143. آداب کا بیان

【1】

آداب کا بیان

ادب کے معنی ہیں وہ قول و فعل جس کو اچھا اور قابل تعریف کہا جائے یا ادب کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات کو درستی و اچھائی کے ساتھ اچھے موقع پر کہا جائے اور ہر کام کو احتیاط اور دور اندیشی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ادب کا مطلب یہ ہے کہ نیکی، بھلائی کی راہ کو اختیار کیا جائے اور گناہ و برائی کے راستہ سے اجتناب کیا جائے۔ بعض حضرات کے نزدیک ادب کے معنی یہ ہیں کہ اپنے بڑے بزرگ کی عزت و توقیر کی جائے اور اپنے سے چھوٹے کے ساتھ شفقت و محبت اور نرمی کا برتاؤ کیا جائے۔ ادب اپنے وسیع تر مفہوم کے اعتبار سے چونکہ انسانی زندگی اور تہذیب و معاشرت کے مختلف پہلوؤں سے متعلق احادیث نقل کی جائے گی۔

【2】

سلام کا بیان

سلام کے معنی ہیں نقائص و عیوب سے برأت و نجات پانا۔ سلام اللہ تعالیٰ کا ایک اسم پاک ہے جس کے معنی ہیں وہ ذات جو ہر عیب و آفت اور تغیر و فنا سے پاک اور محفوظ ہے۔ سلام اسلامی تہذیب و معاشرت کا ایک خاص رکن ہے اس کے لئے جو الفاظ مقرر کئے گئے وہ السلام علیک ہے اس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تیرے حال سے واقف ہے لہذا غفلت اختیار نہ کر، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسم پاک کا تجھ پر سایہ ہے یعنی اللہ کی حفاظت و نگہبانی میں ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ اللہ معک۔ یعنی اللہ تیرے ساتھ ہے اکثر علماء کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ تجھ پر سلامتی ہو یعنی تو مجھ سے سلامتی میں ہے اور مجھ کو بھی اپنے سے سلامتی میں رکھ۔ اس صورت میں سلام سلم سے مشتق ہوگا جس کے معنی مصالحت کے ہیں اور اس کلمہ کا مطلب یہ ہوگا کہ تو مجھ سے حفظ وامان میں رہ اور مجھ کو بھی حفظ وامان میں رکھ۔ منقول ہے کہ سلام کرنے کا طریقہ اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ میں مشروع ہوا تھا اور اس کا مقصد ایک ایسی علامت کو رائج کرنا تھا جس کے ذریعہ مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز کیا جاسکے تاکہ ایک مسلمان، دوسرے مسلمان سے تعرض نہ کرے گویا اس کلمہ کو اپنی زبان سے ادا کرنے والا اس بات کا اعلان کرتا تھا کہ میں مسلمان ہوں اور پھر یہ طریقہ مستقل طور پر مشروع قرار پایا۔

【3】

فرشتوں کو حضرت آدم کا سلام

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ گز کی تھی جب اللہ نے ان کو بنایا تو ان سے فرمایا جاؤ اور اس جماعت کو سلام کرو اور وہ جماعت فرشتوں کی تھی جو وہاں بیٹھی ہوئی تھی پھر سنو کہ وہ تمہیں کیا جواب دیتی ہے وہ جو جواب دے گا وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا جواب ہے۔ چناچہ حضرت آدم اس حکم الٰہی کی تعمیل میں فرشتوں کی اس جماعت کے پاس گئے اور کہا کہ السلام علیکم فرشتوں نے جواب دیا۔ السلام علیک و (رح) (یعنی تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو) آنحضرت نے فرمایا کہ گویا آدم کے سلام کے جواب میں ورحمۃ اللہ کا لفظ فرشتوں نے زیادہ کیا پھر آپ نے فرمایا کہ پس جو شخص جنت میں داخل ہوگا وہ آدم کی صورت پر ہوگا بایں طور پر کہ اس کی لمبائی ساٹھ گز کی ہوگی یعنی جنت میں جانے والے حضرت آدم کے قد کی مذکورہ بلندی اور ان کے حسن و جمال کے ساتھ وہاں داخل ہوں گے۔ پھر حضرت آدم کے بعد لوگوں کی ساخت برابر کم ہوتی رہی یہاں تک کہ موجودہ مقدار کو پہنچی۔ (بخاری، مسلم) تشریح اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا۔ اس ارشاد گرامی کے معنی میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی احادیث صفات میں سے ہے جس کے حقیقی مفہوم و مطلب تک رسائی ممکن نہیں ہے اس لئے اس بارے میں کوئی تاویل و توجہیہ کرنے کے بجائے سکوت ہی بہتر ہے جیسا کہ اس قسم کے ان اقوال و ارشادات کے بارے میں سکوت اختیار کیا جاتا ہے جو متشابہات کہلاتے ہیں علماء سلف اسی قول کی طرف مائل ہیں جب کہ بعض دوسرے حضرات اس ارشاد گرامی کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں جن سے مشہور تاویل یہ ہے کہ فلاں معاملہ کی صورت مسئلہ یہ ہے یا صورت حال یوں ہے ظاہر ہے کہ جس طرح کسی مسئلہ یا حال کی کوئی ظاہر صورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ صورت کا لفظ استعمال کر کے حقیقت میں اس مسئلہ یا حال کی صفت و کیفیت مراد ہوتی ہے اس طرح یہاں اللہ کی صورت کا لفظ سے مراد اللہ کی صفت جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صفت پر بنایا اور ان کو صفات کے ساتھ موصوف کیا جو صفات کریمہ باری تعالیٰ کا پر تو ہے چناچہ اللہ نے ان کو، حیّ ، عالم، قادر، مرید، متکلم، سمیع اور بصیر بنایا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ صورتہ کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف، شرف و عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے ہے۔ جیسا کہ روح اللہ اور بیت اللہ میں روح اور بیت کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس لطیف و جمیل صورت پر پیدا کیا جو اسرار و لطائف پر مشتمل ہے اور جس کو اس نے اپنی قدرت کاملہ کے ذریعہ اپنے پاس سے عطا کیا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ صورتہ کی ضمیر حضرت آدم کی طرف راجع ہے یعنی اللہ نے آدم کو انہی کی صورت پر بنایا مطلب یہ ہے کہ وہ ابتداء آفرینش سے ہی شکل پر تھے دوسرے انسانوں کی طرح ان کی تخلیق اس تدریجی طور پر نہیں ہوئی تھی کہ پہلے وہ نطفہ تھے پھر مضغہ ہوئے پھر جنین، پھر طفل، پھر صبی اور پھر پورے مرد ہوئے بلکہ وہ ابتداء ہی میں تمام اعضاء وجوارح، کامل شکل و صورت اور ساٹھ گز کے قد کے پورے انسان بنائے گئے تھے لہذا اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا سے مراد آدم کی تخلیق و پیدائش کی حقیقت کو واضح کرنا ہے اور چونکہ دیگر صفات کے برخلاف قد کی لمبائی ایک غیر معروف چیز تھی اس لئے اس کو خاص طور پر ذکر کیا اسی طرح چونکہ لمبائی پر چوڑائی بھی قیاس کی جاسکتی ہے اور اجمالی طور پر اس کا تصور ذہن میں آسکتا ہے لہذا چوڑائی کو ذکر نہیں کیا۔ ورحمۃ اللہ کا لفظ فرشتوں نے زیادہ کیا اس کے ذریعہ سلام کے جواب کے سلسلے میں ایک تہذیب و شائستگی اور ادب فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا چناچہ افضل طریقہ یہی ہے کہ اگر کوئی شخص السلام علیک کہے تو اس کے جواب میں وعلیک السلام وحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا جائے اسی طرح اگر کوئی السلام علیک ورحمۃ اللہ کہے تو اس کے جواب میں وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا جائے ایک روایت میں ورحمۃ اللہ کے بعد ومغفرۃ کا لفظ بھی منقول ہے حدیث سے معلوم ہوا کہ سلام کے جواب میں وعلیک السلام کے بجائے السلام علیک کہنا بھی درست ہے کیونکہ معنی کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن جمہور علماء کے نزدیک افضل یہی ہے کہ جواب میں وعلیک السلام یا وعلیکم السلام ہی کہا جائے رہی یہ بات کہ فرشتوں نے حضرت آدم کے سلام کے جواب میں وعلیک کے بجائے السلام علیک کیوں کہا تو ہوسکتا ہے کہ ملائکہ نے بھی یہ چاہا ہوگا کہ سلام کرنے میں وہ خود ابتداء کریں، جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ جب دو آدمی ملتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک سلام میں ابتداء کرنا چاہتا ہے تو دونوں ہی ایک دوسرے سے السلام علیک یا السلام علیک یا السلام علیکم کہتے ہیں لیکن یہ بات واضح رہے کہ جواب کے درست و صحیح ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جواب سلام کے بعد واقع ہو نہ کہ دونوں ایک ساتھ واقع ہوں جیسا کہ فاستمع مایحیونک سے واضح ہوتا ہے چناچہ فاسمتع میں حرف فاتعقیب کے لئے ہے جو مذکورہ وضاحت کی دلیل ہے عام طور پر لوگ اس مسئلہ سے بہت غافل ہیں اس لئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر دو شخص ملیں اور دونوں ایک ہی ساتھ السلام علیکم کہیں تو دونوں میں سے ہر ایک پر جواب دینا واجب ہوگا۔ حدیث کا آخری جملہ، تقدیم و تاخیر، پر دلالت کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم کا قد ساٹھ گز تھا ان کے بعد لوگوں کے قد بتدریج کوتاہ ہوتے گئے پھر جنت میں داخل ہوں گے تو سب کے قد دراز ہوجائیں گے جیسا کہ حضرت آدم کا قد تھا۔

【4】

افضل اعمال

اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم سے دریافت کیا کہ اہل اسلام کی کون سی خصلت بہتر ہے آپ نے فرمایا کہ کھانا کھلانا اور ہر شناسا وناشناسا کو سلام کرنا۔ (بخاری ومسلم) تشریح اور دو اوصاف کی تخصیص، سائل کے حال کے مناسبت سے ہے لہذا مختلف اوقات میں مختلف اعمال کو افضل فرمانا کہ کسی موقع پر کسی عمل کو افضل فرمایا اور کسی موقع پر کسی کو، سائل کے احوال کے اختلاف و تفاوت پر مبنی ہوتا تھا دریافت کرنے والا جس مزاج و احوال کا آدمی ہوتا تھا اور اس کا رجحان جس نیک خصلت کی ضد کی طرف ہوتا اس کے سامنے اسی نیک خصلت کو افضل قرار دیا جاتا تھا مثلا کسی شخص نے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟ اور آپ جانتے تھے کہ اس شخص کے مزاج میں بخل ہے تو اس سے فرماتے کہ کھانا کھلانا، سب سے بہتر ہے لہذا یہاں جس شخص نے سوال کیا تھا آپ نے اس کے احوال کے مناسبت سے اس سے فرمایا کہ کھانا کھلانا اور ہر آشنا و ناآشنا کو سلام کرنا بہتر عمل ہے۔ لفظ تقری (تا کے پیش کے ساتھ) اقراء سے مشتق ہے اور اس کے معنی پڑھوانے کے ہیں یہ لفظ تاء کے زبر کے ساتھ منقول ہے جو قرأت سے مشتق ہے اور جس کے معنی پڑھنے کے ہیں اگر موخر الذکر صورت میں مفہوم زیادہ بہتر طور پر واضح نہیں ہوتا لہذا اس کی توجہیہ یہ کی جائے گی کہ سلام کرنے والا چونکہ مسلم علیہ (جس کو سلام کیا گیا ہے) کے جواب دینے کے باعث ہوتا ہے اس لئے گوایا وہ اس کی زبان سے وہ کلمہ پڑھواتا ہے جس کا تعلق سلام اور اس کے جواب سے ہے۔ اس حدیث یہ بات واضح ہوئی کہ سلام کا تعلق شناسائی کے حقوق سے نہیں ہے بلکہ یہ ان حقوق میں سے ہے جو اسلام نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے تئیں عائد کئے ہیں اس طرح مریض کی عیادت اور اس جیسے دوسرے امور بھی اسلامی حقوق و واجبات سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ آگے آنے والی حدیث سے واضح ہوگا۔

【5】

ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے کیا حقوق ہیں؟

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مسلمان پر مسلمان کے چھ حق ہیں (ایک تو یہ ہے کہ) جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو دوسرا مسلمان اس کی عیادت کرے دوسرے یہ کہ جب کوئی مسلمان مرجائے تو دوسرا مسلمان اس کی نماز جنازہ میں شریک ہو تیسرے یہ کہ جب کوئی مسلمان کھانے پر بلائے تو بلایا جانے والا مسلمان اس کی دعوت کو قبول کرے (بشرطیکہ کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو۔ جیسے کہ اس دعوت میں باجا گا جا وغیرہ ہو یا اس دعوت کا تعلق اظہار فخر و ریا کاری سے ہو۔ چوتھے یہ کہ جب کوئی مسلمان ملے تو اس کو سلام کرے پانچویں یہ کہ جب کوئی مسلمان چھینکے اور الحمدللہ کہے تو اس کا جواب دے یعنی یرحمک اللہ کہے اور اگر چھینکنے والا الحمدللہ نہ کہے تو وہ جواب کا مستحق نہیں ہوگا۔ اور چھٹے یہ کہ ایک مسلمان کی ہر حالت میں خیر خواہی کرے خواہ وہ حاضر ہو یا غائب اور مشکوۃ کے مولف کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو نہ تو صحیحین (بخاری و مسلم) میں پایا ہے اور حمیدی کی کتاب میں، البتہ اس کو صاحب جامع الاصول نے نقل کیا ہے۔ تشریح خیر خواہی کرے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ ہر حالت میں ایک دوسرے کے خیر خواہ و ہمدرد ہیں جو مسلمان سامنے ہے اس کے ساتھ بھی خیر خواہی کی جائے اور جو نظروں سے دور ہے اس کے ساتھ بھی خیر خواہی کریں، یہ طرز عمل اختیار نہ کرنا چاہیے کہ جب کسی مسلمان کے سامنے آئیں تو اس کے ساتھ تملق یعنی خوشامد چاپلوسی کا رویہ اپنائیں اور جب وہ سامنے نہ ہو تو غیبت کریں یہ خالص منافقانہ رویہ ہے اور منافقوں کی خاصیت ہے۔

【6】

تعلق دوستی قائم کرنے کا بہترین ذریعہ سلام ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تم جب تک کہ ایمان نہ لاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکو گے اور تمہارا ایمان اس وقت کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم اللہ کی رضاء خوشنودی کے لئے آپس میں تعلق و دوستی قائم نہ کرو۔ نیز آپ نے فرمایا اور کیا میں تمہیں ایک ایسا ذریعہ نہ بتادوں جس کو تم اختیار کرو تو آپس میں دوستی کا تعلق قائم ہوجائے اور وہ ذریعہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کا چلن عام کرو یعنی آشنا و ناآشنا سب کو سلام کرو۔ (مسلم ) تشریح مشکوۃ کے ان صحیح و معتمد نسخوں میں کہ جو اونچے درجہ کے مشائخ کے سامنے پڑھے گئے ہیں لفظ ولا تو منوا نون کے حذف کے ساتھ ہے اور یہ حذف نون حتی تومنوا کے مجانست و مقارنت کی وجہ سے ہے تاہم بعض نسخوں میں یہ لفظ نون کے ساتھ یعنی ولا تو منون منقول ہے اور یہ نحوی قاعدہ کے مطابق ہے۔

【7】

کون کس کو سلام کرے؟

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص سواری پر ہو وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرے پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور تھوڑے آدمی زیادہ تعداد والے آدمیوں کو سلام کریں۔ (بخاری ومسلم) تشریح جو شخص سواری پر ہو۔۔۔ الخ۔۔ یہ حکم اصل میں تواضع و انکساری کی طرف راغب کرنے کے لئے ہے کہ کیونکہ جو شخص سواری پر ہے اس کو گویا اللہ نے پیدل چلنے والے پر برتری و فوقیت عطا فرمائی ہے لہذا اس کو فروتنی ہی اختیار کرنی چاہیے اسی طرح جو لوگ کم تعداد میں ہوں اور وہ لوگ ایسے لوگوں کو ملیں جو تعداد میں ان سے زیادہ ہوں تو ان کو بھی چاہیے کہ تواضع و انکساری کی بنا پر اور اکثریت کے احترام کے پیش نظر سلام کرنے میں ابتداء کریں۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کچھ لوگوں سے ملے اور یہ چاہے کہ ان سب کو سلام کرنے کے بجائے ان میں سے چند کو سلام کرے تو یہ مکروہ ہے کیونکہ سلام کا اصل مقصد آپس میں موانست و الفت کو فروغ دینا ہے جب کہ بعض دوسرے مخصوص لوگوں کو سلام کرنا گویا باقی لوگوں کو وحشت و اجنبیت میں مبتلا کرنا ہے اور یہ چیز اکثر اوقات نفرت و عداوت کا بھی سبب بن جاتی ہے۔ لیکن بازار اور شارع عام کا حکم اس سے الگ ہے کہ اگر بازار میں یا شارع عام پر بہت سے لوگ آ رہے ہوں تو وہاں بعض لوگوں کو سلام کرنا کافی ہوگا۔ کیونکہ اگر کوئی شخص بازار میں شارع عام پر ملنے والے ہر شخص کو سلام کرنے لگے تو وہ اسی کام کا ہو کر رہ جائے گا اور اپنے امور کی انجام دہی سے باز رہے گا۔

【8】

کون کس کو سلام کرے؟

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا چھوٹا بڑے کو گزرنے والا بیٹھنے والے کو اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں۔ (بخاری) تشریح علماء نے یہ لکھا ہے کہ مذکورہ بالا حکم سرراہ ملاقات کے وقت کا ہے مثلا ایک شخص ادھر سے آ رہا ہے اور دوسرا ادھر سے جا رہا ہو اور دونوں آپس میں ملیں تو اس صورت کے لئے یہ حکم ہے کہ ان دونوں میں جو شخص چھوٹا ہو وہ بڑے کو سلام کرے لیکن وارد ہونے یعنی کسی کے پاس یا مجلس میں جانے کی صورت میں سلام کی ابتداء وارد کو کرنی چاہیے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا اور خواہ وہ کم تعداد والے لوگ ہوں یا زیادہ تعداد والے لوگ۔

【9】

آنحضرت صلی اللہ عنلیہ وسلم کی انکساری وشفقت

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ کچھ لڑکوں کے پاس گزرے تو آپ نے ان کو سلام کیا۔ تشریح آنحضرت کا یہ عمل مبارک کہ آپ نے بچوں کو سلام کیا درحقیقت آپ کے وصف تواضع و انکساری اور دنیا والوں کو تئیں کمال شفقت و محبت کا مظہر ہے۔

【10】

غیر مسلم کو سلام کرنے کا مسئلہ۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا یہودیوں اور عیسائیوں کو سلام کرنے میں ابتداء نہ کرو اور جب تم راستے میں ان میں سے کسی سے ملو تو ان کو تنگ ترین راستے پر چلے جانے پر مجبور کرو۔ (بخاری ومسلم) تشریح سلام کرنے میں ابتداء نہ کرو۔ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تم ان کو السلام علیکم نہ کہو کیونکہ سلام میں پہل کرنا درحقیقت اسلامی تہذیب کا بخشا ہوا ایک اعزاز ہے جس کے مستحق وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اسلامی تہذیب کے پیرو ہوں اور مسلمان ہیں اس اعزاز کا استحقاق ان لوگوں کو حاصل نہیں ہوسکتا جو دین دشمن اور اللہ کے باغی ہیں اسی طرح ان باغیوں اور دشمنوں کے ساتھ سلام اور اس جیسی دوسری چیزوں کے ذریعہ الفت و محبت کے مراسم کو قائم کرنا بھی جائز نہیں ہیں کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے۔ آیت (لاتجد قوما یومنون باللہ والیوم الاخر یوادون من حاد اللہ و رسولہ) ۔ ترجمہ۔ آپ ایسی کوئی قوم نہ پائیں گے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اور ان لوگوں سے بھی دوستی رکھتے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں۔ ہاں اگر وہ لوگ سلام میں خود پہل کریں اور السلام علیک یا السلام علیکم کہیں تو اس کے جواب میں صرف علیک یا علیکم کہہ دیا جائے اور علماء نے لکھا ہے کہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ غیر مسلم کے جواب میں ھداک اللہ کہا جائے نیز بعض علماء نے لکھا ہے کہ کسی ضرورت و مجبوری کی بناء پر یہود و نصاری کے ساتھ سلام میں پہل کرنی جائز ہے اور یہی حکم ان مسلمانوں کا بھی ہے جو بدعت اور فسق میں مبتلا ہوں۔ اسلامی سلطنت میں رہنے والے کسی مسلمان نے کسی اجنبی کو سلام کیا اور پھر معلوم ہوا کہ وہ ذمی ہے تو اس صورت میں مستحب یہ ہے کہ اپنے سلام کو واپس کرنے کا مطالبہ کرے یعنی یوں کہے کہ اسرجعت سلامی میں اپنے سلام کو واپس کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہود و نصاری جو دین کے دشمن ہیں اور اپنے مکر و فریب کی طاقتوں کے ذریعہ اللہ کے جھنڈے کو سرنگوں کرنا چاہتے ہیں اس سلوک کے مستحق ہیں کہ جب وہ راستہ میں ملیں تو ان پر اتنا دباؤ ڈالا جائے کہ وہ یکسو ہو کر گزرنے پر مجبور ہوجائیں اور ان پر راستہ تنگ ہوجائے تاکہ اسلام کی عظمت و شوکت اور مسلمانوں کا دبدبہ ظاہر ہر۔ مشکوۃ کے بعض حواشی میں یہ مطلب لکھا ہے کہ ان کو یہ حکم دو کہ وہ ایک طرف ہوجائیں اور کنارے پر چلیں تاکہ راستے کا درمیانی حصہ مسلمانوں کی آمدورفت کے لئے مخصوص رہے۔

【11】

یہودیوں کی شرارت

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا جب یہودی تمہیں سلام کرتے ہیں تو اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ وہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ السام علیک۔ (یعنی تمہیں موت آئے) لہذا تم ان کے جواب میں یہ کہو و علیک (یعنی تمہیں موت آئے) (بخاری ومسلم)

【12】

یہودیوں کی شرارت

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب اہل کتاب یعنی یہود و نصاری تمہیں سلام کریں تو تم ان کے جواب میں کہو وعلیکم۔ (بخاری ومسلم) تشریح پہلی روایت میں لفظ فقل اور وعلیک بصیغہ مفرد ہے اور اس روایت میں فقولوا اور وعلیکم بصیغہ جمع ہے اسی طرح اور روایتوں میں وعلیک اور وعلیکم واؤ کے ساتھ اور بغیر واؤ کے دونوں طرح منقول ہے مشکوۃ کے مؤلف نے یہاں جو روایت نقل کی ہے اس میں ان دونوں کو واؤ کے ساتھ نقل کیا ہے موطا کی روایت میں علیک بغیر واؤ کے اور دارقطنی کی روایت میں علیکم بغیر واؤ کے منقول ہے اور علماء نے لکھا ہے کہ زیادہ صحیح اور مختار قول یہ ہے کہ مذکورہ لوگوں کے سلام کے جواب میں یہ لفظ بغیر واؤ کے یعنی علیک یا علیکم ہی کہا جائے تاکہ اس چیز میں مشارکت لازم نہ آئے جو ان کی زبان سے ادا ہوتی ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس لفظ کا مطلب یہ ہوگا کہ جس موت کو برا سمجھ کر گویا ہمیں اس کی بدعا دے رہے ہو اس میں ہم اور تم برابر ہیں کہ ہم سب ہی کو موت یعنی مرنا ہے۔ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ حرف واؤ یہاں مشارکت کے نہیں ہے بلکہ استیناف کے لئے ہے اس صورت میں یہ لفظ مفہوم کے اعتبار سے اس جملہ کا قائم مقام ہوگا کہ وعلیکم ما تستحقونہ من الذم۔ اور تجھ پر وہ برائی پڑے جس کا تو مستحق ہے) تاہم یہ بات واضح رہے کہ یہ لفظ احادیث میں چونکہ دونوں طرح منقول ہے کہ بعض روایتوں میں واؤ کے ساتھ اور بعض روایتوں میں بغیر واؤ کے، اس لئے اس سلسلے میں درست بات یہ ہے کہ دونوں طرح کہنا جائز ہے۔ نووی کہتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اہل کتاب کے سلام کا جواب دیا جائے لیکن وعلیکم السلام نہ کہا جائے یعنی جواب دینے والا نہ تو علیکم السلام کہے اور نہ علیک السلام بلکہ صرف وعلیکم یا علیک کہے بلکہ وعلیکم بھی اس صورت میں کہے جب وہ ایک سے زائد ہوں اگر ایک ہی ہو تو علیکم نہ کہے۔ کیوں کہ اس طرح اس کی تعظیم و توقیر لازم آئے گی۔

【13】

آنحضرت ﷺ کا حلم

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک دن یہودی کی ایک جماعت نے نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی چناچہ ان کو اجازت دے دی گئی اور جب وہ آپ کے پاس آئے تو کہا کہ بلکہ تمہیں موت آئے اور تم پر لعنت ہو آنحضرت نے فرمایا عائشہ ! اللہ تعالیٰ محبت و نرمی کرنے والا ہے اور ہر کام میں محبت و نرمی کو پسند کرتا ہے میں نے عرض کیا کیا آپ نے سنا نہیں انہوں نے سلام کے بجائے کیا لفظ کہا ہے ؟ آنحضرت نے فرمایا بیشک میں نے سنا ہے اور میں نے ان کے جواب میں کہا ہے کہ وعلیکم اور ایک روایت میں یہ لفظ علیکم ہے یعنی واؤ کا ذکر نہیں ہے (بخاری ومسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا ایک دن کچھ یہودی نبی کریم کے پاس آئے اور انہوں نے السلام علیکم کہنے کے بجائے یہ کہا کہ السام علیکم آنحضرت نے ان کے جواب میں فرمایا وعلیکم۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ یہودیوں کی یہ بدتمیزی مجھ سے برداشت نہ ہوئی اور میں نے ان کے جواب میں کہا کہ تمہیں موت آئے اور تم پر اللہ کی لعنت ہو اور تم پر اللہ کا غضب ٹوٹے۔ آنحضرت نے جب میری زبان سے ایسے الفاظ سنے تو فرمایا کہ عائشہ (رض) رک جاؤ ! تمہیں نرمی اختیار کرنی چاہیے نیز سخت گوئی اور لچر باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ حضرت عائشہ (رض) نے کہا کہ کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا لفظ کہا ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اور کیا تم نے نہیں سنا کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے میں نے اس پر کیا جواب دیا ہے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے حق میں میری دعا یا بددعا تو قبول ہوتی ہے لیکن میرے حق میں ان کی دعا یا بددعا قبول نہیں ہوتی اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا عائشہ (رض) تم لچر باتیں کرنے والی مت بنو کیونکہ اللہ تعالیٰ لچر باتوں کو اور بہ تکلف لچر باتیں بنانے کو پسند نہیں کرتا۔

【14】

مسلم اور غیر مسلم کی مخلوط مجلس میں سلام کرنے کا طریقہ

اور حضرت اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان اور مشرکین باہم بیٹھے ہوئے تھے اور مشرکین میں بت پرست بھی تھے اور یہودی بھی، چناچہ آپ نے مجلس والوں کو سلام کیا۔ تشریح نووی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان کسی ایسی جماعت کے پاس سے گزرے یا کسی ایسی مجلس میں پہنچے جس میں مسلمان بھی ہوں اور غیر مسلم بھی اور مسلمان خواہ ایک ہی ہو یا کئی ہوں تو مسنون یہ ہے کہ مسلمانوں یا مسلمان کا قصد کر کے پوری جماعت کو سلام کرے نیز علماء نے لکھا ہے کہ اس صورت میں چاہے تو السلام علیکم کہے اور نیت یہ رکھے کہ اس سلام کے اصل مخاطب مسلمان ہیں اور چاہے یوں کہے۔ آیت (السلام علی من اتبع الھدی) ، نیز علماء یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر کسی مشرک وغیر مسلم کو خط لکھا جائے تو مسنون یہ ہے کہ مکتوب الیہ کو السلام علیکم لکھنے کی بجائے وہی الفاظ لکھے جو آنحضرت نے ہرقل روم کے بادشاہ کو لکھے تھے۔ آیت (سلام علی من اتبع الھدی) ۔

【15】

راستہ کے حقوق

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تم راستوں میں بیٹھنے سے اجتناب کرو۔ یہ سن بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمارے لئے راستوں میں بیٹھنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے جہاں ہم باتیں کرتے ہیں۔ (یعنی راستوں میں بیٹھنے سے اجتناب کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے ہمارے پاس چوں کہ کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں ہم اپنی مجلس رکھا کریں اس لئے جب ہم چند لوگ کہیں مل جاتے ہیں تو وہیں راستہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے دینی و دنیاوی امور کے بارے میں باہمی رائے اور مشورہ اور مذاکرات کرتے ہیں ایک دوسرے کی حالت دریافت کرتے ہیں اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس کے لئے علاج معالجہ تجویر کرتے ہیں اگر آپ میں کوئی رنجش وعناد ہوتا ہے تو صلح و صفائی کرتے ہیں اور اپنے معاملات کو طے کرنے کی تدبیر پر غور کرتے ہیں) نبی ﷺ نے فرمایا جب تم مجبوری کی بناء پر بیٹھنے کے علاوہ دوسری صورت سے انکار کرتے ہو پھر راستہ کو اس کا حق ادا کرو۔ یعنی اگر ایسی صورت ہو کہ راستے میں بیٹھنے سے اجتناب کرنا تمہارے لئے ممکن نہ ہو اور تمہیں ایسی جگہ بیٹھنا پڑے جو راستہ پر واقع ہو تو راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ راستے کا کیا حق ہے ؟ آپ نے فرمایا آنکھوں کا بند کرنا یعنی حرام چیزوں پر نظر ڈالنا، ایذا رسانی سے باز رہنا یعنی تنگ راستہ کردینے یا کسی اور طرح گزرنے والوں کو ایذاء نہ پہنچانا، سلام کا جواب دینا اور لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا۔ (بخاری ومسلم) تشریح سلام کا جواب دینا یہاں سلام کرنے کا حکم دینے کے بجائے سلام کو جواب دینے کی ہدایت کرنا اس مسنون امر کے پیش نظر ہے کہ چلنے اور گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔

【16】

راستہ کے حقوق

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم سے اس مضمون کے سلسلے میں نقل کرتے ہیں کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص راستہ بھول جائے یا جو شخص راستہ نہ جانتا ہو اس کو راستہ بتانا بھی ایک حق ہے اس روایت کو ابوداؤد نے حضرت ابوسعید خدری (رض) کی روایت کے بعد اسی طرح نقل کیا ہے جیسا کہ صاحب مصابیح نے اور ان کی اتباع میں صاحب مشکوۃ نے یہاں نقل کیا ہے۔

【17】

راستہ کے حقوق

اور حضرت عمر (رض) نبی کریم ﷺ سے اس مضمون کے سلسلے میں نقل کرتے ہیں کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایک حق یہ بھی ہے کہ مظلوم کی فریاد رسی کی جائے اور گم کردہ راہ کو راستہ بتایا جائے۔ اس روایت کو حضرت ابوداؤد نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کے بعد اسی طرح نقل کیا ہے اور میں نے ان دونوں حدیثوں کو صحیحین یعنی بخاروی ومسلم میں نہیں پایا۔

【18】

اسلامی معاشرہ کے چھ باہمی حقوق

حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مسلمان پر مسلمان کے چھ حقوق ہیں جو حسن سلوک سے متعلق ہیں جب کوئی مسلمان ملے تو اس کو سلام کرنا جب کوئی مسلمان کھانے کے لئے یا کسی اور غرض سے بلائے تو اس کو قبول کرنا جب کوئی مسلمان چھینکے تو اس پر یرحمک اللہ کہنا جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو اس کی عیادت کرنا، جب کسی مسلمان کا انتقال ہوجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جانا اور مسلمان کے لئے اس چیز کو پسند کرنا جس کو خود اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ (ترمذی، دارمی)

【19】

سلام کے ثواب میں اضافہ، باعث بننے والے الفاظ

اور حضرت عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کی مجلس میں ایک شخص آیا اور کہا السلام علیکم نبی ﷺ نے اس کے سلام کے جواب دیا پھر وہ شخص بیٹھ گیا نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس شخص کے لئے دس نیکیاں لکھی گئی ہیں پھر ایک شخص آیا اور اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ نبی ﷺ نے اس کے سلام کا بھی جواب دیا اور جب وہ بیٹھ گیا تو فرمایا کہ اس کے لئے بیس نیکیاں لکھی گئی ہیں اس کے بعد ایک شخص آیا اور اس نے کہا السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ نبی ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ اس کے لئے تیس نیکیاں لکھی گئی ہیں۔ (ترمذی، ابوداؤد) ۔ تشریح مذکورہ بالا ارشاد گرامی کا تعلق سلام کرنے والے کے ساتھ ہے اگر سلام کرنے والا السلام علیکم کہے اور جس کو سلام کیا گیا ہے وہ اس کے جواب میں ورحمۃ اللہ کے لفظ کا اضافہ کرے یعنی وعلیکم السلام و (رح) کہے یا سلام کرنے والا السلام علیکم و (رح) کہے اور جواب دینے والا وبرکاتہ کے لفظ کے اضافہ کرے یعنی یوں کہے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اضافہ ثواب کے سلسلے میں اس کا حکم بھی یہی ہوگا اور یہی حکم مغفرتہ کے اضافہ کا بھی ہے جیسا کہ آگے آنے والی حدیث میں مذکور ہے۔

【20】

سلام کے ثواب میں اضافہ، باعث بننے والے الفاظ

اور حضرت معاذ بن انس (رض) نے بھی نبی کریم ﷺ سے اوپر کی حدیث کے ہم معنی روایت نقل کی ہے جس میں معاذ (رض) نے یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں پھر ایک اور شخص یعنی چوتھا شخص آیا اور کہا کہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ۔ آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ اس کے لئے چالیس نیکیاں لکھی گئی ہیں۔ نیز یہ فرمایا کہ اسی طرح سے ثواب میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یعنی سلام کرنے والا جس قدر الفاظ بڑھاتا جائے گا اسی قدر اس کے ثواب میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ (ابوداؤد) تشریح علماء نے لکھا ہے کہ سلام کرنے کے سلسلے میں افضل یہ ہے کہ سلام کرنے والا یوں کہے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یعنی جمع کی ضمیر علیکم استعمال کی جائے اگرچہ جس کو سلام کیا جا رہا ہے وہ ایک ہی شخص کیوں نہ ہو اسی طرح جس شخص کو سلام کیا گیا ہے وہ جواب میں یوں کہے وعلیکم السلام یعنی وہ بھی جمع کی ضمیر استعمال کرے اور واؤ لگائے۔ واضح رہے کہ سلام کا ادنیٰ درجہ السلام علیکم کہنا ہے اور اگر السلام علیک کہا جائے تو بھی کافی ہوگا اور جواب میں ادنیٰ درجہ وعلیک السلام اور وعلیکم السلام ہے اور اگر واؤ نہ لگایا جائے تو بھی کافی ہوگا۔ علماء کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ اگر جواب میں صرف علیکم کہا جائے تو جواب پورا نہیں ہوگا اور اگر جواب میں وعلیکم کہا جائے یعنی واؤ لگایا جائے تو اس صورت میں دونوں قول ہیں۔

【21】

سلام میں پہل کرنے کی فضیلت

اور حضرت ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا لوگوں میں سے اللہ کے نزدیک تر وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔ تشریح اس فضیلت کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو راستہ میں ایک دوسرے سے ملیں کیوں کہ اس صورت میں سلام کرنے کے حق کے سلسلے میں وہ برابر کی حثییت رکھیں گے لہذا ان میں سے جو شخص پہلے سلام کرے گا وہ مذکورہ فضیلت کا مستحق ہوگا اس کے برخلاف اگر یہ صورت ہو کہ ایک شخص تو کہیں بیٹھا ہوا ہو اور دوسرا شخص اس کے پاس آئے تو سلام کرنے کا حق اس دوسرے شخص پر ہوگا جو آیا ہے لہذا اگر وہ آنے والا سلام کرنے میں پہل کرے تو وہ فضیلت کا مخاطب نہیں ہوگا کیوں کہ اس نے سلام کرنے میں پہل کر کے درحقیقت اس حق کو ادا کیا ہے جو اس کے ذمہ تھا، ہاں اگر سلام کرنے میں وہ شخص پہل کرے جو بیٹھا ہوا تھا تو اس فضیلت کا وہ مستحق ہوگا۔ حضرت عمر (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کو اختیار کرنے سے مسلمانوں کے باہمی تعلقات میں استحکام پیدا ہوتا ہے اور ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے تئیں اخلاص و محبت کے جذبات کو فروغ دیتا ہے ایک تو ملاقات کے وقت سلام میں پہل کرنا دوسرے کسی مسلمان کو اس کے نام کے ذریعہ مخاطب کرنا اور پکارنا جس کو وہ پسند کرتا ہے تیسرے یہ کہ جب وہ مجلس میں آئے تو اس کو عزت و احترام کے ساتھ جگہ دینا۔

【22】

اجنبی عورت کو سلام کرنا جائز نہیں

اور حضرت جریر (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ عورتوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے ان کو سلام کیا۔ (احمد) تشریح یہ بات آنحضرت کی ذات گرامی کے ساتھ مخصوص تھی کیونکہ کسی فتنہ و شر میں آنحضرت کے مبتلا ہونے کا کوئی خوف و خطرہ نہ تھا اس لئے آپ کے لئے عورتوں کو بھی سلام کرنا روا تھا لیکن آپ کے علاوہ کسی دوسرے مسلمان کے لئے یہ مکروہ ہے کہ وہ اجنبی عورت کو سلام کرے ہاں اگر کوئی عورت اتنی عمر رسیدہ ہو کہ اس کے تئیں کسی فتنہ و شر میں مبتلا ہونے کا کوئی امکان نہ ہو اور نہ اس کو سلام کرنا دوسروں کی نظروں میں کسی بدگمانی کا سبب بن سکتا ہو تو اس کو سلام کرنا جائز ہوگا۔ جماعت میں سے کسی ایک کا سلام کرنا پوری جماعت کی طرف سے کافی ہے۔

【23】

جماعت میں سے کسی ایک کا سلام کرنا پوری جماعت کی طرف سے کافی ہے

اور حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب کچھ لوگ گزر رہے ہوں تو ان میں سے کسی ایک کا سلام لینا ان سب کی طرف سے کافی ہوگا اسی طرح جو لوگ بیٹھے ہوئے ہوں ان میں سے کسی ایک کا جواب دینا ان سب کی طرف سے کافی ہوگا۔ اس روایت کو بہیقی نے شعب الایمان میں بطریق مرفوع نقل کیا ہے (یعنی بہیقی کی روایت کے مطابق یہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے نہ کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ کا قول ہے) اور ابوداؤد نے اس روایت کو بطریق موقوف نقل کیا ہے نیز انہوں نے اپنی سند بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس روایت کو حسن ابن علی نے مرفوع بیان کیا ہے اور یہ حسن ابن علی (امام حسن ابن علی ابن ابی طالب نہیں بلکہ) وہ حسن ہیں جو ابوداؤد کے استاد وشیخ ہیں۔ (حاصل یہ کہ اس روایت کو بہیقی نے تو مرفوع نقل کیا ہے اور ابوداؤد نے بھی حسن ابن علی کی سند سے مرفوع نقل کیا ہے لیکن دوسری سند سے موقوف نقل کیا ہے) ۔۔ تشریح گزر رہے ہوں اس حکم میں وہ صورت بھی داخل ہے جب کہ وہ کچھ لوگ کسی ایسی جگہ جائیں یا کسی ایسی جگہ رکیں جہاں پہلے سے کچھ لوگ بیٹھے ہوں، یا ایک ہی شخص ہو، حدیث کا حاصل یہ ہے کہ سلام کرنے میں پہل کرنا سنت کفایہ ہے اور سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے جن لوگوں کو سلام میں پہل کرنی چاہیے یا جن لوگوں کو سلام کا جواب دینا ہے اگر ان میں سے کوئی ایک شخص سلام کرے یا کوئی ایک شخص سلام کا جواب دیدے تو وہ سلام یا جواب میں ان سب لوگوں کی طرف سے کافی ہوگا اور وہ سب بری الذمہ ہوجائیں گے اگرچہ ان میں سے ہر ایک کا سلام کرنا یا ہر ایک کا جواب دینا افضل ہوگا۔

【24】

اشاروں کے ذریعہ سلام کرنا

اور حضرت عمر بن شعیب اپنے والد حضرت شعیب سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ہمارے غیروں کے ساتھ مشابہت کرے گا یعنی ہماری امت کے لوگوں کے برعکس دوسرے مذاہب کے لوگوں کے طریقہ پر عمل کرے گا اور وہ ہم میں سے نہیں ہے تم نہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت کرو اور نہ عیسائیوں کے ساتھ، یہودیوں کا سلام کرنا انگلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنے اور عسائیوں کا سلام کرنا ہتھیلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی اسناد ضعیف ہے۔ تشریح حدیث کا حاصل یہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے کسی بھی فعل و طریقہ اور خاص طور پر سلام کرنے کے ان دونوں طریقوں کی مشابہت اختیار نہ کرنی چاہیے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اور عیسائی سلام کرنے یا سلام کرنے کا جواب دینے کے لئے اور یا دونوں محض مذکروہ اشاروں ہی پر اکتفا کرلیتے تھے، سلام کا لفظ نہیں کہتے تھے۔ جو حضرت آدم اور ان کی ذریت میں سے انبیاء و اولیاء کی سنت و طریقہ ہے چناچہ نبی کو گویا مکاشفہ ہوا کہ میری امت کے کچھ لوگ بےراہ روی کا شکار ہو کر سلام کرنے کا وہ طریقہ اختیار کریں گے جو یہودیوں، عیسائیوں اور دوسری غیر اقوام کا ہے جیسے انگلیوں یا ہتھیلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنا ہاتھ جوڑ لینا، کمر یا سر کو جھکانا اور صرف سلام کرنے پر اکتفا کرلینا وغیرہ وغیرہ۔ لہذا آپ نے پوری امت کو مخاطب کرتے ہوئے اس بارے میں تنبیہ بیان فرمائی اور یہ وعید بیان کی کہ جو شخص سلام کے ان رسوم و رواج کو اپنائے گا جو اسلامی شریعت اور ہماری سنت کے خلاف ہیں تو اس کو سمجھ لینا چاہیے، کہ اس کا شمار ہماری امت کے لوگوں میں نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ اس حدیث کی اسناد کو امام ترمذی نے ضعیف کہا ہے لیکن یہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی منقول ہے اور وہ ضعیف نہیں ہے جس کو جامع صغیر میں نقل کیا گیا ہے۔

【25】

ہر ملاقات پر سلام کرو۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص جب اپنے مسلمان بھائی سے ملاقات کرے تو چاہیے کہ پہلے اس کو سلام کرے اور اس کے بعد اگر دونوں کے درمیان کوئی درخت یا دیوار یا بڑا پتھر حائل ہوا اور پھر اس سے ملاقات ہو تو اس کو دوبارہ سلام کرے۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اتنے معمولی وقفہ کی جدائی و مفارقت کے بعد بھی سلام کرنا مستحب ہے چہ جائیکہ زیادہ عرصہ کے بعد ملاقات ہو، گویا یہ حدیث سلام کے استحباب اور ہر موقع پر اس ادب کے ملحوظ رکھنے کو مبالغہ کے طور پر بیان کرتی ہے، واضح رہے کہ سلام کی اہمیت کے باوجود بعض صورتیں ایسی ہیں جو سلام کرنے سے مستثنی ہیں، مثلا اگر کوئی شخص پیشاب کر رہا ہے یا پاخانہ میں ہو، یا جماع میں مصروف ہو یا اسی طرح کوئی حالت ہو اور اس وقت اس شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے اور جواب دینا اس پر واجب نہیں ہوگا اسی طرح اگر کوئی شخص سو رہا یا اونگھ رہا ہو یا نماز پڑھ رہا ہو یا اذان دے رہا ہو یا حمام میں ہو یا کھانا کھا رہا ہو اور نوالہ اس کے منہ میں ہو اور ان صورتوں میں اس کو کوئی سلام کرے تو وہ جواب کا مستحق نہیں ہوگا نیز خطبہ کے وقت نہ تو سلام کرنا چاہیے اور نہ سلام کو جواب دینا چاہیے جو شخص قرآن کی تلاوت کر رہا ہو اس کو بھی سلام نہ کیا جائے اگر کوئی سلام کرے تو تلاوت کرنے والے کو چاہیے کہ تلاوت روک کر سلام کا جواب دے اور پھر اعوذ پڑھ کر تلاوت شروع کر دے۔

【26】

اپنے گھر والوں کو بھی سلام کرو

اور حضرت قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب تم گھر میں گھسو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرو اور جب گھر سے باہر نکلو تو اپنے گھر والوں کو سلام کے ذریعہ رخصت کرو، اس روایت کو بہیقی نے شعب الایمان میں بطریق ارسال نقل کیا ہے۔ تشریح اگر گھر میں کوئی فرد نہ ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس طرح کہے السلام علینا وعباد اللہ الصالحین تاکہ وہاں جو فرشتے ہوں ان کو سلام پہنچے۔ حدیث کے الفاظ فاو دعو اھلہ بسلام میں ایداع اصل میں تو دیع کے معنی میں ہے جو وداع سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ گھر سے باہر جاتے وقت اپنے اہل و عیال کو سلام کے ذریعہ وداع کہو۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس رخصتی سلام کو جواب واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کیوں کہ یہ سلام اصل میں دعا اور وداع ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی یہ فرماتے ہیں کہ لفظ اودعو ایداع سے ہے بایں معنی کہ اپنے اہل و عیال کے پاس سلام کو ودیعت امانت رکھو۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب تم نے رخصت ہوتے وقت اپنے اہل و عیال کو سلام کیا تو گویا تم نے سلام کی خیر و برکت کو اپنے اہل و عیال کے پاس امانت رکھا جس کو تم آخرت میں واپس لو گے جیسا کہ کوئی شخص اپنی کوئی چیز کسی کے پاس امانت رکھتا ہے اور پھر اس کو واپس لے لیتا ہے یحییٰ کے مطابق مطلب یہ ہے کہ تم سلام کو اپنے گھر والوں کی ودیعت امانت و سپردگی میں دے دو تاکہ لوٹ کر ان کے پاس آؤ تو اپنی ودیعت امانت کو واپس لو جیسا کہ امانتیں واپس لی جاتیں ہیں یہ بات گویا اس امر کی نیک فال لینے کے مرادف ہے کہ گھر سے رخصت ہونے والا سلامتی کے ساتھ لوٹ کر آئے گا اسے دوبارہ سلام کرنے کا موقع نصیب ہوگا۔

【27】

اپنے گھر والوں کو بھی سلام کرو

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میرے بیٹے جب تم اپنے گھر والوں سے ملو تو سلام کرو، وہ سلام تم پر اور تمہارے گھر والوں پر خیر و برکت کے نزول کا باعث ہوگا۔ (ترمذی )

【28】

پہلے سلام پھر کلام

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا سلام کا کلام سے پہلے یعنی ملاقات کے وقت پہلے سلام کرنا چاہیے اور اس کے بعد بات چیت کرنی چاہیے سلام کرنے سے پہلے بات چیت شروع کردینا اچھا نہیں۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے۔

【29】

زمانہ جاہلیت کا سلام

اور حضرت عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں ملاقات کے وقت یہ کہا کرتے تھے انعم اللہ بک علینا وانعم صباحا یعنی اللہ تمہاری وجہ سے آنکھوں کو ٹھنڈا رکھے اور تم ہر صبح نعمتوں میں داخل ہو، پھر جب اسلام کا زمانہ آیا تو ہمیں یہ کہنے سے منع کردیا گیا۔ ابوداؤد) تشریح پہلا لفظ انعم نعومۃ سے ماضی کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں نرمی، تازگی اور شادمانی اس عبات انعم اللہ بک علینا کے دو مطلب ہوسکتے ہیں کہ ایک تو یہ کہ بک میں حرف با سبب کے معنی میں ہے اور یہ جملہ اس مفہوم کا حامل ہے کہ اللہ تمہاری وجہ سے تمہارے دوستوں اور عزیزوں کی آنکھوں کو تر و تازہ اور روشن رکھے یہ گویا مخاطب کی خوش حالی سے کنایہ ہے کہ وہ خوش حال و شادمان رہے تاکہ اس کے دوست اس کی خوش حالی و شادمانی دیکھ کر خوش ہو، دوسرے یہ کہ حرف با زائد ہے اور اس سے تاکید تعدیہ مراد ہے اس صورت میں یہ جملہ اس مفہوم کا حامل ہوگا کہ اللہ تمہیں اس چیز کو دیکھنے کا موقع دے کر خوش و خرم رکھے جس کو تم پسند کرتے ہو اور اس کی طلب رکھتے ہو۔ دوسرا لفظ انعم امر کا صیغہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری صبح تمہارے لئے تر و تازگی و خوشحالی و مسرت کا باعث بنیں یا یہ کہ صبح کے وقت تم تر و تازہ اور خوش خرم رہو، یہ بھی خوشی و فراغت کے ساتھ وقت گزارنے سے کنایہ ہے اور صبح کے وقت کی تخصیص اس سبب سے ہے کہ دن کی ابتداء صبح سے ہوتی ہے اگر صبح کا وقت کسی حادثہ کو اپنے ساتھ لاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب پورا دن بےچینی وبے اطمینانی اور سخت روی کے ساتھ گزرے گا خاص طور پر اس زمانہ میں غارت گری اور لوٹ مار کا جو معمول بنا ہوا تھا کہ اس کی ابتداء عام طور سے صبح ہی کے وقت ہوتی تھی لہذا اس دور میں جس شخص کی صبح خیر و عافیت اور امن کے ساتھ گزر جاتی تھی اس کا پورا وقت اطمینان و چین کے ساتھ گزرتا تھا۔

【30】

غائبانہ سلام اور اس کا جواب

اور حضرت غالب کہتے ہیں کہ ایک دن ہم حضرت حسن بصری کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا اور بیان کیا کہ مجھ سے میرے باپ نے اور ان سے ان کے باپ یعنی میرے دادا نے بیان کیا کہ مجھ کو میرے باپ نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجتے ہوئے کہا کہ تم نبی ﷺ کے پاس جاؤ اور آپ کو سلام عرض کرو میرے دادا نے بیان کیا کہ اپنے باپ کے حکم پر میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میرے باپ نے آپ کو سلام عرض کیا ہے نبی ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم اور تمہارے باپ پر سلامتی ہو۔ ابوداؤد ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی کی طرف سے سلام پہنچائے تو مسنون یہ ہے کہ سلام پہنچانے والے پر بھی سلام بھیجا جائے اور جس کی طرف سے جس نے سلام پہنچایا ہے اس پر بھی یعنی جب کوئی شخص کسی کی طرف سے سلام پہنچائے تو جواب میں یوں کہا جائے علیک وعلی فلاں السلام یاوعلیک وعلیہ السلام چناچہ نسائی کی روایت میں یہ الفاظ بعینہ منقول ہیں۔

【31】

خطوط میں سلام لکھنے کا طریقہ

اور حضرت ابوالعلاء حضرمی (رض) کہتے ہیں کہ علاء حضرمی رسول اکرم ﷺ کی طرف سے عامل مقرر تھے جب وہ نبی اکرم ﷺ کو خط لکھتے تو اپنی طرف سے شروع کرتے۔ ابوداؤد) تشریح ابوالعلاء (رض) کا اصل نام یزید ابن عبد ہے۔ مشکوۃ کے بعض نسخوں میں اس روایت کے راوی کا نام ابوالعلاء ہی لکھا ہے یعنی یوں ہے عن ابی العلاء حضرمی ان العلاء الحضرمی اور بعض نسخوں میں مصابیح کے بعض نسخوں کے مطابق ابن علاء لکھا ہے یعنی یوں ہے۔ عن ابن العلاء الحضرمی ان العلاء الحضرمی، حضرمی اصل میں مشہور شہر حضرت موت کی طرف نسبت ہے کیونکہ حضرت علاء حضرموت کے رہنے والے تھے اور مشکوۃ کے اکثر نسخوں میں آگے کی عبارت ان العلاء الحضرمی ہے لیکن ایک نسخہ میں ان العلاء الحضرمی لکھا ہوا ہے۔ تقریب میں لکھا ہے کہ حضرت علاء بنو امیہ کے حلیف تھے یہ ایک جلیل القدر اور بزرگ صحابی ہیں۔ نبی کریم نے ان کو بحرین کا عامل مقرر کیا نبی اکرم ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) نے بھی اپنے دور خلافت میں ان کو وہاں کا عامل باقی رہا اور اسی عہدے پر ان کا انتقال ہوا۔ اپنی طرف سے شروع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خط کی ابتداء ان الفاظ سے کرتے، من العلاء الحضرمی الی رسول اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ (یعنی علاء حضرمی کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ) اس عبارت کے بعد خط کا مضمون ہوتا اور حضرمی خط لکھنے کا یہ طریقہ نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں اختیار کرتے تھے کیوں کہ نبی اکرم ﷺ کے مکتوبات گرامی کی ابتداء اسی طرح ہوتی تھی۔ من محمد رسول اللہ الی فلاں اس عبارت کے بعد سلام کے الفاظ ہوتے تھے اگر مکتوب الیہ مسلمان ہوتا تو اس کا مخاطب خاص طور پر اسی کو بنایا جاتا یعنی سلام علیک جیسے الفاظ ہوتے اور اگر مکتوب الیہ مسلمان ہوتا تو پھر علی العموم سلام کے الفاظ ہوتے یعنی یوں لکھتے سلام علی من اتبع الھدی۔ (جو شخص راہ راست کی پیروی کرے اس پر سلامتی ہو) سلام کے بعد اصل مضمون ہوتا چناچہ نبی نے ہرقل کو جو مکتوب ارسال کیا تھا وہ اسی ترتیب کے ساتھ لکھا گیا نیز نبی اکرم ﷺ نے معاذ (رض) کو ان کے بیٹے کی تعزیت میں جو خط بھیجا تھا اس کے ابتدائی الفاظ یوں تھے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، من محمد رسول اللہ الی معاذ بن جبل سلام علیک فانی احمد الیک اللہ الذی لاالہ الاھو، اما بعد الخ۔۔ یہ حدیث جو یہاں نقل کی گئی ہے بظاہر باب کے موضوع سے تعلق نہیں رکھتی لیکن یہ حدیث چونکہ سلام کے مقد کی حثییت رکھتی ہے جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اس لئے یہ اس باب میں نقل کی گئی ہے اسی طرح آگے جو تین حدیثیں آرہی ہیں جن میں خط سے متعلق کچھ باتیں بیان کی گئی ہیں چونکہ ان کا تعلق بھی بایں اعتبار سلام سے ہے کہ سلام جس طرح زبانی پیش کیا جاتا ہے اسی طرح وہ خط میں بھی لکھا جاتا ہے لہذا ان حدیثوں کو بھی اس باب میں نقل کیا گیا ہے اور مشکوۃ کے مولف کا یہ محمول بھی ہے کہ وہ فصل کے آخر میں ان احادیث کو بھی نقل کرتے ہیں جو اگرچہ براہ راست باب سے تعلق نہیں رکھتیں لیکن باب اور اس کے موضوع کے مناسب اور بالواسطہ طور پر تعلق رکھنے والی ضرور ہوتی ہے۔

【32】

خط لکھ کر اس پر مٹی چھڑکنے کی خاصیت

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو خط لکھے تو چاہیے کہ وہ خط لکھنے کے بعد اس پر مٹی ڈال دے یا مٹی چھڑک کر جھاڑ دے کیونکہ یہ چیز حاجت براری کے لئے بہت کارآمد ہے ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے۔ تشریح کاغذ وغیرہ پر لکھنے کے بعد مٹی چھڑکنا بڑا قدیم طریقہ ہے اور عام طور پر اس کا مقصد روشنائی کو خشک کرنا سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقہ حاجت براری کے لئے ایک مخصوص تاثیر رکھتا ہے اور یہ تاثیر بلخاصیت ہے کہ اس کا سبب شارع کے علاوہ اور کسی کو معلوم نہیں ہے تاہم بعض عارفین نے پہلے معنی یعنی مٹی ڈال دے کی وضاحت میں لکھا ہے کہ ایسا کرنا دراصل اپنے لکھے ہوئے پر خاک ڈالنے کے مفہوم کے مترادف ہے بایں طور کہ اس فعل سے ظاہر کیا جاتا ہے کہ اپنے مقصد و حاجت کے لئے نہ تو اپنے اس مکتوب پر اعتبار ہے اور نہ مکتوب الیہ کو حقیقی حاجت روا کا درجہ دینا مقصود ہے بلکہ حقیقی اعتماد اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے کہ وہی مقصد کو پورا کرنے اور حاجت برلانے والا ہے لہذا یہ مکتوب محض اظہار حال کا ایک ظاہری ذریعہ ہے حقیقی درخواست تو صرف اللہ تعالیٰ سے ہے۔ یا مٹی چھڑک کر جھاڑ دے یہ فلیتربہ کا دوسرا ترجمہ ہے اور یہ ترجمہ اس اعتبار سے ہے کہ مٹی ڈالنے کی صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ مٹی کسی دوسرے کی ملکیت سے متعلق ہو اور اس طرح مالک کی اجازت کے بغیر اس کی چیز کو صرف کرنا لازم آئے جب کہ مٹی چھڑ کر جھاڑ دینے میں اس طرح کی کوئی بات لازم نہیں آتی چناچہ اس دوسرے ترجمہ کی تائید اور اس قصے سے بھی ہوتی ہے جس کو امام غزالی نے منہاج العابدین میں نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے جو کسی کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر تھا ایک پر چہ لکھا پھر جب اس نے یہ چاہا کہ مکان کی دیوار سے تھوڑی سے مٹی لے کر پر چہ پر ڈالے تو اس کو خیال ہوا کہ یہ مکان کرایہ کا ہے اور اس کی دیوار سے مٹی لے کر صرف کرنا غیر مناسب ہے لیکن معا دل میں دوسراخیال یہ بھی آیا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے چناچہ اس نے مٹی لے کر پر چہ پر ڈال دی اس کے اس نے یہ غیبی ندا سنی کہ کوئی کہہ رہا ہے اس مٹی کو حلال جاننے والا جلدی ہی اس چیز کو جان لے گا جو کل کے دن یعنی روز حشر طویل حساب کے سبب اس کو پیش آنے والی ہے۔ یہ حدیث راویوں کے اعتبار سے منکر ہے اس کے مضمون میں کوئی کلام نہیں ہے چناچہ طبرانی نے اوسط میں بطریق مرفوع حضرت ابوداؤد سے یہ روایت نقل کی ہے کہ اذا کتب احدکم الی انسان فلیدا بنفسہ واذا کتب فلیترب کتابہ فھو انجح۔ یعنی جب تم میں سے کوئی شخص کسی آدمی کو خط لکھے تو چاہیے کہ اس کو اپنی طرف سے شروع کرے اور جب اس خط کو لکھ لے تو اس پر مٹی چھڑک دے کیوں کہ یہ چیز حاجت براری کے لئے بہت کارآمد ہے۔ حقیقی درخواست تو صرف اللہ تعالیٰ سے ہے۔

【33】

لکھتے وقت قلم کو کان پر رکھنے کی خاصیت

اور حضرت زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک دن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ کے سامنے ایک خط لکھنے والا بیٹھا ہوا تھا میں نے آپ کو لکھنے والے سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قلم کو اپنے کان پر رکھ لو کیونکہ یہ چیز مطلب کو بہت یاد دلاتی ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں ضعف ہے۔ تشریح یہ چیز مطلب کو بہت یاد دلاتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنے سے ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے مقصد اور مفہوم کو بیان کرنے کے لئے عبارت والفاظ کی آمد ہونے لگتی ہے اور لکھنے والا جو کچھ لکھنا چاہتا ہے اس میں پوری طرح کامیاب رہتا ہے یہ چیز بھی بالخاصیت ہے یعنی ایسا کس طرح ہوتا ہے ؟ اس کا علم شارع ہی کو ہے تاہم بعض علماء نے اس کی تاویل و توجہیہ بیان کی ہے۔ یحییٰ نے لکھا ہے کہ قلم ایک طرح سے زبان کا حکم رکھتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے القلم احدالسانین اور زبان قلب و ذہن کی ترجمان ہوتی ہے لہذا قلم کو کان پر رکھنا گویا زبان کو کان پر جو کہ سننے کی جگہ ہے رکھنے کے مرادف ہے تاکہ زبان، قلم قلب و ذہن کے قریب ہوجائے اور قلب و ذہن جو کچھ کہنے کا ارادہ کریں اور وہ مفہوم کو جس اعلی عبارت و پیرایہ بیان اور جس عمدہ الفاظ اوسلوب میں ادا کرنے کا تقاضہ کریں ان کو کلام وبیان کی اسی مناسبت و موزو نیت کے ساتھ بصورت تحریر بیان کرے۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے کا مطلب یہ ہے کہ روایت متن یا سند کے اعتبار سے غریب ہے اور اپنے بعض راویوں کے ضعف کے سبب ضعیف ہے تاہم یہ بات اس روایت کے صحیح ہونے کے منافی نہیں ہے نیز اس کی تائید ابن عساکر کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو انہوں نے حضرت انس (رض) سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ اذاکتبت قضع قلمک علی اذنک فانہ اذکرلک اسی طرح جامع صغیر میں حضرت زید بن ثابت (رض) سے بطریق مرفوع ترمذی کی یہ روایت منقول ہے کہ ضع القلم علی اذنک فانہ ذکر للملیٰ ۔

【34】

ضرورت کے تحت غیر مسلم قوموں کی زبان سیکھنا جائز ہے

اور حضرت زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں رسول کریم ﷺ نے مجھ کو یہ حکم دیا کہ میں سریانی زبان کو سیکھوں اور ایک روایت میں یوں ہے نبی کریم ﷺ نے مجھ کو حکم دیا کہ میں یہودیوں سے خط و کتابت کرنا سیکھ لوں نیز آپ نے فرمایا کہ خط و کتابت کے معاملہ میں مجھے یہودیوں پر اطمینان نہیں ہوتا زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں نبی ﷺ کے اس حکم کے بعد آدھا مہینہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ میں نے یہودیوں کی زبان اور ان سے خط و کتابت کرنا سیکھ لیا چناچہ جب نبی ﷺ یہودیوں کو کوئی مکتوب بھیجنا چاہتے تو اس کو میں ہی لکھتا اور جب یہودی آپ کے پاس کوئی مکتوب بھیجتے تو اس کو آپ کی خدمت میں ہی پڑھتا۔ (ترمذی ) تشریح سریانی دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک زبان ہے جس میں تورات نازل ہوئی تھی لیکن اکثر محققین کا قول یہ ہے کہ تورات عبرانی زبان میں نازل ہوئی تھی اور سریانی اور عبرانی زبان دونوں ملتی جلتی ہیں۔ مجھے یہودیوں پر اطمینان نہیں ہوتا کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کوئی مسلمان نہیں ہے جو یہودیوں کی زبان جانتا ہو اس لئے یہودیوں کے ساتھ خط و کتابت کے لئے مجھے کسی یہودی ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اس صورت میں مجھے اس بات کا خطرہ ہے کہ اگر یہودیوں کے نام اپنا کوئی خط کسی یہودی سے لکھواؤں تو وہ اس میں اپنی طرف سے کچھ کمی بیشی نہ کر دے، اسی طرح اگر یہودیوں کی طرف سے میرے پاس کوئی خط آئے اور میں اس کو کسی یہودی سے پڑھواؤں تو وہ اس میں اپنی طرف سے کم یا زیادہ کر کے نہ پڑھ دے اس سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے تحت غیر مسلم اقوام کی زبان سیکھنا جائز ہے بلاضرورت سیکھنا جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں غیر مسلم کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا لازم آتا ہے اور یہ چیز ممنوع ہے جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا آیت (من تشبہ بقوم فھو منھم) ۔ جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اسی قوم میں شمار ہوگا بلکہ یحییٰ نے بلاضرورت سیکھنے کو حرام لکھا ہے۔

【35】

ملاقات کے وقت بھی سلام کرو اور رخصت ہوتے وقت بھی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی مجلس میں پہنچے تو پہلے سلام کرے اور پھر اگر بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جائے، نیز جب (مجلس سے چلنے کے لئے) کھڑا ہو تو اس وقت بھی سلام کرے کیونکہ پہلا سلام کرنا دوسرا سلام کرنے سے زیادہ بہتر نہیں ہے۔ تشریح جب کھڑا ہو کا مطلب یہ ہے کہ مجلس میں بیٹھنے کے بعد جب وہاں سے واپس ہونے کے لئے کھڑا ہو اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہاں سے چلنے کا ارادہ کرے خواہ مجلس میں بیٹھا ہو یا نہ بیٹھا ہو بہرحال حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رخصت ہوتے وقت بھی سلام کرنا سنت ہے جیسا کہ ملاقات کے وقت کا سلام سنت ہے اسی طرح ان دونوں ہی سلام کا جواب دینا واجب ہے لیکن بعض محققین نے لکھا ہے کہ رخصت ہوتے وقت کا سلام اور اس کا جواب مستحب ہے۔

【36】

راستہ پر بیٹھنے کا حق

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا راستوں پر بیٹھنا کوئی اچھا کام نہیں ہے ہاں جو شخص راستہ بھولے ہوئے یا اندھے کو راستہ بتلائے سلام کا جواب دے، حرام چیزوں کو دیکھنے سے آنکھوں کو بند رکھے اور اس شخص کی مدد کرے جو بوجھ لادے ہوئے ہو تو ایسے شخص کا راستہ پر بیٹھنا گوارا ہے۔ (شرح السنۃ) تشریح حمولہ حاء کے پیش کے ساتھ ہے لیکن مشکوۃ کے ایک نسخہ میں یہ لفظ حاء کے زبر کے ساتھ منقول ہے شارحین نے لکھا ہے کہ حمولہ حا کے زبر کے ساتھ اس جانور کو کہتے ہیں کہ جس پر بوجھ لادا جاتا ہے اس شخص کی مدد کرے جو بوجھ لادے ہوئے ہو کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بار برداری کے جانور کی پیٹھ پر لادنے کے لئے یا خود اپنے سر پر یا اپنی پیٹھ پر رکھنے کے لئے کوئی بوجھ اٹھانا چاہتا ہو تو اس بوجھ کے اٹھانے سے اس کی مدد کرے۔

【37】

سلام کی ابتداء حضرت آدم سے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو بنایا اور ان کے جسم میں روح پھونکی تو ان کو چھینک آئی انہوں نے الحمدللہ کہا اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق و اجازت سے اللہ کی حمد کی اللہ نے ان کی حمد کے جواب میں فرمایا یرحمک اللہ یعنی تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو۔ اور پھر فرمایا آدم فرشتوں کی اس جماعت کے پاس جاؤ جو وہاں بیٹھی ہوئی ہے اور کہو کہ السلام علیکم (چنانچہ حضرت آدم (علیہ السلام) ان فرشتوں کی جماعت کے پاس گئے اور ان کو سلام کیا) فرشتوں نے جواب میں کہا کہ علیک السلام ورحمۃ اللہ۔ اس کے بعد حضرت آدم اپنے پروردگار کے پاس آئے یعنی اس جگہ لوٹ کر آئے جہاں پروردگار نے ان سے کلام کیا تھا اللہ نے ان سے یہ فرمایا (یعنی السلام علیکم ورحمۃ اللہ) تمہاری اور تمہاری اولاد کی دعا ہے جو آپس میں ایک دوسرے کو دیں گے پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا درآنحالیکہ اس کے دونوں ہاتھ بند تھے کہ ان دونوں ہاتھوں میں سے جس کو چاہو پسند کرلو۔ حضرت آدم نے کہا کہ میں نے اپنے پروردگار کے داہنے ہاتھ کو پسند کرلیا۔ اور میرے پروردگار کے دونوں ہاتھ داہنے برکت ہیں اللہ نے اس ہاتھ کو کھولا تو حضرت آدم نے کیا دیکھا کہ اس میں آدم اور آدم کی اولاد کی صورتیں دیکھیں انہوں نے پوچھا کہ پروردگار یہ کون ہیں ؟ پروردگار نے فرمایا یہ تمہاری اولاد ہے حضرت آدم نے یہ بھی دیکھا کہ ہر مسلمان کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھی ہوئی ہے پھر ان کی نظر ایک ایسے انسان پر پڑی جو سب سے زیادہ روشن تھا جو ان کے روشن ترین لوگوں میں سے ایک تھا حضرت آدم نے اس انسان کو دیکھ کر پوچھا کہ میرے پروردگار یہ کون ہے ؟ پروردگار نے فرمایا یہ تمہارا بیٹا داؤد ہے اور میں اس کی عمر چالیس سال لکھی ہے حضرت آدم نے کہا کہ پروردگار اس کی عمر کچھ اور بڑھا دے پروردگار نے فرمایا یہ وہ چیز ہے جس کو میں اس کے حق میں لکھ چکا ہوں حضرت آدم نے کہا کہ پروردگار اگر اس کی عمر لکھی جا چکی ہے تو میں اپنی عمر سے ساٹھ سال اس کو دیتا ہوں پروردگار نے فرمایا تم جانو اور تمہارا کام جانے یعنی اس معاملہ میں تم مختار ہو۔ رسول اکرم فرماتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت آدم جنت میں رہے جب تک کہ اللہ نے چاہا اور پھر ان کو جنت سے زمین پر اتارا گیا اور حضرت آدم برابر اپنی عمر کے سالوں کو گنتے رہے یہاں تک کہ ان کی عمر نو سو چالیس سال ہوئی تو موت کا فرشتہ روح قبض کرنے کے لئے ان کے پاس آیا حضرت آدم نے ان سے کہا کہ تم نے جلدی کی میری عمر تو ایک ہزار سال مقرر کی گئی ہے فرشتے نے کہا کہ یہ صحیح ہے لیکن آپ نے اپنی عمر کے ساٹھ سال اپنے بیٹے داؤد کو دیئے ہیں حضرت آدم نے اس سے انکار کیا اور ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے نیز حضرت آدم اس ممانعت کو بھول گئے تھے جو حق تعالیٰ کی طرف سے مشہور درخت کا پھل کھانے سے متعلق تھی اور ان کی اولاد بھی بھولی تھی آنحضرت نے فرمایا اس دن سے لکھنے اور گواہ بنانے کا حکم دیا گیا۔ (ترمذی) تشریح درآنحالیکہ اس کے دونوں ہاتھ بند تھے ان الفاظ سے اس ہیبت کذائی کو بیان کرنا مقصود ہے کہ جس طرح کوئی شخص اپنے ہاتھوں میں کوئی چیز بند کر کے اس کو چھپا لیتا ہے۔ اور میرے پروردگار کے دونوں ہاتھ داہنے بابرکت ہیں، یہ جملہ یا تو حضرت آدم نے فرمایا تھا جس کو نبی کریم ﷺ نے نقل کی یا نبی اکرم ﷺ کا اپنا کلام ہے بہر صورت حق تعالیٰ کی طرف ہاتھ اور داہنے ہاتھ کی نسبت کرنا متشابہات میں سے ہے البتہ علماء نے ان الفاظ کے کئی معنی اور تاویلات بیان کی ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ید ہاتھ کی صفت تو ثابت ہے لیکن ظاہری و جسمانی ہاتھ ثابت نہیں ہے لہذا مذکورہ عبارت جسمانی ہاتھ کی نفی کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ اللہ کے لئے جسمانی ہاتھ ثابت نہیں ہے لہذا مذکورہ عبارت جسمانی ہاتھ کی نفی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ حق تعالیٰ کے لئے جسمانی ہاتھ ثابت ہوتے تو یمین و شمال دایاں اور بایاں بھی ہوتا اور دونوں ہاتھ داہنے بابرکت ہیں سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہاں خیر و برکت کا وجود مراد ہے جو ید یمین داہنے ہاتھ اور لفظ یمین کے مادہ اشتقاق یمن معنی برکت کا تقاضا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس طرح قوت اور گرفت میں مخلوقات کا بایاں ہاتھ کمزور اور ناقص ہوتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں کوئی کمزوری نہیں ہے بلکہ اس کے دونوں ہاتھ یکسان زور و قوت رکھتے ہیں اس اعتبار سے اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہوئے یہ بات اس طرح گویا سمجھانے کے لئے بیان کی گئی ہے ورنہ اس عبارت کی اصل مراد یہ بیان کرنا ہے کہ حق تعالیٰ کی کسی صفت میں کسی طرح کی کوئی کمزوری اور نقص نہیں اور اس کی تمام صفات کامل ہیں۔ اور تیسرے یہ کہ ان الفاظ کا مقصد حق تعالیٰ کے جو دو کرم اور احسان و انعام کی صفت کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کرنا ہے چناچہ اہل عرب جب کسی ایسے شخص کی توصیف کرنا چاہتے تو بہت زیادہ نفع پہنچانے والا ہوتا تو اس کے حق میں یہ کہتے کہ کلتا یدیہ یمین یعنی اس شخص کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں۔ جو سب سے زیادہ روشن تھا اس عبارت سے ذہن میں ایک خلجان پیدا ہوتا ہے اور یہ کہ اس سے تمام انبیاء پر حضرت داؤد کی فضیلت لازم آتی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اس موقع پر حق تعالیٰ نے حضرت آدم کے سامنے حضرت داؤد کو ایک طرح کی امتیازی شکل و صورت میں ظاہر کیا تاکہ اس کی وجہ سے حضرت آدم ان کے بارے میں سوال کریں اور اس سوال پر وہ صورت حال مرتب ہو جو آگے پیش آئی یعنی حضرت آدم کا حضرت داؤد کو اپنی عمر میں سے ساٹھ سال دینا اور پھر ملک الموت کے آنے پر اس سے انکار کرنا اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ حضرت داؤد کے روشن ترین ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ تمام صفات کمالیہ میں سب سے ترجیح رکھتے تھے لہذا ہوسکتا ہے کہ مذکورہ بالا مصلحت کے پیش نظر اس عالم میں حق تعالیٰ نے حضرت داؤد کی شکل و صورت میں ایک طرح کی خاص نوانیت ودیعت فرمائی ہو اور بلکہ وہ اس عالم میں بھی اس نورانیت سے متصف رہے ہوں، چناچہ پیغمبروں میں سے ہر ایک نبی کسی نہ کسی خاص صفت سے موصوف رہا ہے اور اس صفت میں ان کو امتیازی حثییت و خصوصیت حاصل رہی ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ محض اس خاص صفت کی بناء اس نبی کو دیگر تمام انبیاء پر فضیلت و فوقیت کا درجہ حاصل ہو۔ میری عمر تو ایک ہزار سال مقرر کی گئی ہے ظاہر ہے کہ حضرت آدم نے یہ بات بالکل صحیح کہی تھی کیونکہ واقعۃ حق تعالیٰ نے ان کی عمر ایک ہزار سال مقرر کی تھی البتہ اس بات کے ضمن میں ان کا مذکورہ انکار پوشیدہ تھا انہوں نے صریحا یہ بات نہیں کہی کہ میں نے اپنی عمر سے داؤد کو کچھ نہیں دیا ہے اور صریحا انکار ممکن بھی نہیں تھا کیوں کہ انبیاء کی زبان سے کوئی جھوٹ قصدا اور صریحا صادر نہیں ہوتا لہذا کہا جائے گا کہ حضرت آدم کا یہ انکار بطور تعریض تھا جیسا کہ اس طرح کی بعض صورتیں دیگر انبیاء سے بھی صادر ہوتی ہیں یا یہ کہا جائے کہ حضرت آدم کا مذکورہ بطریق نسیان تھا یعنی انہیں یہ یاد نہیں رہا تھا کہ وہ اپنی عمر میں سے ساٹھ سال داؤد کو دے چکے ہیں اس لئے انہوں نے ملک الموت کے سامنے سے اس کا انکار کردیا۔

【38】

عورتوں کو سلام کرنا آنحضرت ﷺ کے لئے مخصوص طور پر جائز تھا۔

اور حضرت اسماء بنت یزید (رض) کہتی ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ ہم عورتوں کے پاس سے گزرے جب کہ ہم کچھ عورتوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں تو آپ نے ہمیں یعنی وہاں موجود تمام عورتوں کو سلام کیا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی ) تشریح عورتوں کو سلام کرنے کی اجازت آنحضرت کی ذات گرامی کے ساتھ مخصوص تھی، کسی دوسرے مسلمان کے لئے جائز نہ تھی اور نہیں ہے کہ وہ اجنبی عورتوں کو سلام کرے جیسا کہ دوسری فصل کی حدیث کے ضمن میں بیان کیا جا چکا ہے۔

【39】

سلام کی فضیلت

اور حضرت طفیل بن ابی ابن کعب سے روایت ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور پھر صبح کے وقت ان کے ساتھ بازار جایا کرتے تھے۔ حضرت طفیل کہتے ہیں کہ جب ہم صبح کے وقت بازار میں جاتے تو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) جس بساطی جس بیچنے والے جس مسکین اور جس کسی شخص کے پاس سے بھی گزرتے اس کو سلام کرتے حضرت طفیل کہتے ہیں کہ ایک دن معمول کے مطابق میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس آیا اور وہ مجھ کو اپنے ہمراہ بازار لے جانے لگے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ بازار جا کر کیا کریں گے آپ نہ تو کسی خریدو فروخت کی جگہ ٹھہرتے ہیں اور نہ کسی بیچی جانے والی چیز کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ نہ تو مول تول اور کوئی سودا کرتے ہیں اور نہ بازار کی کسی مجلس میں شریک ہوتے ہیں لہذا بازار جانے سے اچھا تو یہی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ یہیں بیٹھتے تاکہ کچھ باتیں ہی کریں حضرت طفیل کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) نے یہ سن کر مجھ سے کہا کہ اے بڑے پیٹ والے راوی کا بیان ہے کہ طفیل کا پیٹ بڑا تھا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم خریدو فروخت کرنے یا کسی اور غرض سے بازار جایا کرتے ہیں نہیں بلکہ ہم صرف سلام کرنے کی غرض سے جاتے ہیں اور ہر اس شخص کو سلام کرتے ہیں جو ہم کو ملتا ہے اور اس طرح ہم بازار جا کر ثواب حاصل کرتے ہیں۔ (مالک، بہیقی)

【40】

سلام نہ کرنا بخل ہے

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے باغ میں فلاں شخص کا کھجور کا درخت ہے اور صورت حال یہ ہے کہ وہاں اس درخت کے ہونے سے مجھے تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ وہ شخص اپنے اس درخت کی وجہ سے وقت بےوقت میرے باغ میں آتا جاتا ہے چناچہ نبی کریم ﷺ نے کسی کو اس شخص کے پاس بھیجا تاکہ اس کو بلائے جب وہ آیا تو آپ نے فرمایا کہ تم اپنا کھجور کا درخت میرے ہاتھ فروخت کردو، اس نے کہا کہ میں فروخت نہیں کرتا، آپ نے فرمایا کہ اگر اس درخت کو بیچنے میں تمہیں کوئی عار محسوس ہوتا ہے تو اس کو میرے نام ہبہ کردو۔ اس نے کہا میں ہبہ بھی نہیں کرتا آپ نے فرمایا اچھا اس درخت کو تم میرے ہاتھ کھجور کے ایسے درخت کے عوض فروخت کردو جو تمہیں جنت میں ملے اس نے کہا میں اس طرح بھی فروخت نہیں کرتا آپ نے فرمایا میں نے تم سے بڑا بخیل کسی شخص کو نہیں دیکھا علاوہ اس شخص کے جو سلام کرنے میں بخل کرتا یعنی سلام کے معاملہ میں کوتاہی کرنے والا شخص تم سے بھی بڑا بخیل ہے کہ وہ اتنا ذرا سا کام کر کے بھی زیادہ ثواب حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ (احمد، بہیقی ) تشریح علماء نے لکھا ہے کہ نبی نے اس شخص سے جو کچھ فرمایا بطریق شفارش تھا حکم کے طور پر نہیں تھا اگر آپ حکم کے طور پر فرماتے تو وہ انکار کرنے کی ہرگز جرات نہ کرتا کیونکہ وہ بہرحال مسلمان تھا اور مسلمان ہونے کی حثییت سے وہ نبی ﷺ کے کسی حکم سے برملا انکار کسی صورت میں نہیں کرسکتا تھا، ہاں اگر وہ مسلمان نہ ہوتا تو حکم نبوی سے اس کا انکار کرنا کوئی تعجب خیز نہ ہوتا لیکن نبی ﷺ کا یہ فرمانا کہ تم اس درخت کو جنت کے کھجور کے درخت کے بدلے میرے ہاتھ فروخت کردو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ یقینا مسلمان تھا تاہم سختی طبع سے خالی نہیں تھا۔

【41】

سلام میں پہل کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے پاک ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ جب کہیں آتے جاتے وہ شخص آپس میں ملیں اور دونوں کی حثییت یکساں نوعیت کی ہو جیسے دونوں پیدل ہوں یا دونوں سوار ہوں تو ان میں سے جو شخص پہلے سلام کرے گا وہ گویا یہ ظاہر کرے گا کہ اللہ نے اس کو تکبر و غرور سے پاک رکھا ہے۔ یہ بات پہلے بھی بیان کی جا چکی ہے کہ سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا فرض ہے اگر کوئی شخص مجلس میں آئے اور وہاں سلام کرے تو مجلس والوں پر اس کے سلام کا جواب دینا فرض ہوگا۔ اور اگر وہ شخص دوبارہ اسی مجلس میں آئے اور پھر سلام کرے تو اب اس کے سلام کا جواب دینا ان پر فرض نہیں ہوگا البتہ مستحب ہوگا۔ سلام اور اس کا جواب، دونوں کے الفاظ بصیغہ جمع ہونے چاہئیں اگرچہ مخاطب فرد واحد ہو تاکہ ملائکہ جو ہر شخص کے ساتھ ہوتے ہیں سلام میں مخاطب کے ساتھ وہ بھی شریک ہوں۔ ایک حدیث میں منقول ہے کہ ایک شخص سرخ کپڑے پہنے ہوئے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص سلام کرتے وقت کسی نامشروع امر کا مرتکب ہو وہ سلام کے جواب کا مستحق نہیں ہوگا۔

【42】

اجازت حاصل کرنے کا بیان

اے ایمان والو اپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک کہ گھر والوں سے اجازت حاصل نہ کرلو اور ان کو سلام نہ کرلو۔ اس بارے میں مسنون طریقہ یہ ہے کہ دروازے پر کھڑے ہو کر اہل خانہ کو مخاطب کر کے یوں کہا جائے کہ السلام علیکم کیا میں اندر آسکتا ہوں۔

【43】

دروازے پر کھڑے ہو کر تین مرتبہ سلام کرنے کے بعد بھی گھر میں سے جواب نہ ملے تو واپس ہوجاؤ۔

حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوموسی اشعری (رض) ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ حضرت عمر (رض) نے میرے پاس ایک شخص کو بھیج کر مجھے بلا بھیجا ہے جب میں حسب طلب ان کے دروازے پر پہنچا اور اندر آنے کی اجازت طلب کرنے کے لئے تین مرتبہ سلام کیا تو مجھ کو سلام کا جواب نہیں ملا چناچہ میں واپس چلا آیا پھر بعد میں ملاقات ہوئی تو حضرت عمر (رض) نے مجھ سے پوچھا کہ میرے پاس آنے سے تمہیں کس چیز نے روکا تھا میں نے کہا کہ میں آپ کے پاس آیا تھا اور آپ کے دروازے پر کھڑے ہو کر تین مرتبہ سلام کیا لیکن آپ نے اس کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی آپ کے کسی خادم ہی نے جواب دیا لہذا میں واپس آگیا کیوں کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھ سے یہ فرمایا تھا کہ جب تم میں سے کوئی شخص تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اس کو اجازت نہ ملے تو چاہیے کہ واپس چلا جائے حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر فرمایا کہ اس حدیث کے گواہ لاؤ یعنی اس حدیث کے صحیح ہونے پر گواہ پیش کرو کہ یہ نبی کا ارشاد گرامی ہے حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوموسی اشعری (رض) کے ساتھ چلنے کے لئے کھڑا ہوا اور حضرت عمر (رض) کے پاس جا کر گواہی دی۔ تشریح حضرت ابوموسی (رض) نے حضرت ابوسعید خدری (رض) کے سامنے مذکورہ واقعہ بیان کیا اور کہا کہ یہ حدیث چونکہ آپ نے بھی نبی ﷺ سے سنی ہے اس لئے میرے ساتھ حضرت عمر (رض) کے پاس چلیے اور ان کے سامنے گواہی دیجیے چناچہ حضرت ابوسعید خدری (رض) ان کے ساتھ حضرت عمر (رض) کے پاس گئے اور یہ گواہی دی کہ حضرت ابوموسی (رض) نے جو حدیث بیان کی ہے وہ بالکل درست ہے۔ حضرت عمر (رض) کا گواہ طلب کرنا محض احتیاط کے طور پر تھا کہ دوسرے لوگوں کو حدیث بیان کرنے کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے اور خاص طور پر وہ جھوٹے لوگ جو من گھڑ حدیثیں نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا چاہیں ان کو اس بات کی جرات نہ ہو سکے ورنہ متفقہ طور پر یہ بات ہے کہ خبر واحد مقبول ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کہ راوی حضرت موسیٰ اشعری (رض) جیسا صحابی ہو جو کبار صحابہ میں سے ہیں۔ دروازے پر کھڑے ہو کر تین بار سلام اس لئے کرنا چاہیے کہ ایک سلام تو تعرف کے لئے ہوگا دوسرا سلام تامل کے لئے اور تیسرا سلام اجازت کے لئے ہوگا یعنی اہل خانہ پہلا سلام سن کر اس شخص کو پہچانیں گے کہ یہ کون شخص ہے اور دوسرا سلام سن کر وہ یہ سوچیں گے کہ آیا اس شخص کو اندر آنے کی اجازت دی جائے یا نہیں اور تیسرا سلام سننے کے بعد اندر آنے کی اجازت دیں گے۔

【44】

خاص اجازت

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ میری طرف سے تمہیں یہ اجازت ہے کہ تم پردہ اٹھاؤ اور میری باتیں سنو تاآنکہ میں تمہیں منع نہ کروں۔ (مسلم ) تشریح نبی اکرم ﷺ کے آستانہ اقدس کے دروازے پر جو پردے پڑے ہوئے تھے وہ بوریے کے تھے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو نبی ﷺ کے گھر کے اندر آنے کی مخصوص اجازت حاصل تھی وہ دروازے پر کھڑے ہو کر اجازت حاصل کرنے کے پابند نہیں تھے، چناچہ آپ نے ان سے فرما دیا کہ میرے پاس تمہارے آنے کی اجازت کی علامت بس یہی ہے کہ تم پردہ اٹھا کر دیکھو اگر میں سامنے موجود ہوں یا تمہیں یہ معلوم ہو کہ میں ہوں تو اندر چلے آؤ خواہ میں مخصوص لوگوں سے خفیہ بات ہی کیوں نہ کر رہا ہوں تمہیں اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہاں البتہ اگر کسی وقت میں تمہارا اند آنا مناسب نہیں سمجھوں گا اس وقت تمہیں اندر آنے سے منع کر دوں گا اس سے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں نگاہ نبوت میں کس قدر محبوبیت حاصل تھی اور ان پر نبی اکرم ﷺ کی کتنی زیادہ رعایت تھی آپ نے ان کو اپنا اتنا مقرب قرار دیا کہ گویا وہ گھر ہی کے ایک فرد ہوگئے تھے اور جب چاہتے گھر میں چلے آتے۔ لیکن واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی یہ مخصوص اجازت اس صورت سے متعلق تھی جب کہ حجرہ مبارکہ میں عورتوں کے آنے کا وقت نہیں رہتا تھا یا گھر میں عورتیں موجود نہیں ہوتی تھیں، خاص طور سے پردہ کی آیت نازل ہونے کے بعد تو یہ قید ضرور عائد ہوئی ہوگی۔

【45】

کسی دروازے پر پہنچ کر اپنی آمد کی اطلاع کرو تو نام بتاؤ۔

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میں ایک قرض کے معاملہ میں جو میرے باپ پر تھا نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اپنی آمد کی اطلاع دینے کے لئے دروازے کو کھٹکھٹایا، آپ نے اندر سے پوچھا کون ہے ؟ میں نے کہا میں ہوں، آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ میں ہوں، میں ہوں، گویا آپ نے میرے اس طرح جواب دینے کو برا سمجھا۔ (بخاری، مسلم) تشریح قرض کا وہ معاملہ جس سلسلے میں حضرت جابر (رض) نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے یہ تھا کہ ان کے والد حضرت عبداللہ انصاری (رض) غزوہ احد میں شہید ہوگئے تھے اور اپنے ذمہ کچھ قرض چھوڑ گئے تھے، جب قرض خواہوں نے حضرت جابر (رض) سے اس قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کیا اور ان کو تنگ کرنا شروع کردیا تو وہ مدد چاہنے کے لئے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ اس قرض کی ادائیگی کا کوئی انتظام ہو اور قرض خواہوں سے نجات مل جائے اس وقت حضرت جابر (رض) کی ملکیت میں تھوڑی سی کھجوروں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا لیکن اس موقع پر نبی ﷺ کا معجزہ ظاہر ہوا کہ ان کھجوروں میں برکت ہوئی اور اتنی برکت ہوئی کہ حضرت جابر (رض) نے ان کھجوروں سے پورا قرض ادا کردیا اور اس کے بعد بھی وہ جوں کی توں باقی رہیں ان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ میں ہوں کہنے کو آنحضرت ﷺ نے اس لئے برا سمجھا کہ اس جملہ کے ذریعہ ابہام کا ازالہ نہیں ہوتا اور صاحب خانہ پر یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ کون شخص ہے گویا یہ کہنے سے اس صورت میں صاحب خانہ کا یہ سوال کہ کون ہے جوں کا توں باقی رہتا ہے لہذا حضرت جابر (رض) کو چاہیے تھا کہ وہ نام لقب، یا کنیت بتاتے تاکہ یہ معلوم ہوجاتا کہ باہر دروازے پر کون شخص ہے اگرچہ بعض اوقات محض آواز پہچان لینے سے بھی شخصیت واضح ہوجاتی ہے خاص طور سے اس صورت میں جب کہ میں ہوں کہنے والا شخص ایسا ہو جس کے ساتھ ہر وقت اٹھنا بیٹھنا ہو یا اس سے راہ و رسم ہو، چناچہ ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے میں ہوں کی آواز سے حضرت جابر (رض) کی آواز کو پہچان لیا ہوگا مگر اس کے باوجود آپ نے اپنی ناگواری کا اظہار حضرت جابر (رض) کو اس ادب کی تعلیم کے طور پر کیا کہ کسی کے دروازے پر پہنچ کر اپنی آمد کی اطلاع دو صاف طرح سے اپنا نام بتاؤ محض یہ کہنے پر اکتفا نہ کرو کہ میں ہوں۔ یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت جابر (رض) کے اس طرح کہنے کو اس لئے برا سمجھا کہ انہوں نے سلام کرنے کے ذریعہ اجازت حاصل کرنے کے طریقہ کو ترک کیا جو مسنون ہے۔ آنحضرت کا میں ہوں، میں ہوں، دو بار کہنا حضرت جابر (رض) کے اس جواب کو قبول کرنے سے انکار کے طور پر تھا اور اس کا مفہوم گویا یوں تھا کہ میں ہوں میں ہوں کیا کہتے ہو، اپنا نام کیوں نہیں بتاتے۔

【46】

بلانے والے کے دروازے پر بھی رک کر اندر آنے کی اجازت مانگنی چاہیے۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ آپ کے گھر میں داخل ہوا تو آپ نے گھر میں ایک دودھ کا پیالہ رکھا ہوا پایا آپ نے مجھ سے فرمایا کہ ابوہریرہ (رض) اہل صفہ کے پاس جاؤ اور ان کو میرے پاس بلا لاؤ چناچہ میں ان کے پاس جا کر ان کو بلا لایا جب وہ لوگ آئے تو دروازے پر رک کر اندر آنے کی اجازت چاہی آپ نے ان کو اجازت دی تو وہ اندر آگئے۔ (بخاری، مسلم) تشریح ایک دوسری حدیث میں یہ بھی منقول ہے کہ اہل صفہ اندر آئے تو آنحضرت ﷺ نے ان کے سامنے دودھ کا وہ پیالہ پیش کیا اور آپ کے معجزہ کے سبب سے ان سب نے اس پیالہ کے دودھ کو خوب سیر ہو کر پیا۔ واضح رہے کہ اہل صفہ ان صحابہ کی جماعت کو کہا جاتا تھا جو مدینہ میں نہ تو گھر بار رکھتی تھی اور نہ کوئی سلسلہ معاش بلکہ اپنے فقر و افلاس کے ساتھ مسجد نبوی کے باہر ایک چبوترہ پر جمع رہتی تھی اور ہمہ وقت آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر رہ کر اکتساب فیض کرتی تھی ان صحابہ کا تعلق انصار سے بھی تھا اور مہاجرین سے بھی یوں تو مدینہ کے عام مسلمان اپنی حثییت و استطاعت کے مطابق ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتے رہتے تھے لیکن آنحضرت ﷺ بذات خود اکثر و پیشتر ان سب کو اپنے پاس سے کھلاتے پلاتے تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو بلانا، اجازت حاصل کرنے کو ساقط نہیں کرتا یعنی اگر کوئی شخص کسی کے بلانے پر اس کے گھر جائے تو اس کو بھی چاہیے کہ وہ دروازہ پر آ کر پہلے اجازت طلب کرے اور پھر گھر اندر جائے الاّ یہ کہ بلانے اور آنے میں زیادہ وقت کا فرق نہ ہو۔ آگے حدیث آرہی ہے جس میں فرمایا گیا کہ جب تم میں سے کسی شخص کو بلایا جائے اور وہ شخص اس کے ہمراہ آجائے جو بلانے گیا تھا تو اس کے ساتھ آنا ہی اس کے لئے اجازت ہے یعنی اس کو اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے چونکہ بظاہر یہ حدیث مذکورہ بالا حدیث میں مطابقت نہیں رکھتی اس لئے ان دونوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء نے لکھا ہے کہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ بلا کر لانے والے ساتھ آنے کی صورت میں اجازت ہے یعنی اس کو اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے چونکہ بظاہر یہ حدیث مذکورہ بالا حدیث سے مطابقت نہیں رکھتی اس لئے ان دونوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء نے لکھا ہے کہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ بلا کر لانے والے کے ساتھ آنے کی صورت میں اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی چناچہ اہل صفہ نے اسی لئے اجازت چاہی تھی کہ وہ لوگ حضرت ابوہریرہ (رض) کے ساتھ ہی چلے آتے تو ان کو اجازت حاصل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی یا یہ کہ وہ لوگ حضرت ابوہریرہ (رض) کے ہی ساتھ آئے تھے اس صورت میں ان کو اجازت حاصل کرنے کی ضرورت یا حاجت نہیں تھی لیکن چونکہ ان لوگوں پر ادب حیاء کا انتہائی غلبہ تھا اس لئے ان لوگوں نے اجازت حاصل کرنا ہی بہتر سمجھا یا ان لوگوں کو وہاں کوئی ایسی چیز محسوس ہوئی ہوگی جو اجازت حاصل کرنے کی مقتضی تھی یا یہ کہ ان لوگوں کو یہ حدیث ہی نہیں پہنچی ہوگی اس لئے انہوں نے اجازت حاصل کی۔ واللہ اعلم۔

【47】

اجازت طلب کیے بغیر کسی کے گھر میں نہ جاؤ

حضرت کلدہ ابن حنبل (رض) کہتے ہیں کہ صفوان بن امیہ (رض) نے میرے ہاتھ رسول اکرم ﷺ کے لئے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑی بھیجی اور اس وقت رسول اکرم ﷺ مکہ کے بالائی کنارہ پر جس کو معلی کہتے ہیں قیام پذیر تھے کلدہ کہتے ہیں کہ میں آپ کی خدمت میں یونہی چلا گیا تو میں نے آپ کی قیام گاہ میں داخل ہونے سے پہلے سلام کیا اور نہ اندر آنے کی اجازت چاہی چناچہ آنحضرت ﷺ نے مجھ سے فرمایا واپس جاؤ یعنی یہاں سے نکل کر دروازہ پر جاؤ اور وہاں کھڑے ہو کر کہو السلام علیکم کیا میں اندر آسکتا ہوں۔

【48】

بلا کر لانے والے کے ساتھ آنے کی صورت میں اجازت کی ضرورت نہیں۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو بلایا جائے اور وہ اسی کے ساتھ چلا آئے جو اس کو بلانے گیا ہے تو اس کے ساتھ آنا ہی اس کے لئے اجازت ہے۔ (ابوداؤد) اور ابوداؤد کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا کسی شخص کا کسی شخص کو بلانے کے لئے آدمی بھیجنا ہی اس کی طرف سے اجازت ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا آدمی بھیج کر کسی کو اپنے گھر بلائے اور وہ بلا کر لانے والے ہی کے ساتھ چلا آئے تو اس صورت میں اس کو اس بات کی ضرورت نہیں ہوگی کہ وہ دروازہ پر کھڑے ہو کر پہلے اجازت مانگے اور پھر گھر میں داخل ہو۔

【49】

آنحضرت ﷺ کسی کے گھر جاتے تو اجازت مانگنے کے لئے دروازے پر کسی طرح کھڑے ہوتے۔

اور حضرت عبداللہ بن بسر (رض) کہتے ہیں رسول اکرم ﷺ جب کسی گھر جانے کے لئے اس کے دروازہ پر پہنچتے تو دروازہ کی طرف منہ کر کے کھڑے نہ ہوتے۔ بلکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے اور پھر اجازت مانگنے کے لئے فرماتے، السلام علیکم، السلام علیکم اور دروازہ کے سامنے نہ کھڑے ہونے کی وجہ یہ ہوا کرتی تھی کہ اس زمانہ میں دروازوں پر پردے نہ پڑے ہوئے تھے۔ اور انس (رض) کی یہ روایت قال (علیہ الصلوۃ والسلام) علیکم ورحمۃ اللہ باب الضیافۃ میں نقل کی جا چکی ہے۔ تشریح ایک سے زائد بار سلام کرنے کی وجہ یہ تھی تاکہ صاحب خانہ اچھی طرح سن لے اور اجازت دے سکے واضح رہے کہ یہاں السلام علیکم جو دو بار ذکر کیا گیا ہے تو اسے تعداد مراد ہے دو بار پر اقتصار مراد نہیں ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ کسی کے دروازے پر کھڑے ہو کر تین بار سلام فرماتے تھے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ روایت کے آخری الفاظ دروازے کے سامنے نہ کھڑے ہونے کی وجہ سے یہ سمجھا گیا ہے کہ اگر دروازے پر کواڑ ہوں یا اس پر پردے پڑے ہوئے ہوں تو اس صورت میں دروازے کے سامنے کھڑے ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اصل سنت رعایت کے پیش نظر اولی یہی ہے کہ اس صورت میں بھی دروازے کے سامنے سے ہٹ کر دائیں یا بائیں طرف کھڑا ہو اور اس لئے بھی کہ بعض اوقات کواڑ یا پردہ کھولتے ہوئے دروازے کے سامنے کھڑے ہوئے شخص کی نظر اندر چلی جاتی ہے۔

【50】

اپنی ماں وغیرہ کے گھر میں بھی اجازت لے کر جاؤ۔

اور حضرت عطاء بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا میں اپنی ماں کے پاس جانے میں بھی اجازت طلب کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ کسی وقت اس کے جسم کے اعضاء کھلے ہوئے ہوں جو بیٹے کو بھی دیکھنا جائز نہیں ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ میں اس کے ساتھ ہی رہتا ہوں (یعنی میں اور میری ماں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اس صورت میں مجھے اجازت طلب کرنے کی کیا ضرورت ہے گویا اس شخص نے گمان کیا کہ اجازت حاصل کرنا اسی شخص کے لئے مشروع ہے جو بیگانہ ہو اور کبھی کبھار آتا جاتا ہو تو اجازت حاصل کر کے جاؤ اس نے کہا کہ میں اپنی ماں کا خادم ہوں۔ آپ نے فرمایا بہر صورت اجازت حاصل کر کے اس کے پاس جاؤ اور فرمایا کیا تم پسند کرو گے کہ اپنی ماں کو برہنہ دیکھو یعنی تم اگر بغیر اجازت حاصل کئے اچانک اس کے پاس چلے جاؤ تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس وقت وہ کسی وجہ سے برہنہ بیٹھی ہو اور تمہاری نظر اس پر پڑجائے۔ اس شخص نے کہا کہ ہرگز نہیں آپ نے فرمایا تو پھر اجازت حاصل کر کے اس کے پاس جایا کرو اس روایت کو امام مالک نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔ تشریح اس سلسلے میں ماں ہی کے حکم میں دیگر محارم بھی ہیں خواہ ان سے نسبی تعلق ہو یا دودھ کا اور خواہ سسرالی، حاصل یہ ہے کہ جن عورتوں سے پردہ کرنا شرعی طور پر ضروری نہیں ہے اور جن کو محارم کہا جاتا ہے اگر ان کے پاس بھی جائے تو اجازت حاصل کئے بغیر نہ جانا چاہیے البتہ بیوی اس حکم سے مستثنی ہے۔

【51】

اجازت کا ایک طریقہ

اور حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کے پاس رات کو بھی اور دن کو بھی آیا جایا کرتا تھا چناچہ جب میں رات کے وقت حاضر ہوتا تو آپ مجھے اجازت دینے کے لئے کنکھار دیتے تھے۔ (نسائی) تشریح اس سے معلوم ہوا کہ رات کے وقت اجازت دینے کی علامت کھنکارنا تھا رہی یہ بات کہ دن کے وقت حاضری کی صورت میں کون سی علامت مقرر تھی تو احتمال ہے کہ اس صورت کے لئے امربالعکس مراد ہو یعنی حضرت علی (رض) یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رات کے وقت تو آنحضرت ﷺ کھنکارتے تھے جو میرے لئے اجازت کے مرادف ہوتا اور جب دن میں حاضر ہوتا تو خود کھنکار کر اندر جاتا تھا۔ اس حدیث سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی کا کھنکارنا اجازت کی علامت تھا لیکن ایک دوسری روایت میں حضرت علی (رض) یہ فرماتے ہیں کہ جب میں رات کے وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ کھنکارتے تو میں واپس ہوجاتا اس لئے یہ واضح ہوتا ہے کہ کھنکارنا عدم اجازت کی علامت ہوتا ہے۔ لہذا بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کھنکارنا صرف اجازت ہی کی علامت نہیں ہوتا بلکہ کوئی ایسا قرینہ ہوگا جس کے ذریعہ بعض اوقات تو کنکھارنا اجازت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور بعض اوقات اس کو عدم اجازت کی علامت سمجھتے ہوں گے لہذا وہ قرینہ جس صورت اجازت یا عدم اجازت کو ظاہر کرتا، حضرت علی (رض) اسی پر عمل کرتے۔

【52】

سلام نہ کرنے والے کو اپنے پاس آنے کی اجازت نہ دو

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص سلام سے پہل نہ کرے اس کو اپنے پاس آنے کی اجازت نہ دو ۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے پاس آنا چاہے لیکن وہ سلام کے ذریعہ اندر آنے کی اجازت طلب نہ کرے یا تمہارے پاس پہنچ کر تمہیں سلام نہ کرے تو اس کو اپنے پاس آنے یا اپنے پاس بیٹھنے کی اجازت نہ دو بلکہ اس سے کہو کہ وہ دروازے پر واپس جا کر پہلے سلام کرے اور پھر اجازت پانے پر اندر آئے۔

【53】

مصافحہ اور معانقہ کا بیان

مصافحہ کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے دست یکدیگر را گرفتن۔ دو آدمیوں کا باہم ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا۔ معانقہ کے بارے میں یہ کہا گیا ہے دست درگرون یکدیگر درآوردن۔ یعنی دو آدمیوں کا باہم ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالنا یا دو آدمیوں کا باہم ایک دوسرے کو سینے سے لگانا۔

【54】

مصافحہ اور معانقہ کے احکام

باہمی ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے نیز دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا چاہیے محض ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا غیر مسنون ہے کسی خاص موقع پر یا کسی خاص تقریب کے وقت مصافحہ ضروری سمجھنا غیر شرعی بات ہے چناچہ بعض مقامات پر جو یہ رواج ہے کہ کچھ لوگ عصر کی نماز یا جمعہ کے بعد ایک دوسرے کو مصافحہ کرتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں ہے اور ہمارے علماء نے تصریح کی ہے کہ تخصیص وقت کے سبب اس طرح کا مصافحہ کرنا مکروہ ہے اور بدعت مذمومہ ہے ہاں اگر کوئی شخص مسجد میں آئے اور لوگ نماز میں مشغول ہوں یا نماز شروع کرنے والے ہوں اور وہ شخص نماز ہوجانے کے بعد ان لوگوں سے مصافحہ کرے تو یہ مصافحہ بلاشبہ مسنون مصافحہ ہے بشرطیکہ اس نے مصافحہ سے پہلے سلام بھی کیا ہو تاہم یہ واضح رہے کہ اگرچہ کسی متعین اور مکروہ وقت میں مصافحہ کرنا مکروہ ہے لیکن اگر کوئی شخص اس وقت مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے تو اس کی طرف سے ہاتھ کھینچ لینا اور اس طرح بےاعتنائی برتنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ اس کی وجہ سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھانے والے شخص کو دکھ پہنچے گا اور کسی مسلمان کو دکھ نہ پہنچانا آداب کی رعایت سے زیادہ اہم ہے۔ جوان عورت سے مصافحہ کرنا حرام ہے اور اس بوڑھی عورت سے مصافحہ کرنے سے کوئی مضائقہ نہیں ہے جس کی طرف جنسی جذبات مائل نہ ہوسکتے ہوں چناچہ منقول ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) اپنے دور خلافت میں ان بوڑھیوں سے مصافحہ کرتے تھے جن کا انہوں نے پیا تھا اسی طرح وہ بڈھا مرد جو جنسی جذبات کی فتنہ خیزیوں سے بےخوف ہوچکا ہو اس کو جوان عورت سے مصافحہ کرنا جائز ہے، عورت کی طرح خوش شکل مرد سے بھی مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جس کو دیکھنا حرام ہے اس کو چھونا بھی حرام ہے بلکہ چھونے کی حرمت دیکھنے کی حرمت سے زیادہ سخت ہے جیسا کہ مطالب المومنین میں مذکور ہے۔ صلوۃ مسعودی میں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص سلام کرے تو اپنا ہاتھ بھی دے یعنی مصافحہ کے لئے ہاتھ دینا سنت ہے لیکن مصافحہ کا یہ طریقہ ملحوظ رہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھے محض انگلیوں کے سروں کو پکڑنے پر اکتفا نہ کرے کیوں کہ محض انگلیوں کے سروں کو پکڑنا مصافحہ کا ایسا طریقہ ہے جس کو بدعت کہا گیا ہے۔ معانقہ یعنی ایک دوسرے کو سینے سے لگانا مشروع ہے خاص طور سے اس وقت جب کہ کوئی شخص سفر سے آیا ہو جیسا کہ حضرت جعفر بن ابی طالب کی حدیث منقول ہے کہ لیکن اس کی اجازت اسی صورت میں ہے جب کہ اس کی وجہ سے کسی برائی میں مبتلا ہوجانے یا کسی شک وشبہ کے پیدا ہوجانے کا خوف نہ ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے بارے میں منقول ہے کہ یہ دونوں حضرات معانقہ اور تقبیل یعنی ہاتھ کو منہ اور آنکھوں کے ذریعہ چومنے کی کراہت کے قائل ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ معانقہ کے بارے میں نہی (ممانعت) منقول ہے چناچہ فصل اول میں حضرت انس (رض) کی روایت سے یہ نہی ثابت ہوتی ہے یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ جن روایتوں سے معانقہ کی اجازت ثابت ہوتی ہے ان کا تعلق اس زمانہ سے ہے جب کہ معانقہ کو ممنوع نہیں قرار دیا گیا تھا بہرحال اس سلسلے میں جو احادیث منقول ہیں اور جن کے درمیان بظاہر اختلاف نظر آتا ہے کہ بعض سے ممانعت کی اجازت ثابت ہوتی ہے اور بعض معانقہ کا تعلق محبت و اکرام کے جذبہ سے ہو وہ بلاشک و شبہ جائز ہے بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ معانقہ کے بارے میں فقہاء کے درمیان جو اختلاف ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ جسم پر کپڑے نہ ہوں بدن پر قمیص و جبہ وغیرہ ہونے کی صورت میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ بالا اتفاق جائز ہے۔ تقبیل یعنی ہاتھ یا پیشانی وغیرہ چومنا بھی جائز ہے بلکہ بزرگان دین اور متبعین سنت علماء کے ہاتھ پر بوسہ دینے کو بعض حضرات نے مستحب کہا ہے لیکن مصافحہ کے بعد خود اپنا ہاتھ چومنا کچھ اصل نہیں رکھتا بلکہ یہ جاہلوں کا طریقہ ہے اور مکروہ ہے۔ امرائے سلطنت اور علماء مشائخ کے سامنے زمین بوسی کرنا حرام ہے زمین بوسی کرنے والا اس زمین بوسی پر راضی ہونے والا دونوں ہی گناہگار ہوتے ہیں۔ فقیہ ابوجعفر کہتے ہیں کہ سلطان و حاکم کے سامنے زمین بوسی اور سجدہ کرنے والا کافر ہوجاتا ہے بشرطیکہ اس کی زمین بوسی و سجدہ عبادت کی نیت نہ ہونے کی صورت میں بھی کافر ہوجاتا ہے واضح رہے کہ اکثر علماء کے نزدیک زمین بوسی کرنا، زمین پر ما تھا ٹیکنے یا ر خسارہ رکھنے سے ہلکا فعل ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ کسی عالم یا سلطان و حاکم کے ہاتھ کو چومنا ان کے علم و انصاف کی بناء پر اور دین کے اعزازو اکرام کے جذبہ سے ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اور اگر ان کے ہاتھ چومنے کا تعلق کسی دنیاوی غرض و منفعت سے ہو تو سخت مکروہ ہوگا اگر کوئی شخص کسی عالم یا کسی بزرگ سے اس کا پیر چومنے کی درخواست کرے تو اس کو ہرگز نہیں ماننا چاہیے بچوں کو بوسہ سے پیار کرنے کی اجازت ہے اگرچہ غیر کا بچہ ہو بلکہ وہاں طفل پر بوسہ دینا مسنون ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ جو بوسہ شرعی طور پر جائز ہے اس کی پانچ صورتیں ہیں ایک تو مودت و محبت کا بوسہ جیسے والدین کا اپنے بچہ کے رخسار کو چومنا، دوسرے احترام و اکرام اور رحمت کا بوسہ، جیسے اولاد کا اپنے والدین کے سر پر بوسہ دینا، تیسرے جنسی جذبات کے تحت بوسہ دینا جیسے شوہر کا بیوی کے چہرہ پر بوسہ لینا، چوتھے تحیۃ سلام کا بوسہ جیسے مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ہاتھ چومنا اور پانچویں وہ بوسہ جو بہن اپنے بھائی کی پیشانی کا لیتی ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک آپس میں ایک دوسرے کے ہاتھ اور چہرہ کا بوسہ دینا مکروہ ہے بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ چھوٹے بچے کا بوسہ لینا واجب ہے۔ امام نووی نے یہ لکھا ہے کہ شوہر بیوی کے علاوہ کسی اور جنسی جذبات کے تحت بوسہ لینا بالاتفاق حرام ہے خواہ وہ باپ ہو یا کوئی اور دوسرا۔

【55】

مصافحہ مشروع ہے

حضرت قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے دریافت کیا کہ کیا رسول اکرم ﷺ کے صحابہ (باہمی ملاقات کے وقت سلام کے بعد مصافحہ کرتے تھے انہوں نے فرمایا ہاں۔ (بخاری)

【56】

بچے کو چومنا مستحب ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے حسن بن علی (رض) کا بوسہ لیا تو ایک صحابی اقرع ابن حابس (رض) نے جو اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر تھے کہا کہ میرے دس بچے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کا کبھی بوسہ نہیں لیا۔ رسول اکرم ﷺ نے یہ سن کر ان کی طرف دیکھا اور فرمایا جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا یعنی جو شخص اپنی اولاد یا مخلوق اللہ پر لطف و شفقت نہیں کرتا اس پر اللہ کی رحمت و شفقت نہیں ہوتی۔ (بخاری، مسلم) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت اثم لکع کو ہم انشاء اللہ مناقب اہل بیت نبی ﷺ وعلیھم اجمعین کے باب میں نقل کریں گے اور حضرت ام ہانی کی روایت باب الامان میں نقل کی جا چکی ہے۔

【57】

مصافحہ کی فضیلت وبرکت۔

حضرت براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب دو مسلمان ملتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے اللہ ان کو بخش دیتا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ) اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب دو مسلمان ملیں، ایک دوسرے سے مصافحہ کریں اللہ تعالیٰ کی حمد کریں اور بخشش چاہیں تو ان دونوں کو بخش دیا جاتا ہے۔ تشریح حکیم ترمذی اور ابوالشیخ نے حضرت عمر (رض) سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب دو مسلمان ملتے ہیں اور ان میں ایک اپنے دوسرے ساتھی کو سلام کرتا ہے تو ان میں سے وہ مسلمان اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے جو کشادہ پیشانی اور بشاشت کے ساتھ اپنے دوسرے ساتھی سے ملتا ہے اور پھر جب دونوں مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر سو رحمتیں نازل کرتا ہے نورے رحمتیں تو اس پر جس نے پہل کی اور دس رحمتیں اس پر جس سے مصافحہ کیا ہے۔

【58】

سلام کے وقت جھکنا ممنوع ہے۔

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے کوئی جب اپنے مسلمان بھائی یا اپنے دوست سے ملاقات کرے تو کیا وہ جھک جائے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس شخص نے کہا کہ کیا اس سے گلے ملے اور اس کو بوسہ دے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس نے کہا تو کیا اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس سے مصافحہ کرے ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سلام کے وقت جھکنا، جیسا کہ کچھ لوگوں کا معمول ہے اور بعض جگہوں پر اس کا رواج ہے، خلاف سنت ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس کو اس بنا پر ناپسند فرمایا کہ یہ چیز رکوع کے حکم میں ہے اور رکوع اللہ کی عبادت ہے۔ یحییٰ نے محی السنۃ سے نقل کیا ہے کہ سلام کے وقت پیٹھ جھکانا مکروہ ہے کیوں کہ اس کی ممانعت میں صحیح حدیث منقول ہے اور اگرچہ بعض اہل علم و صلاح نے اس کو اختیار کیا ہے لیکن ان کا فعل ہرگز قابل اعتبار و اعتماد نہیں ہے۔ مطالب المومنین میں حضرت شیخ ابومنصور ماتریدی سے نقل کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے سامنے زمین بوسی کرے یا اس کے آگے پیٹھ جھکائے تو اس کی وجہ سے کافر نہیں ہوگا البتہ گناہگار ہوگا کیونکہ کسی کے آگے زمین بوسی کرنا یا جھکنا تعظیم کی خاطر ہوتا ہے نہ کہ عبادت کی نیت سے ( اگر کوئی شخص عبادت کی نیت سے اس طرح کا فعل کرے گا تو وہ یقینا کافر ہوجائے گا) ۔ بعض مشائخ نے اس فعل جھکنے کی ممانعت کو بڑی شدت اور سختی کے ساتھ بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ کاد الانحناء ان یکون کفرا یعنی جھکنا کفر کے نزدیک پہنچا دیتا ہے۔ جو حضرات معانقہ و تقبیل یعنی گلے لگانا اور ہاتھ وغیرہ چومنے کو مکروہ کہتے ہیں جیسا کہ حضرت امام ابوحنیفہ اور امام محمد سے منقول ہے وہ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں تاہم جو حضرات ان چیزوں کی کراہت کے قائل نہیں ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ معانقہ و تقبیل مکروہ ہے جو تملق یعنی بیجا خوشامد اور تعظیم کے طور پر ہو یا جس معانقہ و تقبیل سے کسی برائی میں مبتلا ہوجانے یا شک و شبہ کے پیدا ہوجانے کو خوف ہو ورنہ اس صورت میں گلے لگنا اور ہاتھ وغیرہ چومنا جائز ہے جب کسی کو رخصت کیا جائے یا کوئی سفر سے آئے یا کسی سے بہت دنوں کے بعد ملاقات نصیب ہوئی ہو اور یا بوجہ اللہ کسی کی محبت کا غلبہ اس کا متقاضی ہو۔

【59】

سلام، مصافحہ سے پورا ہوتا ہے۔

اور حضرت ابوامامہ (رض) سے روایت کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا مریض کی پوری عیادت یہ ہے کہ تم میں سے کوئی اپنا ہاتھ اس کی پیشانی یا اس کے ہاتھ پر رکھے اور پھر پوچھے کہ اس کا کیا حال ہے اور تمہارا پورا سلام جو تم آپس میں کرتے ہو مصافحہ ہے یعنی جب تم سلام کرو تو مصافحہ کرو تاکہ سلام پورا اور کامل ہو اس روایت کو احمد و ترمذی نے نقل کیا ہے اور اس کو ضعیف کہا ہے۔

【60】

سفر سے آنے والے کے ساتھ معانقہ وتقبیل بلاکراہت جائز ہے۔

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ زید بن حارثہ (رض) جو مشہور صحابی ہیں اور جن کو نبی اکرم ﷺ نے بیٹا بنایا تھا، کسی غزوہ یا کسی سفر سے لوٹ کر مدینے پہنچے تو اس وقت رسول اکرم ﷺ میرے گھر میں تشریف فرما تھے، زید (رض) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے میرے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، رسول اکرم ﷺ برہنہ بدن اپنے کپڑے یعنی چادر کو کھینچتے ہوئے زید (رض) سے ملنے کے لئے باہر تشریف لائے (یعنی اس وقت آنحضرت ﷺ کے جسم مبارک پر تہبند کے علاوہ کوئی کپڑا نہیں تھا اور آپ اسی حالت میں دروازہ پر تشریف لے گئے قسم ہے اللہ کی میں نے اس سے پہلے اور اس کے بعد کبھی آپ کو برہنہ نہیں دیکھا یعنی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی کے استقبال کے وقت اس طرح کا اظہار شوق و تمنا کیا ہو اور اس سے ملنے کے لئے برہنہ بدن باہر تشریف لے گئے ہوں بہر حال آپ نے حضرت زید کو گلے لگایا اور بوسہ دیا۔ (ترمذی) تشریح یہ حدیث اور اسی طرح حضرت جعفر بن ابوطالب (رض) کی حدیث جو آگے آئے گی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ معانقہ و تقبیل یعنی گلے لگانا اور پیشانی چومنا جائز ہے اور فقہاء نے اسی قول کو اختیار کیا ہے کہ سفر سے آنے والے کے ساتھ معانقہ و تقبیل بلاکراہت جائز ہے۔

【61】

معانقہ کا جواز

اور حضرت ایوب بن بشیر بنو غنزہ کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابوذر (رض) سے پوچھا جب آپ لوگ رسول کریم ﷺ سے ملاقات کیا کرتے تھے تو کیا آنحضرت ﷺ آپ لوگوں سے مصافحہ بھی کیا کرتے تھے ؟ حضرت ابوذر (رض) نے فرمایا کہ میں نے جب آنحضرت ﷺ سے ملاقات کی تو آنحضرت ﷺ نے مجھ سے مصافحہ کیا اور ایک دن کا واقعہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے بلانے کے لئے میرے پاس ایک شخص کو بھیجا اس وقت میں اپنے گھر میں موجود نہیں تھا جب میں گھر آیا تو مجھے اس کی اطلاع دی گئی، چناچہ میں آپ کی خدمت حاضر ہوا آپ اس وقت ایک تخت پر تشریف فرما تھے آپ نے مجھ کو گلے لگایا اور یہ گلے لگانا بہتر تھا کہیں زیادہ بہتر۔ (ابوداؤد) تشریح اس سے معلوم ہوا کہ سفر سے آنے کے علاوہ دوسری حالتوں میں بھی اظہار محبت و عنایت کے پیش نظر معانقہ کرنا ثابت ہے۔

【62】

بارگاہ نبوت میں عکرمہ ابن ابوجہل کی حاضری کا راز

اور حضرت عکرمہ (رض) ابن ابوجہل کہتے ہیں اس دن جب کہ میں اسلام قبول کرنے کے لئے رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا اللہ اور رسول کی طرف یا دارالحرب سے دارالسلام کی طرف ہجرت کرنے والے سوار کو خوش آمدید۔ (ترمذی) تشریح سیوطی نے جمع الجوامع میں حضرت مصعب بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے عکرمہ اور ابن ابوجہل کو اپنے پاس آتے ہوئے دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور چل کر ان کے پاس پہنچے اور پھر ان کو گلے سے لگایا اور فرمایا کہ مرحبا بالراکب المہاجر۔ حضرت عکرمہ اسلام قبول کرنے سے پہلے اپنے باپ ابوجہل کی طرح سے سخت عداوت رکھتے تھے اور اسلام کے خلاف ہر معرکہ آرائی میں پیش پیش رہتے تھے ان کا خاص وصف شہ سواری تھا جس میں بڑے مشہور تھے اور بڑے جیالے سوار جاتے تھے فتح مکہ کے دن جب اسلام دشمن عناصر کی طاقت آخری طور پر ٹوٹ کر چور چور ہوگئی اور اس خطہ مقدس پر اللہ کے نام لیواؤں کا مکمل تسلط و غلبہ ہوگیا تو یہ عکرمہ بھی مکہ سے فرار ہو کر یمن پہنچے پھر ان کی بیوی ام حکیم بنت حارث ان کے پاس یمن گئیں اور ان کو اپنے پاس آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لائیں اور انہوں نے آپ کے سامنے اپنی گزشتہ تقصیرات پر ندامت کا اظہار کیا اور معافی اور بخشش کے طلب گار ہوئے آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا اور حسن اسلام کی ایسی دولت نصیب ہوئی کہ قابل رشک بن گئے یہاں تک کہ اللہ کے دین کا جھنڈا سر بلند رکھنے کے لئے اپنی جان تک قربان کردی اور جنگ یرموک میں شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے۔ یاد رہے اس حدیث میں سفر سے آنے والے کو خوش آمدید کہنے کا ذکر ہے اور خوش آمدید کہنا مصافحہ سے ایک طرح کی مناسبت رکھتا ہے اس اعتبار سے اس حدیث کو یہاں مصافحہ کے باب میں نقل کیا گیا ہے۔

【63】

بارگاہ نبوت میں عکرمہ ابن ابوجہل کی حاضری کا راز

اور حضرت اسید بن حضیر جو انصار میں سے تھے کے بارے میں راوی کہتے ہیں کہ ایک دن اس وقت جب کہ اسید لوگوں سے باتیں کر رہے تھے اور ان کے مزاج میں جو خوش طبعی وظرافت تھی اس کے تحت لوگوں کو ہنسا رہے تھے تو آنحضرت ﷺ نے از راہ مذاق ان کے پہلو میں ایک لکڑی سے ٹھوکا دیا انہوں نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ مجھے اس ٹھوکا دینے کا بدلہ دیجیے آپ نے فرمایا کہ لو مجھ سے بدلہ لو۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے جسم پر کپڑا ہے اور میرے جسم پر کپڑا نہیں تھا۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر اپنا کرتہ اٹھا دیا اسید آپ کے پہلو سے لپٹ گئے اور پہلو پر بوسہ دینا شروع کردیا اور کہنے لگے یا رسول اللہ میں صرف یہی چاہتا تھا یعنی بدن مبارک پر بوسہ دینا۔ (ابوداؤد) تشریح لفظ رجل مصابیح میں جس طرح مذکورہ ہے یعنی لام کے زیر کے ساتھ وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ جس شخص کے مزاج میں خوش طبع و ظرافت تھی اور جس نے آنحضرت ﷺ سے بدلہ کا مطالبہ کیا وہ خود اسید ہیں جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہوا لیکن جامع الاصول میں یہ لفظ رجل نہیں بلکہ رجلا منقول ہے چناچہ روایت کے الفاظ یوں ہیں عن اسید بن حضیر قال ان رجلامن الانصار کان فیہ مزاح فبینما ہو یحدث القوم یضحکم اذ طعنہ النبی۔ (یعنی حضرت اسید سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک شخص تھے جن کے مزاج میں خوش طبعی وظرافت تھی چناچہ ایک موقع پر جب لوگوں سے باتیں کر رہے اور ان کو ہنسا رہے تھے تو آنحضرت ﷺ نے ان کے پہلو میں لکڑی سے ٹھوکا دیا، اس سے یہ واضح ہوا کہ خوش طبعی و ظرافت سے ہنسانے والے اور آنحضرت ﷺ سے بدلہ لینے کا مطالبہ کرنے والے کوئی دوسرے صاحب تھے، خود حضرت اسید نہیں تھے حضرت اسید تو ان کے واقع کو نقل کرنے والے ہیں۔ چنانچہ طیبی نے جامع الاصول ہی کی روایت کے پیش نظر متن حدیث کی روایت میں توجہیہ و تاویل کر کے اس بات کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ صاحب واقعہ خود اسید نہیں ہیں بلکہ وہ محص اس واقعہ کے روای ہیں اور نہوں نے کوشش اس بنا پر کی ہے کہ حضرت اسید ایک جلیل القدر صحابی تھے ان کا تعلق اونچے درجہ کے صحابہ کے زمرہ سے تھا لہذا ان کی جلالت شان سے یہ مستبعد معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کا تعلق خود ان کی ذات سے ہو۔ واللہ اعلم۔ آنحضرت نے ان کے پہلو میں ایک لکڑی سے ٹھوکا دیا ان الفاظ کا محمول یہ ہے کہ وہ صاحب (خواہ اسید ہوں یا کوئی دوسرے صحابی) مزاح و ظرافت کی پھلجریاں چھوڑ رہے تھے اور اپنی باتوں سے لوگوں کو ہنسا رہے تھے اس لئے آنحضرت ﷺ نے بھی اس موقع پر خوش طبعی فرمائی اور بطور مزاح ان کے پہلو میں لکڑی سے ٹھوکا دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خوش طبعی و ظرافت کی باتیں کرنا اور ان باتوں کو سننا مباح ہے بشرطیکہ ان کی وجہ سے کسی غیر شرعی اور ممنوع بات کا صدور نہ ہو۔

【64】

معانقہ اور بوسہ کا ذکر

اور حضرت شعبی تابعی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) سے ملے تو ان کو گلے لگایا اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور اس روایت کو ابوداؤد اور شعب الایمان میں بہیقی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے جب کہ مصابیح کے بعض نسخوں اور شرح السنۃ میں یہ روایت بیاضی سے بطریق اتصال نقل کی گئی ہے۔ تشریح یہ حضرت جعفر (رض) کے حبشہ سے واپس آنے کے اسی واقعہ سے متعلق ہے جس کا ذکر آگے کی حدیث میں بھی آ رہا ہے۔ بیاضی بیاضہ ابن عامر کی طرف منسوب ہے اور جامع الاصول میں لکھا ہے کہ جہاں مطلق بیاضی بغیر نام کے منقول ہوتا ہے وہاں حضرت عبداللہ بن جابر انصاری (رض) صحابی مراد ہوتے ہیں۔

【65】

معانقہ اور بوسہ کا ذکر

اور حضرت جعفر ابن ابی طالب (رض) سر زمین حبشہ سے واپسی کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حبشہ سے روانہ ہوئے اور مدینہ پہنچ کر رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے ملاقات کی آپ نے مجھ کو گلے لگایا اور فرمایا میں نہیں کہہ سکتا کہ میں خیبر کے فتح ہوجانے کی وجہ سے زیادہ خوش ہوں، یا جعفر کے واپس آنے کی وجہ سے اور تفاق سے حضرت جعفر (رض) اسی دن آئے تھے جس دن خیبر فتح ہوا تھا۔ (شرح السنۃ) تشریح حضرت امام شافعی کے شیخ و استاد حضرت سفیان بن عیینہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایک دن حضرت امام مالک کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت امام مالک نے ان سے مصافحہ کیا اور فرمایا کہ اگر معانقہ بدعت نہ ہوتا تو میں آپ سے معانقہ بھی کرتا حضرت سفیان (رض) نے کہا کہ معانقہ تو ان لوگوں نے کیا جو مجھ سے اور آپ سے کہیں بہتر تھے، حبشہ سے حضرت جعفر (رض) کی واپسی کے وقت آنحضرت ﷺ ان سے گلے ملے ہیں اور ان کو بوسہ دیا ہے حضرت امام مالک نے فرمایا کہ صحیح ہے لیکن وہ حضرت جعفر (رض) کے ساتھ مخصوص تھا، حضرت سفیان (رض) نے جواب دیا کہ جی نہیں وہ معانقہ حضرت جعفر (رض) کے ساتھ مخصوص نہیں تھا بلکہ ایک عام مسئلہ کے طور پر تھا اور اگر ہمارا تعلق صلحاء کے زمرہ سے ہو تو ہم اور جعفر اس مسئلہ میں ایک جیسی حثییت رکھتے ہیں نیز اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کی مجلس میں یہ حدیث بیان کروں۔ حضرت امام مالک نے فرمایا کہ ہاں اجازت دیتا ہوں چناچہ حضرت سفیان (رض) نے حدیث کو اپنی سند کے ساتھ بیان کیا اور امام مالک نے سکوت اختیار کیا۔

【66】

پاؤں کو بوسہ دینا جائز نہیں۔

اور حضرت زارع (رض) جو عبد القیس کے وفد میں شامل تھے کہتے ہیں کہ جب ہم مدینہ پہنچے تو اپنی سواریوں سے جلدی جلدی اترنے لگے اور بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے چناچہ ہم نے رسول کریم ﷺ کے ہاتھوں اور پاؤں کو بوسہ دیا۔ (ابوداؤد) تشریح اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ پیروں کو چومنا جائز ہے لیکن فقہاء اس کو ممنوع قرار دیتے ہیں چناچہ وہ اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں کہ یا تو یہ آنحضرت ﷺ کے خصائص میں سے تھا کہ صرف آپ کے پاؤں کو بوسہ دینا جائز تھا یا ابتداء یہ جائز تھا مگر پھر ممنوع قرار دیدیا گیا، یا وہ لوگ اس مسئلہ سے ناواقف تھے اور اس ناواقفی کی بناء سے انہوں نے آپ کے پاؤں کے بوسہ دیا اور یا یہ کہ شوق ملاقات میں اضطراری طور پر ان سے یہ فعل صادر ہوگیا تھا۔

【67】

اولاد کو بوسہ دینا اظہار محبت کا ذریعہ ہے۔

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے طور طریقہ، عادات و روش اور نیک خصلتی اور ایک روایت میں ہے کہ بات چیت اور کلام میں رسول کریم ﷺ کی مشابہت فاطمہ (رض) سے زیادہ کسی شخص میں نہیں دیکھی۔ یعنی حضرت فاطمہ (رض) ان امور میں آنحضرت ﷺ سے بہت مشابہ تھیں حضرت عائشہ (رض) حضرت فاطمہ (رض) کے بارے میں یہ بیان کرنے کے بعد اس محبت وتعلق خاطر کو بیان کر رہی ہیں جو حضرت فاطمہ (رض) اور آنحضرت ﷺ کا ایک دوسرے سے تھا اور جس وجہ سے دونوں کے درمیان کمال مشابہت ظاہر ہوتی ہے چناچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ فاطمہ (رض) جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آنحضرت ﷺ کھڑے ہوجاتے ان کی طرف متوجہ ہوجاتے پھر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے، ان کو بوسہ دیتے (یعنی ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی کو چومتے) اور پھر ان کو اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے یعنی جگہ ان کے بیٹھنے کے لئے چھوڑ دیتے اسی طرح آنحضرت ﷺ جب فاطمہ (رض) کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ کو دیکھ کر کھڑی ہوجاتیں آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتیں پھر آپ کو بوسہ دیتیں یعنی آپ کے دست مبارک کو چومتیں، یا کسی اور جگہ بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ (ابوداؤد)

【68】

اولاد کو بوسہ دینا اظہار محبت کا ذریعہ ہے۔

اور حضرت براء (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کسی غزوہ سے حضرت ابوبکر (رض) کے مدینہ آتے ہی ان کے ساتھ ان کے گھر گیا تو دیکھتا ہوں کہ ان کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) لیٹی ہوئی ہیں اور بخار میں مبتلا ہیں چناچہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ان کے پاس آئے اور پوچھا کہ میری بیٹی تمہاری طبعیت کیسی ہے اور انہوں نے (از راہ محبت و شفقت) ان کے رخسار پر بوسہ دیا۔ (ابوداؤد)

【69】

اولاد کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کرتا

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک دن آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک بچہ لایا گیا آپ نے اس کا بوسہ لیا اور فرمایا کہ جان لو یہ اولاد بخل کا باعث اور بزدلی کا سبب ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اولاد اللہ کی عطا کردہ نعمت اور رزق بھی ہے۔ (شرح السنۃ) تشریح اولاد کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے جو کچھ فرمایا اس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اولاد ہی ہے جو انسان سے سب کچھ کراتی ہے ایک باپ اپنے بچوں کے لئے نہ صرف مختلف ذرائع و وسائل اختیار کر کے روپیہ پیسہ کماتا ہے اور مال و و اسباب فراہم کرتا ہے بلکہ بچوں کا مستقبل اس کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ اس نے جو کچھ کمایا ہے اس کو پیسہ پیسہ جوڑ کر رکھے، یہاں تک کہ اولاد کی فکر اس کو بخیل بنا دیتی ہے کہ وہ اپنے روپے پیسے اور مال و اسباب کو نہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے نہ بھلائی و انسانی ہمدردی کے کام میں مدد دیتا ہے اور پھر یہ کہ آل و اولاد کی محبت ہی ہوتی ہے جو انسان کو اس حد تک بزدل و نامرد بنا دیتی ہے کہ وہ اعلاء کلمۃ الحق اور دین وحق کی سر بلندی کے اپنے فرض کو بھی فراموش کردیتا ہے چناچہ جہاد کرنے سے کتراتا ہے اور لڑائی میں جانے سے دل چراتا ہے اس کو یہ خوف، شجاعت و بہادری دکھانے سے باز رکھتا ہے کہ اگر میں میدان جنگ میں مارا گیا یا مجھے پکڑ لیا گیا تو میرے بچے کا کیا حال ہوگا ان کی دیکھ بھال اور پرورش کیسے ہوگی اور میرے بچے باپ کے سایہ سے محروم ہو کر کس کس طرح تکلیف و مشقت برداشت کریں گے۔ پہلے تو آنحضرت ﷺ نے گویا اولاد کے بارے میں اس طرح کی بڑائی بیان کی اور پھر بعد میں اولاد کی ایک خوبی اور اس کی تعریف بھی بیان فرمائی چناچہ آپ نے فرمایا کہ یہ بچے ریحان ہیں ریحان کے معنی روزی اور نعمت کے بھی ہیں اور ریحان ہر اس پودے اور گھاس کو بھی کہتے ہیں جو خوشبودار ہو، دونوں ہی صورتوں میں اولاد کی مدح ظاہر ہوتی ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ بچے ماں باپ کے حق رزق کا درجہ رکھتے ہیں کہ اگر والدین کی گود اولاد سے خالی ہو تو ان کی مامتا اور ان کے جذبات اسی طرح مضطرب و پریشان رہتے ہیں جس طرح کوئی بھوکا روزی نہ ملنے کی صورت میں مظطرب رہتا ہے اسی طرح بچے دراصل اللہ کی طرف سے ماں باپ کو ایک عظیم نعمت کے طور پر عطا ہوتے ہیں، ایسی نعمت جو ان کی زندگی کا سہارا بھی ہوتی ہے اور ان کے گھر کا چراغ بھی۔ اور اگر ریحان سے خوشبودار پودا مراد لیا جائے تو بلاشک و شبہ بچے اپنے ماں باپ اور اہل خاندان کی نظر میں پھول کا درجہ رکھتے ہیں کہ جس طرح کوئی شخص خوشبودار پھول کو دیکھ کر سرور حاصل کرتا ہے اور سونگھ کر مشام جان کو معطر کرتا ہے اسی طرح بچوں کو دیکھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے ان کو پیار کر کے، ان کو چوم کر اور ان کے ساتھ خوش طبعی کر کے سرور حاصل کیا جاتا ہے۔

【70】

انسان اور اس کی اولاد

حضرت یعلی (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن حسن اور حسین کہیں سے دوڑتے ہوئے رسول اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے ان دونوں کو گلے لگا لیا اور فرمایا کہ بچے بخل کا سبب ہیں اور بزدلی کا باعث ہیں۔ (احمد ) تشریح علماء نے لکھا ہے کہ یہاں مذکورہ الفاظ سے بچوں کے تئیں شفقت و محبت اور تعریف کا اظہار مقصود ہے جب کہ پچھلی حدیث میں ان الفاظ کے ذریعہ بچوں کی برائی اور کراہت کو ظاہر کیا گیا ہے۔

【71】

ہدیہ ومصافحہ کی فضیلت

اور حضرت عطاء خراسانی سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرو کہ اس سے بغض و کینہ جاتا رہے گا اور آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ و تحفہ بھیجتے رہا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے اور دشمنی جاتی رہتی ہے امام مالک نے اس روایت کو بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

【72】

ہدیہ ومصافحہ کی فضیلت

اور حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے دوپہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھی اس نے گویا ان چار رکعتوں کو شب قدر میں پڑھا اور دو مسلمان جب آپس میں مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے درمیان کوئی گناہ باقی نہیں رہتا بلکہ جھڑ جاتا ہے اس روایت کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ تشریح بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ گناہوں سے مراد عام گناہ ہیں لیکن طیبی نے کہا ہے کہ گناہ سے مراد بغض و کینہ اور دشمنی ہے جیسا کہ اس سے پہلے حدیث میں بیان کیا گیا۔

【73】

کھڑے ہونے کا بیان

کھڑے ہونے سے مراد کسی کے لئے تعظیما کھڑے ہونا، بعض علماء نے لکھا ہے کہ مجلس میں یا اپنے پاس آنے والے شخص کی تعظیم و توقیر کے لئے کھڑے ہوجانامسنون ہے۔ ان حضرات نے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی سے استدلال کیا ہے کہ قوموا الی سیدکم جیسا کہ آگے حدیث میں آرہا ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مکروہ و بدعت ہے اور اس کی ممانعت ثابت ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس طرح عجمی کھڑے ہوجاتے ہیں اس طرح تم نہ اٹھو اور فرمایا کہ یہ عجمیوں کا دستور ہے۔

【74】

اہل فضل کی تعظیم کے لئے کھڑے ہونا جائز ہے۔

حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ جب بنو قریظہ حضرت سعد (رض) کے حکم و ثالث بنانے پر اتر آئے تو رسول اکرم ﷺ نے کسی شخص کو حضرت سعد (رض) کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان کو بلائے اور وہ آ کر بنو قریظہ کا مطالبہ طے کریں) اس وقت حضرت ابوسعد (رض) آنحضرت ﷺ کی کے قریب ہی فروکش تھے چناچہ وہ خر پر بیٹھ کر آئے اور جب مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اکرم ﷺ نے ان کو دیکھ کر یہ فرمایا اے انصار تم اپنے سردار کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔ (بخاری ومسلم) اور یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ قیدیوں کے باب میں گزر چکی ہے۔ تشریح بنو قریظہ مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلہ کا نام ہے، سن ٥ ھ میں غزوہ خندق کے دوران ان یہودیوں نے جو منافقانہ کردار کیا اور باوجودیکہ سابقہ معاہدہ کے تحت مدینہ کے اس دفاعی مورچہ پر ان یہودیوں کو بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ کفار عرب کی جارحیت کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن انہوں نے اپنی روایتی بدعہدی اور شرارت کا مظاہرہ کیا اور مختلف قسم کی سازشوں کے ذریعہ اس دفاعی مورچہ کو توڑنے کے لئے کفار عرب کے آلہ کار بن گئے ان کی اس بدعہدی اور سازشی کاروائیوں کی بناء پر آنحضرت ﷺ نے غزوہ خندق کی فتح سے فارغ ہوتے ہی ان بنو قریظہ کے ساتھ اعلان جنگ کردیا اور ان سب یہودیوں کو ان کے قلعہ میں محصور ہونے پر مجبور کردیا مسلمانوں کی طرف سے بنو قریظہ کے قلعہ کا محاصرہ ٢٥ دن تک جاری رہا آخر کار انہوں نے یہ تجویز رکھی کہ ہمارا معاملہ حضرت سعد بن معاذ (رض) کے سپرد کردیا جائے جو قبیلہ اوس کے سردار تھے اور قبیلہ اوس بنو قریظہ کا حلیف ان یہودیوں نے کہا کہ حضرت سعد بن معاذ (رض) کو پنچ اور حکم تسلیم کرتے ہیں وہ ہمارے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گے ہم اس کو بےچون چرا مان لیں گے یہودیوں کا خیال تھا کہ حضرت سعد (رض) چونکہ ہمارے حلیف قبیلے سردار ہیں اور ان کے اور ہمارے تعلقات کی ایک خاص نوعیت ہے اس لئے حضرت سعد (رض) یقینا ہمارے حق میں فیصلہ دیں چناچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت سعد (رض) کو بلا بھیجا کہ وہ آ کر اس معاملہ میں اپنا فیصلہ دیں، حضرت سعد (رض) اگرچہ اس آنحضرت ﷺ کی قیام گاہ کے قریب ہی فروکش تھے لیکن چونکہ غزوہ خندق میں وہ بہت سخت مجروح ہوگئے تھے اور خاص طور پر رگ ہفت اندام پر ایک زخم پہنچا تھا جس سے خون برابر جاری تھا اس لئے خچر پر بیٹھ کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اس وقت تک ان کے زخم سے خون جاری تھا لیکن یہ آنحضرت ﷺ کا اعجاز تھا کہ جب آپ نے ان کو بلوا بھیجا تو خون رک گیا بہر حال حضرت معاذ (رض) آئے اور انہوں نے پورے معاملہ کے مختلف پہلوؤں پر غور کر کے اور ان کے جرم بد عہدی و غداری کی بنا پر انہی کی شریعت کے مطابق جو فیصلہ دیا اس کا اصل یہ تھا کہ ان کے لڑ سکنے والے مرد قتل کردیئے جائیں، عورتیں اور بچے غلام بنا لئے جائیں اور ان کے مال و اسباب کو تقسیم کردیا جائے اس فیصلہ پر کسی حد تک عمل بھی ہوا۔ یہاں حدیث میں اسی وقت کے واقعہ کا ذکر ہے کہ جب حضرت سعد (رض) آئے تو آنحضرت ﷺ نے انصار سے کہا کہ دیکھو تمہارے سردار آ رہے ہیں کھڑے ہوجاؤ چناچہ اکثر علماء اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی صاحب فضل و قابل تکریم شخص آئے تو اس کے اعزازو احترام کے لئے کھڑے ہوجانا چاہیے، اس کے برخلاف بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ قوموا الی سیدکم سے آنحضرت ﷺ کی یہ مراد نہیں تھی سعد (رض) کی تعظیم و تکریم کے لئے کھڑے ہوجاؤ جیسا کہ کسی بڑے آدمی کے آجانے پر کھڑے ہونے کا رواج ہے اور جس کی ممانعت ثابت ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ چیز عجمیوں کے رائج کردہ تکلفات میں سے ہے نیز یہ عمل آنحضرت ﷺ کے نزدیک آخر زمانہ حیات تک ناپسندیدہ رہا، یحییٰ کہتے ہیں کہ اگر اس ارشاد سے آنحضرت ﷺ کی مراد تعظیم و تکریم کے لئے کھڑے ہوجانے کا حکم دینا ہوتا تو آپ اس موقع پر قوموا الی سیدکم، نہ فرماتے بلکہ یہ فرماتے کہ قوموا السیدکم، لہذا ان کے علماء کے مطابق اس حکم سے آنحضرت ﷺ کی مراد یہ تھی کہ دیکھو تمہارے سردار سعد آ رہے ہیں ان کی حالت اچھی نہیں ہے جلدی سے اٹھ کر ان کے پاس جاؤ سواری سے اترنے میں ان کی مدد کرو تاکہ اترتے وقت ان کو تکلیف نہ ہو اور زیادہ حرکت کی بناء پر زخم سے خون نہ بہنے لگے۔ ان علماء کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو روایت ہے کہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل جب بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو آپ ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے تھے، یا حضرت عدی ابن حاتم کی جو یہ روایت نقل کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا میں جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ میرے لئے یا تو کھڑے ہوجاتے یا اپنی جگہ سے ہل جایا کرتے تھے تو ان روایتوں سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ محدثین نے ان روایتوں کو ضعیف قرار دیا ہے۔ جو حضرات اہل فضل و کمال کے آنے پر کھڑے ہونے کو جائز قرار دیتے ہیں ان کا یہ کہنا کہ اگر حضرت عکرمہ اور حضرت عدی کے بارے میں مذکورہ بالا روایتیں ضعیف ہیں اور ان سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے تو پھر اس روایت کے بارے میں کیا کہا جائے گا جو حضرت فاطمہ (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ جب آنحضرت ﷺ حضرت فاطمہ (رض) کے پاس تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ (رض) آپ کے لئے کھڑی ہوجاتی تھیں اور جب حضرت فاطمہ (رض) آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کے لئے کھڑے ہوجاتے اگر اس روایت کی یہ تاویل کی جائے کہ ان کا کھڑا ہونا اظہار محبت و اتقبال کے طور پر ہوتا نہ کہ تعظیم و اجلال کے طور پر تو یہ تاویل بعید از حقیقت سمجھے جانے سے خالی نہیں ہوگی علاوہ ازیں خود طیبی نے محیی السنۃ سے نقل کیا ہے کہ جمہور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر اہل فضل و کمال جیسے علماء و صلحاء اور بزرگان دین کا اعزازو اکرام کرنا جائز ہے علاوہ ازیں محی السنۃ نووی نے یہ لکھا ہے کہ یہ کھڑا ہونا اہل فضل کے آنے کے وقت مستحب ہے اور نہ صرف یہ کہ اس سلسلے میں احادیث بھی منقول ہیں بلکہ اس کی صریح ممانعت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ مطالب المومنین میں قنیہ کے حوالہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ آنے والے کی تعظیم کے طور پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا قیام یعنی کھڑے ہوجانا مکروہ نہیں ہے اور یہ کہ قیام بنفسہ مکروہ نہیں ہے بلکہ قیام کی طلب و پسندیدگی مکروہ ہے چناچہ وہ قیام ہرگز مکروہ نہیں ہوگا جو کسی ایسے شخص کے لئے کیا جائے جو نہ تو اپنے لئے قیام کی طلب رکھتا ہو اور نہ اس کو پسند کرتا ہو۔ قاضی عیاض مالکی نے یہ لکھا ہے کہ کھڑے ہونے کی ممانعت کا تعلق اس شخص کے حق میں ہے جو بیٹھا ہوا ہو اور بیٹھے رہنے تک لوگ اس کے سامنے کھڑے رہیں جیسا کہ ایک حدیث میں منقول ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص نظر آئے جو علم و فضل اور بزرگی کا حامل ہو تو اس کی تعظیم و توقیر کے طور پر کھڑے ہوجانا جائز ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ ایسے شخص کے آنے پر کھڑے ہونا جو نہ صرف یہ کہ اس اعزاز کا مستحق نہ ہو بلکہ اپنے آنے پر لوگوں کے کھڑے ہوجانے کی طلب و خواہش رکھتا ہو، مکروہ ہے اور اسی طرح بیجاخوشامد و چاپلوسی کے طور پر کھڑے ہونا بھی مکروہ ہے، نیز دنیاداروں کے لئے کھڑے ہونا اور ان کی تعظیم کرنا بھی نہایت مکروہ ہے اور اس بارے میں سخت وعید منقول ہے۔

【75】

کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر وہاں بیٹھنا سخت برا ہے۔

اور حضرت ابن عمر (رض) آنحضرت ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ایسا نہ ہونا چاہیے کہ جو آدمی جس جگہ بیٹھ گیا ہو کوئی شخص اس کو وہاں سے اٹھا کر خود اس جگہ بیٹھ جائے، البتہ بیٹھنے کی جگہ کو کشادہ رکھو اور آنے والے کو جگہ دو تاکہ اٹھانے کی حاجت نہ پڑے۔ (بخاری، مسلم) تشریح بعض حضرات نے یہ کہا کہ ولکن کے بعد لیقل کا لفظ مقدر ہے یعنی مفہوم کے اعتبار سے اصل عبارت یوں ہے کہ ولکن لیقل تفسحوا وتوسعوا، اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ کوئی شخص کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر وہاں نہ بیٹھے) بلکہ اس سے یہ کہنا چاہیے کہ کشادگی کے ساتھ بیٹھو اور آنے والے کو جگہ دو ۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ ممانعت نہی تحریمی کے طور پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ پہلے پہنچ کر بیٹھ جائے جو کسی کے لئے مخصوص نہیں ہے مثلا جمعہ وغیرہ کے دن مسجد وغیرہ میں پہلے پہنچ جائے اور آگے کی صف میں بیٹھ جائے یا اس کے علاوہ کسی اور مجلس میں پہلے پہنچ کر کسی عام جگہ پر بیٹھ جائے تو اس جگہ بیٹھنے کا سب سے بڑا حق دار وہی ہوگا دوسرے کسی شخص کے لئے یہ حرام ہوگا کہ وہ اس شخص کو اس جگہ سے اٹھا کر وہاں خود بیٹھ جائے۔

【76】

اپنی جگہ سے کچھ دیر کے لئے اٹھ کر جانے والا اس جگہ پر اپنا حق برقرار رکھتا ہے۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر جائے اور پھر وہاں واپس آئے تو اس جگہ کا زیادہ حق دار وہی ہوگا۔ (مسلم) تشریح علماء نے لکھا ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ وہ شخص اپنی جگہ سے اس ارادہ نیت کے ساتھ اٹھ کر گیا ہو کہ پھر جلدی اس جگہ واپس آئے گا مثلا وہ وضو کے لئے اٹھ کر گیا ہو یا اس کو کوئی ایسی ضرورت پیش آگئی ہو جس کی بنا پر اس کو تھوڑی دیر کے لئے وہاں سے اٹھ کر جانا ضروری ہوگیا ہو وہ وضو کر کے یا اس کام کو پورا کر کے جلد ہی واپس آگیا ہو تو اس جگہ کا زیادہ مستحق وہی شخص ہوگا چناچہ اس صورت میں اگر کوئی دوسرا شخص آ کر اس جگہ بیٹھ گیا تو اس کو اٹھانا درست ہوگا کیو کہ وہ پہلا شخص اس جگہ بیٹھنے کے اپنے حق سے محروم نہیں ہوا ہے بایں طور کہ عارضی طور پر کسی ضرورت سے اٹھ کر جانے اور پھر جلدی ہی اپنی جگہ پر واپس آجانے کی وجہ سے اس جگہ پر اس کا حق قرار رہے گا اس کی تائید آگے آنے والی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں بیان کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی جگہ تشریف رکھتے اور پھر وہاں سے اٹھ کر کہیں جانے کی ضرورت پیش آتی اور واپس آنے کا ارادہ ہوتا تو آپ اپنی جگہ پر اپنی جوتیاں چھوڑ جاتے۔ تاہم یہ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی جگہ چھوڑ کر مجلس سے اٹھا اور کسی ضرورت سے کہیں دور دراز یا طویل وقفہ کے لئے چلا گیا اور پھر واپس آیا تو اس صورت میں وہ اپنی سابقہ جگہ کا مستحق نہیں رہے گا اگرچہ اس جگہ پر وہ اپنی کوئی چیز ہی چھوڑ کر کیوں نہ گیا ہو۔

【77】

آنحضرت ﷺ اپنے لئے کھڑے ہونے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ صحابہ (رض) کے نزدیک رسول کریم ﷺ سے زیادہ محبوب و عزیز کوئی اور شخص نہیں تھا لیکن اس محبت وتعلق کے باوجود صحابہ کرام (رض) جب آنحضرت ﷺ کو دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ اس کھڑے ہونے کو پسند نہیں فرماتے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔ تشریح آنحضرت ﷺ اپنی انکساری کے اظہار اور اہل تکبر کے طور طریقوں کی مخالفت کی بنا پر اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ جب آپ مجلس میں تشریف لائیں تو صحابہ کرام (رض) آپ کو دیکھ کر تعظیما کھڑے ہوجائیں بلکہ آپ کھڑے ہونے، بیٹھنے، کھانے پینے اور چلنے پھرنے اور دیگر افعال و اخلاق میں ترک۔۔۔۔ پر قائم و عامل تھے جو اہل عرب کی عادت تھی اس لئے آپ نے فرمایا میں اور میری امت کے متقی لوگ، تکلف سے بیزار ہیں اور طیبی کہتے ہیں کہ اس چیز کو ناپسند کرنا کمال محبت، صفائی باطن اور اتحاد قلوب کی بنا پر تھا کہ قلبی اتحاد اور تعلق کا کمال اس طرح کے۔۔۔۔۔ کا متقاضی نہیں ہوتا۔ حاصل یہ ہے کہ تعظیما کھڑے ہونا اور کھڑے نہ ہونا دونوں کا تعلق وقت و حالات اور اشخاص و تعلقات کے تفاوت پر مبنی ہوتا ہے کہ بعض وقت اور بعض حالات میں آنے والے کے لئے احترما کھڑے ہوجانا مناسب ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں کھڑے نہ ہونا ہی مناسب ہوتا ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کہ یہ معلوم ہو کہ آنے والا کھڑے ہونے کو پسند نہیں کرتا یا آپ کے تعلقات۔۔۔۔ کے محتاج نہیں ہیں، نیز کسی ایسے شخص کے لئے کھڑے ہونا جائز نہیں ہے جو کسی بھی طرح کی دینی فضیلت نہیں رکھتا بلکہ کوئی دنیاوی حیثیت رکھتا ہے۔

【78】

لوگوں کو اپنے سامنے کھڑا رکھنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے سامنے سیدھے کھڑے رہیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بیٹھنے کی جگہ دوزخ میں تیار کرے۔ (ابوداؤد، ترمذی) تشریح تیار کرے یہ امر خبر کے معنی میں ہے یعنی اس اسلوب بیان کے ذریعہ آپ نے گویا یہ خبر دی ہے کہ جو شخص اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ لوگ اس کے سامنے با ادب کھڑے رہیں تو اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس نے اپنے آپ کو دوزخ میں داخل ہونے کا مستوجب بنا لیا ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو بطریق تکبر اور اپنی تعظیم کرانے کے لئے اپنے سامنے لوگوں کے کھڑے رہنے کو پسند کرتا ہوں ہاں اگر کوئی شخص اس طرح کی طلب و خواہش نہ رکھتا ہو بلکہ لوگ خود اپنی خوشی سے اس کی خدمت میں طلب ثواب کی خاطر یا بطور تواضع و انکساری اس کے سامنے کھڑے رہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حاصل یہ ہے کہ مکروہ و ممنوع یہ چیز ہے کہ اپنی تعظیم و و احترام کرانے کے اور اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے اپنے سامنے لوگوں کو کھڑے رہنے کو پسند کیا جائے اور گریہ صورت نہ ہو تو پھر مکروہ و ممنوع نہ ہوگا۔ بہیقی نے شعب الایمان میں خطابی سے یہ نقل کیا ہے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس وعید کا تعلق اس شخص کی ذات سے ہے جو بطریق تکبر و نخوت لوگوں کو یہ حکم دے کہ وہ اس کے سامنے کھڑے رہیں یا وہ لوگوں کے لئے ضروری قرار دیدے کہ وہ جب بھی اس کے سامنے آئیں کھڑے رہیں، نیز کہا کہ حضرت سعد (رض) کے بارے میں جو حدیث گزری ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ سردار و امیر، فاضل والی اور عادل و منصف کے سامنے کسی شخص کا باادب کھڑے رہنا جیسا کہ کوئی شاگرد اپنے استاد کے سامنے کھڑا رہتا ہے مستحب ہے نہ کہ مکروہ اور بہیقی نے اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ لوگوں کے کھڑے رہنا دراصل بھلائی حاصل کرنے اور تکریم و توقیر کے طور پر کھڑے ہوجانے کے مرادف ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے حکم پر انصار حضرت سعد (رض) کے لئے کھڑے ہوئے تھے یا حضرت طلحہ حضرت کعب بن مالک (رض) کے سامنے کھڑے ہوگئے تھے تاہم یہ ملحوظ رہے کہ جو شخص اس طرح کی حثییت و فضیلت رکھتا اس کے سامنے احتراما کھڑے ہوجانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس کے لئے بھی قطعا مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے سامنے لوگوں کے کھڑے ہوجانے کی طلب رکھے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کھڑا نہ ہو تو وہ اس سے کینہ رکھے، یا اس کا شکوہ کرے اور یا اس سے ناراض ہوجائے۔

【79】

احتراما کھڑے ہونے کی ممانعت

اور حضرت امامہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم ﷺ عصاء مبارک پر سہارا دیئے ہوئے باہر تشریف لائے تو ہم آپ کے احترام میں کھڑے ہوگئے آپ نے فرمایا تم لوگ اس طرح کھڑے نہ ہو جس طرح عجمی لوگ کھڑے ہوتے ہیں کہ ان میں بعض بعض کی تعظیم کرتے ہیں۔ (ابوداؤد) تشریح آنحضرت کی یہ مراد تھی کہ یہ عجمی لوگوں کا دستور ہے کہ جب ان کا کوئی سردار یا بڑا آدمی ان کی مجلس میں آتا ہے تو محص اس کو دیکھتے ہی بڑا بڑا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر اس کے سامنے باادب دست بستہ کھڑے رہتے ہیں، چناچہ آپ نے اس ارشاد یعظم بعضھا بعضا کے ذریعہ اسی طرف اشارہ فرمایا کہ ان کے چھوٹے و کم تر لوگ اپنے بڑے اور اونچی حثییت کے لوگوں کو محض دیکھ کر اس طرح کھڑے ہوجاتے ہیں کہ اگر وہ کھڑے نہ ہوئے تو وہ بڑے لوگ ان سے ناراض ہوجائیں گے اور پھر تعظیما ان کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اس توجیہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہاں حدیث میں اصل قیام کا ممنوع ہون اثابت نہیں ہوتا جس کا جواز دیگر احادیث سے ثابت ہے بلکہ وہ قیام ممنوع ہے جو شان و شکوہ کے اظہار اور تکبر و نخوت کے طور پر ہو، زیادہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تواضع و انکساری کی بنا پر صحابہ کو کھڑے ہونے سے منع فرمایا جیسا کہ پہلے ایک حدیث میں گزر چکا ہے۔

【80】

دوسرے کی جگہ پر بیٹھنے کی ممانعت

اور حضرت سعید ابن ابوالحسن، جو ایک جلیل القدر اور ثقہ تابعی ہیں اور حضرت حسن بصری کے بھائی ہیں کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوبکر (رض) ہمارے پاس ایک ایسے مقدمہ میں گواہی دینے کے لئے تشریف لائے جس میں وہ گواہ تھے ایک شخص اس کے احترام میں اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑا ہوگیا تاکہ وہ اس جگہ بیٹھ جائیں لیکن انہوں نے اس جگہ پر بیٹھنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے یعنی آپ نے اس جگہ پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے جہاں کوئی شخص پہلے سے بیٹھا ہوا ہو اور عارضی طور پر اس جگہ سے اٹھ گیا ہو، نیز رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے بھی منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی کسی ایسے شخص کے کپڑے سے اپنے ہاتھ پونچھے جس کو اس نے کپڑا نہیں پہنایا۔ (ابوداود) تشریح حدیث میں مذکور دوسری ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کھانے وغیرہ میں ہاتھ بھر گئے ہوں تو ان ہاتھوں کو کسی اجنبی کے کپڑے سے نہ پونچھے بلکہ ایسے کپڑے سے ہاتھ پونچھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جس کو اس نے کپڑے پہنائے اور دیئے ہوں جیسے اپنی اولاد، یا غلام، یا خادم، وغیرہ اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس اجنبی کے کپڑے سے پونچھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں جو اس بات پر راضی ہو۔ اس پر حدیث کے پہلے جزو کے مسئلہ کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اگر یہ معلوم ہو کہ کوئی شخص اس کے لئے اپنی جگہ سے بخوشی اٹھا ہے تو اس کی جگہ بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں جیسا کہ اس آیت ( تَفَسَّحُوْا فِي الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا يَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْ ) 58 ۔ المجادلہ 11) سے مفہوم ہوتا ہے اور جیسا کہ اس پر حدیث بھی دلالت کرتی ہے۔ نیز اس طرح اور بہت سے منقولات ہیں جن سے یہ وضاحت مفہوم ہوتی ہے رہی یہ بات کہ جب وہ شخص حضرت ابوبکر (رض) کے لئے اپنی مرضی سے جگہ چھوڑ کر اٹھا تھا تو حضرت ابوبکر (رض) نے بیٹھنے سے کیوں انکار کیا ؟ تو ان کے انکار کا سبب یہ تھا کہ ان کو اس شخص کی رضا مندی کے بارے میں شک ہوا ہوگا اور انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ شخص از خود بطیب خاطر اپنی جگہ سے نہیں اٹھا ہے بلکہ کسی اور شخص کے کہنے سے اٹھا ہے یا شرم حضوری میں اٹھا ہے اور یا یہ کہ اس شخص کی رضا مندی جاننے کے باوجود حضرت ابوبکر (رض) نے احتیاط وتقوی اسی میں دیکھا ہوگا کہ وہ اس کی جگہ پر نہ بیٹھیں یا انہوں نے ممانعت کی حدیث کو اطلاق پر محمول کیا ہوگا اور رضا مندی کو بھی عدم ممانعت کا سبب نہیں سمجھتے ہوں گے۔

【81】

اپنی جگہ سے اٹھ کر جانے لگو تو وہاں کوئی چیز رکھ دو

اور حضرت ابودرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جب تشریف رکھتے اور ہم آپ کے گرد بیٹھتے اور پھر آپ واپس آنے کے ارادہ سے گھر میں جانے کے لئے اٹھتے تو اپنی جگہ پر جوتیاں اتار کر رکھ جاتے اور ننگے پیر چلتے جاتے یا اپنے بدن پر کوئی چیز جیسے چادر وغیرہ اس جگہ چھوڑ جاتے اس سے آپ کے صحابہ جان لیتے کہ آپ مجلس میں پھر آئیں گے، چناچہ وہ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہتے۔ تشریح آپ کے گرد سے مراد آپ کے دائیں طرف بائیں طرف اور سامنے بیٹھنا ہے یعنی کچھ صحابہ آپ کے داہنے ہاتھ کی طرف بیٹھتے کچھ بائیں ہاتھ کی طرف اور کچھ سامنے کی طرف، یہ معنی اس لئے بیان کئے گئے ہیں کہ اگر گرد سے مراد چاروں اطراف لی جائیں تو یہ صحیح نہیں ہوگا کیونکہ حلقہ کے درمیان بیٹھنے کی ممانعت منقول ہے۔

【82】

دو آدمیوں کے درمیان گھس کر بیٹھنے کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کسی شخص کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ دو بیٹھے ہوئے آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر جدائی ڈالے۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر دو آدمی ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ہوں تو کسی تیسرے شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ ان دونوں کے درمیان گھس کر بیٹھ جائے کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ وہ دونوں آدمی آپس میں محبت وتعلق رکھتے ہوں اور راز دارانہ طور پر ایک دوسرے سے کوئی بات چیت کرنا چاہتے ہوں اگر کوئی تیسرا آدمی ان کے درمیان حائل ہوجائے گا تو اس کا وہاں بیٹھنا ان پر شاق گزرے گا، علماء نے یہ وضاحت کی ہے کہ اگر یہ معلوم ہو کہ یہ دونوں بیٹھے ہوئے آدمی آپس میں محبت وتعلق رکھتے ہیں تو ان کے درمیان نہ بیٹھے اور اگر یہ معلوم ہو کہ ان دونوں کے درمیان اتحاد و محبت کا علاقہ نہیں ہے تو اس صورت میں ان کے درمیان بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اگر ان دونوں کے درمیان تعلق مبہم ہو یعنی یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو کہ ان کے درمیان محبت کا علاقہ ہے کہ نہیں یا سرے سے یہ معلوم ہی نہ ہو تو اس صورت میں احتیاط کا پہلو یہ ہوگا کہ ان کے درمیان نہ بیٹھے۔

【83】

دو آدمیوں کے درمیان گھس کر بیٹھنے کی ممانعت

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پہلے سے بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کے درمیان نہ بیٹھو الاّ یہ کہ ان کی اجازت حاصل ہو۔ (ابوداؤد)

【84】

آنحضرت ﷺ جب مجلس سے اٹھتے تو صحابہ کرام کھڑے ہوجاتے تھے۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ مسجد میں ہمارے ساتھ بیٹھتے اور باتیں کیا کرتے پھر جب مجلس سے آپ اٹھتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے تھے اور دیر تک کھڑے رہتے یہاں تک کہ ہم دیکھتے کہ آپ اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی ایک کے گھر میں تشریف لے گئے۔ تشریح آنحضرت ﷺ جب مجلس سے اٹھتے تو اس وقت صحابہ کا کھڑا ہونا احترام کھڑے ہوجانا کے طور پر نہیں تھا بلکہ مجلس کے برخاست ہوجانے کی وجہ سے ہوتا تھا اور ظاہر بھی ہے کہ جب صحابہ (رض) آپ کی تشریف آوری کے وقت نہیں کھڑے ہوتے تھے تو جانے کے وقت کیوں کھڑے ہوتے تھے رہی یہ بات کہ اس وقت صحابہ دیر تک کیوں کھڑے رہتے تھے تو اس کی وجہ شاید یہ ہوگی کہ آنحضرت ﷺ جب مجلس سے اٹھ کر جانے لگتے تو صحابہ کرام اس انتظار میں رک جاتے کہ شاید آپ کسی کام کے لئے فرمائیں گے یا یہ امید ہوتی تھی کہ آپ دوبارہ تشریف لائیں گے اور مجلس برقرار رہے گی لیکن جب یہ امید ختم ہوجاتی تو صحابہ (رض) اپنی اپنی راہ پکڑتے۔

【85】

مجلس میں آنے والے شخص کے لئے جگہ نکالنا تہذیب کا تقاضہ ہے۔

اور حضرت واثلہ بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا جب کہ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے رسول اکرم ﷺ نے اس شخص کو جگہ دینے کے لئے اپنی جگہ سے حرکت کی اور ایک طرف کھسک گئے اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ مکان میں جگہ بیٹھنے کی کافی کشادہ ہے میں کہیں بھی بیٹھ جاؤں گا آپ نے میرے لئے اپنی جگہ سے حرکت کرنے اور کھسکنے کی زحمت کیوں گوارا فرمائی آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ مسلمان کا حق ہے کہ جب اس کو اس کا مسلمان بھائی مجلس میں یا اپنے پاس آتا دیکھے تو جگہ کی فراخی و تنگی سے قطع نظر کرتے ہوئے اس کے لئے اپنی جگہ چھوڑ دے اور ایک طرف کو کھسک جائے یعنی آنے والے کے لئے اپنی جگہ سے حرکت کرنا اور کھسک جانا دراصل اس کا اکرام و اعزاز ہے اور ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی پر اس اکرام و اعزاز کا بجا طور پر حق رکھتا ہے ان دونوں روایتوں کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

【86】

گوٹ مار کر بیٹھنا جائز ہے

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کو خانہ کعبہ کے صحن میں اپنے ہاتھوں کے ذریعہ گوٹ مار کر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ تشریح گوٹ مار کر بیٹھنا نشست کا ایک خاص طریقہ ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ دونوں زانوں کھڑے کر لئے جاتے ہیں تلوے زمین پر رہتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے پنڈلیوں پر حلقہ باندھ لیتے ہیں اور کو ل ہے خواہ زمین پر ٹکے رہتے ہیں، خواہ اوپر اٹھے رہتے ہیں، بسا اوقات پنڈلیوں پر ہاتھوں کے ذریعہ حلقہ باندھنے کی بجائے ان پر کوئی کپڑا لپیٹ کر بیٹھنا بھی منقول ہے۔ بہرحال بیٹھنے کا یہ طریقہ اہل عرب میں بہت رائج تھا اور اکثر و بیشتر وہ لوگ اسی طرح بیٹھا کرتے تھے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس طرح بیٹھنا جائز بلکہ مستحب ہے۔

【87】

پیر پر پیر رکھ کر لیٹنے کا مسئلہ

اور حضرت عبادہ بن تمیم تابعی اپنے چچا حضرت عبداللہ بن زید انصاری (رض) صحابی سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا میں نے ایک دن رسول اکرم ﷺ کو مسجد میں اس طرح چت لیٹے ہوئے دیکھا کہ آپ کا ایک قدم دوسرے قدم پر رکھا ہوا تھا۔ (بخاری ومسلم) تشریح قدم کو قدم پر رکھ کر لیٹنے سے ستر نہیں کھلتا جب کہ اس طرح لیٹنا کہ پاؤں پر پاؤں رکھا ہوا ہو بسا اوقات ستر کھل جانے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس مطلب کے ذریعہ اس حدیث اور ان احادیث کے درمیان مطابقت پیدا ہوجاتی ہے جو آگے آرہی ہے اور جن سے واضح ہوتا ہے کہ پاؤں کو پاؤں پر رکھ کر لیٹنا ممنوع ہے اس مسئلہ کی مزید تفصیل آگے بیان ہوگی۔ واضح رہے کہ آنحضرت ﷺ کا اس طرح لیٹنا کبھی کبھی ہوتا تھا اور وہ بھی یا تو بیان جواز کی خاطر یا کچھ دیر آرام کر کے تکان کو دور کرنے کے لئے ورنہ جہاں تک آنحضرت ﷺ کے معمول کا تعلق ہے آپ کسی بھی ایسی جگہ جہاں کچھ لوگ موجود ہوں چار زانو، باوقار اور تواضع و انکسار کے ساتھ بیٹھے رہتے تھے۔

【88】

پیر پر پیر رکھ کر لیٹنے کا مسئلہ

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص ایک پاؤں کھڑا کر کے دوسرا پاؤں اس پر رکھ لے درآنحالیکہ وہ چت ہوا ہو۔ مسلم

【89】

پیر پر پیر رکھ کر لیٹنے کا مسئلہ

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس طرح چت نہ لیٹے کہ ایک پاؤں کھڑا کر کے اس پر دوسرا پاؤں رکھ لے۔ مسلم تشریح حضرت جابر (رض) کی مذکورہ بالا دونوں حدیثیں بظاہر عباد بن تمیم کی روایت کے منافی معلوم ہوتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان میں کوئی منافات و تضاد نہیں ہے کیوں کہ پاؤں پر پاؤں رکھ کر چت لیٹنا دو طرح سے ہوتا ہے کہ ایک تو یہ کہ دونوں ٹانگیں پھیلی ہوئی ہوں اور ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھی ہوئی ہو اس طریقہ سے لیٹنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیوں کہ اس صورت میں ستر کھل جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہذا عباد بن تمیم کی روایت میں جو یہ منقول ہے کہ آپ ایک قدم کو دوسرے قدم پر رکھ کر چت لیٹے ہوئے تھے تو اس سے یہی صورت مراد ہے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ چت لیٹ کر ایک ٹانگ کے گھٹنے کو کھڑا کرلیا جائے اور دوسری ٹانگ کے پیر کو اس کھڑے ہوئے گھٹنے پر رکھ لیا جائے یہ طریقہ ممنوع ہے لیکن یہ ممانعت بھی اس صورت میں ہے کہ جب ستر کھل جانے کا اندیشہ ہو مثلا کسی شخص نے پاجامہ نہ پہن رکھا ہو بلکہ نہ بند باندھ رکھا ہو اور وہ تہہ بند یا کرتے کا دامن اتنا چھوٹا ہو کہ اس طریقہ سے لیٹنے کی وجہ سے ستر کھل سکتا ہو اور اگر ستر کھلنے کا اندیشہ نہ ہو تو پھر اس طریقہ سے لیٹنا بھی جائز ہوگا حاصل یہ نکلا کہ ممانعت اور جواز کا اصل مدار ستر کے کھلنے یا ستر کے نہ کھلنے پر ہے چناچہ علماء نے بھی یہی بیان کیا ہے۔

【90】

تکبر کی چال کا انجام

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ایک شخص دو دھاری دار کپڑوں میں ملبوس اتراہٹ اور اکڑ کے ساتھ چل رہا تھا نیز وہ ان کپڑوں کو اتنا نفیس اور برتر سمجھ رہا تھا کہ اس کے نفس نے اس کو غرور میں مبتلا کردیا تھا اس کا انجام یہ ہوا کہ زمین نے اس شخص کو نگل لیا چناچہ وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ تشریح بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے وہ قارون تھا جب کہ نووی نے یہ لکھا ہے کہ یہ احتمال بھی ہے کہ وہ شخص کسی امت کا کوئی فرد ہوگا یا کسی پچھلی امت میں کوئی شخص ہوگا۔ بہر حال حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ تکبر و گھمنڈ اور اتراہٹ و اکڑ کے ساتھ چلنا برا ہے اور اس کا انجام نہایت برا ہے۔ اعاذنا اللہ من ذالک۔

【91】

سب سے بہتر حال

واضح رہے کہ انسان کی چال اس کے مزاج و احوال اور عادات واطوار کی بڑی حد تک غماز ہوتی ہے اسی طرح اس بات پر خاص زور دیا جاتا ہے کہ انسان کو اپنے چلنے کا انداز ایسا نہ رکھنا چاہیے جس سے اس کی شخصیت میں کسی نقص وبے راہ روی اور اس کے طبعی احوال و کیفیات میں کسی کجی کا اظہار ہو۔ عام طور چال کی دس قسمیں بیان کی جاتی ہیں اور ان میں سے ہر قسم کو عربی میں ایک مستقل لفظ کے ساتھ موسوم کیا گیا جن کا تفصیلی ذکر دوسری کتابوں میں موجود ہے جو قسم سب سے اچھی اور افضل سمجھی گئی ہے اس کو ھون کا نام دیا گیا ہے۔ لغت کے اعتبار سے ھون کے معنی ہیں سکون وقرار چناچہ عربی کا یہ مشہور محاورہ ہے امش علی ھونک یعنی اپنی پرورش پر چلو جس چال کو ہون کہا جاتا ہے وہ ایسی چال ہے جس میں حرکت تو پوری ہو لیکن قدم آہستہ آہستہ قدرے سرعت کے ساتھ اٹھیں نہ تو خشک لکڑی کی مانند اسی مری ہوئی چال جیسے مردہ دل افسر لوگ چلتے ہیں اور نہ تیزی اور بھاگ دوڑ کی چال جو جلد باز اور گھبراہٹ میں مبتلا لوگ چلتے ہیں چال کی یہ دونوں صورتیں بہت ہی بری ہیں اور چلنے والے کی مردہ دلی یا بےعقلی کو ظاہر کرتی ہیں قرآن شریف میں اللہ نے ھون کی تعریف کی ہے اور اس چال کو اپنے خاص بندوں کی صفت قرار دیا ہے۔ ا یت (وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا) ۔ اور رحمن (اللہ) کے خاص بندے وہ لوگ ہیں جو زمین پر نرمی آہستگی اور سکون وقار کے ساتھ چلتے ہیں۔

【92】

تکیہ لگا کر بیٹھنا مستحب ہے۔

حضرت جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو اس طرح تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ تکیہ آپ کے بائیں جانب رکھا ہوا تھا۔ (ترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تکیہ لگا کر بیٹھنا مستحب ہے اور یہ نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ تکیہ کو پسند فرماتے تھے نیز آپ نے خوشبو کی طرح تکیہ کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تکیہ پیش کرے تو اس کو قبول کرنے سے انکار نہ کیا جائے۔

【93】

گوٹ مار کر بیٹھنے کا ذکر

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جب مسجد میں بیٹھتے تو دونوں ران کھڑے کرلیتے اور پنڈلیوں پر دونوں ہاتھوں سے حلقہ باندھ لیتے۔ (رزین)

【94】

آنحضرت ﷺ کی ایک منکسرانہ نشست

اور حضرت قیلہ بنت مخرمہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرم ﷺ کو مسجد میں بہ ہیبت قرفضا بیٹھے ہوئے دیکھا قیلہ (رض) کہتی ہیں کہ جب میں نے رسول اکرم ﷺ کو اس طرح انتہائی فروتنی و انکساری، خشوع و خضوع اور استغراق و حضوری کے عالم میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں مارے ہیبت کے کانپ گئی۔ (ابوداؤد) تشریح قرفصاء قاف کے پیش، راء کے جزم اور فاء کے پیش اور زبر کے ساتھ کے معنی ہیں اکڑوں بیٹھنا اور ہاتھوں کو ٹانگوں کے گرد باندھنا چناچہ اس نشست یعنی قرفصاء کی صورت یہ ہوتی ہے دونوں تانوؤں کو کھڑا کے سرینوں (کولھوں) پر بیٹھ جاتے ہیں زانوؤں کو پیٹ سے لگا لیتے ہیں اور دونوں ہاتھوں کو پنڈلیوں پا باندھ لیتے ہیں۔ قرفضاء کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ دونوں زانووں کو زمین پر ٹیک کر رانوں کو پیٹ سے لگا لیتے ہیں اور ہاتھوں کی ہتھیلیاں دونوں بغلوں میں داب لی جاتی ہیں اس طرح کہ دائیں ہتھیلی بائیں بغل میں اور بائیں ہتھیلی دائیں بغل میں رہتی ہیں بیٹھنے کا یہ خاص طریقہ عام طور پر عرب کے ان غیر متمدن لوگوں میں رائج تھا جو جنگلات میں بود وباش رکھتے تھے نیز وہ مسکین غریب لوگ بھی اس طرح بیٹھتے ہیں جو تفکرات و خیالات اور غم و آلام میں مبتلا ہوتے ہیں چونکہ یہ نشست انتہائی عجز وبے چارگی اور کمال انکسار فروتنی کو ظاہر کرتی ہے اس لئے آنحضرت ﷺ اس ہییت کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔

【95】

نماز فجر کے بعد آنحضرت ﷺ کی نشست

اور حضرت جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جب فجر کی نماز پڑھ چکتے تو چار زانو بیٹھ جاتے ہیں اور سورج اچھی طرح روشن ہوجانے تک اسی طرح بیٹھے رہتے۔ (ابوداؤد)

【96】

آنحضرت کے لیٹنے کا طریقہ

اور حضرت ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جب سفر کے دوران آرام کرنے اور سونے کے لئے کسی جگہ رات میں اترتے تو دائیں کروٹ لیٹتے تھے جب صبح کے قریب اترتے تو اس طرح لیٹتے کہ اپنا ایک ہاتھ کھڑا کر کے اس کی ہتھیلی پر سر مبارک رکھ لیتے۔ تشریح آنحضرت ﷺ کا معمول مبارک یہ تھا کہ جب آپ سفر میں ہوتے اور رات کا وقت کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے اور رات کا کچھ حصہ باقی رہتا تو داہنی کروٹ پر لیٹ کر آرام فرماتے جیسا کہ سفر میں داہنی کروٹ پر لیٹنے کی آپ کی عادت تھی اور اگر ایسے وقت پڑاؤ ڈالتے کہ رات کا تقریبا پورا حصہ گزر چکا ہوتا اور صبح ہونے والی ہوتی تو اس صورت میں آپ پوری طرح لیٹنے کی بجائے دست مبارک کو کھڑا کرلیتے اور اس کی ہتھیلی پر سر رکھ کر آرام فرما لیتے ایسا اس وجہ سے کیا کرتے تھے تاکہ غفلت کی نیند نہ آجائے اور فجر کی نماز قضا نہ ہوجائے اگرچہ داہنی کروٹ پر سونے کی صورت میں بھی غفلت کی نیند طاری نہیں ہوتی کیونکہ داہنی کروٹ پر لیٹنے سے لٹکا رہتا ہے اور اس کو قرار کم ملتا ہے جب کہ بائیں کروٹ پر لیٹنے سے دل اپنے ٹھکانے پر ہوتا ہے اور آرام بھی پاتا ہے جس کی وجہ سے نیند بھی اطمینان و سکون کی آتی ہے یہی وجہ ہے کہ اطباء نہ صرف خود بلکہ دوسروں کو بھی بائیں کروٹ سونے کا مشورہ دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بائیں کروٹ پر سونے سے دل چونکہ اپنی جگہ پر رہتا ہے اس لئے دل کے مطمئن و پر سکون ہونے کی وجہ سے نہ صرف آرام ملتا ہے اور چین کی نیند طاری ہوتی ہے بلکہ کھانا بھی خوب اچھی طرح ہضم ہوتا ہے کیوں کہ اس صورت میں جسم کے باہر کی حرارت بدن کے اندر رک جاتی ہے جو نظام ہضم کو بہتر معتدل بنانے کا سبب ہے بعض روایتوں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ سفر کے دوران جب رات کے آخری حصے میں کہیں اترتے تو سر مبارک کے نیچے کوئی اینٹ رکھ لیتے اور جب صبح کے وقت کے قریب اترتے تو ہاتھ کھڑا کر کے اس کی ہتھیلی پر سر مبارک کر کچھ دیر کے لئے لیٹ رہتے۔

【97】

آنحضرت ﷺ جب لیٹتے تو سر مبارک کو مسجد کی طرف رکھتے

اور ام سلمہ (رض) کے ایک لڑکے کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کا بچھونا جس پر آپ آرام فرماتے تھے اس کپڑے کی مانند تھا جو آپ کی قبر شریف میں رکھا گیا تھا اور مسجد آپ کے سر مبارک کے قریب رہا کرتی تھی۔ (ابوداؤد) تشریح حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ جس بچھونے پر استراحت فرماتے تھے اس کی لمبائی چوڑائی اس کپڑے کے تقریبا برابر تھی جو آپ کی قبر شریف میں رکھا گیا تھا اور اس کپڑے کو کچھ لوگوں نے دیکھ رکھا تھا کہ وہ ایک مختصر سا کپڑا تھا جو زیادہ لمبا چوڑا نہ تھا۔ بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا بچھونا اس کپڑے کی قسم سے تھا جو آپ کی قبر مبارک میں رکھا گیا تھا اور جو کپڑا قبر مبارک میں رکھا گیا تھا وہ دراصل ایک سرخ چادر تھی جو بیماری کے دوران آنحضرت ﷺ کے نیچے رہتی تھی آپ کا وصال ہوا تو شقران نے صحابہ کی رائے کے بغیر اس چادر کو قبر شریف میں آنحضرت ﷺ کے جسد مبارک کے نیچے رکھ دیا تھا ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں چاہتا کہ آنحضرت ﷺ کا کپڑا آپ کے بعد کوئی دوسرا شخص پہنے یا استعمال کرے تاہم صحیح قول یہ ہے کہ صحابہ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے قبر شریف بند کئے جانے سے پہلے اس چادر کو نکال لیا تھا واضح رہے کہ حدیث میں اس جگہ لفظ یوضع کے بجائے وضع ہونا چاہیے تھا لیکن راوی کا مقصد چونکہ حکایت بزمانہ حال تھا اس لئے ماضی کے صیغہ کے بجائے مضارع کا صیغہ استعمال کیا گیا۔ حدیث کے دوسرے جز اور مسجد آپ کے سر مبارک کے قریب رہا کرتی تھی کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ استراحت فرماتے تو اس زاویہ سے لیٹتے کہ سر مبارک مسجد کی طرف رہتا کیونکہ آپ کا حجرہ شریف مسجد کے بائیں جانت تھا اور چونکہ آپ رو بقبلہ لیٹا کرتے تھے اس لئے ظاہر ہے کہ اگر اس حجرہ شریف میں رو بقبلہ لیٹا جائے تو مسجد سرہانے کی طرف رہے گی۔ مشکوۃ کے ایک نسخہ میں لفظ مسجد جیم کے زبر کے ساتھ جس کے معنی مصلی کے ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ استراحت کے وقت آپ کے سرہانے رکھا رہتا تھا تاکہ جب نماز پڑھنی ہو تو اس کو فورا بچھا لیا جائے۔

【98】

پیٹ کے بل لیٹنا ناپسندیدہ ہے۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم ﷺ نے ایک شخص کو اوندھا یعنی پیٹ کے بل لیٹے ہوئے دیکھا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ اس طرح سے لیٹنا اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ ترمذی) تشریح علماء نے لکھا ہے کہ لیٹنے کی چار صورتیں ہیں ایک تو چت لیٹنا لیٹنے کا طریقہ اہل عبرت کا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی کرشمہ سازیوں اور عجائبات قدرت کو دیکھ کر ایمان باللہ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں وہ چت لیٹتے ہیں تاکہ وہ آسمان اور ستاروں کی طرف بنظر اشتہاد دیکھتے رہیں اور اللہ کی قدرت و حکمت کرد گاری کی دلیل حاصل کریں دوسری صورت دائیں کروٹ پر لیٹنا ہے یہ اہل کبار رو کے لیٹنے کا طریقہ ہے جو لوگ اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور شب بیداری کرنا چاہتے ہیں وہ دائیں کروٹ پر لیٹ کر سوتے ہیں تاکہ غفلت کی نیند طاری نہ ہو اور وقت پر اٹھ کر نماز وظائف اور اپنے مولیٰ کے ذکر میں مشغول ہو سکیں۔ تیسری صورت بائیں کروٹ پر لیٹنا ہے یہ آرام و راحت کے طلب گاروں کے لیٹنے کا طریقہ ہے کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کھانا اچھی طرح ہضم ہوجائے چین سکون کی نیند سو سکیں اور جسم کو پوری طرح آرام و راحت ملے وہ بائیں کروٹ پر لیٹ کر سوتے ہیں اور چوتھی صورت اوندھا یعنی پیٹ کے بل لیٹنا ہے یہ اہل غفلت اور نادان لوگوں کے لیٹنے کا طریقہ ہے کیونکہ اس طرح لیٹنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سینہ اور منہ جو برتر اعضاء ہیں اور اجزائے جسم میں سے سب سے افضل جز ہیں ان کو بلا قصد وطاعت و سجدہ خاک و ذلت پر اوندھا ڈال دیا جائے جو ان اعضاء کے عز و شرف کے منافی ہے نیز چونکہ اغلام کرانے والوں کی عادت ہے اس لئے اوندھا لیٹنا اتنی ذلیل ترین برائی کی مشابہت اختیار کرنا ہے جو خود انتہائی بری بات ہے۔

【99】

پیٹ کے بل لیٹنا ناپسندیدہ ہے۔

اور حضرت یعیش ابن طخفہ ابن قیس عفاری اپنے والد ماجد سے جو اصحاب صفہ میں سے تھے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی (حضرت طخفہ (رض) نے بیان کیا کہ ایک دن میں سینہ کی درد کی وجہ سے پیٹ کے بل اوندھا لیٹا ہوا تھا کہ اچانک میں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص مجھے اپنے پاؤں سے ہلا رہا ہے اور پھر میں نے سنا کہ وہ شخص کہہ رہا ہے لیٹنے کے اس طریقہ کو اللہ تعالیٰ سخت ناپسند کرتا ہے اور پھر میں پلٹ کر نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ شخص رسول اکرم ﷺ ہیں۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے علم میں حضرت طخفہ (رض) کا وہ عذر نہیں ہوگا جس کی وجہ سے وہ پیٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے اس لئے آپ نے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے اور اگر یہ کہا جائے کہ ان کا عذر آپ کے علم میں تھا تو پھر یہ تاویل کی جائے گی کہ آپ کا ارشاد احتیاط وتقوی کی بناء پر تھا اور یہ ظاہر کرنے کے لئے تھا کہ عام حالات میں بلا کسی عذر کے پیٹ کے بل لیٹنا سخت برا ہے اور اس طرف بھی اشارہ کرنا مقصود تھا کہ اگر سینہ کے درد کا دفاع ہی مقصود تھا تو اس صورت میں یہ بھی ممکن تھا کہ وہ پیروں کو پھیلائے بغیر ٹانگوں کی طرف جھک کر سینے کے دونوں رانوں کو دبا لیتے۔

【100】

بغیر دیوار کی چھت پر سونا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔

اور حضرت علی (رض) بن شیبان کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص رات میں گھر کی ایسی چھت پر سوئے جس پر پردہ نہ ہو اور روایت میں یوں ہے کہ جس کے گرد رکاوٹ والی کوئی چیز نہ ہو تو اس سے ذمہ جاتا رہا۔ (ابوداؤد) اور خطابی کی کتاب معالم السنن میں لفظ حجاب کے بجائے حجی کا لفظ ہے۔ تشریح ایک ہی مضمون کی تین روایتوں میں تین الگ الگ لفظ ہیں ایک روایت میں حجاب کا لفظ ہے جس کے معنی پردہ کے ہیں اور اس سے مراد وہ دیوار ہے جو چھت کو بےپردگی سے محفوظ رکھتی ہے اور اس کی وجہ سے اس چھت پر سے کسی کے گرنے کا خدشہ بھی نہیں ہوتا دوسری روایت میں حجار کے لفظ ہے جو حجر کی جمع ہے اور اس کے معنی اس چیز کے ہیں جو چھت کو اس طرح گھیر دے کہ کوئی گرنے نہ پائے خواہ دیوار ہو یا جنگلہ وغیرہ اور تیسری روایت میں حجی کا لفظ ہے یہ لفظ حاء کے زیر کے ساتھ بھی ہے اور اس کے زبر کے ساتھ بھی، دونوں ہی صورتوں میں یہ لفظ پردہ کے مفہوم میں ہے ویسے لغت کے اعتبار سے حجی جاء کے زیر کے ساتھ کے معنی ہیں عقل وزیر کی لہذا کہا جائے گا کہ پردہ عقل کے ساتھ اس لئے مشابہت دی گئی ہے کہ جس طرح عقل انسان کو نشائستہ اور نقصان دہ امور سے روکتی ہے اس طرح پردہ بھی انسان کو چھت پر سے گرنے سے روکتا ہے اسی طرح حاء کے زبر کے ساتھ کے معنی کنارہ اور گوشہ کے ہیں اور ظاہر ہے کہ چھت پردہ چھت کے کناروں پر کھڑی گئی دیوار وغیرہ ہی کی صورت میں ہوتا ہے اس اعتبار سے اس کو حجی کہا گیا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ نے ہر انسان کی نگہبانی و حفاظت کا ذمہ و عہد لیا ہے اور اس مقصد کے لئے اس نے محض اپنے فضل و کرم سے ملائکہ مقرر کئے ہیں اور ایسے اسباب و ذرائع پیدا فرمائے جن کو اختیار کر کے انسان اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے لیکن عام اگر کوئی شخص ایسی چھت پر سوتا ہے جس کے گرد کوئی پردہ و رکاوٹ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی جگہ سو رہا ہے جو عام طور پر ہلاکت و ضرر کا سبب بن سکتی ہے اور جب اس شخص نے خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا تو اب قدرت کو کیا ضرورت ہے کہ اس کی حفاظت کرے لہذا اس کی محافظت کا خدائی ذمہ و عہد ساقط ہوگیا۔

【101】

بغیر دیوار کی چھت پر سونا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے اس کوٹھے پر سونے سے منع فرمایا ہے جس پر پردہ کی دیوار نہ ہو۔ ترمذی)

【102】

حلقہ کے درمیان بیٹھنے والے پر لعنت

اور حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کی زبان مبارک کے ذریعہ اس شخص کو ملعون قرار دیا گیا ہے جو حلقہ کے درمیان بیٹھے۔ تشریح اس حدیث کے محمول کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے اور مختلف اقول ہیں ایک تو یہ کہ مثلا کسی جگہ لوگ حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اور بجائے اس کے وہ جہاں جگہ دیکھتا وہیں بیٹھ جاتا لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا درمیان میں جا کر بیٹھ جائے چناچہ ایسے شخص کو ملعون کہا گیا ہے دوسرے یہ کہ کوئی شخص کچھ لوگوں کے حلقہ کے درمیان اس طرح بیٹھ گیا کہ ان میں سے بعضوں کے چہرے ایک دوسرے سے چھپ گئے اور انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کے چہرے نہ دیکھ سکنے سے اور اپنے درمیان خلل پڑجانے کی وجہ سے اس شخص کو تکلیف و ضرر کا باعث محسوس کیا لہذا ایسا شخص مذکورہ حدیث کا محمول ہے اور تیسرے یہ کہ اس حدیث کا تعلق اس شخص سے ہے جو مسخرا پن کرنے لئے حلقہ کے بیچ میں جا کر بیٹھ جائے تاکہ لوگوں کو ہنسائے۔

【103】

مجلس ایسی جگہ منعقدہ کرنی چاہیے جو فراخ وکشادہ ہو

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا بہترین مجلس وہ ہے جو کشادہ و فراخ جگہ میں منعقد کی جائے۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مجلس وعظ و نصیحت منعقد کرنی ہو یا کسی بھی مباح تقریب کے موقع پر کسی جگہ لوگوں کو جمع کرنا ہو تو اس مقصد کے لئے ایسی جگہ اختیار کرنی چاہیے جو کشادہ و فراخ ہو تاکہ لوگوں کو بیٹھنے میں تنگی نہ ہو اور وہ تکلیف میں مبتلا نہ ہوں۔

【104】

مجلس میں الگ الگ نہ بیٹھو۔

اور حضرت جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم ﷺ گھر سے باہر نکل کر تشریف لائے جب کہ مسجد نبوی میں آپ کے صحابہ ادھر ادھر بیٹھے ہوئے تھے آپ نے ان کو اس طرح بیٹھے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ کیا بات ہے کہ میں تم لوگوں کو متفرق و منتشر بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ (ابوداؤد) تشریح عزین اصل میں عزۃ کی جمع ہے جس کے معنی لوگوں کے جماعت کے ہیں لہذا آنحضرت ﷺ نے جب یہ دیکھا کہ صحابہ کی ایک جماعت اس طرف بیٹھی ہوئی ہے تو دوسری جماعت اس طرف کچھ لوگ اس کونے میں بیٹھے ہوئے ہیں تو کچھ لوگ اس کونے میں تو چوں کی الگ الگ گروہوں میں بیٹھنا اور علیحدہ علیحدہ مجلسیں قائم کرنا آپس میں وحشت و بیگانگی کو فروغ دینے اور ایک دوسرے سے علیحدگی و جدائی اختیار کرنے کا موجب ہوتا ہے اس لئے آپ نے مذکورہ ارشاد گرامی کے ذریعہ اس طرح متفرق و منتشر طور پر بیٹھنے کو ناپسند فرمایا اور متحدہ و مجتمع ہو کر بیٹھنے کی طرف راغب کیا کیونکہ ایک جگہ جمع ہو کر بیٹھنا دراصل باہمی یگانگت و اتحاد اور ایک دوسرے سے تعلق موانست کی علامت ہے۔ حاصل یہ کہ اگر کسی جگہ مسلمان جمع ہوں تو ان کو چاہیے کہ وہ علیحدہ علیحدہ جماعتیں بنا کر نہ بیٹھیں بلکہ سب لوگ ایک جگہ حلقہ بنا کر یا صف بندی کے ساتھ بیٹھیں۔

【105】

اس طرح نہ لیٹو کہ جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں رہے اور کچھ سایہ میں

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص سایہ میں بیٹھا ہو اور پھر وہ سایہ ختم ہو رہا ہو بایں طور کہ اس سایہ کی جگہ دھوپ آجانے کی وجہ سے اس کے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ حصہ سایہ میں ہو تو اس کو چاہیے کہ وہاں سے اٹھ جائے اور ایسی جگہ جا کر بیٹھ جائے جو پوری طرح سایہ میں یا پوری طرح دھوپ میں کیونکہ جب کوئی شخص ایسی جگہ بیٹھا رہتا لیٹتا ہے کہ کچھ دھوپ میں ہو اور کچھ سایہ میں، تو اس کے جسم پر ایک ہی وقت میں دو متضاد چیزوں کے اثر انداز ہونے کی وجہ سے اس کا مزاج بھی فساد و اختلال کا شکار ہوجاتا ہے۔ (ابوداؤد) اور شرح السنہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے یعنی حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا تم میں سے جو شخص سایہ میں بیٹھا ہو اور پھر وہ سایہ ختم ہو رہا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ وہاں سے اٹھ جائے کیوں کہ ایسی جگہ کہ کچھ سایہ میں ہو اور کچھ دھوپ میں، شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے اسی طرح جیسا کہ شرح السنۃ میں ہے معمر نے بھی اس روایت کو حضرت ابوہریرہ (رض) سے بطریق موقوف نقل کیا ہے۔ تشریح حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کا قول ہے آنحضرت کا ارشاد گرامی نہیں ہے لیکن واضح رہے کہ یہ موقوف حکم کے اعتبار سے مرفوع حدیث کے ہی درجہ میں ہے کیونکہ دین کی جو بات اجتہاد قیاس کے ذریعہ ثابت ہونے والی نہیں ہوتی اور اس کو کوئی صحابی اپنے قول کے طور پر نقل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس صحابی نے وہ بات آنحضرت ﷺ سے ضرور سنی ہے ورنہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی صحابی دین کی کوئی ایسی بات نقل کرے جو اجتہاد قیاس سے باہر اور اس بات کو اس نے آنحضرت ﷺ سے نہ سنا ہو۔ شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے کہ بارے میں بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ یہ عبارت اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے یعنی واقعۃ ایسا ہوتا ہے کہ شیطان اس جگہ بیٹھتا ہے جس کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ حصہ سایہ میں ہوتا ہے اس اعتبار سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کچھ سایہ اور کچھ دھوپ میں بیٹھنا شیطان کا کام ہے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ایسی جگہ کی نسبت شیطان کی طرف اس اعتبار سے کی گئی ہے کہ شیطان جس شیطان کو پریشان کرنا چاہتا ہے اس کو ایسی جگہ پر بیٹھنے یا لیٹنے کی طرف راغب کرتا ہے اور گویا اس جگہ پر کسی شخص کے بیٹھنے یا لیٹنے کا سبب شیطان بنتا ہے اور اس سے شیطان اپنے مقصد کہ وہ شخص تکلیف و دکھ میں مبتلا ہو کامیاب ہوجاتا ہے لہذا معلوم ہوا کہ شیطان جس طرح انسان کے دین کا دشمن ہے اسی طرح اس کے بدن کا بھی بدخواہ ہے۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ کسی ایسی جگہ بھی بیٹھنا یا لیٹنا مکروہ ہے جو پوری طرح دھوپ میں ہو اگرچہ اس صورت میں ممانعت و کراہت کا سبب یہ نہیں ہوگا کہ ایسی جگہ شیطان کی نشست گاہ ہوتی ہے بلکہ یہ اس لئے ممنوع ہوگا کہ کہ پوری طرح دھوپ میں بیٹھنا گویا اپنے آپ کو تعب و مشقت اور تکلیف میں ڈالنا ہے اور اگر جاڑے موسم ہو تو پھر دھوپ میں بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔

【106】

عورتوں کو راستوں کے کناروں پر چلنے کا حکم

اور حضرت ابواسید انصاری (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن رسول اکرم ﷺ کو اس وقت جب کہ آپ مسجد سے نکل رہے تھے لوگوں سے دینی ہدایات و احکام شرعی مسائل بیان کرتے ہوئے سنا پھر راستہ میں مرد عورتوں سے مل گئے یعنی مرد اور عورتیں مخلوط ہو کر راستہ میں چلنے لگے آنحضرت ﷺ نے یہ دیکھ کر عورتوں سے فرمایا کہ تم مردوں کے پیچھے چلو اور ان سے الگ رہو کیونکہ تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم راستہ کے کنارے پر چلا کرو۔ چناچہ عورتوں نے آنحضرت ﷺ کے اس حکم پر اس طرح عمل کیا کہ وہ راستہ چلتیں تو دیواروں سے لگ کر چلا کرتیں یہاں تک کہ بعض اوقات ان کا کپڑا دیوار سے اٹک جاتا تھا۔ (ابوداؤد، بہیقی)

【107】

عورتوں کے درمیان نہ چلو

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے دو عورتوں کے درمیان چلنے سے منع فرمایا یعنی مرد کو۔ (ابوداؤد) تشریح لفظ یعنی راوی کا اپنا قول ہے جس سے الفاظ حدیث کی وضاحت مقصوع ہے گویا راوی نے یہ بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے یمشی کا فاعل الرجل مراد لیا ہے حاصل یہ ہے کہ لفظ الرجل حدیث کے اصل متن کا جزء نہیں ہے بلکہ اس کو کسی راوی نے بطور وضاحت نقل کیا ہے اس طرح روایت کے درمیان یہ عبارت یعنی الرجل گویا جملہ معترضہ ہے۔ آنحضرت ﷺ نے مرد کو عورتوں کے درمیان چلنے سے اس لئے منع فرمایا کہ مرد عورت کا اختلاط نہ صرف یہ کہ مختلف قسم کی برائیوں کے فتنہ میں مبتلا کردیتا ہے بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو شرم و حیاء اور سنجیدگی و متانت کے تقاضوں کے خلاف سمجھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ جس طرح عورتوں کے درمیان چلنا منع ہے اسی طرح راستہ میں کسی عورت کے ساتھ بھی چلنا منع ہے بشرطیکہ اس کی وجہ سے کسی فتنہ میں مبتلا ہوجانے کا خوف ہو۔

【108】

مجلس میں جہاں جگہ دیکھو وہاں بیٹھ جاؤ

اور حضرت جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب آنحضرت ﷺ کی مجلس میں ہم حاضر ہوتے تو ہم میں سے جو شخص جہاں جگہ دیکھتا اور اخر میں جو جگہ خالی ہوتی وہاں بیٹھ جاتا۔ (ابوداؤد) اور عبداللہ بن عمرو (رض) کی دونوں حدیثیں یعنی ایک تو لایحل للرجل اور دوسری جو اس کے بعد ولا یجلس بین رجلین باب القیام میں نقل کی جا چکی ہے اور حضرت علی (رض) وحضرت ابوہریرہ (رض) کی دونوں روایتیں ہم انشاء اللہ باب اسماء النبی میں نقل کریں گے جن میں سے ایک تو کان رسول اللہ ﷺ اذا مشی تکفا اور دوسری مارایت شیاء احسن من رسول اللہ ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ مجلس میں ہر شخص مجلس نبوی کے آداب وقار کو ملحوظ رکھتا تھا اور اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ اس کو دوسروں کی بہ نسبت نمایاں اور برتر مقام ملے جہاں جگہ دیکھتا وہیں بیٹھ جاتا کیونکہ مجلس میں نمایا اور برتر جگہ پر بیٹھنے کی خواہش اور اس کے لئے کوشش کرنا دراصل اس نفس کا تقاضہ ہوتا ہے جو ہر موقع پر اپنے آپ کو بلا ضرورت نمایاں کرنے اور برتر ثابت کرنے کا متلاشی رہتا ہے اور یہ ان لوگوں کی شان ہے جو جاہ پسند اور دنیاوی عزت اور بڑائی کے حریص ہوتے ہیں جبکہ صحابہ اس طرح کے جذبات سے بالکل عاری تھے نہ ان کو اس چیز کے حصول کی خواہش ہوتی تھی اور نہ کسی بھی موقع پر برخاست نشست کے سلسلہ میں خواہ مخواہ کے تکلفات و اہتمام کے عادی تھے ان کے مزاج میں جو سادگی وخاکساری اور بےتکلفی اور روا داری تھی اس کی بناء پر بھی اور آنحضرت ﷺ کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے بھی وہ مجلس نبوی ﷺ میں جہاں جگہ دیکھتے بیٹھ جاتے۔

【109】

بیٹھنے کا ایک ممنوع طریقہ

اور حضرت عمر بن شرید تابعی اپنے والد ماجد (حضرت شرید ثقفی (رض) صحابی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک دن آنحضرت ﷺ میرے پاس سے گزرے جب کہ میں اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ میرا بایاں ہاتھ تو میری پیٹھ کے پیچھے تھا اور انگوٹھے کی جڑ کے گوشت پر میں سہارا دیا ہوئے تھا آپ نے مجھ کو اس طرح بیٹھا ہوا دیکھ کر فرمایا کہ کیا تم اس ہیبت پر بیٹھے ہوئے جو ہیبت پر وہ لوگ بیٹھتے ہیں جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا۔ (ابوداؤد) تشریح جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا سے مراد یہودی ہیں یہاں یہودیوں کا صراحت کے ساتھ ذکر کرنے کے بجائے مغضوب علیھم کے ذریعہ ان کی طرف اشارہ کرنے کی ایک وجہ تو اس بات سے اگاہ کرنا ہے کہ اس ہیبت پر بیٹھنا ان چیزوں میں سے جن کو حق تعالیٰ دشمن رکھتا ہے اور دوسرے یہ کہ مسلمان چونکہ ایک ایسی امت کا فرد ہے جس پر اللہ نے اپنی رحمت و نعمت فرمائی ہے اس لئے اس کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کی مشابہت اختیار نہ کرے جن پر اللہ نے اپنا غضب نازل کیا اور ملعون قرار دیا ہے واضح رہے کہ قرآن کریم کی سورت فاتحہ میں مغضوب علیھم کے ذریعہ جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے بھی یہی یہود مراد ہیں۔ بعض حضرات نے یہ کہا کہ حدیث میں مغضوب علھیم کا لفظ اپنے وسیع و عام مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے یعنی اس سے تمام کافر اور وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے بیٹھنے چلنے اور دیگر افعال میں غرور وتکبر کا اظہار کرتے ہیں۔

【110】

پیٹ کے بل لیٹنا دوزخیوں کا طریقہ ہے۔

اور حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم ﷺ میرے پاس سے گزرے جب کہ میں اپنے پیٹ کے بل یعنی اوندھا لیٹا ہوا تھا آپ نے یہ دیکھ کر اپنے پاؤں سے مجھے ٹھوکا دیا اور فرمایا جندب تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح لیٹنا دوزخیوں کا طر یقہ ہے۔ تشریح جندب حضرت ابوذر (رض) کا اصل نام ہے چناچہ آپ ﷺ نے اس موقع پر ان کی کنیت کے بجائے اصل نام سے مخاطب کیا کہ اس طرح لیٹنا دوزخیوں کا طریقہ ہے کے بارے میں دو احتمال ہیں ایک تو یہ کہ اس ارشاد گرامی سے آپ کی مراد یہ تھی کہ اس دنیا میں کفار و فجار اسی طرح لیٹتے ہیں دوسرے یہ کہ آپ نے اس ارشاد کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا کہ کفار فجار دوزخ میں جس ہیبت پر پٹائے جائیں گے وہ یہی ہیبت ہوگی یعنی پیٹ کے بل۔

【111】

جمائی کا آنا شیطانی اثر ہے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) آنحضرت ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ چھینکنے والے کو پسند فرماتا ہے لیکن جمائی لینے والے کو ناپسند فرماتا ہے لہذا تم میں سے جو شخص چھینکے اور اللہ کی تعریف کرے تو اس چھینک اور الحمدللہ کو سننے والے ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہے رہی جمائی کی بات جمائی کا آنا شیطانی اثر ہے لہذا تم میں سے جب کسی کو جمائی آئے تو چاہے کہ وہ حتی الامکان اس کو روکے واضح رہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص جمائی لیتا ہے تو اس پر شیطان ہنستا ہے (بخاری) اور مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تو (چاہے حتی الامکان اس جمائی کو روکے) کیونکہ جب تم میں سے کوئی شخص ہاء کہتا ہے یعنی جمائی لیتا ہے تو اس پر شیطان ہنستا ہے۔ تشریح اللہ تعالیٰ چھینکنے کو پسند کرتا ہے، مطلب یہ ہے کہ چھینکنے کی وجہ سے چونکہ دماغ پر بوجھ ہٹ جاتا ہے اور فہم و ادراک کی قوت کا تزکیہ ہوجاتا ہے اور یہ چیز طاعت و حضوری قلب کا باعث و مددگار بنتی ہے اس لئے چھینکنا پسندیدہ ہے اس کے برخلاف جمائی کا آنا طبیعت کے امتلاء نفس کے بھاری پن اور جو اس کی کدورت کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ چیز غفلت و سستی و بد فہمی نیز طاعت و عبادت میں عدم نشاط کا باعث بنتی ہے اس لئے جمائی کا آنا شیطان کی خوشی کا ذریعہ ہے اور اسی وجہ سے جمائی کے آنے کو شیطانی اثر قرار دیا ہے اور اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے اس سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ چھینکنے والے کو پسند کرنا اور جمائی کو ناپسند کرنا ان کے نتیجہ میں وثمرہ کے اعتبار سے ہے کہ چھینکنے کا نتیجہ عبادت وطاعت میں نشاط و تازگی کا پیدا ہونا ہے اور جمائی کا نتیجہ کسل و سستی کا پیدا ہوجانا ہے۔ اللہ کی تعریف کرے یعنی جب چھینک آئے تو الحمد للہ کہے اور اگر رب العالمین بھی بڑھا دے یعنی الحمد للہ رب العالمین کہے تو بہتر ہے جب کہ الحمد للہ علی کل حال کہنا بھی بہتر ہے، نیز کتاب مصنف میں ابن ابی شیبہ (رض) نے حضرت علی (رض) سے بطریق موقوف یہ نقل کیا ہے کہ جس شخص کو چھینک آئے اور وہ یوں کہے، الحمد للہ رب العالمین علی کل حال تو وہ داڑھ اور کان کے درد میں کبھی مبتلا نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ علماء نے چھینک آنے پر الحمد للہ کہنے کی یہ حکمت بیان کی ہے چھینک دراصل دماغ کی صحت و صفائی اور مزاج طبعیت میں نشاط و توانائی کی علامت ہے اور یہ چیز جسمانی صحت و تندرستی کے اعتبار سے اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور ظاہر ہے کہ حصول نعمت پر اللہ کی تعریف کرنا نہایت موزوں و مناسب چیز ہے۔

【112】

یرحمک اللہ کہنا فرض یا واجب؟

حدیث کی یہ عبارت ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہے بظاہر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ چھینکنے والا الحمدللہ کہے تو اس سننے والے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ جواب میں یرحمک اللہ کہے۔ لیکن اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ حنفی مسلک کے اعتبار سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ جواب میں یرحمک اللہ کہنا واجب علی الکفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چھینکنے والے کی حمد کو سننے والے ایک سے زائد ہوں تو وہاں موجود سب میں سے کسی ایک شخص کا یرحمک اللہ کہہ دینا سب کے ذمہ سے جواب کا وجوب ساقط کر دے گا۔ جب کہ ایک قول میں اس جواب کو مستحب کہا گیا ہے کہ اس کے برخلاف سفر السعادۃ میں مصنف نے یہ لکھا ہے کہ اس بارے میں منقول صحیح احادیث کا ظاہری مفہوم یہ واضح کرتا ہے کہ چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا سننے والے ہر مسلمان پر فرض ہے اور وہاں موجودہ لوگوں میں سے کسی ایک کا جواب دیدینا اس فرض کو سب کے ذمہ سے ساقط نہیں کرتا۔ چناچہ اکابر علماء کی ایک جماعت کا مسلک اسی قول پر ہے۔ شوافع کا مسلک یہ ہے کہ چھینکنے والے کا جواب دینا سنت علی الاکفایہ ہے لیکن افضل یہی ہے کہ حاضرین میں ہر شخص جواب میں یرحمک اللہ کہے حضرت امام مالک کے مسلک میں اختلافی قول ہیں کہ چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا آیا سنت ہے یا واجب ؟ لیکن اس امر پر اتفاق ہے کہ یہ اختلاف اس صورت میں ہے کہ جب چھینکنے والا الحمدللہ کہے اور اس کو حاضرین سنیں لہذا اگر چھینکنے والا الحمدللہ نہ کہے تو وہ جواب کا مستحق نہیں ہوگا اسی طرح اس نے الحمدللہ تو کہا لیکن اتنی آواز سے کہا کہ کسی ایک نے بھی نہیں سنا تو اس صورت میں بھی جواب دینا یعنی یرحمک اللہ کہنا لازم نہیں ہوگا۔ چناچہ لفظ سمعہ جو اس حدیث میں منقول ہے اس بات پر دلالت کرتا ہے اور یہی حکم سلام اور تمام فرض کفایہ امور جیسے عیادت مریض، تجہیز میت اور نماز جنازہ وغیرہ کا بھی ہے۔ شرح السنہ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ چھینکنے والے کو چاہے کہ الحمد للہ بلند آواز سے کہے تاکہ اہل مجلس سن لیں اور وہ جواب کا مستحق ہو۔

【113】

یرحمک اللہ کہنے والے کے جواب میں کیا کہا جائے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو چاہیے کہ وہ الحمدللہ کہے اور اس کے مسلمان بھائی یا یہ فرمایا کہ اس کے دوست کو چاہیے کہ وہ اس چھینکنے والے کے الحمد للہ کہنے کے جواب میں یرحمک اللہ کہے اور جب اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہے تو چھینکنے والے کو چاہیے یوں کہے، یھدیکم اللہ یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری ہدایت کرے۔ اور تمہارے دل و تمہارے احوال کو درست کرے۔ (بخاری) تشریح یھدیکم اللہ میں مخاطب کے لئے جمع کا صیغہ یا تو باعتبار غالب کے ہے کہ عام طور پر چھینکنے والے کے پاس کئی آدمی ہوتے ہیں لہذا مذکورہ دعا میں ان سب کو شریک ہونا چاہے یا مخاطب کے لئے جمع کا صیغہ بطور تعظیم و تکریم کے ہے اور یہ کہ اس دعا میں مخاطب کے واسطے سے پوری امت مرحومہ کو شامل کرنا مراد ہوتا ہے۔

【114】

جو چھینکنے والا الحمد للہ نہ کہے وہ جواب کا مستحق نہیں ہوتا

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کو چھینک آئی آنحضرت ﷺ نے ان میں سے ایک آدمی کی چھینک کا جواب نہیں دیا جس آدمی کی چھینک کا جواب آپ نے نہیں دیا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا وجہ ہے کہ آپ نے اس آدمی کو تو جواب دیا لیکن مجھے جواب نہیں دیا ؟ آپ نے فرمایا اس آدمی نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی تھی جب کہ تم نے اللہ کی حمد نہیں کی (لہذا تم جواب کے مستحق نہیں ہوئے) بخاری ومسلم) ۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص چھینکنے کے بعد الحمد للہ نہ کہے وہ اس بات کا مستحق نہیں ہوتا کہ اس کی چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہا جائے۔ حضرت مکحول بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت ابن عمر (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ کسی شخص نے مسجد کے کسی کونے میں چھینکا، حضرت ابن عمر (رض) نے اس چھینک کو سنا تو فرمایا کہ یرحمک اللہ ان کنت حمدت اللہ یعنی اگر تو نے اللہ کی حمد کی ہے تو تجھ پر اللہ اپنی رحمت نازل کرے۔ شعبی کہتے ہیں کہ اگر تمہارے کان میں دیوار کے پیچھے سے کسی چھینکنے اور الحمدللہ کہنے کی آواز آئے تو اس کو بھی جواب دو یعنی یرحمک اللہ کہو۔

【115】

جو چھینکنے والا الحمدللہ نہ کہے وہ جواب کا مستحق نہیں ہوتا

اور حضرت ابوموسی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے اور اللہ کی حمد کرے یعنی چھینک آنے پر الحمد للہ کہے تو اس کے جواب میں یعنی یرحمک اللہ کہو اور اگر وہ اللہ کی حمد نہ کرے تو اس کو جواب نہ دو ۔ (مسلم)

【116】

جس شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے اس کے جواب کا مسئلہ

اور حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن رسول اللہ ﷺ کو اس شخص کی چھینک کا جواب دیتے سنا جو اس وقت آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا چناچہ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا یرحمک اللہ پھر جب اس کو دوسری چھینک آئی تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کو زکام ہوگیا ہے اور ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ نے اس شخص کو تیسری بار چھینکنے پر یہ فرمایا کہ اس شخص کو زکام ہوگیا ہے۔ تشریح آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ اس شخص کو چونکہ زکام ہوگیا ہے اس لئے یہ باربار چھینکے گا اور الحمد للہ کہے گا لہذا اس کے جواب میں باربار یرحمک اللہ کہنے کی ضرورت نہیں واضح رہے کہ ابوداؤد اور ترمذی کی ایک اور روایت میں یہ فرمایا گیا کہ جس شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے اور وہ الحمد للہ کہتا رہے تو تین چھینکوں تک جواب دیا جائے تیسری مرتبہ کے بعد اختیار ہوگا کہ چاہے جواب دے چاہے نہ دے۔ پس حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ اگر کسی شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے تو اس کے جواب میں تین چھینکوں تک یرحمک اللہ تو واجب یا سنت موکدہ ہے تیسری مرتبہ کے بعد سکوت اور جواب کے درمیان اختیار ہوگا کہ چاہے تو تین مرتبہ کے بعد جواب نہ دے جو رخصت یعنی شریعت کی طرف سے آسانی اور چاہے تین مرتبہ کے بعد بھی جواب دیتا رہے جو مستحب ہے گویا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ تین مرتبہ کے بعد جواب دینا کوئی ناجائز بات نہیں ہے لیکن واجب یا سنت مؤ کدہ نہیں ہے۔

【117】

جب جمائی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھ لے

اور حضرت ابوسعیدخدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو جمائی آئے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے کیونکہ شیطان اگر منہ کھلا ہوا پاتا ہے تو اس میں گھس جاتا ہے۔ (مسلم) تشریح منہ میں شیطان گھسنے سے مراد یا تو حقیقتا گھسنا ہے یا مراد یہ ہے کہ جو شخص جمائی کے وقت اپنے منہ کو بند نہیں رکھتا شیطان اس پر اثر انداز ہونے اور اس کو وساوس و اوہام میں مبتلا کرنے پر قادر ہوجاتا ہے۔

【118】

چھینکتے وقت چہرہ پر ہاتھ رکھ لینا چاہیے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ جب چھینکتے تو اپنے چہرہ مبارک پر اپنے ہاتھوں یا اپنے کسی کپڑے سے ڈھانک لیتے تھے اور اپنی چھینک کی آواز کو پست کرلیتے۔ اس روایت کو ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح چھینکتے وقت چہرے کو ڈھانک لینا اور بلند آواز سے نہ چھینکنا، یہ دونوں چیزیں تہذیب وشائستگی کی علامت بھی ہیں اور آداب شریعت کا تقاضہ بھی کیونکہ ایک تو چھینک کے ذریعہ عام طور پر دماغ کا فضلہ و بلغم وغیرہ ناک یا منہ سے نکل پڑتا ہے دوسرے چھینکتے وقت چہرہ کی ہیبت بگر جاتی ہے اس لئے چہرے کو ڈھانک لینا چاہیے اسی طرح زیادہ زور دار آواز کے ساتھ چھینکنے کی صورت میں بسا اوقات لوگ چونک اٹھتے ہیں اور ویسے بھی زیادہ بلند آواز اور بےساختہ آواز کے ساتھ چھینکنا طبیعت کی سلامتی اور وقار کے خلاف سمجھا جاتا ہے لہذا ہلکی آواز کے ساتھ چھینکنا حسن ادب سمجھا گیا ہے علماء نے لکھا ہے کہ چھینکنے والے کے لئے مستحب ہے کہ اپنی چھینک کو پست رکھے اور الحمد للہ بلند آواز میں کہے تاکہ لوگ سن کر جواب دیں۔

【119】

یرحمک اللہ کہنے والے کے حق میں دعا

اور حضرت ایوب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو چاہے کہ وہ یوں کہے الحمد للہ علی کل حال۔ یعنی ہر حال میں اللہ کی تعریف ہے اور وہ شخص جو اس کا جواب دے اس کو یوں چاہیے یرحمک اللہ اور پھر اس کے جواب میں چھینکنے والے کو یوں کہنا چاہیے، یھدیکم اللہ ویصلح بالکم، یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت بخشے اور تمہارے دل یا تمہارے احوال کو درست فرمائے۔

【120】

یہودیوں کی چھینک اور آنحضرت ﷺ کا جواب

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ یہودی جب آنحضرت ﷺ کے پاس ہوتے جان بوجھ کر چھینکتے اس امید میں کہ آپ ان کے جواب یرحمک اللہ کہیں گے لیکن آپ ان کی چھینک کر جواب میں محض یہ فرماتے یھدیکم اللہ ویصلح بالکم یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت بخشیں اور تمہارے قلوب یا تمہارے احوال کی اصلاح فرمائے۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ ان کی چھینک کے جواب میں یرحمک نہ کہتے کیونکہ اللہ کی رحمت صرف مومن کے لئے مخصوص ہے البتہ آپ ان کے حسب حال ان کی ہدایت و اصلاح کی دعا فرماتے۔

【121】

چھینک کے وقت سلام

اور حضرت ہلال ابن یساف (تابعی) کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ حضرت سالم بن عبید (رض) کے ساتھ تھے کہ جماعت میں سے ایک شخص کو چھینک آئی اور اس نے الحمد للہ کے بجائے السلام علیکم کہا بایں گمان کے چھینک کے بعد الحمد للہ کے بجائے السلام علیکم کہنا بھی جائز ہے حضرت سالم (رض) نے اس شخص کے جواب میں کہا تم پر اور تمہاری ماں پر بھی سلام اس شخص نے گویا اپنے دل میں ان الفاظ (تمہاری ماں پر بھی سلام) کا برا مانا، حضرت سالم (رض) نے اس کی ناگواری کو محسوس کیا اور کہا اس ناگواری کی کیا بات ہے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے وہی الفاظ کہے ہیں جو آنحضرت ﷺ نے اس وقت ارشاد فرمائے تھے جب کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ کے سامنے چھینکا تھا اور اس نے الحمد للہ کے بجائے السلام علیکم کہا تھا چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ تم پر اور تمہاری ماں پر سلام۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اس کو چاہیے کہ الحمدللہ کہے اور جواب دینے والے کو چاہیے کہ یرحمک اللہ کہے اور پھر چھینکنے والے کو بطریق استحباب چاہیے کہ یغفرللہ لی ولکم یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری اور میری مغفرت فرمائے۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ چھینک آنے پر الحمد للہ کے الفاظ کہنے چاہیے اس موقع پر حاضرین کو سلام کرنا نہ کوئی معنی رکھتا ہے اور نہ اس کی کوئی اصل ہے۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ یرحمک اللہ کہنے کے جواب میں چھینکنے والے یغفر اللہ لی ولکم کے ساتھ یھدیکم اللہ بھی کہنا اولی اور افضل ہے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر چھینکنے والا الحمد للہ کے بجائے کوئی اور الفاظ کہے تو وہ چھینک کے جواب کا مستحق نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس شخص کی چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ نہیں فرمایا البتہ اس شخص نے چونکہ آپ کو سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا، رہی یہ بات کہ آپ نے سلام کے جواب میں وعلی امک اور تمہاری ماں پر بھی سلام کے الفاظ کیوں فرمائے تو دراصل آپ نے اس لفظ کے ذریعہ دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ایک تو یہ کہ اس موقع پر سلام کرنا بےمحل و بےموقع ہے اور یہ ایسا ہی جیسے کوئی شخص سلام تو تمہیں کرنا چاہے مگر یہ ہے یوں کہ تم پر اور تمہاری ماں پر سلام۔ دوسری بات یہ کہ کسی بھی لفظ و کلام کا بےمحل و بےموقع استعمال کرنا چاہیے اپنے آپ کو علم و تربیت اور مجلس کے آداب سے بےبہرہ ثابت کرنا ہے اور اس بات کا اظہار کرنا ہے کہ میں اس شخص کی طرح ہوں جو کسی مرد دانا کی تربیت سے محروم اور محض ماں کی غیر موزوں تربیت کا حامل ہو اور جس کے دل و دماغ پر زنانہ ماحول اور زنانہ طور طریقوں کا اثر ہو، نیز علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان الفاظ کے ذریعہ گویا اس شخص کی نادانی کو ظاہر کیا گیا ہے جو اس میں ماں کے اوصاف کے سرایت کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی اسی اعتبار سے وہ اپنی ماں کے حق میں آنحضرت ﷺ کی دعا کا محتاج تھا، چناچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ تمہاری ماں پر بھی سلامتی ہو کہ اللہ اس کو عقل کی دولت سے نوازے اور نادانی کے فتنہ سے محفوظ رکھے۔

【122】

لگاتار تین بار سے زائد چھینکنے والے کو جواب دینا ضروری نہیں ہے۔

اور حضرت عبید بن رفاعہ آنحضرت ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ چھینکنے والے کی لگاتار تین چھینک تک جواب دیا جائے اور اگر کوئی تین بار سے زائد چھینکے تو اس صورت میں اختیار ہے کہ چاہے اس کو جواب دیا جائے اور چاہے نہ دیا جائے اس روایت کو امام ابوداؤد اور ترمذی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【123】

لگاتار تین بار سے زائد چھینکنے والے کو جواب دینا ضروری نہیں ہے۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ تم اپنے مسلمان بھائی کی چھینک کا تین بار تک جواب دو اگر وہ اس سے زائد چھینکے تو سمجھو کہ اس کو زکام ہوگیا ہے اس روایت کو ابوداؤد اور ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس حدیث کو آنحضرت ﷺ تک پہنچایا ہے۔ تشریح امام ابوداؤد کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ (رض) کا اپنا قول نہیں ہے بلکہ یہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے جس کو ابوہریرہ (رض) نے نقل کیا ہے اور اگر اس روایت کو حدیث موقوف یعنی حضرت ابوہریرہ (رض) کا قول کہا جائے تو بھی یہ روایت حدیث مرفوع یعنی آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کے حکم میں ہوگی کیونکہ حضرت ابوہریرہ (رض) تین کے عدد کا تعین شارع (علیہ السلام) سے سنے بغیر نہیں کرسکتے۔

【124】

چھینک آنے پر الحمد کے ساتھ صلوۃ وسلام کے الفاظ غیر مستحب ہے۔

اور حضرت نافع (تابعی) کہتے ہیں کہ ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کے برابر بیٹھے ہوئے ایک شخص نے چھینکا اور پھر کہا الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ۔ حضرت ابن عمر (رض) نے یہ سن کر فرمایا کہ میں بھی کہتا ہوں الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ، لیکن یوں ہے نہیں (یعنی نہ تو اس کا حکم دیا گیا اور نہ یہ مستحب اور آداب میں سے ہے کہ چھینک آنے پر الحمد للہ کے ساتھ سلام کے الفاظ ملائیں جائیں بلکہ اصل ادب اور حکم نبوی کے اتباع کا تقاضہ یہی ہے کہ چھینک آنے پر ہم بلا کسی کمی و زیادتی کے وہی کہیں جو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم یوں کہیں الحمدللہ علی کل حال یعنی ہر حال میں اللہ کی تعریف ہے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【125】

آنحضرت ﷺ کی ہنسی

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو اتنا زیادہ ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کا منہ کھل گیا ہو اور مجھے آپ کے تالو یا حلق کا کوا یا مسوڑھا نظر آیا ہو بلکہ اکثر و بیشتر آپ کا ہنسنا مسکرانے کی حد تک رہتا تھا۔ (بخاری)

【126】

آنحضرت ﷺ کی ہنسی

اور حضرت جریر (رض) کہتے ہی کہ جب سے میں مسلمان ہوا ہوں آنحضرت ﷺ نے کبھی مجھ کو منع نہیں کیا کہ اور جب آپ مجھ کو دیکھتے مسکرا دیتے۔ (بخاری ومسلم) تشریح مجھ کو منع نہیں کیا سے مراد یہ ہے کہ آپ نے کبھی بھی مجھ کو اپنے پاس آنے سے نہیں روکا میں جس وقت چاہتا آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتا چاہے کوئی خصوصی مجلس ہی کیوں نہ ہوتی بشرطیکہ مردا نہ مجلس ہوتی یا یہ مراد ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے آپ سے کوئی چیز مانگی ہو اور آپ نے اس کے دینے سے انکار کیا ہو میں نے آنحضرت ﷺ سے جب مانگا اور جو کچھ بھی مانگا وہ مجھ کو عطا ہوا۔

【127】

صحابہ کی زبان سے زمانہ جاہلیت کی باتیں سن کر آنحضرت ﷺ کا مسکرانا

اور حضرت جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ جس مصلے پر فجر کی نماز پڑھتے وہاں سے اس وقت تک نہیں اٹھتے تھے جب تک سورج اچھی طرح نہ نکل آتا جب سورج نکل آتا اور خاصا بلند ہوجاتا آپ اشراق کی نماز پڑھنے یا گھر میں تشریف لے جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے اس دوران صحابہ بطریق استہزاء مذمت زمانہ جاہلیت کی باتیں کرتے رہتے اور ہنسا کرتے ان کے ساتھ آنحضرت ﷺ بھی مسکراتے رہتے (مسلم) ترمذی کی روایات میں یوں ہے کہ اس دوران صحابہ کرام اشعار پڑھنے سننے میں لگے رہتے۔ تشریح اشعار سے مراد وہ اشعار ہیں جو بیان تو حید، منقبت رسالت اور ترغیب و ترہیب کے مضامین پر مشتمل ہوتے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمانہ جاہلیت کی باتیں کرنا اور ان پر ہنسنا جائز ہے۔

【128】

آنحضرت ﷺ بہت مسکراتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے زیادہ کسی اور شخص کو مسکراتے نہیں دیکھا۔ (ترمذی)

【129】

صحابہ کے ہنسنے کا ذکر۔

حضرت ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) سے دریافت کیا گیا کہ کیا رسول اللہ کے صحابہ ہنسا کرتے تھے حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ ہاں، حالانکہ ان کے دلوں میں پہاڑ سے بھی بڑا ایمان تھا اور حضرت بلال ابن سعد تابعی کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کو اس حال میں پایا کہ وہ دن میں تیر اندازی کی مشق کے وقت تیر کے نشانوں کے درمیان دوڑا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی باتوں پر ہنسا کرتے تھے مگر جب رات آتی تو وہ اللہ سے بہت ڈرنے والے ہوجاتے۔ (شرح السنہ) تشریح حالانکہ ان کے دلوں میں پہاڑ سے بھی بڑا ایمان تھا کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب ہنسنے مسکرانے کا موقع ہوتا تو وہ ہنسا کرتے تھے لیکن اس طرح نہیں ہنستے تھے جیسے اہل غفلت اور دنیا دار لوگ ہنستے ہیں کیوں کہ ایسی ہنسی جو حد سے بڑھی ہوئی ہو دل کو غافل کردیتی ہے اور نور ایمان میں خلل ڈالتی ہے چناچہ صحابہ ہنسنے کی حالت میں شرعی آداب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے اور اپنے ایمان کو کامل درجہ پر باقی رکھتے تھے۔ تو وہ اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے والے ہوجاتے کا مطلب یہ ہے کہ جب رات آتی تو صحابہ دنیا کے سارے کام کاج اور آرام و اراحت چھوڑ کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوجاتے اور خوف الٰہی کے غلبہ سے روتے گڑا گڑاتے اور مناجات والتجا میں مصروف رہتے۔

【130】

اسماء کا بیان

اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے ناموں کے احکام واضح ہوں گے اور یہ معلوم ہوگا کہ کس طرح کے نام رکھنے چاہییں کون سے نام اچھے ہیں اور کون سے نام برے ہیں۔

【131】

آنحضرت ﷺ کی کنیت پر اپنی کنیت مقرر نہ کرو

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن آنحضرت ﷺ بازار میں تھے کہ ایک شخص نے کسی کو ابوالقاسم کہہ کر پکارا، آپ نے پلٹ کر اس شخص کی طرف دیکھا اس نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو نہیں پکارا بلکہ اس شخص کو آواز دی تھی اور یہ کہہ کر ایک شخص کی طرف اشارہ کیا جو وہاں موجود تھا آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم میرے نام پر نام رکھ لو لیکن میری کنیت پر کنیت مقرر نہ کرو۔

【132】

نبی کی کنیت پر اپنی کنیت مقرر نہ کرو

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میرے نام پر نام رکھا کرو لیکن میری کنیت پر کنیت مقرر نہ کرو کیونکہ مجھ کو قاسم قرار دیا گیا ہے اور میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں (بخاری، مسلم) تشریح کنیت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی ذات کی نسبت باپ یا بیٹے کی طرف کر کے اپنے کو مشہور و متعارف کرائے جیسے ابن فلاں، یا ابوفلاں، یعنی فلاں کا بیٹا فلاں کا باپ وغیرہ، یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ کنیت اس نام کو کہتے ہیں جو باپ، بیٹا، یا بیٹی، ماں کے تعلق سے بولا جائے۔ اور میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ مجھ کو جو علم اور حکمت دینی احکام و مسائل اور دنیاوی دولت جیسے مال غنیمت وغیرہ عطا کرتا ہے اس کو میں مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرتا ہوں بعض حضرات کے نزدیک یہ تقسیم کرتا ہوں سے مراد یہ ہے کہ میں اللہ کے نیک بندوں کو جنت اور دوسری نعمتوں کی بشارت و خوش خبری دیتا ہوں اور بدکار لوگوں کو دوزخ وغیرہ سے ڈراتا ہوں لہذا یہ صفت چونکہ تمہارے اندر موجود نہیں ہے اور تم اس مقام پر فائز نہیں ہو اس لئے تم میری کنیت کو اختیار کرنے کے مجاز نہیں البتہ اپنا نام یا اپنی اولاد کا نام لفظ اور صورۃ میرے نام رکھ سکتے ہو، حاصل یہ ہے کہ میں محض اس سب سے ابوالقاسم نہیں ہوں کہ میرے بیٹے کا نام قاسم ہے بلکہ مجھ میں قاسمیت کے معنی کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے، بایں اعتبار کہ مجھ کو دینی و دنیاوی امور دولت کا تقسیم کنندہ قرار دیا گیا ہے لہذا جب میں نہ تو ذات کے اعتبار سے اور نہ صفات کے اعتبار سے تم میں سے کسی بھی شخص کی مانند ہوں تو تم کو میری کنیت پر اپنی کنیت مقرر نہ کرنی چاہے۔ واضح رہے کہ اس صورت میں ابو کے معنی باپ کے نہیں ہوں گے بلکہ اس وصف کے مالک ہوں گے جیسا کہ کسی شخص کو ابوالفضل کہا جائے درآنحالیکہ اس کے بیٹے کا نام فضل نہ ہو۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی کنیت پر مقرر کرنے کی ممانعت کا تعلق خاص طور پر آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے تھا تاکہ تخاطب کے وقت ذات نبوی اور دوسرے لوگوں کے درمیان اشتباہ کی صورت پیدا نہ ہو جیسا کہ ملا علی قاری نے لکھا ہے یہی قول صحیح ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں سے واضح ہوتا ہے کہ محمد نام رکھنا تو جائز ہے لیکن ابوالقاسم کنیت مقرر کرنا جائز نہیں خواہ یہ صورت ہو کہ جس شخص کا نام محمد ہو وہ ابوالقاسم کو اپنی کنیت قرار دینا چاہے اور خواہ یہ صورت ہو کہ نام کچھ اور ہو اور محض کنیت ابوالقاسم کرنا چاہے، حاصل یہ ہے کہ کسی بھی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ابوالقاسم کو اپنی کنیت قرار دے خواہ اس کا نام محمد ہو یا کچھ اور ہو چناچہ حضرت امام شافعی اور اصحاب ظواہر کا یہی قول ہے اور وہ انہیں حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں دوسرا قول محمد شیبانی کا ہے اور وہ یہ ہے کہ نام اور کنیت کو ایک ساتھ جمع کرنا درست نہیں ہے یعنی جس کا نام محمد ہو وہ اپنی کنیت ابوالقاسم نہ رکھے البتہ جس کا نام محمد نہ ہو اس کو صرف ابوالقاسم کہنا کہلانا جائز ہے ان کے نزدیک ان دونوں حدیثوں کا مطلب یہی ہے کہ کوئی شخص اپنی ذات کے لئے اس نام و کنیت کو ایک ساتھ اختیار نہ کرے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ دونوں کو جمع کرنا بھی جائز ہے یعنی جس شخص کا نام محمد ہو وہ بھی اپنی کنیت ابوالقاسم رکھ سکتا ہے اس قول کی نسبت حضرت امام مالک کی طرف کی جاتی ہے ان کا کہنا ہے کہ جن احادیث میں اس کی ممانعت منقول ہے وہ منسوخ ہیں چناچہ ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ اس ممانعت کا تعلق آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک سے تھا آپ کے بعد یہ جائز ہے اس جماعت کی دلیل حضرت علی (رض) کی یہ حدیث ہے کہ جب انہوں نے آنحضرت ﷺ سے یہ عرض کیا کہ اگر آپ کے بعد میرے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو میں اس کا نام اور کنیت آپ کے نام و کنیت کی طرح رکھ لوں گا تو آپ نے ان کو اجازت عطا فرمائی، چناچہ حضرت محمد بن الحنفیہ جو آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد پیدا ہوئے تھے حضرت علی (رض) نے ان کی کنیت ابوالقاسم رکھی، ایک جماعت کہ جس کا قول ناقابل اعتماد ہے یہ کہتی ہے کہ کسی شخص کو نبی کا نام رکھنا بھی جائز نہیں ہے۔ مذکورہ بالا تمام اقوال کی روشنی میں جو قول سب سے صحیح اور حنفی مسلک کے مطابق ہے وہ یہ ہے کہ نبی کا نام رکھنا تو جائز بلکہ مستحب ہے لیکن نبی کی کنیت پر اپنی کنیت رکھنا اگرچہ اس کا تعلق نبی کے بعد سے ہو، ممنوع ہے اس اعتبار سے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں یہ ممنوع تر تھا اسی طرح نام اور کنیت دونوں کو جمع کرنا بطریق اولی ممنوع ہوگا جہاں تک حضرت علی (رض) کے بارے میں مذکور بالا روایت کا تعلق ہے تو وہ ان کے ساتھ ایک مخصوص معاملہ تھا جیسا کہ حدیث کے سیاق سے واضح ہوتا ہے لہذا ان کے علاوہ کسی اور کو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی کنیت پر اپنی کنیت رکھے اس کی تائید ابن عساکر کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو جمع الجوامع میں حضرت علی (رض) سے منقول ہے کہ ایک دن اسی مسئلہ پر حضرت علی (رض) اور حضرت طلحہ (رض) کے درمیان گفتگو ہو رہی تھی تو حضرت طلحہ (رض) نے حضرت علی (رض) سے کہا کہ آپ نے اپنے لڑکے کا آنحضرت ﷺ کے نام پر محمد رکھا ہے اور اس کی کنیت بھی آنحضرت ﷺ کی کنیت پر ابوالقاسم رکھی ہے حالانکہ آنحضرت ﷺ نے کسی ایک شخص کے لئے ان دونوں کو جمع کرنے سے منع فرمایا ہے حضرت علی (رض) نے قریشی صحابہ کو بلوایا ان سب نے حاضر ہو کر گواہی دی کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی (رض) کو مخصوص طور پر اس بات کی اجازت دیدی تھی کہ وہ آنحضرت ﷺ کے بعد اپنے ہونے والے بچے کا نام و کنیت آپ کے نام و کنیت پر رکھ لیں۔

【133】

عبداللہ اور عبدالرحمن سب سے بہتر نام ہیں۔

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل کے نزدیک تمہارے ناموں میں سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔ (مسلم) تشریح بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس ارشاد گرامی سے مراد ہے کہ یہ دونوں نام عبداللہ اور عبدالرحمن انبیاء کے ناموں کے بعد سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں اس اعتبار سے کہا جائے گا یہ دونوں نام اسم محمد سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہیں بلکہ پسندیدگی میں ان دونوں کا درجہ تو اسم محمد کے درجہ سے کم ہے یا برابر ہے۔

【134】

چند ممنوع نام

اور حضرت سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا اپنے غلام کا نام یسار، رباح، نجیح اور افلح نہ رکھو کیوں کہ اگر کسی وقت تم نے کسی شخص سے پوچھا کہ کیا وہ (مثلا) یسار یا رباح یہاں ہے اور فرض کرو وہ وہاں نہ ہوا تو جواب دینے والا کہے گا کہ وہ یعنی یسار یا رباح یہاں نہیں ہے۔ (مسلم) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا اپنے غلام کا نام، رباح، یسار افلح اور نافع نہ رکھو۔ تشریح یسار، یسیر سے ہے کہ جس کے معنی فراخی اور تونگری کے ہیں، رباح، ربح سے ہے جس کے معنی فائدہ اور نفع کے ہیں نجیح نجح سے ہے جس کے معنی فتح مندی یا مطلب یابی کے ہیں، افلح، فلاح سے ہے جس کے معنی کامیابی و نجات کے ہیں اور نافع نفع سے ہے جس کے معنی فائدہ کے ہیں۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے نام رکھنے ممنوع ہیں کیونکہ مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے یسار نام رکھا اور کسی وقت گھر والوں سے پوچھا کہ یہاں یسار ہے ؟ گھر والوں نے جواب دیا کہ گھر میں یسار نہیں ہے تو اگرچہ اس صورت میں متعین ذات مراد ہوگی مگر لفظ یسار کے حقیقی معنی کے اعتبار سے مفہوم یہ ہوگا کہ گھر میں فراخی و تونگری نہیں ہے اور اس طرح کہنا برائی کی بات ہے اس پر دوسرے مذکورہ بالا الفاظ کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ مسلم کی روایت میں نجیح کے بجائے نافع کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ ممانعت کا تعلق محض انہی ناموں سے نہیں ہے بلکہ اور دوسرے نام بھی جو ان الفاظ کے معنی میں ہوں یہی حکم رکھتے ہیں۔ امام نووی فرماتے ہیں ہمارے علماء نے کہا ہے کہ اس طرح کے نام رکھنے مکروہ تنزیہی ہیں نہ کہ مکروہ تحریمی۔

【135】

چند ممنوع نام

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے یہ ارادہ فرمایا تھا کہ یعلی، برکت، افلح، یسار، نافع اور اس طرح کے دورے نام رکھنے سے لوگوں کو منع فرما دیں لیکن پھر میں نے دیکھا کہ اس ارادہ کے بعد آپ نے سکوت فرمایا یہاں تک کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور ان ناموں کے رکھنے سے منع نہیں فرمایا۔ (مسلم) تشریح اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا طرح کے نام رکھنے کی ممانعت نافذ نہیں ہوئی ہے جب کہ پچھلی حدیث ممانعت کے نفاذ پر واضح طور سے دلالت کرتی ہے اس تضاد کو دور کرنے کے لئے یحییٰ کہتے ہیں کہ گویا حضرت جابر (رض) نے ممانعت کی علامتوں کو دیکھا اور وہ چیز سنی جو ممانعت کی طرف اشارہ کرتی ہے چونکہ انہوں نے ممانعت کا حکم صریح طور سے نہیں سنا تھا اس لئے اس مسئلہ کو انہوں نے مذکورہ اسلوب میں بیان کیا لیکن یہ ممانعت چونکہ حدیث صحیح سے ثابت ہوئی ہے اس لئے یہی کہا جائے گا کہ ممانعت ثابت ہے علاوہ ازیں ملا علی قاری کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس تضاد دور کرنے کے لئے ایک اور تاویل ہے وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ کے ارادہ کا تعلق دراصل اس ممانعت کو نہی تحریمی کے طور پر نافذ کرنے سے تھا کہ ناموں کا مسئلہ ایسا ہے جس کی طرف لوگ زیادہ توجہ نہیں دیں گے اور اچھے و برے ناموں میں فرق و امتیاز کرنے کے پابند نہیں ہوں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی وجہ سے امت کے لوگ دینی نقصان میں مبتلا ہوں گے لہذا کہا جائے گا کہ جس روایت سے ممانعت کا عدم نفاذ ثابت ہوتا ہے اس کا تعلق نہی تحریمی سے ہے اور حقیقت میں مسئلہ بھی یہی ہے کہ مذکورہ طرح کے نام رکھنا مکروہ تنزیہی ہے مکروہ تحریمی نہیں ہے۔

【136】

شہنشاہ کا نام ولقب اختیار نہ کرو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین شخص وہ ہوگا جس کو شہنشاہ کا نام دیا جائے۔ (بخاری) اور مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین اور سب سے بدتر وہ شخص ہوگا جس کو شہنشاہ کا نام دیا جائے یاد رکھو اللہ کے سوا کوئی بادشاہ نہیں۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی بادشاہ نہیں ہے چہ جائے کہ کسی کو شہنشاہ یعنی بادشاہوں کا بادشاہ کہا جائے اور صف شہنشاہیت ایک ایسا وصف ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہے کہ اس وصف میں کسی مخلوق کے شریک ہونے کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔

【137】

ایسا نام نہ رکھو جس سے نفس کی تعریف ظاہر ہو

اور حضرت زینب بنت ابی سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میرا نام برہ یعنی نیکو کار رکھا گیا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے نفس کی تعریف نہ کرو تم میں جو شخص نیکو کار ہے اس کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اس بچی کا نام زینب رکھو۔ مسلم۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسا نام نہ رکھنا چاہیے جس کے لفظی مفہوم سے نفس کی تعریف ظاہر ہو کیونکہ اس کی وجہ سے نفس میں بڑائی پیدا ہوجاتی ہے۔

【138】

ایسا نام نہ رکھو جس سے نفس کی تعریف ظاہر ہو

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی ایک زوجہ مطہرہ حضرت جویریہ (رض) کا نام برہ تھا لیکن رسول اکرم ﷺ نے ان کا یہ نام بدل کر جویریہ رکھ دیا کیونکہ آنحضرت ﷺ کو یہ پسند نہیں تھا کہ کوئی شخص یوں کہے کہ آپ برہ کے پاس سے نکلے۔ مسلم تشریح برہ کے معنی نیکو کار کے ہیں لہذا آپ نے اس لفظ کے اصل معنی کے اعتبار سے اس کو پسند نہیں کیا کہ جب برہ کے گھر سے نکلیں یوں کہا جائے کہ آپ برہ یعنی نیکو کار کے پاس سے نکلے کیونکہ نیکو کار کے پاس سے نکلنا کوئی اچھی بات نہیں سمجھی جاتی، وکان یکرہ کے بارے میں بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ اپنی مذکورہ ناپسندیدگی کے بارے میں خود آنحضرت ﷺ نے اپنے متعلق ان الفاظ کے ذریعہ خبر دی ہوگی۔ واضح رہے کہ اس حدیث میں برہ یا اس طرح کا کوئی اور نام رکھنے کی ممانعت کا سبب مذکورہ ناپسندیدگی کو قرار دیا گیا ہے جب کہ حضرت زینب (رض) کے بارے میں اس ممانعت کا سبب تزکیہ نفس کی تعریف کو قرار دیا گیا ہے لیکن ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ اسباب کے درمیان کوئی مزاحمت نہیں ہوا کرتی ایک چیز کے دو مختلف سبب ہوسکتے ہیں چناچہ جن دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ دونوں مذکورہ ممانعت کا سبب بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں علاوہ ازیں ہوسکتا ہے کہ زینب (رض) کے خاندان و قبیلہ کے لوگوں سے معلوم کرنے کے بعد یہ واضح ہوا ہوگا کہ انہوں نے زینب (رض) کا نام برہ واقعۃ ان کے نفس کی تعریف اور مدح وثناء کے قصد سے رکھا تھا جب کہ حضرت جویریہ (رض) کے حق میں اس ممانعت کا سبب آنحضرت ﷺ کے برہ کے پاس سے نکلے کہے جانے کی ناپسندیدگی کو قرار دیا اور یہ بات تھی بھی کہ ازواج مطہرات کے پاس آنحضرت ﷺ کے جانے آنے کے بارے میں عام طور پر اسی طرح کہا جاتا تھا کہ آنحضرت ﷺ فلاں زوجہ مطہرہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں یا آنحضرت ﷺ فلاں زوجہ مطہرہ کے ہاں سے نکلے ہیں نیز اس احتمال کو بھی ملحوظ رکھا جاسکتا ہے کہ جس طرح یسار اور نجیح وغیرہ جیسے ناموں کی ممانعت کے سلسلے میں بد فالی کا اعتبار کیا گیا ہے اس طرح برہ کے سلسلے میں بھی اس کا اعتبار ہو اور جس طرح برہ کے سلسلے میں تزکیہ و کراہت کا اعتبار کیا گیا ہے اسی طرح یسار اور نجیح وغیرہ کے سلسلہ میں اس کا اعتبار ہو۔

【139】

برے نام کو بدل دینا مستحب ہے۔

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) کی ایک بیٹی تھی جس کا نام عاصیہ بمعنی گناہگار کہا جاتا تھا چناچہ رسول اکرم ﷺ نے اس کا نام جمیلہ رکھا۔ (مسلم) تشریح زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کا نام عاصی یا عاصیہ رکھتے تھے اس کے لفظی معنی نافرمان، سرکش، متکبر اور اللہ اور اس کے دین کا مخالف ہیں چناچہ زمانہ اسلام کے ظہور کے بعد آنحضرت ﷺ نے اس طرح کے نام رکھنے کو ناپسند فرمایا اور جس کسی کا نام عاصیہ یا عاصی تھا اس کو بدل کر دوسرا نام رکھ دیا اس سے معلوم ہوا کہ برے ناموں کو بدل دینا مستحب ہے۔

【140】

برے نام کو بدل دینا مستحب ہے۔

اور حضرت سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ منذر بن ابی اسید جب پیدا ہوئے تو ان کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لایا گیا آپ نے ان کو اپنی ران مبارک پر رکھا اور پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے ؟ لانے والے نے بتایا کہ فلاں نام ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ نام اچھا نہیں بلکہ اس کا نام منذر ہے۔ (بخاری، مسلم) تشریح فلاں نام ہے یعنی ماں باپ یا خاندان والوں نے جو لکھا تھا لانے والے اس کو بیان کیا چونکہ راوی کو وہ نام معلوم نہیں تھا اس لئے انہوں نے اس طرح نقل کیا ہے۔ منذر اصل میں انذار سے مشتق ہے جس کے معنی تبلیغ احکام اور عذاب الٰہی سے ڈرانے والے کے ہیں۔

【141】

اپنے غلام اور باندی کو میرا بندہ یا میری بندی نہ کہو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام اور باندی کو عبدی میرا بندہ اور امتی میری لونڈی نہ کہے تمہارے سب مرد اللہ کے بندے اور تمہاری سب عورتیں اللہ کی لونڈیاں ہیں بلکہ یوں کہے میرا غلام یعنی میرا لڑکا اور میری جاریہ یعنی میری لڑکی، یا میرا خادم اور میری خادمہ اسی طرح کوئی غلام اپنے مالک کو میرا رب نہ کہے بلکہ میرا سردار کہنا چاہیے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ کوئی اپنے غلام کو اپنے مالک کو میرا مولیٰ نہ کہے کیونکہ تمہارا مولیٰ صرف اللہ ہے۔ (مسلم) تشریح جب غلام اور باندی رکھنے کا رواج تھا تو لوگ ان کو ایسے الفاظ کے ذریعہ یاد اور مخاطب کیا کرتے تھے جو اپنے معنی کے اعتبار سے بالکل غیر موزوں ہوتے تھے، مثلا زمانہ جاہلیت میں اہل عرب جب اپنے غلام یا اپنی باندی کو مخاطب کرتے تو اس طرح کہتے، یا عبدی اے میرے بندے اور یا امتی، یعنی اے میری لونڈی، ظاہر ہے کہ لفظ عبد ایک مخصوص مفہوم کا حامل ہے اور اسلامی عقیدے کے مطابق انسان اللہ ہی کا عبد بندہ ہے اور ہوسکتا ہے ایک دوسرے انسان کا بندہ نہیں ہوسکتا کیونکہ عبد یا بندہ عبادت کرنے والے کو کہتے ہیں اور عبادت صرف اللہ ہی کی ہوسکتی ہے کسی مخلوق کی نہیں، اس اعتبار سے اگر کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو اپنا عبد یعنی بندہ کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر وہ یا تو حقیقت عبدیت میں شرک کا مرتکب ہو رہا ہے یا شرک کا مرتکب نہ سہی ارتکاب شرک کے گمان کا سبب بن رہا ہے لہذا آپ نے اس لفظ کو استعمال کرنے سے منع فرمایا اسی طرح قاموس کے مطابق لفظ امتہ کے معنی مملوکہ کے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ کسی بھی انسان کی حقیقی ملکیت صرف اللہ کو حاصل ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی ملکیت کا دعوی کرے لہذا آپ نے اس لفظ کو بھی استعمال کرنے سے منع فرمایا۔ جن الفاظ کے ذریعہ غلام و باندی کو یاد اور مخاطب کرنے کی اجازت دی گئی ہے ان میں سے غلام کے معنی لڑکے کے ہیں جاریہ کے معنی لڑکی کے ہیں، فتی کے معنی جوان مرد اور فتاۃ کے معنی جوان عورت کے ہیں ظاہر ہے کہ ان الفاظ کے استعمال میں نہ صرف یہ کہ مفہوم کے اعتبار سے کوئی غیر موزونیت نہیں ہے بلکہ ان الفاظ کے ذریعہ ایک طرح سے غلام و باندی کے تئیں شفقت و محبت اور یگانگت و رواداری کے جذبات کا بھی اظہار ہوتا ہے رہی یہ بات کہ فتی اور فتاۃ جوان مرد اور جوان عورت کو کہتے ہیں تو ان الفاظ کا اطلاق ان غلام اور باندی پر کیسے ہوگا جو عمر رسیدہ اور بوڑھے ہوں تو اس بارے میں یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ غلام اور باندی خواہ وہ کتنے ہی بوڑھے ہوں عام طور پر ان کے آقا اور مالک ان کے ساتھ چھوٹوں اور جوانوں ہی کا سا معاملہ رکھتے تھے اور ان کو بڑھاپے کا وہ لحاظ و احترام نہیں کرتے تھے جو ان کی عمر کے دوسرے لوگوں یعنی آزاد بڑھیوں کا ہوتا تھا علاوہ ازیں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خدمت گاری اور کام کاج کے سلسلے میں چونکہ بوڑھے غلام و باندی بھی جوانوں جیسی مستعدی اور چستی رکھتے تھے اس لئے ان کو بھی فتی اور فتاۃ کہا جاتا تھا۔ حاصل یہ کہ اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنے غلام اور باندی کو ایسے الفاظ کے ذریعہ مخاطب کرنا ہی ہو جوان کی حثییت و رتبہ کو واضح کرسکیں تو اس مقصد کے لئے عبد اور امتہ سے بہتر مذکورہ الفاظ ہیں تاہم علماء نے یہ لکھا ہے کہ عبد اور امتہ کے الفاظ کے استعمال کی اس ممانعت کا تعلق اس صورت میں ہے جب کہ اپنے غرور وتکبر کے اظہار اور باندی کو حقیر و ذلیل جاننے کے طور پر ہو، ورنہ غلام و باندی پر لفظ عبد اور امتہ کا اطلاق خود قرآن و حدیث میں منقول ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا آیت (والصالحین من عبادکم ومائکم) اور آیت (ضرب اللہ مثلا عبدا مملوکا لایقدر علی شئی) ، اس طرح بہت احادیث میں بھی غلام اور باندی کو لفظ عبد اور امتہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس طرح مالکوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے غلام و باندی کو ناشائستہ اور غیر موزوں الفاظ کے ذریعہ مخاطب نہ کریں چناچہ فرمایا گیا کہ کوئی غلام و باندی اپنے آقا کو ربی میرا رب نہ کہے کیوں کہ اگرچہ رب کے معنی تربیت و پرورش کرنے والے کے ہیں اور ظاہری مفہوم کے اعتبار سے ایک آقا کو اپنے غلام و باندی کا تربیت و پرورش کرنے والا کہا جاسکتا ہے لیکن ربوبیت علی الاطلاق ایک ایسی خاص صفت ہے جو صرف اللہ کی ذات سے متعلق ہے لہذا کسی انسان کو رب کہنا شرک کے گمان کا باعث ہے لیکن واضح رہے کہ اس ممانعت کا تعلق بھی اس صورت سے ہے جب کہ اس لفظ کے استعمال کا مقصد اپنے مالک کی تعظیم ہو، ورنہ مالک پر لفظ رب کا اطلاق بھی قرآن کریم سے ثابت ہے جیسا کہ فرمایا گیا، اذکرنی عند ربک، غلام و باندی کو اپنے مالک کے تئیں جس لفظ کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے وہ سید ہے اور یہ ظاہر ہے کہ مالک کو اپنے غلام باندی پر سیادت و فضیلت اور امارت و ریاست حاصل ہوتی ہے اس اعتبار سے غلام و باندی کا اپنے مالک کو یا سیدی یعنی اے میرے سردار یا اے میرے آقا کہہ کر مخاطب کرنا موزوں و مناسب ہے۔ واضح رہے کہ ایک روایت میں تو غلام و باندی کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مالک کو مولیٰ کہیں لیکن دوسری روایت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ کوئی غلام و باندی اپنے مالک کو مولیٰ نہ کہے ان دونوں روایتوں کے درمیان پائے جانے والے ظاہری تضاد کو اس تاویل کے ذریعہ دور کیا جاتا ہے کہ مولیٰ کے کئی معنی آتے ہیں جیسے متصرف، و منتظم، ناصر اور معین وغیرہ چناچہ غلام و باندی کو اپنے مالک کے تئیں، مولی، کا لفظ استعمال کرنے کی اجازت و جواز کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ وہ اس کے معنی مراد نہ لیں جو حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں ہاں جس معنی کا اطلاق بندوں کی ذات پر بھی ہوسکتا ہے جیسے متصرف، منتظم تو ان معنی کو مراد لیتے ہوئے مالک کے لئے لفظ مولیٰ کا استعمال کیا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ مولیٰ کا اطلاق معتق اور معتق پر کیا جاتا ہے، جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد مولیٰ القوم من انفسھم یا طبری کی روایت میں ہے مولیٰ الرجل اخوہ اور مالک کو مولیٰ کہنے کی ممانعت و عدم جواز کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ اس کے معنی وہ مراد لئے جائیں جو حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں جیسے ناصر اور معین وغیرہ کیونکہ ان کے معنی کے اعتبار سے مولیٰ کے حقیقی معنی صرف حق تعالیٰ ہے جیسا کہ یہ فرمایا گیا نعم المولی و نعم النصیر، اس تا کی روشنی میں دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد باقی نہیں رہا حاصل یہ کہ اس مسئلے میں وہی ضابطہ پیش نظر رہے گا جو پہلے گزر چکا کہ اگر لفظ مولیٰ کا استعمال غایت تعظیم کے طور پر ہو تو ممانعت کا حکم نافذ ہوگا ورنہ بصورت دیگر اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔

【142】

انگور کو کرم کہنے کی ممانعت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) آنحضرت ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا (انگور کے درخت کو) کرم نہ کہو کیونکہ مومن کا دل ہے۔ مسلم۔ اور مسلم ہی کی ایک حدیث میں حضرت وائل بن حجر (رض) سے یوں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا انگور کے درخت کو کرم نہ کہو بلکہ عنب اور حبلہ کہو۔ تشریح حبلہ، حاء اور باء کے زبر کے ساتھ، یاہاء کے زبر اور باء کے جزم کے ساتھ۔ اصل میں انگور کے درخت یا ایک قول کے مطابق انگور کی جڑ یا شاخ کو کہتے ہیں بعض مواقع پر مجازا انگور کو بھی حبلہ کہا گیا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انگور کو عنب یا حبلہ کہو یا اس کے اور جو نام ہیں وہ لیا کرو، لیکن اس کو کرم نہ کہا جائے اس کی ممانعت کا ایک پس منظر ہے اور وہ یہ کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب انگور کو کرم کہا کرتے تھے کیونکہ انگور سے شراب بنتی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ اس شراب کے پینے سے آدمی میں سخاوت و ہمت اور جود و کرم کے اوصاف پیدا ہوتے ہیں چناچہ جب شریعت نے شراب کو حرام کردیا اور وہ ایک نجس و ناپاک چیز قرار پائی تو آنحضرت ﷺ نے انگور کو کرم کہنے سے منع فرمایا کیونکہ ایک ایسی چیز کو مذکورہ نام کے ذریعہ کرم و خیر کے ساتھ متصف کرنا جو شراب جیسی ناپاک چیز کی جڑ ہے مناسب نہیں سمجھا گیا جب کہ انگور کو اتنے عمدہ نام یاد کرنے کا مطلب ایک حرام چیز کی تعریف و توصیف کا راستہ اختیار کرنا ہے اور اس کی طرف سے دل و دماغ کو رغبت دلانا ہے نیز آپ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ کرم ایک ایسا اعلی لفظ ہے جو اپنے وسیع مفہوم کے اعتبار سے تمام بھلائیوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس اعتبار سے اس لفظ کا مصداق مومن اور اس کا قلب ہی ہوسکتا ہے جو علم وتقوی کے نور کا مخزن اور اسرار معارف کا منبع ہے۔

【143】

زمانہ کو برا نہ کہو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ انگور کو کرم نہ کہو اور یہ نہ کہو کہ اے نا امیدی زمانہ کی کیونکہ بلاشبہ اللہ ہی کے اختیار میں زمانہ ہے (بخاری) تشریح زمانہ جاہلیت میں عام طور پر لوگوں کی عادت تھی کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی یا وہ کسی آفت میں مبتلا ہوتے تو یوں کہتے، یا خبیبۃ الدھر اور اس لفظ کے ذریعہ گویا وہ زمانہ کو برا کہتے تھے جیسا کہ اب بھی جاہلوں کی عادت ہے کہ وہ بات بات پر زمانہ کو برا بھلا کہتے ہیں چناچہ آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو اس سے منع فرمایا کیونکہ زمانہ بذات خود کوئی چیز نہیں ہے حالات میں الٹ پھیر اور زمانہ کے انقلابات مکمل طور پر اللہ کے قدرت قبضہ میں ہیں کہ جس بھلائی و برائی اور مصیبت و راحت کی نسبت زمانہ کی طرف کی جاتی ہے حقیقت میں وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور وہی فاعل حقیقی ہے پس زمانہ کو برا کہنا دراصل اللہ کو برا کہنا ہے۔

【144】

زمانہ کو برا نہ کہو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں کوئی شخص زمانہ کو برا نہ کہے کیونکہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی زمانہ کو الٹ پھیر کرنے والا ہے۔ مسلم)

【145】

امتلاء نفس کو|" خباثت نفس|" سے تعبیر نہ کرو۔

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص یوں نہ کہے کہ میرا جی برا ہوا بلکہ لقست نفسی کہے۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت یوذینی ابن ادم باب الایمان میں نقل کی جا چکی ہے۔ تشریح خبثت نفسی اور لقست نفسی یہ دونوں لفظ اگر معنی کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں رکھتے بلکہ عربی میں ان دونوں کے معنی ایک ہی ہیں، یعنی جی متلانا اور طبیعت کا فاسد ہونا، لیکن آنحضرت ﷺ نے خبثت نفسی کہنے کو ناپسند فرمایا کیونکہ لفظ، خبث کی وجہ سے نہ صرف یہ جملہ قبیح ہوجاتا ہے بلکہ مومن کا لفظ خبث کو اپنے نفس کی طرف منسوب کرنا بھی لازم آتا ہے جو ایک مناسب بات نہیں ہے۔

【146】

ابوالحکم، کنیت کی ناپسندیدگی۔

حضرت شریح بن ہانی (رض) اپنے والد حضرت ہانی (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ جب وہ اپنی قوم کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے سنا کہ ان کی قوم ان کو ابوالحکم کی کنیت کے ذریعہ یاد و مخاطب کرتی ہے چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کو بلایا اور فرمایا کہ حکم تو صرف اللہ ہے اور حکم اسی کی طرف سے ہے پھر تم نے اپنی کنیت ابوالحکم کیوں مقرر کی ؟ حضرت ہانی (رض) نے عرض کیا کہ میری قوم مجھ کو ابوالحکم کی کنیت کے ذریعہ اس لئے پکارتی ہے کہ جب میری قوم کے لوگ کسی معاملہ میں اختلافات کا شکار ہوتے ہیں تو میرے پاس آتے ہیں اور میں ان کے معاملہ میں جو فیصلہ کرتا ہوں وہ دونوں فریق تسلیم کرلیتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ یعنی لوگوں کے تنازعات کو نمٹانا اور ان کے درمیان فیصلہ و حکم کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن یہ بتاؤ تمہارے کتنے بچے ہیں اور ان کے نام کیا ہیں انہوں نے کہا میرے تین بچے ہیں جن کے شریح، مسلم اور عبداللہ ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ ان تینوں میں بڑا کون ہے ؟ حضرت ہانی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا شریح ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا تو پھر آج سے تم ابوشریح ہو۔ (نسائی) تشریح کنیت کبھی تو کسی وصف وصفت کی طرف نسبت کر کے مقرر کی جاتی ہے جیسے کوئی شخص اپنی کنیت ابوالفضل یا ابوالحکم اور ابوالخیر وغیرہ مقرر کرے کبھی اولاد کی طرف نسبت کر کے مقرر کی جاتی ہے جیسے ابوسلمہ یا ابوشریح وغیرہ، کبھی کنیت کا تعلق کسی ایسی خاص چیز کی طرف نسبت کرنے سے ہوتا ہے جس کے ساتھ انتہائی اختلاط اور ربط ہو جیسے ابوہریرہ چناچہ مشہور صحابی حضرت ابوہریرہ (رض) کا اصل نام عبداللہ تھا کہتے ہیں کہ ایک بلی ان کے پاس رہا کرتی تھی ایک دن وہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس بلی کو آستین میں لئے ہوئے آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ بلی ہے آپ نے فرمایا یا اباہریرہ، بس اس دن سے ان کی کنیت ابوہریرہ مشہور ہوگئی اور کبھی کنیت محض علمیت کے لئے یعنی اصل نام کے طور پر ہوتی ہے جیسے ابوبکر اور ابوعمر وغیرہ۔ اور حکم اسی کی طرف سے ہے سے آنحضرت ﷺ کی مراد یہ تھی کہ حقیقی حکم اللہ کی ذات ہے اور ہر حکم و فیصلہ کی ابتداء و انتہا اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے کہ نہ صرف اس کے حکم و فیصلہ کو کوئی رد نہیں کرسکتا بلکہ اس کا حکم فیصلہ حکمت و دانائی سے خالی نہیں ہوتا اس اعتبار سے یہ وصف چونکہ اللہ کی صفات کے ساتھ خاص ہے اور وہی اس صفت کا سزا وار ہے اس لئے کسی دوسرے کو مناسب نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ابوالحکم یعنی حکم و فیصلہ کا مالک کہے یا کہلائے کیونکہ اس صورت میں اللہ کے اس وصف خاص میں غیر اللہ کے شریک ہونے کا گمان پیدا ہوتا ہے اور بات ہے ابوت وابنیت کے وہم کی وجہ سے اس کی ذات پر ابوالحکم کا اطلاق نہیں ہوتا۔

【147】

|" اجدع|" شیطانی نام ہے

حضرت مسروق (تابعی) کہتے ہیں کہ جب میں حضرت عمر (رض) سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ میں اجدع کا بیٹا مسروق ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے (میرے باپ کا نام اجدع سن کر) فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اجدع ایک شیطان کا نام ہے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح اجدع اصل میں اس کو کہتے ہیں جس کے کان، ناک، ہونٹ اور ہاتھ کٹے ہوئے ہوں اور کنایۃ اس نام کا اطلاق اس شخص پر کیا جاتا ہے جس کی کسی بات میں کوئی وزن اور دلیل نہ ہو اسی مناسبت سے ایک شیطان کو اجدع کہا جاتا ہے۔ حضرت عمر (رض) کا حضرت مسروق (رض) کے بارے میں پوچھنا اور پھر آنحضرت ﷺ کا مذکورہ ارشاد نقل کرنا گویا تفتن طبع کے طور پر تھا اور اس کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود تھا کہ اگر تمہارے والد حیات ہوں تو ان کا یہ نام بدل دو ۔

【148】

اچھے نام رکھو

اور حضرت ابودرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تم کو تمہارے اور تمہارے باپ کے ناموں سے پکارا جائے گا لہذا تم اپنے اچھے نام رکھو۔ (احمد، ابوداؤد) تسریح تم اچھے نام رکھو اس ارشاد کے ذریعہ تمام بنی آدم کو خطاب کیا گیا ہے لہذا اس میں باپ بھی داخل ہیں اور ان کے لئے ہدایت ہے کہ وہ اپنے بچوں کا اچھا نام رکھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام کے ساتھ پکارا جائے گا اور علماء نے لکھا ہے کہ ماؤں کے نام کے ساتھ پکار نے کی حکمت و علت ایک تو یہ ہے کہ جو لوگ زنا سے پیدا ہوئے ہوں گے وہ اس صورت میں شرمندگی اور رسوائی سے بچ جائیں گے دوسرے حضرت عیسیٰ بن مریم کی رعایت حال مقصود ہوگی جو بےپدر تھے اور تیسرے حسن اور حضرت حسین کے اس فضل و شرف کا اظہار مقصود ہوگا جو ان کو حضرت فاطمہ (رض) کے بیٹے ہونے کی حثییت سے آنحضرت ﷺ کی طرف نسبت کے ذریعہ حاصل ہے اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کیا جائے تو کہا جائے گا کہ تم کو تمہارے باپوں کے ناموں سے پکارا جائے گا میں باپ کو تغلیب پر حمل کیا جائے جیسا کہ ماں اور باپ دونون کو ابوین کہا جاتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی موقع پر تو باپ کے نام سے پکارا جائے گا اور کسی موقع پر ماں کے نام کے ساتھ یا بعض لوگوں کی نسبت ان کے باپ کی طرف کی جائے گی اور بعض لوگوں کی نسبت ان کی ماں کی طرف کی جائے گی اور یا یہ کہ بعض مقامات میں باپ کے نام کے ساتھ اور بعض مقامات میں ماں کے نام کے ساتھ پکارا جائے گا۔

【149】

آنحضرت ﷺ کے نام اور کنیت دونوں کو ایک ساتھ اختیار کرنے کی ممانعت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص آپ کے نام اور کنیت کو ایک ساتھ اختیار کرے اور جس شخص کا نام محمد ہو اس کو ابوالقاسم بھی کہا جائے۔ (ترمذی) تشریح مذکورہ ترجمہ اس صورت میں ہوگا جب کہ لفظ محمد مرفوع اور یسمی بصیغہ مجہول ہو جیسا کہ ترمذی اور شرح السنہ اور مصابیح کے اکثر نسخوں میں نقل کیا گیا ہے لیکن جامع الاصول اور مصابیح کے بعض نسخوں میں محمد کو نصب کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اس صورت میں یسمی صیغہ معروف کے ساتھ ہوگا اور ترجمہ یوں کیا جائے گا کہ کوئی شخص اس آدمی کو ابوالقاسم کہے جس کا نام محمد ہو، حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کا نام محمد ہو۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کا نام محمد ہو تو نہ خود اس کے لئے روا ہے کہ وہ اپنی کنیت ابوالقاسم مقرر کرے اور نہ کسی دوسرے شخص کے لئے مناسب ہے کہ وہ محمد نامی کو ابوالقاسم کہے اس مسئلہ کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔

【150】

آنحضرت ﷺ کے نام اور کنیت دونوں کو ایک ساتھ اختیار کرنے کی ممانعت

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم میرے نام پر اپنا نام محمد رکھو تو میری کنیت پر کنیت (ابوالقاسم) مقرر نہ کرو۔ (ترمذی، ابن ماجہ) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے نیز ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص میرے نام پر نام رکھے تو وہ میری کنیت پر کنیت نہ مقرر کرے اور جو شخص میری کنیت پر کنیت مقرر کرے تو میرے نام پر نام نہ رکھے۔ تشریح یہ حدیث بھی آنحضرت ﷺ کے نام اور کنیت کو ایک ساتھ اختیار کرنے کی صریح ممانعت کو ظاہر کرتی ہے تاہم ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا یعنی صرف نام پر نام رکھنا یا صرف کنیت پر کنیت مقرر کرنا ممنوع نہیں ہے۔

【151】

آنحضرت ﷺ کا نام اور کنیت ایک ساتھ اختیار کرنے کی ممانعت بطور تحریم نہیں ہے۔

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک عورت نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ میرے ایک لڑکا ہوا ہے اور میں نے اس کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھی ہے لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ اس کو پسند نہیں فرماتے یعنی بتانے والے نے مجھ کو یہ بتلایا کہ آپ نے اپنا نام اور کنیت ایک ساتھ اختیار کئے جانے کو حرام قرار دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایسی کیا چیز ہے جس نے میرے نام پر نام رکھنے کو تو حلال و جائز رکھا ہے اور میری کنیت پر کنیت مقرر کرنے کو حرام کیا ہے یا یہ فرمایا کہ ایسی کیا چیز ہے جس نے میری کنیت پر کنیت رکھنے کو تو حرام کیا ہے اور میرے نام پر نام رکھنے کو حلال رکھا ہے ؟ ابوداؤد) اور محی السنہ نے کہا ہے یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح حدیث کے آخری الفاظ کے سلسلے میں راوی نے یہ فرمایا کہ کے ذریعہ اپنے شک کو ظاہر کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یا تو پہلے نام کی حلت اور بعد میں کنیت کی حرمت کو ذکر کیا یا پہلے کنیت کی حرمت کو اور بعد میں نام کی حلت کو ذکر فرمایا۔ تاہم دونوں صورتوں میں معنی و مطلب ایک ہی ہیں مفہوم و مقصد کے درمیان کوئی فرق و تفاوت نہیں ہے ! اصل بات یہ ہے کہ محدث جب کوئی حدیث بیان کرتا ہے تو اس بات کو پوری احتیاط رکھتا ہے کہ اس حدیث کے الفاظ آنحضرت ﷺ سے جس طرح سنے ہیں یا جس طرح اس تک پہنچے ہیں اسی طرح بعینیہ ان کو نقل کرے چونکہ اس موقع پر راوی کو الفاظ حدیث کے سلسلے میں شک ہو اس لئے اس نے مذکورہ طرح سے بیان کیا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے نام اور کنیت کو ایک ساتھ اختیار کرنے کی ممانعت بطریق تحریم یعنی حرام ہونے کے طور پر نہیں ہے بلکہ مکروہ تنزیہی کے طور پر ہے۔

【152】

آنحضرت ﷺ کا نام اور کنیت ایک ساتھ اختیار کرنے کی ممانعت بطور تحریم نہیں ہے۔

اور حضرت محمد بن حنفیہ اپنے والد ماجد حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے بتائیے کہ اگر میں آپ کے وصال کے بعد میرے یہاں حضرت فاطمہ (رض) سے یا کسی اور بیوی سے کوئی بچہ پیدا ہو تو کیا میں اس کا نام آپ کے نام پر اور اس کی کنیت آپ کی کنیت پر رکھ سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! (ابوداؤد) تشریح یہ حدیث بھی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے نام اور کنیت کو ایک ساتھ اختیار کرنے کی ممانعت کا تعلق آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے تھا اس کے بعد یہ جائز ہے اس مسئلہ پر علماء کے جو اختلافی اقوال ہیں پیچھے نقل کئے جا چکے ہیں۔

【153】

حضرت انس (رض) کی کنیت

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میری کنیت اس ساگ کے نام پر مقرر کی تھی جس کو میں اکھاڑتا تھا (یعنی آپ نے ایک دن مجھ کو ایک ساگ جس کو عربی میں حمزہ کہتے ہیں اکھاڑتے ہوئے دیکھا تو اس کی مناسبت سے میری کنیت ابوحمزہ رکھ دی) اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارا علم یہ ہے کہ یہ حدیث اس سند کے علاوہ جو جامع الترمذی میں نقل کی گئی ہے اور کسی سند کے ساتھ مذکور نہیں ہے (گویا یہ حدیث غریب ہے کہ ایک طریق اور ایک سند کے علاوہ اور کسی طریق وسند سے منقول نہیں ہے) لیکن صاحب مشکوۃ کہتے ہیں کہ مصابیح میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا گیا ہے۔

【154】

جو نام اچھا نہ ہو اس کو بدل دو

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ برے نام کو بدل دیا کرتے تھے۔ (ترمذی) تشریح مثلا ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے ایک شخص کا نام اسود یعنی کالا تھا آنحضرت ﷺ نے اس کے نام کو بدل دیا اور فرمایا کہ آج سے اس کا نام ابیض (یعنی گورا) ہے۔

【155】

ایسے نام رکھنے کی ممانعت جو اسماء الہی میں سے ہیں۔

اور حضرت بشیر بن میمون (تابعی) اپنے چچا اسامہ (رض) ابن اخدری سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک جماعت حاضر ہوئی تو اس میں ایک شخص بھی تھا جس کو اصرام کہا جاتا تھا رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ مجھ کو اصرام کہتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ آج تمہارا نام زرعہ ہے۔ اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے نیز انہوں نے بطریق تحلیق یہ بھی نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عاص، عزیز، عتلہ، شیطان، حکم، غراب، حباب اور شہاب ناموں کو بدل دیا تھا۔ ابوداؤد (رح) کہ میں نے احتصار کے پیش نظر ان روایتوں کو کہ جس میں مذکورہ ناموں کو بدلنے کا ذکر ہے بغیر اسناد کے نقل کیا ہے۔ تشریح اصرام صرم سے مشتق ہے جس کے معنی قطع و برید کرنا، ترک سلام و کلام کرنا اور درخت کاٹنا ہیں ان کی مناسبت سے آپ نے اصرام نام کو ناپسند فرمایا اور اس کے بجائے مذکورہ نام رکھ دیا یہ لفظ زراعت سے ماخوذ ہے اور اپنے معنی کے اعتبار سے جود و سخاوت اور خیر و برکت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آخر میں ابوداؤد نے آنحضرت ﷺ کی طرف سے جن ناموں کے بدلے جانے کا ذکر کیا ہے ان میں عاص، عاصی کا مخفف ہے یہ نام لفظی مفہوم کے اعتبار سے عصیان و سرکشی، عدم اطاعت اور نافرمانی پر دلالت کرتا ہے جب کہ مومن کی خصوصیات اطاعت و فرمانبرداری ہے اس لئے کسی مومن کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ عاص یا عاصیہ نام رکھے۔ عزیز چونکہ اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم پاک ہے اس لئے عبدالعزیز نام رکھنا تو مناسب ہے لیکن صرف عزیز نام غیر موزوں ہے علاوہ ازیں یہ لفظ غلبہ قوت عزت و زور آوری پر دلالت کرتا ہے جو اللہ کی شان ہے جب کہ بندے کی شان ذلت و انکساری، حضوع اور فروتنی ہے اسی طرح حمید نام رکھنا بھی غیر مناسب ہے کیونکہ یہ بھی اللہ کے اسماء اور اس کی صفات میں سے ایک ہے اور بطریق مبالغہ اس کی ایک صفت ہے اس اعتبار سے کسی شخص کا نام عبدالحمید موزوں ہے کریم وغیرہ کو بھی اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ عتلہ نام کو بھی آپ نے اس لئے ناپسند فرمایا کہ اس میں غلظت وشدت اور سختی کے معنی نکلتے ہیں جب کہ مومن کو نرم و ملائمت کے ساتھ موصوف کیا گیا ہے۔ شیطان نام رکھنا نہ صرف اس ذات کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے بلکہ اس کے لفظی مفہوم کے اعتبار سے بھی نہایت غیر موزوں ہے کیونکہ لفظ شیطان یا تو شیط سے نکلا ہے جس کے معنی جل جانا ہلاک ہوجانا، شطن سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں اللہ کی رحمت سے دور ہونا۔ حکم حاکم کا مبالغہ ہے اور حقیقی حاکم صرف اللہ کی ذات ہے کہ بس اسی کا حکم قابل نفاظ بھی ہے اور لائق اطاعت بھی اس اعتبار سے حکم نام بھی غیر موزوں ہے اور جب آنحضرت ﷺ نے ابوالحکم کی کنیت کو پسند نہیں فرمایا جیسا کہ پیچھے روایت گزری ہے تو حکم تام کا تغیر بطریق اولی مناسب ہے۔ غراب نام کی ناپسندیدگی کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ غراب کوے کو کہتے ہیں جو جانوروں میں پلید جانور ہے وہ مردار اور نجاست کھاتا ہے دوسرے یہ کہ اس کے معنی دوری کے ہیں۔ حباب نام اس اعتبار سے نہایت غیر موزوں ہے کہ یہ شیطان کا نام ہے اور سانپ کو بھی حباب کہتے ہیں۔ شہاب آگ کے اس شعلہ کو کہتے ہیں کہ جو فرشتے شیطانوں پر مارتے ہیں اس مناسبت کے شیاب نام رکھنا بھی غیر پسندیدہ ہے البتہ اگر شہاب کی اضافت دین کی طرف کی جائے یعنی شہاب الدین نام رکھا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔

【156】

لفظ|" زعموا |" کی برائی

اور حضرت ابوسعید انصاری (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ سے یا حضرت ابوعبداللہ نے حضرت ابومسعود انصاری (رض) سے دریافت کیا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو لفظ زعموا کے بارے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ لفظ مرد کی بری سواری ہے۔ ابوداؤد نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ابوعبداللہ حضرت حذیفہ بن الیمان (رض) کی کنیت ہے جو اونچے درجہ کے صحابہ میں سے ہیں۔ تشریح زعموا زاء ل، میں زعم سے مشتق ہے، زعم، یا زعم، زاء کے پیش اور زیر کے ساتھ کے معنی تقریبا وہی ہیں جو ظن و گمان کے ہوتے ہیں جیسا کہ نہایہ میں لکھا ہے صراح میں یہ لکھا ہے کہ زعم کے معنی ہیں کہنا اور عام طور پر زعم کا اطلاق اس بات پر ہوتا ہے کہ جو غیر صحیح اور قابل اعتماد ہو اور قاموس میں لکھا ہے کہ، زعم، یا زعم، کے معنی قول کے ہیں اور اس کا اطلاق اکثر بےبنیاد اور جھوٹی بات پر ہوتا ہے۔ لفظ زعموا کے بارے میں علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ لوگوں کا جو یہ محمول ہے کہ جب انہیں کسی بےبنیاد بات کو بیان کرتا ہوتا ہے تو وہ یوں کہتے ہیں یا لکھتے ہیں کہ لوگ یہ کہتے ہیں فلاں شخص کے متعلق یہ سنا گیا ہے اور یا لوگ اس طرح کہہ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ اور جھٹلائے جانے کے خوف سے کسی شخص کا نام لے کر تو کہا نہیں جاتا کہ یہ بات فلاں نے کہی ہے یا فلاں شخص نے بیان کیا ہے بلکہ لوگ کہتے ہیں یا بیان کیا جاتا ہے پردہ میں بےتحاشہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور بلا تحقیق و بےبنیاد باتوں کو پھیلایا جاتا ہے چناچہ مذکورہ بالا دونوں صحابہ میں سے ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے پوچھا کہ آدمی جو لفظ زعمو یعنی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ذریعہ بےبنیاد اور غیر تحقیقی باتیں نقل کرتے ہیں تو کیا آپ نے رسول اکرم ﷺ سے اس لفظ کے بارے میں سنا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس لفظ تحقیق میں اس لفظ کے استعمال اور اس کے مفہوم کے بارے میں کیا فرماتے تھے ؟ دوسرے صحابی نے جواب دیا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ لفظ بری سواری ہے۔ یعنی آپنے اس لفظ کو سواری کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ جس طرح کوئی شخص سواری پر بیٹھ کر اپنی منزل مقصود تک پہنچتا ہے اسی طرح جو آدمی یہ چاہتا ہے کہ کسی بےبنیاد اور غیر تحقیقی بات کو دوسروں کے سامنے نقل کرے اور پھیلائے تو وہ اپنی گفتگو اور اپنے قول کے شروع میں لفظ زعموا استعمال کرتا ہے اور اس لفظ کے ذریعہ اپنی غرض حاصل کرنا چاہتا ہے نیز آپ نے بری سواری کے ذریعہ اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ لفظ زعموا کوئی اچھا آغاز کلام نہیں ہے کیونکہ اس لفظ کو بنیاد بنا کر جو بات کہی جاتی یا نقل کی جاتی ہے جو کوئی سند اور ثبوت نہ رکھے بلکہ ایک حکایت کے درجہ میں ہو اور برسبیل ظن و گمان زبان پر آئے۔ لہذا اس کا ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ نقل وبیان اور روایات و حکایات کے سلسلے میں پوری احتیاط ملحوظ رہنی چاہیے کیونکہ وہ باتیں جن کا تعلق محض ظن و گمان سے ہوتا ہے عام طور پر غلط فہمی اور جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور اسی لئے کہا گیا ہے کہ و زعموا مطیہ الکذب لفظ زعموا جھوٹ کی سواری ہے۔ یا آنحضرت ﷺ کے مذکورہ ارشاد کا مقصد یہ ہدایت دینا ہے کہ کوئی شخص بلا تحقیق و یقین کسی کی طرف زعم و گمان یعنی دروغ گوئی کی نسبت نہ کرے ہاں اگر اس کو اس بات کا یقین ہو کہ فلاں شخص نے واقعتا دروغ گوئی کی ہے اور یہ کہ اس شخص کی دروغ گوئی کے نقصان و اثرات سے دوسروں کا بچانا ضروری ہے تاکہ کوئی دھوکا نہ کھائے تو اس مصلحت کے پیش نظر کسی کی طرف زعم و گمان کی نسبت کرنا جائز ہوگا جیسا کہ محدثین وغیرہ کرتے ہیں۔

【157】

مشیت میں اللہ اور غیر اللہ کو برابر قرار نہ دو

اور حضرت حذیفہ (رض) آنحضرت ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اس طرح نہ کہو کہ وہی ہوگا جو اللہ چاہے اور فلاں شخص چاہے کیونکہ اس طرح کے کہنے کا مطلب، ارادہ و مشیت میں اللہ اور بندے کو برابر کا درجہ دینا ہے جب کہ کسی کام کا ہونا یا نہ ہونا صرف اللہ کی مشیت ومرضی پر منحصر ہوتا ہے البتہ ظاہری اسباب و وسائل کے پیش نظر انسان کی طرف ارادہ و مشیت کی نسبت کرنا ہی منظور ہو تو پھر یوں کہو کہ وہی ہوگا جو اللہ چاہے اور پھر فلاں چاہے یعنی اس صورت میں اللہ کی مشیبت مقدم ہونا اور بندے کی مشیت کا اس کے تابع ہونا مفہوم ہوگا جو صحیح ہے۔ (ابوداؤد، احمد) تشریح اور ایک روایت میں جس کا سلسلہ سند متصل نہیں ہے بطریق انقطاع یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں کہ آپ نے فرمایا یوں نہ کہو کہ وہی ہوگا جو اللہ چاہے اور محمد چاہیں بلکہ اس طرح کہو کہ وہی ہوگا جو اللہ چاہے خواہ کوئی دوسرا چاہے یا نہ چاہے اس اعتبار سے اوپر کی روایت کہ جس میں ماشاء اللہ ثم شاء فلاں کہنے کا جواز ثابت ہوتا ہے اور اس روایت کے درمیان تضاد واقع نہیں ہوگا اس روایت کو بغوی نے شرح السنہ میں نقل کیا ہے۔

【158】

کسی منافق کو سید نہ کہو

اور حضرت حذیفہ (رض) آنحضرت ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کسی منافق کو سید نہ کہو یعنی سردار آقا نہ کہو کیونکہ اگر وہ سید ہو اور تم نے اس کو سید کہا تو تم نے اپنے پروردگار کو ناراض کیا۔ (ابوداؤد) تشریح عربی میں سید کے معنی ہیں سردار آقا۔ ظاہر ہے کہ کسی منافق کو یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا کہ اس کو کوئی مسلمان سردار آقا کہے بلکہ اگر کوئی منافق واقعتا سردار ہو بایں طور کہ وہ اپنی قوم کا سربراہ ہو یا کچھ لوگوں کا حاکم ہو اور غلام و باندی اور دوسرے اسباب کا مالک ہو تو اس کے باوجود وہ اس قابل نہیں سمجھا جائے گا کہ کوئی مسلمان اس کو سردار و آقا کہہ کر مخاطب کرے یا اس کو سید کہے اور اگر کوئی مسلمان اس کو سید و سردار و آقا کہے گا تو وہ اللہ کے غضب کا مستوجب ہوگا کیونکہ یہ لفظ سید تعظیم و احترام پر دلالت کرتا ہے اور وہ منافق مسلمانوں کی طرف سے کسی بھی تعظیم کا مستحق نہیں ہے اور اگر صورت یہ ہو کہ وہ واقعتا کسی بھی طرح کی سیادت و سرداری رکھتا ہی نہ ہو تو اس کو سید کہنا اور بھی برا ہوگا کیونکہ اس کے باوجود اس کو سید کہنے والا نہ صرف مذکورہ حکم کی خلاف و رزی بلکہ جھوٹ اور نفاق کا بھی مرتکب ہوگا۔ ظاہر تو یہ ہے کہ اس بارے میں کافر، گم کردہ راہ ہدایت اور علی الاعلان گناہ کا ارتکاب کرنے والے مسلمان بھی منافق کے حکم میں داخل ہوں لیکن حدیث میں خاص طور پر صرف منافق ہی کا ذکر ہے اس لئے کہا گیا ہے کہ منافق چونکہ بہر حال ظاہر طور پر مسلمان ہوتا ہے اس لئے عام مسلمانوں کا اس کی تعریف و خوشامند میں مبتلا ہونا زیادہ قریبی احتمال رکھتا ہے لہذا صرف منافق کا ذکر کر کے اس بات کی ممانعت فرمائی گئی کہ اس کو سید نہ کہو۔

【159】

برے نام کا برا اثر

حضرت عبدالحمید بن جبیر بن شیبہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت سعد بن مسیب (رض) کی خدمت میں حاضر تھا کہ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ میرے دادا جن کا نام حزن تھا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے انہوں نے کہا میرا نام حزن ہے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ حزن کوئی اچھا نام نہیں ہے بلکہ میں تمہارا نام سہل رکھتا ہوں میرے دادا نے کہا کہ میرے باپ نے جو میرا نام رکھا ہے اب میں اس کو بدل نہیں سکتا۔ حضرت سعید (رض) نے فرمایا کہ اس کے بعد سے اب تک ہمارے خاندان میں ہمیشہ سختی رہی۔ (بخاری، مسلم) تشریح حزن، سخت اور دشوار گزار زمین کو کہتے ہیں، سہل، حزن کی ضد ہے یعنی ملائم اور ہموار زمین جہاں آدمی کو آرام ملے۔ حضرت سعید (رض) کے دادا نے چونکہ آنحضرت ﷺ کے رکھے ہوئے نام کو اختیار نہیں کیا اس لئے اللہ نے اس انکار کی نحوست سے ان کے خاندان پر حزن کو مسلط کردیا کہ ان کے گھر والے ہمیشہ سختی حالات کا شکار رہنے لگے اور برابر ایک نہ ایک مصیبت میں مبتلا ہوتے رہے۔ رہی یہ بات کہ حزن کو آنحضرت ﷺ کی بات کا انکار کرنے کی جرات کیوں ہوئی تو اول اس شیطان کا وسوسہ کہا جاسکتا ہے جس میں وہ مبتلا ہوگئے دوسرے یہ کہ مذکورہ واقعہ ابتداء ہجرت کا ہے جب کہ وہ نئے نئے ہجرت کر کے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور وہ اس وقت تعلیم و تربیت کے فقدان کی وجہ سے وہ صدق ایمان سلامتی طبع اور تہذیب و اخلاق سے مشرف نہ ہوئے لہذا اس پر شیطان کا داؤ کار گر ہوگیا اور وہ آنحضرت ﷺ کے تجویز کردہ نام کو اختیار نہ کرسکے۔

【160】

اچھے نام

اور حضرت ابو وہب چشمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انبیاء کے ناموں پر اپنے نام رکھو اور اللہ کے نزدیک بہترین نام عبداللہ اور عبدالرحمن اور اسی طرح عبدالرحیم، عبدالکریم ہیں نیز زیادہ سچے نام حارث، ہمام ہیں اور سب سے برے نام حرب اور مرہ ہیں۔ (ابوداؤد) تسریح انبیاء کے ناموں پر سے واضح ہوتا ہے کہ ملائکہ کے ناموں پر نام نہ رکھنے چاہئیں اسی طرح وہ نام بھی نہ رکھنے چائیں جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھے جیسے کلب، حمار، عبد شمس اور اسی طرح کے دوسرے نام۔ حارث کے معنی ہیں کسب و کمائی اور قصد کرنے والا۔ اسی طرح ہمام، ھم سے نکلا ہے جس کے معنی قصد و ارادہ کے ہیں ظاہر ہے کہ کوئی بھی شخص کب و کمائی اور قصد کا اراداہ کرنے سے خالی نہیں ہوتا اس لئے معنی و مفہوم اور واقعہ کے اعتبار سے ان ناموں کو زیادہ سچا فرمایا گیا ہے۔ حرب اور مرہ کو سب سے برے نام اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ حرب لڑائی اور جنگ کو کہتے ہیں اور جنگ بڑی خراب چیز ہے جس میں کشت و خون اور خسارہ و بربادی ہے اسی طرح مرہ تلخی کو کہتے ہیں جو طبیعت کو ناپسند ہوتی ہے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ابلیس کی کنیت ابومرہ ہے اور اس وجہ سے مرہ قبیح نام ہے۔

【161】

بیان اور شعر کا بیان

بیان کے اصل معنی کھولنے، اچھی طرح ظاہر کرنے اور خوب واضح کرنے کے ہیں یوں کہنا چاہیے کہ بیان اس فصیح گفتگو و تقریر وغیرہ کو کہتے ہیں کہ جو مافی الضمیر کو نہایت وضاحت اور حسن خوبی کے ساتھ ظاہر کرے چناچہ صراح میں بھی یہ لکھا ہے کہ بات کو کھول کر اور وضاحت کے ساتھ کہنے اور فصاحت کا نام بیان ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ فلاں ایین من فلاں (فلاں شخص فلاں شخص سے زیادہ بیان کرنے والا ہے یعنی وہ اپنی بات کو فلاں شخص سے زیادہ فصاحت اور زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کرنے والا ہے) ۔ شعر، کے معنی دانائی اور زیر کی کے ہے ہیں اور شاعر کے معنی ہیں دنا وزیرک، لیکن عام اصلاح میں شعر موزوں اور مقفی کلام کو کہتے ہیں جو بقصد و ارادہ موزوں و مقفی کیا گیا ہو اس اعتبار سے قرآن و حدیث میں جو مقفی عبارتیں ہیں ان پر شعر کا اطلاق نہیں ہوسکتا کیونکہ ان عبارتوں کا مقفی ہونا نہ تو قصد و ارادہ کے تحت اور نہ مقصود بالذات ہے۔

【162】

بعض بیان سحر کی تاثیر رکھتے ہیں

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن مشرقی علاقے سے دو آدمی اور آپس میں خوب فصاحت و بلاغت کے ساتھ گفتگو کرنے لگے لوگوں نے جب ان کی باتیں سنیں تو ان کی فصیح وبلیغ گفتگو پر بڑی حیرت اور تعجب کا اظہار کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ بعض بیان سحر کا اثر رکھتے ہیں۔ تشریح یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب مشرقی علاقے بنو تمیم کی ایک جماعت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اس جماعت میں دو ایسے شخص بھی تھے جو فصاحت و بلاغت طرز تخاطب اور انداز گفتگو میں بڑی قابلیت اور مہارت رکھتے تھے اس میں ایک کا نام حصین ابن ہدی اور لقب زبرقان تھا دوسرے کا نام عمرو ان ہتم تھا ان دونوں نے آنحضرت ﷺ کے سامنے آپس میں گفتگو کی۔ زبرقان نے اپنے فضائل و اوصاف بیان کرنا شروع کردیئے اور اپنے فخریہ کارناموں کا بڑے زور دار الفاظ اور بڑی فصیح وبلیغ عبارت میں تعارف کرنے لگا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے فلاں فلاں کارنامے انجام دیئے ہیں اور میں ایسا ہوں اور ایسا ہوں، یہاں تک کہ عمرو بھی اس بات کو جانتا ہے عمرو نے یہ سنا تو اس نے بھی اتنے ہی پر شکوہ انداز اور اتنی ہی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اس کی باتوں کا جواب دیا۔ اور اپنے بیان میں اس کی طرح بڑائیاں ظاہر کیں کہ گویا زبرقان کے بیان کردہ سارے اوصاف و فضائل کو اچھی طرح جانتا ہوں اور جو کچھ کہہ رہا ہے اس کے اندر کی آواز نہیں ہے حقیقت میں اس کو میرے کمالات کا اعتراف ہے مگر حسد نے اس کو میرے خلاف بیان کرنے پر مجبور کردیا ہے اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بعض بیان سحر کی تاثیر رکھتے ہیں جس طرح سحر انسان کی حالت و کیفیت میں تغیر پیدا کردیتا ہے اس طرح بعض بیان بھی اسی نوعیت کا ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے ذہن و دماغ میں تغیر پیدا ہوجاتا ہے اور اس کی تاثیر دل کو پھیر دیتی ہے۔ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مذکورہ ارشاد گرامی بیان کی تعریف میں فرمایا اس کی مذمت میں ؟ ان اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے زیادہ صحیح بات یہ نکلتی ہے کہ اس ارشاد گرامی سے بیان کی تعریف و مذمت دونوں ظاہر ہوتی ہیں اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بعض بیان دلوں کو مائل و منحرف کرنے اور اپنا جواب پیش کرنے سے معذور رکھتے ہیں سحر کی مانند تاثیر رکھتا ہے اور یہ محمود و مستحسن ہے بشرطیکہ اس بیان کا تعلق سچائی کو ظاہر کرنے اور سچائی کو ثابت کرنے سے ہو اور اگر اس کا تعلق باطل و فاسد امور سے ہو تو پھر وہی بیان مذموم ہوگا جیسا کہ ایک حدیث میں شعر کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ الشعر ھو کلام فحسنہ حسن وقبیحہ قبیح، یعنی شعر کلام ہی تو ہے اچھا شعر اچھا کہلائے گا اور برا شعر برا۔

【163】

بعض اشعار حکمت ودانائی کے حامل ہوتے ہیں

اور حضرت ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بعض شعر حکمت (کا حامل) ہوتا ہے۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ سارے اشعار برے نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے بعض اچھے اور فائدہ مند بھی ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعہ حکمت و دانائی کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔

【164】

کلام میں مبالغہ آرائی کی ممانعت

اور حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کلام میں مبالغہ کرنے والے ہلاکت میں پڑگئے آپ نے یہ الفاظ تین بار فرمائے (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ تحریر اور گفتگو و کلام میں بےجا تکلفات و اہتمام کرنا، عبارت آرائی اور مبالغہ آمیزی کی پابندی اختیار کرنا اور لاحاصل و بےفائدہ باتوں کی آمزش کرنا نہایت برا ہے جب کہ اس کا مقصد اظہار عظمت اور ریا، تضع و بناوٹ، کسی کی بےجا خوشامد و چاپلوسی اور اس کو اپنی طرف مائل و راغب کرنا ہو۔

【165】

ایک مبنی برحقیقت شعر

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (رض) نے فرمایا سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کہی ہے لبید کا یہ کلام ہے کہ مت بھولو، اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہوجانے والی ہے۔ (بخاری، مسلم) تشریح لبید عرب کے بہت مشہور شاعر تھے عربی ادب میں ان کے کلام اور ان کی شاعر کو سند کا درجہ حاصل ہے اللہ نے ان کو اسلام کی ہدایت بھی بخشی اور ان کو قبولیت اسلام کے بعد صحابیت کا شرف حاصل ہوا جس طرح زمانہ جاہلیت میں اپنے فن کی وجہ سے قدر منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اسی طرح زمانہ اسلام میں بہت معزز و مکرم رہے بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بڑی طویل حیات پائی اور تقریبا ایک سو ستاون سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے جس کلام کی تعریف و توصیف فرمائی وہ پورا شعر یوں ہے۔ الکل چیز ماخلا اللہ باطل وکل نعیم لامحالۃ زائل مت بھولو اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہوجانے والی ہے اور دنیا کی ہر لذت و راحت کا آخر کار فنا ہونا ہے یہ مشہور شعر بھی لبید کا ہے ولقد سأامت من الحیوۃ وطولھا وسوال ھذا لناس کیف لبید میں زندگی اور اس کی درازی سے بیزار ہوگیا ہوں اور لوگوں کے بار بار پوچھنے سے کہ لبید کیسا ہے

【166】

علم وحکمت کے حامل اشعار سننا مسنون ہے

اور حضرت عمر بن شرید اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک دن سفر کے دوران میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آپ کی سواری پر بیٹھا ہوا تھا کہ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تمہیں امیہ بن ابی الصلت کے کچھ اشعار یاد ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں آپ نے فرمایا اچھا سناؤ آپ کو میں نے ایک شعر سنایا آپ نے فرمایا اور سناؤ، میں نے پھر ایک شعر سنایا آپ اسی طرح مزید سنانے کی فرمائش کرتے رہے اور میں سناتا رہا یہاں تک کہ میں نے سو اشعار سنائے (مسلم) تشریح امیہ بن ابی الصلت بھی عرب کا ایک مشہور اور باکمال شاعر تھا اس کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے عہد جاہلیت میں اہل کتاب سے دین سیکھا تھا اور دین داری کی باتیں کرتا تھا، حشر و نشر اور قیامت کے دن پر بھی عقیدہ رکھتا تھا اور اس کے اشعار علم و حکمت اور پند و نصائح سے پر ہوتے تھے، چناچہ آپ نے اس کے بارے میں فرمایا تھا امن شعرہ و کفر قبلہ، یعنی اس کے اشعار سے ایمان جھلکتا ہے اگرچہ اس کا دل کفر میں مبتلا رہا، اس کا ایک خاص مشغلہ یہ تھا کہ آسمانی کتب کا علم رکھنے والوں کے پاس آنا جانا رکھتا اور ان سے ان بشارتوں اور پیشگوئیوں کے بارے میں دریافت کرتا رہتا جو آسمانی کتابوں پر نبی آخرالزمان ﷺ کی بعثت سے متعلق مذکور تھیں، اس کا گمان تھا کہ اللہ نے اپنی کتابوں میں جن نبی آخرالزمان کی بعثت کی خبر دی ہے وہ میں ہوں اور ایک نہ ایک دن مجھے نبوت کے خلعت فاخرہ سے نوازا جائے گا لیکن جب آسمانی کتب کے عالموں نے اس کو بتایا کہ وہ بنی قریش میں سے ہوں گے اور عاس کو نبی کی صفات تفصیل سے معلوم ہوئیں تو وہ اپنے عقائد و نظریات سے ایک دم پھر گیا اور حسند وعناد کی راہ پر چل کر کہنے لگا کہ مجھے اس نبی پر ہرگز ایمان نہ لانا چاہیے جس کا تعلق قبیلہ ثقیف سے نہ ہو۔ ابن جوزی نے کتاب وفا میں یہ لکھا ہے کہ امیہ ابن ابی الصلت ابتداء میں تو نبی کی بعثت کا انتظار بڑی شدت سے کرتا تھا اور نبی کی نبوت کی جو علامتیں اور اوصاف سنتا تھا ان کی بنا پر یہ آرزو کرتا تھا کہ کاش میں ان کا زمانہ پاؤں اور ان کی خدمت کروں مگر نبی کا جب نور نبوت آشکار ہوا تو اپنی باتوں سے پھر گیا اور بغض وعناد اور سخاوت و سختی کی راہ اختیار کرلی۔ بہرحال مذکورہ بالا حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ جو اشعار علم و حکمت اور پند و نصائح کی باتوں پر مشتمل ہوں ان کو سننا مسنون ہے اگرچہ ان اشعار کو کہنے والا کوئی کافر و فاسق ہی کیوں نہ ہو۔

【167】

آنحضرت ﷺ کا ایک شعر

اور حضرت جندب (رض) کہتے ہیں کہ نبی نے ایک جنگ (غزوہ احد) میں شریک تھے کہ معرکہ آرائی کے دوران آپ کی انگلی زخمی ہوگئی اور اس کی وجہ سے خون آلودہ ہوگئی آپ نے بطور استعارہ یا درحقیقت انگلی کو تسلی دیتے ہوئے اس کو مخاطب کر کے یہ شعر فرمایا (بخاری) ۔ یعنی تو کیا ہے ایک انگلی ہے خون آلود ہوئی اور پھر تجھ کو یہ جو کچھ ہوا ہے اللہ کی راہ میں ہوا ہے۔ تشریح زخمی اور خون آلود انگلی کو مخاطب کر کے آپ نے جو اشعار ارشاد فرمایا اس کا مطلب یہ تھا کہ تو جسم کا کوئی بڑا حصہ نہیں ہے بدن کا کوئی سب سے اہم عضو نہیں ہے ایک معمولی سی انگلی ہے پھر تجھے جو تکلیف ہوئی وہ سخت اور شدید ترین نہیں ہے کہ نہ تو کٹ کر گر پڑی ہے اور نہ ہلاکت میں مبتلا ہوئی ہے تجھ کو صرف زخم پہنچا ہے اور خون آلود ہوگئی ہے اگر تو نے اتنی سی تکلیف اٹھائی ہے اس کی وجہ سے بےتابی اور بےقراری کی کوئی وجہ نہیں ہے جب کہ یہ تھوڑی سی تکلیف بھی ضائع جانے والی نہیں ہے بلکہ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضاء میں چونکہ تو نے تکلیف اٹھائی ہے اس لئے تجھ کو اس پر اجر ملے گا اس اعتبار سے یہ تکلیف بھی تیرے لئے خوشی و راحت کا ذریعہ ہونا چاہیے اس ارشاد کے ذریعہ گویا آپ نے امت کے لوگوں کو تلقین فرمائی کہ اگر کسی مسلمان کو اللہ کی راہ میں کوئی تکلیف و ضرر پہنچے تو اس پر صبر کرنا چاہیے بلکہ حقیقت میں اس کو شکر کا مقام سمجھنا چاہیے کہ اللہ کا عطا کیا ہوا جسم و بدن اسی کی راہ میں قربان کرنے اور تکلیف اٹھانے کی توفیق نصیب ہوئی جو ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ اس حدیث کے سلسلے میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا مذکورہ ارشاد ایک شعر ہے جب کہ آپ کی ذات اقدس شعر و شاعری کے وصف سے پاک ہے اور آپ کی ذات سے کسی شعر کا صادر ہونا غیر ممکن ہے کیونکہ اللہ نے آپ کے بارے میں فرمایا وما علمنہ الشعر، یعنی اور ہم نے آپ کو شعر کہنا سکھایا ہی نہیں، اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ شعر میں شاعر کا قصد و ارادہ بھی شرط ہے یعنی یہ ضرور ہے کہ جس شخص نے کوئی کلام موزوں کیا ہے اس نے موزونیت کا قصد و ارادہ بھی کیا ہو جیسا کہ باب کے شروع میں بیان کیا جا چکا ہے کہ جب نبی کا ارشاد گرامی بلاشبہ موزوں کلام ہے لیکن اس کی موزونیت آپ کے کسی قصد و ارادہ کے تحت نہیں ہوئی، بلکہ قصد و ارادہ اور بےساختہ آپ کی زبان مبارک سے صادر ہونے والا یہ کلام شعر میں ڈھل گیا۔ بعض حضرات نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت ﷺ کا مذکورہ کلام اصل رجز کی قسم ہے اور جز پر شعر کا اطلاق نہیں ہوتا، علاوہ ازیں یحییٰ نے یہ کہا ہے کہ جو شخص بطریق ندرت یعنی اتفاقا کبھی کوئی شعر کہہ دے تو اس کو شاعر نہیں کہا جاتا اور اللہ کے ارشاد وماعلمنہ الشعر سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ شاعر نہیں ہیں۔

【168】

مشہور شاعر حسان کی فضیلت

اور حضرت براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قریظہ کے دن حضرت حسان بن ثابت سے فرمایا کہ تم مشرکین کی ہجو کرو، حضرت جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں (یعنی مضامین کے القاء والہام کے سلسلے میں وہ تمہاری مدد کرتے ہیں) اور رسول اللہ ﷺ جب کفار و مشرکین کی ہجو سنتے کہ وہ آپ کی شان میں نازیبا باتیں کرتے ہیں اور آپ کو برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں تو حضرت حسان (رض) سے فرما دیتے کہ تم میری طرف سے کفار کو جواب دو اور پھر یہ فرماتے اے اللہ جبرائیل کے ذریعہ حسان (رض) کی مدد کر اور ان کی زبان وبیان میں طاقت و قوت دے۔ تشریح یہودیوں کے ایک قبیلہ کا نام بنو قریظہ تھا جو مدینہ شہر کے ایک کنارے پر آباد تھا جب ان یہودیوں نے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر کے اور کفار عرب کے مددگار بن کر آنحضرت ﷺ اور تمام مسلمانوں کو سخت اذیت پہنچائی تو آنحضرت ﷺ نے غزوہ خندق کے بعد مسلمانوں میں اس قبیلہ کا محاصرہ کرلیا جس کے نتیجے میں ان کو اپنے کیفر کردار تک پہنچنا پڑا چناچہ اس موقع کو قریظہ کے دن سے تعبیر سے کیا گیا ہے۔ حضرت حسان ابن منذر مدینہ کے رہنے والے اور جلیل القدر صحابی انصاری ہیں بڑے اور اونچے درجے کے شاعر تھے شعراء اسلام میں ان کا شمار ہوتا ہے اور شاعر رسول کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں ان کی عمر ایک سو بیس سال ہوئی ساٹھ سال کی عمر تک کفر کی حالت میں رہے اور ساٹھ سال اسلام کی حالت میں گزارے۔

【169】

شعراء اسلام کو کفار قریش کی ہجو کرنے کا حکم

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے شعراء سے فرما دیا تھا کہ کفار قریش کی ہجو کیا کرو کیونکہ یہ ہجو ان پر تیر مارنے سے زیادہ سخت ہے۔ (مسلم) تشریح ہجو، کے معنی اشعار کے ذریعہ برائی بیان کرنا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفار اور دشمنان دین کی ہجو کرنا جائز ہے لیکن اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ اگر کفار مسلمانوں کی ہجو کریں، تب ان کی ہجو کی جائے اس سے پہلے ان کی ہجو کرنا روا نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں وہ مسلمانوں کی ہجو کریں گے اور اس طرح سے مسلمانوں کے خلاف ان کی ہجو کا سبب خود مسلمان بنیں گے اس مسئلہ کی بنیاد پر یہ آیت کریمہ ہے کہ، آیت (وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوً ا بِغَيْرِ عِلْمٍ ) 6 ۔ الانعام 108) ۔ اے مسلمانوں ان لوگوں کو گالی نہ دو جو غیر اللہ کو پکارتے ہیں یعنی کفار و مشرکین، نہیں وہ آگے بڑھ کر اللہ گالیاں دینے لگیں، بغیر علم کے۔

【170】

شعراء اسلام کو کفار قریش کی ہجو کرنے کا حکم

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حضرت حسان (رض) سے یہ فرماتے ہوا سنا کہ جب تک تم اللہ اور اس کے رسول کی طرف کفار و مشرکین کی ہجو کا مقابلہ کرتے رہتے ہو حضرت جبرائیل برابر تمہاری مدد اعانت کرتے رہتے ہیں حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ حسان نے کفار کی ہجو کی تو اس ہجو سے مسلمانوں کو شفا دی اور خود بھی شفا پائی، یعنی انہوں نے کفار کی ہجو کا جواب ہجو سے دے کر مسلمانوں کے لئے بھی تسلی و تشفی کا سامان بہم پہنچایا اور خود بھی سکون و طمانیت حاصل کی۔ (مسلم)

【171】

غزوہ خندق میں عبداللہ بن رواحہ کارجزیہ کلام آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک پر

اور حضرت براء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خندق کھودے جانے کے دن خود بنفس نفیس مٹی اٹھا اٹھا کر پھینکتے یعنی غزوہ احزاب کے موقع پر جب خندق کھودی جا رہی تھی تو سرکار دو عالم بنفس نفیس سارے کام میں شریک تھے، صحابہ (رض) کے ساتھ آپ بھی بڑے بڑے پتھر اٹھاتے اور مٹی اٹھا اٹھا کر پھینکتے جاتے تھے یہاں تک کہ آپ کا شکم مبارک غبار آلود ہوگیا تھا اور اس موقع پر حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) کا یہ رجزیہ کلام پڑھتے جاتے تھے جس کا ترجمہ یہ ہے۔ خدا کی قسم اگر اللہ کی ہدایت نہ ہوتی تو ہم راہ راست نہیں پاسکتے تھے نہ ہم صدقہ دے سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے تھے۔ پس اے اللہ ہم پر وقار اور اطمینان نازل فرما و رجب دشمنان دین سے ہماری مڈ بھیڑ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ بے شک کفار مکہ نے ہم پر اس لئے زیادتی کی ہے جب وہ ہمیں فتنہ میں مبتلا کرنے یعنی کفر کی طرف واپس لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہم انکار کردیتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ ان اشعار کو بلند آواز سے پڑھتے تھے خصوصا ابینا ابینا پر آواز بلند ہوجاتی تھی۔ تشریح یرفع بھا صوتہ میں بھا کی ضمیر لفظ ابینا کی طرف راجع ہے اور ابینا ابینا سے پہلے لفظ قائلا مقدر ہے مطلب یہ ہے کہ آپ ان اشعار کو پڑھتے تو اخر میں لفظ ابینا کو بار بار دہراتے اور اس وقت آپ کی آواز کو زیادہ بلند کرتے اور اس سے مقصد اس لفظ کے مفہوم کو مؤ کد کرنا، تلذذ و حظ حاصل کرنا اور زیادہ سے زیادہ مسلمانوں اور کافروں کے کانوں تک پہنچانا تھا۔ طبی نے یہ لکھا ہے کہ بھا کی ضمیر ان اشعار کی طرف راجع ہے اور ابینا ابینا اس جملہ میں حال واقع ہو رہا ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آپ تمام اشعار کو باآواز بلند پڑھتے تھے اور لفظ ابینا پر پہنچ کر آواز کو خصوصیت سے بلند کردیتے تھے۔

【172】

غزوہ خندق کے موقع پر رجز پڑھنے والے صحابہ کے حق میں آنحضرت ﷺ کی دعا

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ جب غزوہ احزاب کے موقع پر مہاجرین اور انصار نے خندق کھودنا اور مٹی کو اٹھا اٹھا کر پھینکنا شروع کیا تو وہ اس دوران یہ رجز پڑھتے جاتے تھے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک جہاد کرتے رہنے کے لئے محمد کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔ اور رسول اللہ ان کے اس رجز کے جواب میں یہ دعا فرماتے جاتے تھے کہ اے اللہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے تو انصار و مہاجرین کو بخش دے۔ (بخاری، مسلم) تشریح ا نحضرت ﷺ گویا ان دعائیہ الفاظ کے ذریعہ صحابہ کو تسلی دیتے تھے کہ تمہیں اس موقع پر جو محنت و مشقت برداشت کرنا پڑ رہی ہے اور تم جن سخت حالات سے دوچار ہو ان پر صبر کرو اللہ تعالیٰ کا انعام تمہارے لئے مقدر ہے اور اس دنیا میں تمہیں راحت و سکون ملے یا نہ ملے لیکن آخرت کی زند گی میں تمہیں اپنی اس محنت و مشقت کے عوض بیشمار انعامات ملیں گے نیز اصل انعامات آخرت ہی کے ہیں بایں طور کہ زندگی بس آخرت ہی کی زندگی ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے جب کہ اس دنیا کی کیا راحت و کیا مصیبت سب کو آخرکار معدوم ہوجانا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت (وماالحیوۃ الدنیا الامتاع الغرور) ۔

【173】

ہر وقت شعر و شاعری میں مستغرق رہنے اور برے شعر کی مذمت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یاد رکھو ! کسی شخص کا پیٹ کو پیپ سے بھرنا جو اس کے پیٹ کو خراب کر دے اس سے بہتر ہے کہ پیٹ کو مذموم اشعار سے بھرا جائے۔ (بخاری، مسلم) تشریح اس حدیث کے ذریعہ ایسی شاعری کی مذمت کی گئی ہے جو انسان کو ہر طرف سے غافل کر دے چناچہ جو شاعر ہر وقت مضامین بندی اور تخلیق شعر میں مستغرق رہ کر فرائض و عبادت و تلاوت قرآن و ذکر الٰہی اور علوم شرعیہ سے غافل ہوجاتے ہیں ان کے اشعار برائی اور قابل نفرین ہونے کے اعتبار سے اس پیپ سے بھی بدتر ہیں جو زخم میں پڑجاتی ہے خواہ وہ اشعار کسی بھی طرح کے ہوں اور کیسے بھی اچھے مضامین کے حامل کیوں نہ ہوں۔ یا اس سے ارشاد گرامی میں محض ان اشعار کی مذمت مراد ہے جو فحش و بےحیائی، کفر و فسق اور ناشائستہ وغیر صالح مضامین پر مشتمل ہونے کی وجہ سے برے اشعار کہتے جاتے ہیں۔

【174】

شعری جہاد کی فضیلت

اور حضرت کعب بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ نے شعر و شاعری کے حق میں جو حکم دیا ہے وہ آیت ظاہر ہے جو اس نے نازل فرمائی ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے ان کی اس بات کے جواب میں فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم کافروں کو اشعار کے ذریعہ اسی طرح زخم پہنچاتے ہو جس طرح تیروں کے ذریعہ۔ (محی السنہ) اور عبدالبر کی کتاب استیعاب میں یوں ہے کہ حضرت کعب (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ شعر و شاعری کے متعلق آپ کیا حکم فرماتے ہو یہ کوئی اچھی چیز ہے یا بری ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی۔ تشریح علماء نے لکھا ہے کہ تین حضرات شعراء اسلام میں ممتاز اور برتر حثییت رکھتے ہیں ان میں ایک تو حضرت حسان بن ثابت (رض) تھے دوسرے حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) اور تیسرے حضرت کعب بن مالک (رض) عنہ۔ علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ تینوں حضرات اپنا الگ الگ شعری انداز و رخ رکھتے ہیں حضرت کعب (رض) کے اشعار خصوصیت سے ایسے مضامین پر مشتمل ہوتے تھے جو کفار و مشرکین کو جنگ و جہاد کے خوف میں مبتلا کرتے تھے اور ان کے دلوں پر رعب وہیبت کے اثرات مرتب کرتے تھے، حضرت حسان (رض) اپنے اشعار کے ذریعہ دشمنان دین اور دشمنان رسول کے حسب و نسب پر طعن وتشنیع کے تیر چلاتے تھے اور حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) کے اشعار کا رخ کفار مشرکین کی توبیخ و سرزنش کی طرف رہتا تھا۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ نے قرآن کریم کی یہ آیت (وَالشُّعَرَا ءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاو نَ ) 26 ۔ الشعراء 224) ، نازل فرمائی اور اس کے ذریعہ شعر و شاعری کی برائی اور اپنے احوال کے ذریعہ ان پر ظاہر فرمایا کہ شعر و شاعری بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے بلکہ اس میں برائی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کو غیر شرعی باتوں اور نامناسب مضامین کے اظہار کا ذریعہ بنایا جائے اور چونکہ عام طور پر شعراء فکر و خیال کی گمراہی اور زبان کلام کی بےاعتدالیوں کا شکار ہوتے ہیں اس لئے اللہ نے اس کی مذمت میں مذکورہ آیت نازل فرمائی ورنہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کوئی شخص اپنے اشعار کو حق و صداقت کے اظہار باطل و ناحق کی تردید کا ذریعہ بنائے تو اس کی شعر و شاعری اس آیت کا محمول نہیں ہوگی بلکہ جو شعراء اپنے اشعار کے ذریعہ اللہ اور اللہ کے رسول کی خاطر کفار کا شعری مقابلہ کرتے ہیں اور ان کی ہجو کا جواب ہجو دے دے کر گویا دین اسلام کی تائید کرتے ہیں وہ دراصل جہاد کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں لہذا تمہیں اطمینان رکھنا چاہیے کہ نہ تمہارے اشعار اس آیت کی روشنی میں قابل مذمت ہیں اور نہ تم ان شعراء میں داخل ہو جن کی برائی ظاہر کرنے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی گئی ہے کیونکہ خود اللہ نے تم جیسے شعراء کو اپنے اس قول کے ذریعہ مذکورہ آیت کے حکم سے باہر رکھا ہے کہ۔ آیت (اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا) 26 ۔ الشعراء 227)

【175】

کم گوئی ایمان کی نشانی ہے۔

اور حضرت ابوامامہ آنحضرت ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا شرم و حیاء اور زبان کو قابو میں رکھنا ایمان کی دو شاخیں ہیں جب کہ فحش گوئی اور لاحاصل بکو اس نفاق کی دو شاخیں ہیں۔ (ترمذی) تشریح شرم و حیاء کا ایمان کی شاخ ہونا ایک ظاہر و معروف بات ہے اور اس کا تفصیلی ذکر باب الایمان میں گزر چکا ہے۔ زبان کو قابو میں رکھنے کا ایمان کی شاخ ہونا اور فحش گوئی و لا حاصل بکو اس کا نفاق کی شاخ ہونا اس اعتبار سے ہے کہ مومن اپنی حقیقت کے اعتبار سے شرم و حیاء انکساری مسکینی و سلامتی طبع کے جن اوصاف سے مزین ہوتا ہے وہ اپنے اللہ کی عبادت اپنے اللہ کی مخلوق کی خدمت اور اپنے باطن کی اصلاح میں جس طرح مشغول و منہمک رہتا ہے اس کی بناء پر اس کے بےفائدہ تقریر بیان پر قدرت ہی حاصل نہیں ہوتی وہ اس بات پر قادر ہی نہیں ہوتا کہ اپنے مفہوم و مدعا کو مبالغہ آرائی اور زبان کی تیز و طرار کے ذریعہ ثابت و ظاہر کرسکے بلکہ وہ اس خوف سے کم گوئی کو اختیار کرتا ہے اور اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہے کہ مبادا زبان سے کوئی بڑی بات نکل جائے اور وہ فحش گوئی اور بد زبانی کا مرتکب ہوجائے اس کے برخلاف منافق کی شان ہی ہوتی ہے کہ وہ چرب زبانی یا وہ کوئی اور مبالغہ آمیزی کی راہ اختیار کرتا ہے اور نتیجہ کے طور پر وہ بےفائدہ تقریر وبیان، زبان درازی اور فحش گوئی پر قادر و دلیر ہوجاتا ہے۔

【176】

بے فائدہ بیان آرائی مکروہ ہے۔

اور حضرت ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن مجھ کو سب سے زیادہ عزیز و محبوب اور میرے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سے زیادہ خوش اخلاق ہیں اور میرے نزدیک تم میں سے سب سے برے اور مجھ سے سے سب سے زیادہ وہ دور لوگ ہوں گے جو تم میں بد اخلاق ہیں، بد اخلاق سے مراد وہ لوگ ہیں جو بہت بنا بنا کر باتیں کرتے ہیں بغیر احتیاط کے بک بک لگاتے ہیں اور متفیہقین اس روایت کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور ترمذی نے بھی حضرت جابر (رض) سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے نیز ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ صحابہ نے یہ ارشاد سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ثرثارون اور متشدقون کے معنی تو ہمیں معلوم ہیں متفیھقون سے کیا مراد ہے یعنی متفیھق کسے کہتے ہیں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تکبر کرنے والے۔ تشریح فیھق، ، ضرورت سے زیادہ باتیں کرنا اور منہ پھیر کر کوئی بات کہنے کو کہتے ہیں جیسا کہ تکبر وغیرہ میں مبتلا لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جو وہ کسی سے بات چیت کرتے ہیں تو ان کے رویہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے مخاطب کو بہت حقیر و ذلیل سمجھ رہے ہوں اور یہ بھی گوارا نہیں ہو رہا ہے کہ اس کی طرف منہ اٹھا کر ہی بات کریں بلکہ اس کی طرف سے چہرہ پھیر پھیر کر بات کرتے ہیں چناچہ اسی معنوی لزوم کی وجہ سے متفیھقین کی وضاحت متکبرین کے ذریعہ کی گئی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بک بک لگانا، بےفائدہ و لا حاصل گفتگو کرنا بنا بنا کر باتیں کرنا اور بیا آرائی و مبالغہ آمیزی کے ساتھ تقریریں کرنا مکروہ مذموم ہے لیکن حق کے تئیں لوگوں کے ذہن و فکر کو متاثر کرنے قلوب کو نرمانے اور عبادات و طاعات کی طرف سے متوجہ و راغب کرنے کے لئے وعظ و نصیحت میں جو بیان آرائی کی جائے اور طول بیان کی جاتی ہے وہ مذموم و مکروہ نہیں ہے لیکن اس صورت میں یہ بھی ضروری ہے کہ کہ انداز بیان اور طرز کلام ایسا اختیار کرنا چاہیے کہ جو آسانی سے لوگوں کو مقصد تک پہنچا دے اس کے برخلاف پیچیدہ و رقیق انداز مشکل لغات و الفاظ اور ایسی نکتہ چینی و حکمت آفرینی اختیار کرنا جو عام ذہن و فہم سے بالا تر ہو اور جس کی وجہ سے ان پڑھ لوگ اس کے وعظ و تقریر سے کما حقہ فائدہ نہ اٹھا سکیں مناسب موزوں نہیں ہے۔

【177】

ایک پیش گوئی

اور حضرت سعد ابن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ ایک ایسی جماعت پیدا نہیں ہوجائے گی جو اپنی زبانوں کے ذریعہ اس طرح کھائے گی جس طرح گائیں اپنی زبانوں سے کھاتی ہیں (احمد) تشریح۔ مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اپنی زبانوں کو کھانے پینے کا وسیلہ و ذریعہ بنائیں گے بایں طور کہ وہ خوشامد چاپلوسی کی خاطر لوگوں کی جھوٹی تعریفیں بیان کریں گے یا بغض وحسد کی بنا پر ان کی جھوٹی مذمت کریں اور وہ اپنی تقریر و تحریر میں زبان وافی اور فصاحت و بلاغت کا جھوٹا مظاہرہ کریں گے تاکہ لوگ اپنے دام فریب میں مبتلاکریں اور ان سے دنیا کا مال وزر حاصل کریں اور اپنی خواہشات کی تکمیل کرائیں۔ جس طرح گائیں اپنی زبان کے ذریعے کھاتی ہیں کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جس طرح گائیں اپنی زبان سے کھاتی ہیں اور چارا چرتے وقت یہ تمیز نہیں کرتیں کہ وہ چارہ خشک ہے یا تر اور شیریں ہے یا تلخ اور جائز ہے کہ ناجائز، اسی طرح وہ لوگ بھی جو اپنی زبانوں کو اپنے ناجائز مقاصد اور ناروا خواہشات کی تکمیل کا وسیلہ و ذریعہ بنائیں گے، حق و باطل اور سچ جھوٹ کے درمیان قطعا کوئی تمیز نہیں کریں گے اور نہ حلال و حرام کے درمیان کوئی فرق کریں گے۔

【178】

زبان دراز اور چکنی چپڑی باتیں کرنے والا اللہ کا ناپسندیدہ ہے۔

اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص سخت ناپسندیدہ ہے جو کلام وبیان میں حد سے زیادہ فصاحت و بلاغت کا مظاہرہ کرے بایں طور کہ وہ اپنی زبان کو اس طرح لپیٹ لپیٹ کر باتیں کرے جس طرح گائے اپنے چارے کو لپیٹ لپیٹ کر جلدی جلدی اپنی زبان سے کھاتی ہیں اس روایت کو ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح۔ مطلب یہ ہے کہ زبان درازی اور طاقت نسائی کوئی اچھی چیز نہیں ہے اپنی زبان اور کلام میں خواہ مخواہ کے لئے حد سے زیادہ فصاحت و بلاغت کا مظاہرہ کرنا، حاشیہ آرائی اور مبالغہ آمیزی کے ساتھ اپنی بات کو پیش کرنا اور الفاظ کو چباچباکر اور زبان کو لپیٹ لپیٹ کر چکنی چپٹی باتیں کرنا احمق لوگ کے نزدیک تو ایک وصف سمجھا جاتا ہے لیکن جو دانش مند اور عاقل لوگ اس وصف کے پیچھے چھپی ہوئی برائی کو دیکھتے ہیں کہ عام طور پر اس طرح باتیں بنانے والے لوگ جھوٹے اور حیلہ باز ہوتے ہیں ان کے نزدیک اس وصف کا کوئی اعتبار نہیں اور اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایسا شخص اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے لہذا چھا کلام وہی ہے جو ضرورت کے بقدر اور سیدھا سادا ہو نیز جس سے یہ واضح ہو کہ متکلم کے ظاہری الفاظ، اس کی باطنی کیفیات کے ہم آہنگ ہیں جو شریعت کا تقاضا بھی ہے۔

【179】

بے عمل واعظ وخطیب کے بارے میں وعید

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات میں میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہو جن کی زبانیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جارہی تھیں، میں نے یہ دیکھ کر پوچھا کہ جبرائیل (علیہ السلام) یہ کون لوگ ہیں۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ آپ کی امت کے واعظ وخطیب ہیں جو ایسی باتیں کہتے ہیں جن پر خود عمل نہیں کرتے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ ترمذی) تشریح۔ اس حدیث میں ان واعظوں اور خطیبوں کے لئے سخت تنبیہ وعید ہے جو دوسروں کو نیک کام کرنے کو کہتے ہیں لیکن خود نیک کام نہیں کرتے تاہم واضح رہے کہ یہ حدیث ان واعظوں اور خطیبوں کی بےعملی کی مذمت کو ظاہر کرتی ہے نہ کہ اس ارشاد کا مقصد اس بات کی برائی کو بیان کرنا ہے کہ وہ نیک کام کے لئے کیوں کہتے ہیں اگرچہ وہ خود نیک کام نہیں کرتے اسی بنیاد پر علماء لکھتے ہیں کہ امربالمعروف میں فعل شرط نہیں ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ نیک کام کے لئے وہی شخص کہہ سکتا ہے جو خود بھی اس پر عمل کرے البتہ یہ بہتر ہے کہ امربالمعروف کرنے والا اپنے کہے پر خود بھی عمل کرے، کیوں کہ جس امر بالمعروف کی بنیاد محض قول پر ہوتی ہے عمل پر نہیں ہوتی اس کا اثر نہیں ہوتا۔

【180】

چرب زبانی کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اس مقصد کے لئے گھما پھرا کر بات کرنے کا سلیقہ سیکھے کہ وہ اس کے مردوں کے دلوں یا لوگوں کے دلوں پر قابو حاصل کرلے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ اس کی نفل عبادت قبول کرے گا اور نہ فرض۔ تشریح۔ مذکورہ وعید کا تعلق اس شخص سے ہے جو چرب زبانی کرے ضرورت سے زیادہ باتیں بنائے اپنے مقصد کو اس طرح گھما پھرا کر بیان کرے کہ حقیقت ظاہر نہ ہوسکے اور یا اپنے کلام کو ضرورت سے زیادہ فصاحت و بلاغت نیز مبالغہ آرائی کے ساتھ آراستہ و مزین کرے اور ان چیزوں محض یہ ہو کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس کی باتوں سے اثر قبول کرکے اس کے مقصد کو پوراکریں۔

【181】

مختصر تقریر بہتر ہوتی ہے

اور حضرت عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن انہوں نے اس وقت فرمایا جب کہ ایک شخص (وعظ کہنے یا خطبہ دینے کے لئے کھڑا ہوا اور اپنی فصاحت و بلاغت کے اظہار کی خاطر) بہت لمبی تقریر کی یہاں تک کہ سننے والے اکتا گئے چناچہ اس وقت حضرت عمر (رض) نے اس شخص سے فرمایا کہ اگر تم اپنی تقریر میں اعتدال ومیانہ روای سے کام لیتے تو بیشک وہ تقریر سننے والوں کے حق میں بہت بہتر ہوتی ہے میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے سمجھ لیا ہے یا یہ فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تقریر میں گفتگو میں اختصار کروں حقیقت یہ ہے کہ مختصر تقریر بہتر ہے۔ (ابوداؤد) تشریح۔ روایت میں فقال عمرو کے الفاظ طول کلام کے سبب مکرر نقل کئے گئے ہیں کیونکہ ولوقصد۔ الخ۔۔ مقولہ ہے کہ قال یوما کا اور قام رجل حال ہے اور ظاہر ہے کہ حال کی وجہ سے قول ومقولہ کے درمیان خاصا فرق ہوگیا اس لئے فقال عمرو دوبارہ کہہ کر گویا قول کا اعادہ کیا۔

【182】

بعض علم جہالت ہوتے ہیں

اور حضرت صخرا بن عبداللہ ابن بریدہ اپنے والد (حضرت عبداللہ) سے اور وہ صخر کے دادا حضرت بریدہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بعض بیان جادو کی مانند ہوتے ہیں بعض علم جہالت ہوتے ہیں بعض اشعار فائدہ مند یعنی حکمت و دانائی سے پر ہوتے ہیں اور بعض قول و کلام وبال جان ہوتا ہے۔ (ابوداؤد) ۔ تشریح۔ بعض علم جہالت ہوتے ہیں کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ کسی شخص نے ایسا علم حاصل کیا جو بذات خود نہ تو فائدہ مندہو اور نہ اس کی طرف احتیاج و ضرورت ہو جیسے علم جعفر و رمل یا علم نجوم وفلاسفہ وغیرہ اور اس بےفائدہ علم میں مشغولیت کی وجہ سے وہ ضروری علوم حاصل کرنے سے محروم رہا ہے جن سے لوگوں کی احتیاج و ضرورت وابستہ ہوتی ہے جیسے قرآن و حدیث اور دین کے علوم، تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں یہی کہا جائے گا کہ اس شخص نے جو بےفائدہ علم حاصل کیا اس علم نے دوسرے ضروری علوم سے اس کی محرومی و جاہل رکھا ہے جس کا حاصل یہ ہو کہ بعض علوم درحقیقت جہل کو لازم کرتے ہیں اور اسی اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ بعض علم جہالت ہوتے ہیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ علم حاصل کرنے والا اپنے علم پر عمل پیرا نہ ہوا، اس اعتبار سے وہ شخص عالم ہونے کے باجود جاہل قرار پائے گا کیوں کہ جو شخص علم رکھے اور عمل نہ کرے تو وہ گویا جاہل ہے۔ علاوہ ازیں اس ارشاد گرامی سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جو شخص علم کا دعوی کرتا ہے اور اپنے گمان کے مطابق خود کو عالم سمجھتا ہے مگر حقیقت میں وہ عالم نہیں ہے تو اس کا یہ علم جس کا اس نے دعوی کیا ہے علم نہیں ہے بلکہ سراسر جہالت ونادانی ہے۔ بعض قول و کلام وبال جان ہوتا ہے، کا مطلب ہے کہ کسی شخص نے کوئی ایسی بات کہی جس کی وجہ سے وہ خود کسی آفت میں مبتلا ہوگیا یا جس شخص نے اس بات کو سنا وہ کسی ملال ودل براشتگی میں مبتلا ہوگیا، بایں طور کہا اگر وہ سننے والاجاہل تھا تو وہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی اور اگر عالم تھا تو اس کے لئے لاحاصل تھی یا وہ کوئی ایسی بات جس کو سننے والا پسند نہیں کرتا اور اس بت کی وجہ سے اس کو رنج وملال ہوتا ہے تو ان صورتوں میں یہی کہا جائے گا کہ کہنے والے وہ قول و کلام وبال وملال کا ذریعہ بن گیا ہے۔

【183】

حضرت حسان (رض) کی فضیلت

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد نبوی میں مشہور شاعر اسلام حضرت حسان کے لئے منبر رکھوا دیتے جس پر وہ کھڑے ہو کر اپنے اشعار سناتے اور ان اشعار میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اظہار فخر کرتے تھے یا یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے کفار کے دین مخالف اشعار اور ہجو کا مقابلہ کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعہ حسان (رض) کی تائید کرتا ہے جب تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مقابلہ کرتے ہیں۔ یا یہ الفاظ ہیں کہ جب تک وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اظہار فخر کرتے ہیں۔ (بخاری) ۔

【184】

حدی کا جواز

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے ایک حدی خواں تھے جن کا نام ابخشہ تھا وہ بہت خوش آواز تھے ایک سفر کے دوران آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ابخشہ اونٹوں کو آہستہ آہستہ ہانکو اور شیشوں کو نہ توڑو۔ حضرت قتادہ (رض) حدیث کے ایک راوی کہتے ہیں کہ شیشوں سے آنحضرت ﷺ کی مراد عورتیں تھیں۔ (بخاری) حدی صراح کے مطابق اس بلند آواز گانے کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اونٹوں کو ہانکا جاتا ہے لغت کی بعض دوسری کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ حدی، عرب شتربانوں کے نغمہ کو کہتے ہیں چناچہ عرب میں دستور ہے کہ شتربان اونٹ ہانکنے والاجب یہ دیکھتا ہے کہ اس کا اونٹ تھک گیا ہے یا اس کی چال سست ہوگئی ہے تو بلند آواز اور خوش گوئی کے ساتھ گانے لگتا ہے اس گانے کی آواز گویا اونٹ میں چستی و گرمی پیدا کردیتی ہے جس سے وہ تیز رفتاری کے ساتھ چلنے لگتا ہے کتابوں میں لکھا ہے کہ حدی جو گانے ہی کی ایک قسم ہے مباح ہے اور اس کے بارے میں علماء میں سے کسی کا کوئی اختلافی قول نہیں ہے۔ قواریر قارورہ کی جمع ہے جس کے معنی شیشہ کے ہیں، اس ارشاد گرامی شیشوں کو نہ توڑو کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ عورتوں کے بدن میں جو فطری نزاکت و کمزوری ہوتی ہے اس کی بنا پر اونٹوں کا تیز چلنا اور ہچکولے لگنا ان کے سخت تعجب و تکلیف کا موجب بن جاتا ہے لہذا آنحضرت ﷺ نے اپنے شتربان ابخشہ کو حکم دیا کہ اونٹ کو اتنی تیزی کے ساتھ نہ بھگاؤ کہ اس پر سوار عورتیں ہچکولے کھانے لگیں اور اس کی وجہ سے ان کو تکلیف و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ عورتوں کے دل کی کمزوری ونرمی کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا یعنی آنحضرت ﷺ نے ابخشہ کو ہدایت کی اس طرح حدی خوانی نہ کرو جس سے عورتوں کے دل کمزور، متاثر ہوجائیں اور تمہارے گانے کی وجہ سے ان کے ذہن و دماغ اور جذبات میں ہلچل پیدا ہوجائے اور وہ کسی برے خیال میں مبتلا ہوجائیں کیونکہ گانے کی خاصیت ہی یہ ہے کہ وہ طبیعت کو بھڑکاتا ہے اور جذبات میں ہلچل مچا دیتا ہے اگرچہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جس موقع پر یہ ارشاد فرمایا اس وقت اونٹ پر ازواج مطہرات میں سے کوئی زوجہ مطہرہ سوار ہوں گی اور اس صورت میں مطلب غیر موزوں معلوم ہوتا ہے کیونکہ مذکورہ احتمال یعنی گانے کی آواز سن کر جذبات میں ہلچل پیدا ہوجانا ازواج مطہرات کے حق میں نہایت کمزور ضعیف ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کسی برے خیال کا پیدا ہوجانا اور طبیعت و دل کا کسی وسوسے میں مبتلا ہوجانا ایک طبعی چیز جو کسی انسان کے اختیار کی پابند نہیں ہے لہذا آنحضرت ﷺ نے اس کو مناسب سمجھا کہ احتیاط کی راہ ظاہر فرمادیں کہ بہر صورت احتیاط کی راہ اختیار کرنا ہی بہتر ہے اور اولی ہے۔ یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا تعلق درحقیقت امت کے لوگوں کو تعلیم و تلقین سے ہے یعنی آپ نے اس موقع پر مذکورہ ارشاد کے ذریعہ پوری امت کو ہدایت فرمائی کہ جب اونٹ پر عورتیں سوار ہوں تو ان کی موجودگی کو ملحوظ رکھاجائے اور حدی خوانی میں احتیاط و مصلحت کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اوپر جو دو معنی بیان کئے گئے ہیں ان میں سے دوسرے مطلب کو اکثر شارحین نے ترجیح دی ہے لیکن روایت کے الفاظ کا تقاضا یہ ہے کہ پہلا مطلب صحیح ماناجائے۔

【185】

شعر کی خوبی وبرائی کا تعلق اس کے مضمون سے ہے

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے شعر کا ذکر کیا گیا، یعنی یہ دریافت کیا گیا شعر و شاعری کوئی اچھی چیز ہے یا بری ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شعر بھی ایک کلام ہے چناچہ اچھاشعر اچھاکلام ہے اور برا شعر برا کلام ہے۔ تشریح۔ شعروشاعری کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے اور حدیث بھی اسی بات کو واضح کرتی ہے کہ شعر کہنا یا پڑھنا سننا بذات خود کوئی برائی نہیں رکھتا بلکہ اس کی اچھائی اور برائی کا دارومدار شعر کے مضمون پر ہوتا ہے اگر شعر کا مضمون ایسا ہے جو شریعت کے حکم ومنشاء اور دینی تقاضوں کے خلاف نہیں ہے تو اس شعر میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ ایسے مضمون کا حامل شعر کہا اور سناجائے جس سے دین کی بات پھیلتی اور ثابت ہوتی ہے یا جس سے اللہ کی وحدانیت رسول ﷺ کی محبت ومنقبت اور دین وخادمان دین کی عظمت ظاہر ہوتی ہو تو یقینا ایساشعر مستحسن و محمود بھی ہوگا اس کے برخلاف جس شعر کا مضمون شریعت کے حکم ومنشاء کے خلاف ہو تو اس کو برا کہا جائے گا۔

【186】

شعر کی برائی

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سفر کے دوران عرج میں تھے کہ اچانک ایک شاعر سامنے سے نمودار ہوا جو اشعار پڑھنے میں مشغول تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ اس شیطان کو پکڑ لو یا یہ فرمایا کہ اس شیطان کو جانے دو یعنی اس کو شعر پڑھنے سے روک دیا، یاد رکھو ! انسان کا اپنے پیٹ کو پیپ سے بھرنا اس میں اشعار بھرنے سے بہتر ہے۔ (مسلم) تشریح۔ عرج، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان راستہ میں پڑنے والی ایک گھاٹی کا نام ہے جہاں ایک چھوٹی سی بستی بھی ہے اس راستے پر چلنے والے قافلے یہاں منزل کرتے تھے آنحضرت ﷺ بھی سفر ہجرت اور حجۃ الوداع میں اس جگہ سے گزرے تھے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ حجۃ الوداع کے سفر کے دوران کا ہے۔ بہرحال جب آنحضرت ﷺ نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ شعر پڑھنے میں بری طرح مشغول ہے یہاں تک کہ اس کو وہاں موجود مسلمانوں کی طرف بھی کوئی التفات نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے آنحضرت ﷺ اور تمام مسلمانوں سے صرف نظر کئے ہوئے بےمحابا چلا جارہا ہے۔ اور اس کو شوق شعر و شاعری نے اس درجہ بےباک بنادیا ہے کہ وہ انسانی اور اخلاقی تقاضوں اور آداب زندگی کو فراموش کر بیٹھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے رگ وپے میں صرف شعر و شاعری ہی سرایت کئے ہوئے اور وہ پرلے درجے کا بےحیاء وبے ادب بن گیا ہے تو آپ ﷺ نے اس کو شیطان فرمایا جس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ یہ شخص رحمت الٰہی اور قرب الٰہی سے بعد اختیار کئے ہوئے اور ظاہر ہے کہ اس سے صورت حال کا صدور محض اس لئے ہوا کہ وہ اپنی شعروشاعری کے غرور نخوت میں مبتلا تھا اس لئے آپ نے شعر کی مذمت کی۔

【187】

راگ لگانا، نفاق کو پیدا کرتا ہے

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا راگ و گانا دل میں نفاق کو اس طرح اگاتا ہے جس طرح پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔ (بہیقی) تشریح۔ مطلب یہ ہے کہ راگ وگاناانسانی قلب وروح کے لئے ایک آزار ہے کہ جس کا ثمرہ نفاق ہے یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ راگ و گانا انسان میں نفاق و فساد باطن کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے۔ دیلمی کی روایت میں حضرت انس (رض) سے آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی یوں نقل کیا گیا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ راگ و گانا اور کھیل کود یہ دونوں نفاق کو اس طرح اگاتے ہیں جس طرح پانی سبزی کا اگاتا ہے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے قرآن اور ذکر الٰہی یہ دونوں قلب میں ایمان کو اس طرح اگاتے ہیں جس طرح پانی سبزی کو اگاتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ راگ وگانے اور کھیل کود جیسی لاحاصل چیزوں سے اجتناب کرے بلکہ اپنے اوقات کو تلاوت قرآن اور ذکرالہی سے معمور رکھے کیوں کہ یہ چیزیں قلب وروح کو جلا بخشتی ہیں اور ایمان و اخلاق کو مضبوط بناتی ہیں۔ نووی (رح) نے کتاب روضہ میں لکھا ہے کہ محض آواز کے ساتھ گانا مکروہ ہے اور اس کا سننا بھی مکروہ ہے نیز اجنبی عورت سے سننا سخت مکروہ ہے اور ساز جیسے عود وطنبور اور دیگر باجوں کے ساتھ شراب نوشوں کا خاص مشغلہ ہوتا ہے حرام ہے اور اس کا سننا بھی حرام ہے۔

【188】

باجے گا جے کی آواز آئے تو کانوں میں انگلیاں ڈال لو

اور حضرت نافع تابعی (رح) کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت ابن عمر (رض) کے ساتھ راستہ میں تھا یعنی ہم دونوں کہیں جارہے تھے کہ راستے میں ایک جگہ حضرت ابن عمر (رض) نے کوئی آواز سنی اور فورا اپنی انگلیاں کانوں میں ڈال لیں نیز راستہ سے ہٹ کر دوسری طرف ہولیے تاکہ اس آواز سے اپنے آپ کو بچاسکیں پھر اس راستہ سے ہٹنے کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ نافع کیا تم بھی کچھ سن رہے ہو یعنی کہ جو آواز آرہی تھی وہ اب بھی آرہی ہے یا بند ہوگئی ہے ؟ میں نے کہا نہیں اب وہ آواز بند ہوگئی ہے انہوں نے اپنی دونوں انگلیاں کانوں سے نکال لیں اور پھر بیان کیا کہ ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا کہ آپ ﷺ نے نے کی آواز سنی اور پھر آپ ﷺ نے یہی کیا جو اس وقت میں نے کیا ہے۔ حضرت نافع (رح) کہتے ہیں کہ اس وقت میں ایک چھوٹی عمر کا لڑکا تھا۔ (احمد، ابوداؤد) تشریح۔ حضرت نافع (رح) نے جو اس روایت کے آخر میں جو یہ واضح کیا کہ میں نے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے وہ اس وقت کا ہے جب میں بہت چھوٹا تھا اس سے ان کا مقصد اس بات کو واضح کرنا تھا کہ اس وقت چونکہ میں چھوٹی عمر کا تھا اور شرعی طور پر مکلف نہیں تھا اس لئے حضرت ابن عمر (رض) نے اس آواز کو سننے سے مجھ کو منع نہیں کیا اگر میں شرعی طور پر مکلف ہوتا تو وہ یقینا مجھ کو یہ ہدایت کرتے کہ ان کی طرح میں بھی اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لوں لہذا کسی کو یہ وہم نہیں ہونا چاہیے کہ اس آواز میں کراہت تنزیہی تھی اس لئے انہوں نے مجھ کو اس آواز کے سننے سے منع نہیں کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس آواز کو سننا مکروہ تحریمی تھا اور مجھے منع نہ کرنے کا تعلق میرے غیر مکلف ہونے سے تھا۔ رہی یہ بات کہ جب حضرت ابن عمر (رض) نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں تھیں تو راستہ چھوڑ دینے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا تعلق کمال تقوی اور ورع سے تھا یعنی حضرت ابن عمر (رض) نے احتیاط وتقوی کا تقاضہ یہی سمجھا کہ اس راستہ سے ہی ہٹ جائیں ورنہ اگر اس راستے کو چھوڑ دینا بھی شرعی طور پر ضروری ہوتا تو حضرت ابن عمر (رض) یقینا حضرت نافع (رح) کو بھی وہ راستہ چھوڑ دینے کا حکم دیتے۔ واضح رہے کہ گانے بجانے کا مسئلہ بہت تفصیل طلب ہے خلاصہ کے طور پر اتناجان لینا کافی ہے کہ محدثین کی تحقیق کے مطابق ایسی کوئی حدیث منقول نہیں ہے جس سے گانے کا حرام ہونا ثابت ہوتا ہو مشائخ کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں اظہار ممانعت کے طور پر جو کچھ منقول ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ گانا ممنوع ہے جس کے ساز اور باجا بھی شامل ہو البتہ فقہاء نے اس مسئلہ میں بڑی شدت اختیار کی ہے جس کی تفصیل فقہی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے فتاوی قاضی خان میں لکھا ہے کہ لہو و لعب کی چیزوں یعنی ساز اور باجوں کو سننا حرام اور سخت گناہ ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا باجوں کا سننا گناہ ہے اس پر بیٹھنا فسق ہے اور اس سے لذت حاصل کرنا کفریات میں سے ہے، ہاں اگر کسی شخص کے کان میں باجے کی آواز ناگہانی طور پر آجائے تو اس صورت میں اس پر کوئی گناہ نہیں لیکن اس پر واجب ہوگا کہ وہ اس بات کی پوری کوشش کرے کہ وہ اس آواز کو سن نہ سکے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ نے باجے کی آواز سے بچنے کے لئے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لی تھیں۔

【189】

زبان کی حفاظت، غیبت اور برا کہنے کا بیان

غیبت کے معنی ہیں پیٹھ پیچھے بدگوئی کرنا، یعنی کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کے متعلق ایسی باتیں کرنا کہ جس کو اگر وہ سنے تو ناپسند کرے۔ شتم کے معنی ہیں گالی دینا یعنی کسی کو کوئی فحش بات کہنا بدزبانی کرنا برا بھلا کہنا اور کسی کو ایسے الفاظ کے ذریعہ یاد و مخاطب کرنا جو شریعت و اخلاق اور تہذیب وشائستگی کے خلاف ہوں۔ بہرحال اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے یہ واضح ہوگا کہ زبان کو ایسے الفاظ و کلام سے بچانا چاہیے جن کو زبان پر لانا شرعی، اخلاقی اور معاشرتی طور پر ناروا ہے، خصوصا غیبت، گالم گلوچ اور بدزبانی وبدکلامی، نیز ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ ان چیزوں میں شرعی طور پر کیا برائی ہے اور ان کا ارتکاب کرنے والا شریعت و اخلاق کی نظر میں کس کی نظر میں کس قدر ناپسندیدہ ہے۔

【190】

زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے کو آنحضرت ﷺ کی طرف سے جنت کی بشارت

حضرت سہل ابن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ اپنی اس چیز کی حفاظت کرے گا، جو اس کے دو کلوں کے درمیان ہے یعنی زبان اور دانت اور جو اس کے دونوں پاؤں کے درمیان ہے یعنی شرم گاہ تو میں اس کی جنت کی ضمانت لیتا ہوں۔ (بخاری) تشریح۔ زبان کی حفاظت کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ اپنی زبان پر قابو حاصل کرے بایں طور کہ اس کو بےفائدہ الفاظ و کلام اور فحش گوئی وسخت کلامی سے محفوظ رکھے اور دانت کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حرام چیزوں کے کھانے پینے میں ملوث نہ کرے اس طرح شرمگاہ کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ زنا جیسی برائی سے اجتناب کرے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص مجھ سے اس بات کا عہد کرے اور عمل کے ذریعہ اس عہد کو پورا کرے گا وہ اپنی زبان کو فحش گوئی و بدکلامی سے محفوظ رکھے گا اپنے منہ کو حرام و ناجائز کھانے پینے سے بچانے اور اپنی شرم گاہ کو حرام کاری سے محفوظ رکھنے پر پوری طرح عامل وکار بند رہے گا تو اس کے تئیں اس بات کا ضامن بنتا ہوں کہ وہ شروع میں ہی نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ اور وہاں کے درجات عالیہ کا مستحق قرار پائے گا۔ واضح رہے کہ آنحضرت ﷺ کی دراصل حق تعالیٰ کی طرف سے ضمانت ہے کہ جس طرح وہ محض اپنے فضل سے بندوں کے رزق کا ضامن ہوا ہے اسی طرح اس نے پاکیزہ زندگی اختیار کرنے اور اعمال صالحہ پر جزاء دینے اور اپنے انعامات سے نوازنے کا بھی قوی وعدہ کیا ہے اور چونکہ آنحضرت ﷺ اس کے نائب ہیں اس کی طرف سے مذکورہ ضمانت لی ہے۔

【191】

زبان پر قابو رکھو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ جب بندہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نکالتا ہے جس میں حق تعالیٰ کی خوشنودی ہوتی ہے تو اگرچہ بندہ اس بات کی اہمیت کو نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کے سبب سے اس کے درجات بلند کردیتا ہے یعنی اگرچہ وہ بندہ اپنی اس بات کی قدر و اہمیت سے واقف نہیں ہوتا اور اس کو ایک نہایت سہل اور معمولی درجہ کی بات سمجھتا ہے مگر حق تعالیٰ کے نزدیک وہ بات بہت بلند پایہ اور بڑے مرتبہ کی ہوتی ہے اسی طرح جب بندہ کوئی ایسی بات زبان سے نکالتا ہے جو حق تعالیٰ کی ناخوشی کا ذریعہ بن جاتی ہے تو اگرچہ وہ بندہ اس بات کی اہمیت کو نہیں جانتا یعنی وہ اس بات کو بہت معمولی سمجھتا ہے اور اس کو زبان سے نکالنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا لیکن حقیقت میں وہ بات نتیجے کے اعتبار سے اتنی ہیبت ناک ہوتی ہے کہ وہ بندہ اس کے سبب سے دوزخ میں گرپڑتا ہے۔ (بخاری) اور بخاری ومسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ وہ اس کے سبب سے دوزخ میں اتنی دور سے گرتا ہے جو مشرق ومغرب کے درمیانی فاصلہ سے بھی زیادہ ہے یعنی وہ جہاں سے دوزخ میں گرے گا وہ دوزخ جس جگہ جا کر گریگا ان دونوں کے درمیان اتناطویل فاصلہ ہے جتنامشرق ومغرب کے درمیان بھی نہیں ہے۔ تشریح۔ اس ارشاد گرامی کا حاصل اس بات پر متنبہ کرتا ہے کہ زبان پر ہر وقت قابو رکھو اور اس کے معاملہ کو کم اہم نہ سمجھو نیز اس حقیقت کو کسی بھی لمحہ نظر انداز نہ کرو اگر زبان پر احتیاط کی گرفت ڈھیلی پڑگئی اور یہ چھوٹی سی چیز تمہارے قابو سے باہر ہوگئی تو پھر تمہاری خیر نہیں چناچہ اس حقیقت کو فرمایا گیا کہ بسا اوقات بندہ اپنی زبان سے کوئی بات نکالتا ہے اور اس کو اپنے نزدیک بہت معمولی درجہ کی بات سمجھتا ہے مگر درحقیقت و نتیجہ کے اعتبار سے اس بات کی اہمیت ہوتی کیا ہے ؟ اس کو یوں سمجھ لو کہ اگر وہ بات حق ہوتی ہے اور اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ بنتی ہے تو وہی ذرا سی بات جنت میں اس کی بلندی کا سبب بن جاتی ہے اور اگر وہ بات کہیں ایسی ہوئی جو بری ہونے کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی کا سبب بن گئی ہو تو بندے کے نزدیک وہی معمولی بات اس کو دوزخ میں گرادینے کا ذریعہ بن جائے گی۔

【192】

کسی مسلمان کے حق میں بد زبانی وسخت گوئی فسق ہے۔

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی مسلمان کو برا کہنا فسق ہے اور کسی مسلمان کو مار ڈالنا کفر ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح۔ مسلمان کے قتل کو کفر کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اگر کسی مسلمان کو قتل کردے تو وہ کافر ہوجاتا ہے بلکہ اس ارشاد کا مقصد اس بات کو نہایت سختی وشدت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ مسلمان کا ناحق خون بہانا انتہائی سنگین جرم ہے اور جو مسلمان اپنے بھائی مسلمان کو قتل کرتا ہے وہ اپنے اسلام کے کامل ہونے کی نفی کرتا ہے گویا یہاں کفر سے مراد کمال اسلام کی نفی ہے جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ المسلم من سلم المسلمون۔ یعنی کامل مسلمان وہی ہے جس سے مسلمان محفوظ ومامون رہے اور اگر کفر سے اس کے حقیقی معنی مرادہوں تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ وہ مسلمان یقینا کافر ہوجائے گا جو کسی مسلمان کو اس لئے قتل کردے کہ وہ مسلمان ہو اور اس کے اسلام کے سبب سے اس قتل کرنے کو حلال ومباح جانے کیوں کہ کسی مسلمان کو محض اس کے اسلام کی وجہ سے قتل کرنا اور اس قتل کو حلال ومباح جاننا بلاشبہ کفر ہے۔

【193】

کسی مسلمان کو برا نہ کہو

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح۔ مطلب یہ ہے کہ ایک شخص نے جو خود مسلمان ہے کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہا تو اس کی دوہی صورتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ کہنے والے نے سچ کہا ہو ظاہر ہے کہ اس صورت میں کلمہ کفر کا مستحق وہی شخص ہوگا جس کو کافر کہا گیا ہے اور جو حقیقتًا کافر ہے دوسرے یہ کہ کہنے والے نے جھوٹ کہا ہے یعنی اس نے جس شخص کو کافر کہا ہے وہ حقیقت میں مسلمان ہے اور اس کی طرف کفر کی نسبت سراسر جھوٹ ہے اس صورت میں کہا جائے کہ کہنے والا خود کافر ہوگیا تو اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس نے ایمان کو کفر سمجھا اور دین اسلام کو باطل جانا۔ اس حدیث کے سلسلے میں امام نووی (رح) نے جو کچھ لکھا ہے اس کا ماحاصل یہ ہے کہ مذکورہ حدیث کو بعض علماء نے مشکلات میں شمار کیا ہے کیونکہ اس ارشاد گرامی کا جو بظاہر مفہوم ہے اس کو حقیقی مراد قرار نہیں دیا جاسکتا بایں وجہ کہ اہل حق کا مسلک یہ ہے کہ کوئی مسلمان خواہ کتناہی بڑا گناہ کیوں نہ کرے جیسے قتل اور زنا وغیرہ اور خواہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو کافر کہنے کا ہی مرتکب کیوں نہ ہو بشرطیکہ وہ دین اسلام کے باطل ہونے کا عقیدہ نہ رکھے تو اس کی طرف کفر کی نسبت نہ کی جائے جب کہ مذکوہ حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور حقیقت میں کافر نہ ہو تو کہنے والاخود کافر ہوجائے گا۔ چناچہ اسی وجہ سے اس ارشادگرامی کی مختلف تاویلیں کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا محمول وہ شخص ہے جو نہ صرف یہ کسی مسلمان کو کافر کہے بلکہ کسی مسلمان کی طرف کفر کی نسبت کرنے کو حلال و جائز سمجھے اس صورت میں، باء بھا، کے معنی یہ ہوں گے کہ کفر خود اس شخص کی طرف تکفیر کی معصیت لوٹتی ہے یعنی جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے گا تو اس کا یہ کہنا اس مسلمان کو تو کوئی نقصان پہنچائے گا نہیں البتہ مسلمان کو کافر کہنے کے گناہ میں خود مبتلا ہوگا اور تیسرے یہ کہ اس ارشاد گرامی کا محمول خوارج ہیں جو مومنوں کو کافر کہتے ہیں لیکن تیسری تاویل بہت ضعیف ہے کیونکہ اس تاویل کا مطلب ہے کہ خوارج کو کافر قرار دیا جائے جب کہ اکثر علماء امت کے نزدیک زیادہ صحیح اور قابل قبول قول یہ ہے کہ خوارج فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ گمراہ بیشک ہیں جیسا کہ اہل بدعت، مگر ان کو کافر نہیں کہنا چاہیے اگرچہ ملاعلی قاری (رح) نے وضاحت کی ہے کہ اس تاویل کو ان کے حق میں ضعیف نہیں کہا جائے گا جو نہ صرف اہل سنت والجماعت بلکہ اکثر اونچے درجہ کے صحابہ کرام تک کے بارے میں نعوذ باللہ کفر کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

【194】

کسی مسلمان کی طرف فسق کی نسبت نہ کرو

اور حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی آدمی کو فاسق نہ کہے اور نہ اس پر کفر کی تہمت لگائے کیونکہ اگر وہ آدمی فسق یا کفر کا حامل نہیں ہے تو اس کا کہا ہوا اسی طرف لوٹ جائے گا۔ (بخاری) تشریح۔ مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان کو نہ تو فاسق کہو اور نہ اس کی طرف کفر کی نسبت کرو کیونکہ اگر کسی شخص نے کسی ایسے مسلمان کو فاسق کہا جو حقیقت میں فاسق نہیں ہے تو وہ کہنے والاخود فاسق ہوگا اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی ایسے شخص کو کافر کہا جو حقیقت میں کافر نہیں ہے بلکہ مومن ہے تو وہ کہنے والا خود کافر ہوجائے گا جیسا کہ پچھلی حدیث کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے۔

【195】

کسی شخص کو دشمن اللہ نہ کہو

اور حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی کو کافر کہہ کر پکارے یا کسی کو اللہ کا دشمن کہے اور وہ واقعتًا ایسا نہ ہو تو اس کا کہا ہوا خود اس پر لوٹ پڑتا ہے یعنی کہنے والاخود کافر یا اللہ کا دشمن ہوجاتا ہے۔ (بخاری، مسلم)

【196】

آپس میں گالم گلوچ کا سارا گناہ ابتداء کرنے والے پر ہوتا ہے۔

اور حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر دو شخص آپس میں گالم گلوچ کریں تو ان کی ساری گالم گلوچ کا گناہ اس شخص پر ہوگا جس نے پہلی کی ہے جب تک کہ مظلوم تجاوز نہ کرے۔ مسلم) تشریح۔ مطلب یہ ہے کہ اگر دو شخص آپس میں گالم گلوچ کرنے لگیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور ایک دوسرے کے حق میں بدکلامی وسخت گوئی کریں تو اس ساری گالم گلوچ اور برا بھلا کہنے کا گناہ ان دونوں میں سے اس شخص پر ہوگا جس نے گالم گلوچ کی ابتداء کی ہوگی، یعنی اس کو اپنی گالم گلوچ کا گناہ تو ہو ہی گا دوسرے شخص کی گالم گلوچ کا گناہ بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھاجائے گا کیونکہ اس نے گالم گلوچ کی ابتداء کر کے گویا دوسرے شخص پر ظلم کیا ہے اور اس اعتبار سے وہ ظالم کہلائے گا اور دوسرا شخص مظلوم لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ دوسرا شخص یعنی مظلوم جواب میں زیادتی نہ کرے، اگر مظلوم حد سے تجاوز کر گیا بایں طور کہ اس کی گالم گلوچ ابتداء کرنے والے کی گالم گلوچ سے بڑھ گئی یا ابتداء کرنے والے نے جو ایذا پہنچائی تھی اس کے جواب میں دوسرے شخص نے اس سے بھی زیادہ پہنچائی تو اس صورت میں ابتداء کرنے والے کی بہ نسبت اس پر زیادہ گناہ ہوگا بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ دوسرا شخص بھی اس تعدی اور زیادتی کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔

【197】

کسی پر لعن طعن کرنا نامناسب ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا صدیق کے لئے یہ جائز و مناسب نہیں ہے کہ بہت زیادہ لعنت کرنے والا ہو۔ (مسلم) تشریح۔ صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت زیاد سچا، بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ صدیق اس شخص کو کہتے ہیں جس کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہ ہو بلکہ پوری یکسانیت ومطابقت ہو، صوفیاء کے ہاں صدیقیت ایک مقام ہے جس کا درجہ مقام نبوت کے بعد سب سے اعلی ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت کریمہ، ( فَاُولٰ ى ِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّ نَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَا ءِ وَالصّٰلِحِيْنَ وَحَسُنَ اُولٰ ى ِكَ رَفِيْقًا) 4 ۔ النساء 69) ۔ سے مفہوم ہوتا ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص صدق وراستی کے وصف سے مزین ہو اور ایسے اونچے مقام پر پہنچ چکاہو جو مقام نبوت کے بعد سب سے اعلی ہے اور اس اعتبار سے اس کے مرتبہ کو مرتبہ نبوت سے سب سے قریبی نسبت حاصل ہے تو اس کی شان یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ دوسروں پر لعنت کرتا رہے اور نہ مقام صدیقیت کا مقتضاء ہوسکتا ہے کیونکہ کسی کو لعنت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو رحمت الٰہی اور بارگاہ الوہیت سے محروم قرار دیدیا جائے جب کہ تمام انبیاء کا مقصد ہی یہ رہا ہے کہ وہ مخلوق اللہ کو رحمت الٰہی سے بہریاب کریں اور جو بارگاہ الوہیت سے دور ہوچکے ہیں ان کو قریب تر لائیں اسی وجہ سے اہل سنت والجماعت کا پسندیدی شیوہ یہ ہے کہ لعن طعن کو ترک کیا جائے اور کسی بھی شخص کو لعنت نہ کی جائے اگرچہ وہ اس لعنت کا مستحق ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ جو شخص اپنے قول وفعل کے ذریعہ اللہ کے نزدیک خود ملعون قرار دیا جا چکا ہے اس پر لعنت کرنے کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے لہذا کسی شخص پر لعنت کر کے گویا اپنی زبان کو خواہ مخواہ آلودہ کرنا اس کی لعنت میں اپنا وقت صرف کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے اور یہ کہ اسے لعن و طعن کر کے گویا اپنی جماعت حقہ کے شیوہ ومعمول کے برخلاف عمل کرنا ہے البتہ اس کافر پر لعنت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جس کے بارے میں مخبرصادق یا اپناعلم و یقین یہ ہو کہ وہ کفر ہی کی حالت میں مرا ہے۔ واضح رہے کہ لعنت کی دو قسمیں ہیں ایک تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ شخص کو بھلائی سے بالکل محروم اور رحمت الٰہی سے کلیۃ دور قرار دینا نیز اس کو اللہ تعالیٰ کے فضل لامتناہی سے مطلق ناامید کردینا، ایسی لعنت صرف کافروں کے لئے مخصوص ہے دوسری قسم کی لعنت کا مطلوب یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو رضائے حق اور قرب الٰہی کے مقام سے دور و محروم قرار دیا جائے جو ترک اولی واحواط کا مرتکب ہو چناچہ بعض اعمال کے ترک کے سلسلے میں جو لعنت و ملامت منقول ہے اور جو بعض صحابہ کرام وغیرہ سے بھی نقل کی گئی ہے۔ لفظ لعان مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت زیادہ لعنت کرنے والاحدیث میں یہ لفظ صیغہ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ عام طور پر یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی اونچے سے اونچے درجہ کا مومن بھی تھوڑی بہت لعنت کرنے سے اجتناب کرتا ہو، چناچہ ابن ملک نے لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں اس لفظ کا بصیغہ مبالغہ ذکر ہونا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ لعنت کرنے کی جو برائی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ وہ اس شخص کے حق میں نہیں جس سے کبھی کبھار یعنی ایک مرتبہ یا دو مرتبہ لعنت کا صدور ہوجائے۔

【198】

کسی پر لعن طعن کرنا نامناسب ہے

اور حضرت ابودرداء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو لوگ بہت زیادہ لعنت کیا کرتے ہیں وہ قیامت کے دن نہ گواہ بنائے جائیں گے اور نہ شفاعت کرسکیں گے۔ (مسلم) تشریح۔ قیامت کے دن امت کے لوگ پچھلی امتوں پر گواہ کی حثییت سے پیش کئے جائیں گے چناچہ وہ یہ گواہی دیں گے کہ ان کے رسولوں اور پیغمبروں نے اللہ تعالیٰ کے احکام ان تک پہنچائے تھے اور ان کو اللہ کی طرف بلایا تھا مگر انہوں نے اپنے رسولوں اور پیغمبروں کی بات نہیں مانی اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وکذالک جعلنکم امۃ وسطالتکونوا شھداء علی الناس اور اسی طرح ہم نے تمہیں برگزیدہ امت بنایا تاکہ تم اور لوگوں پر گواہ ہو۔ اسی گواہی کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایسے گواہ بننے کا اعزاز نہیں بخشاجائے گا جو دوسروں پر اتنی زیادہ لعنت کیا کرتے ہیں کہ لعنت کرنا گویا ان کی عادت بن جاتی ہے اسی طرح بہت زیادہ لعنت کرنے والے لوگ قیامت کے دن درجہ شفاعت سے بھی محروم کردیئے جائیں گے یعنی اگر وہ چاہیں گے کہ دوسرے لوگوں کی شفاعت کریں تو وہ بھی نہ کرسکیں گے۔

【199】

کسی کی طرف اخروی ہلاکت کی نسبت نہ کرو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ لوگ ہلاک ہوئے یعنی جہنم کی آگ کے مستوجب ہوگئے تو اس طرح کہنے والاسب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔ (مسلم) تشریح۔ اگر کوئی شخص کچھ لوگوں، کو ایسے عقائد و اعمال میں مبتلا دیکھے جو دین و شریعت کے خلاف ہوں تو ان کی اس حالت پر حسرت و افسوس کا ہونا اور غم خواری کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر بھی ہے اور اخوت اسلامی کا تقاضا بھی اب اگر وہ شخص اسی حسرت و افسوس اور غم خواری کے جذبات کے تحت ان لوگوں کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ لوگ تو ہلاک ہوگئے یعنی ان لوگوں نے ایسے عقائد و اعمال کو اختیار کرلیا ہے جو ان کو دوزخ کی آگ میں دھکیل کر رہیں گے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اس شخص کا یہ کہنا دراصل ان لوگوں کے تئیں ہمدردی وغم خواری کا مظہر ہوگا اور اس کا مطلب یہی سمجھاجائے گا کہ وہ شخص ان لوگوں کے برے احوال سے دل شکستہ ہے اور اس کا قلبی جذبہ یہ ہے کہ کاش وہ لوگ اس حالت میں مبتلا ہو کر اخروی ہلاکت و تباہی کے راستہ کو اختیار نہ کرتے اور جب وہ اس راہ پر پڑگئے ہیں تو اے کاش اب بھی ان کو ہدایت نصیب ہوجائے اور وہ ابدی ہلاکت و تباہی کے خوف سے راہ راست پر لگ جائیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ان جذبات ہمدردی وغم خواری کے برعکس محض عیب جوئی حقارت اور ان لوگوں کو رحمت الٰہی سے مایوس کرنے کے لئے اس طرح کے الفاظ زبان سے نکالے تو یہ سخت برا ہوگا اور اس طرح کہنے والا شخص خود سب سے زیادہ ہلاکت و تباہی میں پڑے گا کیوں کہ اس کے ان الفاظ سے یہ سمجھاجائے گا کہ وہ اپنے نفس کی برائی اور اپنے اعمال کے غرور وتکبر میں مبتلا ہوگیا ہے دوسرے لوگوں کو چشم حقارت سے دیکھتا ہے اور ان کو حق تعالیٰ کی رحمت سے ناامید کرتا ہے یہ مطلب اس صورت میں ہوگا کہ جب کہ لفظ اھلکم کاف کے پیش کے ساتھ یعنی بصیغہ تفضیل ہو اور اگر یہ لفظ کاف کے زیر کے ساتھ یعنی بصیغہ ماضی ہو جیسا کہ بعض روایتوں میں نقل کیا گیا ہے تو اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ اس طرح کہنے والا ان کو ہلاک و برباد کردیتا ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ جب کوئی شخص اپنے مشاہدہ کے مطابق بدعملیوں میں مبتلا لوگوں کے بارے میں اپنی زبان سے یہ الفاظ نکالتا ہے کہ وہ لوگ تو ہلاک و برباد ہوگئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ رحمت الٰہی سے مایوس ہو کر ترک طاعت و عبادت اور ارتکاب معصیت و گناہ میں اور زیادہ مشغول ومنہمک ہوجاتے ہیں کیونکہ اس طرح کے الفاظ ان گناہ گاروں کو شکستہ دل، ناامید اور بےشوق بنادیتے ہیں جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے گویا دنیا ہی میں اللہ کے قہر و جلال میں گرفتار ہوئے ہیں اسی لئے شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ جو لوگ بدعملیوں کی راہ اختیار کئے ہوئے ہوں اور معصیت کے اندھیروں نے جن کو گھیر رکھا ہو انہیں نہایت نرمی وملائمت اور شفقت و محبت کے ساتھ تذکیرونصیحت کی جانی چاہیے اور ان پر سختی وتشدد کرنا ان کے حق میں سخت برا بن جاتا ہے اور وہ ضد ہٹ دھرمی میں مبتلا ہوجانے کی وجہ سے راہ راست پر آنے کی بجائے اور زیادہ گمراہی میں مبتلا ہوجاتے ہیں لہذا جو شخص ان کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کرتا ہے اور انہیں ہلاکت و بربادی کی خبر دیتا ہے وہ گویا انہیں ہلاکت و بربادی میں ڈالنے کا خود موجب بنتا ہے اس اعتبار سے کہا جائے گا کہ آنحضرت ﷺ کا مذکورہ ارشاد گرامی اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ گناہ گاروں کو بھی مغفرت کی بشارت دینا چاہیے ان کے قلب وذہن کو دین و ایمان پر پختہ کرنا چاہیے اور انہیں رحمت الٰہی کا امیدوار و طلبگار بنانا چاہیے۔

【200】

منہ دیکھی بات کرنے والوں کی مذمت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن سب سے بدتر شخص وہ ہوگا جو فتنہ انگیزی کی خاطر دو منہ رکھتا ہے یعنی منافق کی خاصیت وصفت رکھتا ہے کہ وہ ایک جماعت کے پاس آتا ہے تو کچھ کہتا ہے دوسری جماعت کے پاس آتا ہے تو کچھ کہتا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح۔ اس ارشاد گرامی میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو منافقوں کی طرح دو رویہ یعنی دو منہ والے ہوتے ہیں کہ ہر فریق کو خوش رکھنے کی خاطر کبھی صحیح اور حق بات نہیں کہتے بلکہ منہ دیکھی بات کرتے ہیں وہ جس جماعت اور جس فریق کے پاس اس کی مرضی اور خواہش کے مطابق اپنی زبان کھولتے ہیں زید کے پاس جاتے ہیں تو اس کی سی کہتے ہیں اور بکر کے پاس جاتے ہیں تو اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔

【201】

چغل خور کے بارے میں وعید

اور حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا (یعنی وہ نجات پائے ہوئے لوگوں کے ساتھ ابتداء میں جنت میں داخل نہ ہوگا) بخاری، ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں قتات کے بجائے نمام کا لفظ ہے۔ تشریح۔ قتات اور نمام کے ایک ہی معنی ہیں یعنی چغل خور اس شخص کو کہتے ہیں جو لگائی بجھائی کرتا ہے اور ادھر کی بات ادھر اور ادھر کی بات ادھر کرکے لوگوں کے درمیان فتنہ و فساد کے بیج بوتا ہے۔

【202】

سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی تاکید

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سچ بولنے کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ ہمیشہ اور پابندی کے ساتھ سچ بولنا، نیکوکاری کی طرف لیجاتا ہے یعنی سچ بولنے کی خاصیت یہ ہے کہ نیکی کرنے کی توفیق ہوتی ہے اور نیکوکاری نیکوکار کو جنت کے اعلی درجات تک پہنچاتی ہے اور یاد رکھو ! جو شخص ہمیشہ سچ بولتا ہے اور ہمیشہ سچ بولنے کی سعی کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے، نیز تم اپنے آپ کو جھوٹ بولنے سے باز رکھو کیونکہ جھوٹ بولنا فسق وفجور کی طرف لے جاتا ہے یعنی جھوٹ بولنے کی خاصیت یہ ہے کہ برائیوں اور بداعمالیوں کے ارتکاب کی طرف رغبت ہوتی ہے اور فسق وفجور وفاجر کو دوزخ کی آگ میں دھکیلتا ہے اور یاد رکھو ! جو شخص بہت جھوٹ بولتا ہے اور زیادہ جھوٹ بولنے کی سعی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب یعنی بڑا جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (بخاری، مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ سچ بولنا نیکی اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنافسق وفجور ہے اور فسق وفجور، دوزخ کی آگ میں دھکیلتا ہے۔ تشریح۔ وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو وصف صدیقیت کا حامل اور مقام صدیقیت پر فائز قرار دیا جاتا ہے اور اس اونچے درجے کے وصف ومقام کے اجروثواب کا مستحق گردانا جاتا ہے، یا یہ مطلب ہے کہ ملاء اعلی کے پاس جس کتاب میں تمام بندوں کے اعمال لکھے ہوئے ہیں اس میں مذکورہ شخص کا نام صدیق لکھا جاتا ہے اور یا یہ کہ دنیا میں لوگ ایسے شخص کو اپنی کتابوں اور قلم پاروں میں صدیق کے نام سے لکھتے اور یاد کرتے ہیں اس صورت میں اس ارشاد کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ ایسا شخص اللہ کی طرف سے لوگوں میں انتہائی معزز ومکرم ظاہر کیا جاتا ہے لوگوں کے دلوں پر اس شخص کا لقب صدیق القا کیا جاتا ہے اور ان کی زبانوں پر اسی کے اس لقب و صفت کو جاری کردیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کو سچا صادق سمجھتے ہیں اور اس کی سچائی و صداقت میں رطب اللسان رہتے ہیں، اس مفہوم کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان الذین آمنوا وعملوالصالحات سیجعل لھم الرحمن ودا جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال کئے اللہ تعالیٰ ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالے گا۔ اسی طرح اللہ کے نزدیک کذاب لکھا جاتا ہے کا مطلب بھی یا تو یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے شخص کے بارے میں یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے اور اس کے لئے وہ سزا مقرر کردی جاتی ہے جو جھوٹوں کے لئے مخصوص ہے یا یہ کہ اس شخص کے بارے میں لوگوں کی نظروں اور دلوں میں یہ بات ظاہر و راسخ کردی جاتی ہے کہ یہ شخص انتہائی ناقابل اعتبار ہے اس طرح گویا اس کو جھوٹا مشہور کردیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص لوگوں کی نظروں سے گرجاتا ہے اور ہر شخص اس سے بغض ونفرت کرنے لگتا ہے۔

【203】

دروغ مصلحت آمیز جھوٹ کے زمرہ میں نہیں آتا

اور حضرت ام کلثوم (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کراتا ہے بھلائی کی بات کہتا ہے اور ایک دوسرے سے اچھی باتیں پہنچاتا ہے۔ (اگرچہ وہ صلح و صفائی کرانے اور اس بات کے کہنے اور پہنچانے میں جھوٹ سے کام لے) ۔ بخاری ومسلم) تشریح۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے باہمی نزاع اور فتنہ و فساد کو ختم کرانے کے لئے اگر کوئی شخص ایسی بات کہے جو واقعہ کے اعتبار سے صحیح نہ ہو بلکہ جھوٹ ہو تو اس شخص کو جھوٹا نہیں کہیں گے اور اس پر جھوٹ کا گناہ نہیں ہوگا لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ بات ایسی ہو جو خیرو بھلائی ہی پر مشتمل نہ ہو کہ کسی برائی جیسے شرک وفسق وغیرہ کی حامل ہو مثلا دو مسلمان زید اور بکر اگر آپس میں کوئی مخاصمت رکھتے ہوں یا ان دونوں کے درمیان کوئی فتنہ و فساد پا گیا تو اس صورت میں اگر کوئی تیسرا شخص یہ چاہے کہ ان دونوں کے درمیان باہمی مخاصمت ختم ہوجائے اور ان کے درمیان صلح و صفائی ہوجائے اور اس مقصد کے لئے وہ دونوں میں سے ہر ایک کے پاس جا کر یوں کہے کہ اس دوسرے نے تمہیں سلام کہا ہے وہ تمہاری تعریف کر رہا تھا اور تمہارے بارے میں کہہ رہا تھا کہ میں اس کو اپنا دوست سمجھتا ہوں اور حقیقت میں نہ تو اس نے سلام کہا ہو نہ اس کی تعریف کی ہو اور نہ یہ کہا ہو کہ میں اس کو دوست رکھتا ہوں۔

【204】

جھوٹی اور مبالغہ آمیز تعریف کرنے والے کی مذمت

اور حضرت مقداد ابن اسود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ میں خاک ڈال دو ۔ (مسلم) تشریح۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے منہ پر تمہاری تعریف کرے اور وہ تعریف خواہ زبانی ہو یا قصیدہ ونثر کی صورت میں ہو نیز اس تعریف کرنے سے اس کا مقصد تم سے کچھ مالی منفعت حاصل کرنا یا اپنا کوئی مطلب نکالنا ہو تو تم اس کے منہ پر مٹی ڈال دو یعنی اس کو محروم رکھو نہ کہ اس کو کچھ دو اور نہ اس کا مطلب پورا کرو یا منہ میں خاک ڈالنے سے یہ مراد ہے کہ کچھ معمولی طور پردے دو کہ کسی کو بہت تھوڑا سا اور حقارت کے ساتھ دینا اس کے منہ میں خاک ڈالنے کے مشابہ ہے اور یہ معمولی طور پر دینا بھی اس مصلحت کے پیش نظر ہو کہ مبادا کچھ بھی نہ ملنے کی صورت میں وہ ہجو کرنے لگے۔ بعض علماء نے اس ارشادگرامی کو اس کے ظاہری مفہوم پر محمول کیا ہے چناچہ اس حدیث کے راوی حضرت مقداد ہی کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شخص امیرالمومنین حضرت عثمان غنی (رض) کے سامنے ان کی تعریف کرنے لگا تو انہوں نے ایک مٹھی خاک لے کر اس کے منہ پر ڈال دی علماء نے لکھا ہے کہ تعریف کرنے والوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنے کا حکم دینا دراصل ان تعریف کرنے والوں کو سختی کے ساتھ متنبہ کرنا ہے کہ کیوں کہ کسی کے منہ پر اس کی تعریف کرنے والا اپنے ممدوح کو مغرور و متکبر بنا دیتا ہے۔ خطابی نے یہ لکھا ہے کہ مداحین یعنی تعریف کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے خوشامد وچاپلوسی اور بےجا تعریف ومدح کرنے کو اپنی عادت بنالی ہو چناچہ ایسے لوگ تعریف ومدح کرنے میں نہ حق و باطل کی تمیز کرتے ہیں اور نہ مستحق وغیرمستحق کا لحاظ رکھتے ہیں نیز انہوں نے اس چیز کو حصول منفعت اور معاش کا ذریعہ بنا رکھا ہے کہ جس شخص سے انہیں کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے یا جس شخص سے مطلب براری کی امید ہوتی ہے وہ اس کے منہ پر نہایت مبالغہ آمیزی کے ساتھ اس کی تعریف ومدح کرتے ہیں لہذا جو شخص کسی دنیاوی غرض و لالچ کے بغیر کسی قابل تعریف آدمی کی واقعی مدح و توصیف کرے یا کسی شخص کے کسی اچھے فعل اور پسندیدہ کام پر اس نقطہ نظر سے تعریف کریں کہ اس شخص کو مزید اچھے افعال اور بھلائی کے کام کرنے کا شوق پیدا ہو نیز دوسرے لوگوں کو بھی اس کی اتباع میں نیک اعمال اور بھلائی کے کام کرنے کی رغبت ہو تو ایسے شخص پر حدیث میں مذکورہ لفظ مداح کا اطلاق نہیں ہوگا یعنی اس کو قابل مذمت اور تعریف کرنے والا نہیں کہا جائے گا۔

【205】

جھوٹی اور مبالغہ آمیز تعریف کرنے والے کی مذمت

اور حضرت ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت ﷺ کے سامنے ایک شخص نے ایک آدمی کی (مبالغہ آمیزی کے ساتھ) تعریف کرنی شروع کی ( اور وہ شخص جس کی تعریف کر رہا تھا وہ وہاں موجود تھا) چناچہ آپ ﷺ نے تعریف کرنے والے سے فرمایا کہ افسوس ہے کہ تم پر تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی آپ نے یہ الفاظ تین بار دہرائے اور پھر یہ فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی کی تعریف کرنا ضروری سمجھے تو اس کو چاہیے کہ مثلا یوں کہے کہ فلاں شخص کے بارے یہ گمان رکھتا ہوں کہ وہ نیک آدمی ہے جب کہ اس شخص کی حقیقی حالت سے اللہ تعالیٰ خوب واقف ہے اور وہی ان کے اعمال کا حساب لینے والا ہے نیز اگر تعریف کرنے والا یہ گمان رکھتا ہے کہ اس نے جس شخص کی تعریف کی ہے وہ واقعتا ایساہی ہو تو اس صورت میں بھی وہ اللہ کی طرف سے کسی شخص پر جزم و یقین کے ساتھ حکم نہ لگائے۔ (بخاری، مسلم) تشریح۔ کسی کی گردن کاٹنا اگرچہ اس کو ذبح کرنے اور اس کی جسمانی ہلاکت کے ہم معنی ہے لیکن یہاں گردن کاٹنے سے مراد روحانی ہلاکت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی کی تعریف کرتا ہے توہ (ممدوح اپنی تعریف سن کر غرور وتکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے لہذا جس طرح کسی کی گردن کاٹ ڈالنا اس کو دنیاوی طور پر ہلاک کردینے کے مرادف ہے اسی طرح منہ پر کسی کی تعریف کرنا گویا اس کو دینی اور اخروی طور پر ہلاکت میں ڈال دینا ہے جب کہ یہ تعریف بسا اوقات دنیاوی طور پر بھی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے جیسے کوئی شخص اپنی تعریف سن کر اتنا زیادہ مغرور ہوگیا کہ کسی کا ناحق خون کر ڈالے اور پھر عدالت کی طرف سے سزائے موت کا مستوجب ہو کر خود اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی کی تعریف ضروری سمجھے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کسی شخص کے اندر کوئی ایسا وصف دیکھو کہ جس کی وجہ سے وہ قابل تعریف ہو، مثلا کوئی شخص بہت زیادہ صالح ونیک ہو یا کوئی شخص بہت زیادہ خلیق ہو اور تم اس کی تعریف کرنا ہی چاہتے ہو تو اس صورت میں بھی یہ ضروری ہے کہ تم بس اپنے گمان کی حدتک اس کی تعریف کرو اس کے بارے میں جزم و یقین کے ساتھ فیصلہ نہ کرو بلکہ یوں کہو کہ میں فلاں شخص کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہوں، اس جملہ کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کا حقیقی حال اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا جس شخص کو بظاہر نیک و اچھا سمجھا جارہا ہے ہوسکتا ہے کہ اس کے باطنی احوال سے اس درجہ کے نہ ہوں کہ وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہو، لہذا جو شخص قابل تعریف ہو اس کی تعریف میں احتیاط کی راہ اختیار کرنی چاہیے اس کے بارے بالکل آخری فیصلہ نہ کرنا چاہیے کہ یہ شخص یقینا اچھا و نیک اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے ہاں ان لوگوں کا معاملہ دوسرا ہے جن کو احادیث میں صراحت کے ساتھ قابل تعریف قرار دیا گیا ہے اور جن کے بارے میں ثابت ہوچکا ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک یقینا پسندیدہ ہیں جیسے عشرہ مبشرہ اور ان لوگوں کے علاوہ اور کسی شخص کے بارے میں اس جزم و یقین کا اظہار نہ کیا جائے کہ فلاں شخص اللہ کے نزدیک اچھا ہے۔

【206】

تعریف کی قسمیں

علماء نے کسی شخص کی تعریف کرنے کی تین قسمیں بیان کی ہیں ایک تو یہ کہ کسی کے منہ پر اس کی تعریف کی جائے یہ قسم وہ ہے جس کی ممانعت منقول ہے دوسرے یہ کہ کسی کی غائبانہ تعریف کی جائے لیکن خواہش یہ ہو کہ اس کو اس تعریف کی خبر ہوجائے یہ قسم بھی ایسی ہے جس سے منع کیا گیا ہے اور تیسرے یہ کہ کسی کی غائبانہ تعریف کی جائے اور اس کی مطلق پرواہ ہو کہ اس کو تعریف کی خبر پہنچے گی یا نہیں نیز تعریف بھی ایسی کی جائے جس کا وہ واقعتًا مستحق ہے یہ قسم ایسی ہے جس کی اجازت دی گئی ہے اور کسی شخص کی اس طرح کی تعریف میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

【207】

غیبت کے معنی اور اس کی تفصیل

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن صحابہ کرام سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو غیبت کس کو کہتے ہیں ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا غیبت یہ ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کا ذکر اس طرح کرو کہ جس کو وہ اگر سن لے تو ناپسند کرے۔ بعض صحابہ کرام نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ بتائیے کہ اگر میرے اس بھائی میں جس کا میں نے برائی کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ عیب ہوں جو میں نے بیان کیا ہے تو کیا جب بھی غیبت ہوگی یعنی میں نے ایک شخص کے بارے میں اس کے پیٹھ پیچھے یہ ذکر کیا کہ اس میں فلاں برائی ہے جب کہ اس میں وہ واقعتًا برائی ہو اور میں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہو اور ظاہر ہے کہا اگر وہ شخص اپنے بارے میں میرے اس طرح ذکر کرنے کو سنے تو یقینًا خوش ہوگا تو کیا میرا اس کی طرف کسی برائی کو منسوب کرنا جو درحقیقت اس میں ہے غیبت کہلائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم نے اس کی جس برائی کا ذکر کیا ہے اگر وہ واقعی اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں ہے جس کو تم نے ذکر کیا ہے تم نے اس پر بہتان لگایا یعنی یہی تو غیبت ہے کہ تم کسی کا کوئی عیب اس کے پیٹھ پیچھے بالکل سچ بیان کرو اور اگر تم اس کے عیب کو بیان کرنے میں سچے نہیں ہو کہ تم نے اس کی طرف جس عیب کی نسبت کی ہے وہ اس میں موجود نہیں ہے تو یہ افتراء اور بہتان ہے جو بذات خود ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ (مسلم) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم اپنے کسی مسلمان بھائی کی وہ برائی بیان کی جو واقعی اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر تم نے اس کی طرف ایسی برائی کی نسبت کی جو اس میں موجود نہیں ہے تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔ تشریح۔ غیبت یعنی پیٹھ پیچھے کسی کا کوئی عیب بیان کرنا نہ صرف ایک گناہ لوگوں میں زیادہ پھیلا ہوا ہے ایسے لوگ بہت کم ہوں گے جو اس برائی سے بچے ہوئے ہیں ورنہ عام طور پر ہر شخص کسی نہ کسی صورت میں غیبت کرتا نظر آتا ہے لہذا ضروری ہے کہ اس بات میں کچھ تفصیل بیان کردی جائے۔ جیساکہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے غیبت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص کسی ایسے شخص کے بارے میں جو موجود نہ ہو اس طرح کا ذکر کرے جس سے اس کا کوئی عیب ظاہر ہو اور وہ اس عیب کے ذکر کئے جانے کو ناپسند کرے اور اس عیب کا تعلق خواہ اس کے بدن سے ہو یا عقل سے خواہ اس کے دین سے ہو یا دنیا سے، خواہ اس کے اخلاق و افعال سے ہو یا نفس سے خواہ اس کے مال و اسباب سے، ہو یا اولاد سے خواہ اس کے ماں باپ سے ہو یا بیویو خادم وغیرہ سے خواہ اس کے لباس وغیرہ سے ہو یا رفتاروگفتار سے، خواہ اس کی ہیبت کذائی سے یا نشست وبرخاست سے، خواہ اس کے حرکات و سکنات سے ہو یا عادات واطوار سے، خواہ اس کی کشادہ روئی سے ہو یا ترش روئی سے اور خواہ اس کی تندخوئی وسخت گوئی سے ہو یا نرم خوئی اور خاموشی سے اور یا ان چیزوں کے علاوہ کسی بھی ایسی چیز سے ہو جو اس سے متعلق ہوسکتی ہے نیز اس عیب کے ساتھ اس کا ذکر کرنا خواہ الفاظ کے ذریعہ ہو یا اشارہ و کنایہ اور رمز کے ذریعہ اور اشارہ کنایہ بھی خواہ لفظ وبیان کے ذریعہ ہو یا ہاتھ آنکھ، ابرو اور سر وغیرہ کے ذریعہ۔ اس سلسلہ میں یہ قاعدہ کلیہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اگر کسی شخص کا کوئی عیب اس کی عدم موجودگی میں بیان کیا جائے جو دوسروں کی نظروں میں اپنے ایک مسلمان بھائی کی حثییت و شخصیت کو گھٹاتا ہے تو یہ سخت غیبت ہے اور حرام ہے اور اگر کسی کے منہ پر اس کے کسی عیب کو اس طرح بیان کیا جائے جس سے اس کو ناگواری اور دل شکنی ہو تو یہ ایک طرح کی بےحیائی، سنگدل اور ایذاء رسانی ہے کہ یہ اور بھی سخت گناہ ہے۔ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے غیبت کرنے والا اس سے معافی طلب کرے بشرطیکہ اس غیبت کی خبر اس تک پہنچی ہو اور اس سے معافی کی طلب کے وقت تفصیل بیان کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اجمالی طور پر اتنا ہی کافی ہے کہ میں نے تمہاری غیبت کی ہے مجھے معاف کردو اور اگر وہ غیبت اس تک نہ پہنچی بایں طور کہ وہ مرگیا ہو یا کسی دور دراز جگہ پر ہو تو اس صورت میں استغفار کافی ہے یعنی اپنے اس گناہ پر اللہ سے مغفرت و بخشش طلب کرے نیز احادیث میں یہ بھی منقول ہے کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے اس کے حق میں استغفار کرنا غیبت کے کفارہ میں داخل ہے۔ غیبت کس صورت میں جائز ہے علماء نے لکھا ہے کہ کسی کا عیب اس کے پیٹھ پیچھے بیان کرنا بعض صورتوں میں جائز ہے مثلا کوئی شرعی صورت لاحق ہو، جیسے ظالم کا ظلم بیان کرنا، حدیث کے راویوں کا حال ظاہر کرنا، نکاح کے مشورہ کے وقت کسی کا نسب یا حال رویہ بیان کرنا، یا کوئی مسلمان کسی سے امانت وشرکت وغیرہ کا کوئی معاملہ کرنا چاہتا ہے تو اس مسلمان کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لئے اس شخص کارویہ بیان کردینا وغیرہ وغیرہ اسی طرح کوئی شخص ظاہری طور پر دین دار زندگی کا حامل ہے یعنی نماز بھی پڑھتا ہے اور روزہ بھی رکھتا ہے اور دیگر فرائض بھی پورے کرتا ہے مگر اس میں یہ عیب ہے کہ لوگوں کو اپنی زبان اور اپنے ہاتھ سے تکلیف و نقصان پہنچاتا ہے تو لوگوں کے سامنے اس کے اس عیب کا ذکر کرنا غیبت نہیں کہلائے اور اگر اس شخص کے بارے میں ذمہ داران حکومت کو اطلاع دے دی جائے تاکہ وہ اس کو متنبہ کردیں اور اس کی ایذاء رسانی سے لوگ محفوظ رہیں تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں۔ علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ بطریق اصلاح و اہتمام کسی شخص کے عیب کو ذکر کرنا کوئی مضائقہ نہیں رکھتا ممانعت اس صورت میں ہے کہ جب کہ اس کے عیب کو ذکر کرنے کا مقصد اس شخص کی برائی بیان کرنا اور اس کو نقصان و تکلیف پہنچانا ہو اسی طرح کسی شخص کی کسی شہر والوں یا کسی بستی کے لوگوں کی غیبت نہیں کہیں گے جب تک کہ وہ متعین طور پر کسی جماعت کا نام لے کر اس کی غیبت نہ کرے۔

【208】

فحش گوء بدترین شخص ہے

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن ایک شخص نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو آنے دو ۔ وہ اپنی قوم کا برا آدمی ہے پھر وہ شخص جب آ کر بیٹھا تو آپ ﷺ نے اس سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کی اور مسکرا مسکرا کر اس سے باتیں کرتے رہے جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ نے تو اس شخص کے بارے میں ایسا ایسا کہا تھا یعنی یہ فرمایا تھا کہ وہ شخص اپنی قوم کا برا آدمی ہے مگر آپ نے اس سے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات فرمائی اور مسکرا مسکرا کر اس سے باتیں کرتے رہے آپ ﷺ نے فرمایا تم نے مجھ کو فحش گو کب پایا۔ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک درجہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے بدتر شخص وہ ہوگا جس کو لوگ اس کی برائی کے ڈر سے چھوڑ دیں اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں جس کی فحش گوئی سے۔ (بخاری، مسلم) تشریح حدیث میں جس شخص کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے اس کا نام عیینہ بن حصین تھا، یہ شخص اپنی سنگدلی بد خلقی اور سخت مزاجی کے اعتبار سے بہت ہی مشہور تھا اور اپنی قوم کا سردار بھی تھا اس کا شمار مولفۃ القلوب میں ہوتا تھا تاکہ اس کو اسلام پر قائم و ثابت قدم رکھا جاسکے اگرچہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ ہی میں اس کے دین وبیان میں نقصان و اضمحلال کا اظہار ہونے لگا تھا مگر آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد دین و ایمان سے پوری طرح منحرف ہو کر مرتد ہوگیا اور حضرت ابوبکر (رض) نے اس کو گرفتار کرلیا پھر اس نے دوبارہ ایمان قبول کیا اور اسلام کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوا بہر حال حضرت عائشہ (رض) نے اس شخص کے بارے میں ذکر کیا کہ اس نے اپنے ابتدائی زمانہ اسلام میں جب ایک دن ہمارے دروازے پر پہنچ کر بارگاہ نبوت میں حاضری کی اجازت چاہی تو آپ نے اس کو آنے کی اجازت دیدی اور حاضرین مجلس سے فرمایا کہ یہ شخص اپنی قوم کا ایک برا شخص ہے اس نے اسی موقع پر آنحضرت ﷺ کے سامنے اپنے اسلام کا اظہار کیا اگرچہ اس کا اسلام کامل اور اس کا ایمان راسخ نہیں تھا۔ اس سے واضح ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے اس کے بارے میں جو کچھ فرمایا وہ علامات نبوت میں سے ایک علامت اور آپ کا ایک معجزہ تھا کہ آپ نے مذکورہ ارشاد کے ذریعہ اس کے بارے میں آئندہ پیش آنے والے واقعات اور اس کے باطن کے حقیقی احوال سے لوگوں کو پہلے ہی مطلع کردیا اور آخرکار اس کی برائی و بدی بصورت ارتداد وغیرہ آشکار ہوئی اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ آپ نے اس کے حق میں مذمت کے جو الفاظ فرمائے یا یوں کہے کہ اس کہ جس عیب کو ظاہر فرمایا اس کا مقصد اس کے احوال کو منکشف کرنا تھا تاکہ لوگ اس کو جان لیں او اس کی حقیقت حال سے باخبر رہ کر اس کے فریب اور اس کی وجہ سے کسی فتنہ و فساد میں مبتلا نہ ہو سکیں لہذا اس کو غیبت نہ کہا جائے گا۔ امام نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے کشادہ روئی اور خندہ پیشانی سے ملنا اور مسکرا مسکرا کر اس سے باتیں کرنا اس کی تالیف قلب کی خاطر تھا اس سے معلوم ہوا کہ اس شخص کی مدارت کرنا جائز ہے جس کی فحش گوئی بد خلقی اور اس کے ضرر کا خوف ہو نیز اس سے یہ بھی ہوا کہ کسی فاسق کے عیب کو ظاہر کرنا یعنی اس کی غیبت کرنا جائز ہے اس موقع پر مدارات اور مداہنت کے درمیان فرق سمجھ لینا چاہیے۔ مدارات تو اس کو کہتے ہیں کسی شخص کی دنیا یا دین اور یا دونوں کی اصلاح کے لئے اس پر دنیا کی چیز کو خرچ کیا جائے اور یہ مباح ہے بلکہ بسا اوقات اس کی حثییت ایک اچھی چیز کی ہوجاتی ہے اس کے برخلاف مداہنت اس کو کہتے ہیں کہ کسی کی اصلاح و مدد کے لئے اس پر دین قربان کیا جائے، مداراب اور مداہنت کے درمیان اس فرق کو یاد رکھنا چاہیے کیونکہ اکثر لوگ اس سے غافل ہیں اور اس فرق کو نہ جاننے کی وجہ سے گمراہی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تم نے مجھ کو فحش کب پایا آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد در اصل حضرت عائشہ (رض) کے خیال کو صحیح کرنے کے لئے تھا جنہوں نے اپنے قول کے ذریعہ گویا اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ آپ نے اس شخص کے بارے میں مختلف رویہ اختیار فرمایا جب وہ آپ کے سامنے نہیں تھا تو آپ نے اس کی مذمت فرمائی اور جب وہ آپ کے سامنے آیا تو اس کے ساتھ ملاطفت و یگانگت کا برتاؤ کیا جب آپ نے اس کی عدم موجودگی میں اس کو برا کہا تو اس کی موجودگی میں بھی اس کو برا کہتے اور اس کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتے جو کسی برے آدمی کے ساتھ کیا جاتا ہے چناچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ (رض) کی بات کے جواب پر واضح فرمایا کہ اگر میں اس کے سامنے بھی وہی بات کہتا جو اس کی عدم موجودگی میں کہی تھی اور ایک نازیبا اور لچر بات ہوتی جب کہ تم نے مجھے کبھی بھی لچر باتیں کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے جو ارشاد فرمایا اس کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ واضح فرمایا کہ میں نے اس شخص کے منہ پر اس کو اس لئے برا نہیں کہا کہ میں سخت گو قرار نہ پا سکوں اور میرا شمار ان لوگوں میں نہ ہونے لگے جن کی سخت اور کڑوی باتوں کہ وجہ سے لوگ ان سے ملنا چھوڑ دیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے الفاظ کے ذریعہ گویا ظاہر فرمایا کہ وہ شخص چونکہ بہت شریر اور بد باطن تھا لہذا میں نے اس کی بد باطنی کی وجہ سے اس سے اجتناب کیا اور اس کے منہ پر اس کو بر انہیں کہا اور حقیقت میں برا شخص وہی ہے جس کی برائی سے بچنے کے لئے لوگ اس سے اجتناب کریں اور اس کے عیوب سے بھی آگاہ نہ کریں۔

【209】

اپنے عیب کو ظاہر نہ کرو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت پوری عافیت میں ہے علاوہ ان لوگوں کے جو اپنے عیوب اور گناہ کو ظاہر کرتے ہیں یعنی میری امت کے وہ سارے گنہگار جو ایمان کی حالت میں مریں اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب میں مبتلا نہیں ہوں گے البتہ وہ لوگ یقینا سخت ترین عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے جو نہ صرف گناہ کرتے ہیں بلکہ اپنے گناہ کو دنیا والوں پر ظاہر بھی کرتے پھرتے ہیں بلا شبہ یہ بات بڑی بےپروائی کی ہے کہ کوئی شخص رات میں برا کام کرے اور پھر صبح ہونے پر جب کہ اللہ نے اس کے اس برے کام کو چھپالیا تھا تو وہ لوگوں سے یہ کہتا پھرے کہ اے فلاں شخص میں نے آج رات میں ایسا ایسا (یعنی فلاں برا کام) کیا حالانکہ اس کے پروردگار نے رات میں اس کے گناہ کی پردہ پوشی کی تھی اور اس نے صبح ہوتے ہیں اللہ کے پردہ کو چاک کردیا۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں من کان یومن باللہ باب الضیافۃ میں نقل کی جا چکی ہے۔ تشریح حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب میں لفظ معافا کے معنی سلامت و محفوظ رہنا لکھے ہیں گویا ان کے نزدیک کل امتی معافا الا المہاجرون، کا ترجمہ یوں ہوں گا کہ میری امت کے تمام لوگ غیبت سے محفوظ و مامون ہیں یعنی شریعت الٰہی میں کسی مسلمان کی غیبت کرنے کو روا نہیں رکھا گیا ہے علاوہ ان لوگوں کے جو گناہ و معصیت کے کھلم کھلا ارتکاب کرتے ہیں ایک دوسرے شارح حدیث طیبی نے بھی یہی معنی لکھے ہیں کہ لیکن ملا علی قاری نے یہ لکھا ہے کہ حدیث کا سیاق وسباق اور اس کا حقیقی مفہوم اس معنی پر دلالت نہیں کرتا چناچہ ان کے نزدیک زیادہ مبنی بر حقیقت کے معنی وہی ہیں جو ترجمہ میں نقل کئے گئے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ شریعت نے جس غیبت کو حرام قرار دیا ہے وہ اس شخص کی غیبت ہے جو پوشیدہ طور پر کوئی گناہ کرتا ہے اور اپنے عیب کو چھپاتا ہے لیکن جو لوگ کھلم کھلا اور ڈھٹائی کے ساتھ گناہ کرتے ہیں اور اپنے عیب کو خود ظاہر کرتے پھرتے ہیں کہ نہ تو اللہ سے شرماتے ہیں اور نہ بندوں سے تو ان کی غیبت کرنا درست ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ فاسق معلن یعنی کھلم کھلا فسق و فجور کرنے والے کی غیبت کرنا جائز ہے نیز ظلم کرنے والے حاکم و سلطان اور مبتدع داعی کی اور داد خواہی و اظہار ظلم کے لئے غیبت کرنا بھی درست ہے اسی طرح اصلاح عیوب کی خاطر اور بقصد نصیحت کسی کی برائی کو بیان کرنا کسی کے گواہ و شاہد کے حالات کی چھان بین اور اس کے بارے میں صحیح اطلاعات بہم پہنچانے کی خاطر اس کے عیوب کو بیان کرنا اور اخبار و احادیث کے راویان کی حثییت و شخصیت کو واضح کرنے کے لئے ان کے عیوب کو ظاہر کرنا غیبت میں داخل نہیں ہے۔

【210】

جھوٹ اور مخاصمت کو ترک کرنے والے اور اخلاق و اطوار کو اچھا بنانے والے کا ذکر

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ جھوٹ ناحق و ناروا ہو تو اس کے لئے جنت کے کنارے پر محل بنایا جاتا ہے اور جو شخص جھگڑے اور بحث و تکرار چھوڑ دے باوجودیکہ وہ حق پر ہو اس کے لئے جنت کی بلند جگہ پر محل بنایا جاتا ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے اسی طرح کی روایت شرح السنۃ اور مصابیح میں منقول ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح حدیث میں ان تین طرح کے لوگوں کا ذکر ہے جن کو جنت میں نمایاں مقامات پر رکھا جائے گا ایک طرح کے لوگ وہ ہیں جو جھوٹ بولنا بالکل ترک کردیں اس موقع پر ناحق کی قید لگائی گئی ہے یعنی ایسا جھوٹ جو بالکل ناروا اور ناجائز ہوتا ہے اس قید کی وجہ یہ ہے کہ بعض صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہوتا ہے جیسے جنگ کی حالت میں بشرطیکہ اس جھوٹ کی وجہ سے کسی طرح کی عہد شکنی نہ ہوئی ہو یا لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کی خاطر اور کسی مسلمان کا ایسا مال بچانے کے لئے جو ناروا طور پر اپنے مالک کے ہاتھ سے جارہا ہو اور یا دو بیویاں رکھنے کی صورت میں یعنی اگر کسی شخص کے ہاں دو بیویاں ہوں تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی ہر ایک بیوی کا دل خوش کرنے کے لئے ہر ایک سے یوں کہے کہ میں تمہیں زیادہ چاہتا ہوں اور بعض حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک ہی بیوی ہونے کی صورت میں بھی اس وقت جھوٹ بولنا جائز ہوتا ہے کہ جب وہ بیوی کا دل خوش کرنے کے لئے اس سے یوں کہے کہ میں تمہیں یہ دوں گا وہ دوں گا یہ بنا دوں گا وہ لا دوں گا۔ دوسری طرح کے وہ لوگ ہیں جو حق پر ہونے کے باجود تواضع کسر نفسی اور شرافت نفس کی بناء پر مخاصمت و نزاع اور بحث و تکرار سے اپنا دامن بچاتے ہیں لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ اس مخاصمت و نزاع کا تعلق کسی دنیاوی معاملہ سے ہو اس میں سکوت و اجتناب کرنے سے دین میں کوئی خلل نہ پڑے، ہاں اگر کسی مخاصمت و نزاع کا تعلق کسی دینی معاملہ سے تو اس سے اس وقت تک کنارہ کشی اختیار کرنا مناسب نہیں ہوگا جب تک وہ معاملہ نپٹ نہ جائے اور حق ظاہر نہ ہوجائے ! حضرت امام شافعی سے منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کسی دینی معاملہ میں کوئی بحث و مناظرہ اس مقصد کے علاوہ اور کسی وجہ سے نہیں کیا کہ میں چاہتا تھا میں سچائی کو ثابت کرنے کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوں اور حق میرے مقابل کے ہاتھ پر ظاہر ہو۔ مذکورہ بالا سلسلے میں حضرت امام حجۃ الاسلام نے لکھا ہے کہ مراء یعنی جھگڑے اور بحث و تکرار کو اختیار کرنے کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے کلام اور اس کی بات پر اعتراض وارد کرے، بایں طور کہ یا تو اس کے الفاظ میں خلل و نقصان کو ظاہر کرے یا اس کے مضمون و معنی میں غلطی نکالنے اور یا متکلم کے مقصد و مراد کو نادرست قرار دے اس کے برخلاف ترک مراد یعنی جھگڑے اور بحث و تکرار سے اجتناب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے کے کلام و قول پر کوئی اعتراض وارد نہ کرے لہذا انسان کو چاہیے کہ جب وہ کلام و بات سنے تو اگر وہ حق ہو تو اس کی تصدیق کرے اور اگر وہ باطل و بےبنیاد ہو اور اس کا تعلق کسی دینی معاملہ سے نہ ہو تو اس سے سکوت اختیار کرلے۔ تیسری طرح کے وہ لوگ ہیں جو اپنے اخلاق اچھا بناتے ہیں۔ واضح رہے کہ حسن اخلاق یوں تو تمام ہی اچھے اوصاف و کمالات کو اختیار کرنے کا نام ہے لیکن معاشرہ میں عام طور پر حسن اخلاق کا اطلاق، خندہ پیشانی، کشادہ روئی، نرم گوئی اور حسن معاشرت پر ہوتا ہے۔

【211】

جنت اور دوزخ لے جانے والی چیزیں

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جانتے ہو کہ لوگوں کو عام طور پر کونسی چیز جنت میں داخل کرتی ہے ؟ وہ تقوی یعنی اللہ سے ڈرنا اور حسن خلق ہے اور جانتے ہو لوگوں کو عام طور پر کونسی چیز جہنم میں لے جاتی ہے ؟ وہ کھوکھلی چیزیں یعنی منہ اور شرمگاہ۔ (ترمذی، ابن ماجہ) ۔ تشریح تقوی کا سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ شرک سے اجتناب کیا جائے اور سب سے اعلی درجہ یہ ہے کہ دل میں اللہ کے علاوہ کسی بات کا خیال بھی نہ آنے دیا جائے۔ حسن خلق سے مراد مخلوق اللہ کے ساتھ خوش خلقی اختیار کرنا ہے جس کا سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ کسی مخلوق کو کوئی تکلفی و ایذا نہ پہنچائی جائے اور سب سے اعلی درجہ یہ ہے کہ انسان اس شخص کے ساتھ بھلائی کرے جس نے اس کے ساتھ برا سلوک کیا ہے اس اعتبار سے حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہوگا کہ جس شخص میں تقوی اور حسن خلق یہ دونوں اوصاف پیدا ہوجائیں تو سمجھو کہ اس کی نجات کا دروازہ کھل گیا کیونکہ تقوی یعنی پرہیزگاری سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور خوش خلقی سے مخلوق کی خوشی ملتی ہے اور ظاہر ہے جس انسان سے اللہ بھی خوش ہو اور مخلوق اللہ بھی تو اس کا بیڑا پار ہونے میں کیا شبہ رہ جائے گا۔ حضرت شیخ عبدالحق نے لکھا ہے کہ خوش خلقی بھی تقوی میں داخل ہے لہذا حدیث میں تقوی کے بعد پھر خوش خلقی کا ذکر کرنا تخصیص بعد تعمیم کے طور پر ہے مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تقوی سے تو ظاہری اعمال کا حسن مراد ہے اور حسن خلقی سے باطنی احوال کا حسن۔ طیبی یہ کہتے ہیں کہ تقوی کے ذریعہ تو اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ خالق اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن معاملہ کرے بایں طور کہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے جس سے اس کو منع کیا گیا ہے اور ہر اس چیز پر عمل کرے جس کا حکم دیا ہے اور حسن خلق کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مخلوق اللہ کے ساتھ حسن معاملہ کرے یعنی خوش خلقی اختیار کرے۔ حدیث کے دوسرے بڑے جز میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ منہ اور شرم گاہ کے دو بڑے سر چشمے ہیں جن سے پیدا ہونے والی برائیوں میں پڑ کر انسان دوزخ میں جا گرتا ہے چناچہ منہ کہ اس میں زبان بھی داخل ہے گمراہی اور بد عملیوں کا بڑا ذریعہ ہے انسان جو بھی حرام چیز کھاتا ہے اور پیتا ہے اسی کے منہ کے ذریعہ نگلتا اور وہ جو بھی ممنوع و ناجائز بیہودہ و فحش اور لاطائل کلام و گفتگو کرتا ہے زبان ہی اس کا ذریعہ بنتی ہے اس طرح شرمگاہ خواہ عورت کی یا مرد کی شیطان کا سب سے دل فریب جال ہے جس میں وہ لوگوں کو پھنسا کر دوزخ میں گرا دیتا ہے چناچہ انسان اسی شرمگاہ کے سبب جنسی جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے اور نفسانی شہوت میں مبتلا ہو کر اپنے خالق کی نافرمانی کرتا ہے۔

【212】

کلمہ خیر اور کلمہ شر کی اہمیت

اور حضرت بلال بن حارث (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انسان کوئی کلمہ خیر (بھلائی کی کوئی بات) اپنی زبان سے نکالتا ہے درآنحالیکہ وہ اس کی قدر و منزلت سے آگاہ نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ اسی کلمہ خیر کے سبب سے اس کے حق میں اس دن تک کے لئے اپنی خوشنودی کو ثابت کردیتا ہے جب کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے اسی طرح کوئی انسان کلمہ شر (یعنی کوئی برائی کی بات) اپنی زبان سے نکالتا ہے درآنحالیکہ وہ اس کی اہمیت سے واقف نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اس کلمہ شر کے سبب سے اس کے حق میں اس دن تک کے لئے اپنی خفگی ثابت کردیتا ہے جب کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے۔ (شرح السنہ) اور امام مالک، ترمذی اور ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ تشریح اپنی خوشنودی کو ثابت کردیتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ایسی باتوں کی توفیق دیتا ہے جو رضاء الٰہی کا موجب ہیں اس کو برزخ میں قبر کے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے اس کی قبر کو کشادہ کردیا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس طرح سو رہو جیسے نوشہ سوتا ہے پھر وہ قیامت کے دن نیک بختی وسعادت کے ساتھ اٹھے گا کہ اس پر حق تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہوگا جنت میں داخل کیا جائے گا اور وہاں کی نعمتیں اس کا نصیب بنیں گی۔ اسی طرح جس شخص کے حق میں اللہ تعالیٰ اپنی خفگی قائم کر دے گا اس کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوگا لہذا حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ اس دن تک کے لئے جب کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے تو اس تو قیت کا یہ مطب ہرگز نہیں ہے کہ اللہ کی رضا یا اس کی خفگی بس اسی دن تک محدود رہے گی۔ اس کے بعد منقطع ہوجائے گی اس کی تائید قرآن کریم اس آیت سے بھی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے حق میں نازل فرمائی کہ، آیت (وَّاِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِيْ اِلٰى يَوْمِ الدِّيْنِ ) 68 ۔ ص 78) ظاہر آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ابلیس لعین، اللہ کی لعنت کا مورد صرف قیامت کے دن تک ہی ہے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ تک اللہ کے لعنت میں گرفتار رہے گا اسی طرح حدیث میں مذکورہ لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی یا خفگی کا تعلق موت کے دن کے بعد بھی ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ، کلمہ خیر، سے مراد ظالم سلطان و حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔ اس پر قیاس کر کے کہا جاسکتا ہے کہ، کلمہ شر، سے مراد کسی حاکم و سلطان کے سامنے کلمہ باطل یعنی بری بات کہنا ہے جو دین کو نقصان پہنچائے لیکن حدیث کا ظاہر مفہوم عمومیت پر دلالت کرتا ہے۔

【213】

جھوٹے لطیفوں کے ذریعہ لوگوں کو ہنسانے والے کے بارے میں وعید

بہز ابن حکیم اپنے والد (حکیم ابن معاویہ) سے اور وہ بہز کے دادا (حضرت معاویہ ابن عبدہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا افسوس اس شخص پر جو بات کرے تو جھوٹ بولے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے، افسوس اس شخص پر افسوس اس شخص پر۔ (احمد، ابوداؤد، دارمی) تشریح ویل کے معنی ہیں عظیم ہلاکت اور ویل دوزخ کی ایک گہری وادی کا نام بھی ہے جس میں اگر پہاڑ ڈال دیئے جائیں تو گرمی سے گل جائیں اہل عرب کے کلام میں یہ لفظ اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو کسی برائی اور ناپسندیدہ امر کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کے تئیں اظہار تاسف اور اس کو متنبہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا اپنے ارشاد کے آخر میں مذکورہ لفظ کو پھر استعمال کرنا اور مکرر استعمال کرنا گویا ایسے شخص کے حق میں زجر وعید کو زیادہ شدت کے ساتھ بیان کرنا مقصود تھا جو بےبنیاد باتوں اور جھوٹے لطائف و قصص کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے۔ ویل لمن یحدث فیکذب، میں لفظ یکذب (جھوٹ بولنے کی قید سے یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے ہم جلیسوں اور یاروں اور دوستوں کو خوش کرنے اور ان کو ہنسانے کے لئے ایسی بات کرے یا ایسے لطیفے اور قصے سنائے جو سچے ہوں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگرچہ یہ ضروری ہے کہ اس کو اپنی عادت نہ بنائے اور نہ لطیفہ گوئی کو بطور پیشہ اختیار کرے کیونکہ خوش طبعی و بذلہ سخی جو جھوٹ پر مبنی نہ ہو، باوجودیکہ مشروع و مسنون ہے لیکن اس کو کبھی کبھار ہی اختیار کیا جائے نہ کہ ہمیشگی کے ساتھ اس طرح ہر وقت لوگوں کو ہنسانے اور مسخرا پن کرنے ہی میں نہ لگا رہے اور نہ اس پر زیادہ توجہ دے کیونکہ اس کا مال کار نقصان و خسران کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا جیسا کہ اگلی حدیث میں فرمایا گیا ہے۔

【214】

مسخرے پن اور زبان کی لغزش سے بچو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ جب بندہ ایک بات کہتا ہے اور صرف اس لئے کہتا ہے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے تو وہ اس بات کی وجہ سے (دوزخ میں) جا گرتا ہے اور اتنی دور جا گرتا ہے جو زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بندہ اپنے قدموں کے ذریعہ پھسلنے سے زیادہ اپنی زبان کے ذریعہ پھسلتا ہے۔ (بہیقی) تشریح حدیث کے آخری جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے پاؤں پھسلنے سے منہ کے بل گرپڑے اور ضرر اٹھائے تو یہ اتنا سخت نہیں جتنا سخت وہ ضرر ہے جو زبان کے پھسلنے یعنی اس سے جھوٹ وغیرہ کے صادر ہونے کی وجہ سے اٹھانا پڑتا کیونکہ پاؤں کی لغزش بدن کو ضرور پہنچاتی ہے اور زبان کی لغزش دین و آخرت کے نقصان میں مبتلا کرتی ہے اور ظاہر ہے کہ جسمانی نقصان و ضرر دینی نقصان و ضرر سے ہلکا ہوتا ہے۔

【215】

ایک چپ لاکھ بلا ٹالتی ہے

اور حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ (احمد، ترمذی، دارمی، بہیقی) ۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ چپ رہ کر اور زبان کو بری باتوں سے محفوظ رکھ کر دنیا کی بہت سی آفتوں سے نجات مل جاتی ہے اور دینی و اخروی طور پر بھی بہت سی بلاؤں اور نقصان و خسران سے نجات حاصل ہوجاتی ہے کیونکہ انسان عام طور پر جن بلاؤں اور آفتوں میں مبتلا ہوتا ہے ان میں سے اکثر زبان ہی کے ذریعہ سے پہنچتی ہیں۔ کلام کی قسمیں امام غزالی نے لکھا ہے کہ انسان اپنی زبان سے جو بات نکالتا ہے اور جو کلام کرتا ہے اس کی چار قسمیں ہیں۔ ایک تو محض نقصان، دوسرے محض نفع، تیسرے وہ بات اور کلام جس میں نہ نفع ہوتا ہو اور نہ نقصان ہوتا ہو اور چوتھے وہ بات و کلام جس میں نفع بھی اور نقصان بھی اس سے خاموشی ہی اختیار کرنا چاہے کیونکہ نقصان سے بچنا فائدہ حاصل کرنے سے زیادہ اہم ہوتا ہے اور وہ کلام کہ جس میں نہ نفع ہو نہ نقصان تو ظاہر ہے کہ اس میں زبان کو مشغول کرنا محض وقت ضائع کرنا ہے اور یہ چیز بھی خالص ٹوٹا رہے ہی دوسری قسم یعنی وہ کلام جس میں نفع ہی نفع ہو تو اگرچہ ایسی بات و کلام میں زبان کو مشغول کرنا برائی کی بات نہیں ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس میں بھی ابتلائے آفت کا خطرہ ضرور ہوتا ہے بایں طور کہ ایسے کلام میں بسا اوقات ریاء و تصنع، خوشنودی نفس اور فضول باتوں کی آمیزش ہوجاتی ہے اور اس صورت میں یہ تمیز کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ کہاں لغزش ہوگئی ہے۔ حاصل یہ کہ ہر حالت اور ہر صورت میں خاموشی اختیار کرنا بہتر ہے اور نجات کا ذریعہ ہے کیونکہ زبان کی آفتیں ان گنت ہیں اور ان سے بچنا سخت مشکل الاّ یہ کہ زبان کو ہی بند رکھا جائے کسی نے خوب کہا ہے، اللسان جسمہ صغیر وجرمہ کبیر وکثیر زبان کا جثہ تو چھوٹا ہے مگر اس کے پاپ بڑے اور بہت ہیں۔

【216】

دنیا وآخرت نجات کے ذریعے

اور حضرت عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ مجھے بتائیے کہ دنیا اور آخرت میں نجات کا ذریعہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اپنی زبان کو قابو میں رکھو تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے اور اپنے گناہوں پر روؤ۔ (احمد، ترمذی) تشریح لفظ، املک، الف کے زبر اور لام کے زیر کے ساتھ ہے لیکن حضرت شیخ عبدالحق نے الف کے زیر کو ترجیح دی ہے اس جملہ کے ایک معنی شارخ نے یہ لکھے ہیں کہ اپنی زبان کو ایسی چیزوں اور باتوں سے صاف رکھو جن میں خیرو بھلائی نہیں ہے لیکن اس جملہ کے زیادہ صحیح معنی یہ ہیں کہ اپنی زبان کو بند رکھو کہ گویا تم اپنے تئیں اپنے امور کی نگہداشت رکھتے ہو۔ یعنی اپنے دین کے معاملہ میں محتاط و پرہیز گار اور اپنے حالات کوائف پر متوجہ ہونا ظاہر ہے کہ جب تم اپنے معاملات میں محتاط پرہیز گار ہو گے اور اپنے احوال و کوائف پر متوجہ رہ کر اپنی برائیوں اور بھلائیوں پر نظر رکھو گے تو راہ نجات تمہارے سامنے ہوگی۔ تمہارا گھر تمہیں کفایت کرے کا مطلب یہ ہے کہ بری مجلسوں اور برے لوگوں کی صحبت سے بچنے کی خاطر یکسوئی اختیار کرو اپنے اپنے گھر سے اسی وقت باہر نکلو جب نکلنے کی ضرورت پیش آئے اور اس یکسوئی و گوشہ نشینی کی وجہ سے دل برداشتہ نہ ہو بلکہ اس کو غنیمت جانو کیونکہ یہ چیز بہت سے فتنہ فساد و برائیوں سے نجات پانے کا ذریعہ ہے اسی لئے کہا گیا ہے ، ، ھذا زمان السکوت وملازمۃ البیوت والقناعۃ بالقوہ الی ان تموت۔ طیبی کہتے ہیں کہ ویسعک بیتک میں حکم ظاہر مورد تو گھر ہے لیکن حقیقت میں اس حکم کا مورد مخاطب ہے گویا اس ارشاد کے ذریعہ مخاطب کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے گھر میں یکسوئی اور گوشہ نشینی اختیار کر کے مولیٰ کی عبادت میں مشغول رہو۔ اپنے گناہوں پر رونے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی خطاؤں اور اپنی تقصیرات پر نادم و شرمسار ہو کر طلب مغفرت کے لئے اللہ کے حضور گڑا گڑاؤ اور خشوع خضوع اختیار کرو اور اگر رونا نہ آئے تو کم سے کم رونے کی صورت بنا لو۔

【217】

تمام اعضاء جسم، زبان سے عاجزی کرتے ہیں

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) آنحضرت ﷺ سے بطریق مرفوع نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو سارے اعضاء چشم زبان کے سامنے عاجزی کرتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ ہمارے حق میں اللہ سے ڈر کیونکہ ہمارا تعلق تجھ ہی سے ہے اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگی تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔ (ترمذی) تشریح یوں تو سارے جسمانی نظام کا ظاہر و رحانی دار و مدار دل پر ہے کہ اگر دل درست و صالح ہے تو تمام اعضاء جسم بھی درست و صالح رہتے ہیں اور اگر دل فاسد و ناکارہ ہے تو سارے اعضاء بھی فاسد و ناکارہ ہوجاتے ہیں جب کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے۔۔۔۔۔ ان فی الجسد مضغۃ ان صلحت صلح الجسد واذافسدت فسد الجسد کلہ جسم میں گوشت کا لوتھڑا ہے (جس کو دل کہا جاتا ہے) اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہے اور اگر وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ گیا۔ اس حقیقت کے باوجود اس حدیث میں یہ ظاہر کرنا کہ گویا زبان ہی سارے اعضاء جسم کی سردار ہے اس اعتبار سے ہے کہ حقیقت میں دل ہی جسم کا بادشاہ ہے مگر دل کا ترجمان اور خلیفہ زبان ہی ہے۔ کہ دل جو کچھ سوچتا ہے زبان اس کو بیان کرتی ہے اور دیگر اعضاء جسم اس پر عمل کرتے ہیں لہذا جو حکم دل کا ہے وہی زبان کا ہے کہ جس طرح دل کے صالح و فاسد ہونے کا اثر سارے اعضاء جسم پر پڑتا ہے اس طرح زبان کا بناؤ بگاڑ بھی تمام اعضاء جسم کو بناتا اور بگاڑتا ہے۔

【218】

حسن اسلام کیا ہے۔

اور حضرت علی بن حسین (رض) یعنی حضرت امام زین العابدین کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جو بےفائدہ ہے۔ مالک، احمد) نیز اس روایت کو ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور ترمذی اور شعب الایمان میں بہیقی نے دونوں یعنی حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت علی ابن حسین (رض) سے نقل کیا ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے اسلام کے حسن و خوبی اور ایمان کے کامل ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ اس چیز سے اجتناب کرے جس کا اہتمام نہیں کیا جاتا جس کے ساتھ کوئی غرض متعلق نہیں ہوتی اور جس کی یہ شان نہیں ہوتی کہ کوئی شخص اس کا اہتمام کرے اور اس کے حصول میں مشغولیت اختیار کرے حاصل یہ کہ وہ چیز کوئی امر ضروری نہ ہو چناچہ جس چیز کا امر لایعنی کہا جاتا ہے اس کی تعریف و وضاحت یہی ہے اس کے برخلاف جو چیز امر ضروری کہلاتی ہے اور کوئی شخص جا اہتمام کرتا ہے وہ ایسی چیز ہوتی ہے جس کے ساتھ دنیا میں ضروریات زندگی اور آخرت میں سلامتی ونجات وابستہ ہوتی ہے مثلا دنیا کی ضروریات زندگی میں سے ایک تو غذا ہے جو بھوک کو مٹاتی ہے دوسرے پانی ہے جو پیاس کو رفع کرتا ہے تیسرے کپڑا ہے جو ستر کو چھپتا ہے چوتھے بیوی ہے جو عفت و پاکدامنی پر قائم رکھتی ہے اور اسی طرح کی وہ چیزیں جو زندگی کی دوسری ضروریات کو پورا کریں نہ کہ وہ چیزیں جن سے محض نفس کی لذت حرص و ہوس کی بہرہ مندی اور دنیا کی محبت کا تعلق ہوتا ہے نیز ایسے افعال و اقوال اور تمام حرکات و سکنات بھی نہیں جو فضول و بےفائدہ ہوں، اسی طرح وہ چیز کہ جس سے آخرت کی سلامتی و نجات متعلق ہوتی ہے ایمان و اسلام اور احسان کی جس کی وضاحت ابتداء کتاب میں حدیث جبرائیل میں ذکر ہوچکی ہے۔ حاصل یہ کہ جو چیزیں دنیا و آخرت میں ضروری ہیں اور جن پر دینی و دنیوی زندگی کا انحصار و مدار ہوتا ہے اور جو مولیٰ کی رضا و خوشنودی کا سبب و ذریعہ بنتی ہے وہ تو لایعنی نہیں ہیں ان کے علاوہ باقی تمام چیزیں لایعنی ہیں خواہ ان چیزوں کا تعلق عمل سے ہو یا قول سے۔ حضرت امام غزالی نے کہا کہ لایعنی (بےفائدہ بات) کا آخری درجہ یہ ہے کہ تم کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نکالو کہ جس کو اپنی زبان سے نہ نکالتے تو گناہگار ہوتے اور اس کی وجہ سے تمہیں فوری طور پر کوئی نقصان پہنچتا اور نہ مال کے اعتبار سے اس کی مثال یہ ہے کہ فرض کرو، تم کچھ لوگ ساتھ بیٹھے ہوئے ہو، اب تم نے ان کے سامنے اپنے کسی سفر کے احوال بیان کئے اس بیان احوال کے دوران تم نے ہر اس چیز کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جو تم نے اپنے سفر کے دوران دیکھی مثلا پہاڑ عمارت وغیرہ یا جو کچھ واقعات و حادثات پیش آئے تھے ان کے بارے میں بتایا، پھر تم نے ان اچھے کھانوں، عمدہ لباس و پوشاک اور دوسری چیزوں کا بھی ذکر کیا جو تمہیں ملی تھیں یا جن کو تم نے دیکھا تھا، ظاہر ہے کہ تم نے یہ جو ساری تفصیل بیان کی اور جن امور کا ذکر کیا وہ یقینا ایسی چیزیں ہیں کہ اگر تم ان کو بیان نہ کرتے تو گناہگار ہوتے اور نہ تمہیں کوئی نقصان و ضرر برداشت کرنا پڑتا جب کہ اس لمبی چوڑی تفصیل بیان کرنے کی صورت میں بہت ممکن ہے کہ کسی موقع پر تمہاری زبان لغزش کھائی ہو اور اس سے کوئی ایسی بات نکل گئی ہو جس سے تم گناہگار بن گئے ہو۔

【219】

کسی کی آخرت کے بارے میں یقین کے ساتھ کوئی حکم نہ لگاؤ

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن صحابہ میں سے ایک شخص کا انتقال ہوا تو ایک دوسرے شخص نے (مرحوم کی میت کو مخاطب کر کے کہا) آنحضرت ﷺ کی صحبت کی برکت سے تمہیں) جنت کی بشارت ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بات سن کر اس شخص سے فرمایا کہ تم یہ بات کس طرح کہہ رہے ہو جبکہ حقیقت حال کا تمہیں علم نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ اس شخص نے کسی ایسے معاملہ میں اپنی زبان سے الفاظ نکالے ہوں جو اس کے لئے ضرر رساں نہ ہو یا کسی ایسی چیز میں بخل کیا ہو جس میں کمی نہ آئے۔ (ترمذی) تشریح کسی ایسے معاملے میں اپنی زبان سے الفاظ نکالے ہوں، کا مطلب یہ ہے کہ اس نے بےفائدہ باتوں میں اپنا وقت ضائع کیا ہو اور ایسے امور میں خواہ مخواہ کے لئے اپنی زبان سے الفاظ نکالے ہوں جو اس کے لئے کسی طرح کا ضرر و نقصان پہنچانے کا سبب نہ ہوں۔ کسی ایسی چیز میں بخل کیا ہو، کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کسی ایسی چیز کو دینے میں بخل سے کام لیا ہو جو دیئے جانے کے باوجود کم نہیں ہوتی جیسے علم کی تعلیم یا مال زکوٰۃ کی ادائیگی کہ علم تقسیم کرنے یا زکوٰۃ ادا کرنے سے علم اور مال میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ ان میں زیادتی ہی ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد کا ماحصل یہ تھا کہ اس شخص کے جنت میں جانے کے بارے میں اس طرح کا جزم و یقین کیوں ظاہر کیا ہے ؟ جب کہ تمہیں اس کی زندگی کے سارے ظاہری باطنی گوشوں سے واقفیت اور اس کے احوال کی حقیقت کا علم نہیں ہے بیشک اس شخص کی ظاہری زندگی بڑی پاکیزہ تھی اور اس کو صحابیت کی سعادت بھی حاصل ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنی زبان سے کوئی لایعنی بات نکالی ہو یا بخل کیا ہو اور اس مواخذہ حساب میں گرفتار ہو کر جنت میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہو۔

【220】

زبان کے فتنہ سے بچو-r-n-r-n-r-nجھوٹ بولنا حفاظت کرنے والے فرشتوں کو اپنے سے دور کردیتا ہے۔

اور حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ میرے بارے میں جن چیزوں سے ڈرتے ہیں ان میں سب سے زیادہ خوفناک چیز کون سی ہے ؟ حضرت سفیان (رض) کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) اپنی زبان مبارک کو پکڑا اور فرمایا کہ یہ چیز یعنی تمہارے بارے میں مجھے سب سے زیادہ ڈر اس زبان سے لگتا ہے کہ گناہ کی اکثر باتیں اس سے سرزد ہوتی ہیں لہذا تم اس زبان کے فتنہ سے بچو۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ اور اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جب کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی پیدا کی ہوئی چیز یعنی جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے (حفاظت کرنے والے) فرشتے اس سے کوس بھر دور چلے جاتے ہیں۔

【221】

کسی کو اپنے جھوٹ کے دھوکے میں مبتلا کرنا بہت بڑی خیانت ہے

اور حضرت سفیان ابن اسد حضری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہو اور وہ تم کو اس بات میں سچا جانے جب کہ حقیقت میں تم نے اس سے جھوٹ بولا ہے۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ یوں تو ہر حالت اور ہر موقع پر جھوٹ بولنا بہت برا ہے مگر اس صورت میں تو بہت ہی برا ہے کہ تم اپنے کسی مسلمان بھائی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاؤ بایں طور کہ وہ تو تمہیں سچ بولنے والا سمجھے مگر تم اس سے جھوٹ بولو۔

【222】

دو رویہ کے بارے میں وعید

اور حضرت عمار کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص دنیا میں دو رویہ یہ ہوگا کہ قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔ (دارمی) تشریح دو رویہ اصل میں منافق صفت آدمی کو کہتے ہیں یعنی وہ شخص جو کسی کے حق مخلص نہ ہو، زبان سے کچھ کہے اور دل میں کچھ رکھے جب کسی کے سامنے بات کرے تو اس طرح کہ مخاطب یہ سمجھے کہ یہ میرا بڑا دوست ہمدرد ہے مگر جب اس کے پیٹھ پیچھے بات کرے تو زبان سے ایسے الفاظ نکالے جو اس کے لئے تکلیف کا باعث ہوں۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ دو رویہ اس شخص کو کہتے ہیں جو آپس میں مخاصمت رکھنے والے دو آدمیوں میں سے ہر ایک کی منہ دیکھی بات کرے ایک کے پاس جائے تو اس کی پسند کی باتیں کریں اور وہ یہ سمجھے کہ یہ میرا دوست اسی طرح دوسرے کے پاس جائے تو اس کی سی کہے اور وہ سمجھے کہ یہ میرا دوست ہے غرضیکہ دونوں میں سے ہر ایک کے پاس اس کی محبت ظاہر کرے اور دوسرے کی برائی کرے اسی طرح دونوں ہی اس کے بارے میں غلط فہمی کا شکار رہیں۔ اور ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ یہ میرا دوست وہمدرد ہے اور میرے مخالف کا دشمن و بد خواہ۔

【223】

کمال ایمان کے منافی چیزیں

اور حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ (کامل) مومن نہ تو طعن کرنے والا ہوتا ہے نہ لعن کرنے والا نہ فحش گوئی کرنے والا ہوتا ہے۔ نہ زبان درازی کرنے والا اور بہیقی کی روایت میں فحش نہ گوئی کرنے والا زبان دراز کے الفاظ ہیں یعنی اس روایت میں بذی کو فاحش کی صفت قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا جو حد سے زیادہ فحش گوئی کرنے والا ہو نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【224】

کمال ایمان کے منافی چیزیں

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا جو بہت زیادہ لعنت کرنے والا اور لعنت کرنے کا عادی ہو۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اور کسی مومن کے لئے یہ موزوں نہیں ہے کہ وہ بہت لعنت کرنے والا ہو۔ (ترمذی)

【225】

بد دعا کرنے کی ممانعت

اور حضرت سمرہ بن جندب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آپس میں ایک دوسرے کے لئے نہ تو اللہ کی لعنت کی بد دعا کر نہ اللہ کے غضب کی اور نہ جہنم میں جانے کی بد دعا کرو۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ یوں تو کسی صورت میں بھی کسی مسلمان کو اپنے کسی مسلمان بھائی کے حق میں بد دعا نہ کرنی چاہیے کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں لیکن اللہ کی لعنت وغیرہ جیسے چیزوں کی بد دعا کرنا تو سخت برا اور گناہ کی بات ہے چناچہ کسی کے حق میں اس طرح بد زبانی نہ کرنی چاہیے کہ تجھ پر اللہ کی لعنت ہو یا تجھ پر اللہ کا غضب ٹوٹے یا اللہ کرے تو جہنم میں جائے اور یا اللہ کرے تو دوزخ کی گھاٹی میں جلے وغیرہ وغیرہ۔

【226】

جو شخص لعنت کے قابل نہ ہو اس پر لعنت کرنا خود اپنے آپ کو مبتلائے لعنت کرنا ہے۔

اور حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی بندہ کسی چیز یعنی کسی انسان یا غیر انسان پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف جاتی ہے اور آسمان کے دروازے اس لعنت پر بند کردیئے جاتے ہیں پھر وہ لعنت دائیں بائیں طرف جانا چاہتا ہے، چناچہ جب وہ کسی طرف بھی راستہ نہیں پاتی تو اس چیز کی طرف متوجہ ہوتی ہے جس پر لعنت کی گئی ہے یہاں تک کہ اگر وہ چیز اس لعنت کی اہل و سزا وار ہوتی ہے تو اس پر واقع ہوجاتی ہے ورنہ اپنے کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ (ابوداؤد) تشریح اس حدیث کے ذریعہ لعنت کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ کہ جس چیز کو لوگ بہت معمولی چیز سمجھتے ہیں اور ہر کس وناکس پر لعنت کرتے رہتے ہیں انجام کار خود ہی اس لعنت کا شکار ہوجاتے ہیں چناچہ جب کوئی شخص کسی پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت ابتداء ہی سے اس پر متوجہ نہیں ہوتی اور یہ چاہتی ہے کہ ادھر ادھر سے ہو کر باہر نکل جائے مگر جب کسی طرف کو راستہ نہیں پاتی تو آخر کار اس پر متوجہ ہوتی بشرطیکہ وہ اس لعنت کا سزاو ار ہو اور اگر حقیقت کے اعتبار سے وہ اس لعنت کا سزا وار نہیں ہوتا تو پھر انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوٹ کر اس شخص پر واقع ہوجاتی ہے جس نے وہ لعنت کی ہے لہذا معلوم ہوا کہ جب تک یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں شخص لعنت کا واقعی مستوجب ہے اس پر لعنت نہ کیا جائے اور ظاہر ہے کہ کسی شخص کا قابل لعنت ہونا شارع کی طرف سے بتائے بغیر متعین نہیں ہوسکتا۔

【227】

جو شخص لعنت کے قابل نہ ہو اس پر لعنت کرنا خود اپنے آپ کو مبتلائے لعنت کرنا ہے۔

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن کا واقعہ ہے ایک شخص کی چادر ہوا میں اڑ گئی تو اس نے ہوا پر لعنت کی چناچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہوا پر لعنت نہ کرو کیونکہ وہ تو حکم کے تابع ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو شخص کسی ایسی چیز پر لعنت کرے جو اس لعنت کے قابل نہ ہو تو وہ لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح وہ تو حکم کے تابع ہے، کا مطلب یہ ہے کہ بذات خود کوئی حثییت نہیں رکھتی اور نہ کسی کی طرح کا تصرف کرنے کے قابل ہے وہ تو چلنے پر منجانب اللہ مامور کی گئی ہے اور حق تعالیٰ نے اپنی حکمتوں اور مصالح کے تحت اس کو پیدا کیا اور چلایا بس اس کا کام چلنا ہے اور وہ چلتی ہے اس صورت میں اگر اس کی وجہ سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس ہوا سے دل برداشتہ ہونا اور اس کو برا بھلا کہنا نہ صرف نہایت ناموزوں بات ہے بلکہ تقاضائے عبودیت اور استقامت کے منافی بھی ہے زمانہ کے حوادث و تغیرات اور انسان کے اپنے تابع ارادوں اور افعال کے بارے میں یہی حکم ہے کہ رنج و حادثہ کے وقت اپنے ظاہر و باطن دونوں میں قلب وبان کو اراضی و ساکت رکھے اور اگر کسی تکلیف و حادثہ کے وقت بتقاضائے بشریت اپنے اندر کوئی تغیر اور دل کو متاثر پائے تو لازم ہے کہ زبان کو قابو میں رکھے کہ اس سے شکوہ و شکایت اور اظہار رنج کا کوئی ایسا لفظ نہ نکل جائے جو مرتبہ عبودیت اور اسلامی تعلیمات و آداب کے خلاف ہو۔

【228】

اپنے بڑوں کے سامنے ایک دوسرے کی برائی نہ کرو۔

اور حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے صحابہ میں سے کوئی شخص کسی کے بارے میں مجھ تک کوئی (ایسی) بات نہ پہنچائے (جس سے اس کی برائی ظاہر ہوتی ہو یعنی میرے پاس آ کر کسی کے بارے میں یہ نہ کہے کہ فلاں آدمی نے یہ برا کام کیا ہے یا یہ بری بات کہی ہے یا وہ اس بری عادت میں مبتلا ہے) کیونکہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میں گھر سے نکل کر تمہارے پاس آؤں تو میرا سینہ صاف ہو (کہ میرے دل میں تم میں سے کسی کی طرف سے کوئی ناراضگی، غصہ اور بغض نہ ہو۔ (ابوداؤد) تشریح اس ارشاد گرامی میں امت کے لئے یہ تعلیم ہے کہ کوئی آدمی اپنے کسی بڑے مثلا حاکم و سردار اور بزرگ و شیخ کے سامنے کسی شخص کی برائی بیان نہ کرے تاکہ بغض عداوت اور ناراضگی و خفگی کی صورت پیدا نہ ہو۔ حدیث کے آخری جز کے مطلب یہ لکھا ہے کہ اس اشاد کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے گویا اپنی اس خواہش و آرزو کا اظہار فرمایا کہ آپ اپنے صحابہ سے خوش و راضی رہتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوں۔

【229】

اپنے بڑوں کے سامنے ایک دوسرے کی برائی نہ کرو۔

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں (ایک دن مجھے کیا سوجھی کہ) میں آنحضرت ﷺ سے یہ کہہ بیٹھی کہ صفیہ کے تئیں بس آپ کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ ایسی ایسی ہیں اس بات سے حضرت عائشہ (رض) کی مراد حضرت صفیہ (رض) کے قد کی کوتاہی کا ذکر کرنا تھا رسول اللہ ﷺ نے میری یہ بات سن کر آنحضرت ﷺ نے ناگواری کے ساتھ فرمایا تم نے اپنی زبان سے ایک ایسی بات نکالی ہے کہ اگر اس کو دریا میں ملایا جائے تو بلاشبہ یہ بات دریا پر غالب آجائے (احمد، ترمذی، ابوداؤد) تشریح حضرت صفیہ بن حیی (رض) بھی آنحضرت ﷺ کی ایک زوجہ مطہرہ تھیں ان کا قد چھوٹا تھا چناچہ ایک دن حضرت عائشہ (رض) نے چاہا کہ آنحضرت ﷺ کے سامنے حضرت صفیہ (رض) کے اس عیب کا ذکر کریں اور اس طرح انہوں نے مذکورہ الفاظ اپنی زبان سے ادا کئے ظاہر ہے کہ یہ غیبت تھی جس میں حضرت عائشہ (رض) مبتلا ہوئیں اس لئے آنحضرت ﷺ نے ان کی اس بات پر ناگواری کا اظہار فرمایا اور مذکورہ ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا ان پر یہ واضح کیا کہ تم نے جو بات کہی ہے وہ کوئی معمولی درجہ کی نہیں ہے بلکہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے اس قدر ہیبت ناک ہے کہ اگر بالفرض اس کو کسی دریا میں ملا دیا جائے تو دریا اس کے سامنے ہیچ ہوجائے اور یہ چند الفاظ اس دریا کی وسعت و عظمت کے باوجود اس پر غالب آجائیں اور اس کو متغیر کردیں اور جب ان الفاظ کے مقابلہ میں دریا کا یہ حال ہے تو سوچو کہ تمہارے اعمال کا کیا حشر ہوسکتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے اس درجہ کے عیب کو بقصد حقارت بیان کرنا فلاں شخص کوتاہ قد ہے غیبت ہے۔ جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا کذ اکذا کے ذریعہ حضرت صفیہ (رض) کے بعض عیوب یعنی ان کے قد کی کو ہی کنایۃ بیان کرنا مقصود تھا جب کہ ایک شارح نے کہا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے اپنے ان الفاظ کذا کذا کے ذریعہ دراصل اپنی بالشت کی طرف اشارہ کیا کہ حضرت صفیہ (رض) تو گویا بالشت بھر کی ہیں، نیز یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ لفظ کذا کو مکرر لانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کا مقصد حضرت صفیہ (رض) کے اس عیب کو زبان اور اشارہ دونوں ذریعوں سے بیان کرنا تھا چناچہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے پہلے تو اپنی زبان سے کہا ہوگا کہ صفیہ (رض) ٹھگنی ہیں اور پھر اپنی بالشت کا اشارہ کر کے اپنی بات کو موکد کیا کہ وہ بہت ہی ٹھگنی ہیں ملا علی قاری نے اس طرح کی بات کی ہے۔

【230】

بدگوئی عیب دار بناتی ہے اور نرم گوئی، زینت بخشتی ہے۔

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس چیز میں بدگوئی اور سخت کلام ہو اس کو عیب دار بنا دیتی ہے اور جس چیز میں حیاء و نرمی ہو اس کو زیب وزینت عطا کرتی ہے۔ (ترمذی) تشریح طیبی کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی میں فحش یعنی بدگوئی و سخت کلامی اور اس کے مقابلہ پر حیاء یعنی نرم گوئی کی تاثیر وشان کو مبالغہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے اگر بالفرض فحش یا حیاء کسی پتھر یا لکڑی میں پیدا ہوجائے تو اس کو عیب دار یا بازینت بنا دے اس سے معلوم ہوا کہ بدگوئی وسخت کلامی شخصیت میں نقص و عیب پیدا کرنے کا ذریعہ ہے جب کہ نرم گوئی وخوش کلامی شخصیت میں وقار کو ظاہر کرتی ہے۔

【231】

عار دلانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت خالد ابن معدان حضرت معاذ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو کسی گناہ پر عار دلاتا ہے (یعنی اگر کسی مسلمان سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے اور کوئی شخص اس کو شرم و غیرت دلاتا ہے اور سرزنش و ملامت کرتا ہے تو وہ عار دلانے مرنے سے پہلے خود بھی اس گناہ میں (کسی نہ کسی طرح ضرور) مبتلا ہوتا ہے آنحضرت ﷺ کی مراد اس گناہ سے تھی جس سے اس نے توبہ کرلی ہو، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں ہے کیونکہ خالد نے حضرت معاذ (رض) کا زمانہ نہیں پایا ہے۔ تشریح کسی مسلمان کا بتقاضائے بشریت کسی گناہ میں مبتلا ہوجانا اور پھر شرم و نادم ہو کر اس گناہ سے توبہ کرلینا اس کی سلامتی و طبع اور حسن ایمان کی علامت ہے اس صورت میں کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ مسلمان اس کے اس گناہ پر شرم و غیرت دلائے اور اس کو سرزنش و ملامت کرے ہاں اگر اس نے توبہ نہیں کی اس گناہ سے اور اس گناہ میں مبتلا ہے تو پھر اس کو شرم و غیرت دلائی جاسکتی ہے اور سرزنش و ملامت بھی کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اس کو شرم و غیرت دلانا سرزنش و ملامت کرنا بطریق تکبر و بقصد تحقیر نہ ہو بلکہ تنبیہ و نصیحت کے طور پر اس کو اس گناہ سے باز رکھنے کے قصد سے ہو۔ آنحضرت ﷺ کے مذکورہ ارشاد کی یہ وضاحت آنحضرت ﷺ کی مراد اس سے گناہ تھی الخ۔۔ حضرت امام احمد حنبل سے منقول ہے اور یہ الفاظ اس روایت کے آخر میں نقل کئے جاتے ہیں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو اگرچہ غریب کہا ہے اور اس میں کلام کیا ہے لیکن عراقی کہتے ہیں کہ اس روایت کو احمد اور طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔

【232】

کسی کو مصیبت میں دیکھ کر خوشی کا اظہار نہ کرو

اور حضرت واثلہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے مسلمان بھائی کی تکلیف پر اپنی خوشی مت ظاہر کرو کیونکہ ہوسکتا ہے کہ تمہاری بےجا خوشی سے ناراض ہو کر اللہ اس پر اپنی رحمت نازل کر دے اور تمہیں اس آفت و مصیبت میں مبتلا کر دے اس روایت امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

【233】

کسی کی نقل اتارنا حرام ہے۔

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ میں کسی شخص کی نقل اتاروں اگرچہ میرے لئے ایسا اور ایسا ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی اگر کوئی مجھے بےحساب مال و زر اور کتنا ہی زیادہ روپیہ پیسہ بھی دے تو بھی میں کسی کی نقل اتارنا گوارا نہ کروں، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ تشریح کسی کی نقل اتارنا قولی ہو یا فعلی، حرام اور غیبت محرمہ میں داخل ہے۔

【234】

خدا کی رحمت کو کسی کے لئے مخصوص ومحدود نہ کرو۔

اور حضرت جندب (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن ایک دیہاتی شخص اپنے اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ اور آیا اس نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے پاؤں کو باندھ کر مسجد میں داخل ہوا پھر اس نے رسول اللہ کے پیچھے نماز پڑھی اور سلام پھیرنے کے بعد اس پر سوار ہوا اور پھر اس نے بلند آواز سے اس طرح کہا کہ اللہ مجھ پر اور محمد پر اپنی رحمت نازل فرما اور ہماری رحمت میں کسی اور کو شریک نہ کر رسول اللہ ﷺ نے اس کو اس طرح دعا مانگتے سنا تو صحابہ سے فرمایا کہ تم بتاسکتے ہو کہ یہ دیہاتی زیادہ جاہل ہے یا اس کا اونٹ کیا تم نے سنا نہیں اس نے کیا کہا ہے (صحابہ نے عرض کیا جی ہاں ہم نے سنا ہے۔ (ابوداؤد) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کفی بالمرء کذبا الخ۔ ، باب الاعتصام میں نقل کی جا چکی ہے۔ تشریح اس دیہاتی نے چونکہ اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو مخصوص و محدود کیا تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے اپنے مذکورہ الفاظ کے ذریعہ گویا اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا لہذا معلوم ہوا کہ دعا میں اپنے مطلوب کو محدود و مخصوص نہ کرنا چاہیے یعنی یہ دعانہ مانگنی چاہیے کہ فلاں بات بس ہمارے لئے ہی ہے دوسرے کے لے نہ ہو بلکہ اس میں تمام مومنین و مومنات کو داخل کرنا چاہیے۔

【235】

فاسق کی تعریف وتوصیف نہ کرو۔

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب فاسق کی مدح و تعریف کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ مدح و تعریف کرنے والے پر غصہ ہوتا ہے اور اس کی مدح و تعریف کی وجہ سے عرش کانپ اٹھتا ہے۔ (بہیقی) تشریح عرش کانپ اٹھتا ہے یا تو اپنے ظاہری مفہوم پر محمول ہے کہ جب کسی فاسق وفاجر کی تعریف کی جاتی ہے تو عرش الٰہی واقعتا کانپنے لگتا ہے اور یا ان الفاظ کے ذریعے اس بات کو بطور کنایہ بیان کرنا مقصود ہے کہ فاسق کی تعریف و توصیف ایک بہت ہی ہیبت ناک بات ہے اور انتہائی سنگین برائی ہے اور اس ہیبت ناکی کی وجہ بالکل ظاہر ہے کیونکہ جب کوئی شخص کسی فاسق کی تعریف میں رطب اللسان ہوتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ تعریف کرنے والا گویا ان اومر و افعال سے راضی اور خوش ہے کہ جو اس فاسق کی زندگی میں پائے جاتے ہیں بلکہ عجب نہیں کہ تعریف کرنے والا کفر کی حد میں داخل ہوجائے کیونکہ فاسق کی تعریف اس کو اس مقام تک لے جاتی ہے جہاں وہ حرام کو حلال جاننے لگے اس سے معلوم ہوا کہ بےعمل اور دنیا دار علماء گمراہ شعراء اور ریا کار پیشہ ور قراء کی مدح و تعریف کرنا بھی اس حکم میں داخل ہے نیز اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جب فاسق کی مدح و تعریف کرنے کا یہ حال ہے تو ظالم اور کافر کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہونا کسی درجہ ہیبت ناک برائی ہوگی لہذا اس بارے میں احتیاط لازم ہے اس بلاء عظیم سے بچنا اشد ضروری ہے، نیز اس سے بچنا اس صورت میں ممکن ہے جب کہ ان لوگوں کی صحبت وہم نشینی سے اجتناب کیا جائے۔

【236】

خیانت و جھوٹ، ایمان کی ضد میں

اور حضرت ابوامامہ (رض) علیہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان جھوٹ اور خیانت کے سوا ہر طرح کی خصلت پر پیدا کیا جاتا ہے۔ (احمد) بہیقی نے شعب الایمان میں اس روایت کو حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) علیہ سے نقل کیا ہے۔ تشریح اس ارشاد گرامی کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ کامل مومن میں یہ دو خصلتیں نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے اجزاء ترکیبی میں صدق و امانت کے اوصاف ہوتے ہیں جو تصدیق و ایمان کا تقاضا ہیں یا اس ارشاد گرمی کی مراد مومن کی ذات میں ان دونوں خصلتوں کی نفی کرنا ہے یعنی یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ مومن جو ایمان کے بار امانت کا حامل ہے ان دو خصلتوں میں مبتلا نہیں ہوسکتا اور زیادہ واضح باتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ دراصل ان دو خصلتوں کو اختیار کرنے سے منع فرمایا کہ کسی مسلمان کو یہ نہ چاہیے کہ ان دو ، کو اپنے اندر راہ پانے دے کیونکہ یہ دونوں برائیاں درحقیقت ایمان و اسلام کی ضد ہیں۔

【237】

خیانت و جھوٹ، ایمان کی ضد میں

اور حضرت صفوان ابن سلیم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے آپ نے فرمایا ہوسکتا ہے پھر آپ سے پوچھا گیا کیا مومن بخیل ہوسکتا ہے آپ نے فرمایا ہوسکتا ہے پھر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بہت جھوٹا ہوسکتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ نہیں اس روایت کو مالک نے اور بہیقی نے شعب الایمان میں بطریق ارسال نقل کیا ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ کوئی مومن کسی موقع پر بزدلی دکھا سکتا ہے اور کسی صورت میں بخیل بی ہوسکتا ہے لیکن وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا، کیونکہ ایمان کی صداقت و حقانیت کذب کے منافی ہے جو اپنی اصلی اور نفس الامر کے اعتبار سے باطل ہے علماء نے لکھا ہے کہ یہ حدیث بھی اوپر کی حدیث کی تشریح میں ذکر کردہ تاویلات پر محمول ہے۔ حدیث میں کذاب مبالغہ کے صیغہ کے ساتھ ذکر کرنا، اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اگر بتقاضائے بشریت کسی موقع پر مومن سے جھوٹ سرزد ہوجائے جیسا کہ بعض صورتوں میں دنیا کی کسی ناجائز غرض کے تحت نہیں بلکہ مصالح اور حکمت عملی کے پیش نظر جھوٹ بولنا بھی ضروری ہوجاتا ہے تو ایسی صورت مستثنی ہے اس کو ایمان کے منافی نہیں کہا جاسکتا۔ حضرت صفوان کا کچھ ذکر خیر اس موقع پر اس حدیث کے راوی حضرت صفوان کا کچھ ذکر خیر کردینا موزوں ہوگا یہ عظیم ہستی جن کا پورا نام صفوان ابن سلیم زہری ہے حضرت حمید بن عبدالرحمن ابن عوف کے آزاد کردہ غلام ان کا شمار مدینہ کے مشہور و ثقہ اور جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے حضرت انس بن مالک (رض) علیہ وغیرہ سے روایت حدیث کرتے ہیں اللہ کے صالح اور برگزیدہ بندوں میں سے تھے بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے چالیس سال تک اپنے پہلو کو زمین سے نہیں لگایا یہاں تک کہ وقت مرگ بھی بیٹھے رہے اور اسی حالت میں جان جا آفریں کے سپرد کی لوگ کہتے تھے کہ عبادت الٰہی اور سجدہ کی کثرت کی وجہ سے ان کی پیشانی میں سوراخ ہوگیا تھا قناعت خود داری کا یہ عالم تھا کہ باوجود احتیاج کے شاہی عطیات کو قبول نہیں کرتے تھے ان کے فضائل و مناقب بہت زیادہ ہیں۔ ١٣٢ ھ میں انتقال ہوا۔

【238】

شیطان کی فتنہ خیزی

اور حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ (کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ) شیطان کسی آدمی کی صورت میں اختیار کر کے کسی جماعت کے پاس آتا ہے اور ا ان کو جھوٹی خبر پہنچا دیتا ہے پھر جب اس جماعت کے لوگ ادھر ادھر منتشر ہوتے ہیں تو ان میں سے کوئی شخص کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص کو سنا ہے جس کی صورت تو میں پہنچانتا ہوں (کہ اگر اس کو دیکھوں تو بتاسکتا ہوں کہ یہ وہی شخص ہے) مگر اس کا نام نہیں جانتا وہ یہ بات بیان کرتا تھا۔ (مسلم) تشریح خبر سے مراد یا تو آنحضرت ﷺ کی حدیث ہے یا مطلق کوئی بھی جھوٹی خبر و اطلاع، حضرت ابن مسعود (رض) علیہ کے قول کا مقصد یہ تنبیہ کرنا ہے کہ حدیث کی سماعت کے وقت پوری احتیاط اور چھان بین کر لینی چاہیے کہ جو حدیث سنائی یا نقل کی جا رہی ہے صحیح ہے یا نہیں ؟ اسی طرح اگر کوئی بھی خبر یا کوئی بھی بات کسی سے سنے تو اس وقت تک دوسروں کے سامنے نقل نہ کرے جب تک کہ یہ تحقیق نہ کرلے کہ اس خبر اور بات بیان کرنے والا قابل اعتماد اور سچا ہے یا نہیں اور یہ کہ وہ خبر واقعہ کے مطابق ہے اور صحیح ہے یا نہیں۔ مذکورہ بالا روایت اگرچہ بطریق مرفوع آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے طور پر نقل کی گئی ہے بلکہ بطریق موقوف یعنی حضرت ابن مسعود (رض) علیہ ایسی کوئی بات آنحضرت ﷺ سے سنے بغیر اس کو بیان نہیں کرسکتے تھے اس لئے یہ روایت مرفوع حدیث ہی کے حکم میں ہے۔

【239】

برائی سکھانے سے چپ رہنا بہتر ہے۔

اور حضرت عمران ابن حطان (تابعی) کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت ابوذر غفاری (رض) علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کو مسجد میں پایا اس وقت وہ ایک کالی کملی لپیٹے ہوئے تنہا بیٹھے ہوئے تھے میں نے عرض کیا ابوذر یہ تنہائی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔ حضرت ابوذر (رض) علیہ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ برے ہم نشینوں کے ساتھ بیٹھنے سے تنہا بیٹھنا بہتر ہے اور تنہا بیٹھنے سے نیک ہم نشینوں کے ساتھ بیٹھنا بہتر ہے نیز چپ رہنے سے بھلائی کا سکھانا بہتر ہے برائی سکھانے سے چپ رہنا بہتر ہے۔ تشریح حضرت ابوذر (رض) علیہ کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت چونکہ وہ خاص رفقاء اور ہم نشین یہاں موجود نہیں ہیں جن کی نیکیوں، سلامتی طبع اور پاکیزہ صحبت کا جو یا ہونا چاہیے اور جن پر مجھے اعتماد بھروسہ ہوسکتا ہے اس لئے میں نے یہی بہتر سمجھا کہ یہاں چپ چاپ اور تنہا بیٹھا رہوں، ہاں جب ایسے لوگ موجود ہوں تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں۔

【240】

خاموشی اختیار کرنا، ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔

اور حضرت عمران بن حصین (رض) علیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چپ رہنے کی وجہ سے آدمی کو جو درجہ حاصل ہوتا ہے وہ ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے۔ تشریح لفظ مقام، میم کی زبر کے ساتھ ہے اور میم کے پیش کے ساتھ بھی منقول ہے مطلب یہ ہے کہ آدمی کی بری باتوں سے خاموشی اختیار کرنا اور اسی خاموشی پر مدوامت و ہمیشگی کے ساتھ عمل پیرا ہونا اور ثابت قدم رہنا اس شخص کی ساٹھ سال کی عبادت سے بھی بہتر ہے افضل ہے جو کثرت کلام اور زبان کی بےاحتیاطی میں متلا ہو اور اس کی عبادت استقامت دین کی روح سے خالی ہو۔ طیبی نے مقام کے معنی اللہ کے نزدیک اس کا مرتبہ لکھے ہیں اور افضل ہونے کی یہ دلیل بیان کی ہے کہ عبادات میں بہت سی آفات بھی پیش آتی ہیں اور جو شخص خاموشی اختیار کرلیتا ہے وہ ان آفات سے محفوظ و سلامت رہتا ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ من کان صمت نجا، یعنی جو شخص چپ رہا اس نے نجات پائی۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اس حدیث کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ چپ رہنے کی وجہ سے جو درجہ حاصل ہوتا ہے کبھی وہ اللہ کے نزدیک ساٹھ سال کی عبادت سے بھی افضل ہے کیونکہ وہ خاموشی کی جس کے دوران اللہ کی ذات وصفات اس کی قدرتوں اور کائنات و مخلوقات کے تئیں اس کی حکمت آفرینی و کا رسازی میں غور و فکر کو راہ ملے یا لطیفہ قلب کو ذکر خفی میں استغراق و انہماک دولت نصیب ہو اور روح باطن کو اللہ کی ذات وصفات کے نور سے روشنی حاصل کرنے کا موقع ملے تو یہ فکر و استغراق اگرچہ ایک ہی لمحہ وساعت کے بقدر کیوں نہ ہو لیکن اعضاء وجوارح کی اس عبادت وطاعت سے کہیں زیادہ بہتر افضل ہے جو ذہن و فکر کے انتشار بےحضوری قلب اور یاد الٰہی کے ساتھ غیر خاطر جمعی کے ساتھ عمل میں آئے اگرچہ وہ عبادت وطاعت سالہا سال کے بقدر ہی کیوں نہ ہو۔

【241】

حضرت ابوذر رضی اللہ علیہ کو آنحضرت ﷺ کی چند نصائح۔

اور حضرت ابوذر (رض) علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس کے بعد خود ابوذر (رض) علیہ نے یا ابوذر (رض) سے نقل کرنے والے راوی نے طویل حدیث بیان کی جو یہاں نقل نہیں کی گئی بلکہ اس کے یہ آخری جملے نقل کئے گئے ہیں) پھر ابوذر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھ کو کوئی نصیحت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا کہ تم کو تقوی یعنی اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ تقوی تمہارے تمام امور و اعمال کو بہت زیادہ زینت و آراشگتی بخشنے والا ہے میں نے عرض کیا میرے سے کچھ اور نصیحت فرمائیں آپ نے فرمایا تلاوت قرآن اور ذکر اللہ کو اپنے لئے ضروری سمجھو کیونکہ یہ تمہارے لئے آسمان میں موجب ذکر ہوگا اور زمین پر نور کا سبب ہوگا یعنی جب تم تلاوت قرآن اور اللہ کا ذکر میں مشغولیت اختیار کرو گے تو اس کے سبب سے آسمانوں میں ملائکہ تمہارا ذکر خیر کریں گے بلکہ حق تعالیٰ بھی تمہیں یاد کرے گا اور اس میں دنیا میں تمہارے معرفت و یقین اور راہ ہدایت کا نور ظاہر ہوگا میں نے عرض کیا میرے لئے کچھ اور نصیحت فرمائیں آپ نے فرمایا طویل خاموشی کو اپنے اوپر لازم کرو کیونکہ خاموشی شیطان کو دور بھگاتی ہے اور دینی امور میں تمہاری مددگار ہوتی ہے یعنی خاموشی پر مداومت اختیار کرنے کی وجہ سے تمہیں اللہ کی نعمتوں میں غور فکر کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع نصیب ہوگا علاوہ ازیں خاموشی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ تم اپنے آپ کو شیطان کی فتنہ خیزیوں سے محفوظ رکھ سکو گے جو زبان کے راستہ سے عملی زندگی میں سرایت کرتا ہے اور دنیا و آخرت کے ذبردست نقصان و خسران میں مبتلا کر لتیا ہے دوسرے یہ کہ خاموشی تمہاری دینی و اخروی بھلائی وسعادت کا ضامن بھی بنے گی کیونکہ جب وہ تمہیں زبان کی آفتون سے محفوظ و سلامت رکھ کر تمہارے دل کو اللہ کی طرف متوجہ رکھے گی تو یہ چیز ذکر خفی کے سبب سے تمہارے حق میں علوم و معارف اور نورانیت قلب کے حصول کا موجب ہوگی) میں نے عرض کیا میرے لئے کچھ اور نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا بہت زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے اور چہرے کی موزونیت کو کھو دیتا ہے یعنی بہت ہنسانے کی وجہ سے چونکہ قلب پر غفلت وبے حسی کی تاریکی چھا جاتی ہے اور علم و معرفت کا وہ نور بجھ جاتا ہے جس پر دل کی حیات کا دار و مدار ہے اس لئے بہت زیادہ ہنسنے والے کا دل گویا مردہ ہوجاتا ہے نیز جب دل غافل ہوجاتا ہے اور قوائے باطن پر غفلت وبے حسی طاری ہوجاتی ہے تو طاعت و عیادت میں بھی کمی آجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ نور رخصت ہوجاتا ہے جو عبادت کی علامت کے طور پر مومن کے چہرے پر ہوتا ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا آیت (سیما ھم فی وجوھھم من اثرالسجود) ، ویسے بھی یہ بات یقینی ہے کہ دل کی مردنی چہرے کو بےنور بنا دیتی ہے کیونکہ بدن کی تروتازگی اور نورانیت دراصل حسی اور معنوی حیات پر منحصر ہے میں نے عرض کیا کہ میرے لئے کچھ اور نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا سچی بات کہو اگرچہ کڑوی ہو (یعنی حق کے اظہار میں کبھی نہ چوکو بلکہ جو بات سچی ہو اس کو ضرور کہو اگر اس کی وجہ سے لوگوں کو یا خود تمہارے نفس کو ناگواری محسوس ہو) میں نے عرض کیا کہ میرے لئے کچھ اور نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا اللہ کے دین اور اللہ کو ظاہر کرنے اور اس کی تائید وتقویت میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرو میں نے عرض کیا کہ میرے لئے کچھ اور نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا چاہیے کہ وہ چیز تمہیں لوگوں کے عیوب ظاہر کرنے سے روکے جس کو تم اپنے نفس کے بارے میں جانتے ہو یعنی جب تمہیں کسی کی عیب گوئی کا خیال آئے تو فورا اپنے عیوب کی طرف دیکھو اور سوچو کہ خود میری ذات میں اتنے عیب ہیں تو میں دوسرے کی عیب گیری کیا کروں گو ! تم خود اپنے عیوب و نقائص کی طرف متوجہ رہو اور دوسروں کی عیب گوئی سے اجتناب کرو۔ تشریح ہر ایک کام اور ہر بھلی بات، جو محض اللہ کی رضا و خوشنودی اور اس کو تقرب حاصل کرنے کی نیت سے صادر و سرزد ہو ذکر اللہ میں داخل ہے اگر اس جملہ یعنی سب ذکروں میں افضل لاالہ الا اللہ ہے تو کہا جائے گا کہ مذکورہ جملہ اس اسلوب بیان کا مظہر ہے جس میں کوئی بات پہلے عمومی طور پر ذکر کی جاتی ہے اور پھر کسی ایسے جز کو خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے جو تمام اجزاء سے زیادہ شرف و فضیلت رکھتا ہو۔ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرو ! کے ذریعہ گویا تلقین فرمائی گئی کہ اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کا جو فریضہ تم پر عائد ہوتا ہے اگر اس کی انجام دہی میں تمہیں دنیا والوں سے پوری طرح منہ موڑنا پڑے تو اس میں ہچکچاہٹ نہ دکھاؤ اور اس بات کو ضروری سمجھو کہ تمہیں دنیا والوں کی مذمت اور تعریف سے بالکل بےپرواہ ہو کر ہر حالت میں حق و صداقت پر اور اللہ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا آیت (وتبتل الیہ تبتیلا) ، یعنی اور دنیا والوں سے منہ موڑ کر اللہ کی رضا و خوشنودی کی طرف رجوع کرو۔ جس کو تم اپنے نفس کے بارے میں جانتے ہو کا مطلب یہ ہے کہ جب تم جانتے ہو کہ خود تمہارے اندر کیا عیوب ہیں اور تمہارا نفس کن برائیوں میں مبتلا ہے تو پھر تمہارے لئے یہ قطعا مناسب نہ ہوگا کہ تم دوسرے کے عیوب پر نظر رکھو اور دوسروں کی برائیوں پر انگلی اٹھاؤ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو پورا کرنے کے نقطہ نظر سے تو بیشک کسی کو اس کی برائی پر ٹوک سکتے ہو اور اس کو راہ راست اختیار کرنے کی تلقین کرسکتے ہو بلکہ تم پر یہ ضروری بھی ہے کہ اگر تم کسی کو برائی میں مبتلا دیکھو تو اس کو اس برائی سے ہٹانے کی کوشش کرو لیکن محض عیب جوئی اور تحقیر و تذلیل کے خیال سے کسی کی برائی پر انگلی نہ اٹھاؤ اور اس کی غیبت نہ کرو بلکہ اپنی برائیوں اور اپنے عیوب پر نظر رکھتے ہوئے خود اپنے کو سب سے زیادہ ناقص اور کم تر سمجھو کسی نے کیا خوب کہا ہے، غافل اندایں خلق از خود بیخبر لاجرم گویند عیب یگدگر دیلمی نے حضرت انس (رض) سے یہ قول نقل کیا ہے، طوبی لمن شغلہ علیہ عن عیوب الناس قابل مبارک باد ہے وہ شخص جس کو اس کا عیب لوگوں کی عیب گیری سے باز رکھے۔

【242】

خاموش اور خوش خلقی کی فضیلت

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابوذر (رض) کیا میں تمہیں وہ دو خصلتیں نہ بتادوں جو مکلف انسان کی پشت پر یعنی اس کی زبان کے اوپر بہت ہلکی ہیں اعمال کے ترازو میں بہت بھاری ہیں، حضرت ابوذر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ضرور بتائیے آپ نے فرمایا معرفت الہیہ اور نظام قدرت میں غور و فکر کے لئے طویل خاموشی اور خوش خلقی، قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، مخلوق کے لئے ان دونوں خصلتوں سے بہتر کوئی کام نہیں ہے۔ تشریح چپ رہنا اور خوش خلقی اختیار کرنا یہ دونوں خصلتیں اس اعتبار سے بہت آسان اور ہلکی ہیں کہ خاموش رہنے میں کوئی محنت و مشقت برداشت نہیں کرنا پڑتی اسی پر خوش خلقی کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ نرم خوئی اور خوش مزاجی اور خندہ روئی میں راحت و سکون اور آسانی و نرمی حاصل ہوتی ہے بخلاف سخت خوئی، تند مزاجی اور جدال و نزع کے کہ ان میں سراسر محنت و مشقت ہے۔

【243】

لعنت کرنے کی برائی

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک دن آنحضرت ﷺ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ حضرت ابوبکر اپنے کسی غلام پر لعنت کر رہے ہیں، آپ ان کی طرف متوجہ ہوگئے اور فرمایا کہ بھلا تم نے لعنت کرنے اور صدیقین کو بھی دیکھا ہے ؟ (یعنی کیا تم نے کبھی بھی کوئی ایسے شخص کو دیکھا کہ جس میں بیک وقت یہ دو صفتیں یعنی لعانیت اور صدیقیت پائی جاتی ہیں حاصل یہ ہے کہ جو شخص صدیقیت کے مقام پر فائز ہو وہ لعنت کرنے والا نہیں ہوسکتا جیسا کہ یہ حدیث گزر چکی ہے کہ لا ینبغی لصدیق ان یکون لعانا، یعنی صدیق کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ لعنت کرنے والا ہو) نہیں رب کعبہ کی قسم یہ دونوں باتیں کسی ایک شخص میں ہرگز جمع نہیں ہوسکتیں، چناچہ حضرت ابوبکر (رض) نے یہ ارشاد سن کر اپنی اس تقصیر کے کفارہ کے طور پر اس دن اپنے بعض غلاموں کو آزاد کیا پھر معذرت خواہی کے لئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آئندہ کبھی ایسا کام نہیں کروں گا۔ (یعنی کسی کو لعنت نہیں بھیجوں گا) حضرت عمران بن حطان کی روایت سے لے کے اس حدیث تک ان پانچوں روایتوں کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

【244】

زبان کی ہلاکت خیزی اور حضرت ابوبکر صدیق کا خوف

اور حضرت اسلم کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر فاروق امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو (دیکھا کہ) حضرت ابوبکر (رض) اپنی زبان کو کھینچ رہے ہیں (یعنی اپنی زبان کے تئیں اس قدر غیظ و غضب کا اظہار کر رہے تھے کہ اس کو انگلیوں سے پکڑ پکڑ کر کھینچ رہے تھے اور ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کو نکال باہر پھینک دیں گے حضرت عمر (رض) نے یہ دیکھ کر کہا کہ ٹھہریے ایسا نہ کیجیے اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ (یہ زبان اسی سزا کی مستوجب ہے کیونکہ) اس نے مجھے ہلاکت کی جگہوں میں ڈالا ہے۔ (مالک)

【245】

وہ چھ امور جو جنت کے ضامن ہیں

اور حضرت عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم لوگ اپنے بارے میں مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو یعنی چھ باتوں پر عمل کرنے کا عہد کرلو تو میں نجات پائے ہوئے اور صالحین کے ساتھ تمہارے جنت میں جانے کا ضامن بنتا ہوں۔ (١) جب بھی بولو سچ بولو (٢) وعدہ کرو تو پورا کرو (٣) تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو امانت ادا کرو (٤) اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو یعنی حرام کاری سے بچو (٥) اپنی نگاہ کو محفوظ رکھو یعنی اس چیز کی طرف نظر اٹھانے سے پرہیز کرو جس کو دیکھنا جائز نہیں (٦) اپنے ہاتھوں پر قابو رکھو یعنی اپنے ہاتھوں کو ناحق مارنے اور حرام و مکروہ چیزوں کو پکڑنے سے باز رکھو، یا یہ کہ اپنے آپ کو ظلم وتعدی کرنے سے باز رکھو۔

【246】

اچھے اور برے بندے کون ہیں

اور حضرت عبدالرحمن بن غنم (رض) اور اسماء (رض) بنت یزید، راوی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جن کو دیکھ کر اللہ یاد آجائے اور اللہ کے بدترین بندے وہ ہیں جو لوگوں میں چغلی کھاتے پھرتے ہیں (جس سے ان کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا) کہ وہ دوستوں کے درمیان نفاق و جدائی ڈال دیں اور پاکیزہ لوگوں کے دامن پر فساد اور خرابی اور زنا کاری کے چھینٹنے ڈالیں یعنی اللہ کے جو نیک بندے فتنہ و فساد، گناہ اور کسی عیب سے پاک و منزہ ہوتے ہیں ان پر فتنہ و فساد اور گناہ و معصیت جیسے زنا کاری وغیرہ کا بہتان لگاتے ہیں اور اس طرح ان کو ہلاکت و مشقت اور دشواریوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ (احمد، بہیقی) تشریح اس حدیث میں بہترین لوگوں کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ اللہ کے وہ نیک و صالح اور عبادت گزار بندے جو اللہ رب العزت کے ساتھ اپنے کمال تعلق و اختصاص کی بنا پر ایسے درجے پر فائز ہوجاتے ہیں کہ ان کے احوال و کردار، عادت واطوار اور حرکات و سکنات پر انوار و آثار الیہ ہویدا ہوجاتے ہیں اور ان کے چہرے پر عبادت گزاری اور اتباع دین و شریعت کی وہ علامتیں ظاہر ہوتی ہیں کہ جب ان کے جمال پر نظر پڑتی ہے تو بےساختہ اللہ یاد آجاتا ہے اور دل پکار اٹھتا ہے کہ یہی وہ نیک بندے جو کامل عبودیت کے حامل اور کائنات انسانی خلاصہ اور انوار الٰہی کے مظہر ہیں۔ بعض حضرات نے اللہ یاد آجانے کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ اللہ کے ایسے نیک و صالح بندوں کو دیکھنا گویا ذکر الٰہی میں مشغول ہونا ہے جیسا کہ علماء نے لکھا ہے کہ عالم دین کے چہرے پر نظر ڈالنا عبادت اور عین سعادت ہے اور اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ بسا اوقات کسی مرد صالح اور شیخ کامل کے چہرے پر نظر پڑتے ہیں باطن میں ایسی نورانیت محسوس ہوتی ہے جس سے دل روشن ہوجاتا ہے یہ بات حدیث سے بھی ثابت ہے چناچہ حضرت علی (رض) کے بارے میں فرمایا گیا کہ النظر ولی وجہ علی عبادہ۔ یعنی حضرت کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے نیز منقول ہے کہ جب حضرت علی (رض) گھر سے نکلتے اور لوگوں کی نظر ان کے چہرہ پر نور پر پڑتی تھی تو یہ الفاظ ان کی زبان پر آجاتے تھے، لا الہ اللہ مااشرف ھذا الفتی، لا الہ الاللہ ما اکرم ھذا لفتی، لا الہ الا اللہ ما اعلم ھذا الفتی، لا الہ الا اللہ ما اشجع ھذا لفتی، گویا حضرت علی (رض) کو دیکھنا کلمہ توحید کے ورد کا باعث بنتا تھا۔

【247】

غیبت مفسد روزہ ہے

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن دو آدمیوں نے جو روزہ دار تھے آنحضرت ﷺ کریم کے پیچھے ظہر یا عصر کی نماز پڑھی جب آنحضرت ﷺ نماز پڑھ چکے تو ان دونوں سے فرمایا کہ تم دونوں دوبارہ وضو کرو اپنی نماز کو لوٹاؤ اور اپنے اس روزے کو پورا کرو اور اس کے بدلے میں احتیاطا دوسرے دن کا روزہ رکھ لو۔ ان دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ایسا کیوں ؟ یعنی وضو، نماز اور روزے کو لوٹانا کس سبب سے ہے ؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ تم نے فلاں شخص کی غیبت کی ہے۔ تشریح اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیبت وضو اور روزے کو توڑ دیتی ہے لیکن علماء نے لکھا ہے کہ یہ حدیث دراصل غیبت کی شدید مذمت اور غیبت کرنے والے کے حق میں سخت ترین زجر و تنبیہ کے طور پر ارشاد ہوئی ہے ورنہ حقیقت میں غیبت سے روزہ اور وضو ٹوٹتا نہیں تاہم غیبت کی وجہ سے وضو اور روزہ کا کمال وثواب ضرور کھویا جاتا ہے لیکن حضرت سفیان ثوری (رض) کے نزدیک غیبت، مفسدہ روزہ ہے، بہر حال حدیث سے یہ بات وضح ہوتی ہے کہ غیبت کی قباحت و برائی بہت زیادہ ہے اور احتیاط وتقوی کا تقاضا یہی ہے کہ اگر غیبت صادر ہوجائے تو وضو کی تجدید کرنی چاہیے بلکہ علماء نے بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص بہت زیادہ ہنسنے یا بہت زیادہ لا یعنی باتیں کرنے سے اس کے باطن پر طاری ہوگئی ہے نیز روزہ دار کو چاہیے کہ غیبت سے پوری طرح اجتناب کرے۔

【248】

غیبت زنا سے بدتر ہے۔

اور حضرت ابوسعید (رض) اور حضرت جابر (رض) دونوں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا غیبت کرنا زنا کرنے سے زیادہ سخت برائی ہے، صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ غیبت زنا سے زیادہ سخت برائی کس طرح سے ہے ؟ آپ نے فرمایا اس طرح کہ جب آدمی زنا کرتا ہے تو توبہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرما لیتا ہے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ توبہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے لیکن غیبت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نہیں بخشتا جب تک کہ اس کو وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے یعنی زنا کاری چونکہ اللہ کی معصیت و نافرمانی ہے اس لئے وہ ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اس کو بخش دیتا ہے جبکہ غیبت کرنا حق العباد سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ غیبت کرنے والے کو اس وقت تک نہیں بخشتا جب تک وہ شخص اس کو معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے اور حضرت انس (رض) کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا زنا کرنے والا توبہ کرتا ہے اور غیبت کرنے والے کے لئے توبہ نہیں ہے۔ (ان تینوں روایتوں کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے) ۔ تشریح اور غیبت کرنے والے کے لئے توبہ نہیں ہے، غالباً اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ جو شخص زنا میں مبتلا ہوجاتا ہے اس کے دل پر اللہ کا خوف طاری ہوجاتا ہے اور اس تصور سے لرزنے لگتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مواخذہ کرلیا تو نجات کا راستہ نہیں ملے گا اس لے وہ اپنے اس فعل شنیع پر نادم و شرمسار ہو کر توبہ کرتا ہے جب کہ غیبت اگرچہ اللہ کے نزدیک بڑے گناہ کی چیز ہے کہ مگر غیبت کرنے والا اس کو ایک ہلکی چیز سمجھتا ہے کیونکہ جب کوئی برائی عام ہوجاتی ہے تو اس کی قباحت دل سے نکل جاتی ہے اور لوگ اس میں مبتلا ہوجانے کی برائی محسوس نہیں کرتے یا یہ بات بھی بعید از مکان نہیں ہوسکتی ہے کہ غیبت کرنے والا غیبت کو سرے سے کوئی برا فعل ہی نہ سمجھے بلکہ اس کو جائز و حلال جانے اور اس طرح وہ کفر کے بھنور میں پھنس جائے اور یا اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ غیبت کرنے والا توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ بذات خود کارگر نہیں ہوتی بلکہ اس توبہ کا صحیح و مقبول ہونا اس شخص کی رضا مندی اور اس کی طرف سے معاف کردیئے جانے پر موقوف ہوتا ہے جس کی اس نے غیبت کی ہے چناچہ اوپر کی حدیث سے یہی واضح ہوتا ہے۔

【249】

غیبت کا کفارہ

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس شخص کی مغفرت و بخشش کی دعا مانگو جس کی تم نے غیبت کی ہے اور اس طرح دعا مانگو کہ اے اللہ ہم کو اور اس شخص کو جس کی میں نے غیبت کی ہے بخش دے اس روایت کو بہیقی نے اپنی کتاب دعوات کبیر میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند میں ضعف ہے۔ تشریح دعا و مغفرت کے الفاظ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غیبت کرنے والا پہلے خواہ اپنے حق میں مغفرت کی دعا کرے اس میں نکتہ یہ ہے کہ استغفار کرنے والے کے بارے میں حق تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ اس کی دعا و مغفرت کو قبول کیا جائے گا لہذا غیبت کرنے والا جب پہلے خود اپنے حق میں استغفار کرے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس معصیت سے پاک ہوجائے گا تو دوسرے کے حق میں بھی اس کی دعاء مغفرت قبول ہوگئی۔ اغفرلنا میں جمع متکلم کا صیغہ اس صورت کے اعتبار سے ہے کہ جب کہ غیبت کا صدور بھی لوگوں سے ہوا ہو یعنی اگر غیبت کرنے والے کئی لوگ ہوں تو سب اس طرح دعا مانگیں اور اگر غیبت کرنے والا ایک شخص ہو تو پھر اغفرلی کے الفاظ استعمال ہوں گے یا یہ مراد کہ استغفار کرنے والا اپنی دعاء مغفرت میں تمام مسلمانوں کو شامل کرے اس صورت میں اس دعا کے معنی یہ ہوں گے کہ اے اللہ ہم سب مسلمانوں کو اور خاص طور پر اس شخص کو کہ جس کی میں نے غیبت کی ہے بخش دے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مغفرت کی دعا کرنا اس صورت سے متعلق ہے جبکہ اس کی غیبت کی خبر اس شخص کو نہ پہنچی ہو جس کی غیبت کی گئی ہے اور اگر یہ صورت ہو کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے اس کو معلوم ہوگیا کہ فلاں شخص نے میری یہ غیبت کی ہے تو غیبت کرنے والے کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اس شخص سے اپنے آپ کو معاف کرائے بایں طور کہ پہلے اس کو یہ بتائے کہ میں نے تمہاری غیبت میں اس طرح کہا ہے اور پھر اس سے معاف اپنے آپ کو معاف کرائے اور اگر غیبت کرنے والا کسی مجبوری اور عذر کی بناء پر ایسا نہ کرسکے تو پھر یہ ارادہ رکھے کہ جب بھی ہو سکے گا اس سے اپنے آپ کو معاف کراؤں گا، چناچہ اس کے بعد جب بھی وہ اپنے آپ کو معاف کروا لے اس سے تو اس ذمہ داری سے بری ہوجائے گا۔ اور اس غیبت کے سلسلہ میں اس پر کوئی حق ومواخذہ باقی نہیں رہ جائے گا، ہاں اگر وہ اپنے آپ کو معاف کرانے سے بالکل عاجز رہا بایں سبب کہ جس شخص کی اس نے غیبت کی ہے وہ مثلا مرگیا یا اتنی دور رہائش پذیر ہے کہ اس سے ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہے تو اس صورت میں اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کا طلب گار ہو اور اس کے فضل و کرم سے یہ امید رکھے کہ وہ اس شخص کو اس کے تئیں راضی کر دے گا۔ فقیہ ابوللیث نے کہا ہے کہ علماء نے غیبت کرنے والے کی توبہ کے بارے میں کلام کیا ہے کہ آیا اس کے لئے یہ جائز ہے یا نہیں ؟ کہ اس نے جس شخص کی غیبت کی ہے اس سے معاف کرائے بغیر توبہ کرے چناچہ بعض علماء نے اس کو جائز کہا ہے کہ جب کہ ہمارے نزدیک اس کی صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ اگر اس کی غیبت کی خبر اس شکص کو پہنچ گئی ہے جس کی اس نے غیبت کی ہے تو اس کی توبہ بس یہی ہے کہ وہ اس سے معاف کرائے اور دوسرے یہ کہ اگر کسی شخص کو اس کی غیبت کی خبر پہنچی ہے تو اس صورت میں وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کی دعا مانگے اور دل میں یہ عہد کرلے کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ بہیقی نے اس روایت کو گویا ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس کا ضعف ہونا حدیث کے اصل مفہوم پر اثر انداز نہیں ہوتا کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث سے بھی استدلال کرنا کافی ہوجاتا ہے علاوہ ازیں جامع صغیر میں بھی اس طرح کی ایک حدیث حضرت انس (رض) سے منقول ہے جو اس روایت کو تقویت پہنچاتی ہے اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ کفارۃ من الغیبۃ ان تستغفرلہ، یعنی غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ اس شخص کے حق میں مغفرت کی دعا کی جائے جس کی غیبت کی گئی ہے۔

【250】

وعدہ کا بیان

وعد کے معنی ہیں قول وقرار کرنا، وعدہ کرنا یعنی کسی سے مثلا یہ کہنا کہ تمہارا فلاں کام کر دوں گا یا تمہارے پاس آؤں گا اور یا تمہارے ساتھ کھانا کھاؤں گا وغیرہ وغیرہ، واضح رہے کہ لفظ وعد خیر اور شر دونوں سے متعلق جملوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس جملہ میں خیر اور شر کا لفظ مذکور ہو جیسے کہا جاتا ہے کہ وعدتہ خیرا یا وعد شرا اور اگر خیر یا شر کا لفظ مذکور نہ ہو تو خیر میں وعد کا لفظ استعمال کیا جائے اور شر میں وعید کا اور ایعاد کا لفظ۔ ایفائے عہد اور وعدے کو پورا کرنا انسانیت کا مظہر اور اسلامی اخلاق و آداب کا ایک بنیادی تقاضا ہے کہ اس کے برخلاف بدعہدی اور وعدہ خلافی ایک بہت بڑا عیب ہے جو شخص اپنا عہد پورا نہ کرے اور اپنا وعدہ وفا نہ کرے وہ اسلام اور معاشرہ دونوں کی نظر میں سخت ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے چناچہ اس باب میں اسی موضوع سے متعلق احادیث نقل ہوں گی۔

【251】

جو شخص اپنا وعدہ پورا کرنے سے پہلے مر جائے تو اس کا جانشین اس کا وعدہ پورا کرے

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر (رض) کے پاس علاء بن حضرمی کے ہاں سے مال آیا جن کو آنحضرت ﷺ نے بحرین کا عامل مقرر کیا تھا تو حضرت ابوبکر (رض) نے کہا کہ جس شخص کا آنحضرت ﷺ پر قرض ہو یا جس شخص نے آنحضرت ﷺ سے کچھ دینے کا وعدہ کیا تو اس کو چاہیے کہ وہ ہمارے پاس آئے حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے اتنا اتنا دینے کا مجھ سے وعدہ فرمایا تھا (یہ کہہ کر) حضرت جابر (رض) نے دونوں ہاتھ تین مرتبہ کھولے یعنی حضرت جابر (رض) نے اپنے ہاتھوں کو تین مرتبہ کھول کھول کر دکھایا اور واضح کیا کہ آنحضرت ﷺ نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ مال آنے پر میں تمہیں دونوں ہاتھ بھر بھر کر دوں گا، حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ پس حضرت ابوبکر (رض) نے ایک بار اپنے دونوں ہاتھ بھر کر مجھ کو زر نقد عطا فرمایا میں نے اس کو شمار کیا تھا تو وہ تعداد میں پانچ سو تھے پھر انہوں نے فرمایا کہ اسی طرح دو مرتبہ اور لے لو (یعنی ایک ہزار گن کر اور لے لو تاکہ کم و بیش نہ ہو۔ (بخاری ومسلم)

【252】

آنحضرت ﷺ کے وعدہ کا حضرت ابوبکر (رض) کی طرف سے ایفاء

حضرت ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو اس حال میں دیکھا کہ آپ کا رنگ سرخی مائل سفید تھا اور آپ پر بڑھاپا ظاہر ہوچکا تھا اگرچہ آپ کے سر اور ڈارھی کے بال سفید نہیں تھے اور حضرت حسن بن علی (رض) جسم کے اوپر کے حصہ کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ سے بہت مشابہ تھے آنحضرت ﷺ نے ہماری جماعت کو تیرہ اونٹیناں دیئے جانے کا حکم فرمایا تھا چناچہ ہم ان اونٹنیوں کو لینے گئے تو اسی دوران ہمیں آنحضرت ﷺ کی وفات کی خبر ملی اور ہمیں کچھ بھی نہیں دیا گیا پھر جب حضرت ابوبکر (رض) خلیفہ اول قرار پائے اور خطبہ دینے کے لئے آ کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ جس شخص سے رسول اللہ ﷺ نے کچھ دینے کا وعدہ فرمایا ہو اس کو چاہیے کہ وہ ہمارے پاس آئے میں حضرت ابوبکر (رض) کا یہ ارشاد سن کر سامنے جا کھڑا ہوا اور ان کو اس بارے میں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تیرہ اونٹنیاں دینے کا وعدہ فرمایا تھا چناچہ حضرت ابوبکر (رض) نے ہمیں تیرہ اونٹنیاں دینے کا حکم فرمایا۔ (ترمذی)

【253】

ایفاء عہد کی عملی تعلیم

اور حضرت عبداللہ بن ابوحسماء (رض) کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے نبی ہونے سے پہلے ایک مرتبہ میں نے آپ سے کسی چیز کو خریدا اور اس کے کچھ حصہ کی ادائیگی مجھ پر باقی رہ گئی اور میں نے وعدہ کیا کہ میں بقیہ قیمت لے کر اسی جگہ جہاں آپ تشریف فرماتے یا جہاں میں نے وہ چیزخریدی تھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا لیکن میں اس وعدہ کو بھول گیا اور پھر تیسرے دن یہ بات یاد آئی کہ میں نے آپ سے کوئی وعدہ کیا تھا جبھی میں وہ بقیہ قیمت لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ اسی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں اور مجھے دیکھ کر فرمایا کہ تم نے مجھ کو بڑی زحمت میں مبتلا کردیا میں تین دن سے اسی جگہ بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (ابوداؤد) تشریح علماء نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا اتنے طویل انتظار کی اس مشقت و زحمت کو برداشت کرنا اپنی چیز کی بقیہ قیمت وصول کرنے لئے نہیں تھا بلکہ اس احساس کے تحت تھا کہ جب عبداللہ نے بقیہ قیمت لے کر یہاں آنے کا وعدہ کیا تھا اور ان کے وعدے کے جواب میں گویا میری طرف سے بھی یہ وعدہ تھا کہ میں یہاں ہوں گا تو جب تک وہ یہاں نہ آجائیں ایفاء عہد کی خاطر مجھے یہاں بیٹھ کر انتظار کرنا چاہیے اس اعتبار سے آپ نے اپنے اس عمل کے ذریعہ امت کو یہ تعلیم دی کہ وعدہ کو بہر صورت پورا کرنا چاہیے خواہ اس کے لئے کتنی ہی زحمت کیوں نہ برداشت کرنی پڑی واضح رہے کہ دین اسلام سے پہلے بھی تمام ادیان میں وعدے کو پورا کرنے کا حکم تھا اور سارے رسول ایفاء عہد کی محافظت کرتے رہے ہیں چناچہ اللہ نے حضرت ابراہیم کی مدح و تعریف میں یوں فرمایا آیت (و ابراہیم الذی وفی) ۔

【254】

ایفاء عہد کی نیت ہو اور وعدہ پورا نہ ہو سکے تو گناہ نہیں ہوگا

اور حضرت زید بن ارقم (رض) آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب کوئی آدمی اپنے کسی بھائی سے کوئی وعدہ کرے اور اس کے تئیں اس وعدہ کو پورا کرنے کا قصد رکھتا ہو مگر کسی عذر کے سبب اس وعدہ کو پورا نہ کرسکے اور وقت موعود پر نہ آئے تو گناہگار نہ ہوگا۔ (ابوداؤد، ترمذی) تشریح اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص وعدہ کو پورا کرنے کی نیت رکھنے کے باوجود اس وعدہ کو پورا نہ کرے تو وہ گناہگار نہیں ہوتا اس سے یہ بات بھی سمجھی جاتی ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی وعدہ کیا اور نیت یہ رکھی کہ اس وعدہ کو پورا نہیں کروں گا تو وہ گناہگار ہوگا خواہ اس وعدے کو پورا کرے نہ کرے کیونکہ زبان سے وعدہ کرنا اور دل میں اس کے خلاف کرنے ارادہ کرنا منافقت کی خصلت ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ بغیر کسی اور بلا کسی امر مانع کے وعدہ خلافی کرنا حرام ہے اور مذکورہ بالا ارشاد گرامی کی مراد بھی یہی ہے مجمع البحار میں لکھا ہے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ممنوع کام کا وعدہ کرے تو اس وعدہ کو پورا نہیں کرنا چاہیے۔ ایفائے عہد واجب ہے یا مستحب ؟ آئمہ فقہ کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ وعدہ پورا کرنا واجب ہے یا مستحب۔ چناچہ جمہور علماء بشمول حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی کا قول یہ ہے کہ وعدہ پورا کرنا مستحب ہے اور پورا نہ کرنا سخت مکروہ ہے البتہ گناہ نہیں اس کے برخلاف ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ وعدہ کو پورا کرنا واجب ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز بھی اسی جماعت میں شامل ہیں۔ منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا معمول تھا کہ جب کوئی وعدہ کرتے تو انشاء اللہ کہہ لیتے اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں بھی منقول ہے کہ آپ لفظ عسی فرماتے تھے۔

【255】

بچے سے بھی وعدہ کرو تو اس کو پورا کرو

اور حضرت عبداللہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میری والدہ نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ لو آؤ میں تمہیں (ایک چیز) دوں گی اس وقت رسول اللہ ہمارے گھر تشریف فرما تھے جب میری والدہ نے مجھ سے کہا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اس کو کیا چیز دینے کا ارادہ کیا تھا انہوں نے فرمایا کہ میں اس کو ایک کھجور دینا چاہتی تھی رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ یاد رکھو اگر اس کو تم کچھ نہ دیتیں تو تمہارے اعمال میں ایک جھوٹ لکھا جاتا۔ (ابوداؤد، بہیقی) تشریح یہ واقعہ حضرت عبداللہ بن عامر (رض) کے بچپن کا ہے چناچہ ان کی والدہ نے ان کو بلایا کہ اور کوئی چیز دینے کا وعدہ کیا تو رسول اللہ یہ سمجھے کہ اپنے بچے کو محض ہلانے کے اور ادھر ادھر کی باتیں کی جاتیں ہیں اس کو اس کی مطلوبہ چیز کچھ اور دینے کا جھوٹ موٹ وعدہ کیا جاتا ہے یا اس کو ڈرانے دھمکانے کے لئے خوفناک چیزوں کا ذکر کیا جاتا ہے اور موقع پر ان باتوں کا حقیقی مفہوم مراد نہیں ہوتا لہذا آنحضرت ﷺ نے حضرت عبداللہ کی والدہ کو اس بارے میں آگاہ کیا کرنے لئے مذکورہ سوال کیا۔

【256】

کسی شرع اور حقیقی عذر کی بناء پر وعدہ خلافی کرنا مناسب نہیں

اور حضرت زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص کسی آدمی سے کہیں ملنے کا وعدہ کرے اور ان دونوں میں سے کوئی ایک نماز کے وقت تک وہاں نہ پہنچے اور وہ شخص نماز پڑھنے کے لئے چلا جائے جو وہاں آگیا تھا تو وہ گناہگار نہیں ہوگا۔ تشریح اس ارشاد گرامی کی صورت وضاحت یہ ہے کہ مثلا دو آدمیوں نے اپنے آپس میں ایک دوسرے سے یہ وعدہ کیا کہ ہم دونوں فلاں جگہ پہنچ کر ایک دوسرے سے ملیں گے اس وعدہ کے مطابق ان دونوں میں سے کوئی ایک مقررہ جگہ پر پہنچ کر دوسرے آدمی کی انتظار میں بیٹھا ہوا تھا اب مزید انتظار نہ کرے اور نماز کے لئے چلا جائے تو وعدہ خلاف نہیں کہلائے گا اور اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا کیونکہ نماز کے لئے جانا ضرورت دین میں سے ہے ہاں اگر وہ نماز کا وقت آنے سے پہلے ہی وہاں سے اٹھ جائے تو بیشک اس کو وعدہ خلاف کہا جائے گا اور وعدہ خلافی کی برائی اس کے ذمہ ہوگی اسی طرح اگر کوئی ضروری امر مانع پیش آئے جیسے کھانے پینے کا وقت ہوگیا یا پیشاب و پاخانہ کی حاجت لاحق ہوگئی تو اس صورت میں بھی مزید انتظار کئے بغیر پہلے جانا جائز ہوگا۔

【257】

خوش طبعی کا بیان

مزاح، میم کے زیر کے ساتھ مصدر ہے جس کے معنی خوش طبعی کرنا ہنسنا مذاق کرنا اور میم کے پیش کے ساتھ یعنی مزاح اسم مصدر ہے جس کے معنی مطالبہ یعنی خوش طبعی و ظرافت کے ہیں۔ عربی میں لفظ مزاح کا اطلاق اس خوش طبعی اور ہنسی مذاق پر ہوتا ہے کہ جس میں کسی کی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا پہلو نہ ہو اس کے برخلاف جس خوش طبعی اور ہنسی مذاق کا تعلق دل شکنی اور ایذاء رسانی سے ہو اس کو سخریہ کہتے ہیں۔ ایک حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ لاتمار اخاک ولاتمازحہ، یعنی اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا فساد نہ کرو اور نہ اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرو تو علماء لکھتے ہیں کہ وہ مزاح و ظرافت ممنوع ہے جس میں حد سے تجاوز کیا جائے اور اس کو عادت بنا لیا جائے کیونکہ ہر وقت مزاح و ظرافت میں مبتلا رہنا اور اس میں حد سے تجاوز کرنا بہت زیادہ ہنسنے اور قہقہ لگانے کا باعث ہوتا ہے قلب و ذہن کو قساوت اور بےحسی میں مبتلا کردیتا ہے ذکر الٰہی سے غافل کردیتا ہے مہمات دین میں غور و فکر اور پیش قدمی سے باز رکھتا ہے اور اکثر اوقات اس کا انجام ایذا رسانی اور آپس میں بغض وعناد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے علاوہ ازیں یہ بھی حقیقت ہے جو شخص ہر وقت ہنسی مذاق کرتا رہتا ہے اس کی شخص بری طرح متاثر ہوتی ہے اور مجروح ہوتی ہے اس کا کوئی دبدبہ قائم نہیں رہتا اور نہ اس کو عظمت اور اس کا وقار باقی رہتا ہے اس کے برعکس جو مزاح و ظرافت حد کے اندر اور کبھی کھبار کی جائے وہ نہ صرف مباح ہے بلکہ صحت مزاج اور و نور نشاط اور سلامت طبع کی علامت بھی ہے چناچہ آنحضرت ﷺ بھی مزاح و ظرافت کو اختیار فرماتے تھے جس سے آپ کا مقصد مخاطب کے دل بستگی و خوش وقتی اور آپس میں محبت و موانست کے جذبات کو مستحکم کرنا ہوتا تھا اور یہ چیز سنت مستحبہ ہے اور اگر اس موقع پر یہ اشکال واقع ہو کہ یہ بات کہ وہی مزاح و ظرافت مباح جو کبھی کبھی ہو اس روایت کے مخالفت ہے کہ یعنی میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ مزاح کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا تو اس کا جواب مختصر یہ ہوگا کہ زیادہ مزاح و ظرافت کرنے کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ اس سے نفس پر قابو نہیں رہتا اور ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کے برابر کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنے نفس کو قابو میں رکھ سکے لہذا یہ چیز زیادہ مزاح کرنا ان امور میں سے ہے جو صرف آنحضرت ﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں دوسروں کے لئے ان سے اجتناب ہی اولی ہے اس کی تائید ترمذی کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو آگے آئے گی صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ہمارے ساتھ مزاح فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا میں مزاح میں سچ کہتا ہون حاصل یہ کہ مزاح کرنے کی ممانعت کا تعلق آنحضرت ﷺ کے سوا دوسرے لوگوں سے ہے ہاں اگر کوئی شخص حد پر قائم رہے اور نفس پر قابو رکھے اور راہ اعتدال سے منحرف نہ ہونے پر قادر ہو وہ بھی اس ممانعت سے مستثنی ہوگا۔

【258】

آنحضرت ﷺ کی خوش طبعی

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ ہم سے اختلاط و خوش طبعی فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی سے از راہ مذاق فرماتے ابوعمیر ! نغیر کہاں گیا ؟ حضرت انس (رض) کہتے ہیں میرے اس چھوٹے بھائی کے پاس ایک نغیر تھا جس سے وہ کھیلا کرتا تھا اور جو مرگیا تھا۔ (بخاری) تشریح حضرت انس (رض) نے اپنے چھوٹے بھائی کا ذکر کیا ہے ان کا نام کبشہ تھا اور وہ ان کے اخیافی یعنی ماں شریک بھائی تھے ان کے باپ کا نام ابوطلحہ زید ابن سہیل انصاری تھا۔ نغیر تصغیر ہے نغر کی جو ایک چھوٹے پرندے کا نام ہے اور چھوٹی چڑیا کی طرح ہوتا ہے اور اس کی چونچ سرخ ہوتی ہے بعض حضرات نے یہ کہا کہ کہ وہ پرندہ چڑیا کی طرح سرخ سر والا ہوتا ہے نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اہل مدینہ اس پرندے کو بلبل کہتے تھے ہوسکتا ہے کہ یہ وہی پرندہ ہو جس کو ہمارے ہاں لال کہتے ہیں۔ حضرت انس (رض) کے چھوٹے بھائی کبشہ اس پرندے کو لے کر آنحضرت ﷺ کے پاس آتے تھے جیسا کہ چھوٹے بچوں کو جب کوئی چڑیا وغیرہ مل جاتی ہے تو اس کے ساتھ کھیلا کرتے ہیں اور اس کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں پھر ایک دن اچانک وہ پرندہ مرگیا اس کے بعد جب وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ ان کو از راہ مذاق چھیڑتے اور پوچھتے کہ اے ابوعمیر تمہارا نغیر کہاں گیا ؟ گویا ان کو مخاطب کرتے وقت ظرافت کے ساتھ تفنن کلام کا اسلوب بھی اختیار فرماتے یعنی نغیر کی مناسبت سے اور اس لفظ کے قافیہ کے طور پر ان کو ابوعمیر کی کنیت کے ذریعہ مخاطب فرماتے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں کو چڑیا وغیرہ سے دل بہلانا اور ان کے ساتھ کھیل کود کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس کو تکلیف و ایذاء نہ پہنچائیں نیز اس سے معلوم ہوا کہ کسی چھوٹے اور کمسن بچے کی کنیت مقرر کرنا جائز ہے اور یہ جھوٹ میں داخل نہیں ہے نیک فالی ہے۔

【259】

آنحضرت ﷺ کا ہنسی مذاق بھی جھوٹ پر مبنی نہیں ہوتا تھا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ہم سے خوش طبعی فرماتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہاں لیکن اس خوش طبعی میں بھی میں سچی بات کہتا ہوں۔ (ترمذی) تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام کو زیادہ ہنسی مذاق کرنے سے منع فرمایا تو اس کے بعد انہوں نے مذکورہ سوال کیا، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کو جواب دیا کہ ہنسی مذاق کی ممانعت اس بناء پر ہے کہ اس میں عام طور پر جھوٹی باتوں اور غیر شرعی کاموں کا ارتکاب ہوجاتا ہے اور ظاہر ہے کہ تم میں سے کوئی شخص بھی اس پر قادر نہیں ہے کہ اس کا ہنسی مذاق جھوٹ اور لایعنی باتوں سے کلیۃ پاک ہو کیونکہ تم کو معصوم نہیں بنایا گیا لیکن حق تعالیٰ نے مجھ کو معصوم بنایا ہے اور مجھے اس بات پر قادر کیا ہے کہ میرے کسی بھی ہنسی مذاق کی بات میں جھوٹ کی آمیزش ہو وہ ناجائز ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کبھی بھی ایسا مزاح نہیں فرماتے تھے جس میں جھوٹ اور لچر بات کا شائبہ بھی پایا جاتا ہو اور اگر ہنسی مذاق کی کوئی بات حقیقت کے اعتبار سے جھوٹ پر مبنی نہ ہو تو وہ جائز ہے لیکن اس کے باوجود ہنسی مذاق اور ظرافت کو عادت نہ بنا لینا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے دبدبہ اور وقار ختم ہوجاتا ہے۔

【260】

آنحضرت ﷺ کی ظرافت کا ایک واقعہ

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سواری کا ایک جانور مانگا تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا اس شخص نے حیرت سے کہا یا رسول اللہ میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا ؟ رسول اللہ نے فرمایا اونٹ کو اونٹنی ہی تو جنتی ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح اس شخص نے سمجھا تھا کہ اونٹنی کے بچہ سے مراد وہ چھوٹا بچہ ہے جو سواری کے قابل نہیں ہوتا لیکن آنحضرت ﷺ کی مراد یہ تھی کہ سواری کے قابل جو اونٹ ہوتا ہے وہ بچہ تو اونٹنی کا ہی ہوتا ہے لہذا آنحضرت ﷺ نے اس شخص کی طلب پر مذکورہ ارشاد بطور خوش طبعی فرمایا اور پھر اس کی حیرت پر جو جواب دیا اس کے ذریعہ نہ صرف حقیقت مفہوم کو ادا کیا بلکہ اس کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ اگر تم تھوڑی سے عقل لیتے اور میری بات کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے تو اس حیرت میں نہ پڑتے اور حقیقی مفہوم کو خود سمجھ لیتے لہذا اس ارشاد میں نرمی ظرافت ہی نہیں بلکہ اس امر کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے یہ سننے والے چاہیے کہ وہ اس بات میں غور و تامل کرے جو اس سے کہی گئی ہے اور بغیر سوچے سمجھے سوال جواب نہ کرے بلکہ پہلے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے اور غور و فکر کر کے بعد آگے بڑھے۔

【261】

تعریف پر مشتمل خوش طبعی

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کریم نے ان سے فرمایا اے دو کانوں والے۔ (ابوداؤد، ترمذی) تشریح ا نحضرت ﷺ نے حضرت انس (رض) کو دو کانوں والے کے ذریعہ جو مخاطب فرمایا تو اس میں خوش طبعی و ظرافت بھی تھی اور ان کے تئیں اس تعریف و توصیف کا اظہار بھی مقصود تھا کہ تم نہایت فہیم و ذکی ہو اور تم سے جو بات کہی جاتی ہے اس کو تم خوب اچھی طرح سنتے ہو۔

【262】

ایک بڑھیا کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی خوش طبعی

اور حضرت انس (رض) رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ایک بوڑھی عورت نے جب آپ سے یہ درخواست کی کہ میرے لئے جنت میں جانے کی دعا فرمائیں تو اس سے آپ نے فرمایا کہ بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوں گی وہ عورت قرآن پڑھی ہوئی تھی آپ نے اس سے فرمایا کہ تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا ہے کہ آیت (انا انشانھن انشاء فجعلناھن ابکارا) ۔ یعنی ہم جنت کی عورتوں کو پیدا کریں گے جیسا کہ پیدا کیا جاتا ہے پس ہم ان کو کنواری بنادیں گے اس اعتبار سے یہ خوش طبعی مبنی برحقیقت تھی اور آپ کا یہ فرمانا درست ہوا کہ یہ بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی کیونکہ واقعتا کوئی عورت اپنے بڑھاپے کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گی اور اس روایت کو رزین نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے اور بغوی نے اپنی دوسری کتاب شرح السنہ میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے جو مصابیح میں مذکور ہیں۔ تشریح مصابیح اس روایت کو جن الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے وہ یوں ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس عورت سے فرمایا کہ بوڑھی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی یہ سن کر وہ عورت واپس ہوئی اور روتی ہوئی چلی گئی آپ نے فرمایا کہ اس عورت کو جا کر بتلا دو عورتیں اپنے بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ آیت (انا انشانھن انشاء فجعلناھن ابکارا) ۔

【263】

خوش طبعی کا ایک واقعہ

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ شہر سے باہر رہنے والا ایک شخص جس کا نام زاہر بن حرام تھا آنحضرت ﷺ کے لئے بطور ہدیہ شہر کے باہر سے کچھ لایا کرتا تھا (یعنی ایسی چیزیں جو شہر سے باہر جنگل میں پیدا ہوتی ہیں جیسے ساگ، سبزی، لکڑی اور پھول پھل وغیرہ) اور جب وہ مدینہ سے باہر اپنی جائے سکونت کو جانے لگتا تو رسول اللہ اس کے ساتھ کچھ شہر کا سامان کردیا کرتے تھے آنحضرت ﷺ اس کے بارے میں فرماتے تھے کہ زاہر ہمارے باہر کا گماشتہ ہے کہ وہ ہمارے لئے باہر کی چیزیں لاتا ہے اور ہم اس کے شہر کے گماشتہ ہیں کہ ہم اس کو شہر کی چیزیں دیتے ہیں نیز آنحضرت ﷺ زاہر سے بہت محبت وتعلق رکھتے تھے ویسے وہ ایک بدصورت شخص تھا ایک دن آنحضرت ﷺ بازار میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ اپنا سودا سلف بیچ رہا ہے آپ نے پیچھے سے اس کی اس طرح کو لی بھر لی کہ وہ آپ کو دیکھ نہیں سکتا تھا (یعنی آپ نے اس کی بیخبر ی میں اس کے پیچھے بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ اس کی دونوں بغلوں کے نیچے سے نکال کر اس کی آنکھیں چھپا لیں تاکہ وہ پہچان نہ سکے) زاہر نے کہا مجھے چھوڑ دو یہ شخص کون ہے پھر اس نے کوشش کر کے کن انکھیوں سے دیکھا اور آنحضرت ﷺ کو پیچان لیا پھر وہ آپ کو پہچاننے کے بعد اپنی پیٹھ کو آنحضرت ﷺ کے سینہ مبارک سے چمٹانے کی پوری کوشش کرنے لگا تاکہ زیادہ سے زیادہ برکت حاصل کرے ادھر آنحضرت ﷺ نے یہ آواز لگانی شروع کردی کہ کون شخص ہے جو اس غلام کو خریدے اس نے عرض کیا یا رسول اللہ اللہ کی قسم آپ مجھ کو ناکارہ پائیں گے (یعنی بالکل سستا اور بےکار مال) آنحضرت ﷺ کریم نے فرمایا لیکن تم اللہ کے نزدیک ناکارہ نہیں ہو۔ (شرح السنہ) تشریح ا نحضرت ﷺ نے زاہر کو از راہ مذاق غلام سے تعبیر کیا ہے اور حقیقت کے اعتبار سے یہ کوئی جھوٹ بات نہیں تھی کیونکہ وہ اللہ کا غلام بہر حال تھے ہی۔ کسی چیز کو بطور فروخت کرنے کے لئے بطور استفہام یہ کہنا کہ کون شخص ہے جو اس کو خریدتا ہے مفہوم کے اعتبار سے کبھی تو اس چیز کی پیش قیمت حثییت کو ظاہر کرنے کے لئے مقابلہ آرائی پر اطلاق کیا جاتا ہے اور کبھی اس کا اطلاق استدال پر آتا ہے لہذا آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کون شخص ہے جو اس غلام کا خریدار ہے مطلب یہ تھا کہ اس بازار میں ایسا کوئی شخص ہے جو اس غلام کی قدر و قیمت اور اس کی حثییت کا مقابلہ کرے ؟ یعنی یہاں کوئی چیز اس کی حثییت کا مقابلہ نہیں کرسکتی یا یہ کہ ایسا کوئی شخص ہے جو اس غلام کی قیمت لگا دے اور ایسی کوئی چیز مجھے دے سکے جس کے بدلے میں اس کو یہ غلام دے سکوں یعنی یہاں کوئی مال اس کا بدل نہیں ہوسکتا اور کوئی چیز اس کی قیمت نہیں بن سکتی، نیز یہ بھی ممکن ہے آپ کا یہ ارشاد تجریف کے قبیل سے ہو جس سے گویا آپ کا مطلب یہ تھا کہ کون شخص ہے جو اس غلام کو حاصل کرے یعنی کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اس غلام کو حاصل کرنے اور اس کو اپنے پاس رکھنے کا اہل ہو۔

【264】

رسول اللہ ﷺ کی صحابہ (رض) سے بے تکلفی

اور حضرت عوف ابن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے دوران ایک دن میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ چمڑے کے خیمے میں تشریف فرما تھے میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ اندر آجاؤ میں نے مزاح کے طور پر عرض کیا یا رسول اللہ میں سب کا سب اندر آجاؤں یعنی سارے جسم کو اندر لے آؤں ؟ آپ نے فرمایا ہاں سب بدن کو اندر لے آؤ چناچہ میں خیمہ کے اندر داخل ہوگیا حضرت عثمان ابن ابوعات کہ (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کہتے ہیں کہ حضرت عوف (رض) نے یہ بات کہ کیا میں سب کا سب اندر آجاؤں اس مناسبت سے کہی تھی کہ خیمہ چھوٹا تھا۔ (ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ اس طرح محبت و شفقت کا تعلق رکھتے تھے کہ صحابہ آپ کے ساتھ بےتکلف ہوجاتے تھے اور اس بےتکلفی کے موقع پر آپ سے ظریفانہ بات بھی کرلیتے تھے۔

【265】

رسول اللہ ﷺ کی صحابہ (رض) سے بے تکلفی

اور حضرت نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوبکر (رض) نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ سے گھر آنے کی اجازت طلب کی جبھی انہوں نے حضرت عائشہ (رض) کی آواز کو سنا جو ذرا زور سے بول رہی تھی پھر جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے حضرت عائشہ (رض) کا ہاتھ پکڑا اور طمانچہ مارنے کا ارادہ کیا اور کہا کہ خبردار آئندہ میں تمہیں رسول اللہ کی آواز سے اونچی آواز میں بولتے ہوئے نہ دیکھوں ادھر آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر (رض) کو (حضرت عائشہ (رض) کو مارنے سے) روکنا شروع کیا اور پھر حضرت ابوبکر (رض) غصہ کی حالت میں باہر نکل کر چلے گئے آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر (رض) کے چلے جانے کے بعد فرمایا تم نے دیکھا میں نے تمہیں اس آدمی یعنی ابوبکر (رض) کے ہاتھ سے کس طرح بچا لیا ؟ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابوبکر (رض) مجھ سے خفگی کی بناء پر آنحضرت ﷺ سے شرمندگی کی وجہ سے کئی دن تک آنحضرت ﷺ کی خدمت میں نہیں آئے پھر ایک دن انہوں نے دروازے پر حاضر ہو کر اندر آنے کی اجازت مانگی اور اندر آئے تو دیکھا کہ دونوں (آنحضرت ﷺ اور حضرت عائشہ (رض) صلح کی حالت میں ہیں انہوں نے دونوں کو مخاطب کر کے کہا تم دونوں مجھ کو اپنی صلح میں شریک کرلو جس طرح تم نے مجھ کو اپنی لڑائی میں شریک کیا تھا، آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا بیشک ہم نے ایسا ہی کیا بیشک ہم نے ایسا ہی کیا یعنی تمہیں اپنی صلح میں شریک کرلیا۔ (گویا آپ نے اپنی بات کو موکدہ کرنے کے لئے یہ جملہ دو مرتبہ دہرایا) ابوداؤد۔ تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کا وہ جملہ بطور مزاح تھا جو آپ نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا تھا کہ دیکھا میں نے تمہیں اس شخص کے ہاتھ سے کس طرح نجات دلائی گویا آپ نے تمہارے باپ کہنے کی بجائے اس شخص کہہ کر بقصد مزاح حضرت ابوبکر (رض) کو حضرت عائشہ (رض) کے حق میں اجنبی قرار دیا۔

【266】

ایسا مذاق نہ کرو جس سے ایذاء پہنچے

اور حضرت ابن عباس (رض) آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تم اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا نہ کرو، نہ اس سے ایسا مذاق کرو جس سے اس کو تکلیف پہنچے اور نہ ایسا وعدہ کرو جس کو پورا نہ کرسکو۔ (حضرت شیخ عبدالحق نے لاتعدہ موعدا فتخلفہ کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ تم وعدہ نہ کرو جیسا کہ وعدہ کیا جاتا ہے تاکہ تم وعدہ خلافی نہ کرو یعنی اگر وعدہ کرو تو اس کو پورا کرو یا پھر سرے سے وعدہ ہی نہ کرو اور وعدہ کا راستہ ہی بند کردو تاکہ وعدہ خلافی کے وبال میں پڑنے کا تمہیں خوف ہی نہ رہے، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【267】

مفاخرت اور عصبیت کا بیان

فخر، یا کے معنی ہیں اترانا یعنی اپنے حسب و نسب یا اپنے خاندان و قبیلہ یا اپنی قوم و جماعت یا اپنے علم و اخلاق اور یا اپنی مالداری و ثروت وغیرہ پر نازاں ہونا اور فخر کرنا، تفاخر کے معنی ہیں کہ ایک دوسرے پر فخر کرنا مفاخرت کے معنی ہیں فخر میں ایک دوسرے کی برابری کرنا اور افتخار و تفخر کے معنی ایک کو دوسرے کے مقابلہ میں بڑھانا۔ مفاخرت یعنی اظہار فخر کرنا اور نازاں ہونا اگر حق کے معاملہ میں ہو حق کی خاطر ہو کسی دینی مصلحت کے پیش نظر ہو اور دشمنان اسلام پر اپنی برتری، اپنی شان و شوکت اور اپنی قوت کے اظہار کے طور پر ہو تو جائز ہے چناچہ اس طرح کہ مفاخرت صحابہ اور سلف سے منقول ہے اور اگر مفاخرت کا تعلق ناحق معاملہ سے ہو اور نفسانیت کے تحت تکبر و غرور اور گھمنڈ کے طو پر ہو تو مذموم ہے اور عرف عام میں مفاخرت کا استعمال اکثر اسی معنی میں ہوتا ہے۔ عصبیت کے معنی ہیں عصبی یا متعصب ہونا یعنی اپنے مذہب یا اپنے خیال کی پچ کرنا اور اپنی قوم کی قوت و سختی کے اظہار کے لے جدل و خصومت کرنا چناچہ عصبہ اس شخص کہتے ہیں جو اپنی بات یا اپنی قوم کی حمایت کرے اور یا اپنی قوم و جماعت کی بچ کے لئے غصہ ہو تعصب بھی اگر حق کے معاملہ میں ہو اور ظلم وتعدی کے ساتھ نہ ہو تو مستحسن ہے اگر تعصب کا تعلق حق بات کو نہ ماننے، ظلم وتعدی اختیار کرنے اور اپنی قوت و شان و شوکت کے بیجا اظہار کی خاطر ہو تو مذموم ہے عام طور پر تعصب کا اطلاق اپنی بات و خیال اور اپنے مذہب قوم کے حق میں ناروا سختی اختیار کرنے اور دوسروں کو تئیں ظلم وتعدی کرنے پر ہوتا ہے جیسا کہ اس باب میں نقل کی جانے والے احادیث سے معلوم ہوگا۔

【268】

خاندانی وذاتی شرافت کا حسن، علم دین سے ہے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون شخص زیادہ معزز و مکرم ہے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ معزز و مکرم وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار و متقی ہے یعنی اگر تمہارے سوال کا مطلب یہ ہے کہ خاندانی عظمت باپ دادا کی بڑائی اور اپنے فضائل و اچھی عادات سے قطع نظر ذاتی بزرگی و کرامت کیا چیز تو ہے جان لو کہ وہ تقوی ہے لہذا جو شخص لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے وہی سب سے زیادہ معزز و مکرم ہے خواہ وہ اپنے حسب و نسب، خاندانی عظمت وجاہت اور اپنے اوصاف و خصائل کے اعتبار سے کم تر ہو یا برتر، صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مطلب یہ نہیں ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر تم ذاتی بزرگی و کرامت کے بارے میں نہیں پوچھ رہے تو اس اعتبار سے انسانوں میں سب سے زیادہ شریف و بزرگ حضرت یوسف ہیں جو اللہ کے نبی (حضرت یعقوب کے بیٹے، اللہ کے (حضرت اسحق کے پوتے اور اللہ کے دوست حضرت ابراہیم کے پڑپوتے ہیں یعنی حضرت یوسف میں کئی طرح کی شرافت و بزرگیاں جمع ہیں کہ خود بھی نبی ہیں اور ان تین پشتوں میں نبوت رہی ہے ان کے پردادا کو خلیل اللہ کا لقب ملا ہے کہ اللہ نے ان کو خالص دوست قرار دیا ہے پھر وہ علم دانائی، حسن و جمال، عفو و کرم اخلاق و احسان، عدل و انصاف اور دینی دنیاوی سرداری و حکمرانی کے اوصاف سے بھی متصف تھے لہذا اس اعتبار سے وہ انسانوں میں سب سے زیادہ بزرک و شریف انسان تھے، صحابہ نے عرض کیا کہ آپ سے ہمارے سوال کا یہ مطلب نہیں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم عربوں کی خاندانی شرافت اور ذات و حسب کی اعلی خصوصیات کے اعتبار سے پوچھ رہے ہو ؟ کہ اہل عرب جو اپنے اور باپ دادا کے کارناموں ذاتی بزرگی و عزت اور اس طرح کے اور دوسرے اوصاف کے ذریعہ ایک دوسرے سے کے سامنے اظہار فخر کرتے ہیں اور اپنی بزرگی و برائی کا دعوی کرتے ہیں نیز وہ اپنے میں ایک دوسرے کی عزت و شرافت کا معیار تقوی اور نسب کے بجائے مذکورہ اوصاف و خصوصیات کو قرار دیتے ہیں تو ان میں واقعتا سب سے زیادہ معزز و مکرم کون ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا ہاں ہمارے سوال کا مطلب یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تو سنو ! تم میں سے جو لوگ زمانہ جاہلیت میں سب سے بہتر تھے وہی اسلام میں سب سے بہتر ہیں جبکہ وہ فقیہ ہوں (یعنی تم میں سے جو لوگ زمانہ جاہلیت میں اپنی خاندانی شرافت شریف النفسی بہادری، سرداری اور عمدہ اخلاق و عادات کے اعتبار سے سب سے پسندیدہ اور سب سے بہتر شمار کیتے جاتے تھے اسلام کے زمانہ میں بھی وہی لوگ سب سے زیادہ پسندیدہ اور سب سے بہتر ہیں بشرطیکہ وہ اسلامی احکام و شرائع کے سمجھنے والے اور دین کا علم حاصل کرنے والے ہوں۔ (بخاری ومسلم) تشریح ا نحضرت ﷺ کے آخری جواب کا مطلب یہ تھا کہ زمانہ جاہلیت میں جن لوگوں کی ذات اور شخصیت کی وجہ سے ان کو سب سے بہتر سمجھا جاتا تھا وہ لوگ اپنی انہی خصوصیات کی بنا پر زمانہ اسلام میں بھی معزز و مکرم قرار دیئے جائیں گے بشرطیکہ انہوں نے ایمان و اسلام قبول کر کے دین کا علم اور شریعت کے احکام و مسائل حاصل کئے ہوں فرق یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ان پر کفر کا سایہ معصیت کی تاریکی اور جہل کا غبار چھایا ہوا تھا اور خواہش نفس کے دام فریب میں مبتلا تھے اور اس اعتبار سے ان کی ذاتی شرافت وصفات کی کوئی حثییت نہیں تھی مگر اب ایمان و اسلام کی پاکیزگی اور عبادات و علم دین کے نور نے ان کی ذات و شخصیت کو نکھار دیا ہے ان کی زندگی کو روشن کردیا ہے اور ان کو حق کا تابعدار بنادیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ معاون سے مراد وہ لوگوں کی اپنی ذات و شخصیات ہیں جو عمدہ وصفات و اعلی خصوصیات سے متصف ہوں جیسا کہ کتاب میں یہ روایت نقل کی جا چکی ہے کہ الناس معادن کمعادن الذھب والفضۃ الخ۔۔ یعنی لوگوں کی بھی کانیں ہوتی ہیں جیسے سونے اور چاندی کی کانیں، پس جو خاندان و افراد اپنی اعلی خصوصیات کے اعتبار سے زمانہ جاہلیت میں سب سے بہتر شمار کئے جاتے تھے اسلام کے زمانہ میں بھی وہی سب سے بہتر ہیں بشرطیکہ وہ دین کا علم حاصل کریں۔

【269】

سب سے زیادہ مکرم کون ہے

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کریم بن کریم ابن کریم اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ حضرت یوسف بن یعقوب بن اسحق بن ابراہیم ہیں۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ خاندانی شرافت و عظمت اور نسبی برتری کی جو خصوصیات حضرت یوسف کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں سب سے بڑا شرف ان کے علاوہ اور کسی انسان کو حاصل نہیں ہوا کہ وہ خود نبی تھے ان کے باپ نبی تھے ان کے دادا نبی تھے اور ان کے پڑدادا نبی تھے اس خصوصیت کے علاوہ ان کو حسن و جمال، عدل و انصاف، علم و دانائی اور ریاست و حکومت کے جو اوصاف حاصل تھے ان کے اعتبار سے ان کی ذاتی مکرمت کو شرافت کو سب سے برتر مقام حاصل ہے۔

【270】

کفار کے مقابلہ پر آنحضرت ﷺ کا اظہار فخر

اور حضرت براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ حنین کے دن ان کے خچر یعنی رسول اللہ کے خچر کی باگ سفیان ابن حارث (رض) نے پکڑ رکھی تھی جو حارث بن عبدالمطلب کے لڑکے ہونے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے اور عرب کے دلیر، جیالے جوانوں میں ایک بہادر مرد تھے چناچہ جنگ کے دوران جب آنحضرت ﷺ کو مشرکوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ (اپنے خچر سے) اتر پڑے اور یہ رجز فرمانا شروع کیا میں آنحضرت ﷺ ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کا سپوت ہوں، راوی کا بیان ہے کہ پس اس دن آنحضرت ﷺ سے زیادہ بہادر دلیر اور کسی کو نہیں دیکھا گیا۔ (بخاری، مسلم) تشریح یہ حدیث آنحضرت ﷺ کی بےمثال شجاعت و جوان مردی پر دلالت کرتی ہے کہ ایک ایسے معرکے میں جہاں ہوازن و غطفان کے قبائل سمیت عرب کے دوسرے بہت سے جنگجو قبائل برسرپیکار تھے اور انہوں نے اپنی بےپناہ خرابی قوت اور انفرادی طاقت کے ذریعہ اسلامی لشکر پر اتنا زبردست دھاوا بول دیا تھا کہ شکست کی صورت ظاہر ہونے لگی تھی تو آپ بھی خچر پر سوار ہو کر مجاہدین اسلام کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے اور اپنے خچر کو ایڑ لگا لگا کر کفار کے لشکر پر حملہ کر رہے تھے اور پھر جب ان دشمنان دین نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور خچر کو آگے بڑھنے کا راستہ نہ مل سکا تو آپ اس سے اتر پڑے اور پیادہ ہو کر بڑی دلیری اور جوان مردی کے ساتھ دشمن کے لشکر پر ضرب لگائی آخرکار اللہ نے ان کو شکست سے درچار کیا اور آنحضرت ﷺ کو فتح نصیب ہوئی۔ اگرچہ آنحضرت ﷺ نے حسب و نسب اور خاندانی وجاہت پر اظہار فخر کرنے اور نازاں ہونے سے منع فرمایا ہے لیکن آپ کا بطور رجزیہ فرمانا کہ میں عبدالمطلب کا سپوت ہوں اس طرح کا اظہار فخر نہیں ہے جو ممنوع ہے کیونکہ وہ فخر ممنوع ہے جو نہ زمانہ جاہلیت کے رسم کے مطابق، بیجا اظہار نام و نمود، تعصب و ہٹ دھرمی اور نفس کے گھمنڈ کے طور پر ہو جبکہ آنحضرت ﷺ کا مذکورہ فخر دین کی طاقت اور شان و شوکت کو بڑھانے اور کفار کے مقابلہ میں اپنا رعب اور دبدبہ ظاہر کرنے کے لئے تھا اور اس طرح کا فخر جائز ہے علاوہ ازیں ایک بات یہ تھی کہ زمانہ جاہلیت میں بعض اہل عرب جیسے کاہن اور اہل کتاب آنحضرت ﷺ کی نبوت ظاہر ہونے سے پہلے بعثت نبوی کی خبر دیا کرتے تھے اور نبی آخرالزمان کی جو نشانیاں اور علامتیں بتایا کرتے تھے ان میں ایک نشانی یہ بھی تھی کہ وہ پیغمبر عبدالمطلب کی اولاد سے ہوں گے۔

【271】

آنحضرت ﷺ کا اپنے تئیں سردار کہلانے سے انکار

اور حضرت مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میرے والد حضرت عبداللہ نے بیان کیا کہ بنو عامر کا جو وفد رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اس میں بھی شریک تھا چناچہ جب ہم آپ کی خدمت میں پہنچے تو ہم نے عرض کیا کہ آپ ہمارے سردار ہیں آپ نے فرمایا سردار تو اللہ ہے ہم نے عرض کیا آپ بھلائی و بہتری کے اعتبار سے ہم میں سب سے بہتر ہیں اور بخشش کے اعتبار سے ہم میں سے بزرگ و برتر ہیں آپ نے فرمایا ہاں اس طرح کہو بلکہ اس سے بھی کم درجہ کے الفاظ استعمال کرو یعنی میری تعریف ومدح میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لو اور ان صفات کو میری طرف منسوب نہ کرو جو صرف اللہ کی ذات سے مخصوص ہیں تم نے آخر میں جو بات کہی ہے زیادہ سے زیادہ اسی حد تک میری تعریف کرسکتے ہو بلکہ میرے تئیں اس سے بھی ہلکے درجہ کی تعریف کرو تو زیادہ بہتر ہے اور دیکھو شیطان تم کو اپنا وکیل نہ بنائے۔ (ابوداؤد) تشریح لفظ جری کے معنی وکیل کے ہیں جو اپنے موکل کا جاری مجری یعنی قائم مقام ہوتا ہے لہذا لا یستجرینکم الشیطن کا مطلب یہ ہے کہ تم میری تعریف ایسے الفاظ اور ایسے انداز میں نہ کرو جس سے یہ معلوم ہوا کہ شیطان لعین نے تمہیں اپنا وکیل و قائم مقام بنا لیا ہے اور تم اس کی وکالت کے طور پر بلاتامل جو چاہتے ہو کہتے چلے جا رہے ہو چناچہ وہ لوگ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں جو ذات رسالت کی منقبت و تعریف میں حد سے زیادہ تجاوز کرتے ہیں اور نبی کو اتنا بڑھاتے ہیں کہ گویا بندے کو اللہ کا درجہ دیدیتے ہیں جیسے مروج مولود کے قصائد نقلیہ میں ایسے الفاظ وبیان اختیار کئے جاتے ہیں کہ جن سے پروردگار کی شان میں بڑی بےادبی ہوتی ہے۔ بعض روایات میں اس یستجرینکم میں یاء کی بجائے ہمزہ ہے اس صورت میں یہ لفظ جری کے بجائے جو ات سے ہوگا اور معنی یہ ہوں گے کہ شیطان تم کو میری تعریف میں اس طرح اور بےباک نہ بنا دے کہ غلط سلط اور خلاف حقیقت جو کچھ کہنا چاہو بےجھجک کہنے لگو۔ سردار تو بس اللہ ہے سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ وہ ذات جو کہ مخلوق کے تمام امور کی حقیقی مالک ہے اور وہ ذات کہ ہر ایک پر فرمانبروائی و حکمرانی کی سزاوار ہے اور جس کے دست قدرت میں تمام تر نظم و تصرف ہے صرف اللہ کی ذات ہے نہ کہ کوئی اور شخص۔ علماء نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا اس جماعت کی طرف سے اپنے آپ کو سردار کہے جانے کی ممانعت کرنا اس سبب سے نہیں تھا کہ ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے تئیں سرداری وسیادت کو ثابت کیا تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ بلاشبہ تمام اولاد آدم کے سردار ہیں بلکہ آپ کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کو لفظ سید سردار کے ذریعہ اس انداز مخاطب کیا تھا کہ جس طرح کسی قوم قبیلہ کے سردار کو مخاطب کیا جاتا ہے حالانکہ ان لوگوں کو چاہیے تھا کہ وہ آپ کو لفظ نبی یا رسول اللہ کے ذریعہ مخاطب کرتے جو بشریت کا سب سے اعلی مرتبہ ہے۔

【272】

اصل فضیلت تقوی ہے

اور حضرت حسن، حضرت سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حسب مال داری ہے اور کرم پرہیزگاری کا نام ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح حسب ان فضائل وخصائل کو کہتے ہیں کہ جو کسی انسان میں ہوتے ہیں چناچہ صاحب انسان اپنے اور اپنے باپ دادا کے خصائل و فضائل کو شمار کرتا ہے اور ان کے ذریعہ اپنی حثییت کو بڑھاتا ہے کرم صفات خیر کا نام ہے جس کا اطلاق تمام وجوہ خیر بھلائی اور شرف پر ہوتا ہے آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے نزدیک اصل حسب و فضیلت مالداری ہے کہ جو شخص مالدار اور صاحب ثروت ہو تو وہی حسب والا اور فضیلت والا سمجھا جاتا ہے اور اس کی عزت کی جاتی ہے اگر کسی کے پاس مال ثروت نہ ہو تو وہ سب کی نظروں میں کم تر و بےوقعت رہتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل فضیلت تقوی پرہیزگاری میں ہے کہ بغیر تقوی کے کوئی بھی فضیلت اعتبار نہیں رکھتی اللہ کی نظر میں کریم یعنی بزرگ و شریف وہی شخص ہے جو پرہیزگار ہو جیسا کہ قرآن کریم میں ہے، آیت (ان اکرمکم عند اللہ اتقکم) ، بیشک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

【273】

اپنے باپ دادا پر فخر کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص زمانہ جاہلیت کی نسبت کے ساتھ اپنے کو منسوب کرلے تو اس کے باپ ہن کو کٹواؤ اور اس میں اشارہ کنایہ سے کام نہ لو۔ (شرح السنہ) تشریح ھن ہر اس قبیح اور بری چیز کو کہتے ہیں کہ جو صاف صاف نام لے کر بیان نہیں کی جاتی اسی لئے اس لفظ کا اطلاق شرمگاہ پر بھی ہوتا ہے یعنی اگر کسی موقع پر شرمگاہ کا نام لینا ہو تو اس مقصد کے لئے ہن کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے چناچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنے باپ دادا پر فخر کرے جو زمانہ جاہلیت میں گزرے ہیں تو اس کو صاف صاف باپ کی گالی دو اور اس کے باپ کی شرمگاہ کا ذکر کرتے ہوئے اشارہ کنایہ سے کام نہ لو بلکہ اس کا صریح نام لو یعنی اس سے مہذب گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں سیدھا صاف کہہ دو کہ ابے جا اپنے باپ کی شرمگاہ۔ اور اس ارشاد کا مطلب گویا باپ دادا اور خاندانی ثروت وجاہت پر فخر کرنے والوں کو تئیں شاید نفرت کا اظہار اور ان کو سخت تنبیہ کرنا مقصود ہے تاکہ کوئی شخص اپنے باپ دادا کے تئیں فخر و مباہات میں مبتلا نہ ہو۔ بعض حضرات نے من تعزی بعزاء الجاہلیۃ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جو شخص زمانہ جاہلیت کی رسموں اور عادتوں کو اختیار کرے جیسے نوحہ بال نوچنے کپڑے پھاڑنے وغیرہ کے ذریعہ غمی منائے تو اس کو صاف صاف باپ کی گالی دو یا جو شخص زمانہ جاہلیت کی طرح لوگوں کو برا بھلا کہے اور ان کو عار دلائے اور ان کے ساتھ گالم گلوچ کرے تو اس کے سامنے اس کے باپ کی برائیاں اشارہ کنایوں میں نہیں بلکہ صریح الفاظ میں بیان کرو یعنی یوں کہو کہ تمہارا باپ بتوں کو پوجھتا تھا، فسق وفجور کی زندگی اختیار کئے ہوئے تھا اور زناکاری و شراب نوشی جیسی قبیح برائیوں میں مبتلا تھا اگر اس کے سامنے اس طرح کی بات کرو گے تو آئندہ کسی شخص کو برا بھلا کہنے، گالم گلوچ کرنے اور کسی کی آبروریزی کرنے کی وہ کبھی جرات نہیں کرے گا۔

【274】

اپنے زمانہ جاہلیت کے کسی تعلق پر فخر نہ کرو

اور حضرت عبدالرحمن ابن ابوعقبہ حضرت ابوعقبہ سے نقل کرتے ہیں کہ جو کسی انصاری کے ایک فارس نثراز مولیٰ تھے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ کے ہمراہ میں بھی غزوہ احد میں شریک تھا چناچہ معرکہ آرائی کے دوران میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو (تلوار یا نیزہ کھینچ کر) مارا اور کہا کہ ایک وار میری طرف سے بھی کھا میں ایک فارسی غلام نثراد ہوں (جو دلیر اور بہت مار دینے والا ہے) رسول اللہ ﷺ نے میرا یہ جملہ سنا تو میری طرف متوجہ ہوگئے اور فرمایا کہ تم نے اس طرح کیوں نہیں کہا کہ لے میری طرف سے بھی ایک وار کھا میں ایک انصاری غلام ہوں۔ (ابوداؤد) تشریح ا نحضرت ﷺ کی تنبیہ کا مطلب یہ تھا کہ اس موقع پر اگر تم اپنی نسبت فارس کی طرف جو مذہبا مجوسی اور آتش پرست قوم ہے کرنے کی بجائے انصاری کی طرف کرتے جو بہت بہادر اور اللہ کے دین اور رسول اللہ کے حامی و مددگار ہیں تو زیادہ اچھا ہوتا اور اس وجہ سے بھی موزوں تھا کہ مولیٰ القوم منھم۔ (کسی قوم کے مولیٰ کا شمار اسی قوم میں ہوتا ہے) کے بموجب جب تمہارا تعلق ہی سے ہے۔ مولیٰ کی دو قسمیں ہیں ایک تو مولیٰ عتاقہ یعنی وہ غلام جس کو اس کے مالک نے آزاد کردیا ہو اور دوسرے یہ کہ وہ لوگ جن کا وطنی تعلق غیرب عرب علاقوں اور ملکوں میں ہوتا تھا اور اسلام قبول کرلیتے تھے اور ہجرت کر کے مدینہ منورہ آجاتے تھے وہ اپنے آپ کو مہاجرین و انصار کے اختیار میں رہتی تھی ان کے سیاہ وسفید وہی مالک و متصرف ہوتے تھے ایسے لوگوں کو مولیٰ الموالات کہا جاتا تھا حضرت ابوعقبہ (رض) صحابی جن کا اصل نام رشد تھا اسی طرح کے مولیٰ تھے کہ وہ اصلا فارس کے رہنے والے تھے اور جب انہوں نے اسلام قبول کیا اور اپنے ملک فارس سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگئے تو کسی انصاری کے زیر تربیت رہے اس حدیث کے روای حضرت عبدالرحمن انہی ابوعقبہ کے صاحبزادے ہیں اور ان کا شمار ثقہ تابعین میں ہوتا ہے۔

【275】

اپنی قوم کی بیجا حمایت کرنے والے کی مذمت

اور حضرت ابن مسعود (رض) آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص اپنی قوم کی ناحق حمایت و مدد کرے وہ اس اونٹ کی مانند ہے جو کنویں میں گرپڑے اور پھر اس کی دم پکڑ کر اس کو کھینچا جائے۔ (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی اونٹ کنویں میں گر کر ہلاک ہوجاتا ہے اسی طرح وہ شخص کنویں میں گر کر روحانی طور پر تباہ و برباد ہوجاتا ہے اور اس میں سے نکالے جانے کی کوئی سبیل نہیں پاتا جو کسی ناحق معاملہ میں یا کسی ایسے معاملہ میں کہ اس کا حق ہونا مشتبہ ہو اپنی قوم و جماعت کی حمایت و مدد کے ذریعہ اپنے آپ کو اونچا اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ قوم و جماعت کو تو ہلاک ہوجانے والے اونٹ کے مشابہ قرار دیا ہے کیونکہ جو طبقہ و گروہ حق کو چھوڑ کر باطل کو اختیار کرتا ہے وہ گویا ہلاک ہوجانے والا شمار ہوتا ہے اور جو شخص اس قوم و جماعت کی حمایت کرتا ہے اس کو اس اونٹ کی دم کے ساتھ تشبیہ دی ہے چناچہ جو اونٹ کنویں میں گرجائے اس کو اس کی دم پکڑ کر کھینچنا اس کو ہلاک ہونے سے نہیں بچا سکتا اس طرح جو قوم و جماعت باطل ہونے کی وجہ سے ہلاکت کی کھائی میں گر پڑی اس کو وہ حمایتی اور مددگار ہلاکت کی کھائی سے نجات نہیں دلا سکتا۔

【276】

عصبیت کس کو کہتے ہیں

حضرت واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ عصبیت یعنی جاہلیت کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا عصبیت یہ ہے کہ تم ظلم پر اپنی قوم و جماعت کی حمایت کرو۔ (ابوداؤد) تشریح اس سے معلوم ہوا کہ حق کے معاملہ میں اپنی قوم و جماعت کی حمایت و رعایت کی جائے تو یہ اچھی چیز ہے جیسا کہ آنے والی حدیث میں فرمایا گیا ہے۔

【277】

اپنی قوم وجماعت کے ظلم کے ختم کرنے کی کوشش کرو

اور حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنی قوم جماعت کے لوگوں کے ظلم و زیادتی کا دفعیہ کرے جب تک اس دفعیہ کی وجہ سے ظلم کے گناہ کا خود مرتکب نہ ہو۔ (ابوداؤد) تشریح اگر یہ سوال پیدا ہو کہ وہ شخص جو ظلم و زیادتی کا دفعیہ کر رہا ہے وہ خود ظلم کا مرتکب کس طرح ہوسکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ فرض کیجیے ایک شخص کو اس کے ظلم سے زبانی ہدایت و تنبیہ اور افہام و تفہیم کے ذریعہ روکا جاسکتا ہے لیکن کوئی شخص اس ظلم کے دفعیہ کے لئے اپنی زبان کو ذریعہ بنانے کے بجائے اپنے ہاتھوں کو ذریعہ بنانے لگے کہ ظلم کرنے والے کو مارنے لگے تو ظاہر ہے کہ یہ روا نہیں ہوگا یا اس ظلم کو روکنے کے لئے تھوڑا بہت مارنا کافی ہوسکتا ہو مگر کوئی شخص اس کو بہت زیادہ مارنے لگے یا جان ہی سے مار ڈالے تو اس کی اس کاروائی کو سراسر ناواجب کہا جائے گا، حاصل یہ کہ کسی ظالمانہ کاروائی کو روکنے کے لئے ایسا اقدام کرنا ضرورت سے زائد اور واجبی حد متجاوز ہو تو ظلم کی وہ مدافعت خود ظلم وتعدی بن جائے گی۔

【278】

عصبیت کی مذمت

اور حضرت جبیر بن مطعم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے (یعنی ہمارے اہل ملت یا ہمارے اہل طریقہ میں سے نہیں ہے) جو لوگوں کو عصبیت کی دعوت دے (یعنی لوگوں کو کسی ناحق معاملہ میں حمایت کرنے پر آمادہ کرے نہ وہ شخص ہم میں سے ہے جو عصبیت کے سبب جنگ کرے اسی طرح وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی حالت میں مرجائے (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ عصبیت میں مبتلا ہونا یعنی اس شخص و قوم کی حمایت کرنا جو باطل پر ہو ہر حالت میں مذموم و ممنوع ہے بشرطیکہ اس عصبیت کا تعلق کسی دینی مصلحت سے نہ ہو بلکہ محض ظلم وتعدی کے طور پر ہو۔

【279】

محبت اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے

اور حضرت ابوداؤد آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کسی چیز سے تمہارا محبت کرنا تم کو اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے۔ (ابوداؤد) تشریح اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ محبت کا جنون انسان کو اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے کہ وہ غلبہ محبت کی وجہ سے اپنی محبوب چیز کے عیب نہ دیکھنے کی صلاحیت باقی رکھتا ہے اور نہ سننے کی اگر محبوب میں کوئی برائی دیکھتا بھی ہے تو اس کو اچھی سمجھتا ہے اور اگر اس سے کوئی بری بات سنتا بھی ہے تو اس کو اچھا جانتا ہے یا یہ مراد ہے کہ محبت انسان کو محبوب کے علاوہ ہر چیز سے اندھا اور بہرا کردیتی ہے کہ وہ جمال یار کے سوا نہ کسی چیز پر نظر ڈالتا ہے اور نہ محبوب کے سوا بات سننا پسند کرتا ہے۔ اس باب میں اس حدیث کو نقل کرنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ارشاد گرامی اس شخص کے حق میں فرمایا گیا ہے جو کسی کی محبت سے مغلوب ہو باطل و ناروا امور میں اسی کی حمایت ومدد کرتا ہے وہ حق کو نہ دیکھتا ہے اور نہ سنتا ہے بلکہ محض محبت کی وجہ سے ناحق و باطل کا حامی و مددگار بن جاتا ہے۔

【280】

عصبیت کے معنی

اور حضرت عبادہ بن کثیر شامی جن کا تعلق فلسطین سے تھا اپنے لوگوں میں ایک خاتون سے جن کا نام فسیلہ تھا نقل کرتے ہیں کہ وہ خاتون بیان کرتی تھیں میں نے اپنے والد کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ کیا عصبیت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی قوم و جماعت کو عزیز رکھے ؟ آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ عصبیت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص ظلم کے معاملہ میں اپنی قوم و جماعت کی حمایت و مدد کرے۔ (احمد، ابن ماجہ) تشریح اس ارشاد گرامی عصبیت کے مفہوم پر بڑے سادہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے اور اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ اپنی جماعت اور اپنی قوم کی جائز حمایت کرنا اور اس کے فطری و قانونی حقوق و مفادات کے حصول و تحفظ کے لئے اسی طرح جدوجہد کرنا کہ دوسروں کے حقوق و مفادات پر کوئی زد نہ پڑے عصبیت کے معنی میں داخل نہیں ہے ہاں اگر اپنی جماعت و قوم کی اس طرح حمایت کی جائے جس سے دوسروں کے تئیں ظلم وتعدی کے جذبات ظاہر ہوتے ہوں، یا اپنی جماعت و قوم کی جدوجہد میں معاونت کرنا جو سراسر زیادتی اور انتہا پسندی پر مبنی ہو نیز اس جدوجہد کا کوئی قانونی جواز موجود نہ ہو تو اس کو عصبیت کہا جائے گا اور شریعت کی نظر میں اس حمایت و معاونت کی کوئی حقیقت نہیں ہوگی۔

【281】

اپنے نسب پر گھمنڈ نہ کرو

اور حضرت عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نسب کوئی ایسی چیز نہیں جس کے سبب تم کسی کو برا کہو اور عار دلاؤ تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو جس طرح ایک صاع دوسرے صاع کے برابر ہوتا ہے کہ جس کو تم نے بھرا نہ ہو کسی کو کسی پر کوئی فضیلت و ترجیح نہیں ہے علاوہ دین اور تقوی کے آدمی کی برائی کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ زبان دراز اور فحش گوئی اور لچر باتیں کرنے والا بخیل ہو۔ اس روایت کو احمد اور شعب الایمان میں بہیقی نے نقل کیا ہے۔ تشریح صاع سے مراد مپانہ یا پیمانہ ہے ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح ایک صاع یعنی مپانہ اپنے ہی جیسے دوسرے مپانہ کے بالک برابر ہوتا ہے یا ان دو یوں مپانوں میں جو چیزیں بھری ہوتی ہیں وہ یکساں اور برابر مقدار وزن کی حامل ہوتی ہیں کہ ان کو ایک دوسرے پر کوئی ترجیح حاصل نہیں ہوتی اسی طرح تمام انسان ایک باپ آدم کی اولاد ہونے کی حثییت میں برابری کا درجہ رکھتے ہیں اور کسی انسان کو دوسرے انسان پر محض نسب کے اعتبار سے کوئی فوقیت و برتری حاصل نہیں ہوتی۔ تقوی سے مراد شرک جلی وخفی سے بچنا اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنا ہے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ انسان، انسان ہونے کی حثییت سے ایک دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا بلکہ انسانی جبلت اور نفسانی تقاضوں کے اختیار سے تمام انسان، نقصان و خسران کے مقام پر ہوتے ہیں البتہ جو انسان ایمان و اسلام کی دولت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی کمال تقوی و دین داری کے حامل ہوتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ آخرت کے نقصان سے محفوظ ہوتے ہیں بلکہ انسانیت کا اعلی مظہر ہونے کی وجہ سے دوسرے لوگوں پر فضیلت و برتری بھی رکھتے ہیں چناچہ اسی حقیقت کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ فرمایا گیا ہے وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ ۔ 103 ۔ العصر 1) ۔ قسم ہے زمانے کی انسان بڑے ہی خسارہ میں ہے علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث نے طیبی کے حوالہ سے حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ طف صاع کے معنی ہیں وہ پیمانہ جو پورا بھرا ہوا ہو لہذا انسان کو طف صاع کے ساتھ تشبیہ دے کر گویا اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ تم تمام انسانوں کے باپ چونکہ آدم ہیں اور آدم کو خاک سے پیدا کیا گیا ہے اس لئے تم سب اپنے اصل نسب کے اعتبار سے نقصان اور درجہ کمال تک نہ پہنچنے میں ایک دوسرے کے بالکل قریب اور برابر ہو کہ ہر انسان اپنی طبعی جبلت کی وجہ سے نقصان اور ٹوٹے میں مبتلا ہے ہاں وہ انسان اس نقصان اور ٹوٹے سے محفوظ ہیں جو ایمان و اسلام کے حامل اور تقوی و کمال دین داری کے مرتبہ پر فائز ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ صرف تقوی اور کامل دین داری ایک ایسا وصف ہے جو کسی انسان کو معزز و مکرم اور افضل و برتر قرار دے سکتا ہے جو شخص مومن اور متقی و پرہیزگار ہے اور دین دار کے اعلی مقام پر فائز ہے بس وہی انسان فضیلت کا حامل ہوسکتا ہے اور اس وصف کے علاوہ نہ نسب کی وجہ سے کوئی انسان برتر قرارپا سکتا ہے اور نہ محض خاندانی وجاہت و شوکت اور نسلی و قبائل شرف و امتیاز کسی انسان کو دوسرے انسانوں پر فوقیت و برتری کا درجہ دے سکتا ہے۔