163. قیامت کی علامتوں کا بیان

【1】

قیامت کی علامتوں کا بیان

شرط (را کے جزم کے ساتھ) کے معنی ہیں۔ کسی چیز کو کسی چیز کے ساتھ وابستہ کرنا یا کسی چیز کا لازم کرنا جیسا کہ یوں کہا جائے اگر ایسا ہو تو ایسا ہوگا ! اس کی جمع شروط آتی ہے شرط (را کے زبر کے ساتھ) کے معنی ہیں علامت یعنی وہ چیز جو کسی وقوع پذیر ہونے والی چیز کو ظاہر کرے ! اس کی جمع اشراط ہے پس یہاں سے اشراط سے مراد وہ نشانیاں اور علامتیں ہیں جو قیامت کے وقوع پذیر ہونے کو ظاہر کریں گی۔ ویسے لغت میں شرط کے معنی کسی چیز کا اول، مال کا زوال اور چھوٹا و کمتر مال لکھے ہیں۔ ساعۃ شب و روز کے اجزاء میں سے کسی بھی ایک جزء کو کہتے ہیں یہ لفظ موجودہ وقت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ پس قیامت یا قیامت کے آنے کو ساعت اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ جب اس کا وقت غیر معلوم ہے تو وہ کسی بھی وقت آسکتی ہے یہاں تک آنے والا لمحہ یہ احتمال رکھتا ہے کہ اسی وقت قیامت نہ آجائے۔ علماء نے وضاحت کی ہے کہ اشراط ساعت یعنی قیامت کی علامتوں سے مراد وہ نسبتا چھوٹی چیزیں ہیں جو قیامت آنے سے پہلے وقوع پذیر ہوں گی اور جن کو لوگ قیامت کی علامتیں تسلیم نہیں کریں گے مثلا لونڈی کا اپنے مالک کو جننا، فلک بوس عمارتیں بنانا اور ان پر فخر کرنا، جہل ونادانی، زنا کاری اور شراب خوری کی کثرت، مردوں کی کمی اور عورتوں کی زیادتی، امانتوں میں خیانت وبدیانتی، لڑائیوں اور فتنہ فساد کی زیادتی اور اس طرح کی دوسری برائیوں کا ذکر اس باب میں آئے گا۔ اشراط کی وضاحت اس معنی کے ساتھ اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ بڑی علامتیں کہ جو قیامت کے بالکل قریب ظاہر ہوں گی اور جن کا ذکر اگلے باب میں ہوگا، ان چھوٹی علامتوں کے علاوہ ہیں ! رہی یہ بات کہ لوگ مذکورہ بالا چیزوں کو قیامت کی علامتیں تسلیم کرنے سے کیوں انکار کریں گے ! تو اس کی وجہ اصل میں یہ ہوگی کہ اس طرح کی چیزیں اس دنیا میں ہمیشہ سے چلی آرہی ہیں، پس لوگ یہ سمجھتے رہیں گے کہ یہ چیزیں تو دنیا میں ہوتی رہتی ہیں، اب ان میں کیا خصوصیت پیدا ہوگئی ہے کہ ان کو قیامت کی علامتیں کہا جائے۔ واضح رہے کہ مذکورہ چیزوں کا محض وجود قیامت کی علامت نہیں ہے بلکہ ان چیزوں کا کثرت کے ساتھ وقوع پذیر ہونا اور ان برائیوں کا غیر معمولی طور پھیل جانا ہے، قیامت کی علامت ہے ! ایک بات اور بتا دینی ضروری ہے کہ اس باب میں حضرت امام مہدی کے ظاہر ہونے کا بھی ذکر ہے، جب کہ ان کا ظاہر ہونا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول اور دجال کے پیدا ہونے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، لہذا اس بارے میں کوئی اشکال واقع نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس باب میں حضرت مہدی (علیہ السلام) کے ظاہر ہونے کا ذکر، لڑائیوں اور فتنوں کے ذکر کے ضمن میں ہوا ہے نہ کہ مستقل طور پر اس سلسلہ میں مزید وضاحت اگلے باب میں ہوگی۔

【2】

قیامت کی علامتیں

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ بلاشبہ قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا (یعنی حقیقی عالم اس دنیا سے اٹھ جائیں گے یا یہ کہ علماء کی قدر و منزلت اٹھ جائے گی) جہالت کی زیادتی ہوجائے گی (یعنی ہر طرف جاہل وناداں ہی نظر آنے لگیں گے جو اگرچہ علم و دانش کا دعوی کریں گے مگر حقیقت میں علم و دانش سے کوسوں دور ہوں گے) زنا کثرت سے ہونے لگے گا (کیونکہ لوگوں میں شرم وحیا اور غیرت کم ہوجائے گی) شرب بہت پی جائے گی (اور پھر شراب خوری کی زیادتی، آبادیوں اور لوگوں میں فتنہ و فساد پھیلنے کا باعث ہوگی) مردوں کی تعداد کم ہوجائے گی ( جن کے دم سے عالم کا نظام استوار و مستحکم ہوتا ہے) عورتوں کی تعداد بڑھ جائے گی ( کہ جن کے ذریعہ ضروری اور اہم امور سر انجام تو کیا پاتے البتہ ان کی وجہ سے تفکرات اور پریشانیوں اور مال و دولت حاصل کرنے کا غم ضرور برداشت کرنا پڑتا ہے) یہاں تک کہ پچاس عورتوں کی خبر گیری کرنے والا ایک مرد ہوگا ( اس سے یہ مراد نہیں کہ ایک ایک مرد کی پچاس بیویاں ہوگی بلکہ یہ مراد ہے کہ ایک ایک مرد پر پچاس پچاس عورتوں کی کفالت وخبر گیری کا بوجھ ہوگا جن میں مائیں، خالائیں، دادیاں، بہنیں، پھوپھیاں، وغیرہ ہوں گی۔ اور ایک روایت میں ہے (یرفع العلم ویکثر الجہل) یعنی علم اٹھالیا جائے گا اور جہل کی زیادتی ہوگی، کے بجائے) یوں ہے کہ علم کم ہوجائے گا اور جہالت پھیل جائے گی۔

【3】

قیامت کی ایک خاص علامت

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ قیامت کے آنے سے پہلے جھوٹوں کی پیدائش بڑھ جائے گی لہٰذا ان سے بچتے رہنا۔ (مسلم ) تشریح جھوٹوں سے مراد یا تو وہ لوگ ہیں جو جھوٹی حدیثیں گھڑیں گے، یا وہ لوگ مراد ہیں جو نبوت کا جھوٹا دعوی کریں گے اور زیادہ تر وہ لوگ مراد ہیں جو بدعتیں رائج کریں گے اپنے غلط سلط عقائد و خیالات اور اپنی جھوٹی اغراض و خواہشات کو صحیح اور جائز ثابت کرنے کے لئے ان کی نسبت صحابہ کرام اور اگلے بزرگوں کی طرف کریں گے۔ ابن مالک (رح) نے شرح مشارق میں لکھا ہے فاحذروہم کا جملہ صحیح مسلم میں مذکور نہیں ہے البتہ اس کے علاوہ دوسری روایتوں میں یہ جملہ یقینًا موجود ہے، بلکہ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہ جملہ اصل حدیث یعنی حضور ﷺ کے ارشاد گرامی کا جزء نہیں ہے بلکہ حضرت جابر (رض) کا اپنا قول ہے ! نیز جامع میں یہ روایت بعینہ اس طرح منقول ہے جس طرح یہاں مشکوۃ میں نقل کی گئی ہے اور صاحب جامع نے کہا ہے کہ اس روایت کو امام محمد اور امام مسلم نے حضرت جابر ابن سمرہ (رض) سے نقل کیا ہے۔

【4】

قیامت کی ایک خاص علامت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ صحابہ کرام سے سے (کسی سلسلہ میں) باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ایک دیہاتی (مجلس نبوی میں) آیا اور کہنے لگا کہ قیامت کب آئے گی ؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب امانت، تلف کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرنے لگنا۔ دیہاتی نے پوچھا کہ امانت، کیونکر تلف کی جائے گی اور یہ نوبت کب آئے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ جب حکومت و سلطنت کا کام نااہل لوگوں کے سپرد ہوجائے تو ( سمجھنا کہ یہ امانت کا تلف ہوجانا ہے اور اس وقت) قیامت کا انتظار کرنا۔ (بخاری) تشریح امانت سے مراد شریعت کی طرف سے عائد کی جانے والی ذمہ داریاں اور دین کے احکام ہیں جیسا کہ قرآن کریم کے ارشاد انا عرضنا الامانۃ میں امانت کا یہی مفہوم ہے یا امانت سے لوگوں کے حقوق اور ان کی امانتیں مراد ہیں۔ حاصل یہ کہ حضور ﷺ نے اس دیہاتی کے پوچھنے پر یہ واضح فرمایا کہ قیامت کا متعین وقت عالم الغیوب کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا اور نہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو وہ ذریعہ بتایا ہے جس سے قیامت کا متعینہ وقت جانا جاسکے، ہاں اس نے ایسی علامتیں ضرور مقرر کی ہیں جو قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گی اور جو اس امر کی نشانیاں ہوں گی کہ اب قیامت قریب ہے چناچہ ان علامتوں میں سے ایک علامت امانتوں کا ضائع کرنا ہے کہ لوگ امانتوں میں خیانت کرنے لگیں گے۔ نااہل سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے اندر حکومت وسیادت کی شرائط نہ رکھنے کی وجہ سے حکمراں بننے کا استحقاق نہ رکھتے ہوں گے، جیسے عورتیں، بچے جہلاء، فاسق وبد کار، بخیل اور نا مرد وغیرہ، اسی طرح جو شخص قریش النسل نہ ہو وہ بھی اس باب میں نااہل ہی کے زمرہ میں شمار ہوگا خواہ وہ سلاطین کی نسل سے کیوں نہ ہو لیکن اس شرط کا تعلق خاص طور پر خلافت سے ہے ! حدیث کے اس جزء کا حاصل یہ ہے کہ اگر دین ودنیا کے امور کا نظم و انتظام ایسے شخص کے ہاتھوں میں آجائے جو اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو یقینا ان امور کا صحیح طور پر انجام پانا ناممکن نہیں ہوگا اور طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوجائیں گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگوں کے حقوق ضائع وپامال ہونے لگیں گے اور ہر شخص بےچین ومضطرب رہے گا۔ وسد بصیغہ مجہول اور سین کی تشدید کے ساتھ یا تشدید کے بغیر۔ اصل میں وسادۃ سے مشتق ہے، جس کے لغوی معنی تکیہ کے ہیں، چناچہ جس شخص کے سپرد کوئی کام کیا جاتا ہے تو گویا اس کام کے اعتبار سے اس شخص پر تکیہ کیا جاتا ہے۔

【5】

مال ودولت کی فراوانی قرب قیامت کی دلیل ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مال و دولت کی فراوانی نہیں ہوجائے گی اور فراوانی بھی اس طرح کی ہوجائے گی کہ ایک شخص اپنے مال سے زکوٰۃ نکالے گا لیکن وہ کوئی ایسا شخص نہیں پائے گا جو اس کا زکوٰۃ کا مال لے لے ( کیونکہ مال و دولت کی فراوانی کسی شخص کو محتاج اور ضرورتمند نہیں چھوڑے گی اور کوئی آدمی اس طرح کے مال لینے پر تیار نہیں ہوگا اور قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی) جب تک کہ عرب کی سر زمین باغ و بہار اور نہر والی (یعنی بےحساب مال و دولت فراہم کرنے والی بن جائے۔ (مسلم) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ ( قیامت تک نہیں آئے گی جب تک کہ) عمارتوں اور آبادی کا سلسلہ اہاب یا یہاب تک نہ پہنچ جائے گا۔ تشریح ویفیض اصل میں عطف تفسیری ہے، یعنی مال و دولت کی وہ فراوانی اس طرح ہوگی کہ چاروں طرف پانی کی مانند بہتی پھرے گی اور لوگ اپنی ضرورت و حاجت سے کہیں زیادہ دولت کے مالک ہوں گے۔ اہاب اور یہاب (اور ایک نسخہ میں ی کے زبر کے ساتھ یعنی یہاب) یہ دونوں جگہ کے نام ہیں جو مدینہ کے نواح میں واقع ہیں ! اہاب اور یہاب میں حرف او تنویع کے لئے ہے دوسری روایت کے ان الفاظ کی مراد یہ واضح کرنا ہے کہ آخر زمانہ میں مدینہ میں اس قدر عمارتیں بنیں گی کہ ان کا سلسلہ شہر کے اردگرد نواحی علاقوں تک پہنچ جائے گا ؟۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی (رح) نے لکھا ہے کہ لفظ اہاب الف کے زبر کے ساتھ سحاب کے وزن پر ہے اور یہ مدینہ سے چند کوس کے فاصلہ پر ایک موضع کا نام ہے نیز یہ لفظ الف کے زیر کے ساتھ بھی منقول ہے۔ حضرت امام مہدی کے بارے میں پیشگوئی

【6】

مال ودولت کی فراوانی قرب قیامت کی دلیل ہے

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ آخر زمانہ میں ایک خلیفہ ( یعنی سلطان برحق) پیدا ہوگا جو ضرورت مندوں، مستحقین کو خوب مال تقسیم کرے گا اور اس کو شمار نہیں کرے گا۔ یعنی لوگوں میں بےحساب مال و دولت تقسیم کرے گا۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ میری امت کے آخری زمانہ میں ایک خلیفہ پیدا ہوگا جو لوگوں کو مٹھی یا چلو بھر کر ( یعنی بہت زیادہ) مال دولت دے گا اور اس کو شمار نہیں کرے گا جیسا کہ شمار کیا جاتا ہے۔ (مسلم ) تشریح خلیفہ سے مراد حضرت امام مہدی ہیں جو آخری زمانہ میں ظاہر ہوں گے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ ان کے نظام حکومت کی مالی حالت بہت زیادہ اچھی ہوگی، فتوحات اور مال غنیمت وغیرہ کے ذریعہ ان کی آمدنی کا کوئی حساب نہیں ہوگا، لیکن وہ اس مال و دولت کو اپنی شان و شوکت بڑھانے اور اپنی زندگی کو پر عیش بنانے پر خرچ نہیں کریں گے یا جمع کر کے اپنے خزانوں میں بند کر کے نہیں رکھیں گے جیسا کہ ہمارے زمانہ کے حکمران اور بادشاہوں کا دستور ہے، بلکہ وہ اس دولت کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی ضروریات میں خرچ کریں گے اور اپنی طبعی سخاوت کی وجہ سے دونوں ہاتھ بھر بھر کر یہ دولت لوگوں میں تقسیم کریں گے۔

【7】

دریائے فرات سے خزانے نکلنے کی پیشگوئی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جلدی وہ زمانہ آنے والا ہے جب دریائے فرات سونے کا خزانہ برآمد کرے گا ( یعنی اس کا پانی خشک ہوجائے گا اور اس کے نیچے سے سونے کا خزانہ برآمد ہوگا) پس جو شخص اس وقت وہاں موجود ہو اس کو چاہئے کہ اس خزانہ میں کچھ نہ لے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح اس خزانہ میں سے کچھ لینے کی ممانعت اس بنا پر ہے کہ اس کی وجہ سے تنازعہ اور قتل و قتال کی صورت پیش آئے گی جیسا کہ اگلی حدیث میں وضاحت کی گئی ہے ! اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس خزانہ میں سے کچھ بھی لینا اس لئے ممنوع ہے کہ خاص طور پر اس خزانہ میں سے کچھ حاصل کرنا آفات اور بلاؤں کے اثر کرنے کا موجب ہوگا اور ایک طرح سے یہ بات قدرت الہٰی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ! نیز بعض حضرات نے یہ لکھا کہ اس ممانعت کا سبب یہ ہے کہ وہ خزانہ مغضوب اور مکروہ مال کے حکم میں ہوگا جیسا کہ قارون کا خزانہ لہٰذا اس خزانہ سے فائدہ حاصل کرنا حرام ہوگا۔

【8】

دریائے فرات سے خزانے نکلنے کی پیشگوئی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ دریائے فرات سونے کا پہاڑ برآمد نہ کرے گا ! لوگ اس کی وجہ سے ( یعنی اس دولت کو حاصل کرنے اور اپنے قبضہ میں لینے کے لئے) جنگ اور قتل و قتال کریں گے، پس ان لوگوں میں ننانوے فیصد مارے جائیں گے اور ہر شخص یہ کہے گا کہ شاید میں ( زندہ بچ جاؤں گا اور) مقصد میں کامیاب ہوجاؤں گا، یعنی ہر شخص اس توقع پر لڑے گا کہ شاید میں ہی کامیابی حاصل کرلوں اور اس دولت پر قبضہ جما لوں چناچہ ننانوے فیصد لوگ اس توقع میں اپنی جان گنوا بیٹھیں گے۔ ( مسلم ) تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی بات کو دو مختلف موقوں پر مختلف الفاظ میں بیان فرمایا گیا، لہٰذا دونوں حدیثوں کا خلاصہ یہ نکلے گا کہ دریائے فرات کے نیچے سے سونے کا ایک عظیم خزانہ برآمد ہوگا جس کی مقدار پہاڑ کے برابر ہوگی۔ تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ یہاں حدیث میں پہاڑ کے برابر سونے کہ جس کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ اس خزانہ کے علاوہ ہوگا جس کا ذکر پہلی جدیث میں کیا گیا ہے اور سونے کے پہاڑ سے مراد سونے کی کان ہے۔

【9】

جب زمین کا سینہ اپنے خزانوں کو باہر اگل دیگا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ (قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ) زمین اپنے جگر کے ٹکڑوں کو نکال کر باہر پھینک دے گی جو سونے چاندی کے ستونوں کے مانند ہوں گے۔ پس ایک شخص کہ جس نے محض مال حاصل کرنے کے لئے قتل کا ارتکاب کیا ہوگا آئے گا اور کہے گا کہ ( کیا) اسی کے لئے میں نے لوگوں کو قتل کیا ہے اور ایک شخص کہ جس نے ناطہ توڑا ہوگا (یعنی جس نے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ احسان و سلوک نہیں کیا ہوگا) آئے گا اور کہے گا کہ (کیا) میں نے اسی مال کے لئے رشتہ داروں سے ناطہ توڑا ہے اور پھر چور آئے گا اور کہے گا کہ (کیا) اسی مال کے لئے میرا ہاتھ کا ٹا گیا ہے ( یعنی ان سب کے کہنے کا مطلب یہ ہوگا کہ مال و دولت ایسی چیز ہے جس کی محبت میں اور جس کو حاصل کرنے کے لئے ہم نے ایسے ایسے گناہ کئے اور ایسی ایسی پریشانیوں سے دو چار ہوئے لیکن اب جب کہ یہ مال و دولت ہمارے سامنے اور ہمارے اختیار میں ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے اور ہمیں اس کی کوئی حاجت و ضرورت محسوس نہیں ہوتی) چناچہ وہ سب لوگ اس مال و دولت کو یوں ہی چھوڑیں گے کہ کوئی بھی اس میں سے کچھ نہیں لے گا۔ (مسلم) تشریح افلاذ اصل میں فلذۃ کی جمع ہے جس کے معنی کسی چیز کے اس ٹکڑے کے ہیں جس کو لمبائی میں کاٹا گیا ہو اور قاموس میں لکھا ہے کہ فلذ ( ف کے زیر کے ساتھ) کے معنی ہیں اونٹ کا جگر، جب کہ فلذۃ (یعنی ۃ کے ساتھ، کے معنی ہیں جگر کا ٹکڑا، سونے یا چاندی کا ٹکڑا اور گوشت کا ٹکڑا۔ واضح رہے کہ زمین کے جگر ٹکڑے سے مراد زمین کے نیچے چھپے ہوئے خزینے یعنی معدنیات ہیں اور معدنیات کو جگر کے ٹکڑوں سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے، زمین کا خلاصہ اور جوہر اصل میں معدنیات ہی ہیں جیسا کہ اونٹ کی سب سے اصل چیز اس کا جگر ہوتا ہے نیز معدنیات، زمین کی چیزوں میں سے سب سے زیادہ قابل اعتناء اور سب سے زیادہ پسندیدہ چیز ہے جیسا کہ پیٹ کے اندر کی چیزوں میں سے جگر ہی سب سے اعلیٰ ہے۔ بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ آخر زمانہ میں زمین کا سینہ بڑی فراخ دلی کے ساتھ اپنے اندر چھپے ہوئے خزانوں کو باہر اگل دے گا ہر طرف معدنیات کا کام زور شور کے ساتھ جاری ہوگا اور ایک ایک ملک میں مختلف قسم کی مفید و کارآمد اور قیمتی چیزیں کانوں کے ذریعہ نکالی جائیں گی جس کے ذریعہ نسل انسانی مال و دولت کی فراوانی میں غرق ہوجائے گی۔

【10】

آخری زمانہ کے بارے میں ایک پیشگوئی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قسم ہے اس ذات کی) جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ دنیا اس وقت تک اختتام پذیر نہیں ہوگی جب تک کہ ایسا زمانہ نہیں آجائے گا کہ آدمی قبر کے پاس سے گزرے گا اور پھر لوٹ کر قبر پر آئے گا اور (حسرت سے) کہہ گا کہ کاش ! میں اس قبر والے کی جگہ ہوتا۔ اور یہ اس کا دین نہیں ہوگا بلکہ بلا ہوگی۔ (مسلم ) تشریح علماء نے حدیث کے آخری جملہ۔ اور یہ اس کا دین نہیں ہوگا۔۔ الخ۔۔ کے دو مطلب بیان کئے ہیں، ایک تو یہ کہ دین سے مراد عادت ہے اور ویسے دین عادت کے معنی میں آتا بھی ہے، لہٰذا مراد یہ ہے کہ وہ شخص جب قبر کے پاس سے گذرے گا اور پھر لوٹ کر قبر پر آئے گا اور اپنی مذکورہ خواہش وآرزوکا اظہار کرے گا تو اس کو وہ لوٹنا اور اس کا آرزوکا اظہار کرنا اس کی کسی عادت کے مطابق نہیں ہوگا بلکہ اس فتنہ وبلا کی وجہ سے ہوگا جس میں وہ گرفتار ہوگا ! دوسرا مطلب یہ ہے کہ دین سے مراد اس کے مشہور معنی دین و مذہب ہیں اس صورت میں اس جملہ کی وضاحت یہ ہوگی کہ اس کا قبر پر لوٹ کر آنا اور وہاں کھڑے ہو کر مذکورہ خواہش و حسرت کا اظہار کرنا کسی ایسے فتنہ وبلا میں گرفتار ہونے کی وجہ سے نہیں ہوگا جو اس کے دین اور اس کے آخری معاملات کو نقصان پہچانے یا تباہ کرنے کا سبب بنا ہو بلکہ کسی ایسی مصیبت وبلا میں گرفتاری کی وجہ سے ہوگا جس نے اس کی دنیا کو نقصان یا تباہ کیا ہوگا ! ان دونوں وضاحتوں کے علاوہ ایک اور وضاحت یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ اس کا قبر پر لوٹ کر آنا اور مذکورہ حسرت کے اظہار کی صورت میں گویا موت کی آرزو کرنا ایک ایسے وقت کی بات ہوگی جب کسی فتنہ وبلا کے سبب اس کا دین جاتا رہا ہوگا اور اس وقت اس کے پاس اس فتنہ وبلاء کے مضر اثرات کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔

【11】

ایک آگ کے بارے میں پیشگوئی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ حجاز سے ایک آگ نہ بھڑک لے گی جو بصری کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن کر دے گی۔ (بخاری ومسلم) تشریح بصری ملک شام کے ایک شہر کا نام ہے جو دمشق سے تین منزل کی مسافت کے فاصلہ پر واقع ہے اور حجاز جزیرۃ العرب کے اس علاقہ کو کہا جاتا ہے جس میں مکہ اور مدینہ بھی شامل ہیں ! اس حدیث میں جس آگ کا ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق تواتر کے ساتھ یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ اس آگ کے نمودار ہونے کا حادثہ پیش آچکا ہے اور ان روایات سے معلوم ہوتا ہے اگرچہ اس آگ کے زیر اثر آنے والا زیادہ تر حصہ مدینہ ہی کے علاقہ پر مشتمل تھا مگر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ سرور کائنات ﷺ کی برکت سے مدینہ کے شہریوں کو اس آگ کی آفت وتباہ کاری سے محفوظ ومامون رکھا بیان کیا جاتا ہے کہ ٣ جمادی الثانی ٦٥٠ ھ جمہ کے دن وہ آگ نمودار ہوئی اور ٢٧ رجب ٦٥٠ ھ بروز اتوار تک یعنی مسلسل بارہ دن تک ظاہر رہی ! راویوں نے اس کی کیفیت یہ لکھی ہے کہ اچانک حجاز کی جانب سے وہ آگ نمودار ہوئی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آگ کا ایک پورا شہر ہے جس میں قلع یا برج اور کنگورے جیسی چیزیں موجود ہیں اور انسانوں کا اژدہام اس شہر کو کھینچے چلا آرہا ہے، اس آگ کا سلسلہ جس پہاڑ تک پہنچتا اس کو شیشے اور موم کی طرح پگھلا کر رکھ دیتا تھا، اس کے شعلوں میں بجلی کی کھڑک جیسی آواز اور دریا کے تموج جیسا جوش تھا اور یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس کے اندر سے سرخ اور نیلے رنگ کے دریا نکل رہے ہوں، وہ آگ اس کیفیت کے ساتھ مدینہ منوہرہ تک پہنچی مگر عجیب تر بات یہ تھی کہ اس کے شعلوں کی طرف سے جو ہوا مدینہ تک آرہی تھی وہ ٹھنڈی تھی ! علماء نے لکھا ہے کہ اس آگ کی لپٹیں مدینہ کے تمام جنگلوں تک کو منور کئے ہوئے تھیں یہاں تک کہ حرم نبوی اور مدینہ کے تمام گھروں میں سورج کی طرح روشنی پھیل گئی تھی، لوگ رات کے وقت اسی کی روشنی میں اپنے سارے کام کاج کرتے تھے بلکہ ان دنوں میں اس پورے علاقہ پر سورج اور چاند کی روشنی معطل اور ماند ہوگئی تھی، مکہ معظمہ کے بعض لوگوں نے یہ شہادت دی کہ انہوں نے وہ روشنی یمامہ اور بصری تک دیکھی۔ اس آگ کی عجیب خصوصیات میں سے ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ پتھروں کو تو جلا کر کوئلہ کردیتی تھی مگر درختوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ جنگل میں ایک بہت بڑا پتھر پڑا تھا جس کا آدھا حصہ حرم مدینہ کی حدود میں تھا اور آدھا حرم سے باہر تھا آگ نے پتھر کے اس آدھے حصہ کو جلا کر کوئلہ کردیا جو حدود حرم سے باہر تھا لیکن جب اس آدھے تک پہنچی جو حدود حرم میں تھا تو ٹھنڈی پڑگئی اور پتھر کا وہ آدھا حصہ بالکل محفوظ رہا ! بہر حال اس عجیب و غریب ہیبتناک آگ نے اہل مدینہ پر بڑا خوف وہراس طاری کردیا، لوگوں نے رو رو کر اللہ سے اس آتشی فتنہ کے دفعیہ کے لئے دعا کی اپنی عملی اور دینی کو تاہیوں کی طرف متوجہ ہوئے جس کے ذمہ جس کا جو حق تھا وہ اس کی ادائیگی میں لگ گیا صدقہ و خیرات اور غلاموں کو آزاد کرنا شروع کردیا اور جمعہ کی رات میں تمام اہل مدینہ یہاں تک کہ عورتیں اور بچے حرم شریف میں جمع ہوگئے اور سب لوگ حجرہ شریف (روضہ اقدس) کے چاروں طرف ننگے سر بیٹھے روتے اور گڑگڑاتے رہے اور اللہ تعالیٰ سے حفظ وامان کی دعائیں مانگتے رہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس آگ کا رخ شمال کی جانب پھیر دیا اور مدینہ منورہ کو اس سے محفوظ ومامون کردیا علماء لکھتے ہیں کہ اس آگ کا نمودار ہونا قدرت الٰہی کی ایک عبرت انگیز نشانی تھی، اس سال تمام دنیا میں مختلف قسم کے عجیب و غریب حادثات ووقائع کا ظہور ہوا اور اس کے کچھ ہی عرصہ کے بعد مختلف علاقوں میں خون ریز جنگ اور قتل و قتال کی وہ مہیب آگ بھڑکی جس نے بغداد جیسے عظیم شہر کو تاراج کردیا اور تاتاریوں کے فتنہ کی صورت میں عالم اسلام کو سخت نقصان سے دوچار کیا۔

【12】

قیامت کی پہلی علامت

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت کی علامتوں سے پہلی علامت وہ آگ ہوگی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک کرلے جائے گی۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو علامتیں قیامت کے بالکل قریب ظہور پذیر ہوں گی ان میں سب سے پہلی علامت وہ آگ ہے جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک کرلے جائے گی، ورنہ ظاہر ہے کہ اس آگ کو قیامت کی سب سے پہلی علامت کس طرح قرار دیا جاسکتا ہے جب کہ حضور ﷺ نے اس آگ کو بھی قیامت کی علامتوں میں سے شمار کیا ہے، جس کا ذکر اوپر کی حدیث میں گذرا اور جو روایت کے مطابق ٦٥٠ ھ میں نمودار بھی ہوچکی ہے۔

【13】

زمانہ کی تیز رفتاری، قیامت کی علامتوں میں سے ہے

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ زمانہ قریب نہ ہوجائے گا ( یعنی زمانہ کی گردش تیز نہ ہوجائے گی اور دن و رات جلد جلد نہ گزرنے لگیں گے اور زمانہ کی تیز رفتاری اس کیفیت وحالت کے ساتھ ہوگی کہ) سال مہینہ کے برابر، مہینہ ہفتہ کے برابر ہوجائے گا اور ایک گھنٹہ اتنا مختصر ہوجائے گا جیسے آگ کا شعلہ (گھاس کے تنکے پر) سلگ جاتا ہے (یعنی جھٹ سے جل کر بجھ جاتا ہے۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں دنوں اور ساعتوں میں برکت کم ہوجائے کی، وقت اس قدر جلد اور تیزی کے ساتھ گزرتا معلوم ہوگا کہ اس کا فائدہ مند اور کار آمد ہونا معدوم ہوجائے گا یا یہ مراد ہے کہ اس زمانہ میں لوگ تفکرات اور پریشانیوں میں گھرے رہنے اور اپنے دل و دماغ پر بڑے بڑے فتنوں کے نازل ہونے مصائب وآفات اور طرح طرح کی مشغولیوں کا شدید تر دباؤ رکھنے کی وجہ سے وقت کے گذرنے کا ادراک و احساس تک نہیں کر پائیں گے اور انہیں یہ جاننا مشکل ہوجائے گا کہ کب دن گذر گیا اور کب رات ختم ہوگئی خطابی نے لکھا ہے کہ حضور ﷺ نے زمانہ اور وقت کی جس تیز رفتاری کا ذکر فرمایا ہے اس کا ظہور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور امام مہدی کے زمانہ میں ہوگا۔

【14】

بہ تبہ سے دارالخلافہ کی منتقلی ایک بری علامت ہے

اور حضرت عبداللہ ابن حوالہ کہتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ نے ہمیں جہاد کرنے کے لئے بھیجا تاکہ ہم مال غنیمت حاصل کرسکیں اور اس کے ذریعہ اپنی ضروریات پوری کریں) ہمارا وہ سفر پیدل تھا ( یعنی چونکہ ہمارے پاس سواری کا کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے ہمیں سفر جہاد میں پیدل ہی روانہ ہونا پڑا) اور (جب) ہم اس جہاد سے (با عافیت و سلامت) واپس ہوئے تو ہمارے ساتھ کچھ بھی مال غنیمت نہیں تھا ( جس کا ہمیں غم و افسوس تھا) چناچہ حضور ﷺ ہمارے چہروں پر اداسی اور مایوسی دیکھ کر۔ ہمیں تسلی دینے اور ہمارے حق میں دعا کرنے کے لئے) ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور (بطور دعا) فرمایا کہ۔ پروردگار ! ان لوگوں کو میرے سپرد فرما، ایسا نہ ہو کہ میں ان کی خبر گیری کی طاقت نہ رکھوں۔ ان کو خود ان کے سپرد فرما کیونکہ یہ اپنے امور کی انجام دہی سے عاجز ہوں گے اور نہ ان کو دوسرے لوگوں کے سپرد فرما اور دوسروں کا محتاج بنا کیونکہ لوگ ان کی حاجتوں اور ضرورتوں پر اپنی حاجتوں اور ضرورتوں کو مقدم رکھیں گے۔ ( حضرت عبداللہ ابن حوالہ کہتے ہیں کہ) اس کے بعد حضور ﷺ نے اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھا اور فرمایا۔ اے ابن حوالہ ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس میں پہنچ گئی ہے ( یعنی مسلمانوں کا دارالخلافہ مدینہ سے منتقل ہو کر ملک شام پہنچ گیا ہے) تو سمجھ لینا کہ زلزلے بلبلے۔۔۔ اور ( وہ بڑے بڑے حادثے ( کہ جن کا تعلق قیامت سے ہے) قریب آپہنچے ہیں اور اس دن قیامت لوگوں سے اتنی قریب ہوگی جتنا میرا ہاتھ تمہارے سر سے قریب ہے۔ تشریح تاکہ ہم مال غنیمت حاصل کرسکیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن حوالہ اور ان کے ساتھیوں کی مالی حالت بہت سقیم ہوگی اور وہ لوگ سخت غریب اور افلاس کا شکار ہوں گے، لہٰذا اس جہاد کے لئے حضور ﷺ نے بطور خاص ان لوگوں کا انتخاب فرمایا ہوگا تاکہ اس جہاد میں جو مال غنیمت حاصل ہو اس کے ذریعہ یہ لوگ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرسکیں) غالبًا اسی بنا پر غذا کا صریح ذکر نہیں فرمایا بلکہ مال غنیمت ہی کے ذکر پر اکتفا فرمایا۔ ان لوگوں کو میرے سپرد نہ فرما۔ کا مطلب یہ تھا کہ یہ لوگ غربت و افلاس کا شکار ہیں اور میں نے ان کی اسی غربت و افلاس کی بنا پر ان کو جہاد میں بھیجا تھا تاکہ جہاد کا فریضہ بھی انجام پا جائے اور حاصل ہونے والے مال غنیمت کے ذریعہ ان کو اپنی ضروریات و احتیاج کو دور کرنے کا وسیلہ بھی فراہم ہوجائے، مگر ان کی قسمت کی بات کہ ان کو اس جہاد میں مال غنیمت ہی حاصل نہیں ہوسکا، پس اے اللہ ! اب تو ہی ان کی ضروریات کے تکفل کا کوئی اور وسیلہ پیدا فرما دے، ان کی ذمہ داری میرے اوپر نہ ڈال کیونکہ میں ان کی غمخواری اور ان کی خبرگیری کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ! واضح رہے کہ حضور ﷺ نے یہ بات اس حقیقت کے پیش نظر فرمائی کہ انسان اپنی ذات کے اعتبار سے کوئی طاقت وقوت نہیں رکھتا اگر اللہ کی طرف سے اس کو وسائل و ذرائع حاصل نہ ہوں تو وہ خود اپنی ذات کی خبر گیری سے عاجز وبے بس رہتا ہے چہ جائیکہ کسی دوسرے کی خبرگیری کا بوجھ اٹھا سکے اسی لئے ایک دعا میں حضور ﷺ اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں یوں عرض رسا ہوئے اللہم لا تکلنی الی نفسی طرفۃ عین یعنی اے اللہ ! پلک جھپکنے کے برابر بھی مجھ کو خود میرے سپرد نہ فرما بلکہ میری حفاظت وضمانت بس تو اپنے ہی ذمہ رکھ) نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اللہ (یعنی اے محمد کہدیجئے کہ اپنی ذات کے تئیں نہ میں نفع کا مالک ہوں اور نہ نقصان کا، علاوہ اس چیز کے جو اللہ کو ( میرے حق میں) منظور ہو ! اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے کمال عبدیت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو عاجز سمجھے اور یہ اعتراف و اظہار کرے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد و توفیق اور اس کے حکم و فیصلہ کے بغیر کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی کسی چھوٹی سی چھوٹی ذمہ داری کو پورا کرنے کی طاقت وقدرت نہیں رکھتا، چناچہ توحید کامل یہی وہ سبق ہے جو لاحول ولا قوۃ الا باللہ میں مذکور ہے اور جس کو ہر بندہ اپنی زبان سے دہرانے اور اس پر یقین رکھنے کا پابند بنایا گیا ہے ! ابن عدی نے کتاب کامل میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت الیاس اور حضرت خضر علیہما السلام ہر سال کسی نہ کسی وقت ملتے ہیں، چناچہ جب ان کے ملنے کا وقت آتا ہے تو ان میں سے ہر ایک، دوسرے کو تلاش کرتا ہے اور پھر ملاقات کے بعد دونوں ہی یہ کلمات کہتے ہیں ہوئے جدا ہوتے ہیں بسم اللہ ما شاء اللہ لا یسوق الخیر الا اللہ ما شاء اللہ لا یصرف السؤء الا اللہ ما شاء اللہ ما کان من نعمۃ فمن اللہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ ! چونکہ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی جناب باری تعالیٰ میں سب سے زیادہ قرب رکھتی ہے اس لئے آپ ﷺ نے ان لوگوں کی ذمہ داری نہ سوپنے جانے کی دعا سب سے پہلے اپنی ذات کے تئیں فرمائی اس کے بعد اس دعا میں دوسرے لوگوں کو بھی شامل فرمایا کہ جس طرح میں اپنی کمزوری اور عجز کی بنا پر شاید ان کی خبر گیری کی ذمہ داری کا انجام نہ دے سکوں اسی طرح دوسرے لوگ خود اپنی ذات کے نفع و نقصان کو ترجیح دینے کے سبب ان کی خبر گیری نہیں کرسکیں گے، چناچہ حقیقت بھی یہ ہے کہ جو لوگ خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں اور صرف اپنی ذات کے نفع و نقصان سے مطلب رکھنے کی عادت میں گرفتار ہوتے ہیں وہ کسی دوسرے کی بڑی سے بڑی ضرورت و حاجت کو اپنی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت و حاجت پر بھی تر جیح نہیں دیتے اور اگر ان کے سپرد کوئی ذمہ داری ہوتی ہے تو وہ اس کی انجام دہی میں ہر مرحلہ پر اپنی ذات کے فائدے کو مقدم رکھتے ہیں ! بہر حال حضور ﷺ کی پوری دعا کا حاصل یہ تھا کہ اے پروردگار ! ان لوگوں کی ذمہ داری میرے سپرد نہ فرما کیونکہ میں ان کی کفالت وخبر گیری کی ذمہ داری انجام دینے کی طاقت وقدرت نہیں رکھتا اس لئے تو خود ان کی ذات کو ان کی کفالت کا ذمہ دار بنا کیونکہ اول یہ لوگ ذاتی وسائل و ذرائع نہ رکھنے کی وجہ سے اپنی کفالت کا بوجھ بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں، دوسرے ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ خواہشات نفس کی زیادتی اور بےراہ روی کا شکار ہوجائیں اور اپنی معاشی وسماجی زندگی کی خوش حالی کے لئے ایسے راستوں پر لگ جائیں جو ان کے دین وآخرت کے لئے نقصان و تباہی کا سبب بن جائے۔ اسی طرح اے پروردگار ! ان کی ذمہ داری دوسرے لوگوں کے سپرد نہ فرما اور ان کو کسی کا محتاج نہ بنا کیونکہ وہ دوسرے، اپنی ذاتی اغراض اور اپنے خود کے مفاد کو ان کے مفاد پر ترجیح دیں گے اور ان کی خبر گیری کا حق ادا نہیں کریں گے جس سے یہ اور زیادہ پریشان وتباہ ہوجائیں گے۔ پس اے اللہ یہ تیرے بندے اور تیرے نام لیوا ہیں، تو ان کو اپنا ہی محتاج بنا اور ان کے ساتھ وہی معاملہ فرما جو آقا اپنے غلاموں کے ساتھ کرتا ہے۔ اس وضاحت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اس دعا سے آنحضرت ﷺ کا اصل مقصد امت کو اس امر کی تعلیم و تلقین کرنا ہے کہ بندے کو چاہئے کہ وہ اپنا ہر کام اور اپنا ہر معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرے، یعنی اپنی تدبیر وسعی اور ظاہری وسائل و ذرائع پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنے پروردگار کی مشیت ومرضی پر بھروسہ کرے، اسی کی ذات پر یقین و اعتماد رکھے، اس کے علاوہ کسی اور پر بھروسہ و اعتماد رکھتا ہے اللہ تعالیٰ یقینا اس کا کار ساز بنتا ہے اور اس کے ہر کام و معاملہ کو، خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی، بہتر انجام اور کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے چناچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔ زلزلہ کا مطلب زمین کا ہلنا، بھونچال آنا ہے، اسی لئے بلبلے سے مراد مختلف قسم کے غم وآلام اور تفکرات اور پریشانیاں ہیں اور گویا یہ چیزیں قیامت کے اس سب سے بڑے زلزے کے آنے کی علامت اور مقدمہ ہونگی جس کے نتیجہ میں یہ پوری کائنات زیر وزبر ہو کر رہ جائے گی اور دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا اور جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دی ہے اذا زلزلت الارض زلزالہا واضح رہے کہ مذکورہ باتیں بالکل آخر زمانہ میں واقع ہوں گی جب کہ بیت المقدس فتح ہوگا اور اس پر مسلمانوں کا کامل تسلط ہوجائے گا۔ مشکو ٰۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی ہے لیکن جزری نے اس لفظ کے بعد اس عبارت کو شامل کیا ہے ابوداؤد واسنادہ حسن ورواہ الحاکم فی صحیحہ ( یعنی اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور اس کی اسناد حسن ہے، نیز اس روایت کو حاکم نے بھی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔

【15】

قیامت کی علامتیں

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب مالم غنیمت کو دولت قرار دیا جانے لگے اور جب زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے اور جب علم کو دین کے علاوہ کسی اور غر ض سے سکھایا جانے لگے اور جب مرد بیوی کی اطاعت کرنے لگے اور جب ماں کی نافرمانی کی جانے لگے اور جب دوستوں کو تو قریب اور باپ کو دور کیا جانے لگے اور جب مسجد میں شور وغل مچایا جانے لگے اور جب قوم و جماعت کی سرداری، اس قوم و جماعت کے فاسق شخص کرنے لگیں اور جب قوم و جماعت کے زعیم وسربراہ اس قوم و جماعت کے کمینہ اور رذیل شخص ہونے لگیں اور جب آدمی کی تعظیم اس کے شر اور فتنہ کے ڈر سے کی جانے لگے اور جب لوگوں میں گانے والیوں اور ساز و باجوں کا دور دورہ ہوجائے اور جب شرابیں پی جانی لگیں اور جب اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں کو برا کہنے لگیں اور ان پر لعنت بھیجنے لگیں تو اس وقت تم ان چیزوں کے جلدی ظاہر ہونے کا انتظار کرو سرخ یعنی تیز وتند اور شدید ترین طوفانی آندھی کا زلزلہ کا، زمین میں دھنس جانے کا، صورتوں کے مسخ و تبدیل ہوجانے کا اور پتھروں کے برسنے کا، نیز ان چیزوں کے علاوہ قیامت اور تمام نشانیوں اور علامتوں کا انتظار کرو، جو اس طرح پے درپے وقوع پذیر ہوں گی جیسے ( مثلا موتیوں کی) لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے پے درپے گرنے لگیں۔ (ترمذی) تشریح اس حدیث میں کچھ ان برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو اگرچہ دنیا میں ہمیشہ موجود رہی ہیں اور کوئی بھی زمانہ ان برائیوں سے خالی نہیں رہا ہے، لیکن جب معاشرہ میں یہ برائیاں کثرت سے پھیل جائیں اور غیر معمولی طور پر ان کا دور دورہ ہوجائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کا سخت ترین عذاب خواہ وہ کسی شکل و صورت میں ہو، اس معاشرہ پر نازل ہونے والا اور دنیا کے خاتمہ کا وقت قریب تر ہوگیا ہے۔ دول اصل میں دولۃ یا دولۃ کی جمع ہے جس کے لغوی معنی انقلاب زمانہ کے ہیں اور ہر اس چیز کو بھی دولت کہتے ہیں جو کبھی کسی کے لئے ہو اور کبھی کسی کے لئے اسی وجہ سے اس لفظ کا مال و زر اور حلیہ و اقتدار پر ہوتا ہے ! نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ لفظ دولۃ (دال کے پیش کے ساتھ) تو اس چیز کا اسم ہے جو از قسم مال کسی شئ کو حاصل کرے یعنی مال غنیمت اور دال کے زبر کے ساتھ یعنی دولۃ کے معنی ہیں ایک حال سے دوسرے حال کی طرف پلٹنا یعنی سختی و پریشانی اور تنگدستی کی حالت کا ختم ہوجانا اور اطمینان و راحت اور خوشحالی کا آجانا بہر حال مال غنیمت کو دولت قرار دئیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جہاد کے ذریعہ دشمنوں سے جو مال حاصل ہوتا ہے اور جس کو مال غنیمت کہا جاتا ہے وہ شرعی طور پر تمام غازیوں اور مجاہدوں کا مشترک حق ہے اور اس مال کو ان تمام حقداروں پر، خواہ وہ کسی بھی حیثیت وحالت کے ہوں، تقیسم کرنا واجب ہے، لیکن اگر اسلامی لشکر و سلطنت کے اہل طاقت و ثروت اور اونچے عہدے دار اس مال غنیمت کو شرع حکم کے مطابق تمام حقداروں کو تقسیم کرنے کے بجائے خود اپنے درمیان تقسیم کر کے بیٹھ جائیں اور محتاج و ضرورت مند اور چھوٹے لوگوں کو اس مال سے محروم رکھ کر اس کو صرف اپنے مصرف میں خرچ کرنے لگیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اس مال غنیمت کے تمام حقداروں کا مشترکہ حق نہیں سمجھتے بلکہ اپنی ذاتی دولت سمجھتے ہیں۔ امانت کو مال غنیمت شمار کرنے سے مراد یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس امانتیں محفوظ کرائی جائیں وہ ان امانتوں میں خیانت کرنے لگیں اور امانت کے مال کو غنیمت کی طرح اپنا ذاتی حق سمجھنے لگیں جو دشمنوں سے حاصل ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کو تاوان سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا لوگوں پر اس طرح شاق اور بھاری گذرنے لگے کہ گویا ان سے ان کا مال زبردستی چھینا جارہا ہے اور جیسے کوئی شخص تاوان اور جرمانہ کرتے وقت سخت تنگی اور بوجھ محسوس کرتا ہے۔ علم کو دین کے علاوہ کسی اور غرض سے سکھانے کا مطلب یہ ہے کہ علم سکھائے اور علم پھیلانے کا اصل مقصد دین و شریعت پر عمل اور اخلاق و کردار کی اصلاح و تہذیب انسانیت اور سماج کی فلاح و بہبود اور اللہ و رسول کا قرب و خوشنودی حاصل کرنا نہ ہو بلکہ اس گے ذریعہ دنیا کی عزت، مال و دولت، جاہ منصب اور ایوان اقتدار میں تقرب حاصل کرنا مقصود ہو۔ مرد کا بیوی کی اطاعت کرنا یہ ہے کہ خاوند، زن مرید ہوجائے اور اس طرح بیوی کا حکم مانے اور اس کی ہر ضرورت پوری کرنے لگے کہ اس کی وجہ سے اللہ کے حکم و ہدایت کی صریح خلاف ورزی ہو۔ ماں کی نافرمانی کرنے سے مراد یہ ہے کہ ماں کی اطاعت و فرما نبرداری کا جو حق ہے اس سے لاپرواہ ہوجائے اور کسی شرعی وجہ کے بغیر اس کی نافرمانی کر کے اس کا دل دکھائے واضح رہے کہ یہاں صرف ماں کی تخصیص اس اعتبار سے ہے کہ اولاد کے لئے چونکہ باپ کی بہ نسبت ماں زیادہ مشقت اور تکلیف برداشت کرتی ہے اس لئے وہ اولاد پر باپ سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ دوستوں کو قریب اور باپ کو دور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنا وقت باپ کی خدمت میں حاضر رہنے، اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور اس کی دیکھ بھال میں صرف کرنے کے بجائے دوستوں کے ساتھ مجلس بازی کرنے، ان کے ساتھ گپ شپ اور سیر و تفریح کرنے میں صرف کرے اور اپنے معمولات و حرکات سے ایسا ظاہر کرے کہ اس کو باپ سے زیادہ دوستوں کے ساتھ تعلق وموانست ہے۔ مسجد میں شور و غل کرنے سے مراد یہ ہے کہ مسجدوں میں زور زور سے باتیں کی جائیں، چیخ و پکار کے ذریعہ مسجد کے سکون میں خلل ڈالا جائے اور اس کے ادب و احترام سے لاپرواہی برتی جائے ! واضح رہے کہ بعض علماء نے یہاں تک لکھا ہے کہ مسجد میں آواز کو بلند کرنا حرام ہے، خواہ اس کا تعلق ذکر اللہ سے کیوں نہ ہو۔ کسی قوم و جماعت کا سردار اس قوم کے فاسق ہونے۔ سے مراد یہ ہے کہ قیادت وسیادت اگر ایسے لوگوں کے سپرد ہونے لگے جو بد کردار، بدقماش اور بےایمان ہو تو یہ بات پوری قوم کے لئے تباہی کی علامت ہوگی ! واضح رہے کہ قوم، جماعت کے حکم میں شہر اور گاؤں اور محلہ بھی شامل ہیں ! اسی طرح اگر کسی قوم و جماعت کے زعما ان لوگوں کو قرار دیا جانے لگے جو اپنی قوم و جماعت کے کمینہ، بےکردار اور رذیل ترین ہوں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس قوم و جماعت کی تباہی کے دن آگئے ہیں۔ آدمی کی تعظیم، اس کے فتنہ وشر کے ڈر سے کی جانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی تعظیم و احترام کا معیار اس کی ذاتی فضیلت و عظمت پر نہ ہو بلکہ اس کی برائی اور اس کے شر کا خوف ہو۔ یعنی کسی شخص کی اس لئے تعظیم کی جائے وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے یا ستانے کی طاقت رکھتا ہے، جیسے کسی فاسق وبدقماش شخص کو اقتدار و غلبہ حاصل ہوجائے اور لوگ اس کی عزت اور اس کی تعظیم کرنے پر مجبور ہوں۔ گانے والیوں سے مراد کنجریاں، ڈومنیاں اور نائنیں وغیرہ ہیں ! اور قینات قنۃ کی جمع ہے، جس کے اصل معنی گانے والی لونڈی کے ہیں، اسی طرح باجوں سے مراد ہر قسم کے ساز و باجے اور گانے بجانے کے آلات ہیں جن کو شرعی اصطلاح میں مزامیر کہا جاتا ہے جیسے ڈھولک، ہا رمونیم، طبلہ، سارنگی اور شہنائی وغیرہ۔ شرابوں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ یہاں شراب کی تمام انواع و اقسام اور دیگر دوسری نشہ آور اشیاء بھی مراد ہیں۔ جب اس امت کے پچھلے لوگ، اگلے لوگوں کو برا بھلا کہنے لگیں گے۔ میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ برائی اسی امت کے ساتھ مخصوص ہے، گذشتہ امتوں کے لوگوں میں اس برائی کا چلن نہیں تھا۔ چناچہ مسلمانوں میں سے رافضی لوگ اس برائی میں مبتلا ہیں کہ وہ ان گذرے ہوئے اکابر یعنی صحابہ تک کے بارے میں زبان لعن و طعن دراز کرتے ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے۔ آیت (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ) 9 ۔ التوبہ 100) جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے ( ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سب سے خوش ہے !۔ اور ایک آیت میں یہ فرمایا کہ آیت ( لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ) 48 ۔ الفتح 18) (اے محمد ﷺ جب مؤمن آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہوا۔ کس قدر بدنصیبی اور شقاوت کی بات ہے کہ جن بندگان خاص سے اللہ تعالیٰ راضی وخوش ہوا ان سے ناراضگی وناخوشی ظاہر کی جائے اور ان کے خلاف ہفوات بکے جائیں۔ ؟ ان بندگان خاص کے مناقب و فضائل سے قرآن و حدیث بھرے ہوئے ہیں، وہ پاک نفوس ایسی عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اللہ کے دین کو قبول کیا، قبول ایمان میں سبقت حاصل کی، نہایت سخت اور صبر آزما حالت میں اللہ کے نبی ﷺ کی مدد و حمایت کی، اللہ کے دین کا پرچم سر بلند کرنے کے لئے اپنی جانوں کی بازیاں لگائیں، جہاد کے ذریعہ اسلام کی شوکت بڑھائی، بڑے بڑے شہر اور ملک فتح کئے، کسی واسطہ کے بغیر سید الامام (علیہ الصلوۃ والسلام) سے دین کا علم حاصل کیا، شریعت کے احکام و مسائل سیکھے، دین کی بنیاد یعنی قرآن کریم کو سب سے زیادہ جانا اور سمجھا اور مقدس، ہستیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ امت کے تمام لوگوں کو یہ تلقین فرمائی کہ ان کے حق میں یوں گویا ہوں۔ آیت ( رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ ) 59 ۔ الحشر 10) اے پروردگار ! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش جنہوں نے قبول ایمان میں ہم پر سبقت حاصل کی ہے۔ لیکن ان (رافضیوں) کے وہ لوگ کہ جو یا تو ایمان کی روشنی کھو چکے ہیں، یا دیوانے ہوگئے ہیں، ان مقدس ہستیوں اور امت کے سب سے افضل لوگوں کے بارے میں صرف زبان لعن وطعن دراز کرنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ محض اپنے گندے خیالات ونظریات اور سڑے ہوئے فہم کی وجہ سے یہ کہہ کر ان پاک نفسوں کی طرف کفر کی بھی نسبت کرتے ہیں کہ ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) نے بلا استحقاق خلافت پر قبضہ کیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد خلافت کے اصل مستحق علی تھے۔ اللہ ان عقل کے اندھوں کو چشم بصیرت دے، آخر وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اس امت کے اگلے پچھلے تمام لوگوں نے اس بات کو غلط اور باطل قرار ہے اور قرآن و سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں جس سے یہ صراحت ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد خلافت اول حضرت علی کا حق تھا نیز صحابہ کرام میں سے جن لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ خلافت میں ان سے اختلاف کیا، انہوں نے نعوذ باللہ کسی بری غرض کے تحت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کا اختلاف ان کی اجتہادی رائے کے تحت تھا، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ خطاء اجتہادی میں مبتلا ہوگئے تھے، لیکن اس کی وجہ سے بھی ان پر لعن کرنا اور ان کے حق میں گستاخانہ باتیں منہ سے نکالنا نہایت ناروا، بلکہ صریح زیادتی ہے، بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ ان میں سے کسی نے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مخالفت راہ حق سے بھٹک جانے کی وجہ سے کی اور وہ فسق کے مرتکب ہوئے تو بھی ان کو آخر کس بنا پر برا بھلا کہا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ بھی ہوسکتا ہے انہوں نے مرنے سے پہلے اپنی غلط روی سے توبہ کرلی ہو یا اگر توبہ بھی نہ کی ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ غالب امید رکھنی چاہئے کہ وہ اپنی رحمت کے صدقہ میں اور ان کی گذشتہ خدمات کے بدلے میں ان کو مغفرت سے نوازدے گا چناچہ ابن عساکر نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ (آنحضرت ﷺ نے فرمایا) میرے (بعض) صحابہ (اگر) ذلت یعنی لغزش کا شکار ہوں گے ( تو) اللہ تعالیٰ ان کو میری صحبت اور میرے ساتھ تعلق رکھنے کی برکت سے بخش دے گا۔ اس بات کو اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم لوگ اکثر وبیشتر صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے پروردگار کی رحمت اور آنحضرت ﷺ کی شفاعت کے امیدوار رہتے ہیں تو کیا وہ لوگ جو اس امت کے سب سے افضل اور سب سے بڑے لوگوں کے زمرہ سے تعلق رکھتے ہیں، اس بات کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کے حق میں یہ نیک گمان رکھا جائے کہ اگر ان سے کوئی لغزش ہوئی بھی ہوگی تو یقینا اللہ تعالیٰ ان کے درجہ کی عظمت اور ان کے شرف صحابیت کی برکت سے ان سے درگذر فرمائے گا ؟ مرتبہ صحابیت کے تقدس وشرف کو داغدار کرنے والے نادانو ! سوچو کہ تم اپنی زبان کو کن مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرکے گندا کررہے ہو اور تمہارا یہ طرز عمل رحمۃ للعٰلمین ﷺ کو کس قدر تکلیف پہنچارہا ہوگا ! ؟ کیا تم اس بات سے بیخبر ہو کہ نیک بخت وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے خود کے عیوب ان کو دوسروں کی عیب جوئی سے باز رکھیں ؟ کیا تم اس فرمان رسالت ﷺ کی صداقت کے منکر ہو کہ اپنے مرے ہوئے لوگوں کو برائی کے ساتھ یاد نہ کرو۔ کیا رسول کریم ﷺ کا ارشاد گرامی نہیں ہے کہ جب تمہارے سامنے میرے صحابہ کا ذکر ہو تو اپنی زبان کو قابو میں رکھو ؟ اگر تم ذرا بھی ایمان وعقل کا دعوی رکھتے ہو تو سنو کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا ہے۔ ابوبکر و عمر کی محبت، ایمان کی ایک شاخ ہے اور ان دونوں سے بغض و عداوت رکھنا کفر کی علامت ہے) انصار کی محبت ایمان کی ایک شاخ ہے اور ان سے بغض و عداوت، کفر ہے، اہل عرب کی محبت، ایمان کی ایک شاخ ہے اور ان سے بغض و عداوت کفر ہے جس نے میرے صحابہ کو برے الفاظ سے یاد کیا وہ اللہ کی لعنت کا مستوجب ہوا اور جس نے ان کے بارے میں میرے حکم کی پاسداری کی، میں قیامت کے دن اس کی پاسداری کروں گا۔ اے اللہ بس تو ہی ان لوگوں کو عقل سلیم اور چشم بصیرت عطا کر کے راہ ہدایت دکھا سکتا ہے، جو جہالت و نادانی اور تعصب کی وجہ سے تیرے محبوب نبی ﷺ کے محبوب صحابہ اور ساتھیوں کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور ان کے حق میں زبان لعن وطعن دراز کرکے خود کو دوزخ کی آگ کا ایندھن بناتے ہیں۔

【16】

قیامت کی علامتیں

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب میری امت ان پندرہ باتوں میں ( کہ جن کا ذکر اوپر کی حدیث میں ہوا) مبتلا ہوگی تو اس پر (وہ) آفتیں اور بلائیں نازل ہوں گی ( جو اوپر حدیث میں مذکور ہوئی ہیں) پھر آنحضرت ﷺ نے ان پندرہ باتوں کو شمار فرمایا (یعنی ان باتوں کی تفصیل بیان فرمائی جیسا کہ گذشتہ حدیث میں گذرا) لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس روایت میں یہ بات نقل نہیں کی کہ جب علم کو دین کے علاوہ کسی دوسری غرض سے سکھایا جانے لگے۔ (نیز ان دونوں حدیثوں کے الفاظ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ) حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ( اس جملہ ادنیٰ صدیقہ کہ جب آدمی اپنے دوست کو تو اپنے قریب کرنے لگے الخ کے بجائے) یہ نقل کیا ہے کہ جب آدمی اپنے دوست کے ساتھ احسان ومروت اور اپنے باپ کے ساتھ جو روجفا کرنے لگے اور انہوں نے ( جب شرابیں پی جانے لگیں کے بجائے) جب شراب پی جانے لگے (یعنی شراب کو جمع کے صیغہ کے بجائے واحد کے صیغہ کے ساتھ) نقل کیا ہے اسی طرح ( جب علم کو دین کے علاوہ کسی دوسری غرض سے سکھایا جانے لگے کے بجائے جب ریشمی کپڑا پہنا جانے لگے۔ نقل کیا ہے۔ ( ترمذی ) تشریح وعد ہذہ الخصال (پھر آنحضرت ﷺ نے ان پندرہ باتوں کو شمار فرمایا) کے الفاظ صاحب مصابیح کے ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ ترمذی نے دو قویٰ حدیثیں یکے بعد دیگرے نقل کی ہیں اور الگ الگ دونوں ہی حدیثوں میں ان پندرہ باتوں کو نقل کیا ہے صاحب مختصر نے لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اس روایت میں ولبس الحریر ( جب ریشمی کپڑا پہنا جانے لگے) کے الفاظ۔ جب علم دین کے علاوہ کسی دوسری غرض سے سیکھا جانے لگے۔ کی جگہ نہیں ہیں۔ بلکہ۔ جب اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں کو برا بھلا کہنے لگیں۔ کی جگہ منقول نہیں لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے، کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت میں۔ جب اس امت کے پچھلے لوگ الخ کے الفاظ مذکورہ مذکور ہیں لہٰذا صحیح یہی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ولبس الحریر کے الفاظ تعلم لغیر الدین کے بجائے نقل کئے ہیں۔ اس کے مطابق پندرہ روایتوں کے متعلق صحیح ہوجاتا ہے۔ لہٰذا طیبی نے جو یہ کہا ہے بالکل صحیح ہے کہ۔ مذکورہ پندرہ باتوں کا ذکر دونوں روایتوں میں سے ہر ایک میں ہے اور صاحب مختصر کا یہ قول صحیح نہیں ہے کہ پندرہ باتوں کا ذکر مجموعی طور پر دونوں روایتوں میں ہے، تاہم پہلی حدیث میں مذکورہ باتوں کی تعداد پندرہ نہیں بلکہ سولہ ہے۔

【17】

امام مہدی کے بارے میں پیشگوئی

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ دنیا اس وقت تک اختتام پذیر نہیں ہوگی جب تک کہ عرب پر ایک شخص قبضہ نہ کرلے گا جو میرے خاندان میں سے ہوگا اور اس کا نام میرے نام پر ہوگا۔ (ترمذی ابوداؤد) اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اگر دنیا کے اختتام بذیر ہونے میں صرف ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو طویل ودراز کر دے گا، یہاں تک کہ پروردگار میری نسل میں یا یہ فرمایا کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جس کا نام میرے نام پر اور جس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام پر ہوگا اور وہ تمام روئے زمین کو ( عرب کی سر زمین کو) عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح اس وقت سے پہلے تمام روئے زمین ظلم وجور سے بھری تھی۔ تشریح اس حدیث میں جس ذات گرامی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے حضرت امام مہدی مراد ہیں چناچہ ان کا اصل نام تو محمد ہوگا اور لقب مہدی ہوگا، نیز آنحضرت ﷺ کی پشت سے تعلق رکھتے ہوں کے البتہ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آیا وہ حضرت امام حسین کی اولاد میں سے ؟ لیکن بظاہر یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ باپ کی جانب سے تو حسنی ہوں گے اور ماں کی جانب سے حسینی ! حضور ﷺ کے مذکورہ بالا ارشاد گرامی میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ حضور ﷺ کے ساتھ ان کا تعلق صرف نسبی اور نسلی نہیں ہوگا بلکہ روحانی اور شرعی بھی ہوگا، یعنی ان کا طور طریقہ اور ان کے عادات ومعمولات حضور ﷺ کے طور طریقے اور آپ ﷺ کے عادات ومعمولات کے مطابق ہوں گے۔ واضح رہے کہ حدیث میں حضرت امام مہدی (رض) کی طرف صرف عرب کی نسبت ( کہ ان کا قبضہ عرب پر ہوگا) محض ان کی نسلی و وطنی عظمت اور شرف فضیلت کی بنا پر ہے، ورنہ دوسری احادیث میں آیا ہے کہ ان تسلط و قبضہ پوری دنیا پر ہوگا خواہ عرب علاقے ہوں یا غیر عرب لیکن یہ توجیہ زیادہ مناسب ہے کہ محض عرب کے ذکر پر اکتفا کرنا اس اعتبار سے ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان روحانی طور پر عرب ہی کے تابع ہیں، لہٰذاعرب پر ان کا تسلط و اقتدار بالواسطہ طور سے تمام دنیا کے مسلمانوں پر تسلط و اقتدار کے مترادف ہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ دنیا کا ہر مسلمان روحانی طور پر عربی ہے۔ اس موقع پر ایک خاص بات یہ بتا دینی ضروری ہے کہ حضور ﷺ نے امام مہدی (رض) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو یہ فرمایا ہے کہ اس کا نام میرے نام پر اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام پر ہوگا۔ تو اس بات سے شیعہ لوگوں کی اس بات کی تردید ہوجاتی ہے کہ مہدی موعود قائم و منتظر ہیں اور وہ حسن عسکری کے بیٹے محمد ہیں۔ وہ تمام روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھردے گا۔ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ابنے زیر تسلط علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو پوری طرح عدل و انصاف سے نوازیں گے اور کسی بھی شخص کے ساتھ بےانصافی اور خلاف عدل کوئی سلوک نہیں ہوگا ! جاننا چاہئے کہ یقسط اور عدل دونوں کے معنی قریب قریب اور عدل کے معنی ہیں داد یعنی انصاف اور داد و انصاف کرنا۔ اسی طرح جور کے معنی ہیں کسی کو ایسا حکم دینا جس سے اس پر ظلم وستم ہو اور اصل کے اعتبار سے جور اس کو کہتے ہیں کہ کسی چیز کو اس کے غیر محل میں رکھا جائے۔ پس حدیث میں دونوں لفظوں کو دو الگ الگ معنی میں استعمال فرمایا ہے مثلا قسط سے مراد انصاف چاہنے والوں کو انصاف دینا ہے اور عدل سے مراد حقوق میں برابری اور مساوات ملحوظ رکھنا ہے اسی طرح ظلم سے مراد انصاف چاہنے والوں کو انصاف ملنا ہے اور جور سے مراد حقوق میں عدم مساوات اور نا برابری ہے۔

【18】

حضرت امام مہدی حضور ﷺ کی اولاد میں سے ہوں گے

حضرت ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ مہدی میری عترت میں سے اور فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے۔ ( ابوداؤد) تشریح عترت کے معنی ہیں نسل جماعت اور قریبی رشتہ دار۔ چناچہ کسی شخص کے ان قریبی رشتہ داروں کو جو پہلے گذر چکے ہوں یا آئندہ پیدا ہوں عترت سے تعبیر کیا جاتا ہے صراح میں بھی یہی لکھا ہے کہ عترت کسی شخص کے رشتہ دار اور لواحقین کو کہتے ہیں نہایہ میں لکھا ہے کہ عترت کے معنی ہیں عزیز و رشتہ دار چناچہ آنحضرت ﷺ کی عترت سے مراد حضور ﷺ کے دادا عبد المطلب کی اولاد ہے جب کہ بعض حضرات نے عترت کا اطلاق حضور ﷺ کے نزدیکی اہل بیت پر کیا ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ تمام قریش حضور ﷺ کی نسبت ہیں اور مشہور قول یہ ہے کہ عترت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو زکوٰۃ کا مال لینا حرام ہے یعنی اولاد ہاشم۔ بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ حضرت مہدی (رض) کا نسلی تعلق آنحضرت ﷺ سے ہوگا اور وہ حضرت فاطمہ کی (رض) اولاد میں سے ہوں گے۔

【19】

حضرت امام مہدی حضور ﷺ کی اولاد میں سے ہوں گے

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ مہدی میری اولاد میں سے ہوں گے روشن و کشادہ پیشانی اور اونچی ناک والے، وہ روے زمین کو انصاف وعدل سے بھر دیں گے، جس طرح کہ وہ ظلم وستم سے بھری تھی وہ (یعنی مہدی) سات برس تک روئے زمین پر برسر اقتدار اور قابض رہیں گے۔ (ابو داؤد ) تشریح اس روایت میں سبع سنین کے بعد راوی نے اوثمان سنین اور تسع سنین ( یا اٹھ برس یا نو برس) کے الفاظ بھی بیان کئے ہیں جو راوی کا اپنا قول ہے اور اس کے شک کو ظاہر کرتا ہے، لیکن یہاں ان الفاظ کو نقل کیا گیا، کیونکہ مصنف کتاب کو سات برس کے الفاظ پر یقین حاصل ہوگیا ہوگا جیسا کہ حضرت ام سلمہ (رض) سے منقول ابوداؤد کی اس روایت سے سات برس ہی کے الفاظ کی تائید ہوتی ہے جو آگے آرہی ہے لیکن احتمال بہی ہے کہ سات برس یا آٹھ یا نو برس کے درمیان شک موجود تو ہو لیکن مصنف کتاب کے نزدیک زیادہ یقینی الفاظ سات برس ہی ہوں گے، اس لئے انہوں نے شک ظاہر کرنے والے الفاظ کو نقل کرنے کے بجائے صرف یقینی الفاظ ہی کو نقل کرنے پر اکتفا کیا۔

【20】

حضرت امام مہدی کی سخاوت

اور حضرت سعید خدری (رض) نبی کریم ﷺ سے حضرت امام مہدی کے واقعہ کے سلسلہ میں یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ( ان کے عدل و انصاف کا ذکر نے کے بعد) یہ فرمایا کہ امام مہدی (کے جود وسخاوت کی یہ حالت ہوگی کہ ان) کے پاس ایک شخص آئے گا اور کہے گا کہ مجھے کچھ عطا کیجئے، مجھے عطا کیجئے۔ چناچہ مہدی اس کو دونوں ہاتھوں سے بھر کر اتنا دیں گے جتنا کہ وہ اپنے کپڑے میں بھر کر اٹھا سکے اور لے جاسکے۔ (ترمذی ) تشریح حضرت مہدی سوال کرنے والے کی حرص کو دیکھ کر اس کو بےحساب روپیہ پیسہ اور مال و اسباب دیں گے تاکہ وہ آئندہ کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے اور اپنے دل میں کوئی تنگی اور غم محسوس نہ کرے۔

【21】

امام مہدی کے ظہور کے پیشگوئی

اور حضرت ام سلمہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ (آخر زمانہ میں) جب خلیفہ (یعنی اس وقت کی حکومت کے سربراہ) کا انتقال ہوگا تو ( دوسرے سربراہ کے انتخاب یا نامزدگی کے سوال پر اصحاب الرائے لوگوں کے درمیان) اختلاف ونزاع اٹھ کھڑا ہوگا، اسی دوران اہل مدینہ میں سے ایک شخص (مدینہ سے) نکل کر مکہ کی طرف بھاگ جائے گا، مکہ کے لوگ جب اس شخص کے مرتبہ و حیثیت کو پہچانیں اور جانیں گے تو اس کے پاس آئیں گے اور اس کو ( گھر سے) باہر نکال کر لائیں گے ( تاکہ اس کو اپنا سر براہ اور حاکم بنائیں) وہ شخص اگرچہ ( فتنہ کے خوف سے) یہ منصب قبول کرنے کو پسند نہیں کرے گا مگر لوگ ( منت سماجت کر کے اس کو تیار کریں گے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں گے، یہ بیت (خانہ کعبہ میں) حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان عمل میں آئے گی، اس کے بعد اس کے مقابلہ پر شام (کے بادشاہ) کی طرف سے ایک لشکر بھیجا جائے گا لیکن وہ لشکر مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام بیداء پر زمین میں دھنسا دیا جائے گا اور پھر جب لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ (شام کا لشکر مکہ پہنچنے سے پہلے ہی زمین بوس کردیا گیا ہے، تو ملک شام کے ابدال اور عراق کے عصائب اس شخص کی خدمت میں پہنچیں گے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں گے پھر قریش میں سے ایک شخص اٹھے گا جس کے ننہیال قبیلہ کلب کی مدد حاصل کرے گا لیکن اس شخص کا لشکر اسی قریشی کے لشکر پر غالب آجائے گا پھر وہ شخص لوگوں کے درمیان ان کے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کی روش اور ان کے طریقہ کے مطابق (ملک وملت کا) نظم ونسق چلائے گا اور مسلمانوں کا دین اپنی گردن زمین پر رکھدے گا وہ شخص سات سال تک قائم و برقرار رہے گا، پھر جان بحق ہوجائے گا اور مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ ( ابوداؤد ) تشریح حدیث میں جس ہستی کا ذکر کیا گیا ہے اس سے حضرت امام مہدی (رض) کی ذات گرامی مراد ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ابوداؤد نے اس روایت کو باب المہدی میں نقل کیا ہے۔ مدینہ سے مراد یا تو مدینہ طیبہ ہے، یا وہ شہر مراد ہے جہاں مذکورہ خلیفہ یا سربراہ حکومت کا انتقال ہوگا اور اس کے جانشین کے انتخاب پر لوگوں میں اختلاف ونزاع پیدا ہوجائے گا اس موقع پر حضرت امام مہدی (رض) کا مکہ بھاگ جانا، مذکورہ اختلاف ونزاع کے فتنہ سے بچنے کے لئے ہوگا اور مکہ چلے جانے کو ترجیح اس لئے دیں گے کہ وہ شہر مقدس نہ صرف یہ کہ ہر اس شخص کے لئے جائے امن ہے جو اس میں پناہ لینے کا طالب ہو بلکہ سکون و عافیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہنے کی سب سے بہتر جگہ ہے۔ بیداء اصل میں جنگل اور ہموار زمین کو کہتے ہیں اور مکان پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن یہاں حدیث میں بیداء سے ایک مقام مراد ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے۔ شام کے لشکر سے مراد سفیانی کا لشکر ہے، نیز اس لشکر کا امام مہدی کے خلاف محاذ آرائی کے لئے آنا دراصل سفیانی حکومت کا پیدا کردہ ایک فتنہ ہوگا جو حضرت امام مہدی کے ظاہر ہونے کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے اس بارے میں تقریبا تواتر کے ساتھ متعدد احادیث منقول ہیں ان میں سے ایک صحیح حدیث وہ ہے جس کو امیرالمؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس طرح نقل کیا ہے کہ۔ وہ سفیانی (جو آخر زمانہ میں شام کے علاقوں پر قابض و حکمران ہوگا) نسلی طور پر خالد ابن یزید ابن معاویہ ابن ابواسوی کی پشت سے تعلق رکھتا ہوگا، وہ بڑے سر اور چیچک زدہ چہرے والا ہوگا، اس کی آنکھ میں ایک سفید دھبہ ہوگا، دمشق کی طرف اس کا ظہور ہوگا اس کے تابعداروں کی جماعت زیادہ تر قبیلہ کلب سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہوگی، لوگوں کا خون بہانا اس کی خاص عادت ہوگی، یہاں تک کہ وہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے بچوں کو ہلاک کردیا کرے گا، وہ جب حضرت امام مہدی کے ظہور کی خبر سنے گا تو ان سے جنگ کرنے کے لئے ایک لشکر بھیجے گا جو شکست کھاجائے گا، اس کے بعد وہ سفیانی بذات خود ایک لشکر لے کر حضرت امام مہدی کے مقابلہ کے لئے چلے گا لیکن وہ مقام بیداء پر پہنچ کر اپنے تمام لشکر والوں کے ساتھ زمین میں دھنس جائے گا اور کوئی بھی شخص زندہ نہیں بچے گا صرف ایک وہ شخص بچ جائے گا جو حضرت امام مہدی کو سفیانی اور اس کے لشکر کے عبرتناک حشر کی خبر پہنچائے گا۔ ابدال اولیاء اللہ کے ایک گروہ کو کہتے ہیں جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کائنات کے نظام کو برقرار اور استوار رکھتا ہے دنیا میں کل ابدال کی تعداد ستر رہتی ہے، اس میں چالیس ابدال تو شام میں رہتے ہیں اور تیس ابدال باقی ملکوں میں ان اولیاء اللہ کو ابدال اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی ادلی بدلی ہوتی رہتی ہے، یعنی جب ان میں سے کوئی مرجاتا ہے تو اس کے بدلے میں کوئی دوسرا مقرر کردیا جاتا ہے یا ان کو ابدال اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ وہ ایسی مقدس ہستیاں ہیں جو عبادت و ریاضت کے ذریعہ ابنے اندر سے تمام بری عادتیں اور ناپسندیدہ خصلتیں ختم کردیتے ہیں اور ان کے بدلے میں اچھی عادتیں اور اعلیٰ اخلاق پیدا کرلیتے ہیں ! اس مقدس گروہ کے بارے میں احادیث میں ذکر آیا ہے گو سیوطی نے سنن ابوداؤد کی شرح میں لکھا ہے کہ ابدال کا ذکر صحاح ستہ میں نہیں آیا ہے علاوہ ابوداؤد کی اس حدیث کے جو یہاں نقل ہوئی ہے، اس حدیث کو حاکم نے بھی نقل کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے، تاہم سیوطی نے صحاح ستہ کے علاوہ دوسری مستند و معتبر کتابوں سے ایسی بہت سی احادیث کو جمع الجوامع میں نقل کیا ہے جن میں ابدال کا ذکر ہے، ان میں سے اکثر احادیث میں چالیس کا عدد مذکور ہے اور بعض میں تیس کا انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ایک یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ابدال نے جو یہ اعلیٰ درجہ پایا ہے وہ بہت زیادہ نماز روزہ کرنے کی وجہ سے نہیں پایا ہے اور نہ ان عبادتوں کی وجہ سے ان کو تمام لوگوں سے ممتاز کیا گیا ہے بلکہ انہوں نے اتنا اعلیٰ درجہ سخاوت نفس، سلامتی دل اور مسلمانوں کی خیر خواہی رکھنے کی وجہ سے پایا ہے نیز آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ علی ! میری امت میں ایسے لوگوں کا وجود کہ جو ابدال کی صفت کے حامل ہوں، سرخ گندھک سے بھی زیادہ نادر ہے یعنی جس طرح سرخ گندھک بہت کمیاب چیز ہے اسی طرح دنیا میں ابدال بھی کم ہیں۔ ایک اور حدیث میں، جو حضرت معاذ بن جبل (رض) سے منقول ہے، یہ فرمایا گیا ہے کہ جس شخص میں تین صفتیں یعنی رضا بالقضاء، ممنوعات سے کلی احتراز اور اللہ کے دین کی خاطر غصہ کرنا، پائی جائیں اس کا شمار ابدال کی جماعت میں ہوتا ہے ؟ نیز امام غزالی (رح) نے احیاء العلوم میں نقل کیا ہے کہ جو شخص روزانہ تین مرتبہ یہ دعا پڑھنے کا التزام رکھے اس کے لئے ابدال کا درجہ لکھا جاسکتا ہے، دعا یوں ہے آیت ( اللہم اغفر لا مۃ محمد، اللہم ارحم امۃ محمد، اللہم تجاوز عن امۃ محمد۔ اے اللہ ! امت محمدی کی مغفرت فرما، اے اللہ امت محمدی پر رحم فرما، اے اللہ امت محمدی کے گناہوں سے درگذر فرما۔ حاصل یہ ہے کہ جو شخص اپنے اندر سے تمام انسانی و اخلاقی برائیاں بدل ڈالے اپنے نفس کو پوری طرح پاکیزہ اور مہذب بنا لے اور مخلوق الٰہی کا خیر خواہ ہوجائے، تو اس کا شمار ابدال کی جماعت میں ہوگا۔ عصائب بھی اولیاء اللہ کے ایک گروہ کا نام ہے جیسا کہ ابدال ! حضرت علی کرمہ اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ ابدال شام کے ملک میں رہتے ہیں، عصائب عراق کے ملک میں اور نجبا مصر کے ملک میں ( ابدال اور عصائب کی طرح نجباء بھی اولیاء اللہ کی قسموں میں سے ایک قسم ہے) نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ عصائب ان لوگوں کو کہتے ہیں جو اپنے معاشرہ میں سب سے زیادہ، عابد و زاہد اور نیک ہوں یہ وضاحت غالباً لغوی معنی کے اعتبار سے ہے، کیونکہ لغت میں عصب القوم قوم کے نیک ترین لوگوں کو کہتے ہیں۔ قبیلہ کلب کی لشکر آرائی اور اس کی طرف سے قتل و قتال کا واقع ہونا آخر زمانہ میں ایک فتنہ کے طور پر ظاہر ہوگا اور یہ فتنہ بھی حضرت امام مہدی (رض) کے ظہور کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ اور مسلمانوں کا دین اپنی گردن پر رکھ دے گا کا مطلب یہ ہے کہ دین اسلام قائم اور پائیدار ہوجائے گا شریعت کی فرمانروائی پورے سکون و اطمینان کے ساتھ جاری ہوجائے گی اور تمام مسلمان آسودگی و اطمینان کے ساتھ زندگی گذاریں گے واضح رہے کہ جران اونٹ کی گردن کے اس اگلے حصہ کو کہتے ہیں جو ذبح کی جگہ سے نحر کی جگہ تک ہوتا ہے، اونٹ جب چلتے چلتے ٹھہر جاتا ہے اور آرام لینے کے لئے بیٹھتا ہے تو اپنی گردن کے اس حصہ کو زمین پر دراز کردیتا ہے جس سے اس کو بہت راحت ملتی ہے پس یہاں دین کو اونٹ کی گردن سے تشبیہہ دینے کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ حضرت امام مہدی کے زمانہ میں اسلام کو ثبات وقرار مل جائے گا کہ مسلمانوں کے درمیان کوئی خلفشار نہیں ہوگا، باہمی مخالفت ومناقشت اور جنگ وجدال کا نام ونشان تک مٹ جائے گا، دین واسلام کی برتری، احکام سنت کی پابندی اور ملی نظام کی خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔

【22】

مہدویت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کی تردید

اس موقع پر یہ بتادینا ضروری ہے کہ بہت سے لوگوں نے اس بات کا دعوی کیا ہے کہ وہ مہدی ہیں ان میں سے بعض لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے مہدی کے لغوی معنی ہدایت کرنے والا، مراد لیتے ہوئے اپنے کو مہدی کہا یا کہلوایا ہے، ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کے بارے میں کوئی تردیدی بات نہیں کہی جاسکتی، کیونکہ اگر وہ واقعہ ہدایت وراستی کی روشنی پھیلانے والے تھے اور ان کے ذریعہ مخلوق اللہ دین وآخرت کی صحیح رہنمائی حاصل کرتی تھی تو لغوی طور پر ان کو مہدی کہا جاسکتا ہے لیکن وہ لوگ کہ جنہوں نے محض دنیا والوں کو فریب میں مبتلا کرنے اور اپنی شخصیت کو غلط طور پر لوگوں کا مرجع ومقتدا بنانے کے لئے خود کو مہدی موعود کہا یا کہلوایا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ باکل جھوٹے اور مکار تھے، چناچہ ایسے لوگوں نے مکرو فریب کے جال پھیلا کر اور سادہ لو، مسلمانوں کو ورغلا کر اپنے تابعداروں کی جماعت تیار کی اور بعضوں نے تو اوباش اور بدقماش افراد تک کو خرید کر اپنے گرد جمع کیا اور ان کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ اپنے مہدی موعود ہونے کا پروپیگنڈہ کرایا بلکہ بعض شہروں اور ملکوں میں فتنہ و فساد پھیلا یا، لڑائی جھگڑا کرایا اور آخر کار ان کا انجام بہت برا ہوا کہ صحیح العقیدہ مسلمانوں نے ان کی بھر پور مدافعت کی اور انہیں تہ تیغ کرکے ان شہروں اور ملکوں کے لوگوں کو ان کے فتنہ و فساد سے نجات دلائی ! خود ہمارے ہندوستان میں ایسے ہی گمراہ لوگوں کی ایک جماعت پیدا ہوچکی ہے جو اپنے کو مہدویہ کہلاتی تھی اس جماعت کے لوگ بہت جاہل اور پست خیال تھے ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ مہدی موعود ہمارے پیشوا کی صورت میں ظاہر ہوا پھر وفات پا گیا اور خراسان کے ایک شہر میں دفن کردیا گیا ! ان کی گمراہیوں میں سے ایک بڑی گمراہی، ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ جو شخص ہمارے نظریہ و خیال کا عقیدہ نہ رکھے اور ہماری بات سے متفق نہ ہو وہ کافر ہے۔ اسی بنا پر اس زمانہ میں مکہ کے چاروں مسلک کے علماء نے متفقہ طور پر یہ فتویٰ دیا تھا کہ صاحب اقتدار مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ان گمراہ لوگوں کو قتل کردیں اسی طرح شیعہ حضرات کا یہ اعتقاد اور قول بھی بالکل فاسد ہے کہ مہدی موعود دراصل محمد ابن حسن عسکری ہیں جن کا انتقال نہیں ہوا ہے بلکہ وہ نظروں سے پوشیدہ ہوگئے ہیں، وہ امام زماں ہیں اور اپنے وقت پر ظاہر ہو کر اپنی امامت اور حاکمیت کا اعلان کر دینگے اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ قول بھی سرے سے غلط اور باطل ہے، نیز اس کی تردید میں علم کلام کی کتابیں دلائل سے بھری ہوئی ہیں، علاوہ ازیں کتاب عروہ الوثقی میں یہ وضاحت کے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ حضرت محمد ابن حسن عسکری کا انتقال ہوگیا ہے۔ ٢١ اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے انسان کو سخت مصیبت اور پریشانیوں میں مبتلا کرنے والی ایک بلا و آفت کا ذکر کیا جو اس امت کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی یہاں تک کہ کسی شخص کو کوئی ایسی پناہ گاہ نہیں ملے گی جہاں وہ اس آفت وبلا کی صورت میں رونما ہونے والے ظلم وستم سے پناہ حاصل کرسکے پھر جب ظلم وستم اور ناانصافی کا وہ دور اپنی حد کو پار کر جائے گا تو اللہ تعالیٰ میری اولاد اور میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو کہ جو عدل و انصاف اور علم و دانائی میں یکتا ہوگا اور جو مہدی کے لقب سے ملقب ہوگا، امامت کے منصب سے سرفراز کر کے اس دنیا میں بھیجے گا، وہ شخص زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وستم سے بھری ہوئے تھی، اس سے آسمان والے بھی خوش ہوں گے یعنی فرشتے اور انبیاء کرام کی روحیں اور تمام زمین کے رہنے والے بہی راضی و مطمئن ہوں گے خواہ وہ کسی جنس اور نوع سے تعلق رکھتے ہوں، یہاں تک کہ جنگل کے جانور اور پانی کی مچھلیاں بہی آسمان اپنے مینہ کے قطروں میں سے کچھ باقی رکھے بغیر کثرت سے پانی برسائے گا اور زمین اپنی روئیدگی میں سے کچھ باقی رکھے بغیر سب کچھ اگادے گی یہاں تک کہ زندہ لوگ مردوں کی آرزوئیں کرنے لگیں گے وہ شخص یعنی مہدی اس خوشحال و کامرانی کے ساتھ سات برس یا آٹھ برس یا نو برس زندہ رہے گا۔ تشریح آسمان اپنے مینہ کے قطروں میں سے۔۔ الخ۔ کا حاصل یہ ہے کہ حضرت مہدی کے زمانہ میں خیر و برکت کا یہ حال ہوگا کہ بارش وقت اور ضرورت کے مطابق بھر پور طور سے ہوا کرے گی، زراعتی پیداوار اور زمین سے حاصل ہونے والی چیزیں نہایت فراونی کے ساتھ پیدا ہوں گی اور اسطرح ہر طرف خوشحالی اور چین و راحت کا دور دورہ ہوگا اور لوگ نہایت پر مسرت اور ارام کی زندگی گزاریں گے۔ زندہ لوگ مردوں کی آرزو کرنے لگیں گے۔ کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ کے لوگ اس قدر پر مسرت اور خوش حال زندگی گزرایں گے کہ مرے ہوئے لوگوں کے وجود اور حیات کی تمنا کرنے لگیں گے اور کہیں گے کہ کاش وہ لوگ ہمارے زمانہ میں ہوتے تو انہیں بھی اس پر مسرت اور خوشحال زندگی کے دن دیکھنا نصیب ہوتے ! واضح رہے کہ بعض لوگوں نے لفظ احیاء کو الف کے زیر کے ساتھ یعنی مصدر پڑھا ہے جس کے معنی ہیں زندہ کرنا ! اس صورت میں اس جملہ کا مفہوم یہ ہوگا کہ خود مردے یہ آرزو کرنے لگیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ زندگی بخش کر دنیا میں بھیج دے تاکہ وہ بھی مسرت و خوشحالی کا دور دیکھ لیں لیکن یہ بات اظہار مبالغہ کے لئے ایک ناممکن چیز کو ممکن فرض کرنے کے طور پر ہے بشرطیکہ احیاء یعنی الف کے زیر کے ساتھ والی روایت ثابت ہو، ورنہ اس بات کی ایک احتمال سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں۔ یا آٹھ یا نو برس کے الفاظ یا تو راوی کے شک کو ظاہر کرنے کے لئے ہیں کہ یہ روایت نقل کرتے وقت راوی کو صحیح طور پر یاد نہیں تھا کہ حضور ﷺ نے یہاں سات سال کا عدد ذکر فرمایا تھا یا آٹھ کا یا نو کا یا یہ الفاظ خود حضور ﷺ کے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کو ارشاد فرماتے وقت تک آپ ﷺ کو بھی مبہم طور پر ہی معلوم تھا، جس کو آپ ﷺ نے ساتھ یا آٹھ یا نو برس کے ذریعہ بیان فرمایا لیکن پھر بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو تعیین کے ساتھ سات سال کی مدت بتائی گئی، چناچہ آپ ﷺ نے اس کے بعد احادیث میں صرف سات سال کا ذکر فرمایا ہے۔ مشکوۃ کے اصل نسخے میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی ہے، البتہ بعد میں یہ عبارت شامل کی گئی ہے الحاکم فی مستدر کہ وقال صحیح یعنی اس روایت کو حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

【23】

ایک پیشگوئی

اور حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ماوراء النہر کے کسی شہر میں ایک پاک باز و صالح شخص ظاہر ہوگا جس کا نام حارث حراث ہوگا، اس کے لشکر کے اگلے حصہ پر ایک شخص ہوگا جس کا نام منصور ہوگا، وہ حارث، محمد ﷺ کی اولاد کو جگہ یا ٹھکانہ دے گا جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ کو قریش کے لوگوں نے ٹھکانہ دیا تھا پس ہر مسلمان پر واجب ہوگا کہ اس شخص کی مدد تائید کرے یا یہ فرمایا کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس شخص کو قبول کرے۔ (ابو داؤد) تشریح ما وراء النہر کے معنی ہیں وہ علاقے جو نہر کے پیچھے ہیں اور اس سے مراد وہ خطہ ہوتا ہے جس میں بخارا اور سمر قند وغیر شہر واقع ہیں ! حارث حراث میں حارث تو اصلی نام ہے اور حراث اس کی صفت ہے یعنی کھیتی کرنے والا۔ یوطن اویمکن (جگہ یا ٹھکانہ دے گا) میں حرف او یا تو راوی کے شک کو ظاہر کرنے کے لئے ہے، یا اور کے معنی میں ہے اس صورت میں اس جملہ کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ شخص محمد ﷺ کی اولاد کو اپنی طرف سے مال و اسباب، ہتھیار، اسلحہ اور روپیہ پیسہ فراہم کرے گا، ان کی حکومت و خلافت کو پائیدار اور مستحکم بنائے گا، مختلف ذرائع اور طریقوں سے ان کو تقویت پہنچائے گا اور اپنے لشکر کے ذریعہ ان کی مدد کرے گا۔ محمد ﷺ کی اولاد سے مراد عمومی طور پر حضور ﷺ کی تمام ذریت اور آپ کے اہل بیت ہیں اور خصوصی طور پر حضرت امام مہدی کی ذات مراد ہے یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ محمد کی اولاد کا لفظ تو زائد ہے اور محمد سے مراد حضرت امام مہدی ہیں۔ قریش کے لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں۔ جنہوں نے ایمان قبول کیا تھا اور تن من دھن سے حضور ﷺ کی مدد واعانت کی تھی جیسے حضرت ابوبکر صدیق وغیرہ رسول اللہ ﷺ کو ٹھکانا دینے والوں میں ابوطالب بھی شامل ہیں اگرچہ انہوں نے ایمان قبول نہیں کیا تھا یا یہ فرمایا کہ اس شخص کو قبول کرو کے الفاظ راوی کی طرف سے اس شک کے اظہار کے لئے ہیں حضور ﷺ نے اس موقع پر یا تو نصرہ کا لفظ ارشاد فرمایا تھا یا اجابتہ کا لفظ نیز اس حدیث کے سیاق سے اور اس سلسلہ میں منقول دوسری احادیث کے اسباق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے جس شخص کے ظاہر ہونے کی پیشین گوئی فرمائی ہے وہ اپنی امامت و خلافت کے دعوے کے ساتھ ظاہر ہوگا یعنی اس کا ظہور سربراہ حکومت کی صورت میں ہوگا اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری مسلمانوں پر واجب ہوگی اور منصور نامی شخص اس کی فوج کا کمانڈر ہوگا ویسے بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ حضور ﷺ نے منصور نام کے جس شخص کی طرف اشارہ فرمایا ہے اس کا ظہور ہوچکا ہے اور وہ مشہور عالم حضرت ابومنصور ما تریدی تھے، جن کا درجہ، حنفی فقہ کے اصول کے مدون کی حیثیت سے حنفیہ میں امام کا سمجھا جاتا ہے اور ان کی ذات حنفی اصول فقہ کی مدار ہے۔

【24】

ایک پیشگوئی

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک درندے آدمیوں سے ہمکلام نہ ہونے لگیں گے اور جب تک آدمی کے کوڑے (چابک) کا پھندنا اور اس کے جوتے کا تسمہ اس سے باتیں نہ کرنے لگے گا اور (یہی نہیں بلکہ) انسان کی ران اس کو یہ بتایا کرے گی کہ اس کے اہل و عیال نے اس کی عدم موجدگی میں کونسے نئے کام اور کیا نئی بات کی ہے۔ (ترمذی)

【25】

قیامت کی علامتیں کب سے ظاہر ہوں گی ؟

حضرت ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ نشانیاں دو سو برس کے بعد ظہور میں آئیں گی۔ ( ابن ماجہ) تشریح حضور ﷺ کے فرمانے کا مطلب یہ تھا کہ جن چیزوں اور جن باتوں کو قیامت کی علامتیں اور نشانیاں قرار دیا گیا ہے ان کا ظاہر ہونا اور پیش آنا پورے دو سو برس کے بعد سے شروع ہوجائے گا ! رہی یہ بات کہ یہ دو سو برس کس وقت سے مراد تھے ؟ ہجرت نبوی کے وقت سے، یا اسلام کی روشنی کے ظہور کے وقت سے اور یا وفات نبوی ﷺ کے وقت سے دو سو برس کی مدت مراد تھی اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ لفظ المأتین پر حرف لام عہد کے لئے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کی علامتیں دو سو برس کی اس مدت کے بعد ظاہر ہونا شروع ہونگی جس کی ابتدا ہزار سال کے بعد سے ہوگی، مزید وضاحت کے لئے یوں کہا جاسکتا ہے کہ دو سو برس سے گویا بارہ سو برس مراد ہیں اور یہ وہ زمانہ ہوگا جب قیامت کی چھوٹی نشانیاں ظاہر ہوچکی ہوں گی اور بڑی نشانیاں جیسے حضرت مہدی کے ظہور، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول، دجال کے نکلنے اور دوسری پے درپے علامتوں کے ظاہر ہونے یعنی سورج کے مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہونے، دابہ الارض کے نکلنے اور یاجوج ماجوج کے ظاہر ہونے وغیرہ وغیرہ کا وقت قریب تر آجائے گا اور اہل علم محسوس کرنے لگیں گے کہ دنیا اپنی عمر کی آخری حدوں کو پہنچ گئی ہے۔

【26】

ایک ہدایت

اور حضرت ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب تم خراسان کی جانب سے سیاہ نشان آتے دیکھو تو اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ، کیونکہ اس میں اللہ کا خلیفہ مہدی ہوگا۔ اس روایت کو امام احمد نے اور دلائل النبوۃ میں بیہقی نے نقل کیا ہے۔ تشریح سیاہ نشان سے بظاہر مراد حارث اور منصور کا لشکر ہے جس کی طرف سے پیچھے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا تھا اور متوجہ ہونے سے مراد اس لشکر میں شامل ہونا اور آنے والوں کے امراء و احکام کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا ہے ! مہدی سے مراد اس کے لغوی معنی ہیں یعنی وہ خلیفہ یا سربراہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہوگا بلکہ اللہ کی طرف سے ہدایت پایا ہوا اور لوگوں کو ہدایت اور راستی کی راہ پر لگانے والا ہوگا، جس کی سربراہی کو قبول کرنا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہوگا۔ لہٰذا اس ارشاد گرامی میں مہدی سے نہ تو حضرت مہدی مراد ہیں اور نہ اس سے اس بات کا تضاد لازم آتا ہے کہ مہدی کا ظہور حرمین شریفین سے ہوگا۔

【27】

امام مہدی، حضرت امام حسن کی اولاد میں سے ہونگے

اور اسحاق کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے صاحبزادے امام حسن کی طرف دیکھ کر کہا کہ میرا بیٹا جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا سردار ہے، غنقریب اس کی پشت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کا نام تمہارے نبی ﷺ کے نام پر (محمد) ہوگا، وہ باطنی سیرت یعنی اخلاق و عادات میں حضور ﷺ کے مشابہ ہوگا گو ظاہری شکل و صورت میں آپ کے مشابہ نہیں ہوگا اس کے بعد حضرت علی نے وہ جملے بیان کئے جن میں فرمایا گیا ہے کہ وہ شخص زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے لیکن انہوں نے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینے والی بات نقل نہیں کی ہے۔ تشریح جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ ذریعہ حضرت علی نے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی طرف اشارہ فرمایا ابنی ہذا سید ولعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین یعنی میرا بیٹا سید (سردار) ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان مصالحت ومفاہمت کرائے گا۔ ظاہری شکل و صورت میں آپ ﷺ کے مشابہ نہیں ہوگا۔ یعنی حضرت مہدی سب چیزوں میں اور ہر اعتبار سے حضور ﷺ کی ظاہری شکل و صورت کے مشابہ نہیں ہوں گے، ویسے بعض اعتبار سے ان کا حضور ﷺ کی ظاہری مشابہت رکھنا ثابت ہے جیسا کہ پیچھے بیان ہوا۔ یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرت امام مہدی حضرت امام حسن کی اولاد میں سے ہونگے اور حضرت امام حسین کی طرف ان کی نسبت ماں کی طرف سے ہوگی ! نیز اس سے شیعہ حضرات کے اس قول کی تردید ہوجاتی ہے کہ امام مہدی دراصل محمد ابن حسن عسکری ہیں جو اس دنیا میں موجود ہیں لیکن نظروں سے پوشیدہ ہوگئے ہیں اور اپنے وقت پر ظاہر ہوں گے شیعوں کا یہ قول اس لئے صحیح نہیں ہوسکتا کہ محمد ابن حسن عسکری، بالاتفاق حسینی ہیں وہ حضرت امام حسن کی اولاد میں سے نہیں اگر یہ کہا جائے کہ حضرت علی نے امام حسن کی اولاد میں سے جس شخص کے پیدا ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، ہوسکتا ہے اس سے مراد امام مہدی کے علاوہ کوئی اور شخص ہو تو یہ بات بھی خلاف حقیقت ہوگی، کیونکہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینے والی بات کی نسبت کی گئی ہو، سوائے اس کے کہ یہ صفت مہدی موعود کے بارے میں نقل کی جاتی ہے۔

【28】

ٹڈیوں کا مکمل خاتمہ قیامت کی علامت میں سے ہے

اور حضرت جابر ابن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے جس سال وفات پائی ہے اس سال کا ذکر ہے کہ ٹڈیاں کم ہوگئیں، یعنی خلافت عمر کے آخری سال مدینہ اور اس کے گرد ونواح میں ٹڈی دل پیدا نہیں ہوا حضرت عمر نے اس کو خاص طور سے محسوس کیا اور ٹڈی دل نہ آنے سے سخت غمگین ہوگئے کہ کہیں ٹڈیوں کا مکمل خاتمہ تو نہیں ہوگیا پھر انہوں نے ایک سوار یمن کی طرف، ایک سوار عراق کی طرف اور ایک سوار شام کی طرف بھیجا تاکہ وہ پہنچ کر لوگوں سے دریافت کریں کہ آیا کسی شخص نے کہیں کچھ ٹڈیاں دیکھی ہیں یا نہیں ؟ چنانچھ جس سوار کو یمن بھیجا گیا تھا وہ ایک مٹھی ٹڈیاں لے کر حضرت عمر کے پاس آیا اور ان کے سامنے وہ ٹڈیاں ڈال دیں، حضرت عمر نے ٹڈیاں دیکھیں تو خوشی سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور پھر فرمایا کہ میں ٹڈیوں کے مکمل خاتمہ کے خوف سے اس لئے متفکر اور پریشان ہوگیا تھا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے خداوند بزرگ و برتر نے حیوانات کی ہزار قسمیں پیدا کی ہیں، ان میں چھ سو دریا میں ہیں یعنی بحری حیوانات اور چار سو جنگل میں یعنی خشکی کے حیوانات ہیں اور جب قیامت آنے کو ہوگی تو اس میں سب سے پہلے ٹڈیاں ہلاک ہو نگی، چناچہ جب ٹڈیاں ہلاک ہوں گی تو پھر حیوانات کی دوسری قسمیں بھی اس طرح پے در پے ہلاک ہونا شروع ہوجائیں گی جس طرح موتیوں کی لڑی کھل جاتی ہے اور موتی پے درپے گر کر بکھر نے لگتے ہیں۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔