156. دکھلاوے اور ریاکاری کا بیان

【1】

اللہ کی طاعت وعبادت کے لئے مال اور عمر سے محبت رکھنے کا بیان

استحباب کے معنی ہیں، اچھا جاننا، پسند کرنا، مال کے معنی ہیں خواستہ، یعنی وہ چیز جس کی چاہ و خواہش رکھی جائے، اس کی جمع اموال ہے اور مال اصل میں میل سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں مائل ہونا، راغب ہونا، چناچہ دھن دولت، اسباب و سامان اور جائداد وغیرہ کو مال اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انسان ان چیزوں کی طرف طبعی طور پر رغبت و میلان رکھتا ہے۔ عمر کے معنی ہیں زندگی، زندہ رہنے کی مدت۔ اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی طاعت و عبادت کی خاطر، دین کی خدمت کے لئے اور اخروی فلاح و بہبود کے امور انجام دینے کی غرض سے مال و دولت کی خواہش و طلب اور درازی عمر کی آرزو رکھنا جائز ہے۔

【2】

اللہ کا پسندیدہ بندہ کون ہے؟

حضرت سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یقینا اللہ تعالیٰ اس بندے کو بہت پسند کرتا ہے جو متقی و غنی اور گوشہ نشین ہو۔ (مسلم) اور حضرت ابن عمر کی روایت لاحسد الا فی اثنین فضائل قرآن کے باب میں نقل کی جا چکی ہے۔ تشریح متقی اس شخص کو کہتے ہیں جو ممنوع چیزوں سے اجتناب کرے یا یہاں متقی سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے مال و زر کو بڑے کاموں اور عیش و تفریح میں خرچ نہ کرے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ متقی سے مراد وہ شخص ہے جو حرام اور مشتبہ امور سے کلیۃ اجتناب کرے اور ان چیزوں سے بھی احتیاط و پرہیز کرے جن کا تعلق خواہشات نفس اور مباحات سے ہے۔ اور غنی سے مراد وہ شخص ہے جو مالدار و دولتمند ہو یا دل کا غنی ہو۔ لیکن اس حدیث کا یہاں اس باب میں نقل کرنا اس بات کو زیادہ ثابت کرتا ہے کہ غنی سے مراد وہ شخص ہے جو مالدار و دولتمند ہو یا دل کا غنی ہو ! لیکن اس حدیث کا یہاں اس باب میں نقل کرنا اس بات کو زیادہ ثابت کرتا ہے کہ غنی سے مراد وہی شخص ہے جو مال و دولت رکھتا ہو اور یہ بات دل کے غنی ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ غناء کے باب میں وہی شخص اصل اور کامل ترین ہے جو ظاہری مال و دولت کے ساتھ دل کا غنا بھی رکھتا ہو اور جس کے ذریعہ ہاتھ کے غنا کا وہ تقاضا بھی پورا ہوتا ہے جو دنیا و آخرت میں مراتب و درجات کی بلندی کا باعث بنتا ہے اس صورت میں یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ یہاں غنی سے مراد اصل میں شکر گزار مالدار ہے ! چناچہ بعض حضرات نے اس حدیث سے یہی استدلال کیا ہے کہ شکر گزار مالدار، صبر اختیار کرنے والے فقیر و مفلس سے افضل ہے۔ اگرچہ یہ قول (کہ شاکر غنی، صابر فقیر سے افضل ہوتا ہے) اس قول کے خلاف ہے جس کو زیادہ صحیح اور قابل اعتماد قرار دیا گیا ہے (اور وہ یہ کہ صابر فقیر، شاکر غنی، صابر فقیر سے افضل ہوتا ہے) چناچہ اس بارے میں تفصیلی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ خفی سے مراد یا تو گوشہ نشین ہے، یعنی وہ شخص جو سب سے ترک تعلق کے ذریعہ یکسوئی اور تنہائی اختیار کر کے اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہے، یا یہ کہ پوشیدہ طور پر خیر و بھلائی کرنے والا مراد ہے، یعنی وہ شخص کہ جو اللہ تعالیٰ کی رضامندی و خوشنودی کے لئے نیک کاموں اور اپنے مال کو خرچ کرنے میں اس طرح راز داری اختیار کرے کہ کسی کو اس کا علم نہ ہو، اس صورت میں خفی کا اطلاق مفلس و نادار شخص پر بھی ہوسکتا ہے اور یہ دوسری مراد زیادہ واضح ہے ویسے یہ لفظ حائے مہملہ کے ساتھ یعنی حفی بھی روایت کیا گیا ہے جس سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو حق کے معاملہ میں نرمی و مہربانی اور احسان کرے، لیکن صحیح یہی ہے کہ یہ لفظ خفی ہے جس کی وضاھت پہلے کی گئی ! واضح رہے کہ یہ حدیث ان لوگوں کی بھی دلیل ہے جو یہ کہتے ہوئے کنارہ کشی اختیار کرنا، ان کے ساتھ میل جول اور ان کے درمیان رہن سہن رکھنے سے افضل ہے، لیکن جو حضرات، لوگوں کے ساتھ میل جول اور ان کے درمیان رہن کو ترک تعلق اور کنارہ کشی سے افضل قرار دیتے ہیں۔ انہوں یہ تاویل کی ہے کہ گوشہ نشینی کا افضل اور پسندیدہ ہونا اس صورت کے ساتھ خاص ہے جب کہ فتنوں کا زور ہو اور لوگوں کے ساتھ میل جول اور ان کے درمیان رہن سہن اختیار کرنے سے دین و آخرت کے معاملات پر برا اثر پڑتا ہو اور ایمان و عمل میں رخنہ اندازی ہوتی ہو۔

【3】

درازی عمر کی فضیلت حسن عمل پر منحصر ہے

حضرت ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا، کہ یا رسول اللہ ! کون سا آدمی بہتر ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ وہ شخص جس کی عمر زیادہ ہو اور عمل اچھے ہوں۔ پھر اس شخص نے پوچھا اور کون سا آدمی برا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ وہ شخص جس کی عمر زیادہ ہو اور برے عمل ہوں۔ (احمد، ترمذی، دارمی) تشریح حدیث کے ظاہری اسلوب سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ حکم اغلب کے اعتبار سے ہے یعنی اچھے یا برے عمل زیادہ ہوں گے تو وہ شخص یا برا قرار پائے گا اور اگر اچھے اور برے عمل دونوں برابر ہوں گے تو پھر وہ ایک وجہ سے تو اچھا کہلائے گا اور ایک وجہ سے برا، اگرچہ اس بات کا ثابت ہونا نادر ہے۔

【4】

اچھے اعمال کے ساتھ زیادتی عمر کی فضیلت

حضرت عبید بن ابی خالد (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دو شخصوں کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا تھا (یعنی ان دونوں کو جو صحابہ (رض) میں سے تھے، بھائی بھائی بنادیا تھا) ان میں سے ایک شخص اللہ کی راہ میں مارا گیا (یعنی جہاد میں شہید ہوگیا) اور اس کی شہادت کے ایک ہفتہ یا قریب ایک ہفتہ کے بعد دوسرا شخص بھی صاحب فراش ہو کر فوت ہوگیا۔ صحابہ (رض) نے اس شخص کی نماز جنازہ پڑھی اور جب وہ نماز جنازہ سے فارغ ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے مرحوم کی جو نماز جنازہ پڑھی ہے اس میں تم نے کیا پڑھا ہے اور کیا کہا ہے (یعنی تم نے نماز جنازہ میں مرحوم کے لئے کیا دعا کی ہے ؟ ) صحابہ نے عرض کیا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی ہے کہ اس کے گناہ بخش دے، اس پر رحمت نازل کرے اور اس کو اس کے (شہید ہوجانے والے) ساتھی کے پاس جنت کے اعلیٰ درجہ میں پہنچا دے جیسا کہ وہ دونوں اس دنیا میں اتفاق و اتحاد کے ساتھ اور یکجا رہتے تھے) نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا۔ تو پھر اس کی وہ نماز کہاں گئی جو اس نے اپنے ساتھی کی نماز کے بعد کے دنوں میں پڑھی تھی اور اس کے ان اعمال کا ثواب کہاں گیا جو اس نے اپنے ساتھی کے اعمال کے بعد (کے دنوں میں) کئے تھے۔ یا یہ فرمایا کہ اس کے ان روزوں کا ثواب کہاں گیا جو اس نے اپنے اس ساتھی کے روزوں کے بعد کے دنوں میں رکھے تھے ؟ (یعنی تم نے مرحوم کے حق میں جو یہ دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کے اس بھائی و ساتھی کے پاس جنت میں پہنچائے جو شہید ہوا ہے تو اس کا ملطب یہ ہے کہ تمہارے گمان میں اس شخص کا درجہ و مرتبہ اپنے اس شہید بھائی کے درجہ و مرتبہ سے کم ہے۔ اگر تم ایسا سمجھتے ہو تو پھر بتاؤ کہ اس مرحوم کی وہ نمازیں و روزے اور وہ دوسرے اچھے اعمال اور ان کا اجر وثواب کہاں جائے گا جو اس نے اپنے بھائی کے انتقال کے بعد کے دنوں میں کئے ہیں، بلاشبہ جنت کے اندر اور قرب الٰہی میں دو شخصوں کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ اس فاصلہ سے بھی زیادہ ہے جو زمین و آسمان کے درمیان ہے۔ ( ابوداؤد، نسائی) تشریح حضور ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص اپنے ساتھی کی شہادت کے بعد جتنے زائد دنوں تک زندہ رہا اور ان دنوں میں اس نے جو عبادات و اعمال صالحہ کئے ان کی وجہ سے اس کا مرتبہ اپنے شہید بھائی و ساتھی کے مرتبہ سے بھی بلند ہوگیا ہے۔ اس موقعہ پر بجا طور پر یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ بعد میں وفات پانے والا مذکورہ شخص محض ان عبادات و اعمال کی وجہ سے کہ جو اس نے ایک ہفتہ کے دوران کئے تھے، اس شخص پر فضیلت کیسے پاسکتا ہے جو اس سے پہلے میدان جنگ میں شہید ہوگیا تھا اور جب کہ اس نے اللہ کی راہ میں اور دین حق کی سربلندی کی خاطر شہادت کا درجہ پایا اور جام شہادت بھی اس نے اس زمانہ میں نوش کیا جب کہ رسول کریم ﷺ اس دنیا میں تشریف فرما تھے، اسلام اپنے ابتدائی زمانہ کے نہایت پر آشوب حالات سے گزر رہا تھا اور دین کے مددگاروں کی کمی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس دوسرے شخص کو پہلے شخص (شہید) کے مقابلہ زیادہ افضل قرار دینا محض اس کے ان اعمال کی وجہ سے نہیں ہے جو اس نے اس ایک ہفتہ کے دوران کئے تھے بلکہ اصل بات یہ تھی کہ وہ شخص بھی اسلامی لشکر ہی کا ایک فرد تھا اور اللہ کی راہ میں مرابط کے فرائض انجام دیا کرتا تھا نیز میدان جنگ میں شہید ہونے کی صادق نیت رکھتا تھا، لہٰذا اس نیت کا یہ پھل اس کو ملا کہ اس کو گویا شہادت کا درجہ دیا گیا جس کی وجہ سے وہ اپنے ساتھی کا ہم مرتبہ ہوگیا اور پھر اس نے اس ساتھی کی شہادت کے بعد کے دنوں میں جو نیک اعمال کئے ان کی وجہ سے اس کا مرتبہ اور زیادہ بڑھ گیا۔

【5】

وہ چار آدمی جن کے حق میں دنیا بھلی یا بری ہے

حضرت ابوکبشہ انماری (رح) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ تین باتیں ہیں جن کی حقانیت و صداقت پر میں قسم کھا سکتا ہوں اور میں تم سے ایک بات کہتا ہوں (یعنی تمہارے سامنے اپنی ایک حدیث بیان کرتا ہوں تم اس کو یاد رکھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا پس وہ تین باتیں جن کی حقانیت وصداق پر میں قسم کھا سکتا ہوں، یہ ہیں کہ بندہ کا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے (صدقہ و خیرات) کی وجہ سے کم نہیں ہوتا (یعنی کسی بندہ کا اپنے مال کو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے خرچ کرنا بظاہر تو اپنے مال کو کم کرنا اور گھٹانا ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کو کوئی نقصان اور گھاٹا نہیں ہوتا کیونکہ اس کا صدقہ و خیرات کرنا دنیاوی طور پر بھی اس کے مال و اسباب میں خیر و برکت کا موجب ہے اور آخرت میں بھی حصول ثواب کا ذریعہ ہے اور ظاہر ہے کہ یہ چیز کثرت و زیادتی کے حکم میں ہوگی نہ کہ نقصان کے حکم میں۔ جس بندہ پر ظلم کیا جائے اور اس کا مال ناحق لے لیا جائے اور وہ بندہ اس ظلم و زیادتی پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت کو بڑھاتا ہے (یعنی اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کا ہونا اگرچہ ظاہری طور پر اس کی ذلت کے مترادف ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس ظلم و زیادتی پر صبر کرنے کی وجہ سے اللہ کے نزدیک اس بندہ کی عزت و مرتبہ بڑھ جاتا ہے جیسا کہ جو شخص ظلم کرتا ہے اس کے ظلم کی وجہ سے اللہ کے نزدیک اس کی ذلت بڑھ جاتی ہے، یا یہ مطلب کہ طلم و زیادتی کا شکار ہونے والا بندہ اگرچہ وقتی طور پر ذلت وکمتری میں مبتلا ہوجاتا ہے مگر انجام کار اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اس کی عزت و مرتبہ کو بڑھا دیتا ہے جیسا کہ ظالم اگرچہ وقتی طور پر سربلند ہوجاتا ہے مگر آخرکار اپنے ظلم کی وجہ سے نہایت ذلت و رسوائی سے دوچار ہوتا ہے اور دنیا والوں کی نظر میں بری طرح گر جاتا ہے اگرچہ وہ کتنی ہی طویل مدت کے بعد اس انجام بد کو کیوں نہ پہنچے، چناچہ اکثر یہی ہوتا ہے کہ قدرت کی کرشمہ سازی صورت حال کو اس طرح بدل دیتی ہے کہ ظالم ایک نہ ایک دن اپنی سربلندی کھو دیتا ہے اور کبھی زور آور ہونے کی وجہ سے جس شخص پر ظلم و زیادتی کیا کرتا تھا اپنے انجام کو پہنچ کر اسی مظلوم کو زیر دست اور اس کے سامنے ذلیل وسرنگوں ہوجاتا ہے۔ اور جس بندہ نے اپنے نفس پر سوال کا دروازہ کھولا (یعنی ضرورت و حاجت کی وجہ سے نہیں بلکہ مال و دولت جمع کرنے اور خواہشات نفس کی تکمیل کے لئے لوگوں سے مانگنا شروع کر دے) اللہ تعالیٰ اس کے لئے فقر و افلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے (یعنی اس کو طرح طرح کے احتیاج و افلاس میں مبتلا کردیتا ہے یا اس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے اس کو بھی ختم کردیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ نہایت خرابی میں پڑجاتا ہے) اور رہی اس حدیث کی بات جس کو میں نے تمہیں سنانے کے لئے کہا تھا تو اب میں اس کو بیان کرتا ہوں (دھیان سے سنو اور) اس کو یاد رکھو، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دنیا بس چار آدمیوں کے لئے ہے (یعنی یہ دنیا اپنے مال و دولت کے احوال اور اپنی بھلائی برائی کے اعتبار سے چار طرح کے آدمیوں میں منحصر ہے) ایک تو وہ بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال و زر بھی عطا کیا اور علم کی دولت سے بھی نوازا (ایسا علم کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے مال کو مصارف خیر میں خرچ کرنے کا طریقہ جانتا ہے اور اس کے اثرات و کیفیات سے بھی باخبر ہے) پس وہ بندہ اپنے مال و دولت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے (یعنی اس کو حرام و ناجائز اور ناپسندیدہ حق امور میں خرچ نہیں کرتا) اس کے ذریعہ اپنے قرابت داروں اور عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرتا ہے اور اس مال وزر میں سے اس کے حق میں مطابق اللہ تعالیٰ کے لئے خرچ کرتا ہے (یعنی مال و دولت کے تئیں اللہ تعالیٰ نے جو حقوق متعین کئے وہ ان کو احکام الٰہی کی تکمیل کے لئے ادا کرتا ہے، مثلا زکوٰۃ نکالتا ہے، صدقہ و خیرات کرتا ہے، مالی کفارات ادا کرتا ہے اور ضیافت ایمانداری میں خرچ کرتا ہے چناچہ اس بندہ کا بہت بڑا اور کامل ترین مرتبہ ہے (یعنی وہ بندہ دنیا میں اچھے خصائل و احوال سے متصف قرار دیا جاتا ہے یا آخرت میں اعلیٰ مراتب کا مستحق قرار پاتا ہے) ۔ دوسرا وہ بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم تو عطا کیا کہ جس کے ذریعہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ مال کو کسی کام میں صرف کرنا اللہ کی رضا و خوشنودی اور ہر طرح کے اجر وثواب کا باعث ہے اور کس کام میں خرچ کرنا اللہ کی ناراضگی اور ہر طرح کے خسران عذاب کا سبب ہے) لیکن اس کو مال عنایت نہیں فرمایا پس وہ بندہ (اپنے علم کے سبب سچی نیت رکھتا ہے اور حصول مال و دولت کی خواہش و آرزو رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال اور روپیہ پیسہ ہوتا تو میں اس کے تئیں اچھے عمل کرتا جیسا کہ وہ فلاں شخص اپنے مال وزر کے بارے میں اللہ سے ڈرتا ہے (یعنی جس طرح فلاں شخص کو اللہ نے علم صادق کے ساتھ مال و دولت سے بھی سرفراز کیا ہے اور وہ اس مال کو اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر اچھے کاموں میں خرچ کر کے، (یعنی ادائیگی زکوۃ، اقرباء کے ساتھ حسن سلوک اور صدقہ و خیرات کے ذریعہ دنیا وآخرت کی سرخروئی حاصل کر رہا ہے، اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ مجھے بھی اس علم کے ساتھ مال و دولت بھی عطا فرماتا تو میں بھی اس شخص کی طرح اپنے مال وزر کو اللہ کی رہ میں خرچ کرنے کی سعادت حاصل کرتا) چناچہ دونوں شخصوں کا ثواب برابر ہے (یعنی اگر پہلا شخص مالدار ہونے کی وجہ سے اللہ کی راہ میں واقعتا اپنا مال خرچ کرتا ہے اور یہ دوسرا شخص مالدار نہ ہونے کی وجہ سے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ نہیں کرتا لیکن سچی نیت رکھنے کے سبب وہی اجر وثواب پاتا ہے جو پہلے شخص کو ملتا ہے) تیسرا بندہ وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا ہے لیکن علم نہیں دیا (ایسا علم کہ جس کے ذریعہ وہ اللہ سے ڈرے اور اپنے مال کو حقوق کی ادائیگی میں خرچ کرے) پس وہ بندہ بےعلم ہونے کی وجہ سے اپنے مال کے بارے میں بہک جاتا ہے (بایں طور کہ اول تو لالچ وحرص اور دنیا کی محبت کی وجہ سے بخل کرتا ہے کہ کسی بھی اچھے کام اور ادائیگی حقوق میں خرچ کرنے کا روادار نہیں ہوتا اور اگر کسی فلاحی، رفاہی کام یا کسی کی مدد و اعانت میں کچھ خرچ بھی کرتا ہے تو مقصد محض نام ونمود اور اپنی بڑائی و ثروت کا اظہار ہوتا ہے) وہ (اپنی بےعملی کے سبب) اس مال و دولت کے بارے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے (یعنی آمدنی کے ایسے وسائل و ذرائع سے اجتناب و احتیاط نہیں کرتا جو حرام و ناجائز اور مشتبہ ہوتے ہیں اور نہ ایسے امور میں اپنا مال خرچ کرنے سے گریز کرتا ہے جو غیر شرعی اور ناپسندیدہ حق ہیں) اور علم و تربیت کی کمی، نیز جذبہ ترحم و ہمدردی کے فقدان اور حرص وبخل کی کثرت کی وجہ سے اپنے قرابت داروں اور عزیزوں کے ساتھ مالی احسان و سلوک نہیں کرتا ہے اور نہ ان حقوق کی تعمیل کرتا ہے جو اس کے مال و دولت سے متعلق ہیں (یعنی نہ تو زکوٰۃ اور دوسرے صدقات واجبہ کے ذریعہ اللہ کا حق ادا کرتا ہے اور نہ بندوں کے حقوق مطالبات کی ادائیگی کی پرواہ کرتا ہے، چناچہ یہ بندہ بد ترین مرتبہ کا ہے۔ اور چوتھا بندہ وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ تو مال عطا کیا ہے اور نہ علم دیا ہے (ایسا علم کہ جس کے ذریعہ وہ خیر وشر کے درمیان تمیز کرسکے اور یہ پہچان کرسکے کہ میرے حق میں کون سی چیز بہتر ہے اور کون سی چیز بری) پس وہ بندہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال اور روپیہ پیسہ ہوتا تو میں بھی اس کو فلاں شخص کی طرح (برے کاموں میں) خرچ کرتا، چناچہ یہ بندہ اپنی نیت کے سبب مغضوب ہے ( یا یہ ترجمہ بھی ہوسکتا ہے کہ پس یہ بندہ بری نیت رکھنے والا ہے) اور اس کا گناہ اس تیسرے شخص کے گناہ کے برابر ہے یعنی وہ تیسرا شخص اگرچہ اپنا مال برے کاموں میں خرچ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوتا ہے اور یہ چوتھا شخص مالدار نہ ہونے کی وجہ سے برے کاموں میں خرچ کرنے کا مرتکب نہیں ہوتا لیکن چونکہ برے کاموں میں خرچ کرنے کی نیت رکھتا ہے اس سبب سے اس کو بھی وہی گناہ ملتا ہے جو برے کاموں میں واقعتا خرچ کرنے والے کو ملتا ہے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ تشریح یہاں نیت کو عزم کے معنی پر محمول کرنا چاہئے کیونکہ انسان گناہ کی محض خواہش ونیت پر نہیں بلکہ عزم پر ماخوذ ہوتا ہے اور اصطلاح طور پر عزم اس کو کہتے ہیں کہ انسان کے دل میں کسی گناہ کے کرنے کا خیال و ارادہ پیدا ہو اور وہ اس خیال و ارادہ کو پورا کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑے لیکن خارجی طور پر کوئی ایسا مانع حائل ہو جس کی وجہ سے وہ اس گناہ کے کرنے اور اس تک پہنچنے پر قادر نہ ہو، کہ اگر وہ مانع باقی نہ رہے اور اس کو قدرت حاصل ہوجائے تو وہ بلا توقف اس گناہ کو کر ڈالے، مثلا اگر کوئی شخص زنا کرنا چاہے اور وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل میں اس حد تک سعی و کوشش کرے گا کہ اگر کوئی خارجی چیز اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کرے تو وہ بےجھجک اور بلا توقف زنا میں مبتلا ہوجائے تو اس کی اس خواہش و ارادہ کا اتنا پختہ (باسعی ہونا عزم کہلائے گا اور وہ اس عزم پر ماخوذ ہوگا اور اس کو اللہ کی نظر میں گنہگار قرار دیا جائے گا کیونکہ عزم اگرچہ واقعۃً زنا نہیں ہے لیکن جس طرح زنا ایک گناہ ہے اسی طرح زنا کا عزم بھی ایک مستقل گناہ ہے۔ اس موقع پر زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس سلسلہ کی پوری بحث کو مختصر طور پر بیان کردیا جائے، چناچہ جاننا چاہئے کہ اول تو وسوسہ شیطان ہے، یعنی بغیر کسی کسب و ارادہ کے دل میں کسی گناہ کا خیال خود بخود آجائے اور گزر جائے، جمے نہیں، اس کو ہاجس کہا جاتا ہے اور ہا جس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ لیکن اگر وہ خیال دل میں بیٹھ جائے اور طبیعت کے اندر جو لانی وگردش کرنے لگے تو اس کو خاطر کہتے ہیں، خاطر بھی اس امت کے حق میں مرفوع اور قابل معافی قرار دیا گیا ہے، اس پر کوئی مواخذہ نہیں اور یہ اس امت کے خصائص میں سے ہے۔ اس کے بعد ہم کا نمبر آتا ہے۔ ہم یہ ہے کہ گناہ کا وہ خیال دل میں اس طرح بیٹھ جائے کہ اس گناہ کے قصد و ارادہ اور نیت کی صورت اختیار کرلے، حسنات (نیکیوں) میں تو ہم کا اعتبار کیا جاتا ہے کہ کسی نیکی کی محض نیت اور اس کا قصد و ارادہ، پوری نیکی کے مترادف قرار دیا جاتا ہے لیکن سیئات (گناہوں) کے معاملہ میں محض نیت اور ارادہ کا اعتبار نہیں ہوتا۔ اس کے بعد عزم ہے جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے یہ عزم قابل مواخذہ ہے۔ حدیث کے اس جملہ ویعمل اللہ فیہ بحقہ میں فیہ کی ضمیر حضرت شیخ عبدالحق (رح) نے تو مال کی طرف لوٹائی ہے (جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے) لیکن ملا علی قاری (رح) نے فیہ کی ضمیر، مال کے بجائے، علم کی طرف لوٹائی ہے، اس صورت میں جملہ کا مطلب یہ ہوگا کہ اور وہ شخص اس علم کے تعلق سے اور اس کے حق کے مطابق اللہ تعالیٰ کے لئے کام کرتا ہے بایں طور کہ اس علم پر عمل کر کے اور حقوق اللہ وحقوق العباد ادا کر کے اس علم کا حق ادا کرتا ہے، تاہم ملا علی قاری نے ابن مالک کی طرف منسوب کر کے یہ قول بھی لکھا ہے کہ فیہ کی ضمیر مال کی طرف راجع ہے۔ چناچہ حضرت شیخ عبدالحق نے اسی قول کو اختیار کیا ہے، نیز حضرت شیخ نے لفظ یتخبط کے یہ معنی لکھے ہیں وہ شخص کہ جس کو صرف مال عطا ہوتا ہے علم حاصل نہیں ہوتا اپنی بےعلمی اور بدعقلی کی وجہ سے اپنے مال و دولت کے معاملہ کوئی صحیح راہ اختیار نہیں کر پاتا اور اچھے اور برے مصارف کے درمیان تمیز نہ کر پانے کی وجہ سے اس کو ادھر ادھر خرچ کرتا رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا مال زیادہ تر ان کاموں میں خرچ ہوتا ہے جو غیر شرعی اور ناپسندیدہ حق ہوتے ہیں۔ چناچہ مابعد کے الفاظ لایتقی فیہ ربہ سے یہی بات واضح ہوتی ہے۔ لیکن ملا علی قاری نے اس جملہ کے یہ معنی لکھے ہیں کہ وہ شخص مال و دولت کے حصول میں سخت بےاعتدالی کا شکار ہوجاتا ہے کہ وہ ہر وقت بس پیسہ کمانے اور دولت جمع کرنے کے چکر میں رہتا ہے اس کا اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا اور ہر حرکت و سکون کا واحد محور حصول زر ہوتا ہے، علاوہ ازیں وہ اس مال و دولت کے تئیں طرح طرح کے احوال میں مبتلا ہوتا ہے کہ کبھی تو اس کو ادھر ادھر بےدریغ خرچ کرتا ہے اور کبھی اس طرح بخل وخست کرتا ہے کہ بنیادی ضروریات اور ادائیگی حقوق میں خرچ کرنے کا بھی روادار نہیں ہوتا۔

【6】

نیکی کی توفیق اور حسن خاتمہ

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ جب بندہ کی بھلائی (یعنی اس کے حسن انجام) کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے بھلائی کے کام کراتا ہے۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ! اس سے بھلائی کے کام اللہ تعالیٰ کس طرح کرتا ہے ؟ فرمایا موت سے پہلے اس کو نیک کام کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس بندہ پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہوجاتا ہے اس کو موت سے پہلے توبہ وانابت اور طاعت عبادت کی توفیق الٰہی عطا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حسن انجام اور خاتمہ بخیر کی سعادت پا لیتا ہے۔ یہ حدیث گویا زندہ رہنے کی فضیلت و اہمیت کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ زندگی ہی ہے جس میں انسان آخرت کی بھلائی و کامیابی کے لئے کچھ کما سکتا ہے۔

【7】

دانا شخص وہی ہے جو خواہشات نفس کو احکام الٰہی کے تابع کر دے

حضرت شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ عقلمند وبہادر شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو (اللہ تعالیٰ کے حکم و فیصلہ، تقدیر وقضا اور اس کی رضا و خوشنودی کے تئیں) جھکا دے اور فرمان الٰہی کا مطیع و فرمانبردار بنا دے اور اس اجر وثواب کے لئے اچھے عمل کرے جو موت کے بعد پائے گا۔ نیز احمق ونادان اور بزدل شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات کے تابع بنا دے (یعنی نفس جن حرام و مشتبہ چیزوں اور دنیاوی لذات و مرغوبات کا خواہشمند ہو، ان کو اختیار کر کے گویا اپنے آپ کو خواہش نفس کا اسیر بنا دے اور گناہوں میں مبتلا ہونے، فرمان حق کے خلاف چلنے، عمل خیر اور توبہ و استغفار کی راہ اختیار نہ کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے اس بات کا متمنی اور آرزو مند ہو کہ وہ اس سے راضی ہو، اس کو بخش دے اور اس کو جنت میں داخل کرے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح نووی نے لکھا ہے کہ امام ترمذی (رح) نے اور دیگر علماء محدثین نے وضاحت کی ہے من دان نفسہ دراصل حاسبھا کے مفہوم میں ہے یعنی عقلمند وبہادر وہ شخص ہے جو اپنی دنیاوی زندگی میں اپنے قول وفعل اور اپنی حالت کا خود حساب کرے، پس اگر وہ دیکھے کہ اس کے اعمال و احوال اور کردار وگفتار پر نیکیوں کا غلبہ ہے تو اللہ کا شکر ادا کرے اور اگر اس کو برائیوں کا غلبہ معلوم ہو تو توبہ وانابت کے ذریعہ اپنی حالت سدھارنے کی طرف متوجہ ہو، برائیوں کا ازالہ کرے اور پچھلی زندگی میں جو عبادات و اعمال صالحہ فوت ہوگئے ہیں ان کا تدارک کرے قبل اس کے کہ آخرت کے سخت عذاب ومواخذہ میں گرفتار کیا جائے۔ چناچہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا یعنی اپنے نفس کا احساب کرو قبل اس کے کہ آخرت میں تمہارا محاسبہ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ) 59 ۔ الحشر 18) یعنی نفس کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل آخرت کے لئے آگے کیا بھیجا ہے۔ حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ دانا مومن وہ ہے جو اپنے اندر اتنی طاقت و مضبوطی رکھے کہ اس کا نفس اپنی خواہشات کے فریب میں مبتلا نہ کرسکے اور نادان مومن وہ ہے جو اس درجہ کمزور نا تو اں ہو کہ اس کا نفس اس کو اپنی خواہشات کا اسیر بنا لے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ گناہ و معصیت کی راہ کو ترک نہ کرنا، توبہ و استغفار اور عمل خیر کے ذریعہ اپنی زندگی کو پاکیزہ نہ بنانا اور اللہ و رسول کی مرضی کے خلاف چلنا اور پھر امید یہ (رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے کھول دے گا اور دین ودنیا کی فلاح و کامیابی سے نوازے گا نیز زبان سے یہ کہتے رہنا کہ میرا رب تو بڑا رحیم و کریم ہے، وہ مجھے بخش ہی دے گا اور جنت میں پہنچا دے گا دراصل نفس کا ایک ایسا فریب ہے جس کے ذریعہ شیطان گمراہی سے نکلنے نہیں دینا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت (ماغرک بربک الکریم) ۔ اور فرمایا آیت (نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ہو العذاب الالیم) ایک موقع پر یوں واضح فرمایا کہ آیت ( اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف 56) اور فرمایا آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اُولٰ ى ِكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 2 ۔ البقرۃ 218) ۔ ان آیتوں کا حاصل یہی ہے کہ عمل تو نہ کرنا، برائی کے راستہ کو تو نہ چھوڑنا اور اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار ہونا لا حاصل ہے۔ سیدھا راستہ بس یہی ہے کہ برائی کے راستہ کو چھوڑ دیا جائے، اعتقادی وعملی زندگی کو دینی و اخروی پاکیزگی و سلامتی کے سانچے میں ڈھال دیا جائے اور ہر عمل خیر کی راہ میں کوئی تقصیر و کوتاہی نہ کی جائے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار بھی رہے اور اس کے عذاب سے ڈرتا بھی رہے تو اس صورت میں رحمت الٰہی کا استحقاق نصیب ہوسکتا ہے۔ حضرت شیخ ابن عباد شاذلی (رح) نے لکھا ہے کہ عارف باللہ علماء نے وضاحت کی ہے کہ اللہ کی رحمت کے تئیں وہ جھوٹی امید کہ جس پر ناروا اعتماد کر کے انسان عمل و عبادت کی راہ ترک کر دے اور وہ امید اس کو گناہ و معصیت کی زندگی کا بیباک راہرو بنا دے، حقیقت میں امید نہیں ہے بلکہ نفس کا فریب آرزو اور شیطان کا دھوکا ہے۔ حضرت معروف کرخی (رح) فرماتے ہیں۔ عمل کے بغیر جنت کی طلب گناہوں میں سے ایک گناہ ہے (خدا ترسی و پاکیزگی عمل کا ذریعہ وتعلق اختیار کئے بغیر شفاعت کی امید فریب کی ایک قسم ہے اور اس ذات کی رحمت کا امیدوار ہونا کہ جس کی اطاعت فرمانبرداری نہ کرے بڑی جہالت و حماقت ہے۔ حضرت حسن بصری (رح) نے فرمایا۔ اللہ کے بندو۔ ان باطل آرزوؤں اور جھوٹی امیدوں سے دور رہو جو حماقت کی وادی ہے اور جس میں لوگ گرے ہوئے ہیں اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے کسی بندے کو محض اس کی آرزوؤں کے سہارے نہ دنیا میں کامیابی و کامرانی سے نوازا ہے اور نہ آخرت کی خیر و فلاح کا مستحق گردانا ہے۔ حضرت عمرو بن منصور (رح) نے اپنے متعلقین میں سے ایک شخص کو لکھا تھا۔ نادان ! تم اپنی عمر کی درازی کے آرزو مند ہو اور اللہ تعالیٰ سے اس بات کے امید وار ہو کہ وہ تمہارے بدعملیوں کے باوجود تمہیں اپنی رحمت سے نوازے ؟ ہوش میں آؤ، یہ کیا ٹھنڈا لوہا کوٹنے کی سعی میں مصروف ہو۔

【8】

اللہ ترس لوگوں کے لئے دولت بری چیز نہیں

نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول کریم ﷺ آ کر ہمارے درمیان تشریف فرما ہوگئے، اس وقت آپ ﷺ کے سر مبارک پر غسل کے پانی کی تری تھی، ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اس وقت ہم آپ ﷺ کو بہت خوش دل وشادماں دیکھ رہے ہیں (جس کے آثار چہرہ اقدس پر نمایاں ہیں) حضور ﷺ نے فرمایا ہاں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اہل مجلس دولتمندی کے ذکر میں مشغول ہوگئے یعنی آپس میں یہ گفتگو کرنے لگے کہ مالداری دولتمندی اچھی چیز ہے یا بری چیز ! رسول کریم ﷺ نے ہماری یہ گفتگو سن کر فرمایا۔ اس شخص کا دولت مند ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور جسم کی صحت مندی، اللہ سے ڈرنے والے یعنی متقی و پرہیز گار شخص کے لئے دولت مندی سے زیادہ بہتر ہے (اگرچہ وہ صحت مندی فقر و افلاس کے ساتھ کیوں نہ ہو) نیز شادمانی وخوش دلی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے (جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر کا ادا کرنا واجب ہے اور اس کے بارے میں قیامت کے دن بندہ سے سوال ہوگا، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے آیت (ثُمَّ لَتُسْ َ لُنَّ يَوْمَى ِذٍ عَنِ النَّعِيْمِ ) 102 ۔ التکاثر 8) (احمد)

【9】

مال ودولت مومن کی ڈھال ہے

حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ اگلے زمانہ میں مال کو برا سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں میں زہد و قناعت بہت زیادہ تھی، علاوہ ازیں اس وقت کے بادشاہوں اور حاکموں کی طرف سے اپنی رعایا کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کا خاص انتظام ہوتا تھا اور لوگ بلا کسی سعی و کوشش کے اور بغیر کسی الجھن و پریشانی کے گھر بیٹھے قوت لایموت حاصل کرلیتے تھے، نیز اس سلسلے میں ان بادشاہوں اور حاکموں کے کسی تعامل و رویہ سے اپنے تئیں کوئی ذلت و خواری بھی محسوس نہیں کرتے تھے اس لئے روپیہ پیسہ کمانے اور مال و دولت حاصل کرنے کو برا سمجھا جاتا تھا، لیکن جہاں تک اس زمانہ کا تعلق ہے تو اب مال و دولت مسلمانوں کی ڈھال ہے (کیونکہ آج کل کے لوگوں میں زہد و قناعت کے جذبات مضمحل ہوگئے ہیں اور ضروریات زندگی کی احتیاج کا بہت زیادہ غلبہ ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں اب سلاطین وامراء اور حکومتوں کی طرف سے لوگوں کی کفالت کا کوئی نظم بھی باقی نہیں رہا ہے نتیجہ کے طور پر اگر کوئی شخص کسب و محنت کر کے مال حاصل نہ کرے تو اس کو اپنی ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے ان لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے جو مالی و اخلاقی ومدد اعانت سے زیادہ ذلیل و خوار کرتے ہیں پس اس صورت میں حلال مال مومن کے لئے بہت بڑی ڈھال ہے جس کے ذریعہ وہ نہ صرف حرام و مشتبہ معاملات میں پڑنے سے بچتا ہے بلکہ دنیا دار امراء اور ظالموں کی مصاحبت و حاشیہ نشینی کی ذلت و خواری سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے۔ حضرت سفیان نے یہ بھی فرمایا کہ اگر ہم لوگوں کے پاس یہ درہم و دینار اور روپیہ پیسہ نہ ہوتا تو یہ آج کل کے سلاطین وامراء ہمیں ذلیل و پامال کر ڈالتے، نیز انہوں نے فرمایا۔ کسی شخص کے پاس اگر تھوڑا بہت بھی مال ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کی اصلاح کرے یعنی اس تھوڑے سے مال کو یوں ہی ضائع نہ ہونے دے بلکہ تدبیر و ہنرمندی کے ساتھ اس کو کسی تجارت وغیرہ میں لگا کر بڑھانے کی سعی کرے یا یہ کہ اس کو بہت کفایت و قناعت کے ساتھ خرچ کرے تاکہ جلدی ختم نہ ہوجائے کیونکہ ہمارا یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی محتاج ومفلس ہوتا تو دنیا حاصل کرنے کی خاطر اپنے دین کو اپنے ہاتھ سے گنوانے والا سب سے پہلے شخص وہی ہوگا۔ حضرت سفیان (رض) کا ایک قول یہ بھی ہے کہ حلال مال، اسراف کا روادار نہیں ہوتا۔ (شرح السنہ) تشریح حضرت سفیان (رح) کے آخری قول کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص محنت ومشقت برداشت کر کے اور جائز وسائل و ذرائع سے جو کچھ کماتا ہے وہ بڑا پاکیزہ مال ہوتا ہے، لہٰذا اس کو چاہئے کہ وہ اپنے اس حلال و پاکیزہ مال کو فضول خرچیوں میں ضائع نہ کرے بلکہ کفایت شعاری اور احتیاط کے ساتھ خرچ کرے اور تھوڑا بہت پس انداز کرنے کی کوشش بھی کرے اور اس کی حفاظت کرے تاکہ وہ کسی فوری ضرورت کے وقت کسی کا محتاج نہ رہے اور قلبی اطمینان واستغناء کی وجہ سے اپنے دین کی سلامتی حاصل رہے۔ یا اس قول کے یہ معنی ہیں کہ محنت ومشقت اور جائز وسائل و ذرائع سے کمایا ہوا مال اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ اس کو فضول خرچیوں میں ضائع کیا جاسکے۔ بلکہ وہ بہت تھوڑا اور مختصر ہوتا ہے کہ جائز ضروریات زندگی کو بھی مشکل ہی سے پورا کر پاتا ہے۔

【10】

ساٹھ سال کی عمر، بڑی عمر ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اعلان کرنے والا (فرشتہ) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ اعلان کرے گا کہ ساٹھ سال کی عمر والے لوگ کہاں (یعنی دنیا میں جن لوگوں نے ساٹھ سال کی عمر پائی، وہ اپنی عمر کا حساب دینے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور یہ عمر، وہ عمر ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے۔ کیا ہم نے تم کو ایسی عمر نہیں دی جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرے حالانکہ تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ تشریح ڈرانے والا سے مراد یا تو اللہ تعالیٰ کے احکام و ہدایات یعنی قرآن مجید اور اس کے رسول ہیں، یا پھر اس سے مراد بڑھاپا اور موت ہیں، حاصل یہ کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اتنی طویل عمر عطا کی ہو اور آخرت کی طرف متوجہ ہونے کے اتنے زیادہ مواقع نصیب کئے ہوں وہ شخص اگر عقل و دانش سے کام لے کر اپنی آخرت کی بھلائی و کامیابی کے لئے کچھ نہ کرسکے اور عمر کا اتنا طویل عرصہ یوں ہی گنوا کر اس دنیا سے چلا جائے تو اس سے زیادہ احمق ونادان اور اس سے زیادہ بدنصیب اور کون ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو قیامت کے دن سخت جواب دہی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہاں کوئی اور عذر خواہی اس کے کام نہیں آئے گی۔

【11】

حسن عمل کے ساتھ عمر کی زیادتی درجات کے بلندی کا باعث ہے

حضرت عبداللہ بن شداد کہتے ہیں، بنی عذرہ کے قبیلہ کے کچھ لوگ کہ جن کی تعداد تین تھی، نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا (اور پھر وہ لوگ حصول دین کی خاطر اور اللہ کی راہ میں ریاضت و مجاہدہ کی نیت سے حضور ﷺ کے پاس ٹھہر گئے، ان کی مالی حالت چونکہ بہت خستہ تھی اور وہ ضروریات زندگی کی کفالت خود کرنے پر قادر نہیں تھے لہٰذا) رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کون ہے جو ان لوگوں کی خبر گیری کے سلسلے میں مجھے بےفکر کر دے ؟ (یعنی آپ ﷺ نے صحابہ (رض) سے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جو ان لوگوں کی ضروریات زندگی کی کفالت اور ان کی خبر گیری و دلداری کی ذمہ داری برداشت کرسکے، تاکہ مجھے ان کا خبر گیراں بننے کی ضرورت نہ رہے اور میں ان کی طرف سے بےفکر ہوجاؤں) حضرت طلحہ (رض) نے عرض کیا کہ میں اس ذمہ داری کو قبول کرتا ہوں چناچہ وہ تینوں حضرت طلحہ (رض) کے پاس رہنے لگے (کچھ دنوں کے بعد) نبی کریم ﷺ نے کسی طرح ایک لشکر بھیجا تو اس لشکر کے ساتھ ان تینوں میں سے بھی ایک شخص گیا اور میدان جنگ میں دشمنوں سے لڑتا ہوا شہید ہوگیا، اس کے بعد حضور ﷺ نے ایک اور لشکر بھیجا اس کے ساتھ دوسرا شخص گیا اور وہ بھی دشمنوں سے لڑتے ہوا شہید ہوگیا اور پھر تیسرا شخص اپنے بستر پر اللہ کو پیارا ہوگیا اور یہ شخص اگرچہ میدان جنگ میں شہیدا ہونے کا موقع نہیں پاسکا لیکن مرابط ضرور تھا اور میدان جنگ میں دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کی نیت بھی رکھتا تھا، راوی کہتے ہیں کہ حضرت طلحہ (رض) نے بیان کیا کہ ان تینوں میں سے دو کی شہادت اور ایک کی قدرتی موت کے بعد ایک دن خواب میں میں نے دیکھا کہ تینوں جنت میں ہیں نیز میں نے دیکھا کہ جو شخص اپنے بستر پر اللہ کو پیارا ہوا تھا وہ تو سب سے آگے ہے اور جو شخص دوسرے لشکر کے ساتھ جا کر شہید ہوا تھا، سب سے آخر میں ہے، چناچہ ان تینوں کو اس طرح ایک دوسرے کے آگے پیچھے دیکھ کر میرے دل میں خلجان پیدا ہوگیا کہ قاعدہ کے مطابق تو سب سے آگے اور نمایاں اس شخص کے ہونا چاہئے تھا جو پہلے اللہ کی راہ میں شہید ہوا تھا یا یہ کہ دونوں شہید ایک ساتھ برابر ہوتے کیونکہ دونوں شہید ہونے کی حیثیت سے یکساں مرتبہ کے مستحق تھے اور جو شخص اپنے بستر پر فوت ہوا تھا اس کو سب سے آخر میں ہونا چاہئے تھا، لیکن میں نے ان تینوں کو جس ترتیب کے ساتھ دیکھا وہ میرے لئے بڑی تعجب انگیز اور شک وشبہ میں مبتلا کرنے والی تھی چناچہ میں نے نبی کریم ﷺ سے اپنے اس خواب کا ذکر کیا حضور ﷺ نے وہ خواب اور اس پر میرا رد عمل سن کر فرمایا تو پھر اس میں تمہارے شک وشبہ اور انکار کی باعث کون سی چیز ہے ؟ تم نے اپنے خواب میں ان تینوں کو جس ترتیب کے ساتھ دیکھا ہے وہ بالکل موزوں ہے کیونکہ اللہ کے نزدیک اس مسلمان سے زیادہ افضل کوئی نہیں ہے جس نے اسلام کی حالت میں زیادہ عمر پائی اور اس کی وجہ سے اس کو اللہ کی تسبیح وتکبیر اور تہلیل اور دیگر تمام مالی وبدنی عبادتوں کا زیادہ موقع ملا۔ تشریح ظاہر ہے کہ جس شخص نے بعد میں شہادت پائی اس کی عمر پہلے شہید ہونے والے کی عمر سے زائد ٹھہری اور جب اس کی عمر زیادہ ہوئی تو اس کے اچھے عمل بھی زیادہ ہوئے، لہٰذا پہلے شہید ہونے والے شخص سے اس کا افضل و برتر ہونا کسی شک وشبہ کا محل نہیں ہوسکتا، رہی اس شخص کی بات جو اپنے دونوں ساتھیوں کے بعد اپنے بستر پر فوت ہوا تو اس کی عمر گویا ان دونوں سے زائد ہوئی اور اسی اعتبار سے اس کے عمل بھی ان دونوں کے عمل سے زیادہ ہوئے اس لئے وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے کہ جو اگرچہ میدان جنگ میں شہید ہوئے تھے زیادہ افضل قرار پایا، لیکن اس کے بارے میں وہی توجیہ مدنظر رہنی چاہئے جو دوسری فصل میں حضرت عبید بن خالد کی روایت کی تشریح میں بیان کی جا چکی ہے جس کی طرف یہاں بھی ترجمہ کے دوران بین القوسین اشارہ کردیا گیا ہے کہ وہ شخص گو شہادت نہیں پاسکا تھا مگر مرابط ہونے اور جہاد کرنے کی صادق نیت رکھنے کی وجہ سے شہید ہی کے مرتبہ کا حامل قرار دیا گیا۔

【12】

عبادت گزار زندگی کی اہمیت

حضرت محمد بن ابوعمیرہ (رض) جو رسول کریم ﷺ کے صحابہ (رض) میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ اگر کوئی بندہ اپنی پیدائش کے وقت سے، بڑھاپے میں مرنے تک اپنی پوری اور طویل زندگی کے دوران صرف اللہ کی طاعت و عبادت میں سرنگوں رہے تو وہ بھی اس قیامت کے دن عمل کا ثواب دیکھ کر اپنی اس تمام طاعت و عبادت کو بہت کم جانے گا اور یہ آرزو کرے گا کہ کاش اس کو دنیا میں پھر بھیج دیا جائے تاکہ اس کا اجر وثواب زیادہ ہوجائے۔ (ان دونوں روایتوں کو امام احمد نے نقل کیا ہے) ۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ عمر کا طویل ہونا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے بشرطیکہ اس لمبی عمر کو یوں ہی ضائع نہ کردیا جائے بلکہ اس کو اللہ کی اطاعت و عبادت، دین کی خدمت اور اچھے کاموں میں صرف کیا جائے۔ لہٰذا عمر جس قدر زیادہ ہوگی اس قدر اعمال صالحہ بھی زیادہ ہوں گے اور اعمال صالحہ جتنے زیادہ ہوں گے اتنا ہی زیادہ اجر وثواب بھی حاصل ہوگا جو قیامت کے دن سب سے بڑا سرمایہ ہوگا۔ چناچہ عبادت گزار زندگی کی اسی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ کوئی شخص اس دنیا میں پیدا ہوتے ہی، یا یہ کہ بالغ ہوتے ہی اللہ کی طاعت و عبادت میں مصروف ہوجائے اور بڑھاپے کی عمر میں پہنچ کر وفات پانے کے وقت تک بس سجدہ و نماز ہی میں منہ کے بل پڑا رہے اور اس کی زندگی کا کوئی بھی لمحہ دنیاوی کام میں صرف نہ ہو تو وہ شخص بھی قیامت کے دن طاعت و عبادت اور اعمال صالحہ کے اجر وثواب کی فضیلت و اہمیت دیکھ کر اپنی اس طویل عمر کی تمام طاعات و عبادات کو بہت کم جانے گا اور یہی آرزو کرے گا کہ کاش ! مجھے طاعت و عبادت اور اچھے اعمال کرنے کا ارادہ اور موقع مل جائے اور مجھے دنیا میں واپس کردیا جائے تاکہ میں وہاں زیادہ سے زیادہ عمل کرسکوں اور زیادہ سے زیادہ اجر وثواب لے کر یہاں آؤں۔