔ چناچہ شارع (علیہ السلام) نے اس عقیدے کو باطل قرار دیا ہے اور واضح کیا کہ بارش کا ہونا محض حکم الہٰی پر منحصر ہے نہ کہ کسی سبب اور علت سے متعلق ہے لیکن واضح رہے کہ اس نفی و ابطال کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ تاثیر علت کا اعتقاد ہو ہاں منازل میں چاند کے آنے کو نزول باراں کا ایک ظاہری سبب سمجھا جائے۔ یعنی یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بارش برساتا ہے جب کہ چاند اپنی اپنی فلاں منزل میں آتا ہے اور وہ وقت علت کا درجہ نہیں رکھتا بلکہ محض ایک ظاہری سبب کا درجہ رکھتا ہے کہ حق تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اس وقت سے پہلے یا اس کے بعد بارش برسائے اور اگر چاہے تو اس وقت بھی نہ برسائے تو یہ عقیدہ نہ کفر کے دائرے میں آئے گا اور نہ اس کو باطل کہا جائے گا۔ اگرچہ امام نووی کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ بھی کفر کا سبب ہے کیونکہ نزول باراں کو چاند اور اس کے منازل سے کسی بھی طرح متعلق کرنا اول تو اہل کفر کا شعار ہے دوسرے مذکورہ صورت (اگرچہ علیت کے عقیدہ کو ظاہر نہیں کرتی مگر موہم علیت تو یقینا ہے، اس بارے میں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ حدیث مذکورہ ممانعت مطلق (بلا استثناء) ہے کہ اس کا تعلق علیت کے عقیدے سے بھی ہے اور اس صورت سے بھی ہے جس میں چاند اور اس کی منازل کو محض ایک ظاہری سبب سمجھا جائے، کیونکہ اول تو اس ارشاد کا مقصود عقیدے کی گمراہی و فساد کا سد باب ہے دوسری ایسی کوئی حدیث منقول نہیں ہے جس سے اس کا جواز کسی بھی صورت میں ثابت ہو۔ حاصل یہ کہ جب بارش ہو، اس طرح نہیں کہنا چاہئے کہ فلاں نچھتر سے بارش ہوئی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بارش ہوئی ہے۔

【72】

غول کا ذکر

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ۔ ایک سے دوسرے کو بیماری کا لگنا، صفر اور غول کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (مسلم) تشریح غول جس کی جمع غیلان ہے جنات و شیاطین کی ایک قسم و جنس ہے، اہل عرب کا خیال تھا کہ جنگلات میں غول مختلف صورتوں اور شکلوں میں لوگوں کو دیکھائی دیتے ہیں اور ان کو راستہ بھلا دیتے ہیں اور ہلاک کر ڈالتے ہیں، چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس خیال کو باطل قرار دیا اور فرمایا کہ غول کوئی چیز نہیں ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ارشاد گرامی ﷺ میں غول کے وجود کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان (غول) کا مختلف صورتوں میں ظاہر ہونا اور لوگوں کو گمراہ و ہلاک کردینا ایک بےحقیقت بات ہے یعنی ان کو اتنی قدرت و طاقت حاصل ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر مسافروں کو راستہ بھلا دیں اور ان کو ہلاک کر ڈالیں۔

【73】

جذامی کا ذکر

اور حضرت عمرو بن شرید اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ قبیلہ ثقیف کے لوگوں کا جو وفد (دربار رسالت میں) آیا تھا اس میں ایک جذامی تھا ( جب اس نے بیعت کے لئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا) تو نبی کریم ﷺ نے اس کے پاس ایک آدمی بھیج کر کہلا دیا کہ ہم نے (تمہارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے بغیر) تم سے (زبانی) بیعت لے لی ہے تم لوٹ جاؤ (گویا آپ ﷺ نے اس کو سامنے نہیں بلایا تاکہ حاضرین مجلس کو کراہت محسوس نہ ہو) (مسلم ) ۔ تشریح جذامی سے ملنے جلنے میں اجتناب و احتراز کے بارے میں ایک تو یہ حدیث ہے، دوسری حدیث وہ ہے جو پیچھے گزری ہے اور جس میں فرمایا گیا کہ جذامی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو ان دونوں حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جذامی کی صحبت و مجالست سے اجتناب و پرہیز کرنا چاہئے، جب کہ وہ احادیث ان کے برعکس ہیں جن میں فرمایا گیا ہے کہ کسی بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں بالکل متضاد ہیں، اس تضاد کو دور کرنے کے لئے اور ان احادیث کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء کے متعدد اقوال منقول ہیں، حضرت شیخ ابن عسقلانی نے شرح نخبہ میں لکھا ہے کہ احادیث کے اس باہمی تضاد کو دور کرنے کے لئے سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جن احادیث میں عدویٰ یعنی چھوت کی نفی کی گئی ہے ان کا حکم اپنے عموم و اطلاق کے ساتھ قائم و باقی ہے اور ان لوگوں کی مخالطت و مجالست جو جذام جیسے امراض میں مبتلا ہوں ان کی بیماری لگنے کا سبب ہرگز نہیں ہوتا اور جہاں تک احادیث کا تعلق ہے جو جذامی سے اجتناب و پرہیز کو ظاہر کرتی ہیں تو ان کا مقصد محض ادہام و وساوس کا سد باب ہے کہ کوئی شخص شرک کے گرداب میں نہ پھنس جائے۔ اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے جذامی کے ساتھ مخالطت و مجالست اختیار کی، یعنی ان کے ساتھ بیٹھا اٹھا اور اس کے ساتھ ملنا جلنا جاری رکھا اور پھر اسی دوران اللہ کا یہ حکم ہوا کہ وہ شخص بھی جذام میں مبتلا ہوگیا تو بعید نہیں کہ وہ اس وہم و اعتقاد میں مبتلا ہوجائے کہ میں اس جذامی کی مخالطت و مجالست ہی کی وجہ سے اس مرض میں گرفتار ہوا ہوں لہٰذا آپ ﷺ نے لوگوں کو اس وہم و اعتقاد سے بچانے کے لئے جو کفر و شرک کی حد تک پہنچاتا ہے، جذامی سے اجتناب و پرہیز کرنے کا حکم دیا، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود اپنی ذات کو حکم سے مستثنیٰ رکھا کیونکہ آپ توکل و اعتقاد علی اللہ کے مرتبہ اعلی پر فائز تھے اس کی بنا پر مذکورہ وہم و گمان میں آپ ﷺ کے مبتلا ہونے کا تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا، چناچہ ایک دن آپ ﷺ ایک جذامی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لائے اور پھر اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا، حاصل یہ کہ جذامی سے اجتناب و پرہیز کرنے کا حکم اس شخص کے لئے ہے جو اپنے صدق و یقین کی طاقت نہ رکھے اور اس بات کا خوف ہو کہ اگر وہ کسی جذامی کی مخالطت ومجالست کے دوران خود اس مرض میں مبتلا ہوگیا تو اس وہم و اعتقاد کا شکار ہو کر شرک خفی کے گرداب میں پھنس جائے گا۔ کرمانی نے کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ بیماری کے چھوت کی کوئی حقیقت نہیں ہے تو جذام کی بیماری اس سے مستثنیٰ ہے۔ نووی کہتے ہیں کہ جذام میں ایک خاص قسم کی بدبو ہوتی ہے اگر کوئی شخص کسی جذامی کے ساتھ مخالطت و مجالست اور ہم خوری وہم بستری میں زیادتی اختیار کرے تو وہ بو اس کو متاثر کرتی ہے اور بیمار کردیتی ہے۔ جیسا کہ اگر کوئی شخص ایسا کھانا کھالے یا ایسی بو میں پھنس جائے جو اس کے مزاج و طبیعت کے موافق نہ ہو یا اس کا مضر ہونا ظاہر ہو تو اس شخص سے متاثر ہوتا ہے اور مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اگرچہ یہ چیزیں محض ایک ظاہری ذریعہ وسبب بنتی ہے حقیقت میں وہ بیماری اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے لاحق ہوتی ہے اس اعتبار سے جذامی سے پرہیز طبی نقطہ نظر اور حصول حفظان صحت کی رو سے ہوگا نہ کہ اس کو چھوت سمجھنے کی وجہ سے۔

【74】

آنحضرت ﷺ نیک فال لیتے تھے

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ (اچھی فال لیتے تھے اور شگون بد نہیں لیتے تھے، نیز آپ ﷺ اچھے ناموں کے ذریعہ فال لینے کو) پسند فرماتے تھے۔ (شرح السنتہ )

【75】

شگون بد لینا شیطانی کام ہے

اور حضرت قطن بن قبیصہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں، کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ عیافہ، طرق اور شگون بد لینا یہ سب چیزیں جبت میں سے ہیں۔ (ابوداؤد) تشریح عیفۃ تطیر یعنی پرندوں کے ذریعہ فال لینے کی ایک صورت ہے جس میں پرندے کو خاص طور پر اڑا کر یا اس کو خود بخود اڑنے اور اس کی آواز کے ذریعہ نیک فالی یا بدفالی لی جاتی ہے پہلے زمانہ کے عربوں میں اس کا بہت زیادہ رواج تھا اور عیافت دانی ایک باقاعدہ فن سمجھا جاتا تھا اس میں عام طور پر پرندوں کے نام کا اعتبار کیا جاتا ہے، مثلاً عقاب کے ذریعہ عقوبت، غراب کوے کے ذریعہ عربت اور ہد ہد کے ذریعہ ہدایت کی فال لی جاتی تھی۔ طیرہ اور عیافہ میں فرق یہ ہے کہ طیرہ کے مفہوم میں عمومیت ہے کہ خواہ کسی پرندے کے ذریعہ شگون بد لیا جائے یا کسی اور جانور کے ذریعے جبکہ عیافہ کا استعمال خاص طور پر کسی پرندے کی آواز کے ذریعہ نیک یا بد فالی لینے کے مفہوم میں ہوتا ہے، نہایہ میں لکھا ہے کہ عیافہ کے معنی ہیں ڈلے مار کر یا ہشکا کر کسی پرندے کو اڑانا اور اس کے نام، اس کی آواز اور اس کے اڑنے و گزرنے کے ذریعہ فال لینا۔ طرق (کنکریاں) مارنے کو کہتے ہیں، فال لینے کی یہ بھی ایک صورت تھی، چناچہ پہلے زمانہ میں خاص طور پر عرب عورتیں فال لیتے وقت کنکریاں مارتی تھیں۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ریت پر خطوط اور لکیریں کھینچنے کو طرق کہتے ہیں جیسا کہ رمل جاننے والے ریت پر مختلف طرح کے ہند سے اور خطوط وغیرہ کھینچتے ہیں اور ان کے ذریعہ غیب کی باتیں دریافت کرنے کا دعوی کرتے ہیں۔ جبت سحر و کہانت کے معنی میں ہے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جبت کے معنی ہیں ہر وہ چیز جس میں بھلائی نہ ہو، یا وہ چیز جو اللہ کے سوا پوجی جائے، یعنی شرک اور بعض حضرات کے نزدیک جبت شیطان کے کام کو کہتے ہیں۔۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب چیزیں یعنی شگون بد لینا، پرندوں کی آواز کے گزرنے کے ذریعہ اور کنکریاں مار کر فال لینا، یا رمل و زائنچہ وغیرہ کھینچ کر آئندہ کے حالات بتلانا، سحر و کہانت کے حکم میں داخل ہیں، یہ سب شرک کے کام ہیں اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ سب چیزیں شیطان کے کام ہیں۔

【76】

بدشگونی شرک ہے

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ شگون بد لینا شرک ہے آپ ﷺ نے (زیادہ سے زیادہ) اہمیت ظاہر کرنے کے لئے) یہ بات تین مرتبہ فرمائی تاکہ لوگ اس سے اجتناب کریں اور ہم میں سے جو بھی شخص ایسا ہوتا ہے (کہ جس کے دل میں کبھی بدشگونی کے ذریعہ تردود و خلجان پیدا ہوجاتا ہے) تو اللہ تعالیٰ اس کو اس پر بھروسہ و اعتماد کرنے سے روک دیتا ہے یعنی یہ ایمان کا تقاضہ ہے کہ کسی کام و سفر کے قصد و ارادہ کے وقت کوئی ایسی چیز ظاہر ہوجائے جس سے بتقاضائے بشریت دل و دماغ میں کوئی وہم اور تردد پیدا ہو تو اس وہم پر قطعا بھروسہ و اعتماد نہ کیا جائے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل و یقین رکھتے ہوئے اس کام کو کیا جائے یا اس سفر پر چلا جائے۔ (ابوداؤد، ترمذی، ) اور ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام بخاری سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میرے استاد و شیخ حضرت سلمان بن حرب اس حدیث کے بارے میں فرماتے تھے کہ حدیث کی یہ عبارت وما منا الا والکن اللہ یذہبہ بالتوکل میرے نزدیک حضرت ابن مسعود (رض) کا قول ہے (نہ کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے ) ۔ تشریح شگون بد لینا شرک ہے ۔ کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیز مشرکین کے طور طریقوں اور ان کی عادات میں سے ہے اور شرک خفی کی موجب ہے۔ ہاں اگر جزما یہ اعتقاد رکھا جائے کہ یونہی ہوگا تو وہ شگون بلا شک وشبہ کفر کے حکم میں ہوگا۔

【77】

آنحضرت ﷺ نے جذامی کے ساتھ کھانا کھایا

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے ایک جذامی کا ہاتھ پکڑ کر اس کو کھانے کے پیالہ میں اپنے ساتھ شریک کیا اور فرمایا کہ کھاؤ، میرا اللہ پر اعتماد و بھروسہ ہے اور میں اسی کی ذات پر توکل کرتا ہوں۔ (ابن ماجہ) تشریح اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ توکل و یقین کا مرتبہ حاصل ہوجانے کے بعد جذامی سے بھاگنا اور اس کو اپنے سے الگ رکھنا ضروری نہیں ہے۔

【78】

بدشگونی کوئی چیز نہیں ہے

اور حضرت سعد بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہ ہامہ کوئی چیز ہے نہ ایک سے دوسرے کو بیماری کا لگنا کوئی حقیقت رکھتا ہے اور نہ شگون بد میں کوئی حقیقت ہے، اگر کسی چیز میں شگون بد ہوتا تو گھر میں گھوڑے اور عورت میں ہوتا ہے۔ (ابوداؤد) تشریح طیرہ یعنی بدشگونی اور نحوست کے سلسلے میں مختلف احادیث منقول ہیں، جن احادیث سے طیرہ کے اثرات کی نفی اور اس کا اعتبار کرنے یا اس پر اعتقاد رکھنے کی نہی و ممانعت ثابت ہوتی ہے وہ زیادہ ہیں، بعض احادیث سے طیرہ کے اثرات کی نفی اور اس کا اعتبار کرنے یا اس پر اعتقاد رکھنے کی نہی و ممانعت ثابت ہوتی ہے وہ زیادہ ہیں، بعض احادیث سے عورت، گھوڑے اور گھر میں طیرہ کا ثبوت یقینی الفاظ کے ذریعہ مفہوم ہوتا ہے جیسا کہ بخاری و مسلم کی روایت ہے۔ انما الشوم فی ثلث الفرس ولمرأۃ والدار یعنی اس میں کوئی شک نہیں کہ تین چیزوں میں نحوست ہے، گھر، گھوڑے اور عورت میں ایک روایت میں وہ تین چیزیں زمین، خادم اور گھوڑا بیان کی گئی ہیں۔ بعض احادیث سے ان تین چیزوں میں طیرہ کا ثبوت الفاظ شرط کے ساتھ مفہوم ہوتا ہے جیسا کہ اوپر نقل کی گئی حدیث یا اسی طرح دوسری حدیث کے الفاظ ہیں کہ اگر بد شگونی اور نحوست کوئی چیز ہوتی تو ان چیزوں میں پائی جاتی، بعض احادیث سے دوسری تمام چیزوں کی طرح ان تین چیزوں میں بھی نحوست کے پائے جانے کا انکار مفہوم ہوتا ہے، جیسا کہ ابن ابی ملیکہ کی روایت ہے جس کو انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے اور بعض احادیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ان چیزوں میں نحوست کے پائے جانے کا اعتقاد زمانہ جاہلیت کے بےسروپا اعتقادات و خیالات سے ہے۔ غرض کہ اس بارے میں مختلف مفہوم کی روایتیں منقول ہیں لہٰذا ان سب کے درمیان وجہ مطابقت اور ان سب کا حاصل مقصد یہ ہے کہ تطیر یعنی شگون بد لینا اور کسی چیز کو منحوس سمجھنا بالکل بےاصل بات ہے اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ کچھ چیزوں میں نحوست ہوتی ہے تو جو چیزیں ایسی ہیں جو اپنی بعض حیثیتوں اور مآل کار کے اعتبار سے اس قابل ہیں کہ ان میں نحوست کا ہونا گمان کیا جاسکتا ہے اور ان کو نحوست کا موقع ومحل قرار دیا سکتا ہے۔ یہ بات ایسی ہی ہے جیسا کہ اس روایت میں فرمایا گیا ہے۔ لوکان شی سابق القدر لسبقۃ العین یعنی اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جانے والی ہو تو وہ نظر بد ہوتی۔ قاضی نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے وہ کہتے ہیں کہ حدیث میں پہلے تو طیرہ کا انکار کرنا اور اس کے بعد یہ شرطیہ جملہ (کہ اگر کسی چیز میں شگون بد ہوتا تو گھر میں گھوڑے میں ایک عورت میں ہوتا) لانا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ تطیر یعنی بدشگونی کی نحوست کا انکار اس مفہوم میں ہے اگر نحوست کا کوئی وجود ثبوت ہوتا تو ان تین چیزوں میں ہوتا کیونکہ یہی تین چیزیں نحوست کا موقع و محل ہوسکتی ہیں، لیکن جب ان چیزوں میں بھی نحوست کا کوئی وجود نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نحوست سرے سے کوئی وجود نہیں رکھتی۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر ان چیزوں میں نحوست کا کوئی وجود مفہوم ہوتا ہے تو اس معنی میں کہ اگر عورت زبان دراز، بےحیاء اور بدکار ہو یا اس کی کوکھ سے بچہ جنم نہ لیتا ہو یا اپنے شوہر کی نافرمانی کرتی ہو اور یا مکروہ صورت و بدشکل ہو تو اس اعتبار سے اس کو منحوس کہا جاتا ہے گھر میں نحوست کا ہونا اس معنی میں ہے کہ وہ گھر تنگ و تاریک ہو اس کا پڑوس برے ہمسایوں پر مشتمل ہو اور اس کی آب و ہوا ناموافق ہو، اسی طرح گھوڑے میں نحوست کا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ گھوڑا سرکش و شریر ہو، کھانے میں تو تیز ہو لیکن چلنے میں مٹھا ہو، خصوصیات کے اعتبار سے کم تر ہو لیکن قیمت کے اعتبار سے گراں ہو اور مالک کی ضرورت و مصالح کو پورا نہ کرتا ہو، گھوڑے ہی پر خادم کو قیاس کیا جاسکتا ہے ، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ نحوست سے شرعی و طبعی کراہت و ناپسندیدگی مراد ہے اس اعتبار سے شوم و تطیر کی نفی تو عموم و حقیقت پر محمول ہوگی یعنی حقیقت تو یہی ہے کہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔ جس میں نحوست کا کوئی وجود ہو لیکن جن احادیث سے بعض چیزوں میں نحوست کا ہونا مفہوم ہوتا ہے ان میں نحوست سے مراد ان چیزوں کا طبعی طور پر یا کسی شرعی قباحت کی بنا پر ناپسندیدہ ہونا ہے۔

【79】

آنحضرت ﷺ نیک فال لینے کے لئے اچھے ناموں کا سننا پسند فرماتے تھے

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب کسی کام کے لئے باہر نکلتے تو آپ ﷺ کو یہ اچھا معلوم ہوتا کہ کسی کی زبان سے یہ سنیں اے راشد اے نجیح یعنی کسی کام کے لئے جاتے وقت اس طرح کے نام و الفاظ سننا نیک فال ہے۔ (ترمذی )

【80】

آنحضرت ﷺ نیک فال لینے کے لئے اچھے ناموں کا سننا پسند فرماتے تھے

اور حضرت بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کسی چیز سے شگون بد نہ لیتے تھے اور جب آپ ﷺ کسی عامل (کارکن کو کہیں) روانہ کرنے لگتے تو اس کا نام دریافت فرماتے، اگر اس کا نام اچھا معلوم ہوتا تو آپ ﷺ اس سے خوش ہوئے اور آپ ﷺ کی خوشی سے ظاہر ہوتی (یہاں تک کہ آپ ﷺ اس کے نام کو کسی اچھے نام سے بدل دیتے) اسی طرح جب آپ ﷺ کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس بستی کا نام پوچھتے اگر آپ ﷺ کو اس کا نام اچھا معلوم ہوتا تو اس سے خوش ہوتے اور آپ ﷺ کی ناگواری آپ ﷺ کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہوتی ( ابوداؤد) تشریح کسی برے نام کو سن کر ناگواری ہونا تطیر ( یعنی شگون بد لینا) نہیں ہے تطیر تو اس صورت میں ہوتا جب آپ ﷺ برے نام کو سن کر اپنے کام یا اپنے سفر کو ترک کردیتے جیسا کہ شگون بد لینے کی صورت میں ہوتا ہے تاہم کسی شخص یا آبادی کا برا اور بھدا نام سن کر آپ ﷺ کے چہرہ مبارک سے ناگواری کے اثرات نمایاں ہوتے تھے کیونکہ طبیعت کا اچھائی و برائی سے متاثر ہونا اور اس کے نتیجے میں خوشی یا ناخوشی کا ظاہر ہونا تفاؤل وتطیر سے قطع نظر ایک فطری بات ہے۔ ابن ملک کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی اولاد یا اپنے خادم کے لئے اچھے نام کو اختیار کرنا سنت ہے، کیونکہ بسا اوقات برے نام تقدیر کے موافق ہوجاتے ہیں اور اس کے نتائج دور رس اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام خسار رکھے تو ہوسکتا ہے کہ کسی موقع پر خود وہ شخص یا اس کا وہ بیٹا تقدیر الہٰی کے تحت خسارہ میں مبتلا ہوجائے اور اس کے نتیجہ میں لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ اس کا خسارہ مبتلا ہونا نام کی وجہ سے ہے اور بات یہاں تک پہنچے کہ لوگ اس کو منحوس جاننے لگیں اور اس کی صحبت وہم نشینی تک سے احتراز کرنے لگیں۔

【81】

مکان میں بے برکتی کا ذکر

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن بارگاہ رسالت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ پہلے ہم ایک مکان میں رہا کرتے تھے جس میں ہمارے افراد کی تعداد بھی زیادہ تھی اور ہمارے پاس مال بھی بہت تھا، پھر ہم ایک دوسرے مکان میں منتقل ہوگئے تو اس میں ہمارے آدمیوں کی تعداد بھی کم ہوگئی اور ہمارے مال بھی تھوڑا رہ گیا رسول کریم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اس مکان کو چھوڑ دو جو برا ہے۔ (ابوداؤد ) ۔ تشریح آنحضرت ﷺ کا اس مکان کو چھوڑ دینے کا حکم اس مکان کو منحوس سمجھنے کی بنا پر نہیں تھا۔ بلکہ اس مکان کی آب و ہوا اور اس کی سکونت چونکہ مکینوں کو راس نہیں آئی اس لئے آپ ﷺ نے بہتر یہی سمجھا کہ وہ مکان کو چھوڑ دیں۔ خطابی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کو مکان چھوڑ دینے کا حکم اس مصلحت کے پیش نظر دیا کہ ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ سارے نقصان اور ساری جڑ مکان ہے اگر ہم اس مکان میں نہ رہتے تو نہ ہمارے آدمیوں میں کمی آتی اور نہ ہمارے مال و اسباب کا نقصان ہوتا، لہٰذا آپ ﷺ نے ان کو مکان چھوڑ دینے کا حکم ہی بہتر سمجھا۔ تاکہ ان کے غلط خیال اور واہمہ کی جڑ ہی کٹ جائے اور یہ شرک خفی کے گرداب میں نہ پھنسیں۔

【82】

خراب آب وہوا کو چھوڑ دینے کا حکم

اور حضرت یحییٰ بن عبداللہ بن بحیر کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا کہ جس نے حضرت فردہ (رض) بن مسیک سے یہ روایت سنی کہ انہوں نے یعنی فروہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس ایک زمین ہے جس کو ابین کہا جاتا ہے اور وہ ہماری زراعت اور غلے کی زمین ہے یعنی وہ غلہ منڈی ہے، جہاں تجارت کے لئے دوسری جگہوں سے غلہ لا کر جمع کیا جاتا ہے اور دوسرے شہروں میں بھیجا جاتا ہے لیکن اس زمین کی وبا سخت ہے یعنی وہاں وبائی امراض زیادہ رہے ہیں آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو (یعنی وہاں رہنا اور آنا جانا ترک کردو کیونکہ وہ طاعون زدہ آبادی کے حکم میں ہے) اور وبا (بیماری) کا قرب ہلاکت اور اتلاف کا باعث ہوتا ہے۔ (ابوداؤد) تشریح طیبی کہتے ہیں کہ اس زمین کو چھوڑنے کا حکم عدویٰ یعنی چھوت کے نقطہ نظر سے نہیں تھا بلکہ اصول طب اور حفظان صحت کے پیش نظر تھا کیونکہ وہاں کی آب و ہوا غیر موافق تھی اور یہ ظاہر ہے کہ آب و ہوا کا اچھا و صاف اور موافق ہونا حفظان صحت کی بنیاد اور جسم و بدن کی تندرستی و سلامتی کے لئے ضروری اسباب میں سے ہے اس کے برعکس آب و ہوا کا خراب و ناموافق ہونا صحت و تندرستی کے لئے انتہائی مضر اور بیماری و ہلاکت کا سبب ہوتا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ وبا کی جگہ سے بھاگ جانا جاہئے وہ شاید اسی حدیث کے مضمون سے استدلال کرتے ہیں، ان حضرات کے مطابق اس شخص نے آنحضرت ﷺ سے وبا کی شکایت کی کہ اس زمین میں وبائیں پھیلتی ہیں لہٰذا آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس زمین کو چھوڑ دو اور وہاں سے نکل جاؤ، کیونکہ وبائی امراض کی قربت و مخالطت ہلاکت کا باعث ہوتی ہے۔ حالانکہ حقیقت میں اس حدیث سے مذکورہ استدلال قطعا غیر موزوں ہے کیونکہ یہ حدیث اس صورت سے متعلق نہیں ہے کہ وہاں وبا پھیلی ہوئی تھی اور آپ ﷺ نے وہاں سے بھاگ جانے کو جائز رکھا بلکہ اس شخص کی شکایت کا تعلق دراصل اس بات سے تھا کہ وہ زمین ایسی ہے۔ جہاں وبائیں پھیلتی رہتی ہیں۔ گویا اس شخص نے اس زمین کو منحوس و مکروہ جانا، چناچہ اس کے باطنی احوال کی کمزوری کی بنا پر اس کو یہ اجازت دینا ہی بہتر سمجھا گیا کہ وہ اس زمین کو چھوڑ دے اور وہاں آنا جانا ترک کر دے تاکہ وہ ان وباؤں کو اس زمین کو نحوست سمجھ کر بےبنیاد عقیدے کا شکار نہ ہوجائے اور شرک خفی کے گرداب میں نہ پھنس جائے۔ ویسے وبا کی جگہ کی مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال و مباحث ہیں مگر جس صورت کو علماء نے زیادہ بہتر قرار دیا ہے اور جس پر عمل کیا جانا چاہئے وہ یہ ہے کہ پیش از وقوع تو احتراز و اجتناب کیا جائے اور بعد از وقوع صبر و رضا کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ اگر کسی شہر و آبادی میں کوئی وبائی مرض پھیل جائے تو وہاں پہلے سے موجود لوگوں کو اس شہر و آبادی سے بھاگنا ناروا ہے بلکہ وہاں رہتے ہوئے توبہ استغفار کیا جائے اور اس وبا کے دفعیہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا و تضرع کیا جائے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے، چناچہ بخاری و مسلم، وغیر ہما میں وہ احادیث موجود ہیں جن میں وبا زدہ آبادی سے نکلنے اور وبا سے ڈر کر بھاگنے کی ممانعت نیز ایسے مواقع پر صبر و اثبات کی راہ اختیار کرنے کی ترغیب و تعریف منقول ہے۔ واضح رہے کہ وبا سے بھاگنے کو جائز قرار دینے والے حضرات کا اس حدیث سے استدلال کرنا یوں بھی غیر مناسب ہے کہ اس حدیث کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے جب کہ جو احادیث بھاگنے کی ممانعت کو ثابت کرتی ہیں ان کو بخاری، ومسلم نے نقل کیا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا لہٰذا یہ حدیث بخاری، ومسلم، کی احادیث کے معارض نہیں ہوسکتی علاوہ ازیں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ علماء و محققین کے مطابق فروہ (رض) بن مسیک کوئی کثیر الروایت صحابی نہیں ہیں بلکہ ان سے ایک دو ہی حدیثیں نقل کی گئی ہیں اور وہ بھی ایک ایسے راوی نے روایت کی ہیں جو بالکل مجہول غیر معروف ہیں یہاں تک کہ ان کا نام تک معلوم نہیں ہوسکا ہے۔ بلکہ خود یحییٰ ابن عبداللہ ابن بحیر کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ آیا یہ کوئی ثقہ راوی ہیں بھی یا نہیں ؟ حاصل یہ کہ وبا سے ڈر کر بھاگنا بلا شک و شبہ ممنوع اور معصیت ہے اور اگر کوئی اس اعتقاد کے ساتھ بھاگے کہ یہاں موجود رہا اور صبر و اثبات کی راہ اختیار کی تو یقینا وبا کا شکار ہو کر مرجاؤں گا اور اگر یہاں سے نکل بھاگا تو بچ جاؤں گا تو ایسا شخص نہ صرف بھاگنے کی معصیت ہی کا مرتکب ہوگا بلکہ اس فاسد اعتقاد کی بنا پر کافر ہوجائے گا اس اعتقاد کے بغیر بھاگنے والا معاصی ہوگا۔ وبا سے ڈر کر بھاگنے کو، زلزلہ آجانے یا آگ لگ جانے کی صورت میں گھر سے نکل بھاگنے پر قیاس کرنا بھی ایک مہمل بات ہے کیونکہ اول تو یہ قیاس نص کے خلاف ہے، دوسرے زلزلہ آجانے، گھر کے گر پڑنے اور مکان میں آگ لگ جانے کی صورت میں گھر میں موجود رہنا یقینی طور پر ہلاکت و تباہی کا موجب ہے، جیسا کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے اس کے برخلاف وباء سے نہ بھاگنے کی صورت میں مرجانا یقینی نہیں ہوتا بلکہ مشکوک و موہوم ہوتا ہے۔

【83】

بدشگونی کو سد راہ نہ بناؤ

حضرت عروہ بن عامر تابعی کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ کے سامنے بدشگونی کا ذکر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی بہترین صورت اچھی فال ہے اور یاد رکھو کسی مسلمان کو شگون بد ( اس کے مقصد و ارادہ سے) باز نہ رکھے (یعنی مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرے اور پھر کسی چیز کو بد شگونی سمجھ کر اس کام سے باز رہے) اور جب تم میں کوئی شخص ایسی چیز کو دیکھے جس کو وہ ناپسند کرتا ہے یعنی ایسی چیز جس کے ذریعہ شگون بد لیا جاتا ہے اور جو دل و دماغ میں وہم و خلجان پیدا کرتی ہے تو چاہئے کہ یہ دعا پڑھے (اللہم لایاتی بالحسنات الا والا یدفع السیات الا انت ولا حول ولاقوۃ الا باللہ) اے اللہ ! اچھائیوں اور برائیوں کا لانے والا صرف تو ہے اور صرف تو ہی برائیوں اور خرابیوں کو دور کرنے والا ہے اور برائی سے منہ موڑنے اور نیکی کی طرف آنے کی توفیق و طاقت اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اس روایت کو ابوداؤد نے بطریق روایت نقل کیا ہے۔

【84】

کہانت کا بیان

صراح میں لکھا ہے کہ کہانت فال گوئی کو کہتے ہیں اور اس ( فال گوئی) کے پیشہ و ہنر کو کہانت کہا جاتا ہے اسی طرح فال گو کاہن کہتے ہیں طیبی کہتے ہیں کہ کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو آئندہ پیش آنے والے واقعات و حوادث کی خبر دے اور علم غیب و معرفت اسرار کا دعوی کرے آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب میں کہانت کا بڑا رواج تھا اہل عرب کاہنوں کی بتائی ہوئی باتوں پر اعتماد بھروسہ کرتے تھے ان میں سے بعض کاہن یہ دعوی کرتے تھے کہ جو جنات آسمان پر جاتے ہیں وہ وہاں کی باتیں ہم کو بتا دیتے ہیں یہ بات تو روایت سے بھی ثابت ہے کہ بعثت نبوی ﷺ سے پہلے شیاطین چوری چھپے آسمان پر جاتے وہاں دنیا میں آئندہ پیش آنے والے واقعات جن کا تذکرہ فرشتوں میں ہوتا یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو جو احکام دیئے جاتے وہ شیاطین ان کو ادھر ادھر چھپ کر سن لیتے تھے اور پھر زمین پر آ کر ان میں اپنی من پسند باتوں کا اضافہ کر کے اور جھوٹ ملا کر اپنے متبعین کو بتا دیتے وہ لوگ ان سب باتوں کو صحیح مان کر تسلیم کرتے اور ان کے ذریعہ اہل عرب پر اپنی غیب دانی کا سکہ جماتے، لیکن آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد جب شیاطین کو آسمان پر جانے سے روک دیا گیا اور یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ تو کہانت کا کام بھی تمام ہوگیا۔ کہانت ہی کی طرح کی ایک چیز عرافت بھی تھی کچھ لوگ بعض مخصوص چیزوں اور کچھ علامات و مقدمات کے ذریعہ پوشیدہ چیزوں کی خبر دیتے تھے، جیسے رمل جاننے والوں کی طرح وہ بھی بتا دیتے تھے کہ چوری کا مال کہاں موجود ہے۔ یا گمشدہ شخص کس جگہ ہے وغیرہ وغیرہ ایسے لوگوں کو عراف کہا جاتا تھا بعض مواقع پر کاہن کا اطلاق عراف اور منجم پر بھی ہوتا ہے علماء لکھتے ہیں کہ کہانت، عرافت اور رمل و نجوم کا علم حرام ہے کہ ان کا سیکھنا اور ان پر عمل کرنا شریعت نے قطعا روا نہیں رکھا ہے اسی لئے ان علوم کے ذریعہ کمایا ہوا مال بھی حرام ہوتا ہے، لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہوتے ہیں جو لوگ دنیاوی طور پر یا دینی طور پر مخلوق اللہ کی دیکھ بھال اور ان کی ہدایت و راہنمائی پر مامور ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو ان چیزوں میں پڑنے سے روکیں اور جو لوگ ان میں مبتلا ہیں ان کو تادیب و تنبیہ کریں

【85】

کہانت ورمل ناجائز ہے

حضرت معاویہ بن حکم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ ایسی کتنی ہی چیزیں ہیں جن کو ہم زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے، ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ ہم کاہنوں کے پاس جاتے تھے (اور ان سے غیب کی باتیں پوچھا کرتے تھے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب تم کاہنوں کے پاس نہ جایا کرو، حضرت معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ایک چیز یہ بھی ہے کہ ہم شگون بد لیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو تم میں سے کوئی اپنے دل میں محسوس کرسکتا ہے لیکن یہ (یعنی دل میں اس طرح کا خیال آنا) تم کو کسی کام سے نہ روکے (یعنی اگر تم میں سے کوئی شخص بتقاضائے بشریت شگون بد کا خیال بھی لائے تو اس سے متاثر ہو کر اپنے قصد و ارادہ سے باز نہ رہے کیونکہ بدشگونی وہم محض سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی) حضرت معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ ایک چیز یہ بھی ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں اور خطوط کھینچتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ،۔ انبیاء میں سے ایک نبی گزرے ہیں جو (اللہ تعالیٰ کے حکم سے یا اپنے علم لدنی کے ذریعہ) لکیریں اور خطوط کھینچا کرتے تھے لہٰذا جس شخص کا خط ان کے موافق ہو وہ مباح ہوگا (ور نہ ناجائز ) ۔ ( مسلم) تشریح حدیث میں جن نبی کا ذکر کیا گیا ہے ان سے حضرت دانیال (علیہ السلام) یا بعض حضرات کے قول کے مطابق حضرت ادریس (علیہ السلام) مراد ہیں۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ لکیریں اور خطوط کھینچنے کا علم کہ جس کو رمل کہا جاتا ہے اصل میں ان نبی سے چلا تھا جو اب اپنے حقیقی اصول وقواعد کے اعتبار سے معدوم ہوچکا ہے، اگر اب بھی کوئی شخص اس علم کو انہی خصوصیات و شرائط کے ساتھ جانتا ہو جو ان نبی ﷺ نے وضع فرمائے تھے اور اس کا لکیریں اور خطوط کھینچنا بالکل اسی طرح ہو جس طرح نبی کھینچتے تھے تو اس صورت میں اس علم سے فائدہ اٹھانا مباح ہوگا، لیکن یہ بات چونکہ متحقق ہے کہ یہ علم اپنے اصل کے اعتبار سے دنیا سے اٹھ گیا ہے اور کوئی شخص یہ جاننے پر قادر نہیں ہے کہ وہ نبی کس طرح لکیریں اور خطوط کھینچا کرتے تھے اس لئے اب اس علم کو سیکھنا اور اس پر عمل کرنا حرام و ممنوع ہوا اس کی وضاحت باب مالا یجوز من العمل فی الصلوۃ گزر چکی ہے۔

【86】

کہانت کوئی حقیقت نہیں ہے

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا (کہ ان کی بتائی ہوئی باتوں پر اعتماد کیا جاسکتا ہے یا نہیں) تو رسول کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ وہ کچھ نہیں ہیں یعنی وہ جن باتوں کا دعوی کرتے ہیں وہ بےبنیاد ہوتی ہیں اس لئے ان کی بتائی ہوئی باتوں پر اعتماد بھروسہ مت کرو۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! بعض دفعہ وہ ایسی بات بتاتے ہیں یا ایسی خبر دیتے ہیں۔ جو سچ ہوتی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ بات حق ہوتی ہے جس کو جن (یعنی شیطان) اچک لیتا ہے اور اپنے دوست (کاہن) کے کان میں اس طرح ڈال دیتا ہے۔ جس طرح مرغ کوئی دوسرے مرغ کو دانہ لینے کے لئے بلاتا ہے پھر وہ کاہن اس بات میں سو سے زیادہ جھوٹی باتیں ملا دیتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح وہ بات حق ہوتی ہے جس کو جن اچک لیتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ کاہنوں کی جو باتیں یا بعض چیزیں صحیح ثابت ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب ذات حق جل مجدہ سے کوئی حکم بذریعہ وحی فرشتوں تک آتا ہے یا لوح محفوظ کی کوئی بات فرشتوں پر منکشف ہوتی ہے تو کسی طرح سے جنات و شیاطین ان فرشتوں سے اس بات یا حکم کو سن لیتے ہیں اور اس کو ان لوگوں کے کان میں پھونک دیتے ہیں جو ان جنات اور شیاطین کے پیروکار ہوتے ہیں (یعنی وہ کاہن) اور پھر وہ کاہن اس ایک بات میں سینکڑوں جھوٹی باتیں ملا کر لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ بعض حضرات نے لفظ یقرہا فی اذن ولیہ قر الدجاجۃ کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ جس طرح مرغ اپنی مرغی سے جفتی کے وقت اس طرح منی ڈالتا ہے کہ کسی آدمی کو معلوم نہیں ہوتا اسی طرح وہ جن اس آسمانی بات کو اپنے پیروکار کے کان میں اس طور سے ڈالتا ہے کہ اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کو اس کا علم نہیں ہوتا۔

【87】

کہانت کوئی حقیقت نہیں ہے

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ فرشتوں کی کوئی جماعت جب عنان یعنی ابر میں اترتی ہے اور (آپس میں) ان باتوں اور ان امور کا تذکرہ کرتیں ہیں جو آسمان میں اللہ کے ہاں مقدر ہوئے ہیں اور دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے ہیں جب وہ کوئی بات سن لیتے ہیں تو اس کو کاہنوں کے پاس پہنچا دیتے ہیں اور وہ کاہن شیاطین سے سنی ہوئی۔ اس بات میں اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا لیتے ہیں۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ کاہن جو باتیں بیان کرتے ہیں ان میں وہ بات نہیں ہوتی ہے جو ان شیاطین کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے اور وہ شیاطین اس بات کو فرشتوں سے چوری چھپے سن لیتے ہیں اور چونکہ وہ بات بہر صورت وقوع پذیر ہوتی ہے اس طرح کاہنوں کی بعض باتیں حقیقت و واقعہ کے مطابق ہوجاتی ہیں لیکن یہ چیز بہر حال ملحوظ رکھنے کی ہے کہ وہ کاہن چونکہ اس بات میں اپنی طرف سے سینکڑوں جھوٹی باتیں بھی ملا دیتے ہیں اور ان کی بتائی ہوئی باتوں اور چیزوں پر جھوٹ غالب رہتا ہے اس لئے شریعت نے ان کاہنوں سے استفادہ کرنے اور ان کی باتوں پر دھیان دینے سے سرے سے روک دیا اور فرمایا ان کی باتیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں۔

【88】

نجومیوں اور کاہنوں کے پاس جانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت حفصہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس سے کچھ پوچھنے یعنی غیب کی باتیں دریافت کرے ) تو اس کی چالیس دن رات کی نمازیں قبول نہیں کی جاتی۔ (مسلم) تشریح یہ چیز گویا ایسے شخص کے حق میں سخت نقصان دہ اور انتہائی بدبختی کی علامت ہے کہ اس کی نماز جو عبادات میں سے سب سے افضل اور بزرگ ترین عمل ہے، نامقبول ہوجائے یا یہ مراد ہے کہ اس شخص کی جب نماز ہی قبول نہیں ہوتی تو دوسرے اعمال بطریق اولی قبول نہیں ہوں گے، نیز نماز قبول نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کو ان نمازوں کا ثواب نہیں ملتا اگرچہ اس کے ذمہ سے فرض ادا ہوجاتا ہے اور اس پر ان نمازوں کی قضا واجب نہیں ہوتی۔ حدیث میں اگرچہ اربعین لیلۃ کے الفاظ ہیں یعنی صرف رات کا ذکر کیا گیا ہے مگر حقیقت میں رات اور دن دونوں مراد ہیں کیونکہ اہل عرب کے کلام کا یہ بھی اسلوب ہے کہ الفاظ میں تو ذکر صرف دن یا صرف رات کا ہوتا ہے۔ مگر مراد رات اور دن دونوں ہوتے ہیں۔

【89】

ستاروں کو بارش ہونے کا سبب قرار دینا کفر ہے

حضرت زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مقام حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی جب کہ رات میں بارش ہوچکی تھی، جب آپ ﷺ نماز فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم جانتے ہو تمہارے پروردگار نے اس وقت کیا فرمایا ہے (یعنی آپ ﷺ نے ارشاد کیا کہ ابھی مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے) صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے بندوں نے آج اس حال میں صبح کی کہ بعض تو مجھ پر ایمان لائے اور بعض نے کفر کی، چناچہ جس شخص نے یہ کہا کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی ہے تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کے ساتھ کیا (یعنی ستاروں کے اثر کا منکر ہیں) اور جس شخص نے کہا کہ فلاں ستارے کے طلوع ہونے اور فلاں ستارے کے غروب ہونے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے تو اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔ (بخاری ومسلم) تشریح جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ بارش ہونے میں ستاروں کی تاثیر کا دخل ہوتا ہے یعنی ستارے ہی بارش برساتے ہیں یا ستارے ہی ایسے اثرات مرتب کرتے ہیں جن سے پانی برستا ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا عقیدہ ہوتا ہے تو ایسا شخص کافر ہوجائے گا۔ ہاں اگر اعتقاد کی نوعیت یہ ہو کہ بارش اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے اور اس کے فضل و کرم سے ہوتی ہے۔ اور ستاروں کا طلوع و غروب اور نچھتر وغیرہ کی ایک علامت ہے۔ اور ان چیزوں کی بنیاد پر بارش ہونے کا گمان کیا جاسکتا ہے تو یہ کفر نہیں لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس طرح کا خیال و عقیدہ رکھنا بھی مکروہ تنزیہی ہے۔

【90】

ستاروں کو بارش ہونے کا سبب قرار دینا کفر ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب بھی اللہ تعالیٰ آسمان سے کوئی برکت نازل کرتا ہے تو انسانوں کی کوئی نہ کوئی جماعت اس کے ذریعہ کفر میں مبتلا ہوجاتی ہے یعنی کچھ نہ کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو اس برکت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کی بجائے دوسرے ذرائع و اسباب کی طرف منسوب کردیتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے تو بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلاں ستارے کے اثر سے بارش ہوئی ہے۔ (مسلم) تشریح اگرچہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ برکت سے مراد بارش ہے اور یہ عبارت وینزل الغیث (اللہ تعالیٰ برساتا ہے الخ) ماقبل عبارت اور لفظ برکت کی توضیح ہے لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ برکت سے عام یعنی ہر طرح کی برکت مراد ہو اور وینزل الغیث الخ کے ذریعہ نزول برکت کی ایک مثال اور اس کی ایک خاص صورت کو بیان کرنا مقصود ہو۔

【91】

علم نجوم حاصل کرنا گویا سحر کا علم حاصل کرنا ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص علم نجوم کا ایک حصہ سیکھتا ہے تو گویا وہ علم سحر کا ایک حصہ سیکھتا ہے اس طرح وہ اتنا زیادہ سحر کا علم سیکھتا ہے جتنا زیادہ نجوم کا علم سیکھتا ہے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح علم نجوم کو سحر سے تشبیہ دی گئی ہے کہ نجوم کا علم سیکھنا ایسا ہی ہے جیسا کسی نے جادو ٹوٹکے کا علم سیکھ لیا اور اس مشابہت کی وجہ سے علم نجوم کی برائی کو ظاہر کرنا ہے اس اعتبار سے علم نجوم پر عمل کرنے والا گویا جادوگروں اور کاہنوں میں کا ایک فرد ہے جو خلاف شریعت امور کو اختیار کرتے ہیں اور غیب کی باتیں بتانے کا دعوی کرتے ہیں۔

【92】

کاہنوں کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ جاننے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص کاہن کے پاس جائے اور اس کی بتائی ہوئی باتوں کو سچا جانے، یا جو شخص کاہن کے پاس جائے اور اس کی بتائی ہوئی باتوں کو سچا جانے، یا جو شخص حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے ہم بستر ہو، یا جو شخص اپنی بیوی کے پیچھے کی طرف سے بدفعلی کرے تو وہ اس چیز (یعنی قرآن و سنت و شریعت) سے بیزار ہوا جو محمد ﷺ پر نازل ہوئی ہے۔ (احمد، ابوداؤد) تشریح بیزار ہوا کا مطلب یہ ہے کہ وہ کافر ہوگیا، لیکن یہ اس صورت میں پر محمول ہے جب کہ وہ اس کو حلال جانے، حلال نہ جاننے کی صورت میں یہ ارشاد گرامی ﷺ ان چیزوں کی سخت ترین برائی کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کرنے اور ان سخت برائیوں کے اختیار کرنے والے کو شدت کے ساتھ متنبہ کرنے اور ڈرانے پر محمول ہوگا۔

【93】

نجومی اور کاہن غیب کی باتیں کس طرح بتاتے ہیں ؟

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس وقت اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی چیز کا حکم جاری کرتا ہے۔ تو فرشتے اللہ کے فرمان سن کر خوف و عاجزی سے اپنے بازو کو پھڑ پھڑانے لگتے ہیں (یعنی فرشتے حکم الہٰی کی ہیبت و عظمت سے مارے ڈر کے پرندوں کی طرح اپنے چکھ پھیلا دیتے ہیں اور لرزنے کانپنے لگتے ہیں) اور اللہ تعالیٰ کے فرمان یعنی اس کے کلام کی آواز (گویا) اس زنجیر کی آواز کی مانند ہوتی ہے جس کو صاف پتھر پر کھینچا جائے پھر جب فرشتوں کے دلوں سے خوف دور ہوجاتا ہے تو وہ (نیچے رہنے والے) تمام فرشتے مقرب فرشتوں سے دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا حکم جاری فرمایا ہے، مقرب فرشتے وہ حکم بتاتے ہیں جو پروردگار نے جاری کیا ہے ( یا مقرب فرشتے دریافت کرنے والے فرشتوں سے کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے پروردگار نے فرمایا ہے) حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بلند قدر اور بلند مرتبہ ہے۔ چناچہ ان باتوں کو (جو فرشتوں کے درمیان ہوتی ہیں) چوری چھپے سننے والے (یعنی جنات و شیاطین) سن لیتے ہیں اور وہ چوری چھپے سننے والوں کی ہیت کو اپنے ہاتھ (کی انگلیوں) کے ذریعہ بیان کیا چناچہ انہوں نے ہاتھ کو ٹیڑھا کر کے انگلیوں کے درمیان فرق کیا (یعنی حضرت سفیان (رض) نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے اوپر تلے ہونے کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ وہ جنات و شیاطین آسمان سے زمین تک اس طرح سلسلہ وار اور اوپر تلے کھڑے رہتے ہیں) اور اوپر والا جن فرشتوں کی بات کو چوری چھپے سن کر اپنے نیچے والے جن کو پہنچا دیتا ہے اور وہ اپنے نیچے والے جن کو پہنچاتا ہے یہاں تک کہ آخری جن (جو سب سے نیچے ہوتا ہے) اس بات کو ساحر یا کاہن کی زبان تک پہنچاتا ہے ادہر (ان جنات و شیاطین کو مارنے اور بھگانے کے لئے آسمان سے شعلے پھینکے جاتے ہیں تو) کبھی تو یہ شعلے ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچانے سے پہلے ہی چوری چھپے سننے والے (جن کو) آ پکڑتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ جن اس شعلے کے پہنچنے سے پہلے ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچا دیتا ہے اور جب اس ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچا دیتا ہے اور جب اس ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچ جاتی ہیں تو وہ اس میں سو جھوٹی باتیں شامل کرلیتا ہے (اور لوگوں کے سامنے ان جھوٹی باتوں کے درمیان وہ بات بھی بیان کرتا ہے جو اس تک جنات و شیاطین کے ذریعہ پہنچتی ہے) چناچہ جب کوئی شخص اس کاہن کو (اس کی بتائی ہوئی باتوں میں سے جھوٹی باتوں کے ذریعہ) جھٹلاتا ہے ( یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے جو فلاں فلاں بات کہی تھی ثابت ہوئی) تو (ان گمراہ لوگوں کی طرف سے جو کاہن کی باتوں کو سچا جانتے ہیں جھٹلانے والے کے سامنے) یہ کہا جاتا ہے کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے اور کیا تم نہیں جانتے کہ اس کاہن نے فلاں فلاں دن ہم سے فلاں بات کہی تھی اور اس طرح اس کاہن کی سچائی کی تصدیق اس بات سے کی جاتی ہے جو اس تک (جنات کے ذریعہ) آسمان سے پہنچتی تھی۔ (بخاری) تشریح حدیث میں وہ صورت بیان کی گئی ہے جو کاہنوں تک غیب کی باتیں پہنچنے کا سبب بنتی ہے اس کے ساتھ حدیث کے آخر میں اس گمراہی کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب کاہن کی بتائی ہوئی اکثر باتیں جھوٹ ثابت ہوتی ہیں اور لوگ اس کو جھٹلاتے ہیں تو وہ لوگ جو کاہن کی سچائی کا اعتقاد رکھتے ہیں اور باطن کی گمراہی میں مبتلا ہوتے ہیں اس کاہن کی ساری جھوٹی باتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں اور صرف اس بات کا حوالہ دے کر اس کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو جنات و شیاطین فرشتوں سے چوری چھپے سن کر کاہن تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور جو واقعہ کے مطابق ہوتی ہے یہی صورت نجومیوں کے بارے میں بھی ہوتی ہے کہ جب سینکڑوں باتیں بتاتے ہیں اور اس میں کوئی بات اتفاق سے صحیح ثابت ہوجاتی ہے تو وہ دنیا دار لوگ جن کے باطن میں گمراہی و کجی ہوتی ہے اس ایک بات کی بنیاد پر ان نجومیوں کے معتقد ہوجاتے ہیں۔ آگے حضرت ابن عباس (رض) کی ایک روایت آرہی ہے جس میں صراحت کے ساتھ کاہن کو ساحر فرمایا گیا ہے اس اعتبار سے اس حدیث کے ان الفاظ علی لسان الساحر او الکاہن میں ساحر سے مراد کاہن ہے اس صورت میں حرف اور اوی کے شک کے اظہار کے لئے ہوگا (یعنی یہ کہا جائے گا کہ راوی نے اپنے شک کا اظہار کیا ہے کہ یہاں ساحر کا لفظ فرمایا گیا ہے یا کاہن کا) اور اگر یہ بات پیش نظر ہو کہ ساحر چونکہ غیب کی باتیں نہیں بتایا کرتا اور اس اعتبار سے یہاں ساحر کا لفظ اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہوسکتا تو یہ کہا جائے گا کہ ساحر سے مراد نجومی ہے جیسا کہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے المنجم ساحر یعنی نجومی ساحر ہے اس صورت میں الساحر والکاہن میں حرف او تنویع کے لئے ہوگا۔ رہی یہ بات کہ چوری چھپے آسمان میں داخل ہونے اور فرشتوں کی باتیں سننے والے جن و شیطان کو بھگانے کے لئے جب شعلے پھینکے جاتے ہیں اور وہ شعلے اس جن یا شیطان کو پکڑتے ہیں تو اس کا حشر کیا ہوتا ہے ؟ چناچہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ جن یا شیطان ان شعلوں کی زد میں آ کر جل بھن جاتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں جب کہ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ وہ جل بھن کر ختم نہیں ہوتے بلکہ شعلوں سے تکلیف و ایذاء پا کر زندہ واپس آجاتے ہیں۔

【94】

شہاب ثاقب کی حقیقت

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے انصاری صحابہ میں سے ایک صحابی نے مجھ سے بیان کا کہ ایک دن رات کے وقت کچھ صحابہ رسول کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور اس کی تیز روشنی پھیل گئی یہ دیکھ کر رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم زمانہ جاہلیت میں اس طرح ستارہ ٹوٹنے کو کیا کہتے تھے ؟ صحابہ نے عرض کیا۔ حقیقت حال کو اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ہم تو یہ کہا کرتے تھے کہ آج کی رات کوئی بڑا آدمی پیدا کیا گیا ہے (یا کبھی یہ کہتے کہ) آج کی رات کوئی بڑا آدمی مرگیا ہے (یعنی ہم اس طرح ستارہ ٹوٹنے کو کسی بڑے اور اہم واقعے کی علامت سمجھا کرتے تھے) رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ستارہ نہ تو کسی کی موت سے ٹوٹتا ہے اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے بلکہ، حقیقت حال یہ ہے کہ ہمارا رب جس کا نام بابرکت ہے جس کو کوئی حکم جاری فرماتا ہے تو عرض الہٰی کو اٹھانے والے فرشتے تسبیح (یعنی سبحان اللہ، سبحان اللہ کا ورد کرنے لگتے ہیں) پھر ان کی تسبیح کی آواز سن کر آسمان کے فرشتے تسبیح کرنے لگتے ہیں، جو عرش اٹھانے والے فرشتوں کے قریب ہے یہاں تک کہ اس تسبیح کی آواز ایک دوسرے آسمان سے ہوتی ہوئے آسمان دنیا پر رہنے والے فرشتوں تک پہنچ جاتی ہے، پھر وہ فرشتے جو عرش الہٰی کو اٹھانے والے فرشتوں سے قریب رہتے ہیں عرش کو اٹھانے والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے ؟ وہ فرشتے ان کو وہ بات بتاتے ہیں جو پروردگار نے فرمائی ہے، پھر اس بات کو ان سے دوسرے فرشتے دریافت کرتے اور ان سے اور فرشتے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ آسمان دنیا پر رہنے والوں تک پہنچ جاتا ہے پھر اس کی سنی ہوئی بات کو جنات اچک لیتے ہیں یعنی وہ کان لگائے ایسی باتوں کے منتظر رہتے ہیں اور جب وہ چوری چھپے کوئی بات سن لیتے ہیں تو اس کو وہاں سے لے اڑتے ہیں۔ اور اپنے دوستوں یعنی کاہنوں تک پہنچا دیتے ہیں، چناچہ ان جنات کو مارنے کے لئے ستارے پھینکے جاتے ہیں (لہٰذا ان ستاروں کے پھینکے جانے کا سبب یہ ہے نہ کہ وہ جس کا تم اعتقاد رکھتے ہو، یعنی کسی کی موت یا پیدائش وغیرہ) اس طرح کاہن اگر اس بات کو جو آسمان سے سنی گئی ہے۔ اور جنات کے ذریعہ اس تک پہنچی ہے جوں کی توں (یعنی اس میں کوئی تصرف اور کمی بیشی کے بغیر) بیان کریں تو وہ یقینا صحیح ثابت ہوگی، (لیکن وہ کاہن ایسا نہیں کرتے بلکہ) اس میں جھوٹی باتیں شامل کردیتے ہیں اور ایک بات کی بہت سی باتیں بنا لیتے ہیں۔ (مسلم، )

【95】

ستارے کس لئے پیدا کئے گئے ؟

اور حضرت قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو تین باتوں کے لئے پیدا کیا ہے ایک تو یہ کہ ان کو آسمانوں کی زینت بنایا اور دوسرے شیاطین و جنات کو مارنے کے لئے اور تیسرے علامات کے لئے کہ لوگ ان کے ذریعہ جنگل و دریا میں اپنا راستہ پاسکیں، لہٰذا جس شخص نے ان ستاروں میں ان تین باتوں کے سوا اور کوئی غرض بیان کی تو اس نے خطا کی، اپنا حصہ ضائع کیا اور پھر اس چیز میں تکلف کیا جس کو وہ نہیں جانتا (یعنی آسمان کی چیزوں کے بارے میں جو حقوق ہیں ان کا علم قرآن و سنت کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے حاصل ہونا ممکن نہیں اور جب قرآن و سنت میں ستاروں کی غرض ان تین باتوں کے علاوہ اور کوئی بیان نہیں کی گئی ہے تو مذکورہ باتوں کے علاوہ کوئی اور غرض بیان کرنا ایسی بات کا بیان کرنا ہے جس کا معلوم ہونا متصور ہی نہیں ہے۔ ! اس روایت کو بخاری نے بغیر سند کے نقل کیا ہے اور رزین کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اس نے اس چیز کا تکلف کیا جو اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی اور اس چیز میں تکلف کیا (یعنی اس چیز کو جاننے کا دعوی کیا) جس کا اس کو علم نہیں ہے اور اس چیز میں تکلف کیا جس کے علم سے انبیاء اور فرشتے عاجز رہے ہیں۔ ربیع نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ قسم ہے اللہ کی ! اللہ تعالیٰ نے ستارے میں نہ تو کسی کی زندگی (یعنی پیدائش) مقرر کی ہے نہ کسی کا رزق یعنی مال و جاہ وغیرہ اور نہ کسی کی موت ! اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ کاہن اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹی افتراء پردازی کرتے ہیں اور ستاروں کے طوع و غروب ہونے کو کسی واقعہ و حادثہ کی علت قرار دیتے ہیں !۔ تشریح اپنا حصہ ضائع کیا کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اس طرح لایعنی باتوں اور بیکار امور میں مبتلا کیا کہ جن کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں حاصل ہوتا ہے اور نہ آخرت میں حاصل ہونے والا ہے۔ اس طرح اس نے گویا اپنی عمر عزیز کا قیمتی حصہ گنوایا۔

【96】

نجومی، ساحر ہے

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جس شخص نے علم نجوم کا کوئی حصہ سیکھا اور سیکھنے کی غرض ان تین چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز سے متعلق ہو کہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمائی ہیں۔ ( اور جن کا بیان حدیث میں گزرا) تو اس نے بلا شبہ علم سحر کا ایک حصہ سیکھا ( جب کہ علم سحر ایک برا علم ہے کیونکہ اس کی بعض قسم فسق میں داخل ہے اور بعض قسم موجب کفر ہے ) اور (یاد رکھو) منجم (علم نجوم کا جاننے والا) کاہن کے حکم میں ہوتا ہے (کیونکہ کاہن کی طرح منجم بھی بعض علامات کے ذریعہ غیب کی خبر دیتا ہے) اور کاہن، ساحر کے حکم میں ہے (کیونکہ کاہن بھی بری باتوں کا ارتکاب کرتا اور لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے) اور جو شخص ساحر کرے اور اس کے جائز ہونے کا اعتقاد رکھے وہ کافر ہوجاتا ہے (اسی طرح منجم اور کاہن بھی اپنی بد اعتقادی کی بنا پر کافر ہوجاتے ہیں ) ۔ (رزین) تشریح حدیث کا حاصل یہ ہے کہ نجوم کہانت اور سحر، یہ سب چیزیں ایک ہی جنس سے ہیں کہ ان سب کا ایک ہی حکم ہے اور یہ سب کافروں اور بےدین لوگوں کے کام ہیں۔

【97】

منازل قمر کو نزول باراں میں مؤثر حقیقی جاننا کفر ہے

اور حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ مثلا پانچ برس تک اپنے بندوں کو بارش سے محروم رکھے اور پھر بارش برسائے تو لوگوں کی ایک جماعت جو نجوم پر اعتقاد رکھتی ہے اس صورت میں بھی کفر کرتی ہوئی یہ کہے گی کہ مجدح یعنی قمر کی منزل کے سبب ہم پر بارش ہوئی ہے۔ (نسائی) تشریح مجدح میم کے زیر جیم کے جزم اور دال کے زبر کے ساتھ اہل عرب کے نزدیک منازل قمر میں سے ایک منزل کا نام ہے زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اس منزل کو بارش برسنے کا سبب قرار دیتے تھے۔ یہ بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ ستاروں کے طلوع و غروب اور منازل قمر کو بارش برسنے کا حقیقی سبب سمجھنا کفر ہے۔