153. دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان

【1】

رقاق کا بیان

رقاق رقیق کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں نرم، پتلا۔ یہاں سے کتاب کے جو ابواب شروع ہو رہے ہیں ان کو کتاب الرقاق سے اس لئے موسوم کیا گیا ہے کہ ان ابواب میں وہ احادیث منقول ہیں جو دل کو نرم کرتی ہیں، طبیعت میں رقت پیدا کرتی ہیں اور قوائے فکروعمل کو اس طرح متاثر کرتی ہیں کہ دنیا سے زہد وبے اعتنائی آخرت سے رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔

【2】

دو قابل قدر نعمتیں

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دو نعمتیں ہیں کہ ان کے معاملہ میں بہت سے لوگ فریب اور ٹوٹا کھائے ہوئے ہیں (اور وہ دونوں نعمتیں) تندرستی اور فراغت ہیں۔ (بخاری) تشریح مذکورہ نعمتوں میں سے ایک نعمت تو تندرستی ہے یعنی جسم وبدن کا امراض سے محفوظ رہنا اور دوسری نعمت ہے اوقات کا غم روز گار کے مشاغل درمصروفیات اور تفکرات وتشویشات سے فارغ وخالی ہونا، چناچہ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنی غفلت لاپرواہی کی بنا پر ان دونوں نعمتوں کی قدر نہیں کرر ہے اور ان کے معاملہ میں اپنے نفس سے فریب کھا کر ان کو مفت میں ہاتھ سے جانے دیتے ہیں جیسا کہ کوئی شخص خریدوفروخت کے معاملہ میں کسی کے فریب اور دھوکہ کا شکار ہو کر اپنے مال ومتاع کو مفت میں گنوا دیتا ہے اور نقصان برداشت کرتا ہے۔ لہٰذا اس ارشاد گرامی میں ان لوگوں کے تئیں حسرت و افسوس کا اظہار ہے جو ان نعمتوں سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھاتے، بایں طور کہ نہ تو اپنی صحت و تندرستی کے زمانہ دین ودنیا کی بھلائی و فائدہ کے کام کرتے ہیں اور نہ فرصت کے اوقات کو غنیمت جان کر ان میں آخرت کے امور کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، ہاں جب ان کی صحت و تندرستی خراب ہوجاتی ہے دنیا بھر کے فکرات لاحق ہوجاتے ہیں اور غم روزگار کی گردش ان کے اوقات کو مختلف قسم کی مشغولیتوں اور تشویشوں میں جکڑ لیتی ہے اس وقت ان کو ان نعمتوں کی قدر ہوتی ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے کیسے بیش قیمت مواقع گنوادئیے اور اس قول النعمۃ اذا فقدت عرفت (کہ نعمت کی قدر اس وقت ہوتی ہے جب وہ جاتی رہتی ہے) کا مصداق بنتے ہیں۔ ملا علی قاری (رح) نے حدیث کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگ ان نعمتوں کی حقیقی قدر نہیں کرتے، بایں طور کہ وہ ان نعمتوں کے حاصل ہونے کے زمانہ میں ایسے کام نہیں کرتے جن کے آخرت میں وہ محتاج ہوں گے اور پھر وہاں نادم ہوں گے کہ ہم نے دنیا میں اپنی عمر کے بیش قیمت اوقات کو کس طرح ضائع کردیا اور تندرستی و فراغت وقت کی جو نعمتیں ہمیں میسر تھیں ان کے جاتے رہنے سے پہلے ان کی قدر نہیں کی، حالانکہ اس وقت ان کی یہ ندامت ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ذالک یوم التغابن اور حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ آخرت میں اہل جنت اگر کسی بات پر حسرت و افسوس کریں گے تو ان لمحات پر کریں گے جو انہوں نے دنیا میں اس طرح گزار دئیے ہوں گے کہ ان میں انہوں نے اللہ کو یاد نہیں کیا ہوگا۔

【3】

دنیا اور آخرت کی مثال

حضرت مستورد بن شداد کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ اللہ کی قسم ! آخرت (کے زمانہ اور وہاں کی نعمتوں) کے مقابلے میں دنیا ( کے زمانہ اور اس کی نعمتوں) کی مثال ایسی ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی کو سمندر میں ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ وہ انگلی کیا چیز لے کر واپس آئی ہے۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی انگلی کو سمندر میں ڈبو کر باہر نکالے تو وہ دیکھے گا کہ اس کی انگلی سمندر میں سے محض تری یا صرف ایک آدھ قطرہ پانی کا لے کر واپس آئی ہے، پس سمجھنا چاہئے کہ آخرت کے زمانہ اور وہاں کی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا کا زمانہ اور دنیا کی تمام نعمتیں اسی قدر قلیل وکمتر ہیں جس قدر کہ سمندر کے مقابلہ میں اس کی انگلی کو لگا ہوا پانی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تمثیل بھی محض لوگوں کو سمجھانے کے لئے ہے ورنہ متناہی کو غیر متناہی کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں ہوسکتی، پانی کا وہ ایک قطرہ جو دریا سے باہر آیا ہے اپنی کمتری و بےوقعتی کے باوجود سمندر سے کچھ نہ کچھ نسبت ضرور رکھتا ہے مگر دنیا، آخرت سے اس قدر بھی نسبت نہیں رکھتی۔ ملا علی قاری (رح) لکھتے ہیں کہ اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو چاہئے کہ نہ تو نہایت جلد فنا ہوجانے والی دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں پر مغرور ہو اور نہ اس کی سختیوں اور پریشانیوں پر روئے پیٹے اور نہ شکوہ و شکایت کرے بلکہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے مطابق یہی کہے کہ اللہم لا عیش الا عیش الاخرۃ، اے اللہ ! اصل زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے نیز اس حقیقت کو ہر لمحہ مدنظر رکھے کہ یہ دنیا، مزرعۃ الاخرۃ (آخرت کی کھیتی ہے) اور یہاں کی زندگانی بس ایک ساعت کی ہے لہٰذا اس ایک ساعت کو گنوانے کی بجائے طلب الٰہی میں مصروف رکھنا ہی سب سے بڑی دانشوری ہے۔

【4】

دنیا ایک بے حیثیت چیز ہے

حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ بکری کے ایک ایسے مردہ بچہ کے پاس سے گزرے جس کے کان بہت چھوٹے تھے یا کٹے ہوئے تھے اور یا اس کے کان تھے ہی نہیں، چناچہ آپ ﷺ نے (اس کو دیکھ کر صحابہ (رض) اجمعین سے) فرمایا کہ تم میں ایسا کوئی شخص ہے جو اس (مردہ بچہ) کو ایک درہم کے عوض لینا پسند کرے ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ ہم تو اس کو کسی بھی چیز کے عوض لینا پسند نہیں کرسکتے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم ! یہ دنیا (اپنی تمام لذتوں اور آسائشوں کے ساتھ) اللہ کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بےوقعت وکمتر ہے جیسا کہ تمہارے نظر میں یہ ۔ (مسلم) تشریح حضور ﷺ نے بکری کے اس مردہ بچہ کی مثال کے ذریعہ درحقیقت اس طرف متوجہ فرمایا کہ یہ دنیا ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ انسان اس کی محبت وطلب میں آخرت کے نفع نقصان کو فراموش کردے، بلکہ اصل چیز آخرت کی محبت وطلب ہے جہاں کی زندگی بھی لافانی ہے اور جس کی نعمتیں بھی لازوال ہیں، لہٰذا مقصود زندگی آخرت کی محبت وطلب ہونا چاہئے نہ کہ دنیا کی محبت وطلب، کیونکہ فرمایا گیا ہے۔ حب الدنیا رأس کل خطیئۃ دنیا کی محبت و چاہت ہر گناہ کی جڑ ہے ترک الدنیا رأس کل عبادۃ دنیا سے بےاعتنائی، ہر عبادت کی بنیاد ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی محبت میں گرفتار رہنے والا اپنے اعمال میں مخلص و پاکیزہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہر کام کسی فاسد غرض و لالچ کی آمیزش رکھتا ہے خواہ وہ کوئی دینی اور مذہبی کام ہی کیوں نہ کرے، اس کے برخلاف جو شخص دنیا سے بےاعتنائی اختیار کئے ہوئے ہوتا ہے اس کے ہر عمل میں اخلاص و پاکیزگی اور آخرت ہی کا مفاد ہوتا ہے، خواہ وہ کسی دنیاوی کام ہی میں کیوں نہ مشغول ہو، اسی لئے کسی عارف نے کہا ہے کہ جس نے دنیا کو اپنی پسندیدہ اور محبوب چیز بنالیا ہے اس کو تمام مشائخ اور مرشدین مل کر بھی راہ راست پر نہیں لگاسکتے اور جس نے دنیا سے بےاعتنائی کو اپنا شیوہ بنا لیا اس کو دنیا بھر کے مفسد و بدکار لوگ بھی گمراہ نہیں کرسکتے۔

【5】

دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے (مسلم) تشریح قید خانہ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی شخص قید خانہ میں بند ہو تو وہاں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے اور طرح طرح کی مشقتیں جھیلتا ہے۔ اسی طرح مومن کے لئے یہ دنیا بھی گویا ایک قید خانہ ہے جہاں اس کو محنت ومشقت اور مصائب وشدائد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، منکرات اور منہیات (ممنوع اور خلاف شرع امور) سے اپنے آپ کو بچانا پڑتا ہے۔ نفس کی آزادی اور بےراہ روی کو ختم کرنا پڑتا ہے اور طاعات و عبادات کی مشقتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ یا یہ کہ مومن اس دنیا کو ایک ایسی جگہ محسوس کرتا ہے جہاں تنگی وگھٹن ہوتی ہے اور جہاں بودوباش اختیار کرنے کو وہ پسند نہیں کرتا، چناچہ وہ ہر وقت یہی خواہش رکھتا ہے کہ وہ اس تنگ و تاریک جہاں سے نکل جائے اور عالم ملکوت کی وسعتوں کو اپنی جو لانگاہ بنائے۔ اور دنیا کافر کے لئے جنت ہے کا مطلب یہ ہے کہ کافر چونکہ اپنا مقصد زندگی دنیا کا حصول سمجھتا ہے اس لئے وہ اپنی تمام تر سعی و کوشش اور اپنی تمام ترجدو جہد دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں کو حاصل کرنے میں صرف کرتا ہے اور پھر وہ دنیا کی لذات شہوات میں اس طرح مشغول ومنہمک ہوجاتا ہے کہ اس کے لئے یہ دنیا ایک عشرت کدہ بن جاتی ہے جہاں سے نکلنا اس کو گوارہ نہیں ہوتا۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ حدیث کی مراد یہ ہے کہ مومن کو آخرت میں جو اجر وثواب ملے گا اور اس کو وہاں کی جن نعمتوں اور راحتوں سے نوازا جائے گا ان کی بہ نسبت یہ دنیا اس کے حق میں گویا قید خانہ ہے اور کافر کو جس دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا اس کے مقابلہ میں یہ دنیا اس کے حق میں گویا جنت ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ مومن اس دنیا میں خواہ کتنے ہی نازونعم کے ساتھ رہے اور اس کو یہاں کی کتنی ہی آسائشیں اور راحتیں حاصل ہوں مگر وہ سب ہیچ ہیں کیوں کہ اس کو آخرت میں جو نعمتیں ملنے والی ہیں اور وہاں کی جو راحتیں اور آسائشیں اس کو حاصل ہوں گی وہ اس دنیا کی نعمتوں اور راحتوں وآسائشوں سے کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ اعلی ہوں گی، اسی طرح کافر اس دنیا میں خواہ کتنی ہی مصیبتیں اور آفتیں جھیلے اور کتنے ہی شدائد کا سامنا کرے۔ مگر آخرت میں اس کا حال اس دنیا کے حال سے بھی بدتر ہوگا۔ منقول ہے کہ ایک یہودی نے حضرت حسن (رض) کو دیکھ کر ان سے کہا کہ آپ کے نانا جان (رسول کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ الدنیا سجن المومن وجنۃ الکافر تو ان کو یہ قول میرے اور آپ کے حال پر کس طرح صادق آتا ہے، کیونکہ تم تو گھوڑے پر سواری کرتے ہو اور بڑی راحت و آسائش کے ساتھ زندگی گزارتے ہو، جب کہ میں بیماری میں مبتلا ہوں اور طرح کی تکالیف اور فقروفاقہ میں گرفتار رہتا ہوں ؟ چناچہ حضرت امام (رض) نے اس کو جو جواب دیا وہ وہی تھا جو اوپر نقل کیا گیا۔

【6】

کافر کے اچھے کام کا اجر اس کو اسی دنیا میں دے دیا جاتا ہے

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ مومن کی نیکی کا اجر ضائع نہیں کرتا، کہ اس کی اس نیکی کے سبب اس کو دنیا میں بھلائیاں دی جاتی ہیں اور آخرت میں بھی اس کا اجروثواب دیا جائے گا۔ اور کافر اللہ کی خوشنودی کے لئے جو اچھے کام کرتا ہے اس کو اس کے بدلہ میں اس دنیا میں کھلا پلا دیا جاتا ہے (یعنی وہ ان اچھے کاموں کی وجہ سے جس بھلائی کا مستحق ہوتا ہے وہ اس کو نعمتوں اور راحتوں کی صورت میں اس دنیا میں دے دی جاتی ہے) یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے نامہ اعمال میں ایسی کوئی نیکی نہیں ہوگی کہ جس کی وجہ سے اس کو وہاں اجروثواب دیا جائے۔ (مسلم) تشریح اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا ہے کہ آخرت کی بھلائی اور وہاں کے اجروثواب کا دارومدار دنیا میں محض اچھے کام کرنے پر نہیں ہے بلکہ ایمان و عقیدہ پر ہے چناچہ وہ نیک کام جو اللہ کی خوشنودی کے لئے کئے جاتے ہیں اور جن سے اللہ یقیناخوش ہوتا ہے، جب کوئی مومن کرتا ہے تو اس کو ان نیک کاموں کی وجہ سے دنیا میں بھی اچھا بدلہ ملتا ہے۔ بایں طور پر کہ اس کے کاروبار معیشت اور رزق میں وسعت وفراخی عطا کی جاتی ہے، اس کی زندگی کو چین و سکون اور خوش حالی وقلبی اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے اور پھر اس کو ہر طرح کی آفات وبلیات اور ناپسندیدہ عناصر سے محفوظ ومامون رکھا جاتا ہے اور پھر جب وہ اس دنیا کی زندگی کو پورا کر کے آخرت میں پہنچے گا تو اس کو وہاں بھی ان نیک کاموں کا پورا پورا اجر وثواب ملے گا۔ اس کے برخلاف جب کافر اچھے اعمال کرتا ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہو جیسے فقیر و محتاج کو کھانا کھلانا اور اس کی مدد کرنا، یتیم اور بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرنا اور اس طرح کے دوسرے فلاح ورفاہی کے کام تو اس کے ان اچھے کاموں کا پورا بدلہ اس کو دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے، جب کہ آخرت میں وہ ان اچھے کاموں کا کوئی اجروثواب پانے کا مستحق نہیں ہوگا۔ رہی یہ بات کہ جس طرح مومن کو دنیا میں اپنے اچھے کاموں کا بدلہ اچھا ملتا ہے اسی طرح کیا اس کو دنیا میں برے کاموں کی سزا بھی ملتی ہے ؟ تو اس کا جواب اثبات میں ہوگا کہ حق تعالیٰ اپنے جس بندہ کو آخرت کے عذاب وشدائد سے بچانا چاہتا ہے اس کو اس کی برائیوں کی سزا اس دنیا میں دے دیتا ہے۔ چناچہ ایک دوسری حدیث میں منقول ہے کہ مومن کو اس کے برے کاموں کا بدلہ دنیا میں مختلف قسم کے مصائب وآلام اور تکالیف وپریشانیوں کی صورت میں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ جب آخرت میں پہنچے گا تو اس کے نامہ اعمال میں ایسی کوئی برائی نہیں ہوگی جس پر وہ عذاب کا مستوجب قرار پائے۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کو احمد اور ابن حبان نے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت کریمہ من یعمل سوء یجز بہ نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ اگر ایسا ہے کہ بندہ سے جو بھی برائی صادر ہوگی اس کی وجہ سے اس کو آخرت میں ضرور سزا دی جائے گی اور ظاہر ہے کہ دنیا میں ہر بندے سے چھوٹی یا بڑی کوئی نہ کوئی برائی ضرور صادر ہوتی ہے) تو پھر نجات پانے والا کون شخص ہوگا ؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تمہیں بخشے، کیا تم غمگین نہیں ہوتے، کیا تم رنج والم نہیں اٹھاتے، کیا تم بیمار نہیں ہوتے اور کیا تمہیں کوئی آفت یا بلا نہیں پہنچتی ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ ! ﷺ حضور ﷺ نے فرمایا (تو یاد رکھو) یہ چیز (یعنی تمہارا کسی تکلیف و مصیبت اور رنج والم میں مبتلا ہونا) دراصل تمہارے حق میں اس برائی کی سزا اور بدلہ ہے جو تم سے صادر ہوجاتی ہے ۔

【7】

جنت اور دوزخ کے پردے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ دوزخ کی آگ شہوتوں یعنی خواہشات لذات سے ڈھانکی گئی ہے اور جنت سختیوں اور مشقتوں سے ڈھانکی گئی ہے اس روایت کو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے لیکن مسلم کی روایت میں حجبت (یعنی ڈھانکی گئی ہے کہ بجائے) حفت (یعنی گھیری گئی ہے) کا لفظ ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ وہ محنت ومشقت اور سختی و پریشانی پر جو طاعت و عبادت کی مداومت و پابندی اور نفسانی خواہشات ولذات سے اجتناب کی وجہ سے اٹھانا پڑتی ہے، گویا بہشت کا پردہ ہے اور جو چیز پردے کے پیچھے ہوتی ہے اس تک پہنچنے کے لئے پہلے پردہ تک پہنچنا اور اس کو اٹھانا ضروری ہوتا ہے اس لئے اگر جنت تک پہنچنا چاہتے ہو تو پہلے اس کے پردے کو اٹھاؤ یعنی احکام الٰہی کی اتباع اور نفس کی خواہشات سے اجتناب کی محنت اور سختی برداشت کرو، جب ان باتوں کو اختیار کرو گے تب کہیں جنت تک رسائی ہوگی۔ اسی طرح نفس کی خواہشات ولذژات گویا دوزخ کا پردہ ہیں۔ جو شخص اس پردہ کو ہٹائے گا یعنی نفس کی اتباع اور خواہش پرستی کا ارتکاب کرے گا وہ دوزخ تک پہنچ جائے گا۔ واضح رہے کہ حدیث میں شہوات کا جو لفظ استعمال فرمایا گیا ہے اس کا تعلق نفس کی ان خواہشات ولذات سے ہے جو حرام چیزوں جیسے شراب نوشی، زنا اور غیبت وغیرہ کا ارتکاب کراتی ہیں، ورنہ جہاں تک مباح خواہشات ولذات کا تعلق ہے وہ نہ تو دوزخ میں لے جانے کا باعث بنتی ہیں اور نہ جنت میں داخل ہونے سے روکتی ہیں، اگرچہ نفس کی مباح خواہشات ولذات کا اتباع بھی بندہ کو قرب اور ولایت کے مقام سے دور کردیتا ہے۔ حدیث کی مذکورہ بالا وضاحت سے یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ ایک روایت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ العلم حجاب اللہ (یعنی علم اللہ تعالیٰ کا پردہ ہے) تو اس کے کیا معنی ہیں، چناچہ اس جملہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ علم، گویا اللہ اور بندے کے درمیان پردہ ہے، جو شخص علم حاصل کرتا ہے وہ گویا اس پردہ کو اٹھا دیتا ہے اور جب وہ پردہ اٹھ جاتا ہے تو اللہ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔

【8】

مال وزر کا غلام بن جانے والے کی مذمت

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہلاک ہو وہ شخص جو دینار کا غلام ہو، درہم کا غلام ہو اور چادر کا غلام ہو (یعنی اس شخص کے لئے آخرت میں ہلاکت و تباہی مقدر ہے جس نے مال و دولت کے حصول کو اپنا مقصد زندگی بنالیا ہو، دنیاوی عیش وتمول کو معبود جبار کی رضا و خوشنودی پر ترجیح دیتا ہے اور طلب مال و حصول زر کی راہ میں ناجائز و حرام وسائل و ذرائع اختیار کرنے سے باز نہ رہتا ہو اور پھر جو کچھ کماتا ہو اس کو از راہ بخل جمع کردیتا ہو کہ نہ اس مال کے حقوق کو ادا کرتا ہو نہ اللہ کی راہ میں اور اللہ کی خوشنودی کے لئے اس کو خرچ کرتا ہو اور اس کے ساتھ ہی اپنی شان و شوکت اور بڑائی جتانے کے لئے لباس فاخرہ زیب تن کرتا ہو اور ناروا اطور پر زیب وزینت میں مبتلا ہو اور ایسے شخص کی علامت یہ ہے کہ) جب اس کو (مال و دولت اور لباس فاخرہ) ملے تو خوش اور راضی ہو اور اگر نہ ملے تو ناراض وناخوش ہو (گویا اس کی طبیعت کا میلان ہمیشہ لوگوں کے مال وزر کی طرف رہتا ہو اور ہر وقت اس حرص میں مبتلا رہتا ہے کہ فلاں شخص سے فلاں چیز حاصل ہوجائے، چناچہ اگر لوگ اس کی حرص و تمنا کو پورا کرتے ہیں تو وہ ان سے خوش رہتا ہے اور اگر ان کی طرف سے اس کی اس حرص وطمع کی تکمیل نہیں ہوتی تو ان سے ناخوش و ناراض ہوجاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس دینے یا نہ دینے کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو، یعنی اگر اللہ تعالیٰ اس کی خواہش کے مطابق اس کو مال و دولت اور سامان تعیش عطا کرتا ہے تو وہ اس سے خوش ہوجاتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس کی خواہش وحرص کو پورا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے تئیں اپنی ناراضگی ظاہر کرتا ہے) ایسے شخص کی اس مذموم خصلت کی وجہ سے گویا حضور ﷺ نے مکرر بددعا فرمائی کہ ہلاک ہو ایسا شخص اور ذلیل وسرنگوں ہو ! اور (دیکھو) جب اس شخص کے پاؤں میں کانٹا لگ جائے تو کوئی اس کو نہ نکالے (گویا تہدید و تنبیہ کے طور پر ایسے شخص کے حق میں مسلمانوں کو آگاہ فرمایا گیا کہ اگر ایسی مذموم خصلت رکھنے والا شخص کسی آفت و پریشانی میں مبتلا ہوجائے تو کوئی اس کی مدد و اعانت نہ کرے۔ دنیا داروں اور حرص وطمع کے غلام لوگوں کی اس بدحالی کو ذکر کرنے کے بعد حضور ﷺ نے چاہا کہ ان کے مقابلہ پر ان طالبان دین اور زاہدان دنیا کا بھی ذکر فرمائیں جو آخرت کی فلاح حاصل کرنے اور دین کو سربلند کرنے کے لئے محنت ومشقت اور جہاد کے ذریعہ اللہ کی راہ میں مشغول رہتے ہیں، دنیا سے بےنیازی برتتے ہیں، ظاہری زینت و آرائش سے دور رہتے ہیں اور اہل دنیا کے طور طریقوں سے اپنے کو الگ رکھتے ہیں اور اس وجہ سے ظاہر پرستوں کی نظر میں نہایت کمتر و حقیر معلوم ہوتے ہیں، چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا) سعادت وخوش بختی ہے اس بندے کے لئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے اپنے گھوڑے کی باگ پکڑے کھڑا ہے، اس کے سر کے بال پراگندہ اور قدم غبار آلود ہیں، اگر اس کو لشکر کی اگلی صفوں کے آگے نگہبانی پر مامور کیا جاتا ہے تو پوری طرح نگہبانی کرتا ہے (کہ کسی بھی وقت اپنی ذمہ داری کی انجام دہی سے نہ غافل رہتا ہے اور نہ سوتا ہے بلکہ ہر وقت پوری ہوشیاری و چستی کے ساتھ نگہبانی کرتا ہے) اور اگر اس کو لشکر کے پیچھے رکھا جاتا ہے تو لشکر کے پیچھے ہی رہتا ہے (یعنی وہ امیر لشکر اور مسلمانوں کی پوری تابعداری کرتا ہے کہ اس کو جس جگہ مامور کیا جاتا ہے وہیں اپنا فرض انجام دیتا ہے اور اس سے جو کچھ کہا جاتا ہے اس پر پوری طرح عمل کرتا ہے، تکبر اور ضدواصرار نہیں کرتا) اور (خدا کے نزدیک اپنے اس مرتبہ وسعادت کے باوجود اپنے معاشرہ میں اس قدر سادگی، جاہ ومال اور شان و شوکت سے اس قدر بےنیازی اور اس قدر انکساری کے ساتھ رہتا ہے کہ دنیا دار اس کو کوئی وقعت و اہمیت نہیں دیتے یہاں تک کہ) اگر وہ لوگوں کی محفلوں میں شریک ہونا چاہتا ہے تو اس کو شرکت کی اجازت نہیں دی جاتی اور اگر کسی کی سفارش کرتا ہے تو اس کی سفارش قبول نہیں کی جاتی۔ تشریح دینار و درہم کا غلام اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ مال و دولت کے سلسلہ میں جو چیز مذموم ہے وہ اس مال و دولت کی محبت اور دنیا داری میں مبتلا ہونا ہے، چناچہ یہ خصلت (یعنی مال و دولت اور دنیا کی محبت میں گرفتارہونا) انسان کو مال کا بندہ بنا دیتی ہے کہ اس کی ہر سعی اور جدو جہد کا محور، اس کی ہر تمنا و خواہش کا مرکز اور اس کے ہر فعل وعمل کی بنیاد صرف مال و زر ہوتا ہے اس سے واضح ہوا کہ مال داری اور دولت مندی بذات خود کوئی مذموم چیز نہیں ہے، کسی شخص کے پاس خواہ کتنا ہی مال و زر ہو اور وہ کتنا بڑا دولت مند ہو، اگر وہ دولت کی محبت میں گرفتار نہیں ہے تو اس کو برا نہیں کہیں گے۔ حدیث میں مال و دولت کے تعلق سے دینار اور درہم ہی کا ذکر اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ یہ دونوں چیزیں (جن کو سونا چاندی یا روپیہ پیسہ بھی کہا جاسکتا ہے) زر نقد ہیں کہ لین دین اور خریدو فروخت میں انہیں کا اعتبار ہوتا ہے اور ان کے ذریعہ ہی تمام جائز و ناجائز مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے، اسی طرح اسباب معیشت میں صرف چادر کا ذکر اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ اصل میں خمیصہ اس خط دار چادر کو کہتے ہیں جو اس زمانہ میں لباس فاخرہ کا سب سے اعلی مظہر سمجھی جاتی تھی اور اس کے استعمال سے عام طور پر تکبرورعونت اور نمود ونمائش کا جذبہ پیدا ہوتا تھا، نیز لوگ اس چادر کو اس قدر پسند کرتے تھے کہ اس کو اپنے سے جدا کرنا بھی ان کو گوارہ نہیں ہوتا تھا، لہٰذا اس زمانہ کے دنیادار اس چادر کی خواہش وطلب اور اس کی محبت میں اس قدر گرفتار ہوتے تھے کہ جیسے انہوں نے اس چادر کی غلامی اختیار کرلی ہو۔ نقش اور انتقاش کے معنی ہیں پیر سے کانٹا نکالنا لہٰذا واذا شیک فلا انتقش کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مال و دولت اور روپیہ پیسہ کا غلام بن جائے کہ نہ تو وہ ناجائز اور حرام وسائل و ذرائع سے کمانا اور دولت جوڑنا ترک کرتا ہو اور نہ اپنے روپیہ پیسہ کو حقداروں پر اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہو تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس کے ساتھ تعاون اور اس کی پشت پناہی سے گریز کریں۔ اور جب وہ کسی آفت میں پھنسے تو اس کی کوئی مدد نہ کریں، اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ پیر سے کانٹا نکالنا چونکہ مدد کرنے کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے لہٰذا اس سب سے ادنیٰ درجہ کی مدد سے بھی منع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر اس کو کوئی اس سے بھی بڑا حادثہ پیش آجائے اور اس سے بھی زیادہ سخت حالات سے دوچار ہو تو اس کی مدد نہ کرنا بطریق اولیٰ جائز بلکہ مطلوب ہوگا۔ یہ بات بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ حدیث کے لفظ تعس کا یہ ترجمہ کہ ہلاک ہو وہ شخص الخ اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد کی مراد ایسے شخص کے حق میں بد دعا کرنا ہے، چناچہ مذکورہ ترجمہ کے پیش نظر اور شارحین کی اتباع کی بناء پر نقل کیا گیا ہے اور اگر یہ مراد لیا جائے تو حضور ﷺ نے اس لفظ کے ذریعہ اس شخص کے حق میں بد دعا نہیں فرمائی بلکہ اس بد ترین خصلت کی مذمت اور اس خصلت کو اختیار کرنے والوں کو دنیاوی اور اخروی ذلت و خواری اور ان کے برے انجام کو بطور خبر ظاہر فرمایا تو اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ ہلاک ہوا وہ شخص الخ اور یہ مراد بھی حدیث کے مغائر نہیں ہوگی۔

【9】

مالداری بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے

حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے (صحابہ (رض) اور ان کے ذریعہ عام مسلمانوں کو مخابط کر کے) فرمایا۔ اپنی وفات کے بعد تمہارے بارے میں مجھے جن چیزوں کا خوف ہے ( کہ تم ان میں مبتلا ہوجاؤگے ( ان میں سے ایک چیز دنیا کی تروتازگی اور زینت بھی ہے (جو ملکی فتوحات و اقتدار کی صورت میں) تم کو حاصل ہوگی ۔ یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ﷺ ، کیا بھلائی اپنے ساتھ برائی بھی لائے گی ؟ (یعنی ملکی فتوحات و اقتدار کی وجہ سے ہم مسلمانوں کو جو مال غنیمت اور سازوسامان حاصل ہوگا وہ تو ہمارے حق میں اللہ کی نعمت ہوگی اور ویسے بھی جائز وسائل و ذرائع سے حاصل ہونے والی دولت اور رزق وغیرہ کی وسعت وفراخی ایک اچھی چیز ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت اور ایک اچھی چیز ہمارے لئے برائی وفتنہ اور ترک طاعات کا سبب و ذریعہ بن جائے ؟ ) حضور ﷺ (یہ سن کر) خاموش رہے (اور انتظار کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئے تو جواب دیں) یہاں تک کہ ہم نے محسوس کیا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ (تھوڑی دیر کے بعد) حضور ﷺ نے اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ پونچھا (جو نزول وحی کے وقت آتا تھا) اور پھر فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے جس نے سوال کیا تھا ؟ گویا آپ ﷺ نے سائل کے سوال کی تحسین فرمائی (کیونکہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ اس شخص نے جو سوال کیا ہے اور اب اس کا جو جواب دیا جائے گا اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا) اور اس کے بعد فرمایا حقیقت یہ ہے کہ بھلائی اپنے ساتھ برائی نہی لاتی (یعنی جائز ذرائع سے مال و دولت کا حاصل ہونا اور رزق میں وسعت وفراخی اور خوشحالی کا نصیب ہونا بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے اور اس کی وجہ سے کوئی برائی پیشن نہیں آتی، بلکہ اصل میں برائی کا پیش آنا ان عوارض کی وجہ سے ہوتا ہے جو دولتمندی اور خوشحالی کے وقت لاحق ہوجاتے ہیں جیسے بخل واسراف اور حد اعتدال سے تجاوز کرنا اور اس کی مثال موسم بہار ہے جو زمین کے پیٹ سے گھاس وغیرہ اگاتا ہے وہ اپنی ذات کے اعتبار سے تو اچھا اور فائدہ مند ہوتا ہے، البتہ اس سے ضرور نقصان اس وقت پہنچتا ہے جب کوئی چوپایہ اس کو ضرورت سے زائد کھائے اور بسیار خوری کے سبب ضرور ہلاکت میں مبتلا ہوجائے، چناچہ خود حضور ﷺ نے اس مثال کو یوں بیان فرمایا کہ) موسم بہار میں جو سبزہ اگاتا ہے (وہ حقیقت میں تو بھلائی و فائدہ کی چیز ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کوئی نقصان و برائی لے کر زمین کے پیٹ سے نہیں اگتا مگر) وہ جانور کو اس کا پیٹ پھلا کر مار دیتا ہے یا (اگر وہ مرتا نہیں تو) مرنے کے قریب پہنچ جاتا ہے (یعنی جو جانور اس سبزہ کو کھانے میں حد سے تجاوز کرجاتا ہے وہ اس سبزہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے فعل یعنی زیادہ کھانے کی وجہ سے ضرور ہلاکت میں مبتلا ہوجاتا ہے) یہ کہ کھانے والے جانور نے اس سبزہ کو اس طرح کھایا کہ (جب بسیار خوری کی وجہ سے) اس کی دونوں کو کھیں پھول گئیں تو وہ سورج کے سامنے بیٹھ گیا (جیسا کہ جانور کی عادت ہوتی ہے کہ بدہضمی کی وجہ سے اس کا پیٹ پھول جاتا ہے تو وہ دھوپ میں بیٹھ جاتا ہے اور اس کا پیٹ گرمی پاکر نرم ہوجاتا ہے اور اس میں جو کچھ ہوتا ہے باہر نکل جاتا ہے اور پھر (جب) پتلا گوبر اور پیشاب کر کے (اس نے اپنا پیٹ ہلکا کرلیا تو) چراگاہ کی طرف چلا گیا اور سبزہ چرنے لگا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا یہ مال وزر بڑا سرسبز، تروتازہ اور نرم ودلکش ہے (کہ بظاہر آنکھوں کو بہت بھاتا ہے، طبیعت کو بہت اچھا لگتا ہے جس کی وجہ سے دل چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ حاصل ہو) لہٰذا جو شخص دنیا کے مال وزر کو حق کے ساتھ (یعنی بوقت ضرورت اور جائز وسائل و ذرائع سے) حاصل کرے اور اس کو اس کے حق میں (یعنی اس کے اچھے مصارف میں کہ خواہ واجب ہو یا مستحب) خرچ کرے تو وہ مال وزر اس کے حق میں (دین کا) بہترین مددگار ثابت ہوتا ہے اور جو شخص اس مال وزر کو حق کے بغیر یعنی ناجائز طور پر حاصل کرے تو وہ اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا رہتا ہے اور شکم سیر نہیں ہوتا اور وہ مال وزر قیامت کے دن اس کے بارے میں (اس کے اسراف اور اس کی حرص وطمع کا) گواہ ہوگا۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے ابتدائی جملوں کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے بارے میں مجھے خدشہ ہے کہ جب تم دنیا کے ملکوں اور شہروں کو فتح کرکے اپنے تسلط و اقتدار کا جھنڈا لہراؤ گے اور اس کے نتیجہ میں تمہیں مال و دولت کی فراوانی اور خوشحالی نصیب ہوگی تو یہ چیز تمہیں عبادت وطاعت اور نیک اعمال سے باز رکھنے کی کوشش کرے گی، نفع پہنچانے والے علوم (یعنی دینی علوم وفنون) سے لاپرواہ بنادے گی اور عجب وتکبر، گھمنڈ و غرور، شان شوکت کا اظہار اور جاہ ومال سے محت جیسی برائیاں تمہارے اندر پیدا ہوجائیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ تم آخرت کی زندگی کی فکر کرنے اور موت کے لئے تیاری کرنے کی بجائے دنیاوی امور میں پھنس کر رہ جاؤ گے۔ پھر چراگاہ کی طرف چلا گیا اور سبزہ چرنے لگا یعنی جب وہ جانور ضرورت سے زیادہ کھالیتا ہے اور بدہضمی میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اپنے طریقہ سے بدہضمی کا علاج کرتا ہے اور اپنے پیٹ کو صاف کر کے دوبارہ سبزہ چرنے لگتا ہے۔ یہ مثال اس شخص کی ہے جو انسانی خمیر میں شامل حرص و خواہشات کے غلبہ کی وجہ سے بعض وقت اعتدال کی راہ سے بھٹک کر حد سے تجاوز کرجاتا ہے اور پھر ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے لیکن اپنے طرز عمل سے جلد ہی رجوع کرلیتا ہے اور مسقتل طور سے بےاعتدالی و گناہ کی راہ پر قائم نہیں رہتا بلکہ آفتاب ہدایت کی روشنی اس کو راہ راست کی طرف متوجہ کردیتی ہے اور ندامت و توبہ کے ذریعہ اپنے نفس کو بےاعتدالی اور گناہ کی غلاظت سے پاک کر کے گویا اپنا علاج کرلیتا ہے۔ اس کے برخلاف پہلی قسم کی کہ جس کو وہ جانور کو اس کا پیٹ پھلا کر مار دیتا ہے کے ذریعہ بیان فرمایا اس شخص کی حالت کی طرف اشارہ کرتی ہے جو نفس کی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے، گناہ و معصیت پر قائم رہتا ہے اور اسی حالت میں مرجاتا ہے، یہاں تک کہ اس کو توبہ وانابت اور رجوع و استغفار کی توفیق بھی نصیب نہیں ہو پاتی۔ ان دونوں قسموں پر غور کرنے سے ایک اور قسم سامنے آتی ہے جس کا تعلق اس شخص سے ہے جو سرے سے بےاعتدالی اور گناہ کی راہ اختیار نہیں کرتا اور نفس کی خواہشات اور ناروا تمناؤں کا اسیر نہیں ہوتا بلکہ دنیا سے بےپرواہ ہوتا ہے اور اپنی تمام تر توجہ آخرت کے مفاد کی طرف مبذول رکھتا ہے، لہٰذا پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو اصطلاحی طور پر ظالم سے موسوم کیا جاتا ہے، دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو مقتصد یعنی میانہ رو کہا جاتا ہے اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو سابق یعنی بھلائیوں کو اختیار کرنے میں سبقت لے جانے والا کہا جاتا ہے۔ پس جو شخص سابق ہوتا ہے وہ سرے سے اپنے ہاتھوں کو گناہ سے آلودہ ہی نہیں کرتا، جو شخص مقتصد ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھوں کو گناہ سے آلودہ تو کرتا ہے لیکن ان کو پھر دھو ڈالتا ہے اور جو شخص ظالم ہوتا ہے وہ ہاتھ آلودہ ہی اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ مذکورہ مثال اور اس کی مطابقت کو بیان کرنے کے بعد حضور ﷺ نے یہ مال وزر بڑا سرسبز تازہ اور نرم ودلکش ہے سے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا کہ دنیا کے مال وزر، اس کے تئیں محبت اور اس کے مصارف کے تعلق سے انسانوں کے حالات و خیالات مختلف ہوتے ہیں کہ کچھ لوگ تو وہ ہوتے ہیں جو محض ضرورت و حاجت کے بقدر ہی مال و اسباب کے حصول پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے حصول کے لئے بھی جائز و درست وسائل و ذرائع اختیار کرتے ہیں، نیز ان کے پاس جو مال و اسباب اور روپیہ پیسہ ہوتا ہے اس کو وہ اچھے مصارف میں خرچ کرتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مال و دولت ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ ان کی حرص وطمع کسی بھی حد پر قناعت نہیں کرتی، وہ نہ صرف یہ کہ ضرورت و احتیاج سے زائد مال وز حاصل کرنے کی سعی و کوشش کرتے ہیں اور اس کو جوڑنے میں لگے رہتے ہیں بلکہ اس کے حصول میں جائز و ناجائز کے درمیان کوئی تمیز نہیں کرتے، سخت سے سخت برائی کا ارتکاب کرکے اور حرام ذرائع کو اختیار کرکے دولت سمیٹتے رہتے ہیں، علاوہ ازیں ان کے پاس جو مال و دولت اور روپیہ پیسہ ہوتا ہے اس کو حقداروں پر اور ان مصارف میں خرچ نہیں کرتے جو اللہ کی خوشنودی کا باعث ہوتے ہیں اور مال و دولت کے تئیں ان کی یہ حرص وطمع ان کو اس شخص کی مانند بنادیتی ہے جو کھاتا رہتا ہے مگر غلبہ حرص کی وجہ سے کبھی شکم سیر نہیں ہوتا یا ان کی حالت اس شخص کی سی ہوجاتی ہے جو استسقاء کا مریض ہوتا ہے کہ کسی وقت بھی سیراب نہیں ہوتا اور جتنا پانی پیتا ہے اسی قدر پیاس بھڑکتی ہے اور پیٹ پھولتا جاتا ہے۔ ایک عارف کی نظر میں دنیا کی مثال بڑے پایہ کے بزرگ اور عارف باللہ حضرت خواجہ عبیداللہ نقشبندی (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا یہ دنیا سانپ کی مانند ہے، لہٰذا جو شخص اس کا منتر جانتا ہے اس کے لئے تو دنیا کو حاصل کرنا جائز ہے لیکن دوسروں کے لئے جائز نہیں جب لوگوں نے یہ سنا تو عرض کیا کہ حضرت ! اس کا منتر کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا اس بات کا علم ہونا کہ اس (ادنی کے مال و دولت) کو کہاں سے اور کس طرح حاصل کر رہا ہے اور کہا خرچ کر رہا ہے

【10】

دنیا کی طرف راغب ہونا تباہی وبربادی کی طرف راغب ہونا ہے

حضرت عمروبن عوف (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ کی قسم مجھے تمہارے فقروافلاس کا کوئی ڈر نہیں ہے (کیونکہ فقروافلاس کی حالت میں دین کی سلامتی کا امکان غالب ہوتا ہے اور یہ چیز تمہارے حق میں زیادہ سود مند ہے) بلکہ میں اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کی جائے گی (اور تم مالداروں کا طور طریقہ اختیار کر کے مختلف قسم کی آفتوں اور بلاؤں کے ذریعہ ہلاکت و تباہی میں مبتلا ہوجاؤگے) جیسا کہ ان لوگوں پر دنیا کشادہ کی گئی تھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں (اور وہ مال و دولت کی بےحد رغبت و محبت رکھنے کی وجہ سے فقراء اور مساکین پر رحم نہیں کھاتے تھے اور ان کی مدد واعانت سے گریز کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو تباہ و برباد کردیا گیا) چناچہ تم دنیا کی طرف رغبت کرو گے (یعنی دنیا کو اختیار کرو گے اور اس کی طرف نہایت رغبت رکھوگے کہ ایک دوسرے سے مال و دولت اور جاہ و حکومت حاصل کرنے کے لئے لڑائی جھگڑا شروع کردو گے) جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں نے اس کی طرف رغبت کی تھی اور پھر یہ دنیا تم کو اسی طرح تباہ و برباد کردے گی جس طرح ان کو تباہ و برباد کرچکی ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح مال و دولت کی وہ فراخی وآسودگی جو دنیا کا گرویدہ بناتی ہے، حرص وطمع میں مبتلا کرتی ہے، جوڑنے سمیٹنے اور ذخیرہ اندوزی کا خوگر کرتی ہے چونکہ انسان کو اخلاقی و روحانی طور پر تباہ و برباد کردیتی ہے اور اخروی ہلاکت کا مستوجب بنادیتی ہے اس لئے حضور ﷺ نے مسلمانوں کی دنیاوی خوشحال وآسودگی اور مالداری سے اپنے خوف کا اظہار فرمایا ! یا آپ ﷺ نے اس دنیاوی نفع وآسودگی اور خوشحالی کے تئیں خوف کا اظہار فرمایا جو باہمی مخالفت ونزاع، سماجی استحاصل ولوٹ گھسوٹ اور محض دنیاوی اقتدار کے لئے جنگ وجدل اور قتل و قتال کے نتیجہ میں حاصل ہو۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں فقر سے مراد ان تمام چیزوں سے تہی دست ہونا ہے جن کی ایک انسانی زندگی کو احتیاج ہوتی ہے اور جن پر ضروریات دین کی تکمیل اور بنیادی اسباب معیشت کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی طرح غنا یعنی دنیاوی فراخی وآسودگی سے مراد دنیا کی چیزوں کا اس قدر حاصل ہونا ہے جو مقدار کفایت و ضرورت سے زائد ہوں جس کی وجہ سے انسان حق تعالیٰ کی عبادت و اطاعت سے غافل ہوجاتا ہے اور تمردو سرکشی اختیار کرلیتا ہے۔

【11】

رزق کے بارے میں آنحضرت ﷺ کی دعا

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے یہ دعا فرمائی اے اللہ ! تو آل محمد ﷺ کو بقدر قوت، رزق عطا فرما اور ایک روایت میں (قوت کے بجائے) کفاف کا لفظ ہے (بخاری ومسلم) تشریح ملاعلی قاری کے مطابق آل سے مراد آنحضرت ﷺ کی ذریت (اولاد) اور اہل بیت ہیں یا امت کے وہ لوگ مراد ہیں جو آپ ﷺ کے سچے تابعدار اور محبوب ہوں۔ اور حضرت شیخ عبدالحق (رح) نے یہ لکھا ہے کہ آل سے مراد آپ ﷺ کی امت کے تمام افراد اور متبعین مراد ہیں جیسا کہ لفظ آل کے اصل معنی یہی مراد لئے جاتے ہیں اور اگر اہل و عیال ہی کو مرادلیا جائے تو بھی قیاس اور دلالت کو بنیاد بنا کر ان (اہل و عیال) کے علاوہ امت کے باقی افراد کو بھی اس دعا میں شامل قرار دیا جائے گا۔ قوت کھانے پینے کی اس محدود مقدار کو کہتے ہیں جو زندگی کو باقی اور جسمانی توانائی کو برقرار رکھے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ کھانے پینے کی وہ محدود مقدار قوت کہلاتی ہے جو جان کو بچائے اور بطور رزق کافی ہو کفاف بنیادی ضروریات زندگی کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے محفوظ باز رکھے۔ نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ قوت اور کفاف کے ایک ہی معنی ہیں اور زیادہ صحیح بات بھی یہی ہے کہ دوسری روایت کا لفظ کفاف دراصل پہلی روایت کے لفظ قوت کی وضاحت ہے اور اس لفظ کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اسباب معیشت اور ضروریات زندگی کی کم سے کم مقدار پر اکتفا کرنا اولیٰ ہے، واضح رہے کہ حق تعالیٰ نے حضور ﷺ کی اس دعا کو اپنے ان بندوں کے حق میں قبول فرمایا جنہیں اس نے اپنا پیارا اور برگزیدہ بنانا چاہا۔ اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ کفاف یعنی خوراک کی بقدر کفایت مقدار، کوئی متعین اور آخری نہیں، بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں اور اس فرق واختلاف کا مدار اشخ اس، زمانہ اور حالات کی عدم یکسانیت پر ہے، مثلا ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو قلیل کھانے کی عادت رکھتا ہے بایں طور کہ وہ دو تین دن یا اس سے زائد بھوکا رہ سکتا ہے، ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو دن بھر میں دو تین بار کھانے کی عادت رکھتا ہے، کوئی شخص کم یا زیادہ اہل و عیال رکھتا ہے اور کوئی شخص سرے سے عیالدار ہی نہیں ہوتا، اسی طرح بعض حالات اور بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں کھانے پینے کی تھوڑی سی مقدار بھی کافی ہوجاتی ہے جیسے قحط کا زمانہ، تنگدستی کی حالت اور ضعف و کمزوری یا مرض کا لاحق ہنا، اس کے برخلاف خوشحالی وآسودگی اور قوت و توانائی کی حالت میں کھانے پینے کی زیادہ خواہش ہوتی ہے غرضیکہ کفاف کی مقدار کو منضبط نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کا دارومدار وقت و حالات و ضروریات پر ہوتا ہے کہ جو شخص جس حیثیت کا اور جس حالت میں ہوتا ہے اس کے حق میں کفاف کی مقدار اسی کے مطابق ہوتی ہے۔ البتہ مستحسن اور مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنے کھانے پینے کی ضروریات کو بس اسی مقدار تک محدود رکھنا چاہئے جو زندگی کی بقاء کے لئے ناگزیر اور جسمانی قوت توانائی کی برقراری کے لئے ضروری ہو کہ جس سے عبادات و طاعات پر قدرت حاص رہے اور معمولات زندگی فوت نہ ہوں۔ اس حدیث میں گویا مسلمانوں کو اس امر پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ وہ حصول معاش کی جدوجہد کی ضروریات زندگی کی اس مقدار تک محدود رکھیں جو کفاف کہلاتی ہے اور ضرورت سے زیادہ اسباب معیشت مہیا کرنے کی محنت ومشقت برداشت نہ کریں نیز حد اعتدال سے تجاوز کر کے اور حرص وہوس میں مبتلا ہو کر اپنی روحانی و اخلاقی زندگی کو مضمحل نہ کریں۔ علماء نے لکھا ہے کہ فقر اور غنا دونوں سے کفاف افضل ہے، اگرچہ بعض حالتوں میں غنا یعنی مال و دولت کی کثرت بھی ایک طرح کی فضیلت رکھتی ہے بشرطیکہ اس کثرت کی وجہ سے حاصل ہونے والی خوشحالی وآسودگی کسی بھی صورت میں دینی گمراہی، اخروی نقصان و خسران اور دنیا کی محبت وچاہ کا موجب نہ بنے بلکہ خیر و بھلائی اور عبادات و طاعات کی راہ زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے میں مددگار ہو۔

【12】

فلاح ونجات پانے والا شخص

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ شخص فلاح ونجات کو پہنچ گیا جس نے اسلام قبول کیا (یا اسلم سے مراد یہ ہے کہ اس نے قضاوقدر الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کیا) اس کو (حلال و جائز ذرائع سے) بقدر کفاف رزق دیا گیا (یعنی اس کو بس اتنا رزق ملا جو اس کی ضروریات زندگی کے لئے کافی ہوگیا اور وہ غیر اللہ کے آگے ہاتھ پھیلانے کا ضرورتمند نہیں رہا) اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس چیز پر کہ جو اس کو دی گئی ہے قناعت بخشی (اور اس کو تقدیر پر راضی اور مطمئن کیا ۔ (مسلم)

【13】

مال ودولت میں انسان کا اصل حصہ

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بندہ کہتا رہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال (یعنی جو شخص مالدار اور دولت مند ہوتا ہے وہ اپنے مال و دولت پر بہت فخر کرتا ہے اور دوسرے پر یہ جتانے کی کوشش کرتا ہے کہ میرے پاس مال و دولت ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ اس کو اس مال و دولت میں سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ فی الجملہ تین چیزیں ہیں (اور ان تین چیزوں میں سے بھی صرف ایک چیز ایسی ہے جو اس کے لئے حقیقی نفع بخش اور باقی رہنے والی ہے، جب کہ بقیہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کا تعلق دنیا سے ہے اور جو فنا ہوجانے والی ہے) ایک تو وہ چیز جس کو اس نے کھالیا اور ختم کردیا، دوسری وہ چیز جس کو اس نے پہن لیا اور بوسیدہ کردیا یعنی اتار کر پھینک دیا اور تیسری وہ چیز جس کو اس نے اللہ کی راہ میں دیا اور (آخرت کے لئے) ذخیرہ کرلیا، ان تینوں کے سوا اور جو کچھ ہے (جیسے زمین، جائیداد، مویشی، نوکر چاکر، روپیہ پیسہ اور دیگر قیمتی چیزیں وہ) سب ایسی ہیں جن کو وہ لوگوں کے لئے چھوڑ کر (اس دنیا سے) چلا جانے والا ہے۔ (مسلم) تشریح اس ارشاد گرامی میں اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا ہے کہ انسان محنت ومشقت کرکے دنیا کماتا ہے، مال و دولت حاصل کرتا ہے اور زمین و جائیداد بناتا ہے، پھر اس مال و دولت اور زمین جائیداد پر فخر کرتا ہے اپنے کو ایک بڑا آدمی ظاہر کرتا ہے اور لوگوں پر اپنی امارت و ثروت کا سکہ جمانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اس بات کو محسوس نہیں کرتا کہ اول تو اس مال و دولت اور زمین جائیداد کا وبال بہت سخت ہے اور اس کی جواب دہی نہایت مشکل ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے پاس جو کچھ مال و دولت اور زمین جائیداد ہے اس سے خود اس کی ذات کو بہت معمولی فائدہ پہنچتا ہے اور یہ چیزیں بہت کم عرصہ تک اس کا ساتھ دینے والی ہیں، چناچہ حضور ﷺ نے بڑے نفسیاتی طریقہ پر واضح فرمایا کہ مال و دولت میں انسان کا اصل حصہ اور اس کا فی الجملہ فائدہ بس اتنا ہوتا ہے کہ وہ کچھ چیزوں کو تو کھاپی کر ختم کردیتا ہے۔ کچھ چیزوں کو پہن برت کر پرانا کردیتا ہے اور اگر اسے توفیق ہوتی ہے تو کچھ چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کر کے ان کو اپنے لئے ذخیرہ آخرت بنالیتا ہے، باقی تمام مال و اسباب، ساری زمین جائیداد اور سب روپیہ پیسہ وغیرہ دوسروں کے لئے چھوڑ کر دنیا سے چلا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں سے آخری صورت (یعنی اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا) بیشک ایسی چیز ہے جو انسان کو اس کے مال و دولت سے سب سے بیش قیمت اور ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والا نفع پہنچاتی ہے اور اگر اس اصل نفع کے لئے مال و دولت کو حاصل کیا جائے اور اس کو جمع کیا جائے تو یہ یقینا سمجھ میں آنے والی بات ہوگی ورنہ محض چند روزہ دنیاوی اور جزوی منافع کے لئے مال و دولت جمع کرنا اور اس کی وجہ سے اپنی بڑائی کا اظہار کرنا بےحقیقت بات ہوگی، چناچہ اس ارشاد گرامی کے ان الفاظ او اعطی فاقتنی کے اس کو اللہ کی خوشنودی کے لئے فقراء و غرباء اور حاجتمندوں پر خرچ کرے تاکہ اس کا ثواب جمع ہوتا رہے اور پھر حاجت کے دن (روز حشر) کام آئے۔

【14】

مرنے کے بعد نہ اہل وعیال ساتھی ہوں گے اور نہ جاہ ومال

حضرت انس (رض) کہتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا میت کے ساتھ (قبر تک) تین چیزیں جاتی ہیں، ان میں سے دو چیزیں تو (اس کو اکیلا چھوڑ کر) واپس آجاتی ہیں اور ایک چیز اس کے ساتھ رہ جاتی ہے، چناچہ اس کے متعلقین (جیسے اولاد، عزیز و اقارب، دوست و احباب اور جان پہچان کے لوگ) اور اس کے اموال (جیسے نوکر چاکر، پلنگ، جانور، گاڑی وغیرہ اور اسی طرح کے اسباب) اور اس کے اعمال اس کے ساتھ جاتے ہیں۔ ان تینوں میں سے متعلقین اور مال تو (اس کو تنہا چھوڑ کر) واپس آجاتے ہیں اور اس کے اعمال اس کے ساتھ رہتے ہیں ۔ (بخاری ومسلم) تشریح اعمال سے مراد وہ ثواب و عذاب ہے جو ہر اچھے برے عمل پر مرتب ہوتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ انسان جب اس دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی پہلی منزل (قبر) میں پہنچتا ہے تو وہاں سے وہ مرحلہ شروع ہوجاتا ہے جہاں سے عزیزواقارب، دوست، احباب، مال و دولت اور جاہ وحشم سب ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور صرف وہ اعمال اس کے ساتھ رہ جاتے ہیں جو اس نے دنیا میں کئے تھے۔ شاید اسی لئے کہا گیا ہے کہ القبر صندوق العمل یعنی قبر اعمال کا صندوق ہے۔

【15】

اپنے مال کو ذخیرہ آخرت بناؤ

حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے (صحابہ (رض) کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ تم میں وہ کون شخص ہے جو اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کے مال کو پسند کرتا ہو کہ اس کا مال اور روپیہ پیسہ خود اس کے لئے نہ ہو بلکہ اس کے وارثوں کے لئے ہو ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہم میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کے مال کو پسند کرتا ہو۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ (تو سنو) حقیقت میں اس کا مال وہ ہے جس کو اس نے (صدقہ و خیرات وغیرہ کے ثواب کی صورت میں) آگے بھیج دیا ہے اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جس کو وہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے ۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر لوگ واقعۃ اس بات کو زیادہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے پاس جو مال و دولت ہے اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ انہی کو پہنچے تو چاہئے تو یہ کہ وہ اس مال و دولت کو یہاں دنیا میں جمع کرنے اور یہیں چھوڑ جانے کے بجائے آخرت میں کام آنے کے لئے آگے بھیجیں، جس کی صورت یہ ہے کہ اس کو صدقہ و خیرات اور نیک کاموں میں خرچ کر کے زیادہ سے زیادہ ثواب کمائیں، لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ لوگ اپنے مال و دولت اور روپیہ پیسہ کو جوڑ جوڑ کر جمع کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کرنے اور حقداروں کا حق دینے سے گریز کرتے اور بخل کرتے ہیں اور اس طرح اس کو آگے بھیجنے کے بجائے ورثاء کے لئے یہیں دنیا میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مال و دولت کو اپنے لئے زیادہ پسند نہیں کرتے بلکہ اپنے ورثاء کے لئے زیادہ پسند کرتے ہیں تاہم واضح رہے کہ اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس شخص کے پاس جو کچھ مال و دولت اور اثاثہ ہو وہ ان سب کو اللہ کی راہ میں خرچ کردے اور اپنے ورثاء کے لئے کچھ بھی چھوڑ کر نہ جائے، بلکہ اصل مقصد اس بات کی طرف راغب کرنا ہے کہ مال دار لوگ بخل وامساک کا طور طریقہ نہ اپنائیں اور فقراء و مساکین کی امداد واعانت سے گریز نہ کریں بلکہ اپنے مال و دولت اور اپنے روپیہ پیسہ کا کچھ حصہ اللہ کی راہ میں ضرور خرچ کریں، چناچہ اپنے مال و دولت کے کچھ حصے کو صدقہ وخٰرات کرنے اور فقراء و مساکین اور نیک کاموں کے لئے وصیت کرنے کے بعد کہ جس کی زیادہ سے زیادہ مقدار تہائی حصہ ہے، باقی کو ورثاء کے لئے چھوڑنا افضل ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ اپنے ورثاء کو تونگر چھوڑ کر جانا اس سے بہتر ہے کہ اپنا سارا مال وزر اللہ کی راہ میں خرچ کر کے دنیا سے رخصت ہوجائے اور اس کے ورثاء اپنی ضروریات کے لئے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔

【16】

مالدار کے حق میں اس کا اصل مال وہی ہے جو اس کے کام آئے

حضرت مطرف (رح) (تابعی) اپنے والد ماجد (حضرت عبداللہ بن شخیر (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ الہکم التکاثر پڑھ رہے تھے (جس کے معنی یہ ہیں کہ اے لوگو ! تم آپس میں اپنی ثروت وامارت پر فخروناز کرنے کے سبب آخرت کے خوف سے بےپرواہ ہوگئے ہو) چناچہ حضور ﷺ نے (تکاثر یعنی آپس میں ثروت وامارت پر فخر کرنے کی وضاحت میں) فرمایا ابن آدم میرا مال، میرا مال کہتا ہے (یعنی جس کے پاس زیادہ مال ہوتا ہے وہ لوگوں پر جتاتا رہتا ہے کہ میں اتنا بڑا مالدار ہوں، میرے پاس اتنی زیادہ دولت ہے) پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ (لوگوں کا اپنے مال ومتاع پر فخر کرنا بالکل بےحقیقت بات ہے، واقعہ یہ ہے کہ) اے ابن آدم ! تجھے تیرے مال سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے اور تو جتنا فائدہ اٹھاتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ تو کچھ چیزوں کو کھالیتا ہے اور اس کو ختم کردیتا ہے، کچھ چیزوں کو پہنتا ہے اور ان کو بوسیدہ کردیتا ہے اور کچھ چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا ہے اور اس کو آخرت کے لئے ذخیرہ بنالیتا ہے ۔ (مسلم)

【17】

حقیقی دولت، دل کا غناء ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اصل تونگری و دولت مندی یہ نہیں ہے کہ اپنے پاس بہت زیادہ مال ومتاع ہو بلکہ حقیقی تونگری ودولتمندی جس چیز کا نام ہے وہ نفس یعنی دل کا تونگر وغنی ہونا ہے ۔ (بخاری ومسلم) تشریح دل کا غنی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ حاصل ہو اس پر قناعت کرے، مال و دولت اور مالداروں سے بےنیازی وبے پروائی برتے اور بلند حوصلگی اور عالی ہمتی کا مالک ہو کہ نہ تو حرص وطمع میں مبتلا ہو اور نہ کسی کے آگے دست سوال دراز کرے، چناچہ جو شخص ایسا ہو کہ اس کا دل مال و دولت حاصل کرنے اور جوڑنے ٹورنے لگا رہے اور کثرت مال کی طلب وحرص میں مبتلا ہو تو وہ حقیقت میں فقیر و محتاج ہے، خواہ ظاہر میں کتناہی مالدار کیوں نہ ہو اور جو شخص قوت کفاف پر قانع وراضی ہو اور زیادہ طلبی وحرص سے دور رہے۔ وہ اصل میں تونگر وغنی ہے اگرچہ ظاہر میں اس کے پاس کچھ بھی ہو۔ اسی حقیقت کو شیخ سعدی (رح) نے یوں بیان کیا ہے تونگری بدل است نہ بمال بزگی بعقل است نہ بسال بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ غنی النفس (یعنی نفس کے غنی ہونے) سے مراد یہ ہے کہ وہ علمی کمالات حاصل ہوں جن کے بغیر انسان کی روحانی اخلاقی زندگی نہ تو محفوظ رہتی ہے اور اس کو آسودگی و عظمت حاصل ہوتی ہے، گویا اصل خوش بختی و دولت اور تونگری کا مدار روحانی وعملی کمالات پر ہے نہ کہ مال ومتاع کی کثرت پر، جیسا کہ کسی نے کہا ہے تونگر نہ بمال است نزد اہل کمال کہ مال تالب گوراست بعد ازاں اعمال اور بعض ارباب نے یوں کہا ہے رضینا قسمۃ الجبار فینا لنا علم وللجہال مال حق تعالیٰ نے ہماری قسمت میں جو کچھ لکھدیا ہے ہم اس پر راضی و مطمئن ہیں ہمارے لئے علم کی دولت ہے اور دشمنوں کے لئے دنیاوی مال ہے فان المال یفنی عن قریب وان العلم یبقی لایزال بس اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیاوی مال بہت جلد فنا ہونے والا ہے۔ جب کہ علم کی دولت یقینا ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ یہ بات معلوم ہی ہے کہ دنیاوی مال ومتاع ان لوگوں کی میراث ہے جو اللہ کے نزدیک سخت مبغوض اور مردود ہیں، جیسے فرعون، قارون اور تمام کفار وفجار وغیرہ، جب کہ انبیاء، علماء اور اولیاء کی میراث علم و اخلاق کی دولت ہے، لہٰذا دنیادار شخص ظاہری مال ومتاع حاصل کرکے راضی و مطمئن ہوتا ہے اور دیندار شخص علم کی دولت پاکر خوش اور مطمئن ہوتا ہے۔

【18】

پانچ بہترین باتوں کی نصیحت

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کون شخص ہے جو مجھ سے پانچ باتوں کو سیکھے اور پھر ان پر عمل کرے یا اس شخص کو سکھائے جو ان پر عمل کرنے والا ہو۔ (حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ﷺ وہ شخص میں ہوں۔ حضور ﷺ نے (یہ سن کر) میرا ہاتھ پکڑا اور وہ پانچ باتیں گنائیں اور (اس طرح) بیان فرمایا۔ (١) تم ان چیزوں سے بچو، جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اگر تم ان سے بچو گے تو تم لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار بندہ ہوگے۔ (٢) تم اس چیز پر راضی وشاکر رہو جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں لکھ دیا ہے، اگر تم تقدیر الٰہی پر راضی و مطمئن رہو گے تو تمہارا شمار تونگر ترین لوگوں میں ہوگا، یعنی جب بندہ اپنے مقسوم پر راضی و مطمئن ہوجاتا ہے اور طمع وحرص سے پاک ہو کر زیادہ طلبی کی احتیاج نہیں رکھتا تو وہ مستغنی اور بےنیاز ہوجاتا ہے تونگری کا اصل مفہوم بھی یہی ہے۔ (٣) تم اپنے ہمسایہ سے اچھا سلوک کرو (اگرچہ تمہارے ساتھ برا سلوک کرے) اگر تم ایسا کروگے تو تم کامل مومن سمجھے جاؤگے۔ (٤) تم زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو، کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ (اور اللہ کی یاد سے غافل) بنا دیتا ہے (اگر تم زیادہ ہنسنے سے اجتناب کرو گے تو تمہارا دل روحانی بالیدگی وتروتازگی اور نور سے بھرا رہے گا اور ذکر اللہ کے ذریعہ اس کو زندگی و طمانیت نصیب ہوگی) اس روایت کو احمد نے نقل کیا ہے اور (ترمذی نے) کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح حدیث کے ابتدائی جملوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علم، بذات خود افضل اشرف ہے کہ کسی شخص کا محض علم کا حاصل ہونا اس کی فضیلت کی دلیل ہے، ہاں اگر اس علم پر عمل پیرا ہونے کی دولت بھی نصیب ہوجائے تو اس سے بڑی کوئی سعادت ہی نہیں کہ علم کا اصل مقصود حاصل ہوجاتا ہے، لیکن اگر کوئی عالم اپنے علم پر خود تو عمل نہ کرے البتہ تعلیم و تلقین کے ذریعہ اس علم کی روشنی دوسرے تک پہنچائے اور سیدھی راہ دکھانے کا فریضہ انجام دے تو اس کو اس صورت میں بھی ثواب ملتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بےعمل عالم کا لوگوں کو نیکی و بھلائی کی تلقین کرنا اور برائی سے روکنا درست ہے۔ محارم کے مفہوم میں ہر طرح کی ممنوع چیزوں کو اختیار کرنا اور جن چیزوں کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کو ترک کرنا شامل ہے لہٰذا تم محارم یعنی ان چیزوں سے بچو جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف ممنوع اور حرام چیزوں سے اجتناب کرو بلکہ شریعت نے جن چیزوں کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ان کو ترک کرنے سے بھی اجتناب کرو۔ محارم سے اجتناب کرنے والے کو سب سے زیادہ عبادت گزار بندہ اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ محارم سے اجتناب کرنا گویا ان فرائض سے عہدہ برآ ہونا ہے جو حق تعالیٰ نے عائد کئے تھے۔ اور ظاہر ہے کہ فرائض کو پورا کرنے سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے، جب کہ عام لوگ فرائض کو ترک کرتے ہیں یا ان کی طرف کم توجہ دیتے ہیں اور کثرت نوافل میں مشغول رہتے ہیں اور اس طرح وہ گویا اصول اور بنیاد کو تو ضائع کرتے ہیں اور فروعات و فضائل کو اختیار کرتے ہیں، مثلا بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص پر روزوں کی قضا واجب ہوتی ہے مگر وہ اس قضا کو ادا کرنے کی طرف سے تو غافل رہتا ہے میں البتہ حصول علم اور فضل عبادات میں مشغول رہنے کو ترجیح دیتا ہے، یا ایک شخص پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے یا لوگوں کے مالی حقوق اس کے ذمہ ہوتے ہیں مگر وہ زکوٰۃ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف تو کوئی توجہ نہیں دیتا البتہ فقراء و مساکین پر خرچ کرنا اور مساجد ومدارس کی تعمیر واعانت یا اسی طرح کے دوسرے نافلہ امور میں پورے زوق وشوق کے ساتھ اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ تقدیر الٰہی پر راضی و مطمئن ہونا اور اپنے مقسوم پر صابر وشاکر رہنا، بڑا اونچا مرتبہ ہے، جس شخص کو یہ مقام نصیب ہوجاتا ہے وہ حرص وطمع سے پاک رہتا ہے، زیادہ طلبی سے اپنا دامن چھپاتا ہے اور قلبی استغنا و تونگری کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا گوارہ نہیں کرتا۔ منقول ہے کہ ایک شخص نے مشہور بزرگ حضرت سید ابوالحسن شاذلی سے کیمیا کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ (کیمیا) دو باتوں میں پوشیدہ ہے۔ ایک تو یہ کہ تم مخلوق کو نظر سے گرادو (یعنی غیر اللہ کو حاجت روا اور مشکل کشا بنانے کے قابل نہ سمجھو اور اللہ کے سوا کسی اور سے اپنی حاجت کو وابستہ نہ کرو) او دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ سے بھی یہ امید وابستہ نہ کرو کہ وہ تمہیں اس چیز کے علاوہ کچھ اور بھی دے جو اس نے تمہاری قسمت میں لکھ دی ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) نے فرمایا۔ اے انسان اس بات کو جان لے کہ جو چیز تیری قسمت میں لکھی جاچکی ہے وہ ہر حال میں تجھے ملے گی، خواہ تو طلب وسوال کی راہ اختیار کر یا اس راہ کو ترک کردے اور جو چیز تیری قسمت میں نہی لکھی ہے وہ تجھ کو کسی حالت میں نہیں ملے گی۔ خواہ تو اس کی طلب کی کتنی ہی حرص رکھے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے کتنی ہی سعی و کوشش اور محنت ومشقت برداشت کرے، لہٰذا (تجھے جو کچھ مل جائے) اس پر شاکر وصابر رہ، ہر حالت میں جائز و حلال چیز کو حاصل کرنا ضروری سمجھ اور اپنے مقسوم پر راضی و مطمئن رہ تاکہ رب ذوالجلال تجھ سے راضی وخوش رہے۔ تم جس چیز کو اپنے لئے پسند کرتے ہو کا مطلب یہ ہے کہ دین ودنیا کی بہتری و بھلائی کی جس چیز کو تم خاص طور پر اپنے لئے پسند کرتے ہو اس چیز کو دوسروں کے لئے بھی پسند کرو، یہاں تک کہ کافر کے لئے ایمان کو اور فاجر کے لئے توبہ وانابت کو پسند کرو ۔

【19】

دنیاوی تفکرات اور غم روزگار کی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم ! میری عبادت کے لئے تو اپنے دل کو اچھی طرح مطمئن و فارغ کرلے، میں تیرے سینے کو استغناء سے بھردوں گا (یعنی تیرے دل کو علوم و معارف کی دولت سے مالا مال کردوں گا، (جس کے سبب تو غیر اللہ سے بےنیاز ومستغنی ہوجائے گا) اور تیرے لئے فقروافلاس کی راہ کو بند کردوں گا۔ اگر تو نے ایسا نہ کیا (یعنی میں نے جو یہ حکم دیا ہے کہ دنیا سے بےپروائی اختیار کر کے اپنے رب کی عبادت کی طرف متوجہ رہ، کہ یہ چیز دنیا وآخرت دونوں جگہ فائدہ پہنچاتی ہے، اگر تو نے اس حکم سے اعراض کی اور اپنے قوائے فکروعمل کو میری عبادت میں مشغول رکھنے کے بجائے صرف دنیاوی امور اور اپنے نفس کی خواہشات کی تکمیل میں مشغول ومنہمک رکھا) تو میں تیرے ہاتھوں اور دیگر قوائے عمل کو طرح طرح کے تفکرات اور مشاغل سے بھردوں گا اور تیرے فقر و احتیاج کو دور نہیں کروں گا (احمد وابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ فقر و افلاس اور تفکرات وآلام کے بادل محض اس طور سے نہیں پوچھتے کہ اپنے تمام اوقات کو طلب معاش اور حصول مال کی جدوجہد اور محنت ومشقت میں صرف کرے اور ہر لمحہ دنیاوی امور ومشاغل میں سرگرداں رہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس کی صورت میں تمام پریشانیاں اور سرگردانیاں اپنی جگہ باقی رہتی ہیں جب کہ عبادت الٰہی کے لئے اپنے قوائے فکر وعمل اور اوقات کو دنیاوی فکرات مشاگل سے فارغ رکھنا کشائش حالات کا ضامن بھی ہے اور غیر اللہ سے استغناء وبے نیازی کے حصول کا باعث بھی، اس بات بات کو دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے ہر وقت غم روزگار کی الجھنوں کو اپنے اوپر مسلط رکھنے اور طلب زر کی راہ میں ناروا محنت ومشقت کی صعوبتوں اور تفکرات میں پھنس کر اپنے آپ کو تعب وغم میں مبتلا رکھنے کی وجہ سے اس مقدار سے زائدہ تو کچھ حاصل ہونے سے رہا، جو ازل سے قسمت میں لکھ دی گئی ہے البتہ الٹا اثر یہ ضرور ہوگا کہ عبادت الٰہی کو ترک کرنے کے سبب قلبی استغناء کی دولت سے بھی محروم ہوجائے گا۔

【20】

ورع کی اہمیت

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا جو کثرت کے ساتھ عبادت وطاعت میں مشغول رہتا ہے اور اس میں بہت زیادہ سعی و اہتمام کرتا ہے (اگرچہ وہ گناہوں سے بہت کم اجتناب کرتا ہے) اور ایک دوسرے شخص کے بارے میں ذکر کیا گیا جو پرہیز گاری کو اختیار کرتا ہے (چنانچہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ پہلا شخص افضل ہے یا دوسرا شخص ؟ ) تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ (پرہیزگاری کے بغیر) کثرت عبادت وطاعت اور اس میں سعی و اہتمام کرنے کو پرہیز گاری کے برابر نہ ٹھہراؤ (اگرچہ اس پرہیز گاری کے ساتھ عبادت وطاعت کی اس قدر کثرت اور سعی اور اہتمام شامل نہ ہو ۔ (ترمذی) تشریح یعنی الورع کے الفاظ اصل حدیث کا جزو نہیں ہیں بلکہ کسی راوی کا اپنا قول ہے جس نے ان الفاظ کے ذریعہ رعۃ کی وضاحت کی ہے کہ اس لفظ سے مراد ورع ہے۔ واضح رہے کہ ورع سے مراد تقویٰ ہے یعنی حرام چیزوں سے بچنا اور جس کے مفہوم میں عبادات واجبہ کو ادا کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص عبادت و طاعات تو زیادہ کرے لیکن گناہوں سے اجتناب کے معاملہ میں کمزور ہو وہ اس شخص سے افضل نہیں ہوسکتا جو پرہیز گاری کو اختیار کئے ہوئے ہو، اگرچہ اس کے ہاں عبادت وطاعت کی کثرت اور اس میں زیادہ سعی و اہتمام نہ ہو۔

【21】

پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو

حضرت عمر بن میمون اودی (تابعی (رح) ) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو ! یعنی پانچ حالتیں ایسی ہیں کہ جب وہ موجود ہوں تو ان کو ان پانچ حالتوں سے غنیمت سمجھو جو زمانہ آئندہ میں پیش آنے والی ہیں (١) بڑھاپے سے پہلے جوانی کو یعنی اپنے اس زمانہ کو غنیمت جانو اور اس سے پورا فائدہ اٹھاؤ جس میں تمہیں عبادت و طاعات کی انجام دہی اور اللہ کے دین کو پھیلانے کی طاقت وہمت میسر ہو۔ قبل اس کے کہ تمہارے جسمانی زوال کا زمانہ آجائے اور تم عبادت وطاعت وغیرہ کی انجام دہی میں ضعف و کمزوری محسوس کرنے لگو (٢) بیماری سے پہلے صحت کو یعنی ایمان کے بعد جو چیز سب سے بڑی نعمت ہے وہ صحت و تندرستی ہے، لہٰذا اپنی صحت و تندرستی کے زمانہ میں اگرچہ وہ بڑھاپے کے دور ہی میں کیوں نہ ہو، یعنی دینی و دنیاوی بھلائی و بہتری کے لئے جو کچھ کرسکتے ہو کر گزرو، (٣) فقرو افلاس سے پہلے تونگری و خوشحالی کو (یعنی تمہیں جو مال و دولت نصیب ہے قبل اس کے کہ وہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے یا موت کا پنجہ تمہیں اس سے جدا کردے تم اس کو عبادت مالیہ اور صدقات و خیرات میں خرچ کرو اور اس دولتمندی و خوشحالی کو ایک ایسا غنیمت موقع سمجھو جس میں تم اپنی اخروی فلاح وسعادت کے لئے بہت کچھ کرسکتے ہو۔ (٤) مشاغل وتفکرات میں مبتلا ہونے سے پہلے وقت کی فراغت و اطمینان کو۔ (٥) موت سے پہلے زندگی کو، اس روایت کو ترمذی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے ۔ تشریح اغتنم کا لفظ اغتنام سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں غنیمت کا مال لینا۔ اور غنیمت اصل میں تو اس مال کو کہتے ہیں جو مسلمانوں نے لڑ کر اور حملہ کر کے حربی کافروں سے حاصل کیا ہو، لیکن اس لفظ کا اطلاق اس چیز پر بھی ہوتا ہے جو کسی محنت ومشقت کے بغیر ہاتھ لگی ہو۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جوانی، صحت، دولت فراغت وقت اور زندگی ایسی چیزیں ہیں جو ہمیشہ ساتھ نہیں دیتیں۔ جوانی کے بعد بڑھاپے، صحت کے بعد بیماری، دولت کے بعد محتاجگی، فراغت وقت کے بعد تفکرات ومشاغل اور زندگی کے بعد موت کا پیش آنا لازمی امر ہے، لہٰذا جب تک یہ چیزیں پیش نہ آئیں موقع غنیمت جانو اور اس میں اپنی دنیاوی و اخروی بھلائی و بہتری کے لئے جو کچھ کرسکتے ہو اس سے غفلت اختیار نہ کرو۔

【22】

غنیمت کے موقعوں سے فائدہ نہ اٹھانا اپنے نقصان وخسران کا انتظار کرنا ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ تم میں سے کوئی شخص تونگری کا انتظار کرتا رہتا ہے جو گنہگار کرنے والی اور امرونہی کی حدود سے متجاوز کرنے والی ہے یا فقر و افلاس کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ جو طاعت حق کو بھلا دینے والا ہے (یعنی فقروافلاس میں مبتلا ہونے والا شخص بھوک وبرہنگی کے مصائب میں گرفتار ہو کر اور ضروریات زندگی کی فراہمی کے چکر میں پھنس کر اللہ کی عبادت وطاعت سے غافل ہوجاتا ہے، بیماری کا انتظار کرتا رہتا ہے جو (اپنی سختی وشدت کی وجہ سے) بدن کو (یا کمزور یاسستی کے سبب دینی زندگی کو) تباہ کردینے والی ہے، یا سخت بڑھاپے کا انتطار کرتا رہتا ہے جو بےعقل و بدحو اس اور بےہودہ گو بنا دیتا ہے، یا موت کا انتظار کرتا ہے جو ناگہا کام تمام کردیتی ہے (کہ بعض وقت توبہ کرنے کا موقع بھی نہیں دیتی) یا دجال کا انتظار کیا جاتا ہے اور وہ آخر زمانہ میں ظاہر ہوگا، یا وہ قیامت کا انتظار کرتا رہتا ہے جو حوادث، آفات میں سب سے زیادہ سخت وشدید ہے ۔ (ترمذی، نسائی) تشریح حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو فرصت و فراغت اور کچھ کرلینے کا موقع نصیب ہوتا ہے وہ اس کو غنیمت نہیں جانتا اور اس طرح گویا وہ اس وقت کا منتظر رہتا ہے جب وہ موقع ہاتھ سے نکل جائے اور ایسی صورت حال پیش آجائے جو اس کو ان بھلائیوں اور سعادتوں سے محروم کردے جن سے وہ بس اسی گزرے ہوئے زمانہ میں بہرہ مند ہوسکتا ہے، مثلاً اگر کوئی شخص فقروافلاس میں مبتلا ہوتا ہے تو چاہئے تو یہ کہ وہ اس حالت کو اپنے لئے غنیمت جانے اور یہ سمجھے کہ مال و دولت کی وجہ سے جو خرابیاں اور برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں ان سے اللہ نے بچا رکھا ہے اور اس وقت یہ موقع نصیب ہوتا ہے کہ اپنی موجودہ حالت پر صبر و استقامت کی راہ اختیار کر کے اللہ کا صابر بندہ بن جاؤں، لیکن اس کے بجائے وہ اپنی حالت فقر کا شاکی ہو کر مال ومتاع کا طلبگار ہوتا ہے اس کا نفس اس کو تونگری ومالداری کے پیچھے کھینچے کھینچے پھرتا ہے اور وہ گویا اس مال و دولت کی خواہش رکھتا ہے جس کا نشہ سرکشی میں مبتلا اور راہ راست سے دور کردیتا ہے، اسی طرح جس شخص کو اللہ تعالیٰ مال و دولت سے نوازتا ہے وہ اپنی اس مالداری کی حالت میں ادائیگی شکر سے بےپروا ہوتا ہے اور اس مال و دولت کو بھلائیوں کے کاموں میں خرچ کرنے کے بجائے ادھرادھر لٹا کر اللہ کی اتنی بڑی نعمت کی بےقدری کرتا ہے اور اپنے اس طرز عمل سے گویا فقروافلاس کی طرف جانا چاہتا ہے جو معاشی تفکرات وپریشانیوں میں مبتلا کر کے عبادات وطاعت سے غافل کردیتا ہے۔ اسی پر حدیث کے دوسرے جملوں کے مطلب کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ الفاظ انتظار کرتا رہتا ہے دراصل ان لوگوں کے حق میں تنبیہ وسرزنش کے طور پر ہیں جو دین کے کاموں میں غفلت وسستی اور عبادات و طاعات میں تقصیر و کوتاہی کرتے ہیں، گویا ان کو متنبہ فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے رب کی عبادت و اطاعت اور اپنے دین کی خدمت کی راہ آخر کب اختیار کرو گے ؟ اگر تم نے دین کی خدمت اور اپنے رب کی عبادت وطاعت اس وقت نہیں کی جب تمہیں قلت مشاغل و فراغت وقت اور جسمانی طاقت و توانائی کی صورت میں اس کا بہترین موقع نصیب ہے تو پھر اس وقت کس طرح کر پاؤ گے جب یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا ؟ اور کثرت مشاغل اور ضعف بدن و خرابی صحت کی وجہ سے تم اس پر پوری طرح قادر نہیں رہو گے ؟ تو کیا تم فائدہ کا موقع چھوڑ کر ٹوٹے کے وقت کے منتظر ہو اور اپنے نقصان و خسران کی راہ دیکھ رہے ہو۔

【23】

دنیا کی مذمت

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یاد رکھو، دنیا ملعون ہے (یعنی دنیا کو بارگاہ الٰہی سے دھتکار دیا گیا ہے کیونکہ یہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے دور رکھتی ہے) اور جو چیز دنیا کے اندر ہے وہ بھی ملعون ہے (یعنی دنیا کی جو چیزیں ذکر اللہ سے غافل رکھتی ہیں ان کو بھی راندہ درگاہ قرار دے دیا گیا ہے) لہٰذا ذکر اللہ، اللہ کی پسندیدہ چیزیں، عالم اور متعلم (وہ چیزیں ہیں جن کو بارگاہ رب العزت میں مقبول قرار دیا گیا ہے ۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح اس ارشاد گرامی کا مقصد، دنیا سے بےرغبت کرنا اور یہ تعلیم دینا ہے کہ دنیا کی جن چیزوں کو اللہ نے ناپسند کیا ہے جیسے تمام حرام و ناجائز امور، ان سے اجتناب کرو کہ مبادا ان چیزوں کو اختیار کرنے کی وجہ سے تم بھی راندہ درگاہ رب العزت قرار پاجاؤ گے اور جو چیزیں اللہ کے یہاں مقبول و پسندیدہ ہیں جیسے ذکر اللہ نیک کام اور تعلیم و تعلم وغیرہ ان کو اختیار کرو تاکہ تم بھی مقبول بارگاہ رب العزت قرار پاؤ اللہ کی پسندیدہ چیزوں سے ۔ عبادات و طاعات اور تمام وہ چیزیں مراد ہیں جو اللہ کی خوشنودی کا باعث اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہیں ! یا ماوالاہ (جس کا ترجمہ اللہ کی پسندیدہ چیزیں کیا گیا ہے) کے معنی یہ ہیں کہ وہ چیز جو ذکر اللہ کے قریب اور اس کے مشابہ ہو، جیسے انبیاء و اولیاء اور صلحاء کے حالات و فضائل کا ذکر اور اعمال صالحہ یا یہ معنی ہیں کہ وہ چیز جو ذکر اللہ کے تابع اور اس کے لوازم ومقتضیات میں سے ہے جیسے احکام الٰہی (اوامر ونواہی) کی اتباع و فرمانبرداری۔ لہٰذا ماوالاہ کے پہلے معنی ( جو ترجمہ میں نقل کئے گئے ہیں) مراد لینے کی صورت میں لفظ والاہ کا مادہ اشتقاق ولی ہوگا جس کے معنی محبت اور دوستی کے ہیں، دوسرے معنی مراد لینے کی صورت میں یہ لفظ گویا ولی سے مشتق ہوگا جس کے معنی متابعت کے ہیں۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ اس ساری وضاحت کا تعلق اس امر کو تسلیم کرنے سے ہے کہ ذکر اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے نام کا ورد ہے جیسا کہ عام طور پر ذکر اللہ کا یہی مفہوم سمجھا جاتا ہے اور اگر ذکراللہ سے مراد ہر وہ عمل خیر ہو جو اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی، اس کا تقرب حاصل کرنے اور اس کی عبادت کی نیت سے کیا جائے تو اس معنی کے اعتبار سے تمام ہی عبادتیں اور طاعتیں ذکراللہ کے مفہوم میں داخل ہوں گے اور پھر لفظ ماوالاہ سے وہ چیز مراد ہوں گی جو ذکر اللہ کے اسباب و ذرائع ہونے کی وجہ سے اس کا باعث اور معین و مددگار ہوتی ہے یہاں تک کہ بقدر کفاف کھانا پینا اور ضروریات زندگی کی دیگر چیزوں کا شمار بھی انہی اسباب میں ہوگا۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ بعد میں عالم اور متعلم کا ذکر تخصیص کے طور پر ہے۔

【24】

دنیا کے بے وقعت ہونے کی دلیل

حضرت سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ دنیا اگر اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت رکھتی تو اللہ تعالیٰ اس میں سے کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا ۔ (احمد، ترمزی، ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس دنیا کی کچھ بھی وقعت ہوتی تو اس دنیا کی کوئی ادنیٰ ترین چیز بھی کافر کو نصیب نہ ہوتی، کیونکہ کافر، دشمن اللہ ہے اور ظاہر ہے کہ جو چیز کچھ بھی قدر و وقعت رکھتی ہے دینے والا وہ چیز اپنے کسی دشمن کو ہرگز نہیں دیتا، لہٰذا دنیا کے بےوقعت اور نہایت حقیر ہونے ہی کا سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ دنیا کافروں کو دیتا ہے لیکن اپنے پیارے بندوں کو نہیں دیتا، جیسا کہ ایک حدیث میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے مارویت الدنیا عن احد الا کانت خیرۃ لہ، دنیا (کے مال وجاہ) کا مستحق وہی شخص ہوتا ہے جس کے لئے دنیا ہی بہتر ہوتی ہے ۔ نیز کفار وفجار جو دنیا میں زیادہ خوشحال ومتمول نظر آتے ہیں تو اس کا سبب بھی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں یہ دنیا بڑی ذلیل چیز ہے جس کو وہ اپنے دوستوں (نیک بندوں) کے لئے اچھا نہیں سمجھتا، بلکہ اس کو کوڑے کرکٹ کی طرح ان لوگوں (کفاروفجار) کے سامنے ڈال دیتا ہے جس سے اس کو نفرت ہے، چناچہ اس آیت کریمہ میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ لولا ان یکون الناس امۃ واحدۃ لجعلنا لمن یکفر بالرحمن لبیوتہم سقفا من فضۃ، اگر یہ بات (متوقع) نہ ہوتی کہ (قریب قریب) تمام لوگ ایک ہی طریقہ کے (یعنی کافر) ہوجائیں گے تو جو لوگ اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہیں ہم ان کے لئے ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی کردیتے ۔ نیز قرآن کریم کی ان آیات (وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ لِّلْاَبْرَارِ ) 3 ۔ آل عمران 198) اور (وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى) 42 ۔ الشوری 36) سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے۔

【25】

کمانے میں اتنا منہمک نہ رہو کہ اللہ سے غافل ہو جاؤ

حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ضیعہ کو اس طرح) اختیار نہ کرو کہ وہ دنیا کی طرف رغبت کا سبب بن جائے ۔ (ترمذی، بیہقی) تشریح ضیعۃ سے مراد دنیاوی اسباب و سامان اور کمانے کے ذرائع ہیں جیسے صنعت و تجارت، زراعت، زمین و جائیداد اور باغ وگاؤں وغیرہ، حدیث کا حاصل یہ ہے کہ حصول معاش اور کمانے کے جو ذرائع خواہ وہ مذکورہ چیزیں ہوں یا ان کے علاوہ کچھ اور ہوں، ان میں اس طرح کی مشغولیت اور انہماک اختیار کرنا ممنوع ہے جس سے انسان عبادت الٰہی اور آخرت کی طرف اچھی طرح متوجہ نہیں رہتا بلکہ زیادہ طلبی کی حرص میں مبتلا ہو کر ہر وقت دنیاوی دھندوں میں مشغول رہتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ حدیث میں مذکورہ حکم اس شخص کے حق میں ہے جو حصول معاش کے دنیاوی اسباب و وسائل میں گرفتار ہو اور مسبب حقیقی (اللہ تعالیٰ ) کی طرف توجہ اور اس کی یاد سے بےپرواہ ہو اور حقوق اللہ وحقوق العباد کی ادائیگی سے باز رہے، اگر ایسا نہ ہو تو پھر حصول معاش کے جائز اسباب و ذرائع کو اختیار کرنے اور حلال دنیاوی دھندوں میں مشغول ہونے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ واضح رہے کہ قرآن کریم کی اس آیت ( رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَا ءِ الزَّكٰوةِ ) 24 ۔ النور 37) کے جس طرح یہ معنی مراد لئے جاسکتے ہیں کہ قرآن نے ان الفاظ کے ذریعہ ان لوگوں کی تعریف وتحسین فرمائی ہے جو تجارت وبیع کی مشغولیت کو محض اس لئے اختیار نہیں کرتے کہ امور آخرت کی طرف ان کے متوجہ رہنے میں انہیں کوئی مانع پیش نہ آئے اسی طرح یہ معنی بھی مراد لئے جاسکتے ہیں کہ اس آیت میں دراصل ان لوگوں کی تعریف وتحسین فرمائی گئی ہے جو اپنی تجارت وغیرہ میں مشغول رہنے کے باوجود امور آخرت سے غافل نہیں ہوتے بلکہ اپنی دنیا کے ساتھ اپنی آخرت کے صلاح و فلاح کی طرف بھی متوجہ رہتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ مؤخرالذکر معنی ہی زیادہ موزوں معلوم ہوتے ہیں۔ جیسا کہ واقام الصلوۃ وایتاء الزکوۃ کے الفاظ کی مناسبت سے یہی مفہوم ہوتا ہے۔

【26】

دنیا کی محبت، آخرت کے نقصان کا سبب ہے

حضرت ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنی دنیا کو دوست رکھتا ہے (اس قدر دوست رکھنا کہ اللہ کی محبت پر غالب آجائے) تو وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے (یعنی آخرت میں اپنے درجہ کو گھٹاتا ہے کیونکہ جب اس پر دنیا کی محبت غالب آجاتی ہے تو اس کا ظاہر و باطن ہمہ وقت دنیاوی امور میں مشغول ومنہمک رہتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ امور آخرت اور طاعت الٰہی کے لئے فراغت و موقع سے محروم رہتا ہے) اور جو شخص اپنی آخرت کو درست رکھتا ہے وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے (کیونکہ وہ ہمہ وقت امور آخرت میں مشغول ومنہمک رہنے کی وجہ سے دنیاوی امور کی طرف متوجہ نہیں رہتا) پس (جب تم نے یہ جان لیا کہ دنیا اور آخرت کی دوستی ایک دوسرے کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی تو) تمہیں چاہئے کہ جو چیز فنا ہوجانے والی ہے یعنی دنیا، اس پر اس چیز کو ترجیح دو جو باقی رہنے والی ہے یعنی آخرت ۔ (احمد، بیہقی)

【27】

مال وزر کا غلام بن جانے والے پر حضور ﷺ کی لعنت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص دینار کا غلام اور درہم کا غلام بن جائے وہ ملعون ہے یا یہ معنی ہیں کہ جو شخص دینار کا غلام اور درہم کا غلام بن جائے اس پر لعنت ہو (ترمذی) تشریح لعن کے معنی ہیں ہانک دینا، بھلائی سے محروم کردینا اور اللہ کی رحمت سے دور کردینا ! حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مال وزر اور روپیہ پیسہ کی محبت میں اس طرح گرفتار ہوجائے کہ ان کی وجہ سے اللہ کی عبادت وطاعت سے بعد اختیار کرلے تو وہ گویا مال وزر اور روپیہ پیسہ کا غلام ہے۔ اور ایسا شخص، تمام بھلائیوں سے محروم، رحمت الٰہی سے دور اور راندہ درگاہ رب العزت قرار دیا جاتا ہے۔

【28】

جاہ ومال کی حرص دین کے لئے نہایت نقصان دہ ہے

حضرت کعب بن مالک (رض) اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو بھوکے بھیڑئیے جن کو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے، اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ انسان کی حرص، جو مال وجاہ کے تئیں ہو، اس کے دین کو نقصان پہنچاتی ہے ۔ (ترمذی، دارمی) تشریح دین کو گویا بکری کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے اور حرص کا مشابہ بھیڑئیے کو قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا مطلب یہ ہوا کہ اگر دو بھوکے بھیڑیوں کو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے تو وہ بھی اس ریوڑ کو اس طرح تباہ نہیں کرتے جس طرح کہ ایک انسان کی حرص، اس کے دین کو خراب وتباہ کردیتی ہے۔ حدیث کی سند مشکوۃ کے نسخوں میں اس طرح منقول ہے جیسا کہ اوپر نقل کی گئی ہے یعنی عن کعب ابن مالک عن ابیہ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس روایت کو حضرت کعب بن مالک (رض) نے اپنے والد سے اور انہوں نے آنحضرت ﷺ سے نقل کیا ہے حالانکہ حقیقت میں یہ بات صحیح نہیں ہے اور بربناء سہو وخطا یہ سند اس طرح نقل ہوئی ہے کیونکہ حضرت کعب بن مالک (رض) کے والد کو اسلام کی سعادت نصیب ہی نہیں ہوئی تھی اور ظاہر ہے کہ ان کا آنحضرت ﷺ سے کسی حدیث کو نقل کرنا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا، لہٰذا یہ سند صحیح طور پر یوں ہے عن ابن کعب ابن مالک عن ابیہ یعنی ابن کعب اپنے والد حضرت کعب ابن مالک سے روایت کرتے ہیں۔ چناچہ جامع ترمذی میں یہ سند اسی طرح نقل کی گئی ہے اور مشکوۃ کے بعض نسخوں میں بھی اس طرح منقول ہے پس اس حدیث کے اصل راوی حضرت کعب ابن مالک (رض) ہیں جو مشہور صحابی ہیں اور ان یعنی صحابہ (رض) میں سے ایک ہیں جو غزوہ تبوک میں شریک ہونے سے باز رہے تھے اور جن کا قصہ بہت مشہور ہے۔

【29】

ضرورت سے زیادہ تعمیر پر روپیہ خرچ کرنا لاحاصل چیز ہے

حضرت خباب (رض) رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا مسلمان (اپنی معیشت کے مصارف میں) جو کچھ خرچ اخراجات کرتا ہے اس کو اس کا ثواب دیا جاتا ہے علاوہ اس خرچ کے جو اس مٹی میں کرتا ہے ۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ مکان وغیرہ کی تعمیر میں جو کچھ خرچ ہوتا ہے اس پر کوئی اجروثواب نہیں ملتا۔ لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ وہ تعمیر، و حاجت سے زائد ہو، ورنہ اپنی حاجت کے بقدر گھر بنانا، ضروریات زندگی میں شامل ہے اور اس کی تعمیر پر صرف کیا جانے والا روپیہ پیسہ ضائع نہیں ہوجاتا، اسی طرح ہی خیروبھلائی کے مکانات جیسے مساجد ومدارس اور ان جیسی دوسری عمارتوں کا معاملہ بھی مذکورہ حکم سے مستثنی ہے کہ ان کا بنانا مستحب ومستحسن ہے۔

【30】

ضرورت سے زیادہ تعمیر پر روپیہ خرچ کرنا لاحاصل چیز ہے

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (ضروریات زندگی کے) تمام مصارف اللہ کی راہ میں (خرچ کرنے کے برابر) ہیں (یعنی انسان اپنی اور اپنے متعلقین کی ضروریات پر جو کچھ خرچ کرتا ہے اس کو اس کا ثواب ملتا ہے بشرطیکہ تقرب الٰہی کی نیت سے خرچ کرے) البتہ (ضرورت و حاجت سے زائدہ) تعمیر پر خرچ کرنا کوئی نیکی اور ثواب نہیں رکھتا ۔ اس حدیث کو امام ترمذی (رح) نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح ضرورت سے زائد تعمیر پر خرچ کرنا اسراف ہے اور اللہ تعالیٰ اسراف کو پسند نہیں کرتا، اس کے برخلاف دیگر ضرورت پر بہ نیت تقرب الٰہی جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے۔ اس میں اسراف کا شائبہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ خرچ لوگوں کو کھلانے اور عطاوبخشش کی قسم سے ہوتا ہے۔ خواہ وہ مستحق ہوں یا غیر مستحق اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں یعنی کھلانے اور عطاء و بخشش سے خوش ہوتا ہے۔

【31】

بلاضرورت عمارت بنانے پر وعید

حضرت انس (رض) کہتے ہی کہ ایک روز رسول کریم ﷺ (کہیں جانے کے لئے) باہر نکلے۔ ہم صحابہ کی ایک جماعت بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھی، آپ ﷺ نے راستہ میں ایک بلند قبہ کو دیکھا تو تحقیر ونفرت کے لہجہ میں فرمایا کہ یہ قبہ کیا ہے ؟ (یعنی یہ ناپسندیدہ عمارت کس نے بنائی ہے ؟ ) صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ یہ قبہ فلاں شخص نے بنایا ہے جو ایک انصاری ہے۔ آپ ﷺ (یہ سن کر) خاموش رہے اور (کچھ فرمایا تو نہیں لیکن) اس بات کو (ناگواری اور غصہ کے طور پر) اپنے دل میں رکھا یہاں تک کہ جب اس قبہ کا مالک آپ ﷺ کی خدمت میں آیا ور اس نے لوگوں کی موجوگی میں آپ ﷺ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا (یعنی یا تو آپ نے اس کے سلام کا جواب ہی نہیں دیا یا جواب تو دیا لیکن اس سے منہ پھیرلیا تاکہ اسے تنبیہ ہوجائے اور دوسرے لوگوں کو بھی تنبیہ ہوجائے) آنحضرت ﷺ نے ایسا کئی مرتبہ کیا (کہ وہ شخص آپ ﷺ کو سلام کرتا اور آپ ﷺ اس کا جواب نہ دیتے اور اس سے منہ پھیر لیتے تھے) آخرکار اس شخص نے (ان) صحابہ (رض) سے (کہ جو حضور ﷺ کے خاص مصاحب اور ہم نشین تھے اس امر کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ بخدا، میں ایسا دیکھ رہا ہوں جیسے رسول کریم ﷺ مجھ سے ناآشنا ہوں (یعنی میں رسول کریم ﷺ کے چہرہ مبارک پر جس غضب وغصہ کے آثار دیکھ رہا ہوں وہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے اور مجھے اس کا سبب بھی معلوم نہیں کہ آپ ﷺ کیوں اتنا سخت ناراض ہیں ؟ ) ان صحابہ (رض) نے اس کو بتایا کہ (ایک دن) حضور ﷺ ادھر (تمہاری طرف) تشریف لے گئے تھے اور (جب وہاں) تمہارے قبہ کو دیکھا (تو ناراض ہوگئے تھے) اس شخص (نے یہ سنا تو فوراً ) اپنے قبہ کی طرف گیا اور اس کو ڈھا دیا یہاں تک کہ زمین کے برابر کردیا۔ (اس واقعہ کے بعد) ایک دن رسول کریم ﷺ پھر ادھر تشریف لے گئے اور قبہ کو وہاں نہیں دیکھا تو دریافت فرمایا کہ وہ قبہ کیا ہوا ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ قبہ بنانے والے نے اپنے تئیں آپ ﷺ کی بےالتفاتی اور ناراضگی کا ہم سے شکوہ کیا تھا اور اس کا سبب دریافت کیا تو ہم نے اس کو صورت حال سے آگاہ کردیا تھا (کہ حضور ﷺ تم سے اس لئے ناراض ہیں کہ تم نے اس قبہ کی صورت میں ایک ناپسندیدہ تعمیر کرائی ہے) چناچہ اس شخص نے اس قبہ کو ڈھا دیا ہے تب آپ ﷺ نے (اس عمار کی ناپسندیدگی اور اپنی ناراضگی کا سبب بیان کرنے کے لئے) فرمایا کہ یاد رکھو ! یہ عمارت اپنے بنانے والے کے لئے آخرت میں وبال یعنی عذاب کا سبب بنے گی الا مالا الا مالا یعنی علاوہ اس چیز کے، کہ جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو ۔ (ابو داؤد) تشریح وبال کے اصل معنی بوجھ، سختی اور مکروہ کے ہیں، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو عمارت بنائی جاتی ہے وہ آخرت میں اپنے مالک کے لئے عذاب کا سبب بنتی ہے، لیکن واضح رہے کہ یہ حکم اس عمارت کے حق میں ہے جو ضرورت و حاجت سے زائد ہو، اظہار شان و شوکت اور محض عیش و عشرت کے لئے بنائی گئی ہو، ورنہ تو وہ عمارت جو اپنے اور اپنے متعلقین کی رہائشی ضروریات کے بقدر ہو یا جو عمارت خیروبھلائی کے امور کے لئے ہو جیسے مساجد ومدارس اور خانقاہیں وغیرہ، وہ مذکورہ وعید سے مستثنی ہیں، اسی طرح ہر وہ چیز کہ جو انسان کی جسمانی توانائی کو باقی رکھنے اور لباس ورہائش کے طور پر ضروریات زندگی کا درجہ رکھتی ہو، آخرت میں کسی وبال کا باعث نہیں بنے گی۔ بیہقی نے بھی حضرت انس (رض) سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ مسجد (اور خیر و بھلائی کے کام میں آنے والی دیگر عمارتوں کے علاوہ، ہر عمارت اپنے مالک پر قیامت کے دن وبال ہوگی، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ایسی عمارت کہ رہائشی ضروریات سے زائد اور اظہار شان شوکت کے لئے ہو، اسی طرح طبرانی نے حضرت واثلہ (رض) سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ ہر عمارت وبال ہے علاوہ اس عمارت کے جو بس اس قدر ہو اور یہ فرماکر اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کے ذریعہ اشارہ فرمایا (یعنی یہ اشارہ فرمایا کہ جو عمارت بہت مختصر اور محض رہائشی ضروریات کے بقدر ہو وہ وبال نہیں ہے) نیز ہر علم، قیامت کے دن وبال ہوگا، علاوہ اس علم کے جس پر عمل کیا جائے۔

【32】

کفایت وقناعت کی نصیحت

حضرت ابوہاشم بن عتبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔ دنیا کے تمام مال میں سے جو کچھ تمہارے لئے کافی ہے وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ تمہارے پاس ایک خادم ہو اور ایک سواری ہو جو اللہ کی راہ میں کام (یعنی اگر تم دنیاوی چیزوں میں سے کچھ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہو تو بس یہ دو چیزیں رکھ کہ سواری کے جانور کے ذریعہ جہاد، حج اور حصول علم کے لئے سفر کرسکو اور خادم اس سفر میں تمہاری خدمت کرے، دنیا کے اموال میں سے ان دو چیزوں سے زائد کچھ نہ رکھو بلکہ صرف کر ڈالو، حاصل یہ کہ اس ارشاد کا مقصود اس امر کی تلقین کرنا ہے کہ بقدر ضرورت مال و اسباب پر اکتفا و قناعت کی جائے اور ان میں سے بھی ان چیزوں کو اختیار کیا جائے جو راہ آخرت کا توشہ ہیں ۔ (اس روایت کو احمد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے) ۔ اور مصابیح کے بعض نسخوں میں حدیث کی سند عن ابی ہاشم ابن عتبد سے منقول ہے یعنی عتبۃ میں تاء کی بجائے دال ہے اور یہ غلط ہے جو کسی راوی کے سہو کا نتیجہ ہے (گویا صحیح ہاشم ابن عتبۃ ہی ہے) ۔

【33】

ضروریات زندگی کی مقدار کفایت اور اس پر انسان کا حق

حضرت عثمان (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ ابن آدم ان چیزوں کے علاوہ اور کسی چیز پر اپنا حق نہیں رکھتا، ایک تو گھر کہ جس میں وہ رہائش اختیار کرے (یعنی ایسا گھر جو رہائشی ضروریات کے بقدر ہو کہ جو سردی گرمی سے محفوظ رکھ سکے) دوسرے کپڑا، کہ جس سے وہ اپنا ستر ڈھانکے، تیسرے بغیر سال کے خشک روٹی (کہ جس سے وہ اپنی بھوک دفع کرسکے) اور چوتھے پانی کہ جس سے وہ اپنی پیاس بجھا سکے ۔ (ترمذی) تشریح حق سے مراد وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لئے واجب کی گئی ہے اور جس پر آخرت میں کوئی سوال و مواخذہ نہیں ہوگا، یعنی اللہ تعالیٰ نے دنیا کی جن چیزوں کو ضروریات زندگی کے طور پر بنایا ہے ان کو انسان اسی قدر حاصل کرنے اور اس سے بہرہ مند ہونے کا حقدار و مجاز ہے جس قدر کہ اس کی ضروریات کے لئے کافی ہو چناچہ جو شخص ان چیزوں کو حلال وسائل ذرائع سے حاصل کرے گا اور بقدر ضرورت پر اکتفاء و قناعت کرے گا اس سے آخرت میں ان چیزوں کے بارے میں کوئی سوال ومواخذہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ بقدر ضرورت مذکورہ چیزیں ان لوازمات میں سے ہیں جن کے بغیر نفس انسانی کے لئے کوئی چارہ نہیں ہے، ہاں ان کے علاوہ دنیا کی اور جو چیزیں ہیں یا انہی چیزوں کی ضرورت سے زائد جو مقداریں ہیں وہ سب لوازمات زندگی میں سے نہیں ہیں۔ بلکہ لذات نفس میں سے ہیں اور ان کے بارے میں آخرت میں یقینا مواخذہ و مطالبہ کیا جائے گا۔ جلف (جیم کے زیر اور لام کے جزم کے ساتھ) سے مراد ہے بغیر سالن کے خشک موٹی روٹی، ایک روایت میں یہ لفظ جلف (جیم کے زبر کے ساتھ) بھی منقول ہے جو جلفۃ کی جمع ہے اور جس کے معنی ہیں خش روٹی کا ٹکڑا، کہ جس کے ذریعہ بھوک کو دفع کیا جائے۔

【34】

خدا اور لوگوں کی نظر میں محبوب بننے کا طریقہ

سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے (بارگاہ رسالت میں) حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھ کو کوئی ایسا عمل بتا دیجئے کہ میں جب اس کو اختیار کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت رکھے اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ دنیا سے زہد اختیار کرو (یعنی دنیا کی محبت میں گرفتار نہ ہو، اس کی فضولیات سے اعراض کرو اور امور آخرت کی طرف متوجہ رہو) اگر تم ایسا کرو گے تو گویا تم اس چیز سے نفرت کرنے والے ہوں گے جس سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور اس کی وجہ سے) اللہ تعالیٰ تم سے محبت رکھے گا اور اس چیز کی طرف رغبت نہ کرو جو لوگوں کے پاس ہے (یعنی جاہ و دولت) لوگ تم سے محبت کریں گے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح کسی چیز کی طرف خواہش و میلان نہ رکھنے کو زہد کہتے ہیں اور کامل وصادق زہد یہ ہے کہ دنیا کی لذات میسر ہونے کے باوجود ان سے بےرغبتی اختیار کی جائے، چناچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس شخص کے بارے میں زہد تصور ہی نہیں ہوسکتا جو نہ مال و دولت رکھتا ہو اور نہ جاہ وحشم کا مالک ہو، بلکہ حقیقت کے اعتبار سے زاہد وہی شخص ہے جو مال و دولت اور جاہ وحشم کا مالک ہونے کے باوجود ان کی لذات سے دور رہے، منقول ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے حضرت ابن مبارک (رح) کو یا زاہد کہہ کر مخاطب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ زاہد تو بس حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) تھے جن کے دامن میں دنیا کھنچی آتی تھی مگر اس کے باوجود وہ دنیاوی لذات سے ترک تعلق رکھتے تھے اور ہمارے پاس کیا رکھا ہے کہ ہم زہد اختیار کریں گے، حاصل یہ کہ اصل میں زہد یہ ہے کہ لوازمات دنیا میں کھانے پینے اور پہننے کی فراوانی کے باوجود بقدر ضرورت پر قناعت کی جائے اور فضولیات کو ترک کیا جائے۔

【35】

دنیا کے عیش وآرام سے حضور ﷺ کی بے رغبتی

حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ بورئیے پر سوئے اور سو کر اٹھے تو آپ ﷺ کے جسم مبارک پر بورئیے کے نشان پڑے ہوئے تھے (یہ دیکھ کر) حضرت ابن مسعود (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم آپ ﷺ کے لئے نرم بستر بچھا دیں اور اچھے کپڑوں کا انتظام کردیں (تاکہ آپ ﷺ اس سخت بورئیے پر لیٹنے سے بےآرامی محسوس نہ کریں) حضور ﷺ نے فرمایا (عزیز) مجھ کو اس دنیا (کے عیش و آرام) سے اور اس دنیا کو مجھ سے کیا سروکار ؟ میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی سوار کسی درخت کے نیچے سایہ کی تلاش میں آئے اور وہاں کچھ دیر تک سایہ سے فائدہ اٹھا نے کے لئے) اپنی سواری ہی پر کھڑا رہے اور پھر اس درخت کو وہیں چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف چل دے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ) تشریح مالی وللدنیا میں حرف ما، نفی کے لئے ہے اور اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو مجھے اس دنیا کے ساتھ کچھ الفت ہے اور نہ اس دنیا کو میرے ساتھ کوئی محبت و الفت ہے کہ میں اس دنیا کے تئیں کوئی رغبت و چاہت رکھوں، اس کا عیش و آرام چاہوں اور اس کی بےآرامی سے بچنے کے لئے اس کی آرام دہ چیزوں جیسے نرم و گدیلے بستر اور نفیس واعلیٰ کپڑوں وغیرہ کا مالک بنوں۔ ویسے اس حرف ما کو استفہامیہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے (جیسا کہ ترجمہ میں اسی کو ملحوظ رکھا گیا ہے) اور اس صورت میں جملہ کا مطلب یہ ہوگا کہ مجھ کو اس دنیا سے کون سی الفت، محبت ہے یا اس دنیا کی طرف میری رغبت ومیلان سے یا میری طرف اس دنیا کی رغبت والفت سے مجھے کون سی نفع بخش چیز حاصل ہوگی ؟ کیونکہ میں تو آخرت کا طلبگار ہوں اور دنیا اس آخرت کی سوکن اور ضد ہے۔ درخت کے سایہ سے فائدہ اٹھانے کے ضمن میں خاص طور پر سوار ہی کا ذکر کرنا اس درخت کے نیچے اس کے ٹھہرنے کی مدت کے قلیل ہونے اور جلد ہی وہاں سے رخصت ہوجانے کی بناء پر ہے، یعنی یہ بات سب جانتے ہیں کہ کسی درخت کے سایہ سے فائدہ اٹھانے والا اگر کوئی سوار مسافر ہو اور وہ اپنی سواری سے اترے بغیر اس درخت کے نیچے کھڑا ہے تو وہ وہاں زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتا۔ بلکہ بہت قلیل عرصہ کے لئے اس سایہ میں کھڑا رہ کر آگے چل دیتا ہے۔ نیز سوار کی مثال بیان کرنے سے اس طرف بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جس طرح کسی مسافر کی منزل مقصود جب دور ہوتی ہے تو وہ دوران سفر کسی راحت و آرام کی زیادہ پرواہ کئے بغیر زیادہ سے زیادہ راستہ طے کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہاں وہاں زیادہ ٹھہر کر اپنا وقت برباد نہیں کرتا اسی طرح ہم بھی اس دنیا میں ایک مسافر کی طرح ہیں کہ ہماری منزل مقصود یعنی آخرت بہت دور ہے اور اس کا راستہ کٹھنائیوں سے بھرا ہوا ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی راہ آخرت کو زیادہ سے زیادہ طے کرنے کی سعی و اہتمام کریں اور کسی بھی ایسی چیز کی طرف ملتفت اور مائل نہ ہوں جو منزل مقصود کی طرف ہمارے سفر میں رکاوٹ بن سکے۔

【36】

قابل رشک زندگی

حضرت ابوامامہ (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ میرے نزدیک (یعنی میرے دین و مذہب کے اعتبار سے) میرے دوستوں (تمام مومنین) میں نہایت قابل رشک (یعنی اموال کے اعتبار سے سب سے اچھا اور مال و دولت کے اعتبار سے سب سے افضل) وہ مومن جو سبکسار ہے، نماز سے بہت زیادہ بہرہ مند ہوتا ہے اور اپنے رب کی سب ہی عبادتیں خوبی کے ساتھ کرتا ہے (اور جس طرح ظاہر میں عبادت کرتا ہے اسی طرح) مخفی طور پر (خلوت میں بھی) طاعت الٰہی میں مشغول رہتا ہے، لوگوں میں گمنام ہے کہ اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہیں کیا جاتا (یعنی اپنے علم وعمل کے سبب لوگوں میں مشہور و معروف نہیں ہے بلکہ نہایت بےنفسی کے ساتھ گوشہ گمنامی میں رہ کر علم وعمل کے ذریعہ دین وملت کی خدمت کرتا ہے) نیز اس کی روزی (یعنی ضروریات زندگی کا خرچ) بقدر کفایت ہے اور اسی پر صابر وقانع ہے۔ یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کے ذریعہ چٹکی بجائی اور فرمایا اس کی موت بس یوں (چٹکی بجاتے) اپنا کام جلد پورا کرلیتی ہے اور اس کی موت پر رونے والی عورتیں بھی کم ہوتی ہیں اور اس کا ترکہ بھی بہت مختصر (یعنی نہ ہونے کے برابر) ہوتا ہے ۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ) تشریح حاذ کے معنی سواری کی پشت کے ہیں اور قاموس کے مطابق خفیف الحاذ کا مطلب قلیل المال والعیال خفیف الحاذ کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو زیادہ اہل و عیال کو بوجھ اور مال و دولت کی گرانباری نہ رکھتا ہو۔ صراح میں یہ لکھا ہے کہ خفیف الحاذ کے معنی ہلکی پیٹھ کے ہیں یعنی وہ شخص جو زیادہ اہل و عیال اور مال و دولت کے جھمیلوں سے فارغ ہو بہرحال دونوں ہی صورتوں میں ایسا شخص چونکہ دنیاوی تفکرات مشغولیات سے عاری ہوتا ہے اور فراغ قلب ووقت رکھتا ہے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت وطاعت اور دین وملت کی خدمت میں اچھی طرح مشغول رہتا ہے اور از قسم علائق کوئی چیز اس کی راہ عبادت و خدمت میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ نماز سے بہت زیادہ بہرہ مند ہوتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حضور قلب اور مناجات مع اللہ کے ساتھ نماز بہت زیادہ پڑھتا ہے اور اپنا زیادہ تر وقت عبادت الٰہی میں صرف کرتا ہے کیونکہ اہل و عیال اور دنیاوی جھمیلوں سے بہت کم تعلق رکھنے اور قلت مشغولیت کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ نماز و عبادت ہی کی طرف متوجہ رہتا ہے، بلکہ نماز و عبادت میں اس کو حضور قلب بھی بہت زیادہ حاصل ہوتا ہے چناچہ حقیقی درویش اور اللہ رسیدہ لوگ دنیاوی علائق و تعلقات سے کنارہ کشی اس لئے اختیار کرتے ہیں تاکہ نماز و عبادت الٰہی میں زیادہ سے زیادہ حضور قلب حاصل کرسکیں۔ لوگوں میں گمنام ہے میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ عبادت و ریاضت کے لئے لوگوں کے درمیان بودوباش ترک نہیں کرتا بلکہ ان کے درمیان رہ کر ہی عبادت و ریاضت اور دین وعلم کی خدمت میں خاموشی کے ساتھ مشغول رہتا ہے اور اپنے آپ کو عام شہرت سے بچائے رکھتا ہے گویا اس جملہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنے کو عام شہرت سے بچانے کے لئے لوگوں کے درمیان سے چلا جاتا ہے اور سب سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے کیونکہ عام لوگوں کے درمیان بودوباش ترک کردینا اور کنارہ کشی اختیار کرلینا بجائے خود موجب شہرت ہے، نیز اس جملہ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ لوگوں سے مراد عوام الناس ہیں، چناچہ خواص یعنی اولیاء وصلحاء کے درمیان اس کا متعارف ہونا کہ جن کا وہ ہمنشین رہتا ہے، اس کے مذکورہ مرتبہ کے منافی نہیں ہے۔ یہ بات بعد کے جملہ ولا یشاء الیہ الخ سے بھی مفہوم ہوتی ہے۔ لقد بیہ، کے اصل معنی تو یہ ہیں کہ آپ نے اپنے انگوٹھے کے پورے کو اپنی بیچ کی انگلی کے پورے پر مارہ جس سے نکلی ہوئی آواز کو سنا گیا۔ اور حاصل یہ کہ جس طرح عام طور پر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ کسی بات پر اظہار حیرت وتعجب کے لئے یا کسی کام کی مدت کو کم سے کم بیان کرنے کے لئے چٹکی بجا کر کہتے ہیں کہ فلاں کا بس یوں چٹکی بجاتے ہوگیا اسی طرح حضور ﷺ نے بھی مذکورہ مومن کا حال بیان فرمایا کہ وہ دنیا میں اپنی مذکورہ حالت و کیفیت کے ساتھ زندہ رہتا ہے کہ موت اس کے تشتہ جسم وجان کو چند دن کے بعد ختم کردیتی ہے اور وہ فتنہ وآشوب سے بھرے ہوئے اس عالم سے بہت جلد انتقال کرجاتا ہے اور یہاں کی آفات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات پا جاتا ہے۔ یا یہ مراد ہے کہ ایسا مومن چونکہ اس دنیا سے بہت کم تعلق رکھتا ہے اور شوق آخرت اس پر غالب ہوتا ہے اس لئے وقت موعود آنے پر وہ نہایت آسانی اور سکون کے ساتھ بہت جلد اپنی جان، آفرین کے سپرد کردیتا ہے۔

【37】

دنیا سے آنحضرت ﷺ کی بے رغبتی

حضرت ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میرے رب نے میرے سامنے اس امر کو ظاہر کیا کہ وہ میرے لئے مکہ کے سنگریزوں کو سونا بنادے، لیکن میں نے عرض کیا کہ میرے پروردگار، مجھ کو اس چیز کی قطعا خواہش نہیں ہے میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ ایک روز پیٹ بھر کر کھاؤں اور ایک روز بھوکا رہوں کہ جب میں بھوکا رہوں تو تیرے حضور گڑ گڑاؤں، اپنی عاجزی بیان کروں اور تجھے یاد کروں اور جب میں شکم سیر ہوں تو تیری حمدوتعریف کروں اور تیر شکر ادا کروں ۔ (احمد، ترمذی) تشریح آنحضور ﷺ کے لئے اللہ تعالیٰ کی مذکورہ پیش کش یا تو حسی و ظاہری طور پر تھی یا معنوی یعنی باطنی طور پر اور یہ دوسری مراد زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اس صورت میں آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں مجھ سے مشورہ فرمایا اور مجھے اختیار دیا کہ چاہے آپ ﷺ اس دنیا میں وسعت وفراخی اور یہاں کے مال وزر کی فراوانی کو پسند کریں اور چاہے دنیا سے بےرغبتی اختیار کر کے توشہ آخرت کی فکر میں لگے رہیے اور وہاں کے حساب و عذاب سے نجات کی راہ اختیار کرلیجئے۔ ، لہٰذا میں نے دنیا کو ٹھکرا دیا اور آخرت کو پسند کرلیا۔ بطحاء اور ابطح اس کشادہ نالہ کو کہتے ہیں جس سے پانی گزرتا ہے اور جس میں ریب اور سنگریزے جمع ہوجاتے ہیں۔ مکہ کے سنگریزوں کو سونا بنانے سے مراد یہ تھی کہ مکہ کے اطراف میں جو نالے اور پانی کے نک اس کے راستے ہیں ان سب کو سونے سے بھر دیا جائے یا یہ کہ ان نالوں میں جو سنگریزے ہیں ان کو سونے میں تبدیل کردیا جائے اور یہ دوسری مراد زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایک دوسری حدیث میں یوں فرمایا گیا ہے کہ (اگر آپ ﷺ چاہیں تو اللہ تعالیٰ ) مکہ کے پہاڑوں کو سونے میں تبدیل کردے۔ حدیث کے آخری جملوں کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لئے دنیاوی وسعت وفراخی اور خوشحالی کی پیش کش کے باوجود میں نے دنیا کے مال وزر کو ٹھکرادیا اور فقر کو اختیار کرلیا کہ اگر ایک روز شکم سیر رہوں تو دوسرے روز بھوکا رہو اور اس طرح صبر اور شکر دونوں کی فضیلت پاؤں۔ اس ارشاد گرامی کے ذریعے حضور ﷺ نے گویا امت کو تعلیم و تلقین فرمائی کہ اگرچہ دولتمندی بھی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن اس کی آفات بھی بہت ہیں اور انسان دولتمندی کی حالت میں زیادہ گمراہ ہوتا ہے لہٰذا فقروقناعت کو اختیار کرنا زیادہ موزوں ہے اس لئے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ غنا یعنی دولتمندی کے مقابلہ میں فقر افضل ہے۔

【38】

دنیا کی اصل نعمتیں

حضرت عبیداللہ ابن محصن (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنی جان کی طرف سے بےخوف ہو (ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی اس کا بدن درست وباعافیت ہو اور اس کے پاس (حلال ذریعہ سے حاصل کیا ہوا) ایک دن کی بقدر ضرورت خوراک کا سامان ہو تو گویا اس کے لئے تو کم دنیا (کی نعمتیں) جمع کردی گئی ہیں۔ (اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے) ۔ تشریح وہ اپنی جان کی طرف سے بےخوف ہو کا مطلب یہ ہے کہ اس کو اپنے کسی دشمن کی طرف سے کسی نقصان وضرر کا خدشہ نہ ہو یا یہ کہ برے کاموں سے بچنے اور اپنی لغزشوں پر اللہ سے توبہ کرلینے کی وجہ سے ان آفات سے بےخوف ہو، جو عذاب الٰہی کے طور پر نازل ہوتی ہیں۔ واضح رہے کہ لفظ سرب سین کے زیر اور راء کے جزم کے ساتھ (یعنی سرب) زیادہ مشہور ہے۔ جو نفس، راستہ، حال اور دل، ان سب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اگر یہاں حدیث میں اس لفظ سے ان سب چیزوں کو مراد لیا جائے تو یہ بھی منشاء حدیث کے مناسب ہوگا، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جو شخص اس حال میں صبح کو اٹھے کہ اس کو مذکورہ چیزوں کے بارے میں کسی نقصان وضرر کا کوئی خوف و خدشہ نہ الخ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ لفظ سین اور راء دونوں کے زبر کے ساتھ ہے جس کے معنی خانہ زیر زمین کے ہیں یعنی وہ بل و سوراخ جو وحشی جانوروں، جیسے چوہے وغیرہ کا مسکن ہوتے ہیں، اگر اس قول کو صحیح مان لیا جائے، یہ معنی بھی منشاء حدیث کے منافی نہیں ہوتے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوا کہ جو شخص اس حال میں صبح کو اٹھے کہ اس کے گھر کے بلوں اور سوراخوں میں رہنے والے چوہوں اور لومڑیوں وغیرہ کی طرف سے کہ جو آفات زمانہ میں سے ہیں اس کو کسی نقصان وضرر کا کوئی خوف و خدشہ نہ ہو الخ۔

【39】

کھانا زیادہ سے زیادہ کتنا کھایا جائے

حضرت مقدام ابن معدیکرب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا انسان (اگر اپنے پیٹ کو حد سے زیادہ بھر لے تو اس) نے پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہی بھرا (کیونکہ پیٹ کو زیادہ بھرنے سے جو برائیاں اور خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ان کا کوئی شمار نہیں، ابن آدم کے لئے بس چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پشت کی ہڈی کو سیدھا اور کھڑا رکھیں تاکہ وہ اطاعت الٰہی کی بجاآوری اور بقدر ضرورت اپنی معاشی جدوجہد کو جاری رکھنے پر قادر رہ سکے، ہاں اگر ضروری ہو یعنی کوئی پیٹ بھرنا ہی چاہتا ہو اور کھانے کی کم سے کم مقدار کفایت پر قناعت نہ کرسکتا ہو تو اس کو چاہئے کہ پیٹ کے تین حصے کرے ایک حصہ کھانے کے لئے ہو ایک حصہ پانی کے لئے ہو اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لئے خالی چھوڑ دے تاکہ دم گھٹنے کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا نہ ہوجائے (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح جیسا کہ طیبی (رح) نے لکھا ہے، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ واجب تو یہ ہے کہ کھانے کے معاملہ میں اس حد سے تجاوز نہ کیا جائے جو پیٹھ کو قائم رکھنے یعنی جسمانی توانائی کو برقرار رکھنے کے لئے کافی ہو اور یہ بھی اس لئے تاکہ اللہ کے احکام بجالانے کی طاقت وقدرت حاصل رہے، ہاں اگر کوئی شخص اس حد کفایت پر قناعت نہ کرسکے اور وہ اس حد سے تجاوز کرے یعنی زیادہ مقدار میں کھانے کی خواہش رکھے تو وہ بھی بس اسی قدر زیادہ کھائے جو پیٹ کے تین حصوں میں سے ایک حصے کو بھر دے، باقی دو حصوں میں سے ایک حصہ پانی کے لئے اور ایک حصہ خالی رہنا چاہئے اپنی خوراک کی مقدار میں اس آخری حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ اس حدیث میں پہلے تو پیٹ کو ان معمولی برتنوں کی طرح ایک برتن قرار دیا گیا ہے جو گھر کی ضروریات میں کام آتے ہیں اور اس طرح یہ اشارہ فرمایا گیا کہ پیٹ ایک بےحیثیت چیز ہے، پھر یہ واضح فرمایا کہ برتنوں میں بھی (یہ پیٹ) گویا سب سے برا برتن ہے کیونکہ عام طور پر تمام برتن انہی کاموں میں استعمال کئے جاتے ہیں جن کے لئے ان کو بنایا گیا ہے، اس طرح پیٹ کا اصل موضوع یہ ہے کہ اس میں خوراک کی بس اتنی مقدار ڈالی جائے جو جسمانی توانائی کو باقی رکھنے کے لئے ضروری ہو اور اگر اس کو ضرورت سے زیادہ بھرا جائے تو نہ صرف اس کے مقصد سے تجاوز ہوگا بلکہ اس کی وجہ سے ایسی برائیاں اور خرابیاں پیدا ہوں گی جو دین ودنیا دونوں کو نقصان پہنچائیں گی اس اعتبار سے پیٹ گویا سب سے برا برتن ہوا۔ بھوک کے دس فوائد بھوک بظاہر بڑا بھیانک لفظ ہے اور آج کی دنیا کا نہایت سنگین مسئلہ ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اگر بھوک کا تعلق قوت لایموت تک کے فقدان سے ہو اور کوئی انسان نان جویں کی اس مقدار سے بھی محروم رہے جس کا بقاء زندگی کے لئے پیٹ میں پہنچنا ضروری ہے تو واقعۃ وہ بھوک انسان کے لئے پیغام اجل سے کم نہیں، لیکن اگر بھوک سے مراد کم کھانا، یا وقتا فوقتا فاقہ ہو، تو وہ بھوک بھی ہماری اس دنیا کے نقطہ نظر سے چاہے کتنا ہی سنگین مسئلہ ہو مگر حقیقت میں اس بھوک کے جو فوائد ہیں علامہ طیی (رح) اور روحانی نقطہ نظر سے ہیں ان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بعض حضرات نے ان فوائد کو بڑی جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے، چناچہ ایک اونچے درجہ کے اسلامی محقق اور عارف باللہ حضرت شیخ ابوحامد (رح) نے لکھا ہے کہ بھوک میں دس فوائد پوشیدہ ہیں۔ اول یہ کہ قلب اور بصارت کی صفائی حاصل ہوتی ہے کیونکہ پیٹ کا بھرا ہوا ہو ہونا طبیعت کو سست وکند، قلب کو بوجھل اور دماغ پر انجارات کو غلبہ کردیتا ہے، دوسرے یہ کہ قلب میں رقت ونرمی اور پاکیزگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے دل یاد الٰہی کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تیسرے یہ کہ طبیعت ومزاج میں انکسار پیدا ہوتا ہے اور اس تکبر وحرص اور عشرت پسندی کا خاتمہ ہوتا ہے جو طغیان و سرکش کا مبداء ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کا نفس، جس قدر انکسار پسند بھوک کی حالت میں ہوتا ہے کہ اس قدر انکسار اور کسی چیز سے پیدا نہیں ہوتا۔ چوتھے یہ کہ عذاب الٰہی آفات وبلاء قدرت اور اہل بلاء فراموش نہیں ہوتے، چناچہ جو لوگ ہر وقت اپنا پیٹ بھرا رکھتے ہیں وہ نہ تو بھوک کی ازیت کو محسوس کرسکتے ہیں اور نہ بھوکوں کو یاد کرسکتے ہیں۔ پانچویں یہ کہ نیند کا غلبہ کم ہوتا ہے اور بیداری کی کیفیت طاری رہتی ہے، کیونکہ جو شخص پیٹ کو کھانے سے بھر لیتا ہے وہ پانی بھی بہت پیتا ہے، زیادہ پانی پینا، نیند کی زیادتی کا سبب ہوتا ہے اور نیند کی زیادتی نہ صرف یہ کہ عبادت وطاعت، جیسے تہجد وغیرہ کو فوت کرتی ہے، طبیعت کو مکدر اور دل کو سخت بناتی ہے بلکہ زیادہ سونا، گویا عمر کو ضائع کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ عمر، بہت اعلی جوہر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے عطا نہیں کیا ہے کہ اس کو بیکار گنوایا جائے بلکہ اس کو انسان کے حق میں راس المال بنایا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعہ اپنے دینی و دنیاوی معاملات کی صلاح و فلاح کے امور انجام دے۔ علاوہ ازیں نیند ایک طرح کی موت ہے۔ لہٰذا اپنے اوپر نیند کو غالب رکھنا گویا عمر کو چھوٹی کرنا۔ چھٹے یہ کہ عبادت وطاعت کی پابندی وہمیشگی حاصل ہوتی ہے کیونکہ جو شخص زیادہ کھاتا ہے اس کے اوقات کا زیادہ حصہ کھانے پینے کی مشغولیت میں صرف ہوتا ہے مثلاً اس کو کچھ وقت تو بازار سے سودا سلف لانے اور اشیاء خوراک کی فراہمی میں لگانا پڑتا ہے، کچھ وقت کھانے کی تیاری میں صرف ہوتا ہے، کھانا کھاتے وقت بھی کافی وقت دینا پڑتا ہے اور پھر کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے اور کھانے کے بعد منہ کی صفائی اور خلال کرنے اور بار بار پانی کے لئے پانی کی جگہ آنے جانے جیسے کاموں میں بھی کافی وقت صرف ہوتا ہے، غرضیکہ بہت ہی وقت کا خرچ ہے اور اگر ان اوقات کو کھانے پینے کی مشغولیات سے بچا کر عبادت وطاعت اور ذکر ومناجات میں لگائے تو کہیں زیادہ فائدہ حاصل کرے۔ مشہور عالم اور بزرگ حضرت علامہ تستری (رح) کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے حضرت علی جرجانی (رح) کو ستو پھانکتے دیکھا تو عرض کیا کہ حضرت ایسی کون سی وجہ پیش آگئی جو آپ ستو پھانک رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ بھئی کیا پوچھتے ہو، میں نے ایک دن حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ ایک چپاتی کھانے کے دوران اتنا وقت صرف ہوتا ہے جتنا کہ ستر تسبیحات پڑھنے میں (میں نے سوچا کہ اس طرح تو روٹیاں کھانے میں بہت وقت لگتا ہے اور اس وقت کو بچا کر دوسرے مفید کاموں میں صرف کیا جاسکتا ہے) لہٰذا میں نے روٹیاں کھانے چھوڑ دیں اور چالیس برس سے ایک چپاتی بھی نہیں کھائی ہے بلکہ بھوک کی شدت کم کرنے کے لئے وقتا فوقتا ستو پھانک لیا کرتا ہوں۔ ساتویں یہ کہ کم کھانے کی وجہ سے بدن کی صحت و تندرستی بحال رہتی ہے اور امراض کا دفعیہ ہوتا ہے کیونکہ اکثر امراض کا سبب کھانے کی زیادتی اور کھانے پینے میں بےاعتدالی ہوتی ہے، پھر زیادہ کھانے کی وجہ سے امراض صرف پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ عبادت سے باز رکھتے ہیں اور تشویش وفکر میں مبتلا کردیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وقت کا بڑا حصہ، حکیم ڈاکٹر کے پاس آنے جانے، علاج معالجہ کرنے اور دواء وغیرہ کی فراہمی میں صرف ہوتا ہے اور سب چیز جو محنت مشقت اور پریشانی برداشت کرنا پڑتی ہے وہ اس کے علاوہ ہوتی ہے لہٰذا انسان اگر کم کھانے اور وقتا فوقتا فاقہ کرتا رہے تو ان پریشانیوں سے نجات مل جائے۔ آٹھویں یہ کہ حصل معاش کی جدوجہد اور روزی کمانے کی محنت مشقت زیادہ نہیں کرنا پڑتی، کیونکہ جو شخص کم کھانے کی عادت ڈال لیتا ہے اس کے لئے تھوڑی سی محنت مشقت سے حاصل کیا ہوا تھوڑا سا مال و اسباب بھی کافی ہوجاتا ہے، نویں یہ کہ ایثار و احسان اور صدقہ و خیرات کے داعیہ کو پورا کرنے پر آسانی سے قدرت حاصل ہوتی ہے، یعنی کم کھانے کی صورت میں جو کھانا اپنی خوراک سے بچ جاتا ہے اس کو غریب و مسکین اور فقیر و محتاج کو بطور صدقہ دینا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ اور ظاہر ہے کہ صدقہ و خیرات کرنے والا شخص قیامت کے دن اپنے اس صدقہ و خیرات کے سایہ میں رحمت الٰہی سے بہرہ مند ہوگا، نیز یہ حقیقت بھی سامنے آنی چاہئے کہ انسان جو کچھ خود کھاتا پیتا ہے اس کو تو وہ گویا بیت الخلاء میں جا کر جمع کردیتا ہے اور جو کچھ فقیر و محتاج پر صدقہ و خیرات کرتا ہے اس کو اپنے لئے ذخیرہ آخرت کردیتا ہے کہ وہ وہاں سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت جزاء پائے گا۔ اور دسواں یہ کہ جو بھوک کے مذکورہ بالا فائدوں میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ان خواہشات و جذبات کی بیخ کنی ہوتی ہے جو انسان کو ہر طرح کے گناہ پر ابھارتے ہیں اور نفس امارہ پر غلبہ وقابو حاصل ہوجاتا ہے، کیونکہ کم کھانا ہر طرح کی نفسانی خواہش کو مارتا ہے اور شہوانی خواہشات کو مضمحل کردیتا ہے اور یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ دین ودنیا کی تمام سعادتیں اور بھلائیاں اس امر میں پوشیدہ ہیں کہ انسان اپنے نفس کا مالک اور اس پر قابو یافتہ ہو اور ہر طرح کی شقاوت و بدبختی اس میں پوشیدہ ہے کہ انسان اپنے نفس کا غلام بن جائے اور خود پر اس کو قابو دے دے۔

【40】

لمبی ڈکار لینے کی ممانعت

حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک شخص کو ڈکارتے سنا تو اس سے فرمایا کہ اپنی ڈکار کو روکو (یعنی اتنا زیادہ نہ کھایا کرو کہ لمبی لمبی ڈکاریں آنے لگیں) اس لئے کہ قیامت کے دن لوگوں میں سب سے بڑا بھوکا وہ ہوگا جو دنیا میں ان میں سب سے بڑے پیٹ والا ہوگا۔ یعنی جو شخص اس دنیا میں بہت زیادہ کھانے والا ہوگا اس کو قیامت کے دن بھی بہت زیادہ بھوک لگے گی۔ جس کی وجہ سے وہ نہایت پریشانی میں مبتلا ہوگا۔ (بغوی نے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی ہے) تشریح حدیث میں صحابی (رض) کے ڈکارنے کا ذکر ہے ان کا نام وہب ابن عبداللہ تھا اور ان کا شمار چھوٹی عمر والے ان صحابہ (رض) میں ہوتا ہے جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بالغ نہیں ہوئے تھے، خود ان کا بیان ہے کہ ایک دن میں نے گوشت کا ثرید کھایا اور ڈکاریں لیتا ہوا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ کیا کر رہے ہو ؟ اپنی ڈکاروں کو روکو۔ اور اس کے بعد وہی الفاظ ارشاد فرمائے وجہ اوپر نقل کئے گئے ہیں مذکورہ ارشاد میں ڈکار لینے کی جو ممانعت فرمائی گئی ہے اس کا مقصد، جیسا کہ حدیث کے آخری جزو سے واضح ہوتا ہے، اتنا زیادہ کھانے سے منع کرنا ہے جس سے پیٹ ضرورت سے زیادہ بھر جائے۔ اور جو لمبی لمبی ڈکاریں لینے کا باعث بنتا ہے۔ منقول ہے کہ حضرت وہب بن عبداللہ نے حضور ﷺ کی مذکورہ ممانعت کے بعد تا زندگی کبھی بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ اگر رات میں کھالیتے تو دن میں نہیں کھاتے اور جب دن میں کھالیتے تو رات میں نہیں کھاتے۔

【41】

مال ودولت ایک فتنہ ہے

حضرت کعب ابن عیاض (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (حق تعالیٰ کی طرف سے) ہر امت کے لئے (کوئی نہ کوئی) فتنہ و آزمائش ہے (جس میں اس امت کے لوگوں کو مبتلا کر کے ان کو آزمایا جاتا ہے) چناچہ میری امت کے لئے جو چیز فتنہ آزمائش ہے وہ مال و دولت ہے یعنی اللہ تعالیٰ میری امت کے لوگوں کو مال و دولت دے کر یہ آزمانا چاہتا ہے کہ وہ راہ مستقیم اور حد اعتدال پر قائم رہتے ہیں یا نہیں۔ (ترمذی)

【42】

جو مالدار صدقہ وخیرات کے ذریعہ آخرت کے لئے کچھ نہیں کرتے ان کے بارے میں وعید

حضرت انس (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ابن آدم کو اس طرح حقارت و ذلت کے ساتھ) پیش کیا جائے گا گویا کہ وہ بکری کا بچہ ہے، پھر اس کو اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ (فرشتہ کی وساطت سے یا خود براہ راست زبان قال یا زبان حال سے) اس سے فرمائے گا کہ میں نے (دنیا میں) تجھ کو زندگانی، عمل و دانش، صحت و تندرستی اور امن و عافیت جیسی نعمت عطاء کی تھی (مال و دولت، حشم وخدم اور جاہ وعزت جیسی چیزوں کا مالک) بنایا تھا اور (اس سے بڑی) نعمت (یہ) عطا کی تھی (کہ اپنی کتاب نازل کی، اپنا رسول ﷺ بھیجا اور ہدایت و راستی کا نور پھیلایا) پس تو نے کیا کام کیا ؟ یعنی کیا تو نے ان چیزوں کے حقوق ادا کئے اور ان سب نعمتوں کا شکر گزار رہا ؟ ابن آدم عرض کرے گا، میرے پروردگار ! میں نے تو بس یہ کیا کہ تجارت اور کاروبار کے ذریعہ مال و دولت جمع کرنے اور اس کو بڑھانے میں لگا رہا اور مرتے وقت اس کو دنیا میں اس سے زیادہ چھوڑ کر آیا جتنا کہ میری زندگی کے دنوں میں پہلے میرے پاس تھا اور اب آپ مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج دیجئے تاکہ میں اس تمام مال و دولت کو آپ کی راہ میں خرچ کروں اور اس کا ثواب لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ یہ تو ممکن نہیں کہ تمہیں دنیا میں دوبارہ بھیجا جائے اور تم جو مال و دولت دنیا میں چھوڑ کر چلے آئے تھے وہ بھی اب تمہارے لئے کار گر نہیں ہے، ہاں اگر تم نے (اس مال و دولت میں سے کچھ حصہ بھی صدقہ و خیرات کیا ہو اور ثواب کی صورت میں) اس کو آگے یہاں آخرت میں بھیجا ہو تو مجھے اس کو دکھلاؤ۔ لیکن اس نے چونکہ اس مال و دولت سے کچھ بھی حصہ آخرت کے کاموں میں خرچ نہیں کیا ہوگا اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر نہایت شرمندہ وخجل ہوگا اور جیسا کہ مجرموں کی عادت ہے کہ جب اپنے جرم میں پکڑے جاتے ہیں اور اپنی صفائی میں کوئی معقول عذر بیان نہیں کرسکتے تو بار بار ایک ہی بات کو جو پہلے کہہ چکے ہوتے ہیں، دہراتے رہتے ہیں، وہ ابن آدم بھی ایک تو اس وجہ سے اور دوسرے اپنی اس بات کا جواب نہ پانے کی وجہ سے دوبارہ وہ عرض کرے گا کہ میں تو بس مال و دولت کو جمع کرنے اور اس کو بڑھانے میں لگا رہا اور اس کو دنیا میں اس سے زیادہ چھوڑ کر آیا جتنا کہ پہلے تھا اور اب آپ مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج دیجئے تاکہ میں اس تمام مال و دولت کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اس طرح یہ ظاہر ہوجائے گا کہ اس کو دنیا میں جو مذکورہ چیزیں دی گئی تھیں ان میں سے اس نے کوئی بھی بھلائی آگے (آخرت میں) نہیں بھیجی ہے لہٰذا اس کو دوزخ میں پہنچائے جانے کا حکم دیا جائے گا۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور اس کی اسناد کو ضعیف قرار دیا ہے (اگرچہ معنی کے لحاظ سے یہ بالکل صحیح ہے) تشریح طیبی (رح) نے کہا ہے کہ اس حدیث میں ابن آدم کی جس حالت کو ذکر کیا گیا ہے کہ جس بندہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مذکورہ چیزیں اور نعمتیں حاصل ہوں اور وہ ان کے ذریعہ آخرت کی بھلائی حاصل کرنے سے غافل رہے تو اس کی مثال اس غلام کی سی ہے جس کو اس کا آقابہت سا مال و اسباب اس مقصد کے لئے دے کہ وہ اس کے ذریعہ تجارت کر کے زیادہ سے زیادہ نفع کمائے مگر وہ غلام اپنے آقا کی مرضی اور اس کے حکم سے سرتابی کر کے اس سارے مال و اسباب کو لٹا کر تلف وضائع کردے یا ایسے کاروبار اور تجارت میں پھنسا دے جس کا حکم اس کو نہیں دیا گیا تھا تو ظاہر ہے کہ وہ غلام نہ صرف نااہل سمجھا جائے گا بلکہ مستوجب سرزنش بھی قرار پائے گا، ٹھیک اسی طرح وہ بندہ بھی نہایت ٹوٹے میں رہے گا اور مستوجب عذاب قرار دیا جائے گا۔ ابوحامد (رح) نے کہا ہے کہ یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ اگرچہ ہر بھلائی، ہر لذت اور ہر سعادت یہاں تک کہ ہر مطلوب، کو نعمت کہا جاتا ہے لیکن حقیق نعمت بس اخروی سعادت ہے اس کے علاوہ، کسی بھی چیز کو سعادت کہنا غلط ہے، بلکہ کسی دنیاوی چیز پر مجازا بھی سعادت کا اطلاق کرنا یعنی اس کو دنیوی سعادت کہنا بھی صحیح نہیں ہے، ہاں جو دنیاوی چیزیں اخروی سعادت کے حصول کا سبب و ذریعہ ہوں اور اس کی راہ میں کسی ایک واسطہ کئی واسطوں کے ساتھ معاون ومدد گار ہوں تو ان چیزوں کو نعمت کہنا صحیح ہوسکتا ہے اور یہ بھی اس وجہ سے کہ وہ چیز حقیقی نعمت تک پہنچا سکتی ہیں۔

【43】

ٹھنڈا پانی اور تندرستی، اللہ کی بڑی نعمت ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے نعمتوں کے بارے میں جو سوال کیا جائے گا وہ یہ ہوگا کہ کیا ہم نے تیرے بدن کو تندرستی عطا کی تھی اور تجھ کو ٹھنڈے پانی سے سیراب نہیں کیا تھا ۔ (ترمذی) تشریح یوں تو ہر وہ چیز اللہ کی نعمت ہے جس سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑی نعمت تندرستی اور پانی ہے، اسی لئے قیامت کے دن سب سے پہلے انہی دونوں نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ایک بڑے بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے اپنے مرید سے فرمایا پانی ٹھنڈا کر کے پیا کرو کیونکہ ٹھنڈا پانی، اللہ کا شکر، دل کی گہرائیوں سے ادا کراتا ہے۔ نیز حضرت شیخ عبدالحق (رح) فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے والد ماجد (رح) کے بارے میں خوب یاد ہے کہ وہ جب بھی ٹھنڈا پانی پیتے بےخود ہوجاتے اور جب تھوڑی دیر تک اسی عالم بےخودی میں رہنے کے بعد اپنی حالت پر واپس آتے، تو فرماتے سبحان اللہ ! یہ ٹھنڈا پانی بھی کیا چیز ہے اور اللہ نے اس کو کتنا بہترین جوہر بنایا ہے ؟ اور اسی طرح کے عالم ذوق و توحید سے متعلق کلمات ارشاد فرماتے ! حاصل یہ کہ پانی بذات خود تو بہت بڑی نعمت ہے ہی، لیکن ٹھنڈا پانی جو کیف ولذات اور جو فوائد اپنے اندر رکھتا ہے ان کی وجہ سے اس نعمت کا درجہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ قدرت نے پانی کو چیز تو ایسی عزیز اور اہم بنایا کہ زندگی کا مدار ہی اس پر ہے لیکن عام اتنا کیا کہ اس کی کوئی قیمت نہیں۔ اس موقع پر ایک بڑی دلچسپ حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک بادشاہ کسی طرح بھٹک کر کہیں اور جنگل میں پہنچ گیا، وہاں اس کو پیاس لگی مگر آس پاس کہیں پانی کا نام ونشان تک نہیں تھا، پیاس کے ساتھ اس کا اضطراب بڑھتا رہا یہاں تک کہ مرنے کے بالکل قریب پہنچ گیا تو اچانک اس کے سامنے ایک عارف یا کوئی فرشتہ نمودار ہوا اور بولا کہ اگر میں تمہیں پانی پلادوں تو تم مجھے کیا دو گے ؟ بادشاہ نے فوراً جواب دیا کہ اپنا آدھا ملک ! اس غیبی انسان نے اس کو پانی پلادیا اور اس کے بعد اس کا پیشاب رک گیا۔ اس نے لاکھ چاہا کہ کسی طرح پیشاب کرلے، مگر مانراد رہا۔ اور سخت پریشانی میں مبتلا ہوگیا آخر کار پھر وہی غیبی انسان نمودار ہوا اور کہا کہ اگر میں تمہارے اس مرض کا علاج کردوں اور تمہارا پیشاب کھل جائے تو مجھے کیا انعام دو گے ؟ بادشاہ نے کہا کہ باقی آدھا ملک بھی تمہیں ہی دے دوں گا۔ اس نے علاج کیا اور بادشاہ کا پیشاب کھل گیا۔ تب اسی غیبی انسان نے کہا کہ بادشاہ سلامت ! آپ اپنا ملک خود سنبھالئے، مجھے اس کی حاجت نہیں ہے، لیکن اپنی سلطنت اور اپنے ملک کی حیثیت دیکھ لیجئے ( کہ ذرا سے پانی اور پیشاب کے لئے آپ نے تمام ملک و سلطنت کو قربان کرنے کا فیصلہ کرلیا، لہٰذا اتنی بےحیثیت چیز اور اس کی ظاہری چمک دمک پر کبھی گھمنڈ نہ کیجئے گا آخر میں ایک بات یہ ملحوظ رہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں تندرستی اور پانی دونوں نعمتوں کو ایک ساتھ ذکر کرنے میں گویا اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ دونوں اتنی عظیم الشان اور اہم نعمتیں ہیں کہ تمام ملک و سلطنت ایک طرف اور یہ دونوں نعمتیں ایک طرف۔

【44】

وہ پانچ نعمتیں جن کے بارے میں قیامت کے دن جواب دہی کرنی پڑے گی

حضرت ابن مسعود (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن انسان کے پاؤں سرکنے نہیں پائیں گے اور اس کو بارگاہ رب ذوالجلال میں اس وقت تک کھڑا رکھیں گے جب تک اس سے پانچوں باتوں کا جواب نہیں لے لیا جائے گا، چناچہ اس سے پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی عمر کس کام میں صرف کی، (بالخصوص یہ کہ) اس نے اپنی جوانی کو کس کام میں بوسیدہ کیا (یعنی جوانی گویا نیا لباس ہے جو رفتہ رفتہ پرانا ہوتا ہے) اس نے مال کو کہاں خرچ کیا (یعنی اپنے مال اور روپیہ پیسہ کو اچھے کاموں میں صرف کیا یا برے کاموں میں گنوایا) اور یہ کہ اس نے جو علم حاصل کیا تھا اس کے موافق عمل کیا یا نہیں ؟ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔ تشریح حضرت ابودرداء (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ ایک دن انہوں نے حضرت عویمر سے فرمایا کہ عویمر (خیال کرو) قیامت کے دن تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب تم سے سوال کیا جائے گا کہ آیا تم عالم تھے یا جاہل ؟ اگر تم یہ جواب دو گے کہ میں عالم تھا تو پھر تم سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے جو کچھ علم حاصل کیا اس کے موافق کیا عمل کیا ؟ اور اگر تم نے یہ جواب دیا کہ میں تو جاہل تھا، تو پوچھا جائے گا کہ تمہارے لئے جاہل رہنے کی کیا وجہ تھی اور تم نے علم کیوں نہیں حاصل کیا ؟

【45】

برتری محض تقویٰ سے حاصل ہو سکتی ہے، رنگ ونسل سے نہیں

حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان سے فرمایا۔ (ابو ذر ! ) تم نہ تو سرخ رنگ والے سے بہتر ہو اور نہ سیاہ رنگ والے سے الاّ یہ کہ تم ان دونوں میں سے کسی سے تقویٰ کے اعتبار سے افضل ہو (احمد) تشریح مطلب یہ ہے کہ انسانی فضیلت و برتری، ظاہری شکل و صورت اور رنگ ونسل پر موقوف نہیں ہے بلکہ اس کا مدار دینی اخلاقی کردار کی عظمت اور تقویٰ پر ہے ! واضح رہے کہ حدیث میں صرف دو رنگوں سرخ اور سیاہ کا ذکر اس بناء پر کیا گیا ہے کہ زیادہ تر لوگ انہی دو رنگ کے ہوتے ہیں اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ان دونوں رنگوں والوں سے مراد آقا اور غلام ہیں چناچہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ آقا گورے رنگ کا ہوتا ہے اور غلام کالے رنگ کا۔ طیبی (رح) نے حدیث کی وضاحت میں کہا ہے کہ یہاں سرخ سے مراد اہل عجم اور سیاہ رنگ سے مراد اہل عرب ہیں۔ چناچہ (اس زمانہ میں) اہل عرب، عجم والوں یعنی غیر عرب لوگوں کو احمر (سرخ) کہا کرتے تھے کیونکہ ان کے رنگ پر سرخی اور سفیدی غالب ہوتی تھی اور اہل عرب کو اسود (سیاہ) کہا جاتا تھا کیونکہ ان کی رنگت پختہ ہوتی تھی اور اس پر سیاہی اور سبزی کا غلبہ ہوتا تھا۔ نیز حضرت شیخ عبدالحق (رح) نے لکھا ہے کہ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ حقیقی فضیلت و برتری کا تعلق تقویٰ اور عمل صالح سے ہے اور تقویٰ وعمل صالح کے بغیر کسی بھی وصف وخصوصیت کی طرف نسبت کوئی فضیلت نہیں رکھتی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم (یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے) یہ بات ملحوظ رہے کہ تقویٰ اپنے مراتب و درجات کے اعتبار سے کئی اقسام پر مشتمل ہے، سب سے ادنیٰ قسم یا سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ہر حالت میں شرک جلی سے اجتناب کیا جائے۔ اوسط درجہ یہ ہے کہ ہر قسم کے گناہ ہر طرح کی برائی ہر طرح کے لہو ولعب اور شرک خفی سے اجتناب کیا جائے۔ اور سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ ہر لمحہ اللہ کے ساتھ تعلق وحضور رکھا جائے اور دل میں ماسویٰ اللہ کا خیال بھی نہ آنے دیا جائے۔

【46】

دنیا سے زہد وبے رغبتی کی فضیلت

حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جس بندہ نے دنیا میں (زائد از ضرورت و حاجت، دنیاوی مال وجاہ سے) زہد یعنی بےرغبتی اختیار کی، اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں حکمت یعنی معرفت و یقین کی دولت پیدا کی، اس کی زبان کو اس (حکمت) کے ساتھ گویا کیا اور اس کو دنیا کے عیوب (جیسے کثرت غم ورنج، قلت غناء خست شرکاء، سرعت فنا اور ذکر الٰہی سے دل کی غفلت وغیرہ کو یقین کی آنکھوں سے) دیکھنے والا کیا، نیز اس دنیا کی بیماری (یعنی دنیاوی محبت کی علت وسبب) اور (علم وعمل، صبروقناعت اور دنیا سے اجتناب وبے رغبتی اختیار کرنے اور تقدیر الٰہی پر راضی رہنے کی توفیق بخش کر) اس بیماری کا علاج بھی اس کو دکھایا اور (اس کے دنیا سے اعراض کرنے اور عقبی کی طرف متوجہ رہنے کے سبب) حق تعالیٰ نے اس کو دنیا (کی آفات وبلیات) سے سلامتی کے ساتھ دارالسلام میں پہنچا دیا ۔ (بیہقی) تشریح دارالسلام سے مراد جنت ہے اور اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ بکمال تمام حقیقی سلامتی بس دار آخرت اور جنت ہی میں حاصل ہوگی۔ منقول ہے کہ ایک عارف درویش سے لوگوں نے پوچھا کہ کہئے، آپ کا کیا حال ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ نے چاہا تو سلامتی ہے بشرطیکہ جنت میں پہنچ جاؤں۔

【47】

صلاح وفلاح کا انحصار خلوص ایمان پر ہے

حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ وہ شخص فلاح یاب ہوا جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے (نفاق کی آمیزش سے پاک کرکے) ایمان کے لئے خالص و مخصوص کردیا، (یعنی اس کو ایمان خالص عطا کیا) اس کے دل کو (بغض وحسد اور تمام برے کاموں وبرے احوال، جیسے دنیا کی محبت اور مولیٰ اور عقبی سے بےپروائی وغیرہ سے) محفوظ وسالم رکھا ! اس کی زبان کو راست گو بنایا، اس کے نفس کو (اللہ کے ذکر اور اس کے محبت کے ذریعہ مطمئن کیا (اور اس کو حق کا مطیع بنایا) اس کی خلقت و طبیعت کو (کجی و باطل کی طرف مائل اور افراط و تفرط میں مبتلا ہونے سے بچاکر) مستقیم اور سیدھا رکھا، اس کے کانوں کو (حق بات کا) سننے والا بنایا اور اس کی آنکھوں کو (وحدانیت کے دلائل ومشاہدات اور پروردگار کے نظام قدرت وصنعت کا) دیکھنے والا بنایا، بس کان تو قیف ہیں اور آنکھ اس چیز کو قائم اور ثابت رکھنے والی ہے جس کو دل محفوظ کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ شخص فلاح یاب ہوا جس کے دل کو اللہ نے یا خود اس شخص نے اپنے دل کو (حق بات اور برحق چیزوں کا) محافظ بنایا۔ (احمد، بیہقی) تشریح قمع کے معنی قیف کے ہیں اور قیف ٹونٹی دار یا نلکی دار ظرف کی صورت میں اس آلہ کو کہتے ہیں جس کو بوتلوں وغیرہ کے منہ پر رکھ کر ان میں کوئی رقیق چیز جیسے تیل وغیرہ بھرتے ہیں۔ پس کان تو قیف ہیں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح قیف کے ذریعہ کوئی رقیق چیز بوتلوں وغیرہ میں ڈالی جاتی ہے اسی طرح کان وہ ذریعہ ہے جو حق بات کو انسان کے قلب و دماغ میں اتارتا ہے بایں طور کہ کان اس بات کو سنتا ہے اور قلب و دماغ اس کو قبول کرتے ہیں۔ اور آنکھ اس چیز کو قائم اور ثابت رکھنے والی ہے الخ ۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جن چیزوں کو آنکھیں دیکھتی ہیں دل ان کا ظرف ہوتا ہے یا وہ چیزیں دل کو اپنا ظرف بناتی ہیں کہ وہ آنکھوں کے ذریعہ دل میں داخل ہوتی ہے ! گویا جس طرح کان، حق بات کو دل تک پہنچاتا ہے اس طرح نظر آنے والے حقائق آنکھوں کی راہ سے دل میں داخل ہوتے ہیں اور اس کے اندر قائم وثابت رہتے ہیں ! حدیث کے آخری جزء میں گویا ان دونوں چیزوں کا نتیجہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جس شخص نے حق بات کو سن کر اور برحق چیزوں کو دیکھ کر انہیں اپنے دل میں اتار لیا اور ان کی محافظت کی یعنی بہر صورت حق پر عامل رہا تو وہ فلاح یاب قرار پائے گا۔

【48】

کفار وفجار کو دنیاوی مال ودولت کا ملنا گویا انہیں بتدریج عذاب تک پہنچانا ہے

حضرت عقبہ بن عامر (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو اس کے گناہ و معصیت میں مبتلا ہونے کے باوجود اس کی محبوب ترین چیزیں (یعنی دنیاوی مال و دولت اور جاہ و حشمت وغیرہ) دیتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ (یعنی اس کو اس کی محبوب ترین چیزیں دینا) استدراج ہے۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے استشہاد کے طور پر یہ آیت تلاوت فرمائی (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِه فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَا اُوْتُوْ ا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ ) 6 ۔ الانعام 44) جب کافر اس نصیحت کو بھول گئے جو انہیں کی گئی تھی (یعنی اللہ تعالیٰ کا عہد، یا یہ کہ جب انہوں نے حق تعالیٰ کی نافرمانی کی) تو ہم نے ان پر (دنیا کی نعمتوں کی) ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں پر خوش ہوئے جو انہیں دی گئی تھیں (یعنی جاہ ومال صحت و خوشحالی اور درازیئ عمر اور دیگر نعمتیں) تو ہم نے ان کو (اپنے عذاب میں) پکڑ لیا اور وہ نہایت حیران و ششدر رہ گئے رواہ احمد) تشریح لغت میں استدراج کے معنی ہیں درجہ بدرجہ سے جانا ! جیسے کسی کو اوپر پہنچانے کے لئے زینہ کی ایک پیڑی پر چڑھا جائے پھر دوسری پیڑی پر چڑھا جائے اور پھر تیسری پیڑی پر، اسی طرح یکے بعد دیگرے ایک ایک پیڑی پر چڑھاتے ہوئے اس کو آخرت لے جایا جائے ! اور بندہ کے حق میں اللہ تعالیٰ کا استدراج یہ ہے کہ جب کوئی انسان گناہ و معصیت میں مبتلا ہو تو اس کو دنیا کی خوش کن نعمت عطا کرے یا اس کی کوئی بات یا خواہش پوری کردے اور پھر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دے تاکہ وہ انسان یہ گمان کرے کہ یہ میرے حق میں پروردگار کی طرف سے لطف و کرم ہے، چناچہ اپنی کھال میں مست رہے کہ نہ تو اپنی بدعملیوں سے توبہ کرنے کی طرف متوجہ ہو اور نہ اپنے گناہ پر استغفار کرے اور پھر ایک دم عذاب الٰہی میں پکڑا جائے پس یہ گویا حق تعالیٰ کی طرف سے اس بندہ کو بتدریج عذاب کی طرف لے جانا ہے جیسا کہ کسی کو درجہ بدرجہ چڑھا کر اوپر لے جایا جائے اور پھر اچانک اس کو وہاں سے نیچے پھینک دیا جائے۔ حاصل یہ کہ جس گناہ گار یا کافر کو دنیا کی ترقی یا بھلائی حاصل ہوجائے اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ حق تعالیٰ اس کو نواز رہے ہیں بلکہ اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اس کی تمام تر دنیاوی ترقی و کامیابی دراصل اس کو بتدریج اس مرحلہ تک پہنچانا ہے جہاں اچانک عذاب الٰہی اس کو تباہ و برباد کردے گا۔ ، خواہ وہ مرحلہ کتنے ہی طویل عرصہ کے بعد آئے۔

【49】

اہل زہد کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ قلیل مقدار میں بھی اپنے پاس دنیاوی مال رکھیں

حضرت ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ اصحاب صفہ میں سے ایک شخص نے وفات پائی اور ایک دینار کی صورت میں اپنا ترکہ چھوڑا رسول کریم ﷺ نے (جب اس دینار کو دیکھا تو) فرمایا کہ یہ دینار (اس شخص کی پیشانی، پشت اور پہلو پر) ایک داغ ہے حضرت ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ پھر (کچھ دنوں بعد) صفہ والوں میں سے ایک اور شخص نے وفات پائی اور اس نے اپنے ترکہ میں دو دینار چھوڑے، رسول کریم ﷺ نے (ان دیناروں کو دیکھ کر فرمایا۔ یہ دو دینار دو داغ ہیں۔ (احمد، بیہقی) تشریح صفہ والے ان غریب اور گھر بار نہ رکھنے والے صحابہ (رض) کی جماعت کو کہتے ہیں جو مستقل طور پر صفہ مسجد میں رہا کرتی تھی اور صفہ مسجد دراصل مسجد نبوی ﷺ سے متصل ایک مسقف (چھت دار) جگہ تھی اور بالکل شروع میں، جب کہ مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس تھا یہی جگہ مسجد کے طور پر استعمال ہوتی تھی، لیکن جب کچھ عرصہ بعد کعبۃ اللہ کو قبلہ قرار دیا گیا تو اس جگہ کو اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا اور اس کے برابر میں مسجد نبوی ﷺ بنائی گئی ! صحابہ (رض) کی جو مقدس جماعت صفہ میں رہتی تھی وہ ستر اسی نفر پر مشتمل تھی۔ یہ تعداد مختلف اوقات میں کم و زیادہ بھی ہوتی رہتی تھی، ان صحابہ (رض) کا چونکہ نہ کوئی مکان تھا نہ ان کے پاس کچھ مال و اسباب تھا اور نہ کوئی کاروبار زندگی اور اہل و عیال رکھتے تھے اس لئے وہ کامل زہد اختیار کئے ہوئے تھے اور اللہ کی ذات پر توکل و اعتماد کے سہارے اس جگہ پڑے رہتے تھے اور ہمہ وقت ذکر وشغل، ریاضت و مجاہدہ اور تلاوت قرآن مجید میں مشغول اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث پاک کو یاد و محفوظ کرنے میں منہمک رہ کر ہمہ وقت انوار و برکات حاصل کرتے رہتے تھے، ان حضرت کو اضیاف اللہ (اللہ کے مہمان) کہا جاتا ہے ! جو صحابہ (رض) استطاعت رکھتے تھے وہ ان کی خدمت کیا کرتے تھے، ان کی ضروریات زندگی کی فراہمی میں حتی الامکان سعی کرتے تھے، کچھ کو ان کی جگہ پر نہایت عزت و احترام کے ساتھ کھانے پینے کا سامان پہنچاتے، کچھ کو بطور مہمان اپنے گھر لے جاتے اور وہاں ان کی میزبانی کے فرائض انجام دیتے اور ان میں سے کتنے ہی حضرات ایسے تھے جو آنحضرت ﷺ کی خصوصی عنایات و توجہ سے بہرہ مندہ ہوتے تھے اور سرکار رسالت پناہ ﷺ کے آستانہ پاک سے کھانا کھاتے تھے اور اسی وجہ سے کبھی کبھی آنحضرت ﷺ کے ایسے معجزات کے صادر ہونے کا باعث بھی بنتے تھے جس سے تھوڑا سامان خوراک حیرت انگیز طور پر سب کے لئے کافی ہوجاتا تھا، مثال کے طور پر، کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ دودھ کا صرف ایک پیالہ، جو ایک شخص کی بھی غذائی ضرورت کے لئے کافی ہوجانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اعجاز نبوی ﷺ کے طفیل ان سب حضرات کو شکم سیر کردیتا تھا ! آنحضرت ﷺ کو حکم الٰہی تھا کہ آپ ﷺ ان حضرات کے درمیان تشریف رکھا کریں، چناچہ آپ ﷺ ان حضرات کو وقتا فوقتا اپنے حضور شرف یابی سے نوازتے رہتے تھے اور کسی وقت بھی انہیں اپنی بیچارگی اور لاچاری کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے۔ آپ ﷺ ان سے فرمایا کرتے تھے کہ (تم لوگ اپنے کو تنہا اور بےکس مت سمجھو) میں تم میں ہی سے ہوں۔ نیز ان کو یہ بشارت دیتے کہ آخرت میں تم میرے ساتھ رہو گے اور میرے ہمراہ جنت میں جاؤگے ! مشہور صحابی حضرت ابوہریرہ (رض) بھی انہی (صفہ والے) صحابہ میں سے تھے، (رض) ۔ واضح رہے کہ صوفیاء کی جماعت کو (زہد و توکل اور دنیا سے ترک تعلق) اہل صفہ کے ساتھ مشابہت و مناسبت حاصل ہے اور اگرچہ لفظ صوفیہ کو صفہ سے مشتق قرار دینا اور یہ کہنا کہ مسلک زہد و توکل اختیار کرنے والے کو صوفی کہنا لفظ صفہ کی بنیاد پر ہے، ایک غیر حقیقی بات ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ معنوی طور پر صوفیاء کی نسبت اہل صفہ کی طرف کی جاسکتی ہے۔ اب اصل حدیث کی طرف آئیے ! اہل صفہ میں سے وفات پانے والے حضرات کا اپنے پیچھے دینار چھوڑ جانا اور اس پر آنحضرت ﷺ کا وعید بیان فرمانا اس بنیاد پر تھا کہ اگرچہ حاجت و ضرورت کے تحت ایک دینار یا دو دینار جیسا معمولی سا دنیاوی مال بچا کر رکھنا اور جمع کرنا شرعی طور پر گناہ کا موجب نہیں ہے اور نہ یہ کوئی ایسی بات ہے جس کو غیر مناسب قرار دیا جاسکے بلکہ اگر کوئی شخص ادائے حقوق (مثلاً زکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی) کے بعد پورا خزانہ بھی جمع کرلے اور دنیا بھر کا مال و اسباب اپنے پاس رکھے تو اس کو خلاف شرع نہی کہیں گے الاّ یہ کہ کوئی شخص اس طرح مال وزر کا انبار لگائے اور جمع کرے کہ نہ تو اس کی زکوٰۃ ادا کرے اور نہ دوسرے مال حقوق کی ادائیگی کا لحاظ رکھے تو بیشک یہ ممنوع ہوگا، لیکن اس حقیقت کے باوجود اس سے انکار نہی کیا جاسکتا کہ اہل زہد اور تارکان دنیا جو سب کچھ چھوڑ کر، سب سے آنکھیں بند کر کے اور اہل فقر کی محبت کر کے باب توکل وفقر پر بیٹھتے ہیں ان کی شان جداگانہ ہے، ان کے پاس ضرورت سے زائد دنیاوی مال و اسباب کی حقیر سے حقیر مقدار کا بھی ہونا غیرموزوں ہے۔ لہٰذا حضور ﷺ کا مذکورہ ارشاد گویا فقروتجرد کے اس وعدے کے خلاف سخت تنبیہ وسرزنش کے طور پر ہے جو حقیقت حال سے مطابقت نہ رکھے۔ اور غالباً اسی وجہ سے راوی نے ان دونوں حضرات کے ذکر میں یہ نہیں کہا کہ اصحاب میں سے ایک شخص نے وفات پائی ۔ بلکہ یہ کہا کہ اصحاب صفہ میں سے ایک شخص نے وفات پائی گویا انہوں نے ان دونوں صحابیوں کی طرف صفہ کی نسبت خاص طور پر کی تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ اگر کوئی دوسرا صھابی (رض) اپنے ترکہ میں ایک یا دو دینار چھوڑ کر وفات پاتا تو یہ کوئی اہم بات نہیں تھی لیکن یہ ان اصحاب صفہ میں سے دو شخصوں کا ذکر ہے جن کی شخصیات کا امتیاز ہی زہد وفقر تھا، لہٰذا ان اصحاب صفہ کی صحبت ومعیت میں رہنا اور خود کو ان کی امتیازی خصوصیت (یعنی زہد وفقر اور توکل) کا حامل قرار دینا، مطلق درہم و دینار جمع کرنے کے منافی ہے۔ ملا علی قاری (رح) نے اس حدیث کی وضاحت میں ایک دوسرے رخ سے بحث کی ہے، ان کے منقولات کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان دونوں صحابہ (رض) کے بارے میں جو یہ وعید بیان فرمائی وہ اس امر کے پیش نظر تھی کہ وہ دونوں صحابہ (رض) دراصل ان خستہ ھال و مسکین لوگوں (یعنی اصحاب صفہ) میں سے تھے جن کے فقروفاقہ کی وجہ سے ان پر دوسرے لوگ اپنا مال خیرات کرتے تھے اور اللہ واسطے ان کو کھلاتے پلاتے تھے، اس طرح وہ دونوں حضرات یا تو ازروئے مال یا ازروئے حال بمنزلہ سائلین کے تھے اور جیسا کہ معلوم ہے، کسی بھی شخص کے لئے یہ قطعا حلال نہیں ہے کہ اگر اس کے پاس ایک دن کا بھی بقدر کفاف کھانے پینے کا سامان ہو تو وہ دست سوال دراز کرے، لہٰذا وہ دنوں حضرات اپنے پاس دینار ہونے کے باوجود ان چیزوں میں سے جو کچھ کھاتے پیتے تھے جو دوسرے لوگ صدقہ وخیرت کے طور پر ان کے پاس لاتے تھے، وہ گویا ان کے حق میں حرام تھا۔ اسی طرح یہ مسئلہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جو شخص اپنے آپ کو فقراء و مساکین کی صورت میں ظاہر کرے، مثلاً پھٹے پرانے کپڑے پہنے اور خستہ حالی کے ساتھ رہے یا صوفیاء یا مشائخ کی وضع قطع اختیار کرے اور اس کے پاس از قسم نقد یا مثل نقود (یعنی سونا، چاندی، درہم و دینار یا نوٹ اور روپیہ پیسہ وغیرہ) کچھ ہو اور اس کے باوجود لوگوں کے ہاتھ میں سے وہ چیز لے لے اور قبول کرلے جو کسی کو صدقہ و خیرات کے طور پر دینے کے لئے ہو اور پھر وہ اس چیز کو کھائے پئے یا اپنے مصرف میں لائے تو وہ چیز اس کے حق میں حرام ہوگی۔ اسی طرح وہ شخص اپنے آپ کو عالم یا صالح یا شریف ظاہر کرے اور حقیقت کے اعتبار سے وہ ایسا نہ ہو اور لوگ اس کو اس کے علم یا شرافت کی وجہ سے کچھ دیں تو ان کی دی ہوئی وہ چیز اس کے حق میں حرام ہوگی۔ منقول ہے کہ مشہور بزرگ حضرت شیخ ابواسحق گا ذروئی نے ایک فقراء کو ایک ایسے کھانے پر دیکھا جو مستحقین کے لئے تیار کیا گیا تھا، تو انہوں نے ان فقرا سے فرمایا تم لوگ حرام کھا رہے ہو ؟ ان سب فقراء نے یہ سن کر کھانے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، اس کے بعد حضرت شیخ (رح) نے فرمایا دیکھو یہ کھانا صرف ایسے لوگوں کے لئے ہے جن کے پاس از قسم دنیاوی مال کچھ بھی نہ ہو، لہٰذا تم سے جو شخص ایسا ہو وہ تو اس کھانے کو کھائے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا نہ کھائے، چناچہ اس کھانے کو کچھ نے کھایا اور کچھ وہاں سے ہٹ گئے۔ (یہ دیکھ کر) حضرت شیخ (رح) نے فرمایا۔ سبحان اللہ کھانا تو ایک ہی ہے لیکن کچھ لوگوں کے لئے حلال ہے اور کچھ لوگوں کے لئے حرام۔ اس سے واضح ہوا کہ وہ اوقاف کہ جو محض فقراء کے لئے ہیں ان کی آمدنی اور ان کے وسائل کو کسی بھی ایسے شخص کا اپنے مصرف میں لانا مطلقا حلال نہی ہے جو شرعی طور پر غنی ہو۔ چناچہ ان مکانات اور کمروں میں جو فقراء و مساکین کے لئے وقف ہیں ایسے لوگوں کا مفت رہائش اختیار کرنا حرام ہے جو فقیر و مسکین نہ ہو جیسا کہ علامہ ابن ہمام (رح) نے صراحت کی ہے کہ غنی پر حرام ہے کہ وہ خانقاہوں کے وقف حجروں میں مفت رہائش اختیار کرے۔ لہٰذا اس قول کو قابل اعتبار نہیں سمجھنا چاہئے جس کا حاصل یہ ہے کہ حرمین شریفین کے اوقاف فقیر وغنی ہر ایک کے لئے ہیں کیونکہ اگر اس بات کو صحیح بھی مان لیا جائے کہ واقعۃً وقف کرنے والوں نے ان اوقاف کو عام رکھا تھا تو بھی ان اوقاف سے غنی کو فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہوگا۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے نزدیک غنی کے حق میں کسی چیز کو وقف کرنا صحیح نہیں ہے جب کہ وہ غیر محصور ہو۔

【50】

دنیاوی مال واس جمع کرنے سے گریز کرو

حضرت معاویہ بن سفیان (رض) سے روایت ہے کہ وہ ایک دن اپنے ماموں حضرت ابوہاشم بن عتہ (رض) کے پاس ان کی عیادت کو گئے تو حضرت ابوہاشم ان کو دیکھ کر رونے لگے، حضرت معاویہ (رض) نے پوچھا کہ ماموں جان آپ کیوں روتے ہیں ؟ کیا بیماری کی شدت نے آپ کو قلق و اضطراب میں مبتلا کردیا ہے یا دنیا کی حرص و تمنا نے ؟ انہوں نے فرمایا عزیز من ! تم نے جو کچھ کہا ہے ایسا ہرگز نہی ہے، بلکہ قلق و اضطراب کا باعث یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ہم کو ایک وصیت کی تھی اور میں اس پر عمل کرنے سے قاصر رہا ہوں ! معاویہ نے پوچھا کہ وہ وصیت کیا تھی ؟ انہوں نے کہا، میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تمہارے لئے دنیا کے مال میں سے بس اسقدر جمع کرنا کافی ہے کہ تمہارے پاس ایک خادم ہو اور اللہ کی راہ میں لڑنے کے لئے ایک سواری ہو۔ اور میرا خیال ہے کہ میں نے ان دونوں چیزوں سے کہیں زیادہ مال و اسباب اپنے پاس رکھا ہے۔ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ) تشریح لفظ ارانی مفہوم کے اعتبار سے اظن کے معنی میں ہے یعنی میں گمان کرتا ہوں اور بعض نسخوں میں یہ لفظ ہمزہ کے زبر کے ساتھ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میں دیکھتا ہوں یا میں جانتا ہوں۔

【51】

آخرت کی دشوار گزار راہ سے آسانی کے ساتھ گزرنا چاہتے ہو تو مال ودولت جمع نہ کرو

حضرت ام درداء (رض) کہتی ہیں کہ ایک دن میں نے اپنے شوہر حضرت ابودرداء (رض) سے کہا آپ کو کیا ہوگیا ہے کہ آپ (حضور ﷺ سے یا صحابہ (رض) سے) مال و اسباب اور منصب نہیں مانگتے جیسا کہ فلاں فلاں لوگ مانگتے ہیں ؟ حضرت ابودرداء (رض) نے یہ سن کر کہا کہ میں کسی سے مال و دولت کی خواہش کرنے اور اس کو جمع کرنے سے اس لئے گریز کرتا ہوں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے (یاد رکھو) تمہارے سامنے ایک دشوار گذار گھاٹی ہے اس سے وہ لوگ آسانی اور سہولت کے ساتھ نہیں گزر سکتے جو گرانبار ہیں۔ چناچہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ مال و دولت طلب کرنے سے گریز کر کے اور کم سے کم دنیاوی مال و اسباب پر صبر و قناعت کر کے ہلکار ہوں تاکہ اس گھاٹی سے آسانی و سہولت کے ساتھ گزر سکوں۔ تشریح دشوار گذار گھاٹی سے مراد موت، قبر، حشر اور ان کے سلسلہ میں پیش آنے والی ہولناکیاں اور شدائد ہیں۔ اور گرانبار سے مراد وہ لوگ ہیں جو مال و دولت، منصب وجاہ اور دنیاوی ترفع و خوشحالی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر رکھتے ہیں، حضور ﷺ کے ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ مومن کی دنیاوی زندگی اور اس کی ابدی قرار گاہ (جنت) کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ ایک دشوار گذار گھاٹی سے گزرنے کے بعد ہی طے ہوتا ہے کہ اور ظاہر ہے کہ جس شخص کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے کسی دشوار گذار گھاٹی سے گزرنا ہوتا ہے وہ اپنے ساتھ کوئی بوجھ نہیں رکھتا اور زیادہ سے زیادہ ہلکا رہ کر ہی آسانی کے ساتھ اس گھاٹی سے گزر سکتا ہے۔ لہٰذا اگر تم اپنی آخری منزل یعنی جنت تک آسانی کے ساتھ پہنچنا چاہتے ہو تو خود کو دنیا کے مال و اسباب اور جاہ وحشم کی گرانباری سے ہلکا رکھو تاکہ تمہارے اور جنت کے درمیان جو دشوار گزار گھاٹی ہے اس کو طے کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے اور اسی لئے کہا گیا ہے فازالمخفون وہلک المثقلون یعنی سب سر لوگ کامیاب ہوئے اور گرانبار لوگ ہلاکت میں پڑگئے۔

【52】

دنیا داری سے اجتناب کرو

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن، مجلس نبوی ﷺ میں موجود صحابہ سے رسول کریم ﷺ نے پوچھا کیا کوئی شخص پانی پر اس طرح چل سکتا ہے کہ اس کے پاؤں تر نہ ہوں ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ایسا تو ممکن نہیں حضور ﷺ نے فرمایا۔ یہی حال دنیا دار کا ہے کہ وہ گناہوں سے محفوظ و سلامت نہیں رہتا۔ (ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے) تشریح جس شخص پر دنیا کی محبت غالب ہو، وہ تو کسی حالت میں بھی دنیا داری کے ساتھ گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا اور جس شخص پر گو دنیا کی محبت غالب نہ ہو لیکن اس کا بھی مال و دولت اور دنیاوی امور میں مبتلا ہونا اس کے دامن کو عام طور پر گناہوں سے آلودہ ہونے سے محفوظ نہیں رکھتا۔ اس ارشاد گرامی کا حاصل دولتمندوں اور مالداروں کو سخت خوف دلانا اور زہد دنیا کی طرف راغب کرنا ہے نیز اس امر کو بھی واضح کرنا مقصود ہے کہ ہر حالت میں آخرت کے نفع و نقصان کو دنیا کے نفع و نقصان پر ترجیح دینا چاہئے دنیاوی مال و دولت کے حامل وطلب گار کے لئے یہی احساس کافی ہونا چاہئے کہ آخرت کا نقصان و خسران فقر کی بہ نسبت مالداری میں زیادہ پوشیدہ ہے اور فقر کی یہی فضیلت کیا کم ہے کہ فقراء (جنہوں نے اپنے فقر و افلاس پر صبر و قناعت اختیار کیا ہوگا) جنت میں مالداروں سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور ﷺ کو دنیوی امور سے اجتناب اور اخروی امور میں انہماک کا حکم

【53】

دنیا داری سے اجتناب کرو

حضرت جبیر بن نفیر (تابعی) (رح) بطریق ارسال روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ مجھ پر یہ وحی نازل نہیں ہوئی ہے کہ میں مال و دولت جمع کروں اور تاجر بنوں بلکہ مجھ پر یہ وحی نازل ہوئی ہے کہ آپ ﷺ اپنے پروردگار کی حمدوتعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کیجئے اور سجدہ کرنے والوں (یعنی نمازیوں) میں سے بنیں۔ نیز اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہیے یہاں تک کہ آپ ﷺ کی دنیاوی زندگی کا آخری وقت آجائے۔ اس حدیث کو بغوی نے شرح السنہ میں اور ابونعیم نے کتاب حلیہ میں ابومسلم سے نقل کیا ہے۔

【54】

امور خیر کی نیت سے دنیا حاصل کرنے کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچنے اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے اور اپنے ہمسایہ کے ساتھ احسان کرنے کی خاطر جائز وسائل و ذرائع سے دنیا (کے مال و اسباب) کو حاصل کرے، وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ (کمال نور اور نہایت مسرت و سرور کی وجہ سے) چودھویں رات کے چاند کی مانند (روشن ومنور) ہوگا۔ اور جو شخص مال و دولت میں اضافہ کرنے (اپنی امارت و دولت مندی کے ذریعہ غرباء و فقراء پر) فخر کرنے اور (محض اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لئے صدقہ و خیرات اور داد و دہش کی صورت میں) نام و نمود کے لئے (حرام وسائل و ذرائع تو الگ رہے) جائز وسائل و ذرائع سے (بھی) دنیا (کے مال و اسباب) کو حاصل کرے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوگا۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں ابونعیم نے کتاب حلیہ میں نقل کیا ہے۔ تشریح سوچنے اور عبرت حاصل کرنے کی بات ہے کہ جب زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی حرص، ایک دوسرے پر اظہار فخر اور نام و نمود کے لئے دنیا کمانے اور سامان دنیا حاصل کرنے میں حلال ذرائع اختیار کرنے والے کا یہ حشر ہوگا تو ان لوگوں کا کتنا برا انجام ہوگا جو مذکورہ بالا غیر شرعی مقاصد کے لئے حرام وسائل و ذرائع سے مال و دولت حاصل کرتے ہیں ؟ چناچہ حضور ﷺ نے حدیث میں حرام مال کمانے والوں کا ذکر شاید اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے نہیں فرمایا کہ یہ کام کسی مسلمان کا تو ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اول تو وہ مذکورہ مفاسد کی خاطر دنیا کمائے اور پھر وسائل و ذرائع بھی حرام و ناجائز اختیار کرے یا ایسے لوگوں کا ذکر اس لئے نہیں فرمایا کہ ان کا انجام بد حدیث کے انداز بیان اور طرز مضمون سے خود بخود واضح ہوجاتا ہے۔

【55】

خیر وشر کے خزانے اور ان کی کنجی

حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ خیر (یعنی مال و دولت کے انبار) خزانے ہیں اور ان خزانوں کے لئے کنجیاں ہیں (یعنی اللہ اپنے جن نیک اور مخیر بندوں کو مال و دولت سے نوازتا ہے وہ گویا ان خدائی خزانوں کی کنجیاں ہوتے ہیں کہ ان کے مالی عطیات اور صدقہ و خیرات کے ذریعہ فقیر و مفلس اور ضرورتمند بندگان اللہ فائدہ اٹھاتے ہیں) پس (دنیوی کامیابی اور ترقی اور اخروی فلاح وسعادت کی) بشارت ہو اس بندہ کو کہ جس کو اللہ نے خیر (یعنی نیکیوں و بھلائیوں اور مالی بخشش وعطاء) کے دروازے کھلنے اور برائی (یعنی بخل و خست اور ضرورتمندوں سے بےپروائی کے دروازے بند ہونے کا سبب و ذریعہ بنایا ہے اور دین و دنیا کی ہلاکت و تباہی ہے اس بندہ کے لئے جس کو اللہ نے برائی کے دروازے کھلنے اور خیر کے دروازے بند ہونے کا سبب و ذریعہ بنایا ہے یعنی جو مالدار اپنی دولت کو بڑھانے کے چکر میں رہتا ہے اور ضرورتمند بندگان اللہ کی خبر گیری اور امور خیر میں خرچ کرنے کی اہمیت سے بےپرواہ رہ کر گویا بخل و خست میں مبتلا ہوتا ہے اس کے لئے تباہی ہی تباہی ہے۔ (ابن ماجہ) تشریح مذکورہ بالا ترجمہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی اشعۃ اللہمعات ماخوذ ہے، جہاں تک ملا علی قاری (رح) کا تعلق ہے تو انہوں نے حدیث کی وضاحت اس طور پر کی ہے کہ ہذا الخیر میں خیر جنس خیر (یعنی ہر طرح کی بھلائی) مراد ہے، خزائن سے مراد خیر کی انواع کثیر ہیں یعنی وہ بھلائیاں مختلف انواع رکھتی ہیں اور ان کو اللہ کے بندوں کے درمیان اس طرح مخزون و مرکوز کیا گیا ہے جیسے خزانوں کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے لتلک الخزائن مفاتیح (ان خزانوں کے لئے کنجیاں ہیں) میں کنجیوں سے مراد اللہ کے ان نیک بندوں کے ہاتھ قوائے عمل ہیں جو اس روئے زمین پر امور کائنات میں تصرف و تسلط کے لئے اللہ کے وکیل و نائب کی حیثیت رکھتے ہیں مفتاحا للخیر خیر کی کنجی سے مراد، ان بندوں کا ان بھلائیوں اور نیکیوں کو اختیار کرنا اور پھیلانا ہے، خواہ وہ علم و عمل کو اختیار کرنے کی شکل میں ہو۔ اور مفتاحا للشر شر کی کنجی سے مراد خیر و بھلائی کے راستہ کو مسدود کرنا اور بدی و برائی کے راستہ کو کھولنا ہے اور اس برائی کے راستہ کا کھلنا خواہ کفر و شرک وتکبر و سرکشی اور بد عملی و فتنہ انگیزی کو اختیار کرنے کے ذریعہ ہو یا بخل و خست اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ بدسلوکی اختیار کرنے کی صورت میں ہو۔ امام راغب (رح) کہتے ہیں کہ خٰیر اس چیز کو کہتے ہیں جس کی طرف ہر انسان رغبت رکھتا ہے جیسے علم و عقل اور احسان و مہربانی وغیرہ اور اسی طرح ہر وہ چیز جو نفع پہنچاتی ہے اور جو چیز خیر کی ضد اور اس کے برعکس ہوتی ہے اس کو شر کہتے ہیں۔ نیز خیر و شر اگرچہ ایک دوسرے کی ضد اور مخالف ہیں مگر کبھی کبھی ان دونوں میں اتحاد ذاتی اور فرق اعتباری بھی ہوتا ہے یعنی ایک ہی چیز دو اعتبار سے خیر اور شر دونوں کی حامل بن سکتی ہے کہ ایک شخص کے حق تو وہ خیر و بھلائی کا ذریعہ ہو اور دوسرے شخص کے حق میں وہی چیز شر اور برائی کا سبب بن جائے جیسے مال ہی کی مثال لے لیجئے وہ ایک شخص مثلا عمر کے حق میں تو خیر کا ذریعہ ہوتا ہے جب کہ عمر نے اس کو جائز طور پر حاصل کیا ہو اور جائز مصارف میں اس کو خرچ کیا اور وہی مال ایک دوسرے شخص مثلاً زید کے حق میں شر کا سبب بن سکتا ہے جب کہ زید اس مال پر ناجائز طور سے تصرف و قبضہ کرے۔ اسی طرح علم کی مثال بھی ہے کہ ایک ہی وقت میں بعض لوگوں کی نسب سے اللہ اور بندہ کے درمیان حجاب بن جاتا ہے اور ان لوگوں پر عزاب الٰہی کا سبب ہوتا ہے جب کہ وہ لوگ اس علم سے ہدایت و راستی حاصل کرنے کی بجائے ضلالت و گمراہی میں پھنس جائیں اور وہی علم دوسرے لوگوں کے حق میں اللہ کی معرفت و قربت اور ایمان و یقین کا ذریعہ بنتا ہے جب کہ وہ لوگ اس علم سے ہدایت و راستی حاصل کریں اور اس کے صحیح تقاضوں پر عمل کریں ! اسی پر اور عبادات کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان میں سے بعض عبادتیں، عجب و غرور کی باعث ہوتی ہیں جب کہ ان کو اختیار کرنے والا ریاء و نمائش اور نام و نمود کا راستہ اختیار کرے اور بعض عبادتیں ایمانی و روحانی کیف و سرور اور نورانیت اور ذوق عبودیت کا باعث بنتی ہیں جب کہ ان کو اختیار کرنے والا اخلاص و للہیت کے جذبہ سے سرشار ہو ! دنیاوی چیزوں مثلاً گھوڑے آلات حرب اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کے بارے میں بھی یہ بات ہے کہ کبھی تو یہ چیزیں دشمنان اللہ کے ساتھ جہاد کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں اور اس طرح سے بندہ کو جنت میں لے جانے کا وسیلہ ہوتی ہے اور کبھی یہی چیزیں فتنہ و فساد پھیلانے یہاں تک کہ اللہ کے نہایت نیک و برگزیدہ بندوں (جیسے انبیاء و اولیاء) کے قتل و خونریزی کا ذریعہ بن جاتی ہے اور ان کی وجہ سے انسان دوزخ کے اسفل ترین درجہ میں پہنچ جاتا ہے۔

【56】

ضرورت سے زیادہ عمارت بنانے کے بارے میں وعید

حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کسی بندہ کے مال و دولت میں برکت عطا نہیں ہوتی (یعنی اس کو اپنا مال اور روپیہ پیسہ بھلائی کے امور اور عقبی کو سنوارنے والی چیزوں میں خرچ کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی) تو وہ اس مال کو پانی اور مٹی میں ملا دیتا ہے یعنی اپنی دولت ضرورت سے زائد عمارتیں بنانے اور ان کی زینت و آرائش میں خرچ کرتا ہے

【57】

ضرورت سے زیادہ عمارت بنانے کے بارے میں وعید

حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (لوگو) تم عمارتوں میں حرام مال لگانے سے پرہیز کرو، کیونکہ عمارتوں میں حرام مال لگانا (دین یا) اس عمارت کی خرابی کی بنیاد اور جڑ ہے ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا۔ تشریح مذکورہ ارشاد گرامی سے یہ مفہوم اخذ کیا جاتا ہے کہ اگر عمارتوں میں حلال مال لگایا جائے تو اس سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی اور بعض حضرات نے عمارتوں میں حرام مال لگانے سے پرہیز کرو کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان حرام چیزوں کو اختیار کرنے سے اجتناب کرو جو عمارتیں بنانے کے سلسلہ میں پیش آتی ہیں ! گویا اس اعتبار سے چیز وہی ضرورت سے زائد عمارت کا بنانا ہے۔ فی البنیان میں لفظ فی کے وہی معنی ہیں جو مثلاً اس جملہ کے ہیں کہ، اس زنجیر میں دو سیر لوہا ہے، ظاہر ہے کہ اس جملہ سے یہ مراد نہیں لیا جاتا کہ وہ زنجیر خالص دو سیر لوہا ہے۔ خرابی سے مراد دین کی خرابی اور آخرت کا نقصان ہے تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ خود عمارت کی خرابی مراد ہو یعنی عمارت کا بنانا، گویا اس کی خرابی و تباہی کی بنیاد رکھنا ہے کہ بہر صورت جو عمارت بنے گی وہ انجام کار تباہ و برباد ہوگی جیسا کہ کہا جاتا ہے لدو للموت وابنوا للخراب یعنی پیدا کرو مرنے کے لئے اور عمارت بناؤ خراب ہونے کے لئے۔ بعض شارحین نے یہ کہا ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ عمارتوں میں حرام امور اور گناہوں کے ارتکاب سے اجتناب کرو، یعنی عمارتیں اس لئے نہ بناؤ کہ ان میں فسق و فجور کے لئے اٹھنا بیٹھنا رکھو۔ اوباش لوگوں کے ساتھ مجلس بازی کرو اور ان کو ناجائز کاموں کا اڈہ بناؤ کیونکہ جس عمارت میں فسق و فجور کی گرم بازاری رہتی ہے اور اوباش لوگوں کی مجلسیں جمتی ہیں وہ آخرکار تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ ملا علی قاری (رح) نے اس جملہ کیونکہ عمارتوں میں حرام مال لگانا الخ کے دونوں احتمال بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ (ضرورت سے زائد) تعمیر میں حلال مال لگانا جائز ہے اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ حدیث مذکور جواز پر دلالت نہیں کرتی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ دوسرا احتمال باب کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

【58】

مال ودولت جمع کرنا بے عقلی ہے

حضرت عائشہ (رض) رسول کریم ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا دنیا اس شخص کا گھر ہے جس کے لئے (آخرت میں) مال نہیں ہے، نیز مال و دولت وہی جمع کرتا ہے جس کو عقل نہیں ہوتی ۔ (احمد، بیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا چونکہ فانی ہے اس لئے اس میں ٹھہرنا اور شادمانی کی زندگی اختیار کرنا ممکن نہیں ہے، لہٰذا جس شخص نے دنیا کو اپنا گھر سمجھا اور اس کے آرام و آسائش کو اصل شادمانی حیات جانا وہ ایسا شخص ہے کہ گویا اس کے لئے کوئی اور گھر نہیں ہے ! اسی طرح اور مال اس شخص کا ہے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو دنیا کا مال و اسباب حاصل ہو اور وہ اس کے مقصود اصلی یعنی بھلائیوں کے کام اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے امور میں خرچ نہ کرے، بلکہ دنیاوی لذات کے حصول اور نفسانی خواہشات کی تکمیل میں خرچ کرے۔ اس کا وہ مال گویا مالیت کے حکم سے خارج ہے کیونکہ اس نے اپنے مال کے اصل مقصد سے انحراف کر کے اور اس کو غیر مقصد مصارف میں خرچ کر کے ضائع کردیا۔ لہٰذا وہ اس شخص کی طرح ہوا جس کے پاس مال نہ ہو۔ مشکوۃ کے بعض حواشی میں یہ لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ دنیا کے گھر اور دنیا کے مال چونکہ بہت جلد فنا کے گھاٹ اتر جانے والی چیز ہے اور ان کی کوئی حیثیت و وقعت نہیں ہے اس لئے ان کو گھر اور مال کہنا ہی نہیں چاہئے، یہ مراد بھی حقیقت کے اعتبار سے پہلی وضاحت ہی سے ماخوذ ہے۔ حدیث کی ایک مراد یہ بھی بیان کی جاسکتی ہے کہ جس شخص نے دنیا کے گھر کو اپنا اصلی گھر قرار دیا اور اس پر مطمئن ہوگیا، یا جس نے اس گمان کے ساتھ دنیوی مال و دولت کو جمع کیا کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ سب باقی رہنے والا اور ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت (ان الذین لا یرجون لقائنا ورضوا بالحیوۃ الدنیا واطمأنوا بھا) ۔ اور ایک جگہ یوں فرمایا ہے۔ آیت (یحسب ان مالہ اخلدہ) ۔ تو وہ شخص آخرت میں گھر پانے اور وہاں کے غنا (یعنی نعمتوں) سے نوازے جانے کا مستحق نہیں ہوگا۔ مال و دولت وہی شخص جمع کرتا ہے الخ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص محض اس لئے مال و دولت جمع کرتا ہے کہ اس کو دنیا عزیز ہوتی ہے یا وہ اس مال و دولت کو ہمیشہ باقی رکھنے کی نیت رکھتا ہے اور یا محض دنیاوی لذات اور دنیاوی فائدوں کا حصول اس کے پیش نظر ہوتا ہے تو اس شخص کو عقل و دانش کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ حدیث کا اجمالی مفہوم یہ ہے کہ یہ دنیا اس قابل نہیں ہے کہ اس کو گھر سمجھا جائے ہاں جو شخص آخرت میں ملنے والے اپنے گھر سے محروم رہنا چاہتا ہے وہی اس دنیا کو اس قابل سمجھ سکتا ہے اسی طرح اس دنیا کی دولت کو وہی شخص دولت سمجھ سکتا ہے جو آخرت کی دولت سے محروم رہنا چاہتا ہے اور حاصل یہ کہ اس ارشاد گرامی کا مقصد گویا یہ احساس دلانا ہے کہ جن لوگوں کے لئے آخرت میں دار القرار (قرار گاہ) اور وہاں کی بےبہا دولت مقدر ہے ان کی نظر میں یہ دنیا اتنی حقیر اور اس قدر بےوقعت ہے کہ اس کے گھر اور اس کے مال و دولت کو گھر اور دولت کہا ہی نہیں جاسکتا۔

【59】

شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے

حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو ایک خطبہ کے دوران یہ فرماتے ہوئے سنا۔ یاد رکھو شراب پینا، گناہوں کو جمع کرنا ہے یعنی شراب چونکہ تمام برائیوں کی جڑ ہے اس لئے شراب پینے سے طرح طرح کے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور عورتیں شیطان کے جال ہیں اور دنیا کی محبت ہر گناہ کا سر ہے ۔ حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عورتوں کو موخر کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو موخر کیا ہے، یعنی قرآن مجید میں جہاں بھی عورتوں کا ذکر آیا ہے مردوں کے بعد آیا ہے، اسی طرح گواہی، جماعت اور فضیلت مرتبہ میں ان کو مردوں کے بعد رکھا گیا ہے، لہٰذ اتم بھی ان چیزوں میں ان کو مقدم نہ کرو اور مردوں پر فضیلت نہ دو رزین نے یہ پوری روایت نقل کی ہے اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت حسن بصری (رح) سے بطریق ارسال روایت کا صرف یہ حصہ نقل کیا ہے کہ حب الدنیا رأس کل خطیئۃ۔ تشریح طبرانی نے حضرت ابن عباس (رض) سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ الخمر الفواحش واکبر الکبائر من شربھا وقع علی امہ وخالتہ وعمتہ۔ (حضور ﷺ نے فرمایا) شراب بےحیائیوں کی جڑ ہے اور بڑے گناہوں میں سے ایک بہت بڑا گناہ ہے، جس شخص نے شراب نوشی کی اس نے (گویا) اپنی ماں، اپنی خالہ اور اپنی پھوپھی کے ساتھ ہم بستری کی۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص کو بت کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے لئے کہا گیا تو اس نے انکار کردیا، پھر اس سے ایک آدمی کو قتل کرنے کے لئے کہا گیا تو اس نے اس کام سے بھی انکار کردیا، پھر اس کو ایک عورت کے ساتھ زنا کرنے کے لئے کہا گیا تو اس نے اس سے بھی انکار کردیا اور پھر جب اس سے شراب پینے کے لئے کہا گیا تو اس نے شراب پی لی پس اس شخص نے گویا شراب ہی نہیں پی، بلکہ اس نے ساری برائیوں کا ارتکاب کیا جن کی طرف اس کو بلایا گیا تھا اور اس نے انکار کردیا تھا۔ دنیا کی محبت ہر گناہ کا سر ہے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا کی محبت ہی ہے جو انسان کو طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا کرتی ہے اور وہ اس محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ممنوعات اور گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس جملہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ ترک دنیا، ہر عبادت کا سر ہے، یعنی جو شخص دنیاوی لذات اور نفسانی خواہشات سے بےتعلق ہوجاتا ہے، وہ بس عبادت و اطاعت میں مشغول رہتا ہے اور ہر وقت اللہ کی رضا و خوشنودی کو سامنے رکھتا ہے، چناچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ جس شخص نے دنیا کی محبت کو اختیار کرلیا اس کو تمام مرشدین و مصلحین بھی راہ راست پر نہیں لاسکتے اور جس شخص نے ترک دنیا کو پسند کرلیا اس کو تمام دنیا کے مفسد و گمراہ لوگ بھی راہ راست سے بھٹکا نہیں سکتے۔ طیبی (رح) کہتے ہیں کہ حدیث کے تینوں جملے نہایت جامع ہیں، یعنی ان کے دائرے میں اکثر گناہ آجاتے ہیں کیونکہ ان تینوں چیزوں (یعنی شراب، عورت اور دنیا کی محبت) میں سے ہر ایک علیحدہ علیحدہ بہت سارے گناہوں کی جڑ ہے۔

【60】

دو خوفناک چیزوں کا ذکر

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اپنی امت کے بارے میں جن دو چیزوں سے بہت زیادہ ڈرتا ہوں، ان میں سے ایک تو خواہش نفس ہے، دوسرے (تاخیر عمل اور نیکیوں سے غفلت کے ذریعہ) درازی عمر کی آرزو ہے، پس نفس کی خواہش (جو حق کے مخالف اور باطل کے موافق ہوتی ہے) حق کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے سے روکتی ہے اور جہا تک درازی عمر کی آرزو کا تعلق ہے تو وہ آخرت کو بھلا دیتی ہے اور (یاد رکھو) یہ دنیا کوچ کر کے چلی جانے والی ہے اور آخرت کوچ کر کے آنے والی ہے (یعنی یہ دنیا لمحہ بہ لمحہ گزرتی چلی جا رہی ہے اور آخرت لمحہ بہ لمحہ تمہاری طرف چلی آرہی ہے) نیز ان دونوں (یعنی دنیا اور آخرت) میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں (یعنی کچھ لوگ تو وہ ہیں جو دنیا کے تابع و محکوم اور اس کی دوستی و چاہت رکھنے والے ہیں گویا وہ دنیا کے بیٹے ہیں اور کچھ لوگ وہی جو آخرت کے تابع و محکوم اور اس کے دوست و طلب گار ہیں گویا وہ آخرت کے بیٹے ہیں) لہٰذا اگر تم سے یہ ہو سکے کہ تم دنیا کے بیٹے نہ بنو تو ایسا ضرور کرو کہ (یعنی ایسے کام کرو اور ایسے راستے پر چلو کہ دنیا کا داؤ تم پر نہ چل سکے اور تم اس کی اتباع و فرمانبرداری اور اس کی محبت و چاہت کے دائرے سے نکل کر آخرت کے تابع و محکوم اور اس کے طلبگار بن جاؤ) کیونکہ تم آج دنیا میں ہو جو دارالعمل (عمل کرنے کی جگہ) ہے جہاں عمل کا حساب نہیں لیا جاتا (پس اس موقع کو غنیمت جانو اور اجل آنے سے پہلے عمل کرلو) جب کہ تم کل آخرت کے گھر میں جاؤ گے تو وہاں عمل کرنے کا کوئی موقع نہیں ملے گا (بلکہ وہاں صرف محاسبہ ہوگا) ۔ (بیہقی) تشریح دنیا کوچ کر کے چلی جانے والی ہے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا اپنے تمام سر و سامان کے ساتھ اس طرح فنا کی طرف جا رہی ہے کہ اس میں رہنے والوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا جس طرح کشتی کے اندر بیٹھا ہوا شخص کشتی کو چلتے ہوئے محسوس نہیں کرتا۔ حدیث کا یہ جملہ اور مابعد کا جملہ دراصل دنیا کے نہایت جلد گزرنے اور فناء ہوجانے کے مفہوم کو واضح کرتا ہے کیونکہ اگر آخرت اپنی جگہ قائم ہوتی اور صرف دنیا اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے اس کی طرف چلتی تو بھی یہ پوری گزر ہی جاتی اور اپنی عمر تمام کرلیتی اگرچہ اس کے سفر کو کچھ وقفہ اور مل جاتا مگر جب صورت حال یہ ہے کہ ادھر سے تو آخرت چلی آرہی ہے اور ادھر سے دنیا اس کی طرف کو چلی جا رہی ہے تو گویا وہ نقطہ کہ جہاں دنیا کا اختتام اور آخرت کی ابتدا ہونے والی ہے درمیان راہ میں ہی واقع ہوجائے گا اور مسافت بہت جلد ختم ہوجائے گی۔ جہاں عمل کا حساب نہیں لیا جاتا یہ بات ظاہر کے اعتبار سے اور فاسق و فاجر کی نسبت سے فرمائی گئی ہے ورنہ تو ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا۔ اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے۔

【61】

دنیا عمل کی جگہ ہے

حضرت علی (رض) سے بطریق موقوف روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا یہ دنیا ادھر سے کوچ کر کے منہ پھیرے ہوئے چلی جا رہی ہے اور آخرت ادھر سے کوچ کر کے ہماری طرف منہ کئے آرہی ہے (یعنی دنیا کا ہماری طرف سے منہ پھیر کر اپنی فنا کی طرف بڑھنا اور آخرت کا اپنی بقا کے ساتھ ہماری طرف متوجہ ہونا ظاہر ہو رہا ہے) اور ان دونوں (دنیا و آخرت) میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں، پس تم (نیک عمل اختیار کر کے اور آخرت کی طرف متوجہ ہو کر) آخرت کے بیٹے بنوا اور آخرت سے بےپروا اور دنیا کی طرف راغب و متوجہ ہو کر دنیا کے بیٹوں میں سے نہ ہو، یاد رکھو ! آج کا دن عمل کرنے کا ہے، حساب کا دن نہیں ہے (یعنی یہ دنیا دارالعمل ہے دارالحساب نہیں، یہاں بس زیادہ سے زیادہ نیک عمل کئے جاؤ) اور کل (قیامت) کا دن، حساب کا دن ہوگا، عمل کرنے کا نہیں اس روایت کو امام بخاری نے ترجمۃ الباب میں نقل کیا ہے۔ تشریح ترجمۃ الباب سے مراد جامع بخاری کے ایک باب کا عنوان ہے، یعنی امام بخاری (رح) نے اس روایت کو اپنی کتاب کے ایک باب کے عنوان میں بغیر اسناد کے حضرت علی (رض) سے بطریق موقوف نقل کیا ہے، لیکن اس سے پہلے حضرت جابر (رض) کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی (رض) کی اس روایت کی اصل مرفوع ہے، یعنی یہ حضور ﷺ ہی کا ارشاد ہے کیونکہ حضرت علی (رض) نے جو مضمون نقل کیا ہے وہ وہی ہے جو حضرت جابر (رض) کی روایت میں منقول ہے۔

【62】

دنیا غیر پائیدار متاع ہے

حضرت عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے خطبہ میں ارشاد فرمایا اور اس خطبہ میں فرمایا۔ لوگو ! خبر دار رہو ! دنیا ایک ناپائیدار متاع ہے، اس میں سے نیک بھی کھاتا ہے اور بد بھی (یعنی اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ہر شخص کو رزق دیتا ہے خواہ وہ مومن ہو یا کافر اور خواہ مطیع ہو یا فاسق جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ آیت (وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا) خبردار رہو ! آخرت واقعی مدت ہے جو سچی یعنی متحقق و ثابت ہے اور اس آخرت میں، ہر قسم کی قدرت رکھنے والا بادشاہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) فیصلہ صادر فرمائے گا یعنی وہ ثواب و عذاب کے ذریعہ نیک ذریعہ نیک و بد اور مومن و کفر کے درمیان فرق ظاہر کر دے گا خبردار رہو ! تمام بھلائیاں اور خوبیاں اپنے انواع و اقسام کے ساتھ جنت میں ہیں، خبردار رہو ! تمام برائیاں اور خرابیاں اپنے انواع و اقسام کے ساتھ دوزخ میں ہیں، خبردار رہو ! پس تم نیک عمل کرو درآنحالیکہ تم پر اللہ کے حساب و عذاب کا خوف طاری ہو (یا یہ کہ نیک عمل کرو اور سارے میں اللہ سے ڈرتے رہو، کہ تمہارے وہ نیک عمل قبول ہوتے ہیں یا نہیں اور اس بات کو یاد رکھو کہ اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے پس جو شخص ذرہ برابر بھی نیک کام کرتا ہے وہ آخرت میں یا دنیا میں اس کی جزاء پائے گا اور جو شخص ذرہ برابر بھی برا کام کرتا ہے وہ اس کی سزا پائے گا ۔ (شافعی) تشریح انکم معرضون علی اعمالکم کا ترجمہ اگر یہ کیا جائے کہ تم اپنے اعمال کے سامنے کئے جاؤ گے۔ تو اس عبارت کے الٹے معنی مراد ہوں گے کہ قیامت کے دن تمہارے اعمال تمہارے سامنے حاضر کئے جائیں گے۔ ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم بارگاہ رب العزت میں اپنے اعمال کے مطابق پیش کئے جاؤ گے۔ لیکن زیادہ صحیح اور زیادہ واضح معنی کہ جو اوپر ترجمہ میں نقل کئے گئے ہیں یہی ہیں کہ تم اپنے اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اپنے ان اعمال کے مطابق جزاء یا سزا پاؤ گے جیسا کہ جب کوئی لشکر میدان جنگ سے واپس آتا ہے تو وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کی کاروائی کے ساتھ اپنے امیر کے سامنے پیش ہوتا ہے اور وہ امیر اس لشکر کے ہر فرد کے امور مفوضہ کی انجام دہی کو دیکھتا ہے اور اس کے مطابق ہر سپاہی کو انعام و سزا دیتا ہے۔

【63】

دنیا غیر پائیدار متاع ہے

حضرت شداد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ لوگو ! بلاشبہ یہ دنیا ایک ناپائیدار متاع ہے جس میں نیک و بد (یعنی مومن و کافر) دونوں کھاتے ہیں اور بلاشبہ آخرت ایک سچا اور یقینی طور پر پورا ہونے والا وعدہ ہے اس (آخرت) میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والا اور عدل و انصاف کرنے والا بادشاہ (اپنے حلم و فیصلہ کے ذریعہ) حق کو ثابت رکھے گا اور باطل کو مٹا دے گا (یعنی ثواب و عذاب کے ذریعہ اہل حق اور اہل باطل کو ایک دوسرے سے متمیز اور جدا کر دے گا) تم آخرت کے بیٹے بنو اور دنیا کے بیٹوں میں اپنا شمار نہ کراؤ، کیونکہ ہر ماں کا بیٹا اسی (ماں) کے تابع ہوتا ہے تشریح حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم دنیا کے بیٹے بنو گے یعنی دنیا کی طلب گاری و محبت میں منہمک و مستغرق رہو گے تو دوزخ میں جاؤ گے کیونکہ باطل دنیا کا ٹھکانا دوزخ ہے اور اگر تم آخرت کے بیٹے بنو گے یعنی طلب آخرت اور اخروی امور کی انجام دہی میں مہمک و مستغرق رہو گے تو جنت میں جاؤ گے کیونکہ آخرت حقہ کی جگہ جنت ہے۔ یہ ملا علی قاری (رح) کے منقولات کا مفہوم ہے اور حضرت شیخ عبدالحق نے حدیث کے اختتام پر یہ لکھا ہے کہ پس جو شخص آخرت کا بیٹا ہوگا وہ آخرت کی اتباع کرے گا اور اس کے مطابق عمل کرے گا اور جو شخص دنیا کا بیٹا ہوگا وہ دنیا کی پیروی کرے گا اور اسی کے لئے کام کرے گا۔

【64】

تھوڑا مال بہتر ہوتا ہے

حضرت ابودرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب بھی آفتاب طلوع ہوتا ہے اس کے دونوں طرف دو فرشتے ہوتے ہیں جو منادی کرتے ہیں اور جن و انس کے علاوہ اور ساری مخلوق کو سناتے ہیں (یعنی ان کی منادی کو جنات اور انس نہیں سنتے، باقی ساری مخلوق سنتی ہے اور وہ منادی یہ ہوتی ہے) کہ لوگو ! اپنے پروردگار کی طرف آؤ (یعنی اپنے پروردگار کے احکام کی اتباع کرو یا یہ معنی ہیں کہ ہر طرف سے بےتعلقی اختیار کر کے اپنے رب کی طرف رجوع کرو، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے آیت (وتبتل الیہ تبتیلا) اور اس بات کو جان لو کہ جو مال قلیل ہو اور (دینی معاملات کے تکمیل یا زاد عقبی کے طور پر) کفایت کرے وہ اس مال سے کہیں زیادہ بہتر ہے جو زیادہ ہو اور عبادت الٰہی سے باز اور اطمینان سکون کی زندگی سے محروم رکھے ۔ ان دونوں روایتوں کو ابونعیم نے کتاب حلیہ میں نقل کیا ہے۔ تشریح فرشتوں کی مذکورہ بالا منادی کا جنات و انسان کو نہ سنایا جانا شاید اس امر کی بناء پر ہے کہ وہ فریضہ کو غیب کی باتوں پر ایمان لانے اور عمل کرنے کے لئے جن و انس پر عائد کیا گیا ہے اس طرح سے بےاثر نہ ہوجائے، ہاں اس موقع پر یہ اشکال ضرور پیدا ہوسکتا ہے کہ یہ منادی اور اس کا مضمون اصل میں تو انسان ہی کو متنبہ کرنے کے لئے ہے اور جب انسان اس کو سن ہی نہیں سکتا تو وہ متنبہ کیسے ہوگا ؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس آگاہی کا انحصار محض اپنے کان سے سننے ہی پر نہیں ہے بلکہ اس پر ہے کہ وہ آگاہی سے باخبر اور مطلع ہوجائے سو یہ بات مخبر صادق رسول کریم ﷺ کے خبر دے دینے اور اس آگاہی کے مضمون کو بیان کردینے سے حاصل ہوجاتی ہے، لہٰذا مذکورہ بالا مضمون جب اس حدیث کے ذریعہ انسان تک پہنچ گیا تو وہ اس سے حقیقتاً باخبر اور مطلع ہوگیا ! رہی یہ بات کہ اس تنبیہ میں صرف انسان ہی کو مخاطب کیوں بنایا گیا، جنات کو بھی خطاب کیوں نہیں کیا گیا ؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں میں جو نوع، زیادہ مال و دولت کی نہایت حریص اور عقبی سے نہایت غافل ہے وہ نوع انسان ہی ہے، یہ صرف انسان ہے جو دنیا کے پیچھے اپنے خالق تک کو بھول جاتا ہے اور دنیا کا مال و متاع اس کو ذکر رب اور عبادت الٰہی کی طرف متوجہ ہونے سے باز رکھتا ہے لہٰذا انسان کو خاص طور پر مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ عقبی کے انجام کی طرف تمہاری یہ غفلت و لاپرواہی اور ذکر اللہ سے تمہارے اس اعراض کا سلسلہ کہاں تک جاری رہے گا ؟ اپنی اخروی تباہی کے اس راستہ کو چھوڑ دو اور آؤ، عبادت رب اور ذکر الٰہی کے ذریعہ اس راہ راست کو اپنا لو جو تمہیں آخرت کے حسن انجام تک لے جائے گی۔

【65】

دنیاوی مال متاع کے تئیں انسان کی حرص

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت منقول ہے جس کو وہ رسول کریم ﷺ تک پہنچاتے (یعنی آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں جس کو حدیث مرفوع کہتے ہیں) کہ انہوں نے کہا (حضور ﷺ کا رشاد گرامی ہے کہ) جب کوئی شخص مرتا ہے تو فرشتے تو یہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے آخرت کے لئے (اعمال خیر کی صورت میں) کیا بھیجا ہے اور لوگ یعنی مرنے والے کے ورثاء اور دیگر متعلقین وغیرہ) یہ پوچھتے ہیں کہ اس نے اپنے ترکہ میں کیا چھوڑا ہے ؟ (گویا فرشتوں کی نظر تو اعمال پر ہوتی ہے اور لوگوں کی نظر دنیاوی مال و متاع پر لگی رہتی ہے) اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

【66】

آخرت قریب ہے

حضرت امام مالک (رح) سے روایت ہے کہ مشہور حکیم لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا، میرے بیٹے ! جس بات (یعنی مردوں کا دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جانا، حساب اور ثواب و عذاب وغیرہ) کا لوگوں سے وعدہ کیا کیا تھا، اس کی مدت (از آدم تا ایں دم) ان پر دراز ہوگئی حالانکہ لوگ آخرت کی طرف تیزی سے چلے جا رہے ہیں۔ اور میرے بیٹے ! جس وقت تم پیدا ہوئے تھے اسی وقت سے تمہاری پیٹھ دنیا کی طرف اور تمہارا رخ آخرت کی طرف ہے (یعنی تم اپنی پیدائش کے دن سے گویا دنیا کو پیچھے چھوڑتے چلے آ رہے ہو اور آخرت کی طرف بڑھتے جا رہے ہو) اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جس گھر اور مقام کی طرف تم جا رہے ہو وہ تم سے اس گھر اور مقام کی بہ نسبت زیادہ قریب ہے جس کو تم چھوڑ کر جا رہے ہو (رزین) تشریح اس کی مدت ان پر دراز ہوگئی کا مطلب یہ ہے کہ قیامت آنے، امور آخرت اور اس جہان کی زندگی کے بارے میں جو خبر دی گئی ہے اور اس کا جو وعدہ کیا گیا ہے اس پر چونکہ ایک طویل مدت گزر گئی ہے اس لئے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وعدے کے پورے ہونے میں دیر ہوگئی ہے حالانکہ دیر کچھ نہیں ہوئی ہے بلکہ دنیا کا سفر جاری ہے اور لوگ ہر ساعت بلکہ ہر لمحہ اس یوم موعود اور آخرت کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کی خبر ان کو دی گئی ہے جیسا کہ کشتیوں کا کارواں اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہتا ہے اور بھری ہوئی کشتیوں میں بیٹھے ہوئے اہل کارواں راستہ گزرنے کا احساس نہیں کرتے ! اسی بات کو اس جملہ، اور جس وقت تم پیدا ہوئے تھے الخ کے ذریعہ بیان کیا گیا۔ اس جملہ میں اگرچہ خاص طور پر بیٹے سے خطاب کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد عام خطاب ہے کہ اس بات کا روئے سخن ہر انسان کی طرف ہے۔ روایت کے آخری جملہ سے اس بات کو ثابت کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص کسی جگہ کو چھوڑ کر نکلتا ہے تو اس کا ہر قدم اس جگہ سے دور ہوتا جاتا ہے اور جس جگہ کی طرف اس کا رخ ہوتا ہے اس سے قریب تر ہوتا رہتا ہے، لہٰذا جو بھی انسان اس دنیا میں اتا ہے وہ اپنی پیدائش کے دن سے آخرت کی طرف اپنا سفر شروع کردیتا ہے اور دنیا کو پیچھے چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ اس طرح گویا وہ ہر دن اور ہر لمحہ ایک ایسی مسافت کے درمیان ہے جس کو قطع کرتا رہتا ہے اور اس کے قریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک دن ایسا آئے گا جب وہ مسافت پوری ہوجائے گی اور وہ جس جانب رواں دواں ہے وہ وہاں پہنچ جائے گا ! واضح رہے کہ حکیم لقمان کی اس نصیحت کا مقصد اس غفلت کا پردہ چاک کرنا ہے جس نے امور آخرت کی طرف سے بےپرواہ بنا رکھا ہے۔

【67】

بہتر انسان کون ہے؟

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون آدمی بہتر ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ہر وہ شخص جو مخموم دل اور زبان کا سچا ہو یہ سن کر صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ زبان کے سچے کو تم ہم جانتے ہیں (کہ زبان کا سچا اس شخص کو کہتے ہیں جو کبھی جھوٹ نہ بولے) لیکن مخموم دل سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ مخموم دل وہ شخص ہے جس کا دل پاک و صاف ہو، پرہیزگار ہو، اس میں کوئی گناہ نہ ہو، اس نے کوئی ظلم نہ کیا ہو، حد سے تجاوز نہ کیا ہو اور اس میں کدورت و کینہ اور حسد کا مادہ نہ ہو (ابن ماجہ، بیہقی) تشریح لفظ مخموم اصل میں خم سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں جھاڑو دینا کوڑے کرکٹ اور گندگی سے زمین و کنویں کو صاف کرنا۔ پس مخموم دل سے مراد وہ شخص ہے جس کا دل غیر اللہ کے غبار سے صاف ستھرا ہو اور برے اخلاق و احوال اور فاسد افکار و خیالات سے پاک ہو جو کو سلیم القلب کہا جاتا ہے اور جس کی تعریف اللہ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے آیت (الا من اتی اللہ بقلب سلیم) اسی مراد کو حضور ﷺ نے لفظ نقی اور تقی کے ذریع واضح فرمایا چناچہ نقی کے معنی ہیں وہ شخص جس کا دل اور باطن غیر اللہ کی محبت سے پاک و صاف ہو اور نقی کے معنی ہیں فاسد و بیہودہ افکار و خیالات لغو عقائد اور برے اعمال و خیال سے بچنے والا۔ صحابہ (رض) نے آنحضرت ﷺ سے جو مخموم القلب کے معنی دریافت کئے تو اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس وقت دریافت کرنے والے صحابہ (رض) کے ذہن میں لفظ مخموم کے لغوی معنی محفوظ نہیں ہوں گے کیونکہ آنحضرت ﷺ کبھی کبھی ایسے نادر الفاظ ارشاد فرماتے تھے کہ صحابہ (رض) عربی زبان پر پوری دستگاہ رکھنے اور فصاحت بلاغت کے رموز سے آشنا ہونے کے باوجود ان کا فہم ان الفاظ کے معنی تک نہیں پہنچاتا تھا چناچہ وہ حضور ﷺ سے ایسے الفاظ کے بارے میں دریافت کرلیا کرتے تھے۔ یا یہ کہ صحابہ (رض) لفظ مخموم کے معنی تو جانتے تھے لیکن قلب کی طرف اس لفظ کی اضافت اور اس کی مراد و معنی کا تعین ان کے فہم سے باہر تھا چناچہ انہوں نے دریافت کیا اور حضور ﷺ نے اس کی وضاحت فرما دی۔ یہ احتمال زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔

【68】

وہ چار باتیں جو دنیا کے نفع نقصان سے بے پرواہ بنا دیتی ہیں

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ لوگو ! چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ تم میں پائی جائیں تو دنیا کے فوت ہونے نہ ہونے کا تمہیں کوئی غم نہیں ہونا چاہئے، ایک تو امانت کی حفاظت کرنا (یعنی حقوق کی حفاظت و ادائیگی کرنا اور ان کے حقوق کا تعلق خواہ پروردگار سے ہو یا بندوں سے اور یا اپنے نفس سے) دوسرے سچی بات کہنا، تیسرے اخلاق کا اچھا ہونا اور چوتھے کھانے میں احتیاط و پرہیزگاری اختیار کرنا (یعنی حرام و ناجائز کھانے سے پہیز کرنا اور زیادہ کھانے سے اجتناب کر کے بقدر حاجت و ضرورت پر اکتفا کرنا۔ (احمد، بیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس شخص کی زندگی ان چار چیزوں سے معمور ہوگئی تو گویا اس نے اخروی نعمتوں کی جڑ پکڑ لی، اس کے نفس نے روحانی عروج و کمال کا درجہ پا لیا، اس کا قلب و باطن منور ہوگیا اور ثواب آخرت اور بہشت کی لازوال نعمتوں کا ذریعہ اس کو حاصل ہوگیا، لہٰذا اس صورت میں اگر وہ دنیا بھر کی نعمتوں اور تمام مادی خواہشات و لذات سے محروم ہوجائے تو اس کو کوئی افسوس و غم نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایک طرح سے اس کو اس محرومی پر مطمئن ہونا چاہئے کہ اگر دنیاوی نعمتیں اور لذتیں حاصل ہوتیں تو ان کی وجہ سے دینی معمولات اور عبادات و طاعات میں جمعیت خاطری اور حضور قلب، خلل و وحشت کا شکار ہوتے اور روحانی لطافت و نورانیت کا جمال مادی کثافت و ظلمت سے غبار آلود ہوجاتا۔

【69】

راست گفتاری ونیک کرداری کی اہمیت

حضرت امام مالک (رح) کہتے ہیں کہ مجھ تک یہ روایت پہنچی ہے کہ جب لقمان حکیم سے یہ پوچھا گیا ہے کہ جس مرتبہ (یعنی فضیلت کے جس مقام) پر ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں اس تک آپ کو کسی چیز نے پہنچایا ہے ؟ لقمان حکیم نے فرمایا۔ سچ بولنے نے (کہ میں نے سچائی کا دامن، کبھی نہیں چھوڑا، خواہ میں نے خود کوئی بات کہی ہو یا کسی کی کوئی بات نقل کی ہو ہمیشہ سچ بولنے پر عامل رہا) ادائیگی امانت نے (یعنی خواہ کوئی مالی معاملہ رہا ہو یا فعلی، میں نے ہمیشہ دیانت داری کو ملحوظ رکھا ہے) اور جو چیزیں میرے لئے بےفائدہ اور غیر ضروری ہیں ان کو ترک کردینے سے ۔ (موطا) تشریح اس روایت سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اصل حکمت و دانائی، راست گفتاری و نیک کرداری ہے۔ چناچہ انسانی زندگی کے یہی وہ دو اعلی جوہر ہیں جن کو اختیار کر کے لقمان حکیم اپنے عظیم مرتبہ تک پہنچ گئے۔ لقمان حکیم کون تھے ؟ لقمان حکیم، جن کی حکمت و دانائی آج بھی ضرب المثل ہے اور جن کا نام عقل و دانش کے اس پیکر کے طور پر لیا جاتا ہے جس سے دنیا کے بڑے بڑے حکماء بڑے بڑے مفتیین اور بڑے بڑے فلاسفر فیضان حاصل کرتے ہیں، دراصل مشہور پیغمبر حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بھانجے تھے اور بعض حضرات نے ان کو حضرت ایوب (علیہ السلام) کا خالہ زاد بھائی کہا ہے، علماء اسلام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ خود پیغمبر تھے یا نہیں ؟ تاہم یہ بات متفقہ طور پر مسلم ہے کہ وہ ایک عظیم حکیم و فلاسفر تھے اور ولایت کے درجہ پر فائز تھے، نیز منقول ہے کہ انہوں نے تقریبا ایک ہزار پیغمبروں کی خدمت میں حاضر باشی اختیار کی تھی اور ان سب کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا، غالباً ان کی اس بےمثال حکمت و دانائی کا ایک بڑا راز یہ بھی ہے کہ ان کو اتنے زیادہ پیغمبروں سے فیضان حاصل کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ حضرت ابن عباس (رض) کی یہ روایت منقول ہے کہ لقمان، نہ تو پیغمبر تھے اور نہ کوئی بادشاہ بلکہ وہ ایک سیاہ فام غلام تھے اور بکریاں چرایا کرتے تھے، حق تعالیٰ نے ان کو مقبول بارگاہ رب العزت بنایا، انہیں حکمت و دانائی، جوان مردی اور عقل دانش سے نوازا اور اپنی کتاب قرآن کریم میں ان کا ذکر فرمایا۔

【70】

قیامت کے دن بندوں کے حق میں نیک اعمال کی شفاعت

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (قیامت کے دن) اعمال (خداوند برتر و بزرگ کے حضور) آئیں گے۔ پس (سب سے پہلے) نماز پیش ہوگی اور عرض کرے گی کہ اے پروردگار ! میں نماز ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ بیشک تو بھلائی ہے۔ پھر صدقہ یعنی زکوٰۃ پیش ہوگی اور عرض کرے گی کہ اے پروردگار ! میں صدقہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا بیشک تو بھلائی ہے۔ اور پھر روزہ پیش ہوگا اور عرض کرے گا کہ اے پروردگار میں روزہ ہوں اسی طرح یکے بعد دیگرے دوسرے اعمال جیسے حج جہاد اور طلب علم وغیرہ پیش ہوں گے اور ہر ایک عمل مذکورہ بالا الفاظ میں اپنا تعارف پیش کرے گا اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو خیر پر ہے (گویا ہر نیک عمل اپنے تعارف کے ذریعہ بندوں کے حق میں جو شفاعت کرے گا اس کی قبولیت کو حق تعالیٰ موقوف رکھے گا اور ہر ایک کی درخواست کو نہایت ملائمت و نرمی اور مہربانی کے ساتھ ملتوی رکھے گا) پھر (سب سے آخر میں) اسلام پیش ہوگا اور عرض کرے گا کہ اے پروردگار تیرا نام سلام ہے کہ تیری ذات تمام عیوب و آفات اور ہر طرح نقص سے سالم و پاک ہے اور تو تمام بندوں کو ہر طرح کے خوف اور تمام سختیوں اور مصیبتوں سے سلامتی بخشنے والا ہے اور میں اسلام ہوں (کہ تیرے حضور عجز و نیاز کرنے والا اور تیرے احکام کا مطیع و فرمانبردار ہوں، نیز میرے بارے میں تو نے خود فرمایا ہے کہ آیت (ان الدین عند اللہ الاسلام) پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ بیشک تو بھلائی پر ہے، آج کے دن میں تیرے ہی سبب مواخذہ کروں گا اور تیرے ہی وسیلہ سے عطا کروں گا (یعنی آج جزا و سزا کے دن میں تجھے ہی اصل اور طاعت معصیت کے فیصلوں کا مدار قرار دیتا ہوں کہ جس نے تجھے اختیار نہیں کیا اور تیرے راستے پر نہیں چلا اس سے مواخذہ کروں گا اور اس کو عذات میں مبتلا کروں گا اور جس نے تجھے اختیار کیا اور تیرے راستہ پر گامزن رہا اس کو جزا وثواب دوں گا، لہٰذا تو جو کچھ چاہتا ہے ہمارے سامنے عرض کر، ہم تیری ہر سفارش و شفاعت قبول کریں گے) چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے آیت (ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وہو فی الاخرۃ من الخسرین) ۔ یعنی جو شخص اسلام کے سوا کسی دین کو اختیار کرے گا اس سے وہ دین ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں ٹوٹے میں رہنے والوں میں سے ہے ۔ تشریح تجیء الاعمال کا مطب یہ کہ قیامت کے دن نیک اعمال بحضور رب ذوالجلال پیش ہوں گے اور دنیا میں جن لوگوں نے ان اعمال کو اختیار کیا ہوگا ان کے حق میں گواہی دیں گے اور ان کی شفاعت کریں گے، نیز جن لوگوں نے ان اعمال کو ترک کیا ہوگا ان کے خلاف احتجاج و شکایت کریں گے۔ رہی یہ بات کہ ان اعمال کے پیش ہونے کی کیا صورت ہوگی تو وہ ایک قوی احتمال یہ ہے کہ وہ اعمال اچھی صورتوں میں مشکل ہو کر پیش ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو نہایت پاکیزہ اور خوشنما صورتیں عطا فرمائے گا جیسا کہ بعض احادیث و آثار سے مفہوم ہوتا ہے اور یا یہ کہ حق تعالیٰ کی یہ قدرت پوری طرح ثابت ہے کہ وہ اعراض کو بالذات پیش کر دے اور ان کو قوت گویائی عطا فرمائے۔ حضرت شیخ عبدالحق (رح) نے حدیث کی وضاحت میں یہ لکھا ہے کہ نماز کا یہ تعارف پیش کرنا کہ میں نماز ہوں دراصل اس مفہوم کا حامل ہے کہ اے پروردگار ! مجھ کو تیری بارگاہ میں جو عظمت و مرتبہ حاصل ہے کہ تو نے مجھے اپنے دین کا ستون فرمایا ہے اور اپنے نزدیک مقام عزت و قرب سے نوازا ہے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اور بامید قبولیت تیری درگاہ لطف و کرم بندوں کے حق میں شفاعت کرنے حاضر ہوئی ہوں اور چونکہ تو نے یہ فرمایا ہے آیت (ان الصلوۃ تنہی عن الفحشاء والمنکر) اس لئے جس طرح میں دنیا میں لوگوں کو فسق و فجور سے دور رکھنے والی تھی اسی طرح آج کے دن امید وار ہوں کہ لوگوں کو تیرے عذاب سے دور رکھوں اور تیرے غضب سے بچاؤں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نماز سے فرمائے گا کہ بیشک تو بھلائی اور صلاح و فلاح کی حامل ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نماز کی شفاعت کو قبول نہیں فرمائے گا بلکہ اس کی درخواست شفاعت کو موقوف ملتوی رکھے گا اور مذکورہ ارشاد کے ذریعہ اس توقف و التواء کو نہایت بلیغ و پاکیزہ انداز اور حسن کلام کے ذریعہ ظاہر کرے گا اور اس ارشاد کا مفہوم درحقیقت یہ ہوگا کہ اے نماز ! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے تجھ کو بہت بڑے مرتبہ کا حامل قرار دیا ہے اور تجھ میں جو فضل و شرف رکھا ہے وہ ایک حقیقت ہے اور بجائے خود ہے، لیکن جہاں تک شفاعت کا تعلق ہے تو یہ ایک دوسرا مرتبہ ہے جو تجھے حاصل نہیں ہے بلکہ یہ صفت و مرتبہ اس کو دیا گیا ہے جو تیری اور تیری ہم مثل عبادتوں کی بنیاد و مبنی ہے اور تمام اچھی صفات کا مجموعہ یعنی دین اسلام۔ اس موقع پر ایک لطیف نکتہ سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ مقام شفاعت پر کھڑا ہونا (یعنی قیامت کے دن بارگارہ رب العزت میں بندوں کے حق میں شفاعت کرنا) صرف اس ذات کو سزا وار ہے جو جامع کمالات ہے جیسا کہ محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات پاک کہ آپ ﷺ کے تمام اسماء صفات الٰہی کے مظہر ہیں، چناچہ شفاعت کا حق صرف آپ ﷺ کی ذات کو حاصل ہوگا، آپ کے علاوہ کوئی اور پیغمبر شفاعت کا دروازہ کھلوانے پر قادر نہیں ہوگا اسی طرح اعمال میں بھی صرف وہی عمل شفاعت کرنے کا مجاز ہوگا جو تمام صفات و کمالا کا جامع ہے یعنی اسلام، جیسا کہ حدیث کے آخری جز سے واضح ہوتا ہے۔ صدقہ کا یہ تعارف پیش کرنا کہ میں صدقہ ہوں اس مفہوم کا حامل ہوگا کہ پروردگار ! میں اپنی عزت و فضیلت کا سہارا لے کر تیری بارگاہ میں شفاعت کرنے حاضر ہوا ہوں جس سے تو نے اپنے لطف و کرم کے طفیل مجھے نوازا ہے اور میرے حق میں فرمایا ہے کہ الصدقۃ تطفی غضب الرب اسی طرح روزہ کے اس تعارف کا کہ میں روزہ ہوں یہ مفہوم ہوگا کہ پروردگار ! میں وہ عبادت یعنی روزہ ہوں جو اس مخصوص صفت و حیثیت کا حامل ہے کہ تو نے اس کی وہ خاص جزا رکھی ہے جس کو تیرے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا اور جس شخص نے اس کو اختیار کیا اور اس کے پورے حقوق کی رعایت ملحوظ رکھی اس کو تو نے بخشنے اور جنت میں داخل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، لہٰذا میں اپنے اس فضیلت و خصوصیت کی بناء پر بامید قبولیت تیری بارگاہ میں درخواست شفاعت لے کر حاضر ہوا ہوں۔ اسلام اپنے تعارف کے سلسلے میں جو اسلوب و انداز اختیار کرے گا وہ مذکورہ بالا دیگر اعمال کے اسلوب تعارف سے مختلف ہوگا، چناچہ اس کو چونکہ باب شفاعت و اکرانے میں بہت دخل ہوگا اس لئے وہ اپنے تعارف اور اپنی درخواست کی ابتداء حق تعالیٰ شانہ کی حمد و تعریف اور اس کے تئیں اظہار تعظیم سے کرے گا جیسا کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جب مقام شفاعت پر کھڑے ہوں گے تو پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و تعریف اور تعظیم و ثنا بیان کریں گے اس کے بعد درخواست پیش کریں گے، لہٰذا اسلام حق تعالیٰ کے حضور پر یش ہو کر اس کو اس کے اسم مبارک سلام کے ذریعہ صدا دے گا اور اپنے آپ کو ایک مطیع و فرمانبردار ذات ظاہر کرے گا اور اس کے بعد درخواست شفاعت پیش کرے گا۔ ایک یہ احتمال بھی ہے کہ حدیث میں اسلام سے مراد دین اسلام نہ ہو بلکہ صفت رضاء تسلیم اور ترک اختیار مراد ہو جو اللہ کے برگزیدہ اور مقرب بندوں کے اعلیٰ مراتب میں سے ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حق میں اسلام کا ذکر اسی مفہوم میں کیا گیا ہے کہ فرمایا۔ آیت (اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العالمین) (یعنی جب ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب نے فرمایا کہ تابعداری اختیار کرو تو انہوں نے کہا کہ میں رب العالمین کا تابعدار ہوا)

【71】

دنیا کی طرف مائل کرنے والی چیزوں کو چھوڑ دو

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں (دروازے پر، یا بطور دیوار گیری) جو پردہ تھا اس پر پرندوں کی تصویریں بنی ہوتی تھیں چناچہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ عائشہ ! اس پردہ کو بدل ڈالو، کیونکہ جب میں اس کو دیکھتا ہوں تو دنیا یاد آجاتی ہے ۔ تشریح حضور ﷺ نے اس پردے کو بدلنے کا حکم جس انداز سے دیا اور اس کی جو علت بیان فرمائی اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس سے پردے پر جو تصویریں تھیں وہ نمایاں نہیں تھیں بلکہ ان کے خطوط و نقوش اس قدر چھوٹے اور غیر واضح تھے کہ ان پر حقیقی معنی میں تصویر کا اطلاق نہیں ہوتا تھا، یا یہ کہ تصویر دار پردہ کا یہ واقعہ اس زمانہ کا ہے جب کہ تصویر کی حرمت نازل و نافذ نہیں ہوئی تھی۔ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان اسباب و اشیاء کو دیکھنا کہ جس کے ذریعہ دولتمند لوگ عیش و عشرت کی زندگی اختیار کرتے ہیں فقراء کے قلب کی حلاوت و طمانیت پر اثر انداز ہوتا ہے، لہٰذا عیش و عشرت کی چیزوں اور دنیا کی طرف مائل کرنے والی اشیاء کو نہ صرف یہ کہ اختیار نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان کی طرف نظر بھی نہیں اٹھانی چاہئے۔

【72】

چند انمول نصائح

حضرت ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر کیا کہ (یا رسول اللہ ! ﷺ مجھ کو کوئی ایسی نصیحت فرمائیے مختصر اور جامع ہو ! حضور ﷺ نے فرمایا جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اس شخص کی طرح نماز پڑھو جو اللہ کے سوا ہر چیز یعنی مخلوق اور اپنے نفس کو رخصت کرنے اور چھوڑنے والا ہے (حاصل یہ کہ جب نماز پڑھو تو دنیا بھر سے اپنی توجہ اور اپنا خیال پھیر کر کامل اخلاص اور پوری توجہ کے ساتھ رب العالمین کی طرف متوجہ رہو) نیز اپنی زبان سے ایسی کوئی بات نہ نکالو جس کے سبب تمہیں کل (قیامت کے دن، اللہ کے حضور) عذر خواہی کرنی پڑے (یا یہ کہ عذر خواہی کا مفہوم، عموم پر محمول ہے یعنی کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکال جس کے سبب تمہیں اپنے دوستوں، رفقاء و متعلقین اور تمام مسلمانوں کے سامنے پشیمان ہونا پڑے اور معذرت کرنے کی ضرورت پیش آئے) اور اس چیز سے ناامید ہوجانے کا پختہ ارادہ کرلو جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، (یعنی اللہ نے تمہاری قسمت میں جتنا لکھ دیا ہے اور تمہیں جو کچھ دے دیا ہے اسی پر قناعت و کفایت کرو اور لوگوں کے مال و متاع سے اپنی امید وابستہ نہ کرو ۔ تشریح رخصت کرنے کے ایک معنی تو وہ ہیں جو اوپر ترجمہ میں بیان کئے گئے ہیں اور ممکن ہے کہ رخصت کرنے سے مراد حیات کو رخصت کرنا ہو، یعنی تم اس طرح نماز پڑھو کہ گویا وہ تمہاری آخری نماز ہے اور وہ وقت تمہاری زندگی کا آخری وقت ہے ! چناچہ مشائخ کی وصیتوں اور نصائح میں یہ زریں ہدایت منقول ہے کہ طالب کو چاہئے کہ وہ اپنی ہر نماز میں یہ تصور کرے کہ بس یہ آخری نماز ہے ! جب وہ اس تصور کے ساتھ نماز پڑھے گا تو یقینا اس نماز کو کامل اخلاص، پورے ذوق و شوق، حضور قلب اور تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کرے گا۔ حدیث کے آخری الفاظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ دوسروں کے مال و متاع اور دولت پر نظر رکھنا اور ان سے امیدیں وابستہ کرنا قلبی فقر و افلاس کی علامت ہے، چناچہ قلب کا غنی ہونا اس پر منحصر ہے کہ لوگوں کے پاس جو کچھ مال و متاع اور دولت ہے اس سے اپنی امید منقطع کرلی جائے۔

【73】

پرہیز گاری کی فضیلت

حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول کریم ﷺ نے انہیں قاضی یا عامل بنا کر یمن روانہ فرمایا تو آپ ﷺ الوداوع کہنے کے لئے کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے اور اس دوران آپ ﷺ ان کو تلقین و نصیحت کرتے رہے، نیز اس وقت معاذ (رض) تو اپنی سواری پر سوار تھے اور رسول اللہ ﷺ ان کی سواری کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ جب آپ ﷺ نصائح و ہدایت سے فارغ ہوئے تو فرمایا۔ معاذ میری عمر کے اس سال کے بعد شاید تم مجھ سے ملاقات نہیں کرسکو گے اور ممکن ہے کہ تم جب یمن سے واپس لوٹو گے تو مجھ سے ملاقات کرنے کے بجائے میری اس مسجد اور میری قبر سے گزرو۔ معاذ (رض) یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کی جدائی کے غم میں رونے لگے اور رسول کریم ﷺ نے معاذ (رض) کی طرف سے منہ پھیر کر مدینہ کی جانب اپنا رخ کرلیا، پھر فرمایا میرے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو پرہیز گار ہیں خواہ وہ کوئی ہوں اور کہیں ہوں (یعی خواہ وہ کسی رنگ و نسل، کسی ملک و قوم اور کسی طبقہ و مرتبہ کے ہوں) ان چاروں روایتوں کو امام احمد (رح) نے نقل کیا ہے۔ تشریح لفظ ماقبل گویا لفظ التفت کی وضاحت ہے، نیز معاذ (رض) کی طرف سے حضور ﷺ کے منہ پھیرنے کی وجہ شاید یہ تھی کہ آپ ﷺ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کو روتا ہوا دیکھیں کیونکہ اس صورت میں آپ ﷺ کا دل بھی بھر آتا اور بعید نہیں تھا کہ آپ ﷺ بھی رونے لگتے جس سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر غم کا احساس شدید تر ہوجاتا، نیز اس طرح آپ ﷺ نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ میری اس بات سے تمہارا غمگین ہونا اور رونا بالکل بجا، لیکن میرا اس دنیا کو چھوڑنا اور آخرت کا سفر اختیار کرنا ایک یقینی بات ہے۔ چناچہ ایک طرف تو آپ ﷺ نے اپنے مذکورہ فعل کے ذریعہ حضرت معاذ (رض) کو ڈھارس دی اور ان کو حادثہ فاجعہ کو قبول کرنے کے لئے تیار کیا اور دوسری طرف اپنے اشارہ کے ذریعہ ان کو آگاہ فرمایا کہ تم اس وقت مجھے اور مدینہ سے جدا ہو رہے ہو لیکن بعد میں تم مدینہ کو دیکھ کر لوگے البتہ مجھے دیکھنا تمہیں نصیب نہیں ہوگا۔ ، پھر آپ ﷺ نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ انبیاء اور اتقیا کے درمیان حقیقی رفاقت و قرب کا کیف بس اسی جہاں میں حاصل ہوگا جو دارالبقاء ہے وہاں جو شخص جس کا رفیق و ساتھی بن جائے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے لہٰذا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کو میری ہمیشہ کی رفاقت کا شرف مل جائے اور آخرت کی دائمی زندگی میں اس کو وہ مرتبہ نصیب ہو کہ جس کی وجہ سے اس کو میری شفاعت و قرب حاصل ہو تو اس کو چاہئے کہ تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرے، کیونکہ یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر کوئی شخص میری قربت حاصل کرسکتا ہے۔ خواہ وہ کوئی ہوں اور کہیں ہوں جیسا کہ اوپر ترجمہ میں بھی وضاحت کی گئی ہے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص میرا پسندیدہ میرا نزدیک اور میرا عزیز بننا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ متقی بنے، قطع نظر اس بات کے کہ وہ کس قبیلہ وقوم کا ہے، کس رنگ و نسل کا ہے اور کس ملک میں سکونت پزیر ہے، ایک شخص مکہ اور مدینہ میں میرا ہم شہر اور میرے قبیلہ و خاندان کا ہونے کے باوجود میرے قریب نہیں ہوسکتا جب کہ وہ پرہیز گاری اختیار کئے ہوئے نہ ہو اور ایک شخص مجھ سے بہت دور سکونت پذیر ہونے اور مجھ سے کوئی نسلی و قرابتی تعلق نہ رکھنے کے باوجود کہ وہ بصرہ میں ہو یا کوفہ میں، یمن میں ہو یا کسی اور دور دراز کے ملک میں، میرے بہت قریب و نزدیک ہوسکتا ہے جب کہ وہ پرہیز گاری پر عامل ہو اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک تو حضرت اویس قرنی (رح) تھے کہ ان کو کبھی بھی حضور کی زیارت تک نصیب نہیں ہوئی اور یمن میں سکونت پذیر رہے مگر چونکہ وہ تقویٰ اور پرہیز گاری کے درجہ کمال پر پہنچے ہوئے تھے اس لئے انہوں نے کتنا عظیم مرتبہ پایا اور حضور ﷺ سے دور رہنے کے باوجود بارگاہ رسالت میں کس قدر قربت و نزدیکی کے حامل ہوئے، اس کے برخلاف ایک وہ لوگ تھے جن کا شمار مکہ اور مدینہ کے معزز ترین اور اشرف لوگوں میں ہوتا تھا حضور ﷺ ہی کے شہر میں رہتے تھے اور حضور ﷺ ہی کے قبیلہ و خاندان کے تھے مگر چونکہ ترک تقویٰ اختیار کئے ہوئے تھے اس لئے بارگاہ رسالت میں مقام قرب سے محروم رہے بلکہ حضور ﷺ کو تکالیف ایذاء پہنچانے کے سبب نہایت شقی اور بدبخت قرار پائے۔ پس حضور ﷺ نے مذکورہ ارشاد کے ذریعہ گویا حضرت معاذ (رض) کو تسلی دی کہ ہماری ظاہری جدائی کا غم نہ کھاؤ بلکہ تقویٰ کو اختیار کئے رہو اگر تم متقی رہے تو گو ظاہری اعتبار سے تم ہم سے جدا رہو گے مگر معنوی طور پر ہمارے ساتھ ہی رہو گے۔ طیبی کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا مذکورہ ارشاد حضرت معاذ (رض) کو اپنی رحلت کی پیشگی اطلاع دینے کے بعد گویا ان کے حق میں تسلی کے طور پر تھا اور ان کو اس طرف متوجہ کرنا مقصود تھا کہ جب تم اپنے فرائض منصبی کو پورا کر کے یمن سے مدینہ واپس آؤ اور مجھے اس دنیا میں موجود نہ پاؤ تو اس وقت یہاں ان لوگوں کی اقتداء و اتباع کرنا جو اپنے تقویٰ و طہارت اور کمال دینداری کے سبب مجھ سے سب سے زیادہ نزدیک اور قریب ہیں، پھر طیبی کہتے ہیں کہ اس ارشاد میں جن لوگوں کی اقتداء اور و اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ان سے گویا بطور کنایہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی ذات گرامی مراد تھی جن کو آنحضرت ﷺ کے بعد خلیفہ اول قرار پانا تھا، اس بات کی تائید حضرت جبیر ابن مطعم (رض) کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کا تعلق اسی طرح کے ایک واقعہ سے ہے جس میں حضور ﷺ نے اپنے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت کی طرف اشارہ فرمایا تھا، چناچہ اس روایت میں منقول ہے کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور آپ ﷺ سے کسی مسئلہ میں گفتگو کی۔ حضور ﷺ نے اس سے فرمایا کہ تم کسی اور وقت آنا تو میں تفصیل کے ساتھ تمہیں سمجھا دوں گا اس عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر میں کسی ایسی وقت آئی کہ (خدا نخواستہ) آپ ﷺ اس دنیا میں موجود نہ ہوئے تو میں کیا کروں گی ؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اگر تم ایسے وقت آئیں کہ میں اس دنیا میں نہیں رہا تو پھر تم ابوبکر (رض) کے پاس چلی جانا۔ گویا حضور ﷺ نے اس طرف صریحا اشارہ فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر (رض) خلیفہ ہوں گے اور اس وقت مسلمانوں کے مقتداء وہی ہوں گے۔ بہرحال اس حدیث کا مقصد اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ اپنے تمام دینی و دنیاوی معاملات اور تمام ملکی و شرعی امر میں ہمہ وقت احتیاط وتقویٰ کو ملحوظ رکھنا چاہئے، نیز اس میں تمام امت کے لئے یہ تسلی بھی پوشیدہ ہے کہ جن لوگوں کو حضور ﷺ کا زمانہ اور آپ ﷺ کی خدمت و صحبت کا شرف حاصل نہیں ہوا ہے خواہ وہ کتنے ہی زمانہ کے بعد پیدا ہوں گے اگر وہ تقویٰ اختیار کریں گے تو انہیں بارگاہ رسالت میں تقرب حاصل ہوگا، اللہم ارزقنا ہذہ النعمۃ۔

【74】

شرح صدر کی علامت

حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے آیت پڑھی (فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَه يَشْرَحْ صَدْرَه لِلْاِسْلَامِ ) 6 ۔ الانعام 125) یعنی اللہ تعالیٰ جس شخص کو ہدایت بخشنا چاہتا ہے (یعنی خاص ہدایت کہ جو اس کو مرتبہ اختصاص تک پہنچا دے تو اس کا سینہ اسلام کے لئے کشادہ کردیتا ہے بایں طور کہ اس کو شرائع اسلام اخلاص کے ساتھ قبول کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے پھر حضور ﷺ نے گویا آیت کی تفسیر میں فرمایا جب ہدایت کا نور سینہ میں داخل ہوتا ہے تو سینہ فراخ اور کشادہ ہوجاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ﷺ کیا اس حالت و کیفیت کی کوئی علامت ہے جس سے اس کو پہچانا جاسکے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں اس کی نشانی ہے، دارالغرور (دنیا سے) دور ہونا، آخرت کی طرف کہ جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والا جہان ہے، رجوع کرنا اور پوری طرح متوجہ رہنا اور مرنے سے پہلے مرنے کے لئے تیاری کرنا۔ تشریح شرح صدر یعنی سینہ کا کھل جانا وہ نعمت ہے جو ہدایت و رستی اور تمام دینی و دنیاوی امور میں بہتری و بھلائی کا ذریعہ ہے، یہ کیسے معلوم ہو کہ فلاں شخص شرح صدر کی حالت کو پہنچ گیا ہے ؟ اس کو پہچاننے کے لئے تین علامتیں بیان فرمائی گئی ہیں، ایک تو دار الغرور (دنیا) سے بعد یعنی زہد و قناعت اختیار کرنا کہ یہ جگہ مکر و فریب سے بھری ہوئی ہے اور شیطان اس کے ذریعہ لوگوں کو فریب دیتا ہے دوسرے دنیا کی طرف سے بےپرواہ ہو کر آخرت کی طرف ہمیشہ متوجہ رہنا اور ہر صورت میں اسی کی بہتری و بھلائی کو ملحوظ رکھنا اور تیسرے یہ کہ موت آنے سے پہلے موت کے لئے تیاری کرلینا یعنی توبہ وانابت کے ذریعہ اپنی لغزشوں اور گناہوں سے اظہار بیزاری کرنا، عبادات اور اچھے کاموں میں سبقت کرنا اور اپنے اوقات کو طاعات الٰہی میں مشغول رکھنا، جس شخص میں یہ تینوں باتین پائی جائیں تو جان لینا چاہئے کہ اس نے گویا تمام شرائع اسلام کو پورے یقین و اخلاص کے ساتھ قبول کرلیا ہے اور وہ اس مقام تک پہنچ گیا ہے جہاں احکام الٰہی کی بجا آوری مزاج و طبعیت پر گراں گزرنے کے بجائے روحانی و جسمانی کیف و سرور اور لذت بہم پہنچاتی ہے۔ واضح رہے کہ شرح صدر یعنی سینہ کی کشادگی سے مراد قلب میں قبول حق کی استعداد و صلاحیت کا پیدا ہوجانا ہے اور قلب مومن جو نور ہدایت سے پر ہو، وہ بذات خود بڑے عظیم رتبہ کا حامل ہے یہاں تک کہ اس کو عرش رب سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا یسعنی ارضی ولا سمائی ولکن یسعنی قلب عبدی المومن یعنی نہ تو میری زمین میری گنجائش رکھتی ہے اور نہ میرا آسمان لیکن میرے مومن بندے کا قلب میری گنجائش رکھتا ہے۔ دنیا کو دارالغرور یعنی دھوکے گھر، کہا گیا ہے کیونکہ بلا شبہ یہ دنیا مکر و فریب میں مبتلا کرنے اور دھوکا دینے والی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی عہد شکن نہیں ہے، لوگ اس کی محبت میں مبتلا ہو کر کیا کچھ نہیں کرتے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے کیسے کیسے پاپڑ نہیں بیلتے، لیکن آخر کار یہ کسی کی نہیں ہوتی اور ہر ایک کو دغا دیتی ہے، چناچہ قرآن کریم میں آگاہ فرمایا گیا ہے کہ آیت (ولا یغرنکم الحیوۃ الدنیا) یعنی دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دے۔ جہاں تک اس دنیا کی حقیقت و ماہیت کا تعلق ہے تو اس میں بھی کوئی شبہ کرسکتا ہے کہ یہ دنیا خرابی و فساد اور رنج و محن کا گھر ہے اگرچہ اس کی ظاہری حالت ایک نعمت کی طرح معلوم ہوتی ہے اور اس کی مثال سراب کی سی ہے کہ دھوپ میں چمکنے والے ریگستانی ریت کو پانی سمجھ کر پیاسا اس کی طرف لپکتا ہے مگر جب قریب پہنچتا ہے تو اس کو حقیقت نظر آتی ہے اور سمجھتا ہے کہ میں دھوکہ میں مبتلا ہوگیا، بالکل اسی طرح بادشاہ و امراء دولتمند اور دنیا دار لوگ دنیا کی ظاہری چمک دمک کے دھوکے میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جب حقیقت سامنے آتی ہے تو آنکھیں کھلتی ہیں مگر وقت گزر چکا ہوتا ہے اور حسرت و خسران کے سوا ان کے ہاتھ اور کچھ نہیں لگتا۔ موت آنے سے پہلے سے حیات مستعار کا وہ عرصہ مراد ہے جس میں انسان کچھ کرلینے کی صلاحیت و قوت رکھتا ہے یعنی صحت تندرستی کا زمانہ اور آخر درجہ میں وہ زمانہ بھی مراد ہوسکتا ہے جب موت کے مقدمات ظاہر ہوں گے اور زندگی کے خاتمہ کے ظاہری اسباب پیدا ہوجائیں اور وہ مرض و بیماری کا زمانہ ہے لیکن عمر کا وہ حصہ کہ جو انسان کو بالکل بیکار و ناکارہ بنا کر رکھ دیتا ہے یعنی بہت بڑھاپا کہ اس زمانہ میں نہ علم و معرفت حاصل کرنے کی طاقت رہتی ہے اور نہ عمل کرنے پر قدرت ہوتی ہے، اس وقت بےفائدہ حسرت و ندامت کے سوا اور کچھ نہیں ملتا، لہٰذا دانائی اسی میں ہے کہ اس زمانہ سے پہلے سفر آخرت کے لئے زاد راہ تیار کرلیا جائے۔

【75】

حکمت و دانائی کس کو عطا ہوتی ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت ابوخلاد (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ اس کو (دنیا سے) بےرغبتی اور (لغو و بیہودہ کلام سے اجتناب اور) کم گوئی عطا کی گئی ہے تو اس کی قربت و صحبت اختیار کرو کیونکہ اس کو حکمت و دانائی کی دولت دی گئی ہے ۔ ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے (اور پہلی حدیث بہت سے طرق سے ثابت ہے۔ تشریح بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا کہ زیادہ دانا مومن کون ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ مومن جو موت کو بہت یاد کرتا ہو اور موت کے بعد کی زندگی (یعنی آخرت) کے لئے بہت تیاری کرتا ہو۔ مذکورہ بالا حدیث میں لفظ حکمت نقل کیا گیا ہے اس سے مراد نیک کرداری اور راست گفتاری ہے۔ اور جس بندے کو اللہ تعالیٰ حکمت عطا فرماتا ہے اس کی بڑی فضیلت منقول ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے آیت (ومن یوتی الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا) یعنی جس شخص کو حکمت عطا کی گئی، گویا اس کو بہت زیادہ خیر و بھلائی دی گئی۔ بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص دنیا سے بےاعتنائی اور بےرغبتی اختیار کئے ہوئے ہو اور کم گوئی کی صفت سے متصف ہو وہ ایک ایسا مخلص و کامل عالم ہے جس کو اللہ نے نیک کرداری اور راست گفتاری کی دولت سے نواز دیا ہے اور وہ یقینا مرشد و مقتدا بننے کا اہل ہے کہ وہ بندگان اللہ کی تربیت و اصلاح اور رشد و ہدایت کی ذمہ داری کو پوری طرح انجام دے سکتا ہو، لہٰذا ہر ایک شخص پر واجب ہے کہ اس کی اطاعت و خدمت کرے، اسی کی صحبت و ہمنشینی اختیار کرے اور اس کے ساتھ ہم کلامی رکھے، بعض عارفین نے بہت خوب کہا ہے کہ اللہ کی صحبت اختیار کرو۔ اگر تم اس پر قادر نہ ہو سکو تو اس شخص کی صحبت و ہم نشینی اختیار کرو جو اللہ کے ساتھ صحبت رکھتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ وہ شخص وہی ہوسکتا ہے کہ جس میں کردار و احوال اور اقوال و افعال کے صحیح اور قابل اعتماد ہونے کی وہ علامت پائی جائے جو انشراح صدر کی علامت کے طور پر پچھلی حدیث میں بیان کی جا چکی ہے اور اس کی وہ حیثیت و شخصیت اس طرح ظاہر و ثابت ہوجائے کہ اس کی صحبت تمام دینی و دنیاوی معاملات پر بھلائی و بہتری کی صورت میں اثر انداز ہوتی ہو، وہ اپنے رفقاء اور معتقدین کو دنیاوی لذات سے کنارہ کش، تحصیل مال و جاہ سے بےرغبت اور مقدار حاجت و ضرورت سے زیادہ کی طلب و خواہش سے بےپرواہ بنا کر زاد عقبی کی طرف پہنچاتا ہو۔ ایسا شخص نہ صرف عالم و عارف کہلاتا ہے بلکہ انبیاء کا حقیقی وارثو خلیفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے عارف باللہ کی زیارت و خدمت اور اس کی صحبت و ہم نشینی کی نعمت عظمی سے سرفراز فرمائے (آمین ثم آمین)