155. خدا کی اطاعت و عبادت کے لئے مال اور عمر سے محبت رکھنے کا بیان

【1】

آرزو اور حرص کا بیان

امل کے معنی ہیں امید رکھنا اور حرص کے معنی ہیں لالچ کرنا یا آرزو و ارادے کو دراز وسیع کرنا، حرص کا تعلق نیک آرزوؤں اور اچھے ارادوں سے بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے۔ آیت (ان تحرص علی ہداہم) اور لفظ حرص کا اطلاق نفسانی خواہشات کے زیادتی اور دنیاوی چیزوں کے لالچ پر بھی ہوتا ہے جو ایک بری چیز ہے، چناچہ قاموس میں لکھا ہے کہ بدترین حرص یہ ہے کہ تم اپنا حصہ بھی حاصل کرلو اور غیر کے حصے کی بھی طمع رکھو۔ حاصل یہ کہ نیک امور جیسے حصول علم، اللہ کے دین کی سربلندی اور اچھے اعمال، اس میں حریص ہونا یعنی آرزؤں اور ارادوں کو دراز و وسیع کرنا، متفقہ طور پر علماء کے نزدیک بہت اچھی بات ہے، اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا۔ طوبی لمن طال عمرہ وحسن عملہ۔ نیز آپ ﷺ نے اپنی عمر کے آخر میں اس آرزو اور ارادہ کا اظہار فرمایا تھا کہ اگر میں اگلے سال تک جیتا رہا تو (محرم کی) نویں تاریخ کو بھی روزہ ضرور رکھوں گا اس کے برخلاف جس آرزو و ارادے کی درازی کا تعلق دنیاوی خواہشات نفس جیسے مال و دولت جمع کرنے اور جاہ و منصب کی طلب سے ہو تو وہ بہت بری بات ہے۔ جہاں تک عنوان کے پہلے لفظ امل کا تعلق ہے تو اس سے مراد دنیاوی امور (یعنی خوش حال زندگی اور محض دنیاوی بہبودی و ترقی وغیرہ) کی امیدوں، تمناؤں اور خیالی منصوبوں کی درازی و وسعت میں اس حد تک مبتلا ہوجانا ہے کہ موت کے لئے مستعد رہنے اور توشہ آخرت تیار کرنے سے غافل ہوجائے۔ اور یہ شان صرف انہی لوگوں کی ہوسکتی ہے جو دین و آخرت سے غافل، اللہ فراموش اور دنیاوی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھنے والے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت (ذرہم یأکلوا ویتمتعوا ویلہہم الامل) ، یعنی آپ ﷺ ان کافروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے کہ (وہ خوب) کھا لیں اور چین اڑا لیں اور خیالی منصوبے (یعنی دنیا بھر کی آرزوئیں اور تمنائیں) ان کو غفلت میں ڈالے رکھیں۔

【2】

انسان، اس کی موت اور اسکی آرزوؤں کی صورت مثال

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے ہمارے سمجھانے کے لئے چار خطہ کھینچ کر ایک مربع بنایا، پھر اس مربع کے درمیان ایک اور خط کھینچا جو مربع سے باہر نکلا ہوا تھا، اس کے بعد آپ ﷺ نے اس درمیانی خط کے اس حصہ کی طرف جو (مربع کے) خطوں کے درمیان تھا، چھوٹے چھوٹے کئی خطوط کھینچے اور پھر فرمایا) اس خاکہ کو اچھی طرح سمجھ لو۔ درمیانی خط کا یہ حصہ کہ مربع کے خطوں کے درمیان ہے، گویا انسان ہے اور یہ خط کہ جس نے چاروں طرف سے مربع بنا رکھا ہے اس انسان کی موت ہے (یعنی مربع کے چاروں خطوط گویا اس کی موت کا وقت اور اس کی عمر کی آخری حد ہے جس نے چاروں طرف سے اس کو گھیر رکھا ہے) اور درمیانی خط کہ یہ حصہ کہ جو مربع سے باہر نکلا ہوا ہے، اس انسان کی (وہ) آرزو اور تمنا ہے (جس کے بارے میں وہ یہ خیال رکھتا ہے کہ میں موت آنے سے پہلے اس کو حاصل کرلوں گا) حالانکہ وہ ایک بےبنیاد خیال میں مبتلا ہے کیونکہ اس کی آرزوؤں کی تکمیل سے زیادہ قریب ہے اور درمیانی خط کے اندرونی حصے پر جو یہ چھوٹے چھوٹے خطوط ہیں وہ عوارض (یعنی آفات وحادثات جیسے بھوک پیاس اور افلاس و بیماری وغیرہ) ہیں کہ جو انسان پر ہر طرف سے مسلط رہتے ہیں اور اگر وہ عوارض اپنا کام کر جاتے ہیں تو وہ ہلاک ہوجاتا ہے پس اگر وہ انسان کسی ایک حادثہ و عارضہ سے بچ جاتا ہے تو دوسرا حادثہ وعارضہ گھیر لیتا ہے، اگر اس حادثہ وعارضہ سے بھی بچ نکلتا ہے تو پھر تیسرا حملہ کردیتا ہے غرضیکہ متعدد حوادث وعارضات اس کی تاک میں رہتے ہیں جن سے وہ یکے بعد دیگرے دوچار ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ موت آ کر اس کا کام تمام کردیتی ہے۔ (بخاری) تشریح حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انسان دور دراز کی امیدیں اور آرزوئیں رکھتا ہے اور اس وہم میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کی وہ امیدیں اور آرزوئیں کبھی نہ کبھی پوری ہوں گی۔ حالانکہ حقیقت میں وہ ان امیدوں اور آرزوؤں سے بہت دور اور اپنی موت سے بہت قریب ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی امیدوں اور آرزؤں کی منزل تکمیل تک پہنچنے سے پہلے موت کی آغوش میں پہنچ جاتا ہے۔

【3】

انسان، اس کی موت اور اسکی آرزوؤں کی صورت مثال

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے کئی خطوط کھینچے جیسا کہ پہلی حدیث میں گزرا کہ آپ نے چار خط کھینچ کر ایک مربع بنایا اور اس مربع کے درمیان ایک اور خط کھینچا جو مربع سے باہر نکلا ہوا تھا پھر فرمایا کہ درمیانی خط کا یہ حصہ جو مربع سے باہر نکلا ہوا ہے انسان کی آرزو ہے اور یہ خط جس نے چاروں طرف سے ایک مربع بنا رکھا ہے اس انسان کی موت ہے پس انسان اسی حالت میں (یعنی امیدوں اور آرزوؤں کے پورا ہونے کی فکر میں) رہتا ہے کہ اچانک موت کا خط اس کو آ دبوچتا ہے جو اس کے زیادہ قریب ہے۔ (بخاری) تشریح اس انسان کی خواہش تو یہ ہوتی ہے کہ وہ اس خط تک پہنچ جائے جہاں اس کی دنیائے آرزو بستی ہے اور جو اس سے بہت دور واقع ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ناگہاں موت اس کو آ دبوچتی ہے اور وہ آرزو حاصل کئے بغیر اس جہاں سے چل کھڑا ہوتا ہے۔

【4】

بڑھاپے کی حرص

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا انسان (خود تو بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اس میں دو چیزیں جوان اور قوی ہوجاتی ہیں، ایک تو مال جمع کرنے کی حرص اور اس کو خرچ نہ کرنے کی عادت اور دوسرے درازی عمر کی آرزو۔ (بخاری ومسلم) تشریح یہ حقیقت ہے کہ انسان خواہ کتنا ہی بوڑھا ہوجائے، اس کے مزاج واطوار اور اس کی جبلت پر مذکورہ بالا دونوں خصلتوں کی گرفت ڈھیلی نہیں ہوتی بلکہ عمر کے ساتھ ساتھ ان دونوں چیزوں کا زور بھی بڑھتا رہتا ہے اور بظاہر اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا نفس اگر علم و عمل اور ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ محفوظ و پاکیزہ نہ ہوجائے تو وہ اپنی خواہشات اور اپنے جذبات کی گرفت میں رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ خواہشات و جذبات کی تکمیل، مال اور عمر کے بغیر نہیں ہوسکتی، دوسرے یہ کہ انسان جب بڑھاپے کی منزل میں پہنچ جاتا ہے تو اس میں ان نفسانی خواہشات و جذبات کا وجود تو جوں کا توں قائم رہتا ہے لیکن وہ قوت عقلیہ کو (قوت شہوانیہ) کے محرکات کو دفع نہیں کرسکتی ! اسی اعتبار سے سے ان دونوں چیزوں کو جوان اور قوی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

【5】

بڑھاپے کی حرص

حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ بوڑھے کا دل ہمیشہ دو باتوں میں جوان (قوی) رہتا ہے ایک تو دنیا کی محبت میں اور دوسرے آرزو کی درازی میں۔ (اور یہ دونوں ہی باتیں مضر ہیں کیونکہ دنیا کی محبت موت کو عزیز نہیں رکھنے دیتی اور آرزوئے درازی عمر، تاخیر عمل اور کوتاہی عمل کی مقتضی ہوتی ہے۔ بخاری، مسلم)

【6】

بوڑھا اگر توبہ وانابت نہیں کرتا تو اس کو عذر کا کوئی موقع نہیں

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لئے عذر کا کوئی موقع نہیں چھوڑا (یعنی اس کا عذر دور کردیا) جس کی موت کو اتنا موخر کیا کہ اس کو ساٹھ سال کی عمر تک پہنچا دیا۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ نے اتنی لمبی عمر عطا کی اور اتنے طویل زمانہ تک اس کو مہلت دی اور اس نے اس کے باوجود توبہ وانابت کی راہ اختیار نہیں کی اور گناہوں سے باز نہیں آیا تو اب اس کے لئے عذر خواہی کا وہ کون سا موقع رہ گیا ہے جس کے سہارے وہ قیامت میں عفو و بخشش کی امید رکھتا ہے۔ اگر کوئی جوان گناہ و معصیت اور بےعملی کی راہ اختیار کئے ہوئے ہے تو وہ کہتا ہے کہ جب میں بڑھاپے کی منزل میں پہنچوں گا تو اپنی بدعملیوں اور اپنے گناہوں سے توبہ کرلوں گا اور اپنی زندگی کے اس حصہ کو اللہ کی رضا جوئی اور اس کی عبادت میں صرف کروں گا، لیکن جو شخص بڑھاپے کی منزل میں پہنچ چکا ہے اور توبہ وانابت اور عمل کرنے کا آخری موقع بھی اس کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے تو وہ اپنی بےعملی اور گناہوں پر کیا کہے گا ؟ ہائے ! کتنے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو عمر کی آخری منزل میں بھی پہنچ کر اپنی بےعملیوں اور اپنے گناہوں پر نادم وشرمسار نہیں ہیں اور اس آخری مرحلہ پر بھی جب کہ موت ان کو آ دبوچنے کے لئے بالکل تیار کھڑی ہے، انہیں اپنے رحیم و کریم پروردگار کا دامن عفو و رحمت پکڑ لینے کی توفیق نہیں ہوتی۔ بعض حضرات کے قول کے مطابق اس ارشاد گرامی کے معنی یہ ہے کہ بوڑھے شخص پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ واجب ہے کہ وہ برابر پروردگار کی بارگاہ میں عذر خواہی اور توبہ و استغفار کرتا رہے اور اس میں قطعاً تقصیر و کوتاہی نہ کرے۔

【7】

انسان کی حرص وطمع کی درازی کا ذکر

حضرت ابن عباس (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اگر (بالفرض والتقدیر) آدمی کے پاس مال و دولت سے بھرے ہوئے دو جنگل ہوں تب بھی وہ تیسرے جنگل کی تلاش میں رہے گا (یعنی اس کی حرص وطمع کی درازی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی حد پر پہنچ کر اس کو سیری حاصل نہیں ہوتی اور آدمی کے پیٹ کو مٹی کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی (یعنی جب تک وہ قبر میں جا کر نہیں لیٹ جاتا اس وقت تک اس کی حرص وطمع کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ تاہم یہ بات اکثر لوگوں کے اعتبار سے فرمائی ہے ورنہ ایسے بندگان اللہ بھی ہیں جن میں حرص وطمع ہونے کا تو کیا سوال اپنی ضرورت کے بقدر مال و اسباب کی بھی انہیں پروا نہیں ہوتی۔ اور اللہ تعالیٰ بری حرص سے جس بندہ کی توبہ چاہتا ہے قبول کرلیتا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں سے توبہ کو قبول کرنا چونکہ پروردگار کی شان رحمت ہے اور ان گناہوں کا تعلق خواہ ظاہری بد عملیوں سے یا باطنی برائیوں سے، اس لئے بری حرص میں مبتلا ہونے والا شخص اگر اخلاص و پختگی کے ساتھ اس برائی سے اپنے نفس کو باز رکھنے کا عہد کرلیتا ہے اور اپنے پروردگار سے توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کی توبہ قبول کی جاتی ہے، یا یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو اس برائی سے پاک کرنا چاہتا ہے اس پر اپنی رحمت کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے بایں طور کہ اس کو اس بری خصلت کے ازالہ کی توفیق اور نفس کو پاکیزہ ومہذب بنانے کی باطنی طاقت عطا فرماتا ہے۔ اس حدیث میں یہ تنبیہ بھی ہے کہ انسان کی جبلت میں بخل کا مادہ رکھا گیا ہے اور یہ بخل ہی ہے جو حرص و امل اور طمع و لالچ کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو چاہیے کہ انفاق و ایثار کے ذریعہ بخل کی سرکوبی کرتا رہے تاکہ حرص کو راہ پانے کا موقع نہ ملے۔

【8】

دنیا میں مسافر کی طرح رہو

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے میرے جسم کے ایک حصہ (یعنی دونوں مونڈھوں) کو پکڑ کر فرمایا۔ تم دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم مسافر ہو یا راہ گیر ہو اور تم اپنا شمار ان لوگوں میں کرو جو دنیا سے گزر گئے ہیں اور اپنی قبروں میں آسودہ خواب ہیں (یعنی تم مردوں کی مشابہت اختیار کرو کہ جس طرح وہ دنیا کی تمام چیزوں سے منہ موڑ کر ایک گوشہ میں پڑے ہوئے ہیں اسی طرح تم بھی دنیاداری کے علائق سے اپنا دامن بنا کر نہایت سادگی اور یکسوئی کے ساتھ زندگی گزارو ۔ (بخاری) تشریح میرک (رح) کہتے ہیں کہ اس روایت کا بخاری کی طرف منسوب ہونا محل نظر ہے کیونکہ یہاں جو الفاظ نقل کئے گئے ہیں وہ بعینہ ترمذی کے روایت کردہ ہیں اور بخاری نے اس حدیث کو جن الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے وہ اس سے مختلف ہیں۔ او عابر سبیل میں حرف او یا تو تنویع کے لئے ہے جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے اور یا یہ کہ یہاں یہ حرف بل کے معنی میں استعمال فرمایا گیا ہے جو ترقی کے لئے آتا ہے، اس صورت میں پورے جملہ کا ترجمہ یوں ہوگا۔ تم دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر ہو، بلکہ راہ گیر ہو۔ اس طرح بات میں زیادہ زور پیدا ہوجاتا ہے۔ اور اس ارشاد گرامی کا مقصد جس مفہوم کو بیان کرنا ہے وہ زیادہ پر تاثیر انداز میں واضح ہوتا ہے کیونکہ مسافر تو پھر بھی کچھ دنوں کے لئے یا کچھ عرصہ کے لئے کہیں کہیں ٹھہر کر وہاں کی چیزوں میں کسی نہ کسی حد تک مشغول ہوتا ہے اور ان سے کچھ نہ کچھ تعلق اس کو ضرور رکھنا پڑتا ہے، لیکن جو شخص سر راہ گزر رہا ہوتا ہے وہ بس آگے کی طرف چلتا ہی رہتا ہے اس کو نہ تو اس راستے کی کسی چیز سے سروکار ہوتا ہے اور نہ ادھر ادھر کی مشغولیت میں اپنا وقت ضائع کر کے اپنے سفر میں رخنہ اندازی کو گوارا کرتا ہے۔ حدیث کے آخری جزء کی تشریح تھوڑی سی تفصیل کا تقاضہ کرتی ہے، لہٰذا اس سلسلہ میں پہلے تو یہ جان لینا چاہئے کہ موت کی حقیقت کیا ہے ؟ بدن سے روح کے تصرف کا منقطع ہوجانا، روح و بدن کے باہمی رشتہ کا ٹوٹ جانا اور بدن کا روح کے آلہ کار کی حیثیت سے باہر ہوجانا، موت کا مفہوم ہے ! بدن کی موت سے روح معدوم و نابود نہیں ہوجاتی صرف اس کی وہ حیثیت وحالت بدل جاتی ہے جو بدن کے ساتھ تعلق رکھنے کی صورت میں اس کو حاصل ہوتی ہے مثلاً یہ بدن کی موت کے ساتھ اس کی بصارت اس کی سماعت اس کی گویائی اور اسی طرح ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضائے جسم کی وہ طاقتیں اس سے سلب کرلی جاتی ہیں جن کے ذریعہ وہ (روح) بدن پر اپنا تصرف ظاہر کرتی ہے، ایسے ہی اس کے تمام اہل و عیال، اقربا و آشنا اور دوست و عزیز اس سے جدا کر دئیے جاتے ہیں، نیز دنیا کی وہ تمام چیزیں اس سے الگ کردی جاتی ہیں، جن سے وہ اپنے بدن کے ساتھ تعلق رکھتی تھی جیسے گھر بار، اسباب و سامان، زمین وجائداد، فوج وحشم، لونڈی و غلام اور گھوڑے و دیگر چوپائے اور دیگر ضروری وغیر ضروری چیزیں، پس مردوں میں اپنا شمار کرنا اور ان کی مشابہت اختیار کرنا گویا اس مفہوم کا حامل ہے کہ انسان جسمانی علائق سے حتی الامکان قطع تعلق اختیار کرلے، جس کی صورت یہ ہے کہ اعضائے جسم پر سے روح کا وہ تصرف ختم کر دے جس کے پنجہ میں حرام و مکروہ امور کا ارتکاب ہوتا ہے اور اس میں یقین رکھے کہ دنیا کی جو بھی چیزیں میرے تصرف واختیار میں ہیں، ان سب کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے ان کی ملکیت سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور اس بات کو اس کی علامت سمجھے کہ اگر ان چیزوں میں سے کوئی چیز اس کے پاس سے جاتی رہے تو کوئی غم نہ ہو اور کوئی چیز اپنے پاس آئے تو خوش نہ ہو، اسی طرح اپنے اہل و اولاد، عزیز واقا رب اور دوستوں وغیرہ سے تعلق محبت کے وہ جذبات منقطع کرلے جن کی وجہ سے حرام مکروہ چیزوں کا ارتکاب ہوتا ہے پس جس شخص نے اپنے آپ کو اس وصف سے متصف کرلیا وہ دنیا سے بےتعلقی میں گویا مردوں کے مشابہ ہوگیا اور اس کا شمار آسودگان خاک کے حکم میں ہوگا۔ اس کے بعد اس شخص کی شان کے مناسب یہ بات ہوگی کہ وہ ان آداب و شرائط کو ملحوظ رکھے جن کے سبب اس کا مردوں کے مشابہ ہونا صحیح قرار پا سکے، مثلاً ایک تو یہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے ہر مطلوب سے دست کنارہ کش ہوجائے جیسا کہ موت کی صورت میں، تیسرے یہ کہ توکل کی راہ پر گامزن رہے یعنی دنیاوی اسباب و وسائل کی ناروا قید سے آزاد ہوجائے جیسا کہ موت کی صورت میں، چوتھے یہ کہ قناعت پر عامل رہے یعنی نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرے جیسا کہ موت کی صورت میں، پانچویں یہ کہ صرف اللہ کی طرف متوجہ رہے اور ماسوی اللہ کی طرف نظر نہ اٹھائے تاکہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی مطلوب، کوئی محبوب اور کوئی مقصود نہ ہو جیسا کہ موت کی صورت میں، چھٹے یہ کہ صبر کی راہ اختیار کرے یعنی ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ نفس امارہ سے قطع تعلق کرلے جیسا کہ موت میں، ساتویں یہ کہ رضا کے راستہ پر چلے یعنی اپنے نفس کی خوشنودی کے جال سے نکل کر حق سبحانہ وتعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے دائرے میں آجائے، احکام ازلیہ کو بلاچوں و چرا تسلیم کرے اور اپنے تمام امور کو بغیر کسی اعتراض و منازعت کے حق تعالیٰ تدبیر و اختیار کے سپرد کر دے جیسا کہ موت کی صورت میں، آٹھویں یہ کہ ذکر سے غافل نہ رہے یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے ذکر میں اپنے دل اور اپنی زبان کو مشغول رکھے اور ماسوی اللہ کی یاد اور اس کے ذکر و خیال کی الجھن سے آزاد رہے جیسا کہ موت کی صورت میں اور نویں یہ کہ مراقبہ کو اختیار کرے یعنی ہر طرح کی قوت وسطوت اور ہر مقتدر طاقت سے بےنیاز ہو کر اور اس کو چھوڑ کر بس احکم الحاکمین کی طاقت وقدرت کا دھیان رکھے اور اس کی طاقت اور قدرت کو اپنے تمام امور کا مالک و متصرف جانے جیسا کہ موت کی صورت میں، پس یہ صفات و کیفیات پیدا ہوجائیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ مردوں کی مشابہت حاصل ہوگئی اور اہل قبور میں شمار کرانے کا حکم پورا ہوگیا اور آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد وعد نفسک من اہل القبور کا یہی مفہوم ہے اور یہی معنی اس حدیث کے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے موتوا قبل ان تموتوا موت آنے سے پہلے موت کو اختیار کرلو، چناچہ ایک موت تو وہ ہے جو اچانک روح وبدن کے باہمی رشتہ کو یکسر منقطع کردیتی ہے اور ایک موت وہ ہے جس کو انسان مذکورہ بالا صفات کی صورت میں اختیار کر کے اپنے نفس امارہ کو کچل ڈالتا ہے اور یہی موت اختیاری موت کہلاتی ہے۔

【9】

زیادہ توجہ، دنیاوی چیزوں کی اصلاح ودرستی کے بجائے اپنی دینی واخروی زندگی کی اصلاح کی طرف مبذول رکھو

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں ایک دن میں اور میری والدہ گارے سے کسی چیز کو یعنی اپنے مکان کی دیواروں یا چھت کو لیپ پوت رہے تھے کہ رسول کریم ﷺ کا گزر ہماری طرف ہوگیا، آپ ﷺ نے ہمیں اس حالت میں دیکھ کر فرمایا کہ عبداللہ یہ کیا ہے یعنی یہ لیپ پوت کس وجہ سے ہو رہی ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ اس چیز (یعنی دیواروں یا چھت) کی درستی و مرمت کر رہے ہیں (یا اس کو اس لئے لیپ پوت رہے ہیں تاکہ اس میں پختگی آجائے) حضور ﷺ نے فرمایا امر، یعنی اجل اس سے بھی زیادہ جلد آنے والی ہے۔ (احمد، و ترمذی) اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح حضور ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ موت کا آنا اس مکان کی ٹوٹ پھوٹ اور خرابی سے کہیں پہلے متوقع ہے۔ تم لیپ پوت کے ذریعہ اس مکان کی مرمت و درستگی میں اس لئے مصروف ہو کہ کہیں اس کے در و دیوار اور چھت تمہاری زندگی ختم ہونے سے پہلے نہ گرپڑے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس مکان کے گر پڑنے اور اس کے خراب ہونے سے تم خود موت کی آغوش میں پہنچ سکتے ہو پس تمہارے لئے اپنے عمل کی اصلاح کی طرف متوجہ رہنا اس مکان کی مرمت و درستگی میں مشغول ہونے سے زیادہ بہتر ہے اور اس میں دل لگانا عبث ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ کا اپنے مکان کو گارا مٹی لگانا اشد ضرورت کے تحت نہیں ہوگا بلکہ وہ زیادہ مضبوطی اور آرائش کے لئے اس کو لیپ پوت رہے ہوں گے۔

【10】

موت سے کسی لمحہ غافل نہ ہونا چاہئے

حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ کبھی ایسا ہوتا کہ رسول کریم ﷺ پیشاب کرنے کے بعد اور وضو کرنے سے پہلے مٹی سے تیمم کرلیتے، میں (یعنی ابن عباس رضی الہ عنہ یہ دیکھ کر) عرض کرتا کہ یا رسول اللہ ﷺ پانی تو آپ ﷺ کے بہت قریب ہے (یعنی جب پانی آپ کی دسترس سے اتنا دور نہیں ہے کہ وضو کرسکتے ہیں تو پھر تیمم کیوں کرتے ہیں ؟ حضور ﷺ میری اس بات کے جواب میں فرماتے۔ مجھے کیا معلوم کہ میں اس پانی تک پہنچ بھی سکوں گا یا نہیں ؟ اس روایت کو بغوی نے شرح السنہ میں اور ابن جوزی نے کتاب الوفاء میں نقل کیا ہے۔ تشریح یعنی مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میری عمر کتنی ہے اور ہر لمحہ موت متوقع ہے اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ پیشاب کرنے کے بعد مجھے اتنی مہلت بھی نہ ملے کہ پانی تک پہنچ کر وضو کرسکوں۔ لہٰذا فوری طور پر تیمم کرلیتا ہوں تاکہ ایک طرح کی طہارت تو حاصل رہے۔

【11】

انسان کی موت اس کی آرزو سے زیادہ قریب ہے

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ یہ تو ابن آدم (انسان) ہے اور یہ اس کی موت ہے یہ فرما کر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف رکھا (یعنی پہلے تو ایک جگہ اشارہ کر کے بتایا کہ یہ انسان ہے اور پھر اس جگہ سے ذرا پیچھے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہ اس کی موت ہے) اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کو پھیلایا (اور دور اشارہ کر کے) فرمایا کہ اس جگہ انسان کی آرزو ہے (یعنی انسان کی موت اس کے بہت قریب ہے جب کہ اس کی آرزو اس سے بہت دور ہے۔ (ترمذی) تشریح یہ ابن آدم ہے میں گویا حضور ﷺ نے مخاطبین کو ایک ظاہری اشارہ کے ذریعہ تصوراتی وجود کی طرف متوجہ کیا اور یہی اسلوب یہ اس کی موت ہے بھی اختیار فرمایا گیا۔ اس بات کو وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ پہلے تو حضور ﷺ نے اپنے سامنے کی جانب زمین کے گوشہ پر یا ہوا میں اپنے ہاتھ کے ذریعہ اشارہ کر کے بتایا کہ اس جگہ کو یہ تصور کرو کہ یہاں انسان ہے، پھر اپنے ہاتھ کو پیچھے ہٹایا اور جس جگہ پہلے اشارہ فرمایا تھا اس کے بالکل قریب عقب میں ہاتھ کو رکھ کر بتایا کہ اس جگہ کو وہ مقام تصور کرو جہاں انسان کی موت ہے، اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کو بالشت اور انگلیوں کی کافی کشادگی کے ساتھ پھیلایا۔ یا بسط کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کو اس جگہ سے کہ جہاں آپ ﷺ نے پہلے اشارہ فرمایا تھا، بہت آگے تک دراز کیا اور وہاں اشارہ کر کے بتایا کہ اس جگہ کو وہ مقام تصور کرو جہاں گویا انسان کی آرزو ہے اس طرح آپ ﷺ نے اس اسلوب بیان اور اشارہ کے ذریعہ گویا لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور متنبہ فرمایا کہ انسان کی موت اس کے بہت قریب کھڑی ہے جب کہ اس کی وہ آرزوئیں اور امیدیں کہ جن کے پیچھے وہ مارا مارا پھرتا ہے اس سے بہت دور واقع ہیں۔ کسی شاعر نے، اللہ اس پر اپنی رحمتیں نازل کرے، کیا خوب کہا ہے کل امری مصبح فی اہلہ والموت ادنیٰ من شراک نعلہ

【12】

انسان کی موت اس کی آرزو سے زیادہ قریب ہے

حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے سامنے ایک لکڑی زمین میں گاڑی، پھر ایک اور لکڑی دونوں لکڑیوں سے یا دوسری لکڑی سے کافی فاصلہ پر نصب فرمائی اور پھر فرمایا۔ تم لوگ جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ یعنی ان لکڑیوں سے کیا مراد ہے اور یہ کس چیز کی مثالیں ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں ! حضور ﷺ نے فرمایا۔ تو سنو یہ پہلی لکڑی گویا انسان ہے اور یہ دوسری لکڑی گویا اس انسان کی موت ہے جو انسان کے اتنے ہی قریب ہے جتنا کہ یہ دوسری لکڑی پہلی لکڑی کے قریب ہے حضرت ابوسعید رضی الہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ اس کے بعد حضور ﷺ نے یہ فرمایا۔ اور یہ تیسری لکڑی کہ جس کو میں نے کافی فاصلہ پر گاڑا ہے گویا اس انسان کی آرزو ہے جو اس سے بہت دور ہے پس انسان اپنی امید اور آرزو کی تکمیل کی جستجو میں رہتا ہے اور اپنا وقت اس کوشش میں صرف کرتا رہتا ہے کہ اس آرزو کو حاصل کرلے مگر ہوتا یہ ہے کہ اس کی موت، اس کی آرزو کے پورا ہونے سے پہلے ہی اس کو آ دبوچتی ہے۔ (شرح السنۃ)

【13】

امت محمدی ﷺ کے لوگوں کی عمر

حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ میری امت کے لوگوں کی عمر ساٹھ سال سے ستر سال تک ہے۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ امت محمدیہ کے لوگوں کی عمر کا حصہ تناسب ساٹھ سال اور ستر سال کے درمیان رہے گا۔ ظاہر ہے کہ حضور ﷺ نے یہ بات اکثر لوگوں کے اعتبار سے فرمائی ہے ورنہ تو اس امت میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی ساٹھ سال تک بھی نہیں پہنچ پاتی اور ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی عمر ستر سال سے بھی متجاوز ہوجاتی ہے جیسا کہ آگے کی حدیث سے واضح ہوگا۔

【14】

امت محمدی ﷺ کے لوگوں کی عمر

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میری امت کے اکثر لوگوں کی عمر ساٹھ اور ستر سال کے درمیان رہے گی اور میری امت میں ایسے لوگوں کی تعداد کم ہی ہوگی جو اس (ستر سال) سے تجاوز کر جائیں اور ان کی عمر سو یا سو سال سے بھی زائد ہو۔ (ترمذی، ابن ماجہ) اور حضرت عبداللہ بن شخیر کی روایت باب عیادۃ المریض میں نقل کی جا چکی ہے۔ تشریح یوں تو ہر دور میں امت محمدی میں ایسے لوگوں کی بھی تھوڑی تعداد رہی ہے جن کی عمر سو یا سو سال سے بھی زائد ہوتی ہے لیکن خود حضور ﷺ کے زمانے کے لوگوں یعنی صحابہ کرام میں بھی ایسے لوگوں کا وجود پایا جاتا ہے جنہوں نے کافی عمر پائی، مثلاً حضرت انس بن مالک رضی الہ عنہ کی وفات ایک سو تین سال کی عمر میں ہوئی، اسماء بنت ابوبکر رضی الہ عنہا نے سو سال کی عمر پائی، ان کی حالت تو یہ تھی کہ آخر عمر تک بھی ان کے دانت نہیں ٹوٹے تھے اور عقل و حو اس ذرہ برابر مختل نہیں ہوئے تھے۔ ان دونوں سے زیادہ عمر حضرت حسان بن ثابت (رض) کی ہوئی جنہوں نے ایک سو بیس سال کی عمر میں اس دنیا کو خیر باد کہا، ابتدائی ساٹھ سال تک تو کفر کی حالت میں رہے اور پھر ساٹھ سال تک ایمان واسلام کی حالت میں بسر کئے، ان سے بھی طویل عمر حضرت سلمان فارسی (رض) کی ہوئی، کہا جاتا ہے جب ان کی وفات ہوئی تو اس وقت ان کی عمر ڈھائی سو سال تھی، اگرچہ ایک روایت ساڑھے تین سو سال کی بھی ہے لیکن صحیح پہلا ہی قول ہے۔

【15】

بخل اور آرزو کی مذمت

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ اس امت کی پہلی نیکی، یقین کرنا اور زہد اختیار کرنا ہے اور اس امت کا پہلا فساد، بخل اور دنیا میں باق رہنے کی آرزو کو دراز کرنا ہے۔ (بیہقی) تشریح یقین سے مراد ہے اس بات پر کامل اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ رازق ہے اور رزق پہنچانے کا متکفل وضامن ہے، جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (وما من مدابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقہا) یعنی روئے زمین پر ایسا کوئی چلنے والا جاندار نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔ زہد اختیار کرنے کا مطلب دنیا کی محبت میں گرفتار ہونے سے بچنا اور دنیا کی نعمتوں و لذتوں سے بےاعتنائی و لاپرواہی برتنا ہے۔ حاصل یہ کہ دین و آخرت کی بھلائی و کامیابی کا مدار تقویٰ پر ہے جو زہد و یقین سے حاصل ہوتا ہے اور دین و آخرت کی خرابی کی جڑ، طمع و لالچ ہے جو بخل اور درازی عمر کی آرزو سے پیدا ہوتا ہے۔ چناچہ جب حق تعالیٰ کی رزاقیت پر کام اعتقاد و یقین ہوتا ہے تو بخل کا مادہ فساد نہیں پھیلاتا کیونکہ بخل کا سبب وہ بےیقینی ہوتی ہے جو رزق پہنچنے کے تئیں انسان اپنے اوپر طاری کرلیتا ہے یعنی اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ میرے پاس جو مال و زر ہے اگر میں نے اس کو انفاق و ایثار کی صورت میں خرچ کردیا تو پھر کل کہاں سے کھاؤں گا۔ اسی طرح جب زہد کی راہ اختیار کی جاتی ہے تو دنیا میں باقی رہنے کی تمنا اور آرزوؤں کی درازی ختم ہوجاتی ہے اس لئے یہ فرمایا گیا ہے کہ اس امت کا پہلا فساد بخل اور آرزو ہے۔ کیونکہ یہ دونوں خصلتیں رزاقیت حق پر یقین اور زہد کی ضد ہیں۔ یقین کی تعریف اس موقع پر یہ بات واضح کردینا ضروری ہے کہ یقین کا اصل مفہوم کیا ہے ؟ چناچہ حضرت شیخ عبدالوہاب متقی (رح) نے اپنے رسالہ حبل المتین فی تحصیل الیقین میں لکھا ہے کہ اعتقاد کا جزم کی حد تک پہنچ جانا اور دلیل وبرہان کے ذریعہ اتنا مضبوط و مستند ہوجانا کہ حق کو ثابت کر دے حکماء ومتکلمین کی اصطلاح میں یقین کہلاتا ہے، لیکن صوفیہ کی اصطلاح میں اس مفہوم پر یقین کا اطلاق اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ تصدیق دل پر اس حد تک غالب نہ ہوجائے کہ دل پر اس کے تصرف وحکمرانی کا سکہ چلنے لگے۔ یا اس دل کو صرف انہی چیزوں کی طرف مائل کرنے لگے جو شریعت کے مطابق ہوں اور ان چیزوں سے باز رہے جو شرعی احکام کے خلاف ہوں۔ مثلاً موت کا اعتقاد ہر شخص رکھتا ہے اور وہ اعتقاد نہ صرف جزم کی حد تک ہوتا ہے بلکہ دلیل وبرہان کے ذریعہ اتنا مضبوط ومستند ہوتا ہے کہ وہ موت کو ایک اٹل حقیقت بھی ثابت کرتا ہے تو حکماء متکلمین کے نزدیک اس اعتقاد پر یقین کا اطلاق کیا جاسکتا ہے لیکن صوفیاء کے نزدیک وہ اعتقاد حقیقی معنی میں یقین نہیں کہلا سکتا اور اس اعتقاد کا حامل صاحب یقین شمار نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ اس کے دل پر موت کی یاد غالب نہ ہو اور موت کا احساس اس حد تک اس پر متصرف وحکمران نہ ہو کہ وہ طاعات کی مشغولیت اور گناہ کے ترک کے ذریعہ ہر وقت موت کے لئے تیار رہے۔ واضح رہے کہ چار امور ایسے ہیں جو یقین کا محل ہیں۔ یوں تو وہ تمام چیزیں یقین کی متقاضی ہیں جن کی خبر آنحضرت ﷺ نے دی ہے لیکن ان تمام چیزوں کی اصل اور بنیاد ہونے کی حیثیت سے وہ چار امور اس درجہ کے ہیں کہ ان پر ہر سالک کو یقین رکھنا بنیادی طور پر ضروری ہے۔ ایک تو تو حید، یعنی یہ پختہ اعتقاد رکھنا کہ جو کچھ بھی واقع ہوتا ہے حق تعالیٰ ہی کی قدرت سے واقع ہوتا ہے دوسرے توکل، یعنی اس بات پر کامل یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ رزق پہنچانے کے متکفل وضامن ہے، تیسرے جزاء سزا کا اعتقاد، یعنی یہ یقین رکھنا کہ ہر عمل کی جزا و سزا مقرر ہے تمام اعمال پر ثواب عذاب کا مرتب ہونا لازمی امر ہے اور چوتھے یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے تمام احوال کیفیات اور تمام حرکات و سکنات سے پوری طرح باخبر اور مطلع ہے پس توحید کے تئیں یقین کا فائدہ یہ ہوگا کہ مخلوقات کی طرف رغبت و التفات نہیں رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق پہنچنے کے تئیں یقین رکھنے کا فائدہ ہوگا کہ یا تو حصول رزق کی طلب و کوشش میں میانہ روی اختیار کرے گا، یا اگر افلاس وناداری کی صورت میں غذائی ضروریات پوری نہ ہوں گی تو کسی تاسف اور بددلی میں مبتلا نہیں ہوگا، اعمال کے جزا و سزا کے تئیں یقین رکھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ طاعات و عبادات کی مشغولیت اور اللہ کی رضاو خوشنودی کے حصول میں زیادہ سے زیادہ سعی و کوشش کرے گا اور گناہ و معصیت کی زندگی سے اجتناب کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے علیم وخبیر ہونے کے تئیں یقین رکھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کی طرح زیادہ سے زیادہ متوجہ رہے گا۔ یہ حضرت شیخ عبدالوہاب کے کلام کا خلاصہ تھا۔ اب آخر میں یہ بتادینا ضروری ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رزاقیت، رزق پہنچنے اور اللہ تعالیٰ نے رزق دینے کا جو وعدہ کیا ہے اس پر کامل توکل اعتماد رکھنا، تمام روحانی و باطنی اعلیٰ مراتب میں سے ایک بہت بڑا مرتبہ ہے نیز سالک راہ حق کو یہ مرتبہ اختیار کئے بغیر کوئی چارہ نہیں اور تمام عبادات و طاعات میں قلبی فروغ و اطمینان کا انحصار اس مرتبہ پر ہے۔ امام زمانہ، قطب وقت، حضرت الشیخ ابوالحسن شاذلی (رح) نے بڑی عارفانہ بات کہی ہے کہ دو ہی چیزیں ایسی ہیں جو عام طور پر بندہ اور اللہ کے درمیان پردہ کی طرح حائل ہوجاتی ہیں یعنی ان دونوں چیزوں کی وجہ سے بندہ معرفت حق حاصل کرنے سے محروم رہتا ہے ایک تو رزق کا فکر اور دوسرے مخلوق کا خوف اور ان دونوں میں سے بھی زیادہ سخت پردہ رزق کا فکر ہے۔ امام اصمعی (رح) سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دیہاتی کے سامنے سورت والذاریات کی تلاوت شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا آیت (وَفِي السَّمَا ءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ) 51 ۔ الذاریات 22) تو اس دیہاتی نے (جو بڑے غور کے ساتھ میری تلاوت سن رہا تھا) ایک دم کہا کہ بس کیجئے۔ اور پھر وہ اپنی اونٹنی کی طرف متوجہ ہوا، اس نے اس اونٹنی کو نحر کیا اور اس کا گوشت کاٹ بنا کر ان تمام لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا جو اس کے آس پاس موجود تھے، اس کے بعد اس نے اپنی تلوار اور کمان اٹھائی اور ان کو بھی توڑ کر پھینک دیا اور پھر بغیر کچھ کہے سنے وہاں سے اتھ کر چلا گیا، کافی عرصہ کے بعد میں ایک دن بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا کہ اچانک اس دیہاتی سے ملاقات ہوگئی جو خود بھی طواف کر رہا تھا میں اس کو دیکھ کر حیران رہ گیا، اس کا بدن بالکل سوکھ گیا تھا اور رنگ زرد ہوگیا تھا، اس نے مجھ کو دیکھ کر سلام کیا اور کہنے لگا کہ وہی سورت پھر پڑھیے جو آپ نے اس دن پڑھی تھی چناچہ میں نے وہ سورت پڑھنی شروع کی اور جب اسی آیت یعنی (وَفِي السَّمَا ءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ) 51 ۔ الذاریات 22) پر پہنچا تو اس نے ایک چیخ ماری اور کہا آیت (قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا) 7 ۔ الاعراف 44) ، اس کے بعد اس نے کہا کہ کچھ اور ؟ (یعنی اب آگے کی آیت پڑھیے) میں نے آگے کی آیت پڑھی ( فَوَرَبِّ السَّمَا ءِ وَالْاَرْضِ اِنَّه لَحَقٌّ) 51 ۔ الذاریات 23) اس نے آیت سن کر پھر ایک چیخ ماری اور کہنے لگا، یا اللہ پاک ہے تیری ذات، وہ کون بدبخت ہے جس نے اللہ کو اتنا غصہ دلایا کہ اس کو قسم کھانی پڑی ؟ اس شخص کی بدبختی کا کیا ٹھکانا ہے کہ پروردگار نے جو کچھ فرمایا اور جو وعدہ کیا اس پر اس نے یقین نہیں کیا یہاں تک کہ پروردگار کو قسم کھا کر اس بات کا یقین دلانا پڑا ؟ اس دیہاتی نے تین مرتبہ یہی جملے ادا کئے اور اس کے ساتھ ہی اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔

【16】

حقیقی زہد کیا ہے؟

حضرت سفیان ثوری (رح) سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ دنیا میں زہد اس کا نام نہیں ہے کہ موٹے چھوٹے اور سخت کپڑے پہن لئے جائیں اور روکھا سوکھا اور بدمزہ کھانا کھایا جائے بلکہ دنیا سے زہد اختیار کرنا حقیقت میں آرزوؤں اور امیدوں کی کمی کا نام ہے۔ (شرح السنۃ) تشریح غلیظ سے وہ کپڑا مراد ہوتا ہے جس کے سوت نہایت موٹے اور بھدے ہوں اور خشن سے مراد وہ کپڑا ہوتا ہے جو نہایت سخت اور کھدری بناوٹ کا ہو جشب اس کھانے کو کہتے ہیں جو نہایت بدمزہ ہو اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ بغیر سالن کی روٹی کو جشب کہتے ہیں آرزوؤں اور امیدوں کی کمی کا مطلب ہے دنیاوی چیزوں کے حصول کی خواہشات اور درازی عمر کی تمنا کو ختم کر کے بلا تاخیر توبہ و اناب اور علم وعمل کی راہ اختیار کرلینا اور ہمہ وقت موت کے لئے تیار رہنا۔ حضرت سفیان ثوری (رح) کے مزکورہ بالا عارفانہ قول کا مطلب یہ ہے کہ زہد، دنیا سے بےرغبتی بےاعتنائی کی اس کیفیت کا نام ہے جو انسانی قلب پر اس طرح طاری ہو کہ وہ قلب دنیا سے بیزار اور آخرت کی طرف راغب و متوجہ رہے، گویا زہد کا مدار اس بات پر نہیں ہے کہ انسان کا قالب یعنی جسم وبدن دنیا کی جائز ومباح چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے یا نہیں کیونکہ حقیقت کے اعتبار سے اس زہد کے معاملہ میں یہ دونوں برابر ہوں یعنی ایک شخص جسمانی طور پر خوش پوشاک وخوش خوراک ہونے کے باوجود قلبی طور پر ہمہ وقت آخرت کی طرف متوجہ و راغب رہ سکتا ہے اور ایک شخص جسمانی طور پر خوش پوشا کی وخوش خورا کی سے بیزار رہتے ہوئے بھی قلبی طور پر آخرت کی طرف زیادہ متوجہ و راغب نہیں رہ سکتا۔ اگرچہ لباس کی بےحیثتی وسادگی اور کھانے کی بدمزگی، سلوک و طریقت کی راہ میں بندے کی استقامت و استواری پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ حاصل یہ کہ جو سالک جسمانی طور پر تو دنیا سے اجتناب کرے لیکن اس کے دل میں دنیا کی محبت جاگزیں ہو تو یہ چیز اس کے لئے نہایت مہلک اور تباہ کن ہے۔ اس کے برخلاف اگر وہ جسمانی طور پر تو دنیا کی جائز ومباح نعمتوں اور لذتوں سے فائدہ اٹھائے، مگر اس کا دل دنیا کی محبت سے خالی اور آخرت کی طرف متوجہ ہو تو یہ اس کے حق میں بہت بہتر ہے۔ جاننا چاہئے کہ دل کی مثال کشتی کی سی ہے کہ اگر پانی کشتی کے اندر آجائے تو وہ نہ صرف کشتی بلکہ اس میں بیٹھے لوگوں کو بھی ڈبو دیتا ہے، لیکن وہی پانی جب اسی کشتی کے باہر اور اس کے گرد رہتا ہے تو اس کشتی کو رواں کرتا ہے اور منزل تک پہنچاتا ہے، اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا ہے نعم المال المال الصالح للرجل الصالح اور اسی وجہ سے صوفیاء کی ایک جماعت کے بارے میں منقول ہے کہ وہ حضرات اسی طرح کا لباس پہنا کرتے تھے جیسا کہ عام طور پر رائج تھا بلکہ بعض نے تو امیروں اور رئیسوں جیسا لباس بھی پہنا ہے تاکہ ان کے باطنی احوال کا انکشاف نہ ہو۔

【17】

حقیقی زہد کیا ہے؟

حضرت زید بن حصین (رض) ( جو حضرت امام ملک (رح) کے رفقاء اور مصاحبین میں سے تھے) کہتے ہیں میں نے حضرت امام مالک (رح) کو یہ کہتے ہوئے سنا جب کہ ان سے پوچھا گیا کہ دنیا سے زہد اختیار کرنا کس چیز کا نام ہے ؟ انہوں نے فرمایا۔ حلال کمائی اور آرزوؤں کی کمی کا نام، زہد ہے۔ (بیہقی) تشریح کسب یہاں مکسوب کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی کھانے پینے کی وہ چیزیں جو حلال و پاکیزہ ہوں ! حاصل یہ کہ زہد اس چیز کا نام نہیں ہے کہ انسان ان چیزوں کو بھی کھانے پینے اور ان سے بقدر ضرورت فائدہ اٹھانے سے پرہیز کرے جو اس کے حق میں حلال و پاکیزہ ہیں، کیونکہ اگر ان چیزوں سے فائدہ اٹھانا زہد کے منافی اور غیر مستحسن ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے یہ نہ فرماتا کہ آیت (کلوا من الطیبات واعملوا صالحا) اور نہ اہل ایمان کو یہ حکم دیا جاتا کہ آیت (یا ایھا الذین امنوا کلوا من الطیبات ما رزقناکم واشکروا للہ ان کنتم ایاہ تعبدون) ۔ بلکہ زہد یہ ہے انسان کو جائز وسائل و ذرائع سے جو حلال پاکیزہ چیزیں حاصل ہوں ان سے بقدر ضرورت فائدہ اٹھائے اور غیر حلال وغیرہ پاکیزہ چیزوں سے کلیۃ اجتناب کرے، اسی طرح ایک اور چیز، جس کا تعلق زہد سے ہے، یہ ہے کہ انسان آرزوؤں اور امیدوں کا اسیر بن کر کاہل و سست اور آخرت سے غافل نہ بن جائے بلکہ ہمہ وقت آخرت کی طرف متوجہ رہے اور زیادہ سے زیادہ اچھے عمل کرنے میں مشغول رہے تاکہ جس وقت بھی پیغام اجل آجائے، وہ اپنی جان، جاں آفریں کے سپرد کرنے پر اپنے کو بالکل تیار پائے، یہی وہ زہد ہے جو شریعت کی نظر میں مطلوب ہے اور جو انسان کو عاقبت اندیش بناتا ہے اور آخرت کی طرف متوجہ رکھتا ہے۔ اگر اس موقع پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ زہد محض اس چیز کا نام ہے کہ دنیا سے بالکل بےتعلقی اور کنارہ کشی اختیار کرلی جائے، موٹا جھوٹا کپڑا پہنچا جائے اور روکھی سوکھی روٹی کھانے پر عمل پیرا رہا جائے، چناچہ حضرت امام مالک (رح) نے اس بات کو بجا طور پر واضح فرمایا حقیقی زہد وہ نہیں ہے جس کو تم نے اپنے گمان میں جگہ دے رکھی ہے بلکہ زہد کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تمہیں جائز ذریعوں سے جو کچھ حلال و پاکیزہ چیزیں عطا کرے ان کو کھاؤ پیو، ان سے فائدہ اٹھاؤ اور قدر ضرورت پر قناعت کرو نیز ضرورت سے زیادہ چیزوں کی امید و آرزو اور درازی عمر کی تمنا نہ رکھو جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔ دنیا سے زہد اختیار کرنا اس چیز کا نام نہیں ہے کہ حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام قرار دے لو اور اپنے مال و اسباب کو ضائع کر ڈالو، بلکہ زہد دراصل اس چیز کا نام ہے کہ جو چیز تمہارے ہاتھ میں اس پر اس چیز سے زیادہ اعتماد نہ کرو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔