150. فقراء کی فضیلت اور نبی ﷺ کی معاشی زندگی

【1】

غصہ اور تکبر کا بیان

غضب کے معنی ہیں غصہ ہونا اور حقیقت میں غضب یا غصہ اس طبعی کیفیت کو کہتے ہیں جو طبیعت و مزاج کے خلاف پیش آنے والی بات پر نفس کو برانگیختہ کرنا اور ناپسندیدہ چیز میں مغضوب علیہ کی طرف میلان کرتی ہے تاکہ اس سے انتقام لے سکے اور طبیعت کے خلاف پیش آنے والی صورت حال کو دور کرسکے اسی وجہ سے غصہ کی حالت میں چہرہ سرخ ہوجاتا ہے اور رگیں پھول جاتی ہیں اسی طرح خوشی کی حالت میں بھی روح باہر کی طرف میلان کرتی ہے تاکہ اس چیز کے سامنے آجائے جو خوشی کا باعث بنی ہے چناچہ غصہ یا خوشی کی زیادتی کے وقت ہلاکت کا خوف اس لئے ہوتا ہے کہ اسے موقع پر روح پوری طرح بالکل نکل آنا چاہتی ہے اس کے برخلاف غم یا خوف کی حالت میں روح اندر کی طرف چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے چہرہ پر زردی چھا جاتی ہے اور جسم کو کمزوری لاحق ہوجاتی ہے اس حالت میں بھی ہلاکت کا خوف ہوتا ہے کیونکہ روح پوری طرح اندر کی طرف چلی جاتی ہے اور مطلق سرد ہوجاتی ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ کی طرف غضب و غصہ کی نسبت کرنا جیسا کہ ایک موقع پر فرمایا گیا ہے کہ من لم یسال اللہ یغضب علیہ۔ جو شخص اللہ کے سامنے دست دراز نہیں کرتا تو اللہ اس پر غصہ ہوتا ہے۔ مجاز ہے اور اللہ کے غصہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس بندے سے ناراض ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جو کوئی بادشاہ غصہ کے وقت اپنی رعایا کے ساتھ کرتا ہے یعنی سزا دیتا ہے اور عذاب نازل کرتا ہے غضب کی ضد حلم ہے اور حلم دراصل نفس و طبیعت کے اس سکون و استقلال کو کہتے ہیں کہ جو محبوب ترین چیز کے قریب پہنچ جانے اور مقصود مراد کے بالکل سامنے ہونے کے وقت بھی انسان کو بےقرار نہیں ہونے دیتا جیسا کہ وفد عبدالقیس کے سردار حضرت منذر کے بارے میں یہ روایت منقول ہے کہ جب وہ اپنا وفد لے کر مدینہ پہنچے تو انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھ کر اس اضطراب بےقراری کا اظہار نہیں کیا جو ان کی قوم کے دوسرے لوگوں نے ظاہر کیا تھا اور اسی لئے نبی کریم ﷺ نے ان کو حلم و وقار کی خوبیوں سے موصوف قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ غضب غصہ کوئی ایسی خصلت نہیں ہے جس کو بذات خود برا کہا جائے بلکہ اس میں برائی اس وقت آتی ہے جب اس کی وجہ سے راہ حق چھوٹ جائے اور احکام شریعت کی پابندی ترک ہوجائے چناچہ جو غضب حق کی خاطر ہو اور حق کی راہ میں ہو اس کو محمود و مستحسن کہا جائے گا یہی وجہ ہے کہ راہ طریقت و سلوک میں ریاضت و مجاہدہ کا مقصد مطلق غضب و غصہ کو ختم کردینا نہیں بلکہ اس کو قابو میں رکھنا اور حق کے تابع کرنا ہوتا ہے اور ویسے بھی قدرت نے غضب کو ایسی قوت بنایا ہے جو جسمانی نظام کو برقرار رکھنے کا ذریعہ اور بقاء حیات کا سبب ہے کیونکہ یہ قوت غضبیہ ایسی ہوتی ہے جو مضرات موذیات سے بچاتی ہے چناچہ نباتات و جمادات کو نیست و نابود کرنے پر ہر کوئی اسی لئے قادر ہوجاتا ہے کہ حق تعالیٰ نے ان دونوں کو قوت غضبیہ سے محروم رکھا ہے اس کے برخلاف حکمت کاملہ الٰہی نے حیوان میں نہ صرف یہ کہ قوت غضبیہ پیدا کی ہے بلکہ ان کے بعض جسمانی حصوں کو گویا ایسے آلات و ہتھیار کے طور پر بنایا جن سے وہ اپنے نقصان و ایذء سے اپنا دفاع کرسکیں جیسے سینگ اور دانت وغیرہ اور انسان میں اگرچہ اس طرح کی چیزیں پیدا نہیں کی ہیں لیکن اس کو وہ عقل و تدبیر دکھا دی ہے جس کے ذریعہ وہ ضرورت و حالت کے مطابق ایسے آلات و ہتھیار بنا سکتا ہے جو اس کو نقصان پہنچانے والے سے محفوظ رکھتے ہیں کبر کے اصل معنی تو بڑائی کے ہیں لیکن یہاں اس سے مراد وہ کبر ہے جو عجب یعنی خود بینی و خود ستائی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے چناچہ اپنے آپ کو اس طور پر سمجھنا اور بڑا ظاہر کرنا کہ جس کے سبب لوگوں پر اپنی فوقیت برتری جتانا مقصود ہو حق کو قبول کرنا اور حق کی فرمانبرداری سے انکار ہوتا ہو اور تمرد سرکشی ظاہر ہوتی ہو تکبر اور استکبار کہلائے گا واضح رہے کہ کبر اور تکبر اس صورت میں مذموم ہیں کہ جب کہ وہ واقع کے خلاف ہوں یعنی اگر کوئی شخص اپنی ذات میں ایسے اوصاف و فضائل اور کمالات کا دعوی کرے جن سے حقیقت میں وہ خالی ہو اور مصنوعی طور پر اپنے آپ کو ان فضائل و کمالات سے متصف ظاہر کرتا ہو تو ایسا مذموم ہوگا اور اگر اس شخص کی ذات میں واقعتا ایسے فضائل و کمالات ہوں جن کی بنا پر وہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر و بلند سمجھے اور یہ اس کو ظاہر کرتا ہو تو یہ مذموم نہیں ہوگا نیز یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ تکبر کے مقابلہ میں تواضع ہے جو کبر اور صغر کے درمیان توسط اور راہ استدلال ہے چناچہ کبر تو یہ ہے کہ کوئی شخص ان اوصاف و فضائل سے بھی زیادہ کا دعوی کرے جو وہ اپنے اندر رکھتا ہے اور صغر یہ ہے کہ اپنے اصل مقام سے بھی نیچے گرجائے اور وہ جس چیز کے دعوی کا حق رکھتا ہے کہ اس کو بھی ترک کر دے ان دونوں کے درمیان تواضع ہے جو توسط اور اعتدال کا مقام ہے یعنی اپنے آپ کو نہ تو حد سے زیادہ بڑھایا جائے اور نہ حد سے نیچے گرایا جائے بلکہ بین بین رکھا جائے کیونکہ ہر چیز اور ہر حالت کی طرح اس معاملہ میں بھی اصل کمال توسط اور اعتدال ہی ہے اگرچہ مشائخ اور صوفیا قدس اللہ ارواحھم کا معمول یہ رہا ہے کہ جب وہ اپنے نفس میں تکبر کا غلبہ دیکھتے تو اس کو زائل کرنے میں اتنا ہی مبالغہ کرتے کہ تواضع کے بجائے صغر کا مقام اختیار کرنے کی کوشش کرتے تاکہ نفس آخرالامر تواضع کے مقام پر رک جائے۔

【2】

غصہ سے اجتناب کی تاکید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے عرض کیا مجھے کوئی نصیحت فرما دیجیے تاکہ میں اس پر عمل کر کے دین و دنیا کی بھلائی حاصل کروں آپ نے فرمایا غصہ مت کرو، اس شخص نے یہ بات کہ آپ مجھے کوئی نصیحت فرما دیں کئی مرتبہ کہی اور آپ نے ہر مرتبہ یہی فرمایا کہ غصہ مت کرو۔ (بخاری) تشریح چونکہ اس شخص میں غصہ کا مادہ زیادہ تھا اس لئے اس نے جتنی مرتبہ بھی یہ درخواست کی کہ مجھ کوئی نصیحت فرما دیجیے آپ نے یہی جواب دیا کہ غصہ مت کیا کرو چناچہ نبی کریم ﷺ کا معمول یہی تھا کہ سوال کرنے والا جس حالت و کیفیت کا حامل ہوتا اس کو جواب اسی حالت و کیفیت کے مطابق ارشاد فرماتے اور ہر ایک کے مرض کا علاج اس کے احوال کی مناسبت سے تجویز فرماتے اسی لئے آپ نے اس شخص کے حق میں اجتناب کے حکم کو بار بار ظاہر کرنا ہی مناسب جانا۔ بعض محققین کہتے ہیں کہ غضب و غصہ کی حالت دراصل شیطانی وسوسوں سے پیدا ہوتی ہے جس کے سبب انسان ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی اعتدال کی راہ سے گزر جاتا ہے اور شیطان کے جال میں پھنس جاتا ہے چناچہ اس حالت میں وہ نہ صرف اس طرح اول فول بکنے لگتا ہے اور ایسے افعال و حرکات کا ارتکاب کرتا ہے جو شرعی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی نہایت برے اور نازیبا ہوتے ہیں بلکہ دل میں کینہ اور بغض بھی رکھتا ہے اس کے علاوہ ایسی اور بہت سی چیزیں اس سے صادر ہوتی ہیں جو بدخلقی وبد خوئی کی نشانیاں ہیں اور بسا اوقات تو غصہ کرنے والا اس درجہ مغلوب الغضب ہوجاتا ہے کہ اس سے کفر تک سرزد ہوجاتا ہے اس حقیقت سے بھی یہ بات واضح ہوئی کہ غضب و غصہ چونکہ انسان کو دین و دنیا کے سخت ترین نقصان میں مبتلا کردیتا ہے اس لئے آپ نے مذکورہ شخص کے بار بار عرض گزار ہونے کے باوجود بس ایک ہی نصیحت کی کہ غصہ مت کرو اور ہر مرتبہ اسی کی تاکید کی گویا آپ نے اس کو یہ تعلیم ارشاد فرمائی کہ غصہ کا تعلق بد خلقی سے ہے اور بد خلقی محض ایک ہی برائی نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے نہ معلوم کتنی برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور کتنے ہی نقصانات کرنا پڑتے ہیں لہذا غصہ سے اجتناب و پرہیز کر کے خوش خلقی اختیار کرو جو دین و دنیا کی بھلائیوں اور دارین کی سعادتوں کی ضامن ہے۔ ایک بات یہ جان لینی چاہیے کہ غصہ کا علاج بھی تجویز کیا ہے جو علم و عمل یا ظاہر و باطن کا مرکب ہے چناچہ اگر کوئی ایسی صورت حال پیش آجائے جو غصہ کا سبب ہو تو اس صورت میں علمی یا باطنی و قلبی علاج یہ ہے کہ دل میں یہ تصور کرے اور اس پر یقین رکھے کہ کوئی کام اللہ کے ارادہ و تقدیر کے بغیر نہیں ہوتا جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، نفع نقصان سب اسی کے اختیار میں ہے، انسان تو ظاہر میں ایک آلہ ہے جس شخص کی طرف سے کوئی نقصان یا تکلیف پہنچے اس پر غصہ ہونا ایسا ہے جیسے کوئی شخص چھری یا چاقو پر غصہ ہو کر اس نے کیوں کاٹا علاوہ ازیں اپنے نفس کو سمجھائے کہ دیکھ اللہ تعالیٰ کس قدر قادر ہے اور اس کا غضب کتنا ہی شدید ہے مگر اس کے باوجود وہ درگزر کرتا ہے بندے اس کی کسی طرح مخالفت کرتے ہیں اور اس کے احکام سے کس طرح سرکشی اختیار کرتے ہیں لیکن وہ ان پر غضب نازل نہیں کرتا ہے پھر تو اتنا بڑا کہاں آیا کہ ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتا دوسرا علاج جو عملی یا ظاہری ہے وہ یہ کہ فورا وضو کر ڈالے اور اعوذ پڑھنے لگے تاکہ پانی ٹھنڈک، غصہ کی حرارت کو فرد کر دے اور نفس دوسری طرف مشغول ہوجائے۔

【3】

طاقتور شخص

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ طاقتور پہلوان وہ شخص نہیں ہے جو لوگوں کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور اور پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو پچھاڑ دے اور اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس ارشاد گرامی کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ اصل میں اگر کوئی چیز انسان کی سب سے بڑی دشمن اور اس کے مقابلہ میں سب سے زیادہ طاقتور ہے تو وہ خود اس کا نفس ہے اگر کوئی شخص بڑے بڑے پہلوانوں کو پچھاڑتا رہا اور اپنے آپ کو طاقتور ترین دشمن کو بھی زیر کرتا رہا مگر خود اپنے نفس پر غالب نہیں آسکا تو یہ کوئی کمال نہیں ہے اصل کمال تو یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو زیر کرے جو اس کا اصل دشمن ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے، تمہارے دشمنوں میں سب سے بڑا دشمن وہ ہے جو تمہارے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے۔ واضح رہے کہ بدن کی قوت ظاہری اور جسمانی ہے جو زوال پذیر اور فنا ہوجانے والی ہے اس کے برخلاف جو قوت نفس کو زیر کرتی ہے وہ دینی اور روحانی ہے جو حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے اور ہمیشہ باقی رہتی ہے لہذا نفس امارہ کو مارنا وصف اور کمال کی بات ہے کہ جب کہ آدمی کو پچھاڑنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ مردے نہ بقوت بازو ست دزور کتف بانفس اگر بائی دانم کہ شاطرے

【4】

جنتی اور دوزخی لوگ

اور حضرت حارث بن وہب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں جنتیوں کا بتلا دوں ؟ یعنی کیا میں یہ کہوں کہ کون لوگ جنتی ہیں تو سنو ہر وہ ضعیف شخص جنتی ہے جس کو لوگ ضعیف و حقیر سمجھیں اور اس کی کمزوری و شکستہ حالی کی وجہ سے اس کے ساتھ جبر وتکبر کا معاملہ کریں حالانکہ حقیقت کے اعتبار سے وہ ضعیف و کمزور اللہ کے نزدیک اس قدر اونچا مرتبہ رکھتا ہے کہ اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر کسی بات پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اس کی قسم کو سچا کر دے اور کیا میں تمہیں وہ لوگ بتلا دوں جو دوزخی ہیں ؟ تو سنو ہر وہ شخص دوزخی ہے جو جھوٹی باتوں اور لغو باتوں پر سخت گوئی کرنے والا جھگڑالو ہو مال جمع کرنے والا بخیل ہو اور تکبر کرنے والا ہو۔ (بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ہر وہ شخص دوزخی ہے جو مال کو جمع کرنے والا اور حرام زادہ اور تکبر کرنے والا ہو۔ تشریح ہر ضعیف جنتی ہے۔ سے مراد وہ شخص ہے جو نہ تو گھمنڈ اور متکبر ہو اور نہ لوگوں پر جبر و زیادتی کرنے والا ہو۔ لفظ متضعف میں مشہور تو عین پر زبر ہی ہے اور ترجمہ میں اسی کو ملحوظ رکھا گیا ہے لیکن بعض حضرات نے عین کو زیر کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس لفظ کے معنی متواضع اور کمتر اور گمنام کے ہوں گے۔ ہر ضعیف جنتی ہے سے مراد یہ ہے کہ جنت میں جن لوگوں کی کثرت ہوگی وہ یہی لوگ ہوں گے اس طرح دوسری قسم کے لوگ یعنی دوزخی جن کو قرار دیا ہے سے بھی یہی مراد ہے کہ دوزخیوں کی اکثریت ان ہی لوگوں پر مشتمل ہوگی۔ علماء نے لو اقسم علی اللہ کے معنی بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ اگر وہ شخص اللہ کے لطف و کرم پر اعتماد کر کے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھالے تو اللہ اس کو سچا کرتا ہے اور اس کے اعتماد کو پورا کرتا ہے یعنی اس کی قسم ٹوٹتی نہیں بلکہ پوری ہوتی ہے۔ ترجمہ میں اس معنی کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ دوسرے یہ کہ اگر وہ شخص اپنے پروردگار سے کسی چیز کا طلب گار ہوتا ہے اور اس کو قسم دے کر اپنی مراد پوری ہونے کی دعا کرتا ہے تو پروردگار اس کی قسم کی لاج رکھتا ہے اور اس کی مراد پوری کرتا ہے اور تیسرے یہ کہ اگر وہ شخص کسی کام کے بارے میں قسم کھا کر یہ کہتا ہے کہ حق تعالیٰ اس کام کو کرے گا یا اس کام کو نہیں کرے گا تو اللہ اس کی قسم کو سچا کرتا ہے یعنی اس طرح کرتا ہے جو اس کی قسم کے مطابق ہوتا ہے۔ زنیم کے معنی کمینہ کے ہیں اور اس کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو اپنے آپ کو کسی ایسی قوم یا طبقے کی طرف منسوب کرلے جس سے حقیقت میں وہ کوئی تعلق نہیں رکھتا اسی لئے زنیم کا ترجمہ حرام زادہ کیا جاتا ہے چناچہ عتل اور زنیم کے الفاظ قرآن کریم میں بھی آئے ہیں اور مذکورہ بالا معنی ہی ان میں الفاظ کا مصداق ولید بن مغیرہ کو قرار دیا گیا ہے جو کفار مکہ میں سے نہایت بدظن اور اسلام و پیغمبر اسلام کا سخت ترین دشمن تھا۔

【5】

متکبر جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

اور حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص دوزخ میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا اور وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا۔ (مسلم) تشریح ایمان سے مراد اصل ایمان نہیں ہے بلکہ ایمان کے ثمرات مراد ہیں جن کو فضائل و اخلاق سے تعبیر کیا جاتا ہے خواہ ان کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے اور جو نور ایمان اور ظہور ایقان سے صادر ہوتے ہیں جہاں تک اصلی ایمان کا تعلق ہے وہ چونکہ تصدیق قلبی کا نام ہے اس لئے اس میں نہ تو زیادتی ہوسکتی ہے اور نہ کمی، اس اعتبار سے اس کو اجزاء میں منقسم بھی نہیں کیا جاسکتا البتہ اس کے شعبے اور شاخیں بہت ہیں جو اصل ایمان کی حقیقت و ماہیت سے خارج ہیں جیسے نماز روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ اور اسی طرح اسلام کے ظاہری دوسرے تمام احکام یا جیسے تواضع اور ترحم اور اسی طرح وہ تمام چیزیں جو باطنی اوصاف و خصائل کا درجہ رکھتی ہیں چناچہ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ الایمان بضع و سبعون شعبۃ۔ ایمان کی کچھ اوپر ستر شاخیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ شاخوں اور اس کی اصل کے درمیان اتنا گہرا اور قریبی تعلق ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم کا درجہ رکھتی ہیں لیکن اس کے باوجود حقیقت و ماہیت کے اعتبار سے کوئی بھی شاخ اپنی اصل کا مترادف نہیں ہوسکتی اس طرح اصل ایمان ایک الگ چیز ہے اور اسلام کے تمام ظاہری احکام و باطنی اخلاق و خصائل جداگانہ حثییت رکھتے ہیں جن کو اصل ایمان کی حقیقت و ماہیت میں شامل نہیں کیا جاسکتا، چناچہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد الحیاء شعبۃ من الایمان۔ مذکورہ بالا قول کی دلیل ہے کیونکہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حیاء ایمان کے مفہوم میں داخل نہیں ہے۔ حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ اس کے نامہ اعمال میں تکبر کا گناہ موجود رہے گا جب وہ تکبر اور دوسری بری خصلتوں کی آلائش سے پاک و صاف ہوجائے گا تو اس وقت جنت میں داخل کیا جائے گا اور یہ کہ پاکی و صفائی یا تو اس صورت میں حاصل ہوگی کہ اللہ اس کو عذاب میں مبتلا کرے گا اور وہ عذاب اس آلائش کو دھو دے گا یا اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کو معاف کر دے گا اور معافی اس آلائش کو زائل کر دے گی، خطابی نے لکھا ہے کہ حدیث کے اس جزء کی دو تاویلیں ہیں ایک تو یہ کہ کبر سے کفر و شرک مراد ہے اور ظاہر ہے کہ کفر و شرک کے مرتکب پر جنت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ بند رہیں گے۔ دوسری تاویل یہ ہے کہ کبر سے مراد تو اس کے اپنے معنی ہی ہیں یعنی اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے برتر و بلند سمجھنا اور غرور گھمنڈ میں مبتلا ہونا البتہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ متکبر شخص اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ اللہ کی رحمت اس پر متوجہ نہ ہو چناچہ جب حق تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرنا چاہے گا تو اس کے دل میں سے کبر کو نکال باہر کرے گا اور پھر اس کی کدورتوں سے پاک و صاف کر کے جنت میں داخل کر دے گا۔

【6】

تکبر کی حقیقت

اور حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ کوئی آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس عمدہ ہو اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جمیل یعنی اچھا اور آراستہ ہے اور جمال یعنی اچھائی و آرائستگی کو پسند کرتا ہے اور تکبر یہ ہے کہ حق بات کو ہٹ دھرمی کے ساتھ نہ مانا جائے اور لوگوں کو حقیر و ذلیل سمجھا جائے۔ (مسلم) تشریح ذرہ سے یا تو چیونٹی مراد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس جیسی سو چیونٹیاں مل کر ایک جو کے وزن کے برابر ہوتی ہیں یا وہ ریز و غبار مراد ہے جو ہوا میں باریک نظر آتا ہے اور روشنی کے وقت چمکتا ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا۔۔۔۔۔۔۔ کے بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ ایک شخص سے کون صحابی مراد ہیں چناچہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس وقت جن صحابی نے مذکورہ بات عرض کی تھی وہ معاذ بن جبل تھے بعض حضرات نے عبداللہ بن عمرو بن العاص اور بعض حضرات نے ربیعہ بن عامر کا نام ذکر کیا ہے۔ کوئی آدمی یہ پسند کرتا ہے ان صحابی نے جو یہ سوال کیا تو اس کا ایک پس منظر تھا وہ یہ دیکھا کرتے تھے کہ جو لوگ غرور وتکبر کرتے ہیں اور اپنے علاوہ ہر ایک کو ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں ان کے جسم پر اعلی اور نفیس لباس ہوتا ہے ان کے پیروں میں نہایت اعلی جوتیاں ہوتی ہیں اور ان کے کپڑے وغیرہ اعلی درجہ کے ہوتے ہیں چناچہ جب انہوں نے نبی کریم ﷺ کو مذکورہ ارشاد سنا تو ان کو گمان ہوا کہ کہیں یہ چیزیں تو تکبر کی نشانیاں نہیں ہیں اور اعلی و نفیس لباس وغیرہ ہی سے تو تکبر پیدا نہیں ہوتا لہذا انہوں نے پوچھا کہ اگر کوئی محض اپنی ذاتی خواہش پسند اور استطاعت کی بنا پر اچھے اچھے کپڑے پہنے اور عمدہ جوتے وغیرہ استعمال کرے اور اس کے خیال میں بھی یہ بات نہ ہو کہ وہ اپنے کپڑوں وغیرہ کے ذریعہ دوسروں پر اپنی امارت و بڑائی کا رعب ڈالے گا، لوگوں کو ذلیل و حقیر سمجھے گا اور اتراہٹ و گھمنڈ کرے گا اور اس شخص کی اس نیت کی علامت یہ ہو کہ وہ جس طرح لوگوں کے سامنے اچھے کپڑے وغیرہ استعمال کرنا پسند کرتا ہو اسی طرح تنہائی میں بھی ان چیزوں کو پسند کرتا ہو تو کیا ایسے شخص پر بھی تکبر کا اطلاق ہوگا، حضور نے اپنے مذکورہ جواب کے ذریعہ واضح فرمایا کہ ایسے شخص پر تکبر کا اطلاق نہیں ہوگا بلکہ اس کا لباس عمدہ زیب تن کرنا اور اچھے جوتے پہننا اس کی تہذیب و شائستگی اور اس کی خوش ذوقی کی علامت ہوگا جس سے شریعت نے منع نہیں کیا ہے اس کے بعد آپ نے کبر کی حقیقت بیان فرمائی کہ جس کبر کو مذموم قرار دیا گیا ہے وہ دراصل اس کیفیت و حالت کا نام ہے جو انسان کو حق آراستہ سے ہٹا دے یعنی توحید و عبادت الٰہی سے بےپرواہ بنا دے حق و صداقت سے سرکشی کرنے پر مائل کرے حقیقت تک پہنچنے سے روکے اور سچائی کو قبول کرنے سے باز رکھے اور مخلوق اللہ کو ذلیل و حقیر سمجھنے پر مجبور کرے بعض حضرات نے بطر الحق کے معنی جمال حق کو باطل کرنا لکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جمیل ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات وصفات میں اور اپنے افعال وقدرت میں اوصاف کاملہ سے موصوف ہے۔ اور تمام ظاہری و باطنی حسن و جمال اسی کے جمال کا عکس ہیں اور جمال و جلال بس اسی کی ذات پاک کا خاصہ ہے بعض حضرات نے جمیل کے معنی آراستہ کرنے والے اور جمال بخشنے والے بیان کئے ہیں، بعضوں نے یہ کہا ہے کہ جمیل دراصل جلیل کے معنی میں ہے اس صورت میں اللہ جمیل کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام تر نور و بہجت اور حسن و جمال کا مالک ہے نیز بعض حضرات نے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں کہ وہ اپنے بندوں کا اچھا کا رساز ہے۔

【7】

وہ تین لوگ جو قیامت کے دن اللہ کی توجہ سے محروم رہیں گے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین شخص ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا یعنی یا تو رضا و خوشنودی کا کلام نہیں کرے گا یا مطلق کوئی کام نہیں کرے گا اور نہ ان کی تعریف و ستائش کرے گا اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور ان کے دردناک عذاب ہوگا ایک تو زنا کار بڈھا، دوسرا جھوٹا بادشاہ اور تیسرا تکبر کرنے والا مفلس۔ (مسلم) تشریح قیامت کے دن سے میدان حشر کا وقت مراد ہے جب اللہ کے فضل و عدل، غضب و ناراضگی اور رضا کا ظہور ہوگا اور جنتیوں و دوزخیوں کے بارے میں فیصلہ صادر کئے جائیں گے۔ ولا یزکیھم کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمہ میں بیان کئے گئے ہیں جب کہ اللہ میدان حشر میں اپنی تمام مخلوق کے سامنے اپنے مومن اور نیکوکار بندوں کی تعریف و ستائش کرے گا تو اس وقت ان تین طرح کے آدمیوں کو اس تعریف و ستائش سے خارج کردیا جائے گا اور ایک معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان تینوں طرح کے آدمیوں کو اپنے عفو و درگزر کے ذریعہ اپنے گناہوں کی نجاست سے پاک و صاف نہیں کرے گا۔ لھم عذاب الیم۔ کے بارے میں دو احتمال ہیں یا تو یہ جملہ دوسری روایت کا تتمہ ہے یا اس کا تعلق اصل حدیث سے ہے اور یہ دوسرا احتمال زیادہ قوی اور قابل اعتماد ہے حاصل یہ ہے کہ مذکورہ باتیں دراصل اللہ کے غضب و کبر اور اس کی ناراضگی سے کنایہ ہیں، چناچہ جو کوئی کسی شخص سے ناراض و خفا ہوتا ہے تو وہ نہ صرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہے نہ اس سے کلام کرتا ہے اور نہ اس کی تعریف کرتا ہے بلکہ اس کو سزا و تنگی میں مبتلا کردیتا ہے۔ حدیث میں جن تین برائیوں کے مرتکبین کے بارے میں وعید بیان فرمائی گئی ہے وہ ہر حال میں مذموم اور مستوجب عذاب ہیں خواہ ان برائیوں کا مرتکب کسی درجہ کا کسی حثییت کا اور کسی عمر کا آدمی ہو لیکن یہاں ان برائیوں کے تعلق سے جن تین لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے اعتبار سے ان برائیوں کی سنگینی کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے، مثلا زنا ایک بہت برا فعل ہے اور جب یہ فعل جو ان کے حق میں بھی بہت بڑا گناہ ہے جو طبعی طور پر معذور بھی ہوتا ہے تو ایک بڈھے کے حق میں یہ فعل کہیں زیادہ برا ہوگا کہ کیونکہ نہ تو وہ طبعی طور پر اس کی احتیاج رکھتا ہے کہ اور نہ اس کی طبیعت پر جنسی خواہش اور قوت مروی کا وہ غلبہ ہوتا ہے جو بسا اوقات عقل و شعور سے بیگانہ اور خوف الٰہی سے غافل کردیتا ہے لہذا جو بڈھا زنا کا مرتکب ہوتا ہے وہ گویا اپنی نہایت بےحیائی اور خبث طبیعیت پر دلالت کرتا ہے اسی طرح جھوٹ بولنا ہر شخص کے حق میں برا ہے لیکن بادشادہ کے حق میں بہت ہی برا ہے کیونکہ اس پر ملک کے انتظام رعایا کے مصالح و مفاد کی رعایت اور مخلوق اللہ کے معاملات کی نگہداشت کی ذمہ داری ہوتی ہے اس کا ایک ادنیٰ سا حکم پورے ملک کے نظم و نسق پر اثر انداز ہوتا ہے اگر وہ جھوٹ بولے تو اس کی اس برائی کی وجہ سے پورا ملک اور ملک کے تمام لوگ مختلف قسم کی برائیوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں، علاوہ ازیں جو لوگ جھوٹ بولتے ہیں وہ عام طور پر اس برائی کا ارتکاب اپنے کسی فائدہ کے حصول یا کسی نقصان کے دفعیہ کے لئے کرتے ہیں جب کہ ایک بادشاہ حاکم یہ مقصد بغیر جھوٹ بولے بھی حاصل کرنے پر قادر ہوتا ہے، لہذا اس کا جھوٹ بولنا نہ صرف بالکل بےفائدہ بلکہ نہایت مذموم ہوگا اسی پر تکبر کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے جو چیزیں عام طور پر انسان کو غرور وتکبر میں مبتلا کرتی ہیں جیسے مال و دولت اور جاہ اقتدار وغیرہ اور اگر کسی شخص میں پائی جائیں اور وہ ان چیزوں کی وجہ سے تکبر کرے تو اگرچہ اس شخص کو بھی برا کہیں گے مگر اس کا تکبر کرنا ایک طرح سے سمجھ میں آنے والی بات ہوگی اس کے برخلاف اگر کوئی فقیر و مفلس تکبر کرے کہ جو نہ تو مال و دولت رکھتا ہے اور نہ جاہ و اقتدار وغیرہ کا مالک ہے تو اس کا یہ فعل نہایت ہی برا ہوگا اور اس کے بارے میں اس کے علاوہ کیا کہا جائے گا کہ وہ خبث باطن اور طبیعت کی کمینگی میں مبتلا ہے۔ بعض حضرات نے عائل مستکبر میں لفظ عائل سے مفلس کے بجائے عیال دار مراد لیا ہے کہ یعنی جو لوگ بال بچے دار ہوں اور اپنی خستہ حالت کی وجہ سے اپنے متعلقین کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے پر قادر ہوں لیکن اس کے باوجود از راہ تکبر صدقہ و زکوٰۃ مال قبول کرنے پر تیار نہ ہوتے ہوں لوگوں کی تواضع و امداد کو ٹھکراتے ہوں اور اسی طرح وہ اپنے اہل و عیال کی ضرورت کو پورا کرنے سے بےپرواہ ہو کر گویا ان کو تکلیف و ہلاکت میں مبتلا کرتے ہوں تو ایسے لوگ حدیث میں مذکورہ وعید کا مورد ہیں واضح رہے کہ اللہ کی ذات پر توکل و اعتماد اور غیرت و خود داری کے تحت اپنی حالت کو چھپانا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے شرم و حیاء کرنا تو ایک الگ چیز ہے لیکن سخت احتیاج و اضطرار کے باجود کبر و نخوت اختیار کرنا اور از راہ تکبر لوگوں کا احسان قبول نہ کرنا ایک ایسا فعل ہے جس کو نہایت مذموم قرار دیا گیا ہے۔ شیخ زان کے بارے میں بھی بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہاں شیخ سے مراد محصن شادی شدہ شخص بھی ہوسکتا ہے خواہ وہ بوڑھا یا جوان جیسا کہ اس منسوخ التلاوت الشیخ والشیخۃ اذا زنیا۔۔۔۔۔۔۔۔ میں شیخ سے مراد شادی شدہ مرد ہے چناچہ ایسے شخص کے حق میں زنا کا زیادہ ہونا شرعا بھی اور عرفا بھی بالکل ظاہر بات ہے اسی لئے ایسے شخص کو سنگسار کرنا واجب ہے اسی طرح ملک کذاب کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں ملک سے مراد غنی و مالدار شخص بھی ہوسکتا ہے چناچہ کسی مفلس یا قلاش شخص کا جھوٹ بولنا تو ایک درجہ میں سمجھ آنے والی بات ہے کیونکہ وہ اپنی تنگ دستی و خستہ حالی کی وجہ سے بسا اوقات اپنی کسی سخت غرض اور شدید دنیاوی ضرورت کی وجہ سے جھوٹ بولنے پر مجبور ہوجاتا ہے جب کہ غنی و مالدار شخص اپنے مال و زر کی وجہ سے ایسی کوئی احتیاج نہیں رکھتا اور وہ جھوٹ بولے بغیر بھی اپنی غرض پوری کرسکتا ہے لہذا جھوٹ بولنا اس کے حق میں زیادہ برا ہے۔ عائل مستکبر کے بارے میں بھی ایک قول یہ ہے کہ یہاں عائل یعنی مفلس سے مراد وہ شخص ہے جو فقراء و مساکین کے ساتھ تکبر کرے فقراء و مسکین کے ساتھ تکبر کرنا سخت برا ہے جب کہ مغرور کے ساتھ تکبر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس جملہ کے بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہاں مفلس سے مراد وہ شخص ہے جو کسب و کمائی اور محنت و مشقت کر کے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے پر قادر ہو مگر اس کے باوجود از راہ رعونت کوئی کسب و کمائی محنت مزروری کرنے کو کسر شان سمجھتا ہو جیسا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اچھے خاصے اور ہٹے کٹے لوگ کام کاج کرنے اور محنت و مزدوری کرنے میں اپنی ذلت سمجھتے ہیں خواہ ان کو اور ان کے متعلقین کو فاقوں کی اذیت ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑتی ہو یا ناروا طور پر دوسرے لوگوں کے کاندھوں کا بار ہی کیوں نہ ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگوں کا یہ طریقہ یقینا تکبر کے ہم معنی ہیں اور یہ تکبر مالداروں کے تکبر سے زیادہ کہیں برا ہے کیونکہ اس کی بنیاد رعونت و نخوت بیجا شان دکھانے خواہ مخواہ کے لئے اپنے اور اپنے متعلقین کو تکلیف و ہلاکت میں مبتلا کرنے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور ناجائز طور پر مال حاصل کرنے پر ہے خصوصا ایسی صورت میں اس کی تکبر کی برائی اور کہیں بڑھ جاتی ہیں، جبکہ ایسا کوئی شخص اپنے دست وبازو کے ذریعہ اپنا اور اپنے متعلقین کا رزق حاصل کرنے کے بجائے دین کا لبادہ اوڑھ لے اور اپنی وضع قطع دین داروں اور بزرگوں کی سی بنا کر اپاہج کی طرح بیٹھ جائے اور سادہ لوح مسلمانوں پر اپنی مصنوعی بزرگی کا سکہ جما کر ان کے کاندھوں کا بار رہنا ہے۔

【8】

تکبر کرنا گویا شرک میں مبتلا ہونا ہے۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذاتی بزرگی میری چادر ہے اور صفاتی عظمت گویا تمہارے اعتبار سے میرا تہنمند ہے پس جو ان دونوں میں سے کسی ایک میں میرے ساتھ جھگڑا کرے گا یعنی جو تکبر کرے گا اس طرح وہ گویا میری ذات وصفات میں شرک کا ارتکاب کرے گا تو میں اس کو عذاب دینے والی آگ میں داخل کروں گا اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تو میں اس کو آگ میں پھینک دوں گا۔ (مسلم) تشریح میری چادر اور میرا تہمنبد ہے جیسے الفاظ حق تعالیٰ نے مثال کے طور پر فرمائے ہیں اور اس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ یہ دونوں صفتیں یعنی کبرائی اور عظمت صرف میری ذات سے تعلق رکھتی ہیں جن میں کوئی بھی میرا ساجھی شریک نہیں ہوسکتا جیسے کسی کے لباس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوسکتا چناچہ حق تعالیٰ کی کچھ صفات تو ایسی ہیں کہ جن میں کچھ حصہ بندوں کو بھی دیا گیا ہے جو صرف حق تعالیٰ کی ذات کے لئے مخصوص ہیں اور جن کے ساتھ کوئی بندہ اپنے آپ کو بطریق مجاز بھی موصوف نہیں کرسکتا۔ اسی حقیقت کو مثال کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے کہ جس طرح کوئی شخص ان کپڑوں کو نہیں پہن سکتا جو کسی دوسرے شخص کے جسم پر ہوں اسی طرح کبریائی اور حقیقی عظمت بڑائی کا بھی کوئی بندہ دعوی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ دونوں صفتیں صرف میری ذات کے لئے موزوں ہیں اور مخصوص ہیں۔ کبریاء اور عظمہ، یہ دونوں لفظ لغت میں ایک ہی معنی کے حامل ہیں یعنی بزرگی اور بڑا ہونا لیکن حدیث کے ظاہری اسلوب سے ان دونوں کے درمیان فرق معلوم ہوتا ہے کہ ایک کو چادر کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور دوسرے کو تہنمبد کے ساتھ لہذا اس فرق کو سامنے رکھتے ہوئے بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ کبریا تو صفت ذاتی ہے یعنی اللہ کی ذات کبیر و متکبر ہے خواہ دوسری اس حقیقت کو جانے یا نہ جانے اور عظمت کا لفظ حق تعالیٰ کی اس برائی کو بیان کرتا ہے جس کا ظہور اس کے غیر پر بھی ہوتا ہے کہ ساری مخلوق جانتی ہے کہ وہ ایسا ربڑ ہے پس یہ حق تعالیٰ کی صفت اضافی ہوئی اور ذاتی صفت کا اضافی صفت سے اعلی ہونا ضروری ہوتا ہے لہذا کبریائی کو چادر کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ چادر تہنمبد سے اعلی ہوتی ہے اور عظمت کو تہمبند کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔

【9】

تکبر نفس کا دھوکہ ہے

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی شخص اپنے نفس کو برابر کھینچا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا نام سرکشوں یعنی ظالم اور متکبر لوگوں کی فہرست میں لکھ دیا جاتا ہے اور پھر جو چیز دنیا و آخرت کی آفت و بلا ان سرکشوں کو پہنچتی ہے وہی اس شخص کو بھی پہنچتی ہے۔ (ترمذی) تشریح لفظ بنفسیہ میں حرف باء اگر تعدیہ کے لئے ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ اپنے نفس کو اوپر اٹھاتا ہے خود کو بلند مرتبہ سمجھ کر لوگوں سے دور رکھتا ہے اور اپنے آپ کو ہر ایک کے مقابلہ پر بزرگ و برتر جانتا ہے اور اگر حرف باء مصاحبت کے لئے ہو تو یہ معنی ہوں گے کہ وہ اپنے نفس کے دھوکے میں مبتلا ہو کر اس کے ساتھ کبر و غرور کی طرف بڑھتا ہے اس کو عزت دیتا ہے اور اس کی تعظیم و توقیر کرتا ہے جیسا کہ دوست دوست کی تعیظیم و توقیر کرتا ہے یہاں تک کہ وہ متکبر و مغرور ہوجاتا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے نفس کے دھوکے میں پڑ کر خود بینی و خود ستائی کا شکار ہوجاتا ہے تو اپنے آپ کو اپنے اصل مرتبہ و مقام سے اوپر اٹھا کر بڑے مرتبہ و مقام تک پہنچا دینے کی کوشش کرتا ہے نفس اس کو جس طرح مصنوعی بڑائی کی طرف بہکاتا رہتا ہے جدھر لے جانا چاہے ادھر جاتا ہے اور نفس پر قابو پانے کے بجائے خود اس کے قابو میں ہوجاتا ہے یہاں تک کہ تکبر اور سرکشی میں پوری طرح مبتلا ہوجاتا ہے اور اس کے لئے دنیا و آخرت کا وہ عذاب مقدر ہوجاتا ہے جو سرکشوں کے لئے مخصوص ہے۔

【10】

تکبر کرنے والوں کا انجام

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے اور وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو چھوٹی چیونٹیوں کی طرح مردوں کی صورت میں جمع کیا جائے گا یعنی ان کی شکل مردوں کی سی ہوگی لیکن جسم و جثہ چیونٹیوں کی مانند ہوگا اور ہر طرف سے ذلت و خواری کو پوری طرح گھیرے گی پھر ان کو جہنم کے ایک قید خانہ کی طرف کہ جس کا نام بولس ہے ہانکا جائے گا وہاں آگوں کی آگ ان پر چھا جائیگی۔ اور دوزخیوں کا نچوڑ یعنی دوزخیوں کے بدن سے بہنے والا خون، پیپ اور کچ لہو ان کو پلایا جائے گا۔ جس کا نام طینت الخبال ہے۔ (ترمذی) تشریح چھوٹی چیونٹیوں کی طرح کے اصل مفہوم کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں چناچہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ چیونٹیوں کی تشبیہ دراصل اس بات سے کنایہ ہے کہ تکبر کرنے والے لوگ قیامت کے دن میدان حشر میں نہایت ذلت خواری کے ساتھ حاضر ہوں گے اور گویا وہ لوگوں کے پاؤں کے نیچے اس طرح پامال ہوں گے جس طرح چیونٹیوں کو روندا جاتا ہے ان حضرات کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ قیامت کے دن مخلوق کا اٹھنا اور ان کے اجسام کا دوبارہ بننا ان ہی اجزاء اصل کے ساتھ ہوگا جو وہ دنیا میں رکھتے تھے جیسا کہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر شخص میدان حشر میں اپنے اجزاء اعضاء کے ساتھ اٹھ کر آئے گا جن پر دنیا میں اس کا جسم پر مشتمل تھا اور ظاہر ہے کہ چیونٹی کی صورت اس کا جثہ اس جسم و بدن کے اجزاء اصلی کے حامل نہیں ہوسکتا اس لئے حدیث فی الصور مردوں کی صورت میں کے الفاظ بھی اس قول پر دلالت کرتے ہیں۔ ملا علی قاری نے بھی اس کے بارے میں کئی اقول نقل کئے ہیں اور پھر تور پشنی کی طرف منسوب کر کے یہ بیان کیا ہے کہ ہم اس حدیث کے ظاہری معنی اس لئے مراد لیتے نہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب لوگ قیامت کے دن دوبارہ اٹھ کر میدان حشر میں آئیں تو ان کے جسم و بدن ان ہی اجزاء پر مشتمل ہوں گے جن پر دنیا میں ان کے جسم تھے۔ یہاں تک کہ ان کے عضو تناسل کی کھال کا وہ حصہ بھی لگا دیا جائے گا جو ختنہ کے وقت کاٹا جاتا ہے گویا سارے لوگ غیر مختون اٹھیں گے لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان کے جسم کے سارے اجزاء یہاں تک کہ ناخن اور بال وغیرہ بھی ایک چنوٹنی کے جثہ کے برابر ہو جمع ہوجائیں۔ آخر میں ملا علی قاری نے تورپشتی کے مذکورہ قول کے مخالفین کے جواب بھی نقل کئے ہیں اور ان پر شک کا اظہار کرتے ہوئے اپنی تحقیق یہ لکھی ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کر میدان حشر میں آئیں گے تو اس وقت اللہ دوسرے لوگوں کی طرح تکبر کرنے والوں کے جسم کو بھی دوبارہ بنائے گا۔ اور وہ بھی اپنے تمام اجزاء معدومہ کے ساتھ اپنے پورے جسم میں اٹھ کر آئیں گے تاکہ ہر ایک کی دوبارہ جسمانی تخلیق کی قدرت پوری طرح ثابت ہوجائے لیکن پھر ان لوگوں کو میدان حشر میں مذکورہ جسم و صورت میں تبدیل کر دے گا یعنی ان کے جسم چیونٹیوں کی طرح ہوجائیں گے اور ان کی صورت مردوں کی سی رہے گی اور یہ تبدیلی جسم اس لئے ہوگی کہ تاکہ ان کی ذلت و ہانت پوری مخلوق کے سامنے ظاہر ہوجائے یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب مذکورہ لوگ حساب و کتاب کی جگہ آئیں گے اور ان کے سامنے عذاب الٰہی کی نشانیاں ظاہر ہوں گی تو اس وقت وہ ہیبت و دہشت کے سبب اس قدر گھٹ جائیں گے کہ ان کے جسم چیونٹیوں کی طرح معلوم ہوں گے اور اہل دوزخ کا اپنی اپنی حالتوں اور گناہوں کے اعتبار سے مختلف صورتوں جیسے کتے سور، گدھے، وغیرہ کی شکلوں میں تبدیل ہوجانا مختلف منقولات سے ثابت ہے۔ لفظ بولس باء کے زبر، واؤ کے جزم اور لام کے زبر کے ساتھ اور قاموس میں لکھا ہے کہ یہ لفظ با کے پیش کے اور لام کے زیر کے ساتھ ہے جو بلس سے مشتق ہے اور جس کے معنی تحیر اور نا امیدی کے ہیں شیطان کا نام ابلیس بھی اسی سے مشتق ہے۔ آگوں کی آگ میں کی طرف نسبت ایسی ہے جیسے آگ کی نسبت کسی ایسی چیز کی طرف کی جائے جس کو آگ جلا دیتی ہے مطلب یہ ہے کہ وہ آگ اس طرح کی ہوگی کہ وہ خود آگ کو لکڑی کی طرح جلائے گی۔ طینۃ الخیال میں لفظ خبال خاء کے زبر کے ساتھ ہے اور اس کے لغوی معنی فساد اور خرابی کے ہیں اور جیسا کہ حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ طینۃ الخیال، ان دوزخ کے عصارہ کا نام ہے اور عصارہ اس پیپ، خون اور کچ لہو کو کہتے ہیں جو دوزخیوں کے زخموں سے بہے گا۔

【11】

ناحق غصہ شیطانی اثر ہے۔

اور حضرت عطیہ بن عروہ سعدی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (ناحق) غصہ شیطانی اثر ہے (یعنی ناحق غصہ کرنا شیاطین کے مشتعل کرنے اور اس کے فریب میں آجانے کا نتیجہ ہوتا ہے) اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے اس لئے جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اس کو چاہیے کہ وضو کرلے۔ (ابوداؤد) تشریح ٹھنڈا پانی استعمال کرنے کی خاصیت یہ ہے کہ وہ غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے جیسا کہ عام تجربہ سے ثابت ہے اور ٹھنڈے پانی کے استعمال کی بہترین صورت تو وضو کرلینا ہے لیکن ٹھنڈا پانی پینے کی یہ بھی خاصیت ہے اس حدیث میں تو صرف وضو کرنے کا ذکر ہے لیکن چاہیے کہ یہ جب غصہ آئے تو پہلے اعوذ باللہ پڑھے پھر جب دیکھے کہ غصہ ختم نہیں ہوا ہے تو اٹھ کر وضو کرے اور اللہ کے لئے دو رکعت نماز پڑھے۔

【12】

غصہ کا ایک نفسیاتی علاج

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور اس وقت کھڑا ہو تو فورا بیٹھ جائے اگر غصہ جاتا رہے تو خیر ورنہ پھر پہلو پر لیٹ جائے۔ (احمد، ترمذی، ) تشریح شرح السنہ میں لکھا ہے کہ غصہ کی حالت میں کھڑا رہنے کے بجائے بیٹھ جانے میں حکمت یہ ہے کہ عام طور پر غصہ کے وقت انسان بےقابو ہوجاتا ہے اور اگر وہ غصہ کے وقت کھڑا ہوا ہو تو اس بات کا زیادہ خوف ہے کہ وہ کوئی ایسی حرکت کر گزرے جس سے بعد میں پریشانی اٹھانی پڑے اور ظاہر ہے کہ بیٹھے ہوئے ہونے کی صورت میں کسی حرکت کا صادر ہونا اتنی سرعت اور آسانی کے ساتھ نہیں ہوتا جس قدر بیٹھے ہوئے ہونے کی صورت میں ہوتا ہے لیکن اس بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ غصہ کے وقت اپنی حالت میں اس طرح تبدیلی کرلینا کہ جس سے جسم و ذہن کو سکون و آرام ملے جیسے کھڑا ہو تو فورا بیٹھ جائے یا بیٹھا ہوا ہو تو لیٹ جائے غصہ اور اشتعال کے دفعیہ کے لئے بہترین تاثیر رکھتا ہے۔

【13】

برے بندے کون ہیں؟

اور حضرت اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ برا بندہ ہے جس نے اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر جانا اور تکبر کیا اور خداوند بزرگ و برتر کو وہ بھول گیا (یعنی اس نے یہ فراموش کردیا کہ بزرگی و بلندی و برتری صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہے یا یہ بھول گیا کہ اس نے دنیا میں احتیاط وتقوی کی راہ چھوڑ کر جس برے راستہ کو اختیار کیا ہے اس کی جواب دہی اس کو اخرت میں کرنی ہوگی اور وہاں اللہ کا عذاب بھگتنا ہوگا، برا بندہ ہے وہ بندہ جس نے لوگوں پر جبر و جور کیا اور ظلم و فساد ریزی میں حد سے بڑھ گیا اور خداوند جبار قہار کو بھول گیا جس کی قدرت و عزت سب سے بلند ہے برا بندہ وہ بندہ ہے جو دین کے کاموں کو بھول گیا اور دنیا داری میں مشغول رہا اور اس نے مقبروں کو اور خاک میں مل جانے والے جسم کی کہنے گی و بوسیدگی کو فراموش کردیا۔ ، مقبروں کو بھولنا موت کو بھولنے سے کنایہ ہے یعنی اس نے یہ فراموش کردیا کہ ایک دن موت کا پنجہ آدبوچے گا اور اس وقت سے پہلے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کے لئے کچھ تیاری کر لینی چاہیے۔ برا بندہ وہ ہے جس نے فتنہ و فساد برپا کیا اور حد سے متجاوز ہوگیا اور اپنی ابتداء و انتہاء کو بھول گیا، یعنی نہ تو اس کو یاد رہا کہ وہ کتنی ہی حقیر سی چیز سے پیدا کیا گیا ہے اور ابتداء میں وہ کس قدر عاجز و نا تو اں تھا اور نہ اس کو اپنا انجام یادر رہا کہ ابھی اس کو کیا کیا دیکھنا ہے۔ اور آخرکار پیوند زمین ہوجانا ہے۔ برا بندہ وہ ہے جو دین کے ذریعہ دنیا حاصل کرے یعنی دنیا کو حاصل کرنے کے لئے دین کو وسیلہ بنائے یا یہ معنی ہیں کہ صلحاء اور بزرگوں کی شکل اختیار کرے اور دین کا لبادہ اوڑھے اور اہل دنیا کو فریب دے تاکہ وہ اس کے معتقد و مداح ہوجائیں اور ان سے مال و جاہ حاصل کرے۔ برا بندہ وہ ہے جس نے مخلوق سے طمع وامید قائم کی اور حرص و طمع اس کو دنیا داروں کے دروازہ پر کھینچے پھرتی ہے اور جدھر چاہتی ہے لے جاتی ہے اور برا بندہ وہ ہے جس کو دنیا کی طرف اس کی رغبت و خواہش حصول دنیا کی حرص اور کثرت مال و جاہ کی ہوس ذلیل و خوار کرتی ہے اور اس کے دین کی آبر و ریزی کرتی ہے، اس روایت کو ترمذی نے اور شعب الایمان میں بہیقی نے نقل کیا ہے۔ اور دونوں نے کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد قوی نہیں ہیں نیز ترمذی نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح یہ حدیث محض ترمذی و بیہقی کی مذکورہ اسناد ہی سے منقول نہیں ہے بلکہ اس کو طبرانی نے بھی نقل کیا ہے اور ایک دوسرے موقع پر بیہقی نے نعیم بن ہماز سے نقل کیا ہے کہ نیز اس کو حاکم نے بھی اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کثرت طرق ضعیف حدیث کو قوی کردیتا ہے اور اس کو حسن لغیرہ کے درجہ پر پہنچا دیتی ہے جس سے روایت کا مقصد پورا ہوجاتا ہے جہاں تک ترمذی کے اس قول کا تعلق کہ یہ حدیث غریب ہے تو واضح رہے کہ اول تو غرابت صحت اور حسن کے منافی نہیں ہے دوسرے یہ کہ تمام محدثین کے نزدیک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر بھی عمل کیا جاتا ہے۔ لہذا وعظ و نصیحت کے موقع پر اس حدیث کو ذکر کرنا اور لوگوں کو اس سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرنا بطریق اولی مناسب ہوگا۔

【14】

غصہ کو ضبط کرو

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بندہ کسی چیز کا ایسا کوئی گھونٹ نہیں پیتا جو اللہ کے نزدیک غصہ کا گھونٹ پینے سے بہتر ہو جس کو وہ محض اللہ کی خوشنودی کے لئے پی جاتا ہے۔ (احمد) اور حضرت ابن عباس (رض) اللہ کے اس ارشاد آیت (ادفع بالتی) ۔۔۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ غصہ کے وقت صبر کرنا اور برائی کے وقت عفو درگزر کرنا اس ارشاد الٰہی کی مراد ہے لہذا جب صبر و عفو کرتے ہیں تو اللہ ان کو نفس اور مخلوقات کی آفتوں سے محفوظ رکھتا ہے اور ان کے دشمن اس طرح پست ہوجاتے ہیں جیسے وہ بہت قریبی دوست ہوں اس روایت کو بخاری نے بطریق تعلیل نقل کیا ہے۔ تشریح روایت میں آیت کا جو ٹکڑا نقل کیا گیا ہے وہ اپنے سیاق وسباق کے ساتھ اس طرح ہے آیت (ولاتستوی الحسنۃ ولاالسیئیۃ ادفع باللتی) ۔۔۔۔۔ گویا آیت کی تعلیم یہ ہے کہ برائی کا بدلہ برائی نہیں ہے بلکہ برائی کا بدلہ نیکی ہے لہذا اگر کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی سے پیش آئے تم اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤ اور اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ برائی بھلائی کے ذریعہ دفع کرنے سے مراد یہ ہے کہ جب غصہ آئے تو صبر تحمل اختیار کرو اور اگر کسی سے کوئی برائی اور تکلیف پہنچے تو اس سے عفو و درگزر کرو۔ لفظ قریب دراصل لفظ حمیم کی تفسیر ہے جس سے قرابتی مراد ہے اور یہ جملہ مذکورہ آیت کے اس آخری جزء کی تفسیر ہے ا یت (فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَه عَدَاوَةٌ كَاَنَّه وَلِيٌّ حَمِيْمٌ) 41 ۔ فصلت 34) ۔ یعنی پھر اچانک تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کہ کوئی قریبی دوست ہے۔

【15】

غصہ ایمان کو خراب کرتا ہے۔

اور حضرت بہز بن حکیم اپنے والد سے اور وہ بہز کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا غصہ ایمان کو خراب کردیتا ہے جس طرح ایلواء شہد کو خراب کردیتا ہے۔ تشریح ایمان سے یا تو کمال ایمان مراد ہے یا نور ایمان اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بسا اوقات غصہ کی شدت اصل ایمان کو بھی ختم کردیتی ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔

【16】

تواضع اختیار کرو

اور حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن انہوں نے منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تواضع اختیار کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے لوگوں کے ساتھ تواضع اور فروتنی اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے مرتبہ کو بلند کردیتا ہے چناچہ وہ اپنی نظر میں تو حقیر ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے نفس کو ذلت و حقارت کی نظر میں دیکھتا ہے اور جو شخص لوگوں کے ساتھ تکبر و غرور کرتا ہے اللہ اس کے مرتبہ کو گرا دیتا ہے چناچہ وہ لوگوں کی نظر میں تو حقیر ہوتا ہے لیکن اپنی نظر میں خود کو بلند مرتبہ سمجھتا ہے یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے یا سور سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ متکبر و مغرور اگرچہ خود کو بڑا اور عزت دار سمجھتا ہے اور دوسروں کو بھی اپنی مصنوعی بڑائی اور عزت دکھاتا ہے لیکن وہ اللہ کے نزدیک بھی ذلیل و حقیر ہوتا ہے اور لوگوں کی نظروں میں بھی نہایت کمترو بےوقعت رہتا ہے اس کے برخلاف جو شخص تواضع فروتنی اختیار کرتا ہے وہ اگرچہ اپنی نظر میں خود کو حقیر سمجھتا ہے اور لوگوں کے سامنے بھی اپنے آپ کو کمترو بےوقعت ظاہر کرتا ہے مگر اللہ کے نزدیک اس کا مرتبہ بہت بلند ہوتا ہے اور لوگوں کے نظروں میں بھی اس کی بڑی عزت وقعت ہوتی ہے۔

【17】

انتقام لینے پر قادر ہونے کے باوجود عفو درگزر کرنے کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) نے عرض کیا میرے پروردگار تیرے بندوں میں سے کون بندہ تیرے نزدیک زیادہ عزیز ہے پروردگار نے فرمایا وہ بندہ جو قادر ہونے کے باوجود عفو و درگزر کرے۔ تشریح یعنی اگر اس پر کسی شخص نے کوئی ظلم کیا اور اس کو رنج و تکلیف میں مبتلا کیا تو وہ اس سے انتقام لینے کی طاقت وقدرت رکھنے کے باوجود اس کو معاف کر دے حضرت موسیٰ کی طبیعت چونکہ جلالی کیفیت غالب تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس جواب کے ذریعہ گویا ان کی تلقین کہ وہ عفو درگزر کا رویہ اختیار کریں۔ جامع صغیر کی ایک روایت میں منقول ہے جو شخص انتقام لینے کی طاقت وقدرت کے باوجود عفو درگزر کرے تو اللہ تعالیٰ یوم عسرت یعنی قیامت کے دن اس کے ساتھ عفو و درگزر فرمائے گا۔

【18】

غصہ کو ضبط کرنے کا اجر

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنی زبان کو بلند رکھتا ہے اللہ اس کے عیوب کو ڈھانک لیتا ہے یعنی جو شخص لوگوں کے ان عیوب اور برائیوں کو چھپانے اور بیان کرنے سے باز رہتا ہے جو اس کے علم میں ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے عیوب و معاصی کو لوگوں کی نگاہوں سے یا اعمال لکھنے والے فرشتوں سے اور یا دونوں سے چھپاتا ہے جو شخص اپنے غصہ کو ضبط کرتا ہے تو اللہ اس کو قیامت کے دن اپنے عذاب سے بچائے گا اور جو شخص اپنے گناہ و تقصیر پر نادم ہو کر اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کرے گا تو اللہ اس کی عفو خواہی کو قبول کرتا ہے۔

【19】

وہ تین چیزیں جو نجات کا ذریعہ ہیں اور وہ تین چیزیں جو اخروی ہلاکت کا باعث ہیں۔

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین چیزیں نجات دینے والی ہیں اور تین چیزیں آخرت میں ہلاک کرنے والی ہیں جو چیزیں نجات دینے والی ہیں ان میں سے ایک تو ظاہر میں اللہ سے ڈرنا ہے یعنی جلوت و خلوت ہر حالت میں اور ہر حرکت و عمل کے وقت اللہ کا خوف غالب ہو یا یہ کہ بندہ کا ظاہر بھی خوف اللہ کے احساس کا مظہر ہو اور اس کا باطن بھی خوف اللہ سے معمور ہو) دوسری چیز خوشی و ناخوشی ہر حالت میں حق بات کہنا ہے، تیسری چیز دولت مندی و فقیری دونوں حالتوں کے درمیان میانہ روی اختیار کرنا ہے اور جو چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں ان میں سے ایک تو خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جائے دوسری چیز حرص و بخل ہے انسان جس کا غلام بن جائے اور وہ تیسری چیز مرد کا اپنے نفس پر گھمنڈ کرنا ہے۔ اور یہ تیسری چیز ان سب میں بدترین خصلت ہے مذکورہ بالا پانچوں روایتوں کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ تشریح خوشی و ناخوشی میں حق بات کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت بیانی اور حق گوئی کو اپنی کسی مصلحت کسی مفاد اور اپنے کسی جذبہ پر خوشی و ناخوشی کا پابند نہیں بنانا چاہیے بلکہ اگر کسی سے راضی و خوشی ہے تو اس کے سامنے بھی وہی بات کہے جو حق ہے اور اگر اس سے ناراض ہو تو اس صورت میں بھی حق بات ہی کہے۔ مثلا اگر کوئی شخص خود کو کسی ایسے شخص سے کوئی نفع و فائدہ پہنچتا ہے دوسروں کے ساتھ جس کا ظلم اور جس کا فسق ظاہر ثابت ہو تو اس کی ناحق تعریف و ستائش اور خلاف واقعہ بات محض اس لئے بیان نہ کرے کہ ذاتی فائدہ حاصل ہونے کی وجہ سے اس سے خوش ہے اس طرح اگر کسی صالح و بزرگ شخصیت سے کسی معاملہ میں کوئی اختلاف اور ناراضگی کی صورت پیدا ہوجائے تو محض اپنی ذاتی ناراضگی کی وجہ سے اس کی برائی اور مذمت نہ کرے حاصل یہ کہ خواہ کسی سے خوش ہو یا ناراض، دونوں صورتوں میں راہ استقامت پر گامزن رہے اور حق گوئی کے فریضہ کو کسی بھی حالت میں پس پشت نہ ڈالے۔ میانہ روی اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خرچ و اخراجات میں نہ تو اس قدر وسعت و فراخ دستی کا طور اپنائے کہ اس پر اسراف کا اطلاق ہونے لگے اور نہ اس قدر تنگی و سختی اختیار کرے کہ فقر و افلاس ظاہر ہونے لگے یا یہ کہ مراد ہے کہ فقر غناء کے درمیان اعتدال قائم کرے اور درمیانی راستہ کو اختیار کرے کہ جیسا کہ علماء نے کہا ہے کہ حصول معاش کی جدوجہد میں اس حد پر اکتفا کرنا کہ جس سے ضروریات زندگی کی تکمیل اور بقاء کا سامان فراہم ہوجاتا ہو غنا اور فقر دونوں سے افضل ہے۔ خواہش نفس کی پیروی کی جائے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح کا تابع کردینا ہے کہ اس کی ہر خواہش پوری کرنے لگے وہ جو کچھ کہے اور جس طرف لے جائے ادھر چل پڑے ایک ایسی خصلت ہے جو ہلاکت و تباہی میں ڈال دیتی ہے اس کے برخلاف ایمان کا کامل ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ اپنے نفس کو فرمان اور شریعت مصطفوی کا تابع بنایا جائے۔ بخل و حرص کا غلام بن جانے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بخل و حرص انسان کی طبیعت میں داخل ہے او اس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان بخل و حرص کے مادہ سے بالکل خالی ہو، لیکن اپنے آپ کو بخل و حرص کا اس طرح غلام بنادینا کہ کسی بھی صورت میں ان چیزوں سے خود کو محفوظ رکھنا ممکن نہ ہو، ایک ایسی خصلت ہے جو انسان کو اخروی تباہی و ہلاکت میں ڈال دیتی ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ہلاکت میں ڈالنے والی جن تین چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں از روئے گناہ اور نقصان سب سے بدتر خصلت عجب یعنی خود بینی و خود ستائی ہے جس کی وجہ سے انسان تکبر و غرور میں مبتلا ہوجاتا ہے کیونکہ خواہش نفس کی اتباع اور بخل و حرص کی غلامی یہ دونوں برائیاں اس طرح کی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان میں گرفتار ہو تو ان کے پھندے سے اپنے آپ کو نکال لینا اور توبہ وانابت کی راہ اختیار کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا مگر خود بینی و خود ستائی ایک ایسا مرض ہے جو اگر لاحق ہوجاتا ہے تو کم ہی پیچھا چھوڑتا ہے اور انسان کو کبر و نحوست میں اس طرح مبتلا کردیتا ہے کہ وہ اپنے کسی برے فعل کی اچھائی و برائی کے احساس تک سے خالی ہوجاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کسی برے فعل پر نادم نہیں ہوتا اور توبہ وانابت کی راہ اس سے دور ہوتی چلی جاتی ہے جیسا کہ بدعتی، بدعت کے پھندے میں اس طرح پھنس جاتا ہے کہ اس سے نکلنا آسان نہیں ہوتا چناچہ بدعتی سے کم ہی توبہ کی توفیق ہوتی ہے۔