162. جنگ کرنے کا بیان

【1】

جنگ اور قتال کا بیان

ملاحم، ملحمۃ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں معرکہ اور گھمسان کی جنگ کا موقع۔ اور اصل کے اعتبار سے یہ لفظ یا تو لحم سے نکلا ہے جو گوشت کے معنی میں آتا ہے۔ یا پھر لحمۃ سے مشتق ہے جو کپڑے (یعنی بانے) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اگر مادہ اشتقاق لحم کو قرار دیا جائے تو قتل و قتال یا موقع قتال کو ملحمۃ سے تعبیر کرنا اس سبب سے ہوگا کہ قتل و قتال یا میدان جنگ میں مقتولین کے گوشت اور لوتھڑوں ہی کی کثرت نظر آتی ہے اور اگر یہ مانا جائے کہ ملحمۃ کا لفظ لحمہ سے نکلا ہے تو پھر یہ کہا جائے گا کہ کسی بھی جنگ ومعر کہ آرائی یا میدان جنگ میں چونکہ لوگ آپس میں اس طرح گتھم گتھا ہوتے ہیں جس طرح کپڑے کا بانا اپنے تانے کے ساتھ گتھا ہوا ہوتا ہے اس لئے قتل و قتال اور موقع قتال کو ملحمہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن پہلی بات یعنی ملحمہ کا لحم سے مشتق ہونا زیادہ مناسب اور موزوں ہے، نیز ملحمہ کا لفظ لڑائی اور بڑے حادثے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور صراح میں لکھا ہے کہ ملحمہ کے معنی ہیں فتنہ اور بڑی جنگ۔

【2】

کچھ وہ چیزیں جن کا قیامت آنے سے پہلے وقوع ہونا ضروری ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دو بڑے گروہ آپس میں نہ لڑیں گے، ان دونوں گروہوں کے درمیان زبردست قتل و قتال ہوگا۔ اور دونوں کا ایک ہی دعویٰ ہوگا اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک بڑے زبردست مکار، فریبی اور فسادی لوگ پیدا نہ ہوجائیں گے جو اللہ اور رسول ﷺ پر جھوٹ بولیں گے ان کی تعداد تیس کے قریب ہوگی اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک علم نہ اٹھا لیا جائے گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک زلزلوں کی کثرت نہ ہوجائے گی، زمانہ قریب نہ ہوجائے گا فتنوں کا ظہور نہیں ہونے لگے گا اور ہرج یعنی قتل و قتال اور لوٹ مار کے واقعات میں اضافہ نہ ہوجائے گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ تمہارے پاس مال و دولت کی اتنی کثرت نہیں ہوجائے گی کہ مالدار شخص خیرات لینے والے کی وجہ سے قلق اور پریشانی میں مبتلا ہوجائے، یہاں تک کہ وہ مالدار، جس شخص کو صدقہ و خیرات دینے والا سمجھ کر اس کے سامنے صدقہ و خیرات کا مال پیش کرے گا، وہ غنائے قلبی کے سبب یا خود مالدار ہونے کی وجہ سے یہ کہے گا کہ مجھے تمہارے اس صدقہ خیرات کے مال کی ضرورت و حاجت نہیں ہے۔ اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ لوگ وسیع اور لمبی چوڑی عمارتوں کے بنانے پر فخر نہ کرنے لگیں گے اور جب تک کہ آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرتا ہوا یہ نہ کہنے لگے کہ کاش میں اس کی جگہ ہوتا اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں گی جب کہ تک کہ آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع نہ ہوگا۔ اور لوگ اس کی طرف دیکھیں تو سب ایمان لے آئیں گے اور آخرت کا امر ظاہر ہوجائے گا پس یہ وقت وہ ہوگا جب کسی بھی ایسے شخص کو اس کا ایمان لانا نفع نہ دے گا جس نے اس دن سے پہلے ایمان قبول نہیں کیا ہوگا اور نہ کسی شخص کو اس وقت اپنے ایمان کی حالت میں نیک کام کرنا فائدہ پہنچائے گا اگر اس نے اس دن سے پہلے نیک کام نہیں کیا ہوگا۔ اور اس میں شک نہیں کہ قیامت اس طرح قائم ہوگی یعنی پہلا صور کہ جو قیامت کی ابتداء ہوگا اس طرح اچانک پھونکا جائے گا کہ دو شخصوں نے اپنا کپڑا خریدو فروخت کے لئے کھول رکھا ہوگا اور وہ نہ اس کی خرید وفروخرت کرچکے ہوں گے اور نہ اس کو لپیٹ کر رکھ سکے ہوں گے کہ اسی حالت میں قیامت آجائے گی۔ اور بلاشبہ قیامت اس حال میں قائم ہوگی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کے دودھ کے ساتھ واپس آیا ہوگا یعنی اونٹنی کا دودھ لے کر اپنے گھر آیا ہوگا اور اس دودھ کو پینے نہ پایا ہوگا کہ قیامت آجائے گی اور بلاشبہ قیامت اس طرح قائم ہوگی کہ ایک شخص اپنے حوض کو لیپتا اور پوتتا ہوگا یعنی اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لئے کوئی کنڈ وغیرہ بناتا یا اس کو درست کرتا ہوگا اور وہ اپنے جانوروں کو اس حوض سے پانی نہ پلانے پایا ہوگا کہ قیامت آجائے گی اور بلاشبہ قیامت اس طرح قائم ہوگی کہ ایک شخص نے منہ میں رکھنے کے لئے لقمہ اٹھایا ہوگا اور وہ اس لقمہ کو کھانے نہ پایا ہوگا کہ قیامت آجائے گی۔ (بخاری ومسلم) تشریح اور دونوں کا ایک ہی دعویٰ ہوگا کا مطلب یہ ہے کہ آپس میں لڑنے والے وہ دونوں گروہ دین اسلام کا دعویٰ رکھنے والے ہوں گے اور ان دونوں گروہوں سے تعلق رکھنے والا ہر شخص مسلمان ہوگا یا یہ کہ وہ دونوں گروہ جو مسلمان ہوں گے حق پر دعویٰ کریں گے اور ان میں سے ہر ایک یہ گمان عقیدہ رکھے گا کہ دین و دیانت اور اصول کے اعتبار سے بالکل صحیح راستہ وہی اختیار کئے ہوئے ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں جن دو گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے حضرت علی (رض) اور حضرت امیر معاویہ (رض) کے تابعدار ساتھی مراد ہیں۔ جیسا کہ حضرت علی (رض) نے حضرت امیر معاویہ (رض) کے بارے میں فرمایا تھا کہ اخواننا بغوا علینا (یعنی وہ لوگ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کردی ہے) اسی طرح ایک روایت میں یہ بھی منقول ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ حضرت علی (رض) اور حضرت امیر معاویہ (رض) کے لشکر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما تھے اور حضرت علی (رض) کے لشکر کا ایک شخص حضرت امیر معاویہ (رض) کے ایک آدمی کو قیدی بنا کر حضرت علی (رض) کی خدمت میں لایا، ایک دوسرے شخص نے اس قیدی کو دیکھ کر اس کی حالت پر تاسف کا اظہار کیا اور کہنے لگا کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ مسلمان پختہ اسلام کا حامل تھا۔ حضرت علی (رض) نے یہ سنا تو ناگوار کے ساتھ فرمایا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو ؟ یہ شخص تو اب بھی مسلمان ہے۔ پس یہ حدیث خوارج کے قول کو باطل ثابت کرتی ہے جو کہتے ہیں کہ دونوں جماعتیں یعنی حضرت علی (رض) کے تابعدار بھی اور حضرت امیر معاویہ (رض) کے تابعدار بھی کافر ہیں۔ اسی طرح اس حدیث کے ذریعے روافض کے اس قول کا باطل ہونا ثابت ہوجاتا ہے کہ حضرت علی (رض) کے مخالف کافر ہیں۔ ان کی تعداد تیس کے قریب ہوگی اس طرح کی ایک حدیث گزشتہ باب میں گزری ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ان کی تعداد تیس ہوگی اور یہاں ان کی تعداد تیس کے قریب فرمائی ہے تو ہوسکتا ہے کہ پہلی حدیث میں آپ ﷺ نے متعین طور پر ذکر تو تیس کی تعداد کا فرمایا لیکن مراد یہی ہو کہ ان کی تعداد تیس کے قریب ہوگی یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پیچھے جو حدیث گزری ہے وہ یہاں نقل کی جانے والی حدیث کے بعد کے زمانے کی ہے۔ گویا اس بارے میں پہلے آپ ﷺ کے پاس جو وحی آئی تھی اور اس سے بطریق اجمال وابہام جو بات آپ ﷺ کو معلوم ہوئی وہ آپ ﷺ نے بیان فرما دی کہ ان کی تعداد تیس کے قریب ہوگی لیکن پھر بعد میں دوسری وحی کے ذریعے اس تعداد کو مقید و متعین فرمایا دیا گیا۔ چناچہ اس وحی کے آنے کے بعد آپ ﷺ نے جو حدیث ارشاد فرمائی اس میں فرمایا کہ ان کی تعداد تیس ہوگی۔ اسی طرح تیس کی تعداد والی یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس کو طبرانی نے حضرت ابن عمرو (رض) سے نقل کیا کہ لاتقوم الساعۃ حتی یخرج سبعون کذابا۔ کیونکہ حضرت ابن عمرو کی روایت کا مقصد محض ان جھوٹوں کی کثرت کو ظاہر کرنا ہے، ان کی کسی خاص تعداد کا بیان نہیں۔ یا یہ کہ ستر میں سے تیس تو وہ ہوں گے جو نبوت کا دعویٰ کریں گے اور باقی جھوٹے وہ ہوں گے جو نبوت کا دعویٰ نہیں کریں گے اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ستر کی جو تعداد ذکر فرمائی گئی ہے وہ تیس کے علاوہ اور اس طرح سب کی مجموعی تعداد سو مراد ہو۔ جب تک علم نہ اٹھا لیا جائے گا میں علم سے مراد وہ خاص علم ہے جو شریعت میں نفع دینے والا علم کہلاتا ہے اور وہ قرآن و حدیث اور ان کے متعلقات کا علم ہے اور جس کو دین کا علم بھی کہا جاسکتا ہے، نیز علم کے اٹھ جانے سے مراد اہل سنت والجماعت کے علماء کا اس دنیا سے رخصت ہوجانا ہے۔ چناچہ جب علم کے حامل اور علم پہنچانے والے ہی اس دنیا سے اٹھ جائیں گے تو گویا علم ہی اس دنیا سے اٹھ جائے گا۔ ، پس آخری زمانہ کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس وقت مخلص وبا عمل اور حقیقی عالم تو رخصت ہوجائیں گے اور دنیا میں جاہل وبے علم اور بدعتی لوگوں کی کثرت ہوجائے گی۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ایک عالم کی موت عالم کی موت ہے۔ جب تک کہ زلزلوں کی کثرت نہ ہوجائے گی میں زلزلوں سے مراد یا تو حسی یعنی واقعی زلزلے ہیں کہ زمین کا ہلنا اور بھونچال کا آنا کثرت سے ہوجائے گا یا یہاں زلزلے کے لغوی معنی مراد ہیں کہ طرح طرح کی آفتیں وبلائیں نازل ہوں گی۔ اور نت نئے حادثات انسان، جان ومال کو نقصان پہنچانے لگیں گے۔ جب تک زمانہ قریب نہ ہوجائے گا سے حضرت امام مہدی کے مبارک زمانہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے چونکہ اس وقت تمام روئے زمین میں امن وامان اور خوشی ومسرت کا گہوارہ بن جائے گا اور لوگوں کی زندگی نہایت اطمینان و سکون اور سرور و شادمانی کے ساتھ گزرے گی اس لئے وقت کی رفتار تیز تر معلوم ہوگی اور زمانہ بہت مختصر معلوم ہونے لگے گا جیسا کہ عیش و راحت کا زمانہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو بہت مختصر معلوم ہوتا ہے اور مصیبت و سختی کا زمانہ کتنا ہی مختصر کیوں ہو نہ بہت طویل معلوم ہوتا ہے۔ ویکثر الہرج وہو القتل میں وہو القتل کے الفاظ کسی راوی کے ہیں جس کے ذریعے انہوں نے لفظ ہرج کی وضاحت کی ہے کہ اس لفظ سے مراد قتل و قتال کا واقع ہونا ہے جو فتنے کے سبب وجود میں آئے گا۔ حتی یہم رب المال کے بارے میں کئی اقوال ہیں ایک تو یہ کہ لفظ یہم کو حرف یا کے پیش اور ہ کے زیر کے ساتھ پڑھا جائے اور رب کو یہم کا مفعول ہونے کی بنا پر منصوب قرار دیا جائے، اس صورت میں یہم کا فاعل لفظ فقدان کو قرار دیں گے۔ من یقبل الصدقت کا مضاف محذوف ہے۔ یہ قول زیادہ مشہور ہے اور اس کے مطابق پوری عبارت کے معنی یہ ہوں گے کہ اس وقت جب کہ قیامت کا زمانہ قریب ہوگا لوگوں کے پاس مال و دولت اور روپیہ پیسہ کی اس طرح فراوانی اور کثرت ہوجائے گی کہ صدقہ و خیرات کا مال لینے والا، صدقہ و خیرات کرنے والے کو ڈھونڈھے نہیں ملیں گے۔ یہاں تک کہ اس شخص کا ڈھونڈھنا سخت پریشانی اور قلق میں مبتلا کرے گا جو صدقہ و خیرات کے مال کو قبول کرلے یعنی مالدار شخص کسی مفلس و فقیر شخص ڈھونڈھتا پھرے گا، تاکہ زکوٰۃ و صدقہ کا مال اسے دے سکے مگر پورے معاشرہ میں ضرورت مند و محتاج لوگوں کی کمی کے باعث مشکل ہی سے کوئی فقیر ومفلس اس کو مل پائے گا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہم کو لفظ ہم (بمعنی قصد و ارادہ) سے مشتق قرار دے کر حرف ی کو زبر کے ساتھ اور ہ کو پیش کے ساتھ پڑھا جائے نیز رب کو مرفوع قرار دیا جائے اس صورت میں رب المال، یہم کا فاعل ہوگا اور من یقبل کا مفعول اس طرح عبارت کے معنی یہ ہوں گے کہ اس وقت جب کہ قیامت کا زمانہ قریب ہوگا تمہارے پاس مال و دولت کی بہت زیادتی ہوجائے گی یہاں تک کہ ایک مالدار آدمی کسی ایسے شخص کی تلاش کا قصد کرے گا اور اس کو بہت ڈھونڈے گا جو اس کے صدقہ و خیرات کا مال لے لے۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ لفظ یہم فعل متعدی ہے جس کے معنی غمگین کرنے کے آتے ہیں اس صورت میں حرف ی کو زبر کے ساتھ اور ہ کے پیش کے ساتھ پڑھا جائے اور رب کو منصوب قرار دیا جائے اس طرح اس عبارت کے معنی یہ ہوں گے کہ کسی ایسے فقیر ومفلس کا پایا جانا کہ جو صدقہ و خیرات کا مال قبول کرے، مالدار شخص کو غمگین کرے گا۔ جب تک کہ عمارتوں کے بنانے پر فخر نہ کرنے لگیں یعنی لوگ محض رہائشی ضروریات کی تکمیل کے لئے یا کسی نیک مقصد کی خاطر لمبی چوڑی عمارتیں نہیں بنائیں گے بلکہ وہ فلک بوس اور محل نما عمارتیں محض اپنی شان و شوکت اور اپنی امارت کو ظاہر کرنے اور فخر ومباہات کی خاطر بنائیں گے جیسا کہ اس زمانہ میں ہو رہا ہے کہ مالدار اور رئیس لوگ بڑے بڑے مکانات بنانا فخر کی بات سمجھتے ہیں اور بڑی بڑی بلڈنگیں کھڑی کر کے اپنی جھوٹی شان و شوکت ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اس مقصد کے لئے عبادت گاہوں اور رفاہی عمارتوں اور قبرستانوں تک کو مسمار اور زمین دوز کرنے سے گریز نہیں کرتے اور ان کی جگہ پر اپنی عشرت گاہیں، سیر و تفریح کے مرکز اور باغ باغیچے بناتے ہیں۔ اور جب تک آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرتا ہوا الخ کا مطلب یہ ہے کہ یا تو دینی معاملات میں غم وفکر کی کثرت کی وجہ سے یا آفات اور بلاؤں کی زیادتی کی وجہ سے، قبروں کو دیکھ کر احساس دل اور آخرت میں یقین رکھنے والے لوگ یہ کہنا شروع کردیں گے کہ کاش ہم اس دنیا میں نہ ہوتے اور ان قبروں میں پڑے ہوتے تاکہ ہمیں ان آفات اور بلاؤں کو دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ جب تک کہ آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع نہ ہوگا اس بات (کہ سورج مغرب کی طرف سے نکلے گا) کی وضاحت انشاء اللہ آگے باب العلامات بین یدی الساعۃ میں ذکر ہوگی، اس موقع پر تو اتنا بتادینا کافی ہے کہ جس دن آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا اس دن سے توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، اس کے بعد سے کسی کی بھی توبہ قبول نہیں ہوگی جیسا کہ خود حدیث میں فرمایا گیا ہے۔ اس وقت اس کا ایمان لانا نفع نہ دے گا الخ بعض حضرات نے اس عبارت کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ آفتاب جب مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا تو اس وقت توبہ کا دروزہ بند ہوجائے گا پس اس وقت یا اس کے بعد کسی شخص کا ایمان لانا کہ جو اس دن سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا اور کسی شخص کا نیکی کرنا کہ جس نے اس دن سے پہلے نیکی نہیں کی تھی، کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا واضح رہے کہ یہاں نیکی سے مراد توبہ ہے، یعنی جس طرح اس دن اس شخص کا ایمان لانا فائدہ مند نہیں ہوگا اس طرح اس دن اس کا گناہوں سے توبہ کرنا بھی فائدہ مند نہیں ہوگا اس سے معلوم ہوا کہ آیت (او کسبت فی ایمانہا خیرا) میں لفظ او تنویع کے لئے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے گویا یہ فرمایا کہ اس دن نہ تو شرک سے توبہ کرنا کار آمد ہوگا اور نہ گناہوں سے توبہ کرنا کچھ فائدہ پہنچائے گا۔ کہ دو شخصوں نے اپنا کپڑا کھول رکھا ہوگا میں ان دونوں کی طرف کپڑے کی اضافت اس اعتبار سے ہے کہ ان میں سے ایک شخص یعنی فروخت کرنے والا تو اس کپڑے کے مالک ہی ہوتا اور جو دوسرا شخص یعنی خریدار ہوگا وہ چونکہ اس کپڑے کا طالب اور لینے والا ہوگا لہٰذا اس اعتبار سے کپڑے کی اضافت اس کی طرف بھی کردی گئی ہے۔ حدیث کے آخری اجزاء کا ماحص گویا یہ واضح کرنا ہے کہ قیامت اچانک آئے گی، تمام لوگ اپنے کاروبار میں مشغول ومنہمک ہوں گے کہ یکایک قیامت کا پنجہ سب کو آدبوچے گا، کسی کو اتنی مہلت بھی نہیں ملے گی کہ اس نے کھانے کا جو لقمہ ہاتھ میں رکھ لیا ہے اس کو منہ ہی میں رکھ لے۔ واضح رہے کہ قیامت کے اچانک آنے سے مراد پہلے صورت کا اچانک پھونکا جانا ہے، جس کی آواز سے سب لوگ مرجائیں گے، لیکن اس سے پہلے قیامت کی تمام علامتیں دیکھیں گے۔

【3】

بعض قوموں سے جنگ کی پیشین گوئی

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت اس دن تک نہیں آئے گی جب تک تم اس قوم سے جنگ نہ کرلو گے جن کی پاپوشیں بالدار چمڑے کی ہوں گی اور جب تک تم ترکوں سے جنگ نہ کرلو گے جن کی آنکھیں چھوٹی، چہرے سرخ اور ناکیں بیٹھی ہوئی ہوں گی، گویا ان کے منہ چمڑے کی تہ بہ تہ ڈھال کی طرح ہوں گے۔ (بخاری ومسلم) تشریح ترکوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا سلسلہ نسب یافث بن نوح سے چلا جاتا تھا ان لوگوں کے مورث اعلیٰ کا نام ترک تھا اس سے پوری قوم کو ترک کہا جانے لگا یہ وہی قوم ہے جس کو مگولین یا تاتاری بھی کہا جاتا ہے۔ ، مجان (میم کے زبر اور نون کے تشدید کے ساتھ) اصل میں مجن (میم کے زیر کے ساتھ) کی جمع ہے جس کے معنی سپر ڈھال کے ہیں اس قوم کے لوگوں کے منہ کو ڈھال کے ساتھ تشبیہ اس اعتبار سے دی گئی ہے کہ ان کے چہرے پھیلے ہوئے ہوتے ہیں، نیز ان کے چہرے چونکہ گولائی کے ساتھ پھیلے ہوئے اور گوشت سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے گویا ان کے چہرے کی گولائی اور گوشت سے بھرے ہوئے ہونے کو مطرقہ یعنی اس ڈھال کے ساتھ تشبیہ دی جو تہ دار چمڑے کی بنی ہوئی ہوتی ہے۔

【4】

بعض قوموں سے جنگ کی پیشین گوئی

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ تم خوز اور کرمان کے لوگوں سے جو کہ اہل عجم میں سے ہیں، جنگ نہ کرلو گے، ان لوگوں کے چہرے سرخ، ناک بیٹھی ہوئی اور آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہوں گی اور چہرے اس طرح کے ہوں گے جیسے تہ بہ تہ چمڑے کی ڈھال ہوتی ہے اور ان کی پاپوشیں بالدار چمڑے کی ہوں گی۔ (بخاری) اور بخاری کی ایک اور روایت میں جو عمرو بن تغلب سے منقول ہے ان کے چہرے سرخ ہوں گے کے بجائے یہ الفاظ ہیں کہ ان کے چہرے چوڑے چکلے ہوں گے۔ تشریح خوز اس قوم کا نام ہے جو خوزستان میں رہتی ہے اور کرمان ایک مشہور شہر کا نام ہے جو فارس ایران میں واقع ہے۔

【5】

یہودیوں سے فیصلہ کن جنگ کی پیشین گوئی

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک مسلمان یہودیوں سے نہ لڑ لیں گے چناچہ اس لڑائی میں مسلمان یہودیوں کو بڑی مار ماریں گے یعنی ان پر غالب آجائیں گے یہاں تک کہ یہودی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپتا پھرے گا اور وہ پتھر درخت یہ کہے گا کہ اے مسلمان، اے اللہ کے بندے، ادھر آ میرے پیچھے یہودی چھپا بیٹھا ہے اس کو مار ڈال، مگر غرقد ایسا نہ کہے گا کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔ (مسلم) تشریح غرقد ایک درخت کا نام ہے جو خاردار جھاڑی کی صورت میں ہوتا ہے، مدینہ کا قبرستان جنت البقیع کا اصل نام بقیع الغرقد اسی لئے ہے کہ جس جگہ یہ قبرستان ہے پہلے وہ غرقد کی جھاڑیوں کا خطہ تھا۔ حاصل یہ کہ جب مسلمان، یہودیوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کریں گے اور ان پر غلبہ پالیں گے تو اس وقت ایک ایک یہودی درختوں اور پتھروں کے پیچھے چھپتا پھرے گا تاکہ مسلمانوں کی مار سے بچ جائے مگر جس درخت یا پتھر کے پیچھے کوئی یہودی چھپا ہوگا وہ پکار کر مسلمانوں سے کہے گا کہ ادھر آ کر دیکھو، میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے اس کا کام تمام کردو، البتہ اس وقت غرقد ایسا درخت ہوگا جو دوسرے درختوں کے برخلاف اپنے پیچھے چھپے ہوئے یہودی کو ظاہر نہیں کرے گا بلکہ اس کو پناہ دے گا اور مسلمانوں کو اس کا پتہ نہیں بتائے گا۔ رہی یہ بات کہ دوسرے درختوں کے برخلاف غرقد کا رویہ ایسا کیوں ہوگا تو ہوسکتا ہے کہ غرقد کو یہودیوں کے ساتھ کوئی خاص نسبت وتعلق ہوگا جس کی حقیقت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں یہودیوں کے عبرت ناک حشر کی جو پیش گوئی فرمائی ہے آخر زمانے میں دجال کے ظاہر ہونے کے بعد پوری ہوگی، اس وقت یہودی دجال کے تابع اور فرمانبردار ہونے کی حیثیت سے اور اس کی مدد کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں گے لیکن مسلمان اپنے اللہ کی مدد کے ساتھ یہودیوں کے فتنہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیں گے۔

【6】

ایک قحطانی شخص کے بارے میں پیش گوئی

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ قحطان میں سے ایک شخص پیدا نہ ہو لے گا جو لوگوں کو اپنی لاٹھی سے ہانکے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح قحطان اس قوم کو کہا جاتا ہے جو اس زمانہ میں یمن سے عمان تک کے علاقے میں آباد تھی، یہ قوم دراصل ارفخشد بن سام بن نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے اس شاخ کی نسل ہے جس کے مورث قحطان تھے۔ چناچہ اس نسل کے لوگوں کو قحطان کہا جاتا ہے یمن کے لوگ اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو لوگوں کو اپنی لاٹھی سے ہانکے گا سے مراد اس شخص کا مکمل تسلط و اقتدار ہے کہ لوگ اس کی اطاعت و پیروی کریں گے۔ اس کو متفقہ طور پر اپنا سردار مانین گے اور وہ شخص جابرانہ تسلط و تسخیر کے ذریعے ان لوگوں کو اس طرح اپنے قابو میں رکھے گا کہ کوئی بھی آدمی اس کی اطاعت سے انحراف کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ اور ایک احتمال یہ ہے کہ یہاں ہانکنے سے مراد حقیقی طور پر ہانکنا ہو یعنی وہ جن لوگوں پر غلبہ پالے گا ان کو اپنے عصاء کے ذریعے اس طرح ہانکتا پھرے گا، جس طرح کوئی گلہ بان اپنے جانوروں کو ہانکا کرتا ہے، نیز بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں حدیث میں جس قحطانی شخص کا ذکر کیا گیا ہے وہ شاید وہی شخص ہو جس کو اگلی حدیث میں جہجاہ کہہ کر ذکر کیا گیا ہے۔

【7】

ایک قحطانی شخص کے بارے میں پیش گوئی

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ دن و رات اس وقت تک تمام نہیں ہوں گے (یعنی اس وقت تک زمانہ کا اختتام نہیں ہوگا اور قیامت نہیں آئے گی) جب تک کہ وہ شخص مالک نہ ہوجائے گا یعنی لوگوں پر اقتدار و تسلط نہ پالے گا جس کو جہجاہ کہا جائے گا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جب تک موالی میں سے ایک شخص مالک ہوجائے گا یعنی لوگوں پر اقتدار و تسلط نہ پالے گا جس کو جہجاہ کہا جائے گا۔ (مسلم) تشریح موالی مولیٰ کی جمع ہے جس کے معنی غلام کے ہیں۔ لفظ جہجاہ بعض نسخوں میں تو دو ہ کے ساتھ منقول ہے اور بعض نسخوں میں آخری ہ کے بغیر یعن جہجا منقول ہے۔

【8】

کسریٰ کے خزانہ کے بارے میں پیشین گوئی

حضرت جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بلا شبہ مسلمانوں کی ایک جماعت آل کسریٰ کے خزانہ کو برآمد کرلے گی جو سفید محل میں ہے۔ (مسلم) تشریح آل کسری میں آل لفظ زائد ہے یا اس لفظ سے کسریٰ کے لواحقین، خاندان اور رعایا کے لوگ مراد ہیں۔ لفظ کسری اصل میں خسرو کا معرب ہے اس زمانے میں فارس ایران کے بادشاہ کا لقب خسرو یا کسری ہوتا تھا جیسا کہ روم کے بادشاہ کو قیصر، چین کے بادشاہ کو خاقان، مصر کے بادشاہ کو فرعون، یمن کے بادشاہ کو قیل اور حبش کے بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا تھا۔ ابیض ایک محل کا نام ہے جو مدائن میں واقع تھا اور جس کو اہل فارس سفید کو شک کہا کرتے تھے، اس شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہونے کے بعد اس محل کی جگہ ایک مسجد جو اب بھی ہے۔ نیز حضور ﷺ کسریٰ کے خزانہ کے برآمد ہونے کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی تھی وہ حضرت عمر (رض) کے زمانہ خلافت میں پوری ہوئی اور فاتح مسلمانوں نے اس خزانے کو نکالا۔

【9】

فتح روم وفارس کی پیش گوئی

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کسریٰ ہلاک ہوگیا، اس کسری کے بعد اور کوئی کسری نہیں ہوگا اور یقینا قیصر یعنی روم کا بادشاہ بھی ہلاک ہوگا جس کے بعد کوئی اور قیصر نہیں ہوگا، نیز ان دونوں بادشاہوں کے خزانے اللہ کی راہ میں تقسیم کئے جائیں گے۔ اور آنحضرت ﷺ نے جنگ کا نام دھوکہ اور فریب رکھا۔ (بخاری ومسلم) تشریح کسریٰ ہلاک ہوگیا یہ جملہ خبریہ ہے، جس سے یہ مفہوم مراد ہے کہ عنقریب کسریٰ کا ملک تباہ وپامال ہوجائے گا۔ اس بات کو ادا کرنے کے لئے ماضی کا صیغہ اس اعتبار سے استعمال فرمایا گیا ہے کہ اس بات کا وقوع پذیر ہونا ایک یقینی امر تھا یا ماضی کا صیغہ استعمال فرمانا دعا اور نیک فالی کے طور پر تھا۔ کوئی اور کسریٰ نہیں ہوگا یعنی آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں جو کسریٰ تھا اس کے بارے میں آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ بس یہ آخری کسریٰ ہے اس کے بعد کسی اور کو کسریٰ بننا نصیب نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ بات اس وقت فرمائی تھی جب آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے دعوت اسلام پر مشتمل اپنا جو مکتوب گرامی کسریٰ کو ایک قاصد کے ذریعے بھیجا تھا اس کو اس کسریٰ نے از راہ نخوت پھاڑ کر ریزہ ریزہ کردیا۔ وسمی الحرب خدعۃ (اور آنحضرت ﷺ نے جنگ کا نام دھوکہ اور فریب رکھا) یہ جملہ قال رسول اللہ ﷺ الخ پر عطف ہے یعنی راوی نے حضور ﷺ کا ارشاد گرامی نقل کرنے کے بعد یہ کہا کہ وسمی الحرب خدعۃ حاصل یہ کہ جب حضور ﷺ نے یہ بشارت بیان فرمائی کہ مسلمانوں کو قیصر وکسریٰ کے ملکوں پر فتح حاصل ہوجائے گی اور وہ ان کے اموال و جائیداد اور خزانوں پر قبضہ و تسلط پالیں گے تو سب کے ذہن میں یہی بات آئی ہوگی کہ یہ چیزیں جنگ کے بغیر حاصل نہیں ہوں گی اور جنگ ایسی چیز ہے جو زیادہ تر دھوکہ اور فریب کی محتاج ہوتی ہے، اس لئے آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو آگاہ فرمایا کہ جنگ کے موقع پر اس وہم میں نہ پڑجانا کہ جنگی دھوکہ اور فریب عہد شکنی اور خیانت اور بددیانتی کی قسم سے ہے، بلکہ اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا کہ دشمنوں کے ساتھ برسر جنگ ہونے کی صورت میں حکمت عملی کے طور پر ایسے فریب اور حیلوں کو اختیار کرنا ضروری ہوجاتا ہے جو جنگ کے جیتنے اور طاقت ومدد حاصل کرنے میں بڑا دخل رکھتے ہیں۔ مثلا دشمن پر رعب ڈالنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ذہن پر اپنی طاقت کی زیادتی اور اسلحہ جات کی برتری کا سکہ جما دیا جائے اس مقصد کے لئے فرضی کار روائیوں اور جھوٹے سچے بیانات کا سہارا لیا جاسکتا ہے، یا میدان جنت میں دشمن کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے لئے میدان سے ہٹ جانا اور پیچھے لوٹ آنا تاکہ دشمن یہ سمجھے کہ مقابل لڑنے کی تاب نہ رکھنے کی وجہ سے میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے اور جب دشمن اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر غافل ہوجائے تو کسی طرف سے اچانک اس پر ٹوٹ پڑنا یہ اور اس طرح کی دوسری کاروائیاں ایسے حیلے ہیں جن کو جنگی حکمت عملی کے طور پر اختیار کرنے کی اجازت ہے لیکن واضح رہے کہ عہد شکنی کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے جو عہد و اقرار ہوجائے اس پر عمل کرنا بہر صورت ضروری ہے کسی معاہدہ کو توڑنا ہرگز درست نہیں۔ لفظ خدعۃ اگرچہ خ کے پیش کے ساتھ نقل کیا ہے اور زبر کے ساتھ بھی، اس طرح دال کے جزم اور پیش کے ساتھ بھی نقل کیا جاتا ہے اور زبر کے ساتھ بھی، لیکن یہ لفظ خ کے زبر اور دال کے جزم کے ساتھ زیادہ فصیح ہے۔

【10】

فتح روم وفارس کی پیش گوئی

حضرت نافع بن عتبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ تم لوگ میرے بعد جزیرۃ العرب سے جنگ کرو گے اور اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے ہاتھوں فتح کرائے گا پھر تم فارس کی مملکت سے جنگ کرو گے اور اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے ہاتھوں فتح کرائے گا پھر تم روم کی مملکت سے جنگ کرو گے اور اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے ہاتھوں فتح کرائے اور پھر آخری زمانہ میں تم دجال سے جنگ کرو گے اور اللہ اس پر تمہیں فتح عطا فرمائے گا۔ (مسلم) تشریح عالم عرب کا وہ خطہ جس کو جزیرۃ العرب سے تعبیر کیا جاتا ہے، قدیم جغرافیہ دانوں کے مطابق نجد حجاز جس کے دو مقدس شہر مکہ اور مدینہ ہیں یمامہ، یمن اور عروض پر مشتمل ہے اس خطہ کے جنوب میں بحر عرب، مشرق میں خلیج عربی اور خلیج یمان اور مغرب میں بحراحمر ہے، اس کے شمال میں دریائے فرات اس طرح بہتا ہے اس خطے کے اس تنہا شمالی خشکی کے سرے کو بہت حد تک کاٹ دیتا ہے اور اس وجہ سے یہ خطہ گویا مجازا جزیرۃ العرب کہلاتا ہے ورنہ اصل کے اعتبار سے یہ خطہ جزیرہ نمائے عرب سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ویسے اہل عرب جزیرہ نما کو بھی توسعا جزیرہ کہہ دیا کرتے ہیں۔ جزیرۃ العرب سے جنگ کرو گے کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت میری زندگی میں جزیرۃ العرب کے جو علاقے اسلام کی روشنی سے محروم رہ گئے ہیں۔ میرے بعد ان کی تاریکی بھی ختم ہوجائے گی، کچھ علاقے تو تبلیغ و اشاعت اسلام کے ذریعے کفر کے اندھیرے سے نکل آئیں گے اور باقی علاقے کے لوگوں سے تم جنگ کرو گے اور اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے ذریعے فتح پاؤ گے اس طرح ہر چار طرف اسلام کا جھنڈا سر بلند ہوجائے گا اور پورے جزیرۃ العرب میں کوئی ایک کافر بھی باقی نہیں بچے گا۔ دجال سے جنگ کرو گے الخ کا مطلب یہ ہے کہ دجال جب ظاہر ہوگا تو اپنی طلسماتی طاقت اور مکر و فریب کے ذریعے بڑی اودھم مچائے گا اور کچھ ملکوں اور علاقوں پر قابو پالے گا لیکن جب تم اس کے مقابلے پر نکل کھڑے ہو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو مقہور و مغلوب کر دے گا اور جو ملک و علاقہ اس کے قبضے میں چلا گیا ہوگا وہ دوبارہ تسلط و قبضہ میں آجائے گا، نیز وہ دجال حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں ہلاک ہوجائے گا جو مسلمانوں کی مدد کے لئے آسمان سے اتریں گے۔ واضح رہے کہ اس ارشاد میں حضور ﷺ کا خطاب تو صحابہ سے تھا مگر اصل روئے سخن امت کی طرف تھا۔

【11】

وہ چھ چیزیں جن کا قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہونا ضروری ہے

حضرت عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے دوران ایک دن میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ ﷺ چمڑے کے خیمے میں تشریف رکھتے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا تم قیامت آنے سے پہلے چھ چیزوں کو شمار کرو یعنی ان چھ چیزوں کو قیامت کی علامتوں سے جانو کہ قیامت آنے سے پہلے یہ چھ چیزیں ضرور واقع ہوں گی ایک تو میری موت کہ جب تک میں تمہارے درمیان موجود ہوں قیامت نہیں آئے گی دوسرے بیت المقدس کا فتح ہونا یعنی جب تک بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں فتح نہیں ہوجائے گا قیامت نہیں آئے گی۔ تیسرے عام وباء جو تم میں بکریوں کی بیماری کی طرح پھیلے گی، چوتھے لوگوں کے پاس مال و دولت کا اس قدر زیادہ ہونا کہ اگر ایک آدمی کو سو دینار بھی دئیے جائیں گے تو ان کو حقیر وکمتر جانے گا اور اس پر ناراض ہوگا یعنی مال و دولت کی اس قدر ریل پیل ہوگی کہ کسی کی نظر میں بڑی سے بڑی رقم کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ چناچہ حضور ﷺ کی یہ پیش گوئی حضرت عثمان غنی (رض) کے دور خلافت میں پوری ہوئی جب کہ مسلمانوں میں مال و دولت کی زبردست ریل پیل ہوگئی تھی۔ پانچویں فتنے اور آپس کی مخاصمت و مخالفت کا اس طرح پھوٹ پڑنا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہیں بچے گا جس میں اس فتنے کے برے اثرات نہ پہنچیں، (علماء نے لکھا ہے کہ اس پیش گوئی کا مصداق حضرت عثمان (رض) کا سانحہ شہادت ہے یا فتنہ سے مراد ہر وہ فتنہ اور برائی ہے جس کا ظہور حضور ﷺ کے بعد ہوا) اور چھٹے صلح جو تمہارے اور رومیوں کے درمیان ہوگی، پھر رومی عہد شکنی کریں گے اور تمہارے مقابلے کے اسی نشانوں کے تحت آئیں گے جن میں سے ہر نشان کے ماتحت بارہ ہزار آدمی ہوں گے۔ (بخاری) تشریح بیت المقدس میں مقدس کا لفظ میم کے زبر، قاف کے جزم اور دال کے زیر کے ساتھ، مجلس کے وزن پر مقدس ہے لیکن مشکوۃ کے ایک نسخے میں یہ لفظ میم کے پیش، قاف کے زبر اور دال کی تشدید کے ساتھ معظم کے وزن پر مقدس منقول ہے۔ قعاص مویشیوں کی ایک بیماری کو کہتے ہیں جو عام طور سے مویشی کے سینے میں ہوتی ہے اور اس کو فورا ہلاک کردیتی ہے۔ حضور ﷺ نے یہاں جس عام وباء کی پیش گوئی فرمائی اور اس کو بکریوں کی بیماری یعنی قعاص سے تشبیہ دی، اس سے مراد طاعون کی وہ وبا ہے جو حضرت عمر فاروق (رض) کے زمانہ خلافت میں پیدا ہوئی اور اس کی وجہ سے صرف تین دن کے اندر ستر ہزار آدمی ہلاک ہوئے، اس وقت مسلمانوں کی فوجی چھاؤنی عمو اس میں تھی جو بیت المقدس کے قریب واقع ایک جگہ ہے، اسی مناسبت سے اس وباء کو طاعون عمو اس کہا جاتا ہے، یہ پہلا طاعون تھا جو اسلام کے زمانہ میں پھوٹا اور اس کے سبب اتنا سخت جانی نقصان ہوا۔ بنی الاصفر رومیوں کو کہا جاتا تھا کیونکہ یہ لوگ جس نسل سے تعلق رکھتے تھے اس کے مورث اعلیٰ روم بن عیص بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہ السلام) کا رنگ زرد و مائل بسفیدی تھا اور یہی جسمانی رنگت عام طور سے پوری قوم میں پائی جاتی تھی۔ غایۃ اس نشان یا جھنڈے کو کہتے ہیں جو فوجی سرداروں کے ساتھ ان کے دستوں اور لشکروں کی علامت کے طور پر ہوتا ہے اور بعض روایتوں میں یہ لفظ ی کے بجائے ب کے ساتھ یعنی غابۃ منقول ہے جس کے معنی جنگل اور درختوں کے جھنڈ کے ہیں اس صورت میں کہا جائے گا کہ نشان اور جھنڈوں کی کثرت کی وجہ سے اس لشکر کو درختوں کے جھنڈ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور لشکر والوں کی تعداد ذکر کرنے کا مقصد لاؤ لشکر کی زیادتی بیان کرنا ہے

【12】

رومیوں سے جنگ اور دجال کے قتل کی پیشگوئی

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ رومی اعماق یا دابق میں آ نہ دھمکیں گے اور پھر مدینہ والوں کا ایک لشکر ان کے مقابلے کے لئے نکلے گا جس میں اس دن یعنی اس وقت کے روئے زمین کے سب سے بہتر لوگ شال ہوں گے جب لڑائی کے لئے صف بندی ہوگی تو رومی یہ کہیں گے کہ ہمارے ان لوگوں کے درمیان کہ جو ہمارے لوگوں کو قید کر کے لائے ہیں، جگہ خالی کردو تاکہ ہم ان سے لڑیں (یعنی جن مسلمانوں نے اس سے پہلے ہمارے خلاف جہاد کیا اور ہمارے کچھ لوگوں کو قیدی بنا کرلے آئے ان مسلمانوں کو ہمارے مقابلہ پر لاؤ کیونکہ ہم تم سب مسلمانوں سے لڑنا نہیں چاہتے بلکہ بدلہ اتارنے کے لئے صرف ان ہی مسلمانوں سے لڑنا چاہتے ہیں۔ گویا رومی یہ بات اس لئے کہیں تاکہ مسلمان ان کی باتوں میں آ کر اپنی اجتماعیت کھو دیں اور باہمی تفریق کا شکار ہوجائیں) لیکن مسلمان ان کو جواب دیں گے کہ واللہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ہم تمہارے اور اپنے ان مسلمان بھائیوں کے درمیان جگہ خالی نہیں کرسکتے یعنی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم ان مسلمان بھائیوں کو تو تمہارے مقابلہ پر لڑنے کے لئے آگے کردیں اور خود ایک طرف ہوجائیں، اگر لڑیں تو ہم سب لڑیں گے اور ایک ساتھ لڑیں گے چناچہ سارے مسلمان رومیوں سے لڑنا شروع کردیں گے اور جب گھمسان کا رن پڑے گا تو ان مسلمانوں میں سے ایک تہائی مسلمان بیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوں گے، جن کو اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اور ایک تہائی مسلمان جام شہادت نوش کریں گے، جو یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین شہید قرار پائیں گے۔ اور باقی ایک تہائی مسلمان فتح یاب ہوں گے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مدد ونصرت کے ذریعے رومیوں کے مقابلے پر کامیابی عطا فرمائے گا اور ان کے ہاتھوں رومیوں کے شہروں کو فتح کرائے گا ان مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کبھی فتنہ میں نہیں ڈالے گا۔ پھر مسلمان قسطنطنیہ کو فتح کرلیں گے (یعنی اس شہر کو کافروں کے قبضہ سے لے لیں گے) اور اس کے بعد اس وقت جب کہ وہ مسلمان مال غنیمت تقسیم کرنے میں مصروف ہوں گے اور اپنی تلوار کو زیتون کے درختوں پر لٹکائے ہوئے ہوں گے اچانک شیطان ان کے درمیان یہ بات پھونک دے گا کہ مسلمانو ! تم یہاں مصروف ہو جب کہ تمہاری عدم موجودگی میں مسیح دجال تمہارے گھروں میں پہنچ گیا ہے۔ اسلامی لشکر کے لوگ یہ سنتے ہی قسطنطنیہ سے نکل کھڑے ہوں گے لیکن شیطان کی یہ خبر سراسر جھوٹی ثابت ہوگی، البتہ جب مسلمان شام پہنچیں گے تو پھر دجال ظاہر ہوگا مسلمان اس سے لڑنے کی تیاری کریں گے اور صف بندی میں مشغول ہوں گے کہ نماز کا وقت آجائے گا اور مؤذن تکبیر کہنے کے لئے کھڑا ہوچکا ہوگا۔ اتنے میں حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے منارے پر اتریں گے پھر قدس آئیں گے اور مسلمانوں کی امات کریں گے۔ پھر اللہ کا وہ دشمن یعنی دجال جو اس وقت مسلمانوں کو گھیرے ہوئے ہوگا جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھے گا تو اس طرح گھلنا شروع ہوجائے گا جس طرح نمک پانی میں گھلنے لگتا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس کو اس حالت میں چھوڑ دیں اور قتل نہ کریں تو وہ سارا گھل جائے گا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کئے بغیر خود مرجائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت ومرضی چونکہ یہ ہوگی کہ اس کی موت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں واقع ہو اس لئے اس کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں قتل کروائے گا، پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مسلمانوں کو یا کافروں کو اور یا سب کو دجال کا خون اپنے نیزے کے ذریعے دکھائے گا یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جس نیزے سے دجال کو قتل کریں گے اور جو اس کے خون سے آلودہ ہوگا اس کو لوگوں کو دکھائیں گے کہ دیکھو میں نے اس دشمن اللہ کا کام تمام کردیا ہے۔ (مسلم) تشریح اعماق اطراف مدینہ میں ایک جگہ کا نام تھا اسی طرح وابق مدینہ کے ایک بازار کا نام تھا۔ لیکن ایک قول جو زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ اس حدیث میں مدینہ سے مراد شہر حلب ہے جو ملک شام میں واقع ہے اور اعماق و وابق حلب و انطاکیہ کے درمیان دو مقامات کے نام ہیں، چناچہ کتاب ازہار میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ مدینہ سے مراد مدینۃ النبی ﷺ مراد لینا صحیح نہیں ہے کیونکہ حدیث میں جس زمانہ کے واقعہ کے بارے میں پیش گوئی فرمائی گئی ہے اس وقت مدینہ منورہ کسی طرح بھی تخریب کاری یا کسی اسلام دشمن حملہ سے بالکل محفوظ ومامن ہوگا بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ مدینہ سے مراد شہر دمشق ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرے گا سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ان لوگوں کی موت کفر کی حالت میں ہوگی اور وہ کبھی بھی عذاب سے نجات نہیں پائیں گے۔ ان مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کبھی فتنہ میں نہیں ڈالے گا کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان اپنے جس ایمانی استقلال و عزیمت اور اسلامی شجاعت وبہادری کا ثبوت دیں گے اس کا انعام ان کو یہ ملے گا کہ اللہ تعالیٰ ان کو کبھی بھی کسی آفت وبلا میں نہیں ڈالے گا اور نہ جان وخون کی کسی آزمائش سے دوچار کرے گا۔ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو کبھی بھی عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا پس یہ اس بات کی بشارت ہے کہ ان لوگوں کا خاتمہ بخیر ہوگا۔ قسطنطنیہ کے بارے میں زیادہ مشہور اور صحیح قول یہ ہے کہ اصل میں یہ لفظ قسطنطینہ ہے لیکن بعض حضرات نے قسطنطینیہ کو زیادہ صحیح کہا ہے چناچہ مشکوۃ کے اکثر نسخوں میں یہ لفظ اسی طرح ہے اور بعض نسخوں میں یہ لفظ اس طرح منقول ہے کہ آخری حرف ی پر تشدید نہیں ہے، بہرحال اردو میں یہ لفظ قسطنطنیہ لکھا پڑھا جاتا ہے۔ قسطنطنیہ تاریخ کا ایک مشہور شہر ہے جو اپنے زمانہ میں رومیوں کا دارالسلطنت تھا اور ان کے سب سے بڑے شہروں میں ایک بڑا شہر مانا جاتا تھا، یہ شہر قسطنطین بادشاہ کی طرف منسوب ہے جس نے اس کو ٣٣٠ ء میں بسایا اور رومی سلطنت کا پایہ تخت قرار پایا۔ اب اس شہر کو جو آبنائے فاسفورس کے کنارے واقع ہے استنبول کہا جاتا ہے اور ترکی کی مملکت میں شامل ہے ترمذی نے وضاحت کی ہے کہ یہ شہر صحابہ کے زمانہ میں فتح ہوگیا تھا اور تاریخی روایات کے مطابق دوسری مرتبہ یہ شہر ١٤٥٣ ء میں عثمانی ترکوں کے ذریعے فتح ہوا اور اب تک اس پر مسلمانوں کا قبضہ ہے لیکن اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور پھر آخری زمانہ میں جب کہ قیامت قریب ہوگی، مسلمان اس کو فتح کرلیں گے اور اسی زمانہ میں کانے دجال کا ظہور ہوگا۔ فاذا جاء الشام (جب مسلمان شام پہنچیں گے) میں شام سے مراد قدس ہے جس کو بیت المقدس کہا جاتا ہے چناچہ بعض روایتوں میں اس کی تصریح بھی ہے اور اس وقت بیت المقدس ملک شام ہی کی حدود میں تھا اب یہ فلسطین میں ہے جو ایک مستقل ملک ہے۔ اور مسلمانوں کی امامت کریں گے کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت نماز تیار ہوگی اس لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تمام مسلمانوں کو نماز پڑھائیں گے اور ان مسلمانوں میں حضرت امام مہدی بھی ہوں گے۔ لیکن ایک روایت میں یہ ہے کہ اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) امامت کرنے کے لئے حضرت امام مہدی کو آگے بڑھائیں گے اور ان سے فرمائیں گے کہ اس نماز کی اقامت چونکہ تمہاری امامت کے لئے کہی گئی ہے اس لئے تم ہی نماز پڑھاؤ اس بات سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مقصود اس طرف اشارہ کرنا بھی ہوگا کہ اب مسلمانوں کے امیر و امام چونکہ تم ہو اس لئے مجھے بھی تمہاری اتباع کرنا چاہئے، نہ کہ تم میری اتباع کرو گے، میں مستقل طور پر امام و امیر بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں بلکہ میرا آنا صرف تمہاری مدد ومعاونت اور تمہاری تائید و توثیق کے لئے ہے۔ چناچہ حضرت مہدی (رض) اس نماز کی امامت فرمائیں گے۔ لیکن اس کے بعد نماز کی امامت برابر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ فامہم (اور مسلمانوں کی امامت کریں گے) تو یہ تغلیبا ارشاد فرمایا گیا ہے یعنی بعد میں چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی مسلمانوں کو نماز پڑھایا کریں گے، پس اس اعتبار سے اس وقت کی نماز کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی امامت کریں گے۔ یا یہ کہ امامت کریں گے کے مجازی معنی مراد ہیں۔ یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس وقت مسلمانوں کے امام حضرت مہدی (رض) کو امامت کے لئے کہیں گے۔

【13】

رومیوں سے جنگ اور دجال کے قتل کی پیشگوئی

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ یقینا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ میراث کا تقسیم ہونا موقوف نہ ہوجائے گا۔ یعنی یا تو کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کے کثرت سے مارے جانے کی وجہ سے میراث کی تقسیم بند ہوجائے گی کیونکہ اس وقت جو تھوڑے بہت مسلمان بچیں گے ان کو اتنا ہوش کہاں ہوگا کہ وہ اپنے مرنے والے مورثوں کے ترکہ کی تقسیم کی طرف دھیان دیں یا شرعی احکام پر عمل آوری میں کوتاہی کے سبب لوگ میراث تقسیم کرنا بند کردیں گے اور یا یہ کہ مرنے والے لوگ اپنے ذمہ اتنے قرض اور مطالبات چھوڑ جائیں گے کہ ان کی ادائیگی کرنے کے بعد ترکہ میں سے اتنا بچے گا ہی نہیں کہ اس کی تقسیم کی نوبت آئے اور جب تک مال غنیمت سے خوش ہونا نہ چھوڑیں گے (یعنی قیامت قائم ہونے سے پہلے ایک بات تو یہ ہوگی میراث کی تقسیم نہ ہو پائے گی اور دوسری بات یہ ہوگی کہ مسلمان غنیمت کے مال سے خوش نہیں ہوا کریں گے اور یہ خوش نہ ہونا یا تو اس اعتبار سے ہوگا کہ مال غنیمت ملنا ہی بند ہوجائے گا اور جب مال ملے گا نہیں تو کوئی خوش کہاں سے ہوگا اور یا خوش نہ ہونے سے یہ مراد ہے کہ جو لوگ مال غنیمت کی حفاظت و تقسیم کے ذمہ دار ہوں گے وہ خیانت و بددیانتی کا ارتکاب کرنے لگیں گے جس کی وجہ سے مال غنیمت ایماندار اور بادیانت لوگوں کے لئے کسی خوشی کا باعث نہیں ہوگا) پھر حضرت ابن مسعود (رض) نے ان دونوں باتوں کی حقیقت کو واضح کرنے اور صورت واقعہ ظاہر کرنے کے لئے بیان کیا کہ دشمن یعنی کافر اہل شام سے لڑنے کے لئے فوج اور طاقت جمع کریں گے۔ ادھر مسلمان بھی ان کافروں سے مقابلہ کے لئے لشکر اور طاقت جمع کریں گے دشمن سے مراد رومی ہیں، چناچہ مسلمان اپنے لشکر میں کچھ فوج منتخب کر کے آگے بھیجیں گے تاکہ وہ جنگ کرے اور مرجائے اور اگر واپس آئے تو فتح یاب اور غالب ہو کر آئے۔ پس دونوں طرف کے لشکر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوجائیں گے اور جنگ شروع ہوجائے گی یہاں تک کہ دونوں لشکروں کے درمیان رات حائل ہوجائے گی اور جنگ کو روک دے گی نیز دونوں فریق اپنے اپنے ٹھکانوں میں واپس آجائیں گے اور ان میں سے نہ کوئی غالب وفتح یاب ہوگا اور نہ کوئی مغلوب ومفتوح البتہ دونوں طرف کی فوج کے وہ چیدہ اور منتخب دستے جو لڑنے کے لئے آگے گئے ہوں گے فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے یعنی دونوں طرف کے لشکروں نے اپنے جن چیدہ فوجیوں کو لڑنے کے لئے آگے بھیجا ہوگا وہ اس دن کی جنگ میں کام آجائیں گے۔ اور باقی تمام فوجی اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس آجائیں گے، اس طرح اس دن کی جنگ میں دونوں فریق برابر سرابر رہیں گے، نہ کوئی غالب ہوگا نہ کوئی مغلوب پھر دوسرے دن مسلمان ایک دوسرے لشکر کو منتخب کر کے آگے بھیجیں گے تاکہ وہ جنگ کرے اور مرجائے اور واپس آئے تو فتح یاب ہو کر آئے پس دونوں طرف کے لشکر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوجائیں گے یہاں تک کہ دونوں لشکروں کے درمیان رات حائل ہوجائے گی اور دونوں طرف کی فوجیں اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس آجائیں گی ان میں سے نہ کوئی غالب ہوگا نہ کوئی مغلوب البتہ دونوں طرف کی فوج کے وہ چیدہ دستے جو لڑنے کے لئے آگے گئے ہوں گے فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے پھر تیسرے دن مسلمان ایک اور لشکر کو منتخب کر کے آگے بھیجیں گے تاکہ وہ جنگ کرے اور مرجائے اور اگر واپس آئے تو فتح یاب ہو کر آئے، پس دونوں طرف کے لشکر کو ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوجائیں گے یہاں تک کہ شام ہوجائے گی اور دنوں اطراف کے فوجی اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس آجائیں گے ان میں سے نہ کوئی غالب ہوگا نہ کوئی مغلوب البتہ دونوں طرف کے چیدہ دستے جو لڑنے کے لئے آگے گئے ہوں گے فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ اور پھر جب چوتھا دن ہوگا تو مسلمانوں کی باقی ماندہ فوج کفار سے جنگ کے لئے نکل کھڑی ہوگی اور اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں کفار کو شکست دلوائے گا۔ بہرحال اس دن نہایت سخت اور خوفناک جنگ ہوگی اور مسلمان جان توڑ کر لڑیں گے اور ایسا لڑیں گے کہ اس طرح کی لڑائی کبھی نہیں دیکھی گئی ہوگی، یہاں تک کہ اگر کوئی پرندہ لشکر والوں کے اوپر سے گزر جانا چاہے گا تو ان کو پیچھے نہیں چھوڑ پائے گا یعنی ان سے آگے نہیں گزر سکے گا کہ مر کر زمین پر گرپڑے گا مطلب یہ کہ اس لڑائی میں اس کثرت سے لوگ مارے جائیں گے کہ پورا میدان جنگ لاشوں پٹا پڑا ہوگا اور اگر کوئی پرندہ ان لاشوں کے اوپر سے گزر کر جانا چاہے گا تو آگے نہیں جا پائے گا بلکہ لاشوں کے ناقابل برداشت بدبو کی وجہ سے مر کر گرپڑے گا یا یہ کہ وہ میدان جنگ اتنا وسیع اور طویل ہوگی کہ اگر کوئی پرندہ اس کے ایک سرے سے اڑ کر دوسرے سرے تک جانا چاہے گا تو نہیں جا پائے گا بلکہ اڑتے اڑتے تھک جائے گا اور مر کر گرپڑے گا۔ پھر جب ایک باپ کے بیٹے یعنی کسی ایک خاندان یا کسی ایک سلسلے کے لوگ کہ جن کی تعداد سو ہوگی اپنوں کو شمار کرنا شروع کریں تو ان میں سے صرف ایک مل پائے گا یعنی جنگ ختم ہونے کے بعد باقی ماندہ لشکر کے لوگ جانی نقصان کا جائزہ لینا شروع کریں گے، چناچہ ہر شخص اپنے اقا رب اور متعلقین کو شمار کرے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ اگر اس کے اقا رب اور متعلقین سو کی تعداد میں جنگ میں شریک ہوئے تھے تو ان سو لوگوں میں سے ایک ہی شخص زندہ بچا ہے باقی سب کام آگئے ہیں، حاصل یہ کہ اس جنگ میں جانی نقصان اس کثرت سے ہوگا کہ زندہ بچ رہنے والوں کا تناسب سو میں ایک ہوگا پس ایسی صورت میں جب کہ مرنے والوں کی تعداد اس قدر بڑی ہوگی کون سا مال غنیمت خوشی کا باعث ہوگا اور کونسی میراث تقسیم ہوگی ؟ بہرحال مسلمان اسی حالت میں ہوں گے کہ اچانک ان کو ایک سخت لڑائی کی خبر معلوم ہوگی، جو پہلی لڑائی سے بھی زیادہ بڑی اور بھیانک ہوگی، پھر مسلمان یہ آواز سنیں گے کہ جیسے کوئی اعلان کرنے والا اعلان کر رہا ہے کہ ان کی عدم موجودگی میں ان کے اہل و عیال کے درمیان دجال پہنچ گیا ہے (یہ خبر سنتے ہی وہ) مسلمان اپنے ہاتھ کی چیزوں یعنی مال غنیمت کی اشیاء کو کہ جو انہیں ملی ہوں گی پھینک پھینک کر دجال کی طرف متوجہ ہوجائیں گے اور پہلے وہ اپنے دس سواروں کو آگے بھیجیں گے تاکہ دشمن کے بارے میں واقفیت بہم پہنچائیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ مسلمان جن سواروں کو آگے بھیجیں گے یقینا میں ان کے اور ان کے باپ کے نام بھی جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ان کے گھوڑے کس رنگ کے ہوں گے نیز وہ بہترین سوار ہوں گے، یا یہ فرمایا کہ وہ اس زمانہ کے روئے زمین کے بہتر سواروں میں سے ہوں گے۔ (مسلم) تشریح شرطہ فوج کے اس جانباز دستہ کو کہتے ہیں جو لشکر کے بالکل آگے ہو اور اپنی جانیں تک قربان کردینے کے عزم کے ساتھ میدان جنگ میں سب سے پہلے کودے۔ یتشرط کا لفظ اسی سے مشتق ہے جو باب تفعل سے نکالا گیا ہے نیز یہ لفظ باب افتعال سے یشترط بھی نقل کیا گیا ہے بہرحال یہ جملہ لاترجع الا غالبۃ اصل میں شرطہ للموت کی صفت کا شفہ مبینہ موضحہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کا لشکر اپنے جس جانباز دستہ کو آگے بھیجے گا اس کو یہ ہدایت ہوگی کہ وہ کسی بھی حالت میں دشمن کے مقابلے سے بھاگے گا نہیں بلکہ سخت سخت حالت میں بھی محاذ پر ڈٹا رہے، یہاں تک کہ دشمن کو فنا کے گھاٹ اتار کر سرخ رو لوٹے یا خود فنا کے گھاٹ اتر جائے۔ فیجعل اللہ الدبرۃ علیہم میں لفظ دبر ادبار کا اسم ہے بعض روایتوں میں یہ لفظ دابر بھی منقول ہے لیکن معنی کے اعتبار سے دنوں میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں ہی سے مراد شکست اور ہزیمت ہے۔ فبای غنیمۃ حرف ف تفریعہ یا فصیحہ ہے اور طیبی نے لکھا ہے کہ یہ جملہ نحوی ترکیب کے اعتبار سے جزاء ہے شرط محذوف کی کہ پہلے تو مبہم طور پر فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ میراث کا تقسیم ہونا موقوف نہ ہوجائے گا اور مسلمان مال غنیمت سے خوش ہونا چھوڑ دیں گے۔ اس کے بعد جملہ کی وضاحت آگے کی عبارت عدو یجمعون الخ دشمن یعنی کافر اہل اسلام سے لڑنے کے لئے فوج اور طاقت جمع کریں گے الخ۔ کے ذریعے کی اور اس وضاحت کو مذکورہ صفت (یعنی بڑی بھیانک اور خوفناک جنگ ہونے اور اس میں اس قدر جانی نقصان ہونے) کے ساتھ مقید کیا کہ میراث اس لئے تقسیم نہیں ہوگی اور مسلمانوں کو مال غنیمت سے اس لئے خوشی نہیں ہوگی کہ جہاں اتنا زیادہ جانی نقصان ہوا اور اس قدر کثرت سے لوگ مارے گئے ہوں وہاں تقسیم کہاں اور خوشی کہاں ؟ طلیعہ کریمہ کے وزن پر ہے اور اس کے معنی اس شخص کے ہیں جس کو دشمن کی خبر لانے کے لئے آگے بھیجا جائے۔ چناچہ ان دس سواروں سے مراد فوجی جاسوسوں کی وہ ٹکڑی ہے جس کو دشمن کے حالات، ساز و سامان اور قوت و تعداد کی خبر لانے کے لئے دشمن کے ٹھکانوں کی طرف روانہ کیا جائے گا۔ حضور ﷺ کا یہ ارشاد میں ان کے اور ان کے باپ کا نام جانتا ہوں الخ اعجاز نبوت کی دلیل ہے، یعنی یہ آپ ﷺ کا معجزہ تھا کہ سینکڑوں سال بعد وقوع پذیر ہونے والے کسی واقعہ سے متعلق افراد کے نام اور ان کے باپ کے نام اور ان کے گھوڑوں کے رنگ تک کا علم حضور ﷺ کو تھا، نیز یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کی کلیات وجزئیات کو محیط ہے اور اس نے جس چیز کے بارے میں جس قدر مناسب جانا اس قدر علم اپنے رسول کو بھی عطا فرما دیا۔

【14】

کشت وخون کے بغیر ایک شہر کے فتح ہونے کی پیشگوئی

حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے صحابہ سے پوچھا کہ کیا تم نے کسی ایسے شہر کے بارے میں سنا ہے جس کے ایک طرف تو سمندر ہے اور ایک طرف جنگل ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہم نے اس شہر کا ذکر سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ حضرت اسحق (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ستر ہزار آدمی اس شہر کے لوگوں سے جنگ نہ کرلیں گے۔ چناچہ حضرت اسحاق کی اولاد میں سے وہ لوگ جب جنگ کے ارادے سے اس شہر میں آئیں گے تو اس شہر کے نواحی علاقے میں پڑاؤ ڈالیں گے اور پورے شہر کا محاصرہ کرلیں گے لیکن وہ لوگ شہر والوں سے ہتھیاروں کے ذریعے جنگ نہیں کریں گے اور نہ ان کی طرف تیر پھینکیں گے بلکہ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر کا نعرہ بلند کریں گے اور شہر کے دو طرف کی دیواروں میں سے ایک طرف کی دیوار گرپڑے گی، اس موقع پر حدیث کے راوی ثور بن یزید (رض) نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہاں سمندر کی جانب والی دیوار کہا تھا۔ (یعنی میں یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا البتہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہاں یہ روایت کیا تھا کہ اس نعرہ سے سمندر کی طرف والی دیوار گرپڑے گی۔ بہرحال اس کے بعد حضور ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ پھر وہ لوگ دوسری مرتبہ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر کا نعرہ بلند کریں گے تو ان کے لئے شہر میں داخل ہونے کا راستہ کشادہ ہوجائے گا اور وہ شہر میں داخل ہوجائیں گے پھر وہ مال غنیمت جمع کریں گے یعنی شہر میں جو کچھ ہوگا اس کو اپنے قبضے میں لے لیں گے اور اس مال غنیمت کو آپس میں تقسیم کر رہے ہوں گے کہ اچانک ان کے کانوں میں یہ آواز آئے گی کہ کوئی کہہ رہا ہے، دجال نکل آیا ہے (یہ آواز سنتے ہی وہ لوگ سب کچھ یعنی مال غنیمت وغیرہ کو چھوڑ چھاڑ کر دجال سے لڑنے کے لئے لوٹ پڑیں۔ (مسلم) تشریح آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد میں جس شہر کا ذکر فرمایا اس کے بارے میں ایک شارح کا کہنا یہ ہے کہ وہ شہر روم میں واقع ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر سے قسطنطنیہ مراد ہے جس کا مسلمانوں کے ذریعے فتح ہونا قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ لیکن ایک احتمال یہ ہے کہ وہ شہر قسطنطنیہ کے علاوہ کوئی اور ہوگا کیونکہ قسطنطنیہ کا فتح ہونا جنگ وجدال اور کشت وخون کے ذریعے ہوگا جب کہ مذکورہ شہر کی فتح کا ظاہری سبب صرف تہلیل وتکبیر کے نعرہ کو بتایا گیا ہے۔ حضرت اسحق (علیہ السلام) کی اولاد سے مراد جیسا کہ مظہر نے وضاحت کی ہے، شام کے لوگ ہیں جن کا سلسلہ نسب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے صاحبزادے حضرت اسحق (علیہ السلام) سے شروع ہوتا ہے اور وہ لوگ مسلمان ہوں گے اس سلسلہ میں ایک احتمال تو یہ ہے کہ اس شہر کو فتح کرنے والے لوگوں میں حضرت اسحق (علیہ السلام) کی اولاد کے علاوہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد کے لوگ بھی ہوں گے جو حجاز عرب کے باشندے ہوں گے، یا ان کے علاوہ دوسرے مسلمان بھی شامل ہوں، اس صورت میں کہا جائے گا کہ حضرت اسحق (علیہ السلام) کی اولاد کا ذکر اختصار کے پیش نظر اور دوسرے لوگوں پر ان کو فوقیت دینے کی بنا پر ہے اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس شہر کو فتح کرنے والے لوگ صرف حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہوں گے۔ ہتھیاروں کے ذریعے جنگ نہیں کریں گے کے بعد پھر یہ ارشاد کہ اور نہ ان کی طرف تیر پھینکیں گے تعمیم کے بعد تخصیص کے طور پر ہے جس کا مقصد ہے ہتھیاروں کے مطلق استعمال نہ ہونے کو تاکید کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

【15】

قرب قیامت کے وہ حوادث و وقائع جو یکے بعد دیگرے ظہور پذیر ہوں گے

حضرت معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ بیت المقدس کا پوری طرح آباد ہوجانا مدینہ منورہ کی خرابی کا باعث ہوگا اور مدینہ منورہ کی خرابی، فتنے اور سب سے بڑی جنگ کے وقوع پذیر ہونے کا سبب ہوگا اور اس سب سے بڑی جنگ کا وقوع پذیر ہونا قسطنطنیہ کے فتح ہونے کا باعث ہوگا اور قسطنطنیہ کا فتح ہونا دجال کے ظاہر ہونے کا سبب اور اس کی علامت ہوگا۔ (ابو داؤد) تشریح بیت المقدس کی مکمل آباد کاری کو مدینہ منورہ کی تخریب کا سبب اس اعتبار سے قرار دیا گیا ہے کہ بیت المقدس اور اس کے علاقوں میں غیر مسلموں کا غلبہ ہوجائے گا اور وہ اس کے چپہ چپہ پر قابض وآباد ہوجائیں گے اور جب وہ دشمن اللہ بیت المقدس پر چھا جائیں گے تو ان کی نظریں مدینہ منورہ پر پڑیں گی اور وہ اس پاک شہر کی تخریب کا منصوبہ بنائیں گے جس کی وجہ سے مدینہ کے سارے لوگ اپنے شہر سے نکل کر ان دشمنان دین سے جنگ کرنے میں مشغول ہوں گے۔ یہاں حدیث میں مدینہ منورہ کا ذکر اس کے قدیم نام یثرب کے ذریعے کیا گیا ہے واضح رہے کہ لفظ یثرب اصل ثرب سے مشتق ہے جس کے معنی ہلاکت کے ہیں یا یہ کہ یثرب مدینہ کا ایک گاؤں تھا جس کو یثرب نامی شخص نے بسایا تھا، اسی کا نام سارے شہر کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، چناچہ آنحضرت ﷺ کے مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے تک یہ شہر یثرب ہی کا کہلاتا تھا، ہجرت کے بعد حضور ﷺ نے اس کا نام بدل دیا اور یہ شہر مدینۃ الرسول (یعنی رسول اللہ ﷺ کا شہر کہا جانے لگا، یہ معنی المدینۃ سے بھی ادا ہوتے ہیں، لہٰذا عام طور پر المدینۃ کہا جاتا ہے یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مدینہ کو یثرب کہنے سے منع فرمایا گیا ہے تو پھر اس حدیث میں خود حضور ﷺ نے یثرب نام کیوں استعمال فرمایا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں مدینہ کو یثرب فرمانا، یثرب کہنے کی ممانعت نافذ ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جن حوادث وقائع کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب مذکورہ ترتیب کے مطابق یکے بعد دیگرے قیامت کے قریب واقع ہوں گے اور ان میں سے ہر ایک کا وقوع پذیر ہونا دوسرے کے وقوع پذیر ہونے کی علامت اور نشانی ہوگی اگرچہ اس کا وقوع پذیر ہونا مہلت اور تاخیر سے ہی کیوں نہ ہو۔ طیبی نے کہا ہے کہ اگر یہ سوال پیدا ہو کہ اس حدیث میں تو فتح قسطنطنیہ کو دجال کے ظاہر ہونے کی علامت قرار دیا گیا ہے جب کہ پہلے جو حدیث گزری ہے اس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان شیطان اچانک یہ اعلان کرے گا کہ تمہاری عدم موجودگی میں دجال تمہارے گھروں تک جا پہنچا ہے۔ اور جب مسلمان یہ اعلان سن کر دجال کی تلاش میں نکلیں گے تو معلوم ہوگا کہ وہ ایک جھوٹا اعلان تھا۔ پس ان دونوں حدیثوں میں تضاد کیوں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں حضور ﷺ کا مقصد محض قسطنطنیہ کی فتح کو دجال کے نکلنے کی علامت قرار دینا ہے کہ جب قسطنطنیہ فتح ہوجائے تو سمجھنا کہ اب دجال کا خروج ہوگا اور دجال کا خروج کس طرح ہوگا اور مسلمانوں کو اس کے بارے میں کیسے معلوم ہوگا ؟ پس حقیقت میں ان دونوں حدیثوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے۔ علاوہ ازیں شیطان کے اس جھوٹے اعلان کا تعلق دجال کے خروج سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ وہ تو اس طرح کا جھوٹا اعلان صرف اس مقصد سے کرے گا، تاکہ مسلمانوں میں سراسیمگی اور بےاطمینانی پھیلا دی جائے اور وہ غنیمت کا مال تقسیم کرنے سے باز رہیں۔

【16】

جنگ عظیم، فتح قسطنطنیہ اور خروج دجال کی پیشگوئی

حضرت معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جنگ عطیم کا واقع ہونا، قسطنطنیہ کا فتح ہونا اور دجال کا نکلنا، یہ سب سات ماہ کے اندر ہوگا۔ (ترمذی، ابوداؤد ) تشریح جنگ عظیم سے مراد، بعض حضرات کے نزدیک وہ جنگ ہے جس کے بارے میں پہلے فرمایا جا چکا ہے کہ لڑائی کے خاتمہ پر جب لوگ اپنے عزیز واقا رب کے جانی نقصان کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ سو سے ایک زندہ بچا ہے اور باقی موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں مگر زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس جنگ سے مراد اس شہر کی فتح ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ اسمائے الٰہی کی برکت یعنی تہلیل وتکبیر کے نعرہ کے ذریعے فتح ہوجائے گا اور کشت وخون کی نوبت تک نہیں آئے گی جیسا کہ پیچھے حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں گزرا۔ مذکورہ بالا تینوں چیزوں کے وقوع پذیر ہونے کے تعلق سے جو سات مہینے کی مدت ذکر فرمائی گئی ہے وہ ان دونوں شہروں اور فتنہ دجال کی طرف مسلمانوں کے متوجہ ہونے کے اعتبار سے فرمائی گئی ہے، ورنہ جہاں تک ان دونوں شہروں کے فتح ہونے کا اعتبار ہے تو مذکورہ جنگ عظیم اور فتح قسطنطنیہ کا وقوع پذیر ہونا یکے بعد دیگر بغیر کسی تاخیر کے ہوگا اور ان دونوں کے بعد دجال کا خروج ہوجائے گا۔

【17】

جنگ عظیم، فتح قسطنطنیہ اور خروج دجال کی پیشگوئی

حضرت عبداللہ بن بسر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جنگ عظیم اور مذکورہ شہر یعنی قسطنطنیہ کے فتح ہونے کی درمیانی مدت چھ سال ہوگی اور ساتویں سال دجال نکلے گا۔ اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث زیادہ صحیح ہے۔ تشریح اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جنگ عظیم فتح قسطنطنیہ اور خروج دجال یہ تینوں واقعات سات سال کے اندر ہوں گے جب کہ پہلی حدیث میں اس مدت کو سات ماہ بیان کیا گیا ہے، اس اعتبار سے دونوں حدیثوں کے درمیان زبردست تضاد اور اختلاف ہے لہٰذا اس بات کو دھیان میں رکھنا چاہئے کہ تعارض بالکل ثابت ہے کہ ایک حدیث میں وضاحت کے ساتھ سات ماہ کی مدت بیان کی گئی ہے اور ایک حدیث میں سال کی مدت اور دونوں حدیثوں کے مفہوم میں مطابقت پیدا کرنا ممکن نہیں ہے، اس صورت میں اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں کہ ان دونوں حدیثوں کی حیثیت کو سامنے رکھ کر اس حدیث کو راجح قرار دیا جائے جو زیادہ صحیح ہو، چناچہ علماء اور محدثین نے لکھا ہے کہ پہلی حدیث میں کلام کیا گیا ہے کیونکہ اس کے بعض راوی فن حدیث کی اصطلاح میں مجروح اور مطعون ہیں اور یہ دوسری حدیث بالکل صحیح ہے جیسا کہ خود امام ابوداؤد نے وضاحت کی ہے پس حاصل یہ نکلا کہ مذکورہ بالا تینوں واقعات کے وقوع پذیر ہونے کی درمیانی مدت سات ماہ کے بجائے سات سال زیادہ صحیح ہے۔

【18】

جنگ عظیم، فتح قسطنطنیہ اور خروج دجال کی پیشگوئی

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ وہ وقت آنے والا ہے جب مسلمانوں کا مدینہ میں محاصرہ کیا جائے گا یہاں تک کہ ان دور ترین مورچہ سلاح ہوگا اور سلاح خیبر کے نزدیک ایک مقام کا نام ہے۔ ( ابوداؤد ) تشریح لفظ سلاح سین کے زبر کے ساتھ ہے لیکن اس بنا پر کہ یہ لفظ اسم موخر ہے اور اس کی خبر ابعد ہے اس کو سین کے پیش کے ساتھ بھی نقل کیا جاسکتا ہے، علاوہ ازیں ایک نسخہ میں یہ لفظ دو زبر (تنوین) کے ساتھ اور ایک نسخہ میں حاء کے زبر کے ساتھ منقول ہے۔ بہرحال یہ ایک جگہ کا نام ہے جو خیبر کے پاس ہے اور خیبر کے مدینہ منورہ سے تقریبا ساٹھ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ حدیث کا مطلب یا تو یہ ہے کہ جب آخر زمانہ میں مسلمانوں کی کمزوری اور انتشار کا وقت ہوگا تو دشمنان دین واسلام کے حوصلے اتنے بڑھ جائیں گے کہ وہ مدینہ منورہ تک کا محاصرہ کرنے اور وہاں کے مسلمانوں کو گھیر لینے کی کوشش کریں گے اور ان کا اقتدار خیبر تک آجائے گا۔ یا یہ کہ اس وقت جب مسلمان دشمنوں کے تسلط و قبضہ سے نکلنے کے لئے اپنے اپنے ملکوں اور علاقوں سے سے بھاگ بھاگ کر مدینہ آئیں گے تو مدینہ اور سلاح کے درمیان جمع ہوں گے اور یا یہ کہ اس وقت اطراف عالم سے بھاگ کر آنے والے مسلمانوں میں سے کچھ تو وہ ہوں گے جو مدینہ منورہ میں آجائیں گے اور کچھ وہ ہوں گے جو اس مقدس شہر کی حفاظت ونگہبانی کی خاطر اس کے گرد مورچہ بنائیں گے اور ان مورچوں پر ڈٹے رہیں گے، چناچہ ان مورچوں میں سب سے دور مورچہ جو ہوگا وہ سلاح کے مقام پر ہوگا یہ معنی حدیث کے آخری الفاظ کی مناسبت سے زیادہ صحیح ہیں۔

【19】

مسلمانوں اور عیسائیوں کے بارے میں ایک پیشگوئی

حضرت ذی مخبر (رض) جو آنحضرت ﷺ کے خادم اور نجاشی بادشاہ حبشہ کے بھتیجے تھے کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مسلمانوں وہ وقت آنے والا ہے جب تم رومیوں یعنی عیسائیوں سے ایک ایسی مصالحت کرو گے جو با امن صلح ہوگی یعنی طرفین میں کسی کو بھی مصالحت شکنی اور بد عہدی کا خوف نہ ہوگا) اور پھر اس مصالحت اور معاہدہ کے تحت تم اور رومی باہم مل کر اپنے علاوہ ایک اور دشمن کے خلاف جنگ کرو گے چناچہ اللہ کی طرف سے اس دشمن کے خلاف تمہیں مدد ونصرت دی جائے گی، تم غنیمت کا مال حاصل کرو گے اور تم سلامت رہو گے یعنی تمہارا جانی ومالی نقصان نہیں ہوگا۔ اس کے بعد جب تم اس دشمن کو شکست دے کر واپس ہو گے تو تم اور وہ رومی ایک ایسی جگہ پڑاؤ ڈالو گے جو سرسبز و شاداب ہوگی اور جہاں ٹیلے ہوں گے، وہاں عیسائیوں یعنی رومیوں میں سے ایک شخص صلیب بلند کر کے کہے گا کہ صلیب کا غلبہ ہوا ہے یعنی وہ عیسائی یہ دعویٰ کرے گا کہ اس جنگ میں صلیب کی برکت سے فتح حاصل ہوئی ہے۔ اس بات پر مسلمانوں میں سے ایک شخص غضب ناک ہوجائے گا کیونکہ وہ اس بات کو مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کے خلاف جانے گا کہ اس فتح و غلبہ کو اللہ اور اس کے دین کے بجائے کسی اور چیز کی طرف منسوب کیا جائے چناچہ وہ مسلمان اس صلیب کو توڑ ڈالے گا اور اس وقت رومی نہ صرف عہد کو توڑ دیں گے اور مصالحت کو ختم کردیں گے بلکہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے اپنے لوگوں کو جمع کرلیں گے۔ بعض راویوں نے یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ اس کے بعد مسلمان بھی اپنے ہتھیاروں کی طرف لپکیں گے یعنی ان رومیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے اور ان سے جنگ کریں گے چناچہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی اس جماعت کو شہادت کی فضیلت و عظمت عطا فرمائے گا۔ (ابو داؤد)

【20】

حبشیوں کے بارے میں ایک ہدایت

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ تم حبشیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کرو تاکہ وہ تم سے کچھ نہ کہیں اور تم سے تعرض نہ کریں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کعبہ کا خزانہ ایک حبشی ہی نکالے گا جس کی دونوں پنڈلیاں چھوٹی چھوٹی ہوں گی۔ ( ابوداؤد ) تشریح حدیث کے آخر میں جس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کا تعلق آخر زمانہ سے ہے جبکہ قیامت بالکل قریب ہوگی اس وقت اہل حبشہ کو غلبہ حاصل ہوگا اور ان کا بادشاہ اپنا لشکر لے کر مکہ پر چڑھ آئے گا اور کعبۃ اللہ کو ڈھا دے گا اور اس خزانہ کو نکال لے گا جو خانہ کعبہ کے نیچے مدفون ہے، چناچہ حدیث میں کعبہ کے خزانہ کو نکالنے والے جس حبشی کا ذکر کیا گیا ہے اس سے یا تو حبشہ کا بادشاہ مراد ہے یا پھر لشکر مراد ہے نیز خزانہ سے مراد وہ پورا خزانہ ہے جو کعبہ اقدس کے نیچے مدفون ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ خزانہ سے مراد وہ مال اسباب ہے جو نذر کے طور پر وہاں آتا ہے اور خانہ کعبہ کا خادم اس کو جمع کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک حبشی خانہ کعبہ کا خزانہ نکال لے گا یا ایک اور روایت میں یوں فرمایا گیا ہے کہ ایک حبشی خانہ کعبہ کو تباہ و برباد کر دے گا، تو یہ بات قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد وحرما آمنا (امن وامان والاحرم) کے خلاف اور معارض نہیں ہے کیونکہ حبشیوں کے ذریعہ خانہ کعبہ کی تخریب و تباہی کا یہ واقعہ قیامت کے قریب پیش آئے گا جبکہ روئے زمین پر کوئی شخص اللہ اللہ کہنے والا نہیں رہے گا۔ اور امنا کے معنی یہ ہیں کہ کعبہ اقدس قیامت تک مامون و محفوظ رہے گا، لہٰذا جب روئے زمین پر اللہ اللہ کہنے والوں تک کا کوئی اثر موجود نہ رہے گا اور جب قیامت ہی آجائے گی تو پھر اور کیا چیز باقی رہ جائے گی کہ کعبہ بھی باقی رہے۔ ویسے یہ بات بھی بجائے خود وزن دار ہے۔ لیکن بعض حضرات نے ایک اور وضاحت بیان کی ہے اور اس کو زیادہ صحیح کہا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ جو امن والا حرم قرار دیا ہے تو اس کے غالب احوال کے اعتبار سے قرار دیا ہے یعنی خانہ کعبہ کی اصل حقیقت تو یہی رہے گی کہ وہ با امن حرم کے طور پر ہمیشہ ہر قسم کی تخریب وپلیدگی سے محفوظ ومامون رہے گا۔ مگر کبھی کبھار ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا سخت حادثہ پیش آجائے جس سے اس کی تخریب کاری ہو چناچہ کعبہ کی تاریخ میں ایسے حادثات پہلے بھی پیش آ چکے ہیں جنہوں نے اس کو نقصان پہنچایا جیسا کہ حضرت ابن زبیر (رض) کے زمانے میں عبدالملک بن مروان کی خلافت کی طرف سے اہل مکہ کے خلاف حجاج بن یوسف کے حملے کے دوران خانہ کعبہ کی سخت تخریب ہوئی یا قرامطہ کا واقعہ پیش آیا کہ اس نے خانہ کعبہ کو سخت نقصان پہنچایا۔ بس اگر زمانہ آئندہ میں بھی کعبہ کی تخریب کا پیش آنے والا کوئی واقعہ پیش آئے تو وہ واقعہ حرما امنا کے خلاف نہیں ہوگا یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ با امن حرام قرار دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو یہ حکم فرمایا کہ جو بھی شخص اس مقدس شہر اور حرم محترم میں آئے اس کو امن و عافیت عطا کرو اور یہاں کسی کے ساتھ بھی تعرض نہ کرو، چناچہ منقول ہے کہ جب زندیقوں کی جماعت قرامطہ کا سردار فساد و تباہی مچا چکا اور لوگوں کے قتل و غارت گری اور شہریوں کو لوٹ مار سے فارغ ہوا تو ایک دن کہنے لگا کہ اللہ کا یہ فرمان کہاں گیا کہ آیت (ومن دخلہ کان امنا) (یعنی جو بھی شخص اس حرم محترم میں داخل ہوا اس کو امن و عافیت حاصل ہوگئی ؟ ) اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو جواب دینے کی توفیق عطا فرمائی، اس نے کہا کہ قران کریم کے اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی شخص کبھی بھی مکہ و اہل مکہ اور خانہ کعبہ کی تخریب اور نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا بلکہ اس فرمان الٰہی کی مراد یہ حکم دینا ہے کہ جو شخص حرم محترم میں داخل ہوجائے اس کو امن و عافیت عطا کرو اور اس میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے ذریعے کسی کے ساتھ تعرض نہ کرو۔

【21】

حبشیوں کے بارے میں ایک ہدایت

نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ تم حبشیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو جب تک کہ وہ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑے رکھیں اور ترکوں کو بھی ان کے حال پر چھوڑ دو جب تک کہ وہ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑے رکھیں۔ ، (ابو داؤد، نسائی) تشریح یہاں ایک یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے تو یہ حکم دیا ہے کہ آیت (وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَا فَّةً ) 9 ۔ التوبہ 36) (یعنی مشکرین سے قتال کرو وہ جہاں کہیں بھی ہوں) پس جب اس حکم میں عموم ہے تو حبشیوں اور ترکوں کے بارے میں حضور ﷺ نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ تم ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو ، یعنی ان پر حملہ نہ کرو اور ان کے ملکوں اور شہروں پر چڑھائی سے گریز کرو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حبشہ اور ترک کا معاملہ اس آیت کے عمومی حکم سے خارج اور مخصوص استثنائی نوعیت رکھتا تھا کیونکہ جغرافیائی پوزیشن کے اعتبار سے یہ دونوں ملک اس زمانے کی اسلامی طاقت کے مرکز سے بہت دور دراز فاصلے پر واقع تھے اور اسلامی چھاؤ نیوں اور ان ملکوں کے درمیان دشت وبیاباں کا ایک ایسا دشوار گزار سلسلہ حائل تھا جس کو عام حالات میں عبور کرنا ہر ایک کے لئے ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا حضور ﷺ نے اس بنا پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان دونوں ملکوں کے خلاف کوئی اقدامی کاروائی نہ کی جائے اور ان لوگوں سے اس وقت تک کوئی تعرض نہ کیا جائے جب تک کہ وہ خود تم سے چھیڑ نہ نکا لیں، پس اگر وہ تمہارے خلاف جارحیت کا ارتکاب کریں اور اپنی فوج و طاقت جمع کر کے مسلمانوں کے شہروں اور اسلامی مراکز پر چڑھ آئیں تو اس صورت میں ان کے خلاف نبرد آزما ہوجانا اور ان کے ساتھ جنگ و قتال کرنا فرض ہوگا۔ یا ایک بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ حضور ﷺ نے جو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اسلام کے ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے جب کہ اسلام اور مسلمانوں کے پاس اتنی طاقت اور اس قدر ذرائع نہیں تھے کہ وہ اتنے دور دراز علاقوں تک اسلام کی پیش رفت کو بڑھاتے، چناچہ بعد میں جب مذکورہ آیت نازل ہوئی اور اسلام کو طاقت میسر ہوگئی تو حضور ﷺ کا یہ حکم منسوخ قرار پا گیا۔

【22】

ترکوں کے متعلق پیش گوئی

حضرت بریدہ اسلمی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس حدیث کے سلسلے میں جس کا شروع یہ ہے کہ تم سے ایک چھوٹی آنکھوں والی قوم یعنی ترک قوم جنگ کرے گی۔ یہ بھی روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ تم اس قوم کے لوگوں کو تین بار دھکیل دو گے یعنی تم ان پر غالب آؤ گے اور ان کو شکست دے کر بھاگنے پر مجبور کردو گے۔ یہاں تک کہ تم ان کو جزیرہ عرب کی سرحد کے بار تک دھکیل دو گے، جب تم ان کو پہلی مرتبہ شکست دے کر بھگاؤ گے تو بھاگ کھڑے ہونے والے لوگ اپنی جان بچا لیں گے۔ جب دوسری مرتبہ شکست دے کر بھگاؤ گے تو ان میں سے کچھ تو اپنی جان بچا کر نکل جائیں گے۔ اور کچھ موت کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ لیکن جب تیسری مرتبہ شکست دے کر بھگاؤ گے تو اس وقت وہ جڑ سے ختم ہوجائیں گے یعنی یہ تیسری شکست ان کا بالکل خاتمہ کر دے گی۔ یا اس کے مانند فرمایا۔ (ابو داؤد) تشریح یعنی الترک کے الفاظ راوی کے ہیں خواہ وہ صحابی ہو یا تابعی یعنی یا تو خود حضرت بریدہ نے یا ان سے روایت کرنے والے تابعی نے قوم صغار الاعین چھوٹی آنکھوں والی قوم کے بارے میں یعنی الترک کے ذریعے وضاحت کی اس قوم سے مراد ترک قوم ہے۔ جزیرۃ العرب جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے۔ اس وقت کے جغرافیائی نقشہ کے مطابق حجاز، یمامہ اور یمن کے علاقوں کا نام تھا، اس علاقے کو جزیرۃ العرب اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ وہ تقریبا چاروں طرف سے پانی سے گھرا ہوا ہے اس کے جنوب میں بحر عرب، مشرق میں خلیج عربی اور خلیج عمان، مغرب میں بحر احمر اور اس کے شمال میں دریائے فرات ہے۔ او کما قال (یا اس کے مانند فرمایا) یہ جملہ کسی حدیث کو بیان کرنے کے بعد اس صورت میں کہتے ہیں جب کہ حدیث بیان کرنے والا یہ گمان کرتا ہے کہ حدیث کے معنی تو پوری طرح یاد ہیں جس کو میں نے بیان کردیا ہے، البتہ حدیث کے اصل الفاظ پوری طرح یاد نہیں ہیں۔ گویا یہ جملہ حدیث کے راوی کے کمال احتیاط پر دلالت کرتا ہے۔

【23】

بصرہ کے متعلق پیشنگوئی

حضرت ابوبکرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ میری امت کے لوگ ایک پست زمین پر پہنچ کر قیامت پذیر ہوں گے اور اس جگہ کا نام بصرہ رکھیں گے، وہ جگہ ایک نہر کے قریب ہوگی جس کو دجلہ کہا جاتا ہوگا، اس نہر پر پل ہوگا، بصرہ میں رہنے والوں کی آباادی بہت بڑھ جائے گی اور اس کا شمار مسلمانوں کے بڑے شہروں میں ہوگا اور پھر جب زمانہ آخر ہوگا تو قنطورا کی اولاد اس شہر کے لوگوں سے لڑنے کے لئے آئے گی، ان کے منہ چوڑے چکلے اور آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہوں گی، وہ لوگ نہر کے کنارے اپنا پڑاؤ ڈالیں گے اور ان کو دیکھ کر شہر کے لوگ تین حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے ایک حصہ توبیلوں کی دموں اور جنگل میں پناہ حاصل کرے گا یعنی یہ وہ لوگ ہوں گے جو حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے سے کترا کر اپنی کھیتی باڑی کے کاموں مشغول ہوجائیں گے اور بیل وغیرہ ڈھونڈھے کا بہانہ لے کر ادھر ادھر ہوجائیں گے تاکہ دشمن کے حملے سے اپنی جان بچا سکیں یا یہ کہ وہ لوگ اپنے اہل و عیال اور مال و اسباب کو جمع کر کے جنگلوں میں چلے جائیں گے تاکہ حملہ آور اور دشمن کی نقصان رسانی سے محفوظ رہیں حالانکہ وہ لوگ موت و تباہی کے گھاٹ اتر کر رہیں گے یعنی وہ اپنی اس حیلہ سازی کے باوجود دشمن کی زد سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے کیونکہ حملہ آور مشرک دشمنی اور فتنہ و فساد کی جو آگ بھڑکائیں گے وہ اس طرح کے حیلوں بہانوں سے ٹھنڈی یا محدود نہیں ہوگی اور دوسرا حصہ قنطورا کی اولاد سے اپنی جانوں کے لئے امان طلب کرے گا مگر ان لوگوں کو بھی موت اور تباہی کے گھاٹ اترنا پڑے گا اور تیسرا حصہ وہ ہوگا جو اپنی اولاد اور اپنی عورتوں کو پیچھے چھوڑ کر یعنی اپنے اہل و عیال سے بےپروا ہو کر اور ان کی محبت سے اپنا دامن چھڑا کر حملہ آور کے مقابلے پر ڈٹ جائے گا یا یہ کہ وہ لوگ اپنے بال بچوں کو اپنے پیچھے لے کر محاذ پر جائیں گے اور وہاں دشمنوں سے لڑیں گے اور ان میں سے اکثر مارے جائیں گے جو شہادت کے مرتبہ کو پہنچیں گے۔ (ابو داؤد) تشریح بصرہ با کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ اور صاد کے جزم کے ساتھ ہے، نیز یہ لفظ صاد کے زبر اور زیر کے ساتھ بھی منقول ہے۔ دجلہ دال کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ اس علاقہ کا مشہور دریا ہے جس کے کنارے پر شہر بغداد واقع ہے۔ حلبی نے حاشیہ شفا میں لکھا ہے کہ بصرہ کی با، زبر، زیر اور پیش تینوں حرکتوں کے ساتھ منقول ہے نیز یہ وہ شہر ہے جس کو حضرت عمر فاروق (رض) کے دور خلافت میں عتبہ بن غزوان نے آباد کیا تھا اور اس شہر میں کبھی بت پرستی نہیں ہوئی۔ حدیث میں بصرہ سے مراد بغداد ہے حدیث میں جس واقعہ کی پیشگوئی فرمائی ہے اس میں صریحا بصرہ کا ذکر ہوا ہے لیکن علماء نے لکھا ہے کہ اس سے بغداد مراد ہے اور بغداد مراد لینے کی دلیل یہ ہے کہ دریائے دجلہ کی گزرگاہ بصرہ نہیں بلکہ بغداد ہے اور اس دریا پر جس پل کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی بغداد ہی میں ہے۔ علاوہ ازیں بغداد کا شہر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اس طرح کا شہر نہیں تھا جیسا کہ اب ہے بلکہ اس زمانہ میں اس جگہ منتشر طور پر کچھ قرئیے اور دیہات تھے جو بصرہ کے مضافات میں شمار ہوتے تھے اور ان کی نسبت بصرہ ہی کی طرف جاتی تھی، چناچہ آنحضرت ﷺ نے گویا معجزہ کے طور پر، ان دیہاتی علاقوں کے ایک بڑے شہر میں تبدیل ہوجانے کی پیش خبری بیان فرمائی اور بصیغہ مستقبل یہ فرمایا کہ وہ اسلامی شہروں میں سے ایک بڑا شہر ہوگا اور کثیر آبادی پر مشتمل ہوگا یہ بات محض تاویل کے درجے کی نہیں بلکہ اس کی پشت پر تاریخی دلیل بھی ہے چناچہ تاریخ میں یہ کہیں نہیں ہے کہ ترکوں نے کبھی بصرہ پر حملہ کیا ہو اور ان کے اور مسلمانوں کے درمیان کشت وخون کی وہ صورت پیش آئی ہو جس کی طرف حضور ﷺ نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا۔ البتہ بغداد پر ترکوں (تاتاریوں) نے ضرور حملہ کیا ہے جو آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کے زمانہ کا واقعہ ہے جس کی کچھ تفصیل تاریخی کتابوں سے اخذ کر کے ہم نے مظاہر حق جدید کی پچھلی قسط میں بھی بیان کی ہے، پس واضح ہوا کہ حدیث میں بصرہ کا ذکر محض اس سبب سے ہے کہ بغداد جسکی بہ نسبت بصرہ زیادہ قدیم شہر ہے اور وہ دیہات ومواضع کہ جہاں بغداد کی تعمیر ہوئی اور یہ عظیم شہر بنا، بصرہ ہی کی طرف منسوب تھے اور یہ وہ بصرہ تھا جو بعد میں بھی بغداد کی شہر فصیل کے باہر ایک چھوٹی سی آبادی کی صورت میں تھا اور اس سمت شہر کے دروازہ کو اسی نام کی مناسبت سے باب البصرہ کہا جاتا تھا۔ لہٰذا حضور ﷺ نے بغداد کے ذکر کے لئے گویا اس شہر کے جزوی نام کے ذکر پر اکتفا فرمایا یا یہ کہ یہاں اصل مراد تو بغداد البصرہ کا ذکر تھا مگر مضاف کو حذف کر کے صرف بصرہ کے ذکر پر اکتفا فرمایا گیا کہ قرآن کریم کی اس آیت (وَسْ َ لِ الْقَرْيَةَ ) 12 ۔ یوسف 82) میں اللہ تعالیٰ نے صرف قریہ کا ذکر فرمایا ہے جب کہ اس سے مراد اہل قریہ ہیں۔ اس صورت میں حدیث کے ابتدائی جز کا حاصل یہ نکلا کہ میری امت میں سے کچھ لوگ دریائے دجلہ کے کنارے اپنا پڑاؤ ڈالیں گے اور اس جگہ کو اپنا مرکزی شہر بنائیں گے یہاں تک کہ وہ چھوٹی سی جگہ ایک ایسے شہر میں تبدیل ہوجائے گی جس کا شمار مسلمانوں کے بڑے بڑے شہروں اور اسلامی مراکز میں ہوگا اور یہ وہ شہر ہے جس کو بغداد کہا جاتا ہے اس موقع پر یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ تاریخ میں بغداد کو جو عظمت و اہمیت اور مرکزیت حاصل ہوئی اور وہ جتنا عظیم شہر بنا اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے حضور ﷺ نے لفظ امصار استعمال فرمایا امصار اصل میں مصر کی جمع ہے اور بڑے شہر کو کہتے ہیں اس سے نیچے کی آبادیوں کو بالترتیب مدینہ، بلدہ اور قریہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قنطورا کی اولاد سے مراد ترک قوم ہے۔ اس قوم کے وارث اعلیٰ کا نام قنطورا تھا، اس لئے پوری ترک قوم کو قنطورا کی اولاد سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اور دوسرا حصہ اپنی جانوں کے لئے امان طلب کرے گا کے سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس پیش گوئی کا مصداق خلیفہ مستعصم باللہ اور اس کے حوالی موالی تھے جیسا کہ مظاہر حق جدید کی پچھلی قسط میں اس کی تفصیل بھی گزر چکی ہے، جب ہلاکو خان (ترکوں یعنی تاتاریوں کے سردار) نے اپنی بےامان فوج کے ساتھ بغداد پر حملہ کیا تو خلیفہ مستعصم باللہ نے اپنے لواحقین اور درباریوں کے ساتھ ہلاکو خان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی اور اہل شہر کی جانوں کی امان طلب کی، لیکن کسی کو بھی امان نہیں ملی اور خلیفہ سمیت سارے لوگ ہلاک وتباہ کر دئیے گئے اور ہلاکو خان کے فوجیوں نے ایک ایک آدمی کو چن چن کر مار ڈالا۔ ایک شارح نے لکھا ہے کہ اگر یہ بات صحیح ہے کہ حضور ﷺ نے اس حدیث میں بصرہ کے ذکر سے بغداد مراد لیا تھا کیونکہ اس زمانہ میں موجودہ بغداد کا علاقہ بصرہ کے مضافاتی قریوں اور دیہات کی صورت میں تھا اور حضور ﷺ نے جزوی طور پر پورے نام کا طلاق کرتے ہوئے گویا بغداد البصرہ کے بجائے صرف بصرہ کا ذکر فرمانا کافی جانا تو اس صورت میں کہا جاسکتا ہے کہ حضور ﷺ کی یہ پیش گوئی پوری ہوچکی ہے کہ حضور ﷺ کے فرمانے کے مطابق مسلمانوں نے دریائے دجلہ کے کنارے بغداد کا شہر بسایا، اس کو ترقی اور عظمت سے ہمکنار کیا وہ مسلمانوں کا ایک مرکزی اور بہت بڑا شہر بنا، پھر ترکوں نے حملہ کیا اور اس حملہ کے نتیجے میں اہل شہر کا تقریبا پورا حصہ ان ترکوں کے ہاتھوں کشت وخون کی نذر ہوگیا۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث میں بصرہ سے مراد بغداد نہیں بلکہ بصرہ کا موجودہ شہر ہے۔ ، تو پھر یہ کہا جائے گا کہ حضور ﷺ کی مذکورہ پیش گوئی ابھی پوری نہیں ہوئی اور ہوسکتا ہے کہ کسی وقت آنے والے زمانہ میں اس شہر کے مسلمانوں کو مذکورہ پیش گوئی کے مطابق کسی اسلام دشمن طاقت کے حملہ وجارحیت کا شکار ہونا پڑے، کیونکہ جہاں تک پچھلے زمانہ کا تعلق ہے، تاریخ سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ بصرہ پر بھی اسلام دشمن طاقت نے اس طرح کا حملہ کیا ہو اور وہاں کے مسلمانوں کو اس طرح کشت وخون کا سامنا کرنا پڑا ہو جس طرح کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر مارے جائیں گے جو شہادت کے مرتبے پر پہنچیں گے یعنی اس شہر کے مسلمانوں کا تیسرا حصہ ان لوگوں پر مشتمل ہوگا جو غازی مجاہد فی سبیل اللہ ہوں گے اور اس سخت طوفان کا مقابلہ کرنے کے لئے نہایت جان نثاری اور حوصلہ و استقامت کے ساتھ میدان میں آجائیں گے اور قبل اس کے کہ دشمن اہل اسلام پر حاوی اور غالب ہوجائے، اس سے لڑ کر اللہ کی راہ میں اپنی جان دے دیں گے، پس وہ لوگ شہید ہوں گے اور کامل شہادت کا مرتبہ پائیں گے، ان میں سے جو لوگ زندہ بچ جائیں گے ان کی تعداد بہت تھوڑی ہوگی اس موقع پر ایک اور شارح نے کہا ہے کہ یہ حدیث گرامی آنحضرت ﷺ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کیونکہ سب کچھ اس طرح واقع ہوا جس طرح کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا چناچہ آنحضرت ﷺ نے بغداد پر ترکوں کے حملے کی جو پیشگوئی فرمائی تھی وہ ماہ صفر ٦٥٦ ھ میں حرف بحرف پوری ہوئی۔ اس وقت تاتاری ترکوں نے ہلاکو خان کی سربراہی میں بغداد کو جس طرح تاراج کیا، مسلمانوں کا جس کثرت اور بےدردی سے خون بہایا، شہر کے محلات ومکانات حتی کہ کتب خانوں اور علمی مراکز کو جس طرح جلا کر راکھ کردیا اور اس آگ کے شعلوں نے جس طرح پورے عالم اسلام کو متاثر و کمزور کیا وہ ایک ایسا سانحہ ہے جس کی تفصیل بیان کرنے سے زبان وقلم قاصر ہیں۔

【24】

بصرہ کے متعلق ایک پیشنگوئی

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا۔ انس ! لوگ کچھ نئے شہر بسائیں گے اور ان شہروں میں ایک شہر کا نام بصرہ ہوگا پس اگر تم اس شہر کے پاس سے گزرو یا اس شہر میں جاؤ تو اس کے اس علاقے کے قریب بھی نہ جانا جہاں کھاری زمین ہے، نہ ان جگہوں کے قریب جانا جن کو کلاء کہا جاتا ہے، اسی طرح وہاں کی کھجوروں، وہاں کے بازار، وہاں کے بادشاہوں اور سرداروں کے دروازوں سے بھی دور رہنا، صرف اس شہر کے کنارے کے حصے میں کہ جس کو ضواحی کہا جاتا ہے پڑے رہنا، کیونکہ جن جگہوں پر جانے سے تمہیں منع کر رہا ہوں وہاں، زمین میں دھنسا دئیے جانے، پتھر برسائے جانے اور سخت زلزلوں کا عذاب نازل ہوگا نیز ان علاقوں میں ایک ایسی قوم ہوگی جس کے افراد ایک دن رات میں عیش و راحت کی نیند سوئیں گے لیکن جب صبح اٹھیں گے تو ان کی صورتیں بندر اور سور جیسی ہوں گی۔ تشریح سباخ اصل میں سبخۃ کی جمع ہے جس کے معنی اس زمین کے ہیں جو کھاری اور بنجر ہو کہا جاتا ہے کہ سباخ بصرہ کے اس علاقہ کا نام بھی ہے جہاں کی زمین کھاری اور بنجر ہے۔ اسی طرح کلاء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھی بصرہ کے بعض مقامات کا نام ہے۔ ضواحی ضاحیۃ کی جمع ہے جس کے معنی شہر کا کنارہ اور شہر کی نواحی بستیاں ہیں، ویسے ضاحیۃ البصر بصرہ کی ایک نواحی بستی کا نام بھی ہے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ضواحی سے مراد بصرہ پہاڑ ہیں چناچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت انس (رض) کو بصرہ کے ضواحی میں پڑے رہنے کا جو حکم دیا وہ دراصل گوشہ نشینی اور کنارہ کشی اختیار کرنے کے حکم میں تھا۔ ان کی صورتیں بندر اور سور جیسی ہونگی یعنی وہ قوم اللہ کی نافرمانی اور سرکشی اور اپنی بد اعتقادی اور عملی گمراہیوں کی وجہ سے اس عذاب میں مبتلا کی جائے کہ اس قوم کے جو لوگ جوان ہوں گے وہ بندر کی صورت کے اور جو بوڑھے ہوں گے وہ سور کی صورت کے ہوجائیں گے، پس اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسخ وخسف جیسے عذاب الٰہی اس امت میں بھی جائز الوقوع ہیں کیونکہ اگر اس طرح کے عذاب کا واقع ہونا سرے سے غیر ممکن ہوتا تو ان سے ڈرانے اور ان کے واقع ہونے کی جگہوں پر جانے سے روکنا، بالکل بےفائدہ ہوتا اور اس میں تو کوئی شک نہیں کہ احادیث میں اس طرح کے عذاب کی وعید فرقہ قدریہ کے بارے میں منقول ہے اور اسی بنا پر بعض شارحین نے یہ کہا ہے کہ اس حدیث میں اس طرح اشارہ ہے کہ حدیث میں مذکورہ مقامات فرقہ قدریہ کے لوگوں کا مسکن ہوں گے کیونکہ اس امت سے جن لوگوں پر مسخ وخسف کا عذاب نازل ہوگا وہ دراصل تقدیر الٰہی کو جھٹلانے والے ہوں گے۔ لفظ کلاء کاف کے زبر اور لام کی تشدید کے ساتھ بھی منقول ہے اور جیسا کہ اوپر بتایا کہ گیا یہ بصرہ میں ایک مقام کا نام ہے اور ایک شارح نے کہا ہے کہ اس سے مراد بصرہ کے ساحلی علاقہ کی وہ جگہ ہے جہاں جہاز اور کشتیاں لنگر ڈالتی ہیں اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ کلاء سے مراد بصرہ کا وہ علاقہ ہے جہاں جانوروں کی چراگاہ ہے، اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ بعض نسخوں میں یہ لفظ لام کی تشدید اور مد کے بغیر منقول ہے جس کے معنی گھاس اور سبزہ کے ہیں ایک شارح نے لکھا ہے کہ ان جگہوں پر مسخ وخسف کے عذاب کے نازل ہونے کی وجہ شاید وہاں کے لوگوں کی خباثت اور سرکشی ہوگی، اسی طرح وہاں کی کھجوروں سے دور رکھنے کا مقصد ان کھجوروں کے باغات میں جانے سے روکنا ہے کیونکہ شاید ان باغات کا ماحول اور وہاں کے اثرات دین و ایمان اور عزت وآبرو کو نقصان پہنچانے کا خوف رکھتے ہوں، نیز وہاں کے بازار، دینی احکام سے غفلت و لاپرواہی یا لہو ولعب اور خریدو فروخت کے معاملات میں بےایمانی اور وہاں کے امراء حکام کے دروازوں پر ظلم وناانصافی کے چلن کی وجہ سے ان سے دور رہنے کا حکم دیا گیا۔ واضح رہے کہ مشکوۃ کے اصل نسخے میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مشکوۃ کے مؤلف کو اس حدیث کے صحیح ماخذ کا علم نہیں ہوگا لیکن جزری نے اس حدیث کے ماخذ کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے رواہ ابوداؤد من طریق لم یجزم بہا الراوی بل قال لااعلم عن موسیٰ ابن انس عن انس بن مالک یعنی اس روایت کو ابوداؤد نے ایک ایسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس کے ایک راوی کے بارے میں انہوں نے بےیقینی کا اظہار کیا ہے، بلکہ انہوں نے اس راوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ جو اس سند میں داخل ہے کہا ہے کہ میں اس راوی کو نہیں جانتا، ہاں انہوں نے اس حدیث کا راوی موسیٰ بن انس کو ذکر کیا ہے جنہوں نے اس کو حضرت انس بن مالک (رض) سے نقل کیا ہے پس حدیث کے ماخذ اور اس کے راوی کو اس طرح سے بیان کرنا ابہام اور اشتباہ پر دلالت کرتا ہے، موسیٰ بن مالک انصاری بصرہ کے قاضی اور تابعین میں سے ہیں۔

【25】

بصرہ کے ایک گاؤں کی مسجد کی فضیلت

حضرت صالح بن درہم تابعی (رح) کہتے ہیں کہ ہم حج کے لئے بصرہ سے مکہ گئے تو وہاں کسی جگہ ایک شخص (یعنی حضرت ابوہریرہ (رض) کو کھڑے دیکھا، انہوں نے ہم سے پوچھا کہ کیا تمہارے شہر کے نواح میں ایک بستی ہے جس کو ابلہ کہا جاتا ہے ہم نے کہا کہ ہاں ہے انہوں نے کہا کہ تم میں سے کون شخص اس کا ذمہ لیتا ہے کہ وہ میری طرف سے مسجد عشار میں دو رکعت بلکہ چار رکعت نماز پڑھے اور یہ کہے کہ اس نماز کا ثواب ابوہریرہ (رض) کو پہنچے میں نے اپنے خلیل صادق ابوالقاسم حضرت محمد ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یقینا اللہ تعالیٰ مسجد عشار سے قیامت کے دن شہداء کو اٹھائے گا اور بدر کے شہداء کے ساتھ ان شہداء کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوگا۔ قیامت کے دن بدر کے شہداء کے ساتھ جو شہداء اپنی اپنی قبر سے اٹھیں گے وہ اسی مسجد کے شہداء ہوں گے، یا یہ کہ قیامت کے دن مرتبہ کے اعتبار سے شہداء بدر کے ہمسر ان شہداء کے علاوہ اور کوئی شہید نہیں ہوگا۔ اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ مسجد بصرہ کے اس نواحی حصے میں ہے جو دریائے فرات کی طرف ہے اور حضرت ابودرداء (رض) کی حدیث ان فسطاط المسلمین الخ کو ہم انشاء اللہ یمن وشام کے ذکر کے بیان میں نقل کریں گے۔ تشریح ابلہ ایک مشہور بستی کا نام ہے جو بصرہ کے قریب واقع ہے، عشار، ایک مسجد کا نام ہے جو ابلہ میں ہے، حصول برکت وسعادت کی خاطر لوگ اس مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں۔ مسجد عشار کے شہداء کے بارے میں یہ وضاحت نہیں ہوتی کہ آیا ان شہداء کا تعلق کسی گزشتہ امت کے لوگوں سے ہے یا اسی امت کے لوگوں سے ؟ بہرحال اس حدیث سے ان شہداء کی عظمت و فضیلت کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ بدر کے شہیدوں کے ہم پلہ وہم رتبہ ہیں، پس معلوم ہوا کہ جب وہ مسجد اس قدر شرف و فضیلت رکھتی ہے تو اس میں نماز پڑھنا یقینا بہت بڑی فضیلت اور بہت بڑے ثواب کی بات ہے۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بدنی عبادت جیسے نماز روزہ کا ثواب کسی کو بخشنا جائز ہے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ اور وہ ثواب اس کو پہنچتا ہے، چناچہ اکثر علماء کا مسلک یہی ہے، ویسے مالی عبادت جیسے صدقہ و خیرات وغیر کا ثواب بخشنا تو تمام ہی علماء کے نزدیک جائز ہے۔

【26】

حضرت عمر (رض) فتنوں کا دروازہ کھلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے

حضرت شقیق تابعی (رح) ، حضرت حذیفہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا۔ ہم ایک دن حضرت عمر فاروق (رض) کی خدمت میں حاضر تھے کہ انہوں نے ہم سے پوچھا کہ تم میں سے کسی شخص کو رسول کریم ﷺ کی وہ حدیث یاد ہے جو آپ ﷺ نے فتنہ کے سلسلے میں ارشاد فرمائی ہے، میں نے کہا کہ مجھے یاد ہے اور بالکل اسی طرح یاد ہے جس طرح آپ ﷺ نے ارشاد فرمائی ہے (یعنی میرے حافظہ میں وہ حدیث کسی کمی وبیشی کے بغیر حرف بہ حرف محفوظ ہے) حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر فرمایا کہ اچھا وہ حدیث بیان کرو تم روایت حدیث میں بہت دلیر ہو، جو کچھ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے اس کو نقل کرو اور اس کی کیفیت بیان کرو۔ حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آدمی کا فتنہ (یعنی اس کی آزمائش اور ابتلا) اس کے اہل و عیال میں ہے، اس کے مال میں ہے، اس کے نفس میں، اس کی اولاد میں ہے اور اس کے ہمسایہ میں ہے۔ اس کے اس فتنہ کو اور اس فتنہ کے سبب وہ جو گناہ کرتا ہے، اس کو روزے، نماز، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دور کردیتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے یہ حدیث سن کر فرمایا کہ میرا مدعا اس فتنے سے نہیں تھا، میں تو اس فتنے کے بارے میں سننا چاہتا تھا جو سمندر کی موجوں کی طرح جوش مارے گا ؟ حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا امیر المومنین بھلا آپ کو اس فتنہ سے کیا تعلق ؟ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان تو ایک بند دروازہ حائل ہے۔ یعنی اس فتنہ کا آپ کو کیوں فکر ہے، اس کے برے اثرات آپ تک تو پہنچیں گے نہیں کیونکہ اس فتنہ کا ظہور آپ کی زندگی کے بعد ہوگا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اچھا یہ بتاؤ کہ وہ دروازہ کہ جس سے فتنہ نکلے گا توڑا جائے گا ؟ (یعنی اس کو اس طرح توڑا جائے گا) یا کھولا جائے گا ؟ حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے جواب دیا کہ دروازہ کھولا نہیں جائے گا بلکہ توڑا جائے گا۔ یعنی اس کو اس طرح توڑ پھوڑ کر برابر کردیا جائے کہ پھر اس کا بند ہونا یا قابل مرمت ہونا ممکن نہیں ہوگا۔ حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر فرمایا۔ اس دروازے کے بارے میں کہ جو کھولا نہیں جائے گا بلکہ توڑا جائے گا زیادہ قرین حقیقت بات یہ ہے کہ وہ کبھی بند ہی نہ ہو۔ حدیث کے راوی حضرت شقیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ (رض) سے پوچھا کہ کیا حضرت عمر (رض) اس سے واقف تھے کہ دروازے سے مراد کون ہے ؟ حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ ہاں ! حضرت عمر (رض) اس سے واقف تھے جیسا کہ وہ اس بات سے واقف تھے کہ کل کے دن سے پہلے رات آئے گی (یعنی جس طرح ہر شخص یقینی طور پر جانتا ہے کہ کل آنے والے دن سے پہلے رات کا آنا ضروری ہے اسی طرح حضرت عمر (رض) یقینی علم رکھتے تھے کہ دروازہ سے مراد کون ہے) اور اس میں شک نہیں کہ میں حضرت عمر (رض) سے وہ حدیث بیان کی جس میں غلطیاں نہیں ہیں۔ حضرت شقیق کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہمیں حضرت حذیفہ (رض) سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ دروازے سے مراد کون ہے البتہ ہم نے حضرت مسروق سے عرض کیا جو وہاں موجود تھے کہ آپ حضرت حذیفہ (رض) سے پوچھ لیجئے، چناچہ انہوں نے حضرت حذیفہ (رض) سے پوچھا تو حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ دروازے سے مراد حضرت عمر (رض) ہیں، یعنی حضرت عمر (رض) کی ذات ایک ایسے دروازے کی طرح ہے جس نے اس امت اور اسلامی مملکت میں فتنہ و فساد کے درآنے سے روک رکھا ہے ان کے بعد فتنوں کا دروازہ کھل جائے گا۔ (بخاری ومسلم) تشریح تم روایت حدیث میں بہت دلیر ہو حضرت حذیفہ (رض) کے بارے میں حضرت عمر (رض) کا یہ جملہ ان کے اظہار ناگواری کا بھی احتمال رکھتا ہے اور ان کے اظہار تحسین کا بھی یعنی ایک احتمال تو یہ ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) نے چونکہ اور صحابہ کی موجودگی میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں حضور ﷺ کی حدیث کو بعینہ یاد رکھتا ہوں اور اس بارے میں میرا حافظہ بہت قوی اور قابل اعتماد ہے اس لئے حضرت عمر (رض) کو ان کی یہ بات ناگوار ہوئی، پس انہوں نے اس ناگواری کو ظاہر کرنے کے لئے فرمایا کہ تم بڑے عجیب قسم کے دلیر ہو ؟ آخر تمہیں ایک ایسی بات کا دعویٰ کرنے کی جرات کیسے ہوگئی جس کو نہ میں جانتا ہوں اور نہ یہاں موجود دوسرے صحابہ جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اچھا اگر تمہیں اپنے حافظہ پر ایسا ہی ناز ہے تو سناؤ کہ حضور ﷺ نے کیا فرمایا تھا ؟ یہ تو پہلا احتمال ہوا دوسرا احتمال یہ ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اس جملے کے ذریعے دراصل حضرت حذیفہ (رض) کی تحسین و تائید فرمائی، یعنی انہوں نے گویا یہ فرمایا کہ تمہارے دعویٰ کی تصدیق کرتا ہوں کیونکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ سے اس امت میں پیدا ہونے والے فتنوں اور ظاہر ہونے والی برائیوں کے بارے میں بڑی جرات اور دلیری کے ساتھ سوالات کیا کرتے تھے اور اکثر و بیشتر حضور ﷺ سے پوچھتے رہتے تھے، لہٰذا تمہیں یقینا فتنہ کے بارے میں حضور ﷺ کے ارشادات کا زیادہ علم ہوگا اور اس سلسلے کی حدیث پوری طرح یاد ہوگی، ہمیں وہ حدیث ضرور سناؤ کہ حضور ﷺ نے کیا فرمایا۔ آدمی کا فتنہ اس کے اہل و عیال میں ہے الخ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کا تعلق مختلف چیزوں جیسے اہل و عیال اور مال و دولت وغیرہ سے قائم کیا، پھر اس کو ان چیزوں کے حقوق پہچاننے اور ان حقوق کو ادا کرنے کا ذمہ قرار دے کر ایک طرح کی آزمائش سے دو چار کیا ہے لیکن یہ انسان کی غفلت ونادانی ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کی رعایت ملحوظ نہیں رکھتا اور جو حقوق اس پر عائد کئے گئے ہیں ان کی ادائیگی میں کوتاہی وتقصیر کرتا ہے، ان متعلق چیزوں کے سلسلے میں اللہ نے اس کو جو حکم دیا ہے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اور ان چیزوں کی وجہ سے نہ صرف گناہ اور ممنوع امور کے ارتکاب کا وبال اپنے سر لیتا ہے بلکہ خود کو تعب و رنج اور مشقت و ایذاء میں گرفتار کرتا ہے لہٰذا اس صورت میں انسان کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ حقوق کی ادائیگی میں جو کوتاہی اور گناہوں کا جو ارتکاب اس سے ہوتا ہے اس کے ازالہ اور کفارہ کے لئے اچھے کام جیسے نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات وغیرہ کرتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (ان الحسنات یذہبن السیئات) یعنی بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ میرا مدعا اس فتنہ سے نہیں تھا یعنی جب حضرت عمر (رض) نے لوگوں سے پوچھا کہ تم میں کسی شخص کو فتنہ کے سلسلے میں آنحضرت ﷺ کی حدیث یاد ہے، تو ان کا یہ پوچھنا دو احتمال رکھا تھا۔ ایک یہ کہ فتنہ سے ان کی مراد امتحان و آزمائش ہو جس میں انسان کو اولاد ومال وغیرہ کے تعلق سے مبتلا کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے آیت (ولنبلونکم بشیء من الخوف والجوع) الخ۔ اور دوسرے یہ کہ فتنہ سے ان کی مراد باہمی قتل و قتال اور افتراق و انتشار ہو۔ چناچہ حضرت عمر (رض) کے سوال کا تعلق اس دوسرے مفہوم سے تھا، یعنی انہوں نے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تھا جس میں حضور ﷺ نے باہمی قتل و قتال اور افتراق و انتشار کے فتنہ و فساد کا ذکر فرمایا تھا۔ لیکن حضرت حذیفہ (رض) نے یہ سمجھا کہ حضرت عمر (رض) پہلے مفہوم سے متعلق حدیث کے بارے میں پوچھ رہے ہیں اور اسی لئے انہوں نے اس کے مطابق حدیث بیان کی، اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میرے پوچھنے کا مدعا یہ فتنہ نہیں تھا، میری مراد اس فتنہ کے بارے میں حضور ﷺ کی حدیث سننا تھا جو باہمی قتل و قتال اور آپس میں ایک دوسرے کے خلاف جنگ و محاذ آرائی کی صورت میں اس امت پر سیاہ بادل کی صورت میں چھا جائے گا اور اس کے برے اثرات تمام مسلمانوں کو سخت مصائب و پریشانی میں مبتلا کردیں گے۔ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان تو ایک بند دروازہ حائل ہے بند دروازہ سے مراد حضرت عمر (رض) کے وجود با مسعود کی طرف اشارہ کرنا تھا، جیسا کہ حدیث کے آخری الفاظ سے اس کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے، چناچہ حضرت حذیفہ (رض) کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ آپ جس فتنہ کے بارے میں پوچھ رہے ہیں وہ ابھی دور ہے، کیونکہ جب تک اس امت میں آپ کا وجود باقی ہے وہ فتنہ راہ نہیں پائے گا ہاں جب آپ اس دنیا سے اٹھ جائیں گے تو وہ فتنہ در آئے گا اور امت میں راہ پا جائے گا۔ وہ دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا ؟ یعنی آیا وہ دروازہ اتنا سخت اور مضبوط ہوگا کہ بغیر توڑے اس کو کھولا نہیں جاسکے گا یا اتنا کمزور اور ہلکا ہوگا کہ آسانی کے ساتھ اس کو کھول دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ کسی دروازہ کو توڑنے اور اس کو کھولنے میں فرق ہوتا ہے۔ ایک دروازہ تو وہ ہوتا ہے جس کو توڑے بغیر آمدورفت کا راستہ بنانا ممکن نہیں ہوتا جب وہ دروازہ ٹوٹ جاتا ہے تو پھر اس کا بند ہونا ممکن نہیں ہوتا، اس کے برخلاف جو دروازہ صرف کھولا جاتا ہے اس کو بند کرنا ممکن ہوتا ہے، چناچہ یہاں بند دروازہ تمثیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے ہے جس کا مقصد یہ تشبیہ دینا ہے کہ فرض کرو کہ دو گھر ہیں جن کے درمیان ایک دیوار حائل ہے اور اس دیوار میں ایک بند دروازہ کی وجہ سے فتنہ و فساد کو کوئی راہ نہیں ملتی کہ وہ امن و عافیت کے گھر میں در آئے اور اس گھر کے امن و سکون کو تہ وبالا کر دے پس حضرت عمر (رض) کی حیات فتنوں کے روکے رکھنے والے بند دروازے کے مماثل اور اور ان کی موت، ان فتنوں کے دروازے کھل جانے کے مماثل ہوئی، اس طرح اس دروازے کو توڑے جانے کو ان کے قتل کے ساتھ اور اس دروازے کو کھولے جانے کو ان کی قدرتی موت کے ساتھ تشبیہ دی گئی۔

【27】

قسطنطنیہ کا فتح ہونا قیامت کے قریب ہونے کی علامت ہوگا

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ قسطنطنیہ کا فتح ہونا، قیامت کے قریب ہوگا، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تمت بالخیر الحمدللہ کہ کتاب مظاہر حق جدید کی جلد چہارم باب الملاحم پر ختم ہو رہی ہے۔ و صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وآلہ وا صحابہ اجمعین