159. لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان

【1】

رونے اور ڈرنے کا بیان

بکاء کے معنی ہیں رونا اور آنسو بہانا۔ اگر یہ لفظ مد کے بغیر یعنی بکا ہو تو اس کا اطلاق کسی غم وحزن کی وجہ سے صرف آنسو بہنے پر ہوتا ہے اور اگر یہ لفظ مد کے ساتھ، یعنی بکاء ہو تو اس کا اطلاق آواز کے ساتھ رونے اور آنسو بہانے پر ہوتا ہے اور زیادہ مشہور مد کے ساتھ ہی ہے نیز ظاہر یہ ہے کہ عنوان بالا میں اس لفظ کا عام مفہوم مراد ہے یعنی رونا، خواہ خاموش آنسو بہانے کی صورت میں ہو یا بلند آواز کے ساتھ رونے کی صورت میں۔ اس سے تبا کی کا لفظ نکلا ہے جس کے معنی ہیں رونے کی صورت بنانا، بہ تکلف رونا اور ان چیزوں کو کہ جن سے رونا آئے۔ مبادا اور بیان کر کے زبردستی رونا، ابکاء بھی اسی لفظ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی کو رلانا۔ خوف کے معنی ہیں ڈرنا، دہشت کھانا اسی لفظ سے اخافت اور تخویف ہے، جس کے معنی ہیں ڈرانا، واضح رہے کہ خوف ایک خاص کیفیت وحالت کا نام ہے جو پیش آتی ہے۔ حاصل یہ کہ رونے اور ڈرنے سے مراد آخرت کے عذاب اور اللہ تعالیٰ کے عقاب و عتاب سے ڈرنا اور ان چیزوں کے خوف سے رونا گڑ گڑانا ہے۔

【2】

زیادہ ہنسنا آخرت کی ہولنا کیوں سے بے فکر کی علامت ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوالقاسم (محمد) ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم اس چیز کو جان لو جس کو میں جانتا ہوں تو یقینا تمہارا رونا زیادہ اور ہنسنا کم ہوجائے (یعنی قیامت کے احوال اور اس کی ہولناکیاں، مبدأ و معاد کی حقیقت گنہگاروں کے تئیں اللہ تعالیٰ کا عتاب و عذاب یوم حساب کی شدت پرسش اور باری تعالیٰ کی صفات قہریہ وجلالیہ کو، جو خوف مصیبت کا باعث ہیں جس قدر میں جانتا ہوں اور پھر ان چیزوں کے تعلق سے تمہارے انجام کار کے بارے میں جو کچھ مجھے معلوم ہے اور جس کی وجہ سے میرے دل پر ہر وقت غم وخوف طاری رہتا ہے اگر تم بھی ان سب چیزوں سے پوری طرح آگاہ ہوجاؤ تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خوف وہیبت کے مارے تم ہنسنا بھول جاؤ اور اپنا زیادہ وقت رونے اور غم کھانے میں صرف کرو، کیونکہ اس صورت میں تم رجا یعنی رحمت الٰہی کی امید کے مقابلہ پر عذاب الٰہی کے خوف کو زیادہ ترجیح دینے لگو) ۔ (بخاری) تشریح اس ارشاد گرامی میں امت کے لئے ایک تنبیہ تو یہ ہے کہ اپنے اوپر گریہ طاری رکھنا چاہئے اور ان چیزوں کی یاد تازہ رکھنی چاہئے جو رونے وہلانے اور غم کھانے کا باعث ہوتی ہیں جیسے خوف الٰہی کا احساس اور عظمت و جلال حق کی حقیقت معلوم کرنا۔ دوسری تنبیہ یہ ہے کہ جاہل و غافل لوگوں کی طرح بہت زیادہ ہنسنے اور راحت چین اختیار کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف عفو مغفرت اور اس کی رحمت پر امید کی وجہ سے فی الجملہ راحت چین اختیار کرنا ایک حد تک گنجائش رکھتا ہے۔

【3】

کسی کے اخروی انجام کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا

حضرت ام العلاء انصاریہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ باوجودیکہ میں اللہ کا رسول ہوں لیکن اللہ کی قسم یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ (بخاری) تشریح اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص کی عاقبت کا معامہ غیر معلوم ہے کوئی نہیں جانتا کہ کون شخص کیا عمل کرے گا اور اس کا آخری انجام کیا ہوگا ؟ تاہم واضح رہے کہ انبیاء اور رسولوں اور خصوصاً سید المرسلین ﷺ کی عاقبت کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی کیونکہ ان حضرات کے بارے میں ایسی دلائل قطعیہ منقول ہیں جو واضح طور پر بتاتی ہیں کہ انبیاء خصوصاً حضور ﷺ کی عاقبت کا بخیر ہونا ایک یقینی امر ہے۔ لہٰذا حضور ﷺ کے اس ارشاد کہ میں یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ کو اس مخصوص پس منظر میں رکھ کر دیکھنا چاہئے جس میں یہ حدیث حضور ﷺ نے ارشاد فرمائی تھی اور وہ یہ کہ ایک صحابی حضرت عثمان بن مظعون (رض) جو اونچے درجہ کے مہاجر صحابہ میں سے تھے، ان کا مدینہ میں انتقال ہوا اور خاص بات یہ کہ مدینہ میں مہاجرین میں سے سب سے پہلے جن صحابی کا انتقال ہوا ہے وہ یہی تھے چناچہ حضور ﷺ نے اپنی ذاتی نگرانی میں ان کی تجہیز وتکفین کا انتظام فرمایا ان کے جنازے کے ساتھ نہایت عزت و تکریم کا معاملہ کیا ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر اپنے سامنے بقیع میں ان کو سپر خاک کرایا، اس موقع پر ایک خاتون، جو وہاں موجود تھیں اور حضرت عثمان (رض) کے تئیں حضور ﷺ کی یہ محبت و عنایات دیکھ رہی تھیں کہنے لگیں۔ عثمان تمہیں جنت مبارک ہو کہ تمہاری عاقبت و انجام بخیر ہے۔ اس وقت حضور ﷺ نے ان خاتون کو سرزنش کی اور مذکورہ حدیث ارشاد فرمائی۔ لہٰذا اس حدیث کا مقصد دراصل حضور ﷺ کے سامنے ایک غیر موزوں بات زبان سے نکالنے کی جرات و گستاخی پر بطریق مبالغہ سرزنش کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بات اس طرح بھی کہی جاسکتی ہے کہ حضور ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا تو ان الفاظ سے آپ ﷺ کی مراد ان کے حقیقی معنی نہیں تھے بلکہ آپ ﷺ نے ان الفاظ کے ذریعہ بطور کنایہ یہ فرمایا کہ کسی دوسرے شخص کی عاقبت کے بارے میں کوئی یقینی بات کہنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا خود میرا معاملہ یہ ہے کہ اگرچہ میں اللہ کا رسول ہوں اور میری عاقبت کا بخیر ہونا ایک یقینی امر ہے مگر چونکہ عاقبت کا معاملہ علم غیب سے تعلق رکھتا ہے اس لئے میں از راہ ادب اپنی عاقبت کے بارے میں بھی تصریح نہیں کرسکتا ہے اور یہ نہیں بتاسکتا کہ آخرت میں میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ یا اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ اگرچہ میں اللہ کا رسول ہوں لیکن کسی کی عاقبت اور انجام کار کے بارے میں تفصیل کے ساتھ مجھے بھی کچھ معلوم نہیں ہے کہ کون شخص دنیا میں کس انجام کو پہنچے گا اور آخرت میں کس احوال سے دوچار ہوگا کیونکہ اس طرح کے احوال کا تعلق غیب سے ہے اور غیب کی تفصیلی باتین عالم الغیب (اللہ تعالیٰ ) کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ گو اجمالی طور پر اتنا ضرور معلوم ہے کہ انبیائے کرام (علیہم السلام) کی عاقبت بخیر ہے ملاعلی قاری نے اسی احتمال کو صحیح لکھا ہے۔ ایک احتمال یہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ کہ مذکورہ ارشاد سے حضور ﷺ کی مراد یہ تھی کہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ میں اس دنیا سے کس طرح رخصت ہوں گا اور میری موت کن حالات میں واقع ہوگی، آیا اپنی موت سے مروں گا یا کوئی شخص مجھے قتل کر دے گا اسی طرح مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ جس طرح پچھلی امتوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا تھا اس طرح تم پر بھی کوئی ہلاکت خیز عذاب نازل ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد گرامی اس آیت کریمہ (لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْ بِكَ وَمَا تَاَخَّرَ ) 48 ۔ الفتح 2) کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے، چناچہ پہ تو عاقبت کے بارے میں ابہام تھا کہ کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی تھی۔ مگر اس آیت کے نازل ہونے کے بعد یہ ابہام دور ہوگیا اور یقین کے ساتھ یہ معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺ کی عاقبت بخیر ہے۔

【4】

دوزخ کے بارے میں حضور ﷺ کا ایک مشاہدہ

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں یا اور کسی موقعہ پر حالت خواب یا بیداری ہی میں میرے سامنے دوزخ کی آگ دکھانے کے لئے لائی گئی تو میں نے اس میں بنی اسرائیل کی ایک عورت کو جلتے ہوئے دیکھا جو بنی اسرائیل کی اہل ایمان میں سے تھی اس کو ایک بلی کے معاملہ میں عذاب دیا جا رہا تھا جس کو اس نے باندھ چھوڑا تھا، نہ تو اس کو کچھ کھانے پینے کے لئے دیا کرتی تھی اور نہ اس کو کھولتی ہی تھی کہ وہ چل کر حشرات الارض (یعنی چوہوں وغیرہ) میں سے کچھ کھالے اور آخر کار وہ بلی بھوک سے تڑپ تڑپ کر مرگئی۔ نیز میں دوزخ میں عمرو بن عام خزاعی کو بھی دیکھا جو اپنی آنتوں کو دوزخ کی آگ میں کھینچ رہا تھا یہ وہ سب سے پہلا شخص تھا جس نے اونٹنی چھوڑنے کی رسم نکالی تھی۔ (مسلم) تشریح سوائب اصل میں سائبۃ کی جمع ہے اور سائبہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں نذر وغیرہ کے لئے چھوڑی جاتی تھی چناچہ اہل عرب کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی اونٹنی سارے بچے مادہ ہی مادہ جنتی، یا کوئی شخص دور دراز کے سفر سے واپس آتا اور یا کوئی مریض صحت یاب ہوتا تو وہ اونٹنی کو آزاد چھوڑ دیتے تھے کہ نہ تو اس پر سوار ہوتے اور نہ اس کا دودھ دوہتے، وہ جہاں چاہتی پھرتی، کوئی شخص اس کو اپنے گھاس پانی وغیرہ سے روکتا نہیں تھا، وہ لوگ اس کام کو ایک عبادت اور اپنے بتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ جانتے تھے، اس رسم کو سب سے پہلے جس نے جاری کیا وہ عمرو بن عام خزاعی تھا۔ علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے بت پوجنے کی رسم نکالی اور بت پرستی کو تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا وہ بھی یہی عمرو بن عامر تھا۔ بعض روایتوں میں یہ نام عمرو بن عامر کے بجائے عمرو بن لحی بیان کیا گیا ہے اور بظاہر یہ دونوں نام ایک ہی شخص کے ہیں عامر تو اس کے باپ کا نام تھا اور لحی اس کے دادا کا نام تھا یا اس کے برعکس تھا کہ باپ کا نام تو لحی اور دادا کا نام عامر تھا چناچہ کسی روایت میں باپ کی طرف نسب کر کے اور کسی روایت میں دادا کی طرف نسبت کر کے اس کا ذکر کیا گیا۔ کرمانی نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ابھی سے دوزخ میں ڈالے جا چکے ہیں اور وہاں عذاب بھگت رہے ہیں۔ تاہم یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس ارشاد گرامی کا تعلق اس بات سے ہے کہ آنحضرت ﷺ پر دوزخ کا وہ احوال منکشف کیا گیا جو قیامت کے دن پیش آئے گا اور آپ ﷺ کو اس کی صورت دکھائی گئی کہ قیامت کے دن مذکورہ عورت اور عمرو بن عامر کو دوزخ میں اس طرح ڈالا جائے گا اور ان کو اس طرح عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

【5】

فسق وفجور کی کثرت پوری قوم کے لئے موجب ہلاکت ہے

حضرت زینب بنت جحش (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم ﷺ ان کے ہاں ایسی حالت میں تشریف لائے کہ جیسے بہت گھبرائے ہوئے ہیں پھر فرمانے لگے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں۔ افسوس صد افسوس عرب کے اس شروفتنہ پر جو اپنی ہلاکت آفرینی کے ساتھ قریب آپہنچا ہے۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اس قدر سوراخ ہوگیا ہے۔ یہ کہہ کر آپ ﷺ نے انگوٹھے اور برابر والی انگلی کے ذریعہ حلقہ بنایا، حضرت زینب (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم اس صورت میں بھی ہلاک کر دئیے جائیں گے جب کہ ہمارے درمیان صالح وپاکباز لوگ موجود ہوں گے ؟ کیا ہمارے درمیان اللہ کے نیک بندوں کے وجود کی برکت ان فتنوں کے پھیلنے اور آفات وبلاؤں کے نازل ہونے میں رکاوٹ نہیں بنے گی ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں تمہارے درمیان علماء اور بزرگارن دین کی موجودگی کے باوجود تمہیں ہلاکت و تباہی میں مبتلا کیا جائے گا جب کہ فسق وفجور کی کثرت ہوگی (یعنی جب معاشرہ میں برائیاں بہت پھیل جائیں گی اور ہر طرف فسق وفجور کا دور دورہ ہوگا تو ان برائیوں اور فسق وفجور کے سبب نازل ہونے والے فتنہ وآلام اور آفات کو صلحاء اور بزرگوں کی موجودگی اور ان کی برکت بھی نہیں روک سکے گی۔ (بخاری ومسلم) تشریح شر سے حضور ﷺ کی مراد اس فتنہ و فساد اور قتل و قتال کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا جس کی ابتداء مستقبل میں ہونے والی تھی اور جس کا شکار سب سے پہلے اہل عرب بننے والے تھے، چناچہ قلب نبوت نے اہل اسلام کو افتراق و انتشار میں مبتلا کرنے والے جن واقعات کا بہت پہلے ادراک کرلیا تھا اور مذکورہ ارشاد کے ذریعہ گویا ان کے بارے میں پیش گوئی فرما دی تھی ان کی ابتداء خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان (رض) کے سانحہ شہادت سے ہوئی اور جن کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں اب تک جاری ہے۔ بعض حضرات نے یہ مراد بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ جب اہل عرب کو اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سبب دشمنوں کے مقابلہ پر فتوح حاصل ہوں گی، دوسرے ملکوں پر غلبہ و اقتدار حاصل ہوگا اور مال و دولت کی ریل پیل ہوگی تو اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ لوگوں کے خلوص وللہیت میں کمی آجائے گی، حکومت و اقتدار اور مال و زر سے رغب و محبت پیدا ہوجائے گی، دنیا طلبی وجاہ پسندی اور خود غرضی کا عفریب باہمی مخالفت ومخاصمت اور افتراق و انتشار کے ذریعہ پوری ملت کو متاثر کر دے گا۔ حلقہ بنایا یعنی آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کے ذریعہ حلقہ بنا کر دکھایا کہ اس دیوار میں آج تک کبھی کوئی سوراخ نہیں ہوا تھا۔ لیکن آج اس میں اتنا بڑا سوراخ ہوگیا ہے جتنا کہ ان دونوں انگلیوں کے ذریعہ بنایا گیا حلقہ ہے۔ واضح رہے کہ اس دیوار میں سوراخ کا ہوجانا قرب قیامت کی علامات میں سے ہے جس طرح کہ عرب اور اہل عرب میں فتنہ و فساد کا بیج پڑجانا اور برائیوں کے پھیل جانا بھی قیامت کے قریب آجانے کی ایک دلیل ہے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے یاجوج ماجوج کی دیوار میں سوارخ ہوجانے کی بات کہہ کر گویا اس علاقہ سے اٹھنے والے ایک عظیم فتنہ اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو پہنچنے والے سخت نقصان کی طرف اشارہ کیا، چناچہ تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ حضور ﷺ نے جس فتنہ کی طرف اشارہ فرمایا تھا وہ چنگیزیت کی صورت میں اسی علاقہ سے اٹھا اور جس نے بڑی بڑی اسلامی حکومتوں کو نقصان پہنچایا یہاں تک کہ ہلاکو خان کی سربراہی میں تاتاری ترکوں کے سیلاب نے اسلامی خلافت کو بہا ڈالا، خلیفہ معتصم باللہ کو قتل کیا بغداد کو لوٹ کر تباہ و تاراج کیا اور لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا اور پوری ملت اسلامیہ کو بڑی بڑی جہادوں سے دوچار کیا۔ لفظ خبث خ اور ب کے زبر کے ساتھ فسق وفجور اور کفر شرک کے معنی میں ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس کے معنی بدکاری زنا کے ہیں حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی جگہ آگ لگتی ہے بھڑک اٹھتی ہے تو پھر وہ ہر ایک چیز کو جلا ڈالتی ہے کیا خشک اور کیا تر، ہر ایک کو بھسم کردیتی ہے۔ حلال اور حرام، پاک اور ناپاک جو بھی چیز اس کے شعلوں کی لپیٹ میں آتی ہے جل کر خاک ہوجاتی ہے، مومن اور کافر، موافق اور مخالف کسی کے درمیان فرق نہیں کرتی، جو شخص بھی اس کی زد میں آجاتا ہے راکھ کا ڈھیر بن جاتا ہے اسی طرح عذاب الٰہی کا معاملہ ہے کہ جب کسی ملک میں، کسی علاقہ میں اور روئے زمین کے کسی حصہ پر برائیوں کا دور دورہ ہوجاتا ہے، بدکاریاں عام ہوجاتی ہیں فواحش کی کثرت ہوجاتی ہے اور فسق وفجور کا غلبہ ہوجاتا ہے اور اس کے سبب وہاں کے لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو پھر کسی کی کوئی تخصیص نہیں رہ جاتی، بدکار اور سرکش لوگ تو تباہ و برباد ہوتے ہیں نیکو کار وپاکباز لوگ بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں یہ اور بات ہے کہ جب قیامت میں ساری مخلوق کو دوبارہ آتھایا جائے گا تو اس وقت ہر شخص کے ساتھ اس کے عمل کے مطابق ہی سلوک ہوگا۔ ایک نسخے میں لفظ خ کے پیش اور ب کے جزم کے ساتھ یعنی خبت منقول ہے جس کے معنی فواحش اور فسوق کے ہیں، ویسے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔

【6】

خسف اور مسخ کا عذاب اس امت کے لوگوں پر بھی نازل ہوسکتا ہے

حضرت ابوعامر (رض) یا حضرت ابومالک اشعری (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے (یعنی ابوعام یا ابومالک نے) بیان کیا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت میں کچھ ایسے گروہ اور طبقے بھی پیدا ہوں گے جو ریشمی کپڑے کو اور شراب کو اور باجوں کو حلال و جائز کردیں گے اور ان میں سے کچھ لوگ بلند پہاڑ کے پہلو میں قیام کریں گے۔ یعنی وہ اپنے قیام کرنے کی جگہ ایسے مقامات پر بنائیں گے جو بلندو ممتاز اور نمایاں ہوں گے اور ان کی یہ ممتاز و نمایاں حیثیت دیکھ کر غریب و محتاج لوگ اپنی حاجتین اور ضورتیں لے کر ان کے پاس آیا کریں گے رات کے وقت ان کے مویشی (جو چرنے کے لئے گئے ہوں گے) یٹ بھرے ہوئے واپس آیا کریں گے اور ان مویشیوں کو چرانے والا دودھ سے بھرا ہوا لے کر آئے گا لیکن جب کوئی شخص محتاج اپنی ضرورت لے کر ان کے پاس آئے گا اور یہ خواہش کرے گا کہ ان مویشیوں کے دودھ میں سے کچھ حصہ اس کی غذائی ضرورت پورا کرنے کے لئے لے جائے تو وہ اس کو یہ کہہ کر ٹال دیں گے کہ کل ہمارے پاس آنا اور پھر رات ہی میں اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب اس طرح نازل کرے گا کہ ان میں سے بعض پر تو پہاڑ کی چوٹی الٹ دے گا (تاکہ وہ اس کے نیچے دب کر تباہ وہلاک ہوجائیں اور ان کا نام ونشان تک باقی نہ رہے اور ان میں سے بعض کی صورتوں کو مسخ کر کے بندر اور سور بنا دے گا جو قیامت تک اسی شکل و صورت میں باقی رہیں گے یا یہ کہ اس طرح کے بدکار لوگوں پر جو بھی عذاب نازل ہوگا وہ قیامت تک ان پر مسلط رہے گا) ۔ (بخاری) اور مصابیح کے بعض نسخوں میں الخز کے بجائے ح اور راء کے ساتھ الحر ہے اور ح کے زیر اور را کے جزم کے ساتھ الحر کے معنی عورت کی شرمگاہ کے ہیں۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ زنا و بدکاری کو حلال و جائز کردیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس لفظ کا حا اور را کے ساتھ یعنی الحر نقل ہونا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ کتابت کی غلطی ہے جو کاتب سے واقع ہوگئی ہے اصل میں یہ لفظ خز ہے (یعنی خ اور ز کے ساتھ) ۔ حمیدی اور ابن اثیر نے اس حدیث کے سلسلہ میں اس معنی کی تصریح کی ہے۔ نیز حمیدی کی کتاب میں امام بخاری ہی سے جو یہ روایت نقل کی گئی ہے اور اسی طرح خطابی نے شرح بخاری میں جو روایت نقل کی ہے ان دونوں میں (یروح علیہم بسارحۃ) کے بجائے یوں ہے تروح علیہم سارحۃ لہم یاتیہم لحاجۃ۔ تشریح یا حضرت ابومالک اشعری (رض) سے روایت ہے اس عبارت کے ذریعہ بخاری نے اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے یہ شک وتردد ظاہر کیا ہے کہ اس حدیث کو یا تو حضرت ابوعامر اشعری نے نقل کیا ہے جو حضرت ابوموسی اشعری کے چچا اور اکابر صحابہ میں سے ہیں یا اس روایت کو بیان کرنے والے حضرت ابومالک اشعری ہیں جن کو اشجعی بھی کہا جاتا ہے اور یہ بھی ایک مشہور صحابی ہیں، تاہم واضح رہے کہ کسی حدیث کے راوی کی حیثت سے صحابہ (رض) کے بارے میں اس قسم کا شک وتردد اس حدیث میں طعن کا موجب نہیں ہوتا کیونکہ صحابہ سب ہی ثقہ اور عدل ہیں، لہٰذا وہ حدیث جس صحابی سے بھی منقول ہوگی صحیح ہوگی۔ خز (خ کے زبر اور ز کی تشدید کے ساتھ اس خاص کپڑے کا نام ہے جو پہلے زمانے میں ریشم اور اون سے بنا جاتا تھا اس وقت یہ کپڑا بہت مستعمل تھا یہاں تک کہ صحابہ (رض) اور تابعین بھی اس کو پہنتے اور استعمال کرتے تھے لہٰذا علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں خز کا ذکر کر کے مذکورہ کپڑے کے استعمال کی جو ممانعت ظاہر فرمائی گئی ہے وہ شاید اس بنا پر ہے کہ اس کپڑے کو پہننے سے اہل عجم (غیر دیندار اور عیش پرستوں) کی مشابہت پیدا ہوتی ہے علاوہ ازیں وہ کپڑا اپنی بناوٹ اور قیمت کے اعتبار سے ایک ایسا لباس تھا جس کو دولت مند، عیش پسند لوگ اور اہل اسراف استعمال کرتے تھے، دوسری بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ اس حدیث کا اصل محمول وہ خز ہے جو اگرچہ حضور ﷺ کے زمانہ میں رائج نہیں ہوا تھا مگر بعد میں اس کا رواج ہوا۔ جس میں صرف ریشم ریشم ہوتا ہے اس اعتبار سے آپ ﷺ کا ارشاد بطور معجزہ، غیب (زمانہ مستقبل کی بات کی) خبر دینے کے طور پر ہوگا اور اس مطلب کو تسلیم کرنے کی صورت میں خز پر حریمہ کا عطف تعمیم بعد تخصیص کے قبیل سے ہوگا۔ معازف کے معنی عود وطنبورہ وغیرہ جیسے باجوں کے ہیں اور یہ لفظ عزف یا معزف کی جمع ہے ویسے عزف اور عزیف اصل میں جن کی آواز کو کہتے ہیں اور اس مخصوص آواز کو بھی کہتے ہیں جو رات کے وقت جنگل وبیابان میں سیٹوں کے مشابہ سنائی دیتی ہے جس کو ہوا کی سرسراہٹ اور اس کی آواز سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اس امت میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو مختلف شکوک و شبہات پیدا کر کے دور دراز کار تاویلیں کر کے اور لغو و مہمل نظائر دلائل کے ذریعہ ان چیزوں کو حلال کرلیں گے جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے مثال کے طور پر بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ مردوں کے لئے خالص ریشم کا کپڑا پہننا اور استعمال کرنا اس صورت میں حرام ہے جب کہ وہ بدن سے متصل ہو، یعنی اس کپڑے اور بدن کے درمیان کوئی اور چیز حائل نہ ہو، اگر وہ ریشمی کپڑا ابرے کے طور پر استعمال کیا جائے کہ بدن سے لگا ہوا جو کپڑا ہو وہ تو سوتی ہو اور اس کے اوپر کا کپڑا ریشمی ہو تو اس اس کے استعمال کی گنجائش ہے، یہ بات الگ ہے کہ اس قول کی تحقیق کیا ہے اور یہ کس مرد کو واضح کرتا ہے لیکن اگر اس قول کو بنیاد بنا کر مردوں کے لئے مطلق ریشمی کپڑا پہننے اور استعمال کرنے کو جائز قرار دے لیا جائے اور لوگ بلاتکلف حریر ودیباج جیسے خالص ریشمی کپڑے پننے لگیں تو یہ کھلی ہوئی گمراہی ہوگی، چناچہ یہی ہوا کہ جب امراء اور عوام خالص ریشمی کپڑے استعمال کرتے اور اور ان سے کہا جاتا کہ مردوں کے حریر و دیباج پہننا حرام ہے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ اگر یہ حرام ہوتا تو فلاں عالم نے یہ بات کیوں کہی ہوتی اور فلاں فلاں بزرگ نے ریشمی کپڑا کیوں استعمال کیا ہوتا ؟ اس طرح وہ لوگ ایک حرام چیز کو حلال جاننے اور سمجھنے کی نہایت سخت برائی اور گناہ میں مبتلا ہوئے۔ اسی طرح مزامیر کا معاملہ کہ بعض علماء اور مشائخ کو سماع اور مزامیر سے تعلق رہا ہے جو اپنی جگہ پر ایک الگ بحث ہے اور اس کی تفصیل بہت طویل ہے اس بات سے قطع نظر کہ سماع و مزامیر سے ان کا تعلق کن حالت میں اور کن شرائط وپابندیوں کے ساتھ تھا، زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان کے قول وفعل کو غلط طور پر بنیاد بنا کر لوگوں نے کس قدر گمراہیاں پھیلائی ہیں اور راگ رنگ باجے گا جے کی شیطانی مجلسوں کو محفل سماع کے نام پر شریعت کی حرام کردہ چیزوں کو نہ صرف حلال جانتے بلکہ ان کو نعوذ باللہ حصول ثواب کا ذریعہ ماننے کی گمراہی کو عام کیا گیا۔ واضح رہے کہ ابن ابی الدنیا نے مذکورہ روایت کو آلات لہو یعنی مزامیر کی مذمت میں حضرت انس (رض) نے اس طرح نقل کیا ہے کہ یکونن فی ہذہ المۃ خسف وقذف ومسخ ذلک او اشربوا الخمرواتخذت القینات وضربوا بالمعازف۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ جب لوگ ان چیزوں کو حلال جان کر ان کو اختیار کریں گے تو خسف ومسخ جیسے عذاب الٰہی میں گرفتار کئے جائیں گے۔ نص علیہ الحمیدی الخ اس عبارت کے ذریعے مؤلف مشکوۃ نے حمیدی اور ابن اثیر کے قول کو بطور دلیل اختیار کر کے اس امر کی تائید کی کہ لفظ الحر (ح اور ز کے ساتھ) واقعۃ کتابت کی غلطی ہے اور صحیح لفظ الخز (خ اور ز کے ساتھ) ہی ہے، لہٰذا کسی کا یہ گمان کرنا کہ یہ لفظ ح اور ر کے ساتھ صحیح ہے حقیقت کے خلاف ہے تاہم مؤلف نے فی ہذا الحدیث کے الفاظ کے ذریعے اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ یہ بحث صرف اس حدیث کے سلسلے میں ہے جو بخاری سے یہاں نقل کی گئی ہے، ویسے الحر کا لفظ ایک دوسری روایت میں منقول ہے جس کو ابوداؤد وغیرہ نے نقل کیا ہے چناچہ طیبی نے اس حدیث کو اپنی شرح میں ذکر کیا ہے لیکن بخاری کے مشہور شارح علامہ بن حجر نے جو بات کہی ہے وہ مؤلف مشکوۃ کے مذکورہ قول کے منافی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ بخاری کی اکثر روایتوں میں یہ لفظ ح اور را کے ساتھ یعنی الحر ہی ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر یہ کہا جائے گا کہ اپنی جگہ پر دونوں روایتیں صحیح ہیں۔ تروح علیہم بسارحۃ میں سارحۃ تروح کا فاعل ہے اور یہ اس بات کا قریبہ ہے کہ پہلی روایت (جس کو مؤلف مشکوۃ نے یہاں نقل کیا ہے) کے لفظ بسارحۃ میں حرف ب زائد ہے چناچہ ترجمہ میں اسی کو محفوظ رکھا گیا ہے، اسی طرح ان دونوں کتابوں (کتاب حمیدی اور بخاری کی شرح خطابی) میں یاتیہم لحاجۃ منقول ہوا ہے، یعنی ان دونوں کتابوں کی نقل کردہ حدیث میں اس جملے میں رجل کا لفظ نہی ہے یا یہ مطلب ہے کہ ان دونوں نے بھی رجل کا لفظ نقل تو کیا ہے لیکن لحاجۃ کے بعد اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اس امت کے لوگوں کو بھی خسف اور مسخ کے عذاب میں گرفتار کیا جاسکتا ہے جیسا کہ گزشتہ امتوں کے لوگوں کی سرکشی اور بداعمالیوں کی وجہ سے ان کو اس عذاب میں مبتلا کیا گیا، لہٰذا وہ احادیث کہ جو اس بات کی نفی میں منقول ہیں اور جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امت محمدیہ پر اس طرح عذاب نازل نہیں ہوں گے وہ یا تو اس امت کے ابتدائی زمانہ پر محمول ہیں اور آخری زمانہ ان کے دائرہ مفہوم سے باہر ہے اور یا اجتماعی طور سے پوری امت کے خسف ومسخ پر محمول ہیں، نہ کہ انفرادی طور سے بعض کے بارے میں نفی پر۔

【7】

عذاب الٰہی کا نزول

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر اپنا عذاب نازل کرتا ہے تو وہ عذاب ہر اس شخص کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جو اس قوم میں ہوتا ہے اور پھر آخرت میں لوگوں کو ان کے اعمال کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب کسی قوم میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی و سرکشی، فسق وفجور، ظلم وعصیان، اللہ کے دین اور اللہ کے دین کو ماننے والوں کے ساتھ بغض ونفرت اور تمسخر و استہزاء اور وہ برائیاں حد سے زیادہ پھیل جاتی ہیں جو قہر الٰہی کو دعوت دیتی ہیں اور پھر اس کے نتیجے میں اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ تو وہ عذاب صالح وغیر صالح اور نیک وبد کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا بلکہ ہر اس شخص کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جو اس قوم کے درمیان ہوتا ہے، اگرچہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنے نیک و صالح بندوں کو اس عذاب سے محفوظ بھی رکھ لیتا ہے۔ لیکن تمام ہی لوگوں کا اس عذاب میں مبتلا ہونا یہ معنی نہیں رکھتا کہ اخروی انجام کے تعلق سے بھی وہ تمام لوگ ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں کہ وہاں آخرت میں ہر شخص کے ساتھ اس کے اعمال ہی کے مطابق معمول ہوگا، جو شخص نیک و صالح رہا ہوگا اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا اور جو شخص بدکار و سرکش ہوگا وہ وہاں بھی عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

【8】

اصل اعتبار خاتمہ کا ہے

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ہر بندہ کو اسی حال پر اٹھایا جائے گا ۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو شخص جس حالت و حیثیت میں اس دنیا سے رخصت ہوگا اسی حالت میں قیامت کے دن اٹھے گا اور اس کا اخروی انجام اسی کے مطابق ہوگا۔ اگر ایمان کی حالت میں مرا ہے تو ایمان ہی کی حالت میں اٹھے گا، اگر کفر کی حالت میں مرے گا تو کفر ہی کی حالت میں اٹھے گا، اگر طاعت و عبادت کی حالت میں مرا ہے تو طاعت و عبادت گزار بندے کی حیثیت میں اٹھے گا، اگر گناہ و معصیت کی حالت میں مرے گا تو نافرمان و گنہگار بندے کی حیثیت میں اٹھے گا، اسی طرح اگر اللہ کے ذکر کی حالت میں مرے گا تو ذاکر بندے کی حیثیت میں اٹھے گا اور اگر ذکر الٰہی سے غفلت و لاپرواہی کی حالت میں مرے گا تو غافل و لاپرواہ بندے کے طور پر اٹھے گا۔ غرض یہ کہ قیامت کے دن اٹھنے اور آخرت میں فلاح یاب ہونے یا نامراد قرار دیئے جانے کا مدار خاتمہ پر ہے کہ کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا آخر کیسا گزرے اور اس کا خاتمہ کس حالت میں ہو۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے۔ حکم مستوری ومستی ہمہ بر خاتمہ است کس ندانست کہ آخر بچہ حالت گذرد تاہم بعض عارفین نے کہا ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے تئیں حضوری واستغراق کا ملکہ حاصل کرلیتا ہے اور اس کے دل میں ذکر اللہ کا جو ہر جگہ پا لیتا ہے تو اگر موت کے وقت سختی وشدت کے سبب یا بیماری کے غلبہ اور بےتابی و اضطراب کی وجہ سے اس کے اندر استحضار واستغراق کی کیفیت میں کوئی کمی و کوتاہی راہ پا جائے تو یہ چیز اس کے حق میں نقصان دہ نہیں ہوگی بلکہ جسم سے روح کی جدائی کے بعد اس کی وہ کیفیت وحالت لوٹ آئے گی۔ لہٰذا اصل بات یہ ہے کہ ذکر الٰہی اور تعلق مع اللہ میں وہ ملکہ و کمال حاصل کیا جائے جو بہر صورت سرمایہ نجات ہے۔

【9】

انسان کی نادانی وغفلت کی ایک مثال

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا شدت و سختی ہولناکی کے اعتبار سے میں نے دوزخ کی آگ کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی کہ اس سے بھاگنے والا سوتا رہے اور سرور و شادمانی کے اعتبار سے میں نے جنت کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی کہ اس کا طلب گار سوتا رہے۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی طاقتور دشمن کو اپنے لئے مضرت رساں اور ہلاکت میں مبتلا کرنے والا جانتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اس دشمن کی طرف سے غافل نہیں رہتا اور اطمینان کی چادر تان کر سو نہیں جاتا بلکہ ہر وقت ہوشیار رہتا ہے اور جس قدر ممکن ہوتا ہے اس سے دور بھاگتا رہتا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ دوزخ کی آگ، جو اپنی ہلاکت وآفرینی، سختی وشدت اور ہولناکی کے اعتبار سے بڑے سے بڑے طاقتور دشمن سے بھی زیادہ ہلاکت و نقصان پہنچانے کے درپے ہے لوگ اس کی طرف سے غافل پڑے رہتے ہیں اور اس سے دور بھاگنے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر دور بھاگتے بھی ہیں تو عین بھاگنے کی حالت میں نیند و غفلت کی اشکار ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ دوزخ کی آگ سے دور بھاگنا اور اس کی طرف سے غفلت کا شکار نہ ہونا یہ ہے کہ انسان اللہ شناسی و خدا ترسی کا راستہ اختیار کرے گناہ و معصیت کو ترک کر دے اور طاعت و عبادت کو لازم کرے۔ اس طرح دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی پسندیدہ و محبوب چیز کا طالب ہوتا ہے اور اس کو پوری طرح حاصل کرنا چاہتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اس چیز کی طلب و خواہش کی راہ میں کسی غفلت وسستی کا روا دار نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے پیچھے دوڑتا ہے اور وہ جتنی زیادہ سعی و کوشش کرسکتا ہے اس کے مطابق اس چیز کی طرف بھاگتا ہے اور اس کو پالینا چاہتا ہے مگر کتنی عجیب بات ہے کہ جنت جو تمام تر خوبیوں، راحتوں شادمانیوں اور سعادتوں کا مرکز ومجموعہ ہے اس کی طرف سے انسان کس قدر غافل ہے اس کو پانے کی کوشش نہیں کرتا، اس کی طرف دوڑتا نہیں ؟ واضح رہے کہ جنت کو پانا اور اس کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی رضا و خوشنودی کو ہر چیز پر مقدم رکھا جائے برائی کا راستہ چھوڑ کر نیکی کا راستہ اختیار کیا جائے اور طاعت و عبادت میں غفلت وسستی نہ کی جائے۔

【10】

ایک نصیحت ایک آرزو

حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم نہیں دیکھتے اور جو کچھ میں سنتا ہوں تم نہیں سنتے (یعنی قیامت کی علامتیں، قدرت کی کرشمہ سازیوں کی نشانیاں اور اللہ تعالیٰ کی صفات قہریہ وجلالیہ جس طرح میرے سامنے ہیں اور میں ان کو دیکھتا ہوں اس طرح نہ تمہارے سامنے ہیں اور نہ تم انہیں دیکھتے ہو، نیز احوال آخرت کے اسرار واخبار، قیامت کی ہولنا کیوں اور دوزخ کے عذاب کی شدت و سختی کی باتوں کو جس طرح میں سنتا ہوں تم نہیں سنتے) آسمان میں سے آواز نکلتی ہے اور اس میں سے آواز کا نکلنا بجا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آسمان میں چار انگشت کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں جہاں فرشتے اللہ کے حضور اپنا سر سجدہ ریز کئے ہوئے نہ پڑے ہوں، اللہ کی قسم اگر تم اس چیز کو جان لو جس کو میں جانتا ہوں تو یقینا تم بہت کم ہنسو اور زیادہ رونے لگو۔ اور بستروں پر اپنی عورتوں سے لذت حاصل کرنا چھوڑ دو اور یقینا تم اللہ سے نالہ و فریاد کرتے ہوئے جنگلوں کی طرف نکل جاؤ جیسا کہ رنج اٹھانے والوں اور غموں سے تنگ آجانے والوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ وہ گھروں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور صحرا صحرا جنگل جنگل گھومتے پھرتے ہیں تاکہ زمین کا بوجھ کم ہو اور دل کچھ ٹھکانے لگے۔ حضرت ابوذر نے یہ حدیث بیان کر کے ارادہ حسرت ودردنا کی کہا کہ کاش میں درخت ہوتا جس کو کاٹا جاتا۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ) تشریح لفظ اطت دراصل اط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں آواز نکالنا، پالان اور زین وغیرہ کا چڑچڑانا، اونٹ کا تعب کی وجہ سے بلبلانا، اس حدیث میں آسمان سے آواز نکلنے کی جو بات فرمائی گئی ہے اس کا مفہوم بالکل ظاہر ہے کہ فرشتوں کی کثرت وازدہام اور ان کے بوجھ کی وجہ سے آسمان میں سے آواز نکلتی ہے جیسا کہ سواری کا جانور سواری کے بوجھ کی وجہ سے ایک خاص قسم کی آواز نکالتا ہے یا کسی تخت وپلنگ پر جب زیادہ لوگ بیٹھ جاتے ہیں تو وہ چڑچڑانے لگتا ہے یا آسمان میں سے نکلنے کا مطلب آسمان کا اللہ کے خوف سے نالہ و فریاد کرنا ہے اور اس جملے کا مقصد یہ آگاہی ہے کہ جب آسمان ایک غیر ذی روح اور منجمد چیز ہوتے ہوئے اور مقدس ملائکہ کی قرار گاہ کی حیثیت رکھنے کے باوجود خوف الٰہی سے نالہ و فریاد کرتا ہے تو انسان کہ جو جاندار ہے اور گناہ و معصیت کی آلودگی رکھتا ہے، وہ کہیں زیادہ اس لائق ہے کہ خوف الٰہی سے گریہ وزاری اور نالہ و فریاد کرے۔ یہ معنی حدیث کے اصل مقصد سے زیادہ قریب اور مناسب تر ہیں۔ اپنا سر سجدہ ریز کئے ہوئے نہ پڑے ہوں سے مراد فرشتوں کا اللہ تعالیٰ کی عبادت وتابعدای میں مشغول ہونا ہے۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے تاکہ وہ بات بھی اس جملے کے دائرہ مفہوم میں آجائے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر فرشتہ اللہ کی عبادت و تابعداری میں مشغول ہے کہ کچھ تو قیام کی حالت میں عبادت گزار ہیں، کچھ رکوع کی حالت میں ہیں اور کچھ سجدے میں پڑے ہوئے ہیں یا یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ حضور ﷺ نے آسمان میں سے کسی خاص آسمان کا ذکر فرمایا ہے اور اس آسمان میں جو فرشتے ہیں وہ سب کے سب سجدہ کی ہی حالت میں پڑے ہوئے اللہ کی عبادت کر رہے ہیں۔ صعدات اصل میں صعد کی جعم ہے اور صعد جمع ہے صعید کی جیسے طرقات جمع ہے طرق کی اور طرق جمع ہے طریق کی۔ صعید کے لغوی معنی مٹی، راستہ اور زمین کے بلند حصے کے ہیں اور یہاں حدیث میں اس سے مراد جنگل ہے۔ کاش میں درخت ہوتا یعنی انسان ہونے کی حیثیت سے گناہوں اور برائیوں کے ارتکاب سے بچنا بڑا مشکل ہے شیطان ہر وقت پیچھے لگا رہتا ہے نہ جانے کب اس کا داؤ چل جائے گا اور گناہ و معصیت کا ارتکاب ہوجائے۔ جس کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی اور اس کا عذاب مول لینا پڑجائے گا۔ لہٰذا حضرت ابوذر (رض) نے یہ آرزو ظاہر کی کہ کاش میں انسان نہ ہوتا تاکہ کل قیامت کے دن گناہوں کی آلودگی کے ساتھ نہ اٹھتا۔ اور جس طرح ایک درخت کو کاٹ ڈالا جاتا ہے تو وہ سرے سے مٹ جاتا ہے، اسی طرح میں بھی ہوتا کہ مجھے کاٹ کر پھینک دیا جاتا اور میں آخرت میں ندامت و شرمندگی اور عذاب سے بچ جاتا۔ واضح رہے کہ اس طرح کی غمناک اور درد انگیز آرزوئیں دوسرے بڑے صحابہ سے بھی منقول ہیں، مثلا ایک صحابی نے کہا تھا کہ کاش، میں بکری ہوتا جس کو لوگ کاٹ کر کھا جاتے ہیں۔ دوسرے صحابی نے کہا کاش میں پرندہ ہوتا کہ وہ جہاں چاہتا ہے بیٹھ جاتا ہے اور جہاں چاہتا ہے چلا جاتا ہے۔ اس پر کوئی فکر اور کسی چیز کا دباؤ نہیں ہوتا یہ سب مقدس صحابہ وہ تھے جن کو حضور ﷺ نے ان کی زندگی ہی میں جنت کی بشارت دے دی تھی اور آخرت کے اعتبار سے ان کی عافیت کے بخیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں تھا لیکن جب ان پاک نفس حضرات کے احساس اور فکر آخرت کا یہ حال تھا تو دوسروں کو کیا کہا جاسکتا ہے، اگرچہ مخبر صادق ﷺ کا وعدہ ہے کہ ہر مومن انشاء اللہ مغفرت و بخشش سے نوازا جائے گا اور اس کی عاقبت بخیر ہوگی لیکن بارگاہ بےنیازی کا خوف ہی کمر توڑے ڈالتا ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے کیا کیا نہ اپنے زہد و اطاعت پہ ناز تھا بس دم نکل گیا جو سنا بےنیاز ہے

【11】

حکیمانہ نصیحت

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص اس بات سے ڈرتا ہے کہ اس کا دشمن رات کے آخری حصے میں دھاوا بولنے والا ہے تو وہ رات کے پہلے ہی حصے میں اپنے بچاؤ کا راستہ اختیار کرلیتا ہے تاکہ دشمن کی غارت گری سے محفوظ رہ سکے اور جو شخص رات کے پہلے حصے میں بھاگنا شروع کردیتا ہے وہ منزل تک پہنچ جاتا ہے جان لو اللہ کا مال بہت قیمتی ہے جو نہایت اونچی قیمت چکائے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اور وہ اونچی قیمت اس کی راہ میں جان ومال کی قربانی ہے اور یاد رکھو اللہ کا مال جنت ہے۔ (ترمذی) تشریح منزل سے مراد مطلوب و مقصود کو حاصل کرلینا ہے طیبی کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ان الفاظ کے ذریعے گویا رہر و آخرت کی مثال بیان فرمائی ہے کہ شیطان اس کی تاک میں ہے نفس اور اس کی باطل آرزوئیں اس شیطان کی مددگار ہیں اور اس طرح وہ اس شخص کی مانند ہے جس کا طاقتور اور عیار دشمن اس پر دھاوا بولنے کے لئے تیار کھڑا ہو اور انتظار کر رہا ہو کہ رات کا پچھلا پہر آئے تو تاریکی اور سناٹے میں اس پر حملہ کر کے اس کو غارت وتباہ کر دے، پس اگر وہ رہر و آخرت ہوشیار ہوجائے، راہ ہدایت پر ابتداء ہی سے چلنا شروع کر دے اور اپنے اعمال میں نیت کا اخلاص پیدا کرلے تو وہ یقینا شیطان سے اور اس کے مکر سے محفوظ رہے گا۔ ورنہ وہ اتنا عیار دشمن ہے کہ جہاں ذرا سی غفلت دیکھتا ہے اپنے مددگاروں کو لے کر فورا دھاوا بول دیتا ہے اور ہلاکت میں دال دیتا ہے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اس امر کی راہنمائی فرمائی کہ راہ آخرت پر چلنا نہایت دشوار اور وہاں کی نعمتیں وسعادتیں حاصل کرنا سخت مشکل ہے، اس راستے میں ذرا سی غفلت وسستی بھی منزل کو دور سے دور کردیتی ہے جب تک زیادہ سے زیادہ محنت وعمل اور سعی و کوشش نہیں کی جاتی وہ نعمتین اور سعادتیں پوری طرح حاصل نہیں ہوسکتیں چناچہ آپ ﷺ نے جان لو اللہ کا مال بہت قیمتی ہے کے ذریعے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مال یعنی جنت کی اگر کوئی قیمت ہوسکتی ہے اور اگر اس کو کسی چیز کے بدلے میں حاصل کیا جاسکتا ہے تو وہ اللہ پرستی و خدا ترسی اور نیک اعمال کا سرمایہ ہے اگر اللہ کی جنت حاصل کرنا چاہتے ہو تو نیکی کے راستے کو اختیار کرو، برائی کے نزدیک بھی نہ بھٹکو اور زیادہ سے زیادہ اچھے کام کرو۔ اسی مفہوم کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ کے ذریعے اشارہ فرمایا ہے۔ آیت (والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثوابا وخیر املا) ۔ اور جو اعمال صالحہ باقی رہنے والے ہیں وہ آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بھی ہزار درجے بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی ہزار درجے بہتر ہے۔ اور فرمایا۔ آیت (ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ) ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔

【12】

ذکر اللہ اور خوف خداوندی کی فضیلت

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت کے دن اللہ کہ جس کا ذکر بہت باعظمت ہے (دوزخ پر متعین فرشتوں سے) فرمائے گا کہ اس شخص کو دوزخ سے نکال لو جس نے ایک دن بھی (یعنی کسی ایک وقت بھی) مجھ کو یاد رکھا ہے، یا کسی موقع پر مجھ سے ڈرا ہے۔ (ترمذی اور بیہقی نے اس روایت کو کتاب البعث والنشور میں نقل کیا ہے) تشریح اس شخص سے مراد وہ مومن ہے جو مرتے وقت تک اخلاص کے ساتھ ایمان پر قائم رہا تھا لیکن گناہوں اور بدعملی کی وجہ سے دوزخ میں ڈال دیا گیا تھا۔ یا کسی موقع پر مجھ سے ڈرا ہے یعنی اس کی دنیاوی زندگی میں کوئی ایسا موقع آیا ہو جب وہ کسی گناہ میں مبتلا ہونے سے محض میرے خوف کی وجہ سے باز رہا ہو۔ چناچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے۔ آیت (واما من خاف مقامہ ربہ ونہی النفس عن الہوی فان الجنۃ ہی الماوی) ۔ اور جو شخص دنیا میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا ہوگا اور نفس کو خواہش سے روکا ہوگا سو جنت میں اس کا ٹھکانا ہوگا۔ طیبی کہتے ہیں کہ ذکر اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے سے مراد وہ ذکر ہے جس میں زبان کے ساتھ دل بھی شریک ہو اور جس کو اخلاص کہتے ہیں، اخلاص کا مطلب یہ ہے خلوص دل اور صدق نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو ایک جاننا اور ماننا ورنہ یوں تو کافر بھی زبان سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ان کے اس ذکر کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا، کیونکہ ان کا دل اللہ کی وحدانیت اور صدق و اخلاص سے قطعا خالی ہوتا ہے اس بات کی تائید حضور ﷺ کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ۔ من لاالہ الا اللہ خالصا من قلبہ دخل الجنۃ۔ جس شخص نے خلوص دل کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں جائے گا۔ واضح رہے کہ خوف خداوندی سے مراد وہ خوف ہے جس کی وجہ سے بندہ اپنے اعضاء جسم کو گناہوں سے باز اور طاعات و عبادات میں مشغول رکھے ورنہ ایسے خوف کا کوئی اعتبار نہیں جو پیدا تو ہو مگر اس کی کار فرمائی اعضاء جسم پر ظاہر نہ ہو کہ نہ تو وہ گناہوں سے باز رکھے اور نہ طاعات و عبادات میں لگائے رکھے، بلکہ حقیقت میں اس کو خوف الٰہی نہیں کہا جاسکتا۔ اس کو تو حدیث نفس یعنی ایک ایسا وسوسہ اور ایک ایسی تحریک کہا جاسکتا ہے جو کسی ہولناک چیز کے اسباب وآثار دیکھنے کے وقت طبیعت پر طاری ہوجاتی ہے۔ اور جب وہ اسباب وآثار غائب ہوجاتے ہیں تو دل پھر غفلت میں پڑجاتا ہے۔ مشہور بزرگ حضرت فضیل نے بڑی حکیمانہ بات کہی ہے کہ جب تم سے پوچھا جائے کہ کیا تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہو ؟ تو اس سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کر لینی چاہئے کیونکہ اگر تم نے جواب میں کہا کہ نہیں، تو یقینا کافر ہوجاؤ گے اور اگر کہا کہ ہاں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے جھوٹ بولا ہے۔ گویا حضرت فضیل نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ اصل میں اللہ کا خوف تو وہی ہے جو اعضاء جسم کو گناہوں میں ملوث ہونے قطعی باز رکھے۔ بہرحال اس حدیث میں یہ بشارت ہے کہ جس مسلمان نے ایک بار بھی از راہ اخلاص اللہ کو یاد کرلیا اور کسی ایک موقع پر بھی حقیقی معنی میں اللہ کے عذاب کا خوف کھایا تو بالآخر اللہ کا خوف کھایا تو بالآخر وہ دوزخ کے عذاب سے نجات پائے گا بلکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کو دوزخ میں داخل ہی نہ کرے اور ابتداء جنت میں بھیج دے، بیشک آیت (یغفر لمن یشاء ویعذب من یشاء) اسی کی صفت اور شان ہے۔

【13】

ایک آیت کا مطلب

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا۔ (وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَا اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ) 23 ۔ المؤمنون 60) ۔ وہ لوگ کہ جو دیتے ہیں اور جو کچھ کردیتے ہیں یعنی از قسم زکوٰۃ و صدقات، ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے دل لرزاں وترساں ہیں یعنی ان پر یہ خوف طاری رہتا ہے کہ انہوں نے اللہ کی راہ میں اور اس کے حکم کی اتباع میں جو کچھ خرچ کیا ہے وہ قبول بھی ہوگا یا نہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا یہ انفاق وایثار شرائط وآداب کے مطابق واقع نہ ہو اور ہم الٹے وبال میں پڑجائیں۔ اسی آیت کے متعلق آنحضرت ﷺ سے حضرت عائشہ (رض) کا سوال یہ تھا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا گنہگاروں ہی کا کام ہے حضور ﷺ نے فرمایا۔ صدیق کی بیٹی نہیں یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اس کے باوجود وہ ڈرتے ہیں کہ ان کے اعمال کو شائد قبول نہ کیا جائے (اس کی دلیل آیت کے آخری الفاظ ہیں) آیت (اُولٰ ى ِكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَ يْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ ) 23 ۔ المؤمنون 61) ۔ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں بایں طور کہ طاعات و عبادات کی طرف ان کی رغبت بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ سبقت کر کے ان چیزوں کو حاصل کرتے ہیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح حدیث میں جو آیت ذکر کی گئی ہے وہ آخر تک اس طرح ہے۔ آیت (وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَا اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ 60 اُولٰ ى ِكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَ يْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ 61 ) 23 ۔ المؤمنون 61-60) اس آیت کے متعلق حضرت عائشہ (رض) کا خیال یہ تھا کہ اس میں جن لوگوں کے ڈرنے کا ذکر کیا گیا ہے ان سے وہ لوگ مراد ہیں جو شراب پیتے ہیں، چوری کرتے ہیں اور دوسری برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے انہی لوگوں کو ڈرنا چاہئے جو اس کی نافرمانی کرتے ہیں اور برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ چناچہ حضرت عائشہ (رض) نے اس کے بارے میں حضور ﷺ سے دریافت کیا اور حضور ﷺ نے ان پر واضح فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں ہے بلکہ حقیقت میں یہ آیت ان لوگوں کے متعلق ہے جو طاعات و عبادات کرتے ہیں اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی دلیل خود آیت کے آخری الفاظ ہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ بالا آیت میں دو قرائتیں ہیں، مشہور قراءت میں جو کہ قراء سبعہ کی قرأت ہے، یوتون کا لفظ ہے جو ایتاء کا فعل مضارع ہے اسی طرح لفظ آتو ہمزہ کے مد کے ساتھ ہے جو ایتاء کا فعل ماضی ہے اور اعطاء بمعنی عطاء یعنی دینے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ ترجمے میں یہی معنی بیان کئے گئے ہیں اور دوسری قراءت میں جو کہ شاذہ ہے یہ لفظ یاتون ماا توا پڑھا گیا ہے جو ایتان سے مشتق ہے اور جس کے معنی کام کرنے کے ہیں، اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ کہ جو کرتے ہیں اور جو کچھ کہ کرتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے دل لرزاں وترساں ہیں۔ چناچہ حضرت عائشہ (رض) نے جو سوال کیا وہ اس دوسری قرأت کے زیادہ مناسب ہے، لیکن نہ صرف یہاں مشکوۃ بلکہ اصل کتاب مصابیح میں بھی یہ لفظ پہلی قراءت ہی کے مطابق منقول ہے جب کہ زیادہ صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ دوسری قراءت کے مطابق ہو۔ یہ تو طیبی کے منقولات کا خلاصہ تھا جس کو انہوں نے تفسیر زجاج اور کشاف سے نقل کیا ہے۔ ملاعلی قاری نے اس سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ اگر اس لفظ کو آنحضرت ﷺ کی طرف قرأت شاذہ ہی کے مطابق منسوب کیا جائے تو بھی مراد یہ ہوگی کہ وہ لوگ کہ جو از قسم طاعات و عبادات کوئی عمل کرتے ہیں گویا اس سے وہ مراد نہیں ہوگی جو حضرت عائشہ (رض) نے یہ سمجھتی تھی کہ وہ لوگ جو از قسم معصیت کوئی عمل کرتے۔ اسی طرح یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس لفظ سے عام عمل کہ خواہ وہ از قسم طاعت ہو یا از قسم معصیت، مراد ہے کیونکہ آیت کے آخری الفاظ اولئک یسارعون فی الخیرات اس مراد کی تائید نہیں کرتے۔ حاصل یہ کہ حضور ﷺ کا ارشاد آیت (الذین یصومون) الخ آیت کے الفاظ (والذین یاتون ماا تو ا) کی واضح تفسیر وترجمانی ہے۔ خواہ ان الفاظ کا تعلق دونوں قرائتوں میں سے کسی سے بھی ہو، زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک قرأت کے مطابق الفاظ میں ایک طرح کی تغلیب ہے لہٰذا مشہور قراءت کے تعلق سے یہ آیت جس طرح کے عمل کرنے والوں کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ مالی عبادت ہے جب کہ قراءت شاذہ کے مطابق اس آیت کا تعلق بدنی عبادت سے ظاہر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک قول یہ بھی ہے کہ مشہور قراءت کے مطابق جو الفاظ ہیں ان کی تفسیر میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ کہ جو اپنے نفسوں میں سے وہ چیز دیتے ہیں جو طاعات و عبادات میں سے ہے یعنی محنت ومشقت برداشت کر کے نماز پڑھتے ہیں روزے رکھتے ہیں اور دوسری بدنی عبادتیں کرتے ہیں اور جو اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں نکالتے ہیں۔ یعنی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور صدقہ و خیرات دیتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے دل لرزاں وترساں ہیں۔ اس تفسیر و وضاحت سے دونوں طرح کی عبادتیں اس آیت کے مفہوم میں داخل ہوجائیں گی۔

【14】

ذکر اللہ کی نصیحت وتلقین

حضرت ابی بن کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو نبی کریم ﷺ تہجد کی نماز کے لئے اٹھتے اور فرماتے۔ لوگو اللہ کو اس کی وحدانیت ذات اور اس کی تمام صفات کے ساتھ یاد کرو، اللہ کو (یعنی اس کے عذاب وثواب کو) یاد کرو (تاکہ تم اللہ کے تئیں خوف وامید کے درمیان رہو۔ اور ان لوگوں میں شمار کئے جاؤ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آیت (تتجافی جنوبہم عن المضاجع یدعون ربہم خوفا وطمعا) ۔ زلزلہ آیا ہی چاہتا ہے (یعنی پہلا صور پھونکا ہی جانے والا ہے جس کے ساتھ ہی سب مرجائیں گے) اس کے پیچھے پیچھے وہ بھی آ رہا ہے جو پیچھے آنے والا ہے (یعنی پہلے صور کے بعد دوسرا صور بھی بس پھونکا ہی جانے والا ہے جس کی آواز پر سب دوبارہ زندہ ہوجائیں گے اور اپنی قبروں سے اٹھ کر میدان حشر میں جمع ہوجائیں گے۔ غرض یہ کہ ان الفاظ سے حضور ﷺ کا مقصد قیامت کی یاد دلانا اور آخرت کی طرف متوجہ کرنا ہے تاکہ یہ چیز طاعات و عبادات اور ذکر اللہ میں مشغول رکھنے کا باعث ہو) ۔ موت اپنے سے وابستہ تمام احوال کے ساتھ آیا ہی چاہتی ہے، موت اپنے سے وابستہ تمام احوال کے ساتھ آیا ہی چاہتی ہے (ان الفاظ کا مقصد بھی یہ تنبیہ کرنا ہے کہ غفلت چھوڑ کر ہوشیار ہوجاؤ، تمہاری موت تمہارے سر پر تیار کھڑی ہے اور ان تمام چیزوں کے ساتھ جو کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد واقع ہونے والی ہیں، آیا ہی چاہتی ہے۔ (ترمذی) تشریح لوگو کے ذریعہ حضور ﷺ نے ان لوگوں کو مخاطب فرمایا جو چین کی نیند سو رہے تھے اور تہجد کی نماز اور ذکر اللہ سے غافل تھے، چناچہ آپ ﷺ نے ان کو بیدار کیا تاکہ وہ لوگ ذکر اللہ اور تہجد کی نماز میں مشغول ہو۔ پس اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ آخر تہائی رات میں اٹھنا اور ذکر اللہ ونوافل میں مشغول ہونا مستحب مؤ کدہ ہے، ایک نسخے میں اذکروا اللہ کے الفاظ تین مرتبہ نقل کئے گئے ہیں گویا تیسری مرتبہ کے ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کی نعمتوں، اس کی عطا کی ہوئی راحتوں اور اس کی طرف سے پیش آنے والے ضرر وآلام کو یاد کرو۔ جاءت الراجفہ (زلزلہ آیا ہی چاہتا ہے) میں قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ آیت (يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ ) 79 ۔ النازعات 6) نیز اس جملے میں جاءت ماضی کا صیغہ اس زلزلے کے آنے (یعنی صورت پھونکے جانے) کے یقینی امر ہونے کی بناء پر استعمال کیا گیا ہے اور مفہوم وہی ہے جو ترجمے کے ذریعے ظاہر کیا گیا ہے یعنی وہ وقت بس آیا ہی چاہتا ہے۔ لہٰذا موقع کو غنیمت جانو اور طاعات و عبادات کی طرف سبقت کر کے ایسی تیاری کرلو کہ اس کے احوال آسانی کے ساتھ گزر جائیں۔ اس ارشاد گرامی میں ایک لطیف نکتہ بھی پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ سونا، درحقیت موت کا حکم رکھتا ہے جو پہلے صور پھونکے جانے کا اثر ہے اور بھاگنا دوسری مرتبہ صورت پھونکے جانے کے حکم میں ہے۔ لہٰذا یہ دونوں چیزیں یعنی سونا اور جاگنا گویا قیامت کی علامت کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور قیامت کی یاد دلانے کا باعث ہیں۔

【15】

موت اور قبر کو یاد رکھو

حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نماز کے لئے مسجد شریف تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ گویا لوگ آپس میں کسی بات پر ہنس رہے ہیں آپ ﷺ نے ان کو اس طرح ہنستے ہوئے دیکھ کر فرمایا۔ خبردار تم پر کونسی غفلت طاری ہے کہ اس طرح بےفکری کے ساتھ ہنسنے میں مشغول ہو اگر تم لذتوں کو فنا کردینے والی چیز کا اکثر ذکر کرتے رہو تو وہ تم کو اس چیز یعنی زیادہ ہنسنے اور غافل لوگوں کی طرح کے کلام و گفتگو سے باز رکھے جس کو میں دیکھ رہا ہوں اور وہ یعنی لذتوں کو فنا کردینے والی چیز موت ہے پس تم لذتوں کو فنا کردینے والی چیز یعنی موت کو بہت یاد کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ قبر پر ایسا کوئی دن (یعنی ایسا کوئی وقت اور زمانہ نہیں گزرتا جس میں وہ زبان قال یا زبان حال سے یہ نہ کہتی ہو کہ میں غربت کا گھر ہوں (یعنی میں ایک ایسی دور دراز اور ویران وسنان جگہ کی طرح ہوں جہاں جو بھی آجاتا ہے وہ اپنے عزیز و اقارب اپنے متعلقین اور اپنے گھر والوں سے ناقابل عبور مسافت کی دوری پر جا پڑتا ہے۔ لہٰذا اے انسان تجھ کو لازم ہے کہ تو دنیا میں اس طرح رہ جس طرح کوئی مسافر اپنے عزیز واقا رب اور گھر والوں سے دور مسافرت کی حالت میں ہوتا ہے۔ میں تنہائی کا گھر ہوں (یعنی ایک ایسا گھر ہوں جس میں تنہائی اور وحشت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا، ہاں جو لوگ اللہ رب العزت کی وحدانیت کا نور لے کر آتے ہیں وہ بیشک تنہائی محسوس نہیں کرتے کیونکہ وہی نور ان کا رفیق ودم ساز بن جاتا ہے) میں خاک کا گھر ہوں (یعنی میں اس مٹی کا گھروندہ ہوں جو ہر جاندار کی اصل اور بنیاد ہے پس جس کی اصل اور جس کا مرجع مٹی ہو اس کی شان یہی ہے کہ مسکین وخاک نشین رہے، تاکہ مٹی کے ساتھ اس کی مناسبت ہر وقت ہر وقت تازہ رہے) میں کیڑوں مکوڑوں کا گھر ہوں ( پھر حضور ﷺ نے فرمایا) جب کسی مومن بندے کو دفن کیا جاتا ہے تو جس طرح کہ کوئی خوش اخلاق میزبان اپنے کسی عزیز مہمان کی آمد کے وقت کلمات ترحیب کے ذریعے اس کا استقبال کرتا ہے اسی طرح قبر بھی اس بندہ مومن کا استقبال کرتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ خوش آمدید تم ایک اچھی کشادہ آرام کی جگہ اور اپنے ہی مکان میں آئے ہو، تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تم میرے نزدیک ان لوگوں میں سب سے زیادہ پیارے تھے جو مجھ پر چلتے ہیں پس آج جب کہ میں تم پر حاکم و قادر بنائی گئی ہوں اور تم میرے مجبور ومقہور ہوئے ہو تو تم عنقریب میرے اس نیک سلوک کو دیکھو گے۔ جو میں تمہارے ساتھ کروں گی یعنی میں تمہارے لئے کشادہ وفراخ ہوجاؤں گی۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اس کے بعد وہ قبر اس بندے کے لے کشادہ وفراخ ہوجاتی ہے اور وہ کشادگی وفراخی اس کو اپنی حد نظر تک معلوم ہوتی ہے اور پھر اس کے لئے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے ( جس میں سے وہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھتا رہتا ہے اسی دروازے سے گزر کر اس تک ٹھنڈی اور مشکبار ہوائیں آتی ہیں اور وہ جنت کے مکانات، حوریں، نہریں میوے اور درخت اور دوسری روح افزا نعمتیں دیکھ دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرتا ہے اور جب کوئی بندہ فاسق یا کافر دفن کیا جاتا ہے تو جس طرح کوئی شخص اپنے یہاں آئے ہوئے نا آشنا وغیرہ عزیز اور بن بلائے مہمان کے ساتھ بےرخی اور بےمروتی کا برتا کرتا ہے اسی طرح قبر بھی اس کافر کو جھڑکتی ہے اور کہتی ہے کہ نہ تو تیرا آنا مبارک اور نہ تو اچھی کشادہ آرام کی جگہ اور اپنے مکان میں آیا ہے۔ تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ تو میرے نزدیک ان لوگوں میں سب سے برا تھا جو مجھ پر چلتے ہیں پس آج جب کہ میں تجھ پر حاکم و قادر بنائی گئی ہوں اور تو میرا مجبور ومقہور ہوا ہے تو جلد ہی دیکھ لے گا کہ میں تیرے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا اور پھر قبر اس کو دباتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہوجاتی ہیں۔ ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ان پسلیوں کی صورت حال دکھانے کے لئے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا اور بتایا کہ اس طرح قبر کے دبانے کی وجہ سے اس کافر کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کافر پر ستر اژدھا مسلط کر دئیے جاتے ہیں اور وہ ایسے اژدھا ہوتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک اژدہا بھی زمین پر پھنکار مار دے تو وہ زمین جب تک کہ دنیا باقی ہے سبزہ اگانے کے قابل نہ رہے، وہ اژدھا اس کافر کو کاٹتے اور نوچتے ہیں۔ اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ اس بندہ کو قیامت کے دن حساب کے لئے نہ لے جایا جائے۔ حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا اس میں کوئی شک نہیں کہ قبر جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے یا آگ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔ (ترمذی) تشریح لذت کو فنا کردینے والی چیز کو بہت یاد کیا کرو یہ درحقیقت غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کے لئے ایک بڑی اور مؤثر نصیحت ہے اور اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ موت کو یاد کرنا غافل کے دل کو زندہ کرتا ہے، حضرت شیخ عارف باللہ مولانا نورالدین علی متقی (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایک تھیلی نما چیز بنا کر اپنے پاس رکھتے تھے جس پر موت کا لفظ لکھا ہوا ہوتا تھا، جب کوئی شخص ان کا مرید ہوتا تو وہ اس تھیلی کو اس مرید کی گردن میں لٹکا دیتے تھے تاکہ اس کے دل پر ہر وقت یہ احساس طاری رہے کہ موت بالکل قریب ہے، دور نہیں ہے۔ حضرت شیخ (رح) گویا اس طریقہ سے سالکین طریقت کی تربیت فرماتے تھے اور مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ کسی وقت غافل نہ ہوں اور بیداری کے ساتھ طاعت و عبادت اور ذکر اللہ میں لگے رہیں۔ اسی طرح ایک بہت نیک اور اللہ ترس بادشاہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنے اعیان سلطنت میں سے کسی ایک کو اس خدمت پر مامور رکھتے تھے کہ وہ ہر وقت ان کے پیچھے کھڑا رہے اور الموت الموت کہتا رہے تاکہ دل کو اللہ کی طرف سے غافل ہونے کا موقع ہی نہ ملے اور ہر طرح کی روحانی بیماری کا علاج ہوتا رہے۔ فانہ لم یات الخ کے ذریعے گویا حضور ﷺ نے اس حکم کی حکمت بیان فرمائی ہے کہ موت کو بہت زیادہ یاد کرنا چاہئے اور میں کیڑوں مکوڑوں کا گھر ہوں یعنی میں ایک ایسا مکان ہوں جس میں آنے والا انسان کیڑوں مکوڑوں کی خوراک بن جاتا ہے، پس اے انسان، تیرے لئے یہ بات کیسے مناسب ہوسکتی ہے کہ تو کھانے پینے کی چیزوں کو لذت اور عمدگی کو جو یا ہو اور تیری خواہش و ارادہ ایک ایسے جسم کو اعلیٰ قسم کے طعام و مشروبات کے ذریعے بنانے اور لذت پہنچانے میں منہمک ہو جس کو آخر کار فنا ہوجانا ہے اور حقیر کیڑے مکوڑے کی خوراک بننا ہے ہاں جو چیز یہاں تیرے لئے فائدہ مند ہوسکتی ہے وہ صرف نیک عمل ہے، اگر اچھے اعمال کا سرمایہ لے کر میری آغوش میں آئے گا تو یقینا تجھے فائدہ پہنچے گا۔ اسی وجہ سے قبر کو اعمال کا صندوق کہا گیا ہے۔ بعض حضرات نے حجر میں پیدا ہونے والے کیڑوں کے بارے میں یہ تحقیق بیان کی ہے کہ جب جسم میں سڑاند پیدا ہوتی ہے تو اس سڑاند اور بدبو سے کیڑے پیدا ہوتے ہیں اور اس جسم کو کھا کھا کر زندہ رہتے ہیں، پھر جب وہاں ہڈیوں کے ڈھانچہ کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہتا تو وہ کیڑے آپس میں ایک دوسرے کو کھانا شروع کردیتے ہیں یہاں تک کہ آخر میں ایک کیڑا باقی رہ جاتا ہے اور پھر وہ بھی بھوک کی وجہ سے مرجاتا ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ قبروں میں کیڑے مکوڑوں کی خوراک بننے اور زمین کے کھانے سے انبیاء، شہداء اور اولیاء کے اجسام محفوظ رہتے ہیں، جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے۔ حدیث (ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء) اور شہداء کے حق میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آیت (ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربہم) رہی بات ان علماء با عمل کی جن کو اولیاء اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے تو جب شہداء کو یہ فضیلت حاصل ہے تو ان علماء کو بدرجہ اولیٰ حاصل ہوگی کیونکہ ان کے قلم کی سیاہی کی ایک بوند شہداء کے خون سے افضل ہے۔ بندہ فاسق سے فسق وفجور میں اکمل ترین فرد، یعنی کافر مراد ہے۔ اس کا قرینہ مقابلہ کا لفظ مومن ہے۔ نیز ایک قرینہ اس کے حق میں قبر کا یہ کہنا بھی ہے کہ تو میرے نزدیک ان لوگوں میں سب سے برا تھا جو مجھ پر چلتے ہیں۔ اس کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں فاسق سے کافر مراد لیا گیا ہے چناچہ ارشاد ربانی ہے آیت (اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا) 32 ۔ السجدہ 18) علاوہ ازیں یہ بات بھی مد نظر رہنی چاہئے کہ قرآن و حدیث کا اسلوب اور معمول بھی یہی ہے کہ برزخ وآخرت کے بارے میں جب کوئی حکم و فیصلہ بیان کیا جاتا ہے تو اس کے دو ہی فریق ہوتے ہیں ایک تو مومن اور دوسرا کافر جہاں تک فاسق مومن کا تعلق ہے اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا جاتا ہے اور یہ سکوت اختیار کرنا یا تو اس کی پردہ پوشی کے نقطہ نظر سے ہوتا ہے یا اس لئے کہ اس کو خوف و رجا کے درمیان رکھا جائے نہ کہ اس کا مقصد اس کو دونوں مرتبوں یعنی کفر و ایمان کے درمیان ایک الگ تیسرے مرتبہ پر رکھنا ہے جیسا کہ معتزلہ نے غلط گمان کیا ہے۔ اس کافر پر ستر اژدھے مسلط کئے جاتے ہیں میں ستر کا عدد یا تو تحدید کے لئے ہے کہ اس متعین تعداد میں اژدھے اس پر مسلط کئے جاتے ہیں یا اس عدد سے کثرت مراد ہے جس کا مقصد اس مفہوم کو ادا کرنا ہے کہ اس پر بہت زیادہ اژدھے مسلط کئے جاتے ہیں۔ ایک دوسری روایت سے اس دوسرے احتمال کی تائید ہوتی ہے جو کہ قبر میں کافر پر عذاب کئے جانے کے سلسلے میں منقول ہے اور جس میں فرمایا گیا ہے کہ کافر پر اس کی قبر میں ایک کم سو اژدھے مسلط ہوں گے۔

【16】

آخرت کے خوف نے آپ ﷺ کو جلد بوڑھا کردیا تھا

حضرت ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ جب صحابہ نے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! آپ تو بوڑھے ہوگئے یعنی بڑی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی آپ پر بڑھاپے کے اثرات ظاہر ہوگئے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ سورت ہود اور اس جیسی سورتوں نے مجھ کو بوڑھا کردیا ہے۔ (ترمذی) تشریح یعنی سورت ہود اور ان جیسی سورتوں میں قیامت اور آخرت کے عذاب کا بہت زیادہ ذکر ہے۔ ان کے مضمون دیکھ دیکھ کر اپنی امت کی طرف سے یہ غم مجھے کھائے جا رہا ہے کہ نہ معلوم میری امت کے لوگوں کا کیا حشر ہوگا، یہی غم کھاتے کھاتے میرا یہ حال ہوگیا ہے۔

【17】

آخرت کے خوف نے آپ ﷺ کو جلد بوڑھا کردیا تھا

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوبکر (رض) کہنے لگے یا رسول اللہ ! ﷺ تو بہت جلد بوڑھے ہوگئے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ہاں سورت ہود، سورت واقعہ، سورت مرسلات، عم یتساء لون اور اذالشمس کورت اور ان جیسی دوسری سورتوں نے (کہ جن میں قیامت اور اس کے احوال کا ذکر ہے) مجھ کو بڑی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی بوڑھا کردیا ہے۔ (ترمذی) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت لایلج النار الخ کتاب الجہاد میں نقل کی جا چکی ہے

【18】

صحابہ (رض) کا کمال احتیاط وتقویٰ

حضرت انس (رض) نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا۔ تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے بھی زیادہ باریک ہیں لیکن ہم ان کاموں کو رسول کریم ﷺ کے زمانے میں موبقات یعنی ہلاک کرنے والے کاموں میں شمار کرتے تھے۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ تم لوگ ایسے ایسے کام کرتے ہو اور ایسی ایسی چیزیں اختیار کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بہت معمولی درجہ کی اور بہت حقیر ہیں، زیادہ سے زیادہ تم ان کو مکروہات میں شمار کرتے ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کام اور وہ چیزیں بڑی نقصان دہ ہیں اور بڑی تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں، چناچہ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں ہم لوگ ایسے کاموں میں شمار کرتے تھے جو اخروی انجام کے اعتبار سے ہلاکت میں ڈالنے والے ہیں۔

【19】

صحابہ (رض) کا کمال احتیاط وتقویٰ

حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ عائشہ ! تم اپنے آپ کو ان گناہوں سے بھی دور رکھو جن کو بہت معمولی اور حقیر سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان گناہوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک مطالبہ کرنے والا بھی ہے۔ (ابن ماجہ، بیہقی) تشریح مطالبہ کرنے والا بھی ہے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے گناہوں پر ایک طرح کا عذاب مقرر ہے جو ان گناہوں کے مرتکبین کو اپنی گرفت میں لیتا ہے پس گویا خود وہ عذاب اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنے حوالے کئے جانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور اللہ کے مطالبہ کو رد نہیں کرتا۔ اس اعتبار سے لفظ طالبا میں تنوین اظہار تعظیم کے لئے ہے اور جملے کے اعتبار سے طالبا عظیما کے مفہوم میں ہے لہٰذا یہ بات کسی کے لئے بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ اس امر سے غافل رہے جیسا کہ اکثر لوگ ایسے ایسے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کو کہ جو صغیرہ گناہ کے حکم میں ہوتے ہیں، بہت سہل جانتے ہیں اور ان کو کوئی اہمیت نہیں دیتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ تو توبہ و استغفار کے ذریعے ان گناہوں کا تدارک کرتے ہیں اور نہ ان کی وجہ سے کسی خوف و ڈر میں مبتلا ہوتے ہیں نیز وہ اس بات سے بھی غافل رہتے ہیں کہ کسی چھوٹے چھوٹے سے گناہ پر اصرار (یعنی اس کو باربار کرنا اور اس سے اجتناب نہ کرنا صغیرہ گناہ نہیں رہتا بلکہ گناہ کبیرہ کے حکم میں آجاتا ہے اور ویسے بھی ہر گناہ صغیرہ اللہ کی عظمت وکبریائی کی نسبت سے کبیرہ ہی ہے جس کا تھوڑا سا حصہ بھی بہت بڑا بن جاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کبھی کبیرہ گناہ کو تو معاف کردیتا ہے اور صغیرہ گناہ پر عذاب دیتا ہے جیسا کہ اس کے ارشاد آیت (ویغفر مادون ذالک لمن یشاء) سے مفہوم ومستفاد ہوتا ہے۔ جہاں تک قرآن کی اس آیت کریمہ کا تعلق ہے آیت (اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَا ى ِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ ) 4 ۔ النساء 31) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے صغیرہ گناہوں کو تمہاری ان عبادتوں کے ذریعے دھو ڈالیں گے جو گناہ کو مٹا دیتی ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ سرے سے گناہ سے اجتناب کرو خواہ وہ صغیرہ ہو یا گناہ کبیرہ ہو۔ گویا اس آیت میں شرط کا تعلق محض کبیرہ گناہوں سے بچنے سے نہیں ہے جیسا کہ معتزلہ نے گمان کیا ہے بلکہ اس شرط کا تعلق مطلق گناہ سے ہے۔ ایک اور روایت میں کہ جس کو احمد اور طبرانی نے نقل کیا ہے یہ فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے آپ کو چھوٹے گناہوں سے بھی بچاؤ کیونکہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو کسی کھائی میں اترے اور وہاں انہوں نے ایک ایک لکڑی ایندھن جمع کیا اور پھر اپنی روتی پکائی اسی طرح صغیرہ گناہوں کا مرتکب چھوٹے چھوٹے گناہ کر کے اتنے وبال جمع کرلیتا ہے کہ آخر اس کے پاپ کی ناؤ بھر جاتی ہے اور وہ غرق ہوجاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ صغیرہ گناہ کرنے والے کو پکڑ لیتا ہے تو پھر اس کو ہلاک کر ڈالتا ہے۔

【20】

حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوموسی (رض) سے کیا کہا

حضرت ابوبردہ بن ابی موسیٰ اشعری (جو اونچے درجے کے تابعین میں سے ہیں) کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن عمر مجھ سے کہنے لگے کہ تمہیں معلوم ہے کہ میرے والد حضرت عمر فاروق (رض) نے تمہارے والد (حضرت ابوموسی اشعری) سے کیا کہا تھا ؟ حضرت ابوبردہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا میرے والد نے تمہارے والد سے کہا تھا کہ ابوموسی کیا یہ بات تمہارے لئے خوش کن ہے کہ ہمارا اسلام جو رسول کریم ﷺ کے ساتھ (یعنی آپ ﷺ کی بعثت سے ملا ہوا تھا) ہماری ہجرت جو آپ ﷺ کے ساتھ تھی، ہمارا جہاد جو آپ کے ساتھ تھا اور ہمارے سارے اعمال (یعنی نماز، روزے، زکوٰۃ حج اور اس طرح کے دوسرے عبادتی اعمال جو آپ ﷺ کے ساتھ تھے، وہ سب ہمارے لئے ثابت و برقرار رہیں اور ہم نے جو اعمال رسول کریم ﷺ کے بعد کئے ہیں وہ اگر ہم سے برابر سرابر بھی چھوٹ جائیں تو ہماری نجات کے لئے کافی ہیں تمہارے والد نے یہ سن کر میرے والد سے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے رسول کریم ﷺ کے بعد جہاد کیا ہے، نمازیں پڑھیں ہیں، روزے رکھے ہیں اور دوسرے بہت نیک اعمال جیسے صدقہ و خیرات وغیرہ کئے ہیں اور بہت سے لوگ ہمارے ہاتھوں پر یعنی ہماری وجہ سے مسلمان ہوئے ہیں اور یقینا ہم مذکورہ چیزوں کا اجر وثواب پانے کی امید رکھتے ہیں جو ہمارے پہلے اعمال کے ثواب میں اضافہ ہی کریں گے میرے والد حضرت عمر (رض) نے کہا کہ تمہاری بات صحیح ہے لیکن میں تو قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے، اس بات کو زیادہ پسند کرتا ہوں کہ ہم نے جو اعمال رسول کریم ﷺ کے ساتھ کئے ہیں وہ ثابت و برقرار رہیں اور جو اعمال ہم نے آپ ﷺ کے بعد کئے ہیں ان سے برابر سرابر چھوٹ جائیں۔ حضرت ابوبردہ (رض) کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں حضرت ابن عمر (رض) سے کہا کہ تمہارے والد، اللہ کی قسم میرے والد سے بہتر تھے۔ (بخاری) تشریح برابر سرابر چھوٹ جائیں ان الفاظ کے ذریعے حضرت عمر (رض) نے اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ ہم نے حضور ﷺ کے بعد اعمال اختیار کئے جو نیک کام کئے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کس زمرے میں رکھے گئے آیا وہ قبول کئے گئے یا ان کو ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے، اس صورت میں ہماری یہ تمنا ہی بہتر ہے کہ ان اعمال کا نہ تو ہمیں کوئی نفع پہنچے نہ نقصان، نہ ان پر ثواب ملے اور نہ وہ عذاب کا موجب بنیں گویا اگر وہ اعمال ہمارے لئے ثواب کا موجب نہیں بن سکتے تو اللہ کرے وہ ہمارے حق میں عذاب کا بھی سبب نہ ہوں۔ طاعت ناقص، موجب غفراں نشود راضیم گر مدد علت عصیاں نشود چناچہ ہم نے جو اعمال حضور ﷺ کے سایہ تربیت اور آپ ﷺ کی صحبت کی نورانیت کے سبب کئے ہیں اور بجا طور پر ان کی قبولیت کا گمان رکھتے ہیں، اگر وہی ثابت و برقرار رہیں تو زہے سعادت اور جو اعمال ہم نے حضور ﷺ کے بعد کئے ہیں اور وہ نقصان و خرابی سے خالی نہیں تھے، اگر ان سے ہم برابر سرابر بھی چھوٹ جائیں تو یہی بہت غنیمت ہے۔ حضرت عمر (رض) کے اس احساس کی بنیاد دراصل اس حقیقت پر تھی کہ اتباع کرنے والا علم وعمل کے تئیں اعتقاد و اخلاص میں حجت و فساد کا خود ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے متبوع کی ذمہ داری کے تحت ہوتا ہے، جیسا کہ مقتدی کی نماز کا معاملہ ہے کہ اس کی نماز کا صحیح ادا ہونا امام کی نماز کے صحیح ادا ہونے پر انحصار رکھتا ہے کہ اگر امام کی نماز صحیح ادا نہیں ہوئی تو مقتدی کی نماز بھی صحیح ادا نہیں ہوسکتی، اسی طرح مقتدی کی نماز کا فاسد امام کی نماز کے فاسد ہونے پر انحصار رکھتا ہے لہٰذا جو اعمال حضور ﷺ کی صحبت اور آپ ﷺ کی راہنمائی میں ادا ہوئے ان کا صحت و خوبی کے ساتھ ادا ہونا اور درجہ کمال تک پہنچنا شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ اسی طرح جو عبادتی اعمال حضور ﷺ کے بعد وقوع پذیر ہوئے ان کا نیتوں کے غیر اور حالات کی خرابی سے متاثر ہونا بعید از امکان نہیں، چناچہ اس بات کا اقرار تو خود صحابہ کے ہاں ان الفاظ میں ملتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ہم نے ابھی آپ ﷺ کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد اپنے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے اور ہنوز آپ ﷺ کو سپرد خاک کرنے میں مشغول ہی تھے کہ ہم نے اپنے دلوں میں ایک بڑا تغیر محسوس کیا، اس کا مطلب یہ تھا کہ آفتاب نبوت کے غروب ہوجانے سے پوری کائنات پر جو اندھیرا پھیلا اس نے ان صحابہ کے قلوب کو بھی متاثر کیا اور انہیں محسوس ہوا کہ ہم زمانہ رسالت پناہ میں ایمان و اخلاص اور یقین و اعتقاد کے جس مقام پر تھے اب حضور ﷺ کے بعد اس مقام سے نیچے آگئے۔ چناچہ اگر حضرت عمر (رض) نے یہ فرمایا کہ حضور ﷺ کے بعد ہم نے جو عبادت اعمال کئے، ان سے برابر سرابر بھی چھوٹ جانا ہمارے حق میں بڑا غنیمت ہے تو انہوں نے یقینا بڑی عارفانہ بات فرمائی۔ واضح رہے کہ اس بات کا تعلق جب ان پاک نفوس سے جو جلیل القدر صحابہ تھے اور جو اپنے ایمان و اعتقاد اور عمل و کردار کے اعتبار سے پوری امت سے افضل فرد تھے تو ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے اور ان کا کیا ٹھکانا ہوگا جو ان پاک نفسوں کے بھی بعد اس دنیا میں آئے اور ان کی طاعات و عبادات عجب و غرور اور ریا وغیرہ سے بھری ہوئی ہیں ؟ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک پر اپنا فضل و کرم اور رحمت خاص کا سایہ کرے یعنی بدکاروں کو اپنے نیک بندوں کے طفیل میں حسن عاقبت سے نواز دے، ویسے تو بعض عارفین نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ گناہ و معصیت جو بندے میں ندامت و شرمندگی اور ذلت و خواری کا باعث ہو اس طاعت و عبادت سے بہتر ہے جو خود بینی خود نمائی اور تکبر و غرور میں مبتلا کر دے۔ روایت کے آخری جز یعنی حضرت ابوبردہ کے اس قول تمہارے والد اللہ کی قسم، میرے والد سے بہتر تھے کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے والد اتنی عظیم القدر ہستی ہونے اور اتنے زیادہ اعمال و فضائل کے حامل ہونے کے باوجود خوف و دہشت کے اس مقام پر تھے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ میرے والد سے کہیں زیادہ بہتر ہوئے اور ان کا مرتبہ کہیں زیادہ بلند ہوگا، یا یہ مراد ہے کہ اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے والد باوجودیکہ میرے والد سے برتر و افضل تھے لیکن وہ آخرت کے معاملے میں اس قدر خوف زدہ تھے ؟ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کا معاملہ بہت نازک ہے۔

【21】

نو باتوں کا حکم

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میرے رب نے مجھ کو نو باتوں کا حکم دیا ہے۔ ایک تو یہ کہ ظاہر و پوشیدہ ہر حالت میں اللہ سے ڈرا جائے (یعنی دل میں بھی اللہ کا خوف سمایا ہوا ہو اور ارتکاب معصیت سے اجتناب کی صورت میں اعضاء جسم پر بھی خوف الٰہی کا اثر ظاہر ہو، یا یہ کہ خواہ تنہائی ہو یا لوگوں کی موجودگی، ہر حالت میں وہی کام کرنا چاہئے جو خوف الٰہی کا مظہر ہو) دوسری بات یہ کہ سچ بولا جائے خواہ غصہ کی حالت ہو یا رضامندگی کی (یعنی بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جب کسی سے راضی وخوش ہوتے ہیں تو اس کی تعریف کرتے ہیں اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور اس کے عیوب کو چھپاتے ہیں اور جب کسی سے غصے و ناراض ہوجاتے ہیں تو اس کی برائی کرتے ہیں اس کی ہر بات کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے عیوب کو اچھالتے ہیں، یہ بات مناسب نہیں ہے بلکہ یہ ہونا چاہئے کہ غصہ اور خوشی دونوں حالت میں اپنی زبان کو حد اعتدال پر رکھا جائے اور وہی بات کہی جائے جو حقیقت کے عین مطابق اور عین سچائی ہو) تیسری بات یہ ہے کہ فقر وغربت اور ثروت ومالداری دونوں حالت میں میانہ روی اختیار کی جائے (یعنی خواہ فقر و غربت کی حالت ہو ثروت ومالداری کی، بہر صورت راہ اعتدال پر قائم رہا جائے کہ فقر و غربت کی حالت میں تو غصہ، تلخی اور جزع وفزع اختیار نہ کیا جائے اور ثروت مالداری کی حالت میں تکبر و سرکشی اور اونچا اڑنے سے اجتناب کیا جائے یا یہ معنی ہیں کہ رزق اور ضروریات زندگی کی دوسری چیزیں بس اسی مقدار میں طلب کرے جو اعتدال کی حد تک ہو، نہ تو فقر و افلاس کی حد تک تنگی و سختی برداشت کرے اور نہ عیش و عشرت کی زندگی اختیار کرے) چوتھی بات یہ کہ میں اس شخص سے قرابت داری کو قائم رکھو جو مجھ سے قطع تعلق کرے (یعنی مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اگر میرا کوئی عزیز و رشتہ دار مجھ سے بدسلوکی کرے اور قرابت داری کا تعلق ختم کرے تو میں اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کروں اور اس کے ساتھ قرابت داری کو قائم رکھنے کی کوشش کروں۔ یہ بات آنحضرت ﷺ کے وصف علم وبردباری اور کمال تواضع ومروت کی آئینہ دار ہے) پانچویں بات یہ کہ میں اس شخص کو (بھی) اپنی عطاء و بخشش اور جود و سخاوت سے نوازوں جو مجھے (اپنے لین دین سے) محروم رکھے، چھٹی بات یہ کہ میں انتقام لینے کی طاقت وقوت رکھنے کے باوجود اس شخص کو معاف کروں جو مجھ پر ظلم و زیادتی کرے، ساتویں بات یہ کہ میرا چپ رہنا عبادت کا ذریعہ ہو (یعنی جب میں خاموشی کی حالت میں ہوں اور کسی کے ساتھ بات چیت یا زبان کے ذریعے تبلیغ میں مشغول نہ ہوں تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات اس کی قدرت کی کرشمہ سازیوں اور اس کے کلام کے معانی ومطالب میں غور وفکر اور استغراق وانہماک رکھو، آٹھویں یہ کہ میرا بولنا ذکرا للہ کا مظہر ہو (یعنی جب میری زبان جاری ہو اور میں بولوں تو اللہ کی بات کروں کہ اس کا تعلق خواہ تسبیح وتحمید اور تکبیر و توحید سے ہو یا تلاوت کلام اللہ اور اس کے بندوں کو تعلیم و تلقین اور تذکیر و نصیحت سے) اور نویں بات یہ کہ میری نظر عبرت پذیری کے لئے ہو (یعنی جب میں اللہ کی کسی مخلوق کی طرف دیکھوں تو میرا وہ دیکھنا عبرت حاصل کرنے کے لئے اور توجہ وہوشیاری کے ساتھ ہو، نہ کہ نادانی و غفلت کے ساتھ، نیز میرے پروردگار نے مجھے یہ بھی حکم دیا ہے کہ میں بندگان اللہ کو نیکی کی تلقین و تبلیغ کروں اور ایک روایت میں بالمعروف کا لفظ ہے۔ (رزین) تشریح آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ایک روایت میں بالعرف کے بجائے بالمعروف کا لفظ ہے اور دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ یعنی اچھی بات رہی یہ بات کہ جب امر بالمعروف کا ذکر کیا گیا ہے تو نہی عن المنکر کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا ؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امر بالمعروف کا لفظ عام ہے جس کے دائرہ میں نہی عن المنکر کا مفہوم بھی آجاتا ہے، چناچہ جب صرف امر بالمعروف کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد پورا مفہوم ہوتا ہے یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ واضح رہے کہ حضور ﷺ نے امربالمعروف کے حکم کا جو ذکر فرمایا ہے وہ مذکورہ باتوں کے حکم کے علاوہ ہے اور یہ حکم جامعیت کا حامل ہے کہ اس کے دائرہ مفہوم میں خالق و مخلوق سے متعلق تمام ہی اچھی باتیں اور طاعات آجاتی ہیں جن کو حضور ﷺ نے تفصیل کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد پھر علیحدہ سے بطریق اجمال ذکر فرمایا۔

【22】

خوف الٰہی سے گریہ کی فضیلت

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ہر وہ بندہ مومن جس کی آنکھوں سے اللہ کے خوف میں آنسو نکلیں اگرچہ وہ آنسو مکھی کے سر کے برابر (یعنی بہت معمولی مقدار میں) کیوں نہ ہوں اور پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے وجیہ (خوبصورت) پر پہنچیں تو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا۔ (ابن ماجہ)