154. آرزو اور حرص کا بیان

【1】

فقراء کی فضیلت اور نبی کریم ﷺ کی معاشی زندگی کا بیان

فقراء فقیر کی جمع ہے جس کے معنی ہی مفلس، محتاج، غریب اور فضیلت سے مراد اجر وثواب کی کثرت ہے۔ لہٰذا فقراء کی فضیت کے بیان کا مطلب ان احادیث کو نقل کرنا ہے جن سے یہ واضح ہوگا کہ جو لوگ اپنی غربت و افلاس اور محتاجگی کی وجہ سے اپنی اور اپنے متعلقین کی معاشی زندگی کی سختیوں کو صبر و سکون کے ساتھ جھیلتے ہیں اور تمام مشکلات کا مقابلہ نہایت عزم و استقلال کے ساتھ کرتے ہوئے توکل و قناعت اختیار کرتے ہیں اور تقدیر الٰہی پر راضی و شاکر رہتے ہیں ان کو کتنا زیادہ اجر وثواب ملتا ہے اور وہ آخرت میں کتنا بڑا درجہ پائیں گے۔ حضور ﷺ کی معاشی زندگی سے مراد آپ کے کھانے پینے، رہن سہن اور بسر اوقات کا وہ معیار اور طور طریقہ ہے جو غرباء اور فقراء کا ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ جس کو کفات (بقدر ضرورت) کہا جاسکتا ہے، عنوان بالا میں فقراء کی فضیلت اور حضور ﷺ کی معاشی زندگی کو ایک ساتھ ذکر کرنے اور دونوں سے متعلق احادیث و مضمون کو ایک باب میں نقل کرنے میں جو خاص حکمت ہے وہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اکثر انبیاء اولیاء کی طرح حضور ﷺ کا معیار زندگی اور بسر اوقات بھی غرباء و فقراء کی طرح تھا، یعنی سرکار دو عالم ﷺ خوشحال زندگی اختیار کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود اپنی زندگی اس طرح بسر کرتے تھے جس طرح کوئی غریب و مفلس شخص بسر کرتا ہے اور اپنے متعلقین کی کفالت اسی تنگی اور سخت کوشی و جانکاہی کے ساتھ کرتے تھے جو غریب و نادار لوگوں کا معمول ہے، چناچہ غریب و نادار مومن کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے یہی بات بہت کافی ہے۔ واضح رہے کہ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ صبر و رضا اختیار کرنے والا غریب و مفلس سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے یا شکر گزار غنی و خوشحال شخص ؟ چناچہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ شکر گزار غنی زیادہ فضیلت رکھتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھ سے اکثر وہ چیزیں عمل میں آتی ہیں جو صدقہ و خیرات اور مالی انفاق و ایثار یعنی زکوٰۃ قربانی اور نیک کاموں میں خرچ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ قرب و نزدیکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں نیز حدیث میں بھی اغنیاء کی تعریف میں یوں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا آیت (ذالک فضل اللہ یؤ تیہ من یشاء) یعنی یہ مال و دولت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اکثر حضرات یہ فرماتے ہیں کہ صبر کرنے والا غریب و مفلس زیادہ فضیلت رکھتا ہے جس کی ایک سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ خود حضور سرور کائنات ﷺ کا معیار زندگی اغنیاء کے مطابق نہیں تھا بلکہ غرباء اور مفلسوں کی طرح تھا نیز اس باب میں جو احادیث منقول ہوں گی وہ سب بھی ان حضرات کے قول کی دلیل ہیں۔ تاہم یہ بات ملحوظ رہے کہ اس اختلافی اقوال کا تعلق دراصل مطلق فقر اور غنا کی حقیقت و ماہیت سے ہے اور اس کا اعتبار بھی وجوہ کے مختلف ہونے پر ہے۔ چناچہ ایک شخص کے حق میں کبھی تو غنا یعنی دولتمندی، خیر و بھلائی کا باعث بن سکتی ہے اور کبھی اس کا فقیر و مفلس ہونا ہی اس کے حق میں بہتر ہوسکتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ پر مہربان ہوتا ہے تو اس کو وہی چیز دیتا ہے جو اس کے حق میں صلاح و فلاح کا ذریعہ ہوتی ہے۔ خواہ فقر ہو یا غنا اور خواہ صحت ہو یا تندرستی ! یہی حکم کہ اختلاف وجوہ کی بنا پر ایک ہی چیز کبھی افضل ہوسکتی ہے اور کبھی مفضول ان تمام صفات کا ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ حضرت شیخ المشائخ سید محی الدین عبدالقادر جیلانی (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ صبر کرنے والا مفلس بہت رہے یا شکر گزار دولتمند ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ شکر گزار فقیر دونوں سے بہتر ہے۔ انہوں نے اس جواب کے ذریعہ گویا فقر و افلاس کی فضیلت کی طرف اشارہ فرمایا کہ فقر افلاس درحقیقت ایک نعمت ہے کہ اس پر شکر گزار ہونا چاہئے نہ کہ وہ کوئی مصیبت و بلا ہے جس پر صبر کیا جائے، شیخ عالم عارف ربانی اور ولی اللہ حضرت عبدالوہاب متقی (رح) اپنے شیخ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے جب تک ہم سے فقر و افلاس کی فضیلت کا اقرار و اعتراف نہیں کرا لیا اس وقت تک ہمیں بیعت نہیں کیا، چناچہ فرمایا کہ اس طرح کہو الفقر افضل من الغناء فقر و افلاس، غنا سے بہتر ہے جب ہم نے اس بات کو دہرایا تب انہوں نے ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور ہمیں مرید کہا۔ اس موقع پر اس بات کو بھی جان لینا چاہئے کہ اصلاح شریعت میں فقیر کا وہ مفہوم مراد نہیں ہوتا جو عام طور پر معروف ہے یعنی گدا گر بھکاری اور منگتا، بلکہ اس لفظ سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جس کو عرف عام میں غریب و مفلس کہا جاتا ہے اور جو مال و اسباب سے تہی دست ہوتا ہے اسلام کی مذہبی کتابوں اور احکام و مسائل میں ایسے شخص کے لئے عام طور پر دو لفظ استعمال ہوتے ہیں ایک تو فقیر دوسرے مسکین ، چناچہ بعض حضرات نے ان دونوں میں فرق کیا ہے اور کہا ہے کہ فقیر کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو نصاب یعنی اس قدر مال و اسباب کا مالک نہ ہو جس کی وجہ سے اس پر زکوٰۃ و فطرہ واجب ہوتا ہو، یا اس شخص کو فقیر کہا جاتا ہے جو بس ایک دن کی غذائی ضروریات کے بقدر مال و اسباب رکھتا ہو اور اس سے زائد اس کے پاس اور کچھ نہ ہو جب کہ مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جو نہ صرف یہ کہ نصاب کا مالک نہ ہو بلکہ اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو یہاں تک کہ وہ ایک دن کی غذائی ضروریات کے بقدر بھی مال و اسباب نہ رکھتا ہو اور بعض حضرات نے اس کے برعکس کہا ہے۔ بہرحال عنوان میں جو لفظ فقراء استعمال کیا گیا ہے اس سے فقیر اور مسکین دونوں مراد ہیں۔

【2】

افلاس اور خستہ حالی کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بظاہر تو پرا گندہ بال اور غبار آلود (یعنی نہایت خستہ حال اور پریشان صورت) نظر آتے ہیں جن کو (ہاتھ یا زبان کے ذریعہ) دروازوں سے دھکیلا جاتا ہے لیکن وہ (خدا کے نزدیک اتنا اونچا درجہ رکھتے ہیں کہ) اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو یقینا پورا کرے۔ (مسلم) تشریح جن کو دروازوں سے دھکیلا جاتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ واقعتا دنیا داروں کے دروازوں پر جاتے ہیں ان کو وہاں سے دھکیلا جاتا ہے کیونکہ جو لوگ اللہ کے لئے دنیا کی ظاہری زینت و عزت کی چیزوں سے دور رہتے ہیں، ان کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ کوئی ایسا کام کریں گے جس سے ذلت اٹھانا پڑے، بلکہ اس جملہ سے مراد یہ ہے کہ اولیاء اللہ کی روحانی عظمتوں کا راز ان کی شکستہ حالی میں پوشیدہ ہوتا ہے اور ان کا ظاہر، ان کے باطن کا اس حد تک سرپوش ہوتا ہے کہ اگر بالفرض وہ کسی کے گھر جانا چاہیں تو لوگوں کی نظر میں ان کی کوئی قدر و منزلت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو دروازہ ہی پر روک دیا جائے مکان میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ اور ظاہر ہے کہ جب وہ دروازوں سے دھکیلے جاسکتے ہیں تو ان کو مجلسوں اور محفلوں میں آنے سے بطریق اولی روکا جاسکتا ہے اور اس میں حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ ان کی حقیقت لوگوں پر ظاہر ہو اور وہ ایسی حالت میں رہیں جس سے لوگ ان کی طرف مائل و ملتفت ہوں، تاکہ ان کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے کوئی انس ورغبت نہ ہو۔ پس حقیقت میں اللہ تعالیٰ ان پاک نفس بندوں کو دنیا داروں اور ظالموں کے دروازوں پر کھڑے رہنے اور ان کے حرام مال کے کھانے پینے سے محفوظ رکھتا ہے، جیسا کہ کوئی شخص اپنے مریض کو اب و ہوا اور نقصان دہ غذاؤں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ چناچہ وہ لوگ اپنے مولیٰ کے در کے علاوہ اور کسی دروازے پر حاضری نہیں دیتے اور اپنے کمال استغناء اور بےنیازی کی وجہ سے اپنے پروردگار کے علاوہ کسی دوسرے کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ اور اگر وہ اللہ پر قسم کھائیں الخ کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اللہ پر اعتماد کر کے اور اس کی قسم کھا کر یہ کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں کام کرے گا یا فلاں کام نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو سچا کرتا ہے بایں طور کہ ان کے کہنے کے مطابق اس کام کو کرتا ہے یا نہیں کرتا، جیسا کہ باب الدیت میں اس کے متعلق ایک روایت گزر چکی ہے حاصل یہ کہ وہ لوگ اگرچہ اپنی ظاہری حالت کی وجہ سے دنیا داروں کی نظر میں کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتے مگر حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا مرتبہ اتنا بلند اور اس کی بارگاہ میں ان کی عزت و مقبولیت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ ان کو سچا کرتا ہے اور ان کی قسم پوری کرتا ہے یعنی وہ بات پوری ہو کر رہتی ہے۔

【3】

ملت کے حقیقی خیر خواہ وپشت پناہ، غریب ونا تو اں مسلمان ہیں

حضرت مصعب بن سعد تابعی (رح) کہتے ہیں کہ (میرے والد) حضرت سعد (رض) نے اپنے بارے میں یہ گمان کیا کہ وہ اس شخص سے افضل ہیں جو ان سے کمتر ہے (یعنی ضعیف و نا تو اں شخص یا فقیر و مفلس چناچہ رسول کریم ﷺ نے (ان کا یہ گمان ختم کرنے اور دوسروں کو آگاہ کرنے کے لئے) فرمایا۔ تمہیں (دشمنان دین کے مقابلہ پر) مدد و سہارا اور رزق کن لوگوں کی برکت سے ملتا ہے انہی کی برکت سے جو ضعیف و نا تو اں اور غریب و نادار ہیں (بخاری) تشریح حضرت سعد (رض) بہت سے اوصاف اور خوبیوں کے مالک تھے، مثلا شجاعت (دل اوری) جود و کرم اور سخاوت، فیاضی جیسے اعلی اوصاف ان میں بدرجہ اتم تھے، چناچہ ان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوئی کہ جو لوگ مجھ جیسی خصوصیات اور خوبیاں نہیں رکھتے ان کی بہ نسبت میں مسلمانوں کی زیادہ مدد و اعانت کرتا ہوں اور اس اعتبار سے اسلام کے لئے میرا وجود زیادہ فائدہ مند ہے ذہن کی یہ بات زبان بھی آگئی ہوگی، لہٰذا حضور ﷺ نے ان کے اس گمان سے ان کو باز رکھا اور واضح فرمایا کہ تمہارا اس انداز سے سوچنا غیر مناسب بات ہے تمہیں چاہئے کہ جو لوگ طاقت و قوت اور مال و دولت کے اعتبار سے تم سے کمتر ہیں ان کی عزت کرو، انہیں کمتر و حقیر نہ سمجھو اور ان کے تئیں تکبر و نخوت کا رویہ اختیار نہ کرو کیونکہ وہ لوگ بڑے شکستہ دل اور مسکین ہوتے ہیں، ان میں خلوص و سچائی کا جوہر ہوتا ہے، ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہوتی ہے اور تم انہی کی دعاؤں کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتے ہو، اللہ انہی کے طفیل تمہیں دشمنوں پر غالب کرتا ہے اور تمہارے رزق میں برکت عطا فرماتا ہے۔

【4】

غریب ونادار مسلمانوں کو جنت کی بشارت

حضرت اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ فرمانے لگے کہ میں (معراج کی رات، یا خواب میں، یا حالت کشف میں) جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تھا (میں نے دیکھا کہ جو لوگ جنت میں داخل ہوئے ہیں ان میں زیادہ تعداد غریبوں کی ہے اور مالداروں کو قیامت کے میدان میں روک رکھا گیا ہے۔ البتہ اصحاب نار یعنی کافروں کو دوزخ میں لے جانے کا حکم دے دیا گیا ہے اور جب میں دوزخ کے دروزاے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ جو لوگ دوزخ میں ڈالے گئے ہیں ان میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہے ۔ (بخاری ومسلم) تشریح محبوسون کے معنی ہیں وہ لوگ جن کو جنت میں جانے سے روک دیا گیا ہے حاصل یہ کہ مومنین میں سے جو لوگ اس فانی دنیا میں مالداری و تمول اور جاہ و منصب کی وجہ سے عیش و عشرت کی زندگی اختیار کئے ہوئے ہیں ان کو جنت میں جانے سے اس وقت تک کے لئے روکا رکھا جائے گا، جب تک ان سے اچھی طرح حساب نہیں لیا جائے گا، چناچہ اس وقت وہ لوگ اس بات سے سخت رنج و غم محسوس کریں گے کہ انہیں دنیا میں مال و زر کی کثرت اور جاہ و منصب کی وسعت کیوں حاصل ہوئی اور وہ اپنی خواہشات نفس کے مطابق دنیاوی لذات و عشرت سے کیوں بہرہ مند ہوئے کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر ان سے ان دنیاوی امور کا ارتکاب ہوا ہوگا جن کو حرام قرار دیا گیا ہے تو وہ عذاب کے مستوجب ہوں گے اور اگر انہوں نے محض ان چیزوں کو اختیار کیا ہوگا جن کو حلال قرار دیا گیا ہے تب بھی انہیں حساب و کتاب کے مرحلہ سے بہرحال گزرنا پڑے گا، جب کہ فقراء و مفلس لوگ اس سے بری ہوں گے کہ نہ تو ان سے حساب لیا جائے گا اور نہ انہیں جنت میں جانے سے روکا جائے گا بلکہ وہ مالداروں سے چالیس سال پہلے جنت میں چلے جائیں گے اور ان کا مالداروں سے پہلے جنت میں جانا گویا ان نعمتوں کے عوض میں ہوگا جن سے وہ دنیا سے محروم رہے ہوں گے۔

【5】

جنتیوں اور دوزخیوں کی اکثریت کن لوگوں پر مشتمل ہوگی

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثر تعداد غریبوں اور نادار لوگوں کی نظر آئی اور دوزخ میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثریت عورتوں کی نظر آئی (بخاری ومسلم)

【6】

فقراء کی فضیلت

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا فقراء، مہاجرین قیامت کے دن جنت میں اغنیاء (مال داروں) سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے (مسلم) تشریح چالیس سال سے مراد وہ عرصہ ہے جو ہماری اس دنیا کے شب و روز کے اعتبار سے چالیس سال کے بقدر ہوتا ہے اور اس حدیث کے ظاہر مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس حدیث کا تعلق خاص طور پر انہی فقراء سے ہے جو مہاجرین میں سے تھے۔ اس طرح اغنیاء سے مراد بھی اغنیائے مہاجرین ہیں۔ رہی یہ بات کہ یہاں فقراء اور اغنیاء کے ساتھ مہاجرین کی قید کیوں لگائی گئی ہے تو اس کی حقیقت دوسری فصل کی پہلی حدیث سے معلوم ہوگی۔ نیز جنت میں فقراء کے پہلے داخل ہونے کی وجہ ہوگی اغنیاء تو حساب کی طوالت کی وجہ سے میدان حشر میں رکے رہیں گے، جب کہ فقراء حساب کے بغیر جنت میں داخل ہو کر وہاں کی سعادتوں اور نعمتوں سے بہرہ مند ہونے لگیں گے۔

【7】

فقراء کی فضیلت

حضرت سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ کے سامنے سے ایک شخص گزرا تو آپ ﷺ نے (اس کو دیکھ کر) اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ جو شخص گزرا ہے اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، یعنی یہ کوئی اچھا شخص ہے یا برا ؟ اس شخص نے جواب دیا کہ یہ شخص نہایت معزز اور شریف ترین لوگوں میں ہے، بخدا، اس شخص کی حیثیت یہ ہے کہ اگر کسی عورت سے نکاح کا پیغام بھیجے تو اس عورت سے اس کا نکاح ہوجائے اور اگر (کسی حاکم و سردار سے کسی شخص کے بارے میں کوئی سفارش کرے تو اس کی سفارش مان لی جائے، راوی حضرت سہل (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ (یہ جواب سن کر) خاموش رہے، اتنے میں ایک دوسرا شخص سامنے سے گزرا تو آپ ﷺ نے اس کو دیکھ کر اپنے پاس بیٹھے ہوئے اسی شخص سے پوچھا کہ اچھا اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ ! یہ شخص نادار، قلاش مسلمانوں میں سے ہے، اس کی حیثیت تو یہ ہے کہ اگر نکاح کا پیغام دے تو اس سے کوئی نکاح نہ کرے، اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ ہو اور اگر کوئی بات کہے تو اس کی وہ بات سننے پر کوئی تیار نہ ہو (یعنی یہ شخص اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے اتنی قدر و منزلت بھی نہیں رکھتا کہ کوئی شخص اس کی بات سننے پر آمادہ ہوجائے اور اس کی طرف التفات و توجہ کرے رسول کریم ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا۔ (نادان) یہ شخص (کہ جس کو تم نے حقارت کی نظر سے دیکھا ہے اور ایک بےحیثیت انسان سمجھا ہے) اس شخص جیسے لوگوں سے ہری زمین سے بھی کہیں بہتر ہے (جس کی تم نے تعریف کی ہے) (بخاری ومسلم) تشریح اس شخص جیسے لوگوں سے بھری زمین الخ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمام روئے زمین اس شخص جیسے لوگوں سے بھر جائے جو پہلے یہاں سے گزرا تھا اور جس کی تعریف و توصیف میں تم رطب اللسان ہوئے تھے تو وہ ایک شخص کہ جو اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے تمہاری نظر میں کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتا ہے مرتبہ و فضیلت کے اعتبار سے اس تمام روئے زمین سے کہیں بہتر قرار پائے گا ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضور ﷺ کے پاس جو صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور جن سے حضور ﷺ نے ان دونوں اشخاص کے بارے میں سوال کیا تھا وہ خود کوئی غنی اور مال دار شخص ہوں گے، لہٰذا ان کے ساتھ مذکورہ سوال و جواب گویا ان کے حق میں یہ تنبیہ تھی کہ غریب و نادار مسلمانوں کو بنظر حقارت نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ اللہ کے نزدیک ان کو جو فضیلت حاصل ہے وہ بڑے بڑے مالداروں کو بھی حاصل نہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضور ﷺ نے مالدار مسلمانوں کے مقابلہ پر غریب و نادار مسلمان کی اس درجہ فضیلت کیوں بیان فرمائی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر غریب و نادار مسلمان کا دل بہت صاف ہوتا ہے اور اس کے سبب وہ حق کو بہت جلد قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی بہت زیادہ کرتا ہے، اس کے برخلاف غنی و مالدار لوگ عام طور پر بےحسی اور شقاوت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر سرکشی وبے نیازی اور تکبر کا وہ مادہ پیدا ہوجاتا ہے جو انہیں قبول حق اور احکام الٰہی کی پیروی سے باز رکھتا ہے۔ اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ آیت (سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ) 7 ۔ الاعراف 146) اور اس حقیقت کا اندازہ علماء کے شاگردوں اور صلحاء و مشائخ کے مریدوں کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے کہ ان میں سے جو لوگ غریب و نادار ہوتے ہیں وہ حق بات کو بہت جلد قبول کرلیتے ہیں اور جو لوگ صاحب ثروت و مالدار ہوتے ہیں وہ ہر بات میں حیل و حجت کرتے ہیں۔ حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پہلے گزرنے والا شخص بھی مالدار مسلمانوں میں سے تھا نہ کہ کوئی کافر تھا کیونکہ مفاضلہ (یعنی آپس میں ایک دوسرے کی اخروی فضیلت کو ظاہر کرنے) کا تعلق کفار و مسلمین کے مابین ہو ہی نہیں سکتا (یعنی کسی مسلمان اور کسی کافر کو ایک دوسرے کے مقابلہ پر رکھ کر یہ کہا ہی نہیں جاسکتا کہ اخروی اجر وثواب کے اعتبار سے ان میں سے کون شخص زیادہ افضل ہے) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار میں سے کسی بھی شخص کی طرف سرے سے خیر (یعنی اخروی سعادت و بھلائی کی نسبت کی ہی نہیں جاسکتی (اور ظاہر ہے کہ جس شخص میں خیر سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہوسکتا ہو اس کی طرف اخروی فضیلت کی نسبت بھی کسی طرح نہیں کی جاسکتی چناچہ بعض علماء نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جس مسلمان نے اپنی اپنی زبان سے یوں کہا کہ النصرانی خیر من الیہودی (یعنی عیسائی یہودی سے افضل ہے) تو اس کے بارے میں خوف ہے کہ وہ دائرہ کفر میں داخل نہ ہوگیا ہو کیونکہ اس نے اس جملہ کے ذریعہ گویا ان لوگوں میں خیر کا وجود ثابت کیا جن میں سرے سے خیر کا وجود ہی نہیں ہوسکتا، تاہم اس پر کفر کا اطلاق، جزم کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ بعض موقعوں پر لفظ کے ذریعہ (اخروی سعادت و بھلائی کے بجائے) حق کے زیادہ قریب کا مفہوم بھی مراد لے لیا جاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ مذکورہ جملہ ادا کرنے والے نے لفظ خیر کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہو۔

【8】

اہل بیت نبوی ﷺ کے فقر کی مثال

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ محمد ﷺ کے اہل بیت (یعنی ازواج مطہرات اور متعلقین) نے دو روز مسلسل جو کی روٹی سے پیٹ بھرا ہو (چہ جائیکہ گیہوں کی روٹی سے) یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے (بخاری ومسلم) تشریح دو روز مسلسل سے یہ واضح ہوا کہ حضور ﷺ اور آپ کے اہل بیت کا معمول یہی تھا کہ اگر ایک دن پیٹ بھر کر کھایا تو دوسرے دن بھوکے رہے اور یہ اس وجہ سے تھا کہ حضور ﷺ نے خوشحالی و ترفہ کی زندگی پر فقر و افلاس کی زندگی کو ترجیح دی تھی اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو دنیا بھر کے خزانوں کی پیش کش ہوئی اور حکم ہوا اگر آپ ﷺ کہیں تو مکہ کے پہاڑوں کو آپ ﷺ کے لئے سونے میں تبدیل کردیا جائے تو حضور ﷺ نے دنیا بھر کے خزانوں اور سونے کے پہاڑوں کو تبدیل کرنے کے بجائے فقر اور تنگدستی ہی کو اختیار کیا اور فرمایا کہ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن پیٹ بھروں اور ایک دن بھوکا رہوں، تاکہ جس دن پیٹ بھروں اس دن اللہ کا شکر ادا کروں اور جس دن بھوکا رہوں اس دن صبر کروں۔ مذکورہ بالا حدیث سے بعض لوگوں کے اس قول کی تردید ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺ اپنی زندگی کے آخری حصہ میں غنی و مالدار ہوگئے تھے، کیونکہ اگر حضور ﷺ اپنی آخری عمر میں واقعتا غنی ہوگئے تھے تو پھر حضرت عائشہ (رض) کے اس کہنے کے کیا معنی ہوں گے کہ حضور ﷺ کے اہل بیت کا حضور ﷺ کی وفات تک یہی معمول رہا کہ انہوں نے کبھی مسلسل دو دن تک جو کی روٹی سے پیٹ نہیں بھرا ؟ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ جب آخری زمانہ نبوی میں اسلام کو طاقت اور غلبہ ملا اور مجاہدین اسلام نے مختلف علاقوں کو فتح کیا تو اس صورت میں مال غنیمت کا مقررہ حصہ حضور ﷺ کو بھی ملا اور تھوڑا بہت مال آپ ﷺ کے پاس آتارہا مگر روایات صحیحہ شاہد ہیں کہ حضور ﷺ اس مال کو بھی اپنے پاس کبھی نہیں رکھا، بلکہ جس طرح آتا اسی طرح اس کو اپنے پوردگار کی خوشنودی کی راہ میں خرچ کردیتے اور خود ہمیشہ کی طرح خالی ہاتھ رہ جاتے، البتہ دل کا غنا اور بڑھ جاتا، حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی حالت یہ تھی کہ مسلسل کئی کئی راتیں بھوک میں گزار دیتے تھے حضور ﷺ اور اہل بیت کو رات کا کھانا میسر نہیں ہوتا تھا اور وقتا فوقتا کھانا میسر ہونے کی صورت میں بھی آپ ﷺ کے دسترخوان پر عام طور سے جس چیز کی روٹی ہوتی تھی وہ جو تھا۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہمارے زمانہ کے غریب و نادار لوگوں اور فقراء میں سے کوئی بھی شخص اتنی سخت زندگی نہ تو گزاتا ہے اور نہ گزار سکتا ہے جتنی سخت زندگی حضور ﷺ گزارتے تھے اور یہ شان اس ذات گرامی کی تھی جو نہ صرف افضل البشر بلکہ افضل الانبیاء ہے جس کے چشم و ابرو کے اشارے پر دنیا بھر کی نعمتیں اس کے قدموں میں آسکتی تھیں۔ پس حضور ﷺ کے اس طرز زندگی میں غریب و نادار مسلمانوں کے لئے بڑی تسلی و اطمینان کا سامان پوشیدہ ہے۔ واضح رہے کہ حضور ﷺ کا اس قدر فقر و افلاس کی زندگی گزارنا اور بھوک کی صعوبت کو برداشت کرنا کوئی اضطرار و مجبوری کے درجہ کی چیز نہیں تھی بلکہ یہ اپنے قصد و اختیار کا نتیجہ تھا کہ آپ ﷺ چونکہ دنیا کی لذات اور نعمتوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے، قوت لایموت پر قناعت کرتے اور اپنی اور اپنے اہل بیت کی ضروریات پر فقراء و مساکین اور دیگر ضرورت مندوں کی ضروریات کو ترجیح دے کر ایثار نفس پر عمل پیرا تھے اس لئے آپ ﷺ اتنی سخت زندگی گزارتے تھے۔

【9】

اتباع نبوی ﷺ کی اعلیٰ مثال

حضرت سعید مقبری تابعی (رح) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت ابوہریرہ (رض) کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے (جو ایک جگہ کھانے کے دسترخوان پر جمع تھے) اور ان کے سامنے بھنی ہوئی بھری بکری رکھی تھی۔ انہوں نے (کھانے کے لئے) حضرت ابوہریرہ (رض) کو بھی بلایا، لیکن انہوں نے انکار کردیا اور (اپنے نہ کھانے کے عذر میں) فرمایا کہ رسول کریم ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور کبھی آپ ﷺ نے جو کی روٹی سے بھی اپنا پیٹ نہیں بھرا لہٰذا یہ کیسے گوارا ہوسکتا ہے کہ میں بھنی بکری جیسی لذیذ غذا سے اپنا پیٹ بھروں جب کہ حضور ﷺ کو پیٹ بھر جو کی روٹی بھی میسر نہ ہوتی تھی ۔ (بخاری)

【10】

حضور ﷺ کی معاشی زندگی پر قرض کا سایہ

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جو کی روٹی اور ایسی چربی لے کر آئے جو زیادہ دن رکھی رہنے کی وجہ سے بدبو دار ہوگئی تھی۔ نیز حضرت انس (رض) ہی نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (ایک مرتبہ) اپنی زرہ مدینہ میں ایک یہودی کے پاس گروی رکھ کر اس سے اپنے اہل بیت کے لئے کچھ جو لئے۔ حضرت انس (رض) سے روایت کرنے والے نے یہ بھی بیان کیا کہ میں نے حضرت انس (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ محمد ﷺ کے اہل بیت کی ایسی کوئی شام نہیں ہوتی تھی جس میں ان کے پاس ایک صاع گیہوں یا کوئی اور غلہ رہتا ہو جب کہ حضور ﷺ کے نو بیویاں تھیں۔ (بخاری) تشریح روایت کے آخری الفاظ کے ذریعہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حضور ﷺ نے اپنے اہل بیت کے لئے کسی رات میں آنے والے دن کے لئے کسی طرح کا غلہ رکھ چھوڑا ہو باوجودیکہ آپ ﷺ کے نو بیویاں تھیں اور ان کی غذائی ضروریات کے لئے تھوڑا بہت غلہ ہر وقت آپ ﷺ کے یہاں رہنا چاہئے تھا۔ جہاں تک ایک یہودی سے حضور ﷺ کے قرض لینے کی بات ہے تو اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر آپ ﷺ کسی مسلمان سے قرض لیتے تو مسلمان پر آپ ﷺ کا حال ظاہر ہوتا اور وہ آپ ﷺ کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے جب کہ آپ ﷺ اس بات کو ہرگز پسند نہیں فرماتے تھے کہ آپ ﷺ کی ضروریات زندگی کا بار مسلمانوں کے کاندھوں پر پڑے اور وہ خواہ خوشی یا کسی گرانی کے ساتھ اور شرم حضوری میں آپ ﷺ کو کچھ دیں۔ لیکن یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ حضور ﷺ کا کسی مسلمان کی بجائے ایک یہودی سے قرض لینا دراصل اس بات سے انتہائی تنزہ اور کامل احتیاط کے پیش نظر تھا کہ حضور ﷺ اپنی امت کے لوگوں سے کسی اجر و معاوضہ کے طلب گار ہوں خواہ وہ اجر و معاوضہ کے اعتبار سے نہ ہو بلکہ محض صورۃً ہو جیسا کہ مثلاً قرض کی صورت، کہ اگر آپ ﷺ کسی مسلمان سے قرض لیتے تو اس پر اجر و معاوضہ کا اطلاق نہ ہوتا، مگر ممکن تھا کہ کسی نہ کسی درجہ میں نفع اٹھانے کی وجہ سے اس پر بھی صورتاً اجر و معاوضہ کا اطلاق ہوجاتا، اس لئے آپ ﷺ احتیاطا اس کو بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ کسی مسلمان سے قرض ہی کی صورت میں کوئی مالی فائدہ حاصل کریں، چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت (قل لا اسألکم علیہ من اجر ان اجری الا علی اللہ ) حضور ﷺ کے اس کامل احتیاط کی ایک نظیر ہمارے امام، امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کی زندگی میں بھی ملتی ہے، چناچہ ان کے بارے میں منقول ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کی دیوار کے سایہ سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے تھے جس پر ان کا کوئی قرض ہوتا تھا اور ان کی یہ احتیاط اس حدیث کے پیش نظر ہوتی تھی کل قرض جر منفعۃ فھو ربوا (یعنی جو بھی قرض کوئی منفعت کھینچ کر لائے وہ سود ہے) ۔ مذکورہ بالا حدیث کے ضمن میں ایک اشکال واضح ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بعض صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کے بقدر کفایت لازمی ضروریات کی بعض چیزیں ایک سال کے لئے اکٹھا بھروا کر رکھ دی تھیں، جب کہ یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے اس سے اس کے برعکس ثابت ہوتا ہے ؟ اس کا جواب علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ حقیقت تو یہی ہے کہ شروع میں بہت کافی عرصہ تک، جب کہ آپ ﷺ کی معاشی زندگی پر فقر کا زیادہ غلبہ تھا آپ ﷺ اس معمول پر قائم تھے کہ کبھی کسی چیز کا ایک دن کے لئے بھی ذخیرہ نہیں کیا، جس دن جو کچھ میسر ہوگیا وہ اس دن کی غذائی ضروریات میں کام آگیا، اگلے دن کے لئے قناعت و توکل کے علاوہ کچھ پاس نہیں رہا، ہاں بعد میں جب معاشی حالت کچھ بہتر ہوئی اور آمدنی میں کچھ وسعت ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرت کے لئے ایک سال کی غذائی ضروریات کے بقدر غلہ کہ جو حد کفایت سے متجاوز نہیں تھا، اکٹھا بھروا دیا تھا۔ بعض حضرات نے ان دونوں طرح روایتوں میں اس طور پر مطابقت پیدا کی ہے کہ اٰل محمد میں لفظ آل زیادہ ہے جیسا کہ اہل عرب کے اسلوب کلام میں یہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ (آل فلاں) بول کر اس کے لفظی معنی ( فلاں کے اہل بیت) کے بجائے صرف اس فلاں کی ذات کو مراد لیتے ہیں مثلاً اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ آل زید (یعنی زید کے گھر والوں) کے پاس چند روپے بھی نہیں ہیں تو اس جملہ سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ خاص طور پر زید کے پاس چند روپے بھی نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ بات بعید از حقیقت نہیں ہوسکتی کہ کبھی بھی دو روز مسلسل جو کی روٹی سے پیٹ نہ بھرنے یا اگلے دن کے لئے غلہ وغیرہ جمع نہ رکھنے کی بات خاص طور سے آنحضرت ﷺ کی ذات مبارک سے تعلق رکھتی ہو یعنی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ خود آپ ﷺ نے مسلسل دو دن تک پیٹ بھر کر نہ کھایا ہو یا خاص اپنی ذات کے واسطے آنے والے ایک آدھ دن کے لئے رکھ چھوڑا ہو، ہاں اگر آپ ﷺ نے کبھی کبھار ایسا کیا ہو کہ اپنی ازواج مطہرات کے لئے کچھ دنوں یا ایک آدھ سال کی غذائی ضروریات کے بقدر غلہ وغیرہ بھروا کر رکھ دیا ہو تو یہ اس بات کے منافی نہیں ہے۔

【11】

دنیا کی طلب مومن کی شان نہیں

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضور ﷺ کھجور کے پات کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، آپ ﷺ کے بدن مبارک اور چٹائی کے درمیان کوئی بچھونا وغیرہ نہیں تھا جس کی وجہ سے حضور ﷺ کے پہلوئے مبارک پر چٹائی نے بدھیاں ڈال دی تھیں، نیز آپ ﷺ نے سر مبارک کے نیچے جو تکیہ رک رکھا تھا وہ چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، میں نے (سرکار دو عالم کو اس حالت میں دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں فرماتے کہ وہ آپ ﷺ کی امت کو مالی وسعت و فراخی عطا فرمائے ؟ فارس اور روم کے لوگوں کو کس قدر وسعت و فراخی عطا کی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی نہیں کرتے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ابن خطاب ! یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ کیا تم ابھی تک اسی جگہ ہو ( جہاں سے تم شروع میں چلے تھے اور اتنے عرصہ کے بعد بھی تمہارے انداز فکر اور سوچنے سمجھنے کا معیار اتنا آگے نہیں بڑھا جو تم حقیقت تک پہنچ سکو ؟ یاد رکھو یہ اہل فارس و روم (اور تمام کفار) وہ لوگ ہیں جن کو تمام نعمتیں اور خوبیاں بس ان کی دنیاوی زندگی ہی میں دے دی گئی ہیں (جب کہ ہمیشہ کی زندگی یعنی آخرت میں ان کو فقر و افلاس، ذلت و خواری اور خسران و نقصان کے سوا کچھ نہیں ملے گا) اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ کیا تم اس پر راضی و مطمئن نہیں ہو کہ ان (اہل فارس و روم اور دیگر کفار) کو دنیا ملے (جو فنا ہوجانے والی ہے) اور ہمیں آخرت ملے (جو اپنی تمام تر نعمتوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے یعنی وہی چٹائی سرکار دو عالم ﷺ کا بستر تھا جس کو چارپائی پر ڈال کر اس پر آپ لیٹے ہوئے تھے یا وہ چٹائی زمین پر بچھی ہوئی تھی اور آپ ﷺ اسی کھری چٹائی پر استراحت فرما رہے تھے اور بعض عبارتوں سے یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی جو چارپائی تھی وہی کھجور کی رسیوں سے بنی ہوئی تھی جیسا کہ چارپائیوں کو بان سے بنا جاتا ہے۔ رمال راء کے پیش اور زبر دونوں کے ساتھ اصل میں رمل کی جمع ہے اور مرمول (یعنی بنے ہوئے کے) معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ مخلوق کے معنی میں خلق استعمال ہوتا ہے۔ لیف (لام کے زیر اور راء کے جزم کے ساتھ) کھجور کی چھال کو کہتے ہیں ! حاصل یہ کہ حضور ﷺ کا جو تکیہ مبارک تھا وہ چمڑے کا تھا اور اس میں روئی وغیرہ کے بجائے کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، چناچہ جو لوگ غریب و نادار ہوتے ہیں، روئی وغیرہ کا تکیہ بنانا ان کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے وہ کھجور کی چھال کو کوٹ کر نرم کرلیتے ہیں اور اس کو تکیہ میں بھر لیتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے امت کے حق میں مالی وسعت اور رزق کی فراخی کی دعا کے لئے حضور ﷺ سے جو درخواست کی، اس کی وجہ یہ تھی کہ جب انہوں نے دیکھا کہ حضور ﷺ فقر کو اختیار کر کے اتنی سخت زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس حال میں رکھے ہوئے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ حضور ﷺ فقر کو اختیار کر کے اتنی سخت زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس حال میں رکھے ہوئے تو انہوں نے سوچا کہ اگر پوری امت بھی اسی فقر و افلاس میں مبتلا رہی اور اس کو معاشی زندگی کی غرب و دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس امت کے وہ لوگ جو مضبوط عقیدہ و مزاج کے نہیں ہوں گے، اتنی سخت زندگی کی تاب نہیں رکھ پائیں گے اور ناقابل برداشت دشواریوں میں مبتلا ہوجائیں گے لہٰذا انہوں نے ایسے لوگوں کے مناسب حال یہی جانا کہ انہیں مالی وسعت و فراخی عطا ہوجائے۔ لیکن طیبی (رح) یہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کا اصل مقصد خود حضور ﷺ کی ذات کے لئے مالی وسعت و فراخی کی خواہش کرنا تھا، مگر انہوں نے اس بات کو آنحضرت ﷺ کی شان عظمت کے مناسب نہیں سمجھا کہ براہ راست حضور ﷺ کے لئے اس ادنیٰ اور ناپاک دنیا کی طلب کو ظاہر کریں، جیسا کہ ایک روایت میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ ﷺ ایک نہایت گرم اور تنگ و تاریک کوٹھڑی میں ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں انہوں نے کوٹھڑی کے کونوں میں نظر دوڑائی تو دیکھا کہ بس چمڑے کے دو چار ٹکڑے اور ایک دو باسن پڑے ہوئے ہیں، حضور ﷺ کی غربت و خستہ حالی کا یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر (رض) رونے لگے، حضور ﷺ نے پوچھا کہ ابن خطاب کیوں رو رہے ہو ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ﷺ حضور کی حالت دیکھ کر رو رہا ہوں کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہوتے ہوئے اس حالت میں پڑے ہوئے ہیں اور قیصر و کسری (جو اللہ کے نافرمان و سرکش بندے ہیں) کس قدر ناز و نعم اور عیش و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے بعد روایت کے وہی الفاظ ہیں جو او فی ہذا یا بن الخطاب سے آخرت، اوپر حدیث میں نقل ہوئے طیبی کی یہ وضاحت بھی اگرچہ حقیقت کے بہت زیادہ قریب ہے لیکن خود حضرت عمر (رض) کے الفاظ فان فارس و روم قد وسع علیہم کے پیش نظر پہلی توضیح زیادہ مناسب ہے۔

【12】

اصحاب صفہ کی ناداری

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اصحاب صفہ میں سے ستر افراد کو دیکھا جن میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا کہ اس کے پاس کوئی چادر ہو (جس کو وہ دوسرے کپڑے کے اوپر اوڑھ لے یا کاندھوں پر ڈال لے، گویا ان کو صرف ایک کپڑے کے علاوہ اور کوئی کپڑا میسر نہیں تھا اور وہ کپڑا (بھی) یا تو تہبند تھا یا کملی تھی، جس کو وہ اپنی گردنوں میں باندھ لیتے تھے (اور اس کے ذریعہ اپنے جسم و ستر کو ڈھانکتے تھے) ان تہبند اور کملیوں میں سے بعض ایسے تھے جو صرف آدھی پنڈلیوں تک آتے تھے اور بعض ایسے تھے جو دونوں ٹخنوں تک پہنچ جاتے تھے، چناچہ جب کوئی شخص سجدہ میں جاتا (یا گھٹنے اٹھا کر بیٹھتا) تو وہ اس خوف سے کہ کہیں اس کا ستر نہ کھل جائے اپنے اس تہبند یا کملی کو ہاتھ سے پکڑے رہتا تھا۔ (بخاری)

【13】

اپنی اقتصادی حالت کا مواز نہاس شخص سے کرو جو تم سے بھی کمتر درجہ کا ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم میں جو شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو اس سے زیادہ مالدار اور اس سے زیادہ اچھی شکل و صورت کا ہو (اور اس کو دیکھ کر اپنی حالت پر رنج و حسرت ہو، اللہ کا شکر ادا کرنے میں سستی و کوتاہی واقع ہوتی ہو اور اس آدمی کے تئیں رشک و حسد کے جذبات پیدا ہوتے ہوں) تو اس کو چاہئے کہ وہ اس آدمی پر نظر ڈال لے جو اس سے کمتر درجہ کا ہے (تاکہ اس کو دیکھ کر اپنی حالت پر اللہ کا شکر ادا کرے اور نعمت عطا کرنے والے پروردگار سے خوش ہو ۔ (بخاری تشریح معاشرہ کے افراد کو دنیاوی مال و متاع اور جاہ و حشمت کے تئیں باہمی بغض و حسد، رشک و حسرت اور بددلی و مایوسی سے بچانے کے لئے حضور ﷺ نے بڑا نفسیاتی طریقہ تجویز فرمایا ہے۔ یہ انسان کی جبلت ہے کہ جب وہ کسی شخص کو اپنے سے زیادہ مالدار اور اپنے سے زیادہ اچھی حیثیت و حالت میں دیکھتا ہے تو یا اس کے اندر اس طرح کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو اس کو بددل و مایوس، رنج خور و حسرت زدہ اور تقدیر الٰہی کا شاکی بتا دیتے ہیں یا پھر اس کے اندر حسد و جلن اور ناروا مسابقت کا مادہ پیدا کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ جائز و ناجائز ہر طرح سے اپنے آپ کو اوپر لے جانے کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح معاشرہ میں عجیب قسم کی جنگ زرگری اور نقصان دہ سماجی و معاشی دوڑ شروع ہوجاتی ہے، چناچہ حضور ﷺ نے اس صورت حال سے بچنے کے لئے مذکورہ بالا ہدایت فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے کہ جو اس سے زیادہ مالدار ہو، اس سے زیادہ اچھی شکل و صورت کا ہو، اس سے زیادہ جاہ و حشمت رکھتا ہو اور اس سے زیادہ اچھے لباس اور زیادہ اچھے مکان میں رہتا ہو، نیز وہ اس حقیقت سے بیخبر ہو کہ اس آدمی کو حاصل شدہ، یہ تمام دنیاوی خوبیاں دراصل آخرت کے اعتبار سے اس کے حق میں وبال کا درجہ رکھتی ہیں کہ وہ انہی چیزوں کی وجہ سے آخرت میں مواخذہ و عذاب کا مستوجب ہوگا تو اس شخص کو چاہئے کہ وہ اس آدمی کی طرف نظر کرے جو مال و منال و شکل و صورت اور دنیاوی حیثیت و عزت کے اعتبار سے اس سے کمتر درجہ کا ہے، لیکن اپنے عقیدہ و خیال اور گفتار و کردار کے اعتبار سے آخرت میں درجہ عالی کا مستحق ہے۔ اس حدیث کے بین السطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاشرہ میں اکثریت ایسے افراد کی ہوئی ہے جو اقتصادی و سماجی طور پر اعتدال کی حالت میں ہوتے ہیں یعنی نہ تو بہت زیادہ اونچے درجہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور نہ بہت نیچے درجہ سے تعلق رکھتے ہیں (معروف اصطلاح میں ایسے لوگوں کو درمیانہ طبقہ کہا جاتا ہے) یہ اور بات ہے کہ وہ حالت اعتدال یکساں نوعیت نہ رکھتی ہو، بلکہ ایسا ہو کہ کوئی شخص کسی کی بہ نسبت معتدل حالت رکھتا ہو اور کوئی شخص کسی کی بہ نسبت۔ لہٰذا جس شخص نے اپنے سے برتر کی طرف دیکھ کر اپنے سے کمتر کی طرف نظر ڈالی وہ یقینا اچھی حالت کا حامل ہوگا۔ اس حدیث میں اس طرح بھی اشارہ ہے کہ بفرض محال کوئی شخص ہر حیثیت اور ہر اعتبار سے اپنے معاشرہ کے تمام ہی لوگوں پر فضیلت و برتری رکھتا ہو تو اس کے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ وہ ان لوگوں کی طرف دیکھے جو اس سے کمتر درجہ کے حامل ہیں، کیونکہ اس صورت میں بعید نہیں کہ اس کے اندر عجب و غرور اور اظہار فخر کا مادہ پیدا ہوجائے لہٰذا اس پر واجب یہ ہوگا کہ وہ جس اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہے اور اپنی فضیلت و برتری کو اپنے بلند کردار کے ذریعہ تواضع و انکساری اور خدمت خلق کا ذریعہ بنا لے نیز جو شخص ایسا ہو کہ کوئی دوسرا آدمی اس سے زیادہ مفلس و قلاش اور اس سے زیادہ غریب و نادار نہ ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرے کہ اس نے مجھے دنیا کے وبال میں مبتلا نہیں کیا اور دنیا داری کے بکھیڑوں اور اس کے غم و فکر سے محفوظ رکھا۔ چناچہ حضرت شبلی (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جب کسی دنیا دار کو دیکھتے تو (اس کے وبال کے خوف سے) بیساختہ ان کی زبان سے نکلتا۔ اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عفو عافیت کا طلب گار ہوں غربت و افلاس کی تنگی و سختی اور فقر و فاقہ کی صعوبتیں حقیقت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے، اس کا اندازہ اس حکایت سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک دن ایک بہت بزرگ و ولی اور عارف باللہ اپنی مجلس میں حاضرین کو وعظ و نصیحت سے مستفید فرما رہے تھے کہ ایک نہایت مفلس و نادار شخص کھڑا ہوا اور شکوہ کرنے لگا کہ حضرت ! میں نے اتنے طویل عرصہ سے نہ تو کسی کے سامنے اور نہ کسی سے چھپ کر کچھ کھایا پیا ہے اور نہایت اخلاص اور کمال استقامت کے ساتھ شدت بھوک کی صعوبتوں کو برداشت کر رہا ہوں۔ ان بزرگ نے فرمایا۔ ارے دشمن خدا ! تو کتنا بڑا جھوٹ بول رہا ہے ؟ تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ شدت بھوک کی صعوبت میں اپنے انہی بندوں کو مبتلا کرتا ہے جو اس کے رسول، نبی اور ولی ہوتے ہیں اگر تو ایسے ہی بندگان اللہ میں سے ہوتا تو اس پوشیدہ راز کو ہرگز ظاہر نہ کرتا اور اللہ کی اس نعمت کو لوگوں سے چھپاتا۔ ان ساری باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ مومن کو جب سلامتی طبع اور حسن استقلال کی دولت مل جاتی ہے اور اس کا دین ہر طرح کے نقصان و خلل سے محفوظ ہوتا ہے تو پھر وہ نہ مال و متاع کی پرواہ کرتا ہے اور نہ جاہ و حشمت سے محرومی اس کو ملول کرتی ہے نیز زمانہ حال یا مستقبل میں اس کو جن مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے وہ ان کو اللہ کی طرف سے ایک ایسی نعمت سمجھ کر کہ جو اس کو آخرت کی سعاتوں اور کامیابیوں سے ہمکنار کرنے والی ہے، صبر و رضا اور شکر و اطمینان کے ساتھ برداشت کرتا ہے۔ منقول ہے کہ امام غزالی کے ایک مرید کو کسی نے مارا پیٹا اور قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا تو اس نے امام غزالی سے شکایت کی، انہوں نے فرمایا عزیزمن ! اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو بس اتنے ہی میں ٹل گئی ورنہ بلا تو کبھی اس سے زیادہ تکلیف دہ صورت میں نازل ہوتی ہے۔ کچھ دنوں کے بعد وہی مرید کچھ دوسرے لوگوں کے چکر میں پھنس گیا جنہوں نے اس کو ایک کنوئیں میں بند کردیا۔ جب وہ کسی طرح سے نجات پا کر حضرت امام موصوف کی خدمت میں پہنچا اور ان سے اس حادثہ کی شکایت کی تو انہوں نے وہی جواب دیا جو پہلے دیا تھا، پھر اتفاق کی بات کہ کچھ عرصہ کے بعد ایک یہودی کے چنگل میں جا پھنسا، اس یہودی نے یہ سلوک کیا کہ اس کو ایک زنجیر میں باندھ کر اپنے پاس ڈال لیا اور ہر لمحہ کوئی نہ کوئی ایذاء اس کو پہنچاتا رہا۔ اس مرتبہ اس شخص کو نہایت تکلیف و اذیت کا سامنا کرنا پڑا اور بہت دل گرفتہ ہوا کہ کیا دنیا بھر کی مصیبتیں میرے ہی لئے رہ گئی ہیں، آخرکار جب اس یہودی سے بھی نجات پا کر امام غزالی کی خدمت میں پہنچا اور جن مصائب سے دوچار ہوا تھا ان کی شکایت کی، تو حضرت امام موصوف نے پہلے کی طرح پھر صبر و شکر کی تلقین کی ! اب بات چونکہ اس کی برداشت سے باہر ہوگئی تھی لہذا نہایت بیقراری کے عالم میں کہنے لگا کہ حضرت ! اب تک جن اذیتوں اور تکلیفوں سے دوچار ہوچکا ہوں کیا ان سے بھی زیادہ سخت کوئی بلا باقی رہ گئی ہے ؟ حضرت امام غزالی نے جواب دیا۔ ہاں ! اس سے بھی سخت بلا ہے اور وہ یہ کہ (خدا نخواستہ) تمہاری گردن میں کفر کا طوق پڑجائے۔ حاصل یہ کہ انسان کے لئے آلات اور بلاؤں کی کوئی حد نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی آفت و بلا میں مبتلا ہو تو صرف یہ کہ اس کو اس آفت و بلا کا صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئے بلکہ اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہئے کہ اس نے اس سے بھی سخت کسی آفت و مصیبت میں مبتلا نہیں کیا۔

【14】

جنت میں فقراء کا داخلہ اغنیاء سے پہلے ہوگا

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ فقراء جنت میں اغنیاء سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے جو آدھے دن کے برابر ہے ۔ (رواہ البخاری) تشریح آدھے دن سے مراد قیامت کا آدھا دن ہے مطلب یہ ہے کہ وہ پانچ سو سال قیامت کے آدھے دن کے برابر ہوں گے۔ اور قیامت کے دن کی مدت طوالت، دنیاوی شب و روز کے اعتبار سے ایک ہزار سال کے برابر ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت (وان یوما عند ربک کا لف سنۃ مماتعدون) ، رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک اور جگہ یہ فرمایا ہے کہ آیت ( فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُه خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَ نَةٍ ) 70 ۔ المعارج 4) اور جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا، تو جاننا چاہئے کہ پہلی آیت کہ جس سے قیامت کے دن کا ایک ہزار سال کے برابر ہونا ثابت ہوتا ہے) عمومیت کی حامل ہے۔ جب کہ یہ دوسری آیت (کہ جس سے قیامت کے دن کا پچاس ہزار سال کے برابر ہونا ثابت ہوتا ہے) ایک خاص نوعیت کی طرف اشارہ کرتی ہے ! یعنی اصل بات تو یہی ہے کہ دنیاوی حساب کے اعتبار سے قیامت کا دن ایک ہزار سال کے برابر ہوگا اور اسی کو پہلی آیت کے ذریعہ واضح فرمایا گیا ہے۔ لیکن وہ قیامت کے دن چونکہ سختیوں اور شدت کا دن ہوگا اور جو شخص دنیا میں دین و ہدایت سے جتنا دور ہوگا اس کو اس دن کی سختیار اسی قدر زیادہ محسوس ہوگی اس لئے کفار کے حق میں اس دن کی سختیاں اس قدر زیادہ ہوں گی کہ اپنی درازی و سختی کے اعتبار سے وہ دن ان کو پچاس ہزار سال کے برابر معلوم ہوگا ! یہ دوسری آیت یہی مفہوم بیان کرتی ہے کہ قیامت کا دن (اگرچہ ایک ہزار سال کے برابر ہوگا مگر سختیوں اور شدائد کی بنا پر) کفار کو وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر معلوم ہوگا جیسا کہ مومنین اور نیک کاروں کے حق میں وہ دن گویا لپیٹ دیا جائے گا کہ ایک ہزار سال کے برابر اس دن کی طوالت ان کو ایک ساعت کے بقدر معلوم ہوگی۔ اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے۔ آیت (فَاِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُوْرِ ۔ فَذٰلِكَ يَوْمَى ِذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ۔ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ غَيْرُ يَسِيْرٍ 10) 74 ۔ المدثر 8) اس حدیث کے ضمن میں ایک اشکال یہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ یہ حدیث بظاہر اس حدیث کے معارض ہے جو جنت میں فقراء کے پہلے داخل ہونے کی مدت کو چالیس سال ظاہر کرتی ہے ؟ لہٰذا شارحین نے ان دونوں حدیثوں میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ بیان کیا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ پچھلی حدیث میں اغنیاء سے مراد اغنیاء مہاجرین ہوں (جیسا کہ اس حدیث کی تشریح میں بھی اس طرف اشارہ کیا جا چکا ہے) اس صورت میں اس حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ فقراء ان اغنیاء سے کہ ان کا تعلق مہاجر صحابہ سے ہے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے، جب یہاں اس حدیث میں اغنیاء سے مراد وہ اغنیاء ہیں جو مہاجرین میں سے ہوں گے۔ اس وضاحت سے دونوں حدیثوں کے درمیان کوئی تعارض و تضاد باقی نہیں رہتا۔ لیکن جیسا کہ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ ان دونوں حدیثوں کے درمیان مذکورہ تعارض کو ختم کرنے کے لئے یہ وضاحت زیادہ مناسب و موزوں ہے کہ دونوں عدد، یعنی چالیس اور پانچ سو سے مراد تحدید نہیں ہے۔ بلکہ مطلقا اس زمانی فرق کو بیان کرنا مقصود ہے جو جنت میں داخل ہونے کے سلسلہ میں فقراء اور اغنیاء کے درمیان ہوگا۔ چناچہ اس فرق کو ظاہر کرنے کے لئے کہ فقراء جنت میں اغنیاء سے پہلے جائیں گے از راہ تفنن کسی موقع پر تو چالیس سال فرمایا گیا ہے۔ اور کسی موقع پر پانچ سو سال کے الفاظ ذکر فرمائے گئے ہیں جب کہ مقصود دونوں کا ایک ہی ہے یا یہ کہ پہلے حضور ﷺ کو بذریعہ وحی یہی معلوم ہوا ہوگا کہ جنت میں فقراء کے اغنیاء سے پہلے جانے کی مدت چالیس سال ہوگی، چناچہ حضور ﷺ نے اس وحی کے مطابق چالیس سال کا ذکر فرمایا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی برکت سے فقراء کے حال پر خصوصی فضل فرماتے ہوئے اور ان کی مزید تسلی کے لئے یہ خبر دی کہ فقراء کو جنت میں اغنیاء سے پانچ سو سال پہلے داخل کیا جائے گا۔ چناچہ حضور ﷺ نے جب دوسری مرتبہ اس بات کا ذکر کیا تو اس میں پانچ سو سال کا ذکر فرمایا۔ یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان دونوں حدیثوں کے مفہوم میں جو اختلاف نظر آتا ہے اس کا تعلق دراصل خود فقراء کی ذات و شخصیت کی غیر یکسانیت سے ہے یعنی ظاہر ہے کہ ہر غریب و نادار اور ہر فقیر مسلمان ایک ہی حالت نہیں رکھتا، بعض فقراء تو ایسے ہوتے ہیں جو صبر و رضا اور شکر کے درجہ کمال پر ہوتے ہیں اور بعض فقراء وہ ہیں جن میں صبر و رضا اور شکر کا مادہ کم ہوتا ہے لہٰذا پانچ سو سال والی حدیث کا تعلق اول الذکر فقراء سے اور چالیس سال والی حدیث کا تعلق موخر الذکر فقراء سے۔ یہ تاویل زیادہ مناسب اور موزوں بھی ہے اور اس کی تائید جامع الاصول کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے جس میں ان دونوں حدیثوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ جس حدیث میں چالیس سال کا ذکر ہے اس کی مراد یہ ہے کہ دنیاوی لذتوں اور نعمتوں کی خواہش رکھنے والا فقیر، حریص غنی سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوگا اور جس حدیث میں پانچ سو سال کا ذکر ہے اس کی مراد یہ ہے کہ دنیاوی لذتوں و نعمتوں سے بالکل بےنیاز اور زاہد فقیر دنیا دار غنی سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوگا۔

【15】

مفلس ومسکین کی فضیلت

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ دعا فرمائی۔ اے اللہ مجھ کو مسکین بنا کر زندہ رکھ، مسکینی ہی کی حالت میں مجھے موت دے اور مسکینوں ہی کے زمرہ میں میرا حشر فرما ۔ حضرت عائشہ (رض) نے حضور ﷺ کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا تو کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ ایسی دعا کیوں کرتے ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اس لئے کہ مساکین اپنے دوسرے فضائل و خوصوصیات اور حسن اخلاق و کردار کی وجہ سے آخرت کی سعادتوں اور نعمتوں سے تو بہرہ ور ہوں ہی گے لیکن اس سے قطع نظر ان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ دولتمندوں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے ! دیکھو عائشہ ! کسی مسکین کو اپنے دروازہ سے ناامید نہ جانے دینا بلکہ ہر حالت میں اس کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرنا اگرچہ اس کو دینے کے لئے تمہارے پاس کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو عائشہ (رض) اپنے دل میں مسکینوں کی محبت رکھ اور ان کو اپنی مجلسوں اور محفلوں کی قربت سے نواز یعنی ان کو حقیر کمتر جان کر اپنے یہاں آنے جانے سے مت روکو اگر تم ایسا کروگی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی قربت سے نوازے گا کیونکہ فقراء و مساکین کے ساتھ محبت ہمدردی کا برتاؤ کرنا اور ان کو اپنے قریب آنے دینا اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔ ترمذی، بیہقی اور ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابوسعید (رض) سے صرف زمرۃ المساکین تک نقل کیا ہے (یعنی ان کی روایت میں حضرت عائشہ (رض) کا سوال و جواب اور حدیث کے باقی جملے نہیں ہیں) تشریح مسکین لفظ مسکنت سے نکلا ہے جس کے معنی تواضح کمزوری اور مفلسی کے ہیں۔ ویسے یہ لفظوں سکون اور سکینۃ سے بھی مشتق قرار دیا جاسکتا ہے، جس کے معنی وقار، اطمینان اور تقدیر الٰہی کے اقرار و قبول کے ہیں اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ شرعی اصطلاح میں مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو یا جس کے پاس اتنا نہ ہو جو اس کے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کو پورا کرسکے۔ مذکورہ بالا ارشاد گرامی میں امت کے لئے یہ تعلیم و تلقین ہے کہ فقراء و مساکین کی فضیلت کو پہچانا جائے، ان کے ساتھ محبت و ہمدردی کا برتاؤ کیا جائے اور ان کے ساتھ ہم نشینی و قربت اختیار کی جائے تاکہ ان کی برکت مسلمانوں کو پہنچے۔ نیز اس حدیث میں فقراء و مساکین کے لئے یہ بڑی تسلی پوشیدہ ہے کہ وہ اپنے حالات کی تنگی و سختی سے بددل و مایوس نہ ہوں بلکہ اپنے ان بلند درجات سے آگاہ ہوجائیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اس فانی دنیا کی زوال پذیر نعمتوں اور لذتوں سے محرومی کے عوض ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والے جہاں یعنی آخرت کی زندگی کے لئے عطا فرما دئیے ہیں۔ رہی یہ بات کہ حضور ﷺ کا اپنے حق میں مسکین بننے کی دعا کرنا کیا مفہوم رکھتا تھا، تو اس بارے میں یہ کہنا مناسب ہے کہ اس دعا سے حضور ﷺ کی مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو بس اتنی روزی دے جو گزارہ کے بقدر ہو اور جس سے زندگی کا وجود باقی رہے، نیز آپ کو دنیاوی مال و دولت اور اس کی نعمتوں و لذتوں میں مشغول نہ کرے، کیونکہ مال و دولت کی کثرت مقربین کے حق میں سخت وبال کا درجہ رکھتی ہے۔ منقول ہے کہ ایک مسلمان بادشاہ کہیں جا رہا تھا کہ راستہ میں اس کا گزر فقراء و صالحین کی ایک جماعت پر ہوا، ان لوگوں نے بادشاہ کے تئیں کسی التفات کا اظہار نہیں کیا اور نہ اس کی طرف متوجہ ہوئے، بادشاہ کو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی، اس نے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو ؟ انہوں نے جواب میں جو بات کہی اس کو یہاں نقل کرنا مقصود ہے، انہوں نے کہا ہم وہ لوگ ہیں کہ جن کے ساتھ محبت، ترک دنیا کا سبب ہے اور جن کے ساتھ عداوت ترک عقبی کا سبب ہے بادشاہ نے یہ جواب سنا تو ان سے دارو گیر کئے بغیر آگے بڑھ گیا اور کہنے لگا کہ ہم نہ تمہاری محبت حاصل کرسکتے ہیں اور نہ تمہارے ساتھ عداوت رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کا اپنے حق میں مذکورہ دعا فرمانا اور پھر حضرت عائشہ (رض) کے پوچھنے پر اس دعا کی یہ توجیہ فرمانا کہ میرا مقصد وہ فضل و شرف حاصل کرنا ہے جو قیامت کے دن فقراء کو حاصل ہوگا وہ دولتمندوں سے چالیس سال پ ہے جنت میں دخل ہوں گے، یہ وہم پیدا کرتا ہے کہ فقراء بلا استثناء تمام دولتمندوں سے پہلے جنت میں جائیں گے خواہ وہ دولتمند انبیاء ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن اس سلسلہ میں زیادہ قوی بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی مذکورہ دعا اور اس کی توجیہہ میں مذکورہ ارشاد کا اصل مقصد ایک تو محض فقراء و مساکین کے فضل وشرف کو ظاہر کرنا ہے اور دوسرے اپنی اس طلب و خواہش کو ظاہر کرنا ہے کہ مجھے تمام انبیاء سے پہلے جنت میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہو خواہ وہ انبیاء دولتمند ہوں یا فقراء پس حضور ﷺ کا اپنے بارے میں فقر و فاقہ کی زندگی کی دعا کرنا فقراء غیر انبیاء سے پیچھے رہ جانے کے خوف سے نہیں بلکہ ان انبیاء سے پیچھے رہ جانے کے خوف کی بناء پر تھا جن کی زندگی فقر و فاقہ سے معمور تھی ! اس وضاحت سے مذکورہ بالا وہم محل نظر ہوجاتا ہے۔ یا عائشہ الا تردی المسکین الخ (عائشہ کسی مسکین کو اپنے دروازہ سے ناامید نہ جانے دینا) کے ذریعہ حضور ﷺ نے حضرت عائشہ (رض) کو یہ نصیحت فرمائی کہ جو مسکین و فقیر تمہارے پاس اپنی حاجت لے کر آئے اس کو کمتر و حقیر نہ جانو اور اس کو بےمراد واپس نہ کرو، بلکہ اس کے ساتھ محبت و نرمی سے پیش آؤ، ان کی حالت پر رحم کھاؤ اور جو کچھ میسر ہو اس کے دامن مراد میں ڈال دو ، خواہ وہ کتنی ہی کمتر چیز کیوں نہ ہو اور اگر تمہارے پاس ایسی کوئی بھی چیز نہ ہو جس کے ذریعہ تم اس کا سوال پورا کرسکو تو اس صورت میں نہایت نرمی و بھلائی کے ساتھ معذرت کرو اور اس کو اچھے انداز میں واپس کرو۔ ابوالشیخ اور بیہقی نے حضرت عطاء بن ابی رباح سے نقل کیا ہے انہوں نے مشہور صحابی حضرت ابوسعید (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگو ! تمہاری تنگدستی و ناداری تمہیں اس بات پر نہ اکسانے پائے کہ تم اپنی روزی ناجائز وسائل و ذرائع سے حاصل کرنے کی طلب رکھنے لگو، (یعنی اگر اللہ نے تمہیں تنگدستی و ناداری میں مبتلا کیا تو تم اپنی اس حالت پر صابر و شاکر رہ کر عزم و حوصلہ اور کردار کی پختگی کے ساتھ معاشی شدائد کا مقابلہ کرو، ایسا نہ ہو کہ روزی حاصل کرنے کے لئے ایسے ذرائع اختیار کرو جو شرع احکام کے خلاف اور انسانی اخلاق و کردار کی عظمت کے منافی ہیں) کیونکہ میں نے رسول کریم ﷺ کو اپنے بارے میں یہ دعا فرماتے سنا ہے کہ اے اللہ ! تو مجھے فقر و ناداری کی حالت میں موت دے، دولتمندی کی حالت میں موت نہ دے اور میرا حشر مسکینوں کے زمرہ میں فرما پس یقینا سب سے بڑا بدبخت وہ شخص ہے جو دنیا کے فقر و افلاس کا بھی شکار ہو اور آخرت کے عذاب کا بھی مستوجب قرار پائے (یعنی جو شخص فقر و افلاس کی سختیوں سے گھبرا کر ناجائز طور پر اپنی روزی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اس سے بڑا بدنصیب اور کون ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے دنیا کی نعمتوں سے بھی محروم رہا اور حصول معاش کی راہ میں حرام ناجائز امور کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے آخرت کے عذاب کا بھی مستوجب قرار پایا۔ ملا علی قاری (رح) نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر اس ارشاد گرامی کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ بھی ہوتی تو یہی حدیث اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھی کہ صبر کرنے والا فقیر و مسکین، شکر گزار دولت مند سے افضل ہے۔ نیز ملاعی قاری (رح) نے اس موقع پر ان دو حدیثوں کا بھی ذکر کیا ہے جو فقر و ناداری کے سلسلہ میں عوام میں بہت مشہور ہیں، ان میں سے ایک حدیث (الفقر فخری وبہ افتخر) ہے ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ حفاظ جیسے علامہ عسقلانی وغیرہ نے صراحت کی ہے کہ یہ حدیث بالکل بےاصل ہے اور اس کی کوئی سند نہیں ہے۔ دوسری حدیث کا دا لفقر ان یکون کفرا ہے اس کے بارے میں محدیثین نے وضاحت کی ہے کہ یہ حدیث اول تو یقینی طور پر ضعیف ہے دوسرے اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا محمول قلبی فقر و افلاس ہے جو جزع و فزع، شکوہ شکایت، قضا و قدر پر بےاطمینانی اور اللہ کی بنائی ہوئی قسمت پر اعتراض کرنے کے باعث ہوتا ہے، ورنہ جہاں تک معاشی فقر و افلاس کا تعلق ہے تو وہ ایک ایسی چیز ہے جو اللہ کی طرف سے انہی بندوں کو نصیب ہوتی ہے جن کو وہ آخرت میں بلند درجات پر پہنچانا چاہتا ہے اس لئے ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ الفقر شین عندالناس وزین عند اللہ یوم القیامہ (دیلمی) یعنی فقر و افلاس لوگوں کی نظر میں تو ایک عیب و برائی ہے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک زینت دینے والی چیز ہے۔

【16】

کمزور ونادار مسلمانوں کی برکت

حضرت ابودرداء (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ تم لوگ مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ تمہیں رزق کا دیا جانا یا یہ فرمایا کہ تمہیں اپنے دشمن کے مقابلہ پر مدد کا ملنا انہی لوگوں کی برکت سے ہے جو تم میں کمزور ہیں ۔ (ابو داؤد) تشریح کمزور لوگوں سے مراد فقراء و مساکین اور نادار لوگ ہیں اور ان میں تلاش کرنے کا مطلب، ان لوگوں کی مدد و اعانت اور خبر گیری کے ذریعہ ان کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرنا ہے۔ یا کمزور لوگوں سے مراد مظلوم ہیں کہ اگرچہ وہ دولتمند ہی کیوں نہ ہوں اور مطلب ظلم کے پنجہ سے نکلنے میں ان کی ہر طرح کی مدد کرنا ہے۔ حاصل یہ کہ اس ارشاد گرامی ذریعہ کے حضور ﷺ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ اگر تم لوگ میری رضا مندی و خوشنودی کے طلب گار ہو تو اپنی مدد و اعانت اور حسن سلوک کے ذریعہ ان لوگوں کی خوشنودی حاصل کرو جو تم میں کمزور نادار ہیں۔ او تنصرون میں لفظ او تنویع کے لئے ہے اور اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں او کے بجائے حرف واؤ ہے، تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ یہاں حرف او کے ذریعہ راوی کے شک کو ظاہر کرنا مقصود ہے کہ حضور ﷺ نے یا تو لفظ ترزقون فرمایا تھا یا لفظ تنصرون چناچہ اوپر ترجمہ میں اس احتمال کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ انہی لوگوں کی برکت سے ہے جو تم میں کمزور ہیں کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ جو کمزور و نادار نظر آتے ہیں اور ہر طرح کی دنیاوی طاقت و حیثیت سے خالی معلوم ہوتے ہیں، ان کا وجود پوری کائنات کے لئے خیر و برکت کا باعث اور ان کے ساتھ احسان و حسن سلوک تمام لوگوں کی بھلائی و بہتری کا ضامن ہوتا ہے کیونکہ ان لوگوں میں وہ بڑے بڑے اقطاب و اوتاد بھی ہوتے ہیں جو اگرچہ دنیاداروں کی نظر میں اپنی اصل حیثیت کے ساتھ متعارف نہیں ہوتے مگر حقیقت میں سارے عالم کا نظم کائنات انہی کی وجہ سے استوار ہوتا ہے بلکہ بعض حالات میں مختلف علاقوں اور آبادیوں کا نظم و انصرام روحانی طور پر اللہ کی طرف سے ان کے سپرد ہوتا ہے ان لوگوں کا در و بست ان کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ ابن ملک (رح) نے اس حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ حضور ﷺ کے مذکورہ ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ (اگر مجھ کو پانا چاہتے ہو تو) مجھے اپنے کمزور نادار لوگوں میں تلاش کرو بایں طور کہ تمہارے اوپر ان کے حقوق عائد ہوتے ہیں، ان کی محافظت کرو اور ان کی دل جوئی میں مشغول رہو کیونکہ میں ان کے ساتھ بعض اوقات تو جسمانی طور پر ہوتا ہوں دل و جان سے تمام اوقات میں ہوتا ہوں لہٰذا جس شخص نے ان کا احترام کیا اس نے گویا میرا اکرام و احترام کیا اور جس شخص نے ان کو (خواہ جسمانی خواہ روحانی طور پر) تکلیف و ایذاء پہنچائی اس نے گویا مجھ کو تکلیف و ایذاء پہنچائی، اس کی تائید اس حدیث قدسی سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، حدیث (من عادلی ولیا فقد بارزنی بالحرب) یعنی جس شخص نے میرے ولی کے ساتھ عداوت دشمنی اختیار کی وہ گویا مجھ سے لڑنے کے لئے میدان میں آگیا۔

【17】

کمزور ونادار مسلمانوں کی برکت

حضرت امیہ (رض) بن خالد بن عبداللہ بن اسید نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ (اللہ تعالیٰ سے کفار کے مقابلہ) فتح حاصل ہونے کے لئے درخواست کرتے تو فقراء مہاجرین کی برکت کے ذریعہ دعا مانگتے۔ (شرح السنہ) تشریح صعالیک صعلوک کی جمع ہے، جیسا کہ عصفور کی جمع عصافیر ہے اور صعلوک کے معنی ہیں فقیر و مسکین اور کمزور و نادار۔ ملا علی قاری نے اس حدیث کا مطلب یہ لکھا ہے کہ حضور ﷺ کفار سے مقابلہ آرائی کے وقت اللہ تعالیٰ سے فتح حاصل ہونے کی جو درخواست کرتے اس میں فقراء و مہاجرین کا واسطہ اور ان کی دعاؤں کی برکت کا ذریعہ اختیار فرماتے۔ اس کے بعد انہوں نے ابن ملک (رح) سے یہ نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ اللہ تعالیٰ سے فقراء مہاجرین کا واسطہ اختیار کر کے فتح کی درخواست فرماتے بایں طور کہ آپ ﷺ اس طرح دعا فرمایا کرتے تھے۔ اللہم انصرنا علی الاعداء بعبادک الفقراء المہاجرین۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی (رح) نے بھی یہ مطلب بیان کیا ہے اور پھر لکھا ہے کہ یہ حدیث فقراء و نادار مسلمانوں کی اس عظمت و فضیلت کو ظاہر کرتی ہے جو سرکار دو عالم ﷺ نے ان کے لئے ثابت فرمائی، چناچہ آپ ﷺ نے یہ شرف صرف فقراء و مساکین کو عطا فرمایا کہ ان کی برکت کو واسطہ اور وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت کی درخواست کرتے تھے ع شاہان چہ عجب گر بہ نوازند گدارا

【18】

کافروں کی خوشحالی پر رشک نہ کرو

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کسی فاجر (یعنی کافر یا فاسق) کو دنیاوی نعمتوں یعنی جاہ و حشمت اور دولت سے مالا مال دیکھ کر اس پر رشک نہ کرو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد قبر میں یا حشر میں اس کو کیا کیا پیش آنے والا ہے (یعنی وہ یہاں تو بیشک دنیاوی نعمتوں سے مالا مال ہے لیکن اس کے برعکس آخرت میں طرح طرح کے عذاب اور سختیوں سے دوچار ہوگا اور یاد رکھو فاجر کے لئے اللہ کے یہاں ایک ایسا قاتل ہے جس کو موت اور فنا نہیں ہے اور اس قاتل سے حضور ﷺ کی مراد آگ ہے۔ (شرح السنہ) تشریح ایک ایسا قاتل ہے الخ یعنی اللہ تعالیٰ نے کفار و فساق کے لئے ایک ایسی چیز تیار کر رکھی ہے جو ان کو سخت عذاب دے گی، ہلاک کرے گی اور طرح طرح کی اذیت نا کیوں میں مبتلا کرے گی اور اس چیز کی شان یہ ہے کہ خود اس کو موت و فنا نہیں ہے۔ بلکہ ہمیشہ موجود رہے گی۔ یعنی النار کے الفاظ ان راوی کے ہیں جنہوں نے اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے اور ان کا نام نامی حضرت عبداللہ بن ابی مریم ہے، گویا انہوں نے ان الفاظ کے ذریعہ یہ وضاحت کی ہے کہ حضور ﷺ نے لفظ قاتل کے ذریعہ جس چیز کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ دوزخ کی آگ ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ ایسے کافر و فاسق کو دیکھ کر کہ جو زیادہ اولاد رکھتا ہے، یا زیادہ جاہ و حشمت کا مالک ہے یا مال و دولت کی فراوانی رکھتا ہے اور یا دوسری دنیاوی نعمتوں سے مالا مال ہے تو اس پر رشک نہ کیا جائے اور اس تمنا کو اپنے دل میں جگہ نہ دی جائے کہ کاش اسی طرح کی نعمتیں ہمیں بھی حاصل ہوں۔

【19】

دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور قحط ہے جب وہ مومن دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو گویا قید خانہ اور قحط سے نجات پاتا ہے ۔ (شرح السنہ) تشریح قیدخانہ اور قحط کا مطلب یہ ہے کہ مومن یہاں ہمیشہ طرح طرح کی تنگی و سختی کا شکار رہتا ہے اور معاشی پریشان حالیوں میں بسر اوقات کرتا ہے اور اگر کسی مومن کو یہاں کی خوشحالی میسر بھی ہو تو ان نعمتوں کی نسبت کہ جو اس کو آخرت میں حاصل ہونے والی ہیں، یہ دنیا پھر بھی اس کے لئے قید خانہ اور قحط زدہ جگہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی یا یہ مراد ہے کہ مخلص و عبادت گزار مومن چونکہ اپنے آپ کو ہمیشہ طاعات و عبادات کے مشقتوں اور ریاضت و مجاہدہ کی سختیوں میں مشغول رکھتا ہے۔ عیش و راحت کو اپنی زندگی میں راہ نہیں پانے دیتا اور ہر لمحہ اس راہ شوق پر گامزن رہتا ہے کہ اس محنت و مشقت بھری دنیا سے نجات پا کر دارالبقاء کی راہ پکڑے۔ اس اعتبار سے یہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور قحط زدہ جگہ سے کم صبر آزما نہیں ہوتی، ایک روایت میں یوں فرمایا گیا لایخلو المومن من قلۃ او علۃ او ذلۃ وقد یجتمع للمومن الکامل جمیع ذلک یعنی ایسا کوئی مومن نہیں جو یا تو مال کی کمی، یا بیماری اور یا ذلت و خواری سے خالی ہو اور بعض اوقات مومن کامل میں یہ سب چیزیں جمع ہوجاتی ہیں۔

【20】

جن کو اللہ اپنا محبوب بنانا چاہتا ہے ان کو دنیاوی مال و دولت سے بچاتا ہے

حضرت قتادہ بن نعمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو اس کو دنیا سے بچاتا ہے جس طرح کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے مریض کو پانی سے بچاتا ہے ۔ (احمد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس طرح تمہارا کوئی عزیز و متعلق جب کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوجائے جس میں پانی کا استعمال سخت نقصان پہنچاتا ہے جیسے استسقاء اور ضعف معدہ وغیرہ اور تمہیں اس کی زندگی پیاری ہوتی ہے تو تم اس بات کی پوری کوشش کرتے ہو کہ وہ مریض پانی کے استعمال سے دور رہے تاکہ صحتیابی سے جلد ہمکنار ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جس بندے کو اپنا محبوب بنانا اور اس کو آخرت کے بلند درجات پر پہنچانا چاہتا ہے اس کو دنیاوی مال و دولت، جاہ و منصب اور اسے ہر چیز سے دور رکھتا ہے جو اس کے دین کو نقصان پہنچانے اور عقبی میں اس کے درجات کو کم کرنے کا سبب بنے۔ اشرف (رح) نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے اور لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو دنیاوی مال و جاہ اور یہاں کی کوئی ایسی چیز نہیں دیتا جو اس کی دینی و اخروی زندگی کی زینت و خوبی کو داغدار کر دے، تاکہ اس کا دل دنیا اور دنیا کی چیزوں کی محبت و خواہش کے مرض میں مبتلا نہ ہو۔

【21】

مال کی کمی درحقیقت بڑی نعمت ہے

حضرت محمود بن لبید (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ دو چیزیں ایسی ہیں جن کو ابن آدم (انسان) ناپسند کرتا ہے (اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے وہ دونوں چیزیں بہت اچھی ہیں چنانچہ) انسان ایک تو موت کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ مومن کے لئے موت فتنہ سے بہتر ہے، دوسرے مال و دولت کی کمی کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ مال کی کمی حساب کی کمی کا موجب ہے ۔ (احمد) تشریح فتنہ سے رماد ہے کفر و شرک اور گناہوں میں گرفتار ہونا، ظالم و جابر لوگوں کا ایسے کام کرنے پر مجبور کرنا جو اسلامی عقائد وتعلیمات کے خلاف ہوں اور ایسے حالات سے دوچار ہونا جن سے دین و آخرت کی زندگی مجروح ہوتی ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی اور زندہ رہنے کی تمنا تو اسی صورت میں خوب ہے جب کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے طاعات و عبادات کی توفیق عمل حاصل رہے، راہ مستقیم پر ثابت قدم نصیب ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس دنیا سے ایمان کی سلامتی کے ساتھ رخصت ہو۔ اگر یہ چیزیں حاصل نہ ہوں اور ایمان کی سلامتی نصیب نہ ہو تو پھر یہ زندگی کس کام ؟ ظالم و جابر لوگوں کی طرف سے جبر واکراہ کی صورت میں اگرچہ دل، ایمان، عقیدہ پر قائم رہے مگر زبان سے ایسی بات کا ادا ہونا کہ جو ایمان عقیدہ کے مناسب و لائق نہیں ہے، یہ بھی ایک فتنہ ہی ہے ہاں اگر فتنہ کا تعلق کسی اور طرح کے دنیاوی ابتلاء و مصائب، زندگی کی سختیوں اور نفس کی مشقت شدائد سے ہو تو اسی صورت میں زندگی سے نفرت اور موت کی تمنا درست نہیں ہوگی کیونکہ ایسا فتنہ گناہوں کے کفارہ اور اخروی درجات کی بلندی و رفعت کا سبب ہوتا ہے۔ وقلۃ المال اقل للحساب، کا مطلب یہ ہے کہ دنیاوی مال و دولت کی کمی، عذاب سے بعید تر اور ہر مسلمان کے لئے بہتر ہے۔ لہٰذا جو مسلمان تنگدست و غریب ہو اس کو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مال و دولت کی فراوانی کے وبال کی وجہ سے آخرت میں پیش آئیں گی۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی (رح) نے اس موقع پر بڑی حکمت آمیز بات کہی ہے، انہوں نے ہر طاب حق کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ عزیز من ! یہ سب ایمان کی شاخیں ہیں، جو شخص شارع (علیہ السلام) کے ارشادات کے مطابق ایمان کو صحیح درست رکھتا ہے وہ یقیناً جانتا ہے کہ شارع نے جو کچھ فرمایا ہے وہ برحق اور عین صداق ہے اور اگر وہ شخص عقل سلیم اور صحیح تجربہ رکھتا ہو تو وہ اسی دنیا میں بھی جان لیتا ہے کہ مال و دولت کی فراوانی اور اس مال و دولت کو حاصل کرنے اور جمع کرنے، نیز اس کے ساتھ تعلق و محبت رکھنے کے سلسلے میں جن مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس قدر ذلت و خواری کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اور جتنی زیادہ محنت و مشقت اور ہر طرح کی ذلت و خواری سے بچنے ہی کا نہیں بلکہ) نفس کی پاکیزگی و صفائی اور اخروی حساب و عذاب سے بچنے نیز درجات کی بلندی و رفعت کا انحصار اس بات پر ہے کہ مال و دولت کی کثرت سے اپنا دامن بچایا جائے اس سے قطع کر کے اور قدر کفایت پر قناعت کر کے عزت نفس اور اخلاق و کردار کی بلندی و استقامت کو اختیار کیا جائے۔

【22】

ذات رسالت ﷺ سے محبت کا دعویٰ رکھتے ہو تو فقر و فاقہ کی زندگی اختیار کرو

حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں آپ ﷺ سے (بہت زیادہ) محبت رکھتا ہوں ! حضور ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ دیکھ لو کیا کہہ رہے ہو ؟ یعنی اچھی طرح سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو، کیونکہ تم ایک بہت بڑی چیز کا دعویٰ کر رہے ہو، ایسا نہ ہو کہ بعد میں اپنی بات پر پورا نہ اتر سکو۔ اس شخص نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم ! میں آپ ﷺ سے محبت رکھتا ہوں۔ اور تین بار اس جملہ کو ادا کیا ! حضور ﷺ نے فرمایا اگر تم میری محبت کے دعوے میں سچے ہو تو پھر فقر کے لئے پاکھر تیار کرلو کیونکہ جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے اس کو فقر و افلاس اس پانی کے بہاؤ سے بھی زیادہ جلد پہنچتا ہے جو اپنے منتہا کی طرف جاتا ہے اس حدیث کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح تجفاف کے معنی ہیں پاکھر اور پاکھر اس آہنی جھول کو کہتے ہیں جو میدان جنگ میں ہاتھی گھوڑے پر ڈالی جاتی ہے تاکہ ان کا جسم زخمی ہونے سے بچا رہے جیسا کہ زرہ، سوار سپاہی کے جسم کو نیز و تلوار وغیرہ کے زخم سے محفوظ رکھتی ہیں۔ یہاں حدیث میں پاکھر کے ذریعہ صبر و استقامت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جس طرح پاکھر ہاتھی گھوڑے کے جسم کو چھپاتا ہے۔ اسی طرح صبر و استقامت اختیار کرنا، فقر و فاقہ کی زندگی کا سرپوش بنتا ہے حاصل یہ کہ صبر و استقامت کی راہ پر بہر صورت گامزن رہو، خصوصا اس وقت جب کہ فقر و افلاس تمہاری زندگی کو گھیر لے تاکہ تمہیں مراتب و درجات کی بلندی و رفعت نصیب ہو۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص حضور ﷺ کی محبت سے پوری طرح سرشار ہوتا ہے اس کو فقر و فاقہ کا جلد پہنچنا اور اس پر دنیاوی آفات و بلاؤں اور سختیوں کا کثرت سے نازل ہونا ایک یقینی امر ہے کیونکہ منقول ہے کہ دنیا میں جن لوگوں کو سب سے زیادہ آفات شدائد کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ انبیاء ہیں ان کے بعد درجہ بدرجہ ان لوگوں کا نمبر آتا ہے جو عقیدہ و عمل کے اعتبار سے اعلیٰ مرتبہ کے ہوتے ہیں پس حضور ﷺ بھی انہی انبیاء میں سے تھے لہٰذا آپ ﷺ نے اس شخص پر واضح فرمایا کہ اگر واقعتا تم میری محبت رکھو گے تو میرے تئیں تمہاری محبت جس درجہ کی ہوگی اسی درجہ کی دنیاوی سختیوں اور پریشانیوں کا تمہیں سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ یہ اصول ہے المرء مع من احب (یعنی جو شخص جس کو دوست رکھتا ہے اسی جیسی حالت میں رہتا ہے) حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اپنے اس ارشاد فقر کے لئے پاکھر تیار کرلو کے ذریعہ بطور کنایہ اس امر کی تلقین فرمائی کہ فقر و فاقہ کے وقت صبر کی راہ پر چلنے کے لئے تیار رہو کیونکہ یہ صبر ہی ہے جو فقر افلاس کی آفتوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنے کی طاقت بہم پہنچاتا ہے، دینی و دنیاوی ہلاکت تباہی سے محفوظ رکھتا ہے، جزع و فزع اور شکوہ شکایت کی راہ سے دور رکھتا ہے اور غضب الٰہی سے بچاتا ہے حضرت شیخ آگے فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ فقر و فاقہ کی زندگی اختیار کئے بغیر اور حضور ﷺ کے طرز حیات پر عمل پیرا ہوئے بغیر آپ ﷺ کی محبت کا دعویٰ بالکل ناروا اور جھوٹ ہے۔ کیونکہ حقیقت میں اسوہ نبوی کی اتباع اور حضور ﷺ کی محبت دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور محبوب کی اتباع وپیروری کے بغیر محبت کا دعویٰ درست ہو ہی نہیں سکتا، ان المحب لمن یحب مطیع، تاہم واضح رہے کہ حب نبی کا یہ سب سے اعلی مرتبہ ہے کہ کسی مسلمان کا حضور ﷺ کے اسوہ حیات کی کامل اتباع کو اپنا شیوہ بنا لینا اس بات کی علامت ہے کہ وہ حضور ﷺ کے تئیں دعویٰ محبت میں بالکل سچا اور درجہ کمال کا حامل ہے۔ اگرچہ محبت کی حقیقت و ماہیت یہ ہے کہ انسان کا کسی کی طرف اندر سے کھنچنا اور اس کے دل کا اس محبوب کی خوبیوں، اس کی ذات وصفات کی تحسین اور اس کی شکل و صورت اور عادات واطوار کی تعریف و توصیف سے معمور ہوجانا کہ وہ اپنے محبوب کو سب سے اچھا دیکھنے اور سب سے اچھا جاننے لگے۔ مگر جیسا کہ پہلے بتایا گیا تکمیل محبت کا انحصار، محبوب کی کامل اتباع اور پیروی پر ہے، اگر باطنی تعلق و محبت کے ساتھ عمل و اتباع کی دولت بھی نصیب ہو تو اصل اور کامل محبت وہی کہلائے گی ورنہ محض دل میں محبت کا ہونا اور زبان سے اس کا اعتراف و اقرار بھی کرنا، مگر عمل و اتباع کی راہ میں غفلت و کوتاہی کا شکار ہونا، محبت کے ناقص ہونے کی دلیل ہے، جیسا کہ عمل کے بغیر ایمان درجہ تکمیل تک نہیں پہنچاتا۔

【23】

دعوت اسلام کی راہ میں حضور ﷺ کو پیش آنے والے فقر و فاقہ اور آفات و آلام کا ذکر

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ کے دین کو ظاہر کرنے اور اس کی طرف لوگوں کو بلانے کی راہ میں جس قدر مجھ کو خوف و دہشت میں مبتلا کیا گیا اس قدر کسی اور کو خوف و دہشت میں مبتلا نہیں کیا گیا اور اللہ کے دین کی راہ میں جتنی ایذاء رسانیوں سے میں دوچار ہوا ہوں اتنی ایذاء رسانیوں سے کوئی اور دوچار نہیں ہوا ہے (یعنی ابتداء میں جب میں نے اسلام کی دعوت پیش کی اور اللہ کی وحدانیت اور اپنی رسالت کا اظہار و اعلان کیا تو اس وقت میں بالکل تنہا تھا، کوئی اور شخص میرے ساتھ نہیں تھا، چناچہ اس راہ میں پیش آنے والے تمام تر مصائب و آلام اور ہر طرح کی دہشت انگیزی کو برداشت کرنے والا واحد شخص میں تھا) بلاشبہ مجھ پر متواتر تیس دن اور تیس راتیں ایسی گزری ہیں جن میں میرے اور بلال کے لئے کھانے پینے کا ایسا کوئی سامان نہیں تھا جس کو کوئی جگردار (یعنی حیوان) کھاتا ہے (یعنی ان دنوں ہم دونوں کے پاس کھانے کی ان چیزوں میں سے بھی کوئی چیز نہیں تھی جس کو جانور کھاتے ہیں چہ جائیکہ آدمیوں کے کھانے پینے کی کوئی چیز ہوتی) علاوہ اس نہایت معمولی سی چیز کے جس کو بلال اپنی بغل میں چھپائے رہتے تھے اور ظاہر ہے کہ جس چیز کو انسان اپنی بغل میں دبالے اس کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کہ باہر سے یہ نظر بھی نہ آئے کہ بغل میں کیا چیز ہے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث میں حضور ﷺ نے جو صورت حال بیان فرمائی ہے اس کا تعلق اس وقت سے ہے جب حضور ﷺ مکہ سے نکلنے پر مجبور ہوگئے تھے اور اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ حضرت بلال (رض) تھے۔ نیز حضرت بلال (رض) کے پاس کھانے کی چیزوں میں سے صرف اتنا تھا جس کو وہ اپنی بغل میں دبائے رہتے تھے ۔ تشریح حدیث کے ابتدائی جملوں کی وضاحت طیبی نے وہی کی ہے جو ترجمہ میں (بین القوسین) نقل کی گئی ہے۔ لکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس قدر کسی اور کو خوف و دہشت میں مبتلا نہیں کیا گیا اور اتنی زیادہ ایذاء رسانیوں سے کوئی اور دوچار نہیں ہوا سے حضور ﷺ کی مراد یہ تھی کہ اللہ کا دین پہنچانے کی راہ میں جس قدر خوف و دہشت میں مجھے مبتلا کیا گیا ہے اور جس قدر اذیتیں اور تکلیفیں میں نے برداشت کی ہیں اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ مااوذی نبی مثل ما اوذیت (یعنی جتنی زیادہ ایذاء مجھے پہنچائی گئی ہے اتنی زیادہ کسی اور نبی کو نہیں پہنچائی گئی) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دراصل اللہ کے دین کی راہ میں ایذاء اور تکلیف کا پہنچانا ہر شخص کی ہمت و حیثیت اور مرتبہ کے مطابق ہوتا ہے، چونکہ سرکار دو عالم ﷺ کی ہمت و حیثیت سب سے زیادہ بلند تھی۔ آپ ﷺ کا مرتبہ سب سے اونچا تھا آپ ﷺ کی صداقت و حقانیت سب سے زیادہ واضح تھی۔ اور ایمان کو پھیلانے اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کی تمنا و خواہش اور اس کے تئیں سعی تڑپ سب سے زیادہ آپ ﷺ میں تھی اس لئے اس راہ میں سب سے زیادہ ایذاء رسانی اور مصائب کا سامنا بھی آپ ہی کو کرنا پڑا۔ آیت (ولقد اتت علی) الخ سے حضور ﷺ نے اپنے فقر و فاقہ کے انتہائی شدید وسخت دنوں کا ذکر جس انداز میں فرمایا اس سے ایک تو ان سخت مصائب و آلام کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا جن سے آپ ﷺ کو دعوت اسلام کی راہ میں دوچار ہونا پڑا اور ظاہر ہے کہ فقر و فاقہ سے زیادہ سخت اور کوئی مشقت نہیں ہوسکتی اور دوسرے اصل مقصد امت کے لوگوں کو تعلیم و تلقیں تھا کہ اللہ کے دین کی راہ میں اگر بڑی سے بڑی صعوبت بھی برداشت کرنا پڑے تو اس کو بطیب خاطر انگیز کیا جائے اور بہر صورت راہ استقامت پر گامزن رہا جائے۔ امام ترمذی نے جو یہ کہا ہے کہ اور اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ حضرت بلال (رض) بھی تھے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺ کی بیان فرمودہ صورت حال کا تعلق اس وقت سے نہیں جب کہ آپ ﷺ نے مکہ سے مدینہ کے لئے ہجرت فرمائی تھی کیونکہ اس وقت حضور ﷺ کے ساتھ حضرت بلال نہیں تھے۔ بلکہ یہ واقعہ غالباً اس وقت کا ہے جب آپ ابتدائے اسلام میں مکہ سے طائف تشریف لے گئے تھے چناچہ نبوت کا دسواں سال تھا اور شوال کا مہینہ کہ آپ کے چچا ابوطالب کی وفات ہوگئی۔ اور پھر تین دن بعد یا پانچ دن کے بعد ام المومنین حضرت خدیجہ (رض) بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں، یہ دونوں سانحے حضور ﷺ کے لئے نہایت سخت تھے اسی لئے آپ ﷺ نے اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال فرمایا۔ قریش مکہ جو پہلے ہی آپ ﷺ کو طرح طرح کی اذیتوں کا نشانہ بنا رہے تھے، اب ان دونوں، ہستیوں خصوصاً ابوطالب کی وفات کے بعد ان کو اپنی جابرانہ کاروائیوں کا موقع مل گیا، چناچہ انہوں نے آپ ﷺ کی ایذاء رسانی میں بڑی شدت پیدا کردی، ادھر جب آپ ﷺ کو اہل مکہ کے قبول اسلام سے مایوسی کی صورت پیدا ہونے لگی تو اسی سال یعنی ١٠ نبوی، آخر ماہ شوال میں آپ حضرت زید بن حارثہ (رض) کو ساتھ لے کر پیادہ پا مکہ سے طائف تشریف ہے گئے اور اہل طائف کو کلمہ حق کی طرف دعوت دی اور متواتر ایک ماہ تک ان کی تبلیغ و ہدایت میں مصروف رہے، مگر انہوں نے آپ کی ایک بات نہیں سنی اور کسی ایک شخص کو بھی قبول حق کی توفیق نہیں ہوئی، بلکہ ظالموں نے اپنے بچوں اور اوباش لوگوں کو آپ ﷺ کے پیچھے لگا دیا کہ جس قدر ہو سکے آپ ﷺ کو ایذاء پہنچائیں چناچہ ان بدبختوں نے آپ ﷺ پر پتھر برسانے شروع کئے جس سے سردار دو عالم ﷺ کے قدم شریف زخمی ہوجاتے تھے اور اتنا خون بہتا تھا کہ آپ ﷺ کے نعلین مبارک اس سے بھر جاتے تھے، جب آپ ﷺ پتھر کے زخموں سے چور ہو کر گرپڑتے تھے تو وہ لوگ آپ ﷺ کے دونوں بازو پکڑ کر کھڑا کردیتے تھے اور آپ ﷺ آگے چلتے تو پھر پتھراؤ شروع کردیتے تھے اور خوش ہو کر تالیاں بجاتے اور قہق ہے لگاتے تھے۔ حضرت زید بن حارثہ (رض) جس طرف سے پتھر آتا ہوا دیکھتے اس طرف خود کھڑے ہو کر آنحضرت ﷺ کو بچاتے اور پتھر کو اپنے سر پر لیتے تھے یہاں تک کہ حضرت زید (رض) کا سر بھی پتھروں کے زخم سے چور چور ہوگیا۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے بادل کا ایک ٹکڑا بھیجا جو آپ ﷺ پر سایہ فگن ہوگیا اور پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ایک اور فرشتے کے ساتھ حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کے پروردگار نے آپ ﷺ کی قوم کی ساری باتیں سنیں اور آپ ﷺ کے ساتھ جو کچھ سلوک انہوں نے کیا ہے اس کو دیکھا، میرے ساتھ یہ وہ فرشتہ ہے جس کے سپرد پہاڑوں کی خدمت ہے، اللہ پاک کا اس کو حکم ہے کہ اگر آپ ﷺ فرمائیں تو طائف کے گرد کی دونوں پہاڑیاں باہم ٹکرا دی جائیں۔ اور ان دونوں کے درمیان اہل طائف کو اس طرح دل دیا جائے جس طرح چکی کے دو پاٹوں میں دانہ دل جاتا ہے۔ رحمت عالم ﷺ کسی انتقامی کاروائی کی اجازت دے دیتے، یہ کیسے ممکن تھا ؟ چناچہ آپ ﷺ نے اس امر کی اجازت نہیں دی اور بارگاہ رب العزت میں یوں گویا ہوئے۔ ارحم الراحمین ! تو نے مجھ کو سخت دل اور انتقام کا خو گر نہیں بنایا، میں لوگوں پر تیرے عذاب نازل کرانے نہیں آیا ہوں، مجھے اپنی قوم کے ہلاک و تباہ ہونے کا سبب نہ بنا، اگر یہ نیست نابود ہوگئے تو اس سے مجھے کیا حاصل ہوگا، ہاں اگر یہ زندہ رہے تو امید ہے کہ شاید ان کی نسلوں میں سے وہ لوگ پیدا ہوں جو تیری وحدانیت کے ساتھ پرستش کریں اور تیرے دین کا جھنڈہ بلند کریں ! پروردگار یہ میرے مرتبہ سے ناواقف ہیں، ان کی آنکھوں پر جہل و نادانی کی پٹی بندھی ہوئی ہے، اگر تو ان کو وہ بینائی عطا فرما دے جس سے یہ میری شان پیغمبر دیکھ لیں تو امید ہے کہ ایمان سے مشرف ہوجائیں۔ بالآخر رحمت عالم ﷺ ایک ماہ بعد طائف سے اس طرح واپس ہوئے کہ فقر و فاقہ کے تعب اور ایذاء رسانیوں کے زخم سے جسم نڈھال تھا اور آپ ﷺ کے ٹخنے شریف لہو لہان تھے، مگر زبان پر حرف بد دعا کے بجائے دعائے ہدایت کے الفاظ تھے۔ سفر طائف کا یہ پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ تاریخ و سیر کی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے یہاں اس کا ذکر اجمالی طور پر کیا گیا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ روایت کے آخر میں اس طرف اشارہ ہے۔ رہی یہ بات کہ حدیث میں اس موقع پر آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت بلال (رض) کا ہونا مذکور ہے، جب کہ مذکورہ بالا واقعہ میں حضرت زید بن حارثہ (رض) کا ذکر ہے تو ان دونوں میں کوئی تضاد اور منافات نہیں کیونکہ اغلب ہے کہ حضرت بلال اور حضرت زید بن حارثہ (رض) دونوں ہی آپ ﷺ کے ساتھ رہے ہوں گے، تاہم تاریخ و سیر کی کتابوں میں اس موقعہ پر حضرت زید بن حارثہ (رض) کا ہی ہونا ذکر کیا جاتا ہے۔

【24】

حضور ﷺ اور صحابہ (رض) کے فقر و افلاس کا حال

حضرت ابوطلحہ (رض) کہتے ہیں ہم نے رسول کریم ﷺ سے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا دکھایا، (یعنی ہم میں سے ہر شخص نے بھوک کی شدت سے بیتاب ہو کر اپنے پیٹ پر ایک ایک پتھر باندھ رکھا تھا جس کو ہم نے اپنا پیٹ کھول کر حضور کو دکھایا) تب حضور ﷺ نے اپنا پیٹ کھول کر دکھایا تو اس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح جب بھوک کی شدت ہوتی ہے اور پیٹ بالکل خالی ہوتا ہے تو اس صورت میں پیٹ پر پتھر باندھ لینا پیٹ معدہ اور آنتوں کو اس حد تک تقویت پہنچا دیتا ہے کہ آدمی اپنا کام کاج کرنے، اٹھنے یٹھنے اور چلنے پھرنے پر تھوڑا بہت قادر ہوجاتا ہے اور جب بھوک کی شدت اور زیادہ ہوجاتی ہے اور ایک پتھر سے بھی کام نہیں چلتا تو پھر دو پتھر باندھنے پڑتے ہیں، چناچہ حضور ﷺ پر بھوک کی شدت زیادہ طاری تھی اور ویسے بھی آپ ﷺ زیادہ محنت و ریاضت کے عادی تھے اس لئے آپ ﷺ نے اپنے شکم مبارک پر دو پتھر باندھ رکھے تھے۔

【25】

حضور ﷺ اور صحابہ (رض) کے فقر و افلاس کا حال

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب فقراء صحابہ کو بھوک کی شدت نے پریشان کیا تو رسول کریم ﷺ نے ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک کھجور عطا فرمائی۔ (ترمذی) تشریح اس حدیث سے حضرت ابوہریرہ (رض) کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ان صحابہ (رض) پر فقر و افلاس اور کھانے پینے کی تنگی کا اتنا زیادہ غلبہ تھا کہ بسا اوقات انہیں ایک ایک کھجور پر اکتفا کرنا پڑتا تھا۔

【26】

صابر وشاکر کون ہے؟

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ دو خصلتیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں پائی جاتی ہیں اس کو اللہ تعالیٰ شاکر و صابر قرار دیتا ہے ایک یہ جب وہ شخص دینی معاملہ یعنی اچھے اعمال وغیرہ میں ایسے آدمی کو دیکھے جو (علم و عمل، طاعات و عبادات، قناعت و استقامت اور ریاضت و مجاہدہ کے اعتبار سے) اس سے برتر ہو تو اس کی اقتدا کرے ( یعنی اس میں دینی برتری و فضیلت سے اس طرح فیضان حاصل کرے کہ خود بھی علم وعمل کی راہ پر چلے، طاعات و عبادات کی محنت ومشقت اور برائیوں سے اجتناب پر صبر و استقامت اختیار کرے اور جو دینی و باطنی کمالات پہلے فوت ہوچکے ہیں ان پر تأسف کرے) اور دوسرے یہ کہ جب اپنی دنیا کے معاملہ میں اس آدمی کو دیکھے جو (مال و دولت اور جاہ ومنصب کے اعتبار سے) اس سے کمتر ہو تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور اس کا شکر ادا کرے کہ اس نے اس آدمی پر اس کو فضیلت و برتری بخشی ہے پس اللہ تعالیٰ اس شخص کو صابر و شاکر قرار دیتا ہے (یعنی شاکر تو اس لئے کہ اس نے دنیاوی اعتبار سے اپنے سے کمتر کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا اور صابر اس لئے کہ اس نے دینی اعتبار سے اپنے سے برتر شخص کو دیکھ کر اس سے رہنمائی اور فیضان حاصل کیا) اور جو شخص ایسا، ہو کہ جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھے جو اس کے دینی (یعنی اعمال صالحہ وغیرہ) کے اعتبار سے اس سے کمتر درجہ کا ہو (تو اس کے تئیں رشک و حسد اور حرص و خواہش میں مبتلا ہوجائے اور) اس چیز (یعنی جاہ ومال پر رنج و غم کرے جس سے وہ محروم ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ شاکر قرار دیتا ہے اور نہ صابر۔ (ترمذی) اور حضرت ابوسعید (رض) کی روایت ابشرا یا معشر صعالیک المہاجرین الخ اس باب میں نقل کی جا چکی ہے جو فضائل قرآن کے باب کے بعد ہے۔ تشریح موخرالذکر شخص کو نہ تو شاکر اور نہ صابر قرار دینے کا سبب یہ ہے کہ جن دو خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کسی ایک صفت کو بھی اس نے اختیار نہیں کیا، بلکہ اس کے برخلاف اس نے اللہ کی ناشکری کی اور زبان اور دل دونوں سے جزع و فزع او شکوہ شکایت کا مرتکب ہوا۔ حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو صابر اور شاکر قرار دیتا ہے ( تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو کامل مومن بنا دیتا ہے۔ چناچہ اس آیت آیت (اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ ) 31 ۔ لقمان 31) سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صابر و شاکر کا اطلاق اسی پر ہوتا ہے جو کامل مومن ہو، نیز ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ایمان کے دو نصف ہیں۔ اس کا ایک نصف صبر ہے اور ایک نصف شکر ہے گویا اپنے آپ کو برائیوں سے روکنا صبر سے تعبیر ہے اور اعضاء ظاہر کے ذریعہ طاعات کی بجا آواری شکر کے مفہوم میں ہے اور ظاہر ہے کہ جس بندے کی زندگی ان دونوں اجزاء تکمیل سے معمور ہو وہ کامل مومن ہوتا ہے۔

【27】

فقر پر صبر کرنے کی فضیلت

حضرت ابوعبدالرحمن جبلی (رح) (جن کا اصل نام عبداللہ بن زید مصری ہے اور جن کا شمار ثقہ تابعین میں ہوتا ہے) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کو فرماتے ہوئے سنا، جب کہ ایک شخص نے ان سے سوال کیا اور کہا کہ کیا ہم ان فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہیں جن کے بارے میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ وہ دولتمندوں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے ؟ حضرت عبداللہ نے یہ سن کر اس شخص سے پوچھا کہ کیا تم بیوی والے کہ جس کے پاس تمہیں سکون قرار ملتا ہو ؟ اس شخص نے کہا کہ ہاں پھر حضرت عبداللہ نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس مکان ہے جس میں تم رہائش اختیار کرو ؟ اس شخص نے کہا کہ ہاں مکان بھی ہے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو پھر تم دولتمندوں میں سے ہو (یعنی تم ان مہاجرین کی حیثیت کے آدمی ہو جو فقر و افلاس میں مبتلا نہیں تھے، فقراء مہاجرین میں تمہارا شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ ان فقراء کے پاس نہ بیوی تھی نہ گھر بار تھا، یا اگر کسی کے پاس اس دونوں میں سے کوئی ایک چیز تھی تو دوسری چیز سے محروم تھا) اس شخص نے ( جب یہ سنا کہ حضرت عبداللہ نے بیوی اور گھر والا ہونے کی وجہ سے اسے گویا دولتمند کہا ہے تو) کہا کہ میرے پاس ایک خادم بھی ہے (یعنی غلام یا لونڈی) حضرت عبداللہ نے فرمایا تب تو تم بادشاہوں میں سے ہو (یعنی اس صورت میں تو تمہارا شمار رئیسوں اور بادشاہوں میں ہونا چاہئے، تمہیں فقیر مفلس کہنا کسی طرح درست نہ ہوگا۔ حضرت ابوعبدالرحمن (راوی) نے یہ بھی بیان کیا کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کے پاس تین آدمی آئے، اس وقت میں بھی ان کی خدمت میں حاضر تھا، ان تینوں نے کہا کہ اے ابومحمد ! واللہ ہم کسی چیز کی استطاعت نہیں رکھتے، نہ تو خرچ کرنے کی (کہ حج کو جا سکتیں) نہ کسی جانور کی کہ جہاد میں شریک ہو سکیں اور نہ کسی دوسرے سامان کی کہ جس کو فروخت کرے اپنے ضروری مصارف پورا کرسکیں۔ حضرت عبداللہ نے ان کی بات سن کر فرمایا کہ تم کیا چاہتے ہو ؟ اگر تمہاری یہ خواہش ہے کہ میں تمہارے ساتھ معاونت کروں اور تمہیں اپنے پاس سے کچھ دوں تو تم لوگ پھر کسی وقت آنا میں تمہیں وہ چیز دوں گا جس کا اللہ تمہارے لئے انتظام کر دے گا کیونکہ تمہیں دینے کے لئے اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے اور اگر تم چاہو تو میں تمہاری حالت بادشاہ (امیر معاویہ (رض) سے بیان کر دوں تمہیں اپنی عطاء سے فارغ البال کردیں گے۔ اور سب سے بہتر بات یہ ہے کہ اگر تم اہل کمال کا رتبہ حاصل کرنا چاہو تو صبر کرو یعنی اپنی اسی حالت فقر و افلاس پر استقامت اختیار کرو، کیونکہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فقراء مہاجرین قیامت کے دن جنت میں دولتمندوں سے چالیس سال پہلے جائیں گے۔ ان تینوں نے یہ حدیث سنی تو کہا کہ بیشک ہم صبر و استقامت ہی کی راہ اختیار کرنے کا عہد کرتے ہیں، اب ہم آپ سے کچھ نہیں مانگتے یا یہ کہ اب آئندہ ہم کسی سے کچھ نہیں مانگیں گے۔ (مسلم)

【28】

فقراء مہاجرین کی فضیلت

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ مسجد (نبوی) میں بیٹھے ہوئے تھے اور فقراء مہاجرین کا حلقہ جما ہوا تھا کہ اچانک نبی کریم ﷺ تشریف لے آئے اور فقراء کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے میں بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور (حضور ﷺ کی اتباع میں) فقراء کے قریب پہنچ کر ان کی طرف متوجہ ہوگیا (تاکہ آنحضرت ﷺ ان سے جو کچھ فرمائیں، ان ملفوظات کو میں بھی سن سکوں) چناچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ فقراء مہاجرین کو وہ بشارت پہنچا دینی ضروری ہے جو ان کو مسرور و شادماں بنا دے، پس وہ بشارت یہ ہے کہ فقراء مہاجرین جنت میں دولتمندوں سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ واللہ میں نے دیکھا کہ یہ بشارت سن کر فقراء کے چہروں کا رنگ روشن وتاباں ہوگیا۔ پھر حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ یہ بشارت سن کر اور فقراء کے چہروں کی تابانی و شگفتگی دیکھ کر میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی ان ہی جیسا ہوتا یعنی اس دنیا میں مجھ پر بھی فقر و افلاس طاری ہوتا اور میں اس جماعت فقراء میں شمار ہوتا) یا یہ کہ ان میں سے ہوتا (یعنی آخرت میں اس جماعت کے ساتھ اٹھتا اور انہی کے ساتھ میرا حشر ہوتا۔ (دارمی) تشریح بما یسر وجوہہم میں لفظ وجوہ سے مراد یا تو ذات ہے یا جیسا کہ ترجمہ میں اسی کو ملحوظ رکھا گیا ہے یا یہ لفظ اپنے اصل معنی چہرے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ فقراء مہاجرین کو بشارت پہنچا دینی ضروری ہے جو ان کے دلوں کو خوش کر دے اور اس خوشی کا اثر ان کے چہروں پر ظاہر و نمایاں ہو۔ اکون معہم او منہم میں حرف او تنویع کے لئے ہے اور اسی کے مطابق کا مطلب بھی بین القوسین بیان کردیا گیا ہے یا یہ کہ یہ صرف راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے کہ حضرت عبداللہ نے یا تو ان اکون معہم فرمایا یا یہ کہ ان اکون منہم یعنی میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی فقراء مہاجرین میں سے ایک ہوتا۔

【29】

وہ باتین جو خزانہ الٰہی میں سے ہیں

حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میرے خلیل (نبی کریم ﷺ نے مجھ کو ساتھ باتوں کا حکم دیا ہے، چناچہ آپ ﷺ نے ایک حکم تو یہ دیا کہ میں فقراء و مساکین سے محبت کروں اور ان سے قربت رکھوں۔ دوسرا حکم یہ کہ میں اس شخص کی طرف دیکھوں جو دنیاوی اعتبار سے مجھ سے کمتر درجہ کا ہے اور اس شخص کی طرف نہ دیکھوں جو جاہ و مال اور منصب میں مجھ سے بالا تر ہے، تیسرا حکم یہ دیا کہ میں کسی قرابتدار سے ناطے داری کو قائم رکھوں اگرچہ کوئی (قرابت دار) ناطے داری کو منقطع کرے، چوتھا حکم یہ دیا کہ میں کسی شخص سے کوئی چیز نہ مانگوں، پانچواں حکم یہ دیا کہ میں (ہر حالت میں) حق بات کہوں اگرچہ وہ سننے والے کو تلخ اور غیر خوش آئندہ معلوم ہو، چھٹا حکم یہ دیا کہ میں اللہ کے دین کے معاملہ میں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں ملامت کرنے والے کی کسی ملامت سے نہ ڈروں اور ساتواں حکم یہ دیا کہ میں کثرت کے ساتھ لاحول ولاقوۃ الا باللہ کا ورد رکھوں (پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ) پس یہ ساتوں باتین اور عادتیں اس خزانہ کی ہیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے (اور جس سے فیوض و برکات نازل ہوتے ہیں) (احمد) تشریح فانہن کی ضمیر حضرت شیخ عبدالحق (رح) نے تو مذکورہ ساتوں باتوں کی طرف راجع کی ہے جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہوا لیکن ملا علی قاری (رح) نے اس ضمیر کا مرجع صرف آخری بات یعنی لاحول ولاقوۃ الا باللہ کو قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ الفاظ (یعنی لاحول الخ) دراصل اس گنج معنوی کا ایک حصہ ہیں جو عرش الٰہی کے نیچے محفوظ رکھا گیا ہے اور گنج معنوی تک اس شخص کے علاوہ اور کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی جس کو اللہ کی طرف سے حول وقوۃ یعنی قدرت و طاقت حاصل ہو۔ یا یہ معنی ہیں کہ یہ الفاظ جنت کے خزانوں میں ایک خزانہ ہیں۔ اس صورت میں عرش الٰہی کے نیچے کا مفہوم بھی بالکل واضح ہوگا کیونکہ عرش الٰہی، بالائے جنت ہے، نیز ملا علی قاری نے فرمایا ہے کہ جن شارحین نے انہن کی ضمیر مذکورہ ساتوں باتوں کی طرف راجع کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ ساتوں باتیں اور عادتیں اس خزانہ کی ہیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے، ایک ایسا قول ہے جو حقیقت سے بعید ہے کیونکہ اس قول کو ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے جب کہ انہن کی ضمیر کو صرف آخری بات یعنی لاحول الخ کی طرف راجع کرنے کی سب بڑی دلیل یہ ہے کہ صحاح ستہ اور دیگر مسند کتابوں میں کثیر طرق سے یہ روایت کیا گیا ہے کہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ جنت کے خزانوں میں ایک خزانہ ہے۔ رہی یہ بات کہ ان الفاظ کو جنت کا خزانہ کس اعتبار سے فرمایا گیا ہے تو اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، چناچہ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ان الفاظ کو خزانہ اس لئے کہا گیا ہے کہ جس طرح خزانہ، عالم لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوتا ہے اسی طرح یہ الفاظ اپنی حقیقت و رفعت اور نفاست پاکیزگی کے اعتبار سے لوگوں کی نظروں سے محفوظ ہیں۔ یا ان الفاظ کو اس لئے خزانہ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہ جنت کے ذخائر میں سے ایک ذخیرہ ہیں۔ اور یا یہ کہ جو شخص ان الفاظ کا ورد رکھتا ہے اس کے لئے نہایت اعلی مرتبہ کا اجر وثواب جنت میں محفوظ کردیا جاتا ہے، اس اعتبار سے یہ الفاظ گویا جنت کا ایک خزانہ ہیں حضرت مسعود (رض) ایک روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے آنحضرت ﷺ کے سامنے یہ کلمہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ پڑھا تو حضور ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم ان الفاظ کا حقیقی مفہوم بھی جانتے ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہی بہتر جان سکتے ہیں، تب آپ ﷺ نے فرمایا (ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ) اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے پھرنا اور بچنا صرف اللہ تعالیٰ کی مدد پر منحصر ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد پر منحصر ہے اور اللہ کی اطاعت عبادات پر قادر ہونا صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جانے والی قدرت و طاقت پر منحصر ہے۔ مشائخ شاذلیہ قدس اللہ اسرارہم نے طالبان حق اور رہر وان طریقت معرفت کو ان الفاظ لاحول ولاقوۃ الا باللہ کے ورد کی بہت وصیت کی ہے اور فرمایا ہے کہ توفیق عمل کی راہ میں اس سے زیادہ معین و مددگار اور کوئی چیز نہیں ہے۔

【30】

آنحضرت ﷺ کی مرغوب دنیاوی چیزیں

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ دنیا کی چیزوں میں سے تین چیزیں رسول کریم ﷺ کی نظر میں نہایت پسندیدہ تھیں ایک تو کھانا (کہ جس کے ذریعہ جسم و بدن کو محفوظ و توانا رکھ کر دینی خدمات پر قدرت و طاقت حاصل کی جاسکے) دوسرے عورتیں ( کہ جن کے ذریعہ نفس کو برے خیالات سے محفوظ رکھا جاسکے) اور تیسرے خوشبو (کہ جس کے ذریعہ دماغ کو نشاط وتقویت حاصل ہو، کیونکہ حکماء کے قول کے مطابق عقل و فراست کا مخزن دماغ ہی ہے) چناچہ ان تینوں چیزوں میں سے دو چیزیں تو حضور ﷺ کو (کثرت کے ساتھ) حاصل ہوئی اور ایک چیز (زیادہ) حاصل نہیں ہوئی یعنی ایک تو عورتیں آپ کو زیادہ ملیں (بایں طور کہ آپ نے نو شادیاں کیں اور دوسرے خارجی طور پر خوشبو آپ کو بہت ملی باوجودیکہ آپ ﷺ کا پسینہ مبارک ہی تمام طرح کی خوشبو سے زیادہ معطر اور خوشگوار تھا، لیکن تیسری چیز کھانا، آپ ﷺ کو (زیادہ) نہیں ملا۔ (احمد) تشریح کھانے پر نفی کا اطلاق بطور مبالغہ ہے کہ آپ ﷺ کی غذائی ضروریات جس تنگی و قلت کے ساتھ پوری ہوتی تھیں اور جتنا کم کھانا آپ ﷺ کو نصیب ہوتا تھا اس کی بناء پر اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ کھانا، نہ ملنے ہی کے برابر تھا، چناچہ پہلے یہ روایت گزر چکی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ تا وفات ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ ﷺ نے مسلسل دو دن جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر کھائی ہو، اگرچہ کھانے کی یہ تنگی و قلت خود حضور ﷺ کی اختیار کردہ تھیں کہ آپ ﷺ نے اپنے لئے تنگی معیشت اور فقر و غربت کی زندگی کو ترجیح دی تھی اور حق تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لئے جو اس بات کو پسند کیا تو اس میں بیشمار حکمتیں پوشیدہ تھیں۔

【31】

آنحضرت ﷺ کی مرغوب دنیاوی چیزیں

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ خوشبو اور عورتیں میرے لئے پسندیدہ بنائی گئی ہیں اور میرا قلبی سکون و نشاط، نماز میں رکھا گیا ہے (احمد، نسائی) اور ابن جوزی نے اس ارشاد میں حبب الی کے بعد من الدنیا کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں۔ تشریح میرا قلبی سکون و نشاط نماز میں رکھا گیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو جو ذوق و لذت، استغراق وحضور اور راحت و سرور نماز میں حاصل ہوتا ہے وہ کسی بھی وقت اور کسی بھی عبادت میں میسر نہیں ہوتا چناچہ حضور ﷺ پر نماز کے تئیں اس لذت بےخودی اور اسی ذوق حضور کے نشاط کا یہ اثر تھا کہ جونہی نماز کا وقت آتا، تو نہایت شوق کے عالم میں فرماتے ارحنا یا بلال ! جلدی اٹھو اور اذان کہو، تاکہ میں نماز پڑھنے لگوں اور دوسرے امور کی مشغولیت و فکرات سے دامن چھڑا کر مناجات حق میں مشغول ہوجاؤں۔ لفظ قرۃ یا تو قر سے مشتق ہے جس کے معنی قرار و ثبات کے ہیں اور چونکہ جب نگاہ کو محبوب کا دیدار نصیب ہوجاتا ہے تو نہ صرف نظر کو قرار مل جاتا ہے کہ نگاہیں پھر کسی دوسرے کو دیکھنے کی روادار نہیں ہوتیں، بلکہ دل و دماغ کو بھی راحت و اطمینان کی دولت مل جاتی ہے، جس طرح کہ محبوب کا دیدار نہ ہونے کی صورت میں نظریں پریشان اور دل بےقرار رہتا ہے، لہٰذا نگاہ ودل کے اسی قرار و سکون کو حضور ﷺ نے قرۃ عینی سے تعبیر فرمایا۔ یا کہ یہ لفظ قرۃ اصل میں قر سے مشتق ہے، جس کے معنی اس ٹھنڈک اور خنکی و لذت کے ہیں جو کسی عزیز ترین چیز اور محبوب کے دیدار اور مشاہدہ کے سرور سے آنکھوں کو حاصل ہوتی ہے، چناچہ جس طرح کسی دشمن اور قابل نفرت چیز کو دیکھ کر آنکھوں میں چنگاریاں سلگتی معلوم ہوتی ہیں اسی طرح اپنی کسی عزیز ترین چیز اور محبوب کو دیکھ کر آنکھوں میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے، اسی لئے بیٹے کو قرۃ العین کہا جاتا ہے۔ روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ابن جوزی نے اس حدیث کو جس طرح نقل کیا ہے اس میں شروع کا جملہ اس طرح ہے حبب الی من الدنیا الطیب الخ (یعنی دنیا کی جن چیزوں کو میرے لئے پسندیدہ بنایا گیا ہے، ان میں سے ایک تو خوشبو ہے اور دوسری عورت ہے) تاہم یہ بات واضح رہے کہ حدیث کے وہ الفاظ کہ جن کو امام احمد اور امام ترمذی نے متفقہ طور پر نقل کیا ہے، زیادہ صحیح وہی ہیں جو اوپر متن میں نقل کئے گئے ہیں چناچہ طبرانی نے اپنے تینوں معاجم میں، خطیب نے تاریخ بغداد میں اور ابن عدی نے کامل میں اس روایت کو انہی الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے، نیز حاکم نے بھی اپنی مستدرک میں اسی طرح نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے البتہ ان کی روایت میں جعلت کا لفظ نہیں ہے۔ ویسے نسائی کی ایک روایت میں بھی من الدنیا کا لفظ ایک دوسری وجہ سے منقول ہے ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض ناقلین حدیث کے ہاں اس روایت میں حبب الی من الدنیا کے بعد ثلث کا جو ایک اور لفظ نقل کیا جاتا ہے، تو جیسا کہ سخاوی (رح) نے لکھا ہے کہ تحقیق تفتیش کے باوجود یہ لفظ حدیث کی کسی کتاب میں اس روایت کے دوران نہیں ملتا، البتہ کتاب احیاء العلوم اور کشاف کی تفسیر سورت آل عمران میں یہ لفظ ضرور ملتا ہے، شیخ ابن حجر اور شیخ ولی الدین عراقی نے بھی یہی لکھا ہے کہ حدیث کی جس کتاب میں بھی یہ روایت ہے ثلث کا لفظ کہیں منقول نہیں ہے، لہٰذا یہ حدیث یہاں جن الفاظ کے ساتھ نقل کی گئی ہے اس کے مفہوم میں کوئی اشکال واقع نہیں ہوتا، اسی طرح ان دونوں لفظوں یعنی من الدنیا اور ثلث میں سے کوئی بھی ایک لفظ شامل روایت ہو تب بھی مفہوم بالکل واضح رہتا ہے، ہاں ! اگر یہ دونوں لفظ ایک ساتھ شامل روایت ہوں تو اس صورت میں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ نماز پر دنیاوی چیز کا اطلاق کس طرح ہوسکتا ہے کیونکہ نماز دنیاوی امور میں سے نہیں ہے ؟ لہٰذا جو ناقلین حدیث ان دونوں لفظوں کے ساتھ اس روایت کو بیان کرتے ہیں ان کی طرف سے اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ دنیا سے حضور ﷺ کی مراد اس عالم کی حیات ہے، یعنی آپ ﷺ نے گویا یہ فرمایا کہ اس عالم میں تین چیزیں میری پسندیدہ ہیں جن میں سے دو چیزیں تو طبعی اور دنیاوی امور سے تعلق رکھتی ہیں یعنی خوشبو اور عورت اور تیسری چیز یعنی نماز کا تعلق دینی امور سے ہے۔ آخر میں ایک بات اور، حدیث میں صلوۃ کا لفظ تقریباً تمام علماء کے نزدیک نماز ہی پر محمول ہے، لیکن بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ اس حدیث میں صلوۃ کے لفظ سے نبی کریم ﷺ پر (درود وسلام) مراد ہے۔

【32】

راحت طلبی اور تن آسانی بندگان خاص کی شان کے منافی ہے

حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ جب انہیں رسول کریم ﷺ نے (قاضی بنا کر یمن بھیجا تو ان کو یہ نصیحت بھی فرمائی کہ اپنے آپ کو راحت طلبی اور تن آسانی سے بچانا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندگان خاص آرام و آسائش کی زندگی نہیں گزارتے ۔ (احمد) تشریح تنعم کا مفہوم ہے نفسانی خواہشات کی تکمیل میں زیادہ سے زیادہ اہتمام و انصرام کرنا، بہت زیادہ دنیاوی لذتوں اور نعمتوں کے درمیان رہنا اور کھانے پینے اور طبیعت و نفس کی مرغوبات کا حریص ہونا حاصل یہ کہ راحت طلبی وتن آسانی کی چیزوں میں پڑنا اور عیش و عشرت کی زندگی اختیار کرنا، کافر و فاجر، غافل ونادان اور جاہل لوگوں کا خاصہ ہے، بندگان خاص کو ایسی زندگی سے کیا سروکار ! چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت (ذرہم یأکلوا ویتمتعوا ویلہہم الامل فسوف یعلمون) ۔ آپ ﷺ ان کافروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے کہ وہ خوب کھا لیں اور چین اڑا لیں اور خیالی منصوبے دنیا بھر کی آرزوئیں اور تمنائیں ان کو غفلت میں ڈالے رکھیں ان کو ابھی حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے۔ اور فرمایا۔ آیت (والذین کفروا یتمتعون ویأکلون کما تاکل الانعام والنار مثوی لہم) دوسری آیت (انھم کانوا قبل ذالک مترفین) ۔ اور جو لوگ کافر ہیں وہ عیش کر رہے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں اور جہنم ان لوگوں کا ٹھکانہ ہے۔ ایک جگہ یوں فرمایا گیا ہے وہ کافر لوگ اس سے قبل دنیا میں بڑی خوشحال اور چین کی زندگی بسر کرتے تھے۔

【33】

قناعت کی فضیلت

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص تھوڑے سے رزق پر اللہ سے راضی ہوتا ہے، (یعنی اپنی معاشی ضروریات کی قلیل مقدار پر قناعت کرتا ہے) توا للہ تعالیٰ اس سے (طاعات عبادات کے) تھوڑے سے عمل پر راضی ہوجاتا ہے ۔

【34】

اپنی معاشی تنگی ومحتاجگی کو لوگوں پر ظاہر نہ کرنے والے کے حق میں وعدہ خداوندی

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص بھوکا ہو، یا کسی چیز کا محتاج ہو اور اپنی اس بھوک و محتاجگی کو لوگوں سے چھپائے یعنی کھانے کی طلب میں کسی سے یہ نہ کہے کہ میں بھوکا ہوں اور نہ مدد چاہنے کے لئے کسی سے اپنی احتیاج و ضرورت کو بیان کرے تو اللہ تعالیٰ کا یہ یقینی وعدہ ہے کہ وہ اس شخص کو حلال طریقہ پر ایک سال کا رزق پہنچائے گا۔ (ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ تشریح بھوک سے مراد وہ بھوک ہے جس کو برداشت کرنا ممکن ہو اور لوگوں سے اس کو چھپانان ناجائز نہ ہو، کیونکہ جو بھوک ناقابل برداشت حد تک پہنچائے اور اس کی وجہ سے ہلاکت کا خوف ہو تو ایسی بھوک کو چھپانا جائز نہیں ہے، اس لئے علماء نے تصریح کی ہے کہ اگر کوئی شخص اس حالت میں بھوک کی وجہ سے مرا جائے کہ نہ تو اس نے کسی کے سامنے اپنی بھوک کا انحصار کر کے کھانے پینے کے لئے کچھ مانگا ہو اور نہ اس نے ایسی کوئی چیز ہی کھائی ہو جس سے زندگی بچائی جاسکتی تھی اور بحالت مجبوری جس چیز کے کھانے کی اجازت شریعت نے دی ہے کہ خواہ وہ مردار ہی کیوں نہ ہو تو اس شخص کی موت گنہگار کی موت ہوگی۔

【35】

اللہ کے نزدیک کون مسلمان پسندیدہ ہے؟

حضرت عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اس مسلمان کو محبوب رکھتا ہے جو مفلس، پارسا اور عیالدار ہو۔ (ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان عیالدار، مفلس و نادار ہونے کا وجود اپنی اور اپنے اہل و عیال کی معاشی ضروریات کو پات کو پورا کرنے کے لئے حرام و ناجائز اسباب و ذرائع سے اجتناب کرتا ہو اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بھی پرہیز کرتا ہو وہ کامل مسلمان ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس کو محبوب رکھتا ہے۔

【36】

حضرت عمر (رض) کا کمال تقویٰ

حضرت زید بن اسلم تابعی (رح) کہتے ہیں کہ ایک دن امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) نے پینے کے لئے پانی مانگا تو ان کی خدمت میں جو پانی پیش کیا گیا اس میں شہد ملا ہوا تھا، حضرت عمر (رض) نے اس پانی کو دیکھ کر اور یہ جان کر کہ اس میں شہد ملا ہوا ہے) فرمایا یقینا یہ پانی پاک و حلال اور نہایت خوشگوار ہے لیکن میں اس کو نہیں پیوں گا، کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں (قرآن سے سنتا اور جانتا ہوں کہ اس نے ایک قوم کو خواہشات نفس کی اتباع کا ملزم گردانا اور بطور سرزنش و تنبیہ فرمایا۔ کہ تم نے اس دنیاوی زندگی میں اپنی لذتوں اور نعمتوں کو پا لیا اور ان سے پورا پورا فائدہ حاصل کرلیا (اب آخرت میں تمہارے لئے کیا رہ گیا ہے لہٰذا میں ڈرتا ہے کہ کہیں ہماری نیکیاں بھی ایسی نہ ہوں جن کا اجر وثواب (دنیاوی نعمتوں اور لذتوں کی صورت میں) جلد ہی اتنی دنیا میں ہمیں دے دیا جائے اور پھر آخرت میں محرومی کا منہ دیکھنا پڑے) چناچہ حضرت عمر (رض) نے شہد ملا ہوا وہ پانی نہیں پیا۔ (رزین) تشریح حضرت عمر (رض) کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ شہد ملا ہوا یہ پانی نہایت لذت آمیز اور بہت بڑی دنیاوی نعمت ہے جو نفس کو بھی نہایت مطلوب ہے، اگر میں اس پانی کو پیتا ہوں تو گویا بہت بڑی نعمت سے فائدہ اٹھاتا ہوں اور لذت کام ودہن سے نفس کو خوش کرتا ہوں تو اس صورت میں مجھے خوف ہے کہیں یہ لذت ونعمت ہمارے اعمال صالحہ کا وہ اجر وثواب نہ قرار پائے جو ہمیں بس دنیا ہی میں چکا دیا جائے اور آخرت کے لئے کچھ نہ رہ جائے جیسا کہ کافروں کے بارے میں ہے کہ ان کے نیک عمل کا بدلہ، دنیاوی نعمتوں اور لذتوں کی صورت میں ان کو اس دنیا میں مل جاتا ہے اور آخرت میں ان کو کچھ نصیب نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ حضرت عمر (رض) نے اللہ تعالیٰ کا جو ارشاد نقل فرمایا ہے یعنی آیت (اذھبتم طیباتکم فی حیاتکم الدنیا واستمتعتم بھا) ۔ یہ ایک آیت کا ٹکڑا ہے اس طرح ایک آیت یہ بھی ہے (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّ لْنَا لَه فِيْهَا مَا نَشَا ءُ ) 17 ۔ الاسراء 18) یعنی جو شخص دنیا کے نفع کی نیت رکھے گا ہم ایسے شخص کو دنیا میں جتنا چاہیں گے جس کے واسطے چاہیں گے جلدی اسی دنیا میں دے دیں گے۔ یہ دونوں آیتیں اگرچہ کفار کے حق میں ہیں لیکن اصل اعتبار تو الفاظ کی عمومیت کا ہے جس سے ہر شخص سبق حاصل کرسکتا ہے نہ کہ خصوص سبب کا اعتبار ہونا چاہئے۔

【37】

ابتدائے اسلام میں صحابہ کا فقر و افلاس

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم صحابہ (رض) نے اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کے ساتھ کھجوروں سے، کبھی پیٹ نہیں بھرا، یہاں تک کہ ہم نے خیبر کو فتح کرلیا جہاں کھجوریں بہت ہوتی تھیں تب ہمیں پیٹ بھر کھانے کو کھجوریں ملیں۔ (بخاری)