161. فتنوں کا بیان

【1】

فتنوں کا بیان

فتن اصل میں فتنۃ کی جمع ہے جیسا کہ محن محنۃ کی جمع آتی ہے فتنہ کے مختلف معنی ہیں مثلاً آزمائش و امتحان، ابتلا، گناہ، فضیحت، عذاب، مال و دولت، اولاد، بیماری، جنون، محنت، عبرت، گمراہ کرنا و گمراہ ہونا اور کسی چیز کو پسند کرنا اور اس پر فریفتہ ہونا نیز لوگوں کی رائے میں اختلاف پر بھی فتنہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ مشکوۃ کا وہ حصہ جو یہاں شروع ہو کر آخرت کا ہے اس کو مؤلف نے کتاب الفتن کا نام دیا ہے اور اس کے ضمن میں مختلف ابواب قائم کئے ہیں بظاہر اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، خصوصا، فضائل مناقب کے ابواب کو کتاب الفتن میں شامل کرنے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی، اگر یہ کہا جائے کہ ان ابواب میں جن مقدس ہستیوں یعنی ذات رسالت پناہ ﷺ اور خلفائے راشدین و اکابر صحابہ کرام کے فضائل ومناقب بیان کئے گئے ہیں ہم ان کی عظمت و برتری اور بزرگی کا اعتقاد رکھنے کے مکلف اور اس اعتقاد کو اپنے عمل سے ثابت کرنے کے امتحان و آزمائش میں مبتلا ہیں نیز ان کی ذات کے گرویدہ اور ان پر فریفتۃ ہیں اور اس اعتبار کو ملحوظ رکھا جائے تو پوری کتاب میں جو کچھ منقول و مذکور ہے وہ سب اسی قبیل سے ہے اور اس صورت میں محض کتاب الفتن کی تخصیص لاحاصل ہوگی۔ بہرحال اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس موقع پر مؤلف مشکوۃ کے ذہن میں کیا بات تھی اور انہوں نے کن وجوہ کی بنا پر یہاں سے کتاب کے آخر تک کے حصہ کو کتاب الفتن کا نام دیا۔

【2】

حضور ﷺ نے قیامت تک ظاہر ہونے والے تمام فتنوں کے بارے میں پیشگوئی فرما دی تھی

حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے جیسا کہ وعظ وخطبہ کے لئے کھڑے ہوتے ہیں چناچہ آپ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور وعظ کہا جس کے دوران آپ ﷺ نے ان فتنوں سے آگاہ فرمایا جو ظاہر ہونے والے تھے پس از قسم فتنہ جو چیزیں اس وقت یعنی زمانہ نبوی سے لے کر قیامت تک وقوع پذیر ہونے والی تھیں ان سب کو ذکر فرمایا اور ان میں سے کوئی چیز بیان کرنے سے نہیں چھوڑی ان باتوں کو یاد رکھنے والوں نے یاد رکھا اور جو بھولنے والے تھے وہ بھول گئے یعنی آپ ﷺ نے جن فتنوں کا ذکر فرمایا ان کو بعض لوگوں نے تو یاد رکھا اور بعض لوگوں نے فراموش کردیا۔ حضرت حذیفہ (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ میرے یہ دوست (یعنی صحابہ (رض) جو اس وقت بقید حیات ہیں) اس واقعہ سے (کہ آپ ﷺ نے اس دن اپنے خطبہ میں قیامت تک ظاہر ہونے والے فتنوں کا ذکر فرمایا تھا) واقف ہیں (لیکن ان میں سے بعض حضرات حضور ﷺ کی بیان فرمودہ ان باتوں کو جانتے ہیں اور بعض حضرات کو وہ باتیں تفصیل کے ساتھ یاد نہیں رہی ہیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ نسیان کا طاری ہوجانا انسانی خواص میں سے ہے اور جیسا کہ بیان کیا گیا میں بھی انہی لوگوں میں سے ہوں جو ان باتوں کو پوری طرح یاد نہیں رکھ سکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضور ﷺ نے جن باتوں کی خبر دی تھی اور جن باتوں کو میں بھول گیا ہوں اگر ان میں سے کوئی بات پیش آجاتی ہے تو میں اس کو دیکھ کر اپنا حافظہ تازہ کرلیتا ہوں جس طرح کہ جب کسی غائب شخص کا چہرہ نظر آجاتا ہے تو وہ چہرہ دیکھ کر اس شخص کو پہچان لیا جاتا ہے (یعنی عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص بہت عرصہ تک غائب رہتا ہے تو اس کی شخصیت ذہن سے اوجھل ہوجاتی ہے اور لوگ اسے بھول جاتے ہیں لیکن جب کبھی وہ ظاہر ہوجاتا ہے اور اس کا چہرہ نظروں کے سامنے آجاتا ہے تو اس کی بھولی ہوئی شخصیت فوراً یاد آجاتی ہے اور وہ تشخص کے ساتھ پہچان لیا جاتا ہے، اسی طرح میرا معاملہ بھی یہ ہے کہ اس دن حضور ﷺ نے جو باتیں پیش گوئی فرمائی تھیں وہ تفصیلی طور پر میرے ذہن میں نہیں رہی ہیں لیکن جب ان باتوں میں سے کوئی بات پیش آجاتی ہے اور حضور ﷺ نے جن چیزوں کی خبر دی تھی ان میں سے کوئی چیز وقوع پذیر ہوتی ہے تو اس کو دیکھ کر میں فوراً پہچان لیتا ہوں کہ یہ وہی بات ہے جس کی خبر حضور ﷺ نے دی تھی۔ (بخاری ومسلم)

【3】

قلب انسانی پر فتنوں کی یلغار

حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگوں کے دلوں پر فتنے اس طرح ڈالے جائیں گے جس طرح چٹائی کے تنکے ہوتے ہیں یعنی جس طرح چٹائی میں تنکے ایک کے پیچھے ایک لگائے جاتے ہیں اسی طرح سے دلوں پر ایک کے بعد ایک فتنے ڈالے جائیں گے پس جو دل ان فتنوں کو قبول کرے گا اس میں سیاہ نکتہ ڈال دیا جائے گا اور جو دل ان فتنوں کو قبول کرنے سے انکار کرے گا اس میں سفید نکتہ پیدا کردیا جائے گا پس انسان ان فتنوں کے پیش آنے اور ان کے دلوں پر ان فتنوں کی تاثیر وعدم تاثیر کے اعتبار سے دو قسموں میں بٹ جائیں گے (یا یہ کہ انسان کے دل مذکورہ اعتبار کے مطابق دو قسم کے ہوجائیں گے) ایک تو سفید مثل سنگ مرمر کے کہ جس پر کوئی چیز اثر انداز نہیں ہوتی واضح رہے کہ اس تشبیہ میں محض سفیدی مراد نہیں ہے بلکہ سختی اور قوت کا اعتبار بھی ملحوظ رکھا گیا ہے چناچہ اس طرح کے دل پر کوئی بھی فتنہ اثر انداز اور مسرت رساں نہیں ہوگا جب تک کہ زمین و آسمان قائم و باقی ہیں (یعنی اس دل کی یہ کیفیت ہمیشہ باقی رہے گی) اور دوسرا راکھ کے رنگ جیسا سیال دل، اوندھے برتن کی مانند (کہ اس میں جو کچھ بھی ہو گرپڑے، مطلب یہ کہ اس طرح کا دل راکھ کی مانند سیاہ اور اوندھے برتن کی طرح ایمان و معرفت کے نور سے خالی ہوگا چناچہ اس طرح کا دل نہ تو نیک واچھے اور مشروع کاموں کو پہچانے گا اور نہ برے کاموں کو برا جانے گا، وہ تو بس اس چیز سے مطلب رکھے گا جو از قسم خواہشات اس میں رچ بس گئی ہے اور جس کی محبت کا وہ اسیر بن چکا ہے۔ (یعنی وہ طبعی طور پر نفسانی خواہشات کا غلام ہوگا اور اچھی وبری کا امتیاز کئے بغیر ہر اس چیز کے پیچھے بھاگے گا جو اس کے نفس کو مرغوب ہوگی۔ (مسلم) تشریح فتنوں سے مراد بلا وآفات اور وہ چیزیں ہیں جو انسان کے ذہن وفکر اور قلب وجسم کو تعب و تکلیف اور رنج و نقصان میں مبتلا کرلیتی ہیں لیکن بعض حضرات نے فتنوں کی مراد، فاسد و گمراہ نظریات، باطل افکار اور نفسانی شہوت و خواہشات کو قرار دیا ہے۔ لفظ عودا تین طرح سے نقل کیا گیا ہے، ایک روایت میں عین کے پیش اور دال مہملہ کے ساتھ ہے اور جیسا کہ دوسری روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے، یہی زیادہ مشہور ہے۔ اس صورت میں حدیث کے اس جملہ کا مطلب یہ ہوگا کہ دلوں میں فتنے اس طرح ایک کے بعد ایک دو آئیں گے جیسا کہ چٹائی بنتے وقت تنکے ایک کے بعد ایک داخل کئے جاتے ہیں، اس تشبیہ سے مراد دلوں پر فتنوں کا اس طرح پیش آنا ہے جس طرح چٹائی بننے والے کے سامنے تنکے یکے بعد دیگرے پیش ہوتے رہتے ہیں۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس تشبیہ سے مراد یہ ہے کہ وہ فتنے دل پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ دوسری روایات میں یہ لفظ عین کے زیر اور ذال کے ساتھ یعنی عوذا ہے اس صورت میں یہ لفظ ان فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ گفتگو و کلام کے دوران کفر و معصیت کے ذکر کے بعد نعوذ باللہ یا معاذ اللہ کہا جاتا ہے۔ تیسری روایت میں یہ لفظ عین کے زیر اور دال کے مہملہ کے ساتھ (یعنی عودا) ہے اور اس سے مراد عود و تکرار ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ وہ فتنے دل پر باربار واقع ہوں گے۔ واضح رہے کہ پہلی روایت میں تو یہ لفظ منصوب اور مرفوع دونوں طرح نقل کیا گیا ہے اور دوسری و تیسری روایت میں صرف منصوب منقول ہے۔ اشربہا میں لفظ مشرب صیغہ مجہول کے ساتھ ہے۔ کہا جاتا ہے اشرب فلاں حب فلاں یعنی فلاں شخص کے دل میں فلاں شخص کی محبت رچ گئی ہے۔ یا فلاں شخص کے دل میں فلاں شخص کی محبت کا فتنہ بیٹھ گیا ہے، یا فلاں شخص کے دل پر فلاں شخص کی محبت کا رنگ چڑھ گیا ہے جیسا کہ کسی کپڑے پر کوئی رنگ چڑھ جاتا ہے۔ چونکہ شرب کے اصل معنی پینے کے ہیں اس لئے کڑے پر رنگ چڑھنے کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ گویا وہ کپڑا اس رنگ کو پیتا ہے اور اس میں رنگ جاتا ہے پس جو دل ان فتنوں کو قبول کرلے گا کا مطلب یہ ہے کہ جس میں کجی ہوگی اور جس کا میلان و رجحان برائی کی طرف ہوگا اس میں وہ فتنے رچ بس جائیں گے اور گویا وہ دل ان فتنوں کو اس طرح قبول کرلے گا جس طرح کوئی سفید کپڑا کسی بھی رنگ کو فورا قبول کرلیتا ہے۔ نکتہ اصل میں داغ کو کہتے ہیں اور اس نشان کے معنی میں آتا ہے جو لکڑی وغیرہ کے کریدنے اور چھونے سے زمین پر پیدا ہوجاتا ہے۔ نیز نکتہ کا لفظ نقطہ کے معنی میں بھی آجاتا ہے اور خاص طور پر اس نقطہ (دھبہ) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جو مخالف رنگ کی چیز میں ہو جیسے سفید چیز میں سیاہ نقطہ اور سیاہ چیز میں سفید نقطہ۔ حتی تصیر علی قلبین میں لفظ تصیر حرف ت کے ساتھ بھی ہے اور حرف ی کے ساتھ بھی۔ اگر یہ لفظ ی کے ساتھ یعنی یصیر پڑھا جائے تو اس صورت میں اس کی ضمیر انسان کی طرف راجع ہوگی جیسا کہ سیاق کلام سے مفہوم ہوتا ہے اور اگر اس لفظ کو ت کے ساتھ تصیر پڑھا جائے تو اس کی ضمیر قلوب کی طرف راجع ہوگی جو صریحا مذکورہ بھی ہے۔ مرباد م کے پیش اور ر کے جزم اور دال کی تشدید کے ساتھ، کے معنی خاکستر اور سیاہ رنگ کے ہیں۔ رمد کا لفظ بھی خاکستر رنگ کے معنی میں آتا ہے اور ارمداد کے معنی ہیں خاکستری رنگ کا ہونا۔

【4】

جب امانت دلوں سے نکل جائے گی

حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں ایک دن رسول کریم ﷺ نے ہم سے امانت کے بارے میں اور فتنے کے زمانہ کے حوادث کے سلسلہ میں دو حدیثیں یعنی دو باتیں بیان فرمائیں ان میں سے ایک کو تو دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں (یعنی حضور نے پہلی بات جو یہ فرمائی کہ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتاری گئی ہے اس کو تو میں نے دیکھ لیا اور دوسری بات یعنی امانت کے اٹھ جانے کا منتظر ہوں) چناچہ رسول کریم ﷺ نے ہم سے بیان فرمایا کہ۔ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتاری گئی پھر انہوں نے اس امانت کو نور سے قرآن کو جانا اور پھر انہوں نے سنت کو جانا۔ اس کے بعد آپ نے امانت کے اٹھ جانے (یعنی ایمان کے اثرات و برکات کے اٹھ جانے اور اس میں نقص آجانے کی حدیث بیان کی چناچہ فرمایا آدمی حسب معمول سوئے گا اور امانت اس کے دل سے نکال لی جائے گی (یعنی اس کے ایمان کے بعض ثمرات وانوار ناقص وکم ہوجائیں گے) پس امانت کا اثر یعنی نشان جو ایمان کا ثمرہ ہے وکت کے نشان کی طرح ہوجائے گا (حاصل یہ کہ ایمان کا نور دھندلا اور اس کا اثر وثمرہ ناقص ہوجائے گا) پھر جب وہ دوبارہ سوئے گا اور زیادہ غفلت طاری ہوگی تو اس کی امانت کا وہ حصہ بھی ناقص کردیا جائے گا اور نکال لیا جائے گا جو باقی رہ گیا تھا پس اس کے دل میں ایک مجل یعنی آبلہ جیسا نشان رہ جائے گا جیسا کہ تم آگ کی چنگاری کو اپنے پاؤں پر ڈال دو اور اس سے آبلہ پڑجائے جو بظاہر پھولا اور اٹھا ہوا ہوگا لیکن اس کے اندر خراب اور گندے پانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ پھر اس صورت حال کے بعد لوگ صبح کو اٹھیں گے تو حسب معمول آپس میں خریدو فروخت کریں گے اور ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوگا جو امانت کو ادا کرے (یعنی شریعت کے حقوق ادا کرنے والا فرائض و واجبات کی تکمیل کرنے والا اور لوگوں کے حق میں کوئی خیانت و بددیانتی نہ کرنے والا کہیں دور دور بھی نظر نہیں آئے گا) یہاں تک کہ امانت و دیانت میں کمی آجانے کے سبب یہ کہا جائے گا کہ فلاں قبیلہ یا فلاں شہر و آبادی میں لوگوں کی کثرت کے باوجود بس ایک شخص ہے جو امانت دار یعنی کامل الایمان ہے۔ اور زبردست سیاسی مہارت و چالاکی اور دنیاوی شان و شوکت کا حامل ہوگا یا کہا جائے گا کہ اپنے دنیاوی کاروبار اور معاملات میں کس قدر عقلمند و ہوشیار، کس قدر خوبصورت ودانا، خوشگوار اور زبان آور ہے اور کس قدر چست و چالاک ہے، حالانکہ اس کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا۔ (بخاری ومسلم) تشریح امانت سے مراد یا تو اس کے مشہور معنی ہیں یعنی کسی کے حق میں یا کسی کی ملکیت میں خیانت نہ کرنا یا وہ تمام شرعی ذمہ داریاں مراد ہیں جو ہر شخص پر عائد کی گئی ہیں یعنی تمام اسلامی احکام وتعلیمات کو ماننا اور ان پر عمل کرنا اور امانت کے یہ وہ معنی ہیں جو قرآن کریم کی اس آیت (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ ) 33 ۔ الاحزاب 72) میں مذکور ہیں تاہم ان دونوں معنی کی اصل اور بنیاد ایمان ہے اس لئے زیادہ وضاحت کے لئے یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہاں امانت سے مراد ایمان ہے جیسا کہ خود حدیث کے آخری الفاظ وما فی قلبہ مثقال حبۃ من خر دل من ایمان سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے۔ اسی طرح حدیث کے اس جملہ ولا یکاد احد یودی الامانۃ میں امانت کا جو لفظ ہے وہ بھی مذکورہ وضاحت پر مبنی ہے۔ پس حضور ﷺ نے جو دو حدیثیں بیان فرمائیں ان میں سے پہلی حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت و فلاح کے لئے ایمان و امانت کو نازل فرمایا اور اس کا مورود کل قلب انسانی کو قرار دیا کہ پہلے ایمان کا نور اور جوہر انسان کے دل میں اترا اور راسخ ومستحکم ہوا جس نے کتاب ہدایت قرآن مجید اور سنت نبوی پر عمل آوری کے راستہ کو منور کیا، چناچہ انسان نے اسی طور ایمان کے سبب ان لافانی تعلیمات اور احکام و مسائل کو جانا اور سمجھا جو کتاب اللہ سے اخذ کئے گئے ہیں اور وہ احکام و مسائل خواہ فرض و واجب اور مسنون ومباح ہوں یا حرام و مکروہ اور پھر اسی نور نے سنت نبی کی حقیقت و صداقت کو واشگاف کیا کہ زبان رسالت اور معمولات نبوی نے کتاب اللہ کی تعلیمات منشا حق کی جو وضاحت و تفسیر بیان فرمائی اس کو بلا چون وچرا قبول کر کے عمل کی راہ کو استوار کیا گیا۔ یہاں یہ بات واضح ہوئی کہ حق تعالیٰ کی طرف سے نور ہدایت کا پیدا کیا جانا اور اس کے ذریعہ انسانیت عامہ کو نوازنے اور فلاح پہنچانے کا ارادہ فرمانا کتاب اللہ کو نازل کرنے اور رسولوں کو مبعوث کرنے سے پہلے تھا، یعنی پہلے تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو پیدا کیا اور یہ ارادہ فرمایا کہ اپنے بندوں کو اس نور ہدایت کے ذریعہ سعادت و بھلائی کے بلند مقام پر پہنچانا ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنی کتاب کو دنیا میں نازل فرمایا اور اپنے پیغمبر اور رسول مبعوث فرمائے پس نسل انسانی سے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عنایت و ہدایت کا مورد ومحل بننا نصیب ہوا اور جن میں اس نور ہدایت کو قبول کرنے کی توفیق و استعداد و دیعت ہوئی وہی خوش بخت کتاب وسنت سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ اس موقع پر ایک نکتہ اور بھی بیان کیا جاتا ہے، وہ یہ کہ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ۔ پھر انہوں نے قرآن کو جانا اور پھر انہوں نے سنت کو جانا۔ اس کے ذریعہ ایمان و امانت کے مرتبہ کی شان و حیثیت اور اس کی عظمت کو بیان کرنا بھی مقصود ہے کہ باوجودیکہ اللہ تعالیٰ نے نور ہدایت یعنی ایمان کو نازل فرمایا اور قلوب انسانی میں اس کو ودیعت و راسخ فرما دیا تھا مگر پھر کتاب اللہ کے نازل کرنے اور اپنے پیغمبر و رسول کے مبعوث کرنے کے ذریعہ بھی اس کو مؤ کد ومؤید کیا۔ بہرحال یہ وہ پہلی حدیث جو حضور ﷺ نے صحابہ (رض) سے ارشاد فرمائی اور حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اس کا مصداق اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا ہے بایں طور کہ حضور ﷺ کے زمانہ اور رفاقت حضوری میں صحابہ کرام اس ارشاد گرامی کے عین مصداق تھے اور دوسری حدیث کہ جس میں حضور ﷺ نے امانت کے کم ہوجانے اور اٹھ جانے کا ذکر فرمایا وہ حضور کے مبارک زمانہ کے بعد کے لوگوں پر صادق آئی۔ آدمی حسب معمول سوئے گا الخ سے مراد یا تو حقیقۃ سونا ہے یا یہ جملہ اس کی غفلت و کوتاہی میں پڑجانے سے کنایہ ہے یعنی یاد الٰہی سے غافل آیت الٰہی سے بیخبر ، قرآن مجید میں تدبر و تفکر سے بےپرواہ اور تباع سنت میں کوتاہ ہوجانا۔ یہ دوسری مراد زیادہ واضح ہے کیونکہ ماقبل جملہ ثم السنۃ (اور پھر انہوں نے سنت کو جانا) کا مخالف مفہوم اسی مراد کا متقاضی ہے۔ فیظل اثرہ مثل اثرالوکت امانت کا اثر یعنی نشان وکت کے نشان کی طرح ہوجائے گا۔ پہلے یہ جاننا چاہئے کہ کسی چیز کا اثر وہ نشان کہلاتا ہے جو اس چیز کی علامت کے طور پر نمودار ہے اور اس چیز کا کچھ نہ کچھ حصہ اس کی صورت میں باقی رہے اور وکت عکسی چیز کے اس دھبہ کو کہتے ہیں جو اس چیز کے مخالف رنگ کی صورت میں نمودار ہوجائے جیسے کسی سفید چیز میں سیاہ نقطہ کا نمودار ہونا اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وکت اصل میں اس سفید نقطہ نما نشان کو کہتے ہیں جو آنکھ کی سیاہی میں پیدا ہوجائے۔ حدیث کے اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ دین و شریعت کی طرف سے غافل ہوجانے اور گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے دل میں ایمان کا نور کم ہوجائے گا اور وہ غافل ہونے والا جب اس صورت حال سے آگاہ ہوگا اور اپنے دل کی حالت و کیفیت میں غور و فکر کرے گا تو یہ محسوس کرے گا کہ اس میں ایک نقطہ کی مقدار کے علاوہ نور امانت میں سے اور کچھ باقی نہیں رہا ہے۔ جب وہ دوبارہ سو جائے گا کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب دین و شریعت سے غفلت کی نیند اور زیادہ طاری ہوجائے گی اور گناہوں کا ارتکاب زیادہ بڑھ جائے گا دل میں سے نور ایمان کا بقیہ حصہ بھی نکل جائے گا اور وہاں صرف مجل کے نشان کی طرح کی صورت میں رہ جائے گا واضح رہے کہ مجل کے معنی ہیں آبلہ پڑجانا اور کام کرتے کرتے ہاتھ کی جو کھال سخت ہوجاتی ہے اور جس کو گھٹا بھی کہتے ہیں اس پر بھی مجل کا اطلاق ہوتا ہے۔ لہٰذا جس طرح انسان کے جسم کے کسی حصہ پر جو آبلہ پڑجاتا ہے وہ اگرچہ اوپر سے ابھرا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں اس کے اندر خراب اور گندے پانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح جس شخص کے دل میں امانت کا وہ باقی اثر و نشان بھی نکال لیا جائے گا تو اگرچہ وہ بظاہر بالکل صالح و کار آمد نظر آئے گا لیکن حقیقت میں اس کے اندر سعادت و بھلائی اور اخروی زندگی کو فائدہ پہنچانے والی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ مذکورہ وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وکت اور مجل نور امانت کے اس حصہ کی تمثیل ہے جو دل میں باقی رہ جاتا ہے گویا ان دونوں چیزوں کی مثال کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس دور میں اسلام کے نام لیواؤں میں ایمان و دین کی اس کمزوری کے باوجود ان کے دل میں ایمان و امانت کا نور کسی نہ کسی حد تک ضرور باقی رہے گا خواہ وہ وکت اور مجل کے نشان ہی کی طرح کیوں نہ ہو لیکن اس وضاحت پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے وہ یہ کہ مجل کا نشان وکت کے نشان سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ لہٰذا کلام کے اسلوب کا تقاضا تو یہ تھا کہ پہلے مجل کے نشان کا ذکر کیا جاتا اور اس کے بعد وکت کے نشان کا ذکر ہوتا کیونکہ بعد کے درجہ کا نشان پہلے درجہ کے نشان سے کمتر اور ہلکا ہونا چاہئے اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ وکت اگرچہ بہت قلیل نشان ہوتا ہے مگر وہ مجل سے کمتر حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ مجل ایک خالی اور بالکل بیکار ہونے کی وجہ سے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ لیکن یہ جواب زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ ایک شارح نے اس بحث پر ایک دوسرے انداز سے روشنی ڈالی ہے ان کے منقولات کے مطابق اس دوسری حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جن اہل ایمان کے قوائے فکر و عمل پر غفلت وبے حسی طاری ہوجائے گی اور گناہوں کے ارتکاب کی صورت میں دین شریعت کے ساتھ ان کا تعلق نہایت کمزور پڑجائے گا ان کے دلوں سے امانت جاتی رہے گی چناچہ جب اس کا ایک حصہ زائل ہوجائے گا تو ان کے دلوں میں سے اس کا نور بھی زائل ہوجائے گا اور اس کی جگہ وکت کی طرح ظلمت وتاری کی پیدا ہوجائے گی اور اس کی مثال ایسی جیسے کسی چیز میں اس کا مخالف رنگ نمودار ہوجائے مثلا سفید چیز میں سیاہ رنگ کا نمودار ہوجانا اور جب دین و شریعت کے تئیں غفلت و کوتاہی اور بڑھ جائے گی اور گناہوں کا ارتکاب پہلے سے بھی زیادہ ہوجائے تو نور امانت کا جو حصہ باقی رہ گیا تھا اس میں سے کچھ اور زائل ہوجائے گا اور اس کی مثال ؛ ایسی ہے جیسے جسم کے کسی حصہ پر مجل (یعنی آبلہ یا گٹھے کا نشان) اتنا گہرا اور اس قدر سخت ہوتا ہے کہ جلد زائل نہیں ہوتا، پس دوسری مرتبہ دل میں جو تاریکی پیدا ہوگی وہ پہلی مرتبہ پیدا ہونے والی تاریکی سے زیادہ پھیلی ہوئی اور گہری ہوگی۔ مذکورہ صورت حال کو اس مثال کے ذریعہ بیان فرمانے کے بعد پھر یہ فرمایا کہ قلب انسانی میں ایمان و امانت کے نور کا پیدا ہونا اور پھر نکل جانا یا دلوں میں اس نور کا جگہ پکڑنا اور پھر اس کے زائل ہوجانے کے بعد تاریکی کا آجانا ایسی تشبیہ رکھتا ہے جیسا کہ کوئی آگ کا انگارہ لے کر اس کو اپنے پیر پر ڈال لے اور انگارہ پیر کو جلا کر زائل ہوجائے اور پھر جلی ہوئی جگہ پر آبلہ پڑجائے۔ ایک اور شارح نے یہ لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں امانت کا نور پیدا کیا تاکہ وہ اس کی روشنی میں فلاح کے راستہ پر چلیں اور دین و شریعت کے پیروکار بنیں لیکن جب وہ لوگ اس نعمت سے بےپرواہ ہوجائیں گے، دین و شریعت کے تئیں غفلت و کوتاہی میں پڑجائیں گے اور گناہوں کا ارتکاب کرنے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر ان لوگوں سے یہ نعمت واپس لے لے گا۔ بایں طور کہ ان کے دل سے امانت نکل جائے گی، یہاں تک کہ جب وہ خواب غفلت سے بیدار ہوں گے تو محسوس کریں گے کہ ان کے قلب کی وہ حالت نہیں ہے جو امانت کی موجودگی میں پہلے تھی۔ البتہ ان کے دلوں میں اس امانت کا نشان باقی رہے جو کبھی وکت کی طرح ہوگا اور کبھی مجل کی طرح ہوگا۔ ، پس مجل اگرچہ مصدر ہے لیکن یہاں اس سے مراد نفس آبلہ ہے اور یہ یعنی مجل پہلے مرتبہ یعنی وکت سے کمتر درجہ ہے۔ کیونکہ وکت کے ذریعہ اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ اگرچہ امانت دل سے نکل جائے گی مگر نشان کی صورت میں اس کا کچھ نہ کچھ حصہ باقی رہے گا۔ حدیث کے آخری الفاظ حالانکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان نہیں ہوگا دونوں احتمال رکھتے ہیں یا تو اصل ایمان کی نفی مراد ہے، یعنی اس شخص کے سرے سے ایمان کا وجود ہی نہیں ہوگا، یا کمال ایمان کی نفی مراد ہے کہ ارشاد گرامی کے اس جزو کا حاصل یہ ہے کہ لوگ اس شخص کی عقل و دانائی کی زیادتی اور چالاکی اور مہارت وغیرہ کی تعریف کریں گے اور اس کے تئیں تعجب تحسین کا اظہار کریں گے لیکن کسی ایسے شخص کی تعریف و توصیف نہیں کریں گے جس میں بہت زیادہ علم وفضل ہوگا اور جو عمل صالح کی دولت سے مالا مال ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز ایمان اور پاکیزگی فکر و عمل ہے۔ اگر کسی شخص میں ایمان و پاکیزگی کی دولت نہ ہو تو خواہ وہ دنیا بھر کی تمام نعمتوں، کامرانیوں اور خوبیوں کا حامل ہو اس کی کوئی حقیقت نہ ہوگی اگرچہ دنیا والے اس کی کتنی ہی تعریف وتحسین کریں اور اس کی ان خوبیوں و کامرانیوں کی وجہ سے اس کو کتنا ہی بہتر و برتر جانیں لہٰذا تعریف وتحسین اس شخص کے حق میں معتبر ہوگی جو ایمان وتقویٰ کا حامل ہو۔

【5】

جب فتنوں کا ظہور ہو تو گوشہ عافیت تلاش کرو

حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ لوگ تو اکثر رسول کریم ﷺ سے خیر ونی کی اور بھلائی کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں آپ ﷺ سے شر و برائی کے بارے میں دریافت کیا کرتا تھا اس خوف کی وجہ سے کہ کہیں میں کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہوجاؤ (یعنی دوسرے صحابہ تو عبادت وطاعت کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ نیک عمل اور اچھے کام کرسکیں یا یہ کہ وہ لوگ آپ ﷺ سے اپنے رزق میں وسعت و خوشحالی کی دعا کرتے تھے تاکہ انہیں اطمینان و فراغت حاصل ہو اور اپنی دنیا کو آخرت کی فلاح و کامیابی کا ذریعہ بنا سکیں لیکن ان کے برخلاف میرا معمول دوسرا تھا، میں حضور ﷺ سے گناہ اور برائیوں کے بارے میں پوچھا کرتا تھا کہ ان سے اجتناب کرسکوں یا یہ کہ ان فتنوں کے بارے میں پوچھتا تھا جو اس دنیا میں ظہور پذیر ہوسکتے ہیں اور جو نہ صرف اخروی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ ان کے برے اثرات دنیاوی خوشحالی اور رزق کی وسعت پر بھی پڑتے ہیں اور پوچھنے کی بناء یہ خوف ہوتا تھا کہ کہیں میں ان فتنوں میں مبتلا نہ ہوجاؤں یا ان کے برے اثرات و اسباب مجھ تک نہ پہنچ جائیں چناچہ اہل علم سے برائیوں کی واقفیت حاصل کر کے ان سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا ایک بہترین طریق ہے۔ اسی لئے حکماء اور اطبا بلکہ بعض فضلاء نے اس طریق کو بطور اصل اختیار کیا ہے کہ ازالہ مرض سلسلہ میں پرہیز کو ملحوظ رکھنا دوا استعمال کرنے سے زیادہ بہتر ہے نیز کلمہ توحید بھی اسی اصول کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے ما سوی اللہ کی نفی کی گئی ہے اس کے بعد الوہیت کو ثابت کیا گیا) حضرت حذیفہ (رض) نے بیان کیا کہ اپنی مذکورہ عادت کے مطابق ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم لوگ اسلام سے قبل جاہلیت اور برائی میں مبتلا تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی بعثت کے صدقہ میں ہمیں یہ ہدایت بخشی یعنی اسلام کی روشنی عطا فرمائی جس کی وجہ سے کفر ضلالت کے اندھیرے دور ہوگئے اور ہم گمراہیوں اور برائیوں کے جال سے باہر آگئے تو کیا اس ہدایت و بھلائی کے بعد کوئی اور برائی وبدی پیش آنے والی ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں ! (اس بھلائی کے بعد بھی برائی پیش آنے والی ہے) ۔ میں نے عرض کیا تو کیا اس برائی کے بعد پھر بھلائی کا ظہور ہوگا کہ جس کی وجہ سے دین و شریعت کا پھر بول بالا ہوجائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! اس برائی کے بعد پھر بھلائی کا ظہور ہوگا لیکن اس برائی کے بعد پھر بھلائی کا ظہور ہوگا لیکن اس برائی کے بعد جو بھلائی آئے گی اس میں کدورت ہوگی۔ میں نے عرض کیا کہ اس بھلائی کی کدورت کیا ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ میں نے کدورت کی جو بات کہی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میرے طریقہ اور میری روش کے خلاف طریقہ و روش اختیار کریں گے۔ لوگوں کو میرے بتائے ہوئے راستہ کے خلاف راستہ پر چلائیں گے۔ اور میری سیرت اور میرے کردار کے خلاف سیرت و کردار اپنائیں گے تم ان میں دین دار بھی دیکھو گے اور بےدین بھی۔ میں نے عرض کیا، کیا اس بھلائی کے بعد پھر کوئی برائی پیش آئے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر مخلوق کو اپنی طرف بلائی گے جو شخص ان کے بلاوے کو قبول کر کے دوزخ کی طرف جانا چاہے گا اس کو وہ دوزخ میں دھکیل دیں گے یعنی جو شخص ان کے بہکاوے میں آ کر ان گمراہیوں میں مبتلا ہوگا جو دوزخ کے عذاب کا مستوجب بناتی ہیں تو وہ دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ ان کے بارے میں وضاحت فرمائیے کہ وہ کون لوگ ہوں گے آیا وہ مسلمانوں ہی میں سے ہوں گے یا غیر مسلم ہوں گے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ وہ ہماری قوم، ہمارے ابناء جنس اور ہماری ملت کے لوگوں میں سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے (یعنی وہ لوگ عربی زبان رکھنے والے ہونگے یا یہ مراد ہے کہ ان کی گفتگو قرآن و حدیث کے حوالوں سے مزین اور پند و نصائح سے آراستہ ہوگی اور بظاہر ان کی زبان پر دین و مذہب کی باتیں ہوں گی مگر ان کے دل نیکی و بھلائی سے خالی ہوں گے) میں نے عرض کیا کہ تو پھر میرے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے (یعنی اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاؤں تو مجھے اس وقت کیا کرنا چاہئے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ کتاب وسنت پر عمل کرنے والے مسلمانوں کی جماعت کو لازم جاننا اور ان کے امیر کی اطاعت کرنا یعنی اہل سنت کے راستہ کو اختیار کرنا اور اہل سنت کا جو امام و مقتدا ہو اس کی اطاعت و رعایت کو ملحوظ رکھنا میں نے عرض کیا کہ اور اگر مسلمانوں کی کوئی مسلمہ جماعت ہی نہ ہو ؟ اور نہ ان کا کوئی متفقہ امیر ومقتدا ہو بلکہ مسلمان مختلف جماعتوں میں منقسم ہوں اور الگ الگ مقتداؤں کے پیچھے چلتے ہوں تو اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ایسی صورت میں تمہیں ان سب فرقوں اور جماعتوں سے صرف نظر کر کے یکسوئی اختیار کر لینی چاہئے اگرچہ اس یکسوئی کے لئے تمہیں کسی درخت کی جڑ میں پناہ کیوں نہ لینی پڑے جنگلوں میں چھپنا کیوں نہ پڑے اور اس کی وجہ سے سخت سے سخت مصائب وشدائد برداشت کیوں نہ کرنا پڑے اور ان جنگلوں میں گھاس پھوس کھانے پر قناعت تک کی نوبت کیوں نہ آجائے یہاں تک اسی یکسوئی کی حالت میں موت تمہیں اپنی آغوش میں لے لے۔ (بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میرے بعد ایسے امام یعنی امیر بادشاہ اور قائد رہنما ہوں گے جو عقیدہ وفکر اور علم کے اعتبار سے میری سیدھی راہ پر نہیں چلیں گے اور کردار وعمل کے اعتبار سے میری روش اور میرا طریقہ نہیں اپنائیں گے یا یہ معنی ہیں کہ وہ کتاب وسنت پر عمل نہیں کریں گے اور اس زمانہ میں ایسے بھی پیدا ہوں گے جو روپ اور بدن تو آدمیوں جیسا رکھیں گے لیکن ان کے دل شیطانوں کے سے ہوں گے یعنی وہ لوگ فسق و گمراہی شقاوت سخت دلی، شکوک و شبہات پیدا کرنے، فریب دینے عقل کے نکمے ہونے اور فاسد خواہشات رکھنے میں انسانیت کی ساری حدوں کو پار کر جائیں گے اور اس اعتبار سے ان کی شکل کو صورت آدمیوں جیسی ہونے کے باوجود ان کی سیرت اور ان کی باطنیت شیطان کی سی ہوگی۔ حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر میں اس زمانہ کو پاؤں تو کیا کرو ؟ آپ نے فرمایا۔ مسلمانوں کا امیر ومقتدا جو کچھ کہے اس کو سننا اور امیر کی اطاعت کرنا (بشرطیکہ اس اطاعت کا تعلق کسی معصیت سے نہ ہو) اگرچہ تمہاری پشت پر مارا جائے اور تمہارا مال چھین لیا جائے تب بھی سننا اور طاعت کرنا۔ تشریح لفظ شر سے مراد فتنہ، ارکان اسلام میں سستی و کوتاہی واقع ہوجانا، برائی کا غلبہ پالینا اور بدعت کا پھیلنا ہے اور خیر سے مراد اس کے برعکس معنی ہیں۔ ہم لوگ جاہلیت اور برائی میں مبتلا تھے کے ذریعہ حضرت حذیفہ (رض) نے بعثت نبوی سے قبل کے زمانہ کی طرف اشارہ کیا جب توحید کا آفتاب جہالت کے بادلوں میں چھپا ہوا تھا، نبوت و رسالت کی روشنی نمودار نہیں ہوتی تھی۔ اور احکام الٰہی پر عمل آوری کا راستہ نظروں سے اوجھل تھا۔ فی جاہلیۃ و شر میں وشر کا لفظ عطف تفسیری ہے کہ اس لفظ کے ذریعہ جاہلیت کی وضاحت بیان کرنا مقصود ہے یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس جملہ میں وشر کے بعد تخصیص کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ دخن جس کا ترجمہ کدورت کیا گیا ہے۔ دخان (دھواں) کے معنی میں ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح فضا میں پھیلا ہوا دھواں صاف و شفاف چیزوں کو مکدر اور دھندلا بنا دیتا ہے اسی طرح اس وقت جو بھلائی بھی سامنے آئے گی وہ بدی اور برائی کے گرد و غبار سے آلودہ ہوگی، بایں طور کہ لوگوں کے دلوں میں صفائی اور خلوص نہیں ہوگا جو اس اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھا۔ اور عقیدے صحیح اور اعمال صالح نہیں ہوں گے، امراء و سلاطین کا نظم مملکت اس عدل و انصاف پر مبنی نہیں ہوگا جو پہلے زمانہ میں پایا جاتا تھا مسلمانوں کے قائد و رہنما مخلص (بےغرض اور دین وملت کے سچے خادم نہیں ہوں گے، برائیوں کا ظہور ہوگا، بدعتیں پیدا ہوں گی بدکار لوگ نیکو کاروں کے ساتھ اہل بدعت، اہل سنت کے ساتھ خلط ملط رہیں گے۔ تم ان میں دیندار بھی دیکھو گے اور بےدین بھی کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ بھلائی اور برائی دونوں کے ساتھ خلط ملط رکھنے کی وجہ سے متضاد اور مختلف اعمال و کردار اور طور طریقوں کے حامل ہوں گے ؟ ان کی زندگی میں منکر یعنی بری باتوں کا چلن بھی ہوگا اور معروف یعنی اچھے کاموں کا عمل دخل بھی ہوگا۔ پس یہ جملہ بھی اسی مفہوم کو واضح کرتا ہے جو ماقبل کے جملوں نعم وفیہ دخن ویستنون بغیر سنتی سے مراد لیا گیا ہے۔ بعض حضرات نے وضاحت کی ہے کہ اس ارشاد گرامی میں اسلام و ہدایت کی روشنی کے بعد پیش آنے والی جس پہلی برائی یا فتنہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے وہ فتنہ و فساد مراد ہے جو حضرت عثمان غنی (رض) کے سانحہ شہادت کے وقت رونما ہو اور پھر پیش آنے والی دوسری بھلائی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے مراد حضرت عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ خلافت ہے، نیز منہم وتنکر یعنی تم ان میں دیندار بھی دیکھو گے اور بےدین بھی۔ میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے وہ امراء و سلاطین مراد ہیں جو حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد حکمراں ہوئے چناچہ ان میں سے بعض ایسے حکمران گزرے جو اپنی ذاتی زندگی میں بھی اور اپنے نظام سلطنت میں بھی کتاب وسنت کی ہدایت کو رہنما بناتے تھے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے تھے۔ یا یہ کہ بعض ان میں سے ایسے تھے جو کبھی تو اچھے کام کرتے تھے اور کبھی خواہشات نفسانی میں پڑ کر برے کام کرتے تھے، اس وقت ان کے سامنے آخرت کا مفاد اور دار آخرت کے لئے تیاری کا جذبہ نہیں ہوتا تھا، بلکہ ان کا اصل مفاد اپنی ذاتی اغراض کو پورا کرنا اور ہر صورت اپنے اقتدار اور اپنی حکمرانی کو باقی رکھنا ہوتا تھا۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ پہلی برائی سے مراد وہ فتنہ و فساد ہے جو حضرت عثمان غنی (رض) کے قتل کی صورت میں اور ان کے بعد رونما ہوا اور دوسری بھلائی سے وہ صلح صفائی ہے جو حضرت امیر معاویہ (رض) اور حضرت حسن (رض) کے درمیان ہوئی اور دخن یعنی کدورت سے مراد وہ افسوسناک واقعات، حادثات ہیں جو حضرت امیر معایہ (رض) کے زمانے میں بعض امراء کے ذریعہ رونما ہوئے جیسے عراق میں زیاد کا فتنہ و فساد۔ جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر بلائیں گے یعنی ان مفاد پرست خود غرض اور گمراہ افراد کا ایک گروہ ہوگا جو لوگوں کو طرح طرح کے فریب اور مختلف لالچ اور بہلادوں کے ذریعہ گمراہی کی طرف بلائیں گے اور ان کو ہدایت و راستی سے دور رکھے گا۔ پس حضور ﷺ نے گمراہی کی دعوت دینے والوں کی دعوت کو اور جن کو دعوت دی جائے گی ان کی طرف سے اس دعوت کو قبول کئے جانے کو ایک ایسا سبب قرار دیا ہے جس کے ذریعہ دعوت دینے والے، دعوت قبول کرنے والوں کو جہنم میں دھکیل دیں گے اس طرح وہ لوگ ان کی مکر و فریب دعوت کا شکار ہو کر جہنم میں پہلے جائیں گے، نیز آپ ﷺ نے گویا مکر و فریب کی تمام اقسام اور تمام صورتوں کو جہنم کے دروازوں کا قائم مقام قرار دیا ہے۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہاں جن افراد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہی کی طرف بلائیں گے ان سے وہ جاہ پسند اور حکومت و اقتدار کے طلبگار مراد ہیں جو ملک وقوم پر اپنا تسلط قائم کرنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے گروہ بنائیں گے اور عام لوگوں کو طرح طرح کے فریب دے کر اپنے گرد جمع کریں گے تاکہ ان کی اجتماعی طاقت کے ذریعہ ملی سیادت اور ملک و حکومت پر قبضہ کرسکیں، جیسا کہ خوارج اور روافض جیسے گمراہ فرقے اس ناپاک مقصد کے لئے پیدا ہوئے حالانکہ امارت وسیادت اور امانت و ولایت کی کوئی بھی شرط وخصوصیت ان میں موجود نہیں پائی جائے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل وضاحت ہے کہ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ و دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے۔ تو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہونا، مال کار کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے یعنی گمراہی کی طرف ان لوگوں کے بلانے کا مآل کار چونکہ یہ ہوگا کہ جو لوگ ان کے بلانے پر ان کی طرف چلے جائیں گے وہ دوزخ کے عذاب کے مستوجب بنیں گے۔ اس لئے گمراہی کی طرف ان کے بلانے کو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر بلانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پس یہ ارشاد گرامی اسلوب کے اعتبار سے قرآن کریم اس آیت کی طرح ہے کہ (اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا) 4 ۔ النساء 10) مسلم کی روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کسی ایسے ملک میں رہتے ہو جہاں مسلمانوں کا باقاعدہ نظم سلطنت قائم ہے اور مسلمانوں کا امیر و امام موجود ہے تو وہاں کے سیاسی حالات میں تمہارے لئے کتنی ہی تنگی و سختی کیوں نہ ہو اور اس امیر و امام کی طرف سے تمہارے مال اور تمہاری جان کے تئیں ظلم ہی کیوں نہ ہوتا ہو یا تمہیں مارا پیٹا اور تمہارا مال و اسباب چھینا کیوں نہ جاتا ہو، تم اس امیر و امام کے خلاف علم بغاوت ہرگز بلند نہ کرنا اور فتنہ و فساد کے دروازے نہ کھولنا بلکہ صبر و تحمل کی راہ اختیار کئے رہنا اور سخت سے سخت حالات میں بھی امام وقت سے بغاوت کر کے دین وملت کے شیرازہ کو منتشر کرنے کا سبب نہ بننا رہی بات یہ کہ اگر وہ امیر و امام مشروع امور کے ارتکاب کا حکم دے ؟ تو اس صورت میں مسئلہ یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے ہاں اگر ان مشروع امور کے ارتکاب کے لئے کہا جائے کہ حکم عدولی کی صورت میں بھی اولیٰ کو اختیار کرنے کا جواز باقی رہتا ہے یعنی حکم عدولی کی صورت میں جان جانے کا خوف ہو تو غیر مشروع امر کا ارتکاب کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص جان کی بازی لگا کر بھی غیر مشروع امر کے ارتکاب سے انکار کرے تو یہ سب سے اچھی بات ہوگی۔ اور اس سب سے اعلی درجہ کو اختیار کرنے کا جواز ہے۔ آخر میں فاسمع واطع کے الفاظ جو دوبارہ ارشاد فرمائے گئے ہیں ان سے اس حکم کو مؤ کد کرنا مقصود ہے کہ اپنے کو امام وقت کی اطاعت سے علیحدہ نہ کیا جائے اور سرکشی و بغاوت کے ذریعہ ملک وملت میں انتشار و تفریق کا فتنہ نہ اٹھایا جائے۔

【6】

اس سے قبل کہ فتنوں کا ظہور ہو، اعمال صالحہ کے ذریعہ اپنی زندگی مستحکم کر لو

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اعمال صالحہ میں جلدی کرو قبل اس کے کہ وہ فتنے ظاہر ہوجائیں جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے اور ان فتنوں کا اثر ہوگا کہ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر بن جائے گا اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا، نیز اپنے دین و مذہب کو دنیا کی تھوڑی سی متاع کے عوض بیچ ڈالے گا۔ (مسلم) تشریح اعمال صالحہ میں جلدی کرو کی ہدایت کا حاصل یہ ہے کہ اس تغیر پذیر دنیا کو کسی ایک رخ پر قرار نہیں اور وقت حالت کا بہاؤ ایک ہی سمت نہیں رہتا، اگر اب ایسے حالات ہیں جو عقیدہ و عمل کا رخ صحیح سمت رکھنے میں معاون بنتے ہیں تو بعد میں ایسے حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں جو فکر ونظریات اور عقیدہ وعمل کا سفر ٹھیک رخ پر جاری رکھنے میں زبر دست رکاوٹ پیدا کردیں اور ایسے میں کم ہی انسان ایسے ہوتے ہیں جن کے ذہن وفکر اور دل و دماغ ان حالات کی تاثیر سے محفوظ رہ پائیں اور جن کے اعمال صالحہ میں رکاوٹ نہ پیدا ہوتی ہو، پس جس شخص کو جو بھی موقع ملے اس میں اچھے کام اور نیک عمل کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور جس قدر بھی اعمال کئے جاسکتے ہوں کر لئے جائیں کیونکہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا وقت کیا فتنے لے کر آئے اور پھر اعمال صالحہ اختیار کرنے کا موقع بھی مل سکے یا نہیں۔ فتنوں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے فتنوں کے بارے میں کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکے گا کہ وہ کب اور کیوں نمودار ہوں گے اور ان سے چھٹکارے کی راہ کیا ہوگی، لہٰذا ان آنے والے فتنوں سے پہلے ہی اعمال صالحہ کے ذریعے اپنی دینی زندگی کو مضبوط ومستحکم بنا لو، آنے والے وقت کا انتظار نہ کرو کیونکہ اس وقت دین و شریعت کے تعلق سے سخت ترین آفات و مصائب میں اس طرح گم ہو کر رہ جاؤ گے کہ نیک کام کرنے کا موقع ہی نہ پا سکو گے۔ وہ وقت لوگوں کے ذہن وفکر اور اعمال و کردار پر کتنا برا اثر ڈالے گا اور وہ فتنے کس قدر سریع الاثر ہوں گے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ مثلا آدمی جب صبح کو اٹھے گا تو ایمان یعنی اصل ایمان یا کمال ایمان کے ساتھ متصف ہوگا لیکن شام ہوتے ہوتے کفر کے اندھیروں میں پہنچ جائے گا۔ رہی یہ بات کہ کفر سے کیا مراد ہے ؟ تو ہوسکتا ہے کہ اصل کفر مراد ہو، یعنی وہ شخص واقعۃ کفر کے دائرہ میں داخل ہوجائے گا یا یہ مراد ہے کہ وہ کفران نعمت کرنے والا ہوجائے گا، یا وہ کافروں کی مشابہت اختیار کرلے گا اور یا یہ کہ وہ ایسے کام کرنے لگے گا جو صرف کافر ہی کرتے ہیں۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مذکورہ جملہ کے معنی یہ ہیں کہ مثلا ایک شخص جب صبح کو اٹھے گا تو اس چیز کو حلال جانتا ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور اس چیز کو حرام جانتا ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، لیکن شام ہوتے ہوتے اس کے ذہن وفکر اور اس کے عقیدے میں اس طرح انقلاب آجائے گا کہ وہ اس چیز کو حرام سمجھنے لگے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور اس چیز کو حلال سمجھنے لگے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ اس پر جملہ کے دوسرے جزء یعنی شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کفر کی حالت میں ا تھے گا۔ کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اور حاصل یہ ہے کہ عام لوگ ان فتنوں کی وجہ سے دین و شریعت کے معاملات میں تذبذب وتردد کا شکار ہوجائیں اور نام نہاد دانشور و عالم اور دنیادار مقتداؤں کے پیچھے چلنے لگیں گے۔ مظہر نے کہا ہے کہ مذکورہ صورت حال کے کئی وجوہ و اسباب اور مختلف مظاہر ہوں گے ایک تو یہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑجائے گا اور وہ مخالف گروہوں میں بٹ جائیں گے۔ پس ان کے درمیان محض عصبیت اور بغض وعناد کی وجہ سے خونریزی ہوگی اور دونوں گروہوں کے لوگ اپنے مخالفین کے جان و مال کو نقصان پہنچانے اور ایک دوسرے کی آبرو ریزی کرنے کو حلال و جائز جانیں گے، دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے حاکم و امراء ظلم وجور کا شیوہ اپنا لیں گے۔ چناچہ وہ مسلمانوں کا ناحق خون بہائیں گے، زور زبردستی ان کا مال لیں گے زنا کاری کریں گے، شراب پئیں گے اور دوسرے حرام امور کا ارتکاب کریں گے، لیکن ان کی صریح زیادتیوں اور بدکاریوں کے باوجود بعض لوگ یہ عقیدہ رکھیں گے اور دوسرے حرام امور کا ارتکاب کریں گے، لیکن ان کی بدعقیدگی کے اس فتنہ میں مبتلا کرنے والے وہ نام نہاد علماء ہوں گے جن کو علماء سو کہا جاتا ہے۔ ان کی طرف سے بےمحابا ان امراء و حکام کے ان کاموں کے جواز کا فتوی دیا جائے گا جو وہ مسلمانوں کی خونریزی اور حرام امور کے ارتکاب کی صورت میں کریں گے اور تیسرے یہ کہ عام مسلمانوں میں جہالت اور دین کی ناواقفیت کی وجہ سے جو برائیاں پھیل جائیں گی اور ان سے جن غیر شرعی امور کا صدور ہوگا جیسے خریدو فروخت کے معاملات اور دوسرے سماجی امور و تعلقات میں دین و شریعت کے احکام کی خلاف ورزی، ان کو حلال و جائز مانیں گے۔ اور حضرت شیخ عبدالحق نے یہ لکھا ہے کہ مذکورہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوگی کہ لوگ اپنے اغراض و منافع کی خاطر، دنیادار امراء و حکام اور اہل دولت و ثروت سے میل جول رکھیں گے ان سے حاجت روائی کی امید میں ان کے ہاں گھستے پھریں گے ان کی حاشیہ نشینی اور مصاحبت کو بڑا اعزاز سمجھیں گے، پس اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ان کے تابع محض اور جی حضوری بن جائیں گے اور ان کے خلاف شریعت امور و معاملات میں ان کی موافقت تائید کرنے پر مجبور ہوں گے۔ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا الخ کے ایک معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ آدمی صبح کو اٹھے گا تو اپنے مسلمان بھائی کے خون اور مال وعزت کے حرام ہونے کا عقیدہ رکھنے کے سبب ایمان کی حالت میں ہوگا مگر شام ہوتے ہوئے اس کے عقیدے میں تبدیلی آجائے گی اور وہ اپنے مسلمان بھائی کے خون اور مال کو حلال سمجھنے لگے گا اور اس کے سبب وہ کافر قرار دیا جائے گا یہ معنی اختیار کرنے کی صورت میں فتنوں سے مراد جنگ و قتال ہوگا۔ لیکن اس جملہ کے جو معنی پہلے بیان کئے گئے ہیں وہ حضور ﷺ کے ارشاد گرامی کے زیادہ مناسب ہیں۔

【7】

فتنوں کے ظہور کے وقت گوشہ عافیت میں چھپ جاؤ

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ عنقریب فتنے پیدا ہوں گے یعنی جلد ہی ایک بڑا فتنہ سامنے آنے والا ہے یا یہ کہ پے بہ پے یا تھوڑے تھوڑے وقفہ سے بہت زیادہ فتنوں کا ظہور ہونے والا ہے ان فتنوں میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا سعی کرنے والے (یعنی کسی سواری کے ذریعہ یا پاپیادہ دوڑنے والے اور جلدی چلنے والے) بہتر ہوگا اور جو شخص فتنوں کی طرف جھانکے گا فتنہ اس کو اپنی طرف کھینچ لے گا پس جو شخص ان فتنوں سے نجات کی کوئی جگہ یا اس سے بھاگنے کا کوئی راستہ یا پناہ گاہ پائے اور یا کوئی ایسا آدمی اس کو مل جائے جس کے دامن میں وہ ان ان فتنوں سے پناہ لے سکتا ہو تو اس شخص کو چاہئے کہ اس کے ذریعہ پناہ حاصل کرلے یعنی اگر ان فتنوں سے بھاگنے کا کوئی راستہ مل سکتا ہو تو فتنوں کی جگہ سے نکل بھاگے یا کوئی ایسی جگہ اس کو معلوم ہو کہ جہاں چھپ جانے کی وجہ سے ان فتنوں سے پناہ مل سکتی ہو تو وہاں جا کر چھپ جائے اور یا اگر کوئی آدمی اپنے سایہ عاطفت میں پناہ دینے والا مل سکتا ہو تو پاس جا کر پناہ گزین ہوجائے۔ (بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ جب کوئی فتنہ ظاہر ہوگا تو اس فتنہ میں سونے والا شخص (جو اس فتنہ سے غافل اور بیخبر ہو اور اس کے بارے میں اطلاعات نہ سنتا ہو) جاگنے والے (یعنی اس فتنہ کو جاننے اور اس کی خبر رکھنے والے سے بہتر ہوگا، جاگنے والا شخص کہ خواہ وہ لیٹا ہوا ہو یا بیٹھا ہوا) کھڑا رہنے والے سے بہتر ہوگا اور اس فتنہ میں کھڑا ہونے والا شخص اس فتنہ میں سعی کوشش کرنے والے سے بہتر ہوگا (یہاں سعی کا لفظ مشی یعنی چلنے والے کے معنی میں ہے اور کسی چیز کی طرف چلنا گویا اس چیز کے حق میں سعی و کوشش کرنے کے مترادف ہوتا ہے، صراح میں لکھا ہے کہ سعی کے معنی ہیں دوڑنا، جلدی کرنا اور کسی چیز کے حق میں محنت وعمل کرنا پس اس فتنہ میں سعی کرنے والے سے مراد اس فتنہ میں مدد و تعاون دینا اور اس کے حق میں سعی و کوشش کرنا ہے، لہٰذا جو شخص اس فتنہ سے بھاگنے کا راستہ یا اس سے پناہ کی جگہ پائے تو اس کو چاہئے کہ وہاں جا کر پناہ حاصل کرلے۔ تشریح فتنہ میں بیٹھنے والا، کھڑے ہونے والے سے اس لئے بہتر ہوگا کہ کسی چیز کے پاس کھڑے رہنے والا شخص اس چیز سے زیادہ قربت اور مناسبت رکھتا ہے کہ وہ اس چیز کو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے جب کہ ادھر ادھر بیٹھا رہنے والا شخص اس چیز کو نہ دیکھتا ہے نہ سنتا ہے لہٰذا فتنوں میں کھڑا رہنے والا شخص ان کو دیکھنے اور سننے کی وجہ سے کہ جن کو بیٹھا ہوا شخص نہیں دیکھے، سنے گا عذاب سے زیادہ قریب ہوگا، ہوسکتا ہے کہ اس جملہ میں بیٹھنے والے شخص سے مراد وہ شخص ہو جو اس زمانہ میں ظاہر ہونے والے فتنہ کا محرک نہ ہو بلکہ اس سے دور رہ کر اپنے مکان میں بیٹھا رہے اور باہر نہ نکلے اور کھڑے ہونے والے سے مراد وہ شخص ہو جس کے اندر اس فتنہ کے تعلق سے کوئی داعیہ اور تحریک تو ہو مگر فتنہ انگیزی میں متردد ہو۔ جو شخص فتنوں کی طرف جھانکے گا الخ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان فتنوں کی طرف متوجہ ہوگا اور ان کے نزدیک جائے گا تو اس کی وہ توجہ اور نزدیکی اس کے ان فتنوں میں مبتلا ہوجانے کا باعث ہوگی، لہٰذا ان فتنوں کی برائیوں سے بچنے اور ان کے جال سے خلاصی پانے کی صورت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگی کہ ان فتنوں سے جتنا زیادہ دور رہنا ممکن ہو اتنا ہی زیادہ دور رہا جائے۔

【8】

فتنوں کے ظہور کے وقت گوشہ عافیت میں چھپ جاؤ

حضرت ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عنقریب فتنوں کا ظہور ہوگا، یاد رکھو پھر فتنے پیدا ہوں گے اور یاد رکھو ان فتنوں میں سے ایک بہت بڑا فتنہ (یعنی مسلمانوں کی باہمی محاذ آرائی اور خونریزی کا حادثہ پیش آئے گا، اس فتنہ میں بیٹھا ہوا شخص چلنے والے شخص سے بہتر ہوگا اور چلنے والا شخص اس فتنہ کی طرف دوڑنے والے شخص سے بہتر ہوگا۔ پس آگاہ رہو ! جب وہ فتنہ پیش آئے تو جس شخص کے پاس جنگل میں اونٹ ہوں اوہ اپنے اونٹوں کے پاس جنگل میں چلا جائے جس شخص کے بکریاں ہوں وہ بکریوں کے پاس چلا جائے اور جس شخص کے پاس اس فتنہ کی جگہ کہیں دور کوئی زمین ومکان وغیرہ ہو وہ اپنی اس زمین پر یا اس مکان میں چلا جائے۔ (حاصل یہ کہ جس جگہ وہ فتنہ ظاہر ہو وہاں نہ ٹھہرے بلکہ اس جگہ کو چھوڑ کر کہیں دور چلا جائے اور گوشہ عافیت پکڑ لے یا اس فتنہ سے غیر متوجہ ہو کر اپنے کاروبار میں مشغول ومنہمک ہوجائے ایک شخص نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے یہ بتائیے کہ اگر کسی شخص کے پاس نہ اونٹ ہوں نہ بکریاں اور نہ کسی دوسری جگہ کوئی زمین ومکان وغیرہ ہو جہاں وہ جا کر گوشہ عافیت اختیار کرے اور اس فتنہ کی جگہ سے دور رہ سکے تو اس کو کیا کرنا چاہئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اس کو چاہئے کہ وہ اپنی تلوار کی طرف متوجہ ہو اور اس کو پتھر پر مار کر توڑ ڈالے۔ (یعنی اس کے پاس جو بھی آلات حرب اور ہتھیار ہوں ان کو بےکار اور ناقابل استعمال بنا دے تاکہ اس کے دل میں جنگ وپیکار کا خیال ہی پیدا نہ ہو اور وہ مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدل کے اس فتنہ میں شریک ہی نہ ہو سکے۔ یہ حکم اس لئے ہے کہ جس لڑائی میں دونوں طرف سے مسلمان برسرپیکار ہوں اور ایک دوسرے کی خونریزی کر رہے ہوں، اس میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔ اور پھر اس شخص کو چاہئے کہ اگر وہ فتنہ کی جگہ سے بھاگ سکے تو جلد نکل بھاگے۔ تاکہ وہ اس فتنہ کے اثرات سے محفوظ رہ سکے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا۔ اے اللہ میں نے تیرے احکام تیرے بندوں کو پہنچا دیئے۔ یہ الفاظ آپ ﷺ نے تین بار فرمائے ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھ یہ بتائیے کہ اگر مجھے مجبور کر کے یعنی زور و زبردستی سے لڑنے والے دونوں فریق میں سے کسی ایک فریق کی صف میں لے جایا جائے اور وہاں سے کسی شخص کی تلوار سے مارا جاؤں یا کسی کا تیر آ کر مجھ کو لگے جو مجھے موت کی آغوش میں پہنچا دے تو اس صورت میں قاتل اور مقتول کا کیا حکم ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ تمہارا وہ قاتل اپنے اور تمہارے گناہ کے ساتھ لوٹے گا اور دوزخیوں میں شمار ہوگا۔ (مسلم) تشریح علماء اسلام کے ہاں یہ ایک طویل بحث ہے کہ اگر افتراق و انتشار کا کوئی فتنہ ابھر آئے اور کچھ مسلمان دو فریق میں تقسیم ہو کر آپس میں جنگ وجدال کرنے لگیں تو اس وقت باقی مسلمانوں کا طرز عمل کیا ہونا چاہئے ؟ اہل علم کی ایک جماعت کا یہ کہنا ہے کہ افتراق و انتشار اور مسلمانوں کی باہمی محاذ آرائی کی صورت میں کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ قتل و قتال میں شریک ہو، بلکہ جب مسلمانوں کے دو فریق آپس میں جنگ وجدال کریں تو اس میں شامل ہونے سے احتراز کرنا اور دونوں فریق سے یکسوئی وغیرہ جانب داری اختیار کر کے گوشہ عافیت پکڑنا واجب ہے۔ ان حضرات کی دلیل مذکورہ بالا ارشاد گرامی اور اس طرح کی دوسری احادیث ہیں۔ مشہور صحابی حضرت ابوبکر (رض) اور بعض دوسرے صحابہ (رض) کا مسلک بھی یہی تھا۔ حضرت ابن عمر (رض) کا قول یہ ہے کہ خونریزی کی ابتدا خود نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی خونریزی کرے تو اس کا دفعیہ کرنا لازم ہے جمہور صحابہ (رض) اور تابعین کا مسلک یہ ہے کہ اگر مسلمانوں میں باہمی پھوٹ پڑجائے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہو کر قتل و قتال کرنے لگیں تو اس فریق کی حمایت کرنی چاہئے جو حق و انصاف پر ہو اور جو فریق ظلم وناانصافی کی راہ اختیار کئے ہوئے ہو یا مسلمانوں کے امام و سردار سے بغاوت کر کے ملی افتراق و انتشار کا سبب بن رہا ہو اس کے خلاف قتال کرنا چاہئے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو فتنہ و فساد کا بازار گرم ہوجائے گا اور بغاوت و سرکشی کرنے والوں کی ہمت افزائی ہوگی۔ اس مسلک کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔ آیت (وَاِنْ طَا ى ِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا) 49 ۔ الحجرات 9) چناچہ آیت کریمہ اس امر کو واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ جب مسلمانوں کے دو دو فریق باہمی قتل و قتال اور خونریزی میں مبتلا ہوں تو ان کے درمیان صلح و صفائی کرانی چاہئے اور دونوں فریق کو اس فتنہ و انتشار سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہے۔ لیکن اگر ان دونوں میں سے کوئی فریق دوسرے فریق کے تئیں حد سے تجاوز کرے اور اس فتنہ کو جاری رکھنے اور بھڑکانے میں مصروف رہے تو پھر اس فریق کے خلاف کہ جو حد سے متجاوز اور فتنہ کو بھڑکانے کا باعث بن رہا ہو تلوار اٹھا لینی چاہئے اور اس کے ساتھ قتال کرنا چاہئے تاکہ وہ راہ حق پر آجائے۔ اپنے اور تمہارے گناہ کے ساتھ لوٹے گا کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ اس شخص پر دو گناہ ہوں گے ایک گناہ تو اس کے اس عمل کا کہ اس نے حقیقت میں تمہیں مارا اور دوسرا تمہارا گناہ بایں اعتبار کہ اگر بالفرض تم اس کو مارتے اور اس کا گناہ تمہیں ہوتا تو گویا وہ گناہ بھی اس کے سر ڈال دیا جائے گا۔ پس از راہ زجر و توبیخ اس امر کو واضح کیا گیا ہے کہ اس فتنہ میں کسی ایسے مسلمان کو قتل کرنے کا گناہ کہ جو اس جنگ سے بیزار ہو مگر مجبورا اس میں شریک ہوگیا ہو الضاعف یعنی دو گناہ ہو کر سر پڑے گا۔ اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ اس شخص پر دو گناہ ہوں گے، ایک گناہ تو اس بغض و عداوت کا جو وہ مسلمانوں سے رکھتا تھا اور جس کے سبب تمہارا قتل ہوا اور دوسرا گناہ تمہارے قتل کا جو اس سے سرزد ہوا۔ اور دوزخیوں میں شمار ہوگا اس کے بعد دوسرا جملہ یہ ہونا چاہئے تھا۔ کہ اور تم جنتیوں میں سے ہوگے۔ لیکن حضور ﷺ نے دوسرا جملہ ارشاد نہیں فرمایا کیونکہ مذکورہ پہلے جملہ سے یہ مفہوم خود بخود واضح ہوجاتا ہے۔

【9】

فتنوں کے ظہور کے وقت گوشہ عافیت میں چھپ جاؤ

حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے جب کہ ایک مسلمان کے لئے اس کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑی پر بارش برسنے کی جگہ چلا جائے اور فتنوں سے بھاگ کر اپنا دامن بچا لے۔ (بخاری) تشریح اس حدیث کا مطلب بھی یہ تلقین کرنا ہے کہ جب ایسے فتنے رونما ہوں جن سے مسلمانوں میں باہمی افتراق و انتشار اور جنگ وجدل کی وبا پھیل جائے اور ایسا ماحول پیدا ہوجائے جس میں دین کو بچانا مشکل ہو تو اس وقت نجات کی راہ یہی ہوگی کہ گوشہ تنہائی اختیار کرلیا جائے اور جس قدر ممکن ہو سکے اپنے آپ کو دنیا والوں سے الگ تھلگ کرلے، چناچہ فرمایا کہ ایسے میں سب سے بہتر صورت یہ ہوگی کہ ایک مسلمان بس چند بکریوں کا مالک ہو اور وہ ان بکریوں کو لے کر کہیں دور جنگل میں یا پہاڑ پر کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں کوئی چراگاہ اور پانی ملنے کا ذریعہ ہو اور وہاں ان بکریوں کو چرا کر ان کے دودھ کی صورت میں بقدر حیات غذائی ضروریات پر قناعت کر کے اپنی زندگی کے دن گزارتا رہے، تاکہ نہ دنیا والوں کے ساتھ رہے اور نہ دین کو نقصان پہنچانے والے فتنہ میں مبتلا ہو۔

【10】

فتنوں کی پیش گوئی

حضرت اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ مدینہ کے ایک بلند مکان کی چھت پر چڑھے اور پھر صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ۔ کیا تم اس چیز کو دیکھتے ہو جس کو میں دیکھ رہا ہوں ؟ صحابہ نے جواب دیا کہ ! آپ نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ میں ان فتنوں کو دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اطم پہاڑ کی چوٹی قلعہ اور بلند مکان کو کہتے ہیں اور اٰطام اس کی جمع ہے یہاں اطام سے مراد مدینہ کے گرد واقع وہ فلک بوس مکانات اور قلعے ہیں جن میں وہاں کے یہودی رہا کرتے تھے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ ایک دن انہی قلعوں میں سے ایک قعلہ کی چھت پر تشریف لے گئے اور پھر مذکورہ بالا حدیث ارشاد فرمائی۔ میں ان فتنوں کو دیکھ رہا ہوں الخ کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گویا اپنے نبی ﷺ کو اس وقت جب کہ وہ قلعہ کی چھت پر چڑھے، فتنوں کا قریب ہونا دکھایا تاکہ وہ ان فتنوں کے بارے میں آگاہ کردیں اور لوگ یہ جان کر کہ ان فتنوں کا نازل ہونا مقدر ہوچکا ہے ان سے بچنے کے طریقے اختیار کرلیں۔ اور اس بات کو آنحضرت ﷺ کے معجزات میں سے شمار کریں کہ آپ نے جو پیش گوئی فرمائی تھی وہ بالکل صحیح ثابت ہوئی۔

【11】

ایک خاص پیش گوئی

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میری امت کی ہلاکت قریش کے چند نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ (بخاری) تشریح اس حدیث میں امت سے مراد صحابہ کرام اور اہل بیت نبی ﷺ ہیں جو امت کے سب سے بہتر و افضل افراد تھے۔ اور لفظ غلمۃ غلام کی جمع ہیں جس کے معنی نوجوان کے ہیں اور صراح میں لکھا ہے کہ غلام کے معنی لڑکے کے ہیں نیز واضح رہے کہ غلام کا لفظ اصل میں غلم اور اغتلام سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں شہوت کا جوش و غلبہ بہرحال یہاں غلمۃ (نوجوانوں) سے مراد وہ چھوٹی عمر کے نوجوان ہیں جو غیر سنجدیدہ اور بیباک ہوتے ہیں بڑوں، بزرگوں کا ادب و احترام نہیں کرے اور ہل علم و دانش اور باوقار لوگوں کی عظمت کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ پس آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد گرامی میں قریش کے جن نوجوانوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے ان سے قریش سے نسلی تعلق رکھنے والے دین وملت کے وہ بدخواہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے جاہ و سلطنت اور ذاتی اغراض حاصل کرنے کے لئے حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) کو شہید کیا اور ان کی ہلاکت کا باعث بنے یا جنہوں نے اس وقت ملت میں افتراق و انتشار اور ظلم و بغاوت کا فتنہ پیدا کیا نیز مجمع البحار میں لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں لوگوں کو تعین وتشخص کے ساتھ جانتے تھے لیکن اس حدیث کو بیان کرتے وقت، فتنہ وشرانگیز کے خوف سے ان لوگوں کے نام ظاہر نہیں فرماتے تھے اور وہ لوگ بنو امیہ کے عبداللہ بن زیاد اور ان جیسے دوسرے نوجوان، حجاج بن یوسف جو عبدالملک بن مراوان کا میرالامراء بنا سلیمان بن عبدالملک جیسے نوخیز اور ان کی اولاد میں سے دوسرے افراد تھے جنہوں نے اس حد تک فتنہ و فساد کا بازار گرم کیا کہ اہل بیت نبوی کو بےپناہ مظالم کا شکار بننا اور جام شہادت نوش کرنا پڑا بڑے اونچے درجہ کے مہاجر اور انصار صحابہ کرام کو بڑی مظلومیت کے ساتھ اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور ایسی ایسی خونریزیاں ہوئیں اور جان ومال کا اس قدر نقصان ہوا کہ زمین و آسمان کانپ گئے چناچہ ان لوگوں کے وہ سیاہ کارنامے تاریخ میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔

【12】

ایک خاص پیش گوئی

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ وہ وقت بھی آنے والا ہے جب زمانے ایک دوسرے کے قریب ہوں گے علم اٹھا لیا جائے گا، فتنے پھوٹ پڑیں گے بخل ڈالا جائے گا اور ہرج زیادہ ہوگا۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ ہرج کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا قتل۔ (بخاری ومسلم) تشریح زمانے ایک دوسرے کے قریب ہوں گے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ کہ اس وقت دنیا کا زمانہ اور آخرت کا زمانہ ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں گے، اس صورت میں قیامت کا قریب ہونا مراد ہوگا یا اس جملہ سے مراد زمانہ والوں میں سے بعض کا بعض کے ساتھ برائی اور بدی کے تعلق سے قریب ہونا ہے۔ یعنی اس زمانہ میں جو برے اور بدکار لوگ ہوں گے وہ ایک دوسرے کے قریب و نزدیک آجائیں گے، یا یہ مطلب ہے کہ خود زمانہ کے اجزاء بدی و برائی کے اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب اور مشابہ ہوں گے یعنی ایک زمانہ برائی اور بدی کا ماحول لئے ہوئے آئے گا اور اس کے بعد پھر دوسرا زمانہ بھی اسی طرح آئے گا، یا یہ مطلب ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں حکومتیں دیر پا نہیں ہوں گی اور مختلف انقلابات اور عوامل بہت مختصر مختصر عرصہ میں حکومتوں کو بدلتے رہیں گے۔ اور بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا کہ آخر میں جو زمانہ آئے گا اس میں لوگوں کی عمریں بہت چھوٹی چھوٹی ہوں گی اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ جملہ دراصل گناہوں کے سبب زمانہ سے برکت کے ختم ہوجانے سے کنایہ ہو، یعنی آخر زمانہ میں جب کہ گناہوں کی کثرت ہوجائے اور لوگ دین شریعت کے تقاضوں اور اللہ وآخرت کے خوف سے بےپرواہ ہو کر عیش و عشرت اور راحت و غفلت میں پڑجائیں گے تو زمانہ سے برکت نکل جائے گی اور اس کے شب و روز کی گردش اتنی تیز اور دن رات کی مدت اتنی مختصر محسوس ہونے لگے گی کہ سالوں پہلے گزرا ہوا کوئی واقعہ کل کی بات معلوم ہوگا اور ہر وقت کی کمی کا شکوہ رنج نظر آئے گا۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ آخر زمانہ میں وقت اس طرح جلدی گزرے گا کہ ایک سال ایک مہینے کے برابر اور ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر معلوم ہوگا۔ علم اٹھا لیا جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ میں مخلص، با عمل اور حقیقی علم کے حامل اٹھا لئے جائیں گے اور اس طرح حقیقی علم مفقود ہوجائے گا نیز مختلف علمی فتنوں کا اندھیرا اس طرح پھیل جائے گا کہ علماء سو کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوگا اور ہر طرف ایسا محسوس ہوگا جیسے علم کا چراغ گل ہوگیا ہے اور جہالت ونادانی کی تاریکی طاری ہوگئی ہے۔ بخل ڈالا جائے گا مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں لوگوں میں بخل کی خصلت نہایت پختہ ہوجائے گی اور یہ چیز یعنی بخل کی برائی ایک عام وبا کی طرح پھیل جائے گی، نیز لوگ اس بخل کے یہاں تک تابع ہوجائیں گے کہ صنعت وحرفت والے اپنی صنعتی اشیاء کو بنانے اور پیدا کرنے میں بخل وتنگی کرنے لگیں گے اور مال کی تجارت و لین دین کرنے والے لوگ اپنے مال کو چھپا کر بیٹھ جائیں گے یہاں تک کہ ضروری اشیاء کو بھی فراہم کرنے اور دینے سے انکار کرنے لگیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بخل ڈالا جائے گا سے لوگوں میں اصل بخل کا پایا جانا مراد نہیں ہے کیونکہ اصل بخل تو انسان کی جبلت میں پڑا ہوا ہے اور اس اعتبار سے یہ بات پہلے زمانہ کے لوگوں کے بارے میں بھی نہیں کی جاسکتی کہ ان میں سرے سے بخل کا وجود نہیں تھا۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ نہیں کیا جاسکتا چونکہ اصل بخل انسان کی جبلت میں پڑا ہوا ہے اس لئے کوئی بھی شخص نہ پہلے زمانوں میں اس خصلت سے کلیۃ محفوظ رکھ سکتا ہے اور جیسا کہ اس آیت (وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِه فَاُولٰ ى ِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) 64 ۔ التغابن 16) سے واضح ہوتا ہے ایسے پاک نفس انسان سے پہلے بھی گزرے ہیں اب بھی موجود ہیں اور آئندہ بھی موجود رہیں گے یہ اور بات ہے کہ زمانہ کے اثرات کی وجہ سے ایسے پاک نفسوں کی تعداد ہر آنے والے زمانہ میں پہلے سے کم ہوتی جائے۔ ہرج کے معنی ہیں فتنہ اور خرابی میں پڑنا اور جیسا کہ قاموس میں لکھا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہرج اناس تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں لوگ فتنے میں پڑگئے اور قتل و اختلاط یعنی خونریزی اور کاموں کے خلط ملط ہوجانے کی وجہ سے اچھے برے کی تمیز نہ کرسکنے کی آفت میں مبتلا ہوگئے پس اس ارشاد گرامی ہرج سے مراد خاص طور پر وہ قتل و خونریزی ہے جو مسلمانوں کے باہمی افتراق واتنشار کے فتنہ کی صورت میں اور اچھے برے کاموں کی تمیز مفقود ہونے کی وجہ سے پھیل جائے۔

【13】

فتنوں کی شدت کی انتہا

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے پوری دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک لوگوں پر ایسا دن یعنی بدامنی و انتشار فتنہ و فساد کی شدت انتہا سے بھرا ہوا وہ دور نہ آجائے جس میں نہ قاتل کو یہ معلوم ہوگا کہ اس نے مقتول کو کیوں قتل کیا اور نہ مقتول یا اس کے ورثاء متعلقین کو یہ معلوم ہوگا کہ اس کو کیوں قتل کیا گیا۔ پوچھا گیا کہ یہ کیونکر ہوگا یعنی اس کی وجہ کیا ہوگی کہ قتل کا سبب نہ قاتل کو معلوم ہوگا نہ مقتول کو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہرج کے سبب، نیز قاتل و مقتول دونوں دوزخ میں جائیں گے۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں لوگوں کے دل و دماغ سے فتنہ و فساد اور تقل و غارت گری کی برائی کا احساس اس طرح ختم ہوجائے گا کہ نہ تو قاتل بتاسکے گا کہ اس نے مقتول کا خون کس مقصد سے بہایا ہے اور نہ مقتول اور اس کے ورثاء ومتععلقین کو یہ معلوم ہوگا کہ اس کی جان کس دنیاوی غرض ومقصد کے تحت یا کس شرعی وجہ کی بناء پر ماری گئی ہے ایسا اندھیرا پھیل جائے گا کہ بس شکوک و شبہات اور ذرا ذرا سے واہموں پر انسان کا قیمتی خون بےدریغ بہایا جانے لگے گا اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوگی کہ کون شخص حق پر ہے اور کون باطل پر، بلا تشخیص وتمیز جو جس کو چاہے گا موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ موجودہ زمانے کے حالات دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ مذکورہ صورت حال کا ظہور نہیں ہوگیا ہے۔ ہرج کے سبب سے کا مطلب یہ ہے کہ اس اندھے قتل و غارت گری کا باعث جہالت ونادانی کی وہ تاریکی ہوگی جو پورے ماحول کو فتنہ و فساد اور بدامنی سے بھر دے گی، شرارت پسندوں اور بلوائیوں کا عروج ہوگا، اخلاقی سرکاری قوانین کی گرفت ڈھیلی پڑجائے گی۔ اچھے برے کاموں کی تمیز مٹ جائے گی، حق و باطل باہم خلط ملط ہوجائیں گے او دل و دماغ سے انسانی خون کی حرمت کا احساس مٹ جائے گا۔ دونوں دوزخ میں جائیں گے سے یہ واضح ہوا کہ نیت کا فتور اس قدر عام ہوجائے گا کہ بظاہر مقتول اور مظلوم نظر آنے والا شخص بھی اپنے اندر ظلم و طغیان کا فتنہ چھپائے رہا ہوگا۔ اس کا مقتول ومظلوم ہونا اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ وہ واقعۃ کسی ظالمانہ قتل کا شکار ہوا ہے بلکہ اس اعتبار سے ہوگا کہ وہ موقع پر چوک گیا اور خود وار کرنے سے پہلے دوسرے کے وار کرنے کا شکار ہوگیا۔ چناچہ مذکورہ جملے کا مطلب یہ ہے کہ قاتل تو دوزخ میں اس لئے جائے گا کہ وہ واقعۃ قتل عمد کا گناہ گار ہوا ہے اور مقتول اس وجہ سے دوزخ میں جائے گا کہ وہ خود بھی اس قاتل کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اس کو بتاہ وہلاک کرنے کی خواہش و ارادہ رکھتا تھا اور چونکہ آدمی کسی گناہ کا عزم رکھنے کی وجہ سے بھی ماخوذ ہوتا ہے اس لئے اس کو بھی دوزخ کا مستوجب قرار دیا جائے گا لیکن واضح رہے کہ یہ حکم جہالت کے طاری ہونے اور حق و باطل کے درمیان تمیز مفقود ہونے کی صورت کا ہے۔ ہاں اگر اس مقتول کی مذکورہ نیت و ارادہ کا تعلق جہالت ونادانی اور عدم تمیز سے نہ ہو بلکہ اس بات سے ہو کہ وہ بسبب اشتباہ، خطاء اجتہادی میں پڑگیا ہو تو اس پر مذکورہ حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ وہ مقتول اپنے قاتل کے تئیں جو عداوت ونفرت رکھے ہوئے تھا اور اس کو قتل کے ساتھ مقتول بھی مستوجب عذاب ہوگا لیکن اگر وہ مقتول اس جہالت ونادانی کی بنا پر نہیں بلکہ وہ از روئے دین و دیانت اس شخص یعنی قاتل کو قتل کرنے کا عزم رکھتا تھا نیز اس عزم تک وہ دین و شریعت کے اپنے علم کی روشنی میں غور فکر کرنے کے بعد اور نیت کے اخلاص کے ساتھ پہنچا تھا اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے اس عزم تک اس کا پہنچنا غیر صحیح کیوں نہ ہو۔ اس کو محض اس عزم کی وجہ سے مستوجب عذاب قرار نہیں دیا جائے گا کیونکہ اجتہاد اور صحیح نتیجے تک پہنچنے کی کوشش میں خطا کر جانے والا شخص عند اللہ ماخوذ قرار نہیں دیا جاتا۔ واضح رہے کہ مذکورہ ارشاد گرامی اس مشہور اور صحیح مسلک کی دلیل ہے کہ جو شخص کسی گناہ کی نیت کرے اور اس نیت پر قائم رہے تو وہ گنہگار ہی کے حکم میں ہوگا، اگرچہ وہ اپنے اعضاء اور زبان سے عملی طور پر اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔

【14】

پر فتن ماحول میں دین پر قائم رہنے کی فضیلت

حضرت معقل بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ فتنے کے زمانہ میں اور مسلمانوں کے باہمی محاذ آرائی اور قتل و قتال کے وقت پوری استقامت اور مداومت کے ساتھ دین پر قائم رہنے اور عبادت ونی کی کرنے کا ثواب، میری طرف ہجرت کرنے کے ثواب کی مانند ہے۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ زمانہ نبوی میں فتح مکہ سے پہلے دارالحرب سے ہجرت کر کے مدینہ آجانے اور آنحضرت ﷺ کی رفاقت و صحبت کا شرف رکھنے والے کو جو عظیم ثواب ملتا تھا اسی طرح کا عظیم ثواب اس شخص کو بھی ملے گا جو فتنہ و فساد کی جہالت وتاری کی سے اپنے کو محفوظ رکھ کر اور مسلمانوں کی باہمی محاذ آرائی سے اپنا دامن بچا کر مولیٰ کی عبادت میں مشغول اور اپنے دین پر قائم رہے۔

【15】

مظالم پر صبر کرو اور یہ جانو کہ آنے والا زمانہ موجودہ دور سے بھی بدتر ہوگا

حضرت زبیر بن عدی تابعی کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ حضرت انس بن مالک (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حجاج بن یوسف کے مظالم اور ایذاء رسانیوں کی شکایت کی انہوں نے فرمایا کہ صبر کرو اور ضبط و تحمل سے کام لو، کیو کہ آئندہ جو بھی زمانہ آئے گا وہ گزشتہ زمانے سے بدتر ہوگا پس تمہیں کیا معلوم کہ آنے والے زمانے میں کیسے کیسے حکمران و اعمال ہوں گے جو شاید حجاج سے بھی زیادہ ظالم و جابر ثابت ہوں۔ اس لئے تم حجاج کے مظالم اور ایذاء رسانیوں پر صبر کرو، یہاں تک تم روز آخرت اپنے پروردگار سے ملاقات کرو اور پھر تم دیکھنا کہ تمہارا پروردگار تمہارے ظالموں کو کس طرح عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ بات میں نے تمہارے پیغمبر سے سنی ہے۔ (بخاری) تشریح اس حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ہر آنے والا زمانہ گزشتہ زمانہ سے بدتر ہوگا، تو اس پر اس صورت میں اشکال واقع ہوگا جب کہ آنے والا زمانہ سے مراد بلا استثناء ہر آنے والا زمانہ ہو اور اشکال یہ واقع ہوگا کہ حجاج بن یوسف کے زمانہ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ آیا، یا بعد میں حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی علیہما السلام کا زمانہ آئے گا تو کیا ان زمانوں پر بھی مذکورہ بات کا اطلاق ہوگا اور بلا استثناء یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ہر آنے والا زمانہ حجاج کے زمانہ سے بھی بدتر ہوگا، ہاں اگر یہ بات استثناء کے ساتھ فرمائی گئی ہے تو پھر اشکال پیدا ہوگا، چناچہ شارحین حدیث نے وضاحت کی ہے کہ آنے والے زمانوں کے بدتر ہونے کی خبر دینا اکثر و اغلب کے اعتبار سے ہے یعنی آنے والے زمانوں میں اکثر و غالب زمانے ایسے ہی ہوں گے جو پچھلے زمانہ سے بدتر ماحول سے بھرے ہوئے ہوں گے، نیز آنے والے زمانہ سے مراد حجاج کے زمانہ سے زمانہ دجال تک کے زمانے ہیں، جن میں سے حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی کے زمانے مستثنی ہیں، علاوہ ازیں اس حدیث کا اصل مقصود امت کے لوگوں کو تسلی دینا، ظلم و جور پر صبر کرنے کی تلقین کرنا، آنے والے زمانوں کے بارے میں باخبر کرنا اور اس بات کی طرف راغب کرنا ہے کہ اپنے زمانہ کو غنیمت جان کر زیادہ سے زیاہ اخروی فائدے حاصل کرنے میں مشغول رہو، کیا خبر کہ آنے والے زمانوں میں کسی کو اتنا بھی موقع مل سکے یا نہیں۔ بعض حضرات نے اس وضاحت کو زیادہ مناسب کہا ہے کہ آنے والے زمانوں کے بارے میں جہاں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا زمانہ تو مستثنی ہے باقی تمام زمانے، کسی نہ کسی اعتبار سے، کسی نہ کسی جگہ کے حالات کے مطابق اور کسی نہ کسی معاملہ میں از روئے علم وعمل اور استقامت و اخلاص دین پہلے زمانے سے بتر ہی حالت کے حامل رہے ہیں یا حامل رہیں گے اور آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک سے بعد و دوری کا تقاضا بھی ہے کہ زمانہ جوں جوں آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک سے دور ہوتا جاتا ہے اسی اعتبار سے بدی اور خرابی بڑھتی جاتی ہے اور اس کا سلسلہ ذات رسالت ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے فورا بعد شروع ہوگیا تھا چناچہ صحابہ تک نے اپنی صفائی باطن اور پاکیزگی نفس کے باوجود آنحضرت ﷺ کی تدفین کے بعد اپنے قلوب کی حالت و کیفیت میں تبدیلی محسوس کی تھی، پہلے کے بعض بزرگوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ پہلے کسی وقت دل میں گناہ کا خیال پیدا ہوگیا اور پھر وہ خیال جاتا رہا تو کہیں کافی مدت کے بعد جب وہی خیال پھر دوبارہ آیا تو اب آسانی کے ساتھ دفعہ ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ بہت غور کرنے بعد اس فرق کی وجہ اس کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ ظلمت، زمانہ نبوت کے نور سے اور زیادہ بعد زمانہ ہوجانے کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے کیونکہ زمانہ نبوت کو گزرے جتنا زیادہ عرصہ ہوتا جاتا ہے برائی کی ظلمت اسی اعتبار سے زیادہ ہوتی جاتی ہے۔

【16】

حضور ﷺ نے قیامت تک پیدا ہونے والے اس امت کے فتنہ پردازوں کے بارے میں خبر دے دی تھی

حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ میرے یہ رفقاء یعنی صحابہ کرام بھول گئے ہیں یا وہ بھولے تو نہیں ہیں مگر اپنی بعض مصلحتوں کی وجہ سے ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ بھول گئے ہیں، اللہ کی قسم، رسول کریم ﷺ نے کسی بھی ایسے فتنہ پردازوں کو ذکر کرنے سے نہیں چھوڑا تھا جو دنیا کے ختم ہونے تک پیدا ہونے والا اور جس کے تابعداروں کی تعداد تین سو تک یا تین سو سے زائد تک کی ہوگی۔ آپ ﷺ ہر فتنہ پرداز کا ذکر کرتے وقت ہمیں اس کا اور اس کے باپ کا اور اس کے قبیلے تک کا نام بتایا تھا۔ (ابوداؤد) تشریح فتنہ پرداز سے وہ شخص مراد ہے جو فتنہ و فساد اور تباہی و خرابی کا باعث ہو، جیسے وہ عالم جو دین میں بدعت پیدا کرے دین کے نام پر مسلمانوں کو آپس میں لڑائے، امت میں افتراق و انتشار پیدا کر کے اسلام کی شوکت کو مجروح کرے اور جیسے وہ ظالم بادشاہ و امیر جو مسلمانوں کے باہمی قتل و قتال کا باعث ہو۔ تین سو کے عدد کی قید بظاہر اس لئے لگائی گئی ہے کہ کم سے کم اتنی تعداد میں آدمیوں کا کسی فتنہ پرداز کے گرد جمع ہوجانا اس فتنہ پرداز کی فتنہ پردازیوں کو پھیلانے، فتنہ و فساد کی کاروائیوں کو اثر انداز ہوجانے اور دین وملت کو نقصان پہنچ جانے کے لئے عام طور پر کافی ہوجاتا ہے، اگر کسی فتنہ پرداز کے تابعداروں کی تعداد اس سے کم ہوتی ہے تو گوہ انفرادی اور جزوی طور پر فتنہ پردازی میں کامیاب ہوجائے مگر اجتماعی طور پر اثر انداز ہونے کے قابل نہیں ہوتا۔

【17】

گمراہ کرنے والے قائد

حضرت ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی امت کے حق میں جن لوگوں سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے امام ہیں۔ یاد رکھو جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی تو پھر قیامت تک نہیں رکے گی۔ ( ابوداؤد ) تشریح ائمہ اصل میں امام کی جمع ہے اور امام قوم و جماعت کے سردار، پیشوا اور اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو لوگوں کو اپنے قول یا فعل یا عقیدے کی اتباع کی طرف بلائے، پس اس ارشاد کا مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی اور ملی حیثیت نیز ان کے دین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی اور تباہی کی طرف لے جانے والی جو چیز ہے وہ مسلمانوں کی قیادت و رہبری اور پیشوائی کرنے والے لوگوں کا گمراہ ہونا ہے کیونکہ انفرادی حیثیت میں کسی بھی شخص کے گمراہ ہونے کا نقصان اسی کی ذات تک محدود رہتا ہے لیکن قائد و پیشوا کی گمراہی کا نقصان و ضرر پوری قوم و جماعت کو متاثر کرتا ہے۔ جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی الخ کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک دوسرے کے خلاف تلوار و طاقت آزمائی کی سیاست کی ابتداء ہوجائے گی اور باہمی مسائل و معاملات کو افہام تفہیم اور دین ودیانت کی روشنی میں حل کرنے کی بجائے تشدد و خونریزی کے راستے کو اختیار کرلیا جائے گا تو پھر طاقت آزمائی اور تشدد و خونریزی کا وہ فتنہ قیامت تک ٹھنڈا نہیں ہوگا اور مسلمان کہیں نہ کہیں ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہیں گے۔ واضح رہے کہ حضور ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعے امت میں خونریزی کی اتبداء ہوجانے کے جس خوف کی طرف اشارہ فرمایا تھا اس کا مصداق امیرالمومنین حضرت عثمان غنی (رض) کے واقعہ شہادت کی صورت میں سامنے آیا۔ چناچہ اسلام میں سے پہلے مسلمان نے مسلمان کے خلاف جو تلوار اٹھائی اور خون بہایا وہ حضرت عثمان (رض) کی شہادت ہے۔ اور پھر ان کے سانحہ شہادت کے بعد مسلمانوں میں باہمی خونریزی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک باقی ہے جیسا کہ مخبر صادق ﷺ نے خبر دی ہے کہ مسلمانوں کی بدقسمتی سے یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔

【18】

خلافت راشدہ کی مدت کے بارے میں پیش گوئی

حضرت سفینہ (رض) جو آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ خلافت کا زمانہ تیس سال کا ہوگا۔ اس کے بعد وہ خلافت بادشاہت میں بدل جائے گی حضرت سفینہ (رض) نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد راوی سے یا عام لوگوں کو خطاب کر کے کہا کہ حساب کر کے دیکھو حضور ﷺ نے جو تیس سال کی مدت بیان فرمائی ہے وہ اس طرح ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت کا زمانہ دو سال۔ ، حضرت عمر (رض) کی خلافت کا زمانہ دس سال، حضرت عثمان کی خلافت کا زمانہ بارہ سال اور حضرت علی کی خلافت کا زمانہ چھ سال (رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ) ۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد) تشریح خلافت سے مراد خلافت حق ہے یا وہ خلافت مراد ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک پسندیدہ اور جس کی بنیاد قرآن وسنت کی ہدایت اور رہنمائی اور دین و شریعت کے آئین حکمرانی کی اتباع پر ہو، چنانہ اس خلافت کا صحیح مصداق حضور ﷺ کے بعد اول کی خلافت ہے جس کو خلافت راشدہ کہا جاتا ہے اور جس کی مدت تیس سال ہوئی ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے اپنی شرح مشکوۃ میں اس روایت کو نقل کرتے ہوئے ملکا کے بعد عضوضا کا لفظ بھی نقل کیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ خلافت کٹ کھنی بادشاہت میں بدل جائے گی، یعنی خلافت کا دور ختم ہوجانے کے بعد بادشاہت کا دور شروع ہوجائے گا اور بادشاہت بھی ایسی کہ لوگ اس کی سختیوں اور ظالمانہ کاروایوں سے امن نہیں پائیں گے اور عدل و انصاف کا نظام اور دین پروری کا ماحول جیسا کہ ہونا چاہئے، جاری نہیں ہوگا، یہ اور بات ہے کہ اس دور کے حکمران گزرے ہوئے خلفاء کی جانشینی کا دعویٰ رکھنے کی وجہ سے اور مجازا اس بادشاہت پر خلافت ہی کا اطلاق کریں اور اپنے کو خلیفہ کہلائیں اور گو ان کو امیرالمومنین کہنا کوئی خلاف حقیقت بات بھی نہ ہو کیونکہ نظم مملکت اور ظاہری قانون کے مطابق وہ مسلمانوں کے امیر و حاکم بہرحال ہوں گے لیکن حقیقی خلافت کہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بس تیس سال تک رہے گی، چنانہ خلفاء راشدین کہ جن کا دور خلافت حقیقی خلافت کا واقعی مصداق تھا، تیس ہی سال پر مشتمل ہے۔ شرح عقائد میں اس حدیث کے تعلق سے ایک اشکال وارد کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حضور ﷺ نے خلافت کا دور صرف تیس سال فرمایا ہے جب کہ خلفاء راشدین کے بعد کے زمانے میں خلفاء عباسیہ بلکہ بنو امیہ میں سے بعض خلفاء جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت پر مسلمانوں کے تقریبا تمام ہی علماء اور اہل عمل وعقد کا اتفاق رہا ہے تو کیا ان کے دور خلافت کو خلافت نہیں کہا جاسکتا اس کا جواب یہ ہے کہ حضور ﷺ نے جس خلافت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ خلافت کاملہ کہ جس میں دین و شریعت اور عدل و انصاف کی ذرا سی بھی آمیزش نہ ہو، تیس سال رہے گی، اس کے بعد کی خلافت کی شکل و صورت میں تبدیلی آئے گی، ہاں کچھ دور ایسے بھی آئیں گے جس میں اس خلافت کے طرز کو اختیار کیا جائے گا ورنہ عام طور پر جو بھی خلافت قائم ہوگی وہ بس نام ہی کی خلافت ہوگی، اصل کے اعتبار سے بادشاہت ہوگی، واضح رہے کہ خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ کا دور حکمرانی شروع ہوا جس کو انہوں نے اگرچہ خلافت ہی کا نام دیا مگر حقیقت میں وہ بادشاہت تھی، حضرت امیر معاویہ (رض) اس دور کے سب سے پہلے حکمران ہیں ان کا دور حکمرانی اگرچہ خلافت راشدہ کی طرح دین وملت کے حق میں حقیقی خلافت کا نمونہ نہیں رہا مگر ان کی خلافت و حکومت میں بادشاہت کی وہ تمام خرابیاں بھی نہیں تھیں جو ان کے جانشینوں کے دور حکومت میں پیدا ہوئی نیز انہوں نے اپنے دور حکمرانی کو کسی نہ کسی حد تک خلافت راشدہ کے نہج پر رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کے بعد بنو امیہ کا اکثر دور حکمرانی مسلمانوں کی باہمی آویزش وخلفشار قتل و غارت گری، دین و شریعت کی صریح خلاف ورزی اور ظلم و ناانصافی کی بہت زیادہ مثالوں سے بھرا ہوا تھا، اس دور کی ابتداء یزید بن معاویہ کے دور سے ہوتی ہے، یزید کے بعد اس کا بیٹا معاویہ بن یزید حکمران ہوا، اس کے بعد ولید بن عبدالملک، سلیمان بن عبدالملک، حضرت عمر بن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک، ہشام بن عبدالملک، ولید بن یزید بن عبدالملک، ابراہیم بن ولید بن عبدالملک اور مروان بن محمد بن مروان بالترتیب یکے بعد دیگرے خلیفہ وحکمران ہوتے رہے مروان بن محمد بن مروان، بنو امیہ میں سے آخری حکمران تھا، اس کے بعد خلافت بنو امیہ سے نکل کر بنو عباس میں پہنچ گئی۔ حدیث کے راوی حضرت سفینہ (رض) نے تیس سال کا جو حساب بیان کیا ہے وہ تخمینا ہے اور اس بات پر مبنی ہے کہ انہوں نے کسور کو بیان نہیں کیا، چناچہ صحیح روایات اور مستند تاریخی کتابوں میں خلافت راشدہ کی تیس سالہ مدت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت کا زمانہ دو سال چار ماہ، حضرت عمر فاروق (رض) کی خلافت کا زمانہ دس سال چھ ماہ، حضرت عثمان غنی کی خلافت کا زمانہ چند روز کم بارہ سال اور حضرت علی مرتضی (رض) کی خلافت کا زمانہ چار سال نو ماہ رہا ہے۔ اس طرح چاروں خلفاء کی مجموع مدت خلافت انتیس سال سات ماہ ہوتی ہے اور پانچ مہینے جو باقی رہے وہ حضرت امام حسن (رض) کی خلافت کا زمانہ ہے، پس حضرت امام حسن (رض) بھی خلفاء راشدین میں سے ہوئے (رضی اللہ عنہم)

【19】

آنے والے زمانوں کے بارے میں پیشگوئی

حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا اس خیر کے بعد شر پیدا ہوگا جیسا کہ اب سے پہلے شر کا دور دورہ تھا (یعنی جس طرح آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے کفر و شرک اور برائیوں کا اندھیرا پھیلا ہوا تھا اور پھر آپ ﷺ کے نور نبوت نے بدی و برائی کی تاریکی کو ختم کر کے نیکی اور بھلائی کا اجالا پھیلایا، اسی طرح کیا خیر و بھلائی کے اس زمانے کے بعد شر و برائی کا زمانہ بھی آئے گا) آپ ﷺ نے فرمایا ہاں (اس کے بعد پھر بدی و برائی کا زمانہ بھی آئے گا) میں نے عرض کیا کہ پھر اس وقت بچنے کی کیا سبیل ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ تلوار (یعنی اس فتنہ سے حفاظت، تلوار آزمائی کے ذریعے حاصل ہوگی یا یہ مراد ہے کہ اس فتنہ سے بچنے کا راستہ یہی ہوگا کہ تم اس فتنہ کو پیدا کرنے والے لوگوں کو سر تلوار سے اڑا دو ) میں نے عرض کیا کہ پھر اس تلوار کے بعد اہل اسلام باقی رہیں (یعنی جب مسلمان بدی اور برائی کی طاقتوں کو ختم کرنے کے لئے تلوار اٹھائیں گے اور قتل و قتال کریں گے تو کیا اس کے بعد اس زمانے کے مسلمانوں میں اتنی طاقت واجتماعیت باقی رہ جائے گی کہ وہ امانت ودیانت کے ساتھ اپنی سرداری وحاکمیت قائم کرلیں اور لوگ اس کی قیادت وامارت پر اتفاق کرلیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں ! امارت یعنی حکومت و سلطنت تو قائم ہوجائے گی لیکن اس کی بنیاد فساد پر ہوگی اور صلح کی بنیاد کدورت پر ہوگی۔ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس کے بعد گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہوں گے۔ اگر اس وقت زمین پر کوئی خلیفہ یعنی امیر و بادشاہ ہو تو خواہ وہ تیری پیٹھ پر مارے ہی کیوں نہ اور تیرا مال کیوں نہ لے لے (یعنی وہ امیر بادشاہ اگرچہ تمہیں ناحق ستائے تم پر ظلم وستم ڈھائے اور تمہارا مال و اسباب چھین لے لیکن تم اس کی اطاعت سے منہ نہ پھیرنا تاوقتیکہ وہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف کوئی کام کرنے کو نہ کہے اور حکم اس لئے دیا گیا ہے تاکہ دین وملت میں افتراق و انتشار اور مملکت میں بدامنی و فساد پیدا نہ ہو۔ اور اگر کوئی خلیفہ یعنی امیر و بادشاہ نہ ہو تو تمہاری موت ایسی حالت میں آنی چاہئے کہ تم کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اس کے بعد دنیا اور زیادہ فتنہ و انتشار اور برائیوں کی طرف بڑھتی رہے گی اور مسلمان بتدریج دینی وملی طور پر اور دنیاوی اعتبار سے بھی زوال پذیر ہوتے رہیں گے، یہاں تک کہ حضرت مہدی کے زمانہ میں دجال کا ظہور ہوگا جس کے ساتھ پانی کی نہر ہوگی اور آگ کی خندق پس جو شخص اس کی نہر میں پڑے گا اس کا گناہ اس کے لئے باردوش بنے گا اور اس کا اجر جو اس نے اچھے عمل کر کے حاصل کئے ہوں گے جاتا رہے گا۔ حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ گھوڑے کا بچہ جنوایا جائے گا اور وہ سواری نہیں دینے پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ اور ایک روایت میں (امارت تو قائم ہوجائے گی لیکن اس کی بنیاد فساد پر ہوگی الخ) کے بجائے یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کدورت پر صلح ہوگی یعنی اس وقت لوگ ظاہر میں تو صلح صفائی کا راستہ اختیار کریں گے لیکن ان کے باطن میں کدورت ہوگی۔ اور وہ کسی معاہدہ و فیصلہ پر دلوں کی ناخوشی اور بخشش کے ساتھ متفق ومجتمع ہوں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کدورت پر صلح سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے دل اس حالت پر نہیں ہوں گے جس پر پہلے تھے (یعنی جس طرح اسلام کے ابتدائی زمانے میں لوگوں کے دل بغض وکینہ سے صاف رہا کرتے تھے، وہ جو بات کہا کرتے یا جو معاملہ کرتے تھے اس میں صدق دلی شامل ہوتی تھی۔ اس طرح کے پاک وصاف دل اس وقت لوگوں کے نہیں ہوں گے کہ زبان سے کچھ کہیں گے معاملہ کچھ کریں گے اور دل میں کچھ اور رکھیں گے۔ یا یہ مراد ہے کہ لوگوں میں باہمی صلح و صفائی ہوجانے کے باوجود، ان کے دل اس طرح پاک وصاف نہیں ہوں گے جس طرح ایک دوسرے کے خلاف بغض وعناد میں مبتلا ہونے اور کدورت پیدا ہونے سے پہلے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا اس بھلائی کے بعد کہ جو آپس کے نفاق کدورت کے بعد مذکورہ باہمی مصالحت ومفاہمت کی صورت میں ظاہر ہوگی اور جو اگرچہ برائی کی آمیزش سے پوری طرح صاف نہیں ہوگی کسی اور برائی کا ظہور ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں، اس کے بعد پھر برائی کا ظہور ہوگا اور وہ ایک ایسے بڑے فتنہ کی صورت میں ہوگا جو اندھا اور بہرا ہوگا (یعنی وہ فتنہ لوگوں کی عقل وخرد اور نیکی وبد کی قوت تمیز پر اس طرح اثر انداز ہوجائے کہ وہ حق اور سچائی کو نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے۔ گویا فتنہ کی طرف اندھے پن اور بہرے پن کی نسبت مجازاً ہے اصل مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ لوگ اس فتنہ میں مبتلا ہو کر بدی اور برائی کی انتہائی حدوں تک پہنچ جائیں گے اور اس کا نتیجہ، جیسا کہ آگے فرمایا جا رہا ہے، یہ ہوگا کہ اس فتنہ کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہوجائیں گے یعنی لوگ محض اس فتنہ میں مبتلا ہی نہیں ہوں گے بلکہ ایک ایسی جماعت بھی پیدا ہوجائے گی جو اس فتنہ کو ہوا دے گی اور دوسروں کے اس فتنہ میں مبتلا ہونے کا باعث بنے گی اور اس جماعت کے لوگوں کا یہ عمل ایسا ظاہر کرے گا جیسے کہ وہ دوزخ پر کھڑے ہو کر مخلوق کو اس دوزخ کی طرف بلا رہے ہیں چناچہ بلانے والے اور ان کے بلاوے کو قبول کرنے والے سب ہی دوزخ میں جائیں گے۔ پس اے حذیفہ اس وقت تمہاری موت اگر اس حالت میں آئے کہ تم کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ تم اہل فتنہ میں سے کسی کی اتباع و پیروی کرو۔ تشریح قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے جس فتنہ سے بچاؤ کا ذریعہ تلوار کو قرار دیا تھا اس کا مصداق وہ لوگ ہیں جو حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے زمانہ خلاف میں اسلام سے پھرگئے تھے اور اپنے ارتداد و بغاوت کے ذریعہ ایک بڑے فتنہ کا باعث بننے والے تھے لیکن حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے نہایت تدبر وہوشیاری کے ساتھ ان کی سرکوبی کی اور طاقت کے ذریعے ان کو دبایا۔ اقذاء اصل میں قذی کی جمع ہے اور قذاۃ کا معنی اس کیچڑ اور تنکے کے ہیں جو آنکھ میں یا پانی وشربت وغیرہ میں پڑجائے۔ پس حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت امارت و حکومت تو قائم ہوجائے گی اور مسلمانوں کا امیر و خلیفہ بھی ہوگا لیکن لوگ اخلاص وحسن نیت کے ساتھ اپنی اس امارت و حکومت کے تئیں وفاداری نہ رکھیں گے بلکہ ان کے دلوں میں بغض و عداوت، عدم وفاداری اور مخالفت ومخاصمت کے جذبات ہوں گے، جیسا کہ اگر کسی کی آنکھ میں کوئی ریزہ یا تنکا پڑجائے تو گو وہ باہر سے اچھی بچھی معلوم ہوتی ہو مگر اس کے اندر سخت شوزش اور دکھن ہوتی ہے اسی طرح وہ لوگ گو ظاہر میں اپنی امارت و حکومت کے وفادار و بہی خواہ نظر آئیں گے مگر ان کے اندر غیر وفاداری اور مخالفت و عداوت بھری ہوگی اور قاضی نے اس کے دوسرے معنی بیان کئے ہیں اور وہ یہ کہ اس وقت مسلمانوں کی حکومت وامارت تو قائم ہوگی لیکن وہ امارت و حکومت، بعض بدعتوں اور دین مخالف کاروائیوں کے ذریعے اپنی حیثیت کو بگاڑے رکھے گی۔ ہدنۃ مصالحت کے مفہوم میں ہے اور اصل میں اس کے معنی سکون و آرام اور فراغت کے ہیں اور دخن دخان کے مفہوم میں ہے جس کے معنی ہیں دھواں اس جملے ہدنۃ علی دخن (صلح کی بنیاد کدور پر ہوگی) کا مطلب بھی وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ اس وقت باہم مخاصمت و مخالفت رکھنے والے فریقوں کے درمیان جو مصالحت ہوگی وہ فریب ونفاق اور بدنیتی کے ساتھ ہوگی کہ اس اعتبار سے یہ جملہ ماقبل کے جملہ کو مؤ کدہ کرنے کے لئے ہے۔ اور شارحین حدیث نے بیان کیا ہے کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مصداق وہ مصالحت ومفاہمت ہے جو حضرت امام حسن اور حضرت امیر معاویہ (رض) کے سپرد کردی تھی اور انہوں نے یعنی امیر معاویہ (رض) نے اپنی امرت وسیادت کو مستحکم کرلیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض حضرات خصوصا مورخین نے جو یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امیر معاویہ، حضرت امام حسن سے صلح و صفائی کرلینے کے بعد خلیفہ ہوئے تھے۔ اس معنی میں صحیح نہیں ہے کہ امام حسن واقعۃ حضرت امیر معاویہ (رض) کو خلافت کا اپنے سے زیادہ مستحق واہل جانتے تھے اس لئے انہوں نے صلح کر کے ان کے حق میں خلاف سے دستبرداری دے دی تھی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے سیاسی عناصر نے حضرت امام حسن کے خلاف جس طرح کا ماحول بنادیا تھا اور ان دونوں عظیم المرتبت شخصیتوں کی باہمی آویزش کی وجہ سے دین وملت کو جو نقصان پہنچنے والا تھا، حضرت امام موصوف نے اس سے بچنے کے لئے بادل نخواستہ مصالحت کی اور اپنی خلافت و حکومت کو دین وملت کے وسیع تر مفاد پر ترجیح دینے کی بجائے اس سے دستبرداری ہی کو بہتر سمجھا۔ گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہوں گے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے امراء اور ارباب حکومت میں سے ایسے لوگوں کی جماعت پیدا ہوگی جو لوگوں کو بدعت و گناہ کی طرف مائل کرے گی اور برائی کے راستے پر لگائے گی۔ کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو کے ذریعے اس امر کی تلقین کرنا مقصود ہے کہ اپنے نازک حالات اور اس طرح کے سخت دین مخالف ماحول میں تمہیں چاہئے کہ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے کہیں گوشہ نشین ہوجاؤ اور اپنے آپ کو فتنہ و فساد سے بچا کر اپنی باقی زندگی کو کسی ایسی جگہ گزار دو جہاں تک اس فتنہ کے برے اثرات تم تک نہ پہنچ سکیں یہاں تک کہ اگر تمہیں ان نازک حالات اور اس پر فتن ماحول سے دور رہنے کے لئے کہیں دور جنگل میں جا کر کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے اور وہاں اتنی سخت اور صبر آزما زندگی گزارنی پڑے کہ گھاس پھوس اور لکڑی چبانے تک کی نوبت آجائے تو اس سے بھی دریغ نہ کرو۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ والا فمت کا تعلق واطعہ سے ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اس امیر و بادشاہ کی طرف سے تمہارے حق میں کتنے ہی سخت حالات پیدا کر دئیے جائیں تم اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے منہ نہ پھیرنا، کیونکہ اگر تم اس امیر و بادشاہ کی اطاعت نہیں کرو گے تو پھر تمہیں اور زیادہ شدید حالات میں اور کہیں زیادہ سخت اذیت کے ساتھ مرنا پڑے گا۔ نیز بعض نسخوں میں فمت کی بجائے قمت کا لفظ ہے جو لفظ قیام سے ماضی کا صیغہ ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اگر ایسا نہ ہو یعنی تم اس امیر و بادشاہ کے ظلم وستم کی وجہ سے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے سے معذور ہو تو پھر نکل کھڑے ہو اور کہیں دور جنگل میں جا کر کسی درخت کی جڑ میں پناہ لے لو۔ (یعنی اس امیر و بادشاہ کے زیر حکومت علاقہ سے نکل جاؤ اور کہیں دوسری جگہ جا کر پناہ گزیں ہوجاؤ۔ جس کے ساتھ پانی کی نہر ہوگی اور آگ کی خندق کے بارے میں بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ دونوں چیزیں حقیقی نہیں بلکہ محض خیالی ہوں گی اور ان کا تعلق سحر و طلسم سے ہوگا یعنی بظاہر نظر تو ایسا آئے گا کہ وہ دجال اپنے ساتھ پانی کی نہر اور آگ کی خندق لئے پھر رہا ہے لیکن حقیقت ان کے علاوہ کچھ اور ہوگی، جیسا کہ شعبدہ باز نظر بندی کر کے کچھ کا کچھ دکھا دیتے ہیں، چناچہ آگے کی عبارت فمن وقع فی فارۃ میں دجال کی طرف آگ کی نسبت سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں چیزیں محض جادوئی اور طلسماتی ہوں گی۔ اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اس کے ساتھ پانی کی جو نہر ہوگی وہ نتیجہ و حقیقت کے اعتبار سے آگ ہوگی اور آگ کی خندق ہوگی وہ نتیجہ و حقیقت کے اعتبار سے پانی ثابت ہوگا۔ اور حضرت شیخ عبدالحق نے اس جملے کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات تو یہی ہے کہ یہ عبارت حقیقی معنی پر محمول ہے، یعنی اس کے ساتھ واقعۃ پانی کی نہر اور آگ کی خندق ہوگی، لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ ان چیزوں سے مراد لطف وقہر اور وعدہ وعید ہو، یعنی پانی کی نہر سے مراد تو یہ ہے کہ اس کے پاس اپنے متعلقین کے لئے زبردست ترغیبات و لالچ اور آسائش و راحت کے سامان ہوں گے اور آگ کی خندق سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین و منکرین کے لئے ڈرانے، دھمکانے اور مصیبت واذیت میں مبتلا کرنے کے ذرائع رکھے گا، پس جو شخص اس کی آگ میں پڑے گا الخ کا مطلب یہ ہے کہ دجال کی موافقت و تابعداری نہیں کرے گا وہ اس کو آگ میں ڈالے گا اور طرح طرح کی سختیوں اور آلام میں مبتلا کرے گا) اور جو شخص اس کی آگ میں پڑے گا وہ اللہ کے دین پر ثابت قدم رہنے اور اللہ کی رضاء کی خاطر ہر مصیبت پر صبر کرنے کی وجہ سے بڑے بڑے اجر پائے گا اور اس نے پہلے جو گناہ کئے ہوں گے وہ دھل جائیں گے، اسی طرح جو شخص دجال کی موافقت و تابعداری کرے گا اس کو وہ اپنی میں ڈالے گا (یعنی اس کو طرح طرح کی آسائش اور راحت زیادہ سے زیادہ دنیاوی فائدے پہنچائے گا، چناچہ جو شخص اس کے پانی میں جائے گا وہ دنیاوی آسائش و راحت اور یہاں کی زندگانی کی محبت کے سبب اس پر ایمان لانے، اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی وجہ سخت وبال مول لے لے گا اور اس نے پہلے جو اچھے کام کئے ہوں گے ان سب کا اجر ضائع ہوجائے گا۔ ثم ینتج المہر الخ میں لفظ ینتج انتج کا صیغہ مجہول ہے نہ کہ یہ انتاج سے ہے اور نتج کے معنی ہیں حاملہ کی خبر گیری کرنا یہاں تک کہ وہ جنے۔ جب کہ انتاج کے معنی ہیں ولادت کا وقت آجانا۔ پس علماء نے لکھا ہے کہ یہاں نتج اصل میں تولید کے معنی استعمال ہوا ہے یعنی لوگ اپنی گھوڑیوں کے ہاں بچہ ہونے کی تدابیر اختیار کریں گے اور بچہ جننے کے وقت گھوڑیوں کی دیکھ بھال اور خدمت کریں گے جیسا کہ دایہ کسی عورت کے ہاں ولادت کے وقت خدمت انجام دیتی ہے اور مہر کے معنی بچھڑنے کے ہیں اور اگر یہ لفظ ۃ کے ساتھ یعنی مہرۃ ہو تو اس کے معنی بچھڑی کے ہوتے ہیں۔ نیز یرکب کے معنی ہیں سواری دینے کی عمر کو پہنچ جانا یا سواری کے قابل ہوجانا۔ بہرحال جو یہ فرمایا گیا ہے کہ لوگ اپنی گھوڑیوں سے بچے جنوانے کی تدابیر کریں گے تاکہ ان کو سواری کے کام میں لاسکیں لیکن جب ان کی گھوڑیاں بچے جنیں گی تو وہ بچے ابھی سواری کے قابل بھی نہیں ہونے پائیں گے کہ قیامت آجائے گی، تو اس سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کی طرف اشارہ کرنا ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول سے قیامت کے دن تک گھوڑوں کی سواری کا موقع ہی نہیں آئے گا اور یہ اس وجہ سے ہوگا کہ اس زمانے میں کفار کا وجود ہی نہیں ہوگا کہ جن سے جنگ کرنے کے لئے گھوڑوں کی سواری کی ضرورت پیش آئے لیکن یہ مراد لینا اور مذکورہ تاویل کرنا اس زمانے تو صحیح تھا جب کہ گھوڑوں کی سوار صرف میدان جنگ تک محدود رہتی تھی اور گھوڑے کا اصل مصرف کفار کے مقابلے پر لڑنے کے لئے ان کو استعمال کرنا سمجھا جاتا تھا، ظاہر ہے کہ موجودہ حالت میں یہ بات کچھ زیادہ وزن دار معلوم نہیں ہوتی۔ یا اس جملے کے ذریعے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ دجال کے ظاہر ہوجانے کے بعد سے قیامت آنے تک کا زمانہ طویل نہیں ہوگا، بہت مختصر ہوگا، گویا اس وقت سے قیامت آنے تک میں بس اتنا عرصہ رہ جائے گا ایک بچھڑے کے پیدا ہونے کے وقت سے اس سواری کے قابل ہونے تک کے درمیان لگتا ہے۔ یہ وضاحت نہ صرف یہ کہ زیادہ صاف اور قرین قیاس ہے بلکہ ان احادیث کے مفہوم کے مطابق بھی ہے جو اس سلسلے میں منقول ہیں۔

【20】

خلافت راشدہ کے بعد پیش آنے والے روح فرسا واقعات کے بارے میں پیشگوئی

حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن کسی سفر کے موقع پر میں گدھے پر رسول کریم ﷺ کے پیچھے سوار تھا (یعنی آنحضرت ﷺ نے ابوذر (رض) کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا، گویا یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ (رض) اور رفقاء کے ساتھ کس قدر تواضع و محبت اور حسن و سلوک کا رویہ اختیار فرماتے تھے، نیز اس سے حضرت ابوذر (رض) کی اس خصوصیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انہیں حضور ﷺ سے کس قدر قریب کا مقام حاصل تھا اور وہ آنحضرت ﷺ کے فرمودات کو نہایت توجہ وہوشیاری کے ساتھ سنتے اور اچھی طرح یاد رکھتے تھے، بہرحال، حضرت ابوذر (رض) نے فرمایا کہ) جب ہم مدینہ کے گھروں سے یعنی آبادی سے باہر نکل گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا ابوذر (رض) اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب مدینہ میں بھوک کا دور دورہ ہوگا (یعنی خاص طور پر تمہیں اس قدر اسباب معیشت حاصل نہیں ہو سکیں گے کہ تم اپنا پیٹ بھی بھر سکو، یا یہ کہ اس وقت مدینہ میں قحط پھیل جائے گا اور تم لوگوں کو کھانے کے لئے کچھ نہیں ملے گا یہاں تک کہ تم اپنے بستر سے اٹھ کر اپنی مسجد تک پہنچنے میں بھی مشکل محسوس کرو گے اور بھوک کی شدت تمہیں سخت پریشانی اور اذیت میں مبتلا کر دے گی (یعنی بھوک کی وجہ سے تم پر اس قدر ضعف غالب ہوجائے گا کہ تم اپنے گھر سے نکل کر نماز پڑھنے کے لئے مسجد تک جانے میں بھی سخت مشکل اور دقت محسوس کرو گے۔ حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں (یعنی میں نہیں بتاسکتا کہ اس وقت کیا کروں گا، ہاں آپ ﷺ ہی ہدایت فرمائیے کہ اس وقت مجھے کیا کرنا چاہئے) آپ ﷺ نے فرمایا۔ ابوذر ! پارسائی اختیار کرنا، یعنی اس بھوک پر صبر کرنا ضبط و تحمل کے ساتھ اس سخت حالت کا مقابلہ کرنا اپنے آپ کو حرام ومشتبہ مال سے محفوظ رکھنا، طمع و لالچ لرکھنے اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے اور مخلوق کے سامنے ذلت و رسوائی اختیار کرنے سے اجتناب کرنا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا۔ ابوذر ! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب قحط یا کسی وبا کے پھیل جانے کی وجہ سے مدینہ میں موت کی گرم بازاری ہوگی اور مکان (یعنی قبر) کی قیمت غلام تک پہنچ جائے گی (یعنی کثرت اموات سے یہ حال ہوگا کہ لوگوں کو اپنے مردے دفن کرنے کے لئے قبر کی جگہ ملنی مشکل ہوجائے گی اور ایک قبر کی جگہ، غلام کی قیمت کے برابر پہنچ جائے گی۔ چناچہ آگلے جملے کے ذریعے اسی بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں فرمایا کہ یہاں تک کہ قبر کی جگہ، غلام کی قیمت کے برابر فروخت ہوگی) حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں (آپ ہی ہدایت فرمائیے کہ اس وقت مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا ابوذر ! صبر کا دامن ہرگز نہ چھوڑنا اور پھر فرمایا ابوذر ! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب مدینہ میں قتل عام ہوگا اور اس کا خون احجار الزیت کو ڈھان لے گا ؟ حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں (آپ ﷺ ہی فرمائیے کہ مجھے اس وقت کیا کرنا چاہئے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا تم اس کے پاس چلے جانا، جس سے تم تعلق رکھتے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ، تو کیا میں اس وقت ہتھیار باندھ لوں اور فتنہ پھیلانے والی جماعت کے خلاف برسر پیکار ہوجاؤں آپ ﷺ نے فرمایا۔ اس طرح تو تم بھی جماعت کے شریک کار ہوجاؤ گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! پھر مجھے اس وقت کیا کرنا چاہئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اگر تمہیں خوف ہو کہ تلوار کی چمک تم پر غالب آجائے گی (یعنی تم یہ دیکھو کہ کوئی شخص تمہیں مار ڈالنے کے لئے اپنی تلوار سے تم پر وار کرنا چاہتا ہے) تو اس وقت تم اپنے کپڑے کا کونہ اپنے منہ میں ڈال لینا۔ تاکہ وہ تمہارا گناہ (یعنی تمہارے قتل کا گناہ) اور اپنا گناہ لے کر واپس ہو۔ (ابوداؤد) تشریح تصبر بات تفعل سے امر کا صیغہ ہے اور ایک نسخہ میں یہ لفظ مضارع کا صیغہ منقول ہے جو امر کے معنی ہیں اس جملے کا حاصل یہ ہے کہ تم اس آفت وبلا پر صبر کرنا جزع وفزع سے اجتناب کرنا، تقدیر الٰہی پر راضی و شاکر رہنا۔ اور مدینہ سے بھاگنے کی کوشش نہ کرنا۔ احجار الزیت نواح مدینہ میں بجانب غرب ایک جگہ کا نام تھا، وہاں کی زمین نہایت پتھریلی تھی اور وہ پتھر بھی اس قدر سیاہ اور چمکدار تھے کہ جیسے کسی نے ان پر زیتون کا تیل مل دیا ہو، اسی مناسبت سے اس جگہ کو احجار الزیت کہا جاتا تھا۔ حضور ﷺ نے اس ارشاد گرامی ابوذر ! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب مدینہ میں قتل عام ہوگا الخ کے ذریعے بطور پیشگوئی اس خونچکاں واقعہ کی طرف اشارہ کیا جو مسلمانوں کے قتل عام کی صورت میں مدینہ منورہ پیش آیا اور واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہوا، مستند کتابوں میں اس واقعہ کی جو تفصیل مذکور ہے وہ اتنی لرزہ خیز، اتنی دردناک اور اتنی بھیانک ہے کہ نہ تو اس کو بیان کرنے کا زبان وقلم کو یارا ہے اور نہ کوئی آسانی کے ساتھ اس کو پڑھنے اور سننے کی تاب لاسکتا ہے۔ تاہم اجمالی طور پر اتنا بتادینا ضروری ہے کہ جب بدبخت یزید ابن معاویہ کی فوج نے میدان کربلا میں حضرت امام حسین (رض) کو نہایت بےدردی کے ساتھ شہید کردیا تو پورے عالم اسلام میں زبردست تہلکہ مچ گیا اور یزید کے خلاف عام مسلمانوں میں ناہیت نفرت کے جذبات پیدا ہوگئے ادھر اس کی بدکاریوں، بےاعتدالیوں اور بدمست زندگی کے واقعات نے اس کی طرف لوگوں کو پہلے ہی بدظن کر رکھا تھا چناچہ اہل مدینہ نے متفقہ طور پر اس کی خلافت و حکومت سے بیزاری کا اظہار اور اس کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا، جب یزید کو یہ معلوم ہوا تو اس نے مسلم بن عقبہ کی کمان میں ایک بہت بڑا لشکر اہل مدینہ نے بڑی بہادری اور بےجگری کے ساتھ یزید کی فوج کا مقابلہ کیا لیکن اول تو تربیت یافتہ فوج اور دیگر وسائل و ذرائع کی کمی کی وجہ سے اور دوسرے مسلم بن عقبہ جیسے ہوشیار و تجربہ کار کمانڈر کا مقابلہ نہ کرسکنے کی وجہ سے شکست کھا گئے پھر تو مسلم بن عقبہ اور اس کی فوج نے شہر میں گھس کر قتل عام اور خونریزی کا بازر گرم کردیا اور قتل عام لوٹ مار کا یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہا، ہزاروں مسلمان نہایت سفاکی اور بےدردی کے ساتھ قتل کر دئیے گئے جن میں صحابہ کرام اور تابعین کی بھی بہت بڑی تعداد تھی، شہر مقدس اور مسجد نبوی ﷺ کی حرمت کو پامال کیا گیا اور دیگر ناقابل بیان تباہیوں اور بربادیوں کا بازار گرم کیا گیا۔ صرف مدینہ ہی کی پامالی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بعد یزید کی وہ فوج مکہ کی طرف روانہ ہوئی جہاں کے لوگوں نے بہت پہلے سے حضرت عبداللہ بن زبیر کو خلیفہ تسلیم کر رکھا تھا، یزیدی لشکر نے مکہ مکرمہ میں بھی بےپناہ تباہی مچائی اور خانہ کعبہ تک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اسی سال یزید کی موت ہوئی۔ تم اس کے پاس چلے جانا جس سے تعلق رکھتے ہو کے معنی یہ ہیں کہ اس وقت جو لوگ تمہارے دین ومسلک کے ہوں اور تمہارے خیالات و اعمال کے موافق ہوں ان کے پاس چلے جانا۔ اور قاضی (رح) نے اس جملے کی یہ مراد بیان کی ہے کہ تم اپنے اہل واقا رب کے پاس چلے جانا اور یہ کہ اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔ اور طیبی (رح) نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تم اپنے اس امام و امیر کی طرف رجوع کرنا جس کی تم اتباع فرمانبرداری کرتے ہو۔ یہ مطلب زیادہ صحیح اور حضرت ابوذر (رض) کے اس جملے تو کیا میں ہتھیار باندھ لوں کے زیادہ مناسب ہے۔ اس طرح تم بھی جماعت کے شریک کار ہوجاؤ گے کا مطلب، جو طیبی کے منقولات کی روشنی میں واضح ہوتا ہے یہ ہے کہ ایسے موقع پر جب کہ فتنہ و فساد پھوٹ پڑا ہو اور قتل و خونریزی کا بازار گرم ہو مسلح اور ہتھیار بند ہونا گویا اس خونریزی میں شرکت کرنا اور فتنہ پردازی کے گناہ گاروں کی صف میں شامل ہونا ہے لہٰذا تم نہ ہتھیار باندھنا اور نہ کسی کے خلاف جنگ میں شریک ہونا بلکہ اپنے امام ومقتدا اور صلح جو امن پسند لوگوں کے ساتھ رہنا یہاں تک کہ تم صلح جوئی اور امن پسندی کی راہ میں فلاح یاب۔ لیکن اس وضاحت پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ ایک طرف تو حضرت ابوذر (رض) کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنے امام و امیر کے ساتھ رہیں جو یقینا اس وقت قتل و قتال اور خونریزی میں ایک فریق کی حیثیت رکھے گا دوسری طرف یہ حکم دیا گیا کہ وہ قتل و قتال سے دور رہیں۔ تو یہ دونوں باتیں ایک ساتھ کس طرح ممکن ہوں گی ؟ اس کا جواب ابن ملک نے اس طرح دینے کی کوشش کی ہے کہ شریعت کا حکم تو یہی ہے کہ اگر کوئی شخص ناحق اور از راہ ظلم، خونریزی کا ارتکاب کرنا چاہے تو اس کا دفاع کرنا اور اس کی فساد انگیزی کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی سعی کرنا واجب ہے لیکن حضور ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ اس وقت ہتھیار بند ہونا، گویا فتنہ پردازوں کی جماعت کا شریک کار ہونا ہے، تو اس کا اصل مقصد خونریزی کی بڑائی کو واضح کرنا اور اس کے تباہ کن اثرات کے خلاف آگاہ و متنبہ کرنا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اگر خونریزی و غارت گری کے لئے آنے والا دشمن اگر مسلمان ہو تو طاقت کے ذریعے اس کا دفاع کرنا اور اس سے لڑنا جائز ہے بشرطیکہ اس سے مقابلہ آرائی کی صورت میں فتنہ و فساد کے زیادہ بڑھ جانے کا خوف نہ ہو اور اگر وہ دشمن، کوئی غیر مسلم ہو تو پھر اس کا ہر ممکن ذریعے سے مقابلہ کرنا اور اس کے ساتھ ہر صورت میں لڑنا واجب ہے۔ اپنے کپڑے کا کونہ اپنے منہ میں ڈال لینا کا مطلب یہ ہے کہ اگر قتل و قتال کرنے والے لوگ تم پر حملہ بھی کریں تو تم ان سے نہ لڑو۔ بلکہ ان کے حملے کے وقت کسی بھی ذریعے سے اپنے آپ کو غافل اور غیر متعلق بنا لو تاکہ تمہیں اس حملے سے خوف محسوس نہ ہو۔ اس سے گویا اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ تم ان لوگوں سے اس حالت میں بھی نہ لڑنا اور ان کے خلاف تلوار نہ آتھانا جب کہ وہ تم سے لڑنا اور تمہیں قتل کرنا چاہیں بلکہ تمہارے لئے فلاح کا راستہ یہی ہوگا کہ اس وقت تم مظلوم بن جانا اور اور اپنے آپ کو ان کے ہاتھوں شہید ہوجانے پر تیار کرلینا کیونکہ وہ لوگ بہرحال مسلمان ہوں گے اور مسلمان کے خلاف تلوار اٹھانا جائز نہیں ہے۔ اگر وہ تمہیں قتل کریں گے تو وہ ان کا عمل ہوگا اور اللہ خود ان سے نپٹ لے گا۔ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد کا اصل مقصد مسلمانوں کی باہمی خونریزی کی برائی اور اس سے بچنے کی فضیلت کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کرنا ہے کہ چاہے اپنی جان سے ہاتھ بھی دھونا پڑے مگر کسی مسلمان کے خلاف ہتھیار اٹھانا گوارہ نہ کرنا چاہئے ورنہ جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے، یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ فتنہ کا سر کچلنے کے لئے اور ناحق خونریزی پر آمادہ شخص کا دفاع کرنے کے لئے لڑنا جائز ہے اگرچہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بات واضح کر دینی ضروری ہے کہ واقعہ حرہ ٦٣ ھ میں پیش آیا جب کہ حضرت ابوذر (رض) کی وفات حضرت عثمان غنی (رض) کی خلافت کے آخری زمانے میں ٣٢ ھ میں ہوچکی تھی، پس آنحضرت ﷺ پر یہ تو منکشف ہوگیا تھا کہ مدینے میں ایسا المناک واقعہ پیش آئے گا لیکن یہ منکشف نہیں ہوا تھا کہ یہ واقعہ کب پیش آئے گا۔ چناچہ آپ ﷺ نے حضرت ابوذر (رض) کو اس کے متعلق باخبر کیا اور گویا یہ وصیت فرمائی کہ اگر وہ خونریزی تمہارے سامنے پیش آئے اور تمہاری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو صبر و ثبات کی راہ اختیار کرنا اور اس خونریزی میں ہرگز شامل نہ ہونا جہاں تک بھوک کی حالت اور کثرت اموات کے واقعہ کا تعلق ہے تو ہوسکتا ہے کہ مدینہ والوں کو ان دونوں باتوں کا سامنا کرنا پڑا ہو اور حضرت ابوذر (رض) کی زندگی ہی میں یہ دونوں پیشگوئیاں بھی پوری ہوگئی ہوں جیسا کہ عام الرماد میں پیش آنے والی صورت حال سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ قتل عام اور خونریزی کے فتنہ کی طرح یہ دونوں باتیں بھی حضرت ابوذر (رض) کی وفات کے بعد ظاہر ہوئی ہیں۔

【21】

پر فتن ماحول میں نجات کی راہ

حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اس وقت تم کیا کرو گے جب تم اپنے آپ کو ناکارہ لوگوں کے زمانے میں پاؤ گے جن کے عہد و پیمان اور جن کی امانتیں خلط ملط ہوں گی اور جو آپ میں اختلاف رکھیں گے، گویا وہ ولوگ اس طرح کے ہوجائیں گے یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کیا۔ حضرت عبداللہ (رض) نے یہ سن کر عرض کیا کہ آپ ﷺ مجھے ہدایت فرمائیے کہ اس وقت میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس وقت تم پر لازم ہوگا کہ اس چیز کو اختیار کرو اور اس پر عمل کرو جس کو تم دین و دیانت کی روشنی میں حق جانو اور اس چیز سے اجتناب ونفرت کرو جس کو تم ناحق اور برا جانو، نیز صرف اپنے کام اور اپنی بھلائی سے مطلب رکھو اور خود کو عوام الناس سے دور کرلو۔ اور ایک روایت میں یوں منقول ہے کہ اپنے گھر میں پڑے رہو بلا ضرورت باہر نکل کر ادھر ادھر نہ جاؤ اپنی زبان کو قابو میں رکھو، جس چیز کو حق جانو اس کو اختیار کرو اور جس چیز کو برا جانو اس کو چھوڑ دو ، صرف اپنے کام اور اپنی بھلائی سے مطلب رکھو اور عوم الناس سے کوئی تعلق نہ رکھو۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے۔ تشریح حثالۃ کے معنی ہیں چاول اور جو وغیرہ کا چھلکا، جس کو بھوسی کہتے ہیں اسی طرح کسی بھی چیز کے ناکارہ اور بےفائدہ حصے کو بھی حثالہ کہا جاتا ہے، پس حثالۃ من الناس سے مراد وہ لوگ ہیں جو انسانی و اخلاقی قدروں کے اعتبار سے ادنیٰ درجے کے ہوں، جو انسانیت کا جوہر نہ رکھنے کے سبب نہایت پست ہوں اور جو دین وآخرت کے اعتبار سے بالکل ناکارہ اور بےفائدہ ہوں۔ جن کے عہد و پیمان اور جن کی امانتیں خلط ملط ہوں گی کا مطلب یہ ہے کہ وہ بالکل بےاعتبار اور ناقابل اعتمال دولت ہوں گے ان کے کسی عمل اور کسی قول کا کوئی بھروسہ نہیں ہوگا، ان کے کسی اقدام اور کسی معاملہ میں پختگی و استقلال نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی، ان کے عہد و پیمان اور فیصلے لمحہ بہ لمحہ مختلف شکل و صورت میں بدلتے رہیں گے، دین ودیانت کے تقاضوں سے بےپرواہ ہوں گے اور امانتوں میں خیانت کریں گے۔ اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کیا یعنی آپ ﷺ نے یہ سمجھانے کے لئے کہ وہ آپس میں کس طرح ایک دوسرے کی ہلاکت کے درپے ہوں گے اور ان کے باہمی اختلاف ونزاعات کی کیا صورت ہوگی اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کر کے دکھایا اور بطور مثال واضح فرمایا کہ جس طرح ان دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہیں اسی طرح ان کی اخلاقی وسماجی حیثیت اس درجے الجھی ہوئی اور ان کے دینی معاملات و اعمال اس قدر خلط ملط ہوں گے کہ امین وخائن اور نیک وبد کے درمیان تمیز کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ واضح رہے کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کرنا جس طرح باہمی اختلاف ونزاع کو بطور تمثیل بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے اسی طرح کبھی دو چیزوں کے باہمی رطب واتصال اور اتفاق ویگانگت کو ظاہر کرنے کے لئے بھی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کر کے دکھایا جاتا ہے جیسا کہ مال غنیمت کی تقسیم کے بیان میں وہ حدیث گزری ہے جس میں حضور ﷺ نے مال غنیمت کے خمس کی تقسیم کے تعلق سے بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کے باہمی ربط واتصال اور ان کی ایک دوسرے کے ساتھ قربت ویکجائی کو ظاہر کرنے کے لئے بطور تمثیل اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کر کے دکھایا تھا۔ دونوں صورتوں پر اس تمثیلی عمل کا اطلاق معنوی طور پر بھی کوئی تضاد نہیں رکھتا بلکہ تشبیک کے جو اصل معنی ہیں، یعنی باہم مختلط ہونا، دو چیزوں کا ایک دوسرے میں داخل ہونا، وہ مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں۔ اپنی بھلائی سے مطلب رکھو اور خود کو عوام الناس سے دور کرلو کا ملطب یہ ہے کہ پر فتن دور میں سب سے زیادہ ضرورت خود اپنے نفس کی اصلاح اور اپنے دین و کر در کی حفاظت کی ہوتی ہے، لہٰذا اس وقت تم بھی بس اپنے دین اور اپنی اخروی بھلائی کے کاموں کی تکمیل و حفاظت میں مشغول رہنا اور دوسرے لوگوں کی طرف سے کسی فکر و خیال میں نہ پڑنا۔ یہ حکم ایسے ماحول میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ پر عمل نہ کرنے کی ایک درجہ میں اجازت کے طور پر ہے جب کہ شریر و بدکار لوگوں کی کثرت اور ان کا غلبہ ہو اور صالح ونیک لوگوں کی طاقت بہت کم ہو۔ اپنی زبان کو قابو میں رکھو کا مطلب یہ ہے کہ جب پورے ماحول میں برائیوں کا دور دورہ ہوجاتا ہے اور شریر و بدکار لوگوں کے اثرات غالب ہوتے ہیں تو زبان سے اچھی بات نکالنا بھی ایک جرم بن جاتا ہے، لہٰذا تم اس وقت لوگوں کے احوال و معاملات کے بارے میں بالکل خاموشی اختیار کئے رکھنا، کسی کی برائی یا بھلائی میں اپنی زبان نہ کھولنا تاکہ تمہاری بات کا برا ماننے والے لوگ تمہیں تکلیف و ایذاء نہ پہنچائیں۔ اس موقع پر ایک خاص بات یہ ذہن میں رکھنے کی ہے کہ پر فتن دور کے سلسلے میں ایک حدیث تو یہ ہے اور ایک حدیث پیچھے گزری ہے جس کو حضرت حذیفہ (رض) نے نقل کیا ہے، ان دونوں میں ایک طرح سے تضاد نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ اس حدیث میں تو آنحضرت ﷺ نے گویا حضرت عبداللہ بن عمرو کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ اس پر فتن ماحول میں بھی لوگوں کے درمیان بودوباش رکھنے سے پرہیز نہ کریں اور دنیا والوں سے مکمل یکسوئی علیحدگی اختیار نہ کریں، نیز ان کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ صرف اپنے نفس کے تزکیہ و اصلاح اور اپنی دینی زندگی کو سدھارنے سنوارنے لگیں رہیں، عوام الناس کے معاملات سے کوئی سروکار نہ رکھیں اور ان کے حالات و اعمال کے تئیں کوئی فکر نہ کریں۔ اس کے برخلاف آپ ﷺ نے حضرت حذیفہ (رض) کو یہ حکم دیا کہ وہ ایسے ماحول میں بودوباش نہ رکھیں اور لوگوں سے مکمل علیحدگی ویکسوئی اختیار کر کے کسی ویرانہ وجنگل میں چلے جائیں دونوں حدیثوں کے اسی ظاہری تضاد کو دور کرنے کے لئے علماء نے لکھا ہے کہ ایک صورت حال کے لئے اس دو طرح کے حکم کا تعلق دراصل شخصی حالت کی رعایت و مصلحت کے اعتبار سے ہے، یعنی آپ ﷺ نے ان دونوں میں سے ہر ایک کو وہ حکم دیا جو اس کی حالت و حیثیت کے مطابق تھا، جس میں اس کی اصلاح پوشیدہ تھی اور جس پر عمل کر کے وہ نجات و فلاح کی راہ پاسکتا تھا جیسا کہ مرشد ومصلح کا طرز اصلاح ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیر اور مرید کے ذہن ومزاج اور اس کے طبعی و شخصی حیثیت وحالت کے مطابق ہی اس کو تلقین و ہدایت کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) جیسا کہ معلوم ہے نہایت اونچے درجے کے صحابی ہیں، ان کی زندگی پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انتہائی عظمت و فضیلت کے حامل تھے، منقول ہے کہ وہ اپنی جوانی کے دنوں میں بھی اتنے عابد و زاہد تھے کہ افطار کئے بغیر مسلسل روزے رکھا کرتے تھے، رات بھر سوتے نہیں تھے بلکہ عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے، دنیاوی لذات و خواہشات سے اس قدر متنفر تھے کہ بیوی تک کی طرف کوئی رجحان نہٰ رکھتے تھے، ایک دن ان کے والد محترم حضرت عمرو بن عاص (رض) ان کو آنحضرت ﷺ کے پاس لے کر آئے اور ان کی اس عبادت و ریاضت کا حال بیان کیا، آنحضرت ﷺ نے ان کو اتنی سخت ریاضت اور اتنی زیادہ عبادت سے منع کیا اور حکم فرمایا کہ بلا افطار تین دن سے زیادہ روزے نہ رکھا کرو اور پوری رات کے بس تہائی یا چھٹے حصے میں شب بیداری کیا کرو، نیز آپ ﷺ نے ان کے یہ بھی نصیحت کی کہ اپنے بزرگوار باپ کی مرضی ومنشاء کا ہمیشہ لحاظ رکھنا۔ چناچہ حضور ﷺ کی اس وصیت و نصیحت کی بنا پر انہوں نے ملت میں تفرقہ و انتشار کے سخت ترین فتنے کے دور میں بھی اپنے والد بزرگوار سے علیحدگی وجدائی اختیار نہیں کی، جو حضرت امیر و معاویہ (رض) کے مشیر اعلیٰ اور وزیر تھے اور جیسا کہ حضور ﷺ نے ان کو فرمایا تھا، وہ لوگوں کے معاملات و حالات سے بےپرواہ ہو کر اپنی ذات کی اصلاح اور اپنی استقامت کی طرف متوجہ رہتے، جب ان کے والد حضرت عمرو ان سے کہا کرتے کہ تم ہم میں سے ہونے کے باوجود ہم سے الگ الگ کیوں رہتے ہو اور ہماری کاروائیوں میں کیوں شریک نہیں ہوتے ؟ تو وہ جواب دیتے کہ آپ لوگوں کے اچھے کاموں میں تو شریک ہوں لیکن ان کاموں میں خود کو شریک نہیں کرسکتا جو میرے نزدیک اللہ اور اس کے رسول کی مرضی ومنشاء کے منافی وملی مفاد کے خلاف ہیں۔ نیز ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بڑے سے بڑے فتنے کے وقت بھی ان کے دل سے اہل بیت نبوی ﷺ کی عزت و احترام کا جذبہ کسی بھی طرح سے کم ہوا ہو، ان کا باطن ہمیشہ اہل بیت کی محبت و عظمت سے منور رہا۔

【22】

قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والے فتنوں کی پیشگوئی

حضرت ابوموسیٰ (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ قیامت آنے سے پہلے فتنے ظاہر ہوں گے جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے۔ ان فتنوں کے زمانے میں آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر ہوجائے گا۔ شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا۔ ان فتنوں کے وقت بیٹھ ہوا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا شخص دورنے والے سے بہتر ہوگا بس جب تم ان فتنوں کا زمانہ پاؤ تو اپنی کمانوں کو توڑ ڈالنا، کمانوں کے چلوں کو کاٹ ڈالنا اور اپنی تلواروں کو پتھر پردے مارنا (یعنی ان کے دھار کو کند و بیکار کردینا اور جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو مارنے کے لئے آئے تو اس کو چاہئے کہ وہ حملہ آور کا مقابلہ کرنے اور اس سے لڑنے کی بجائے آدم کے دو بیٹوں میں سے بہترین بیٹے کی مانند ہوجائے۔ ( ابوداؤد) اور ابوداؤد کی ایک اور روایت میں خیر من الساعی یعنی چلنے والا شخص دوڑنے والے سے بہتر ہوگا، کے الفاظ نقل کرنے کے بعد پھر یوں نقل کیا گیا ہے کہ صحابہ نے یہ ارشاد گرامی سن کر عرض کیا کہ تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ یعنی ہمیں ہدایت دیجئے کہ اس وقت ہم کیا کریں اور ان فتنوں میں کس طرح زندگی گزاریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ تم اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جانا۔ ترمذی کی روایت اس طرح ہے کہ حضور ﷺ نے فتنہ کے بارے میں یہ ہدایت فرمائی کہ تم فتنوں کے زمانہ میں اپنی کمانوں کو توڑ ڈالنا اور ان کے چلے کاٹ ڈالنا، نیز گھروں میں پڑے رہنے کو لازم کرلینا (یعنی اشد ضرورت کے علاوہ باہر نہ نکلنا اور اپنا سارا وقت گھروں میں گزارنے کے ذریعے لوگوں سے یکسوئی اختیار کئے رہنا تاکہ ان فتنوں کے برے اثرات سے محفوظ رہو) اور تم آدم کے بیٹے ہابیل کی طرح مظلوم بننا گوارہ کرلینا لیکن دفاع کی خاطر بھی کسی پر تلوار نہ اٹھانا، اس روایت کو ترمذی نے نقل کر کے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح غریب ہے۔ تشریح جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کے مانند ہوں گے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے باہمی قتل و قتال اور خونریزی کی صورت میں وہ فتنے اتنے زیادہ ہیبت ناک اور اس قدر شدید ہوں گے کہ دین وملت کا مستقبل تاریک تر نظر آنے لگے گا۔ اور اس وقت نیک وبد کے درمیان امتیاز کرنا اس طرح ناممکن ہوجائے جس طرح کہ اندھیری رات میں کسی کو شناخت کرنا ممکن نہیں ہوتا آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا الخ کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے عقائد ونظریات اقوال و احوال اور طور طریقوں میں ساعت بساعت تبدیلی ہوتی رہے گی، کبھی کسی نظریہ و عقیدہ کے حامل ہوں گے، کبھی کسی کے ایک وقت میں کوئی عہد و پیمان کریں گے اور دوسرے وقت میں اس سے منحرف ہوجائیں گے، کبھی دیانت و امانت پر چلنے لگیں گے اور کبھی بددیانتی و خیانت پر اتر آئیں گے کبھی سنت پر عمل کرتے نظر آئیں گے اور کبھی بدعت کی راہ پر چلتے دکھائی دیں گے، کسی وقت ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال ہوں گے اور کسی وقت تشکیک و اوہام اور کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے لگیں گے، غرض یہ کہ ہر ساعت اور ہر لمحہ تبدیلی پیدا ہوتی نظر آئے گی اور اس امر کا یقین کرنا دشوار ہوگا کہ کسی شخص کی اصل کیفیت وحالت کیا ہے۔ بیٹھا ہوا شخص کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا الخ کا اصل مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ جو شخص ان فتنوں سے جتنا زیادہ دور ہوگا وہ اس شخص سے اتنا ہی زیادہ بہتر ہوگا جو ان فتنوں کے قریب ہوگا اس جملے کی تفصیلی وضاحت پہلی فصل میں کی جا چکی ہے۔ کمانوں کے چلوں کو کاٹ ڈالنا یہ حکم گویا پہلے حکم یعنی اپنی کمانوں کو توڑ ڈالنا کو مؤ کد کرنے اور مقصد کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ اور پر زور انداز میں بیان کرنے کے لئے ہے، کیونکہ کمانوں کے ٹوٹ جانے کے بعد ان کے چلے اگر باقی بھی رہیں تو وہ کمانیں قطعی کارگر نہیں ہوسکتیں۔ لہٰذا کمانوں کے توڑ دینے کے حکم کے بعد ان کے چلوں کو کاٹ دینے کا حکم محض زور بیان اور تاکید حکم کے لئے ہے۔ آدم کے بیٹوں میں سے بہترین بیٹے کی مانند ہوجائے کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح آدم کے ایک بیٹے ہابیل نے مظلومیت کی موت کو گوارا کرلیا تھا لیکن اس نے آدم کے دوسرے بیٹے یعنی اپنے بھائی قابیل کے حملے کا جواب نہیں دیا اور سارا ظلم اور تمام زیادتی اسی کے سر ڈال دی تھی، اسی طرح فتنوں کے وقت کوئی شخص تم پر حملہ بھی کرے اور تمہیں قتل بھی کردینا چاہے تو تم اس کا مقابلہ ہرگز نہ کرنا اور اس کے ہاتھوں مرجانے کو صبر و ضبط کے ساتھ گوارا کرلینا، کیونکہ اگر تم اس کا مقابلہ کرو گے تو اس کی وجہ سے فتنہ میں اور زیادہ شدت پیدا ہوجائے گی اور خونریزی بڑھ جائے گی، پس اس وقت اپنے حملہ آور کا مقابلہ کئے بغیر شہید ہوجانا، مقابلہ کرنے اور خونریزی میں کسی بھی طرح سے شرکت کر کے اپنی جان کو بچا لینے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا۔ تم اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جانا کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کسی اچھے فرش، جیسے قالین وغیرہ کے نیچے جو ٹاٹ بچھا ہوتا ہے وہ ہمیشہ اور ہر وقت اپنی جگہ پڑا رہتا ہے اسی طرح تم بھی اپنے گھروں میں پڑے رہا کرنا اور مکان کی چار دیواری سے باہر نکل کر ادھر ادھر نہ جانا تاکہ تم اس فتنے میں مبتلا نہ ہوجاؤ اور اس کے اثرات تمہارے دین کو تباہ نہ کردیں۔ حاصل یہ کہ فتنہ انگیزی کی جگہ سے دور رہنا، لوگوں کے معاملات و کاروبار سے بےتعلقی ویکسوئی اختیار کرلینا اور گوشہ عافیت میں پڑے رہ کر اپنے دین کی حفاظت کرنا، اس وقت نجات کی بہترین راہ ہوگی جب کہ مسلمانوں کے باہمی قتل و قتال، افتراق و انتشار اور مناقشت ومنافقت کا فتنہ پھیل جائے۔

【23】

فتنوں کے وقت سب سے بہتر شخص کون ہوگا؟

حضرت ام مالک بہزیہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک دن جب رسول کریم ﷺ نے فتنہ کا ذکر فرمایا اور اس کو قریب تر کیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ﷺ اس فتنے کے زمانے میں سب سے بہتر کون شخص ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس زمانے میں سب سے بہتر شخص وہ ہوگا جو اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال اور ان کے گھاس چارے کے انتظام میں مصروف رہے ان کا حق ادا کرے یعنی ان پر جو زکوٰۃ اور شرعی ٹیکس وغیرہ واجب ہو، اس کو ادا کرے اور اپنے رب کی بندگی میں مشغول رہے اور وہ شخص بھی سب سے بہتر ہوگا جو اپنے گھوڑے کا سر یعنی اپنے گھوڑے کی پشت پر سوار اس کی باگ پکڑے کھڑا ہو اور دشمنان دین کو خوف زدہ کرتا ہو اور دشمن اس کو ڈراتے ہوں۔ (ترمذی) تشریح بہزیہ (ب کے زبر اور ہ کے جزم کے ساتھ) ابن امرء القیس کی طرف منسوب ہے، حضرت ام مالک ایک صحابیہ ہیں اور حجازیہ کہلائی جاتی ہیں۔ اور اس کو قریب تر کیا کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے جب اس فتنہ کا ذکر فرمایا تو اس بات سے باخبر کیا کہ وہ فتنہ بالکل قریب ہے اور سامنے آنے والا ہے۔ اور طیبی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ آپ ﷺ نے اس فتنہ کو بہت تفصیل و وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا اور چونکہ یہ ایک عام اسلوب ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے سامنے کسی چیز کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے اور اس کی خصوصیات و علامات کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ واضح کرتا ہے تو گویا وہ اس چیز کو مخاطب کے ذہن یا مشاہدہ کے قریب تر کردیتا ہے، چناچہ وہ مخاطب اس چیز کو نہ صرف اپنے ذہن و خیال میں جاگزیں پاتا ہے بلکہ وہ خارج میں بھی ایسا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے وہ چیز اپنی شکل و صورت کے ساتھ اس کے بالکل قریب موجود ہے۔ جو شخص اپنے مویشیوں میں رہے کا مطلب یہ ہے کہ اس فتنہ کے زمانے میں جب کہ مسلمانوں کے باہمی قتل و قتال اور محاذ آرائی کا بازار گرم ہوجائے گا، فلاح یاب شخص وہی ہوگا جو فتنوں کی باتوں سے لاتعلق اور دنیا والوں سے بیگانہ رہ کر اور گوشہ عافیت اختیار کر کے بس اپنے جائز کاروبار میں مشغول اور اپنے معاملات کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوگا، اس پر اس کے کاروبار اور معاملات کے تئیں شریعت کے جو حقوق عائد ہوتے ہوں ان کو ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے گا اور اپنے پروردگار کی طرف متوجہ اور اس کی عبادت میں منہمک رہے گا۔ یہ ارشاد گرامی گویا قرآن کریم کی ان آیات (ففروا الی اللہ، وتبتل الیہ تبتیلا۔ اور والیہ یرجع الامر کلہ فاعبدہ و توکل علیہ وما ربک بغافل عما تعملون) کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑے ہو الخ کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اس فتنہ و فساد میں الجھنے اور آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کے بجائے، اپنی طاقت و توانائی ان لوگوں کے خلاف استعمال کرنے کی طرف متوجہ ہو جو دین اسلام کے اصل دشمن و مخالف ہیں اور ان سے نبرد آزمائی میں لگ جائے یہ چیز نہ صرف یہ کہ دین وملت کی اصل خدمت ہونے کی وجہ سے اجر وثواب کا مستحق بنائے گی بلکہ اس فتنہ سے بچانے کا بہترین ذریعہ بھی ثابت ہوگی۔

【24】

فتنہ کا ذکر

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ عنقریب ایک بڑا فتنہ ظاہر ہونے والا ہے جو پورے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور اس کے بڑے اثرات ہر ایک تک پہنچیں گے اس فتنہ میں قتل ہوجانے والے لوگ بھی دوزخ میں جائیں گے نیز اس فتنہ کے وقت زبان کھولنا یعنی کسی کو برا بھلا کہنا اور عیب جوئی ونکتہ چینی کرنا تلوار مارنے سے بھی زیادہ سکت مضر ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح اس فتنہ سے مراد باہمی قتل و قتال اور لوٹ مار کا وہ فتنہ ہے جو مختلف گروہ، حق و سچائی کو ثابت کرنے اور دین کا جھنڈا بلند کرنے اور حق و انصاف کی مدد کے لئے نہیں بلکہ محض جاہ اقتدار اور دولت و سلطنت حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کا خون بہانے اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے لگتے ہیں۔ اس وضاحت سے یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ اس فتنہ کے مقتولین بھی دوزخ میں کیوں ہوجائیں گے، چناچہ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ جو شخص خانہ جنگی میں مبتلا ہو کر لوٹ مار کی خاطر کسی سے لڑے اور اس لڑائی کے دوران مارا جائے تو وہ نہ شہید کہلاتا ہے اور نہ اس کی موت کوئی بامقصد موت کہلاتی ہے بلکہ وہ ایک ایسی موت کے ہاتھوں مرتا ہے جو دین و شریعت کے تقاضوں اور اسلامی احکام کے خلاف جنگ وجدل کی صورت میں آتی ہے لہٰذا جس طرح ناحق خون بہانے والا قاتل دوزخ میں جائے گا اسی طرح وہ مقتول بھی دوزخ کی آگ کا مستوجب ہوگا۔

【25】

فتنہ کا ذکر

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ عنقریب گونگے، بہرے اور اندھے فتنے کا ظہور ہوگا، جو شخص اس فتنہ کو دیکھے گا اور اس کے قریب جائے گا وہ فتنہ اس کو دیکھے گا اور اس کے قریب آجائے گا نیز اس فتنہ کے وقت زبان درازی، تلوار مارنے کی مانند ہوگی۔ (ابو داؤد) تشریح فتنہ کو گونگا اور بہرہ کہنا، لوگوں کے اعتبار سے ہے، یعنی وہ فتنہ اتنا سخت اور اس قدر ہیبت ناک ہوگا کہ عام لوگ اس وقت حیران وسراسیمہ ہو کر رہ جائیں گے، نہ کوئی فریاد رس نظر آئے گا کہ جس سے کوئی شخص گلو خلاصی کی درخواست کرسکے اور نہ کسی کو نجات دلا سکے اور نہ کوئی ایسی راہ دکھائی دے گی جس کے ذریعے اس فتنہ سے نجات اور خلاصی پائی جاسکے۔ یا مطلب یہ ہے کہ اس فتنے کے وقت لوگ حق و باطل اور نیک وبد کے درمیان تمیز نہیں کریں گے۔ وعظ و نصیحت کو سننا اور اس پر عمل کرنا گوارہ نہیں کریں گے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی باتوں پر دھیان نہیں دیں گے، جو شخص ان کو نیک باتوں کی طرف بلائے گا اور زبان سے حق بات نکالے گا اس کو روحانی و جسمانی اذیتوں میں مبتلا کریں گے اور اس کے ساتھ نہایت تکلیف دہ اور پریشان کن سلوک کریں گے۔ جو شخص اس فتنہ کو دیکھے گا الخ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس فتنہ کی باتوں کی طرف متوجہ رہے گا اور ان لوگوں کی قربت وہمنشینی اختیار کرے گا جو اس فنتہ کا باعث ہوں گے، تو اس شخص کا اس فتنہ سے محفوظ رہنا اور اس کے برے اثرات کے چنگل سے بچ نکلنا ممکن نہیں ہوگا، اس کے برخلاف جو شخص اس فتنہ سے دور اور فتنہ پردازوں سے بےتعلق رہے گا وہ فلاح یاب ہوگا۔ زبان درازی تلوار مارنے کی مانند ہوگی کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت چونکہ لوگوں میں تعصب و عداوت، ضد و ہٹ دھرمی اور حق کو قبول نہ کرنے پر اصرار بہت زیادہ ہوگا اس لئے وہ کسی کی زبان سے کوئی ایسی بات سننا بھی گوارا نہیں کریں گے جو ان کی مرضی ومنشاء کے خلاف ہوگی۔ لہٰذا اس فتنہ میں زبان کھولنے والا گویا خون ریزی کو دعوت دے گا۔ اور یہ بات تو بالکل ظاہر ہے کہ بعض وقت زبان سے نکلا ہوا لفظ اپنی تاثیر کے اعتبار سے تلوار کی دھار سے بھی زیادہ سخت وار کرجاتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے جراحات السنان لہا التیام ولا یلتام ماجرح اللسان نیزے کے پھل کا زخم مندمل ہوجاتا ہے لیکن زبان کے گھاؤ کو کوئی چیز نہیں بھر سکتی

【26】

چند فتنوں کے بارے میں پیشین گوئی

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی کریم ﷺ کی مجلس مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے آخر زمانہ میں ظاہر ہونے والے فتنوں کا ذکر شروع فرمایا اور بہت سارے فتنوں کو بیان کیا، یہاں تک کہ فتہ احلاس کا ذکر فرمایا۔ ایک شخص نے پوچھا کہ احلاس کا فتنہ کیا ہے (یعنی اس فتنہ کی نوعیت کیا ہوگی اور وہ کس صورتحال میں ظاہر ہوگا ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا۔ وہ بھاگنا اور مال کا ناحق لینا ہے (یعنی اس فتنہ کی صورت یہ ہوگی کہ لوگ آپس میں سخت بغض و عداوت رکھنے اور باہمی نفرت و دشمنی کی وجہ سے ایک دوسرے سے بھاگیں گے، کوئی کسی کی صورت دیکھنے اور کسی کے ساتھ نباہ کرنے کا روادار نہیں ہوگا، ایک دوسرے کے مال کو زبردستی چھین لینے اور ایک دوسرے کو ہڑپ کرلینے کا بازار گرم ہوگا اور پھر سراء کا فتنہ ہے، اس فتنہ کی تاریکی اور تباہی اس شخص کے قدموں کے نیچے سے نکلے گی (یعنی اس فتنہ کا بانی وہ شخص ہوگا) جو میرے اہل بیت میں سے ہوگا، اس شخص کا گمان تو یہ ہوگا کہ وہ فعل و کردار کے اعتبار سے بھی میرے اہل بیت میں سے ہے لیکن حقیقت یہ ہوگی کہ وہ خواہ نسب کے اعتبار سے بھلے ہی میرے اہل بیت میں سے ہو مگر فعل و کردار کے اعتبار سے میرے اپنوں میں سے ہرگز نہیں ہوگا، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میرے دوست اور میرے اپنے تو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو پرہیز گار ہوں۔ پھر اس فتنہ کے بعد لوگ ایسے شخص کی بیعت پر اتفاق کریں گے جو پسلی کے اوپر کو ل ہے کی مانند ہوگا، پھر دہیماء کا فتنہ ظاہر ہوگا۔ اور وہ فتنہ اس امت میں سے کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑے گا جس پر اس کا طمانچہ، طمانچہ کے طور پر نہ لگے (یعنی وہ فتنہ اتنا وسیع اور ہمہ گیر ہوگا کہ امت کے شخص تک اس کے برے اثرات پہنچیں گے اور ہر مسلمان اس کے ضرر و نقصان میں مبتلا ہوگا) اور جب کہا جائے گا کہ یہ فتنہ ختم ہوگیا ہے تو اس کی مدت کچھ اور بڑھ جائے گی یعنی لوگ یہ گمان کریں گے کہ فتنہ ختم ہوگیا ہے مگر حقیقت میں وہ ختم کی حد تک پہنچا ہوا نہیں ہوگا بلکہ کچھ اور طویل ہوگیا ہوگا، یہ اور بات ہے کہ کسی وقت اس کا اثر کچھ خم ہوجائے، جس سے لوگ اس کے ختم ہوجانے کا گمان کرنے لگیں لیکن بعد میں پھر بڑھ جائے گا اس وقت آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر ہوجائے گا (یعنی اس فتنہ کے اثرات سے لوگوں کے دل و دماغ کی حالت کیفیت میں اس قدر تیزی کے ساتھ تبدیلی پیدا ہوتی رہے گی کہ مثلا ایک شخص صبح کو اٹھے گا تو اس کا ایمان و عقیدہ صحیح ہوگا اور اس پختہ اعتقاد کا حامل ہوگا کہ کسی مسلمان بھائی کا خون بہانا یا اس کی آبروریزی کرنا اور یا اس کے مال و اسباب کو ہڑپ کرنا و نقصان پہنچانا مطلقاً حلال نہیں ہے مگر شام ہوتے ہوتے اس کے ایمان و عقیدہ میں تبدیلی آجائے گی اور وہ اپنے قول وفعل سے یہ ثابت کرنے لگے گا یہ گویا اس کے نزدیک کسی مسلمان بھائی کا خون بہانا، اس کی آبروریزی کرنا اور اس کے مال و جائیداد کو ہڑپ کرنا نقصان پہنچانا جائز و حلال ہے، اس طرح جو صبح کے وقت مومن تھا شام کو اس عقیدے کی تبدیلی کی وجہ سے کافر ہوجائے گا اور یہ صورت حال جاری رہے گی تاکہ لوگ خیموں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ ایک خیمہ ایمان کا ہوگا کہ اس میں نفاق ہوگا اور ایک خیمہ نفاق کا ہوگا کہ اس میں ایمان نہیں ہوگا۔ جب یہ بات ظہور میں آجائے تو پھر اس دن یا اس کے اگلے دن، دجال کے ظاہر ہونے کے منتظر رہنا۔ (ابو داؤد) تشریح فتنہ احلاس سے مراد یہ ہے کہ وہ فتنہ عرصہ دراز تک قائم رہے گا اور اس کے اثرات امت کے لوگوں کو بہت طویل عرصے تک مختلف آفات اور پریشانیوں میں مبتلا رکھیں گے۔ واضح رہے کہ احلاس اصل میں حلس کی جمع ہے اور حلس اس ٹاٹ کو کہتے ہیں جو کسی عمدہ فرش جیسے قالین وغیرہ کے نیچے زمین پر بچھا رہتا ہے اور وہ ہمیشہ اپنی جگہ پر پڑا رہتا ہے۔ یا حلس اس کملی کو کہتے ہیں جو پالان کے نیچے اونٹ کی پیٹھ پر ڈالی جاتی ہے۔ پس اس فتنہ کو فتنہ احلاس کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح کسی اچھے فرش کے نیچے کا ٹاٹ مستقل طور پر اپنی جگہ پڑا رہتا ہے وہاں سے اٹھایا نہیں جاتا اسی طرح وہ فتنہ بھی لوگوں کو چھوڑنے والا نہیں۔ بلکہ برابر قائم رہے گا اور اس کے برے اثرات بہت دنوں تک لوگوں کو مبتلا رکھیں گے۔ یا یہ کہ اس فتنہ کو ظلمت وتاری کی اور برائی کے طور پر حلس سے تشبیہ دی گئی ہے اور یا یہ کہ اس فتنہ کو فتنہ احلاس فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ جس طرح ٹاٹ ہمیشہ بچھا رہتا ہے اور اس کو اپنی جگہ سے ہٹایا نہیں جاتا اسی طرح لوگوں کو بھی چاہئے کہ اس فتنہ کے دوران اپنے گھروں میں پڑے رہنے کو لازم کرلیں اور گوشہ نشینی اختیار کرلیں۔ لفظ فتنۃ السراء رفع کے ساتھ ہے اور اس اعتبار سے یہ لفظ ہرب پر عطف ہے، یعنی جب کسی نے آپ ﷺ سے یہ پوچھا کہ فتنہ احلاس کی نوعیت و صورت کیا ہوگی تو آپ ﷺ نے گویا یہ فرمایا کہ وہ فتنہ ہرب وحرب اور سراء کی صورت میں ہوگا ہرب اور حرب کے معنی تو اوپر ترجمے میں واضح کئے جا چکے ہیں، یعنی باہمی عداوت و دشمنی اور بغض ونفرت کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور بھاگنا اور کسی کا مال لوٹ لینا۔ اور سراء کے معنی یہ ہیں کہ وہ فتنہ اندر ہی اندر اسلام کی بیخ کنی کرے گا، یعنی کچھ لوگ ایسے پیدا ہوجائیں گے جو ظاہر میں اسلام اور مسلمانوں کی ہمدردی کا دعویٰ کریں گے مگر باطن میں اسلام اور مسلمانوں کی تباہی و بربادی چاہیں گے اور اپنی اس ناپاک خواہش کی تکمیل کے لئے طرح طرح کی سازشوں کے جال پھیلا کر مسلمانوں کو فتنہ و فساد میں مبتلا کریں گے۔ نہایہ میں لکھا ہے کہ سراء سے کنکریلا پتھریلا میدان مراد ہے، اس صورت میں فتنہ سراء سے واقعہ حرا کی طرف اشارہ مراد ہوگا جو یزید کی حکومت میں ہوا اور اس کی وجہ سے اہل مدینہ کا قتل عام ہوا، سینکڑوں صحابہ اور تابعین کو جام شہادت نوش کرنا پڑا اور حرم محترم کی سخت بربادی ہوئی یہ معنی اس صورت میں ہوں گے جب کہ سراء کو پوشیدہ کے مفہوم میں لیا جائے اگر یہ لفظ سرور و شادمانی کے مفہوم میں ہو تو اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ وہ فتنہ ایسے حالات پیدا کر دے گا جس میں عیش و عشرت کی چیزوں کی فراوانی ہوجائے گی اور لوگ اسراف وتنعم کے ذریعے راحت و آرام اور سرور و شادمانی کی زندگی میں پڑ کر اللہ اور آخرت کے خوف سے بےنیاز ہوجائیں گے۔ یا یہ کہ اس فتنہ کی وجہ سے چونکہ اسلام اور مسلمانوں کی شوکت کو دھچکا لگے گا اور ملت اسلامیہ بہت زیادہ نقصان و تباہی میں مبتلا ہوجائے گی لہٰذا یہ صورت حال اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے لئے خوشی و شادمانی کا باعث بنے گی۔ اور ایک نسخے میں فتنۃ السراء کا لفظ نصب کے ساتھ ہے، اس صورت میں اس کا عطف فتنہ الاحلاس پر ہوگا اور معنی یہ ہوں گے کہ آپ نے فتنہ احلاس کا ذکر فرمایا اور اس کے بعد فتنہ اسراء کا ذکر کیا۔ مگر وہ میرے اپنوں میں سے نہیں ہوگا کا مطلب یہ ہے کہ خواہ وہ میرے اہل بیت میں سے ہونے کا کتنا ہی گمان رکھے اور اگرچہ نسب اور خاندان کے اعتبار سے وہ واقعۃً میرے اہل بیت میں سے کیوں نہ ہو لیکن وہ اپنے طور طریقوں اور اپنے فعل و کردار کے لحاظ سے میرے اپنوں میں سے یقینا نہیں ہوگا کیونکہ وہ میرے اپنوں میں سے ہوتا تو روئے زمین پر فتنہ و فساد کے ذریعے میری امت کو نقصان وضرر میں مبتلا نہیں کرتا۔ اس ارشاد گرامی کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے آیت (انہ لیس من اہلک) ۔ یقینا وہ تمہارے اپنوں میں سے نہیں ہے۔ یا یہ کہ اس جملے کا یہ مطلب ہے کہ وہ شخص خواہ نسب کے اعتبار سے میرے خاندان سے کوئی تعلق کیوں نہ رکھے لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ میرے محبوب اور دوستوں میں سے ہوگا کیونکہ میرا محبوب اور دوست صرف وہی مسلمان ہوسکتا ہے جو تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرے اور کبھی بھی ایسے قول وفعل کا ارتکاب نہ کرے جس سے اسلام اور مسلمانوں کو ذرہ برابر بھی نقصان پہنچ سکتا ہو۔ اس کی تائید حدیث کے اگلے جملے سے بھی ہوتی ہے۔ جو پسلی کے اوپر کو ل ہے کی مانند ہوگا اس جملے کے ذریعے گویا اس شخص کو ذہنی وعملی کج روی اور غیر پائیداری کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ جس طرح اگر کو ل ہے کی ہڈی کو پسلی کی ہڈی پر چڑھا دیا جائے تو وہ کو لہا اپنی جگہ پر قائم نہیں رہ سکتا اور پسلی کی ہڈی کے ساتھ اس کا جوڑ نہیں بیٹھ سکتا اسی طرح اگرچہ لوگ اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کو اپنا امیر وحکمران تسلیم کرلیں گے لیکن حقیقت میں وہ امارت وسرداری کے لائق نہیں ہوگا کیونکہ وہ علم و دانائی سے محروم ہوگا، آئین حکمرانی سے بےبہرہ نہ ہوگا، قوت فیصلہ کی کمی اور رائے کی کمزوری میں مبتلا ہوگا، پس اس کا کوئی حکم اور کوئی فیصلہ، محل موقع کے مطابق نہیں ہوگا اور جب یہ صورت حال ہوگی تو سلطنت ومملکت کا سارا نظام انتشار وبد امنی اور سستی و کمزوری کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ پھر دہیما کا فتنہ ظاہر ہوگا کے سلسلے میں پہلے یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ جس طرح فتنہ الاحلاس کے دونوں اعراب، یعنی رفع اور نصب ذکر کئے گئے تھے اور ان میں سے ہر ایک کے مطابق معنی بیان کئے گئے تھے، اسی طرح فتنۃ الدہیما میں بھی فتنہ کے لفظ کے دونوں اعراب یعنی رفع اور نصب میں دہیماء (دال کے پیش اور ہا کے زبر کے ساتھ) اصل میں لفظ دہماء کی تصغیر ہے جس کے معنی سیاہی اور تاریکی کے ہیں اور یہاں تصغیر کا اظہار مذمت و برائی کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ حاصل یہ کہ فتنہ احلاس کے بعد جو فتنہ ظاہر ہوگا وہ اپنے اثرات کی ظلمت اور قتل و غارت گری کی شدت کے اعتبار سے ایک سیاہ اور تاریک شب کی مانند ہوگا اور جس کی سیاہ رات کی تاریکی ہر شخص کو اندھیرے میں مبتلا کردیتی ہے اس طرح اس فتنہ کی ظلمت ہر شخص کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوگی اور ہر ایک کے قوائے فکر و عمل پر تاریک سایہ بن کر چھا جائے گی۔ تآنکہ لوگ دو خیموں میں تقسیم ہوجائیں گے کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ کے لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ ایک گروہ تو خالص ایمان والوں کا ہوگا کہ جن میں کفر اور نفاق کا نام نہ ہوگا اور ایک گروہ خالص کفر والوں کا ہوگا اور ان میں ایمان و اخلاص کا نام نہ ہوگا۔ اور بعض حضرات نے یہاں فسطاط کا ترجمہ خیمہ کے بجائے شہر کیا ہے یعنی اس زمانے کے لوگ دو شہر یا دو ملکوں میں تقسیم ہوجائیں گے کہ ایک شہر یا ایک ملک میں صرف خالص مسلمانوں اہل ایمان ہوں گے اور ایک شہر یا ملک میں خالص کافر ہوں گے۔ واضح رہے کہ فسطاط اصل میں تو خیمے کو کہتے ہیں لیکن شہر پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور حدیث میں اس لفظ کا استعمال گویا اس اسلوب کے طور پر ہے کہ ذکر تو محل رہنے کی جگہ کا ہوا، لیکن مراد حال یعنی رہنے والوں کی حالت و کیفیت ہو۔ پس لوگ دو خیموں میں تقسیم ہوجائیں گے کا حاصل یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا کے لوگ واضح طور پر دو طبقوں میں تقسیم ہوجائیں گے، ایک طبقہ اہل ایمان کا ہوگا اور ایک طبقہ اہل کفر کا ہوگا اور ان دونوں طبقوں کے لوگ خواہ دنیا کے کسی حصے میں اور شہر میں سکونت پذیر ہوں اس موقع پر ایک بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک خیمہ نفاق کا ہوگا کہ اس میں ایمان نہیں ہوگا۔ تو اس خیمہ یا اس طبقہ کے لوگوں میں سے ایمان کی نفی یا تو اصل کے اعتبار سے ہے یعنی اس خیمہ کے لوگوں میں سرے سے ایمان نہیں ہوگا یا کمال ایمان کی نفی بھی مراد ہے یعنی اس خیمہ یا اس طبقہ میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو ظاہر کے اعتبار سے ایمان رکھتے ہوں، مگر اہل نفاق کے سے اعمال اختیار کرنے، یعنی جھوٹ بولنے، خیانت کرنے اور عہد شکنی وغیرہ کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے مخلص اہل ایمان کے زمرے سے خارج ہوں گے۔ دجال کے ظاہر ہونے کے منتظر رہنا کا مطلب یہ ہے کہ جب فتنہ دہیما ظاہر ہوجائے تو سمجھنا کہ دجال کا ظہور ہوا ہی چاہتا ہے، چناچہ اس فتنہ کے فورا بعد دجال ظاہر ہوگا، اس وقت حضرت مہدی دمشق میں ہوگا، دجال دمشق کے شہر کو گھیر لے گا، پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے نازل ہوں گے اور دجال ان کے مقابلے میں پر اس طرح گھل جائے گا، جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس کو اپنے نیزے سے موت کے گھاٹ اتار دیں گے اور اس کی موت سے ان کو بہت زیادہ خوشی ہوگی۔ طیبی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ فسطاط شہر یا خیمے کو کہتے ہیں جس میں لوگ جمع ہوتے اور رہتے ہیں، نیز حدیث کے اس آخری جزو سے کہ جس میں فسطاط کا ذکر ہے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ فتنہ آخر زمانہ میں ظاہر ہوگا لیکن علماء نے پہلے ذکر کئے گئے فتنوں کے بارے میں کچھ نہیں لکھا اور کہا ہے کہ یہ فتنے کب ظاہر ہوں گے اور کون سے واقعات ان کا مصداق ہیں خصوصا فتنہ سراء کے بارے میں تو مکمل سکوت اختیار کیا ہے اور اس طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے کہ اہل بیت نبوی میں سے وہ کون شخص ہے جس کو اس فتنہ کا بانی کہا گیا ہے۔

【27】

حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کی شہادت کا سانحہ اور اس کی تفصیل

یہ بات تو طیبی نے لکھی ہے لیکن بعد کے علماء میں سے حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) نے اس حدیث میں مذکورہ فتنوں کے مصداق کا تعین کیا ہے چناچہ انہوں نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فتنہ احلاس کے ذریعے جس فتنہ کی طرف اشارہ فرمایا تھا وہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جب کہ وہ یزید بن معاویہ کی خلافت کے اعلان کے بعد اس کی بیعت سے گریز کر کے مع اہل و عیال مدینہ سے نکل گئے اور مکہ آگئے تھے پھر جب ٦٢ ھ میں یزید بن معاویہ نے اپنے خلاف اہل مدینہ کی تحریک کو کچلنے کے لئے مسلم بن عقبہ کی کمان میں شامیوں کی ایک بڑی فوج مدینہ کی طرف روانہ کی تو مسلم نے اس شہر مقدس میں پہنچ کر بڑی تباہی پھیلائی اور اہل مدینہ کا قتل عام کرایا۔ یہ واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہے، مسلم نے شامیوں کی یہ فتح یاب فوج لے کر پھر مکہ کا رخ کیا۔ مسلم اگرچہ خود مکہ تک نہیں پہنچ سکا کیونکہ وہ راستے ہی میں مرگیا تھا، البتہ اس کی فوج حصین بن نمیر کی سر کردگی میں مکہ پہنچ گئی اور اس نے ایک دن کی جنگ کے بعد مکہ کا محاصرہ کرلیا، حصین بن نمیر نے کوہ ابن قیس پر منجنیق نصب کر کے خانہ کعبہ پر سنگ باری کا سلسلہ بھی شروع کردیا اس محاصرے اور سنگ باری کے دوران کہ جس کا سلسلہ ایک ماہ سے بھی زائد عرصے تک جاری رہا، اہل مکہ کو بڑی سخت تکلیفوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، اتفاق کی بات کہ اسی اثناء میں دمشق میں یزید کا انتقال ہوگیا اور ابن نمیر نے اس خبر کو سن کر محاصرہ اٹھا لیا اور اپنی فوج کو لے کر دمشق کی طرف واپس روانہ ہوگیا، اس کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر کی خلافت نہ صرف پورے حجاز میں قائم ہوگئی، بلکہ عراق اور مصر تک کے لوگوں نے ان کی خلافت کو تسلیم کرلیا یہاں تک کہ یزید بن معاویہ کے جانشین معاویہ بن یزید کی تقریبا دو ماہ کی مختصر خلافت کے بعد جب کہ اس کا انتقال ہوگیا تھا تو حضرت عبداللہ بن زبیر پورے عالم اسلام کے خلیفہ تسلیم کر لئے گئے لیکن پھر چھ سات ماہ کے بعد مروان بن حکم نے اپنی سازشوں اور کوششوں میں کامیاب ہو کر شام پر قبضہ جما لیا اور دمشق میں اپنی خلافت کا اعلان کردیا، شام کے بعد مصر اور عراق بھی حضرت زیبر کی خلافت سے نکل گئے اسی دوران مروان بن حکم مرگیا اور اس کا بیٹا عبدالملک بن مروان اس کا جانشین ہوا، عبدالملک نے زبردست جنگی طاقت کے ذریعے تقریبا تمام ہی علاقوں سے حضرت زبیر کی خلافت کو ختم کردیا اور آخر میں حجاج بن یوسف کی کمان میں ایک لشکر جرار مکہ مکرمہ کی طرف روانہ کیا اور ٧٢ ھ کے ماہ رمضان میں حجاج نے شہر مکہ کا محاصرہ کرلیا اور کوہ ابوقبیس پر منجنیق لگا کر سنگ باری شروع کردی اور محاصرہ سنگ باری کا یہ سلسلہ ذی الحجہ تک جاری رہا، اس عرصے میں اہل مکہ کو بڑی زبردست مصیبت و پریشانی اور تباہی کا سامنا کرنا پڑا حج کے دنوں میں کچھ عرصے کے لئے سنگ باری بند ہوگئی اور حج ختم ہوتے ہی یہ سلسلہ پھر شروع ہوگیا جس کا نشانہ براہ راست خانہ کعبہ تھا جہاں حضرت عبداللہ محصور تھے اور آخری مرحلے پر حضرت عبداللہ بن زبیر نے خانہ کعبہ سے نکل کر محض چند ساتھیوں کے ہمراہ شامیوں کے اس عظیم لشکر پر حملہ کیا اور بڑی بہادری کے ساتھ لڑتے رہے جب وہ چند ساتھی بھی ایک ایک کر کے کام آگئے اور خود ان پر دشمنوں نے چاروں طرف سے پتھروں اور تیروں کی بارش شروع کردی تو دنیا کا یہ عظیم الشان بہادر و متقی انسان داد شجاعت دیتا ہوا بڑی مظلومیت کے ساتھ جمادی الثانی ٧٣ ھ کی ایک خوں آشام تاریخ میں اس طرح شہید ہوا کہ اس وقت میدان جنگ میں بہادری و شجاعت، زہد و عبادت اور ہست و شرافت کے علاوہ کوئی انسان ان کی مبارک لاش پر کف افسوس ملنے والا بھی موجود نہیں تھا۔ یہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کا وہ واقعہ ہے جس کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) نے فتنہ احلاس کا مصداق قرار دیا ہے۔

【28】

فتنہ مختار کی تفصیل

فتنہ سراء کے بارے میں حضرت شاہ صاحب کا کہنا یہ ہے کہ یہ فتنہ بھی مختار کے فتنہ و فساد کی صورت میں ظہور پذیر ہوچکا ہے۔ مختار وہ شخص تھا جس نے پہلے تو مکر و فریب کے ذریعے پھر باقاعدہ جنگ کر کے اہل عراق پر تسلط حاصل کرلیا تھا اور اپنی اس کاروائی کے لئے حضرت محمد بن الحنفیہ کی اجازت اور اہل بیت نبوی ﷺ کی تائید ونصرت کا دعویٰ رکھتا تھا۔ اس کا واقعہ بھی تھوڑی سی تفصیل کا متقاضی ہے۔ اس شخص کا اصل نام مختار بن عبیدہ ابن مسعود ثقفی تھا۔ کوفہ (عراق) میں رہتا تھا اور شیعان علی میں سے تھا حضرت امام حسین (رض) نے اہل کوفہ کی دعوت پر جب کوفہ جانا طے کرلیا اور پہلے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو وہاں بھیجا تاکہ وہ پوشیدہ طور پر کوفہ میں کام کر کے لوگوں سے ان کے نام پر بیعت لیں تو مسلم بن عقیل کوفہ پہنچ کر اسی مختار بن عبیدہ کے مکان پر فروکش ہوئے تھے پھر اس سلسلے میں جو کچھ پیش آیا اور حادثہ کربلا واقع ہوا وہ سب بہت مشہور واقعات ہیں۔ کربلا میں شہادت حسین کے سانحہ کے بعد کوفہ میں ایک جماعت توابین کے نام سے معرض وجود میں آئی جس کا سردار سلیمان بن صرد تھا یہ جماعت کوفہ کے ان لوگوں پر مشتمل تھی جو یہ کہا کرتے تھے کہ ہم لوگوں کی بےوفائی کی وجہ سے حضرت امام حسین (رض) کو کربلا میں جام شہادت نوش کرنا پڑا اور ہم اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے تائب ہوتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ اس جرم کی تلافی کے طور پر خون حسین کا انتقام لیں گے اور ہر اس شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیں گے، جس نے قتل حسین میں ذرا بھی حصہ لیا ہے۔ مختار بن عبیدہ چونکہ پہلے ہی سے اپنی مختلف سازشوں کے ذریعے عراق پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رہا تھا اور اس مقصد کے لئے قاتلان حسین کے خلاف لوگوں کے جذبات بھڑکا کر انہیں اپنے گرد جمع کر رہا تھا، اس لئے اس نے توابین کی جماعت سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ کرلیا اور جماعت کے لوگوں اور ان کے ہمنواؤں کو جمع کر کے کہا کہ تمہارا سردار سلمان تو ایک پست ہمت آدمی ہے، لڑنے سے جان چراتا ہے، لہٰذا امام مہدی محمد بن الحنفیہ نے جو حضرت امام حسین کے بھائی ہیں مجھے کوفہ میں اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے، تم لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کرلو اور خون حسین کا بدلہ لینے کے لئے میرے جھنڈے تلے جمع ہوجاؤ، چناچہ کوفہ کے وہ تمام لوگ جو شیعان حسین کہلاتے تھے، مختار کے ہاتھ پر بیعت ہونے لگے اس وقت عراق پر حضرت عبداللہ بن زبیر کی خلافت کا قبضہ تھا اور کوفہ میں ان کی طرف سے عبداللہ بن یزید گورنر تھے انہیں جب مختار کی سرگرمیوں اور اس کے حقیقی ارادوں کا علم ہوا تو انہوں نے مختار کو گرفتار کر کے جیل میں بند کردیا، لیکن توابین کی جماعت کا سردار سلیمان ابن صرد بہرحال اپنی جنگی تیاریوں میں پہلے ہی سے مصروف تھا، وہ ستر ہزار مسلح افراد کا لشکر لے کر عبداللہ بن زیاد کے خلاف جنگ کرنے چلا جو کربلا میں حضرت امام حسین (رض) کو شہید کرنے والی کار روائیوں کا تمام تر ذمہ دار تھا اور مروان بن حکم کی طرف سے موصل میں بحیثیت گورنر تعینات تھا، پھر عین الوردہ کے مقام پر عبداللہ بن زیاد کی فوجوں سے اس کا مقابلہ ہوا اور کئی دن کی جنگ کے بعد خود سلیمان بن صرد اور جماعت توابین کے تمام بڑے بڑے سردار مارے گئے فوج میں سے جو لوگ باقی بچے وہ وہاں سے بھاگ کر کوفہ واپس آگئے، کوفہ میں مختار نے جیل سے جہاں وہ قید تھا ان لوگوں کو ہمدردی کا پیغام بھیجا اور تسلی دلائی کہ تم لوگ غم نہ کرو، اگر میں زندہ رہا تو خون حسین کے ساتھ تمہارے مقتولین کے خون کا بدلہ بھی ضرور لوں گا، اس کے بعد اس نے کسی کے ذریعے سے جیل کے اندر ہی سے ایک خط حضرت عبداللہ بن عمر کے نام مدینہ بھیجا جس میں یہ درخواست کی کہ عبداللہ بن یزید گورنر کوفہ سے سفارش کر کے مجھے رہائی نصیب فرمائیں چناچہ حضرت عبداللہ بن عمر نے گور رنر کوفہ کو سفارشی خط لکھ دیا اور گورنر نے ان کی سفارش کی تکریم میں مختار کو اس شرط پر جیل سے رہا کردیا کہ وہ کوفہ میں کوئی شورش نہیں پھیلائے گا اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا۔ اس مکار نے جیل سے آنے کے بعد کوفہ والوں اور بالخصوص شیعان حسین پر یہ ظاہر کیا کہ یہ میری روحانی طاقت اور کرامت تھی جس نے جیل کے دروازے وا کرا دئیے اور میں باہر آگیا۔ ادھر کسی وجہ سے حضرت عبداللہ بن زبیر نے عبداللہ بن یزید کو کوفہ کی گورنری سے معزول کر کے ان کی جگہ عبداللہ بن مطیع کو مقرر کردیا، مختار نے اس عزل ونصب کو بھی اپنی کرامت ظاہر کیا اور پرانے حاکم کے کوفہ سے چلے جانے کے بعد تمام پابندیوں کو توڑ کر آزادانہ طور پر اپنی سازشی کار روائیوں میں مصروف ہوگیا، اس نے مکر و فریب اور عیاریوں کے ذریعے کوفہ والوں پر اپنی روحانی بزرگی و کر امت کا کچھ ایسا سکہ جمایا کہ لوگ دھڑا دھڑ اس کے مرید ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی جماعت حیرت انگیز طور پر ترقی کرگئی، کو توال شہر نے اس کی جماعت کی ترقی اور اس کی سازشی تحریک سے گورنر کو مطلع کیا اور دارالامارۃ (گورنر ہاؤس) سے اس کے خلاف کار روائی کرنے تیاری بھی ہوئی مگر وقت گزر چکا تھا اور مختار نہایت عیاری کے ساتھ حکام کے ہاتھ لگنے سے بچ گیا اور روپوش ہو کر اپنی جماعت کو ایک باضابطہ فوج میں تبدیل کردیا اور کوفہ پر قبضہ کرنے کے منصوبے کی تکمیل میں مصروف ہوگیا ادھر اس نے محمد بن الحنفیہ کو پوری طرح شیشے میں اتار ہی رکھا تھا چناچہ جب مختار نے کوفہ کے بعض دوسرے بااثر حضرات کو قاتلان حسین کے خلاف بھڑکا کر اپنے ساتھ ملانا چاہا اور محمد بن الحنفیہ کی نیابت کا دعویٰ کیا اور ان لوگوں نے کچھ آدمیوں کو اس کے دعویٰ کی تصدیق کے لئے محمد بن الحنفیہ کے پاس بھیجا تو انہوں نے کہا کہ ہاں مختار کا خون حسین کا بدلہ لینے کی ہم نے اجازت دی ہے۔ اس تصدیق نے مختار کو بہت تقویت پہنچائی آخر کار ایک دن رات کے اندھیرے میں مختار نے اپنی جماعت کے مسلح افراد کے ساتھ خروج اختیار کیا اور کوفہ کے گلی کوچوں میں لڑائی چھڑ گئی، کافی سخت مقابلہ آرائی کے بعد سرکاری فوج کو شکست ہوگئی اور عبداللہ بن مطیع گورنر کوفہ کو دارالامارۃ میں محصور ہونا پڑا اور پھر تین دن کے بعد وہ کسی نہ کسی طرح دارالامارۃ سے چھپ کر نکلنے میں کامیاب ہوگئے مختار نے سرکاری دفاتر اور بیت المال پر قبضہ کرلیا اور کوفہ کے لوگوں سے محمد بن الحنفیہ کے نام پر بیعت لینے لگا اور پورے شہر پر اس کا تسلط قائم ہوگیا، کچھ ہی دنوں کے بعد کوفہ کے لوگ مختار کے خلاف ہوگئے مگر مختار نے بڑی چالاکی کے ساتھ ان پر بھی قابو پا لیا اور پورے شہر میں اس طرح قتل عام کرایا کہ کوفہ کا کوئی بھی گھر ایسا نہیں بچا جس میں سے ایک یا دو یا اس سے زائد آدمی قتل نہ کئے گئے ہوں اس نے قاتلان حسین سے بھی انتقام لیا اور جس جس نے میدان کربلا میں کوئی حصہ لیا تھا ان میں سے ہر ایک کا سر تن سے جدا کرا دیا ایک طرف تو وہ کوفہ پر تسلط پانے کے بعد دوسرے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کاروائیوں میں مصروف رہا اور دوسری طرف حضرت علی (رض) کی کرسی کھڑاگ کھڑا کر کے لوگوں کو اپنی غیر معمولی روحانی طاقتوں کا معتقد بنانے میں لگا رہا اور رفتہ رفتہ نبوت کے دعوؤں تک پہنچ گیا۔ جب حضرت عبداللہ بن زبیر کو معلوم ہوا کہ مختار نہ صرف یہ کہ کوفہ میں لوگوں کا قتل عام کر رہا ہے اور اہل کوفہ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور دوسرے علاقوں کو بھی ہتھیانے کے منصوبے بنا رہا ہے بلکہ یہ مشہور کرنے لگا ہے کہ میرے پاس جبرائیل امین آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتے ہیں اور میں بطور نبی مبعوث ہوا ہوں تو انہوں نے اس کے استیصال میں مزید تاخیر کرنا کسی طرح مناسب نہ سمجھا اور اپنے بھائی مصعب بن زبیر کو بصرہ کا گورنر مقرر کر کے مختار کے فتنہ کی سرکوبی کی مہم ان کے سپرد کی، چناچہ حضرت مصعب اپنی فوج کو لے کر کوفہ کی طرف چلے، ادھر جب مختار کو اس فوج کشی کا علم ہوا تو وہ بھی اپنا لشکر لے کر کوفہ سے نکلا، دونوں فوجوں کا مدارا نامی گاؤں کے قریب مقابلہ ہوا اور خوب زور و شور کی لڑائی ہوئی آخر کار مختار شکست کھا کر کوفہ بھاگا اور دارالامارۃ میں قلعہ بند ہوگیا۔ حضرت مصعب بن زبیر (رض) نے کوفہ پہنچ کر دارالامارۃ کا محاصرہ کرلیا، مختار سامان رسد کی کمی سے مجبور ہو کر قلعہ کا دروازہ کھول کر باہر آیا اور آخری مرتبہ مقابلہ کیا لیکن جلد ہی موت کے گھاٹ اتر گیا اور اس طرح کوفہ کا یہ فتنہ ختم ہوگیا۔

【29】

مروان کا قصہ

حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ اس کے بعد لوگ ایک ایسے شخص کی بیعت پر اتفاق کرلیں گے جو پسلی کی ہڈی کے اوپر کو ل ہے کی مانند ہوگا۔ تو حضرت شاہ صاحب نے اس کا مصداق مروان بن حکم کو قرار دیا ہے۔ مروان بن حکم کی خلافت کا قصہ اگرچہ مختار کے فتنہ سے پہلے ہی ہوچکا تھا اور جس وقت حضرت عبداللہ بن زبیر کی فوج نے اس کو کوفہ میں قتل کر کے اس فتنہ کی سرکوبی کی اس وقت مروان بن حکم کا انتقال ہوچکا تھا اور بنو امیہ کی خلافت کا جانشین عبدالملک بن مروان مقرر ہوچکا تھا لیکن اگر اس لفظی تقدیم و تاخیر سے صرف نظر کر کے دیکھا جائے تو حضرت شاہ صاحب کے بیان کردہ اس مصداق کو صحیح ماننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، یہ مروان بن حکم وہی تھا جس نے معاویہ بن یزید بن معاویہ کے انتقال کے بعد پورے عالم اسلام پر حضرت عبداللہ بن زبیر کی قائم ہوجانے والی خلافت کو چیلنج کیا اور مختلف سازشوں کے ذریعے دمشق میں اپنی خلافت پر بیعت کرنے کے لئے لوگوں کو مجبور کردیا، چناچہ بنو امیہ کے علاوہ شام کے دیگر قبائل بنو کلب اور عنان و طے وغیرہ نے اس کی خلافت پر اتفاق کرلیا اور پھر اسی وقت سے افتراق و انتشار اور فتنہ و فساد کا سلسلہ شروع ہوگیا جس نے اسلام اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا اور ملی طاقت کو اس طرح متشر کردیا کہ کافی عرصے تک مسلمان آپس میں برسر پیکار رہے اور جس قوت کو دشمنان دین کے خلاف استعمال ہونا چاہئے تھا وہ مختلف علاقوں میں اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہانے کے لئے استعمال ہوتی رہی۔ مروان بن حکم عیار و چالاک ہونے کے باجود قوت فیصلہ، بصیرت و تدبر اور رائے ومزاج کے استقلال و استحکام جیسے وہ اوصاف نہیں رکھتا تھا جو ملی نظم ونسق اور مملکت کے سیاسی استحکام کے لئے اشد ضروری تھے اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جس زمانے میں معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد دمشق میں انتخاب خلیفہ کے متعلق اختلاف ہوا اور شام میں بنو امیہ کے حامی مددگار و طاقتور اور مقتدر قبائل بنو کلب اور بنو قیس کے درمیان رقابتیں آشکارا ہونے لگیں تو مروان نے یہ دیکھ کر کہ نہ صرف عراق بلکہ شام کا بھی ایک بڑا حصہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی خلافت کو تسلیم کرچکا ہے، ارادہ کیا تھا کہ دمشق سے روانہ ہو کر حضرت عبداللہ بن زبیر کی خدمت میں حاضر ہو اور اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کی خلافت کا وفادار ہوجائے بلکہ اس نے سفر کا سامان بھی درست کرلیا تھا لیکن اس دوران عبداللہ بن زیاد دمشق آگیا جب اس کو مروان کے اس ارادے کا علم ہوا تو اس نے مروان کو باصرار اس ارادے سے باز رکھا اور اس بات پر ہموار کرلیا کہ وہ خلافت کے امیدوار کی حیثیت سے بیعت لینا شروع کر دے، چناچہ مروان کی خلافت دراصل عبداللہ بن زیاد کی کوششوں کا نتیجہ تھی، اگر مروان میں مستقل مزاجی، رائے کی پختگی اور تدبر و دور اندیشی کا جوہر ہوتا تو وہ کسی قیمت پر ابن زیاد کی رائے نہ مانتا اور اپنے ارادے میں اٹل رہ کر حضرت عبداللہ بن زبیر کی خدمت میں چلا جاتا اور اس کی وجہ سے جو فتنے پیدا ہوئے اور پوری ملت کو جس نقصان وضرر میں، مبتلا ہونا پڑا شاید اس کی نوبت نہ آتی۔

【30】

فتنہ دہیما کا مصداق

فتنہ دہیما کے بارے میں حضرت شاہ صاحب کا کہنا یہ ہے کہ اس کے ذریعے حضور ﷺ نے ترکوں (تاتاریوں) کے اس قبضہ و تسلط کی پیشین گوئی فرمائی جس نے اسلامی شہروں کو تراج کیا اور مسلمانوں کو سخت ترین تباہی و بربادی سے دوچار کیا، چناچہ اس وقت جس جس نے ترکوں کی حمایت کی اور ان کے معاون بنے وہ منافقین کے زمرے میں شمار کئے گئے یہ ساتویں صدی ہجری کے وسط کا واقعہ ہے جب کہ خلافت عباسیہ کا آخری فرمانروا مستعصم باللہ بن مستنصر باللہ بغداد کے تخت خلافت پر متمکن تھا، یہ انتہائی کم ہمت، بےحوصلہ اور غیر مدبر خلیفہ تھا اس نے اپنا وزیر موئد الدین علقمی کو بنا رکھا تھا جو نہایت متعصب اور بدباطن شیعہ تھا علقمی نے عہد وزارت پر فائز ہوتے ہی اپنی عیاریوں اور چالا کیوں سے خلیفہ کو عضو معطل بنا کر خود سیاہ وسفید کا مالک بن بیٹھا، اس کی شروع سے یہ خواہش تھی کہ کسی طرح عباسیوں کا نام ونشان ختم کر کے بغداد میں علویوں کی خلافت قائم ہوجائے اس خواہش کی تکمیل کے لئے اس نے ایک غیر ملکی طاقت یعنی تاتاریوں سے سازباز کرلی اور چنگیزخاں کے پوتے ہلاکو خان کو دعوت دی کہ تم اپنی فوج لے کر بغداد پر حملہ کردو، میں نہایت آسانی کے ساتھ تمہیں بغداد کی خلافت اور اس کے زیر تسلط دوسرے علاقوں اور ممالک پر قبضہ کرا دوں گا، ہلاکو خاں کو شروع میں تو اس کی دعوت قبول کرنے میں تامل ہوا کیونکہ اہل بغداد کی شجاعت وبہادری اور خلافت کی ہیبت سے مرعوب تھا لیکن جب علقمی نے مختلف حیلوں اور سازشوں کے ذریعے بغداد کی فوج کا بہت بڑا حصہ دور دراز کے علاقوں اور شہروں میں منتشر کرا دیا اور باقی ماندہ فوجیوں کے ذریعے شہر میں بعض اقدامات کرا کے لوٹ مار کا بازار گرم کرا دیا جس سے سخت ابتری اور انتشار پھیل گیا اور ہلاکو خان کو معلوم ہوگیا کہ خلافت کی طاقت بہت کمزور ہوگئی ہے اور خلیفہ کی طاقت بہت کمزور ہوگئی ہے اور خلیفہ کی فوج کسی بڑے عملے کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہی ہے تو ہلاکو خان نے اس دعوت کو قبول کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کی، علقمی نے ایک چال اور اختیار کی اس نے بغداد کے شیعوں کی طرف سے ہلاکو خان کو کثیر تعداد میں بغداد پر حملہ کرنے کی دعوت پر مشتمل خطوط راوانہ کر ادئیے جن میں یہ لکھا گیا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے بطور پیشین گوئی ہمیں خبر دی تھی کہ فلاں سن میں فلاں تاتاری سردار بغداد و عراق پر قبضہ کرلے گا اور ہمارا یقین ہے کہ وہ فاتح سردار آپ ہی ہیں اس بات سے ہلاکو خان کے ارادے کو اور تحریک ملی، ادھر خود ہلاکو خان کے دربار میں ایک شیعہ نصیرالدین طوسی پہلے سے موجود تھا اور علقمی کی طرح وہ بھی عباسیوں کی خلافت ختم کرانے کے درپے تھا، اس نے بھی مختلف ترغیبات اور لالچ کے ذریعے ہلاکو خان کے ارادے کو بہت تقویت پہنچائی۔ چناچہ ہلاکو خان نے پہلے تو ایک زبردست فوج ہر اول دستے کے طور پر بغداد کی طرف روانہ کی جس کا مقابلہ خلیفہ کی کمزور فوج سے ہوا اور شروع میں اس فوج نے کچھ کامیابی بھی حاصل کی مگر انجام کار شکست سے دوچار ہوئی اور تاتاریوں کا ہر اول دستہ کامیاب رہا، پھر ہلاکو خان ایک بہت بڑی فوج لے کر بغداد کے اوپر چڑھ آیا اور شہر کا محاصرہ کرلیا، اہل شہر نے اس کا مقابلہ کیا اور پچاس روز تک تاتاریوں کو شہر میں گھسنے نہیں دیا۔ لیکن بغداد کے شیعوں نے نہ صرف یہ کہ خفیہ طور پر ہلاکو خان سے اپنے لئے امن و تحفظ کی ضمانت حاصل کرلی تھی بلکہ شہر کے حالات اور فوجی اطلاعات بھی ہلاکو خان کو پہنچاتے رہے پھر علقمی نے ایک اور سازش کی، اس نے خلیفہ سے کہا کہ میں نے آپ کے لئے امن و تحفظ کی ضمانت حاصل کرلی ہے، آپ ہلاکو خان کے پاس چلیں وہ آپ کے ساتھ اعزازو تکریم سے پیش آئے گا اور مفاہمت کر کے آپ کو بغداد و عراق کا حکمراں باقی رکھے گا۔ خلیفہ علقمی کے بہکاوے میں آ کر اپنے بیٹے کے ساتھ شہر سے نکل کر ہلاکو خان کے لشکر میں پہنچا، ہلاکو خان نے خلیفہ کو دیکھ کر کہا کہ آپ اپنے اراکین سلطنت اور شہر کے علماء وفقہاء کو بھی یہیں بلوا لیجئے چناچہ خلیفہ نے ان سب کو حکم بھیج کر وہاں بلوا لیا، جب سب لوگ آگئے تو ہلاکو خان نے خلیفہ کے سامنے ہی ان سب کو ایک ایک کر کے قتل کروا دیا اس کے بعد ہلاکو خان نے خلیفہ سے کہا کہ تم شہر میں پیغام بھیج دو کہ اہل شہر ہتھیار رکھ کر شہر سے باہر آجائیں، خلیفہ نے یہ پیغام بھی شہر میں بھیج دیا، اہل شہر باہر نکلے اور تاتاریوں نے ان کو قتل کرنا شروع کیا شہر کے تمام سوار پیادے اور شرفاء کھیرے ککڑی کی طرح کئی لاکھ کی تعداد میں کاٹ ڈالے گئے، شہر کی خندق ان کی لاشوں سے بھر گئی اور اس قدر خون بہا کہ اس کی کثرت سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہوگیا، تاتاری لوگ شہر میں گھس پڑے عورتیں اور بچے اپنے سروں پر قرآن شریف رکھ کر نکلے مگر تاتاریوں کی تلوار سے کوئی بھی نہ بچ سکا اور ان ظالموں نے بغداد اور اس کے مضافات میں چن چن کر لوگوں کو قتل کیا، شہر بغداد میں صرف چند شخص جو کنویں اور دوسری پوشیدہ جگہوں میں چھپے ہوئے رہ گئے، زندہ بچے، باقی کوئی متنفس زندہ نہیں چھوڑا گیا۔ اگلے دن یعنی ٩ صفر ٦٥ ھ کو ہلاکو خان، خلیفہ مستعصم باللہ کو ہمراہ لے کر بغداد میں داخل ہوا اور قصر خلافت میں پہنچ کر دربار کیا، خلیفہ سے تمام خزانوں کی کنجیاں لے لیں، جتنے دفینے تھے سب حاصل کئے، پھر خلیفہ کو نظر بند کردیا گیا اور بھوکا پیاسا رکھا گیا، اس کے بعد جب ہلاکو خاں نے خلیفہ مستعصم کے مستقبل کے بارے میں اپنے اراکین سے مشورہ کیا تو سب نے رائے دی کہ اس کو قتل کردینا چاہئے لیکن بدبخت علقمی اور طوسی نے کہا کہ نہیں تلوار کو اس کے خون سے آلودہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کو نمدے میں لپیٹ کر لاتوں سے کچلوانا چاہئے، چناچہ یہ کام علقمی ہی کے سپرد ہوا اور اس نے اپنے آقا مستعصم باللہ کو نمدے میں لپیٹ کر اور ایک ستون سے باندھ کر اس قدر لاتیں لگوائیں کہ خلیفہ کا دم نکل گیا۔ پھر اس کی لاش کو زمین پر ڈال کر تاتاری سپاہیوں کے پیروں سے روندوا کر پارہ پارہ اور ریزہ کروا دیا اور خود دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہا کہ میں علویوں کا انتقام لے رہا ہوں غرض یہ کہ بدنصیب خلیفہ کی لاش کو گور و کفن بھی نصیب نہیں ہوا اور اس طرح خاندان عباسیہ کی خلافت کا خاتمہ ہوگیا اس کے بعد ہلاکو خان نے شاہی کتب خانہ کو بھی نہیں بخشا، جس میں بیشمار کتابوں کا ذخیرہ تھا، یہ تمام کتابیں دریائے دجلہ میں پھینک دی گئیں جس سے دریا میں ایک بند سا بندھ گیا اور بتدریج پانی ان سب کو بہا لے گیا، دجلہ کا پانی جو بغداد ومضافات کے مقتولین کے خون سے سرخ ہو رہا تھا اب ان کتابوں کی روشنائی سے سیاہ ہوگیا اور عرصہ تک سیاہ رہا۔ تمام شاہی محلات کو لوٹ کر مسمار کردیا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اس وقت ہلاکو خان کی فوج کے ہاتھوں بغداد اور مضافات بغداد میں جو قتل عام ہوا اس کے نتیجے میں ایک کروڑ چھ لاکھ مسلمان مقتول ہوئے۔ غرض یہ کہ وہ ایسی عظیم الشان اور ہیبت ناک خونریزی اور بربادی تھی جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں مل سکتی اور اسلام پر ایک ایسی مصیبت آئی تھی کہ لوگوں نے اس کو قیامت صغری کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ اس سانحہ عظمی کا سب سے زیادہ عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ علقمی نے جس علوی خلافت کے قیام اور اپنی حکمرانی کی خواہش کے تحت اتنی عظیم الشان تباہی و بربادی کے اسباب پیدا کئے اور پورے عالم اسلام کو زبردست نقصان پہنچنے کا باعث بنا، اس کے ہاتھ کچھ نہ لگا، ہلاکو خان نے کسی ہاشمی یا علوی کو خلیفہ وحکمران بنانے کے بجائے اپنے آدمیوں کو عراق میں حاکم بنادیا، علقمی نے بہت چالیں چلیں ہلاکو خان کے آگے رویا گڑ گڑایا اور لاکھ منت سماجت کی لیکن ہلاکو خان نے اس کو اس طرح دھتکار دیا جس طرح کتے کو دھتکار دیتے ہیں کچھ دنوں تک علقمی غلاموں کی طرح تاتاریوں کے ساتھ ان کی جوتیاں سیدھی کرتا پھرا، آخر اپنی منافقت وغداری کا عبرتناک حشر دیکھ کر ناکامی ومایوسی کے غم سے بہت جلد مرگیا اس سانحہ کے بعد بغداد دارلخلافہ بھی نہیں رہا اور خلیفہ مستعصم باللہ کے بعد تین سال کا ایسا عرصہ گزرا جس میں دنیا میں کوئی خلیفہ نہیں تھا۔

【31】

زمانہ نبوی کے بعد عرب میں ظہور پذیر ہونے والے فتنہ کی پیشین گوئی

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ افسوس اور بدنصیبی عرب کی کہ برائی کے فتنے کا ظاہر ہونا قریب آگیا، اس فتنہ میں وہی شخص نجات یافتہ اور فلاح یاب رہے گا جس نے اپنا ہاتھ روکے رکھا۔ (ابو داؤد) تشریح طیبی (رح) کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعے عرب کے اس فتنہ کی طرف اشارہ فرمایا جو حضرت عثمان غنی (رض) کی خلافت میں پیش آیا اور جس نے مسلمانوں کے باہمی افتراق و انتشار، خروج و بغاوت اور بدامنی وخانہ جنگی کی صورت میں نہ صرف حضرت عثمان غنی (رض) کو جام شہادت نوش کرنے پر مجبور کیا بلکہ اس کا سلسلہ بعد میں حضرت علی (رض) اور حضرت امیر معاویہ (رض) کی آویزش کی صورت میں بہت دنوں تک جاری رہا اور اسلام اور مسلمانوں کو کافی نقصانات برداشت کرنا پڑے۔ لیکن ملا علی قاری کا کہنا یہ ہے کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مصداق حضرت امام حسین (رض) کے خلاف یزید بن معاویہ کی وہ کار روائی ہے جس کے نتیجے میں امام عالی مقام کربلا کے میدان میں شہید ہوئے۔ معنی کے اعتبار سے یہ قول زیادہ صحیح اور حدیث کے قریب تر ہے کیونکہ حضرت امام حسین (رض) کی شہادت کا سانحہ ایک ایسا فتنہ تھا جس کی برائی میں عرب وعجم میں سے کسی کو بھی کوئی شک وشبہ نہیں۔

【32】

فتنہ وفساد سے دور رہنے والا شخص نیک بخت ہے

حضرت مقداد بن اسود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یقینا نیک بخت وہ شخص ہے جو فتنوں سے محفوظ رکھا گیا ہو، یقینا نیک بخت وہ شخص ہے جو فتنوں سے محفوظ رکھا گیا ہو (گویا آپ نے بات کی اہمیت کو زیادہ موثر اور تاکیدی انداز میں بیان کرنے کے لئے یہ جملہ تین بار ارشاد فرمایا) اور یقینا نیک بخت وہ شخص بھی ہے جو فتنہ میں مبتلا کیا گیا لیکن اس نے صبر و ضبط کا دامن پکڑے رکھا اور قابل افسوس وہ شخص ہے جو نہ فتنوں سے محفوظ رکھا گیا اور نہ اس نے صبر وضبط اختیار کیا۔ (ابو داؤد) تشریح واھا کے معنی ہیں افسوس، حسرت اور کبھی یہ لفظ عجب، یعنی خوشی ظاہر کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، پس اگر یہاں یہ لفظ اظہار افسوس و حسرت کے معنی میں لیا جائے تو کہا جائے گا کہ فواھا کا لفظ ماقبل جملہ یعنی لمن ابتلی فصبر سے الگ ہے اور ایک ایسے جملے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جو اگرچہ لفظوں میں مذکور نہیں ہے لیکن اس کا مفہوم مراد لیا گیا ہے، اس صورت میں پوری عبارت گویا یوں ہوگی کہ یہ اور قابل افسوس وہ شخص ہے جو فتنوں سے محفوظ نہ رکھا گیا ہو اور فتنوں میں مبتلا ہونے کی صورت میں اس نے صبر و ضبط اختیار نہ کیا ہے۔ اس طرح ماقبل جملہ لمن ابتلی فصبر میں لفظ لمن کے لام کو مفتوح قرر دیا جائے گا۔ اور اگر یہاں واھا کے معنی عجب یعنی خوشی کو ظاہر کرنا، مراد ہوں تو اس صورت میں فواھا کسی علیحدہ جملے کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے نہیں ہوگا یا یہ کہ ماقبل جملہ لمن ابتلی فصبر سے جڑا ہوا سمجھا جائے گا اور اس جملے کا ترجمہ یوں ہوگا کہ فتنوں سے محفوظ رہنا اور اگر فتنے میں مبتلا ہوجائے تو صبر و ضبط اختیار کرنا کتنی اچھی اور خوش کرنے والی بات ہے ؟ چناچہ بعض محدثین نے جو یہاں لمن ابتلی فصبر میں لمن کے لام کو زیر کے ساتھ پڑھا اور لکھا ہے اور اس کو فواھا کے متعلق کہا ہے تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہاں واھا کا لفظ عجب، یعنی اظہار خوشی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

【33】

چند پیشین گوئیاں

حضرت ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب میری امت میں آپس میں تلوار چل جائے گی تو پھر قیامت تک امت کے لوگوں کے قتل و قتال سے باز نہیں رہے گی۔ اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے بعض قبائل مشرکوں کے ساتھ نہ جا ملیں گے اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے بعض قبائل بتوں کو پوجنے لگیں گے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میری امت میں سے تیس جھوٹے (یعنی نبوت کا دعویٰ کرنے والے) ظاہر ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے جب کہ واقعہ یہ ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری امت میں سے ہمیشہ ایک جماعت حق پر ثابت قدم رہے گی (یعنی عملی طور پر بھی اور علمی طور پر بھی دین کے صحیح راستے پر چلنے والی ہوگی اور دشمنان دین پر غالب رہے گی) اس جماعت کا کوئی بھی مخالف وبدخواہ اس کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا (کیونکہ اس جماعت کے لوگ دین پر ثابت قدم اور برحق ہونے کی وجہ سے اللہ کی مدد و نصرت کے سایہ میں ہوں گے) تآنکہ اللہ کا حکم آئے۔ ( ابوداؤد، ترمذی) تشریح حدیث کے پہلے جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ کو بعض مسلمانوں کی وجہ سے میری امت میں باہمی محاذ آرائی آپس میں قتل و قتال کی سیاست کو عمل ودخل کا موقع مل گیا تو پھر مسلمانوں کی باہمی خونریزی اور ایک دوسرے کے خلاف تشدد و طاقت کے استعمال کا ایسا سلسلہ شروع ہوجائے گا جو قیامت تک ختم نہیں ہوگا اور ہمیشہ میری امت کے لوگ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی صورت میں اپنی ہی صفوں کے خلاف لڑتے رہیں گے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا بالکل صحیح ثابت ہوا اور حضرت امیر معاویہ (رض) کے زمانے سے مسلمانوں کی جو باہمی محاذ آرائی شروع ہوئی تھی اس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ جب تک میری امت کے بعض قبائل مشرکوں کے ساتھ نہ جا ملیں گے حضور ﷺ کی اس پیشین گوئی کا کچھ حصہ تو آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ہی سامنے آگیا تھا جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ابتدائی زمانہ خلافت میں عرب کے چند قبائل کچھ شرپسندوں اور منافقین کے فریب میں آ کر ارتداد میں مبتلا ہوگئے اور کفر وشرک کی طاقتوں کے ساتھ مل گئے تھے، لیکن حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی فراست و دانش مندی اور قوت فیصلہ کی مضبوطی واولوالعزمی نے ان مرتدین کا استیصال کردیا تھا۔ جب تک میری امت کے بعض قبائل بتوں کو پوجنے لگیں گے میں بتوں کا پوجنا اگر حقیقی معنی میں مراد ہے تو کہا جائے گا کہ شاید آئندہ زمانے میں کوئی وقت ایسا بھی آئے جب مسلمانوں کے کچھ طبقے ایمان واسلام کا دعویٰ رکھنے کے باوجود، واقعۃً بتوں کی پوجا کرنے لگیں۔ ویسے موجودہ زمانے میں بھی ایسے مسلمانوں کا وجود بہرحال پایا جاتا ہے جو قبر پرستی اور تعزیہ کی پرستش وغیرہ کی صورت میں اپنی پیشانیاں غیر اللہ کے آگے سجدہ ریز کرتے ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ اس جملے میں بتوں کو پوجنے والی بات اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہے بلکہ اسے مجازی اور معنوی صورت مراد ہے تو پھر اس کے محمول کی بہت صورتیں ہوسکتیں ہیں جو ہر زمانے میں پائی جاتی ہیں، ان میں سے ایک صورت مال و دولت اور جاہ و اقتدار وغیرہ کے حصول کو اپنی زندگی کا اصل مقصد اور اپنی امیدوں اور آرزوؤں کی واحد آماجگاہ بنا لیتا ہے، اس صورت میں اس ارشاد گرامی کا ایک محمول وہ لوگ بھی ہیں جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے۔ تعس عبدالدیناوعبدالدرہم۔ درہم ودینا یعنی مال و دولت کے غلام ہلاک ہوں۔ لفظ خاتم ت کے زیر اور زبر دونوں کے ساتھ آتا ہے۔ اور وانا خاتم النبیین کے جملہ نحوی قاعدہ کے اعتبار سے حال واقع ہوا ہے نیز لا نبی بعدی کا جملہ اپنے پہلے جملہ یعنی وانا خاتم النبیین کی تفسیر و وضاحت کے طور پر ہے۔ تا ن کہ اللہ کا حکم آئے میں اللہ کے حکم سے مراد قیامت ہے یا دین کا اس طرح تسلط و غلبہ پالینا مراد ہے کہ روئے زمین پر کفر کا کوئی نام ونشان باقی نہ رہے۔ نیز حتی یاتی الخ کا جملہ، لفظ لاتزال سے متعلق ہے۔

【34】

ایک پیشین گوئی

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اسلام کی چکی پینتیس برس یا چھتیس برس یا سینتیس برس تک گھومتی رہے گی پھر اگر لوگ ہلاک ہوں گے تو اس راستے پر چلنے کی وجہ سے ہلاک ہوں گے جس پر چل کر پہلے لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور اگر ان کے دین کا نظام کامل و برقرار رہا تو ان کے دینی نظام کی تکمیل و برقرار کا وہ سلسلہ ستر برس تک رہے گا۔ حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر پوچھا کہ یہ سترہ برس بقیہ میں سے ہوں گے یا اس عرصے سمیت ہوں گے جو گزرا (یعنی آپ ﷺ نے دین کے نظام کی تکمیل و برقرار کے لئے جس ستر سال کے عرصے کا ذکر فرمایا ہے آیا اس سے ستر سال کا وہ عرصہ مراد ہے جس کی اتبداء ٣٥ یا ٣٦ سال کا مذکورہ زمانہ گزرنے کے بعد ہوگی، یا وہ مذکورہ سال بھی اس ستر سال کے عرصے میں شامل ہیں اور اس کی ابتداء اسلام کے ابتدائی زمانہ یا ہجرت کے وقت سے مراد لی گئی ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا یہ مذکورہ سال بھی ان ستر سالوں میں شامل ہیں اور ستر سال کا عرصہ اس عرصہ سمیت ہے جو اسلام کے ابتدائی زمانہ یا ہجرت کے وقت سے اب تک گزر چکا ہے۔ (ابو داؤد) تشریح اسلام کی چکی گھومتی رہے گی سے حضور ﷺ کا مطلب یہ ہے تاکہ وہ زمانہ کہ جس میں دین کا نظام مستحکم و استوار رہے گا، احکام شریعت کی بھر پور حکمرانی ہوگی، مسلمانوں کے تمام دینی و دنیاوی معاملات قرآن وست کے مطابق خوش اسلوبی کے ساتھ چلتے رہیں گے اور دین وآخرت کی فتنہ و فساد سے محفوظ ومامون رہے گی، ٣٥ یا ٣٦ سال پر مشتمل ہوگا اور اس زمانے کی ابتداء ہجرت کے سال سے ہے کہ اسلام کے ملی سیاسی ظہور اور ملکی فتوحات کا سلسلہ ہجرت ہی سے شروع ہوتا ہے۔ چناچہ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ حضرت عثمان غنی (رض) کی شہادت کا سانحہ اسلام کی تاریخ کا وہ پہلا فتنہ ہے جس نے مسلمانوں کی دینی وملی زندگی کو سخت دھچکا لگایا اور اسلام کی سیاسی طاقت باہمی افتراق و انتشار کی وجہ سے بہت مضمحل ہوگئی۔ یہ فتنہ ٣٥ ھ میں ظاہر ہوا، اس کے بعد ٣٦ ھ میں جنگ جمل ٣٧ ھ میں جنگ صفین کے فتنے پیش آئے، جن سے مسلمانوں کے دین وملی نظام اور سیاسی استحکام کو ہلا کر رکھ دیا اور اس کے نہایت روح فرسا نتائج نکلے۔ واضح رہے کہ لخمس وثلثین او ست وثلثین او سبع وثلثین (٣٥ برس یا ٣٦ برس یا ٣٧ برس) میں حرف او (بمعنی یا) تنویع کے لئے یا بل (بلکہ) کے معنی میں ہے۔ ٣٥ یا ٣٦ برس کے تعین کے سلسلے میں ایک وضاحت تو وہ ہے جو اوپر بیان کی گئی یعنی ابتداء تو سال ہجرت سے شمار کی جائے اور انتہاء حضرت عثمان (رض) کی شہادت اور پھر جنگ جمل وجنگ صفین کو قرار دیا جائے تو بالترتیب ٣٥ ھ، ٣٦ ھ، ٣٧ ھ کے واقعات ہیں لیکن اس بارے میں ایک احتمال یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ کلام اس سال ارشاد فرمایا تھا جب کہ آپ ﷺ کی زندگی کے چند ہی سال باقی رہ گئے تھے اور اگر ان چند سالوں کو خلفاء اربعہ کی مدت خلافت کے ساتھ جوڑا جائے تو ان سب کی مجموعی مدت اتنے ہی سالوں پر مشتمل ہے جو حضور ﷺ نے اس ارشاد گرامی میں ظاہر فرمائی۔ گویا اس قول کے مطابق ٥٣ یا ٦٣ یا ٧٣ سال کا ابتدائی تو اس کو قرار دیا جائے گا، جس میں حضور ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی اور ان سالوں کا آخری سال حضرت علی (رض) کی خلافت کے سال آخر کو قرار دیا جائے گا، لہٰذا دین کے نظام کے استقرار و تکمیل سے اگر یہ مراد لیا جائے کہ ان مذکورہ سالوں میں دین کی پوری طرح محفوظ ومامون رہے گا کہ بدعت اور فکر و جمال کی لغزش تک کو دین میں راہ پانے کا موقع نہیں ملے گا اور ملک وملت کا کوئی بھی کام شارع کے حکم کے خلاف نہیں ہوگا تو پھر مذکورہ سالوں کے تعین کے سلسلے میں یہی وضاحت مناسب تر اور اولیٰ ہوگی اور اگر دین کے استقرار اور تکمیل سے مراد لیا جائے کہ ملک وملت کے تمام کا انتظام وفتنہ و فساد سے پاک ہوں گے خلافت کا مسئلہ خوش اسلوبی اور اتفاق و اتحاد کے ساتھ طے پاتا رہے گا اور مسلمانوں کے درمیان کوئی محاذ آرائی اور مخالفت وعناد کی صورت پیدا نہیں ہوگی تو پھر مذکورہ سالوں کے تعین میں وہ وضاحت مناسب تر ہوگی جو پہلے نقل کی گئی۔ ایک اور احتمال یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مذکورہ سالوں کی ابتداء اس وقت سے لگائی جب کہ آنحضرت ﷺ پر وحی نازل ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تھا یعنی نبوت کا پہلا سال اس صورت میں ٣٥ برس کی مدت کا اختتام حضرت عمر (رض) کی خلافت کے اختتام پر ہوگا یہ احتمال اس اعتبار سے قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد دین و ایمان کی سلامتی، سنت کی اتباع، جماعتی اتحاد و اتفاق، مسلمانوں کی باہمی قلبی محبت ورواداری اور دین وملت کا اخلاق و سیاسی استحکام جس زمانے میں بت عمدہ اور نہایت خوبی کے ساتھ تھا، وہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) ہی خلافت کا زمانہ تھا، حضرت عمر (رض) کے بعد حضرت عثمان (رض) کی خلافت میں ایک دو سال کے بعد ہی جو صورت پیدا ہوگئی اور دین وملت کے نظم و استحکام کے منافی جو حادثات و واقعات ظاہر ہونے شروع ہوئے وہی ان فتنوں کا باعث جنگی حشر سامانیوں نے اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کو نہایت مکدر کر رکھ دیا۔ پھر اگر لوگ ہلاک ہوں گے الخ کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ سالوں میں دین وملت کے اخلاق و سیاسی نظام میں استحکام و استقرار کے بعد اگر لوگ اپنے دین وملی معاملات میں اختلاف و انتشار کا شکار ہوجائیں دین وآخرت کے امور میں سستی و کوتاہی کا شکار اور گناہ و معصیت کا ارتکاب کرنے لگیں تو سمجھو کہ خطرناک راستے پر پڑگئے ہیں جس پر پچھلی امتوں کے لوگوں نے تباہی و بربادی اور ہلاکت مول لی تھی، چناچہ پچھلی امتوں کے لوگ اسی لئے تباوہ و برباد اور ہلاک کر دئیے گئے تھے کہ انہوں نے کجروی اختیار کرلی تھی، حق سے دور ہٹ گئے تھے، شرع احکام اور اپنے ملی معاملات میں اختلاف و انتشار کا شکار ہوگئے تھے اپنے دین پر عمل کرنے اور اپنے پیغمبر کی تعلیمات کو ماننے میں سستی و کوتاہی اور لاپرواہی برتنے لگے تھے اور گناہ و معصیت سے اجتناب نہیں کرتے تھے۔ واضح رہے کہ جو چیزیں انسان کی ہلاکت و تباہی کا سبب بنتی ہیں اور جن کو اختیار کر کے کوئی شخص ہلاکت میں مبتلا ہوتا ہے یہاں ان ہی اسباب کو ہلاکت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اگر ان کے دین کا نظام کامل و برقرار رہا الخ کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمان پہلے کی طرح اپنے امیر و خلیفہ کی اطاعت و فرمانبرداری پر قائم رہے، احکام شریعت اور دینی نظام کو برقرار رکھنے اور ان کی اتباع کرنے پر عامل رہے اور ملی اتحاد و اتفاق کے ذریعے اسلام کی شوکت کو بحال رکھنے میں مصروف رہے تو ان کے دو ملی اور سیاسی استحکام و برقرار کا سلسلہ ستر برس تک جاری رہے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ستر برس کی تحدید سے کیا مراد ہے ؟ تو اس کا حقیقی مفہوم پوری وضاحت کے ساتھ سامنے ہے، تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ دینی وملی نظام کے اخلاقی و سیاسی استحکام کے سلسلے میں جو بات پہلے ذکر کی جا چکی ہے کہ وہ یعنی دین وملی استحکام ٣٥ یا ٣٦ یا ٣٧ سال تک قائم رہے گا تو اسی کے اعتبار سے یہ بات کہی گئی ہے کہ مسلمانوں کے ملی وملکی امور اور سیاسی وانتظامی معاملات آنے والے زمانہ کی بہ نسبت ان ستر سالوں میں زیادہ عمدگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پاتے رہیں گے۔ بہرحال اس حدیث کی تشریح میں یوں تو شارحین نے بہت زیادہ بحث کی ہے اور لمبی چوڑی باتیں لکھی ہیں لیکن قابل اعتماد و اعتبار مسلک و عقیدہ کے مطابق نیز حدیث کے الفاظ کی رعایت ملحوظ رکھتے ہوئے مختصر طور پر جو تشریح بیان کی جاسکتی تھی وہ یہاں نقل کردی گئی ہے جو انشاء اللہ کافی ہوگی۔ لیکن اگر اسی اختصار کے ساتھ حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی کے ان منقولات و فرمودات کو بھی بیان کردیا جائے جو اس حدیث کی تشریح سے تعلق رکھتے ہیں تو حدیث کے فرمودات اور اس کے مصداق کی کچھ اور وضاحت ہوجائے گی۔ چناچہ شاہ صاحب کے مطابق جو حدیث کا حاصل اور مصداق یوں واضح کیا جاسکتا ہے کہ گویا آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا کہ زمانہ ہجرت کے بعد اسلام کی پیش قدمی اور مسلمانوں کی حالات میں جو مضبوطی و استحکام پیدا ہوا ہے، وہ ٣٥، ٣٦، سالوں تک یوں ہی چلتا رہے گا اور تمام دینی وملی معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ طے پاتے رہیں گے، پھر اسلام کے دائرہ میں کچھ اضطراب واقع ہوجائے گا اور باہمی افتراق و انتشار جب کہ حضرت عثمان غنی (رض) کی شہات کا سانحہ پیش آیا۔ پھر ٣٦ ھ میں مزید بگاڑ واقع ہوا جب کہ ام المومنین حضرت عائشہ (رض) اور حضرت علی (رض) کے درمیان محاذ آرائی ہوئی اور جس کو جنگ جمل کہا جاتا ہے اور اس کے بعد ٣٧ ھ میں حالات بالکل ہی قابو سے باہر ہوگئے اور اسلام و مسلمانوں کو سخت و نقصان و تباہی سے دوچار ہونا پڑا۔ جب کہ حضرت علی (رض) اور حضرت معاویہ (رض) کے درمیان بڑی خوفناک جنگ جنگ صفین کے نام سے ہوئی اس کے بعد گویا حضور ﷺ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ مسلمانوں کے دینی اور ملی نظام میں اس خرابی کے واقع ہونے کے بعد اور باغیوں کے غالب آجانے اور خلیفہ برحق مغلوبیت کی وجہ سے اگر لوگ دین وملی نظام کو تباہ کرنے والے ان اعمال واطوار کو اختیار کر کے ہلاک ہوں گے تو وہ اس راستے پر چلنے کی وجہ سے ہلاک ہوں گے جس پر پچھلی امتوں کے لوگوں نے چل کر ساتھ اپنی خلافت سے دست کش ہونا پڑا اور جس طرح ان کو گویا مغلوب ہونا پڑا جس کے نتائج آگے چل کر باہمی افتراق و انتشار اور جاہ اقتدا کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف قتل و قتال کی صورت میں رونما ہوئے اور اگر خلیفہ برحق کا اقتدار و تسلط قائم رہا اور باغیوں کو غالب آنے کا موقع نہ مل سکا تو مسلمانوں کا دین وملی نظام آنے والے زمانوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ عمدگی کے ساتھ چلتا رہے گا اور یہ نظام ستر برس تک یوں ہی قائم رہے گا۔

【35】

شہادت عثمان رضی اللہ عنہ

حدیث کی تشریح میں تین ایسے واقعات کا ذکر آیا ہے جو اسلامی تاریخ میں نہایت روح فرسا نتائج کے ساتھ یاد کئے جاتے ہیں اور جن کی طرف حضور ﷺ نے گویا پہلے ہی اشارہ فرما دیا تھا، یہ تینوں واقعات ہیں شہادت عثمان، جنگ جمل اور جنگ صفین، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں واقعات پر مختصر انداز میں روشنی ڈالی جائے۔ چناچہ سب سے پہلے حضرت عثمان (رض) کی شہادت کے واقعہ اور اس کے پس منظر کو بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت عثمان غنی (رض) اسلام کے تیسرے خلیفہ اور حضرت عمر فاروق (رض) کے بعد مسلمانوں کے امیر وحکمران بنے تھے۔ حضرت عمر (رض) کے دور خلافت تک مسلمانوں کے عام دینی و سیاسی اور ملکی وملی معاملات ایک مستحکم خلافت کے تحت عمدگی و خوبی کے ساتھ چلتے رہے اور ان عوامل و اسباب کو سر اٹھانے کا موقع نہیں ملا جو خلافت کے استحکام اور ملی نظم و اتحاد کے خلاف کسی محاذ آرائی کا باعث بنتے، حضرت عثمان غنی (رض) کی خلافت کا ابتدائی نصف حصہ بھی اسی نہج پر استوار رہا لیکن اس کے بعد کچھ ایسے اندرونی عوامل و اسباب پیدا ہوگئے اور اس کے ساتھ بعض ایسی بیرونی سازشیں حرکت میں آگئیں جن سے حضرت عثمان (رض) کی خلافت کا استحکام ڈانواں ڈول ہوگیا اور ملک وملت کے دینی و سیاسی معاملات پر حضرت عثمان (رض) کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔ حضرت عثمان (رض) کے جہاں بیشمار اوصاف ان زندگی میں مابہ الامتیاز حیثیت رکھتے وہاں ان میں ایک بڑا وصف علم ومروت، چشم پوشی و درگزر اور خاص طور اپنے عزیز واقا رب کے ساتھ حسن سلوک کا جذبہ بھی تھا، انہوں نے اخلاص نیت کے ساتھ اپنے ان عزیز واقا رب کو اونچے عہدوں اور مناصب پر فائز کیا جس کو وہ ان عہدوں کے لئے واقعۃً اور دیانۃً اہل اور مناسب جانتے تھے، نیز وہ چونکہ ذاتی طور پر بہت مالدار تھے اس لئے اپنے مال و دولت کے ذریعے اپنے عزیزوں کی خبر گیری رکھتے تھے اور ان کی مالی معاونت فرمایا کرتے تھے ادھر مسلمانوں کے ذہنی وفکری حالات میں بھی زمانہ کے تغیرات اور وسیع تر ماحول میں عالم خلط ملط کے اثرات سے کافی حد تک تبدیلی آگئی تھی، چناچہ کچھ مسلمانوں میں اور خاص طور پر ان مسلمانوں میں جو نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے اور جو قدیم قبائلی وعلاقائی عصبیت کی گرفت سے پوری طرح آزاد نہیں ہوئے تھے، یہ شکوک پیدا ہونے شروع ہوگئے کہ امیر المومنین اپنی خلافت کے ذریعے اپنے قبیلے اور اپنے خاندان کے لوگوں ہی کو منفعت پہنچا رہے ہیں۔ اگرچہ اس طرح کے لوگ ابھی بہت کم تھے اور عام لوگوں میں حضرت عثمان (رض) کی طرف سے کوئی بدگمانی اور شکایت پیدا نہیں ہوئی تھی لیکن عین اسی وقت عبداللہ بن سبا نے اپنی مکر و سازش کا جال پھیلانے کا کام شروع کردیا، عبداللہ بن سبا شہر صنعاء کا رہنے والا ایک یہودی تھا اس نے حضرت عثمان (رض) کی خلافت میں یہ دیکھ کر کہ مسلمان ہی دنیا کی سب سے فاتح قوم بن گئی ہے اور اس قوم کو بہت زیادہ مال و حشمت حاصل ہے، مدینہ میں آیا اور بظاہر مسلمان بن کر رہنے لگا، اس کا اصل مقصد محض دولت و حشمت کا حصول ہی نہیں تھا بلکہ وہ اپنے ذہن میں مسلمانوں کی طاقت کمزور کرنے اور اسلام کی شوکت و حشمت کو ختم کرنے کی سازش بھی پنہاں رکھتا تھا، چناچہ وہ مدینہ میں اپنی سازش کی تکمیل میں مصروف ہوگیا، وہاں جب کچھ کامیابی نہیں ہوئی تو بصرہ پہنچا۔ بصرہ میں اس نے مختلف مکر و فریب اور ترغیبات و لالچ کے ذریعے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور طرح طرح بد عقیدگیوں کا پر چار شروع کیا، جب بصرہ کے گورنر کو اس کے حالات اور اس کی اصل حقیقت کا علم ہوا اور انہوں نے باز پرس کی وہاں اپنے حامیوں کی ایک جماعت کا چھوڑ کر کوفہ آگیا جہاں پہلے ہی سے ایک جماعت حضرت عثمان (رض) اور ان کے عامل کے خلاف تھی یہاں عبدللہ بن سباء کو اپنی سازش پھیلانے کا زیادہ موقع ملا اس کو ایک طرف تو اسلام سے مخالفت تھی دوسری طرف وہ حضرت عثمان غنی (رض) سے کوئی ذاتی عداوت وعناد بھی رکھتا تھا اور ان سے انتقام لینے کی خواہش رکھتا تھا کچھ دنوں کے بعد اس کو کوفہ بھی چھوڑنا پڑا اور پھر دمشق پہنچ گیا دمشق میں اس کی دال زیادہ نہ گلی اور جلد ہی اسے یہاں سے باہر شہر بدر ہونا چپڑا، یہاں سے نکل کر وہ مصر پہنچا اور وہاں اس نے زیادہ ہوشیاری اور اطاعت کے ساتھ کام شروع کیا اور ایک باقاعدہ خفیہ جماعت کی تنظیم کی چونکہ اہل بیت کی محبت اور حضرت علی (رض) کے ساتھ تعلق کا دعویٰ بھی کرتا تھا لہٰذا اس فریب آویز دعویٰ کے ذریعے مصر میں اسے کامیابی حاصل ہوئی اور لوگوں نے اس کے گرد جمع ہونا شروع کردیا یہاں بیٹھ کر اس نے اسلامی سلطنت کے ان تمام علاقوں سے رابطہ قائم کیا، جہاں جہاں وہ گیا تھا اور اپنے کچھ حامیوں کی جماعت چھوڑ کر آیا تھا اپنے ان حامیوں کے ذریعے ایک طرف تو اس نے مختلف علاقوں سے اہل مدینہ کے پاس یہ شکایتیں پہنچوائیں کہ عثمان کے عامل ماموں اور گورنر اپنے اپنے علاقوں کے لوگوں پر سخت ظلم وستم کر رہے ہیں دوسری طرف اس نے عام مسلمانوں میں حضرت عثمان (رض) کی خویش پروری اور ان کے عاملوں اور گورنروں کے ظلم وستم کے فرضی واقعات کا پروپیگنڈہ کر کے خلافت عثمان کے خلاف ناراضگی اور شورش پیدا کردی، جب حضرت عثمان (رض) کو اس شورش کا علم ہوا تو انہوں نے صورت حال کی طرف توجہ دی اور اپنے عاملین اور مشیروں کو جمع کر کے مشورہ کیا، کچھ لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ جو افراد یہ شورش پھیلانے کے ذمہ دار ہیں ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کردیا جائے اور مجرمین کے ساتھ کوئی رعایت روا نہ رکھی جائے لیکن حضرت عثمان (رض) نے اپنی مروت وبردباری کی وجہ سے اس مشورے کو قبول نہیں کیا اور یہ فرمایا کہ میں قرآن و حدیث کے حکم کے مطابق کسی شخص کو اس وقت تک قتل نہیں کرسکتا جب تک کہ علانیہ مرتد ہوتے نہ دیکھ لوں اور اس کا جرم ثابت نہ ہوجائے غرض معمولی تدابیر کے علاوہ سازشیوں کے مخالف کوئی سخت کار روائی نہیں ہوئی جس سے ان کے حوصلے اور بلند ہوگئے اور وہ نہایت زور وشور کے ساتھ اپنی تخریبی کار روائیوں میں مصروف رہے اور اکثر علاقوں خاص طور پر مصر میں شورش پسندوں کے گروہ کے گروہ تیار ہوگئے جن کو مدینہ دھاوا بولنے اور حضرت عثمان (رض) کو قتل کردینے کی تربیت دی جانے لگی۔ ادھر عبداللہ بن سبا کے لوگ مختلف علاقوں کے گورنروں وعاملوں کے خلاف جو فرضی شکایتیں اہل مدینہ کے پاس بھتیجے تھے ان کو اہل مدینہ صحیح سمجھ کر حضرت عثمان (رض) سے ان گورنروں اور عاملوں کی معزولی کا مطالبہ کرتے تھے، مگر حضرت عثمان (رض) کو تفتیش و تحقیق سے چونکہ معلوم ہوجاتا تھا کہ تمام شکایتیں فرضی ہیں اس لئے وہ ان گورنروں اور عاملوں کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کرتے تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود مدینہ میں حضرت عثمان (رض) اور ان کی حکومت کے خلاف بدگمانیوں اور شکایتوں کی ایک فضا بن گئی اور جا بجا خلیفہ وقت کی نسبت سر گوشیاں ہونا شروع ہوگئیں بلکہ لوگوں کی زبان پر علانیہ شکایتیں آنے لگیں، یہ وہ زمانہ تھا جب عبداللہ بن سبا کے ایجنٹ تمام ممالک اسلامیہ اور تمام بڑے شہروں اور قصبوں میں پہنچ چکے تھے اور ان کے حامیوں کے گروہ ہر جگہ پیدا ہوچکے تھے جب اس نے دیکھ لیا کہ اس کی سازش آخری مرحلوں میں پہنچ گئی ہے، تمام علاقوں میں خلافت عثمان کے خلاف بدگمانیوں اور شکایتوں کا جال پھیلا دیا گیا ہے اور ہر جگہ میرے حامیوں کی خاصی تعداد جمع ہوگئی ہے تو اس نے ہر ہر علاقے سے اپنے مسلح آدمیوں کی بڑی تعداد، چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں اور خفیہ طور پر مدینہ روانہ کی اور پھر کچھ دنوں کے بعد مدینہ والوں نے دیکھا کہ باغیوں اور بلوائیوں کی ایک بڑی جماعت نعرہ تکبیر بلند کرتی ہوئی مدینہ میں داخل ہوگئی ہے۔ عبداللہ بن سبا نے حضرت علی (رض) کی محبت اور ان کی خلیفہ بنانے کا دعویٰ کر کے جن لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا تھا ان تک اس نے حضرت علی (رض) کا ایک جعلی خط بھی گشت کرایا تھا جس میں گویا انہوں نے باغیوں کی حمایت کا اعلان کیا تھا، چناچہ بلوائیوں نے مدینہ پہنچ کر حضرت علی (رض) سے مدد کی درخواست کی تو انہوں نے اس کی کسی بھی طرح سے مدد کرنے سے صاف انکار کردیا، انہوں نے ان سے اسبات کا انکار کیا کہ میں نے تم لوگوں کی حمایت کا اظہار کیا اور کہا کہ میں نے کبھی بھی تم لوگوں کو خط نہیں لکھا۔ حضرت علی (رض) نے بلوائیوں کو ان کی سازش سے دور رکھنے کی بہت کوشش کی، دوسرے صحابہ نے اس معاملے کو سلجھانے کی سعی کی، حضرت عثمان (رض) نے بلوائیوں کے مطالبے پر مصر کے گورنر کو معزول بھی کردیا لیکن اصل تحریک کا مقصد ہی محض شورش و بغاوت پھیلانا تھا اس لئے بلوائیوں کے لیڈروں نے صورت حال کو معمول پر لانے اور شورش کو دبانے کی تمام تدابیر کو ناکام بنادیا، حضرت عثمان (رض) نے یہ رنگ اور مدینہ کے گلی کوچوں کو بلوائیوں سے دیکھ کر مختلف بلاد اسلامیہ کے گورنروں کو خط لکھ کر امداد طلب کی اور ان بلاد سے سرکاری فوجیں بلوائیوں کی سرکوبی کے لئے مدینہ کی طرف روانہ بھی ہوگئیں لیکن بلوائیوں نے ان فوجوں کے آنے سے پیشتر ہی حضرت عثمان (رض) کے مکان کو گھیر کر ان کا محاصرہ کرلیا، اس موقع پر یہ ظاہر کردینا نہایت ضروری ہے کہ اس صورت حال کو بگاڑنے میں بڑا دخل مروان بن حکم کا تھا جو حضرت عثمان (رض) کا چچا زاد بھائی اور ان کا میر منشی و وزیر تھا، اس نے حضرت عثمان (رض) کی مروت وچشم پوشی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنی بد اطواریوں، جعل سازیوں اور عوام مخالف اقدامات کے ذریعے عام مسلمانوں اور خصوصا اہل مدینہ کو بہت زیادہ برہم کر رکھا تھا، اہل مدینہ نے اس موقع پر فائدہ ضرور اٹھانا چاہا کہ مروان کے خلاف وہ بھی بلوائیوں کے شریک حال ہوگئے لیکن ان کا مطالبہ صرف مروان کو اس کے عہدے سے معزول کر کے اہل مدینہ کے سپرد کردینے کا تھا اور اگر حضرت عثمان (رض) اہل مدینہ کا مطالبہ مان لیتے تو شاید بلوائیوں کو اپنے اصل مقصد میں زیادہ کامیابی نہ ہوتی کیونکہ پھر مدینہ کے لوگ بلوائیوں کی حمایت ترک کر کے پوری طاقت سے ان کا مقابلہ کرتے لیکن حضرت عثمان (رض) کی مروت کو گوارہ نہ کیا کہ وہ مروان کو اہل مدینہ کے حوالے کر کے ان کے ہاتھوں اس کے قتل ہوجانے کا منظر دیکھیں بہرحال جب بلوائیوں نے زیادہ شورش برپا کی یہاں تک کہ ان کے مکان میں پانی جانے تک پر پابندی عائد کردی اور جب حضرت علی (رض) و دیگر جلیل القدر صحابہ کو یہ معلوم ہوا کہ اب بلوائی حضرت عثمان (رض) کے مکان کا دروازہ توڑ کر ان کو قتل کردینا چاہتے ہیں تو ان سب سے اپنے صاحبزادوں اور دوسرے متعدد آدمیوں کو حضرت عثمان (رض) کی حفاظت پر معمور کیا اور ان لوگوں نے بڑی جوان مردی سے بلوائیوں کا مقابلہ کر کے حضرت عثمان (رض) کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا اور دروازے پر جم کر کھڑے ہوگئے، کچھ حضرات نے ان کے مکانوں کی چھتوں پر پہرہ دینا شروع کیا بلوائیوں نے یہ سوچ کر کہ باہر سے سرکاری فوجوں کی آمد سے پہلے بہت جلد حضرت عثمان (رض) کا کام کسی نہ کسی طرح تمام کردینا چاہئے یہ چال چلی کہ خفیہ طور پر ایک پڑوسی کے مکان میں گھس گئے اور دیوار پھاند کر حضرت عثمان (رض) کے مکان میں داخل ہوگئے اس وقت حضرت عثمان (رض) کے جو محافظین تھے ان میں سے کچھ تو کوٹھے پر چڑھے ہوئے باغیوں کی کوشش اور نقل حرکت کی نگرانی کر رہے تھے اور کچھ دروازے پر جمے ہوئے بلوائیوں کو اندر گھسنے سے روک رہے تھے، مکان کے اندر صرف عثمان (رض) تھے اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ (رض) ، بلوائیوں نے گھستے ہی حضرت عثمان (رض) پر تلوار چلائی جو قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف تھے، ان کی بیوی نے فوراً آگے بڑھ کر ٹھوکریں ماریں جس سے آپ کی پسلیاں ٹوٹ گئیں، پھر تمام بلوائیوں نے زبردست ریلے کے ذریعے مکان کے اندر دھاوابول دیا، گھر کا سارا سامان لوٹ لیا اور بڑی وابتری مچائی، یہ المناک حادثہ ١٨ ذی الحجہ ھ جمعہ کے روز ہوا تین روز تک حضرت عثمان (رض) کی لاش بےگور و کفن پڑی رہی، پورے شہر پر بلوائیوں کا تسلط تھا، آخر بعض حضرات نے کوشش کرے کے تین دن کے بعد رات کے وقت ان کی نعش مبارک کو بغیر غسل دئیے ہوئے کپڑوں میں دفن کردیا، نماز جنازہ حضرت جبیر ابن مطعم نے پڑھائی اور حضرت عثمان (رض) کی اس ہولناک اور مظلومانہ شہادت کے ذریعے ان کا دور خلافت ختم ہوگیا اور بدبخت یہودیوں کی ایک تباہ کن سازش کو کامیاب ہونے کا موقع مل گیا۔

【36】

جنگ جمل

حضرت عثمان (رض) کی شہادت کے بعد مدینہ میں قاتلین عثمان اور بلوائیوں ہی کا دور دورہ تھا اس لئے سب سے پہلے انہوں نے اہل مدینہ کو ڈرا دھمکا کر انتخاب خلیفہ کے کام پر آمادہ کیا، عبداللہ بن سبا نے چونکہ اپنی پوری سازش اور تحریک میں حضرت علی (رض) کا نام اچھالا تھا اور ان ہی کو خلافت قائم کرنے کے نام پر لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا تھا اس لئے قدرتی طور پر بلوائیوں کی کثرت حضرت علی (رض) کو خلیفہ منتخب کرنے کی حامی تھی۔ اگرچہ حضرت علی (رض) نے حضرت عثمان (رض) کی شہادت سے پہلے ہی خلافت کے باغیوں سے اپنے تعلق کا انکار کیا تھا اور ان کی مدد کی درخواست کو ٹھکرا دیا تھا لیکن جب بلوائیوں نے ان سے اصرار کیا ادھر انہوں نے اہل مدینہ کی بھی کثرت آراء اپنے بارے میں دیکھی تو وہ خلافت کا بار سنبھالنے کے لئے تیار ہوگئے، تاہم جب لوگ بیعت کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے صفائی سے کہہ دیا کہ جب تک اصحاب بدر مجھ کو خلیفہ نہ تسلیم کرلیں میں بیعت نہیں لوں گا، یہ سن کر ان لوگوں نے جہاں تک ممکن ہوسکا اصحاب بدر کو جمع کر کے حضرت علی (رض) کی خدمت میں لائے اور اس طرح ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت ہوئی۔ خلیفہ بننے کے بعد حضرت علی (رض) کو سب سے پہلے جس مطالبے کا سامنا کرنا پڑا وہ حضرت عثمان (رض) کے قصاص کا تھا۔ انہوں نے حضرت عثمان (رض) کی زوجہ محترمہ سے قاتلوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے صرف دو اشخاص کا حلیہ بتایا لیکن ان کا نام نہ بتاسکیں۔ ظاہر ہے کہ حضرت علی (رض) بلا تشخص وتعین اور ثبوت فراہم ہوئے بغیر قاتلین عثمان کو سزا کیسے دے سکتے تھے۔ اس لئے قصاص کے مطالبہ کو تسلیم کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوگئی جب لوگوں نے بالخصوص حضرت طلحہ اور حضرت زبیر (رض) نے صرف حضرت علی (رض) سے اس مطالبہ پر اصرار کیا تو حضرت علی (رض) نے کہا کہ میں قاتلین عثمان سے قصاص ضرور لوں گا اور حضرت عثمان (رض) کے معاملے میں پورا پورا انصاف کروں گا لیکن ابھی تک بلوائیوں کا زور ہے اور ادھر خلافت کا زور پوری طرح مستحکم نہیں ہوا ہے اس لئے فی الحال میں اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتا، اطمینان اور استحکام حاصل ہونے کے بعد سب سے پہلے اسی معاملے کی طرف توجہ کروں گا۔ بس اسی جگہ سے حضرت علی (رض) کے خلاف بدگمانی کی فضا پیدا ہونا شروع ہوگئی، مسلمانوں بالخصوص بنو امیہ کے لوگوں کو یقین ہوگیا کہ حضرت عثمان (رض) کے قتل کا بدلہ نہیں لیا جائے گا اور قاتلان عثمان مزے اڑاتے پھریں گے، ادھر سبائیوں نے اس خوف سے کہ کہیں حضرت علی (رض) قتل عثمان کے بدلے میں ہمیں یہ سزا نہ دینے لگیں، اپنی سازش میں لگ گئے اور کوشش کرنے لگے کہ خلافت کو استحکام نصیب نہ ہو اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی اور عداوت میں مبتلا ہوجائیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ (رض) حج کے لئے مکہ تشریف لے گئی تھیں وہاں سے مدینہ واپس آرہی تھیں کہ راستے میں حضرت عثمان (رض) کی شہادت کا سانحہ سن کر پھر مکہ لوٹ آئیں ان کو حضرت علی (رض) کی خلافت کی خبر بھی ملی ساتھ ہی انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علی (رض) قاتلان عثمان کو سزا دینے میں تامل کر رہے ہیں، چناچہ وہ مکہ آئیں اور لوگوں کو ان کی اس طرح واپسی کا حال معلوم ہوا تو وہ آ کر ان کی سواری کے گرد جمع ہوگئے انہوں نے مجمع کے روبرو تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ میں خود خون عثمان کا بدلہ لونگی۔ بنو امیہ کے تمام لوگوں اور مکہ کے عثمانی گورنر نے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔ حضرت طلحہ، حضرت زبیر (رض) مدینہ سے مکہ آئے تو وہ دونوں بھی حضرت عائشہ (رض) کے ساتھ ہوگئے، کچھ عرصہ تیاریوں میں لگا اور پھر حضرت عائشہ (رض) اپنے تمام حامیوں کو لے کر بصرہ روانہ ہوئیں تاکہ وہ ان سے فوجی امداد لے کر آگے کی کاروائی شروع کریں راستے میں کچھ لوگ ان سے جدا بھی ہوگئے۔ خود حضرت عائشہ (رض) نے ایک مقام پر یہ ارادہ کرلیا کہ اپنے ارادہ سے باز آ کر واپس ہوجائیں مگر مسلمانوں کو باہم محاذ آرا کرنے پر ساشیوں کے جو لوگ متعین تھے انہوں نے کچھ ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ کارواں کو پھر آگے بڑھنا پڑا، بصڑہ کے قریب پہنچ کر ام المومنین خیمہ زن ہو گیں، گو امیر بصرہ نے ان کی مدد کرنے سے انکار کیا مگر عام لوگوں نے ان کی حمایت کی اور ان کے لشکر میں شامل ہوگئے، حضرت عائشہ (رض) اپنا وہ لشکر لے کر مقام امربد تک آپہنچیں، اس کے بعد امیر بصرہ بھی اپنا لشکر لے کر وہاں آگیا اور دونوں لشکر ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوگئے، دونوں کے درمیان جنگ ہوئی اور گورنر بصرہ کی فوج شکست کھا کر بھاگ کھڑی ہوئی اور ام المومنین وغیرہ کا بصرہ پر قبضہ ہوگیا۔ حضرت علی (رض) کو جب یہ صورت حال معلوم ہوئی تو وہ ایک بڑا لشکر لے کر بصڑہ روانہ ہوئے ادھر بعض دور اندیش اور صاحب بصیرت حضرات کی طرف سے ام المومنین اور حضرت علی (رض) کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش ہونے لگی چونکہ ام المومنین اور حضرت علی (رض) دونوں کے قلوب صاف تھے اور دونوں ہی اس باہی محاذ آرائی پر سخت دل گرفتہ تھے، اس لئے جب م صالحین نے دونوں کے دلوں سے ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیاں دور کرا کے باہمی صلح و صفائی کا میدان ہموار کرلیا اور مصالحت یقین ہوگئی تو عین موقع پر عبداللہ بن سبا جو اپنے ساتھیوں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ حضرت علی (رض) کے لشکر میں موجود تھا اپنی پرانی یہودی سازش کے تحت متحرک ہوگیا اور جس دن صلح نامہ پر دستخط ہونے والے تھے اس کی صبح سپیدہ سحر نمودار ہونے سے پہلے سپاہیوں نے اچانک ام المومنین کے لشکر پر حملہ کردیا اور اس طرح دونوں طرف کی فوجیں اس بدگمانی میں پڑ کر کہ فریق مخالف نے مصالحت کی کوشش ٹھکرا کر جنگ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے، باہم برسر پیکار ہوگئیں، ام المومنین نے اس موقع پر بھی جنگ رکوانے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے اونٹ پر ہودج میں بیٹھ کر میدان جنگ میں آئیں لیکن چونکہ دونوں طرف کے جذبات بھڑک اٹھے تھے اس لئے میدان جنگ میں ان کی بہ نفس نفیس آمد دونوں طرف سے جنگ کے شعلے کو بھڑکانے کا مزید سبب بن گئی جم کر لڑائی ہوئی اور جنگ کا سارا زور حضرت ام المومنین کے اونٹ کے ارگرد رہا، اسی مناسبت سے اس جنگ کو جنگ جمل یعنی اونٹ کی لڑائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سازشیوں کی سازش لوگوں کو بھڑکاتی رہی اور مسلمانوں کی تلوار اپنے ہی بھائیوں کا گلا کاٹنے میں مصروف رہی۔ حضرت عائشہ (رض) نے آخری طور پر جنگ بند کرانے کی ایک اور کوشش کی لیکن عبداللہ بن سبا کے لوگوں کی وجہ سے وہ کوشش بھی ناکام ہوگئی۔ ام المومنین کا اونٹ لڑائی اور کشت وخون کا مرکز بنا ہوا تھا۔ چاروں طرف سے حضرت عائشہ (رض) کے کجاوہ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی، اہل بصرہ پوری جان نثاری کے ساتھ ان تیروں کو اپنے اوپر لے جا رہے تھے اور اونٹ کے چاروں طرف لاشوں کے انبار لگ گئے، آخرش حضرت علی (رض) کے لشکر والوں نے ایک زور کا دھاوا بولا اور ایک شخص نے موقع پا کر اونٹ کے پاؤں میں تلوار ماری اور چلا کر سینہ کے بل بیٹھ گیا اونٹ کے گرتے ہی اہل بصرہ منتشر ہوگئے اور جنگ ختم ہوگئی۔ اس جنگ میں حضرت عائشہ (رض) کی طرف سے لڑنے والوں کی تعداد تیس ہزار تھی جن میں سے نو ہزار آدمی میدان جنگ میں کام آئے۔ اس کے بعد اگلے دن حضرت علی (رض) بصرہ میں داخل ہوئے تمام اہل شہر نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور بعد میں حضرت علی (رض) نے ام المومنین کو پورے ادب و احترام کے ساتھ بصرہ سے روانہ فرمایا اور طرفین کے درمیان ہر طرح صلح و صفائی ہوگئی۔ یہ واقعہ ٣٦ ھ کے وسط پیش آیا اور یہ یہودیوں کی گھناؤنی سازش کا دوسرا حملہ تھا جس سے اہل اسلام کو زبردست دھچکا لگا اور مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔

【37】

جنگ صفین

حضرت امیر معاویہ (رض) ، حضرت عثمان (رض) کی طرف سے ملک شام کے گورنر مقرر ہوئے تھے۔ ان کا حضرت عثمان (رض) سے خاندانی اور قرابتی تعلق بھی تھا۔ جب حضرت علی (رض) نے دوسرے ملکوں اور شہروں میں خلافت عثمانی کے مقررہ گورنروں اور عاملوں کو سبکدوش کر کے اپنے معتمد لوگوں کو ان کی جگہوں پر بھیجا تو حضرت امیر معاویہ (رض) کی معزولی کا فرمان بھی صادر ہوا اور ان کا عہدہ سنبھالنے کے لئے سہل بن حنیف کو روانہ فرمایا لیکن سہل بن حنیف کو راستے ہی سے واپس ہونا پڑا اور وہ حضرت امیر معاویہ (رض) سے شام کی گورنری کا عہدہ سنبھالنے میں ناکام رہے۔ اس طرح یہ بات سامنے آگئی کہ حضرت امیر معاویہ (رض) نے گویا حضرت علی (رض) کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ بنو امیہ کے معتمد ہونے کی حیثیت سے خون عثمان کے قصاص کے مسئلہ پر نہایت مضبوطی سے حضرت علی (رض) کے مخالف ہیں، اس موقع پر پھر یہودیوں نے سبائیوں کی صورت میں سازش کا جال پھیلایا اور حضرت علی (رض) و امیر معاویہ (رض) کا لشکر نکلا اور حضرت علی (رض) کے لشکر کا مقابلہ کرنے کے لئے چل پڑا پہلے دونوں لشکروں کے مقدمۃ الجیش کے درمیان مقابلہ ہوا اس کے بعد دونوں طرف کی پوری فوجیں میدان جنگ میں پہنچ کر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئیں، حضرت علی (رض) اپنی فوج کی کمان کر رہے تھے اور حضرت امیر معاویہ (رض) اپنے لشکر کے سپہ سالار تھے، پھر بعض حضرات نے مصالحت کی کوشش شروع کی لیکن سازشیوں کا جال چونکہ دونوں طرف پھیلا ہوا تھا اس لئے یہ کوشش ناکام ہوگئی اس کے بعد مجبوراً لڑائی شروع ہوگئی، تقریبا ایک مہینے تک تو جنگ کا رخ بالکل انفرادی رہا اور باقاعدہ جنگ سے گریز کیا جاتا رہا۔ اس کے بعد مہینے تک کے لئے یہ انفرادی لڑائی بھی معطل کردی گئی اور اس عرصے میں مصالحت کی کوششیں پھر شروع ہوگئیں لیکن مصالحت کی یہ دوسری کوشش بھی کامیاب نہیں ہوسکی اور آخرکار یکم صفر ٣٧ ھ سے جنگ کا آغاز ہوگیا اور ایک ہفتے سے زائد تک بڑی خوفناک جنگ ہوتی رہی حضرت علی (رض) کی فوج کا پلڑا بھاری تھا اور جنگ کے آخری دن وہ مرحلہ بھی آگیا تھا کہ حضرت امیر معاویہ (رض) کو پوری طرح شکست ہوجاتی لیکن عین موقع پر امیر معاویہ (رض) کے مشیر خاص حضرت عمرو بن العاص (رض) کی حکمت عملی نے فوری جنگ بند کر ادی۔ اس کے بعد فریقین نے یہ طے کرلیا کہ حکم کے ذریعے قرآن مجید کی روشنی میں صلح صفائی کرلی جائے۔ امیر معاویہ (رض) کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص اور حضرت علی (رض) کی طرف سے ابوموسیٰ اشعری کو ثالث بنانے پر اتفاق ہوگیا۔ گو آگے چل کر بعض اسباب و عوامل کی بنا پر جس کی تفصیل بہت طویل ہے، یہ ثالثی کامیاب نہیں ہوئی اور حضرت علی و امیر معاویہ (رض) کے درمیان اس آویزش و اختلاف کا سلسلہ ختم نہیں ہوا لیکن یہ بھیانک جنگ جو جنگ صفین کے نام سے مشہور ہوئی۔ مزید تباہی و بربادی اور خونریزی پھیلائے بغیربند ہوگئی۔ اس جنگ نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا اور اسلام کی شوکت زبردست دھکا لگا بیان کیا جاتا ہے کہ اس باہمی محاذ آرائی کے دوران مجموعی طور پر ستر ہزار کے قریب مسلمان میدان جنگ میں کام آئے۔

【38】

ایک واقعہ ایک پیشین گوئی

حضرت ابو واقد لیثی (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ فتح مکہ کے بعد جب غزوہ حنین کے لئے روانہ ہوئے تو راستہ میں آپ ﷺ کا گزر مشرکوں کے ایک درخت پر ہوا جس پر وہ مشرک اپنے ہتھیار لٹکایا کرتے تھے اور پوجا کے طور پر اس درخت کے گرد طواف کرتے اور تعظیما اس کی طرف منہ کر کے بیٹھا کرتے۔ اس درخت کا نام ذات انواط تھا۔ آنحضرت ﷺ کے ہمراہیوں میں ایسے مسلمانوں کی تعداد بھی شامل تھی جو نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور اسلامی احکام و شرائع اور دینی تعلیمات سے زیادہ واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے شریک بیزاری اور توحید میں کامل مرتبہ نہیں رکھتے تھے، انہی مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے اس درخت کو دیکھ کر حضور ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے لئے بھی کوئی ایسا درخت مقرر کر دیجئے جس پر ہم اپنے ہتھیار لٹکایا کریں اور اس کو ذات انواط کہا کریں جیسا کہ مشرکوں نے اس درخت کو اپنے لئے ذات انواط بنا رکھا ہے وار اس پر ہتھیار لٹکاتے ہیں۔ حضور ﷺ نے ان لوگوں کی یہ عجیب و غریب خواہش سن کر از راہ حیرت وتعجب فرمایا کہ سبحان اللہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ یہ بات تم ایسی کہہ رہے ہو جیسا کہ موسیٰ کی قوم یہودیوں نے اپنے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ ہمارے لئے بھی ایک ایسا معبود یعنی بت بنا دیجئے جیسا کہ کافروں کے معبود ہیں تاکہ جس طرح وہ کافر اپنے بتوں کو پوجتے ہیں اسی طرح ہم اپنے اس بت کو پوجا کریں۔ پھر حضور ﷺ نے بطور تنبیہ یہ فرمایا ہے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ان لوگوں کے راستے پر چلنا شروع کردو گے جو تم سے پہلے گزرے ہیں۔ (ترمذی) تشریح انواط دراصل نوط کی جمع ہے جو مصدر ہے اور جس کے معنی لٹکانے کے ہیں، چونکہ اس درخت پر ہتھیار لٹکائے جاتے تھے اس لئے اس کا نام ذات انواط ہوگیا اور یہ نام خاص اسی درخت کا تھا۔ جو تم سے پہلے گزرے ہیں سے مراد گزشتہ امتوں کے لوگ یعنی یود و نصاری وغیرہ ہیں حدیث کے اس آخری جملے کے ذریعے حضور ﷺ نے گویا ان لوگوں کے تئیں ناراضگی وبے اطمینانی کا اظہار فرمایا کہ اگر تم لوگ ایسی ہی بات کہتے اور کرتے رہے تو عجب نہیں کہ گمراہی اور حد سے بڑھ جانے کے اس راستہ پر جا پڑو جس کو پچھلی امتوں کے لوگوں نے اختیار کیا تھا اور اللہ کے مبغوض بندے قرار پائے تھے۔

【39】

چند فتنوں کا ذکر

حضرت ابن مسیب سے جو جلیل القدر تابعین میں سے تھے اور جنہوں نے چاروں خلفائے راشدین کا زمانہ پایا تھا روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ جب پہلا فتنہ کہ (کہ جس سے پہلے اسلام میں کوئی فتنہ ظاہر نہیں ہوا) واقع ہوا یعنی حضرت عثمان (رض) کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تو غزوہ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہا، پھر جب دوسرا فتنہ واقع ہوا یعنی حرہ کا واقعہ پیش آیا تو ان صحابہ میں سے کوئی باقی نہیں رہا جو صلح حدیبیہ یعنی بیعت الرضوان میں شریک ہوئے تھے پھر جب تیسرا فتنہ واقع ہوا تو اس کا خاتمہ اس حالت میں نہیں ہوا تھا کہ لوگوں میں قوت اور فربہی باقی رہی ہو۔ (بخاری) تشریح یعنی کا لفظ اس راوی کا ہے جس نے اس روایت کو حضرت ابن مسیب (رض) سے نقل کیا ہے گویا اس راوی نے اس لفظ کے ذریعے وضاحت کی کہ حضرت ابن مسیب (رض) نے جس فتنہ کو ذکر کیا اس سے ان کی مراد کس فتنہ سے تھی۔ فلم یبق الخ کے الفاظ ابن مسیب کے ہیں، جن سے مراد یہ ہے کہ اصحاب بدر اس سے اللہ کو پیارے ہونے لگے تھے جب کہ پہلا فتنہ یعنی ٣٥ ھ میں حضرت عثمان غنی (رض) کی شہادت کا المناک سانحہ پیش آیا تھا اور پھر جب ٣٦ ھ میں دوسرا فتنہ یعنی حرہ کی جنگ اواعہ پیش آیا تو اس تک کوئی بھی بدر صحابی باقی نہیں رہا تھا۔ پس مذکورہ الفاظ کی مراد یہ نہیں ہے کہ اصحاب بدر حضرت عثمان (رض) کی شہادت کے فتنہ میں مارے گئے تھے۔ اسی وضاحت کو بعد کے جملے میں بھی ان الفاظ پر منطبق کرنا چاہئے اور حاصل یہ کہ غزوہ بدر میں شرکت کی برکت کے سبب اللہ تعالیٰ نے بدری صحابہ کو فتنے سے محفوظ رکھا اور انہوں نے فتنے کا دوبارہ منہ نہیں دیکھا۔ اصحاب بدر میں سب سے آخر میں جن صحابی کا انتقال ہوا ہے وہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) ہیں جو واقعہ حرہ سے چند سال پہلے انتقال کر گئے تھے۔ طباخ کے معنی ہیں مضبوطی، قوت، موٹاپا۔ اور کبھی یہ لفظ اپنے برعکس معنی کے لئے بھی مستعمل ہوتا ہے، مثلا کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کو طباخ نہیں ہے یعنی اس کو عقل نہیں ہے، اس میں کیر و بھلائی نہیں ہے۔ حدیث کے اس آخری جملے سے مراد یہ ہے کہ جب وہ فتنہ ظاہر ہوا تو اس وقت لوگوں میں یعنی تابعین میں کوئی صحابی باقی نہیں رہا تھا۔ بعض حواشی میں لکھا ہے کہ ابن مسیب (رض) نے جس تیسرے فتنہ کی طرف اشارہ کیا۔ اس سے ابن حمزہ خارجی کا فتنہ خروج مراد ہے جو مروان بن محمد بن الحکم کے زمانے میں پیش آیا تھا۔ اور کرمانی نے یہ لکھا ہے کہ اس تیسرے فتنہ سے مراد عبداللہ بن زبیر اور اہل مکہ کے خلاف حجاج بن یوسف کی وہ جنگ ہے جو عبدالملک بن مروان کے زمانے میں ٧٤ ھ میں ہوئی تھی اور جس کے نتیجے میں کعبہ اقدس کی بھی تخریب ہوئی تھی۔ لیکن یہ مراد اس صوت میں صحیح نہیں قرار پاسکتی جب کہ حدیث کے آخری جملے کے مطابق یہ کہا جائے کہ اس فتنے کے وقت دنیا میں کوئی صحابی موجود نہیں تھا کیونکہ حجاج بن یوسف کی جنگ کے وقت تو صحابہ کی اچھی خاصی تعداد بقید حیات تھی۔ لہٰذا پہلی مراد ہی صحیح ہے۔