158. رونے اور ڈرنے کا بیان

【1】

ریاء کی تعریف

ریاء رویت سے مشتق ہے اور صراح میں لکھا ہے کہ ریاء کے معنی ہیں اپنے آپ کو لوگوں کی نظر میں اچھا بنا کر پیش کرنا۔ اور عین العلم میں لکھا ہے کہ ریاء کا مطلب یہ ہے اپنی عبادت ونی کی کا سکہ جمانا اور اس کے ذریعہ لوگوں کی نظر میں اپنی قدر و منزلت چاہنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ریاء کا تعلق خاص طور پر ان چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے جو عبادت ونی کی کے ظاہری عمل کہلاتے ہیں اور جو چیزیں کہ از قسم عبادت نہ ہوں جیسے کثرت مال ومتاع، علم و ذہانت کی فراوانی، اشعار وغیرہ کا یاد رکھنا اور نشانہ بازی کی مہارت وغیرہ تو ان میں دکھاوے کے لئے کئے جانے والے کام کو ریاء نہیں کہا جاتا بلکہ وہ افتخار وتکبر (ناز و گھمنڈ) کی ایک قسم کہلاتا ہے اسی طرح نیکی و عبادت کے ظاہری اعمال میں بھی اگر کوئی کام اس صورت میں لوگوں کو دکھانے کے لئے کیا جائے جب کہ اس کا مقصد عزت وجاہ کی طلب نہ ہو، جیسا کہ بعض مشائخ اپنے مریدوں کو تلقین وتعلیم، لوگوں کے دلوں کو نیک اعمال کی طرف مائل کرنے اور ان کو اتباع و پیروی کی طرف راغب کرنے کے لئے بعض اعمال اس طرح کرتے ہیں کہ لوگ ان کو دیکھیں تو یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ریا نہیں کہلائے گا اگرچہ ظاہر میں ان کا وہ عمل ریاء کاری معلوم ہو اسی وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ ریاء الصدیقین خیر من اخلاص المریدین یعنی اونچے درجہ کے مشائخ اور بزرگوں کا ریاء مریدین کے اخلاص یعنی عدم ریاء کاری سے بہتر ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ریاء اصل میں اس چیز کا نام ہے کہ کسی شخص کی ذات میں واقعۃً کوئی صفت و کمال ہو اور وہ اپنے اس واقعی وصف و کمال پر لوگوں کے سامنے نمایاں کرے اور یہ خواہش رکھے کہ لوگ اس کے اس وصف و کمال کو جانیں تاکہ ان کی نظر میں قدر و منزلت اور عزت و وقعت حاصل ہو۔ پس جو شخص کسی ایسے وصف و کمال کو اپنی طرف منسوب کر کے لوگوں پر ظاہر کرے کہ جو واقعۃ اس کی ذات میں نہیں ہے تو اس کو ریاء نہیں بلکہ خالص کذب اور منافقت کہا جائے گا اسی پر قیاس کر کے یہ کہا گیا ہے کہ غیب اس چیز کا نام ہے کہ کسی شخص کی پیٹھ پیچھے اس کا وہ عیب بیان کیا جائے تو واقعتا اس کی ذات میں موجود ہو اور اگر اس کی طرف منسوب کر کے کوئی ایسا عیب بیان کیا جائے جو حقیقت کے اعتبار سے اس کی ذات میں نہیں ہے تو اس کو افتراء اور بہتان کہیں گے۔

【2】

ریاء کی قسمیں

ریاء کی مختلف اقسام اور صورتیں ہیں اور ان اقسام میں سب سے زیادہ بری اور نہایت قابل نفریں وہ قسم ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا قصد اور حصول ثواب کا ارادہ قطعا نہ ہو بلکہ واحد مقصد لوگوں کو دکھانا اور ان کی نظر میں قدر و منزلت حاصل کرنا، جیسا کہ خالص ریاء کار بلکہ دھوکا باز لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ جب وہ لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں تو نماز پڑھتے ہیں اور مختلف قسم کے اوراد و وظائف میں مشغول رہتے ہیں، لیکن جب تنہا ہوتے ہیں تو نہ نماز سے سروکار رکھتے ہیں اور نہ اوراد وظائف سے بلکہ ان بدنصیبوں کی حالت تو یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ نماز میں بغیر پاکی اور وضو کے ہی کھڑے ہوجاتے ہیں ریاء کاری کی یہ قسم ارذل ترین اور اللہ تعالیٰ کے سخت غضب وقہر کے نازل ہونے کا باعث ہے اور اس صورت میں کیا جانے والا کوئی بھی عمل قطعی باطل ہوتا ہے، بلکہ بعض حضرات نے تو یہاں تک کہا ہے اگر وہ عمل فرض ہو تو اس کا کرنا فرض کے ادا ہوجانے کے حکم میں نہیں ہوگا بلکہ اس کی قضا واجب ہوگی دوسری قسم وہ صورت ہے جس میں کسی نیک عمل کرنے میں دونوں چیزیں ہوں یعنی ارادہ ثواب بھی اور ریاء کاری بھی (دکھانے کی نیت) لیکن ریا کا پہلو غالب ہو اور ارادہ ثواب کا پہلو ضعیف ہو، بایں حیثیت کہ اگر اس عمل کو کرنے والا تنہائی میں ہوتا تو اس عمل کو نہ کرتا اور اس کا قصد اس عمل کے صدور کا باعث نہ ہوتا اور اگر بالفرض اس عمل کا ثواب کوئی نہ ہوتا تو بھی محض ریاء کاری کا جذبہ ہی اس عمل کو اختیار کرنے کا باعث بن جاتا، اس قسم کا بھی وہی حکم ہے جو پہلی قسم کا ہے۔ تیسری قسم وہ صورت ہے جس میں کسی نیک عمل کو اختیار کرنے میں دونوں چیزیں یعنی ریاء کاری کا جذبہ اور حصول ثواب کا ارادہ برابر ہوں، بایں حیثیت کہ اگر بالفرض وہ عمل ان دونوں چیزوں میں سے بھی ایک چیز سے خالی ہوتا تو اس کو اختیار کرنے کا کوئی داعیہ پیدا نہ ہوتا بلکہ اس عمل کی طرف رغبت اسی صورت میں ہوتی جب کہ دونوں چیزیں ایک ساتھ پائی جاتی۔ اس قسم کے بارے میں بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نفع، نقصان، دونوں برابر ہوں، لیکن احادیث و آثار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قسم بھی مذموم اور اس صورت میں کیا جانے والا عمل بھی ناقابل قبول ہوتا ہے اور چوتھی قسم وہ صورت ہے کہ جس میں کسی نیک عمل کو اختیار کرنے میں، ثواب کی نیت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ارادہ، راجح اور غالب ہو اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قسم نہ تو محض باطل ہے اور نہ اس میں کوئی نقصان ہے، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے۔ کہ اس صورت میں اختیار کیا جانے والا عمل نیت و ارادہ کے اعتبار سے ثواب اور عتاب دونوں کا یکساں طور پر باعث ہوتا ہے کہ ارادہ و نیت میں جس قدر اخلاص یا عدم اخلاص ہوگا اسی کے مطابق ثواب یا عتاب ہوگا، نیز اس صورت میں یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ قصد عمل میں ریاء کاری کی جو آمیزش ہے (جو اگرچہ ثواب کے ارادہ ونیت سے کمتر اور ضعیف ہے) وہ کب پیدا ہوئی ہے ؟ اگر ریاء کاری کی آمیزش ابتداء عمل میں ہوئی ہے تو یہ صورت زیادہ بری کہلائے گی اور اگر عمل کے درمیان پیدا ہوئی ہے تو یہ صورت پہلی صورت سے کم برائی کی حامل ہوگی اور اگر یہ عمل کرنے کے بعد آئی ہے تو یہ صورت دوسرے صورت سے بھی کم تر قرار دی جائے گی اور اس کی وجہ سے اختیار کیا جانے والا عمل باطل نہیں کہلائے گا۔ علاوہ ازیں ایک فرق یہ بھی ملحوظ رکھا جائے گا کہ ریاء کاری کا وہ جذبہ اگر پختہ قصد و عزم کی صورت میں نمودار ہوا ہے تو اس میں زیادہ برائی ہوگی اور اگر محض ایک خیال کی صورت میں پیدا ہو اور اس خیال ہی کی حد تک محدود رہا، آگے کچھ نہ ہوا تو یہ صورت حال یقینا زیادہ نقصان دہ نہیں کہلائے گی۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ ریاء ایک ایسا جذبہ ہے جس سے پوری طرح خلاصی نہایت دشوار ہے اور ہر حالت میں حقیقی اخلاص کا پایا جانا بہت مشکل، اسی لئے علماء نے یہاں تک لکھا ہے کہ کسی کے منہ سے اپنی تعریف سن کر خوش ہونا ریاء کے پائے جانے کی علامت ہے، اسی طرح تنہائی میں کوئی عمل کرتے وقت بھی دل میں ریاء کا خیال آجائے تو وہ بھی ریاء ہی کہلائے گا۔ اللہ اس سے اپنی پناہ میں رکھے اور بہر صورت اخلاص عطا فرمائے کہ اس کی مدد و توفیق کے بغیر اس دولت کا ملنا ممکن ہی نہیں ہے۔ علماء نے ایک خاص صورت وحالت اور بیان کی ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص کوئی نیک کام کرے اور کسی عبادت وطاعت میں مصروف ہو اور لوگ اس کو وہ نیک کام اور عبادت وطاعت کرتا ہوا دیکھ لیں تو اس کو چاہئے کہ اس وقت اپنے اندر اس وقت اس بات پر خوشی ومسرت کے جذبات پیدا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور لطف و عنایت سے نیک عمل کی توفیق عطا فرمائی اور لوگوں کی نظر باعزت بنانے کا یہ سبب پیدا فرمایا کہ گناہوں اور عیوب کی تو پردہ پوشی فرمائی اور نیک اعمال و اخلاق کو آشکارا فرمایا اور ان جذبات مسرت کے ساتھ یہ نیت وقصد رکھے کہ اگر میرے نیک عمل کے اظہار سے دین و طاعات کا چرچہ ہوتا ہے تو لوگ دین کی طرف راغب ہوں گے اور ان کے اندر بھی نیک اعمال کو اختیار کرنے کا داعیہ پیدا ہوگا۔ یہ چیز نہ صرف یہ کہ ریاء کے حکم میں داخل نہیں ہوگی، بلکہ اس کو محمود ومستحسن بھی کہا جائے گا جیسا کہ اس سلسلے میں وارد احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ مسئلہ بہت دقیق وپیچیدہ ہے اور اپنے اندر بہت تفصیل و مباحث رکھتا ہے، اگر اس کی تحقیق زیادہ وضاحت کے ساتھ جاننی ہو تو اہل اللہ اور عارفین کی کتابوں اور ان کے اقوال وملفوظات سے راہنمائی حاصل کرنی چاہئے، خصوصا مشہور کتاب احیاء العلوم اس سلسلے میں زیادہ بہتر رہبری کرسکتی ہے۔

【3】

سمعہ کا مطلب

سمعۃ (سین کے پیش اور میم کے جزم کے ساتھ) کے معنی ہیں وہ کام جو لوگوں کے سنانے اور شہرت حاصل کرنے کے لئے کیا جائے عام طور پر اس لفظ کا استعمال ریاء کے ساتھ ہوتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے فلاں شخص نے یہ کام ریا وسمعہ یعنی دکھانے سنانے کے لئے کیا۔ گویا ریاء کا تعلق تو حاسہ بصر (دکھانے) کے ساتھ ہوتا ہے اور سمعہ کا تعلق حاسہ سمع (سنانے) کے ساتھ۔

【4】

خدا صورت اور مال کو نہیں دیکھتا، دل کو دیکھتا ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مال ومتاع کو نہیں دیکھتا (یعنی اس کی نظر رحمت و عنایت میں تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کا کوئی اعتبار نہیں ہے، کیونکہ اس کے نزدیک نہ تو اچھی یا بری صورت کی کوئی حیثیت ہے اور نہ مال ومتاع کی کمی یا بیشی کی کوئی اہمیت ہے) بلکہ وہ تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے (یعنی اس کے ہاں تو بس اس چیز کو دیکھا جاتا ہے کہ تمہارے دل میں یقین وصدق اور اخلاص وغیرہ، یا نفاق اور ریاء وسمعہ وغیرہ، اسی طرح اس کے نزدیک اچھے اور برے اعمال کا اعتبار جس کے مطابق وہ تمہیں جزا و سزا دیتا ہے۔ (مسلم)

【5】

غیر مخلصانہ عمل کی کوئی اہمیت نہیں

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں شرک کے تئیں تمام شرکاء سے نہایت زیادہ بےنیاز ہوں، یعنی دنیا کا دستور ہے کہ لوگ اپنے معاملات اور کاروبار میں ایک دوسرے کے اشتراک و تعاون کے محتاج ہوتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے شریک بنتے ہیں، نیز وہ اس شرکت و تعاون پر راضی و مطمئن بھی ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے درمیان اس درجہ کی مفاہمت ہوتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک شریک متعلقہ معاملات و کاروبار میں اپنا پورا عمل دخل رکھتا ہے، لیکن میرا معاملہ بالکل جداگانہ ہے کہ میں علی الاطلاق خالق وحاکم ہوں اپنے احکام و فیصلے اور اپنے نظام قدرت میں نہ تو مجھے کسی کے تعاون و اشتراک کی حاجت و ضرورت ہے اور نہ مجھے یہ گوارا ہے کہ میرے بندے کسی کو میرا شریک قرار دیں اور میرے لئے کئے جانے والے کسی بھی عمل میں میرے علاوہ کسی اور کو مدنظر رکھیں۔ یہاں تک کہ میرے نزدیک ان کے صرف اسی عمل کا اعتبار ہے جو وہ خالص طور پر میرے لئے کریں۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا ذکر شرکاء کے ضمن میں کرنا یعنی اللہ اپنے کو ایک شریک کے ذریعہ تعبیر کرنا محض ان بندوں کے اعتبار سے ہے جو اپنے جہل اور اپنی نادانی کی وجہ سے اس کی ذات وصفات اور اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرتے اور اس طرح وہ اللہ کو بھی ایک شریک کا درجہ دیتے ہیں نعوذ باللہ اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اس بات سے اپنی بےنیازی اور ناخوشی کا اعلان فرمایا کہ کسی کو اس کا شریک قرار دیا جائے، چناچہ ارشاد ہوا کہ جو شخص میری طاعت و عبادت کے طور پر کوئی ایسا عمل کرے کہ جس میں وہ میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کرے تو میں اس شخص کو شرک کے ساتھ ٹھکرا دیتا ہوں۔ اور ایک روایت میں ترکتہ وشرکہ کے بجائے یہ الفاظ ہیں فانا منہ بری ہو للذی عملہ یعنی جو شخص میری عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرتا ہے تو میں اس سے اپنی بےنیازی و بیزاری ظاہر کرتا ہوں، وہ شخص یا اس کا وہ عمل اسی کے لئے ہے جس کے لئے اس نے وہ عمل کیا ہے۔ (مسلم) تشریح اس حدیث کا ظاہری مفہوم اس بات کو واضح کرتا ہے کہ خالص ریاء کاری کے جذبہ سے کیا جانے والا عمل تو باطل ہو ہی جاتا ہے لیکن اس عمل کا بھی کوئی فوت ہوجاتا ہے جس میں ریاء کی آمیزش اور اس کا دخل ہوجائے۔ لیکن علماء نے کہا ہے کہ یہ حکم اس عمل کے بارے میں ہوگا جو ریاء کی ان دو قسموں سے تعلق رکھے کہ یا تو اس عمل کو اختیار کرنے میں سرے سے ثواب کی نیت ہی نہ ہو یا ثواب کی نیت تو ہو مگر ریاء کا قصد اس نیت پر غالب ہو اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس حدیث کا اصل مقصد اللہ کے لئے کئے جانے والے کسی بھی عمل کو ریا کی آمیزش اور اس کے دخل سے پاک رکھنے کو بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کرنا اور اس کے امر سے لاپرواہی اختیار کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ تنبیہ وسرزنش کرنا ہے۔

【6】

دکھانے سنانے کے لئے عمل کرنے والوں کے بارے میں وعید

حضرت جندب (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص لوگوں کو سنانے اور شہرت حاصل کرنے کے لئے کوئی عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کا حال لوگوں کو سنائے گا ذلیل و رسوا کرے گا نیز جو شخص لوگوں کو دکھانے کے لئے کوئی عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ریاء کاری کی سزا دے گا یعنی قیامت کے دن اس سے کہے گا کہ اپنا اجر وثواب اسی سے مانگو جس کے لئے تم نے وہ عمل کیا تھا۔ (بخاری ومسلم) تشریح بعض حضرات نے کہا ہے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کوئی نیک کام محض شہرت وناموری اور حصول عزت وجاہ کے لئے کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں اس کے ان عیوب اور برے کاموں کو اپنی مخلوق کے سامنے ظاہر کر دے گا جن کو وہ چھپاتا ہے اور لوگوں کی نظر میں اس کو ذلیل و رسوا کر دے گا، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی فاسد نیت اور بری غرض کو دنیا والوں پر آشکار کردیتا ہے اور قیامت کے دن بھی اپنی مخلوق پر کھول دے گا کہ یہ شخص مخلص نہیں تھا، ریاء کار تھا۔ اور بعض علماء نے یہ مراد بیان کی ہے کہ جو شخص اپنا کوئی عمل لوگوں کو سنائے گا یا وہ عمل لوگوں کو دیکھائے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اس نیک عمل کا ثواب صرف اس کو سان اور دکھا دے گا، دے گا نہیں تاکہ وہ حسرت و افسوس زدہ رہے، یا یہ مراد ہے کہ جو شخص اپنا کوئی نیک عمل لوگوں کو سنائے گا، یا وہ عمل لوگوں کو دکھائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی نیت کے مطابق اس کا وہ عمل لوگوں کو سنا اور دکھا دے گا اور گویا اس کے اس عمل کا یہی اجر وثواب ہوگا جو اس کو اسی دنیا میں مل جائے اور آخرت کے اجر وثواب سے قطعا محروم رہے گا۔

【7】

کسی عمل خیر کی وجہ سے خود بخود مشہور ہوجانا ریا نہیں ہے

حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ مجھے اس شخص کے بارے میں بتائیے جو کوئی نیک کام کرتا ہے اور اس کی وجہ سے لوگ اس کی تعریف و توصیف کرتے ہیں۔ اور ایک روایت میں لوگ اس کی تعریف و توصیف کرتے ہیں کے بعد یہ بھی ہے، کہ اور وہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں (ایسے شخص کا کیا حکم ہے اس کا اجر وثواب کالعدم ہوجاتا ہے یا نہیں ؟ ) حضور ﷺ نے یہ سوال سن کر فرمایا کہ لوگوں کا اس شخص کی تعریف و توصیف کرنا اور اس کو محبوب رکھنا درحقیقت اس کے حق میں مومن کے ذریعہ جلد ملنے والی بشارت ہے۔ (مسلم) تشریح جلد ملنے والی بشارت کا مطلب یہ ہے کہ ایک سعادت و بشارت تو وہ ہے جو باقی ہے اور آخرت میں ملے گی اور ایک سعادت و بشارت یہ ہے کہ جو جلد ہی یعنی اسی دنیا میں مل گئی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے اس عمل خیر کا اصل ثواب آخرت میں پانے سے پہلے ایک اور اجر وثواب اسی دنیا میں یہ پا لیا کہ لوگوں نے اس کی تعریف و توصیف کی اور اس کو اپنا محبوب قلب ونظر بنا لیا اور اس کے حق میں لوگوں کو یہ معاملہ گویا اس بات کی بشارت ہے کہ اس کا وہ عمل خیر مقبول ہوگیا اور وہ آخرت میں اجر وثواب پائے گا۔ بہرحال حضور ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ یہ واضح فرمایا کہ اس شخص کا وہ عمل خیر کہ جس کی وجہ سے وہ دنیا والوں کی نظر میں قابل احترام اور محبوب بنا ہے ریاء نہیں کہلائے گا کیونکہ اس کو اس عزت و احترام اور محبت کے حاصل ہونے میں اس کے اپنے قصد و ارادہ کو کوئی دخل نہیں ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس عمل خیر کو اختیار کرنے میں اس کی نیت اور اس کا قصد و ارادہ، اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور ثواب آخرت کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا، یہ تو محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس شخص کو اس دنیا میں بھی مذکورہ سعادت کی صورت میں اجر وثواب عطا فرما دیا۔

【8】

شرک وریا کے بارے میں ایک وعید

حضرت ابوسعید بن فضالہ (رض) رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہ جس کے آنے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے، لوگوں کو حساب اور جزا و سزا کے لئے جمع فرمائے گا، تو ایک اعلان کرنے والا فرشتہ یہ اعلان کرے گا کہ جس شخص نے اپنے اس عمل میں کہ جس کو اس نے اللہ کے لئے کیا تھا، اللہ کے سوا کسی اور کو شریک کیا ہو یعنی جس شخص نے دنیا میں ریاء کے طور پر کوئی نیک عمل کیا ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے اس عمل کا ثواب اسی غیر اللہ سے طلب کرے جس کو اس نے شریک کیا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ شرک کے تئیں، تمام شریکوں سے نہایت زیادہ بےنیاز ہے۔ (احمد) تشریح طیبی کہتے ہیں لیوم میں حرف لام جمع سے متعلق ہے جس کے معنی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو اس دن کے لئے جمع کرے گا کہ جس کا پیش آنا یقینی امر ہے اور اس دن کے آنے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے اور یہ جمع کرنا اس کے لئے ہوگا کہ ہر ایک کو چیز کے مطابق جزا و سزا دے جس کو اس نے دنیاوی زندگی میں اختیار کیا۔ اس اعتبار سے یوم القیامۃ مابعد کے الفاظ کی تمہید کے طور پر ہے تاہم اس کو جمع کا ظرف بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی تائید اس روایت کے مطابق الفاظ سے ہوتی ہے جو استیعاب میں نقل کی گئی ہے کہ اذا کان یوم القیامۃ یجمع اللہ الاولین والاخرین لیوم لاریب فیہ الخ۔ اس صورت میں لیوم کے لفظ کو ایسا مظہر کیا جائے گا جو مضمر کی جگہ واقع ہوا ہو اور جو اس مفہوم کو ظاہر کرتا ہے کہ جمع اللہ الخلق یوم القیامۃ لیجزیہم فیہ یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام مخلوق کو جمع فرمائے گا تاکہ اس دن سب کو جزا و سزا دے۔

【9】

ریا کاری کی مذمت

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ جو شخص اپنے عمل کو لوگوں کے درمیان شہرت دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے اس ریا کارانہ عمل کو اپنی مخلوق کے کانوں تک پہنچا دے گا۔ (یعنی جو شخص کوئی نیک کام کر کے لوگوں کو یہ سنائے گا کہ اس نے یہ کام کیا ہے اور اس کے ذریعہ اس کا مقصد شہرت وعزت حاصل کرنا ہوگا اللہ تعالیٰ اس کی اس ریا کاری کو ظاہر کر دے گا اور لوگوں کے کانوں تک یہ بات پہنچا دے گا کہ یہ شخص ریا کار اور غیر مخلص ہے نیز (قیامت کے دن) اس کو رسوا کرے گا اور (دنیا وآخرت میں) ذلت و خواری سے دو چار کرے گا۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

【10】

نیت کے اخلاص وعدم اخلاص کا اثر

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جس شخص کی نیت محض آخرت کی طلب ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی اور اس کی پریشانیوں کو جمع کر کے اطمینان خاطر بخشتا ہے نیز اس کے پاس دنیا آتی ہے لیکن اس کی نظر میں اس دنیا کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ یعنی کسی بھی علمی یا عملی کار خیر کو اختیار کرنے کے سلسلے میں جس شخص کی نیت اور اصل مقصد، محض رضائے مولیٰ اور ثواب آخرت کی طلب ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو قدر کفایت پر قانع و صابر بتا کر اور زیادہ طلبی کی محنت ومشقت کے کشت ورنج سے بچا کر قلبی غنا عطا کردیتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس بات سے بےنیاز اور مستغنی ہوجاتا ہے کہ ریاء کاری کے ذریعہ لوگوں سے مال وجاہ اور عزت و منفعت حاصل کر کے آخرت کا نقصان و خسران مول لے۔ نیز اللہ تعالیٰ حصول معاش اور ضروریات زندگی کی تکمیل کے سلسلے میں ان کی پریشانیوں، الجھنوں اور ذہنی انتشار وتفکرات کو سمیٹ کر خاطر جمعی میں تبدیل کردیتا ہے، بایں طور کہ اس کو ایسی جگہوں اور ایسے ذرائع سے اسباب معیشت مہیا فرما دیتا ہے جن کے بارے میں اس کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور اس کے معاملات کو اس طرح استوار فرما دیتا ہے کہ اس کا وہم و گمان بھی اس کو نہیں ہوتا اور پھر ان تمام چیزوں کا مجموعی اثر یہ ہے ہوتا ہے کہ اس شخص کی نظر میں دنیا اور دنیا بھر کی نعمتیں اور لذتیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں، وہ دنیا سے دامن بچاتا ہے اور دنیا اس کے قدموں میں کھنچی چلی آتی ہے، اس کی ضروریات زندگی اور معیشت کے وہ اسباب جو اس کے لئے مقدر ہیں، بغیر کسی محنت ومشقت کے بغیر کسی سعی و کوشش کے اور بغیر کسی ذلت و خواری کے اس کو حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ اور جس شخص کی نیت اور اصل مقصد، دنیا کی طلب ہو یعنی جس شخص پر دنیا اس حد تک سوار ہوجائے کہ وہ اعمال خیر کو بھی محض دنیا کے حصول کا واسطہ بنانا شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کا فقر و احتیاج، اس کی آنکھوں کے سامنے پیش کردیتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت و خواری میں مبتلا کردیتا ہے اور وہ اپنے فقر و افلاس اور محتاجگی کو نظر آنے والی چیز کی طرح اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے۔ اور اس کو ہر معاملہ میں پراگندہ خاطر اور ذہنی انتشار و تفکرات کا شکار بنا دیتا ہے نیز دنیا بھی اس کو صرف اسی قدر ملتی ہے جتنا کہ اللہ نے اس کے لئے مقدر کردیا ہے (ترمذی) نیز احمد اور دارمی نے اس روایت کو ابان سے اور انہوں نے زید بن ثابت سے نقل کیا ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ اعمال کے نتائج و آثار ہونے کا مدار نیت پر ہے، جس شخص کے پیش نظر صرف آخرت کا مفاد ہوتا ہے اور جو اپنے اعمال کے تئیں مخلص وصادق ہوتا ہے، وہ آخرت کی سعادتوں اور نعمتوں کا مستحق تو ہو ہی جاتا ہے، اس دنیا میں بھی اس کو اپنے تمام معاملات زندگی میں اطمینان و عافیت اور خاطر جمعی کی دولت حاصل رہتی ہے، نیز اس کو اس کا رزق نہایت آسانی اور آسودگی کے ساتھ پہنچتا ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص محض دنیا کی طلب وچاہ رکھتا ہے اور اپنے اعمال کو وسیلہ آخرت بنانے کے بجائے دنیاوی مال وزر اور دنیاوی نعمتوں کا وسیلہ و ذریعہ بناتا ہے اس کو آخرت میں تو اس کی سزا بھگتنی ہوگی، اس دنیا میں بھی اس پر اس برائی کا یہ وبال پڑتا ہے کہ وہ خاطر جمع اور اطمینان و سکون کی دولت سے محروم ہوجاتا ہے، ہر وقت طرح طرح کی پریشانیوں اور مختلف تفکرات کی وجہ سے حیران وسرگردان رہتا ہے، نیز اس کو وہ رزق تو ضرور ملتا ہے جو اس کے مقدر میں ہے مگر اس کے حصول کے لئے بھی اس کو نہایت محنت ومشقت اور پریشانی وکشت برداشت کرنا پڑتی ہے۔

【11】

اخروی مقاصد کے لئے اپنے کسی نیک عمل کی شہرت پر خوش ہونا |" ریا |" نہیں ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ﷺ میں اپنے گھر میں مصلیٰ پر نماز پڑھ رہا تھا کہ اس وقت اچانک ایک شخص میرے پاس آیا، مجھے اس بات سے خوشی ہوئی کہ اس نے مجھے نماز پڑھنے کی حالت میں دیکھا ہے تو کیا اس وقت میرا خوش ہونا ریاء میں شمار ہوا یا نہیں ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ابوہریرہ ! تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو، تم دو ثواب کے مستحق ہوئے ایک تو پوشیدہ کا اور دوسرا ظاہر ہونے کا۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) جو اس بات سے خوش ہوئے کہ اس شخص نے ان کو نماز کی حالت میں دیکھا، تو اس کا سبب حضرت ابوہریرہ (رض) کا یہ پاکیزہ جذبہ تھا کہ مجھے نماز پڑھتا ہوا دیکھ کر اس میں بھی اس وقت کی نماز کے تعلق سے میری اتباع کا داعیہ پیدا ہوگا اور یہ شخص بھی اسی طرح نماز پڑھے گا جس طرح میں پڑھ رہا ہوں، یا ان کی خوشی کا سبب یہ تھا کہ ان کی حالت نماز گویا ایک شخص کے سامنے نیکی کے راستہ کے اظہار و اعلان کا باعث بنی اور اس شخص کو اس وقت کی نماز کی طرف راغب کرنے کا ذریعہ بنی اور جیسا کہ فرمایا گیا ہے۔ من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجر من عمل بہا انہی بجا طور پر یہ خوش کن توقع ہوئی کہ جب یہ شخص نماز پڑھ لے گا تو اس کی نماز کا مجھے بھی ثواب ملے گا۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس موقع پر حضرت ابوہریرہ (رض) کا خوش ہونا اس طبعی خواہش کی تکمیل کے تئیں تھا جو شریعت کی نظر میں بھی پسندیدہ ہے یعنی ہر انسان کی طبعی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جب اس کو کوئی دیکھے تو وہ اچھی حالت میں ہو کوئی بھی شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ بری حالت میں دیکھا جائے اور ظاہر ہے کہ اس طبعی خواہش کی بنیاد ریاء وسمعہ پر نہیں ہوتی بلکہ قلب سلیم کے تقاضہ اور پاکیزگی خیال پر ہوتی ہے پس یہ بات اس ارشاد نبوی ﷺ کے عین مطابق ہے کہ من سرتہ حسنتہ وسائتہ سیئتہ فہو مومن نیز حق تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت (قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا ہو خیر ممایجمعون) ۔ لہٰذا مومن کی شان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ نیک اعمال و احوال کی توفیق حاصل ہونے پر خوش ہوتا ہے جس طرح کہ غیر مومن بہت زیادہ دنیاوی مال و زر حاصل ہونے پر خوش ہوتا ہے ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کا خوش ہونا اس احساس شکر کے طور پر تھا کہ اس شخص کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان عبادت و توفیق کے ساتھ متعارف ہوا اور ایک نمازی کے طور پر جانا پہچانا گیا، ان لوگوں کے زمرہ میں شمار ہونے کا موقع نصیب ہوا، جو نماز جیسی اہم عبادت اور اسلام کے سب سے بڑے رکن کو قائم کرتے ہیں اور ایک مسلمان اس بات کا گواہ بنا۔ یہ قول حدیث کے الفاظ اجر السر واجر العلانیۃ کے مفہوم سے زیادہ قریب ہے۔

【12】

ریا کار دین داروں کے بارے میں وعید

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ (میں تمہیں بتاتا ہوں) کہ اخیر زمانہ میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو دین کے نام پر دنیا کے طلب گار ہوں گے (یعنی دینی و اخروی اعمال کے ذریعہ دنیا کمائیں گے از راہ تملق وچاپلوسی اور اظہار تواضع لوگوں پر اثر ڈالنے کے لئے دنبوں کی کھال کا لباس پہنیں گے (تاکہ لوگ انہیں عابد و زاہد، دنیاوی نعمتوں سے بےپرواہ اور آخرت کے طلبگار سمجھ کر ان کے مرید ومعتقد ہوں) ان کی زبانیں تو شکر سے زیادہ شیریں ہوں گی لیکن ان کے دل بھیڑیوں کے دل کی طرح ہوں گے (یعنی ان کی باتیں تو بڑی خوشگوار من پسند اور نرمی وملائمت سے بھر پور ہوں گی اور ان کی تقریر و گفتگو سن کر لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ ہمارے بڑے ہمدرد و بہی خواہ اور غم خوار دوست ہیں اور ان کے دل میں دین وملت کا بہت درد ہے، لیکن حقیقت یہ ہوگی کہ اپنے ذاتی اغراض و منافع کے لئے دوستی و دشمنی کرنے اور اہل تقویٰ اور دین وملت کے حقیقی خدمت گاروں کو نقصان و تکلیف پہنچانے اور دیگر بہیمانہ وحیوانی خصلتوں میں ان کے دل بھیڑیے کے دل کی طرح سخت اور شقی ہوں گے) اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو تنبیہ کرنے کے لئے فرماتا ہے۔ کیا یہ لوگ میری طرف سے مہلت دئیے جانے اور میرے ڈھیل دینے کے سبب سے مغرور ہوگئے ہیں اور فریب میں مبتلا ہیں ( یعنی کیا یہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ میں ان کا معین و مددگار ہوں اور اس دنیا میں جو کامرانیاں اور کامیابیاں نصیب ہیں وہ ان پر میری رحمت کے نازل ہونے کی بنا پر ہیں ؟ کیا ان کو معلوم نہیں کہ ہم اس قسم کے لوگوں کو اسی طرح ڈھیل دیا کرتے ہیں یا اس جگہ اغترا سے مراد اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرنا اور اپنے افعال بد سے توبہ نہ کرنا ہے اس صورت میں یخترون کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ لوگ میرے غضب اور میرے عذاب سے نہیں ڈرتے اور کیا ان میں اتنی جرات ہوگی ہے کہ اعمال صالح کے ذریعہ اور دین کے نام پر لوگوں کو دھوکا دے کر گویا میری مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ پس میں اپنی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں یقینا ان لوگوں پر انہیں میں سے فتنہ وبلا مسلط کر دوں گا (یعنی انہیں لوگوں میں سے ایسے امراء و حکام اور ایسے افراد وگروہ متعین کر دوں گا جو ان کو آفات و مصائب اور طرح طرح کے نقصان وضرر میں مبتلا کردیں گے۔ اور وہ آفات مصائب بڑے سے بڑے دانشور عقلمند شخص کو بھی ان آفات مصائب کو دور کرنے، ان پر آشوب حالات سے گلو خلاصی پانے اور ان کے سلسلے میں کسی مناسب وموزوں اقدام وکاروائی کرنے سے عاجز و حیران کردیں گے ۔ (ترمذی) تشریح یختلون (خاء کے جزم اور تاء کے زیر کے ساتھ) کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ ان اعمال کے ذریعہ کہ جو آخرت کے لئے کئے جاتے ہیں، دنیا حاصل کریں گے۔ یا یہ کہ وہ لوگ دین کے بدلہ میں دنیا کمائیں گے اور دینی و اخروی مفاد و مصالح پر دنیاوی اور مادی مفاد و منافع کو ترجیح دیں گے۔ اور زیادہ صحیح معنی یہ ہوں گے کہ وہ لوگ دین کا لبادہ اوڑھ کر دنیا والوں کو دھوکا دیں گے، بایں طور کہ وہ دنیا کمانے کی خاطر اپنی ظاہری وضع قطع اور اپنے ظاہری اعمال و اخلاق کا ایسا دلفریب مظاہرہ کریں گے کہ دنیا والے ان کو سچا عابد زاہد اور دین وملت کا مخلص بہی خواہ سمجھ کر ان کے ساتھ عقیدت و محبت رکھیں گے اور سادہ لوح مسلمان ان کے مرید ومعتقد بن کر ان کی مراد پوری کریں گے۔ مثلا وہ نماز، روزہ اور دیگر عبادات کے پابند نظر آئیں گے اور اوراد وظائف ذکر و شغل کی محفلیں سجائیں گے اپنے اردگرد زہد وتقویٰ کی دیواریں کھڑی کئے نظر آئیں گے، موٹے جھوٹے کپڑوں کا لباس پہنیں گے۔ دینداروں کی سی شکل و صورت بنائیں گے ان کی تحریر وتقریر، دین وآخرت کی تلقین وتعلیم موعظت و نصیحت کی باتوں، ملت کی بھی خواہی مسلمانوں کے مفاد اور باہمی ہمدردی و غمگساری سے پر نظر آئے گی، لیکن یہ تمام چیزیں صدق و اخلاص سے خالی ریا وسمعہ کے طور پر ہوں گی، جن کا واحد مقصد مسلمانوں کو بیوقوف بنا کر دنیا سمیٹنا اور صرف ذاتی منافع حاصل کرنا ہوگا۔ پس ایسے لوگوں کی اس ریاء کارانہ زندگی کے خلاف یہ خدائی تنبیہ بیان فرمائی گئی کہ انہیں اس گھمنڈ میں ہرگز نہ رہنا چاہئے کہ ان کی یہ دھوکا کی ٹٹی ہمیشہ ہمیشہ رہے گی اور وہ اپنی اس ریاء کارانہ زندگی کی سزا اسی دنیا میں نہیں بھگتیں گے۔ اللہ قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں ان لوگوں کو ضرور مزا چکھاؤ نگا، انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ میرا غضب و قہران پر یقینا نازل ہوگا، میں ان پر ایسے امراء و حکام مسلط کر دوں گا اور انہیں میں سے کچھ ایسے لوگ اور گروہ کھڑے کر دوں گا، جو ان کی ناؤ کو آفات و مصائب، ذلت و خواری اور تباہی و بربادی کے بھنور میں ڈال دیں گے ان کی ریاء کارانہ زندگی کا پردہ چاک کریں گے اور ان کو ایسے ایسے فتنوں میں مبتلا کریں کہ وہ نجات کا کوئی راستہ نہیں پائیں گے، وہ اپنی اس خود ساختہ شان و شوکت، عزت و عظمت اور جاہ ومنصب کو بچانے کے لئے جس قدر ہاتھ پاؤں ماریں گے اسی قدر ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی کے حلقے ان کے گرد تنگ ہوتے جائیں گے اور بڑے بڑے دانشور، عقلمند لوگ بھی ان آفات و مصائب سے گلو خلاصی کا کوئی ذریعہ نہیں نکال پائیں گے۔

【13】

ریا کار دین داروں کے بارے میں وعید

حضرت ابن عمر (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ایک ایسی مخلوق پیدا کی ہے جس کی زبان شکر سے زیادہ شیریں ہے اور جس کے دل ایلوے سے زیادہ تلخ ہیں، پس میں اپنی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں یقینا ان پر ایسی بلائیں نازل کروں گا جو بڑے سے ببڑے دانشور عقلمند شخص کو بھی حیران و عاجز بنادیں گے، تو کیا وہ لوگ مجھے دھوکہ دیتے ہیں، یا مجھ پر جرات ودلیری دکھاتے ہیں ؟ ترمذی نے اس روایتوں کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【14】

میانہ روی کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ہر چیز کے لئے حرص و زیادتی ہے اور پھر حرض و زیادتی کے لئے سستی وسب کی ہے۔ پس اگر عمل کرنے والے نے میانہ روی سے کام لیا اور اعتدال کے قریب رہا اور اس نے افراط وتفریط سے اجتناب کیا تو اس کے بارے میں امید رکھو کہ وہ اپنی مراد پالے گا اور اگر اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا گیا (یعنی اس نے طاعت و عبادت اور اوراد وظائف کی مشغولیت اور دنیاوی نعمتوں ولذتوں میں اجتناب میں اس لئے مبالغہ و کثرت کو اختیار کیا کہ لوگوں میں عابد و زاہد مشہور ہو اور پھر وہ لوگوں میں عابد و زاہد مشہور بھی ہوگیا) تو تم اس کو عابد و زاہد اور صالح شمار نہ کرو کیونکہ درحقیقت وہ ریاء کاروں میں سے ہے۔ (ترمذی) تشریح شرۃ کے معنی ہیں نشاط رغبت اور حرص میں مبتلا ہونا یہاں حدیث میں اس لفظ سے مراد کسی چیز میں افراط اور کسی کام میں حد سے زیادہ انہماک ہے اور فترۃ کے معنی ہیں سستی و کمزوری اور کمی۔ مطلب یہ ہے کہ جو عابد ابتداء طاعت و عبادت اوراد وظائف وغیرہ میں حد سے زیادہ مشغول ومنہمک رہتا ہے وہ بعد میں سست و کمزور ہوجاتا ہے اور اس کی طاعت و عبادت وغیرہ کم ہوجاتی ہے۔ اس بات کو اصولی انداز میں زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ کوئی انسان جب کسی چیز کو اختیار کرنا چاہتا ہے اور کوئی کام کرتا ہے تو شروع میں بہت زیادہ استغراق انہماک دکھاتا ہے اور اس قدر ذوق وشوق بلکہ حرص و لالچ میں مبتلا ہوتا ہے کہ اپنی بساط سے بڑھ کر محنت ومشقت اور اپنی طاقت وہمت سے زیادہ مشغولیت اختیار کرتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعد میں جلد ہی سست و کمزور پڑجاتا ہے اور اپنے مقصد کی راہ میں تھکن وبے دلی کا شکار ہوجاتا ہے۔ پس اگر کوئی عابد و زاہد اپنے اعمال واشغال میں میانہ روی اختیار کرے اور افراط وتفریط کی راہ سے بچ کر اعتدال کی راہ پر کہ جس کو صراط مستقیم کہا جاتا ہے گامزن رہے تو اس کے بارے میں بجا طور پر امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہو جو کامل طور پر مراد پانے والے ہیں۔ لیکن اگر وہ افراط کی راہ پر چلا اور اس نے عبادت وطاعت اور دینی اعمال واشغال میں اس حد تک غور کیا اور اپنی بےدینی زندگی کو اس طرح نمایاں کیا کہ وہ عابد و زاہد مشہور ہوگیا اور لوگ اس کی عبادت گزاری اور زہد وتقوی کی طرف اشارہ کرنے لگے تو اس کی طرف کوئی التفات نہیں کرنا چاہئے اور اس کو نیک و صالح نہ سمجھنا چاہئے۔ واضح رہے کہ لفظ فارجوہ (اس کے بارے میں امید رکھو) اور لفظ ولاتعدوا اس کو عابد و زاہد شمار نہ کرو کے ذریعہ ان دونوں قسم کے لوگوں کی عافیت کی طرف ایک مبہم اشارہ مقصود ہے کیونکہ کسی شخص کے اخروی انجام کا حقیقی علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہوسکتا ہے اس کے بارے میں کوئی انسان آخری فیصلہ نہیں کرسکتا لہٰذا مذکورہ الفاظ کے ذریعہ یہ حدیث صرف یہ بتانا چاہتی ہے کہ جو شخص میانہ روی کا راستہ اختیار کرتا ہے صحیح عمل کرتا ہے اور راہ راست سے بھٹکتا نہیں تو بظاہر اس کے بارے میں یہ امید رکھنی چاہئے کہ اس کی عاقبت سدھر گئی اور وہ نجات پا جائے گا اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا بلکہ افراط وتفریط کی راہ پر چل کر دنیاوی عزت وجاہ کا طلبگار ہوتا ہے اور گندم نما جو فروشی کا شیوہ اپنا کر فتنہ و فساد کے بیج بوتا ہے تو ظاہر میں اس کو فلاح یاب نہ سمجو اور اس کا شمار مخلص دینداروں میں نہ کرو۔ رہی عاقبت کی بات تو وہاں کا انجام دونوں صورتوں میں غیر واضح ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ خاتمہ کس حالت میں ہو اور آخرت میں کیا معاملہ ہوگا حکم مستوری ومستی ہمہ بر خاتمہ است کس ندانست کہ آخر بچہ حالت گزرد اگرچہ عاقبت کے بارے میں بھی امید یہی رکھنی چاہئے کہ رحمت باری نے جس جس شخص کو اطاعت و عبادت کی توفیق بخشی ہے اور راہ مستقیم پر گامزن کیا ہے اس کی عاقبت ضرور سنورے گی اور اس کا خاتمہ یقینا ایمان و اخلاص پر ہوگا اس کی رحمت کاملہ کا ستور یہی ہے کہ نیکوکاروں کو بری راہ پر کم ہی لگایا جاسکتا ہے جب کہ اکثر یہی ہوتا کہ بدکاروں کو بالآخر نیکی کی طرف کھینچ لیا جاتا ہے۔

【15】

شہرت یافتہ زندگی پر خطر ہے

حضرت انس (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ انسان کی برائی کے لئے اتنا کافی ہے کہ دین یا دنیا کے اعتبار سے اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جائے۔ الاّ یہ کہ کسی کو اللہ تعالیٰ ہی محفوظ رکھے۔ (بیہقی) تشریح دنیاوی اعتبار سے مشہور و معروف ہونا تو ظاہر ہے کہ آفتوں اور فتنوں میں مبتلا ہوجانے اور ایمانی امن و سلامتی کی راہ سے دور جا پڑنے کا سبب ہے ہی، لیکن اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے اعتبار سے مشہور و معروف ہوتا ہے تو وہ بھی خطرہ سے خالی نہیں، کیونکہ اس صورت میں اس کے ریاء کار ہونے کا گمان کیا جاسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ اس شہرت کی وجہ سے اپنی قیادت و پیشوائی کی طلب و جاہ میں مبتلا ہوجائے یہ تمنا کرنے لگے کہ لوگ اس کو اپنا مقتدا اور اپنی عقیدت و احترام کا مرکز بنالیں اور اس طرح وہ شیطان کے بہکانے اور نفس امارہ کے اکسانے کی وجہ سے ان نفسانی خواہشات کی اتباع میں مبتلا ہوسکتا ہے جو ایسے موقعوں کی تاک میں رہتی ہیں۔ چناچہ ایسے بندگان اللہ کم ہی ہوتے ہیں جنہیں عوامی شہرت وناموری حاصل ہوئی اور وہ اس کے نتیجہ میں پیدا ہوجانے والی برائیوں سے محفوظ ومامون رہے، ہاں وہ بندگان اللہ خاص کر جنہیں اللہ تعالیٰ اپنا مقرب و محبوب بنا لیتا ہے اور وہ صدیقیت کے مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں وہ تمام عالم کی شہرت وناموری رکھنے کے باوجود اس کی برائیوں سے محفوظ رہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس بلند ترین مرتبہ پر فائز ہی اس وقت ہوتے ہیں جب کہ ان کے ظاہر و باطن سے تمام برائیاں مٹ چکی ہوتی ہیں اور ان کا نفس پوری طرح پاکیزہ ہوجاتا ہے، جیسا کہ مشائخ کرام کہتے ہیں کہ آخر مایخرج من رأس الصدیقین حب الجاہ۔ لہٰذا انسان کی بھلائی و بہتری اسی میں ہے اور ایمان و کردار کی سلامتی و حفاظت اسی صورت میں زیادہ ممکن ہے جب کہ وہ گوشہ نشینی وگمنامی اور یکسوئی کی زندگی کو شہرت کی زندگی پر ترجیح دے۔ الاّ یہ کہ کسی کو اللہ تعالیٰ ہی محفوظ رکھے حدیث کے اس جملہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شہرت وناموری کا نقصان دہ اور برائی کا باعث ہونا اس شخص کے حق میں ہے جس کے ظاہر و باطن پر جاہ و اقتدار اور شہرت وناموری کی طلب و خواہش کا سکہ رواں ہو، ورنہ تو بندگان اللہ اس طلب و خواہش سے محفوظ ومامون اور اپنے ظاہر و باطن کے اعتبار سے مخلص پاکباز ہوتے ہیں وہ اس بات سے مستثنی ہیں، کیونکہ عوامی مقبولیت وشہرت اور جاہ و اقتدار بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہیں بلکہ اللہ کی وہ نعمت ہیں جو وہ اپنے پاک نفس بندوں کو عطا فرماتا ہے جو ان چیزوں کے اہل و مستحق ہوتے ہیں اور جن کے حق میں وہ چیزیں فتنہ و برائی کا باعث بننے کی بجائے بلندی درجات کا باعث بنتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے بندگان خاص کی نسبت سے یہ فرمایا ہے کہ آیت (واجعلنا للمتقین اماما) ۔ منقول ہے کہ حضرت حسن بصری (رح) کی بےپناہ عوامی شہرت ومقبولیت دیکھ کر ایک شخص نے ان سے کہا کہ آپ تو لوگوں میں اس قدر مشہور و نمایاں ہوگئے ہیں۔ جب کہ آنحضرت ﷺ نے تو یہ فرمایا ہے کہ بحسب امری من الشر الخ۔ حضرت حسن بصری نے جواب دیا کہ ارشاد گرامی ﷺ کا تعلق اس شخص سے ہے جو دین کے اعتبار سے بدعتی اور دنیا کے اعتبار سے فاسق ہو (یعنی جو شخص دنیا میں مالداری و ثروت رکھتا ہے اور اس مالداری و ثروت کی وجہ سے مشہور معروف ہو، لیکن فسق وفجور میں مبتلا نہ ہو اور دین کے اعتبار سے کتاب وسنت کی اتباع و پیروی کرتا ہو تو وہ شخص اس حکم میں داخل نہیں ہے۔ جو حضور ﷺ کے اس ارشاد گرامی سے واضح ہوتا ہے۔

【16】

سمعہ کی مذمت

حضرت ابوتمیمہ تابعی (رح) کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں کی مجلس میں اس وقت حاضر ہوا کہ جب مشہور اور جلیل القدر صحابی حضرت جندب (رض) بن عبداللہ بن سفیان بجلی حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں کو ریاضت و مجاہدہ کی راہ مستقیم اختیار کرنے یا کثرت کے ساتھ عبادت کرنے یا طاعت میں میانہ روی اختیار کرنے اور یا سمعہ و ریا اور حصول شہرت کی طلب و خواہش سے احتراز و اجتناب کرنے کی نصیحت فرما رہے تھے۔ پھر حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے رسول کریم ﷺ سے کچھ سنا ہے ؟ (یعنی اگر آپ نے حضور ﷺ کی کوئی حدیث سنی ہے تو اس کو ہمارے سام بےبیان فرمائیے اور ہمیں ارشاد نبوی ﷺ سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیجئے۔ حضرت جندب (رض) نے یہ حدیث بیان کی میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ۔ جو شخص سنائے گا (یعنی لوگوں کے سنانے اور شہرت حاصل کرنے کے لئے جو کوئی نیک کام کرے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو رسوا کرے گا۔ اور جو شخص مشقت میں ڈالے گا (یعنی اپنی ہمت و طاقت سے بڑھ کر کوئی کام کرنے کی صورت میں اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کرے گا یا کسی دوسرے شخص مثلا اپنے خادم یا نوکر چاکر وغیرہ کو کسی ایسے کام پر مامور کر کے، کہ جو اس کی ہمت و طاقت سے باہر ہو، ناقابل برداشت محنت ومشقت کی اذیت میں مبتلا کرے گا) ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن مشقت میں ڈالے گا۔ یہ سن کر انہوں نے (یعنی صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے یا حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں نے حضرت جندب سے کہا) کہ ہمیں کچھ اور نصیحت فرمائیے تو (حضور ﷺ نے یا حضرت جندب نے) فرمایا۔ انسان کی جو چیز سب سے پہلے گندی اور خراب ہوتی ہے وہ اس کا پیٹ ہے (یعنی جو چیز انسان کو سب سے پہلے زیادہ برائی میں مبتلا کرتی ہے سب سے پہلے دوزخ کی آگ کا مستوجب بناتی ہے اور آخرت میں سب سے پہلے دوزخ میں جانے اور عذاب بھگتنے کا باعث بنے گی وہ اس کا پیت ہے پس جو شخص اس کی قدرت رکھتا ہو کہ اس چیز کے علاوہ اور کچھ اپنے پیٹ میں نہ پہچنائے جو حلال و جائز ہے تو بیشک اس کو ایسا ہی کرنا چاہئے اور جو شخص اس کی قدرت رکھتا ہو کہ اس کے اور جنت کے درمیان ناحق بہایا جانے والا ایک چلو خون حائل ہو تو بیشک اس کو ایسا ہی کرنا چاہئے کہ کسی کا ایک چلو بھی ناحق خون بہانے سے احتراز کرے۔ (بخاری) تشریح حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ ناحق خونریزی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کا زیادہ ہونا تو کجا اگر ایک چلو کے بقدر بھی ہو تو جنت میں جانے سے روکنے والی ہے پس یہ بات عقل دانائی سے بعید تر ہے، یکہ ایسے برے اور قابل نفرین فعل کا ارتکاب کیا جائے جو انسانیت کے منافی نہیں ہے بلکہ جنت میں داخل ہونے جیسی عظیم و اہم سعادت سے محروم رکھنے والا بھی ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صفوان سے مراد صفوان بن سلیم زہری ہیں جو مدینہ کے ایک نہایت جلیل القدر تابعی تھے اور جن کی شخصیت، علم و معرفت، کردار وعمل، زہد وتقوی اور عبادت و ریاضت کا ایک مثالی نمونہ تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے چالیس برس تک اپنا پہلو زمین سے نہیں لگایا اور عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ سجدوں کی کثرت سے ان کی پیشانی میں سوراخ ہوگیا تھا، ان کے حالات میں یہ لکھا ہے کہ وہ امراء و سلاطین کا کوئی بھی انعام و اکرام قبول نہیں کرتے تھے۔ غرضیکہ ان کے بہت زیادہ فضائل ومناقب بیان کئے جاتے ہیں۔

【17】

ریا کاری شرک کے مرادف ہے

امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطاب (رض) سے روایت ہے کہ وہ ایک دن رسول کریم ﷺ کی مسجد شریف (یعنی مسجد نبوی) میں تشریف لے گئے تو انہوں نے حضرت معاذ بن جبل (رض) کو نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کے پاس بیٹھ کر روتا ہوا پایا۔ حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو ؟ (کیا حضور ﷺ کی جدائی رلا رہی ہے یا کسی آفت و مصیبت کے پیش آجانے کی وجہ سے رو رہے ہو اور یا ان کے علاوہ کسی اور سبب نے تمہیں رونے پر مجبور کردیا ہے ؟ ) حضرت معاذ (رض) نے جواب دیا۔ مجھے ایک بات کی یاد نے رلا دیا ہے جس کو میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا تھا میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ تھوڑا ریا بھی شرک ہے۔ (نیز آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ) جس شخص نے اللہ کے دوست سے دشمنی اختیار کی (یعنی اولیاء اللہ کو اپنے کسی قول وفعل کے ساتھ ناحق تکلیف پہنچائی یا ان کو غصہ دلایا) تو اس نے گویا اللہ سے مقابلہ کیا اور اس کے ساتھ جنگ کی اور ظاہر ہے کہ جس شخص نے اللہ کے ساتھ مقابلہ آرائی کی اس کی تباہی و بربادی اور ذلت و رسوائی میں کوئی شبہ نہیں یقینا اللہ تعالیٰ نیکوکاروں، پرہیزگاروں اور مخفی حال لوگوں کو دوست رکھتا ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جن کی ظاہری حالت تو اتنی خستہ اور عام نگاہوں میں اس قدر ناقابل توجہ ہوتی ہے کہ جب وہ نظروں سے غائب ہوں تو ان کو پوچھا نہ جائے اور جب موجود ہوں تو انہی کسی دعوت ومجلس میں بلایا نہ جائے۔ اور اگر وہ بلائے بھی جائیں تو پاس نہ بٹھائے جائیں۔ لیکن باطنی و روحانی طور پر ان کا مقام بہت بلند ہوتا ہے چناچہ ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں جن کے نور سے راہ راست پائی جاتی ہے اور یہ لوگ ہر تاریک زمین سے نکل کر آتے ہیں (اس روایت کو ابن ماجہ نے اور شعب الایمان میں بیہقی نے نقل کیا ہے۔ تشریح تھوڑا ریا بھی شرک ہے کا مطلب یہ ہے کہ ریاء کاری اگر معمولی درجہ کی بھی ہو تو وہ بھی ایک بڑا شرک ہے۔ یا یہ کہ تھوڑا ریا شرک کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ اور یہ چیز انسانی جبلت میں اس طرح پوشیدہ طور پر گھر کئے ہوئے کہ اچھے اچھے لوگ اور مضبوط و پختہ ایمان والے بھی اپنے اعمال میں اس کی دخل اندازی کو پہچان نہیں پاتے اور کم ہی لوگ اس سے محفوظ رہتے ہیں، لہٰذا حضرت معاذ (رض) نے اپنے رونے کا ایک سبب تو اسی چیز کو بتایا کہ مجھ پر یہ خوف طاری ہے کہ کہیں غیر معلوم طور سے میرے اعمال پر بھی اس برائی کا سایہ نہ ہو، دوسرا سبب انہوں نے اولیاء اللہ کی ایذاء رسانی بتایا، یعنی انہوں نے گویا یہ بیان کیا کہ اکثر اولیاء اللہ اپنی اصل حیثییت اور حقیقت کے اعتبار سے عام نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور اپنی ظاہری حالت میں وہ ایک بہت معمولی درجہ کے مسلمان نظر آتے ہیں، ان کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کس بلند مقام پر فائز ہیں اور اللہ کی نظر میں ان کی کتنی بڑی حیثیت ہے، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اولیائی تحت قبائی لایعرفہم غیرہم اور ظاہر ہے کہ کوئی انسان اس بات سے خالی نہیں کہ وہ کسی مسلمان بھائی کے ساتھ کبھی بھی کوئی ایسی بد زبانی نہ کرے جو گناہ کا باعث ہوتی ہے، لہٰذا حضرت معاذ (رض) نے بتایا کہ میں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ مبادہ میں نے کسی مسلمان بھائی کے ساتھ قولا یا فعلا کوئی ایسا رویہ اختیار کیا ہو جو اس کے لئے اذیت کا باعث بن گیا ہو اور اس کی وجہ سے میں نے اللہ کی ناراضگی مول لے لی ہو، گویا یہاں ومن عادی اللہ ولیا کے یہی معنی مراد لئے گئے ہیں۔ نیکو کاروں سے مراد وہ لوگ ہیں جو نیکی کرتے ہیں اور نیکی کا مطلب یہ ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا اور اس کی مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک اور احسان کرنا۔ چناچہ اسی لئے بعض عارفین نے یہ کہا ہے کہ دین کا مدار احکام الٰہی کو اعتقاد اور عملا سب سے اہم اور قابل احترام جاننے اور مخلوق الٰہی کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آنے پر ہے۔ پرہیز گاروں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہر طرح کے شرک سے بچتے ہیں خواہ وہ شرک جلی ہو یا خفی شرک ہو اور ہر اس چیز سے اجتناب و پرہیز کرتے ہیں جس کو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے ممنوع و حرام قرار دیا ہے، یا جو شریعت کی نظر میں نہایت ناپسندیدہ اور نہایت نامناسب ہے۔ مخفی لوگوں سے اللہ کے وہ پاک نفس بندے مراد ہیں جو ظاہری وجہ، وضع قطع اور رہن سہن کے اعتبار سے نہایت خستہ حالت میں رہتے ہیں اور معاشرہ کے لوگ دنیا دار ان کو بہت کمزور و حقیر جانتے ہیں مگر اپنے کردار و اخلاق باطنی احوال اور روحانی عظمت کے اعتبار سے نہایت بلند وبالا درجہ پر فائز ہوتے ہیں یا وہ اہل اللہ مراد ہیں جو دنیاداروں کی نظر سے پوشیدہ رہتے ہیں اور ان کے درمیان رہن سہن نہیں رکھتے۔ ان اللہ الخ سے یہ جملہ استیناف ہے اور اس کے ذریعہ گویا ولی کی حقیقت بیان کرنا مقصود ہے چناچہ پہلے تو نیکی، پرہیزگاری اور اخفائے حال کی صفات کے ذریعہ اولیاء اللہ کی حقیقت بیان کی گئی اور پھر دنیا والوں کے تعلق سے ان اولیاء اللہ کے تین احوال بیان کئے گئے کہ جب وہ کہیں باہر چلے جاتے ہیں اور سفر میں ہوتے ہیں تو کسی تقریب و مجلس آرائی کے وقت ان کی تلاش و جستجو نہیں ہوتی اور ان کا کوئی انتظار نہیں کیا جاتا، جب وہ موجود ہوتے ہیں تو ان کو اس مجلس وتقریب میں بلایا نہیں جاتا اور اگر وہ اس تقریب ومجلس میں جاتے ہیں تو ان کو اہل مجلس نہ صرف یہ کہ کوئی اہمیت و وقعت نہیں دیتے بلکہ اپنے قریب بیٹھنے بھی نہیں دیتے اور انہیں پیچھے کہیں دور بٹھلا دیتے ہیں۔ یہ گویا اس روایت کی تفصیل ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ رب اشعث اغبر لایعبا بہ لواقسم علی اللہ لابرہ۔ یعنی بعض ایسے لوگ بھی ہیں بظاہر پراگندہ بال و غبار آلودہ خستہ حال ہوتے ہیں اور ان کو کوئی وقعت نہیں دی جاتی لیکن اللہ کے نزدیک وہ اتنا بلند مرتبہ رکھتے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد کر کے قسم کھا لیں تو یقینا اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو سچا اور پورا کرے۔ ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں یعنی وہ پاک نفس لوگ راہ ہدایت کے مشعل بردار ہیں کہ وہ رہبری و پیشوائی کی اہلیت رکھتے ہیں اور ان کی اتباع کرنا راہ ہدایت پانے کی ضمانت ہے، پس وہ اس بات کے پوری طرح مستحق ہیں کہ ان کا لحاظ رکھا جائے اور وہ اس لائق ہیں کہ ان سے راہ ہدایت وراستی کی روشنی حاصل کی جائے۔ ہر تاریک زمین سے نکل کر آتے ہیں کے ذریعہ ان لوگوں کی مفلسانہ طرز زندگی، ان کے مکانات کی تیرگی وتاری کی اور خراب حالت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی وہ لوگ اتنے مفلس وتہی دست ہوتے ہیں کہ اپنے گھر میں چراغ جلانے اور اپنے مکانات کو معمولی درجہ کا بھی قابل آسائش بنانے کے لئے اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے۔ اس حدیث میں یہ تنبیہ پوشیدہ ہے کہ اگر کسی عالم و صالح اور متقی شخص کی ظاہری حالت خراب وخستہ ہو تو ان کی ظاہری خستہ حالی اور ان کے لباس وغیرہ کی کہنگی وبوسیدگی سے دھوکہ نہ کھانا چاہئے اور ان کی تعظیم و توقیر اور ان کے ادب و احترام کو ترک کردینے کی غلطی نہ کرنی چاہئے کیونکہ کسی کے ظاہر کو دیکھ کر کوئی کیا اندازہ کرسکتا ہے کہ اس کا باطن درست ہے یا نہیں خاکسار ان جہاں رابحقارت منگر توچہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد نیز یہ حدیث بھی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ محض فقر و افلاس اور دنیاوی بےحیثیتی، کوئی فضیلت نہیں ہے جب تک کہ تقویٰ و پرہیز گاری اور باطن کی نورانیت حاصل نہ ہو۔ آخر میں ایک بات یہ بھی بتا دینی ضروری ہے کہ ولی اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو متقی و پرہیز گار ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (ان اولیاہ الا المتقون) (یعنی اللہ تعالیٰ کے ولی وہی لوگ ہیں جو متقی و پرہیز گار ہوں) نیز شرع عقائد نسفی میں لکھا ہے کہ ولی وہ شخص ہے جو اپنی بساط بھر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا عرفان رکھتا ہو، طاعات و عبادات کا پابند ہو، گناہوں سے اجتناب کرتا ہو اور نفسانی لذات و خواہشات میں منہمک رہنے سے اعراض کرتا ہو۔

【18】

صدق واخلاص کی علامت

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ بندہ جب کھلے طور پر سب کے سامنے نماز پڑھتا ہے اور خوبی کے ساتھ پڑھتا ہے (یعنی نماز کی تمام شرائط و واجبات سنن اور مستحبات کو ملحوظ رکھ کر پڑھتا ہے اور اسی طرح دیگر عبادات و طاعات بھی پورے آداب و شرائط کے ساتھ ادا کرتا ہے) اور جب پوشیدہ طور پر (یعنی تنہائی میں) پڑھتا ہے تو اس وقت بھی اسی خوبی کے ساتھ پڑھتا ہے جس خوبی کے ساتھ کہ سب کے سامنے پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا یہ بندہ صدق و راستی کا حامل ہے کہ اس کی طاعت و عبادت ریاء کاری سے پاک ہے۔ (ابن ماجہ)

【19】

ریا کار لوگوں کے بارے میں پیشگوئی

حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ آخر زمانہ میں ایسی قومیں اور جماعتیں بھی پیدا ہوں گی جو ظاہر میں تو درست ثابت ہوں گی مگر باطن میں دشمنی کریں گے۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! ایسا کیونکر اور کس سبب سے ہوگا ؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ایسا اس وجہ سے ہوگا کہ ان میں سے بعض بعض سے غرض و لالچ رکھیں گے اور بعض بعض سے خوف زدہ ہوں گے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں مسلمانوں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہوگی جو اپنی دنیاوی اغراض اور ذاتی مفاد کی تکمیل کے لئے منافقت اور ریاء کاری اختیار کریں گے اور صدق و اخلاص سے محروم رہیں گے نہ ان کی دوستی کا بھروسہ ہوگا اور نہ ان کی دشمنی کا جس شخص و طبقہ سے ان کی کوئی غرض وابستہ ہوگی اس کی طرف رغبت و التفات رکھیں گے اور اس کے حق میں دوستی کا اظہار کریں گے۔ اگر کسی غرض ومفاد کا واسطہ درمیان میں نہیں ہوگا تو بیگانہ بن جائیں، بلکہ غرض ومفاد حاصل نہ ہونے کی صورت میں دشمنی وعدات پر کمر بستہ ہوجائیں گے۔ اس سے واضح ہوا کہ شریعت کا جو یہ حکم ہے کہ مسلمان کی دوستی و دشمنی صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہونی چاہئے تو مذکورہ لوگ اس مرتبہ سے گزرے ہوئے ہوں گے، کیونکہ ان کی دوستی و دشمنی کا تعلق اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے بجائے ذاتی اغراض فاسدہ اور مذموم مقاصد سے ہوگا چناچہ جب وہ اپنے اغراض اور اپنے مفاد کے تحت کسی فرد یا جامعت کی طرف رغبت والتفات رکھیں گے تو اس کے تئیں دوستی والفت ظاہر کریں گے اور جب کسی وجہ سے کسی فرد یا جماعت کو ناپسند کریں گے تو ان کے خلاف بغض و عداوت ظاہر کریں گے۔ پس نہ تو لوگوں کے تئیں ان کی دوستی کا اعتبار ہوگا اور نہ ان کی عداوت کا، کیونکہ ان کی دوستی اور عداوت دونوں کی بنیاد، صدق و اخلاص اور پاکیز اغراض و مقاصد کے بجائے، ذاتی اغراض و خواہشات اور نفع نقصان پر ہوگی۔

【20】

دکھلاوے کا نماز روزہ شرک ہے

حضرت شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، جس شخص نے دکھلانے کے لئے نماز پڑھی، اس نے شرک کیا، جس شخص نے دکھلانے کو روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس شخص نے دکھلانے کو صدقہ خیرات کیا اس نے شرک کیا۔ دونوں روایتوں کو احمد نے نقل کیا ہے۔ تشریح حاصل یہ کہ ریاء کاری کے تحت جو بھی نیک کام کیا جائے گا وہ شرک کے مرادف ہوگا اگرچہ اس کو شرک خفی کہا جائے گا، کیونکہ شرک جلی کا اطلاق علی الاعلان اور آشکارا طور پر بت پرستی کرنے پر ہوتا ہے رہی یہ بات کہ ریاء کاری کو شرک خفی کس اعتبار سے کہا گیا ہے تو جاننا چاہئے کہ ریا کار جو نیک کام کرتا ہے، وہ صدق و اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے نہیں کرتا بلکہ غیر اللہ کے لئے کرتا ہے اور جب اس نے کوئی نیک کام غیر اللہ کے لئے کیا تو گویا وہ بت پرستی کی، اگرچہ وہ کھلی ہوئی بت پرستی نہیں ہے البتہ پوشیدہ طور پر بت پرستی کے مرادف ضرور ہے جیسا کہ کہا گیا ہے۔ کل ماصدک عن اللہ فہوصنمک۔ ملاعلی قاری کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ ریا کا دخل روزہ میں بھی ہوسکتا ہے اس اعتبار سے یہ حدیث گویا ان حضرات کے خلاف ایک دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ریا کا تعلق روزہ سے نہیں ہوسکتا اور اس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ روزے کا مدار نیت پر ہے چناچہ جس شخص کی نیت صحیح نہ ہو اس کے کھانے پینے سے رکنے کا کوئی اعتبار نہیں اور ظاہر ہے کہ نیت میں ریاء کاری یعنی دکھلاوے کا عمل دخل کیا ہوسکتا ہے۔ لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حقیقی معنی میں ریا، یعنی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی نیک کام اور کسی عبادت کا اس لئے قصد و ارادہ کرتا ہے کہ اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرے مگر اس کے ساتھ ہی اس کی نیت میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ اس نیک کام اور عبادت کے ذریعہ اس کو شہرت حاصل ہوجائے۔ یا فلاں غرض پوری ہوجائے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی سے نہیں ہوتا اور یہ الگ بات ہے کہ دونوں مقصد برابر ہوں یا ان میں سے ایک غالب ہو جیسا کہ ابتدائے باب میں تفصیل گزر چکی ہے پس معلوم ہوا کہ روزے میں بھی ریا کا عمل دخل ہوسکتا ہے۔

【21】

دکھلاوے کا نماز روزہ شرک ہے

حضرت شداد بن اوس (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ ایک موقع پر وہ رونے لگے پوچھا گیا کہ رونے کا سبب کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اس بات نے رلایا ہے کہ جو میں نے رسول ﷺ سے سنی تھی۔ اس وقت مجھے وہ بات یاد آگئی تو میں رونے پر مجبور ہوگیا اور وہ بات یہ ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے۔ میں اپنی امت پر شرک (یعنی شرک خفی) اور چھپی خواہشات سے خوف کھاتا ہوں۔ حضرت شداد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا آپ کی امت آپ ﷺ کے بعد شرک میں مبتلا ہوجائے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں ! یاد رکھو، میری امت کے لوگ سورج کو نہیں پوجیں گے، چاند کو نہیں پوجیں گے، پتھر کو نہیں پوجیں گے اور کھلم کھلا بت پرستی نہیں کریں گے (یعنی وہ شرک جلی میں تو نہیں مبتلا ہوں گے) لیکن لوگوں کو دکھلانے کے لئے نیک کام کریں گے۔ (اور یہ شرک خفی ہے جس میں وہ مبتلا ہوں گے (اور چھپی خواہش یہ کہ تم میں سے کوئی شخص روزہ کی حالت میں صبح کرے اور پھر اس پر نفسانی خواہشات میں سے کسی خواہش کا غلبہ ہوجائے جیسے کھانے کی خواہش غالب ہوجائے یا جنسی خواہش جاگ اٹھے اور وہ اس خواہش کے غلبہ کی وجہ سے کھانا کھا کر یا ہم بستری کر کے اپنا روزہ توڑ ڈالے جب کہ شرعی طور پر قابل اعتبار کسی ضرورت وحالت کے پیش آنے کے بغیر روزہ توڑنا حرام ہے۔ (احمد، بیہقی) تشریح مذکورہ خواہش کو چھپی خواہش اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ وہ روزہ کی نیت کے وقت گویا اس کے باطن میں پوشیدہ تھی، یعنی جب اس شخص نے روزہ کی نیت کی تھی اسی وقت اس نے اپنے نفس میں یہ خواہش چھپا رکھی تھی کہ اگر کوئی نفسانی تقاضا آیا تو روزہ توڑ دوں گا۔ واضح رہے کہ طیبی نے تو خواہش سے مراد کھانے وغیرہ کو قرار دیا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ چھپی ہوئی خواہش سے مراد نفسانی خواہشات میں خاص طور پر وہ نادرالوجود خواہش ہے۔ جو ہر وقت پیدا نہ ہوتی ہو بلکہ کسی خاص موقع پر اور کسی خاص وقت پیدا ہوجاتی ہو اور جب وہ خواہش سر ابھارتی ہو تو اس وقت اس کو پورا کرنے کا داعیہ طبعی طور پر اس طرح غالب آجاتا ہو کہ اس کی راہ میں کسی شرعی حکم کی مخالفت کا خوف بھی رکاوٹ نہ بناتا ہو، جیسا کہ روزہ کی مثال بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ولا تبطولا اعمالکم۔ لیکن اس خواہش کی تکمیل کے لئے روزہ توڑنے والا یہ لحاظ نہ رکھے کہ میرے اس فعل کی وجہ سے اللہ کے حکم کی صریح نافرمانی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ از قسم عبادت وطاعت جو کام شروع کیا جاتا ہے وہ لازم ہوجاتا ہے اور اس کا پورا کرنا شرعا واجب ہوتا ہے۔

【22】

ریا کاری دجال کے فتنہ سے زیادہ خطرناک ہے

حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ آپ میں مسیح دجال کے فتنوں اور اس کے ابتلاء کا ذکر کر رہے تھے۔ کہ رسول کریم ﷺ آ کر ہمارے درمیان تشریف فرما ہوگئے اور پھر ہماری بات چیت سن کر فرمانے لگے کہ کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتلاؤں جو میرے نزدیک یعنی میری شرعیت اور میرے طریق میں تمہارے حق میں مسیح دجال کے فتنہ سے بھی زیادہ خوفناک ہے اور اس اعتبار سے اس کا لحاظ رکھنا اور اس سے اجتناب کرنا تمہارے لئے نہایت ضروری ہے ہم نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ ! اس چیز کے بارے میں ہمیں ضرور بتائیے آپ ﷺ نے فرمایا وہ چیز شرک خفی ہے اور شرک خفی اس چیز کو کہتے ہیں کہ مثلاً ایک آدمی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور نماز پڑھتا ہے اور اس نماز کے تمام ارکان یا بعض ارکان میں کیفیت یا کمیت کے اعتبار سے غلو اور زیادتی کرتا ہے، محض اس لئے کہ کوئی شخص اس کو نماز پڑھتے دیکھ رہا ہے۔ (ابن ماجہ) تشریح ریاء کاری کی برائی کو دجال کے فتنہ سے زیادہ خوفناک اور پرخطر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ دجال کے جھوٹے ہونے اور اس کی فتنہ انگیزیوں کو ظاہر کرنے کی نشانیاں اور علامتیں بہت ہیں اور بالکل کھلی ہوئی ہیں، جو صاحب صدق و ایمان کی اس سے محفوظ رکھنے کے لئے کافی ہوں گی۔ جب کہ ریاء کاری کا معاملہ نہایت پوشیدہ ہے اور جس کی برائی وفتنہ انگیزی میں ہر عمل میں ہر وقت اور ہر طرح سے معلوم نہیں ہوسکتی اور یہی وجہ ہے کہ اچھے اچھے لوگ بھی اس کے جال میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔

【23】

ریا کاری شرک اصغر ہے

حضرت محمود بن لبید (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ مسلمانو ! بہت زیادہ خوفناک چیز کہ جس سے میں تمہیں ڈراتا ہوں، شرک اصغر چھوٹے درجہ کا شرک ہے۔ صحابہ (رض) نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اور وہ شرک اصغر کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ریا۔ اور بیہقی نے شعب الایمان میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس دن کہ جب وہ بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ یعنی قیامت کے دن ریا کاروں سے فرمائے گا کہ تم ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کو دکھلانے کے لئے تم عمل کرتے تھے اور دیکھو کہ تمہیں ان کے پاس جزا یا بھلائی ملتی ہے ؟

【24】

اخلاص عمل کا اثر

حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اگر کوئی شخص کسی ایسے بڑے پتھر کے اندر بھی کوئی نیک کام کرے کہ جس میں نہ تو کوئی دروازہ ہو اور نہ کوئی روشن دان، تو اس کا وہ عمل لوگوں میں مشہور ہوجائے گا خواہ وہ عمل کسی طرح کا ہو۔ تشریح صخرۃ اصل میں تو بڑے پتھر کو کہتے ہیں لیکن یہاں اس لفظ سے مراد غار ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ اس لفظ سے اس کے اصل معنی یعنی بڑا پتھر ہی مراد ہو، اس صورت میں کہا جائے گا کہ مذکورہ مفہوم میں اس لفظ کا استعمال بطور مبالغہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ کوئی شخص پتھر کے اندر بھی گھس کر کوئی نیک کام کرے کہ جس میں نہ کوئی دروازہ ہوتا ہے اور نہ کوئی روشن دان اور اس طرح اس پتھر کے اندر نہ تو داخل ہو کر اور نہ باہر سے جھانک کر دیکھا جاسکتا ہے کہ اندر کون شخص کیا کام کر رہا ہے تو اس صورت میں بھی وہ شخص اپنے اس نیک کام کے ساتھ لوگوں میں بہت مشہور ہوجاتا ہے۔ کوہ یا کوۃ اس سوراخ کو کہتے ہیں جو دیوار و چھت میں ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے اس لفظ کی یہ تفصیل بیان کی ہے کہ اگر وہ سوراخ آر پار ہو تو اس کو کوۃ (یعنی کاف کے پیش کے ساتھ) کہا جاتا ہے اور اگر آر پار نہ ہو تو کوۃ (کاف کے زبر کے ساتھ) کہلائے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ لفظ حرف تاء کے ساتھ یعنی کوۃ ہو تو اس کے معنی اس سوراخ کے ہوں گے جو چھوٹا اور تنگ ہو اور اگر حرف تاء کے بغیر ہو یعنی کو ہو تو اس صورت میں اس کے معنی اس سوراخ کے ہوں گے جو بڑا اور کشادہ ہو اس روایت میں یہ لفظ چونکہ حرف تا کے ساتھ ہے اس لئے یہاں اس کے معنی اس سوراخ کے ہوں گے جو چھوٹا اور آر پار ہو اور حدیث کے مفہوم کے اعتبار سے یہی معنی مناسب بھی ہیں۔ بہرحال، حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اچھے کام خواہ کتنے ہی پوشیدہ طور پر اور کیسی ہی تنہائی میں کیوں نہ کئے جائیں اور اس بات کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کی جائے کہ وہ اچھے کام لوگوں کے علم میں نہ آئیں مگر پھر بھی وہ لوگوں پر عیاں ہوجاتے ہیں پس اللہ تعالیٰ کی مصلحت اگر خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ نیک بندوں کے نیک عمل جو صدق و اخلاص کے ساتھ صادر ہوتے ہیں، لوگوں پر آشکارا ہوں، تاکہ ایک دوسرے کو اسی طرح نیک راہ اختیار کرنے کی ترغیب حاصل ہو تو پھر اس کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے کہ کوئی شخص اپنے نیک عمل کو ظاہر کرنے کے لئے ریاکاری کی حد تک پہنچ جائے اور اس کی قبولیت وثواب سے خواہ مخواہ محروم رہے۔ یا حدیث کے یہ معنی ہیں کہ مخلص بندہ کو چاہئے کہ وہ اپنے اچھے کاموں کو چھپائے اور اخلاص حاصل کرنے میں زیادہ سے زیادہ احتیاط وسعی کرے کیونکہ بندوں کے نیک عمل ایسی جگہوں سے بھی ظاہر ہوجاتے ہیں جہاں سے ظاہر ہوجانے کی ان کو خبر بھی نہیں ہوتی اور جن کے آشکارا ہونے میں اس کے قصد و اختیار کو دخل بھی نہیں ہوتا۔

【25】

اللہ تعالیٰ ہر پوشیدہ اچھی یا بری عادت کو آشکارا کردیتا ہے

حضرت عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جس شخص کے اندر کوئی اچھی یا بری عادت وخصلت چھپی ہوئی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس عادت وخصلت کو نمایا کرنے والے کوئی ایسی چیز پیدا کردیتا ہے جس کے ذریعہ وہ شخص اس عادت وخصلت کے ساتھ شناخت کرلیا جاتا ہے۔

【26】

نفاق کی برائی نہایت خوفناک ہے

حضرت عمر بن الخطاب (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ میں اس امت (یعنی امت محمدیہ ﷺ کے بارے میں جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ ہر منافق (یعنی ریا کار یا فاسق) کا شر ہے جو باتیں تو علم وحکم اور موعظت ونصیھت کی کرتا ہے، لیکن کام ظلم و زیادتی اور ناراستی کے کرتا ہے۔ ان تینوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ تشریح یہ ان لوگوں کی خصلت بتائی گئی ہے جو لوگوں کو دیکھا نے کے لئے باتیں تو بڑی اچھی اچھی کرتے ہیں مگر خود ان باتوں پر عمل کرتے نہیں اور اسی چیز کو نفاق کہا جاتا ہے۔ چناچہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں اپنی امت کے حق میں ایسے ہی لوگوں کے وجود اور اس کی بری خصلت سے ڈرتا ہوں کہ مبادا اس قسم کے لوگ میری امت میں پیدا ہوجائیں گے اور بری خصلت اس امت محمدیہ کے درمیان راہ پا کر مسلمانوں کو فتنہ و فساد اور آلام و مصائب میں مبتلا کر دے۔

【27】

حسن نیت کی اہمیت

حضرت مہاجر بن حبیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں عقلمند ودانشور کی ہر بات کو قبول نہیں کرتا (یعنی میرا دستور یہ نہیں ہے کہ عالم وفاضل اور علمند و دانا شخص جو بات بھی کہے اس کو قبول کرلوں) بلکہ میں اس کے قصد و ارادہ کو اور اس کی محبت ونیت کو قبول کرتا ہوں (یعنی یہ دیکھتا ہوں کہ اس نے جو بات کہی ہے وہ کس قصد و ارادہ اور کس نیت کے ساتھ کہی ہے) پس اگر اس کی نیت و محبت میری طاعت و فرمانبرداری کے تئیں ہوتی ہے تو میں اس کی خاموشی کو بھی اپنی حمد و ثنا اور اس کے حلم و وقار کے مرادف قرار دیتا ہوں اگرچہ وہ کوئی بات نہ کہے۔ (دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک محض گفتار کے غازی کی کوئی اہمیت نہیں ہے، وہاں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ بات کہنے والا دانش و حکمت سے قطع نظر اپنی نیت میں کتنا مخلص ہے۔ اگر وہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کی نیت اور اپنے دل میں اللہ کے احکام کی محبت و عظمت رکھتا ہے تو اس کی خاموشی بھی علم و وقار کا مایہ افتخار اور اللہ کے نزدیک مستحسن و محمود قرار پاتی ہے کہ اگر وہ زبان سے کچھ نہ کہے تو بھی وہ ایسا ہی سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ کی حمد و ثنا میں رطب اللسان ہے۔ اور اگر اس کی نیت اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی نہ ہو اور اس کے دل میں احکام الٰہی کی عظمت و محبت کا فقدان ہو تو اس کی ہر بات لغو اور ناقابل اعتناء قرار پاتی ہے اگرچہ اس کے الفاظ ومعنی علم و حکمت سے کتنے ہی پر کیوں نہ ہوں کیونکہ اس صورت میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھا جاسکتا کہ وہ ریا کاری میں مبتلا ہے اور جو بھی بات کہہ رہا ہے، اس کا مقصد لوگوں کو دکھانا سنانا اور اس کے ذریعہ شہرت وناموری حاصل کرنا ہے۔