160. ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان

【1】

لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان

تغیر کا معنی ہیں بدل جانا۔ یعنی ایک حالت کو چھوڑ کر دوسری حالت اختیار کرلینا۔ یہاں لوگوں میں تغیر وتبدل ہوجانے سے مراد مسلمانوں کی اس حالت کا بدل جانا ہے جو حضور ﷺ کے زمانے میں تھی، چناچہ حضور ﷺ کے زمانے میں اہل ایمان کی حالت یہ تھی کہ وہ دین کے راستہ پر سختی سے قائم تھے، احکام سنت کا احترام تھا حق کے پیرو تھے دنیا سے بےرغبت تھے، دنیا کی چمک دمک یعنی مال و دولت، حشم وخدم اور جاہ ومنصب نے ان کے اندر حرص و لالچ اور غرور وتکبر کے جراثیم پیدا نہیں کئے تھے شریعت کے پسندیدہ اعمال، اچھے خصائل واطوار، بلند کرداری اور حسن اخلاق ان کی عادت ثانیہ تھی حق کی راہ میں سینہ سپر رہتے تھے، دل کی نورانیت اور باطن کی صفائی و پاکیزگی کے جوہر سے متصف تھے۔ لیکن حضور ﷺ کے بعد جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا لوگوں کے ان حالات میں تبدیلی آتی گئی یہاں تک کہ آخر زمانے میں ان کے حالات، معاملات بالکل برعکس ہوجائیں گے۔

【2】

قحط الرجال

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ آدمی اختلاف حالات اور تغیر صفات کے اعتبار سے ان سو اونٹوں کے مانند ہے جن میں سے تم ایک ہی کو سواری کے قابل پاسکتے ہو۔ (بخاری ومسلم) تشریح راحلۃ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو تندرست و توانا ہوتا ہے اور سواری وباربرداری کے کام کے لئے بہت اچھا اور پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لفظ میں حرف ۃ اظہار مبالغہ کے لئے ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی تو بہت ہیں جیسے اونٹ بہت ہوتے ہیں، لیکن جس طرح اونٹوں میں سے سواری اور باربرداری کے قابل چند ہی اونٹ نکلتے ہیں اسی طرح کام کے آدمی کہ جو نبی ﷺ کی صحبت و دریافت کے قابل ہوں اور صحبت دریافت کا حق ادا کرسکیں اور ان کے نیک مقصد میں ان کے معین و مددگار ثابت ہو سکیں، بہت کم ہوتے ہیں۔ آپ ﷺ کا زمانہ اس اعتبار سے سب سے بہتر زمانہ تھا کہ اس میں کام کے لوگ زیادہ تھے پھر بعد کے زمانہ میں اگرچہ پہلے زمانہ کی بہ نسبت ایسے لوگوں کی تعداد کم تھی لیکن آنے والے زمانہ کے اعتبار سے وہ تعداد یقینا زیادہ تھی اور پھر اس کے بعد کے زمانہ میں ایسے لوگوں کی تعداد اگرچہ دوسرے زمانے کی تعداد سے بھی کم تھی لیکن آنے والے زمانوں کے اعتبار سے یقینا بہت زیادہ تھی۔ حدیث سو کا جو عدد ذکر فرمایا گیا ہے وہ تحدید وتعین کے لئے نہیں ہے بلکہ اظہار کثرت کے لئے ہے حاصل یہ کہ لوگوں کے جنگل میں ایسی ہستی کا وجود کہ جس پر مخلص عالم باعمل کا اطلاق کیا جاسکے کیمیا کی طرح نایاب ہوتا ہے، اسی لئے ہر زمانہ کے ارباب حال یہ کہا کرتے ہیں کہ یہ زمانہ قحط الرجال کا ہے۔ حضرت سہل تستری کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک دن جب مسجد میں لوگوں کو اس کثرت کے ساتھ دیکھا کہ مسجد اندر اور باہر سے بھری ہوئی تھی تو فرمایا کہ کلمہ گو یقینا بہت ہیں لیکن ان میں مخلص لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس مفہوم کو اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں کئی موقعوں پر بیان فرمایا ہے۔

【3】

اہل اسلام کے بارے میں ایک پیشگوئی

حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یقینا آنے والے زمانوں میں تم بالشت، بالشت کے برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ان لوگوں کے طور و طریق کو اختیار کرو گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ گوہ یعنی سوسمار کے بل میں بیٹھیں گے (جو بہت تنگ اور برا ہوتا ہے) تو تم اس میں بھی ان کی پیروی کرو گے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! وہ لوگ کہ جو پہلے گزر چکے ہیں اور جن کے طور طریقوں کو ہم اختیار کریں گے کیا وہ یہود و نصاری ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا اگر وہ یہود و نصاری نہیں ہیں تو اور کون ہیں ؟ یعنی تم سے پہلے گزرے ہوئے جن لوگوں کی طرف میں اشارہ کیا ہے ان سے مراد یہود و نصاری ہی ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح سنن سنت کی جمع ہے جس کے معنی طور اور طریقے کے ہیں، خواہ نیک طریقہ ہو یا برا طریقہ، یہاں اس لفظ سے ان خواہش پرست اور دین کو مسخ کردینے والے لوگوں کا طور طریقہ ہے جنہوں نے اپنے نبی اور پیغمبر کے گزر جانے کے بعد اپنی نفسانی خواہشات اور جھوٹی اغراض کے تحت اپنے دین تک کو بدل ڈالا اور ان کا نبی و پیغمبران کے پاس اللہ کی جو کتاب چھوڑ کر گیا تھا اس میں انہوں نے تحریف کر ڈالی اور ان کے احکام مسائل میں کانٹ چھانٹ کردی۔ بعض نسخوں میں یہ لفظ سین کے زبر کے ساتھ ہے۔ بالشت بالشت کے برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر کا مطلب ہے وبجمیع وجوہ ہر کام و معاملہ میں ان کی اتباع و پیروی کرنا اور ان کے تمام طور طریقوں کو اختیار کرلینا۔

【4】

دنیا میں بتدریج نیک لوگوں کی کمی ہوتی رہے گی۔

حضرت مرد اس اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ نیک بخت و صالح لوگ یکے بعد دیگرے اس دنیا سے گزرتے رہیں گے اور بدکار و ناکارہ لوگ جو یا کھجور کی بھوسی کی طرح باقی رہ جائیں گے جن کی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں ہوگی (یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے لوگوں کی کوئی قدر و منزلت نہیں اور ان کے وجود کا کوئی اعتبار نہیں) ۔ (بخاری)

【5】

ایک پیشین گوئی جو صحیح ثابت ہوئی

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب میری امت کے لوگ تکبر کی چال چلنے لگیں گے اور بادشاہوں کے بیٹے کہ جو فارس و روم کے شہزاداے ہوں گے، ان کی خدمت کریں گے (بایں طور کہ اللہ تعالیٰ اہل فارس و روم کے علاقوں اور شہروں کو مسلمانوں کے زیر نگیں کر دے گا اور وہ فتوحات حاصل کریں گے تو اس کے نتیجے میں ان علاقوں اور شہروں کے نہ صرف عام آدمی بلکہ بادشاہ وشہزادے بھی قیدی بنائے جائیں گے اور مسلمان ان سب کو بطور غلام اپنی خدمت پر مامور کریں گے تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ امت کے برے لوگوں کو بھلے لوگوں پر یعنی ظالموں کو مظلوموں پر مسلط کر دے گا۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح یہ حدیث آنحضرت ﷺ کی نبوت کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے اس حدیث کے ذریعے ایک ایسی بات کی خبر دی جو آئندہ زمانہ میں وقوع پذیر ہونے والی تھی اور آپ ﷺ نے بطور پیشگوئی جو بات فرمائی وہ حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی، چناچہ یہ بات اسلامی تاریخ کی ایک عین حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے فارس و روم کے علاقے فتح کر لئے وہاں کی بیشمار دولت مال غنیمت کے طور پر حاصل کی، ان علاقوں اور شہروں کے لوگوں کو قیدی بنایا اور بادشاہوں کی اولادوں تک کو غلام بنا کر ان سے خدمت وچاکری کرائی اور اس طرح سے ان کے اندر جب بڑائی کا احساس پیدا ہوگیا اور اخلاص کی جگہ جاہ ومنصب اور مال و دولت کی محبت نے لے لی تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ان لوگوں کا عذاب مسلط کردیا۔ جنہوں نے حضرت عثمان غنی (رض) کو قتل کیا تھا، یہاں تک کہ بنی ہاشم جو کل تک مسلمانوں کی قیادت وسیادت کے امین سمجھے جاتے تھے اور جن کی خلافت وحکمرانی تمام عالم اسلام پر قائم تھی ان پر بنو امیہ کو مسلط کردیا اور بنو امیہ نے جو کچھ کیا وہ اسلامی تاریخ کی ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کو یہاں بیان نہ کرنا ہی مناسب ہے۔ مطیطاء کے معنی ہیں دونوں ہاتھ پھیلا کر اتراتے ہوئے (یعنی مغرورانہ چال چلنا۔ اسی سے مط ہے جس کے معنی از راہ نخوت وتکبر ناک بھوں سکیڑنے اور ابرو چڑھانے کے ہیں۔ لغت کی مشہور کتابوں قاموس صحاح اور صراح نیز مشکوۃ کے صحیح نسخوں میں لفظ اسی طرح ہے لیکن مجمع البحار اور اس کتاب کے بعض حواشی میں لکھا ہے کہ یہ لفظ دوسری ط کے بعد بھی ی کے ساتھ منقول ہے جو محذوف ہے یعنی مطیطا کے جائے مطیطی ہے اس سے معلوم ہوا کہ اس لفظ میں دوسرے ط کے بعد بھی حرف ی ہے بلکہ ایک معنی میں ہی رائج ہے۔

【6】

قیامت کب قائم ہوگی

حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب تم مسلمان اپنے خلیفہ یا سلطان وحکمران کو قتل کردو گے تمہاری تلواریں آپس ہی میں ایک دوسرے کی گردن اڑائیں گی اور یہاں تک کہ تمہاری دنیا کے وارثو والی، مکار لوگ ہوجائیں گے (یعنی سلطنت وحکمران ظالموں کے پاس پہنچ جائے گی اور مخلوق اللہ کی زمام کار اور اقتدار کی باگ دوڑ بدکاروں اور فاسقوں کے ہاتھ میں آجائے گی تو اس وقت قیامت قائم ہوجائے گی۔ (ترمذی)

【7】

قیامت کب قائم ہوگی

حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک کہ دنیا میں کثرت مال و زر اور اقتدار وحکمرانی کے اعتبار سے سب سے زیادہ نصیبہ ور وہ شخص نہ بن جائے گا جو احمق ہے اور احمق کا بیٹا ہے (یعنی جب دنیا میں بداصل اور بدسیرت اور بدکار لوگ سب سے زیادہ حکومت و اقتدار اور مال دولت کے مالک بن جائیں گے تو سمجھو کہ قیامت بس آنے ہی والی ہے) اس روایت کو ترمذی نے اور کتاب دلائل النبوۃ میں بیہقی نے نقل کیا ہے۔

【8】

عیش وراحت کی زندگی دینی واخروی سعادتوں کی راہ میں رکاوٹ ہے

حضرت محمد بن کعب قرظی (رح) کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے یہ حدیث بیان کی جس نے حضرت علی (رض) سے اس کو سنا تھا (چنانچہ اس شخص نے بیان کیا کہ) حضرت علی (رض) نے فرمایا۔ ایک دن ہم لوگ رسول کریم ﷺ کے ساتھ مسجد میں (یعنی مسجد نبوی یا مسجد قبا میں) بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب ابن عمیر (رض) بھی وہاں آگئے اس وقت ان کے بدن پر صرف ایک چادر تھی اور اس چادر میں بھی چمڑے کے پیوند لگے ہوئے تھے رسول کریم ﷺ نے ان کو دیکھا تو رو پڑے کہ ایک زمانہ وہ تھا جب مصعب اس قدر خوشحال اور آرام و راحت کی زندگی گزارتے تھے اور آج ان کی کیا ٹوٹی پھوٹی حالت ہے۔ پھر رسول کریم ﷺ نے اظہار تعجب و حسرت کے طور پر فرمایا۔ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کہ تم میں کوئی شخص صبح کو ایک جوڑا پہن کر نکلے گا اور پھر شام کو دوسرا جوڑا پہن کر نکلے گا، تمہارے سامنے کھانے کا ایک بڑا پیالہ رکھا جائے گا اور دوسرا اٹھایا جائے گا اور تم اپنے گھروں پر اس طرح پردہ ڈالو گے جس طرح کعبہ پر پردہ ڈالا جاتا ہے (یعنی حضور نے اس ارشاد کے ذریعے آنے والے زمانہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ جب تم پر خوشحالی وترفہ کا دور آئے گا، اللہ تعالیٰ دنیا کے خزانوں کی کنجیاں تمہارے قدموں میں ڈال دے گا، تمہارے گھروں میں مال و اسباب کی فراوانی ہوگی تو تم دن میں کئی کئی مرتبہ جوڑے بدلو گے، صبح کا لباس الگ ہوگا، شام کا الگ، تمہارے دستر خوان انواع و اقسام کے کھانوں اور لذیذ و مرغوب اشیاء سے بھرے ہوں گے، تمہارے مکان راحت و آسائش اور آراستگی و زیبائش کی چیزوں سے پر رونق ہوں گے اور گویا تمہاری زندگی عیش و عشرت کا گہوارہ اور اسراف و تنعم کی آئینہ دار ہوجائے گی۔ تو بتاؤ اس وقت تمہارے دل کی کیا حالت ہوگی اور تم کیا محسوس کرو گے ؟ بعض صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ﷺ ہم اس دن جب کہ خوشحالی وترفہ کی نعمت سے بہرہ مند ہوں گے آج کے دن سے (جب کہ ہم فقر و افلاس کی گرفت میں ہیں) بہتر حال میں ہوں گے۔ کیونکہ اس وقت ہم عبادت کے لئے اپنی معاشی جدوجہد کی الجھنوں اور حصول رزق کے فکر سے آزاد و فارغ ہوں گے اور ہمیں محنت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی (یعنی جب اس وقت ہمیں معاشی واقتصادی طور پر خوشحالی حاصل ہوگی اور نوکر چاکر ہمارے سارے کام کاج کریں گے تو ہم ذہنی و جسمانی طور پر پوری طرح بےفکر وآزاد ہوں گے اور اس صورت میں طاعت و عبادت اور دینی خدمت میں پوری دل جمعی اور سکون کے ساتھ منہمک رہ سکیں گے۔ حضور ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ ایسا نہیں ہے کہ اس وقت تم بہتر ہوگے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم اس دن کی نسبت آج کے دن زیادہ بہتر ہو۔ (ترمذی) تشریح سیوطی (رح) نے جمع الجوامع میں حضرت عمر (رض) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک دن مصعب بن عمیر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت انہوں نے بکری کے چمڑے کا ایک تسمہ اپنی کمر کے گرد باندھ رکھا تھا، حضور ﷺ نے ان کو دیکھا تو (حاضرین مجلس سے) فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے منور کردیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ میں نے اس کے بدن پر ایک ایسا لباس دیکھا ہے جو دو سو درہم کے عوض خریدا گیا تھا، (یعنی یہ وہ شخص ہے جو اپنی پچھلی زندگی میں نہایت عیش و عشرت اور راحت وتنعم کی زندگی گزارتا تھا۔ لیکن اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت نے اس کو ایسی حالت پر پہنچا دیا ہے، جس میں تم اس کو اب دیکھ رہے ہو۔ اللہ کی بےانتہا رحمتیں ہوں اس جلیل القدر ہستی پر جس کا نام مصعب بن عمیر ہے، قریش الاصل ہیں بڑے اونچے درجے کے صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے، مکہ سے ہجرت کی، گھر بار چھوڑا، دنیا کی ساری نعمتوں اور راحتوں کو ٹھکرا دیا اور حضور ﷺ کی خدمت میں مدینہ آگئے جیسا کہ خود حضور ﷺ نے شہادت دی ہے یہ اپنے اسلام سے پہلے کے زمانے میں مکہ کے بڑے مالداروں میں شمار ہوتے تھے، نہایت خوش لباس وخوش طعام تھے، اچھے سے اچھا پہنتے اور اچھے سے اچھا کھاتے تھے، لیکن جب مسلمان ہوگئے تو سارے عیش وتنعم پر لات ماردی، اللہ اور اس کے رسول کے عشق میں ایسے رنگ گئے کہ دنیا اور دنیا کی چیزوں سے نفرت کرنے لگے، زہد اختیار کرلیا، یہاں تک کہ غزوہ احد کے موقع پر جام شہادت نوش کر کے واصل بحق ہوگئے، شہادت کے وقت ان کی عمر چالیس سال یا اس سے کچھ زیادہ تھی۔ حدیث سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ حضرت مصعب (رض) کو دیکھ کر حضور ﷺ کا رو پڑنا، ان کی خستہ حالی کے تئیں رحم و شفقت کے جذبات کے تحت تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو کبھی اپنی قوم کی آنکھوں کا تارا تھا، عیش و راحت کی زندگی گزارتا تھا اور اب اس حالت کو پہنچ گیا ہے کہ بدن پر صرف ایک پیوند لگی چادر لپیٹے اپنا وقت گزار رہا ہے۔ لیکن یہ بات اس واقعہ کے منافی معلوم ہوتی ہے جس کا ذکر پیچھے بھی ایک روایت میں گزر چکا ہے کہ ایک دن حضرت عمر (رض) جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کو کھردری چارپائی پر لیٹے ہوئے دیکھا جس کے بان کے نشانات آپ ﷺ کے جسم مبارک پر پڑگئے تھے تو اس وقت رو پڑے انہوں نے آنحضرت ﷺ کی مشقت بھری زندگی کے ساتھ فارس و روم کے بادشاہوں کی زندگی کا مواز نہ کیا۔ جو اللہ کے سرکش و نافرمان اور باغی بندے ہونے کے باوجود عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے۔ اس موقع پر حضور ﷺ نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا تھا کہ تم ابھی تک سوچنے سمجھنے کے اس مقام سے نہیں بڑے ہو، بندہ اللہ ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ان بادشاہان دنیا کو بس دنیا کی نعمتیں ملیں اور ہمیں آخرت کی نعمتوں اور سعادتوں سے نوازا جائے ؟ اولیٰ یہ ہے کہ حضرت مصعب (رض) کو دیکھ کر حضور ﷺ کے رونے کو فرط مسرت سے رونے پر محمول کیا جائے کہ اپنی امت کے لوگوں کو دنیا سے زہد اختیار کر کے عقبی کی طرف متوجہ دیکھ کر مارے خوشی کے آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اگر اس رونے کو غم و حسرت ہی پر محمول کیا جائے تو اس صورت میں یہ کہا جائے گا کہ آپ کا غم دراصل اس بات پر تھا کہ میری امت کے جیسے لوگوں کو ضروریات زندگی کی ایسی چیزیں بھی میسر نہیں ہیں جو دنیا ہی کے لئے ضروری نہیں ہیں بلکہ طاعت و عبادت میں معاون و مددگار بھی ہوتی ہیں جیسے بقدر ضرورت لباس وغیرہ۔ اس تاویل کی تائید حضور ﷺ کے ان الفاظ کیف بکم اذا غدا الخ اور انتم الیوم خیر منکم الخ سے بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ غریب ومفلس شخص کہ جو ضروریات زندگی کی بقدر کفایت چیزوں کا مالک ہو، غنی و مالدار شخص سے بہتر ہے، چناچہ غنی و مالدار شخص حصول مال و زر کی جدوجہد میں زیادہ مشغولیت کی وجہ سے طاعت و عبادت کے لئے اتنا زیادہ قلبی و جسمانی فراغ و سکون نہیں رکھتا جس قدر کہ وہ غریب ومفلس شخص رکھتا ہے اس اعتبار سے یہ حدیث درحقیقت صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صبر و استقامت اختیار کرنے والا غریب ومفلس شخص شکر گزار مالدار سے زیادہ افضل ہوتا ہے۔ پس صحابہ جیسی ہستیوں کے تعلق سے کہ جو امت کے سب سے زیادہ مضبوط ایمان و عقیدہ اور کردار کے حامل تھے، مالداری کا یہ حال ہے تو غیر صحابہ کے تعلق سے اس کا کیا حال ہوگا، جو ان کی بہ نسبت ایمان و عقیدہ اور کردار وعمل میں کہیں زیادہ ضعیف ہیں۔ اس کی مؤید وہ حدیث بھی ہے جس کو دیلمی نے فردوس میں حضرت ابن عمر (رض) سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ مارویت الدنیا عن احد الاکانت خیرۃ لہ بلکہ ملا علی قاری نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ایک خاص بات یہ کہی ہے کہ عن احد (اسی شخص) کا لفظ عام ہے کہ اس کے مفہوم میں مومن و غیر مومن سب شامل ہیں، لہٰذا دوزخ میں مالدار کافر کی بہ نسبت فقیر ومفلس کافر کا عذاب ہلکا ہوگا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ جب اس دار فانی میں فقر و افلاس نے کافر کو یہ فائدہ پہنچایا تو اس مومن کو دارالتمرار (آخرت میں) کیسے فائدہ نہیں پہنچائے گا جو دنیا میں اپنے فقر و افلاس پر صابر رہا ہے۔

【9】

فسق وفجور کے دور میں دین پر قائم رہنے والے کی فضیلت

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس وقت لوگوں کے درمیان اپنے دین پر صبر کرنے والا (یعنی دنیا سے اپنا دامن بچا کر دینی احکام کی حفاظت و پیروی کرنے والا) اس شخص کی مانند ہوگا جس نے اپنی مٹھی میں انگارہ لے لیا ہو۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے تشریح مطلب یہ ہے کہ آخر زمانے میں جب برائی عام ہوجائے گی، فسق فجور پھیل جائے گا اور پورے معاشرہ میں بدکار لوگوں کا اس قدر غلبہ ہوگا کہ دین کی بات کرنے والے اور دینداروں کے مددگار معاون ڈھونڈھے نہیں ملیں گے، تو اس وقت دین کو اختیار کرنا اور ثابت قدمی کے ساتھ گامزن رہنا اتنا ہی دشوار اور سخت صبر آزما ہوگا جس قدر کہ کوئی شخص اپنی مٹھی میں انگارہ بند کرلے اور اس کی اذیت و تکلیف پر صبر تحمل کرے۔

【10】

کب زندگی بہتر ہوتی ہے اور کب موت؟

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب تمہارے قائد و سردار وہ لوگ ہوں کہ جو تم میں کے بہترین لوگ ہیں، تمہارے دولت مند لوگ سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشوروں سے انجام پاتے ہوں (یعنی مسلمان ایک مرکز پر متحد ومتفق ہوں اور اپنے تمام معاملات و امور ایک رائے ہو کر طے کرتے ہوں) تو اس وقت زمین کی پشت تمہارے لئے زمین کے پیٹ سے بہتر ہوگی (یعنی ایسے مبارک زمانہ میں زندگی سے موت سے بہتر ہوگی کیونکہ اس صورت میں تمہیں کتاب وسنت کے مطابق عمل کرنے اور دین کی راہ پر چلنے کی توفیق نصیب ہوگی اور ظاہر ہے وہ لوگ نہایت خوش بخت ہیں جنہیں حسن عمل کے ساتھ طویل زندگی ملے اور جب تمہارے قائد و سردار وہ لوگ ہوں جو تم میں کے بدترین یعنی فاسق وفاجر اور ظالم لوگ ہیں تمہارے دولت مند لوگ بخیل ہوں اور تمہارے معاملات کی باگ دوڑ عورتوں کے ہاتھ میں ہو، تو اس وقت زمین کا پیٹ تمہارے لئے زمین کی پشت سے بہتر ہوگا (یعنی ایسے زمانہ میں مرنا، جینے سے بہتر ہوگا۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ وہ معاشرہ بہت بدنصیب ہوتا ہے جس میں لوگ اپنے معاملات عورتوں کے سپرد کردیتے ہیں، درآنحالیکہ عورتیں مردوں کی بہ نسبت عقل اور دین دونوں میں کمزور اور ناقص ہونے کی وجہ سے اس طرح کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتیں، اسی لئے فرمایا ش اور وہن وخالفوھن یعنی عورتوں سے مشورہ ضرور لو لیکن کرو ان کی رائے کے خلاف، اسی طرح وہ مرد بھی عورتوں ہی کے حکم میں ہیں جو انہی جیسے احوال رکھتے ہیں یعنی جن مردوں پر جاہ ومال کی محبت کا غلبہ ہوتا ہے، جو یہ نہیں جانتے کہ کیا چیز دین کو نقصان پہنچاتی ہے، کونسا کام دین و شریعت کے خلاف ہے کسی بھی چیز اور کسی بھی معاملہ کا کیا انجام ہوسکتا ہے تو وہ بھی یقینا عورتوں کی طرح عقل ودین دونوں کے اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں لہٰذا ایسے مردوں کو بھی اپنا مقتدا و رہنما بنانا اور اپنی زمام کار ان کو سونپ دینا پورے معاشرہ کو تباہی و خرابی سے دوچار کرنا ہے۔ حدیث کا ظاہری اسلوب یہ تقاضا کرتا ہے کہ جب پہلے جزء میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تمہارے معاملات باہمی مشوروں سے طے پاتے ہوں تو دوسرے جز میں یوں فرمانا چاہئے تھا کہ تمہارے معاملات باہمی اختلاف رائے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس طرح فرمانے کی بجائے یہ فرمانا کہ تمہارے معاملات کی باگ دوڑ عورتوں کے ہاتھ میں ہو۔ گویا اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ آپس میں پیدا ہونے والے اختلاف اور تنازعات عام طور پر عورتوں کی اتباع کرنے اور ان کے کہے پر چلنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

【11】

دنیا سے محبت اور موت کا خوف مسلمانوں کی کمزوری کا سب سے بڑا سبب ہے

حضرت ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ عنقریب ایسا وقت آنے والا ہے جب کفر و ضلالت سے بھرے ہوئے لوگوں کا ایک گروہ آپس میں ایک دوسرے کو تم سے لڑاتے اور تمہای شان و شوکت کو مٹانے کے لئے بلائے گا جیسا کہ کھانے کے دسترخوان پر جمع ہونے والے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو کھانے کے قاب کی طرف متوجہ کرتے ہیں یعنی جس طرح کچھ لوگ جمع ہو کر کھانے کی محفل میں دسترخوان پر بیٹھتے ہیں تو وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف کھانے کے برتن سرکاتے رہتے ہیں اور اس میں جو چیز ہوتی ہے اس کو کھانے کے لئے کہتے رہتے ہیں چناچہ وہ سب بلاتکلف اور بغیر کسی رکاوٹ کے ان برتنوں میں سے جو کچھ چاہتے ہیں لے لے کر کھاتے ہیں، اسی طرح کفر و ضلالت کے حامل لوگ تمہارے مقابلے پر جمع ہو کر آپس میں ایک دوسرے کو اکسائیں گے، بھڑکائیں گے اور آخر کار وہ تمہیں ہلاک کریں گے، تمہاری جائیدادیں تباہ کریں گے، تمہارے مال و اسباب لوٹیں گے اور تمہیں خانماں برباد کریں گے اس میں گویا اس طرف اشارہ ہے کہ تم مسلمان ان دشمنان دین کے سامنے چارہ ترکی طرح ہوجاؤ گے جس کا جی چاہے گا تمہیں نگل لے گا۔ کسی صحابی (رض) نے عرض کیا کہ ان کا ہمارے خلاف جمع ہونا اور ہم پر غالب آجانا کیا اس سبب سے ہوگا کہ اس وقت ہم کم تعداد میں ہوں گے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا نہیں ایسا اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ تم کم تعداد میں ہو گے بلکہ اس وقت تمہاری تعداد تو بہت ہوگی، لیکن تمہاری حیثیت پانی کے اس جھاگ کی سی ہوگی جو دریا نالوں کے کناروں پر پائے جاتے ہیں (یعنی تمہارے اندر جرات و شجاعت اور قوت کا فقدان ہوگا) اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہاری ہیبت اور تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ضعف وسستی پیدا کر دے گا۔ کسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے دلوں ضعف وسستی پیدا ہوجانے کا سبب کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا دنیا کی محبت اور موت سے بیزاری،۔ یعنی جب زندگی تمہارے لئے عزیز اور موت تمہارے لئے ناپسندیدہ ہوجائے گی تو تم دشمن کا مقابلہ کرنے اور بہادری کے جوہر دکھانے کے قابل نہیں رہ جاؤ گے) اس روایت کو ابوداؤد نے اور بیہقی نے کتاب دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔

【12】

چند برائیاں اور ان کا وبال

روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا۔ جب کوئی قوم مال غنیمت میں خیانت کرنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دلوں میں دشمن کا رعب وخوف پیدا کردیتا ہے، جس قوم میں زنا کاری پھیل جاتی ہے اس میں کسی وبا مثلا طاعون وغیرہ کے پھیلنے یا اہل علم و دانش کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کی صورت میں اموات کی زیادتی ہوجاتی ہے۔ جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے (یعنی اس کا تجارت پیشہ طبقہ کم ناپنے کم تولنے اور کم گننے جیسے عیب میں مبتلا ہوجاتا ہے) تو اس کا رزق اٹھا لیا جاتا ہے (یعنی اس کے رزق میں برکت ختم کردی جاتی ہے یا اس قوم کے مقدر سے حلال رزق اتھ جاتا ہے) جو قوم غیر منصفانہ اور ناحق احکام جاری کرنے لگتی ہے یعنی جس قوم کے ارباب اقتدار احکام وفیصلوں کے نافذ کرنے عدل وانصف اور مساوات کو ملحوظ نہیں رکھتے یا جہل ونادانی کی وجہ سے غلط سلط فیصلے کرنے لگتے ہیں تو ان کے درمیان خون ریزی پھیل جاتی ہے یعنی اس قوم کے معاشرے میں ایسے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں اور ایسے عوامل پھیل جاتے ہیں جو عام فتنہ و فساد اور خونریزی کا باعث بنتے ہیں اور جو قوم اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کے دشمن کو مسلط کردیتا ہے۔ (مالک)

【13】

ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان

مشکوۃ کے صحیح نسخوں اور اصل متون میں اوپر عنوان باب کی جگہ صرف باب کا لفظ لکھا ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ باب گزشتہ باب کے لواحق اور متعلقات پر مشتمل ہے، لیکن ابن ملک نے یہاں باب کا مذکورہ بالا عنوان قائم کیا ہے ہم نے اسی کو نقل کیا ہے۔

【14】

چند احکام خداوندی

حضرت عیاض بن حمار مجاشعی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے اپنے جمعہ وغیرہ کے خطبہ میں (یا کسی وعظ کے دوران فرمایا) لوگو ! سنو ! میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں وہ باتیں بتادوں جو تم نہیں جانتے۔ (اس کے بعد آپ نے ان باتوں کے سلسلے میں اس طرح بیان فرمانا شروع کیا کہ) اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جو مال میں نے اپنے کسی بندہ کو دیا ہے وہ حلال ہے یعنی کسی شخص کو جو مال و اسباب جائز ذرائع سے حاصل ہوا ہے۔ وہ اس کے حق میں حلال ہے، کوئی اس کو اپنی طرف سے حرام قرار نہیں دے سکتا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں قاعدہ تھا کہ لوگ بعض صورتوں میں اونٹوں کو خواہ مخواہ اپنے اوپر حرام کرلیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ میں نے تو اپنے سب بندوں کو باطل کے خلاف، حق کی طرف مائل پیدا کیا۔ لیکن یہ شیاطین تھے، جو ان بندوں کے پاس آئے اور ان کو ان کے دین سے پھیر کر گمراہی میں ڈال دیا اور ان پر وہ چیزیں حرام کردیں جن کو میں نے ان کے لئے حلال کیا تھا (یعنی شیاطین نے ان لوگوں کو اس طرح گمراہ کردیا کہ انہوں نے اپنے اوپر حلال چیزوں کو حرام کرلیا اور ان ہی شیاطین نے ان کو حکم دیا (یعنی ان کے دل میں یہ گمراہ کن وسوسہ ڈالا) کہ وہ اس چیز کو میرے ساتھ شریک کریں جس کے غالب ہونے کی کوئی دلیل نازل نہیں ہوئی (یعنی جو لوگ بتوں کو پوجتے ہیں اور اس طرح عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان کے پاس ان کے اس فعل کی کوئی معقول دلیل اور استحقاق نہیں ہے، یہ صرف شیاطین کے گمراہ کرنے کا اثر ہے کہ وہ ایسے ناروا کام میں مبتلا ہیں اور یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین والوں پر نظر ڈالی اور ان کو کفر شرک پر متفق اور ضلالت و گمراہی میں مستغرق پایا چناچہ اللہ نے ان سب کو اپنا مبغوض وناپسندیدہ قرار دے دیا خواہ وہ عرب کے ہوں یا عجم کے (یعنی جب دنیا کے سارے لوگ کفر شرک میں مبتلا ہوگئے اور محمد ﷺ کی بعثت تک سب کے سب گمراہی پر متفق ومجتمع تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو ماننے سے انکار کیا اور عزیر (علیہ السلام) کی پوجا کرنے لگے، عیسیٰ (علیہ السلام) کی قوم تین خداؤں کی قائل اور اس مشرکانہ عقیدہ کی حامل ہوگئی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں وغیرہ وغیرہ تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اپنا مبغوض ترین بندہ قرار دیدیا) علاوہ اہل کتاب کی اس جماعت کے جو مشرک نہیں ہوئی بلکہ موسیٰ و عیسی پر ایمان رکھتے ہوئے اصل دین پر قائم وثابت قدم رہی، اس جماعت کے لوگوں نے نہ تو اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کی اور نہ اپنے دین کے احکام میں اپنی مرضی کے مطابق کوئی تبدیلی کی یہاں تک کہ جب حضرت محمد ﷺ اس دنیا میں مبعوث ہوئے تو ان پر ایمان لائے اور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو مبغوض قرار نہیں دیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے آپ کو (اے محمد ﷺ پیغمبر بنا کر دنیا میں اس لئے بھیجا ہے تاکہ میں آپ کو آزماؤں کہ آپ اپنی قوم کی ایذاء رسانی پر کس طرح صبر کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کی قوم کو بھی آزماؤں کہ آیا وہ لوگ آپ ﷺ پر ایمان لاتے ہیں یا آپ کے ساتھ کفر اختیار کرتے ہیں اور میں نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی جس کو پانی دھو اور مٹا نہیں سکتا (یعنی عام طور سے کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب کو پانی سے دھویا جائے تو مٹ جاتی ہے لیکن وہ کتاب جو آپ ﷺ پر نازل ہوئی یعنی قرآن کریم ایسی کتاب نہیں ہے کہ اس کو کوئی پانی دھو اور مٹا دے بلکہ وہ ہر قسم کی تحریف اور تغیر وتبدل سے محفوظ ہے بایں طور کہ اس کو قیامت تک کے لئے دلوں میں محفوظ کردیا گیا ہے اور اس کے احکام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی وجاری رکھا گیا ہے آپ اس کتاب کو سوتے جاگتے ہر وقت پڑھتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھ کو یہ حکم دیا ہے کہ میں قریش کو جلا دوں (یعنی اہل قریش میں سے جو لوگ ایمان نہیں لاتے ہیں اور کفر کی حالت پر قائم ہیں ان کو اس طرح تباہ وہلاک کر دوں کہ ان کا نام ونشان تک باقی نہ رہے) میں نے عرض کیا کہ میرے پروردگار قریش تو میرا سر کچل کر روٹی کی مانند چوڑا کردیں گے (یعنی اہل اسلام کے مقابلہ پر ان کی طاقت اور تعداد بہت زیادہ ہے، میں ان سے کس طرح نمٹ سکوں گا اور کیسے ان پر غلبہ پاؤں گا) اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تم ان کو ان کے وطن سے نکال دو جس طرح کہ انہوں آپ ﷺ کو وطن بدر کیا تھا اور ان کے ساتھ جہاد کرو، ہم آپ کے جہاد کے سامان کا انتظام کریں گے یعنی آپ اور آپ کے رفقاء کو ایسی غیبی طاق اور ہمت عطا کریں گے کہ اہل اسلام کی مٹھی بھر جماعت بھی ان کے لشکر جرار پر غالب آجائے گی) آپ اپنے لشکر والوں پر مال و اسباب خرچ کیجئے۔ اگر آپ کے پاس مال و اسباب نہیں ہوگا تو ہم دیں گے اور اس کا انتظام کریں گے، آپ ان کے خلاف اپنا لشکر بھیجئے ہم دشمن کے لشکر سے پانچ گنا زیادہ طاقت کے ساتھ آپ کی مدد کریں گے چناچہ جب بدر کی جنگ ہوئی اور مسلمان صرف تین سو کی تعداد میں کفر کے ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ معرکہ آرا ہوئے تو روایات میں آتا ہے کہ پانچ ہزار فرشتوں کا لشکر مسلمانوں کی مدد کے لئے آیا۔ اور جو لوگ آپ ﷺ پر ایمان لائے اور آپ کے اطاعت گزار ہیں ان کو ساتھ لے کر ان کے خلاف جنگ کیجئے جنہوں نے آپ کی نافرمانی اور آپ ﷺ سے سرکشی کی ہے اور کافر ہیں۔ (مسلم) تشریح حق کی طرف مائل پیدا کیا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب لوگوں کو ایسی استعداد و صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا جو قبول حق و قبول طاعت کی راہ میں ان کی مددگار ہوتی۔ اس ارشاد میں گویا اس فطرت اسلام کی طرف اشارہ ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے حدیث (کل مولود یولد علی فطرۃ الاسلام) (یعنی ہر بچہ قبول اسلام کی استعداد و صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے) لہٰذا اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ واقعۃ بالفعل مومن و مسلمان پیدا ہوئے تھے لیکن بعد میں شیطان کی گمراہی کی وجہ سے کافر ہوگئے۔ یا اس جملہ کے ذریعہ اس عہد کی طرف اشارہ ہے کہ جو میثاق کے دن تمام روحوں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کا لیا تھا اور سب نے یہ اقرار کیا تھا کہ بیشک ہم سب آپ کو اپنا رب مانتے ہیں عہد و اقرار میں ان لوگوں کی روحیں بھی شامل تھیں جو اس دنیا میں آنے کے بعد اور شیطان کے گمراہ کردینے کی وجہ سے اپنے اس عہد و اقرار سے مکر گئے اور مومن و مسلمان رہنے کی بجائے کفر و شرک اختیار کرلیا۔ سوتے جاگتے پڑھتے ہیں کا مطلب کہ ایسا ملکہ اور عبور حاصل ہوگیا ہے کہ قرآن ہر وقت آپ ﷺ کے ذہن میں مستحضر رہتا ہے اور اکثر حالات میں آپ ﷺ کا مقدس وپاک نفس اسی کی طرف متوجہ وملتفت رہتا ہے، لہٰذا آپ ﷺ نہ تو اس سے جاگنے کی حالت میں غافل رہتے ہیں اور نہ سونے کی حالت میں، یہ ایک عام محاورہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص کسی خاص کام میں مہارت ومل کہ رکھتا ہے اور زیادہ اسی میں منہمک ومستغرق رہتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ سوتے جاگتے یہی کام کرتا ہے۔ حاصل یہ کہ قرآن سوتے وقت آپ کے دل میں رہتا ہے۔ لیکن ملا علی قاری کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے قلب مبارک کی نسبت سے یہ تاویل قطعا غیر ضروری ہے کیونکہ آپ ﷺ کا دل تو ہر وقت ہی بیدار رہتا تھا سونے کی حالت میں بھی صرف آنکھیں سوتی تھیں اور دل پر کوئی غفلت طاری نہیں ہوتی تھی۔ لہٰذا اس جملہ کا صاف مطلب یہ ہے کہ سوتے کی حالت بھی قرآن سے آپ کا تعلق منقطع نہیں ہوتا، فرق صرف اتنا ہے کہ جاگنے کی حالت میں تو آپ ﷺ کی زبان اور دل دونوں پر قرآن شریف رہتا ہے اور سونے کی حالت میں صرف قلب مبارک پر جاری رہتا ہے۔ قرآن کا اعجاز تو یہاں تک ثابت ہے کہ جو پاک نفس لوگ کلام اللہ سے بہت زیادہ اور نہایت گہرا تعلق رکھتے ہیں ان کی زبان سوتے کی حالت میں بھی تلاوت کرتی ہے جیسا کہ بہت سے بزرگوں کے بارے میں منقول ہے کہ ان کو دیکھا گیا کہ وہ سو رہے ہیں لیکن زبان سے تلاوت جاری ہے اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز اور عجیب واقعہ وہ ہے جو بعض کتابوں میں منقول ہے کہ ایک شخص اپنے شیخ ومرشد کے ساتھ ہر روز سحر کے وقت قرآن کی دس آیتوں کا دور کیا کرتا تھا۔ جب شیخ کی وفات ہوگئی تو وہ شخص اپنی عادت کے مطابق سحر کے وقت اٹھا اور شیخ کی قبر پر حاضر ہوا اور وہاں دس آیتوں کی تلاوت کی، تلاوت فارغ ہو کر خاموش ہی ہوا تھا کہ اچانک قبر کے اندر سے اپنے شیخ کی آواز سنی کہ اپنی زندگی کے معمول کے مطابق انہوں نے دس آیتوں کی تلاوت کی اور اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ پھر تو اس شخص نے یہ معمول بنا لیا کہ روز سحر کے وقت قبر پر پہنچ جاتا دس آیتوں کی تلاوت کرتا اور قبر کے اندر سے اپنے شیخ کی آتی ہوئی آواز میں دس آیتوں کی تلاوت سنتا اور چلا آتا یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا، ایک دن اس نے یہ واقعہ اپنے کسی دوست سے بھی بیان کردیا اس دن سے قبر کے اندر سے شیخ کی تلاوت کی آواز کا آنا بھی موقوف ہوگیا۔

【15】

قریش کو دعوت اسلام

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ) 26 ۔ الشعراء 214) (یعنی اپنے قریب کے کعبہ والوں کو ڈرائیے تو آپ کو صفا پر جو خانہ کعبہ کے قریب ہے تشریف لے گئے اور وہاں سے پکارنا شروع کیا۔ اے بنی عدی یعنی قریش کی تمام شاخوں کو نام بنام بلانا شروع کیا۔ چناچہ جب قریش کی تمام شاخوں کے لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا تم لوگ پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ جنگل میں ایک لشکر آ کر اترا ہے اور تمہیں تباہ و غارت کردینا چاہتا ہے تو کیا تم مجھ کو سچا جانو گے ان سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ بیشک کیونکہ ہمارا ہمیشہ کا تجربہ یہ ہے کہ تم نے جب بھی کوئی بات کہی ہے سچ کہی ہے تمہاری زبان سے ہم نے کبھی سوائے سچ کے کوئی بات نہیں سنی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا اگر تم مجھے سچا سمجھتے ہو تو سنو کہ میں اللہ کی طرف سے تمہیں اس کے سخت ترین عذاب کے اترنے سے پہلے ڈرانے والا مامور ہوا ہوں یعنی میں اللہ کے رسول کی حیثیت سے تمہارے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرتا ہوں اس کو قبول کرو اگر تم اس دعوت کو قبول نہیں کرو گے اور مجھ پر ایمان نہیں لاؤ گے تو پھر میں تمہیں یہ خبر دیتا ہوں کہ تم پر اللہ کا نہایت سخت عذاب نازل ہوگا۔ ابولہب جو حضور ﷺ کا چچا تھا اور جس کا نام عبدالعزی تھا یہ بات سن کر بولا۔ سارے دن تیری تباہی ہو، کیا اسی لئے تو نے ہمیں اکٹھا کیا تھا کہ ہم تیری خراب باتیں سنیں ؟ اس پر سورت لہب نازل ہوئی جس کا ترجمہ یہ ہے یعنی ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہوجائے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ گستاخی کرنے کی وجہ سے تباہ و برباد ہوگیا۔ (بخاری ومسلم) اور ایک روایت میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے آواز دیکر قریش کو جمع کیا اور فرمایا کہ اے عبد مناف کے بیٹو میری اور تمہاری حالت کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے دشمن کا لشکر اپنی قوم پر حملہ آور ہونے کے لئے آتے ہوئے دیکھا تو وہ اپنی قوم کو اس دشمن کے قتل و غارت گری سے بچانے کے لئے چلا تاکہ کسی پہاڑی پر چڑھ کر بلند آواز کے ذریعہ قوم کے لوگوں کو دشمن کے خطرہ سے آگاہ کر دے لیکن اس خوف سے کہ کہیں دشمن کا لشکر اس سے پہلے ہی اس کی قوم تک نہ پہنچ جائے اس نے وہیں سے چلا چلا کر یہ کہنا شروع کردیا۔ تشریح بطن کے اصل معنی تو پیٹ کے ہیں لیکن یہ گروہ یا شاخ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جو قبیلہ سے نیچے کا درجہ ہے بطن سے نیچے کا جو درجہ ہوتا ہے اس کو فخذ کہتے ہیں گویا عرب میں نسب کے بالائی درجہ کو تو قبیلہ کہتے ہیں اس کے بعد کے درجہ کو بطن اور اس کے بعد کے درجہ کو فخذ کہا جاتا تھا چناچہ قریش قبیلہ کا نام ہے جس کے مورث اعلیٰ کا نام نضر بن کنانہ تھا نضر بن کنانہ کے بعد جو شاخیں چلیں ان کو بطون سے تعبیر کیا جاتا ہے اور پھر بطون کے بعد کی شاخوں کو افخاذ کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی الفاظ میں اس کا حاصل یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ قبیلہ بمنزلہ جنس ہے، بطن بمنزلہ نوع کے ہیں اور فخذ بمنزلہ فصل کے ہے۔ وادی (جنگل) سے مراد حجاز کا وہ خاص علاقہ ہے جو مکہ سے شمالی جانب تقریبا سولہ میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور جس کو وادی فاطمہ کہا جاتا ہے یہ ایک نخلستانی علاقہ ہے اور یہاں کی زمین شاداب اور قابل کاشت ہے اس وادی کا ایک قدیم نام مر الظہران بھی ہے، مکہ اور مدینہ کے درمیان کا یہ پرانا راستہ اس طرف سے بھی گزرتا تھا۔ ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں میں ہاتھوں کے ٹوٹنے اور ہلاک ہونے سے مراد اس کی ذات کا ہلاک ہونا ہے، جیسا کہ قرآن نے ان الفاظ آیت (ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکۃ) سے ثابت ہوتا ہے کہ عربی میں ذات کی ہلاکت کو ہاتھوں کی ہلاکت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس کے دونوں ہاتھوں سے مراد اس کے دونون جہاں یعنی دنیا اور آخرت ہیں چناچہ یہ حقیقت ہے کہ اس کے دونوں جہاں تباہ و برباد ہوگئے، وہ نہ یہاں کا رہا نہ وہاں کا۔ اور بعض حضرات نے یہ تحقیق بھی بیان کی ہے کہ خاص طور اس کے ہاتھوں کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے حاضرین کو اسلام کی دعوت پیش کرتے ہوئے عذاب الٰہی سے ڈرایا تو ابولہب نے اس وقت صرف مذکورہ بات کہنے ہی پر اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ اس نے اپنے ہاتھوں سے پتھر اٹھا کر آنحضرت ﷺ کو مارنا بھی چاہا تھا۔ عبد مناف قریش کی ان دو شاخوں کے جد اعلیٰ کا نام ہے جو آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت سب سے مشہور اور مقتدر و غالب شاخیں تھیں۔ عبد مناف کے دو بیٹوں یعنی ہاشم اور عبد شمس سے جو شاخیں چلیں ان میں سے ایک یعنی ہاشم کی اولاد کو بنو ہاشم کہا جاتا ہے اور یہی آنحضرت ﷺ کا خاندان ہے، اس خاندان کے ممتاز افراد میں حضور ﷺ کے علاوہ حضرت علی (رض) اور حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس (رض) ہیں۔ حضرت علی (رض) اور حضرت عباس (رض) سے جو سلسلہ نسب چلا وہ علوی اور عباسی کہلاتا ہے عبد مناف کے دوسرے بیٹے عبد شمس تھے، ان کی شاخ ان کے بیٹے امیہ سے چلی اور ان کا خاندان بنو امیہ کے اہم اشخاص میں حضرت ابوسفیان، مروان اور سیدنا عثمان غنی ہیں۔ صباحاہ اصل میں ایک ایسا لفظ ہے جو اہل عرب میں کسی خطرناک اور دہشت آمیز چیز سے ڈرانے کے لئے بولا جاتا ہے اور اس کی اصل یہ ہے کہ لفظ صباح صبح کے وقت) سے مشتق ہے اور عام طور پر دشمن چونکہ صبح کے وقت حملہ آور ہو کر غارت گری کرتا ہے اس لئے کسی حملہ کے خطرہ کے وقت چوکیدار اور محافظ لوگ اس لفظ کے ذریعہ چیختے چلاتے ہیں تاکہ لوگ حملہ کے خطرہ سے آگاہ ہو کر اپنی حفاظت و مقابلہ کے لئے تیار رہیں۔ لہٰذا اس لفظ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ لوگو ہوشیار ہوجاؤ قبل اس کے کہ دشمن تمہیں تباہ و غارت کرنے کے لئے حملہ آور ہو اپنے بچاؤ کے لئے یہاں سے نکل جاؤ چناچہ حضور ﷺ نے اہل قریش کے سامنے مذکورہ مثال بیان کر کے گویا یہ فرمایا کہ میں بھی تمہیں ایک ایسے ہی عذاب کے خطرہ سے آگاہ کر رہا ہوں جو تمہیں تباہ و برباد کر دے گا لہٰذا قبل اس کے کہ وہ عذاب تم پر نازل ہو تم ایمان قبول کر کے اس عذاب سے اپنے آپ کو بچاؤ۔

【16】

قریش کو دعوت اسلام

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ (وانذر عشیرتک الاقربین) (یعنی اپنے قریب کے کنبہ والوں کو ڈرائیے) تو نبی کریم ﷺ نے قریش کے لوگوں کو آواز دے کر بلایا جب وہ جمع ہوگئے تو آپ نے خطاب میں تعمیم بھی کی اور تخصیص بھی یعنی ان کو ان کے دور کے جد اعلیٰ کے ناموں کے ذریعہ بھی مخاطب کیا خاص خاص لوگوں سے مخصوص خطاب بھی ہوجائے چناچہ آپ نے ان سب کو اس طرح خطاب فرمایا اے کعب بن لوی کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ (یعنی ایمان قبول کرو اور نیک عمل کرو تاکہ دوزخ کی آگ سے نجات پا سکو) اے مرہ بن کعب کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اے عبد شمس کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اے عبد مناف کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اے ہاشم کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ اور اے میری لخت جگر فاطمہ اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچا اس لئے کہ میں تمہارے حق میں اللہ کی طرف از قسم عذاب کسی چیز کا مالک نہیں ہوں یعنی میں تم سے کسی کو بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا البتہ مجھ پا تمہاری قرابت کا حق ہے جس کو میں اس کی تری کے ساتھ تر کرتا ہوں یعنی میرے اور تمہارے درمیان جو قرابت ہے اور اس کا جو حق مجھ پر ہے۔ وہ بس اتنا ہی کہ میں اس دنیا کے معاملات میں تمہاری دیکھ بھال رکھوں، تمہارے ساتھ اچھا سلوک کروں اور اگر تم احتیاج و ضرورت کی تپش محسوس کرو تو میں صلہ رحمی اور حسن سلوک و احسان کے چھینٹوں سے اس تپش کو ختم کرنے کی کوشش کروں۔ اس روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے اور جس روایت کو بخاری ومسلم دونوں نے نقل کیا ہے ان میں یہ الفاظ ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اے قریش کے گروہ اپنے آپ کو خرید لو یعنی مجھ پر ایمان لانے اور اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعہ کفران نعمت ترک کر کے اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ میں تم سے اللہ کے عذاب میں سے کچھ بھی دور نہیں کرسکتا۔ اے میرے چچا عباس بن عبدالمطلب میں آپ سے بھی اللہ کے عذاب میں سے کچھ دور نہیں کرسکتا اور اے رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی صفیہ میں آپ سے بھی اللہ کے عذاب میں سے کچھ دور نہیں کرسکتا۔ اور اے جان پدر فاطمہ بنت محمد، میرے مال میں سے جو کچھ تو چاہے مانگ لے میں دوں گا لیکن اللہ کے کسی عذاب سے میں تجھ کو بھی نہیں بچا سکتا۔ تشریح لوی اصل میں تو لام کے پیش اور ہمزہ کے زیر کے ساتھ ہے لیکن کبھی ہمزہ واؤ سے بدل جاتا ہے اور آخر میں تشدید کے ساتھ یا آتی ہے اس طرح سے یہ نام لوی پڑھا جاتا ہے۔ لوی قریش کے ایک جد اعلیٰ کا نام ہے جو غالب بن فہر کے بیٹے تھے اور یہ وہی فہر ہیں جن کے بارے میں بعض حضرات کا کہنا ہے کہ قریش نضر بن کنانہ کے بجائے انہیں کا لقب تھا اور اس اعتبار سے قریش کے سلسلہ نسب کی ابتدا گویا فہر ہی کے نام سے ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ قریش اصل میں لفظ القرش سے نکلا ہے جس کے معنی تجارت کے ہیں لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ قریش اصل میں قرش سے نکلا ہے جس کے معنی ایک بڑی خطرناک مچھلی کے ہیں اور جس کو کلب البحر بھی کہتے ہیں مچھلی پانی کے اندر جانوروں کے اپنے دانت سے تلوار کی طرح کاٹ دیتی ہے۔ مرۃ بن کعب بھی قریش کی ایک شاخ کے جد اعلیٰ کا نام ہے اپنی شاخ کے سلسلہ نسب میں عبد مناف کا نام عبد شمنس سے پہلے آتا ہے کیونکہ وہ عبد شمس کے باپ تھے لیکن یہاں روایت میں ان کا ذکر عبد شمس کے بعد کیا گیا ہے حضور ﷺ کے جد اعلیٰ ہاشم کے باپ بھی عبد مناف ہی تھے۔ اے ہاشم کے بیٹو ! ان الفاظ کے ذریعہ گویا حضور ﷺ نے اپنے چچاؤں اور چچاؤں کے بیٹوں، ان سب کو مخاطب فرمایا حاصل یہ کہ حضور ﷺ نے قریش کی تمام شاخوں کو جمع فرما کر دعوت اسلام پیش کی اور ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور یہ ڈرانا اس حد تک تھا کہ اپنی اولاد کو بھی اس میں شامل فرما لیا۔ چناچہ جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ (رض) جو تمام عالم کی عورتوں کی سردار ہیں اور ان پر دوزخ کی آگ حرام ہے ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ کسی چیز کا مالک نہیں ہوں کا مطلب یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں عذاب دینے کا ارادہ فرما لیا تو میں اس پر قادر نہیں ہوں کہ تم سے اس عذاب کا کوئی حصہ بھی دفع کر دوں، گویا حضور ﷺ کا یہ فرمانا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی بنا پر تھا کہ آیت (قل فمن یملک لکم من اللہ شیئا ان اراد بکم ضرا او اراد بکم نفعا) بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہاں تک فرمایا ہے آیت (قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الاماشاء اللہ ) جس کو میں اس کی تری کے ساتھ تر کرتا ہوں میں تری سے مراد قرابت داری کے تعلق کو قائم رکھنا اور ان قرابت داروں کے ساتھ احسان وحسن سلوک کرنا ہے۔ پس اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ میں اپنے قرابتداروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں، ان کے ساتھ امداد و تعاون کا معاملہ کرتا ہوں اور ان کو ظلم و نقصان سے بچاتا ہوں۔ نہایہ میں لکھا ہے کہ بلال اصل میں بل کی جمع ہے جس کے معنی تری کے ہیں اور اہل عرب اس قسم کے موقعوں پر تری کا اطلاق احسان اور حسن سلوک کرنے پر کرتے ہیں جیسا کہ یبس یعنی خشکی کا اطلاق قطع تعلق اور بدسلوکی کرنے پر کرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے اجزاء تری کے ذریعہ ایک دوسرے سے منسلک اور جڑے ہوئے ہوتے ہیں جب کہ خشکی کا پیدا ہوجانا ان اجزاء کو ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا کردیتا ہے تو انہوں نے بطور استعارہ تری کو وصل یعنی جوڑنے اور ملانے کے معنی میں اور خشکی کو منقطع کرنے اور توڑنے کے معنی میں استعمال کرنا شروع کردیا۔ آنحضرت ﷺ نے پورے قریش کو اور ان کے ساتھ اپنے خاندان والوں اور قریبی متعلقین کو جس انداز میں اللہ کے عذاب سے ڈرایا وہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں اور مقصد کی عظمت کے لحاظ سے نہایت ہی سخت اور بہت ہی پر زور تھا اور اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کرنے کے پیش نظر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ڈرانے کا حکم دیا اور آپ ﷺ نے سب کو جمع فرما کر ڈرا دیا ورنہ ان مخاطبین میں بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جن کی فضیلت اور جن کا جنت میں داخل ہونا بہت سی روایات سے ثابت ہے علاوہ ازیں جب اپنی امت کے دوسرے لوگوں کے حق میں آپ ﷺ کا شفاعت کرنا اور اس شفاعت کا قبول ہونا ایک یقینی امر ہے تو پھر خاص اقربا جیسے حضرت عباس، حضرت صفیہ، حضرت فاطمہ (رض) وغیرہ کا معاملہ کہیں زیادہ خصوصی رحمت و شفاعت کا مستحق ہے لیکن جیسا کہ بتایا گیا ہے، یہ موقوع بہرحال اس بات کا متقاضی تھا کہ ڈرانے کے فریضۃ کو زیادہ اہم انداز میں ادا کیا جائے اور چونکہ اللہ کی بےنیازی کا خوف ہر صورت میں باقی رہتا ہے اس لئے حضور ﷺ نے سارے مخاطبین کے ساتھ ان اقرباء خاص سے بھی یہ فرمایا کہ تم لوگوں کو بھی اللہ کے عذاب سے بچانے پر قادر نہیں ہوں اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ڈرانے کا یہ واقعہ پہلے کا ہے جب کہ ان خاص اقرباء کی فضیلت اور حضور ﷺ کی شفاعت کی بشارت بعد میں وارد ہوئی ہے۔ میرے مال میں سے جو کچھ تو چاہے مانگ لے اس جملہ کے بارے میں بعض حضرات کو سخت اشکال واقع ہوا ہے، ان کا کہنا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اقتصادی زندگی جس تنگی و سختی اور فقر و افلاس سے بھری ہوئی اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ کے پاس مال کہاں تھا خصوصا مکہ کے قیام کے دوران تو آپ بہت سخت مصائب وآلام میں تھے ایسی صورت میں حضرت فاطمہ (رض) سے آپ کے اس فرمانے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ از قسم مال جو بھی چیز تم چاہو مجھ سے مانگ سکتی ہو اور میں تمہیں وہ چیز دوں گا۔ لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس اشکال کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی، ول تو اس وجہ سے کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے آیت (ووجدک عائلا فاغنی) یعنی اور ہم نے آپ کو محتاج ومفلس پایا تو غنی و مالدار کردیا۔ چناچہ مفسرین کہتے ہیں کہ غنی کردیا سے حضرت خدیجہ (رض) کے مال و دولت کی طرف اشارہ ہے جو ان کے ساتھ نکاح کے بعد حضور ﷺ کے قبضہ تصرف میں آیا اور آپ جس طرح چاہتے تھے اس مال و دولت کو خرچ کرتے تھے لہٰذا معلوم ہوا کہ اس وقت حضور ﷺ بالکل تہی دست نہیں تھے۔ دوسرے یہ کہ مال کا اطلاق تھوڑے مال اور زیادہ مال دونوں پر ہوتا ہے پس یہ بات کہ اسے معلوم ہوئی کہ آپ ﷺ کے پاس از قسم مال، مطلق کچھ بھی نہیں تھا اور تیسرے یہ کہ مذکورہ جملہ کا ہونا اسی صورت میں کب ضروری ہے جب کہ آپ کے پاس اس وقت مال موجود رہا ہو، اس جملہ کے ذریعہ آپ کی مراد یہ بھی تو ہوسکتی تھی کہ جب بھی میرے پاس کچھ مال و اسباب آیا اور اللہ نے مجھے کچھ دیا تو تم اس میں سے جو چاہو مانگ لینا وہ میں تمہیں دے دوں گا لیکن جہاں تک آخرت کی نجات کا تعلق ہے اس کا میری ملکیت وقدرت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور میں یہ چیز تمہیں دینے پر قادر نہیں ہوں۔

【17】

امت محمدیہ کی فضیلت

حضرت ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میری یہ امت امت مرحومہ ہے (یعنی دوسری امتوں کی بہ نسبت میری امت کے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت زیادہ ہے کیونکہ ان کے نبی کی شان بھی رحمۃ للعالمین ہے) اس امت پر آخرت میں عذاب نہیں ہوگا اور دنیا میں اس کا عذاب، فتنے زلزلے اور ناحق قتل ہے۔ (ابوداؤد) تشریح آخرت میں عذاب نہیں ہوگا کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں دائمی عذاب یا سخت عذاب جو کفار و مشرکوں کے لئے ہے اس امت پر نہیں ہوگا بلکہ اس کا عذاب یہ ہے کہ جو لوگ برے اعمال کرتے ہیں اور دین و شریعت کے راستہ پر نہیں چلتے ان کو سزا کے طور پر اس دنیا میں مختلف فتنوں، آفتوں امراض اور طرح طرح کے مصائب وآلام میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ یہ بات اس آیت کریمہ (مَنْ يَّعْمَلْ سُوْ ءًا يُّجْزَ بِه) 4 ۔ النساء 123) کی مراد سے بھی واضح ہوتی ہے جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے اور حدیث کے الفاظ عذابہا فی الدنیا الخ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے حدیث خاص طور سے ان مسلمانوں کے حق میں ہے جو کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہیں کرتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس حدیث کا روئے سخن اس امت کی ایک مخصوص جماعت یعنی صحابہ کرام کی طرف ہو مظہر نے یہ کہا ہے کہ یہ حدیث نہایت پیچیدہ مفہوم کی حامل ہے کیونکہ اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی امت کے کسی بھی فرد کو آخرت میں عذاب نہیں دیا جائے گا خواہ وہ گناہ کبیرہ کرے یا جو چاہے کرتا پھرے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کے بارے اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہنمائی و توضیح کے بغیر کچھ نہیں کہا جاسکتا سوائے اس سے کہ یہ تاویل کی جائے کہ یہاں امت سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے دوسرے احکام و فرمانبرداری کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی بھی کامل پیروی کرے اور ان چیزوں سے بری طرح پرہیز کرے جن کو اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ دنیا میں اس کا عذاب الخ کا مطلب یہ ہے کہ میری امت کے لوگ زمانہ کے جن حادثات سے دوچار ہوتے ہیں جیسے زلزلے آتے ہیں اور جان ومال کو نقصان میں مبتلا کرتے ہیں، سیلاب آتے ہیں اور سخت تباہی پھیلاتے ہیں، لوٹ مار مچتی ہے اور مسلمانوں کے جان ومال کو نقصان پہنچتا ہے، یا اسی طرح کی دیگر آفتیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اور یہ سب چیزیں ان لوگوں کے گناہوں خطاؤں اور بدعملیوں کے کفارہ کا موجب بنتی ہیں اور آخرت میں ان کے درجات کی بلندی کا باعث ہوتی ہیں، اسی طرح جو کشت وخوان اور قتل و قتال ان کے درمیان ہوتا ہے اگر اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ مسلمان کفار اور دین کے دوسرے دشمنوں جیسے مبتدعین وغیرہ کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کا قتل ہونا خود موجب شہادت ہوتا ہے یعنی ان مسلمانوں کو شہید کا درجہ ملتا ہے جو ایک بہت بڑی سعادت ہے اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مسلمان خود آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور ایک دوسرے کا خون بہاتے ہیں تو دیکھا جائے گا کہ ان کا باہمی قتل و قتال اور کشت وخون کس بنا پر ہے اگر ایسا ہے کہ دونوں فریق کسی ایسے معاملہ میں بر سر جنگ ہوگئے ہیں جس کی حیثیت شرعی نقطہ نظر سے واضح نہیں ہے اور اشتباہ و تاویل کے سبب دونوں کا حق پر ہونا ثابت ہوسکتا ہے تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ دونوں فریق سلامتی پر ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی ظالم قرار نہیں دیا جائے گا اور اگر ان کا باہم بر سر جنگ ہونا اور ایک دوسرے کا کشت وخون کرنا کسی ایسے معاملہ کی وجہ سے ہے جس کی حیثیت و حقیقت بالکل واضح ہے اور ایک فریق صریحا ظلم و زیادتی پر ہے تو جو فریق مظلوم ہوگا اس کو ماجور قرار دیا جائے گا۔ بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ عذاب قبر اس امت مرحومہ ومغفورہ کے خصائص میں سے ہے، یعنی مسلمانوں کو عذاب قبر میں اس لئے مبتلا کیا جاتا ہے کہ ان کے نامہ اعمال میں گناہ وہ معصیت کی جو گندگی ہے اس کو عالم برزخ میں دھویا جائے اور وہ مسلمان عذاب قبر کی صورت میں اپنے گناہوں سے پاک وصاف ہو کر آخرت میں پہنچیں اور وہاں کے عذاب کا منہ نہ دیکھنے پائیں۔

【18】

مختلف زبانوں اور مختلف ادوار کے بارے میں پیش گوئی

حضرت عبیدہ بن جراح اور حضرت معاذ بن جبل (رض) جو دونوں اونچے درجہ کے صحابہ میں سے ہیں رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا یہ امر (یعنی دین اسلام) نبوت و رحمت کے ساتھ ظاہر ہوا (یعنی دین اسلام سب سے پہلے جس زمانہ میں ظاہر ہوا وہ زمانہ نزول وحی اور رحمت و نورانیت کا زمانہ ہے) پھر اس دین اسلام کا جو زمانہ آئے گے وہ خلاف و رحمت کا زمانہ ہوگا، پھر اس دین اسلام کا جو زمانہ آئے گا وہ کاٹ کھانے والی بادشاہت کا زمانہ ہوگا اور پھر اس دین کا جو زمانہ آئے گا وہ ظلم وجور، قہر وتکبر اور زمین پر فتنہ و فساد کا زمانہ ہوگا۔ اس وقت لوگ ریشمی کپڑوں کو جائز جان کر استعمال کریں گے، عورتوں کی شرمگاہوں کو اور شراب کی تمام انواع و اقسام کو حلال قرار دیں گے۔ لیکن ان چیزوں کے باوجود ان کو رزق دیا جائے گا اور کفار اور ان کے مخالفین کے مقابلہ پر ان کی مدد کی جائے گی یہاں تک وہ روز جزا اللہ تعالیٰ سے جا ملیں گے (یعنی لوگ اگرچہ اتنی سخت بد عملیوں اور اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہوں گے اور اس اعتبار سے وہ عذاب الٰہی کے مستوجب اور ہلاکت و تباہی کے مستحق ہوں گے۔ مگر حق تعالیٰ کی اس رحمت کے سبب کہ جو امت مرحومہ کے لئے مخصوص ہے ان کو یہاں عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا اور اس میں شاید حق تعالیٰ کی کوئی حکمت پوشیدہ ہو مثلا یہ کہ ان سے مخلوق الٰہی کے نظم ونسق اور انتظام مملکت کا وہ کام لیا جانا مقصود ہوگا جس کی اہلیت و صلاحیت وہی رکھیں گے یا یہ کہ اگر وہ لوگ خود فاسق و بدکار ہوں گے لیکن ان کے ہاتھوں دین کی اصلاح ودرستی کا کوئی انجام پانا مقدر ہوگا۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ تشریح لفظ بدا الف کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں ظاہر ہوا اور بعض نسخوں میں یہ لفظ ہمزہ کے ساتھ ہے جس کے معنی شروع ہونے کے ہیں اس صورت میں گویا ترجمہ یہ ہوگا کہ یہ امر یعنی دین اسلام کا ابتدائی زمانہ وحی سے شروع ہوا اور ذات رسالت ﷺ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے وقت تک باقی رہا۔ اس ارشاد گرامی اسلامی تاریخ کے ان ادوار اور زمانوں کے بارے میں پیش گوئی فرمائی گئی ہے جس سے مسلمانوں کا کارواں گزرا یا گزرے گا۔ پہلا زمانہ تو وہ ہوگا جس میں دین اسلام کی ابتداء اور اس کا ظہور ہوا ہے اور جو نزول وحی کے وقت سے شروع ہو کر آنحضرت ﷺ کے آخر زندگی تک باقی رہا یہ زمانہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں سراسر رحمت ونورانیت اور خیر سعادت کا زمانہ تھا ذات رسالت ﷺ کی موجودگی کی وجہ سے دین میں کسی رخنہ اندازی، احکام شریعت میں کسی ابہام وتشکیک، مسلمانوں کی نظریاتی وعملی زندگی میں کسی گمراہی و ضلالت اور عام حالات میں کسی فتنہ و فساد کے پیدا ہونے کا کوئی خوف تک نہ تھا۔ حضور ﷺ کے بعد جو زمانہ آیا وہ خلافت کا زمانہ تھا، حضور ﷺ کی صحبت ورفاقت سے فیض اٹھائے ہوئے اور ذات رسالت پناہ کے تربیت یافتہ افراد میں سے سب سے زیادہ افضل، سب سے زیادہ باعظمت اور ایمان وعمل کے اعتبار سے سب سے زیادہ کامل انسان حضور ﷺ کے نائب و خلیفہ بنے، مسلمانوں کی زمام کار ان کے ہاتھوں میں آئی اور وہ دین وملت کے معاملات کے والیو نگہبان بنے ان پاک نفس حضرات نے یکے بعد دیگر مسند خلافت پر متمکن رہ کر جتنے دنوں تک مملکت وملت کا نظم ونسق چلایا وہ پورا زمانہ گویا پھر ایک مرتبہ رحمت و نورانیت کا زمانہ رہا کہ خلفاء راشدین اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طور پر مسلمانوں پر سایہ فگن اور خیر و برکت کے نزول کا باعث بنے رہے اور ان کے زمانہ میں نیکیوں اور بھلائیوں کا دور دورہ رہا مسلمان اخلاص و ایثار اور عمل کردار کی پختگی کا نمونہ بنے رہے اور ان کے طفیل میں یہ زمین عام طور پر امن و سکون اور اطمینان و عافیت کا گہوارہ رہی۔ وہ زمانہ کہ جس کو خلافت و رحمت کا زمانہ کہا گیا ہے تیس سال کے شب و روز پر مشتمل تھا ان تیس سالوں میں ساڑھے انتیس سال تو چاروں خلفاء راشدین کے مجموع زمانہ خلافت کے ہیں اور باقی چھ ماہ کا عرصہ وہ ہے جس میں حضرت حسن (رض) مسند خلافت پر متمکن رہے۔ تفصیل اس کی یوں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) حضور ﷺ کے وصال کے بعد ربیع الاول 11 ھ میں خلیفہ رسول مقرر ہوئے اور جمادی الثانی 13 ھ میں وفات پائی۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اپنے مرض الموت میں صاحب الرائے مسلمانوں کے مشورہ سے حضرت عمر فاروق (رض) کو اپنا جانشین نامزد فرما دیا تھا، چناچہ حضرت عمر (رض) نے جمادی الثانی 13 ھ میں خلافت کا منصب سنبھالا اور آخر ذی الحجہ 23 ھ تک اس منصب پر فائز رہے، 27 ذی الحجہ کو ایک نصرانی غلام ابولؤلؤ (اصل نام فیروز) نے آپ کو نماز فجر کی امامت کی حالت میں خنجر سے حملہ کر کے سخت زخمی کردیا تھا جس کی وجہ سے جانبر نہ ہو سکے اور یکم محرم الحرام 24 ھ کو فوت ہو کر مدفون ہوئے۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے آخری دنوں میں پانچ جلیل القدر اور ممتاز صحابہ حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت زبیر بن عوام، حضرت طلحہ، حضرت علی اور حضرت عثمان غنی (رض) کو نامزد فرما دیا تھا کہ یہ حضرات آپس میں مشورہ کر کے اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنالیں، چناچہ ان حضرات نے کافی غور وخوض اور باہمی مشورہ کے بعد حضرت عثمان بن عفان (رض) کو اپنا امیر اور تیسرا خلیفہ منتخب کرلیا۔ حضرت عثمان (رض) کی خلافت محرم 24 ھ سے شروع ہوئی اور ذی الحجہ 30 ھ تک رہی جب کہ اس ماہ کی 18 تاریخ کو خلافت کے باغیوں اور بلوائیوں کی ایک بڑی جماعت نے آپ کو مکان میں محصور کر کے بڑی بےدردی کے ساتھ شہید کردیا۔ حضرت عثمان (رض) کی شہادت کے ایک ہفتہ بعد 25 ذی الحجہ 35 ھ کو حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے ہاتھ پر مدینہ منورہ میں عام بیعت ہوئی اور اس طرح وہ چوتھے خلیفہ مقرر ہوئے اور رمضان 40 ھ کو ان کی خلافت کا دور ختم ہوا جب کہ عبدالرحمن بن ملجم کے زخمی کردینے کی وجہ سے سے ان کی وفات ہوئی۔ حضرت علی (رض) کی وفات کے بعد لوگوں نے ان کے بڑے صاحبزادے حضرت امام حسن (رض) کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کی خلافت قائم ہوئی، لیکن حضرت امیر معاویہ (رض) کی طرف سے آویزش جو سلسلہ حضرت علی (رض) کے زمانہ میں شروع ہوا تھا وہ ان کی وفات کے بعد اور زیادہ بڑھ گیا اور جب سیادت وامارت کے مسئلہ پر مسلمانوں میں افتراق و انتشار بڑھنے لگا اور مخالف فریقوں کے درمیان کشت وخون کا خطرہ زیادہ شنگین ہوگیا تو حضرت امام حسن (رض) نے حضرت امیر معاویہ (رض) کے حق میں خلاف سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلیا چناچہ انہوں نے ربیع الاول 41 ھ تک خلافت کی۔ 41 ھ تک کا تیس سالہ دور وہ زمانہ ہے جس کو اس حدیث میں خلافت و رحمت کا زمانہ فرمایا گیا ہے اور اس زمانہ میں ان خلفاء راشدین نے آنحضرت ﷺ کے نائب و خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اخلاص ودیانت اور عدل و انصاف کے ساتھ اور حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بنا کر دین اسلام کی خدمات انجام دیں، مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی قیادت وسیادت کی ذمہ داریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ نبھایا اور اسلام کی عظمت و شوکت کا جھنڈا بلند کیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس خلافت کی اس حدیث میں فضیلت بیان کی گئی ہے اور جو واقعتا ذات رسالت ﷺ کی نیاب تھی اس میں امیر معاویہ (رض) کا کوئی حصہ نہیں ہے کہ ان کا دور حکمرانی اس زمانہ سے الگ ہے۔ جس کو خلافت ورحمت کا زمانہ فرمایا گیا ہے۔ عض کے معنی کاٹنے کے ہیں اور عضوض (عین کے زبر کے ساتھ) اسی لفظ سے نکلا ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے اور ایک روایت میں ملوکا عضوضا (عین کے پیش کے ساتھ) منقول ہے جو عض (عین کے زیر کے ساتھ) کی جمع ہے اور جس کے معنی خبیث، شریر اور بدخلق کے ہیں مطلب یہ ہے کہ خلافت و رحمت کے زمانہ کے بعد جو دور آئے گا وہ ملوکیت بادشاہت کا دور ہوگا اور ایسے ایسے لوگ ملک کے بادشاہ حکمران اور مسلمانوں کے سردار وحاکم بن بیٹھیں گے جن کے دلوں میں نہ اللہ کا خوف اور مواخذہ آخرت کا ڈر ہوگا اور نہ مخلوق اللہ کے تئیں ہمدردی ومروت اور عدل و انصاف کا احساس ہوگا اس لئے وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کے لوگوں پر ظلم وجبر کریں گے ان کو ناحق سزاؤں اور عقوبتوں میں مبتلا کریں گے اور ان کو طرح طرح سے ستائیں گے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ بات غالب و اکثریت کے اعتبار سے کہی گئی ہے یعنی اکثر بادشاہ حکمران ایسے ہوں گے اور چونکہ شاذ و نادر پر حکم نہیں لگایا جاتا کہ النادر کالمعدوم اس لئے یہ اشکال پیدا نہیں ہوسکتا کہ حدیث میں خلافت راشدہ کے بعد کے حکمرانوں اور بادشاہوں کے زمانہ کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے کیا اس کا اطلاق ان حکمرانوں کے رانوں پر بھی ہوتا ہے۔ جو عدل و انصاف، مذہب وملت کی خدمت گزاری اور اللہ ترسی کے اوصاف سے پوری طرح آراستہ تھے ؟ مثال کے طور پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور حکمرانی ہے، انہوں نے جس عدل وانصا کے ساتھ حکمرانی کی اور ان کا دور اسلام اور مسلمانوں کے حق میں جس طرح خیر و بھلائی کا باعث بنا اس کی بنیاد پر عمر ثانی کہا گیا ہے حاصل یہ کہ خلاف راشدہ کے بعد جن لوگوں نے مسلمانوں پر حکمرانی کی اور جو لوگ بادشاہ بنے ان میں سے اکثر ایسے تھے جن کا دور حکمرانی مذہب وملت کے حق میں مفید ثابت ہوا اور اپنے عوام کے لئے خیر و برکت اور راحت و اطمینان کا باعث بنے وہ استثنائی حکم رکھتے ہیں۔ ظلم وجور، قہر وتکبر اور زمین پر فتنہ و فساد کا زمانہ ہوگا کا مطلب یہ ہے کہ آخر میں جو زمانہ آئے گا وہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اور زیادہ سخت ہوگا، نااہل لوگ تخت حکومت پر بیٹھیں گے، ظلم اور زیادتی اور انتشار وبد امنی کا دور دورہ ہوگا، عالم لوگوں کی جان و مال اور عزت آبرو غیر محفوظ ہوگی ہر طرف لوٹ مار، قتل وغارتگری کا بازار گرم ہوگا اور انسانیت کو تباہ کرنے والی ہر طرح کی برائیاں روئے زمین پر پھیل جائیں گی۔ چناچہ جیسا کہ ہم اپنے زمانہ میں دیکھ رہے ہیں یہ پیش گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہو رہی ہے، کیونکہ حکومت و اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا ہے جو آئیں جہانبانی سے ناواقف ہیں، جنہوں نے ظلم وجور کو اپنا شعار بنا رکھا ہے اور مسلم ممالک جہاں مذہب وملت کے اصولوں کی فرمانبرداری ہونی چاہیے وہاں طاغوتی طاقتیں بر سرحکومت ہیں ظالم و جابر لوگوں نے زور زبردستی اور مکر و فریب کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کرلیا ہے وہ نہ قیادت وسیادت کے اصول و شرائط کو پورا کرتے ہیں، نہ اپنے عوام کی دینی و دنیاوی بھلائی و بہتری سے انہیں کوئی تعلق ہے وہ اپنے اقتدار کو باقی رکھنے کے لئے فتنہ و فساد کے بیج بوتے ہیں تباہ کن سازشیں کرتے ہیں عوام پر نت نئے ظلم ڈھاتے ہیں جو بندگان خاص انہیں راہ راست دکھانا چاہتے ہیں ان کو طرح طرح کی صعوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں، کلیدی عہدوں اور مناسب پر اہل و لائق افراد کی بجائے موقع پرست، خود غرض اور نااہل لوگوں کو فائز کرتے ہیں، علماء وصلحاء اور اکابرین دین، جو ہر طرح کی عزت احترام کے مستحق ہوتے ہیں نہ صرف یہ کہ ان کی طرف کوئی توجہ والتفات نہیں کی جاتی بلکہ مختلف ذرائع اور اقدامات کے ذریعہ ان کی ہتک کی جاتی ہے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی پاداش میں ان کو قیدوبند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ اور یہ کہ تقریبا تمام ہی مسلم حکمرانوں نے دین کے دشمنوں کے خلاف تو جہاد کے فریضہ کو ترک کردیا، البتہ اپنی حکمرانی کی خاطر اور ملک گیری کی ہوس میں خود مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوگئے اور اپنی تلواروں کو ان کے خون سے رنگین کیا۔ اور اسی وجہ سے بعض علماء نے یہاں تک کہہ دیا کہ جو شخص ان حکمرانوں اور بادشاہوں کو عادل کہے گا وہ کافر ہوجائے گا۔ غرضیکہ ان حکمرانوں اور بادشاہ کی وجہ سے روئے زمین پر فتنہ و فساد روز افزوں ہوتا گیا خود غرضی، موقع پرستی، بدانتظامی اور عام بدامنی و انتشار کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا، یہاں تک کہ تاریخ ایسے حکمرانوں کے سیاہ کارناموں سے شرمسار ہے جو مسلمان ہوتے ہوئے ان شہرو وں کو تاراج کرنے اور وہاں کے لوگوں کا قتل عام کا باعث بنے، جہاں بڑے بڑے اولیاء، صلحاء اور مشایخ تھے، جہاں کمزور اور ضعیف لوگ بچے اور عورتیں تھیں اور جن کو قتل کرانے کے لئے کوئی وجہ جواز نہیں تھی، مزید ستم یہ کہ اس شہر کے لوگ ملت حنیفہ سے تعلق رکھتے تھے اور اہل سنت والجماعت میں شامل تھے اور ان کا قتل عام کرنے والے مدعی سلطنت اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ ہم دین و شریعت کے حامی و مددگار ہیں اور اہل علم وبزرگان دین کی تعظیم کرتے ہیں۔ علماء نے تو یہاں تک تصریح کی ہے کہ اگر مسلمان دشمنان دین کے کسی ایسے قلعہ کو فتح کریں جس میں ہزاروں اہل حرب اور دشمنان دین پائے جائیں لیکن ان ہزاروں میں کوئی ایک مجہول الحال ذمی بھی موجود ہو تو محض اس ذمی کی وجہ سے مفتوح قلعہ میں قتل عام کرنا ہرگز درست نہیں ہوگا۔ مگر وہ حکمران اور بادشاہ حشر کے دن آخر کیا جواب دیں گے جنہوں نے محض اپنے اقتدار اور اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے مسلمانوں تک کا قتل عام کرایا ہے اور ان کے شہروں وآبادیوں کو چشم و زون میں تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارے نالائق ونااہل مسلم حکمرانوں ہی کی وجہ سے ایسے ایسے فتنہ و فساد رونما ہوئے اسلامی سلطنتوں میں اس قدر تباہیاں آئیں اور اتنا زیادہ کشت و خون ہوا کہ روئے زمین پناہ مانگنے لگی، یہاں تک کہ حرمین شریفین بھی ان فتنہ و فساد سے محفوظ نہ رہ سکے اور ان مقدس شہروں میں اتنے تباہ کن اور بھیانک واقعات رونما ہوئے کہ قلم کو مجال بیان نہیں اور ان کی تفصیل کو ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور اپنے دین کا بہترین کا رساز اور اپنے نبی ﷺ اور اس کی امت کا حامی و مددگار ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آنے والا ہر سال، بلکہ ہر دن اور بلکہ ہر لمحہ پہلے کی بہ نسبت بد سے بدتر ہی گزر رہا ہے۔

【19】

شراب کے بارے میں ایک پیشگوئی

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے جس کام کو اوندھا کردیا جائے گا حدیث کے راوی حضرت زید بن یحییٰ (رض) نے وضاحت کی کہ یعنی اسلام میں سب سے پہلے جس کام کو اوندھا کردیا جائے گا جیسے برتن اوندھا کردیا جاتا ہے وہ شراب ہوگی۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! یہ کیونکر ہوگا جب شراب کے متعلق اللہ کے وہ احکام بیان ہوچکے ہیں جو سب پر ظاہر بھی ہوگئے ہیں ؟ یعنی جب شراب کی حرمت نازل ہوچکی ہے اور نہایت سختی کے ساتھ مسلمانوں کو اس چیز سے اجتناب کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس حرمت اجتناب کا یہ حکم اتنا واضح، اتنا عام اور اس قدر تاکید کے ساتھ ہے کہ سب مسلمان اس سے واقف وآگاہ ہوگئے ہیں تو پھر ایسا کس طرح ہوگا کہ اس کا حکم بدل دیا جائے گا اور وہ مسلمانوں کو اسلام کی مخالفت کی راہ پر لے جائے گی ؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ لوگ حیلوں اور بہانوں کے ذریعہ اس کو پینا شروع کردیں گے اور طریقہ یہ اختیار کریں گے کہ اس کا نام بدل دیں گے اور اس کو حلال قرار دے لیں گے۔ (دارمی) تشریح مایکفأ اصل میں لفظ کفاء کا صیغہ مجہول ہے، جس کے معنی ہیں برتن وغیرہ کو اوندھا دینا الٹ دینا تاکہ اس میں پانی وغیرہ جو بھی چیز ہو وہ گرجائے۔ یعنی الاسلام کے الفاظ حدیث کے ایک راوی زید نے بیان کئے ہیں اور ان میں بھی الاسلام سے پہلے فی کا لفظ تھا جو راوی سے ساقط ہوگیا ہے۔ کسی مجلس یا خطبہ میں حضور ﷺ شراب کا ذکر اور اس کا حکم بیان فرما رہے تھے کہ آپ ﷺ نے اس اثنا میں اول مایکفاء ارشاد فرمایا چناچہ راوی نے اس ارشاد کو واضح کرنے کے لئے اس جملہ کی خبر، جو محذوف تھی اپنے الفاظ الخمر کے ذریعہ بیان کی پس یعنی الخمر کا لفظ بھی راوی کا ہے جو یہ مراد بیان کرتا ہے کہ اسلام میں جس چیز کو سب سے پہلے الٹ دیا جائے گا وہ شراب ہے۔ بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جب آخر زمانہ میں مسلمانوں کی دینی زندگی میں بہت الٹ پھیر ہوجائے گا اور مذہب کے ساتھ ان کا تعلق کمزور ہوجائے گا تو اس وقت حرام و ناجائز چیزوں میں سے سب سے پہلے جس چیز کا کھلم کھلا ارتکاب ہوگا اور اسلام کے احکام میں سے سب سے پہلے جس حکم کو ساقط کردیا جائے گا وہ شراب اور اس کا حکم ہے کہ لوگ نہ صرف شراب نوشی اختیار کریں گے بلکہ مختلف حیلوں بہانوں اور تاویلوں کے ذریعہ اس کو حلال و جائز قرار دینے کی سعی بھی کریں گے، مثلا اس کا نام بدل کر کسی ایسے مشروب کے نام پر رکھ دیں گے جس کا پینا جائز ہے جب کہ حقیقت میں وہ شراب ہوگی، یا اس کو کسی دوسرے اجزاء جیسے شہد اور چاول وغیرہ کے ساتھ بنائیں گے اور کہیں گے کہ اسلام میں جس چیز کو خمر یعنی شراب کہا گیا ہے اور جس کا پینا حرام ہے وہ انگور کا پانی ہے کہ اس سے نشہ پیدا ہوتا ہے اور یہ مشروب چونکہ انگور سے نہیں بنایا گیا ہے اس لئے اس کو پینا حرام نہیں ہے، حالانکہ وہ نہیں جانیں گے کہ جو بھی چیز نشہ پیدا کرنے والی ہے وہ حرام ہے اور خمر کے حکم میں ہے۔ اور اس کو حلال قرار دے لیں گے کی دو صورتیں ہوں گی، ایک تو یہ کہ وہ لوگ واقعتا اس کو حلال جانیں گے۔ اس صورت میں وہ کافر ہوجائیں گے کیونکہ شریعت نے جس چیز کو وضاحت کے ساتھ حرام قرار دیا ہے اس کو حلال جاننا کفر ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اس کو واقعتا حلال قرار نہیں دیں گے بلکہ اس کو اسی طرح کھلم کھلا پئیں گے اور یہ ظاہر کریں گے کہ گویا ہم حلال چیز پیتے ہیں۔ اس صورت میں ان پر کفر کا نہیں بلکہ فسق کا حکم لگے گا۔

【20】

مسلمانوں کے مختلف زمانوں کے بارے میں ایک پیش گوئی

حضرت نعمان بن بشیر حضرت حذیفہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے درمیان، نبوت کا وجود اور اس کا نور اس وقت تک باقی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ نبی کو اپنے پاس بلا لینے کے ذریعہ نبوت کو اٹھا لے گا اس کے بعد نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ (یعنی تیس سال تک) پھر اللہ تعالیٰ خلافت کو بھی اٹھا لے گا اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی (یعنی ایسے لوگوں کی بادشاہت کا زمانہ آئے جو آپس میں ایک دوسرے کو اس طرح کاٹیں گے جس طرح کتے کاٹتے ہیں اور وہ بادشاہت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اس دنیا سے اٹھا لے گا اس کے بعد قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طریقہ پر یعنی عدل و انصاف کو پورے طور پر جاری کرنے والی خلافت قائم ہوگی (اور اس خلافت سے مراد حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی علیہما السلام کا زمانہ ہے) ات نافرما کر آپ خاموش ہوگئے۔ حضرت حبیب بن سالم نے جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں اور حضرت نعمان بن بشیر کے آزاد کردہ غلام اور ان کے کاتب تھے، نیز ان سے حضرت قتادہ (رض) وغیرہ روایتیں نقل کرتے ہیں بیان کیا کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مقرر ہوئے اور انہوں نے نبوت کے طریقہ پر حکومت قائم کی تو میں نے اس حدیث کی طرف ان کی توجہ مبذول کرنے کے لئے یہ حدیث لکھ کر ان کے پاس بھیجی اور اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ مجھ کو امید ہے کہ آپ وہی امیرالمومنین یعنی خلیفہ ہیں جس کا ذکر اس حدیث میں کاٹ کھانے والی بادشاہت اور قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کے بعد آیا ہے۔ وہ یعنی عمر بن عبدالعزیز اس بات سے بہت خوش ہوئے اور اس تشریح نے ان کو بہت مسرور کیا (یعنی اس بات کی امید و آرزو نے ان کو بھی بہت خوش کیا کہ حدیث میں جس آخری خلافت کا ذکر کیا گیا ہے شاید اس کا اطلاق میرے زمانہ خلافت ہی پر ہو) اس روایت کو امام احمد نے اپنی مسند میں اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔