149. غصہ اور تکبر کا بیان

【1】

نرمی، مہربانی، حیاء اور حسن خلق کا بیان

رفق عنف کی ضد ہے اور اس کے معنی ہیں نرمی و ملائمت اور فروتنی کا رویہ اختیار کرنا اپنے ساتھیوں کے حق میں مہربان نرم خو ہونا اور ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا اور ہر کام اطمینان و خوش اسلوبی سے کرنا۔ حیاء سے مراد شرمندہ اور محبوب ہونا اور حیاء دراصل اس کیفیت کا نام ہے جو کسی انسان پر عیب برائی کے خوف و ندامت کے وقت طاری ہو اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بہترین حیاء وہی ہے جو نفس کو اس چیز میں مبتلا ہونے سے روکے جس کو شریعت نے بری قرار دیا ہے۔ حضرت جنید کا یہ قول کہ حیاء اس کیفیت کا نام ہے جو اللہ کی نعمتوں کے حاصل ہونے اور ان نعمتوں کا شکر ادا نہ کرنے کی وجہ سے وحشت کے ساتھ دل میں پائی جائے اور حضرت رقاق کا قول یہ ہے کہ حیاء اس کیفیت کا نام ہے جو آقا کے سامنے درخواست و طلب سے باز رکھتی ہے۔ حسن خلق یعنی خوش خلقی یا اچھے اخلاق کا سب سے واضح مطلب یہ ہے کہ اس چیز کی اتباع و پیروی کی جائے جس کو خاتم النبین حضرت محمد ﷺ نے اللہ کی طرف سے دنیا والوں کے سامنے پیش کیا ہے یعنی شریعت، آداب طریقت اور احوال حقیقت و معرفت۔ چناچہ جب حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا گیا کہ اللہ نے جو نبی کریم ﷺ کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ آیت (وانک لعلی خلق عظیم) ۔ تو آپ کے وہ اخلاق کیا تھے جن کو خلق عظیم کہا گیا ہے حضرت عائشہ (رض) نے جواب دیا کہ آپ کا خلق قرآن کریم ہے یعنی قرآن مجید میں اچھی خصلتیں اور اعلی اوصاف بیان کئے گئے ہیں (خواہ ان کا تعلق اللہ کی نافرمانی سے ہو یا مخلوق اللہ کے ساتھ بدمعالگی سے آپ ان سب سے اجتناب فرماتے تھے رہی اتباع درجات کی بات تو ظاہر ہے کہ اتباع بقدر محبت و توفیق متابعت کے حاصل ہوتی ہے یعنی جو شخص نبی کریم ﷺ کی محبت سے جتنا زیادہ سرشار ہوتا ہے اس کو اتباع کرنے کی جس قدر توفیق نصیب ہوتی ہے وہ اتنا ہی زیادہ اور اسی قدر اتباع بھی کرتا ہے اور جس شخص کو نبی کریم ﷺ کی محبت کا جتنا کم حصہ ہوتا ہے اور اتباع کرنے کی جس قدر کم توفیق نصیب ہوتی ہے وہ اتباع میں اسی قدر پیچھے رہتا ہے۔

【2】

نرمی ومہربانی کی فضیلت

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نرم و مہربان ہے اور نرمی و مہربانی کو پسند کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر خود بھی نرم و مہربان ہے اور ان کو ایسے امور کا مکلف قرار نہیں دیتا جو ان کی قوت برداشت سے باہر ہوں اور جن کی وجہ س سے وہ دشواریوں اور سختیوں میں مبتلا ہوں اور وہ بندے کے تئیں بھی اس بات کو پسند کرتا ہے اور اس سے راضی و خوشی ہوتا ہے کہ وہ آپس میں نرمی و مہربانی کریں اور ایک دوسرے کو سختیوں اور دشواریوں میں مبتلا نہ کریں۔ اس لئے وہ نرمی و مہربانی پر وہ چیز عطا فرماتا ہے جو درشتی سختی پر عطا نہیں فرماتا اور نرمی و مہربانی پر جو چیز عطا کرتا ہے وہ نرمی و مہربانی کے علاوہ کسی چیز پر عطا نہیں فرماتا۔ مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا نرمی و مہربانی کو لازمی طور پر اختیار کرو اور سختی اور بےحیائی سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ کیونکہ جس چیز میں نرمی ہوتی ہے اور اس کو زینت بخشی جاتی ہے اور جس چیز میں سے نکالی جاتی ہے وہ عیب دار ہوجاتی ہے۔ تشریح اللہ تعالیٰ نرم و مہربان ہے اور نرمی و مہربانی کو پسند کرتا ہے، کے ذریعے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کا نرمی و مہربانی کو پسند کرنا خود بندوں کے اس مفاد و مصالح کے پیش نظر ہے کہ آپس میں نفرمی و مہربانی اور شفقت و مروت کے جذبات کو فروغ دینا ایک ایسی خوبی ہے جس کے ذریعہ معاشرہ کو مطمئن و پر سکون اور انسانی زندگیوں کو مختلف پریشانیوں اور بےچینیوں سے محفوظ رکھنا ہے چناچہ جس معاشرہ کے افراد اپنے تمام امور میں ایک دوسرے سے نرم خوئی اور مہربانی کا برتاؤ کرتے ہیں ایک دوسرے کو سختیوں اور پریشانیوں میں مبتلا کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور باہمی معاملات کو سہولت و آسانی کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں اور ان امور معاملات کا تعلق خواہ حصول معاش سے یا اس کے علاوہ معاشرتی زندگی کے کسی بھی پہلو سے ہو تو اس معاشرہ کا ہر فرد اپنے آپ کو فلاح یاب محسوس کرتا ہے اور پورے معاشرہ پر حق تعالیٰ کی طرف سے خیر و برکت اور اس کی نعمتوں کا نزول ہوتا ہے چنانچہ، ویعطی علی الرفق۔ کے ذریعہ نہ صرف یہ ترغیب دلائی گئی کہ اپنے امور معاملات میں باہمی نرمی و مہربانی کو اختیار کرو تاکہ حصول مقصد کو پہنچ سکو بشارت بھی دی گئی ہے کہ جو لوگ سختی کے بجائے نرمی و مہربانی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں ان کو حق تعالیٰ اجر وثواب عطا فرماتا ہے اور مقاصد میں کامیاب و کامران کرتا ہے۔ اور نرمی و مہربانی پر جو چیز عطا کرتا ہے یہ جملہ ماقبل عبارت کے مفہوم کو ایک دوسرے انداز میں کر رہا ہے یعنی پہلے تو نرمی و مہربانی کو سختی پر ترجیح دی گئی ہے اور یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی طرف سے اجر وثواب اور حصول مقصد کی جو نعمت نرمی و مہربانی اختیار کرنے پر ہوتی ہے وہ سختی اختیار کرنے پر نہیں ہوتی اور پھر آگے اس جملہ کے ذریعہ اس طرف اشارہ فرمایا کہ نرمی و مہربانی اپنی ضد یعنی سختی ہی پر نہیں بلکہ حصول مقصد کے اور دوسرے اسباب و وسائل پر بھی ترجیح و فضیلت رکھتی ہے البتہ اس موقع پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ اسباب وسائل از قسم نرمی ہوں تو ترجیح و فضیلت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر از قسم سختی ہوں تو نرمی و مہربانی کا سختی پر فضیلت و ترجیح رکھنا ماقبل عبارت سے واضح ہو ہی چکا ہے اس کے بعد اسی مفہوم کو دورباہ بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ دونوں جملوں کی عبارت میں ظاہری طور پر تفاوت ہے مگر حقیقت میں یہ دوسرا جملہ ماقبل عبارت کو مؤ کد کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور دونوں جملوں کا مقصد اس بات کو زیادہ اہمیت دینا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اپنے مقاصد جیسے حصول معاش وغیرہ کی طلب اور سعی اور جدوجہد میں ایسا رویہ اختیار کرے جو نرم خوئی مہربانی اور ایک دوسرے کے ساتھ لحاظ و مروت کا ہو کیونکہ انسان کو اس کی مطلوب چیز دینے والا حقیقت میں اللہ ہے اور چونکہ نرمی و مہربانی اس کے نزدیک محبوب ہے اس لئے وہ نرمی و مہربانی کا رویہ اختیار کرنے والے کو زیادہ عطا فرماتا ہے بہ نسبت اس شخص کے جو اپنے مقاصد کے حصول میں سختی و درشتی اور عامیانہ انداز و رویہ اختیار کرتا ہے۔

【3】

جس شخص میں نرمی ومہربانی نہ ہو وہ نیکی سے محروم رہتا ہے

اور حضرت جریر (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس شخص کو نرمی و مہربانی سے محروم کیا جاتا ہے وہ گویا نیکی سے محروم سے کیا جاتا ہے۔ (مسلم) تشریح جامع صغیر کی روایت میں ہے کہ خیبر کے ساتھ کلہ کا لفظ بھی ہے لہذا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص نرمی و مہربانی کی خوبیوں سے عاری ہوتا ہے وہ تمام بھلائیوں سے محروم قرار پاتا ہے گویا اس ارشاد گرامی کا مقصد نرمی و مہربانی کے وصف کی فضیلت بیان کرنا اس عظیم وصف کو حاصل کرنے کی ترغیب دلانا اور سختی کی مذمت کرنا اور یہ بات واضح کرنا ہے کہ نرمی و مہربانی تمام بھلائیوں کے حاصل ہونے کا سبب ذریعہ ہے۔

【4】

حیا کی فضیلت

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ایک انصاری صحابی کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیاء کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ اس کو کچھ مت کہو کیونکہ حیاء ایک شاخ ہے ایمان کی۔ (بخاری ومسلم) تشریح وہ صحابی اپنے بھائی کو زیادہ حیاء کرنے سے منع کر رہے تھے کہ جو شخص زیادہ حیاء کرنے لگتا ہے وہ رزق علم حاصل کرنے سے باز رہتا ہے چناچہ جب نبی کریم ﷺ نے ان کو اس طرح کہتے ہوئے سنا تو ان کو منع کیا کہ تم اپنے اس بھائی کو حیاء کرنے سے نہ روکو کیونکہ حیاء بذات خود بہت اعلی وصف ہے اور ایمان کی ایک شاخ ہے۔ طیبی نے لفظ یعظ سے مراد ینذر ہے یعنی وہ صحابی اپنے بھائی کو ڈرا دھمکا رہے تھے امام راعب نے لکھا ہے کہ وعظ کے معنی ہیں کسی کو اس طرح تنبیہ کرنا کہ اس میں کچھ ڈر بھی ہو۔ خلیل نے یہ بیان کیا ہے کہ وعظ کہتے ہیں کہ خیر بھلائی کی اس طرح نصیحت کرنا کہ اس کے اس سے دل نرم ہوجائے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہاں وعظ عتاب کے معی میں ہے جیسا کہ ایک روایت میں یعظ کے بجائے یعاتب کا لفظ منقول ہے۔

【5】

حیا کی فضیلت

اور حضرت عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حیاء نیکی اور بھلائی کے سوا کوئی بات پیدا نہیں کرتا ایک اور روایت میں یہ ہے کہ حیاء کی تمام صورتیں بہتر ہیں۔ تشریح یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ بسا اوقات حیاء بعض حقوق کی ادائیگی جیسے امربالمعروف میں مخل ہوتی ہے تو اس اعتبار سے حیاء کی تمام صورتیں کو بہتر قرار دینا کیسے درست ہوسکتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جو حیاء اظہار حقیقت اور حق کی ادائیگی سے باز رکھے اس کو حیاء کہا جاتا ہی نہیں ہے بلکہ اس کو عجز اور بزدلی کہیں گے جو ایک طرح کی خرابی اور نقصان ہے اور اگر اس کو حیاء کہا بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ مجازا کہا جاسکتا ہے کیونکہ شریعت کی نظر میں حقیقی حیاء وہی ہے کہ جو برائی کو ترک کرنے کا باعث بنے علاوہ ازیں یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ حیاء کے زیادہ صحیح معنی نفس کا برائی سے رک جانا خواہ وہ برائی طبعی ہو یا شرعی۔ اور شریعت میں جس حیاء کو بہتر اور قابل تعریف کہا گیا ہے اس کی صحیح پہچان یہ ہے کہ نفس اس چیز کو اختیار کرنے سے باز رہے جس کو شریعت نے برائی قرار دیا ہے خواہ وہ حرام ہو یا مکروہ یا ترک اولی لہذا مذکورہ بالا اشکال کا زیادہ واضح جواب یہ ہے کہ یہ کلیہ حیاء خیر کلہ، حیاء کی ان صورتوں کے ساتھ خاص ہے جو حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے مطابق ہوں۔

【6】

ایک بہت پرانی بات جو پچھلے انبیاء سے منقول چلی آ رہی ہے۔

اور حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں نے پہلے انبیاء پر اترنے والے کلام میں سے جو بات پائی ہے وہ یہ کہ جب تو بےشرم ہوجائے تو جو جی چاہے کرے۔ (بخاری) تشریح ان مما ادرک الناس۔ کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بات پہلے انبیاء پر اترنے والے کلام سے ماخوذ ہے اور جس کا حکم ابھی تک باقی ہے نہ اس کو منسوخ قرار دیا گیا ہے اور نہ اس میں کوئی تغیر و تبدل ہوا ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ جملہ میں جو امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے یعنی جو جی چاہے کر اس سے حکم دینا طلب مراد نہیں ہے بلکہ یہ امر بطور خبر کے ہے جس کا مطلب ہے کہ جو چیز بری باتوں سے باز رکھتی ہے وہ حیاء ہے اور جب حیاء نہ رہے اور آدمی بےحیائی کا شیوہ اپنا لے تو پھر وہ جو چاہے کرے گا اور اس سے کسی گناہ اور کسی برائی کو اختیار کرنے میں کوئی باک نہیں ہوگا یا یہ کہ امر کا صیغہ بطور تہدید و توبیخ کے ہے اور اس سے مقصد یہ آگاہی دینا ہے کہ جب تم نے بےحیائی کی کمر باندھ لی تو جی چاہے کرو۔ لیکن یاد رکھو کہ وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے کہ جب تمہیں اپنے سارے کرتوتوں کی سزا بھگتنی پڑے گی گویا یہ جملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آیت (اعملو ماشئتم)

【7】

نیکی اور گناہ کیا ہے؟

اور حضرت نو اس بن سمعان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ نیکی خوش خلقی کا نام ہے اور گناہ وہ کام ہے جو تمہارے دل میں تردد پیدا کرے اور تم اس بات کو پسند نہ کرو لوگ تمہارے اس کام سے واقف ہوجائیں۔ (مسلم) تشریح تردد پیدا کرے کا مطلب یہ ہے کہ جب تم ایسا کام کرو جس پر تمہارے دل کو اطمینان نہ ہو بلکہ اس کی وجہ سے دل و دماغ میں ایک خلش پیدا ہوجائے تو سمجھو کہ تمہارا وہ کام بہتر نہیں ہے بلکہ گناہ کا باعث ہے لیکن واضح رہے کہ اس بات کا تعلق اس شخص سے ہے جس کے سینے کو اللہ نے اسلام کی دولت کے لئے کھول دیا ہے اور اس کا دل نور تقوی سے روش ہو علاوہ ازیں کام سے مراد وہ اعمال نہیں ہیں جن کی برائی کو شریعت نے واضح کردیا ہے اور جس کا گناہ ہونا کسی شک و شبہ سے بالاتر ہو بلکہ اس سے مراد کوئی ایسا فعل ہے جامم نوع ہونا شارع سے واضح طور پر منقول نہ ہو۔ اور اس کے متعلق علماء کے اختلافی اقوال ہوں اور تم اس بات کو پسند نہ کرو یہ گویا گناہ کی دوسری پہچان بیان فرمائی لیکن اس کا تعلق بھی انہی لوگوں سے ہے جو اچھے احوال کے ہوں۔

【8】

اچھے اخلاق کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے وہ شخص مجھ کو بہت پیارا ہے جو اچھے اخلاق کا حامل ہو۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ تم میں سے وہ شخص میرے نزدیک بہت محبوب ہے جو اچھے طور و عادات رکھتا ہو اور بہترین خصلتوں کا حامل ہو بایں طور کہ اللہ کے حقوق بھی ادا کرتا ہو اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی تقصیر و کوتاہی نہ کرتا ہو۔

【9】

اچھے اخلاق کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔

【10】

نرمی کی فضیلت واہمیت

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کو نرمی میں سے حصہ دیا گیا اس کو گویا دنیا و آخرت کی بھلائیوں میں سے حصہ دیا گیا جو شخص نرمی میں سے اپنے حصے سے محروم رہا وہ گویا دنیا و آخرت کی بھلائیوں میں سے اپنے حصہ سے محروم رہا۔ (شرح السنہ۔

【11】

حیا ایمان کا جزء ہے۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حیاء یعنی برے کاموں سے حجاب رکھنا ایمان کا جز ہے اور ایمان یعنی مومن جنت میں جائے گا اور بےحیائی بدی کا جز ہے اور بد دوزخ کی آگ میں جائے گا۔ (احمد، ترمذی)

【12】

خوش خلقی بہترین عطیہ خداوندی ہے

اور قبیلہ مزنیہ کے ایک شخص نے بیان کیا کہ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ جو چیزیں انسان کو عطا کی گئی ہیں ان میں سے بہترین چیز کیا ہے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا خوش خلقی اس روایت کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور شرح السنہ میں یہ روایت اسامہ بن شریک سے منقول ہے۔

【13】

بدخلقی اور سخت کلامی کی مذمت

اور حضرت حارثہ بن وہب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت میں نہ تو سخت کلام داخل ہوگا اور نہ بدخلق راوی کہتے ہیں کہ جو اظ کے معنی ہیں سخت کلام اور بدخلق۔ اس روایت کو ابوداؤد نے اپنی سنن میں اور بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے نیز صاحب جامع الاصول نے بھی جامع الاصول میں اس روایت کو حارثہ ہی سے نقل کیا ہے اور اسی طرح یہ روایت شرح السنہ میں حضرت حارثہ (رض) ہی سے ان الفاظ کے ساتھ نقل کی گئی ہے کہ جنت میں جو اظ جعظری داخل نہیں ہوں گے۔ گویا ان الفاظ میں جعظری کو جو اظ کی صفت قرار دیا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ جعظری کے معنی ہیں بدخلق اور سخت کلام اور مصابیح کے بعض نسخوں میں یہ روایت حضرت عکرمہ بن وہب (رض) سے منقول ہے ان میں یوں بیان کیا گیا ہے راوی نے کہا ہے کہ جو اظ اس شخص کو کہتے ہیں جو مال و دولت جمع کرے لیکن سائل کو کچھ نہ دے۔ اور جعظری اس شخص کو کہتے ہیں جو سخت کلام اور بدخلق ہو۔ تشریح جیسا کہ اوپر کی عبارتوں سے واضح ہوا کہ بعض روایتوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو اظ اور جعظری دونوں ایک معنی ہیں اور بعض روایتوں سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ جو اظ کے معنی متکبر کے ہیں اور جعظری کے معنی بدخلق لیکن ان سب روایتوں کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ یہ دونوں الفاظ معنی و مفہوم کے اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب ہیں اور دونوں کے درمیان زیادہ تفاوت نہیں ہے۔ اور ملا علی قاری کہتے ہیں کہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ جو اظ اور جعظری سے مراد وہ شخص ہے جو سخت دل اور بدخلق ہو یعنی جس کے باطنی احوال کی گمراہیوں اور عادات و اطور کی خرابیوں نے اس کو شقی القلب بنادیا ہے کہ نہ اس پر کسی وعظ کا اثر ہوتا ہو اور نہ اس کو اللہ کا خوف برائیوں سے روکتا ہو اسی لئے نبی کریم ﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا کہ وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اس کا قرینہ وہ روایت ہے جس کو خطیب نے حضرت عائشہ (رض) سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ ہر چیز کے لئے توبہ ہے مگر بدخلق کے حق میں توبہ گا رگر نہیں ہے کیونکہ وہ ایک تو گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے دوسرے گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ (اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی بدچلنی اور بداطواری اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ لایدخل الجنۃ الجواظ ولاالجعظری میں لفظ جعظری سے پہلے لا زائد لانا اس بات کی طرف اشارہ ہے یہ جو شخص ان دونوں بری خصلتوں میں سے کسی بھی ایک خصلت میں مبتلا ہوگا اس کو جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا اگر وہ شخص منافقین میں سے ہے تو اس کا جنت میں داخل نہ کیا جانا مطلق معنی پر محمول ہوگا اور اگر اس کا تعلق مومنین سے ہو تو پھر کہا جائے گا کہ اس کے حق میں ان الفاظ کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا کا مطلب یہ ہے کہ وہ نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ ابتداء جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

【14】

خوش خلقی کی فضیلت اور فحش گوئی کی مذمت

اور حضرت ابودرداء نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن مومن کی میزان اعمال میں رکھی جانے والی چیزوں میں بہت سی وزنی چیز حسن خلق ہے اور اللہ تعالیٰ فحش بکنے والے بےہودہ گو سے سخت نفرت کرتے ہیں اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے نیز ابوداؤد نے بھی اس روایت کا حصہ یعنی خلق حسن نقل کیا ہے۔ تشریح حضرت شیخ عبدالحق نے لفظ بذی کا ترجمہ بےہودہ گو لیا لیکن ملا علی قاری نے کسی شارح سے اس لفظ کے معنی بدخلق نقل کئے ہیں اور لکھا ہے کہ یہی معنی موقع کے مناسب ہیں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حدیث میں پہلے جملے کے مقابلہ پر جو دوسرا جملہ لایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن میزان اعمال میں بدخلقی بہت بےوزن چیز ہوگی۔

【15】

خوش خلقی اختیار کرنے والے کا مرتبہ

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مومن یعنی کامل مومن کہ جو عالم با عمل ہوتا ہے) خوش خلقی کے سبب وہ درجہ و مرتبہ حاصل کرتا ہے جو عبادت و ذکر الٰہی کے لئے شب بیداری کرنے والے اور ہمیشہ دن میں روزہ رکھنے والے کو ملتا ہے۔ (ابوداؤد) تشریح حضرت سہیل فرماتے ہیں کہ خوش خلقی کا سب سے کم تر درجہ یہ ہے کہ لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کیا جائے انتقام لینے سے گریز کیا جائے اور یہ کہ نہ صرف ظالم کے ظلم سے درگزر کیا جائے بلکہ اس کے حق میں مغفرت و بخشش کی دعا کی جائے اور اس کے تئیں رحم و شفقت کو اختیار کیا جائے۔

【16】

لوگوں سے جو معاملہ کرو خوش خلقی کے ساتھ کرو

اور حضرت ابودرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا اللہ سے ڈرو تم جہاں کہیں بھی ہو اگر تم سے کوئی برائی سرزد ہوجائے تو اس کے بعد نیک کام ضرور کرو تاکہ اس برائی کو مٹا دے اور لوگوں سے خوش خلقی کے ساتھ معاملہ کرو۔ (احمد، ترمذی، دارمی) تشریح اللہ سے ڈرو، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جن امور کو تم پر واجب کیا ہے ان سب کی بجا آوری و فرمانبرداری کرو اور جن چیزوں سے منع کیا ہے یعنی تمام طرح برائیاں ان سے اجتناب و پرہیز کرو۔ کہ اسی کو تقوی کہا گیا ہے اور تقوی دین کی بنیاد ہے جس کے ذریعہ ایقان و معرفت کے مراتب درجات حاصل ہوتے ہیں تقوی کا سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ شرک سے بےزاری و پاکی اختیار کی جائے اور اس کا سب سے اعلی درجہ یہ ہے کہ ماسوا اللہ سے اعراض کیا جائے ان دونوں درجوں کے درمیان تقوی کے دوسرے مراتب ہیں جن میں سے بعض کو بعض پر ترجیح حاصل ہے جیسے ممنوعات کو ترک کرنا ایک مرتبہ ہے اس سے برتر مرتبہ یہ ہے کہ مکروہات کو بھی ترک کیا جائے اور اس سے بھی برتر مرتبہ یہ ہے کہ جو چیزیں مباح ہیں ان میں سے بھی ان چیزوں کو ترک کیا جائے جو غیرضروری اور بےفائدہ ہوں۔ تم جہاں کہیں ہوں کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا اللہ سے ڈرنا یعنی احکام الٰہی پر عمل کرنا کسی خاص وقت کسی خاص جگہ اور کسی خاص حالت پر موقوف نہیں ہونا چاہیے بلکہ تم خواہ سفر میں ہو یا حضر میں خواہ نعمتوں سے بہرمندی کی حالت میں ہوں یا آفات بلاؤں میں مبتلا ہوں اور خواہ جلت میں ہوں یا خلوت میں غرض تم کسی جگہ پر اور کسی حالت میں ہو اور اس وقت اس جگہ اور اس حالت سے متعلق جو بھی احکام الٰہی ہوں ان پر عمل پیرا ہوں کیونکہ اللہ کے نزدیک تمہاری کوئی حالت پوشیدہ نہیں ہے اور وہ کسی بھی وقت تمہاری طرف سے غافل نہیں رہتا وہ جس طرح تمہاری ظاہری باتوں کو جانتا ہے اسی طرح تمہاری پوشیدہ باتیں بھی خوب جانتا ہے لہذا تمہارے لئے ضروری ہے اس کے احکام کی بجا آوری اور اس کی معصیت سے اجتناب کے جو تقاضے اور جو آداب ہیں ان کو بہر صورت نگاہ میں رکھو۔ منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت داؤد طائی کسی قبر کے پاس سے گزر رہے تھے کہ اللہ نے ان پر اس قبر کے اندر کے حالات منکشف کئے بایں طور کہ انہوں نے سنا قبر کے اندر سے ایک آواز باہر آرہی ہے جس میں مردہ کہہ رہا ہے کہ پروردگار کیا میں نے تیری نمازیں ادا نہیں کی ہیں کیا میں نے تیری زکوٰۃ ادا نہیں کی ہے اور کیا میں نے یہ نہیں کیا ہے وہ نہیں کیا ہے ؟ یعنی اس نے دنیا میں جتنے بھی نیک کام کئے تھے ان سب کو گنواتا رہا اس کی یہ بات سن کر فرشتوں نے جواب دیا کہ اے دشمن اللہ بیشک تو نے یہ سب کام کئے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جب تو خلوت میں ہوتا تھا اور اس وقت اللہ کے خوف پر گناہوں کو ترجیح دیتا تھا اور تجھے اس بات کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا تھا کہ اس حالت میں بھی تو اللہ کی نگاہ میں ہے۔ اگر تم سے برائی سرزد ہوجائے کا مطلب یہ ہے کہ انسان بہر حال انسان ہے یہ ضروری ہے کہ اس سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور لغزشیں اس کے پائے استقامت پر اثر انداز نہ ہوں، لہذا اگر……بشریت تم سے کوئی گناہ صادر ہوجائے تو اس کے بعد فورا نیک کام کرلو تاکہ وہ نیکی اس گناہ برائی کے اثرات کو مٹا دے۔ رہی یہ بات کہ نیک کام سے کیا مراد ہے ؟ تو اس سے توبہ اور مطلق کوئی بھی مراد ہے یا یہ نیکی مراد ہے جو گناہ و برائی کی ضد ہو چناچہ طیبی نے کہا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ نیک کام کرنے کے ذریعہ برائیوں کے اثرات مٹانے سے کسی بھی لمحہ غافل نہ رہے اس سے جو بھی برائی صادر ہو اس کے بدلہ میں اسی کی جنس سے کوئی نیک کام ضرور کرلے، اگر شراب نوشی کا گناہ سرزد ہوجائے تو اس کے بدلے میں جو حلال چیزیں اللہ کے واسطے لوگوں کو پلائے اگر کسی وقت تکبر میں مبتلا ہوجائے تو تواضع اختیار کرے اگر کسی جگہ گانا بجانا سننے کا اتفاق ہوجائے تو ان لوگوں کی ہم نشینی میں کچھ وقت گزارنا پڑا ہو جو گانے بجانے کی لغویت میں مبتلا ہوں تو اس کے بدلے میں قرآن پاک کی تلاوت سنے اور ذکر و نصیحت کی مجلس میں بیٹھے اور اسی طرح بخل کا تدارک، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ کرے۔ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ تاکہ وہ نیکی اس برائی کو مٹا دے تو مٹانے سے مراد یہ ہے کہ اللہ اس نیکی کے ذریعہ یا تو اس بندے کے دل پر سے برائی کے اثرات مٹا دیتا ہے یا اعمال لکھنے والے فرشتے کے رجسٹر میں سے اس برائی کو محو کردیتا ہے اور یہ مٹانا بھی اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب کہ اس برائی کا تعلق کسی حقوق العباد سے ہوتا ہے بایں طور کہ کوئی شخص کسی کے حق کو تلف کرتا ہے یا کسی پر ظلم کرتا ہے تو اس حق تلفی یا ظلم کا تدارک اس طرح کیا جاتا ہے کہ حق تلفی کرنے والے یا ظلم کرنے والے کے نامہ اعمال میں جو نیکیاں ہوتی ہیں ان میں سے اس کے بقدر نیکیاں صاحب حق کو دیدی جاتی ہیں یہ اور بات ہے کہ اللہ اپنے فضل و کرم سے دوسرے اجر و انعامات کے ذریعہ صاحب حق کو خوش کر دے اور وہ اس شخص کو معاف کرنے پر راضی ہوجائے۔ منقول ہے کہ ایک بزرگ کا اتنقال ہوگیا کچھ عرصہ کے بعد ایک دوسرے بزرگ نے خواب دیکھا کہ تو پوچھا کہ اللہ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ نے مجھ کو احسان و انعام سے نوازا اور میری بخشش فرما دی لیکن حساب کتاب ضرور ہوا یہاں تک کہ اس دن کے بارے میں بھی مجھ سے مواخذہ ہوا جب کہ میں روزے سے تھا اور ایک دوست کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا جب افطار کا وقت ہوا تو میں نے گہیوں کی ایک بوری میں سے گہیوں کا ایک دانہ اٹھا لیا اور اس کو توڑ کر کھانا ہی چاہتا تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ یہ گہیوں میرا نہیں ہے چناچہ میں نے وہ گہیوں فورا اسی جگہ ڈال دیا جہاں سے اٹھایا تھا اور اب اس کا بھی حساب لیا گیا یہاں تک کہ اس گہیوں کے توڑے جانے کے نقصان کے بقدر میری نیکیاں مجھ سے لی گئی ہیں۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ نیکیاں صغیرہ گناہوں کا بھی کفارہ ہوتی ہیں اور کبائر میں بھی ان گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہیں جو پوشیدہ ہوں کیونکہ حق تعالیٰ کا یہ ارشاد آیت (لنکفرن عنکم سیاتکم) بھی عموم پر دلالت کرتا ہے اور مذکورہ بالا حدیث بھی مطلق اور عام ہے البتہ جو کبیرہ گناہ ظاہر ہوگئے ہیں اور حاکم قاضی کے نزدیک ثابت ہوجائیں ان پر حد یعنی شرعی سزا کا نفاذ ساقط نہیں ہوگا۔ اور نہ وہ توبہ سے معاف ہوں گے۔

【17】

نرم مزاج اور نرم خو شخص کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں بتاؤں کہ وہ شخص کون ہے جو آگ پر حرام ہوگا جس پر آگ حرام ہوگی، تو سنو دوزخ کی آگ ہر اس شخص پر حرام ہوگی جو نرم مزاج، نرم طبعیت، لوگوں سے نزدیک اور نرم خو ہو، اس روایت کو احمد، ترمذی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تشریح سوال۔ کیا میں بتاؤں الخ میں از راہ مبالغہ و تاکید دونوں صورتیں یعنی اس شخص کا آگ پر حرام ہونا اور آگ کا اس شخص پر حرام ہونا ذکر فرمائیں اور چونکہ دونوں عبارتوں کا حاصل ایک ہی ہے یعنی اس شخص کا دوزخ کی آگ سے محفوظ رہنا اس لئے جواب میں دوسری ہی صورت کے بیان پر اکتفاء کیا اور ویسے بھی یہ بات عام بول چال کے زیادہ قریب ہے کیونکہ عام طور پر اس طرح کہا جاتا ہے کہ دوزخ کی آگ فلاں شخص پر حرام ہے۔

【18】

نیکوکار مومن کی تعریف۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا نیکوکار مومن بڑا بھولا اور شریف ہوتا ہے جب کہ بدکار بڑا مکار و بخیل و کمینہ ہوتا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد) ۔ تشریح غر کے معنی ہیں دھوکہ کھانے والا شخص اسی طرح صراحی وغیرہ میں غر کے معنی ناآزمودہ یا ناتجربہ کار نوجوان کے لکھے ہیں خب کے معنی ہیں وہ شخص جو دھوکہ دینے والا اور چالاک ہو۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نیکو کار شخص چونکہ طبعا مطیع و فرمانبردار ہونے کی وجہ سے نرم مزاج، شریف النفس اور سادہ لوح ہوتا ہے اس لئے وہ ہر فریب کار شخص سے دھوکہ کھا جاتا ہے وہ نہ تو لوگوں کے مکر و فریب سے آگاہ ہوتا ہے اور نہ مکر و فریب کی باتوں اور چالوں کی چھان بین اور دھوکہ بازوں کے احوال کی تحقیق و جستجو کرتا ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ وہ جاہل و نادان ہوتا ہے بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ اس کے مزاج کی نرمی و مروت حلم و کرم، عفو، درگزر کرنے کی عادت اور خوش خلقی ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے حدیث کا مطلب اس اسلوب میں بیان کیا ہے کہ نیکوکار شخص چونکہ سلیم القلب اور سادہ لوح ہوتا ہے اس لئے وہ لوگوں کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان رکھتا ہے کسی کے اندر کیا ہے اس کو وہ نہیں دیکھتا جس کے سینے میں کینہ ہوتا ہے اس کو وہ پہچانتا نہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو شخص اس کے سامنے جو کچھ کہہ دیتا ہے اس کو مان لیتا ہے اور دھوکہ کھا جاتا ہے ایک بات یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے سامنے آخرت کے معاملات اور نفس کی اصلاح کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور دنیا کے معاملات اس کی نظر میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتے لہذا وہ اپنے نفس کی اصلاح اور آخرت کے کاموں میں مشغول رہتا ہے اور دنیا کے کاموں پر زیادہ توجہ نہیں دیتا اس لئے اگرچہ وہ دنیاوی معاملات میں دھوکہ کھا جاتا ہے مگر آخرت کے معاملات میں ہوشیار اور عقل میں کام ہوتا ہے نیکو کار مومن کی اس حالت کو اگرچہ تعریف کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے مگر اس کے باوجود حضور نے اپنے اس ارشاد لایلدغ المومن من جحر واحد مرتین کے ذریعہ آگاہ بھی فرمایا ہے کہ مومن کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ غفلت اختیار کرے مسلسل دھوکہ کھاتا رہے اور ہوشیاری کے طریقہ کو بالکل ترک کر دے اور بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ لایلدغ المومن۔۔ کے ذریعہ مومن کو جس ہوشیاری و بیداری مغزی کی تلقین کی گئی ہے اس کا تعلق دنیا و آخرت دونوں معاملات سے ہے اگرچہ بعض حضرات نے اس کو صرف اخروی معاملات کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ نیکوکار کے برخلاف فاجر یعنی منافق وغیرہ کی خصلت یہ بیان فرمائی گئی ہے چونکہ دھوکہ دہی اور مکاری اس کی فطرت ہی میں داخل ہوتی ہے، فتنہ و فساد پھلانا ہی اس کا شیوہ ہوتا ہے اور اس کے نزدیک چشم پوشی ایک بےمعنی چیز ہوتی ہے اس لئے وہ جلد دھوکا نہیں کھاتا الاّ یہ کہ کوئی شخص اس سے بھی بڑا مکار و عیار ہو اور وہ اس کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجائے تاہم اگر وہ دانستہ دھوکا کھا بھی جاتا ہے تو اس کو برداشت نہیں کرتا بلکہ انتقام لینے کی سعی کرتا ہے۔

【19】

نیکوکار مومن کی تعریف۔

اور حضرت مکحول کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایمان رکھنے والے لوگ بردبار، نرم خو اور فرمانبردار ہوتے ہیں اس اونٹ کی طرح جس کی ناک میں نکیل میں پڑی ہو کہ اگر اس کو کھینچا جائے تو چلا آئے اور اگر پتھر پر بیٹھایا جائے تو پتھر پر بیٹھ جائے اس حدیث کو ترمذی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ مومن طبعا فرمان بردار ہوتا ہے وہ شریعت کا اتباع بلا چوں و چرا کرتا ہے، اللہ اور اللہ کے رسول کے احکامات جس طرح ہوتے ہیں ان کو اسی طرح بجا لاتا ہے ان میں اپنی طرف سے کوئی دخل اندازی نہیں کرتا اور ان احکام کی بجا آوری اور شریعت کی اتباع میں جو مشقت پیش آتی ہے اس کو برضا ورغبت برداشت کرتا ہے۔ یہ احتمال بھی ہے کہ اس حدیث میں مسلمانوں کی اس خصوصیت کو بیان کرنا مقصود ہو جو وہ آپس میں ایک دوسرے کی اتباع و فرمانبرداری اور ایک دوسرے کے ساتھ تواضع و انکساری اختیار کرنے اور غرور تکبر کرنے کی صورت میں رکھتے ہیں اور حقیقت میں یہ خصوصیت بھی احکام الٰہی کی اطاعت میں شامل ہے۔

【20】

لوگوں کے ساتھ رابطہ واختلاط عزلت وگوشہ نشینی سے افضل ہے۔

اور حضرت ابن عمر (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو مسلمان لوگوں کے ساتھ ربط و اختلاط رکھے اور ان کی اذیتوں پر صبر کرے وہ افضل ہے اس شخص سے جو لوگوں سے ربط و اختلاط نہ رکھے اور ان کی اذیتوں پر صبر نہ کرے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے ساتھ ربط و اختلاط اور میل جول رکھنا عزلت و تنہائی اور گوشہ نشینی اختیار کرنے سے افضل ہے چناچہ اکثر تابعین اس پر عامل تھے اور یہ چیز امر بالمعروف و نہی عن المنکر، خیر و بھلائی کے پھیلانے، باہمی امداد و تعاون اور دین و اسلام کی استعانت کے اعتبار سے بھی زیادہ کامل اور زیادہ افضل ہے، رہی یہ بات کہ عزلت و گوشہ نشینی کے بارے میں بھی احادیث منقول ہیں جس سے عزلت و گوشہ نشینی کا افضل و بہتر ہونا ثابت ہوتا ہے تو اس سلسلے میں اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس اختلاف کا تعلق زمان و مکان اور لوگوں کے احوال کے اختلاف سے ہے یعنی بعض موقعہ و مقام اور بعض لوگوں کے حالات کا تقاضا یہ ہوتا کہ ان کے ساتھ ربط و اختلاط رکھا جائے چناچہ ایسی صورت میں لوگوں سے ملنا جلنا عزلت و گوشہ نشینی اور لوگوں سے الگ تھلگ رہنا ہی افضل و بہتر ہوتا ہے، تاہم اس بارے میں جس درمیانی راہ کو اختیار کرنے کی ہدایت ہے وہ یہ ہے کہ ذہنی طور پر ضروری اور ناگزیر حالات کے علاوہ باقی اوقات میں عوام الناس سے الگ تھلگ رہا جائے اور جمعہ ان کے ساتھ اکٹھا ہونے پر اکتفا کیا جائے البتہ خواص یعنی صالحین وغیرہ کے ساتھ برابر ربط و اختلاط رکھا جائے اور ان سے عزلت و گوشہ نشینی اختیار نہ کی جائے لیکن عوام الناس سے عزلت و گوشہ نشینی اختیار کرنا اس صورت میں سود مند ہوگا جبکہ باعث عمل حاصل کیا جا چکا ہو اور زہد و توکل کا وہ درجہ نصیب ہوگیا ہو جہاں پہنچ کر انسان مخلوق سے بالکل بےنیاز ہوجاتا ہے اور کسی طرح کی طمع و خواہش نہیں رکھتا اسی لئے بعض عارفین نے کہا کہ عزلت و گوشہ نشینی بغیر علم کے ذلت و رسوائی ہے اور بغیر زہد و قناعت کے علت و خرابی ہے چناچہ کامل صوفیاء جیسے نقشبندیہ، شاذلیہ اس طریقہ پر عامل تھے کہ وہ لوگوں سے الگ تھلگ بھی رہتے تھے اور پھر ان سے ربط و اختلاط بھی رکھتے تھے۔

【21】

غصہ پر قابو پانے کی فضیلت

اور حضرت سہل بن معاذ اپنے والد (حضرت معاذ) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے غصہ کو پی جائے باوجودیکہ وہ اس غصہ پر عمل کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو قیامت کے دن اللہ اس کو مخلوق کے روبرو بلائے گا اور اس کو یہ اختیار دے گا کہ وہ جس حور کو چاہے پسند کرلے، اس روایت کو ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور ابوداؤد کی ایک اور روایت میں کہ جو انہوں نے سوید بن وہب سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ کے کسی صحابی کے ایک صاحبزادے سے نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں کہ حضور نے (تو قیامت کے دن اللہ اس کو مخلوق کے روبرو بلائے گا الخ۔ ) کے بجائے اس طرح فرمایا کہ اللہ اس شخص کے دل کو امن وامان سے معمور کرے (جو اپنے غصہ کو پی جائے) اور حضرت سوید کی یہ روایت من ترک لبس ثوب جمال الخ۔۔ کتاب اللباس میں نقل کی جا چکی ہے۔ تشریح اللہ اس کو مخلوق کے روبرو بلائے گا کا مطلب یہ کہ حق تعالیٰ قیامت کے دن ساری مخلوق کے درمیان اس شخص کو نیک شہرت دے گا، اس کی تعریف و توصیف کرے گا اور اس پر فخر کا اظہار کرے گا نیز اس کے بارے میں اعلان کیا جائے گا کہ یہ وہ شخص ہے جس کے اندر اتنی بڑی خوبی تھی۔ غصہ پر قابو پانے کی صفت کو اتنا اونچا مقام دینے کی وجہ یہ ہے کہ غصہ دراصل نفس امارہ کی ہیجانی کیفیت کا نام ہے اور جس نے اپنا غصہ پی لیا اس نے گویا اپنے نفس امارہ کو کچل ڈالا اسی لئے غصہ پر قابو پانے والوں کی تعریف حق تعالیٰ نے بھی ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ آیت (والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس) اور جو شخص اپنے نفس کو اس کی خواہش سے باز رکھتا ہے اس کا آخری ٹھکانہ جنت اور اس کا انعام حور عین ہے واضح رہے کہ جب اتنا عظیم اجر محض غصہ کو پی جانے پر حاصل ہوگا تو اس شخص کے مقام و مرتبہ کی بلندی کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے جو محض غصہ کو پی جانے پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کے ساتھ عفو و احسان کا برتاؤ بھی کرے چناچہ امام ثوری فرماتے ہیں کہ اصل احسان یہی ہے کہ تم اس شخص پر احسان کرو جو تمہارے ساتھ برائی کرے کیونکہ جس شخص نے تم پر احسان کیا ہے اگر تم اس پر احسان کرتے ہو تو وہ تمہارا احسان نہیں بلکہ بدلہ چکانا ہے۔

【22】

حیاء کی تعریف وفضیلت

اور حضرت زید بن طلحہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر دین اور مذہب میں ایک خلق ہے (یعنی ہر مذہب والوں میں ایک ایسی صفت و خصلت ہوتی ہے جو ان کی تمام صفتوں پر غالب اور ان کی ساری خصلتوں سے اعلی ہوتی ہے) اور اسلام کا وہ خلق حیاء ہے۔ اس روایت کو مالک نے بطریق ارسال نقل کیا ہے (کیونکہ زید صحابی نہیں ہیں بلکہ تابعی ہیں نیز ابن ماجہ اور شعب الایمان میں بیہقی نے اس روایت کو حضرت انس (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے۔ تشریح یہاں حیاء سے اس چیز میں شرم و حیاء کرنا مراد ہے جس میں حیاء کرنا مشروع ہے چناچہ جن چیزوں میں شرم و حیاء کرنے کی اجازت نہیں ہے جیسے تعلیم و تدریس، امربالمعروف ونہی عن المنکر ادائیگی حق کا حکم دینا خود حق کو ادا کرنا اور گواہی دینا وغیرہ وغیرہ ان میں شرم و حیاء کرنے کی کوئی فضیلت نہیں ہے۔ حدیث کا زیادہ مفہوم بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر دین کے لوگوں پر کوئی نہ کوئی وصف و خصلت غالب رہتی ہے چناچہ اہل اسلام پر جس طبعی وصف و خصلت کو غالب قرار دیا گیا ہے وہ حیاء ہے اور باوجودیکہ حیاء بھی ان اوصاف و خصائل میں سے ہے جو تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں میں مشترک طور پر پائی جاتی ہیں لیکن اسی وصف و حیاء کو خاص طور پر اہل اسلام پر غالب کیا گیا ہے اور دوسرے مذہب کے لوگوں میں اس جوہر کو بہت کم رکھا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حیاء نہ صرف یہ کہ طبعی خاصیتوں اور خصلتوں میں سب سے اعلی درجہ رکھتی ہے بلکہ یہ وہ جوہر ہے جس سے انسانی اخلاق و کردار کی تکمیل بھی ہوتی ہے اور چونکہ حضور نے فرمایا کہ بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہوں) اس لئے اس جوہر کے ذریعہ ملت اسلامیہ کے اخلاق اوصاف کو کمال کے درجہ پر پہنچایا گیا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ صرف حیاء ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہم سے پہلے کی امتوں میں تمام ہی اخلاق و خصائل ناقص تھے یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ دنیا میں تشریف لائے اور آپ کی برکت سے ملت اسلامیہ میں تمام اخلاق و خصائل کو کامل و مکمل کیا گیا اسی لئے ملت اسلامیہ کی اس خاصیت کو اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ آیت (کنتم خیر امۃ اخرجت للناس) (تم کو دنیا والوں کے لئے سب سے بہتر امت بنا کر پیدا کیا گیا ہے الخ۔ ) ۔۔ ابن ماجہ اور بیہقی نے مذکورہ بالا روایت کو حضرت انس (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے بطریق موقوفہ نقل نہیں کیا ہے جیسا کہ عبارت سے ظاہر اسلوب سے یہ گمان ہوسکتا ہے بلکہ بطریق مرفوع نبی کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کے طور پر نقل کیا ہے نیز مذکورہ عبارت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں یعنی ابن ماجہ اور بیہقی میں سے ہر ایک نے ان دونوں صحابی سے اس روایت کو نقل کیا ہے اور یہ بھی احتمال ہوسکتا ہے کہ مذکورہ عبارت میں ان دونوں کا ذکر علی الترتیب ہو یعنی ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت انس (رض) سے اور بہیقی نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے، لیکن جامع صغیر میں اس حدیث کو ابن ماجہ کے سلسلہ کے ساتھ براویت حضرت انس (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) نقل کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی طرح بیہقی نے بھی اس روایت کو ان دونوں صحابی سے نقل کیا ہے۔

【23】

ایمان اور حیاء لازم ملزوم ہیں

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا حیاء اور ایمان کو ایک دوسرے کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے لہذا جب کسی کو ان دونوں میں سے کسی ایک سے محروم کیا جاتا تو وہ دوسرے سے بھی محروم رکھا جاتا ہے یعنی جو شخص ایمان سے محروم رہتا ہے وہ حیاء سے محروم رکھا جاتا ہے اور جس میں حیاء نہیں ہوتی اس میں ایمان بھی نہیں ہوتا اور ایک دوسری روایت جو حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے یوں ہے کہ ان دونوں میں سے جب ایک کو دور کیا جاتا ہے تو دوسرا بھی جاتا رہتا ہے۔ (بہیقی) تشریح لفظ قرناء اصل میں قرین کی جمع ہے اس اعتبار سے یہ لفظ ان لوگوں کی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اقل جمع کا اطلاق دو پر بھی ہوتا ہے ویسے بعض نسخوں میں یہ لفظ ماضی مجہول کے صیغہ تثنیہ کے ساتھ منقول ہے۔

【24】

خوش خلقی کی اہمیت

اور حضرت معاذ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جن باتوں کی نصیحت و وصیت فرمائی ان میں سب سے آخری وصیت جو آپ نے اس وقت فرمائی جب کہ میں نے (گھوڑے پر سوار ہونے کے لئے اپنا پاؤں رکھا تھا یہ تھی کہ معاذ لوگوں کی تربیت وتعلیم کے لئے خوش خلقی اختیار کرنا۔ (مالک) تشریح نبی کریم ﷺ نے اپنے زمانہ حیات میں حضرت معاذ (رض) کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تھا چناچہ جب حضرت معاذ (رض) اپنا منصب سنبھالنے کے لئے یمن روانہ ہونے لگے تو حضور نے ان کو بہت سی نصیحتیں فرمائیں گھوڑے پر سوار کرایا اور رخصت کرنے کے لئے خود پاپیادہ کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے اس وقت نبی کریم ﷺ نے ان سے یہ الفاظ بھی فرمائے کہ معاذ، شاید تم پھر مجھے نہ دیکھ پاؤ چناچہ معاذ کو اس کے بعد سرکار رسالت پناہ کی زیارت نصیب نہیں ہوئی، وہ یمن ہی میں تھے کہ نبی کریم ﷺ نے اس دنیا سے پردہ فرما لیا، بہرحال حضرت معاذ (رض) نے مذکورہ بالا روایت میں نبی کریم ﷺ کی جس وصیت کا ذکر کیا ہے وہ اسی موقع پر ان کے لئے نبی کریم ﷺ کی آخری نصیحت تھی۔ سیوطی کہتے ہیں کہ یہاں لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو خوش خلقی اور نرمی و مہربانی کے مستحق ہوں ورنہ جہاں تک اہل کفر و فسق اور ظالموں کا تعلق ہے وہ اس دائرہ سے خارج ہیں اور ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنے کا حکم ہے بلکہ سرکش لوگوں کے ساتھ اختیار کی جانے والی سختی درشتی کو ظاہر کرنا ہی حسن خلق میں داخل ہے کیونکہ نہ صرف ان کی تربیت و تہذیب اسی سختی و درشتی پر منحصر ہوتی ہے بلکہ ان کے ساتھ اختیار کئے جانے والے اس رویہ کے ساتھ دوسرے لوگوں کے حالات کی بہتری و سلامتی بھی وابستہ ہوتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ سیوطی کے نزدیک گویا حدیث میں حسن خوش خلقی سے مراد نرمی و مہربانی اور عفو درگزر کا رویہ اختیار کرنا۔

【25】

خوش خلقی کی اہمیت

اور حضرت مالک سے منقول ہے کہ ان تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں یعنی اس دنیا میں میری بعثت کا ایک عظیم مقصد یہ ہے کہ انسانی اخلاق و اوصاف کو بیان کروں اور ان کو درجہ کمال تک پہنچا دوں۔ (موطا امام مالک اور احمد نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے) اپنی بہترین صورت و سیرت پر نبی کریم ﷺ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔

【26】

خوش خلقی کی اہمیت

اور حضرت جعفر بن محمد اپنے والد بزرگوار حضرت امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا، رسول اللہ جب آئینہ دیکھتے تو فرماتے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں وہ اللہ کہ جس نے مجھ کو بہترین تخلیق سے نوازا میرے اخلاق و کردار کو اچھا بنایا اور مجھ میں ان چیزوں کو آراستہ جو میرے عیب و نقصان کا باعث ہیں، اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں بطریق ارسال نقل کیا ہے۔ تشریح حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بعض آدمیوں کی جسمانی تخلیق میں کوئی عیب و نقصان ہوتا ہے کہ مثلا کوئی شخص ایک ہاتھ سے یا ایک آنکھ سے محروم ہوتا ہے یا کسی شخص کو کوئی ٹانگ ٹیڑھی ہوتی ہے یا کوئی اور عضو ناقص ہوتا ہے اس طرح اللہ نے مجھ میں کوئی جسمانی عیب نقصان نہیں رکھا بلکہ مجھ کو تمام عیوب سے محفوظ رکھا ملا علی قاری کی وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے نقصان و عیب عام ہیں کہ اس کا تعلق خواہ جسمانی تخلیق و پیدائش سے ہو یا اخلاق و کردار سے، بہرحال یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کسی بھی انسان کے مقابلہ میں نبی کریم ﷺ کی سیر و صورت بہت اعلی اور بہت خوب تھی اور جیسا کہ طیبی نے کہا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث گویا نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد، بعثت لاتیمم۔۔۔۔۔ کی وضاحت بھی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا اپنے حسن و صورت و حسن سیرت پر اللہ کا شکر ادا کرنا اور اس کی حمد وثناء کرنا، حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس حمد و شکر کی طرح ہے جس کو قرآن میں اللہ نے یوں فرمایا آیت (ولقد اٰتینا داؤد) ۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔۔ یعنی بلاشبہ ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم سے مالا مال کیا اور ان دونوں نے کہا کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے مومن بندوں میں سے اکثر فضیلت عطا فرمائی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آئینہ دیکھنا مستحب ہے اور اپنے حسن و صورت اور حسن سیرت پر اللہ کی حمد وثناء کرنا بھی مستحب ہے کیونکہ یہ دونوں نعمتین اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہیں لہذا ان پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے رہی یہ بات کہ ظاہری حسن و خوبصورتی ایک ایسی چیز ہے جس کو آئینہ میں دیکھا جاسکتا ہے لہذا آئینہ دیکھ کر اس پر شکر ادا کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اس کے ساتھ حسن سیرت یا حسن خلق کا ذکر سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ وہ ایک پوشیدہ چیز ہے جس کا آئینہ میں دیکھا جانا ناممکن ہی نہیں ہے ؟ اس کے جواب میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بیشک حسن سیرت کوئی نظر آنے والی چیز نہیں ہے لیکن انسان کا ظاہر بہر حال اس کے باطن کی غمازی کرتا ہے اور کسی دوسرے کے بارے میں بات چاہے صحیح نہ ہو لیکن رسول اللہ پر یہ بات ضرور صادق آتی ہے کہ حسن صورت سیرت کا ایک جلی عنوان ہوتا ہے جس کو دیکھ کر باطن کے احوال کا ادراک کیا جاسکتا ہے لہذا اس منابست سے حضور نے حسن سیرت کے ساتھ حسن صورت کو بھی ذکر فرمایا اور اگر یہ سوال پیدا ہو کہ کیا نبی کریم ﷺ کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی اتباع میں آئینہ دیکھ کر مذکورہ طرح سے حمد وثناء کریں یا اس طرح حمد وثناء کرنا صرف نبی کریم ﷺ کے ساتھ مخصوص تھا اور دوسرے لوگ وہ دعا پڑھیں جو آگے آنے والے حدیث میں نقل کی گئی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں حمد وثناء اور شکر جو الفاظ مذکو رہیں ان کو ہر مومن پڑھ سکتا ہے کیونکہ انسان اس اعتبار سے کہ وہ اچھی صورت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے کہ اور وہ صاحب الایمان ہے بلاشک و شبہ اللہ کی مخلوق کامل اور دین و اخلاق کے اوصاف سے مزین ہونا ہوتا ہے تاہم بعض حضرات نے کہا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حمد وثناء اور شکر کے مذکورہ الفاظ اپنی ذات کے تعلق سے فرمائے ہوئے تھے اور ظاہر ہے کہ حسن صورت اور حسن سیرت کا وصف جو کمال و نہایت کے ساتھ حضور کی ذات میں تھا وہ کسی دوسرے میں نہیں ہوسکتا اس لئے کسی دوسرے کے لئے ان الفاظ کو استعمال کرنا موزوں نہیں ہوگا امت کے بعض افراد کے اعتبار سے اس طرح کے الفاظ کے استعمال کو جائز نہ کہا جائے لیکن امت کے لئے بہتر یہی ہے کہ اسی دعا کو اختیار کیا جائے جو اگلی حدیث میں منقول ہے۔

【27】

حسن خلق کی دعا

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ ! تو نے میری جسمانی تخلیق کو اچھا کیا ہے لہذا میرے اخلاق کو بھی اچھا بنا۔ (احمد) تشریح یہ دعا یا تو آپ مطلق کسی بھی وقت فرماتے تھے یا آئینہ میں اپنی صورت دیکھ کر فرماتے تھے جیسا کہ جزری نے حصن حصین میں صراحت بھی کی ہے کہ اور پہلی حدیث کے مطابق یہی زیادہ موزوں ہے نیز نبی کریم ﷺ کی یہ دعا تو امت کی تعلیم تلقین کے لئے تھی تاکہ امت کے لوگ اپنے حق میں اسی طرح دعا مانگا کریں اور یا اس دعا کا تعلق خود آپ کی ذات سے تھا اس صورت میں آپ کی مراد گویا یہ طلب درخواست تھی کہ خدایا اپنے دین کو کامل اور اپنی نعتموں کو پورا کر دے اس مراد کا قرینہ اس صورت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کے خلق کو اچھا اور مہذب کرنے کا ذریعہ قرآن کریم تھا جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا گیا کہ نبی کریم ﷺ کا خلق کیا ہے آپ نے فرمایا قرآن۔ لہذا نبی کریم ﷺ کا اپنے اخلاق کا اچھا ہونے کی دعا کرنا درحقیقت قرآن کو نازل کرنے اور اس کے نزول کو پورا کرنے کی طلب درخواست تھی۔

【28】

بہترین لوگ کون ہیں۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں بہترین لوگ کون ہیں صحابہ نے عرض کیا ہاں ضرور بتائیں فرمایا تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو لمبی عمر والے ہیں اور جن کے اخلاق اچھے ہیں۔ (احمد) تشریح ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے اخلاق واطوار پاکیزہ اور اچھے ہوں گے ان کی عمر زیادہ ہوگی تو وہ نیکیاں اور عبادتیں بہت کریں گے جس کے نتیجے میں ان کو فضائل و کمالات بھی زیادہ حاصل ہوں گے اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کی عمر کا دراز ہونا اس کے حق میں بہت مبارک ہے اور حقیقت میں دراز عمر شخص وہی ہے جو نیک کاموں میں مشغول رہے۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایمان میں کامل ترین لوگ وہی ہیں جن کے اخلاق بہتر ہیں۔ (ابوداؤد، دارمی)

【29】

تین خاص باتیں۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے حضرت ابوبکر (رض) کو برا بھلا کہا نبی کریم ﷺ اس کی سخت سست باتوں کو سن کر حیرت کرتے اور مسکراتے تھے یہاں تک کہ جب وہ شخص برا بھلا کہنے میں حد سے گزر گیا تو حضرت ابوبکر (رض) نے بھی اس کی بعض باتوں کا جواب دیا یعنی انہوں نے بھی اس شخص کو برا بھلا کہا۔ اس پر نبی کریم ﷺ ناراض ہوگئے اور وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے حضور کے پیچھے پیچھے حضرت ابوبکر (رض) بھی آگئے اور خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ جب وہ شخص مجھ کو برا بھلا کہہ رہا تھا آپ وہاں بیٹھے رہے لیکن میں نے جب اس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو آپ ناراض ہوگئے اور وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اس میں آپ کے اٹھنے کی کیا حکمت تھی حضور نے فرمایا اصل بات یہ ہے کہ جب تک تم خاموش رہے تو تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمہاری طرف سے اس کو جواب دے رہا تھا مگر جب تم نے خود جواب دیا تو شیطان درمیان میں کود پڑا پھر فرمایا تیں باتیں ہیں اور وہ سب حق ہیں ایک تو یہ کہ جو بندہ کسی کے ظلم کا شکار ہوتا ہے محض اللہ کی رضا کے لئے نہ اپنے عجز کی وجہ سے اس ظالم سے چشم پوشی کرتا ہے یعنی اس سے درگزر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سبب یا اس کے اس وصف کے سبب پر دنیا و آخت میں اپنی مدد کے ذریعہ اس بندہ کو مضبوط و قوی بناتا ہے دوسرے یہ کہ جو بھی بندہ اپنی عطاء و بخشش کا دروازہ کھولتا ہے کہ تاکہ اس کے ذریعہ اپنے قرابت داروں اور مسکینوں کے ساتھ احسان و نیک سلوک کرے تو اللہ اس کے عطا و بخشش کے سبب اس کے مال و دولت میں اضافہ کرتا ہے اور تیسرے یہ کہ جو شخص سوال گدائی کا دروازہ کھولتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ اپنی دولت کو بڑھائے تو اللہ اس کو گدائی کے سبب اس کے مال دولت میں کمی پیدا کردیتا ہے اور اس کو نقصان و بربادی سے دوچار کردیتا ہے یا اس کو خیر و برکت سے اس طرح محروم کردیتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے مال میں کمی نقصان کو محسوس کرتا رہتا ہے۔ تشریح حیرت کرتے اور مسکراتے تھے میں حیرت کا تعلق تو اس شخص کی بدزبانی اور اس میں شرم و حجاب کی کمی سے تھا یا حضرت ابوبکر (رض) کے صبر و تحمل اور ان کے باوقار و بردبار رویہ سے تھا اور مسکرانے کا تعلق اس فرق سے تھا کہ جو آپ نے ان دونوں کے درمیان دیکھ رہے تھے علاوہ ازیں آپ کی نظر ان دونوں کے حق میں مرتب ہونے والے نتیجہ پر تھی کہ وہ شخص تو اپنی بدکلامی کے سبب عذاب کا مستوجب ہو رہا تھا اور حضرت ابوبکر (رض) اپنے صبر تحمل کی چشم پوشی کے سبب رحمت الٰہی نازل ہو رہی تھی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے ان کی باتوں کا جواب دیا گویا انہوں نے اس موقع پر جواب دے کر رخصت و اجازت پر عمل کیا جو ایک عام آدمی کے لئے موزوں ہے اس عزیمت کو ترک کیا جو خواص کے مرتبہ و شان کے عین مطابق ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا آیت (جزاء سیئتۃ) ۔۔۔۔۔۔ برائی کا بدلہ اس برائی کے مطابق لیا جاسکتا ہے لیکن جو شخص درگزر کرے اور صبر اختیار کرے گویا دونوں پہلوں کی رعایت کی مگر نگاہ نبوت میں چونکہ ان کے لئے وہ مرتبہ کمال مطلوب تھا جو ان کی شان صدیقیت کے مطابق ہے اس لئے ان کا اس شخص کی بعض باتوں کا جواب دینا بھی حضور کو پسند نہیں آیا اور آپ پر وہ کیفیت طاری ہوگئی جو ناراض ہوجانے والے شخص پر ہوتی ہے۔ چناچہ آپ مجلس سے اٹھ کر چلے گئے تاکہ ایک طرف تو حضرت ابوبکر (رض) کے رویہ پر ناپسندیدگی کا اظہار ہوجائے اور دوسری طرف اللہ کے اس ارشاد پر عمل بھی ہوجائے کہ، آیت (واذاسمعوا اللغو) ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب وہ کوئی لغو بات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں۔ شیطان درمیان میں کود پڑا۔ یعنی نبی کریم ﷺ نے گویا یہ واضح فرمایا کہ جب تم خود جواب دینے لگے تو پھر شیطان کو دخل دینے کو موقع مل گیا اور وہ فرشتہ جو تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا آسمان پر چلا گیا اور تم یہ جانتے ہو کہ جب کسی معاملہ میں شیطان کود پڑتا ہے تو کیا کچھ نہیں ہوجاتا اور وہ بےحیائی و برائی پر اکسانے کے علاوہ اور کیا کرتا ہے چناچہ مجھے خوف ہوا کہ کہیں شیطان کا داؤد تم پر نہ چل جائے اور تم اپنے مخالف سے بدلہ لینے میں حد سے زیادہ نہ بڑھ جاؤ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم جو مظلوم تھے ظالم کی جگہ پر آجاؤ جب کہ چاہیے یہ کہ تم اللہ کے مظلوم بندے بنو ظالم بندے نہ ہو۔

【30】

نرمی ومہربانی کرنے کا اثر

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ جن گھر والوں کے لئے نرمی و مہربانی پسند کرتا ہے اس کے ذریعہ ان کو نفع پہنچاتا ہے اور جن گھر والوں کو نرمی و مہربانی سے محروم رکھتا ہے اس کے ذریعہ ان کو نقصان پہنچاتا ہے۔ (بیہقی)