16. نماز خوف کا بیان

【1】

نماز خوف کا بیان

کفار کے خوف اور دشمن کے مقابل ہونے کے وقت جو نماز پڑھی جاتی ہے اسے نماز خوف کہتے ہیں۔ خوف کی نماز کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ نیز اکثر علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد یہ نماز باقی اور ثابت ہے اگرچہ بعض حضرات کا قول ہے کہ نماز خوف صرف رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک ہی کے ساتھ مخصوص تھی۔ نیز بعض حضرات مثلاً حضرت امام مالک (رح) کے نزدیک یہ نماز حالت سفر کے ساتھ مخصوص ہے۔ جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک یہ نماز سفر و حضر دونوں صورتوں میں جائز ہے۔ بحسب اختلاف زمانہ و مقام یہ نماز متعدد طریقوں سے روایت کی گئی ہے چناچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ سولہ طریقوں سے منقول ہے۔ بعض حضرات نے اس سے زائد اور بعض نے اس سے کم کہا ہے لیکن علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث میں جتنے بھی طریقے منقول ہیں تمام کے تمام معتبر ہیں علماء کے ہاں اختلاف صرف ترجیح اور فوقیت کے بارے میں ہے کہ کسی نے کسی طریقے کو ترجیح دی ہے اور اس پر عمل کیا ہے جو صحاح ستہ میں مذکور ہے۔ علامہ شمنی نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز خوف چار جگہ پڑھی ہے۔ ذات الرقاع بطن نخل، عسفان اور ذی قرد۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ نماز خوف تھی تو حالت سفر میں مگر فقہاء نے اس پر قیاس کرتے ہوئے اس نماز کو حضر میں بھی جائز رکھا ہے۔

【2】

دشمن کے مد مقابل ہونے کی صورت میں رسول اللہ ﷺ کی نماز اور جماعت

حضرت سالم ابن عبداللہ ابن عمر اپنے والد (حضرت عبداللہ ابن عمر) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لئے گئے (جب) ہم دشمنوں کے سامنے ہوئے تو ہم نے ان (سے مقابل) ہونے کے لئے صفیں باندھ لیں، رسول اللہ ہمیں نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو ایک جماعت آپ کے ساتھ (نماز کے لئے) کھڑی ہوئی اور دوسری جماعت دشمن کے مد مقابل کھڑی رہی، رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کے ساتھ جو آپ ﷺ کے ہمراہ ( نماز کی جماعت میں) شریک تھے ایک رکوع کیا اور دو سجدے کئے پھر وہ لوگ (جو آپ ﷺ کے ہمراہ نماز میں تھے) ان لوگوں کی جگہ چلے گئے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تھی ( اور دشمن کے مد مقابل کھڑے تھے) جن لوگوں نے نماز نہیں پڑھی تھی وہ آئے (اور رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز میں شریک ہوگئے) چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کے ہمراہ ایک رکوع اور دو سجدے کئے پھر سلام۔ اور یہ لوگ کھڑے ہوگئے اور ہر ایک نے اپنا اپنا ایک رکوع اور دو سجدے کر لئے ۔ نافع نے بھی اسی طرح روایت بیان کی ہے۔ مگر انہوں نے اتنا اور زیادہ بیان کیا ہے کہ اگر (عین جنگ کی حالت ہو اور) خوف اس سے بھی زیادہ ہو (کہ مذکورہ بالا طریقہ سے نماز پڑھنا ممکن نہ ہو) تو لوگ پیادہ کھڑے کھڑے یا (پیادہ نہ ہو سکیں تو) سواری پر اگر (ممکن ہو تو) قبلے کی طرف یا (اور اگر ممکن نہ ہو تو) کسی بھی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لیں حضرت نافع فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ سے ہی نقل کئے ہوں گے۔ (صحیح البخاری ) تشریح نجد بلند زمین کو کہتے ہیں یہاں نجد سے مراد نجد حجاز ہے۔ نجد یمن مراد نہیں ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تعدد جماعت یعنی کئی کئی مرتبہ جماعت کرنا مکروہ ہے خصوصاً جب کہ تمام نمازی حاضر ہوں۔ ایسے ہی یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ فرض نماز نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے جائز نہیں ہوتی ورنہ رسول اللہ ﷺ دونوں جماعتوں کو الگ الگ دو دو مرتبہ نماز پڑھاتے نیز جماعت کے واجب ہونے کی بھی یہ حدیث دلیل ہے کہ ایسی حالت میں بھی جب کہ دشمن کا لشکر مد مقابل ہو جماعت نہ چھوڑی جائے۔ حضرت ابن ہمام فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالا طریقے سے نماز خوف کی ادائیگی اس وقت ضروری ہوتی ہے جب کہ سب لوگ ایک ہی آدمی کو امام بنانے پر مصر ہوں۔ اگر ایسی صورت حال نہ ہو تو پھر افضل یہ ہے کہ ایک امام ایک جماعت کو پوری نماز پڑھائے اور دوسرا امام دوسری جماعت کو پوری نماز پڑھائے۔ حدیث کے الفاظ فقام کل واحد منھم ( اور یہ لوگ کھڑے ہوگئے الخ) کی تفصیل و فائدہ علماء حنفیہ میں سے بعض شارحین نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ جماعت جو بعد میں آکر نماز میں شریک ہوئی تھی۔ آنحضرت ﷺ کے سلام پھیرنے کے بعد دشمن کے مقابلے میں چلی گئی اور پہلی جماعت جو پہلی رکعت میں شریک ہوئی تھی وہاں سے اپنی جگہ یعنی نماز پڑھنے آگئی اور تنہا تنہا اپنی بقیہ نماز پوری کی اور سلام پھیر کے دشمن کے مقابلہ پر چلی گئی اس کے بعد پھر دوسری جماعت یہاں آگئی اور اس نے بھی تنہا اپنی بقیہ نماز پوری کی اور سلام پھیر کے دشمن کے مقابلہ پر چلی گئی۔ ابن ملک (رح) فرماتے ہیں کہ بعض علماء سے یہی تفصیل اور طریقہ منقول ہے چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ اگر یہ تفصیل حدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کی گئی ہے اور نہ صراحت کے ساتھ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔ لیکن حضرت ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے حضرت امام ابوحنیفہ کے مسلک کا ایک جز ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ کہ پہلی جماعت ایک رکعت پڑھ کر چلی جائے اور دوسری جماعت دوسری رکعت میں آکر امام کے ساتھ شریک ہو اور اس دوسری جماعت کی موجودگی میں امام اپنی نماز پوری کر کے سلام پھیر دے۔ البتہ حضرت امام اعظم کا پورا مسلک اور ان کا نقل کردہ پورا طریقہ ایک دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے جو حضرت عبداللہ ابن عباس پر موقوف ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہ مسلک اور ان کی روایت حضرت امام محمد نے اپنی کتاب الآثار میں نقل کی ہے۔ اس سلسلے میں اتنی بات سمجھ لینا چاہیے کہ نماز خوف کے بارے میں حضرت امام اعظم کا جو مسلک ہے اور انہوں نے جو تفصیل بیان کی ہے وہ حدیث موقوف سے ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ اس باب میں عقل کو کوئی دخل نہیں لہٰذا حدیث موقوف بھی حدیث مرفوع کے درجے میں ہوگی۔ اور پھر یہ کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ بھی ہے کہ صورت مذکورہ میں پہلی جماعت اپنی نماز بغیر قرأت کے لاحق کی طرح پوری کرے اور دوسری جماعت قرأت کے ساتھ پوری کرے جیسا کہ مسبوق اپنی نماز قرأت کے ساتھ پوری کرتے ہیں لیکن یہ صورت اس وقت کی ہے جب کہ نماز حالت سفر میں پڑھی جا رہی ہو اور امام مسافر ہو یا نماز دو رکعت والی نماز ہو اور اگر امام مقیم ہو اور نماز چار رکعتوں والی ہو تو دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک جماعت امام کے ساتھ دو دو رکعتوں پڑھے گی۔ لیکن نماز اگر تین رکعتیں والی ہو جیسے مغرب کی تو خواہ سفر ہو یا حضرت دونوں صورتوں میں پہلی جماعت امام کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے گی اور دوسری جماعت ایک رکعت اور ہر جماعت اپنی اپنی نماز مذکورہ بالا طریقے سے پوری کرے گی۔ حدیث کے آخری الفاظ قیا ما علی اقدامھم سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نمازی رکوع اور سجدہ ترک کردیں۔ یعنی مذکورہ بالا صورت میں جب کہ لوگ پیادہ کھڑے کھڑے یا سواری پر نماز پڑھیں تو رکوع اور سجدہ سر کے اشارے سے کرلیں نماز خوف کے سلسلے میں مذکورہ بالا طریقہ اگرچہ خلاف قیاس ہے کیونکہ خود حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک چلنا، سوار ہونا اور لڑنا نماز کو فاسد کردیتا ہے۔ پھر یہ کہ اس صورت میں نہ صرف یہ کہ عمل کثیر بہت ہوتا ہے بلکہ قبلے سے بھی انحراف ہوتا ہے لیکن چونکہ قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث صحیحہ میں نماز خوف اور اس کا طریقہ وارد ہوگیا ہے۔ اس لئے اسے مشروع رکھا گیا ہے۔

【3】

نماز خوف کا ایک اور طریقہ

اور حضرت یزید ابن رومان حضرت صالح ابن خوات اور وہ اس آدمی سے جس نے سرتاج دو عالم ﷺ کے ہمراہ ذات الرقاع کے دن نماز خوف پڑھی تھی (نماز خوف کا یہ طریقہ) نقل کرتے ہیں کہ (اس دن) ایک جماعت نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ( نماز کے لئے) صف بندی کی اور دوسری جماعت دشمن کے مقابل صف آرا ہوگئی۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اس جماعت کے ہمراہ جو آپ ﷺ کے ساتھ تھی ایک رکعت نماز پڑھ کر رسول اللہ ﷺ کھڑے رہے اور اس جماعت نے خود اپنی نماز پوری کی (یعنی دوسری رکعت جماعت نے خود تنہا پڑھی) پھر اس کے بعد یہ جماعت) (نماز سے فارغ ہو کر) واپس ہوئی اور دشمن کے مقابل صف آرا ہوگئی اور وہ جماعت جو دشمن کے مقابل صف آرا تھی (نماز کے لئے) آئی چناچہ رسول اللہ ﷺ نے وہ دوسری رکعت جو باقی رہ گئی تھی اس جماعت کے ساتھ پڑھی اور (التحیات میں) بیٹھے رہے اور پھر اس جماعت نے اپنی وہ پہلی رکعت جو باقی تھی تنہا اور التحیات میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شریک ہوگئی پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔ ( صحیح البخاری نے اس روایت کو ایک اور سند کے ساتھ نقل کیا ہے یعنی اس طرح کہ قاسم وہ صالح ابن خوات سے اور وہ حضرت سہل ابن ابی حثمہ سے اور وہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں۔ تشریح ذات الرقاع کے دن جس آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی تھی ان کا نام سہل ابن ابی حثمہ ہے کیونکہ محمد ابن قاسم نے صلوٰۃ الخوف کی حدیث صالح ابن خوات سے اور انہوں نے حضرت سہل ابن ابی حثمہ سے نقل کی ہے جیسا کہ صحیح البخاری کی روایت میں بیان کیا گیا ہے۔ ذات الرقاع ایک غزوے کا نام ہے جو ٥ ھ میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کفار کے مقابلے کے لئے گئے مگر بغیر جنگ کئے ہوئے واپسی ہوئی۔ اسی موقع پر یہ نماز پڑھی تھی۔ اس غزوے کو ذات الرقاع اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس وقت جو مسلمان غزوہ میں شریک ہونے کے لئے میدان جہاد کی طرف گئے تھے وہ ننگے پاؤں تھے جس کی وجہ سے ان کے پاؤں میں سوراخ ہوگئے تھے اور ناخن ٹوٹ گئے تھے چناچہ ان مجاہدین نے اپنے پاؤں پر رقاع یعنی چیتھڑے لپیٹ لئے تھے اسی مناسبت سے یہ غزوہ ذات الرقاع (یعنی چیتھڑوں) والا کے نام سے مشہور ہوا۔ اس حدیث میں نماز خوف کا جو طریقہ نقل کیا گیا ہے یہ ایک اور طریقہ ہے اس میں بھی ہر جماعت نے ایک ایک رکعت رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پڑھی اور ایک ایک رکعت تنہا پوری کی۔ لیکن یہاں فرق یہ ہے کہ ہر ایک جماعت نے جو ایک ایک رکعت تنہا پڑھی وہ رسول اللہ ﷺ کے نماز میں رہنے کے دوران ہی پڑھی جب کہ پہلے طریقے میں ہر ایک جماعت نے اپنی اپنی ایک رکعت نماز رسول اللہ ﷺ کے نماز سے فارغ ہونے کے بعد پڑھی تھی۔ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے اسی طریقہ پر عمل کیا ہے جو اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے۔

【4】

رسول اللہ ﷺ کا حلم

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم سر تاج دو عالم ﷺ کے ہمراہ ( جہاد کے لئے روانہ ہوئے یہاں تکہ ہم ذات الرقاع پہنچے۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ (ہمارا قاعدہ یہ تھا کہ) جب ہمیں کوئی سایہ دار درخت ملتا تو ہم اسے رسول اللہ ﷺ کے واسطے چھوڑ دیتے تھے۔ (تاکہ آپ ﷺ اس سائے میں استراحت فرمائیں چناچہ ذات الرقاع میں ایسا ہی ہوا کہ رسول اللہ ﷺ ایک سایہ دار درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے کہ) ایک مشرک آیا اور اس نے رسول اللہ ﷺ کی تلوار جو درخت سے لٹکی ہوئی تھی اتار کر نیام سے کھینچ لی (رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر نہیں ہوئی کیونکہ یا تو آپ سو رہے تھے یا اس کی طرف سے غافل تھے) اس نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ کیا تم مجھ سے ڈرتے ہو ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں (میں تجھ سے کیوں ڈرنے لگا کیونکہ میرے رب کے سوا دوسرا کوئی نہ مجھے نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان) اس نے کہا کہ پھر تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے تجھ سے اللہ بچائے گا جابر (رض) فرماتے ہیں صحابہ کرام نے (جب یہ دیکھا تو) اس کو دھمکایا، اس نے تلوار نیام میں رکھ کر اسے درخت سے لٹکا دیا حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں پھر (ظہر یا عصر کی) نماز کے لئے اذان ( اور تکبیر) کہی گئی چناچہ رسول اللہ ﷺ نے (پہلے) ایک جماعت کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں اور وہ جماعت ( دو رکعت نماز پڑھ کر دشمن کے مقابلے کے ارادے سے) پیچھے ہٹ گئی، پھر آپ نے دوسری جماعت کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں جابر (رض) فرماتے ہیں کہ (اس طرح) رسول اللہ ﷺ کی چار رکعتیں ہوئیں اور لوگوں کی دو دو رکعتیں ہوئیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نہ صرف یہ کہ نہایت شجاع تھے بلکہ کفار کی جانب سے پہنچائی جانے والی ایذا پر صبر کرتے تھے اور جاہل کفار اگر آپ کے ساتھ بےتمیزی کا کوئی معاملہ کرتے تھے تو آپ اسے انتہائی حلم کے ساتھ برداشت فرماتے تھے واقدی نے ذکر کیا ہے کہ جب اس مشرک نے غلط ادارے کے ساتھ تلوارنکالی تو اس کی پیٹھ میں شدید درد شروع ہوگیا جس سے وہ بو کھلا گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرگئی۔ وہ یہ حالت دیکھ مسلمان ہوگیا اور اس کی وجہ سے بہت زیادہ مخلوق نے ہدایت پائی۔ لیکن ابوعوانہ نے نقل کیا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہوا مگر اس نے یہ عہد کیا کہ کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہیں لڑوں گا۔ بہر حال رسول اللہ ﷺ نے اس کی اس بد تمیزی پر اسے کوئی سزا نہیں دی۔ اس کیوجہ یا تو اس کی تالیف قلب تھی یا کوئی اور وجہ ہی ہوگی کہ آپ ﷺ نے اسے معاف فرما دیا۔ اس روایت کے بارے میں مولانا مظہر کا قول یہ ہے کہ اس سے پہلے نقل کی گئی روایت اور اس روایت میں اختلاف ہے باوجود اس کے دونوں روایتوں کا تعلق ایک ہی جگہ یعنی غزوہ ذات الرقاع سے ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ دونوں روایتیں ایک ہی جگہ سے متعلق ہیں مگر اوقات میں فرق و اختلاف ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں روایتوں کا محمول یہ ہوگا کہ غزوہ ذات الرقاع میں اس جگہ رسول اللہ ﷺ نے دو مرتبہ نماز پڑھی ہے۔ ایک مرتبہ تو اس طریقہ کے مطابق جو سہل ابن ابی حثمہ نے بیان کیا ہے اور ایک مرتبہ اس طریقے کے مطابق جو حضرت جابر (رض) بیان کر رہے ہیں۔ لہٰذا حضرت سہل کی روایت صبح کی نماز پر محمول کی جائے گی اور حضرت جابر کی اس روایت کا محمول ظہر یا عصر کی نماز ہوگی۔ یا پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں روایتیں تعداد غزوات پر محمول کی جائیں گی۔ جیسا کہ حضرت جابر کے ارشاد سے ثابت ہو رہا ہے اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے چار رکعتیں پڑھیں اور دوسرے لوگوں کی دو ہی رکعتیں ہوئیں۔ تو علماء نے اس کی کئی وجہیں بیان کی ہیں ان میں سب سے صحیح اور بہتر توجیہ یہ ہے کہ یا تو یہ واقعہ آیت قصر کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے یا پھر یہ کہ جس جگہ یہ نماز پڑھی گئی تھی وہاں قصر واجب نہیں ہوتا تھا چناچہ امام اعظم ابوحنیفہ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور علماء نے حدیث کے الفاظ لقوم رکعتان کی مراد یہ بیان کی ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو دو رکعتیں پڑھیں اور باقی دو دو رکعتیں تنہا تنہا پوری کیں۔ وا اللہ اعلم

【5】

نماز خوف کا ایک طریقہ

اور حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ سر تاج دو عالم ﷺ نے ہمیں (ایک مرتبہ) نماز خوف پڑھائی۔ چناچہ ہم نے آپ ﷺ کے پیچھے دو صفیں باندھ لیں اور دشمن ہمارے قبلے کے درمیان تھا آپ نے تکبیر کہی ہم سب نے بھی (یعنی دونوں صفوں نے) تکبیر کہی، جب آپ ﷺ نے رکوع سے سر اٹھایا تو ہم سب نے (دونوں صفوں نے) بھی (اپنے سر رکوع سے) اٹھائے، پھر سجدے کے لئے اس صف کے ساتھ جھکے جو آپ ﷺ کے قریب تھی (یعنی پہلی صف) اور دوسری صف دشمن کے مقابلے (قومہ ہی میں) کھڑی رہی پھر جب آپ ﷺ سجدہ کرچکے اور آپ ﷺ کے ساتھ وہ صف کھڑی ہوگئی ( جو آپ ﷺ کے قریب تھی یعنی پہلی صف) تو پچھلی صف والے سجدے میں چلے گئے۔ پھر یہ کھڑے ہوگئے۔ اس کے بعد اگلی صف پیچھے ہٹ آئی اور (پچھلی صف آگے بڑھ گئی پھر رسول اللہ ﷺ نے قیام میں قرأت کی اور) رکوع کیا تو ہم سب نے بھی رکوع کیا۔ پھر آپ ﷺ نے رکوع سے سر اٹھایا تو ہم سب نے بھی رکوع سے سر اٹھایا۔ پھر رسول اللہ ﷺ سجدے میں گئے اور صف جو آپ ﷺ کے قریب تھی اور پہلی رکعت میں پیچھے تھی آپ ﷺ کے ساتھ سجدے میں چلی گئی اور پچھلی صف (جو پہلی رکعت میں آگے تھی) دشمن کے مقابلے میں کھڑی رہی، پھر جب آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے قریب کی صف کے سب لوگ سجدے سے فارغ ہوگئے تو پچھلی صف نے سجدے کیا۔ پھر اس کے بعد آپ نے اور ہم سب نے (یعنی دونوں صفوں نے التحیات پڑھ کر) سلام پھر یا۔ (صحیح مسلم) تشریح نماز خوف کا یہ ایک اور طریقہ ہے رسول اللہ ﷺ جیسا وقت اور جیسا موقع دیکھتے اسی کے مطابق نماز خوف پڑھتے تھے۔ چناچہ یہاں چونکہ دشمن سامنے ہی قبلے کی طرف تھا اس لئے اسلامی لشکر ایک ہی جگہ اس طرح نماز پڑھتا رہا کہ دشمن کا لشکر مد مقابل رہا چناچہ کسی جماعت کو کسی اور طرف بھیجنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، پورا لشکر رکوع تک تو متفق رہا اس کے بعد صرف اتنا فرق ہوا کہ جب ایک صف سجدہ میں گئی تو دوسری صف کھڑی رہی اور جب دوسری صف سجدے میں گئی تو پہلی صف کھڑی رہی۔ جیسا کہ حدیث میں ذکر کیا گیا ہے علماء لکھتے ہیں کہ یہ نماز رسول اللہ ﷺ نے عسفان میں ادا فرمائی تھی۔

【6】

نماز خوف کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مختص ایک ہی طریقہ

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مقام بطن نخل میں خوف کے وقت ظہر کی نماز پڑھی چناچہ آپ ﷺ نے لوگوں کو اس طرح) نماز پڑھائی کہ ایک جماعت کو دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ پھر جب دوسری جماعت آئی تو اسے بھی دو رکعتیں نماز پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ (شرح السنۃ) تشریح بطن نخل مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے حضرت امام شافعی (رح) کے مسلک کے مطابق یہ حدیث اس پر محمول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قصر کی نماز پڑھی۔ یعنی آپ ﷺ نے چار رکعتوں کے بجائے دو رکعت نماز ادا فرمائی اس کے بعد دو رکعت نماز نفل پڑھی۔ حضرت امام شافعی (رح) کے ہاں نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنے والا اقتدا کرسکتا ہے۔ حنفی مسلک کے مطابق اس حدیث کی تشریح بظاہر ایک سخت مسئلہ ہے کیونکہ اگر اسے سفر پر محمول کیا جائے تو نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنے والے کی اقتدا لازم آتی ہے اور حنفیہ کے ہاں یہ درست نہیں ہے لہٰذا یہ سفر کی نماز تو قرار نہیں دی جاسکتی۔ اب اگر اس حدیث کا محمول حضر کی نماز قرار دی جائے تو پھر ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا لازم آتا ہے جو نماز کے منافی ہے لہٰذا اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ یہ کہا جائے کہ نماز تو حالت حضر ہی میں پڑھی گئی تھی البتہ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرنا یہ صرف آپ ﷺ کی خصوصیات میں سے تھا جو دوسروں کے لئے جائز نہیں ہے چناچہ لوگوں نے اپنی بقیہ دو دو رکعتیں آپ کے سلام پھیرنے کے بعد بطور خود پوری کیں اس طرح ان کی بھی چار رکعتیں ہوگئیں۔ اس سلسلے میں حضرت امام طحاوی (رح) نے جو تحقیق پیش کی ہے وہ بہت مناسب معلوم ہوتی ہے انہوں نے فرمایا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ ایک فرض نماز دو مرتبہ پڑھی جاسکتی تھی۔

【7】

نماز خوف کا ایک اور طریقہ

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (جہاد کے لئے) فجنان اور عسفان کے درمیان اترے تو مشرک (آپس میں) کہنے لگے کہ مسلمانوں کی ایک نماز ہے جو ان کے نزدیک ان کے باپ اور بیٹے سے بھی زیادہ محبوب ہے اور وہ نماز عصر ہے چناچہ تم اپنے مقصد (یعنی جنگ) کے لئے تیار ہوجاؤ اور جب مسلمان اس نماز میں مصروف ہوں تو) ان پر یکبارگی حملہ کردو۔ جب ہی آپ ﷺ کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور فرمایا کہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کرام کو دو حصوں میں تقسیم کردیں۔ ایک حصے کو تو نماز پڑھائیں اور دوسرا حصہ ان کے پیچھے دشمن کے خطرناک ارادوں کا جواب دینے کے لئے) کھڑا رہنا ( اسی طرح دوسرے حصے کو نماز پڑھائیں تو پہلا حصہ دشمن کے مد مقابل رہے نیز تمام نمازیوں کو) چاہیے کہ اپنے دفاع کا سامان یعنی سپر و ہتھیار وغیرہ اپنے پاس رکھیں۔ اس طرح لوگوں کی تو (امام کے ساتھ) ایک ایک رکعت ہوجائے گی اور رسول اللہ ﷺ کی دو رکعتیں۔ (جامع ترمذی و سنن نسائی) تشریح ضجنان ایک پہاڑ کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے اور عسفان ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ سے دو منزل کے فاصلے پر واقع ہے۔