144. نیکی و صلہ رحمی کا بیان

【1】

برو صلہ کا بیان

بر باء کے زیر کے ساتھ کے معنی نیکی و احسان کے ہیں اور عام طور پر اس لفظ کا اطلاق اس نیکی و بھلائی پر ہوتا ہے جس کا تعلق ماں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ سے ہوتا ہے اسی لئے لغت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ بر کے معنی ماں باپ کی فرمانبرداری و اطاعت کرنا۔ مذکورہ بالا عنوان میں بھی اس لفظ کے یہی معنی مراد ہیں واضح رہے کہ اس لفظ کی ضد عقوق ہے جس کے معنی ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور ان کے ساتھ سرکشی و ایذاء رسانی کا برتاؤ کرنا۔ صلہ کے لغوی معنی ملانا اور پیوند لگانا ہے لیکن عام اصطلاح میں اس کے معنی ہیں اپنے اعزاء و اقا رب کے ساتھ احسان اور اچھے سلوک کا معاملہ کرنا اور ان کو عطاء و بخشش اور اپنی مالی و اخلاقی مدد و اعانت کے ذریعہ فائدہ و راحت پہنچانا، چناچہ عنوان میں اس لفظ کے یہی معنی مراد ہیں۔

【2】

اولاد پر ماں کے حقوق

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ میری اچھی رفاقت یعنی میری طرف سے حسن سلوک و احسان اور خدمت گزاری کا سب سے زیادہ مستحق کون شخص ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہاری ماں اس نے عرض کیا پھر کون ؟ آپ نے فرمایا تمہاری ماں اس نے عرض کیا پھر کون ؟ آپ نے فرمایا تیری ماں اس نے عرض کیا پھر کون ؟ آپ نے فرمایا تمہارا باپ ایک روایت میں یوں ہے کہ آپنے اس شخص کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ تمہاری ماں پھر تمہاری ماں پھر تمہاری ماں پھر تمہارا باپ پھر تمہارا وہ عزیز جو نزدیک کی قرابت رکھتا ہو۔ بخاری ومسلم تشریح اس دنیا کے معاشرہ کی اصلاح و فلاح دراصل باہمی حقوق و نگہداشت تعلق و قرابت کی پاسداری ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور احسان و بھلائی کے برتاؤ اور اس حسن سلوک میں فرق مراتب کے احساس پر منحصر ہے شریعت اسلامی کا تقاضا ہے کہ انسان اس دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ جس تعلق و قربت کا رشتہ رکھتا ہے اور اس تعلق و قرابت میں جو فرق مراتب سے ادائیگی حقوق اور حسن سلوک کے باہمی معاملات میں اس کا لحاظ ضروری ہے ظاہر ہے کہ قرابت کے اعتبار سے ماں کا رشتہ سب سے زیادہ گہرا اور اس کا تعلق سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے لہذا کسی شخص کے احسان و حسن سلوک اور خدمت گزاری کی سب سے زیادہ مستحق جو ذات ہوسکتی ہے وہ ماں ہے ماں کے بعد باپ ہے اور پھر دوسرے قرابتی رشتہ دار ہیں لیکن ان قرابتی رشتہ داروں میں بھی تعلق و قرابت کے درجات و مراتب کی رعایت کی جائے گی جو رشتہ دار اپنے رشتہ کے اعتبار سے جتنا زیادہ قریب ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ مقدم رکھا جائے گا مذکورہ بالا حدیث میں اسی ضابطہ کو بیان فرمایا گیا ہے۔ بعض حضرات نے اس حدیث کے الفاظ سے ایک مسئلہ یہ اخذ کیا ہے کہ کسی شخص پر والدین کے ساتھ حسن سلوک و بھلائی کرنے کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں ماں کا حصہ باپ سے تین گنا بڑھا ہوا ہے کیونکہ وہ حمل کا بوجھ اٹھاتی ہے ولادت کی تکلیف و مشقت اور دودھ پلانے کی محنت و برداشت کرتی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اولاد پر ماں کا حق باپ کے حق سے بڑا ہے اور اس کے ساتھ حسن سلوک و بھلائی اور اس کی خدمت و دیکھ بھال کرنا زیادہ واجب ہے اور اگر ایسی صورت پیش آجائے جس میں بیک وقت دونوں کے حقوق کی ادائیگی دشوار ہوجائے مثلا ماں باپ کے درمیان کسی وجہ سے ان ابن ہو اور لڑکا اگر ماں کے حقوق کی رعایت کرتا ہے تو باپ ناراض ہوتا ہے اور اگر باپ کے حقوق کا لحاظ کرتا ہے تو ماں آزردہ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں یہ درمیانی راہ نکالی جائے گی کہ تعظیم و احترام میں تو باپ کے حقوق کو فوقیت دے اور خدمت گزاری نیز مالی امداد و عطا میں ماں کے حق کو فوقیت دے۔ ماں باپ کے حقوق کی فہرست بہت طویل ہے بلکہ ان کے مربہ و درجہ کو دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ اولاد اگر اپنی پوری زندگی بھی ان کے حقوق کی ادائیگی میں صرف کر دے تب بھی ان کے تئیں اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی تاہم شریعت نے کچھ چیزیں ایسی بیان کردی ہیں جو زیادہ اہمیت کی ہیں اور جن کا لحاظ ہر صورت میں ہونا چاہیے مثلا سب سے پہلے تو یہ کہ ان کی جائز خواہشات کی تکمیل اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کو لازم جانا جائے اور ان کی رضا و خوشنودی کو اپنے حق میں ایک بڑی سعادت سمجھی جائے اپنی حثییت و استطاعت کے ان کی ضروریات اور ان کے آرام و راحت میں اپنا مال و اسباب خرچ کیا جائے اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے جو ان کی شان کے مطابق ہو اولاد ان کے سامنے تواضع و انکساری اختیار کرے ان کے سامنے ملائمت و نرمی اور خوشامدی و عاجز کا رویہ اپنائے اور جہاں تک ہو سکے ان کی خدمت کرتے تاآنکہ وہ راضی اور خوش ہوں، ان کی اطاعت و فرمانبرداری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، لیکن اطاعت و فرمانبرداری ان ہی امور میں کی جانی چاہیے جو مباح ہوں ان کے ساتھ کوئی ایسا رویہ نہیں اپنانا چاہیے جس سے ان کی شان میں بےادبی و گستاخی ظاہر ہوتی ہو اور نہ ان کے ساتھ تکبر و انانیت کے ساتھ پیش آنا چاہیے خواہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں بات چیت کے وقت اپنی آواز کو ان کی آواز سے اونچی نہ کرے اور نہ ان کا نام لے کر ان کو یاد مخاطب کرنا چاہیے کسی کام میں ان سے پہل نہ کرنا چاہیے اور نہ ان کے مقابلہ پر خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اسی طرح اس بات کو بھی ملحوط رکھنا چاہیے کہ اگر والدین غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں تو ان کے سامنے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کے وقت بھی ادب کو اور نرمی و ملائمت کی راہ اختیار کرنی چاہیے اور ایک دفعہ کہنے پر وہ باز نہ آئیں تو پھر سکوت اختیار کرلیا جائے اور ان کے حق میں دعا و استغفار کرتے رہنا چاہیے اور یہ بات قرآن کی اس آیت سے اخذ کی گئی ہے کہ حضرت ابراہیم کی طرف سے اپنے باپ کے سامنے نصیحت و موعظت کا ذکر ہے۔

【3】

بوڑھے والدین کی خدمت نہ کرنے والے کے حق میں آنحضرت ﷺ کی بد دعا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خاک آلودہ ہو ناک اس شخص کی، خاک آلودہ ہو ناک اس شخص کی، یعنی آپ نے تین مرتبہ گویا یہ بد دعا فرمائی کہ وہ شخص ذلیل خوار ہو پوچھا گیا یا رسول اللہ وہ کون شخص ہے جس کے حق میں بد دعا فرمائی جا رہی ہے آپ نے فرمایا وہ شخص جو اپنے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور پھر جنت میں داخل نہ ہو یعنی جس شخص کے ماں باپ یا دونوں میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی حالت میں ہو اور وہ شخص ان کی خدمت کر کے ان کو راضی نہ کرے تو وہ انتہائی بدقسمت ہے کیونکہ خصوصیت سے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرنا بڑے اجر کی بات ہے اور جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے۔ (مسلم)

【4】

مشرک ماں باپ کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا چاہیے۔

اور حضرت اسماء بنت ابوبکر (رض) کہتی ہیں کہ میری والدہ شرک کی حالت میں مکہ سے مدینہ آئیں جبکہ قریش کے ساتھ صلح کا زمانہ تھا یعنی مدینہ میں میری والدہ کے آنے کا یہ واقعہ اس زمانہ کا ہے جبکہ صلح حدیبیہ کی صورت میں آنحضرت ﷺ اور قریش کے درمیان جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہوچکا تھا اور میری والدہ اس وقت تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئی تھیں چناچہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میری والدہ میرے پاس آئیں ہیں اور وہ اسلام سے بےزار ہیں کیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (بخاری ومسلم)

【5】

صلہ رحم کی اہمیت

اور حضرت عمر بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ابوفلاں کی اولاد میرے دوست نہیں ہیں میرا دوست اللہ ہے یا نیک بخت مومنین البتہ ان لوگوں سے میری قرابت داری ہے جس کو میں تر چیزوں سے تر کرتا رہتا ہوں۔ تشریح ابوفلاں کی اولاد کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے اس ارشاد میں صریح نام لیا تھا کہ راوی نے اس ارشاد گرامی کو بیان کرتے وقت اس نام کو صریح ذکر نہیں کیا بلکہ لفظ ابوفلاں کے ذریعہ اشارہ فرمایا اور صریح ذکر نہ کرنے کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ راوی نے جس موقع پر اس ارشاد گرامی کو بیان کیا اس وقت اس نام کو صراحتہ ذکر کرنے سے کسی فتنہ کے اٹھ کھڑے ہونے کا خوف ہوگا، بخاری ومسلم کے اصل نسخوں میں بھی لفظ ابی کے بعد جگہ کو خالی چھوڑا گیا ہے کسی نام کو صراحتہ ذکر نہیں کیا گیا اور اس کی علت بھی وہی ہے رہی ہے یہ بات کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشاد میں جس نام کو صراحتہ ذکر فرمایا تھا وہ کیا ہے ؟ تو محقیقن نے کہا ہے کہ وہ ابولہب ہے اور بعض حضرات نے ابوسفیان یا حکم بن العاص بیان کیا ہے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا جو مفہوم ہے اس کا تعلق کسی خاص فرد کی اولاد سے نہیں ہے بلکہ آپ کی مراد عمومی طور پر اپنے قبیلہ و خاندان کے افراد ہیں جیسے کہ اہل قریش یا بنو ہاشم اور یا ا نحضرت ﷺ کے چچاؤں کی اولاد۔ میرے دوست نہیں ہیں سے آنحضرت ﷺ کی مراد اس بات کو واضح کرنا تھا کہ اپنے خاندان والوں کے ساتھ میری مالی امداد ومعاونت اور ان کو دینا دلانا اس سبب سے نہیں ہے کہ میں ان کو زیادہ محبوب رکھتا ہوں اور مجھ کو ان سے کچھ زیادہ روحانی و باطنی تعلق ہے بلکہ چونکہ وہ میرے قرابتی ہیں اس لئے میں قرابت کا حق ادا کرنے کے لئے ان کی مالی امداد کرتا رہتا ہوں ورنہ جہاں تک باطنی و روحانی تعلق اور محبت کا سوال ہے تو مجھ کو زیادہ تعلق اور زیادہ محبت اس شخص سے ہے جو مومن صالح ہے خواہ وہ میرا قرابتی ہو یا غیر قرابتی چناچہ میرا دوست اللہ ہے یا نیک بخت مومنین میں نیک بخت سے جنس صلحاء یعنی تمام نیک وبخت مسلمان مراد ہیں اگرچہ بعض حضرات نے حضرت ابوبکر (رض) کو اور بعض حضرات نے حضرت علی (رض) کو مراد قرار دیا ہے۔ جس کو میں تر چیزوں سے تر کرتا رہتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ چونکہ میری قرابت دار ہیں اس لئے میں ان کے ساتھ مدد و تعاون کا سلوک کرتا ہوں اور ان کو مال وغیرہ دیتا رہتا ہوں تاکہ وہ اپنی ضروریات پوری کرسکیں دراصل تری اور نرمی چونکہ متفرق اجزاء اور اشیاء میں جوڑنے اور ملانے کا ایک ذریعہ بنتی ہیں اور اس کے برخلاف خشکی اور سختی چونکہ اشیاء کے باہمی افتراق و انتظار کا سبب بنتی ہے اس لئے اہل عرب اپنے کلام میں بطور استعارہ لفظ بل یعنی تری اور نرمی کو صلہ رحم، ناتا جوڑنے کے معنی میں اور یبس یعنی خشکی کو ناتا توڑنے اور ترک تعلق کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔

【6】

والدین کو تکلیف پہنچانا حرام ہے

اور حضرت مغیرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم پر اس امر کو حرام قرار دیا ہے کہ ماں کی نافرمانی کر کے اس کا دل دکھا جائے لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جائے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ فقر محتاجی اور عار کے خوف سے لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے اور بخیلی و گدائی اختیار کی جائے نیز قیل وقال سوال کی زیادتی اور مال ضائع کرنے کو تمہارے لئے مکروہ قرار دیا جائے۔ (بخاری ومسلم) تشریح خاص طور پر ماں کا ذکر کرنا اس سبب سے ہے کہ اولاد پر ماں کے حقوق باپ سے زیادہ ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ ماں کا حق باپ سے تین گنا ہے یا اس تخصیص کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ ماں طبعی طور پر باپ سے زیادہ حساس اور کمزور دل ہوتی ہے باپ تو اولاد کی بڑی سے بڑی اذیت رسانی کو برداشت کرلیتا ہے لیکن ماں اپنی اولاد کی طرف سے ذرا سی بات میں رنجیدہ ہوجاتی ہے اگر اولاد اس کے حقوق کی ادائیگی اور اطاعت و فرمانبرداری کرنے میں معمولی بھی غفلت و کوتاہی کرتی ہے تو اس کا دل فورا متاثر ہوجاتا ہے اور سخت تکلیف محسوس کرتی ہے اور یہ بات ہے کہ اولاد کی تقصیر و کوتاہی سے جس قدر ماں درگزر کرتی ہے اتنا درگزر باپ نہیں کرتا اور اس کا سبب بھی ماں کا کمزور دل ہونا ہے۔ منع یا منع کے معنی روکنے کے ہیں اور اس سے مراد بخیل اور کنجوسی ہے۔ ھات دراصل لفظ اٰت کے معنی میں ہے جو ایتاء کا صیغہ امر ہے اور جس کے معنی ہیں لاؤ دو یہاں لفظ کو مانگنے کے اور سوال کرنے یعنی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے علماء نے لکھا ہے کہ منع و ھات سے مراد یہ ہے کہ اپنے مال پر دوسرے لوگوں کا جو حق واجب ہو تو اس کو ادانہ کرے اور دوسروں کے مال میں سے وہ چیز لے جو اس کے لئے حلال نہیں بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ نہ صرف مال میں منع وہات کو حرام قرار دیا گیا ہے بلکہ ہر طرح کے حقوق واجبہ کو ادا نہ کرنا حرام ہے اور ان کا تعلق خواہ مال و ذر سے ہو یا افعال و احوال سے اور خواہ قوال و گفتار سے ہو اخلاق و کردار سے اسی طرح کسی ایسی چیز کا مطالبہ کرنا اور مانگنا جو دوسروں پر کسی بھی طرح کے حق کے طور پر واجب نہ ہو اور دوسروں کو کسی ایسی چیز کی ادائیگی و انجام دہی کی محنت و کلفت میں مبتلا کرنا جو ان پر واجب نہیں ہے حرام ہے۔ قیل وقال یہ ایک محاورہ ہے جو ہماری زبان میں بھی اسی طرح مستعمل ہے اس کا اطلاق عام طور پر بےفائدہ بحث و مباحثہ، رد و کد اور حجت و تکرار پر ہوتا ہے یہاں حدیث میں بھی قیل و قال کو مکروہ قرار دینے کا مطلب بےفائدہ باتیں کرنے اور بک بک لگانے سے منع کرنا ہے جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ جب بےفکر لوگ کہیں آپس میں مل بیٹھتے ہیں تو ادھر ادھر کی لایعنی باتوں میں لگ جاتے ہیں نہ کسی گفتگو کا کوئی بامقصد موضوع ہوتا ہے اور نہ کسی بات کا کوئی دینی و دنیاوی فائدہ ان کی بات چیت کا زیادہ تر موضوع غلط و سلط واقعات کو نقل کرنا اور جھوٹے سچے اقول کو بیان کرنا ہوتا ہے چناچہ جب کوئی شخص کہ فلاں شخص نے ایسا ایسا کہا فلاں آدمی نے اس طرح کہا تو فلاں شخص نے یوں جواب دیا غرضیکہ اسی طرح کے بےسروپا اور لغو باتیں کر کے اور گب شب میں مشغول رہ کر وقت جیسی قابل قدر شئے کو ضائع کرتے رہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ قیل و قال کی ممانعت اس صورت میں ہے جب کہ اس بحث و مباحثہ اور باہمی بات چیت کا مقصد کسی مسئلہ معاملہ کی تحقیق اور حصول معلومات نہ ہوں ہاں اگر کسی معاملہ کی تحقیق حصول معاملہ میں اور دوسرے نیک مقصد کے لئے باتوں میں مشغول رہا جائے اور لوگوں کے اقوال بیان کئے جائیں تو اس پر مذکورہ ممانعت کا اطلاق نہیں ہوگا بعض حضرات نے قیل قال کی مراد بہت زیادہ باتیں کرنا اور لکھنا ہے اور واضح کیا ہے کہ بہت زیادہ باتیں کرنا دل پر غفلت و مردنی طاری کرتا ہے بےحسی اور لاپرواہی میں مبتلا کرتا ہے اور وقت کو ضائع کرتا ہے۔ کثرۃ السوال یعنی سوال کی زیادتی کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ دوسرے لوگوں کے احوال و معاملات کی بہت زیادہ پوچھا یا پاچھی اور تجسس معلومات کرنا دوسرے کے یہ اپنے علم کی برتری کو ظاہر کرنے یا کسی کو امتحان و آزمائش میں مبتلا کرنے یا لاحاصل بحث و مناظرہ کی خاطر بہت زیادہ علمی سوالات کرنا اور کسی بات کو بہت زیادہ گھما پھرا کر پوچھنا اور تیسرے یہ کہ اس ممانعت کے مخاطب خاص طور پر صحابہ تھے جنہیں اس بات کی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ دینی احکام و مسائل میں آنحضرت ﷺ سے زیادہ سوالات نہ کریں اور نہ ادھر ادھر کے معاملات میں آپ سے پوچھ پاچھ کیا کریں کیونکہ سوالات کی زیادہ کثرت اور غیر ضروری پوچھا پا چھی کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ آنحضرت ﷺ کی طبیعت ناگوار ہوتی ہے بلکہ زیادہ پوچھنا احکام و مسائل میں شدت و سختی اور مزید پابندیوں کا سبب بھی بن سکتا ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا آیت (لاتسئلو عن اشیاء) ۔ اضاعۃ المال یعنی مال کو ضائع کرنے سے مراد یہ ہے کہ اپنے مال اور اور اپنے روپے کو اسراف یعنی فضول خرچیوں میں بہایا جائے یا اس کو ایسی جگہ خرچ کیا جائے جس کا حق تعالیٰ کی طاعت و خوشنودی سے کوئی تعلق نہ ہو جیسے کوئی شخص اپنا سارا مال اور روپیہ یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرے شخص کو دیدے مگر اس کے وہ عزیز و اقا رب اور متعلقین محروم رہیں جو نہ صرف اپنے تعلق کی وجہ سے بلکہ اپنے احتیاج و ضرورت کی بنا پر بھی اس کے مال اور روپیہ اور پیسہ پر اپنا حق رکھتے ہوں یا کوئی شخص اپنے مال و اسباب اور دولت کو پانی میں ڈال دے یا نذر آتش کر دے اور یا کسی ایسے فاسق کو دیدے جو اس کو گناہ و معصیت کے کاموں میں خرچ کرے۔ اضاعۃ المال کے مذکورہ بالا مسئلہ کو زیادہ تفصیل کے ساتھ یوں سمجھنا چاہیے کہ اپنے مال و دولت اور روپیہ پیسہ کو جہاں کرچ کرنا ہے حرام یا مکروہ ہے وہاں اپنے مال اور روپیہ پیسہ کو صرف بلاشبہ اسراف اور ضائع کرنا کہلائے گا لیکن یہ دونوں صورتوں میں بالکل واضح ہیں اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں اشتباہ اس جگہ ہے جہاں کرچ کرنا بظاہر معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اچھی طرح غور و فکر کیا جائے تو اس خرچ کے نتیجہ سے برائیاں اور ظاہری باطنی خرابیاں نکلتی ہیں مثلا بلا ضرورت دور دراز کے علاقوں میں مکانات بنوانا، مکانات میں بےضرورت تعمیر و ترمیم کر کے ان کو وسیع کرنا اور ان کی نار وا آرائش و زیبائش کرنا اور اس کی خاطر مال خرچ کرنا جہاں جس قدر خرچ کرنے کی ضرورت ہو وہاں اس سے زائدخرچ کرنا، محض نفس و طبعیت کے حظ اور مزہ لذت حاصل کرنے کے لئے حد اعتدال سے زیادہ اچھے اچھے کھانے کھانا بڑائی جتانے اور اپنے کو برتر ثابت کرنے کے لے اعلی پوشاک پہننا اور اپنی شان و شوکت کو ظاہر کرنے کے لئے اونچے درجہ کی طرف معاشرت اختیار کرنا اور ان سب صورتوں میں فقراء مساکین اور مفلس وقلاش لوگوں کی ضروریات سے صرف نظر کرنا اور ان کی خستہ حالی و محتاجگی کی قطعا کوئی رعایت نہ کرنا جیسا کہ خالص دنیا دار اور فضول خرچ کرنے والوں کا شیواہ ہے یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر اپنا مال اور روپیہ پیسہ خرچ کرنا اگرچہ شریعت کے ظاہری حکم کی روشنی میں حرام قرار نہ پائے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس طرح کے اخراجات قلب و طبیعت پر تنگی و سختی اور بےمروتی طاری ہونے کا سبب بنتے ہیں اس صورت حال سے سماج و معاشرہ میں غیر فطری عدم توازن و ناہمواری کی فضا بھی پیدا ہوجاتی ہے جس سے مختلف قسم کی برائیوں ظہور میں آتی ہیں۔ اسی طرح برتن باسنوں ہتھیاروں اور استعمال میں آنے والی دوسری چیزوں کو سونے جواہرات اور دیگر قیمتی اشیاء سے مزین کرنا، خریدو فروخت کے معاملات میں اس طرح لاپرواہی برتنا کہ نہ تو مال کے ڈوبنے کا خوف ہو جیسے ادھار لین دین کی مدت کو ضرورت سے زائد بڑھانے اور نہ اپنے روپے پیسے کی حفاظت کا لحاظ ہو جیسے ایسی تجارت یا معاملہ میں اپنا روپیہ لگانا جس میں نقصان کا یقین ہو یا کسی چیز کو خواہ مخواہ بلاضرورت گراں قیمت پر خریدنا اس طرح کی چیزیں بھی اسراف یعنی فضول خرچی اور اپنے مال کو ضائع کرنے کے حکم میں داخل ہیں۔

【7】

دوسروں کے ماں باپ کو برا کہہ کر اپنے ماں باپ کو برا نہ کہلواؤ

اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے ماں باپ کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے صحابہ (رض) نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں کبھی کبھار تو حقیقت میں بھی کوئی جاہل شخص اپنے ماں باپ کو گالی بک دیتا ہے اور یہ تو اکثر ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ماں باپ کو اگرچہ حقیقت خود گالی نہیں دیتے مگر ان کو گالی دلوانے کا سبب ضرور بنتے ہیں اور وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور اگر کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔ (بخاری) تشریح اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ اپنے ماں باپ کو گالی دینا اور برا بھلا کہنا تو گناہ کبیر ہے ہی لیکن جو شخص کسی کے ماں باپ کو گالی دے کر اپنے ماں باپ کو گالی دینے اور ان کو برا بھلاکہلوانے کا سبب بنے وہ بھی گناہ کبیرہ کا مرتکب قرار پایا جائے کیونکہ اگر وہ اس شخص کے ماں باپ کو گالی نہ دیتا تو وہ شخص بھی اس کے ماں باپ کو گالی نہ دیتا لہذا جب وہ اپنے ماں باپ کو گالی دینے کا باعث بنا تو گویا اس نے خود کو گالی دی اور ماں کو گالی دینا عقوق والدین یعنی نافرمانی اور تمردد و سرکشی میں داخل ہے جو حرام ہے۔ گر مادر خویش دوست داری وشنام مدہ بمادر من مذکورہ بالا حدیث سے یہ مسئلہ بھی نکلا کہ اگر کوئی شخص کسی فسق و معصیت کا سبب و ذریعہ بنے گا تو اس کا شمار بھی فسق و معصیت کے مرتکب کی حثییت سے ہوگا اور درجہ کا گناہ گار بھی ہوگا۔

【8】

باپ کے دوستوں کے حسن سلوک واحسان کی اہمیت

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے اعلی نیکیوں میں ایک اعلی نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باپ کے مرنے کے بعد یا اس کی غیر موجودگی میں اس کے دوستوں کے ساتھ احسان و سلوک کرے۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کا باپ مرگیا ہو یا سفر پر گیا ہو تو اس کے دوستوں کے ساتھ احسان و مروت کا معاملہ کرنا اور حسن سلوک کا برتاؤ کرنا گویا اپنے باپ کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرنا ہے اور اس کا یہ معاملہ چونکہ اپنے باپ کی غیر موجودگی میں ہوگا اس لئے وہ بہترین اور اعلی نیکی کرنے والا شخص شمار ہوگا۔ حدیث شریف میں صرف باپ کے دوستوں کا ذکر کرنا اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ماں کی سکھیوں سہلیوں کے ساتھ احسان و حسن سلوک کا بدرجہ اولی ایک بہترین نیکی ہوگا۔

【9】

رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک فراخی رزق اور درازی عمر کا ذریعہ ہے

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت و فراخی اور اس کی موت میں تاخیر کی جائے یعنی اس کی عمر دراز ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اثر اصل میں پیروں کے اس نشان کو کہتے ہیں جو چلتے وقت زمین پر پڑتا ہے اور وہ نشان گویا زندگی کی علامت ہوتا ہے جو شخص مرگیا اس کا نشان قدم زمین پر نہیں پڑا اس اعتبار سے عرب میں مدت عمر کو اثر کہا جانے لگا۔ حدیث کے اس جملہ اس کے رزق میں وسعت فراخی اور اس کی موت تاخیر کی جانے کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہ اسلامی عقیدے میں رزق کا تعلق تقدیر سے ہے کہ جس شخص کے مقدر میں جس قدر رزق لکھ دیا گیا ہے اس کو اسی قدر ملے گا اس میں نہ کمی ہوسکتی ہے اور نہ زیادتی ہوسکتی ہے اور اسی طرح موت کا وقت بھی متعین ہے جس کی موت کا جو وقت کاتب تقدیر نے لکھ دیا ہے اس وقت سے نہ ایک لمحہ پہلے موت آسکتی ہے اور نہ ایک لمحہ بعد جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے، آیت (فاذا جاء اجلھم لایستاخرون ساعۃ ولایستقدمون) ۔ پھر جب وہ میعاد ختم ہوگی یعنی عمر پوری ہوگی اس وقت نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں گے اور نہ آگے بڑھیں گے۔ لہذا اس واضح عقیدے کی روشنی میں حدیث کے مذکورہ بالا جملے کے معنی کیا ہوں گے اس کا جواب یہ ہے کہ رزق میں وسعت فراخی اور درازی عمر سے مراد رزق میں برکت کا محسوس ہونا، شب و روز کا خوشی و مسرت اور اطمینان و سکون کے ساتھ گزرنا عمر کے بیشتر لمحات کو طاعات و عبادات کی زیادہ سے زیادہ توفیق حاصل ہونا اور قلب کو نورانیت اور باطن کو صفائی و پاکیزگی کا نصیب ہونا ہے یا درازی عمر سے مراد دنیا جہان میں نام کو نیک بقا حاصل رہنا ہے یا یہ کہ درازی عمر سے اولاد صالح مراد ہے جو اپنے ماں باپ کے مرنے کے بعد اس کے حق میں دعا و مغفرت اور ایصال ثواب کرتی ہے اور اس کے نیک نام کو باقی رکھتی ہے اس لئے کہا گیا ہے کہ بقائے اولاد مردہ کے لئے پیدائش ثانی ہے یعنی صاحب اولاد شخص مرنے کے بعد بھی اس اولاد کی صورت میں ایک طرح سے اپنا وجود باقی رکھتا ہے۔ اور اگر زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ رزق و عمر کے بارے میں مذکورہ بالا عقیدہ اور حدیث کے مفہوم کے درمیان کوئی ایسا تضاد نہیں ہے جس کو دور کرنے کے لئے دقیق تاویلات اختیار کی جائیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ نے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرنے کو فراخی و رزق اور درازی عمر کا سبب قرار دیا ہے جیسا کہ اس نے ہر چیز کے لئے کوئی نہ کوئی سبب ضرور پیدا کیا ہے چناچہ وہ جس کے رزق میں وسعت، فراخی اور عمر درازی کرنا چاہتا ہے اس کو رشتہ داروں کے تئیں ادائے حقوق کی توفیق بخش دیتا ہے اور یہ بات ایسی نہیں ہے کہ جس کو تقدیر الٰہی میں ترمیم و تغیر کا نام دیا جائے زیادہ سے زیادہ اس بات کو خلق کی نسبت سے محو سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جیسے لوح محفوظ میں لکھ دیا جاتا ہے کہ فلاں شخص کی عمر ساٹھ سال کی ہے لیکن اگر یہ شخص اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے تو اس کی عمر چالیس سال کا اضافہ ہوجائے۔ اس مسئلہ میں بحث کی خاطر علمی اور تحقیقی طور پر بہت سی باتیں کہی جاسکتی ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ صرف شارع نے جو بیان کردیا ہے اور جس طرح فرمایا ہے بس اسی پر ایمان اور اعتقاد رکھا جائے نہ کہ بحث و مباحثہ کے ذریعہ شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں چناچہ سعادت کی نشانی میں ہے کہ اس طرح کی چیزوں کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے جتنا ارشاد فرما دیا ہے اسی کو اختیار کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور دور دراز کی بحثوں اور تحیقی موشگافیوں میں الجھ کر اپنے ذہن و فکر کو بوجھل نہ بنایا جائے۔

【10】

صلہ رحمی کی اہمیت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا یعنی اللہ نے تمام مخلوقات کو ان کی پیدائش سے پہلے ان صورتوں کے ساتھ اپنے علم ازلی میں مقدر کردیا جن وہ پیدا ہوں گے جب اس سے فارغ ہوا تو رحم یعنی رشتہ ناتا کھڑا ہو اور پروردگا کی کمر تھام لی، پروردگار نے فرمایا کیا چاہتا ہے ؟ رحم نے عرض کیا کہ یہ کاٹے جانے کے خوف سے تیری پناہ کے طلبگار کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے یعنی میں تیرے روبرو کھڑا ہوں اور تیرے دامن عزت و عظمت کی طرف دست سوال دراز ہوں تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتا ہوں کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن عزت و عظمت کی طرف دست سوال دراز کئے ہوئے ہوں تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتا ہوں کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن کو جوڑنے کے بجائے اس کو تار تار کر دے۔ پروردگار نے فرمایا کہ تو اس پر راضی نہیں ہے کہ جو شخص رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک کا ذریعہ) تجھ کو قائم رکھے اور اس کو میں بھی اپنے احسان و انعام اور اجر و بخشش کے ذریعہ قائم برقرار رکھوں گا اور جو شخص رشتہ داری کے تعلق کو پامالی کا ذریعہ تجھ کو منقطع کر دے میں بھی اپنے احسان و انعام کا تعلق اس سے منقطع کرلوں ؟ رحم نے عرض کیا کہ پروردگار بیشک میں اس پر راضی ہوں پروردگار نے فرمایا اچھا تو یہ وعدہ تیرے لئے ثابت و برقرار ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح جب اس سے فارغ ہوا کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ مخلوقات کو پیدا کرچکا اگرچہ ظاہری طور پر ان دونوں جملوں میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن اس میں ایک لطیف نکتہ ہے کہ لغوی طور پر فراغت کا حقیقی مفہوم اپنے تحقق کے لئے پہلے اشتغال کا متقاضی ہوتا ہے یعنی فراغت کا مفہوم اس صورت پر صادق آتا ہے کہ جب کسی کام میں مشغولیت رہی ہو اور اس کام کے علاوہ دیگر امور سے باز رکھتی ہے اس لئے کہا جائے گا کہ جب اس سے فارغ ہوا میں فراغت اپنے اس حقیقی مفہوم میں استعمال نہیں ہوا ہے کیونکہ حق تعالیٰ اس سے پاک منزہ ہے کہ اس کو ایک کام دوسرے کام سے باز رکھے جیسا کہ ایک دعائے ماثورہ میں یوں آیا ہے، سبحان من لا تشغلہ شان عن شان، ،۔ حقو دراصل اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں ازار باندھا جائے اور چونکہ ازار کو باندھنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس کے دونوں کناروں کو ملا کر باندھنا اس اعتبار سے یہاں اس لفظ کا تثنیہ استعمال کرتے ہوئے بحقوی الرحمن فرمایا گیا یعنی وہ جگہ جہاں ازار کے دونوں کنارے باندھے جاتے ہیں ویسے لفظ، حقو، کا اطلاق خود ازار باندھنے کی جگہ اور کمر جیسی چیزوں سے پاک ومنزہ ہے اس لئے یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ یہ جملہ اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہے بلکہ اہل عرب کے ایک مخصوص اور اپنے بیان کا مظہر ہے اور یہاں جس بات کو بیان کرنا مقصود تھا ان کو انہی کے طرز کلام کی مثالی صورت میں واضح کیا گیا ہے چناچہ اہل عرب کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے کی پناہ میں آنا چاہتا یا اس کی مدد کا خواہاں ہوتا جو اس کو سخت اضطراب و پریشانی میں ڈالنے والی ہوتی اور وہ پناہ یا مدد چاہنے کی اپنی ضروریات کو زیادہ اہمیت رکھتا اور تاکید کے ساتھ ظاہر کرنا چاہتا تو جس کی پناہ یا مدد درکار ہوتی اس کے حقو ازار پر دونوں ہاتھ مارتا تاکہ وہ اس کی طرف متوجہ ہوجائے اور یہ پوچھنے پر مجبور ہو کہ تیرا مقصد کیا ہے اور مجھ سے کیا چاہتا ہے چناچہ رشتہ ناطے کا اپنے کاٹے جانے سے اللہ کی پناہ مانگنے کے مفہوم ہے جو کسی انسان کو پکڑنے کا ہوتا ہے یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اہل عرب کے ہاں جب کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یداہ مبسوطتان یعنی اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں تو اس سے مراد اس کی نہایت سخاوت و فیاضی کو ظاہر کرنا ہوتا ہے خواہ وہ واقعتا ہاتھوں والا ہو یا خلقی طور پر سرے سے اس کے ہاتھ ہی نہ ہوں اور خواہ وہ ایسی ذات ہو جس کے لئے ہاتھوں کا وجود ہی محال ہو جیسے حق تعالیٰ کی ذات حاصل یہ ہے کہ اس طرح کے طرز کلام اہل عرب میں محاورہ کے طور پر بہت مستعمل ہیں جن کے الفاظ اپنے حقیقی معنی کو ادا کرنے کے بجائے دوسرے مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور چونکہ قرآن کریم کا نزول اور احادیث نبوی کا صدور اہل عرب ہی کے طرز کلام پر اور اسلوب بیان کے مطابق ہوا ہے اس لئے قرآن و حدیث کے ایسے مقام کہ جہاں اس طرح کے جملے آتے ہیں اور جن پر متشابہات کا اطلاق ہوتا ہے اور ان کی تاویل وضاحت کے لئے یہ بات ایک بنیاد کی حثییت رکھتی ہے ویسے اس امر کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ رحم یعنی رشتہ و ناطہ کوئی ذات و جسم تو ہے نہیں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر حق تعالیٰ سے پناہ کا طلبگار ہو بلکہ حقیقت میں وہ ایک معنی ہے لہذا اس کے لئے کھڑے ہونے اور پناہ چاہنے کے الفاظ استعمال کرنا بطور تشبیہ و تمثیل ہی ہوسکتا ہے جس سے اس بات کو واضح کرنا مراد ہے کہ رحم گویا ایک ہستی یا ایک ایسے شخص کی طرح ہے جو کھڑا ہو اور حق تعالیٰ کی عزت و عظمت اور اس کی کبریائی کا دامن پکڑ کر پناہ کا طلب گار ہو۔ اسی طرح کی بات نووی نے بھی بیان کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ رحم جس کو جوڑا جاتا ہے یا کاٹا جاتا ہے کوئی ذات یا جسم نہیں ہے بلکہ معانی میں سے ایک معنی ہے جو نہ کھڑا ہوسکتا ہے اور نہ اس سے کلام و گفتگو ہوسکتی ہے لہذا اس کے بارے میں مذکورہ ارشاد کی مراد دراصل رحم یعنی ناطے کی اہمیت کو ظاہر کرنا، ناطے کو جوڑنے والے کی فضیلت کو بیان کرنا اور ناطے کی مذمت کرنا ہے کیونکہ ناطے کو جوڑنا فی الجملہ واجب ہے اور اس کو توڑنا گناہ کبیرہ ہے اگرچہ صلہ رحم کے درجات متعین کردیئے گئے ہیں جن میں سے بعض کو زیادہ اہمیت اور برتری حاصل ہے اور سب سے ادنیٰ درجہ ترک مہاجرت یعنی میل ملاقات کو اختیار کرنا ہے کیونکہ صلہ رحم کا ایک ذریعہ کلام و ملاقات بھی ہے اگرچہ وہ محض سلام کی حد تک ہو۔ واضح رہے کہ صلہ رحم کے ان درجات کے درمیان تفاوت و اختلاف کی بنیاد مواقع و حالات اور ضرورت قدرت کے مختلف ہونے پر ہے چناچہ بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں رشتہ داری کے تعلق کی رعایت اور رشتہ داروں سے نیک سلوک کی زیادہ اہمیت و ضرورت ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں زیادہ اہم ہے اور بعض میں مستحب لہذا اگر کسی شخص نے ناتا جوڑنے کے حق کو جزوی طور پر ادا کیا اور اس کو پورے طور پر ادا نہیں کرسکتا تو اس کو ناتا توڑنے والا نہیں کہیں گے لیکن اگر کسی شخص نے رشتہ داری کے حقوق میں سے کسی ایسے حق کو پورا کرنے میں کوتاہی کی جس کو پورا کرنے پر وہ قادر تھا نیز اس حق کو پورا کرنا اس لئے مناسب بھی تھا تو اس شخص کو ناتا جوڑنے والا کہا جائے گا۔

【11】

ناتا توڑنے والا اور رحمت خداوندی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رحم کا لفظ رحمن کے لفظ سے نکلا ہے چناچہ اللہ نے رحم یعنی رشتہ ناطے سے فرمایا کہ جو شخص تجھ کو جوڑے گا یعنی تیرے حق کو ملحوظ رکھے گا میں بھی اس کو اپنی رحمت کے ساتھ جوڑ دوں گا اور جو شخص تجھ کو توڑے گا یعنی تیرے حق کا لحاظ نہیں کرے گا میں بھی اس کو توڑ دوں گا یعنی ایسے شخص کو اپنی رحمت سے محروم کروں گا۔ (بخاری) تشریح لفظ رحم رحمن سے نکلا ہے کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں یوں ہے کہ اللہ نے فرمایا میں نے رحم یعنی ناطے کو پیدا کیا اور اس کے نام کا لفظ یعنی رحم اپنے نام یعنی رحمن کے لفظ سے نکالا اور یہ احتمال بھی ہے کہ حدیث میں ان دونون لفظ یعنی رحم اور رحمن کے معنی مراد ہوں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ رحم کی قرابت یعنی ذوالارحام جیسے ماں باپ اور بہن بھائی وغیرہ کہ جس کے حق کا لحاظ کرنا واجب ہے رحمن یعنی اللہ کی رحمت کی ایک شاخ ہے۔ اور بعض شارحین نے لغت کی کتابوں کے حوالہ سے لکھا ہے کہ شجنہ اصل میں درخت کے ان ریشوں اور ٹہنیوں کو کہتے ہیں جو اپنی جڑ کے ساتھ پیوست ہوں لہذا اس حدیث میں اس لفظ کے ذریعہ یہ بتانا مقصود ہے کہ رحم رحمن سے نکلا ہے یا یوں کہا جائے کہ رحم کا لفظ رحمت سے مشتق ہے کہ جس طرح درخت کے ریشے اپنی جڑوں کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں اسی طرح گویا رحم، رحمن کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ اور بعض حضرات نے لفظ شجنہ کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اس لفظ کے ذریعہ اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ لفظ رحم میں جو حروف ہیں وہ حق تعالیٰ کے اسم رحمن میں بھی موجود ہیں چونکہ رحمن اور رحم کی اصل مادہ اشتقاق ایک ہی ہے یعنی رحمۃ اس لئے رحم اور رحمن ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ کسی درخت کی ٹہنیوں کو اس کی جڑ سے الگ نہیں کیا جاسکتا اس طور پر یہ حدیث کے معنی ہوں کہ رحم یعنی ناتا دراصل اللہ کی رحمت کے آثار میں سے ایک اثر ہے اور اس کے ساتھ مربوط ہے لہذا صلہ رحم کے حقوق یعنی ناتا داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی ذمہ داری کو اپنے سے منقطع کرنے والا اپنے آپ کو رحمت رحمت الٰہی سے منقطع کرنے والا ہے اور ناطے کو جوڑنے والا یعنی ناطے داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا اللہ کی رحمت کے ساتھ اپنے کو جوڑنے والا ہے جیسا کہ خود حدیث میں فرمایا گیا ہے۔

【12】

ناتا توڑنے والا اور رحمت خداوندی

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رحم یعنی ناتا عرش سے لٹکا ہوا ہے اور بطریق دعا یا خبر دینے کے طور پر کہتا ہے کہ جو شخص مجھ کو جوڑے گا اس کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے ساتھ جوڑے گا اور جو شخص مجھ کو توڑے گا اللہ اس کو اپنی رحمت سے جدا کرے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح عرش سے لٹکا ہوا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ وہ عرش کا پایہ پکڑے ہوئے اپنے توڑے جانے سے بارگاہ کبریا کی پناہ کا طلب گار ہے اور اس نے اپنے حق میں اللہ سے جو کچھ سنا ہے اس کے مطابق کو خبردار کر رہا ہے کہ اگر مجھ کو جوڑو گے یعنی ناطے داری کے میرے حقوق کو ادا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت کے ساتھ منسلک کرے گا اور اگر تم مجھ کو توڑو گے یعنی میرے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرو گے تو اللہ تمہیں اپنی رحمت سے دور کرے گا۔ یا تقول کا مطلب یہ ہے کہ ناتا یہ جو کچھ کہتا ہے وہ دعا کے طور پر ہے یعنی وہ عرش الٰہی کا پایہ تھامے ہوئے دعا کر رہا ہے کہ الٰہی جو شخص مجھ کو جوڑے اس کو تو اپنی رحمت کے ساتھ جوڑ دے اور جو شخص مجھ کو منقطع کرے اس کو تو اپنی رحمت سے منقطع کر دے۔

【13】

قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا

اور حضرت جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قطع رحم کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (بخاری ومسلم) تشریح نووی نے ارشاد گرامی کی یہ مراد بیان کی ہے کہ جو شخص یہ جاننے کے باوجود کہ قطع رحم کرنا یعنی ناطے داری کا حق ادا نہ کرنا حرام ہے نہ صرف یہ کہ بغیر کسی سبب و عذر کے قطع رحم کرے اور بغیر کسی شبہ و وجہ کے قطع رحم کرنے کو حلال بھی جانے تو وہ جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا یا یہ مراد ہے کہ قطع رحم کرنے والا نجات یافتہ اور اولین لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

【14】

اقرباء کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا کامل ترین جذبہ

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کامل صلہ رحم کرنے والا شخص وہ نہیں ہے جو بدلہ چکائے بلکہ کامل صلہ رحم کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی قرابت کو منقطع کیا جائے تو وہ اس قرابت کو قائم رکھے۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اس قرابت دار کے ساتھ بدلہ کے طور پر احسان اور نیک سلوک کرنا چاہے جس نے اس کے ساتھ احسان اور نیک سلوک کیا ہے تو اس کو حقیقی معنی میں صلہ رحمی نہیں کہیں گے بلکہ احسان چکانا کہیں گے ہاں اگر اس نے ایسے قرابت دار کے ساتھ احسان اور نیک سلوک کیا جس نے خود اس کی قرابت کا کوئی لحاظ نہیں رکھا ہے اور کبھی اس کے ساتھ کوئی احسان اور نیک سلوک کیا تو اس کا حسان ونیک سلوک بیشک کامل صلہ رحم کہلائے گا اور اس سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کا کامل ترین جذبہ وہ ہے جس کی بنیاد بدلہ چکانے پر نہ ہو بلکہ محض حق شناسی اور حق ادائیگی کے احساس پر ہو خواہ خود اس کا حق کسی نے ادا کیا ہو یا نہ کیا ہو چناچہ علماء نے لکھا ہے کہ جوان مرد وہی شخص ہے جو اپنا حق کسی سے طلب نہ کرے اور خود دوسروں کا حق ادا کرے۔

【15】

اقرباء کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا کامل ترین جذبہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے کچھ قرابت دار ایسے ہیں تو ان کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ نیک سلوک نہیں کرتے، ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں میں ان کے ساتھ حلم و بردباری اور درگزر کا رویہ اختیار کرتا ہوں اور وہ مجھ سے جہالت کے ساتھ پیش آتے ہیں یعنی مجھے برا بھلا کہتے ہیں اور مجھ پر غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہیں اس کی یہ باتیں سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم ایسے ہی ہو جیسا کہ تم نے بیان کیا تو گویا تم ان کو گرم راکھ پھکاتے ہو اور تمہارے ساتھ اللہ کی طرف سے ہمیشہ مدد و نصرت ہے جوان کی ایذاء اور ان کے شر سے تمہاری محافظ ہے جب تک تم اسی صفت پر قائم ہو۔ (مسلم) تشریح راکھ پھکاتے سے مراد یہ ہے کہ تمہارے وہ قرابت دار چونکہ تمہارے نیک سلوک کے قدر دان نہیں ہیں اور تمہاری نیکی کا شکریہ ادا نہیں کرتے اس لئے تم ان کو جو کچھ دیتے ہو وہ ان کے حق میں حرام مال کا حکم رکھتا ہے اور تمہاری دی ہوئی چیزیں ان کے پیٹ میں آگ کی طرح ہیں گویا آپ نے ان قرابت داروں کے اس گناہ کو گرم راکھ کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو ان چیزوں کو کھانے کی وجہ سے ان کو لاحق ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے یہ مراد بیان کی ہے کہ تم ان کے برتاؤ کے علم الرغم، ان کے ساتھ احسان و سلوک کر کے ان کو خود ان کے نفس کے سامنے ذلیل و رسوا کرتے ہو جیسا کہ کوئی شخص اگر گرم راکھ منہ میں ڈالے اور اس کو پیٹ میں اتارے تو اس کا نفس اس کو لعنت و ملامت کرتا ہے بعض شارحین نے یہ بیان کیا ہے کہ ان کے ساتھ تمہارا احسان گویا ان کے حق میں گرم راکھ ہے جو ان کو جلاتا ہے اور ہلاک کرتا ہے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ تمہارا احسان ان کا منہ کالا کرتا ہے جیسا کہ گرم راکھ کسی چہرے کو جلا کر سیاہ کر دے۔

【16】

والدین اور اقرباء کے ساتھ حسن سلوک درازی عمر کا سبب ہے

اور حضرت ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تقدیر الٰہی کو دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں بدلتی اور عمر کو دراز کرنے والی چیز نہیں کوئی علاوہ والدین اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک اور یاد رکھو انسان کو جس سبب سے روزی سے محروم کیا جاتا ہے وہ صرف گناہ ہے جس کا وہ مرتکب ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ) تشریح تقدیر سے مراد تقدیر معلق ہے نہ کہ قضائے مبرم جو اٹل اور ناقابل ترمیم و تبدیل ہوتی ہے لہذا اللہ نے دعا کو جس تقدیر کے بدل دینے کے سبب گردانا ہے وہ تقدیر معلق ہے اور یہ بات بذات خود تقدیر الٰہی ہے یعنی اللہ نے یہ مقدر کیا ہے کہ اگر بندہ دعا کرے گا تو اس کی مصیبت دور ہوجائے گی چناچہ عالم کے تمام اسباب وسائل قضا قدر الٰہی کے باوجود یہی حکم رکھتے ہیں جیسا کہ حصول شفا کے لئے علاج معالجہ اور دوائیں یا جنت دوزخ میں جانے کے لئے بندوں کے اعمال وغیرہ وغیرہ۔ بعض حضرات نے یہ تاویل کی ہے کہ بندہ کا دعا تدبیر میں برابر مشغول رہنا، تقدیر کے فیصلہ کو قبول کرنا آسان بنا دیتا ہے اور قسمت کے لکھے پر اس کا دل مطمئن و راضی ہوجاتا ہے یعنی جب بندہ اپنی کسی مشکل میں پھنس کر یا کسی تکلیف سے دوچار ہو کر دعا کرنے میں مشغول رہتا ہے اور پھر آخرکار دیکھتا ہے کہ اب کوئی دعا اور تدبیر کام نہیں کرے گی اور تقدیر کا لکھا اٹل ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ ہو کر رہے گا تو وہ قسمت کے آگے سپر ڈال دیتا ہے اور اپنی تقدیر پر راضی ہوجاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تقدیر وہ فیصلہ اس کے لئے آسان و سبک ہوجاتا ہے اور اس کے دل پر بوجھ ہٹ جاتا ہے اس کے برخلاف اگر اس کی تقدیر کا فیصلہ اس کے سامنے یکایک آنے اور ہونے والی بات ناگہاں اس پر نازل ہوجائے کہ نہ تو اس کو دعا میں مشغول ہونے کا موقع مل سکے اور نہ کسی تدبیر پر عمل کرنے کی مہلت مل سکے تو تقدیر کا وہی فیصلہ بڑا سخت اور مشکل ہوجاتا ہے اس اعتبار سے فرمایا گیا کہ دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق یہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس ارشاد کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ دراصل دعا کی تاثیر کو اور دعا کی اہمیت و فضیلت کو بطور مبالغہ بیان فرمایا ہے اور مراد یہ ہے کہ قضا و قدر کوئی چیز نہیں بدل سکتی ہاں اگر کوئی چیز اس درجہ کی ہوتی ہے کہ وہ تقدیر کو بدل دے تو وہ دعا ہوتی اس اعتبار سے کہا جائے گا کہ یہ ارشاد اس حدیث کے مثل ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جانے والی ہوتی تو وہ نظر بد ہوتی۔ دراذی عمر سے مراد عمر میں خیر و برکت کا ہونا ہے اور زندگی کا اچھے کاموں فلاحی امور اور حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے راستہ پر گزرنا ہے جیسا کہ پہلی فصل میں اس کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے۔ حدیث کے آخری جزء سے ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو اپنے فسق و فجور، خدائی احکام سے سرکشی و تمرد اور یہاں تک کہ اپنے کفر و شرک کے باوجود اللہ کے نیک بندوں اور کامل مومنین کے مقابلہ میں زیادہ اچھا کھاتے ہیں اور زیادہ رزق کے مالک ہیں تو پھر اس بات کا معنی کیا ہوں گے انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم کیا جاتا ہے چناچہ اس کو دور کرنے کے لئے بعض حضرات نے یہ تاویل کی ہے کہ حدیث میں رزق سے مراد آخرت کا رزق ہے یعنی ثواب اور اس میں کوئی شک نہیں کہ گناہ و معصیت کا ارتکاب اس رزق میں نقصان اور اس سے محرومی کا مطلب ان چیزوں سے محروم ہونا ہے جن کے بغیر مال دولت کی فروانی اور رزق کی وسعت کے باجود انسان کو اندرونی طمانیت و خوشی اور قلبی و روحانی عظمت وب ڑائی عطا نہیں ہوتی جیسے رضا الٰہی کا حصول زندگی کا بےفکری اور سکون کے ساتھ گزرنا، قلب کا فراغ و اطمینان وقت کا یاد الٰہی اور اچھے کاموں میں صرف ہونا رزق کا طیب و پاکیزہ اور روح باطن کا ہر قسم کی کدورت و ظلت سے پاک و صاف ہونا اور یہ وہ اوصاف ہیں جو انسانی زندگی کو حیوۃ طیبہ کا درجہ عطاء کرنے کی وجہ سے عطا ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے۔ آیت (من عمل صالحا من ذکر اوانثی)…الخ۔ جس نے نیک کام کیا مرد و عورت میں سے اور وہ ایمان رکھتا ہے تو ہم اس سے ضرور اچھی زندگی بسر کرائیں گے۔ اس کے برخلاف اہل فسق و فجور کہ جن کی زندگی شب و روز دنیا کی حرص و ہوس کی کدورتوں اور گناہ معصیت کی ظلمت سے بھرے ہوتے ہیں ان کے وقت کا اکثر و بیشتر حصہ مال و دولت پیدا کرنے کی تعب و مشقت کی نذر ہوتا ہے ان کا قلب مال و زر کے نقصان بربادی کے خوف سے ہر لمحہ متفکر و پریشان رہتا ہے اور مختلف مسائل کے خطرات اور اندیشے ان کی زندگی کو سکون و طمانیت سے محروم کردیتے ہیں مزید برآن اللہ کی عبادت وطاعت کی نورانیت اور اس کی رحمت سے محرومی ان کو ایسے اندھیروں میں ڈال دیتی ہے کہ وہ بظاہر بڑے خوش حال اور اسباب راحت و آسائش کے مالک ہونے کے باوجود ایک سخت اور مشکل زندگی گزارتے ہیں جیسا کہ اللہ نے فرمایا من اعرض عن ذکری…الخ۔ جس نے میرے ذکر سے منہ موڑا اس کے لئے زندگی تنگ کردی جائے گی۔ اسی پر گناہ گار مومن کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ چاہے وہ ظاہری طور پر مال و دولت اور حشمت و تمول رکھتا ہو مگر روحانی و باطنی طور پر اس کی زندگی بھی کچھ کم سخت اور دشوار گزار نہیں ہوتی کم سے کم اتنا ہوتا ہی ہے کہ اگر اس کے اندر ایمان کی روشنی پوری طرح موجود ہے تو ارتکاب گناہ و معصیت کا خوف اس کے قلب پر بہرحال چھایا رہتا ہے اور اس گناہ کی بد انجامی اور آخرت میں مبتلائے عذاب کا کھٹکا یقینا اس کو وحشت زدہ رکھتا ہے اور خواہ اپنی دنیاوی زندگی میں کتنا ہی مطمئن نظر آئے مگر اس کو اپنے اندر اطمینان سکون اور روحانی طمانیت کی محرومی اور ضمیر کی لعنت ملامت سے دوچار رہنا پڑتا ہے حاصل یہ کہ رزق کا مطلب محض پیٹ بھرنے کے ساتھ انسان کے قلبی اطمینان و سکون، روحانی طمانیت و بشاشت اور اوقات زندگی کے بامقصد و کار آمد گزرنے سے بھی اور یہ چیزیں صرف انہی بندگان اللہ کو نصیب ہوتی ہیں جو صالح عقائد اور پاکیزہ اعمال و کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مذکورہ ارشاد گرامی کا تعلق صرف ان بعض مومنین سے ہے جو نفس کے فریب میں آ کر گناہ و مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اپنے جن گناہ گاروں بندوں پر حق تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ان کو گناہ معصیت کے داغ دھبوں سے پاک و صاف کر کے اس دنیا سے اٹھائے تو ان کو فقر و فاقہ میں مبتلا کردیتا ہے اور ان کوہ فقر وفاقہ گویا دنیا ہی میں ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے یا ان کو کسی ایسی مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے جس سے ان کو تنبیہ حاصل ہوجاتی ہے اور وہ توفیق الٰہی کی بناء پر اپنے گناہوں سے صدق دلی کے ساتھ توبہ کرلیتے ہیں اس کا حاصل یہ ہے کہ جس مومن نے گناہ و معصیت کا ارتکاب کیا اور حق تعالیٰ کی طرف سے لطف خفی اس کے شامل حال رہا تو وہ فقر و فاقہ یا کسی مرض و تکلیف کے ذریعہ اس گناہ سے پاک وصاف کردیا جاتا ہے اگرچہ اگر اللہ نخواستہ اس کو اس بات کا بھی مستحق نہیں سمجھا جاتا کہ حق تعالیٰ کا لطف و کرم، فقر و فاقہ یا کسی آفت و مصیبت ہی کے ذریعہ اس کے گناہوں کو دھو دے تو پھر وہ اپنے حال پر آخر تک گناہوں میں گرفتار رہتا ہے اور اسی حالت میں دنیا سے چلا جاتا ہے اور آخرکار اس کو آخرت میں سزا بھگتنی پڑے گی۔ نعوذ باللہ۔

【17】

والدین کی خدمت کرنے کی فضیلت

اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں جنت میں گیا تو میں نے وہاں قرآن پڑھنے کی آواز سنی میں نے فرشتوں سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں (صحابہ نے یہ بات سنی تو گویا ان کے دل میں یہ جاننے کی خواہش پیدا ہوئی کہ حارثہ نے اپنے کس عمل کے سبب یہ فضیلت حاصل کی آنحضرت ﷺ نے جنت میں ان کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی چناچہ آپ نے حارثہ کی اس فضیلت کا سبب ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا کہ یہی وہ فضیلت ہے جو والدین کے ساتھ نیکی کرنے پر حاصل ہوتی ہے یہی وہ فضیلت ہے جو والدین کے ساتھ نیکی پر حاصل ہوتی ہے اور حارثہ ابن نعمان اپنی ماں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے تھے اس روایت کو بغوی نے شرح السنہ میں اور بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور بہیقی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ نے (میں جنت میں گیا یہ فرمانے کے بجائے) فرمایا کہ میں گیا تھا اس حالت میں کہ میں کیا دیکھتا ہو کہ میں جنت میں ہوں۔

【18】

خدا کی خوشنودی کے طلب گار ہو تو والدین کو خوش رکھو۔

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پروردگار کی رضامندی و خوشنودی ماں باپ کی رضا مندی اور خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی ناخوشی و ناراضگی میں ہے۔ ترمذی۔ تشریح یہی حکم ماں کا بھی ہے کہ بلکہ ماں اس بات کی زیادہ مستحق ہے حاصل یہ ہے کہ اگر تم اپنی خدمت و اطاعت اور اچھے سلوک کے ذریعہ اپنی ماں باپ کو خوش رکھو گے تو تمہارا پروردگار بھی تم سے خوش رہے گا اور اگر تم نافرمانی و سرکشی کرو گے اور ایذا رسانی کے ذریعہ ماں باپ کو ناخوش رکھو گے تو تمہارا پروردگار بھی تم سے ناخوش و ناراض رہے گا۔

【19】

ماں باپ کی خوشنودی کو بیوی کی محبت پر ترجیح دینی چاہیے

اور حضرت ابودرداء (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں ایک بیوی والا ہوں اور میری والدہ چاہتی ہیں کہ میں اس بیوی کو طلاق دے دوں حضرت ابودرداء (رض) نے اس سے کہا کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کہ والد جنت کے بہترین دروازوں میں سے ہے (یعنی والد کی رضا مندی و خوشنودی کو ہر حالت میں ملحوظ رکھنا جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے اس لئے جو شخص چاہتا ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے لئے وہ دروازہ اختیار کرے جو بہترین دروازوں میں سے ہے تو اس کو چاہیے کہ والد کی رضا مندی و خوشنودی کو ہر حالت میں ملحوظ رکھے) پس تم کو اختیار ہے کہ چاہے اس دروازے کی محافظت کو اور چاہے اس کو ضائع کرو۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح حضرت ابودرداء (رض) نے حدیث بیان کرنے کے بعد اپنے قول پس تم کو اختیار ہے کے ذریعہ اس شخص پر واضح کردیا کہ اگر تم اپنی والدہ کی خواہش کے مطابق اپنی بیوی کو طلاق دیدو گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے اس کی رضا مندی و خوشنودی حاصل کر کے جنت میں داخل ہونے کے لئے بہترین دروازہ اختیار کرلیا ہے ورنہ بصورت دیگر تم اس دروازے کو چھوڑنے والے سمجھے جاؤ گے۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد میں اگرچہ والد کا ذکر ہے مگر ابودرداء نے اس سے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ جب باپ کے حق میں اس طرح فرمایا تو ماں بدرجہ اولی اس ارشاد کا محمول قرار پائے گی یہ کہ لفظ والد سے صرف باپ مراد نہیں لیا گیا ہے بلکہ جنس یعنی پیدا کرنے والا مراد ہے اور یہ بات زیادہ موذوں و مناسب ہے کیونکہ پیدا کرنے والے کے مفہوم میں باپ اور ماں دونوں داخل ہیں۔

【20】

ماں اولاد کے نیک سلوک کی زیادہ مستحق ہے۔

اور حضرت بہز بن حکیم اپنے والد سے اور وہ بہز کے دادا (حضرت معاویہ ابن صدہ) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں کس کے ساتھ بھلائی اور نیک سلوک کرو ؟ حضور نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ میں نے عرض کیا پھر کس کے ساتھ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ میں نے عرض کیا پھر کس کے ساتھ آپ نے فرمایا اپنے باپ کے ساتھ اور پھر اس کے ساتھ جو ماں باپ کے بعد تمہارا قریب تر عزیز ہے جیسے بہن بھائی پھر اس کے ساتھ جو ان بھائی بہن کے بعد اوروں میں زیادہ قریبی عزیز ہے جیسے چچا اور ماموں اور اسی ترتیب کے مطابق چچاؤں اور ماموں کی اولاد وغیرہ) ترمذی، ابوداؤد)

【21】

ناتے داروں کے ساتھ بھلائی کرنے کی اہمیت

اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بزرگ و برتر نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں اللہ ہوں میں رحمن ہوں یعنی صفت و رحمت کے ساتھ متصف ہوں میں نے رحم یعنی رشتے ناطے کو پیدا کیا ہے اور میں نے اس کے نام کے لفظ اپنے نام یعنی رحمن کے لفظ سے نکالا ہے لہذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتہ ناطے کے حقوق کو ادا کرے گا تو میں بھی اس کو اپنی رحمت کے ساتھ جوڑ دوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتہ ناطہ کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو اپنی رحمت سے جدا کر دوں گا۔ (ابوداؤد) تشریح میں اللہ ہوں، یعنی میں واجب الوجود ہوں کہ میری ذات پاک اپنے وجود اور اپنے حکم و فیصلہ کے نفاذ میں کسی کی محتاج نہیں ہے یہ جملہ دراصل آگے ارشاد ہونے والے کلام کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے بطور تمہید ہے اور اس تمہید میں پہلے اسم خاص کا ذکر کیا ہے اور پھر اپنی صفت رحمن کو ذکر کیا جس کا لفظی مادہ اشتقاق وہی ہے جو رحم کا ہے۔

【22】

ناتا توڑنے والے اللہ کی رحمت سے محروم رہتے ہیں۔

اور حضرت عبداللہ ابن ابی اوفیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس قوم پر رحمت نازل نہیں ہوتی جس میں ناتا توڑنے والا ہو۔ (بہیقی) تشریح قوم سے مراد پوری قوم نہیں بلکہ محض وہ لوگ ہیں جو ناتا توڑنے والے کی مدد و حمایت کریں یا اس کو اپنے ناطے داروں کے ساتھ بد سلوکی کے ذریعہ ناتا توڑنے سے منع نہ کریں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ رحمت سے باران رحمت مراد ہو یعنی جس قوم یا جس آبادی کے اندر ناتا توڑنے والا کوئی شخص ہوتا ہے تو ناتا توڑے جانے کی نحوست سے اس قوم یا آبادی کو بارش سے محروم رکھا جاتا ہے۔

【23】

بغاوت اور قطع رحم وہ گناہ ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں عذاب ہوتا ہے۔

اور حضرت ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی گناہ اس بات کے زیادہ لائق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی اس کی سزا دیدے اور مرتکب کو آخرت میں بھی دینے کے لئے اس سزا کو اٹھا رکھے ہاں دو گناہ بیشک اس بات کے لائق ہیں کہ ایک تو امام وقت کے خلاف بغاوت کرنا اور دوسرے ناتا توڑنا۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اپنے ملک کے سربراہ اور قانونی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا اور ناتا توڑنا یعنی اپنے اعزاء و قرباء کے ساتھ بدسلوکی اور ان کے حقوق کی ادائیگی سے اعرض کرنا بڑا سخت گناہ اور نہایت غمگین بات ہے چناچہ فرمایا گیا ہے کہ ان دونوں گناہوں کے مرتکب کو محض آخرت ہی میں عذاب نہیں دیا جائے گا بلکہ اللہ ان کو سزا دینے میں جلدی کرے گا بایں طور کہ ان کو دنیا میں بھی اپنے ان گناہوں کی سزا بھگتنی پڑے گی گویا ایسے لوگ نہ دنیا میں چین پاسکتے ہیں اور نہ آخرت میں یہاں بھی سزا پائیں گے خواہ اس کی صورت کچھ ہی ہو اور وہاں بھی عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے کیونکہ یہ دونوں گناہ اس طرح ہیں کہ ان کے اثرات صرف دینی زندگی کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ دنیا میں بھی برے نتائج مرتب کرتے ہیں چناچہ حکومت کے خلاف بغاوت برپا کرنے سے سارے ملک کا نظم ونسق درہم برہم ہوجاتا ہے پوری قوم سخت افراتفری اور مختلف مصائب و آلام میں مبتلا ہوجاتی ہے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا کہ قومی اور ملی توانائی ناگہانی کا شکار ہوجاتی ہے جس سے دشمن غالب آجانے کا موقع ملتا ہے اور سی طرح ناتا توڑنے سے آپس میں نفرت و عداوت پیدا ہوتی ہے اور دلوں میں کدورت کو راہ مل جاتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اعزاء اور اقرباء جو باہم محبت و موانست کے ذریعہ ایک دوسرے کے دکھ دردوں میں شریک ہو کر ایک پر سکون بخش ماحول پیدا کرسکتے ہیں اور آپس کے میل جول کے سبب سے بڑی سے بڑی مصیبت اور سخت سے سخت حالات کو انگیز کرنے کی طاقت فراہم کرسکتے ہیں وہ باہمی لڑائی جھگڑے اور افتراق و انتشار کی وجہ سے سخت جسمانی و روحانی اذیت نا کیوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں لہذا ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کو دنیا میں زیادہ ڈھیل نہیں دی جاتی بلکہ اللہ کی طرف سے ان کی سزا کا فیصلہ جلد صادر ہوجاتا ہے تاکہ وہ پہلے تو دنیا میں اپنے کئے کی سزا بھگت کر دوسروں کے لئے سامان عبرت بنیں اور پھر آخرت میں بھی عذاب میں مبتلا ہوں۔ یہ بات واضح ہے کہ دنیا میں سزا پانا اور آخرت میں بھی عذاب کا مستوجب ہونا محض ان دو گناہوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ کچھ اور گناہ بھی انہی کی طرح کے ہوں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں گناہ ان میں بدتر اور زیادہ ہیبت ناک ہیں۔

【24】

فائزین کے ساتھ جنت میں داخل ہونے سے کون لوگ محروم رہیں گے۔

اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت میں نہ تو وہ شخص داخل ہوگا جو کسی کے ساتھ بھلائی کر کے اس پر احسان رکھے نہ وہ شخص جو ماں باپ کی نافرمانی کرے اور نہ وہ شخص جو شراب نوشی کرے اور بغیر توبہ کے مرجائے۔ (نسائی، دارمی) تشریح منان اصل میں منۃ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی کو کچھ دیا جائے یا اس کے ساتھ نیکی کی جائے اور پھر اس پر اپنا احسان جتایا جائے یہ خصلت یعنی احسان کر کے اس کو جتانا نہایت بری بات ہے قرآن کریم میں ہے، آیت (لاتبطلوا صدقتکم بالمن والاذی) ۔ احسان رکھ کر اور ایذاء دے کر اپنی خیرات کو ضائع نہ کرو۔ بعض حضرات نے لفظ منان کے بارے میں یہ کہا ہے کہ یہ من سے مشتق ہے جس کے معنی کاٹنا ہے لہذا منان کے معنی یہ ہوں گے وہ شخص جو ناطے کو کاٹے۔ عاق سے مراد وہ شخص جو ماں باپ اور دوسرے اقرباء کو کسی شرعی وجہ کے بغیر ایذاء پہنچائے یا عاق کا اطلاق خاص طور پر اس شخص پر ہوتا ہے جو ماں باپ کو یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو ستائے۔ جنت میں داخل نہ ہونے سے یہ مراد ہے کہ ایسے لوگ اللہ کے ان نیک اور صالح بندوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گے جو آخرت میں حساب کتاب کے دن فائز المرام اور نجات یافتہ قرار دیئے جائیں اور بلا کسی روک ٹوک کے شروع ہی میں جنت میں داخل کردیئے جائیں گے یا یہ مراد ہے کہ یہ لوگ عذاب کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوں گے یعنی پہلے ان کو اپنے گناہ کی سزا بھگتنی ہوگی اور اس کے بعد جنت میں پہنچائے جائیں گے تاہم اگر اللہ چاہے گا تو ان کے بغیر عذاب کے بھی جنت میں داخل کر دے گا کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ، آیت (ویغفر مادون ذالک لمن یشاء) اور اس کے علاوہ بھی جس کو وہ چاہے بخش دے گا۔

【25】

اقرباء کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی برکت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اپنے نسبوں میں اس قدر سیکھو کہ جس کے ذریعہ تم اپنے ناطے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرسکو کیونکہ ناتا داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اقرباء میں باہمی محبت و انس کا سبب مال میں کثرت و برکت کا ذریعہ اور درازی عمر کا باعث بنتا ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ تم اپنے باپ، دادا، ماؤں، دادیوں، نانیوں، ان کی اولاد اور دیگر اعزاء و اقرباء کی پہچان رکھو ان کے ناموں سے باخبر رہو اور ان کے حالات سے واقفیت رکھو تاکہ تم ذوی الارحام کو جان لو جن کے ساتھ حسن سلوک کرنا تمہاری ذمہ داری ہے اور یہ جاننا تمہارے لئے ضروری اور فائدہ مند ہے۔

【26】

خالہ ماں کا درجہ رکھتی ہے

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ مجھ سے ایک بڑا گناہ صادر ہوگیا ہے میری توبہ کے لئے کیا چیز ہے یعنی کوئی ایسا عمل بتادیں جس کو اختیار کر کے میں اللہ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرا سکوں اور اپنا گناہ معاف کروا سکوں۔ حضور نے فرمایا کیا تمہاری ماں ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا تو کیا تمہاری خالہ ہے اس نے کہا ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم اس کے ساتھ نیک سلوک کرو یعنی اس کی خدمت و اطاعت کرو اور اس کی دیکھ بھال رکھو نیز اپنی حثییت و اطاعت کے مطابق اس کی مالی امداد و اعانت کرتے رہو۔ (ترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ناطے داروں کے ساتھ حسن سلوک، گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ ہے اگرچہ وہ گناہ کبیرہ ہی کیوں نہ ہو تاہم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو وحی کے ذریعہ بتایا گیا ہو کہ حسن سلوک کا کبیرہ گناہ کے کفارہ کا سبب بننا اس شخص کے ساتھ مخصوص ہے لہذا آنحضرت ﷺ نے اس سے فرما دیا کہ تم اپنی خالہ سے حسن سلوک کرو تمہارا گناہ بخش دیا جائے گا اور یا یہ کہ اس شخص سے جو گناہ صادر ہوا تھا وہ کبیرہ گناہ نہیں تھا بلکہ حقیقت میں صغیرہ گناہ تھا البتہ اس شخص نے اپنے مضبوط جذبہ ایمانی اور احتیاط وتقوی کی بنا پر اس گناہ کو ایک بڑا گناہ سمجھا اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ خالہ، ماں کا درجہ رکھتی ہے۔

【27】

والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی صورتیں

اور حضرت ابواسید ساعدی کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا جو قبائل انصار میں سے ایک قبیلہ بنو سلمہ سے تعلق رکھتا تھا اس شخص نے عرض کیا رسول اللہ میرے ماں باپ کے حسن سلوک کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے جس کو میں ان کی وفات کے بعد پورا کروں یعنی میں اپنے ماں باپ کی زندگی میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا تھا وہ مرچکے ہیں تو کیا ان کی وفات کے بعد بھی ان کے حق میں سلوک کرنے کی کوئی صورت ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں ان کے حق میں دعا کرنا (جس میں نماز جنازہ بھی شامل ہے) ان کے لئے استغفار کرنا ان کی موت کے بعد ان کی وصیت کو پورا کرنا ان کے ناطے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا جن کے ساتھ حسن سلوک کرنا محض ان (ماں باپ) کے سبب سے ہے یعنی ماں باپ کے وہ عزیز و اقا رب جن کے ساتھ محض اس وجہ سے حسن سلوک کیا جاتا ہے تاکہ ماں باپ کی خوشنودی حاصل ہو نہ کہ کسی اور غرض سے اور ماں باپ کے دوستوں کی عزت و تعظیم کرنا، یہ وہ صورتیں ہیں جن کو اختیار کر کے ماں باپ کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ) ۔

【28】

دایہ حلیمہ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا حسن سلوک

اور حضرت ابوطفیل (رض) کہتے ہیں کہ جعرانہ میں، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ گوشت تقسیم فرما رہے ہیں کہ اچانک ایک خاتون آئیں جب وہ آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچیں تو آپ نے ان کے لئے اپنی چادر مبارک بچھا دی اور وہ اس پر بیٹھ گئیں میں نے ان کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا یہ حسن سلوک دیکھا تو لوگوں سے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ آنحضرت ﷺ کی وہ ماں ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ (ابوداؤد) تشریح حدیث میں جن محترم خاتون کا ذکر ہے وہ دایہ حلیمہ ہیں جن کو آنحضرت ﷺ کی رضاعی ماں ہونے کا شرف حاصل ہے آنحضرت ﷺ کو دایہ حلیمہ کے علاوہ ایک اور خاتون نے بھی ابتداء کے کچھ دنوں تک دودھ پلایا تھا جن کا نام ثوبیہ ہے اور جو ابولہب کی باندی تھیں ان دونوں کے اسلام کے بارے میں علماء کا اختلافی اقوال ہیں۔

【29】

کسی مصیبت کے وقت اپنے نیک اعمال کے وسیلہ سے دعا مانگنا مستحب ہے

حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کسی قوم کا یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ تین آدمی ایک ساتھ کہیں چلے جا رہے تھے کہ راستہ میں سخت بارش نے ان کو آلیا وہ اس بارش سے بچنے کے لئے پہاڑ کے ایک غار میں گھس گئے اتنے میں پہاڑ سے ایک بڑا پتھر گر کر اس غار کے منہ پر آپڑا ان تینوں پر باہر نکلنے کا راستہ بند کردیا وہ تینوں اس صورت حال سے سخت پریشان ہوئے اور اس غار میں سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آئی، تو آپس میں کہنے لگے کہ اب تم اپنے ان اعمال پر نظر ڈالو جو تم نے کسی دنیاوی فائدہ کی تمنا اور جذبہ نام و نمود کے بغیر محض اللہ کی خوشی کے لئے کئے ہوں اور ان اعمال کے وسیلہ سے اللہ سے دعا مانگو شاید اللہ ہماری نجات کے راستہ کھول دے چناچہ ان میں سے ایک نے کہا اے اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور میرے کئی چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے اور میں بکریاں چرایا کرتا تھا کہ ان کے دودھ کے ذریعہ ان سب کا انتظام کرسکوں، چناچہ جب میں شام کو اپنے گھر والوں کے پاس لوٹتا اور بکریوں کا دودھ نکالتا تو اپنے ماں باپ سے ابتداء کرتا اور ان کو اپنی اولاد سے پہلے دودھ پلاتا ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ چراگاہ کے درخت مجھے دور لے گئے یعنی میں بکریوں کا چراتا ہوا بہت دور نکل گیا یہاں تک کہ شام ہوگئی اور میں گھر واپس نہ آسکا جب رات کو گھر پہنچا تو اپنے ماں باپ کو سوتے ہوئے پایا پھر میں نے اپنے معمول کے مطابق دودھ دوہا اور دودھ سے بھرا ہو برتن لے کر ماں باپ کے پاس پہنچا اور ان کے سرہانے کھڑا ہوگیا کہ میں نے یہ ناپسند کیا کہ ان کو جگاؤں اور نہ ہی یہ گوارا کیا کہ ان سے پہلے اپنے بچوں کو دودھ پلاؤں جب کہ وہ بچے میرے پیروں کے پاس پڑے ہوئے مارے بھوک کے رو بلک رہے تھے اور وہ سب اپنے حال پر قائم رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی یعنی پوری رات اسی حالت میں دودھ کا برتن لئے ماں باپ کے سرہانے کھڑا رہا وہ دونوں سوتے رہے اور میرے بچے بھوک سے بیتاب ہو کر روتے رہے پس اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام محض تیری رضا اور خوشنودی کی طلب میں کیا ہے تو میں اپنے اس عمل کے واسطہ دیتے ہوئے تجھ سے التجا کرتا ہو کہ تو ہمارے لئے اس پتھر کو کو اتنا کھول دے کہ اس کشادگی کے ذریعہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں، چناچہ اللہ نے اس کی دعا قبول فرمائی اور اس پتھر کو اتنا سرکا دیا کہ ان کو آسمان نظر آنے لگا۔ دوسرے شخص نے اس طرح کہا کہ اے اللہ میرے چچا کی ایک بیٹی تھی میں اس کو اتنا ہی زیادہ چاہتا تھا جتنا زیادہ کوئی مرد کسی عورت کو چاہ سکتا ہے جب میں نے اس سے اپنے آپ کو میرے سپرد کردینے کی خواہش ظاہر کی تو اس نے یہ کہہ کر میری خواہش ماننے سے انکار کردیا کہ جب تک میں سو دینار اس کو پیش نہ کروں میری جنسی خواہش پوری نہیں ہوگی پھر میں نے محنت و مشقت کر کے سو دینار فراہم کئے ان دیناروں کو لے کر اس کے پاس پہنچا وہ اپنی شرط پوری ہوجانے پر میری خواہش کے لئے راضی ہوگئی جب میں جنسی فعل کے لئے اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھا تو وہ کہنے لگی کہ بندہ اللہ اللہ سے ڈر اور میری مہر امانت کو توڑنے سے باز رہ یعنی اس نے مجھے اللہ کا خوف دلاتے ہوئے التجا کی کہ میری آبرو کو نہ لوٹو اور حرام طور پر ازالہ بکارت کر کے میرے پردہ ناموس کو جو کسی کی امانت ہے یوں تار تار نہ کرو میں یہ سنتے ہی خوف اللہ سے کانپنے لگا اور اپنے نفس کی گمراہی پر شرمسار ہو کر اس کے پاس سے اٹھ کھڑا ہو پس اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میرا یہ عقل یعنی قابو حاصل ہونے کے باوجود اس کو چھوڑ کر ہٹ جانا اپنے نفس کو کچل دینا محض تیری رضا و خوشنودی کی طلب میں تھا تو میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو اس پتھر کر ہٹا کر ہمارے لئے راستہ کھول دے چناچہ اللہ اس شخص کی دعا بھی قبول فرمائی اور اس پتھر کو تھوڑا سا اور سرکا دیا پھر تیسرے شخص نے اس طرح کہنا شروع کیا اے اللہ میں نے ایک مزدور کو ایک فرق چاول کے عوض مزدوری پر لگایا جب اس نے اپنا کام پورا کیا تو مطالبہ کیا کہ میری اجرت دو میں نے اس کی اجرت دی مگر وہ بےنیازی کے ساتھ اس کو چھوڑ کر چلا گیا پھر میں نے ان چاولوں کو اپنی زراعت میں لگایا اور کاشت کرتا رہا یہاں تک کہ انہی چاولوں کے ذریعہ میں نے بیل اور ان بیلوں کے چرواہیے جمع کر لئے پھر ایک بڑے عرصہ کے بعد وہ مزدور میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ سے ڈرو مجھ پر ظلم نہ کرو اور میرا حق مجھ کو واپس کرو میں نے کہا بیشک تیرا حق مجھ پر واجب ہے ان بیلوں اور ان چرواہوں کے پاس جاؤ اور ان کو اپنے قبضہ میں لے لو اس نے میری بات سن کر بڑی حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا اللہ سے ڈرو اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو میں نے کہا کہ میں تم سے مذاق نہیں کر رہا ہوں جا کر ان بیلوں اور ان کے چرواہوں کو لے لو اس کے بعد اس نے ان سب کو اپنے قبضہ میں کیا ورچلا گیا پس اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرا وہ عمل محض تیری رضا اور خوشنودی کی طلب میں تھا تو میں اپنے اس عمل کے واسطے سے التجا کرتا ہوں کہ تو یہ پتھر جتنا بھی باقی رہ گیا ہے اس کو سرکا دے، چناچہ اللہ نے غار کے منہ کا باقی حصہ بھی کھول دیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح جب کہ وہ بچے میرے پیروں کے پاس پڑے ہوئے۔ الخ۔۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ جس قوم کے افراد کے متعلق ہے اس کی شریعت میں ماں باپ کا حق اولاد کے نفقہ و حق پر مقدم تھا جب ہی تو اس شخص نے ماں باپ کو دودھ پلانے سے پہلے اپنے بچوں کو دودھ پلانا گوارا نہیں کیا حالانکہ بھوک کی شدت سے رات بھر روتے رہے لیکن بعض حضرات کے قول کے مطابق ہوسکتا ہے کہ اس شخص نے اپنے بچوں کو بقدر رسد رمق تو دودھ پلا دیا تھا مگر وہ اتنی مقدار پر مطمئن نہیں ہوئے تھے اور مزید دودھ پلانے کے رو چلا رہے تھے۔ فرق مدینہ میں ایک رائج پیمانہ کا نام تھا جس میں سولہ رطل یعنی تقریبا آٹھ سیر غلہ آتا تھا یہ پیمانہ عام طور پر غلہ وغیرہ کے لین دین میں ناپ تول کے کام آتا تھا۔ بیلوں کے چرواہے سے مراد وہ غلام ہیں جو کھیتی باڑی کے کام، چوپایوں کے دیکھ بھال اور ان کو چرانے پر مامور ہوتے تھے حدیث میں ان چاولوں کی کاشت سے حاصل ہونے والے مال کے طور پر صرف بیلوں اور چراہوں کا ذکر اکثر و اغلب کے اعتبار سے ہے کہ اس شخص نے ان چاولوں کو اپنی زراعت میں لگا کر بہت کچھ حاصل کیا یہاں تک کہ میرے پاس بہت زیادہ مال و اسباب جمع ہوگیا جیسے بیل اونٹ، گوسفند اور غلام وغیرہ۔ اس حدیث سے مختلف مسائل اخذ کئے جاتے ہیں چناچہ اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ کسی سخت آفت کے وقت اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنا کر اللہ سے دعا مانگنا مستحب ہے جیسا کہ اللہ نے ان تنیوں کی دعا قبول کی اور آنحضرت ﷺ کا اس واقعہ کو مدح و تعریف اور ذکر فضیلت کے طور پر صحابہ کے سامنے بیان کرنا اس امر کی دلیل ہے اور اگر یہ مستحب نہ بھی ہو تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا ان کو اپنے بال بچوں پر ترجیح دینا ان کو کسی تکلیف و مشقت میں مبتلا کرنے سے اجتناب اور بہر صورت ان کے آرام و سکون کو مدنظر رکھنا بڑی فضیلت کی بات ہے۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جو شخص سو رہا ہو اور خاص طور پر وہ شخص جو قابل احترام ولائق تعظیم ہو تو اس کو نیند سے اٹھانا مکروہ ہے علاوہ اس صورت کے جب کہ اس نے نماز نہ پڑھی ہو اور فرض نماز کا وقت ختم ہو رہا ہو۔ چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ نیند کی راحت کھانا کھانے سے زیادہ لذت آمیز ہے کہ نیند کا مزہ بھوک کی حالت میں بھی غالب رہتا ہے۔ پانچویں بات یہ معلوم ہوئی کہ عفت و پارسائی اور انسانی نفس کو حرام امور سے باز رکھنا خصوصا اس صورت میں جبکہ کسی طرح کی کوئی رکاوٹ بھی سامنے نہ ہو بڑی فضیلت کی بات ہے اور انسانی کردار کی پختگی و عظمت کی دلیل ہے چناچہ نفس کی خواہش اور خاص طور پر جنسی خواہش کہ جو دوسری تمام خواہشات کے مقابلہ میں کہیں زیادہ غالب اور سرکش ہے انسان کو سخت ترین حالات سے دو چار کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے سامنے بےبس ہوجاتا ہے تو عقل اور حرام و حلال کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت تک ختم ہوجاتی ہے لہذا جنسی خواہش کے اس قدر شدید غلبہ کی صورت میں جب کہ اس خواہش کی تکمیل کے درمیان کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو کسی مرد کا عین موقع پر نفس کو کچل دینا اور حرام کاری سے باز رہنا ایک مثالی عظمت کردار کا مظہر ہے۔ چھٹی بات یہ معلوم ہوئی کہ غیر کے مال میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا جائز ہوتا ہے بشرطیکہ اس کی اجازت حاصل ہوجائے اس کے بعد، جیسا کہ حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے کہ فضولی کا تصرف جائز ہوجاتا ہے اور یہ جواز مالک کی اجازت پر موقوف رہتا ہے کہ اگر مالک اجازت دے دیتا ہے تو وہ تصرف نافذ العمل قرار پایا جاتا ہے۔ ساتویں بات یہ معلوم ہوئی کہ نیک عہد و اقرار، ادئیگی امانت اور خوش معاملگی نہ صرف بہتر چیز ہے بلکہ انسان کو قرب الٰہی سے ہمکنار کرنے اور آفات مصائب سے نجات دلانے کا باعث ہے۔ آٹھویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ بندہ کسی آفت و بلا میں گرفتار ہوجانے پر دعا کرنا بہتر ہے کیونکہ وہ دعا قبول ہوتی ہے اور بندہ کو اس آفت و بال سے نجات دلانے کا سبب بنتی ہے۔ اور نویں بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کے نیک صالح بندوں کے ذریعہ ایسی چیزوں کا ظاہر ہونا جو عام انسانی عادات کے خلاف ہوں اور جن کو کرامات کہا جاتا ہے برحق ہے اور کرامات کی سچائی میں کوئی شبہ نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے۔

【30】

جنت ماں کے قدموں میں ہے

اور حضرت معاویہ بن جاہمہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت جاہمہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں اور اس وقت اسی سلسلے میں آپ سے مشورہ کرنے حاضر ہوا ہوں حضور نے فرمایا کیا تمہاری ماں زندہ ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم پھر انہی کی خدمت کو ضروری سمجھو کیونکہ جنت ماں کے قدموں میں ہے۔ (احمد، نسائی، بہیقی) تشریح جنت ماں کے قدموں میں ہے کا مطلب یہ ہے کہ تم جہاد میں جانے کے بجائے ماں کے قدموں میں پڑے رہ کر اس کی اطاعت و خدمت کرنا زیادہ ضروری سمجھو کیونکہ ماں کی اطاعت و خدمت جنت میں جانے کا ذریعہ ہے گویا اس جملہ کے ذریعہ بطور کنایہ اس تواضع و انکساری اور عاجزی و خاکساری کو بیان کرنا مقصود ہے جس کا حکم اولاد کو دیا گیا ہے چناچہ ارشاد ربانی ہے آیت (وخفض لھما جناح الذل من الرحمہ) ۔ اور ان (والدین) کے سامنے شفقت عاجزی کے ساتھ جھکے رہو۔

【31】

باپ کی خواہش کا احترام کرو

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی جس سے میں بہت محبت کرتا تھا لیکن میرے والد محترم حضرت عمر (رض) اس کو ناپسند کرتے تھے چناچہ انہوں نے ایک دن مجھے کہا تم اس عورت کو طلاق دیدو میں نے انکار کیا پھر جب وہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور سے اس بات کا تذکرہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اس عورت کو طلاق دیدو۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح رسول اللہ کا ابن عمر (رض) سے یہ فرمایا کہ اس عورت کو طلاق دیدو یا تو استحباب کے طور پر تھا یا اگر اس عورت کو طلاق دلوانے کا کوئی اور شرعی سبب بھی پایا جاتا تھا کہ اس بناء پر ابن عمر (رض) کا اس صورت سے علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہوگیا تھا تو پھر کہا جائے گا کہ آنحضرت ﷺ کا مذکورہ ارشاد وجوب کے طور پر ہے۔

【32】

والدین کی اہمیت

اور حضرت ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہارے ماں باپ تمہارے لئے جنت بھی اور۔۔۔۔۔ دوزخ بھی۔ (ابن ماجہ) تشریح اس ارشاد کے ذریعہ بڑے بلیغ انداز میں ماں باپ کی اہمیت اور ان کی عظمت شان کو ظاہر فرمایا گیا ہے کہ وہ تمہارے لئے جنت کی راہ بھی آسان کرسکتے ہیں اور تمہیں دوزخ کا مستوجب بھی بتاسکتے ہیں چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اولاد پر ماں باپ کا حق یہ ہے کہ ان کی رضا مندی اور خوش نودی کو بہر صورت ملحوظ رکھا جائے جو جنت میں جانے کا ذریعہ ہے اور ان کی نافرمانی سے اجتناب کیا جائے جو دوزخ میں جانے کا باعث۔ حاصل یہ ہے کہ اگر اطاعت و خدمت کے ذریعہ ماں باپ کو راضی و خوش رکھو گے تو جنت میں جاؤ گے اور اگر نافرمانی و لاپرواہی کے ذریعہ ماں باپ کو ناخوش رکھو گے تو دوزخ میں جاؤ گے۔

【33】

ماں باپ کے حق میں استغفار وایصال ثواب کے ذریعہ ان کی ناراضگی کے وبال کو ٹالا جا سکتا ہے

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کسی ایسے بندے کے ماں باپ مرجاتے ہیں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک مرتا ہے جو ان کی نافرمانی کیا کرتا تھا اور پھر ان کی موت کے بعد وہ ان کے لئے برابر دعا و استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو نیکوکار لکھ دیتا ہے۔ تشریح حدیث کا حاصل یہ ہے کہ والدین کے مرنے کے بعد اولاد کا ان کے حق میں برابر دعا و استغفار کا ایصال ثواب کرتے رہنا اس درجہ سود مند ہے کہ اگر والدین اس اولاد سے ناراضگی وناخوشی کی حالت میں بھی اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اللہ تعالیٰ ان کی ناراضگی و ناخوشی کو ختم کر دے اور اس اولاد کا نام ان لوگوں میں شمار کرے گا جو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرتے ہیں اور ان کی رضا و خوشنودی کے جو یا رہتے ہیں۔

【34】

والدین کی اطاعت ونا فرمانی حقیقت میں اللہ کی اطاعت ونا فرمانی ہے

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ ماں باپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے والا یعنی اس نے ماں باپ کے حقوق ادا کر کے اللہ کے حکم کی اطاعت کی ہے تو وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھلے ہوتے ہیں اور اگر اس کے ماں باپ میں سے ایک کوئی زندہ ہو کہ جس کی اس نے اطاعت و فرمانبرداری کی تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے اور جس شخص نے اس حالت میں صبح کی وہ ماں باپ کے حق میں اللہ کے حکم کی نافرمانی کرنے والا ہے یعنی اس نے ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی اللہ کے حکم کے نافرمانی کی ہے تو وہ اس حالت میں صبح کرتا ہے کہ اس کے لئے دوزخ کے دو دروازے کھولے ہوتے ہیں اور اگر ماں باپ میں کوئی ایک زندہ ہے جس کی اس نے نافرمانی کی تو اس کے لئے ایک دروزاہ کھولا جاتا ہے یہ ارشاد سن کر ایک شخص نے عرض کیا اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کریں، اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کریں۔ تشریح حدیث سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اور ان کی نافرمانی کرنے سے اجتناب کرنا چونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس لئے ان کی اطاعت و فرمانبرداری یا ان کی نافرمانی درحقیقت اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری یا اس کی نافرمانی کرنا ہے۔ اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کریں حضور کا اس جملہ کو تین بار فرمانا ماں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری کی اہمیت کو ظاہر کرنے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی تاکید کو زیادہ شدت کے ساتھ بیان کرنے کی بنا پر تھا تاہم واضح رہے کہ ظلم سے مراد وہ ظلم ہے جس کا تعلق دنیاوی معاملات سے ہو نہ کہ دینی امور سے کیونکہ ماں باپ کی ایسی اطاعت جائز نہیں جس سے دین کی مخالف اور شرعی احکام و مسائل کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔

【35】

ماں باپ کو محبت واحترام کی نظر سے دیکھنے کی فضیلت

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والا جو بھی لڑکا اپنے باپ یا ماں کو محبت و احترام کی نظر سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر نظر کے بدلے ایک مقبول حج نفلی کا ثواب لکھتا ہے، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ وہ دن بھر میں سو مرتبہ دیکھے حضور نے فرمایا ہاں۔ اللہ تعالیٰ بہت بڑا اور پاکیزہ ہے یعنی تمہارے گمان میں جو یہ بات کہ ہر نظر کے بدلے ایک مقبول نفلی حج کا ثواب کیونکر لکھا جاتا ہے تو یہ اجر و انعام اللہ کی شان اور اس کی وسعت رحمت کی نسبت سے کچھ بعید نہیں وہ اگر چاہے تو اس سے بھی بڑا اجر دے سکتا ہے۔

【36】

والدین کی نا فرمانی کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے مگر نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں ہی جلد ہی سزا دے دیتا ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ جو شخص ماں باپ کی نافرمانی کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اسے اپنے اس گناہ کی سزا اپنی موت سے پہلے اسی دنیا میں بھگتنی پڑتی ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس دنیا کی زندگی کا تعلق ماں باپ سے ہو یعنی جو والدین اپنی اولاد کی طرف سے نافرمانی کا دکھ سہتے ہیں وہ اپنی زندگی ہی میں اس اولاد کو اپنے گناہ کی نافرمانی کی سزا بھگتتے دیکھ لیتے ہیں تاہم دونوں صورتوں میں آخرت کا عذاب بدستور باقی رہتا ہے کہ نافرمان اولاد محض اسی دنیا میں سزا نہیں پائے گی بلکہ آخرت میں بھی عذاب کی مستوجب ہوگی۔ اس حدیث کے سلسلہ میں ایک احتمال اور بھی ہے کہ وہ یہ کہ والدین کے حقوق کے مذکورہ بالا حکم میں تمام حقوق العباد شامل ہوں یعنی جس طرح ماں باپ کے حقوق ادا نہ کرنے والی اولاد اس گناہ کی سزا دنیا میں پاتی ہے اسی طرح ہر وہ شخص بھی اسی دنیا میں سزا یاب ہوتا ہے جو بندوں کے حقوق کو پامال کرتا ہے چناچہ حکومت وقت کے خلاف بلا کسی شرعی و قانونی وجہ کے بغاوت کرنے والے اور ناحق ظلم کرنے والے کے بارے میں مذکورہ بالا طرح کی منقول وعید سے یہی ثابت ہوتا ہے حاصل یہ ہے کہ مذکورہ بالا ارشاد گرامی کے ذریعہ والدین کے حقوق کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے اور ان کی نافرمانی کرنے کے گناہ کی شدت و سنگینی کو بڑے سخت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

【37】

بڑا بھائی باپ کی مانند ہے

اور حضرت سعید بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چھوٹے بھائی پر بڑے بھائی کا وہی حق ہے جو بیٹے پر اس کے باپ کا ہوتا ہے یہ پانچوں روایتیں بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔