164. قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر

【1】

قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیوں اور دجال کے ذکر کا بیان

اس باب میں بالک آخر زمانہ کی ان نشانیوں اور علامتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو قیامت کے بالکل قریب ظاہر ہوں گی جیسا کہ پچھلے باب میں چھوٹی نشانیوں اور علامتوں کا ذکر کیا تھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ حضرت امام مہدی کے ظاہر ہونے کا ذکر بھی اسی باب میں ہوتا کیونکہ ان کے وجود کا تعلق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دجال کے ساتھ جڑا ہوا ہے لیکن چونکہ حضرت مہدی کا ذکر پچھلے ابواب کی ان احادیث میں ہوچکا ہے جن میں ایسے فتنوں اور لڑائیوں کا ذکر تھا جو حضرت امام مہدی کے ظاہر ہونے سے پہلے وقوع پذیر ہونگی اور ان کے ظاہر ہونے کے بعد ختم ہوجائیں گی اس لئے اس باب میں ان کا ذکر نہیں ہوا۔ قیامت سے پہلے جن دس نشانیوں اور علامتوں کا ذکر کیا جاتا ہے اور جن کو مولف کتاب نے یہاں نقل کیا ہے ان کے ظاہر اور واقع ہونے کی جو ترتیب احادیث و روایات میں منقول ہے اور شارحین نے ان کے درمیان مطابقت اور موافقت پیدا کرنے کے لئے نقل کیا ہے اور کسی حدیث و روایت میں کچھ اور ترتیب منقول ہے اور شارحین نے ان کے درمیان مطابقت اور موافقت پیدا کرنے کے لئے بہت کچھ لکھا ہے جس کا کچھ حصہ احادیث کی تشریح کے ضمن میں مذکور ہوگا تاہم یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ ان دس نشانیوں اور علامتوں میں سے سب سے بڑی نشانی اور علامت اور سخت ترین بلاء دجال کا ظاہر ہونا ہے جس کے سلسلے میں بہت زیامدہ مشہور تر احادیث منقول ہیں۔ دجال اور مسیح کے معنی دجال کا لفظ دجل سے نکلا ہے جس کے معنی خلط، مکر اور تلبیس کے ہیں، چناچہ جب کوئی شخص صحیح بات کو غلط بات کے ساتھ خلط (گڈمڈ) کرتا ہے اور فریب دیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ دجل الحق بالباطل (اس نے حق کو باطل کے ساتھ گڈمڈ کردیا) ویسے دجل کے معنی کذب یعنی جھوٹ کے بھی آتے ہیں چناچہ دجال کی ذات میں ان دونوں معنوں کا پایا جانا بالکل ظاہر بات ہے اس کے علاوہ قاموس وغیرہ میں دجال کی اور بھی وجہ تسمیہ مذکور ہیں۔ مسیح ایک ایسا مشترک نام ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دجال دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب یہ لفظ دجال کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس کو فقط دجال کے ساتھ مقید کردیتے ہیں یعنی مسیح دجال کہتے ہیں اور جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس لفظ کو مطلق استعمال کرتے ہیں یعنی صرف مسیح کہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مسیح اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ جس اندھے یا کوڑھی اور یا کسی بھی بیمار پر ہاتھ پھیر دیتے تھے وہ چنگا ہوجاتا تھا یا آپ (علیہ السلام) کا پاؤں چونکہ عام لوگوں کی طرح نہیں تھا بلکہ ہموار اور بےخم تلوے کا تھا اس لئے آپ (علیہ السلام) کو مسیح کہا جاتا ہے یا یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ماں کے پیٹ سے بالکل ممسوح پونچھے پانچھے پیدا ہوئے تھے، پیدائش کے وقت بچے جس آلائش کے ساتھ ماں کے پیٹ سے باہر آتے ہیں وہ ان کے ساتھ نہیں تھی، بالکل ساف ستھرے ماں کے پیٹ سے باہر آئے تھے۔ اس اعتبار سے ان کو مسیح کہا جانے لگا بعض حضرات کے نزدیک مسیح کے معنی صدیق کے ہیں اس اعتبار سے آپ (علیہ السلام) کو مسیح کہا جانا بالکل ظاہر بات ہے ! ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ آپ (علیہ السلام) زمین کے فاصلے بہت طے کرتے تھے لہٰذا مساحت کی مناسبت سے آپ کو مسیح کہا جانے لگا، دجال کو بھی مسیح کہنے کی ایک وجہ یہی ہے کہ وہ تقریبا ساری زمین کی سیر کرے گا اور تمام دنیا میں گھومتا پھرے گا، نیز اس ملعون کو مسیح کہنے کی کچھ اور وجوہ بھی ہیں ایک تو یہ کہ اس کی آنکھ غائب ہوگی اور ایک طرف کا چہرہ ممسوح ہوگا، دوسرے یہ کہ وہ ایک ایسی ذات ہوگی جس سے خیروبھلائی کو الگ اور دور کردیا گیا ہوگا جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات سے بدی اور برائی کو الگ اور دور کردیا گیا ہے پس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تو مسیح اللہ ہیں اور دجال ملعون مسیح الضلالت ہے بعض حضرات نے کہا کہ دجال کے لئے مسیح کا لفظ ہے جس کے معنی بد شکل اور بد صورت کے ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے مسیح کا لفظ ہے تاہم بعض لوگوں نے جو یہ کہا ہے کہ دجال کے لئے مسخ کا لفظ ہے تو یہ بات غلط ہے۔

【2】

قیامت آنے کی دس بڑی نشانیاں

حضرت حذیفہ ابن اسید غفاری (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ ہماری طرف آنکلے اور پوچھا کہ تم لوگ کس چیز کا ذکر کر رہے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم قیامت کا تذکرہ کر ہے ہیں تب آپ ﷺ نے فرمایا یقینا قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیوں کو نہ دیکھ لوگے، پھر آپ ﷺ نے ان دس نشانیوں کو اس ترتیب سے ذکر فرمایا ١ دھواں ٢ دجال ٣ دابہ الارض ٤ سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا ٥ حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نازل ہونا ٦ یاجوج ماجوج کا ظاہر ہونا اور (چھٹی، ساتویں اور آٹھویں نشانی کے طور پر، آپ ﷺ نے تین خسوف کا (یعنی تین مقامات پر زمین کے دھنس جانے کا) ذکر فرمایا ایک تو مشرق کے علاقہ میں، دوسرے مغرب کے علاقہ میں اور تیسرے جزیرہ عرب کے علاقہ اور دسویں نشانی، جو سب کے بعد ظاہر ہوگی، وہ آگ ہے جو یمن کی طرف سے نمودار ہوگی اور لوگوں کو گھیر ہانک کر زمین حشر کی طرف لے جائے گی اور ایک حدیث میں یوں ہے کہ وہ ایک ایسی آگ ہوگی جو ( یمن کے مشہور شہر عدن کے آخری کنارے سے نمودار ہوگی اور لوگوں کو ہانک کر زمین حشر کی طرف لے جائے گی نیز ایک روایت میں دسویں نشانی کے طور پر یمن کی طرف سے یا عدن کے آخری کنارے سے آگ کے نمودار ہونے کے بجائے) ایک ایسی ہوا کا ذکر کیا گیا ہے جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی۔ (مسلم ) تشریح حدیث میں قیامت کی جن دس بڑی نشانیوں اور علامتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں پہلی نشانی کے طور پر دھویں کا ذکر ہے، چناچہ وہ ایک بڑا دھواں ہوگا جو ظاہر ہو کر مشرق سے مغرب تک تمام زمین پر چھاجائیگا اور مسلسل چالیس روز تک چھایا رہے گا اس کی وجہ سے تمام لوگ سخت پریشان ہوجائیں گے، مسلمان تو صرف دماغ وحو اس کی کدورت اور زکام میں مبتلا ہوں گے مگر منافقین و کفار بیہوش ہوجائیں گے اور ان کے ہوش وحو اس اس طرح مختل ہوجائیں گے کہ بعضوں کو کئی دن تک ہوش نہیں آئے گا واضح رہے کہ قرآن کریم میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ آیت (فَارْتَ قِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَا ءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ ) 44 ۔ الدخان 10) تو حضرت حذیفہ (رض) اور ان کے تابعین کے قول کے مطابق اس آیت میں اسی دھویں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن حضرت ابن مسعود اور ان کے تابعین کے نزدیک اس آیت میں دھویں سے مراد غلہ کا وہ قحط ہے جو آنحضرت ﷺ کے زمانے میں قریش مکہ پر نازل ہوا تھا اور جس کا حقیقی سبب رسول کریم ﷺ کی یہ بدعا تھی کہ اے اللہ ! تو ان لوگوں پر (جو سرکشی اور اسلام دشمنی میں حد سے بڑھ گئے ہیں سات سال کا قحط نازل فرما جیسا کہ تو نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں مصریوں پر نازل فرمایا تھا، چناچہ اس بددعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو سخت ترین غذائی قحط میں مبتلا کیا یہاں تک کہ وہ چمڑے، ومردے اور دوسری الا بلا چیزیں کھانے لگے تھے اس عرصہ میں انہیں فضا میں دھویں کی مانند ایک چیز نظر آتی تھی جس کو وہ اپنے اوپر منڈلاتے ہوئے دیکھا کرتے تھے جیسا کہ کوئی بھوکا ضعف و کمزوری کی شدت کے سبب اپنی آنکھوں کے آگے تاریکی محسوس کرتا ہے اور فضا میں بھری ہوئی ہوا اس کو دھویں کی شکل میں دکھائی دیتی ہے، ویسے بھی جب کسی علاقہ میں قحط سالی پھیل جاتی ہے تو بارش نہ ہونے کی وجہ سے پورے ماحول میں خشکی اور گردوغبار کی جو کثرت ہوجاتی ہے وہ فضا کو اس طرح مکدر کردیتی ہے کہ چاروں طرف دھویں کی صورت میں اندھیرا معلوم ہونے لگتا ہے۔ دابۃ الارض سے مراد ایک عجیب الخلقت اور نادر شکل کا جانور ہے جو مسجد حرام میں کوہ صفا ومروہ کے درمیان سے برآمد ہوگا اور جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ان الفاظ واخر جنا لہم دابۃ من الارض کے ذریعہ کیا گیا ہے ! علماء نے لکھا ہے کہ وہ جانور چوپایہ کی صورت میں ہوگا جس کی درازی ساٹھ گز کی ہوگی اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس عجیب الخلقت جانور کی شکل یہ ہوگی کہ چہرہ انسانوں کی طرح پاؤں اونٹ کی طرح گردن گھوڑے کی طرح سرین ہرن کی طرح سینگ بارہ سنگے کی طرح اور ہاتھ بندر کی طرح ہوں گے ! نیز اس کے نمودار ہونے کی صورت یہ ہوگی کہ کوہ صفا جو کعبہ کی مشرقی جانب واقع ہے، یکایک زلزلہ سے پھٹ جائے گا اور اس میں سے یہ جانور نکلے گا، اس کے ہاتھ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا ہوگا اور دوسرے ہاتھ میں حضرت سلیمان کی انگشتری ہوگی تمام شہروں اور علاقوں میں اتنی تیزی کے ساتھ دورہ کرے گا کہ کوئی فرد بشر اس کا پیچھا نہ کرسکے گا اور دوڑ میں اس کا مقابلہ کر کے اس سے چھٹکارا نہ پا سکے گا جہاں جہاں جائے گا ہر شخص پر نشان لگاتا جائے گا جو صاحب ایمان ہوگا اس کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصاء سے چھوئے گا اور اس کی پیشانی پر مومن لکھ دے گا اور جو کافر ہوگا اس پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی انگشتری سے سیاہ مہر لگا دے گا اور اس کے منہ پر کافر لکھ دے گا ! بعض حضرات نے کہا ہے کہ دابۃ الارض تین مرتبہ نکلے گا ایک دفعہ تو حضرت امام مہدی کے زمانہ میں پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں اور پھر آخری دفعہ آفتاب کے مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کے بعد۔ آفتاب کے مغرب کی طرف سے نکلنے کے سلسلے میں وضاحت آگے آنے والی ایک حدیث کی تشریح میں بیان ہوگی ! آسمان سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول حضرت امام مہدی کے ظہور کے بعد ہوگا، چناچہ آپ ایک دن شام کے وقت آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی سفید منارہ پر اتریں گے اور پھر دجال کو تلاش کرکے اس کو دروازہ لد پر قتل کریں گے لد شام میں ایک موضع کا نام ہے اور بعض حضرات نے اس کو فلسطین کے ایک موضع کا نام بتایا ہے واضح رہے کہ یہاں حدیث میں جن دس نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی ترتیب کے بارے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ان میں سے سب سے پہلے جس نشانی کا ظہور ہوگا وہ دھواں ہے، اس کے بعد دجال نکلے گا پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے نازل ہوں گے، پھر یاجوج ماجوج نکلیں گے، پھر دابۃ الارض نکلے گا اور پھر آفتاب مغرب کی جانب سے طلوع ہوگا یہ بات اس لئے کہی جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں تمام روئے زمین پر اہل ایمان کے علاوہ کوئی نہیں ہوگا کیونکہ سارے کفار مسلمان ہونگے ان کا ایمان مقبول ہوگا، اس کے برخلاف اگر یہ کہا جائے کہ مغرب کی جانب سے آفتاب کا طلوع ہونا، دجال کے نکلنے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے سے پہلے ہوگا تو ظاہر ہے کہ جو کفار حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں مسلمان ہوں گے ان کا ایمان مقبول قرار نہ پائے کیونکہ آفتاب مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا اور اس وقت کسی کافر کا ایمان قبول کرنا معتبر نہیں ہوگا جب کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ایمان قبول کرنے والے تمام لوگوں کا ایمان معتبر ہوگا اور وہ مسلمان مانے جائیں گے ! پس حدیث میں مذکورہ نشانیوں کو جس ترتیب کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے وہ ان نشانیوں کے وقوع پذیر ہونے کی اصل ترتیب نہیں ہے اور نہ یہاں اصل ترتیب کا ذکر کرنا مراد ہے بلکہ اصل مقصد ان نشانیوں کو ایک جگہ ذکر کرنا ہے سو بلا لحاظ ترتیب ان کو ایک جگہ ذکر کردیا گیا لہٰذا یہ اشکال وار نہیں ہوسکتا کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول آفتاب کے مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کے واقعہ سے پہلے ہوگا تو یہاں نزول آفتاب کے بعد کیوں ذکر کیا گیا۔ یاجوج ماجوج دراصل دو قبیلوں کے نام ہیں جو یافث ابن نوح کی اولاد میں سے ہیں، یہ دونوں قبیلے بہت وحشی مگر طاقتور تھے ان کا خاص مشغلہ لوٹ مار اور زمین پر فساد پھیلانا تھا، یہ قبیلے جس گھاٹی میں رہا کرتے تھے اس کو ذو القرنین نے ایک ایسی دیوار سے جس کی بلندی اس گھاٹی کے دونوں طرف کے پہاڑوں کی چوٹی تک پہنچتی ہے اور موٹائی ٦٠ گز کی ہے، بند کرا دیا تھا تاکہ لوگ ان قبیلوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہ سکیں، جب قیامت آنے کو ہوگی اور یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وقت آئے گا تو دیوار ٹوٹ جائے گی۔ آپ ﷺ نے تین خسوف کا ذکر فرمایا کے بارے میں ابن مالک نے کہا ہے کہ عذاب الہٰی کے طور پر زمین کا دھنس جانا مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں واقع ہوچکا ہے لیکن احتمال ہے کہ یہاں حدیث میں جن تین خسوف کا ذکر فرمایا ہے وہ پہلے واقع ہو چکنے والے خسوف کے علاوہ ہوں گے اور ان سے بھی زیادہ سخت ہوں گے۔ اور لوگوں کو ہانک کر زمین حشر کی طرف لے جائے گی میں زمین حشر سے مراد ملک شام کا وہ علاقہ ہے جہاں وہ آگ لوگوں کو لے جا کر چھوڑے گی بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس آگ کی ابتداء ملک شام سے ہوگی، یا یہ کہ ملک شام کو اس قدر وسیع وفراخ کردیا جائے گا کہ پورے عالم کے لوگ اس میں جمع ہوجائیں گے بہر حال حدیث کے اس جملہ کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اس آگ کا لوگوں کو ہانکنا، حشر کے بعد ہوگا۔ اگر زمین حشر سے مراد میدان حشر لیا جاتا تو یقینا یہ مفہوم پیدا ہوتا اور اس پر اعتراض بھی واقع ہوتا، لیکن جب یہاں میدان حشر مراد ہی نہیں ہے تو پھر کوئی اعتراض بھی پیدا نہیں ہوسکتا ! نیز ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ وہ آگ حجاز کی سر زمین سے نمودار ہوگی، جب کہ یہاں حدیث میں اس کا یمن کی جانب سے نمودار ہونا بیان کیا گیا ہے) لہذا قاضی عیاض نے یہ کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ قیامت کی نشانی کے طور پر جس آگ کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایک نہیں دو ہوں گی اور وہ دونوں، لوگوں کو گھیر کر ہانک کر زمین حشر (یعنی ملک شام) کی طرف لے جائیں گی۔ یا یہ کہ وہ آگ تو ایک ہی ہوگی جو ابتداء میں یمن کی جانب سے نکلے گی لیکن اس کا ظہور حجاز کی سر زمین سے ہوگا۔ اس موقع پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں بخاری کی جو روایت ہے اس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ قیامت کی علامتوں میں سے سب سے پہلی علامت وہ آگ ہوگی جو لوگوں کو مشرق کی طرف سے گھیر ہانک کر مغرب کی طرف لے جائے گی جب کہ حقیقت میں وہ آگ سب سے آخری علامت ہوگی جیسا کہ یہاں حدیث میں مذکور ترتیب سے بھی واضح ہوتا ہے، پس اس تضاد کو اس تاویل کے ذریعہ دور کیا جائے گا کہ آگ کی سب سے آخری نشانی مذکورہ آگ ہوگی اور بخاری کی روایت میں آگ کو جو سب سے پہلی نشانی قرار دیا گیا ہے تو وہ اس اعتبار سے کہ آگ، قیامت کی ان نشانیوں میں سے سب سے پہلی نشانی ہوگی جن کے بعد دنیا کی چیزوں میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہے گی بلکہ ان نشانیوں کے وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ہی صور پھونکا جایئگا، ان کے برخلاف یہاں حدیث میں جن نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے ہر ایک نشانی کے بعد بھی دنیا کی چیزیں باقی رہیں گی۔ ایک ایسی ہوا کا ذکر کیا گیا ہے جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی یہ روایت بظاہر اس روایت کے خلاف ہے جس میں آگ کا ذکر ہے پس ان دونوں روایتوں کے درمیان مطابقت ویکسانیت پیدا کرنے کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ اس دوسری روایت میں لفظ ناس (لوگوں) سے مراد کفار ہیں اور ان کو ہانکنے والی آگ ہوا کے سخت جھکڑ کے ساتھ ملی ہوئی ہوگی تاکہ ان کفار کو سمندر میں دھکیلنے کا عمل زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پورا ہو، نیز مذکورہ آگ جس کا پانی آگ کی صورت میں تبدیل ہوجائے گا، چناچہ قرآن کریم ان الفاظ و اذا لبحار سجرت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ تبدیل ہوجائے گا چناچہ قرآن کریم کے ان الفاظ میں اسی حقیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کے برخلاف مومنین کے لئے جو آگ ہوگی وہ محض ان کو ڈرانے کے لئے ہوگی اور کوڑے کی طرح اس کا کام یہ ہوگا کہ انہیں ہانک کر زمین حشر اور موقف اعظم کی طرف لے جائے۔

【3】

قیامت کی وہ چھ نشانیاں جن کے ظاہر ہونے سے پہلے زیادہ سے زیادہ اعمال صالح اختیار کرلو

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا چھ چیزوں کی بناء پر تم اعمال صالحہ کی طرف پیش قدمی کرلو اور وہ چھ چیزیں یہ ہیں دھواں، دجال، دابہ الارض، مغرب سے طلوع آفتاب، امر عامہ، (یعنی وہ فتنہ عام جو تمام لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے) اور فتنہ خاص (کہ جو تم میں سے کسی کے ساتھ مخصوص ہو ) ۔ ( مسلم ) تشریح چھ چیزوں کی بناء پر الخ کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کی ان چھ نشانیوں کے ظاہر ہونے اور ان کے آپہنچنے سے پہلے پہلے جس قدر زیادہ ہو سکے نیک کام کرلو کیونکہ ان چیزوں کے بعد یا تو نیک کام کرنا نہایت دشوار ہوجائے گا یا اگر کوئی نیک کام کیا بھی جائے گا تو اس کا اعتبار ہی نہیں ہوگا امر عامہ سے مراد برائی اور دین سے بیزاری کا وہ ہمہ گیر فتنہ ہے جو اجتماعی طور پر تمام لوگوں کو گھیرے گا اور پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آجائے اور فتنہ خاص سے مراد وہ مخصوص مسائل وآفات ہیں جو انفرادی طور پر کسی بھی شخص کو اس طرح پریشان حال اور پراگندہ خاطر کردیتے ہیں کہ وہ دین وآخرت کے معاملات کی طرف زیادہ توجہ دینے سے باز رہتا ہے جیسے اپنے یا اپنے اہل و عیال اور مال و جائیداد کے بارے میں مختلف قسم کی پریشانیاں اور مشغولیتیں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہاں امر عامہ سے مراد قیامت اور فتنہ خاص سے مراد موت ہو اس صورت میں کہا جائے گا کہ حدیث کا مقصد چونکہ لوگوں کو قیامت کی علامتوں سے ڈرانا اور چوکنا کرنا ہے اس لئے ان علامتوں کے ضمن میں خود قیامت اور قیامت صغری یعنی موت کے آنے سے بھی ڈرایا گیا ہے۔

【4】

قیامت کی سب سے پہلی علامت

اور حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ظاہر ہونے کے اعتبار سے قیامت کی نشانیوں میں سب سے پہلی نشانی آفتاب کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت لوگوں پر دابۃ الارض کا نکلنا اور ان سے اس کا بات کرنا ہے ان دونوں مذکورہ نشانیوں میں سے جو نشانی پہلے ظاہر ہوگی اس کے جلد ہی بعد دوسری ظاہر ہوجائے گی۔ (مسلم ) تشریح طیبی نے اس حدیث کی وضاحت میں کہا ہے کہ اگر یہاں اشکال پیدا ہو کہ آفتاب کا مغرب کی طرف سے نکلنا قیامت کی سب سے پہلی نشانی نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے تو دھویں اور دجال کا ظہور ہوچکا ہوگا ؟ تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ جن چیزوں کو قیامت کی نشانیاں قرار دیا گیا ہے ان کی دو قسمیں ہیں، ایک تو وہ نشانیاں ہیں جو قیامت کے وقت قریب آجانے کی علامت ہیں اور دوسری وہ نشانیاں ہیں جو قیام قیامت کے وجود اور اس کے آجانے پر دلالت کریں گی پس پہلی قسم کی نشانیوں سے سب سے پہلی نشانی تو آنحضرت ﷺ کی بعثت ہے اور پھر آخری کی باقی نشانیوں میں سے دھواں، دجال کا نکلنا اور اس طرح کی دوسری علامتیں ہیں دوسری قسم کی نشانیوں میں سے آفتاب کا مغرب کی طرف سے نکلنا زلزلہ اور اس آگ کا نمودار ہونا ہے جو لوگوں کو گھیر ہانک کر محشر کی طرف لے جائے گی، چناچہ مغرب کی طرف سے آفتاب کے طلوع ہونے کو سب سے پہلی نشانی اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ اسی نشانی سے دوسری قسم کی نشانیوں کی ابتداء ہوگی۔ وخروج الدابۃ علی الناس میں لفظ خروج کا عطف طلوع الشمس پر ہے جو لفظ اول کی خبر ہے، اس صورت میں یہ لازم آتا ہے کہ سب سے پہلی نشانی، ایک سے زائد ہو، حالانکہ یہ صحیح نہیں ہوگا، لہذا ابن مالک نے کہا ہے کہ خروج میں حرف واؤ شاید کہ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اس صورت میں عبارت کا ترجمہ یوں ہوگا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے سب سے پہلی نشانی آفتاب کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا یا چاشت کے وقت لوگوں پر دابۃ الارض کا نکلنا اور ان سے اس کا بات کرنا ہے یہ وضاحت نہ صرف یہ کہ حدیث کہ آخری الفاظ ایہما ما کانت الخ کے مطابق ہے بلکہ اس کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں یوں ہے کہ اوخروج الدابۃ علی الناس۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں نشانیوں کے واقع ہونے کے درمیان جو وقفہ ہوگا وہ دوسری نشانیوں کے درمیانی وقفوں کی بہ نسبت بہت کم ہوگا، چناچہ اگر مغرب کی طرف سے آفتاب کا طلوع ہونا پہلے ہوا تو دابۃ الارض کا نکلنا اس کے فورا بعد ہوگا اور اگر پہلے دابۃ الارض نکلے گا تو مغرب کی طرف سے آفتاب کا طلوع ہونا اس کے فورا بعد ہوگا ! واضح رہے کہ ان دونوں علامتوں کی ترتیب اور تقدم وتاخر کے سلسلے میں تعین کے ساتھ وحی نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ اس بات کو مبہم چھوڑ دیا گیا تھا البتہ اتنا بتادیا گیا کہ یہ دونوں علامتیں اپنی نوعیت کی اور دوسری علامتوں سے پہلے ظاہر ہوں گی ! نیز اس موقع پر یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ جس حدیث میں یہ منقول ہے کہ۔۔۔ ان اولہا خروج الدجال (یعنی قیامت کی علامتوں میں سے سب سے پہلی علامت دجال کا نکلنا ہے) تو وہ حدیث صحیح نہیں ہے۔

【5】

قیامت کی وہ تین علامتیں جن کا ظاہر ہونا یقینی ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تین باتیں جب ظہور میں آجائیں گی تو پھر کسی ایسے شخص کا ایمان لانا اور کفر سے توبہ کرنا کہ جس نے اس سے پہلے ایمان قبول نہیں کیا ہوگا، کوئی فائدہ نہیں دے گا اور نہ اس شخص کا ابنے ایمان کی حالت میں نیک عمل کرنا فائدہ مند ہوگا اگر اس نے اس سے پہلے وہ نیک عمل نہ کیا ہوگا (یعنی اس وقت گناہوں سے توبہ کرنا بھی معتبر نہ ہوگا) اور وہ تین باتیں یہ ہیں، آفتاب کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا، دجال اور دابۃ الارض کا نکلنا۔ (مسلم ) تشریح مطلب یہ ہے کہ ان نشانیوں کو دیکھ کر چونکہ قیامت کا آنا متعین ہوجائے گا اور اس وقت اس دنیا کی پر فریب زندگی کا پردہ اس طرح چاک ہوجائے گا کہ آخرت کی زندگی اور وہاں کے احوال، نظر و مشاہدہ میں آجائیں گے اس لئے اس وقت کفر اور گناہوں سے توبہ کرنا اور ایمان قبول کرنا معتبر نہیں ہوگا کیونکہ ایمان تو وہی معتبر ہے جو غیب پر یقین کے ساتھ ہو۔ یہاں حدیث میں مغرب کی طرف سے آفتاب کے طلوع ہونے کو باقی دونوں سے پہلے ذکر کیا گیا ہے جب کہ وقوع پذیر ہونے کے اعتبار سے اس کا نمبر بعد میں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان کے قبول ہونے کا اصل مدار اسی پر ہے یعنی توبہ اور ایمان کا قبول نہ ہونا اسی وقت ہوگا جب آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا، لہذا پہلے اس کا ذکر کیا گیا اور اس کے ساتھ دو اور نشانیوں یعنی دجال اور دابۃ الارض کے نکلنے کو بھی ملا دیا گیا۔

【6】

جب آفتاب کو مغرب کی طرف سے طلوع ہونے کا حکم ملے گا

اور حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن جب کہ آفتاب غروب ہو رہا تھا رسول کریم ﷺ مجھ سے فرمانے لگے، جانتے ہو یہ آفتاب کہاں جار ہا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا یہ آفتاب جاتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے پہنچ کر سجدہ کرتا ہے، پھر حضور رب العزت میں حاضری کی اجازت مانگتا ہے، اس کو اجازت عطا ہوتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ مشرق کی طرف لے جائے اور وہاں سے طلوع کرے اور یاد رکھو وہ وقت جلد ہی آنے والا ہے جب آفتاب (اپنے معمول کے مطابق سجدہ کرے گا لیکن اس کا سجدہ قبول نہیں ہوگا اور اجازت چاہے گا لیکن اس کو اجازت عطا نہیں ہوگی اور یہ حکم دیا جائے گا کہ جس طرف سے آیا ہے اسی طرف لوٹ جا چناچہ وہ مغرب کی طرف سے طلوع کرے گا اور یہی مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول سے کہ والشمس تجری لمستقرلھا (یعنی آفتاب اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے نیز آنحضرت ﷺ نے (آفتاب کے مستقر کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ آفتاب کا مستقر یعنی اس کے ٹھہرنے کی جگہ عرش کے نیچے ہے۔ (بخاری ) تشریح بعض علماء نے کہا ہے کہ اس حدیث میں فانہا تذہب حتی تسجد تحت العرش کے الفاظ قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف نہیں ہیں جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ حتی بلغ مغرب الشمس وجدھا تغرب فی عین حمیۃ کیونکہ اس آیت کی مراد اصل حد نظر کو بیان کرنا ہے، جب کہ یہاں حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ سورج ڈوبنے کی جو بات فرمائی گئی ہے اس کی مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آفتاب عرش کے نیچے پہنچ کر مستقر ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اس کے مستقر ہونے کی کیفیت و حقیقت کیا ہوتی ہے تو اس کا ادراک اظہار انسانی علم کے احاطہ سے باہر ہے۔ لفظ تستاذن میں استیذان سے مراد حضور حق میں حاضری کی اجازت چاہنا۔ لیا گیا ہے، لیکن اس لفظ کا زیادہ واضح مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ آفتاب عرش کے نیچے سجدہ ریز ہونے کے بعد اپنے معمول کے مطابق طلوع کرنے کی اجازت چاہتا ہو اور اس کو وہ اجازت ہوتی ہے۔ آفتاب کا مستقر عرش کے نیچے ہے کا مطلب یہ ہے کہ آفتاب غروب ہونے کے بعد عرش کے نیچے جاتا ہے اور وہاں سجدہ کرتا ہے پھر وہ اجازت طلب کرتا ہے جس پر اس کو اجازت دی جاتی ہے واضح رہے کہ مذکورہ آیت (وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَ قَرٍّ لَّهَا) 36 ۔ یس 38) کی تفسیر میں بیضاوی نے مستقر کے کئی معنی بیان کئے ہیں، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے مستقر کی اس وضاحت کو قطعًا ذکر نہیں کیا ہے جو بخاری ومسلم کی مذکورہ بالا حدیث میں بیان ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ قابل اعتماد ہے اور جس سے یہ متعین ہوجاتا ہے کہ مستقر سے کیا مراد ہے۔

【7】

فتنہ دجال سے بڑا کوئی فتنہ نہیں

اور حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آدم کی پیدائش سے لے کر قیامت کے دن تک (یعنی کائنات انسانی کے پورے زمانہ میں ابتلاء واختلال اور استدراج کے اعتبار سے دجال کے فتنہ سے بڑا کوئی فتنہ نہیں۔ (مسلم )

【8】

فتنہ دجال سے بڑا کوئی فتنہ نہیں

اور حضرت عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یقینًا اللہ تعالیٰ تم پر مخفی نہیں ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے جب کہ مسیح دجال داہنی آنکھ سے کانا ہوگا۔ اور اس کی وہ آنکھ ایسی ہوگی جیسے وہ انگور کا ایک پھولا ہوا دانا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اللہ تعالیٰ تم پر مخفی نہیں ہے یہ جملہ دراصل آگے کی عبارت اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے الخ کی تمہید کے طور پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کی بتائی ہوئی باتوں کی روشنی میں تم اللہ تعالیٰ کی حقیقت سے آگاہ ہو اور اس کی ذات کو تم نے اس کی صفات کاملہ کے ساتھ پہچان رکھا ہے، لہٰذا جب دجال کا ظہور ہو اور وہ اپنی شعبدہ بازیوں اور فریب کاریوں کے ذریعہ تمہیں تمہارے رب کے بارے میں گمراہ کرنا چاہے تو تم گمراہ نہ ہونا۔ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں کسی نقصان وعیب کی نفی کرنا مراد ہے نہ کہ اس کی ذات کے لئے کوئی جسمانی عضو کو صحیح وسالم ثابت کرنا مراد ہے گویا اصل مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی جنس سے نہیں ہے اور نہ اس کی آدمیوں جیسی آنکھ ہے چہ جائیکہ وہ کانا ہو۔ لفظ طافیۃ یہاں توی کے ساتھ منقول ہے ویسے بعض روایتوں میں یہ لفظ ہمزہ کے ساتھ بھی نقل کیا گیا ہے، اس کے لغوی معنی بلند کے ہیں لہٰذا عنبۃ طافیۃ کا مفہوم ہے انگور کا پھولا ہوا دانا واضح رہے کہ دجال کی آنکھ کے سلسلہ میں یہ روایت اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ انہا لیت بناتئۃ ولا حجراء یعنی اس کی وہ آنکھ نہ ابھری ہوئی ہوگی اور نہ دھنسی ہوئی اور دونوں روایتوں کے درمیان منافات اس اعتبار سے نہیں ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں باتیں اس کی آنکھوں میں پائی جائیں، یعنی اس کی ایک آنکھ تو اس طرح کی کافی ہوگی جیسے انگور کا پھولا دنا اور دوسری آنکھ اس طرح کی ہوگی کہ نہ تو وہ ابھری ہوئی ہوگی اور نہ دھنسی ہوئی تورپشتی نے کہا ہے کہ وہ دجال کی جسمانی حالت خصوصا آنکھ کے بارے میں جو احادیث منقول ہیں ان سب میں بہت زیادہ باہمی تضاد وتعارض ہے اور بسا اوقات ان کے درمیان مطابقت پیدا کرنا مشکل ہوجاتا ہے مثلًا یہاں جو حدیث نقل ہوئی ہے اس میں تو یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اس کی آنکھ طافیہ (بلند) ہوگی جیسا کہ انگور کا کوئی پھولا ہوا دانا ہوتا ہے، ایک حدیث میں یہ ہے کہ وہ جاحظ العین یعنی ابھری ہوئی آنکھ والا ہوگا اور ابھری ہوئی آنکھ نہ تو ابھری ہوئی ہوگی اور نہ دھنسی ہوئی ہوگی پس ان تمام روایات میں مطابقت کے لئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس کی آنکھ کی جو مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں ان کا تعلق دونوں آنکھوں کے ایک دوسرے سے مختلف ہونا ہے یعنی ایک آنکھ اس طرح کی ہوگی اور ایک اس طرح کی اس کی تائید عبداللہ کی مذکورہ بالا روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں دجال کا دائیں آنکھ سے کانا ہونا نقل کیا گیا ہے اس سلسلہ میں جو روایت حضرت حذیفہ (رض) سے منقول ہے اس میں یہ ہے کہ وہ ممسوح العین (یعنی مٹی ہوائی آنکھ والا ہوگا) اور اس کی آنکھ پر موٹا ناخنہ ہوگا، نیز ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ بائیں آنکھ سے کانا ہوگا ان روایتوں کے درمیان مطابقت کرنے کے لئے بھی یہی کہا جائے گا کہ اس کی آنکھ کے عیب دار ہونے کی جو مختلف نوعیتیں بیان کی گئیں ہیں وہ الگ الگ دونوں آنکھوں کے اعتبار سے ہیں یعنی اس کی ایک آنکھ تو بالکل غائب ہوگی اور دوسری بھی عیب دار ہوگی۔ اس طرح اس کی دونوں آنکھوں پر عور کا اطلاق ہوسکتا ہے کیونکہ عور کے اصل معنی عیب کے ہیں لہٰذا اس کی دائیں آنکھ بھی عیب دار ہوگی اور بائیں آنکھ بھی۔

【9】

ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایسا کوئی نبی ﷺ نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو جھوٹے کانے (دجال سے نہ ڈرایا ہو آگاہ رہو، دجال کانا ہوگا اور تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے، نیز اس دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک ف ر (یعنی کفر کا لفظ) لکھا ہوگا۔ (بخاری ومسلم) تشریح ایسا کوئی نبی نہیں گزرا الخ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دجال کے ظاہر ہونے کا متعینہ وقت کسی پر بھی ظاہر نہیں فرمایا بس اس قدر معلوم ہے کہ وہ قیامت سے پہلے ظاہر ہوگا اور چونکہ قیامت آنے کا متعین وقت کسی کو نہیں معلوم ہے اس لئے دجال کے ظاہر ہونے کا متعین وقت بھی کسی کو نہیں معلوم۔ ک ف ر سے کفر کا لفظ مراد ہے، چناچہ مصابیح اور مشکوۃ کے نسخوں میں یہ تینوں حرف اسی طرح علیحدہ علیحدہ لکھے ہوئے ہیں اور اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ گویا دجال کے چہرے پر کفر کا لفظ اسی طرح لکھا ہوگا نیز اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ دجال دراصل تباہی و ہلاکت یعنی کفر کی طرف بلانے والا اور کفر کے پھیلنے کا باعث ہوگا نہ کہ فلاح ونجات کی طرف بلانے والا ہوگا، اس سے بچنا اور اس کی اطاعت نہ کرنا واجب ہوگا درحقیت یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت کے حق میں ایک بڑی نعمت ہے کہ دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان کفر کا لفظ نمایاں ہوگا جس سے ہر صاحب ایمان کو اس کے مکر و فریب سے بچنے میں آسانی ہوگی۔

【10】

دجال کی جنت اور دوزخ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ آگاہ رہو کہ دجال کے بارے میں ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی اور نبی ﷺ نے اپنی قوم کو نہیں بتائی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ دجال کانا ہوگا اور وہ اپنے ساتھ جنت و دوزخ کی مانند دو چیزیں لائے گا پس وہ جس چیز کو جنت کہے گا حقیقت میں وہ آگ ہوگی لہٰذا میں تمہیں اس دجال سے ڈراتا ہوں جیسا کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اس سے ڈریا تھا۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ دجال کے پاس چونکہ بڑی زبر دست طلسماتی طاقت ہوگی اس لئے وہ اپنے ساتھ ایک بہت بڑا باغ اور آگ کا پھندا لئے پھرے گا جس کو وہ اپنی جنت اور دوزخ سے تعبیر کرے گا ! یا جنت سے مراد آسائش و راحت کے سامان یا اس کے الطاف و عنایات ہیں اور دوزخ سے مراد رنج و کلف کی چیزیں اور اس کی ایذا رسانیاں ہیں۔ حقیت میں وہ آگ ہوگی۔ کی وضاحت ایک شارح نے یہ کی ہے کہ کسی شخص کا دجال کی اس جنت میں داخل ہونا اور اس کو قبول کرنا درحقیت عذاب الٰہی میں گرفتار ہونا اور دوزخ میں جانے کا راستہ اختیار کرنا ہے اسی پر قیاس کر کے دوسرا جز یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ دجال جس چیز کو دوزخ کہے گا حقیقت میں وہ بہشت ہوگی، یعنی جو شخص اس کی اطاعت نہیں کرے گا اور اس کی وجہ سے وہ اس کو اپنی دوزخ میں ڈالے گا وہ شخص درحقیقت دجال کی تکذیب کرنے اور اس کے آگے جھکنے سے انکار کردینے کے سبب بہشت میں داخل ہوگا ! ایک وضاحت تو یہ ہے، لیکن زیادہ قریبی مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ دجال جس چیز کو اپنی جنت اور جس چیز کو اپنی دوزخ بتائے گا اور ان میں جن لوگوں کو داخل کرے گا وہ دونوں کے لئے بالکل برعکس ثابت ہوں گی اور ان کا فعل الٹا ہوجائیگا یعنی جن لوگوں کو تکلیف واذیت میں مبتلا کرنے کے لئے اپنی دوزخ میں ڈالے گا وہ ان کے لئے رنج و تکلیف کے بجائے اطمینان و راحت کی جگہ بن جائے گی اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے ہے القبر روضۃ من ریاض الجنۃ او حفرۃ من حفر النار (قبر یا تو جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے) یعنی قبر کا ماحول اور اس کا فعل بندوں کے اعتبار سے مختلف ہوجاتا ہے، جس بندے سے اللہ خوش ہوتا ہے اس کے لئے اس کی قبر رنج وکلفت کی آلام گاہ ہوجاتی ہے اور اس کے قبیل سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یا نار کونی بردا وسلاما علی ابراہیم ( اے آگ تو ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے ٹھنڈگ اور سلامتی کا سبب بن جا) نیز یہی حال اس مکدر دنیا کا ہے جس کو قید خانہ کہا گیا ہے لیکن یہی قید خانہ اپنی تمام تر سختیوں اور تنگیوں کے باوجود ان عارفین اور اہل اللہ کے لئے جنت کا روپ اختیار کرلیتا ہے جو مقام رضا پر فائز ہوتے ہیں اور اللہ کی خوشنودی کی خاطر یہاں کی ہر تنگی و سختی کو صبر و عزیمت اور خوش دلی کے ساتھ برداشت کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ولمن خاف مقام ربہ جنتن۔ کہ ان مردان حق آگاہ کے لئے دو جنتیں ہیں، ایک تو یہی دنیا ان کے لئے جنت بن جاتی ہے اور ایک جنت انہیں عقبی میں ملے گی اسی لئے عارفین کی نظر میں دنیا بالکل برعکس معلوم ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک دنیا کی نعمت و راحت درحقیقت نقمت یعنی عذاب ہوتی ہے اور یہاں کی نقمت حقیقت میں نعمت ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ حدیث کا اصل مقصد چونکہ لوگوں کو دجال کی فریب کاریوں سے ڈرانا ہے اس لئے اس موقع پر صرف پہلے جز، یعنی دجال کی جنت کی حقیقت کے ذکر پر اکتفا فرمایا گیا، اگرچہ بعض دوسری حدیثوں میں دوسرے جزء یعنی اس کی دوزخ کی حقیقت کو بھی صریح بیان فرمایا گیا ہے پس مفہوم کے اعتبار سے اس موقع پر پوری عبارت گویا یوں ہوگی کہ پس وہ جس چیز کو جنت کہے گا حقیقت میں وہ آگ ہوگی اور جس چیز کو دوزخ کہے گا حقیقت میں وہ جنت ہوگی۔ دجال کے سلسلے میں عمومی طور پر ہر نبی ﷺ کا ذکر کرنے کے بعد پھر آخر میں خاص طور پر حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر کرنا اس حقیقت کی بناء پر ہے کہ مشاہیر انبیاء میں انہیں کی ذات مقدم ہے۔

【11】

دجال جس شخص کو مصیبت میں ڈالے کا وہ درحقیقت راحت میں ہوگا

اور حضرت حذیفہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا دجال اس حالت میں ظاہر ہوگا کہ اس ساتھ پانی ہوگا اور آگ ہوگی، تاہم لوگ جس چیز کو پانی سمجھیں گے وہ حقیقت میں جلانے والی ہوگی اور جس چیز کو لوگ آگ سمجھیں گے وہ حقیقت میں ٹھنڈا اور شیریں پانی ہوگا پس تم میں سے جو شخص اس کو (یعنی دجال اس کی تکذیب سے ناراض ہو کر اس کو اپنی آگ میں ڈال دے گا) کیونکہ حقیقت میں وہ (آگ نہیں ہوگی بلکہ نہایت شیریں اور پسندیدہ پانی ہوگا۔ (بخاری ومسلم) اور مسلم نے اپنی روایت میں یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ۔ دجال ممسوح العین ہوگا (یعنی اس کی ایک آنکھ کی جگہ پیشانی کی طرح بالکل سپاٹ ہوگی کہ وہاں آنکھ کا کوئی نشان بھی نہیں ہوگا) اور اس پر (یعنی دوسری آنکھ پر) بھاری نامنہ ہوگا گویا اس کی ایک آنکھ تو بالکل غائب ہی ہوگی اور دوسری آنکھ پر بھی گوشت یا کھال کا ایک موٹا ٹکڑا ہوگا، یا یہ معنی ہیں کا اس غائب آنکھ پر ناخنہ ہوگا) اور اس کی آنکھوں کے درمیان کافر کا لفظ لکھا ہوگا۔ اور اس لفظ کو ہر مؤمن پڑھے گا خواہ وہ لکھنا ( اور پڑھنا) جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ تشریح اس کے ساتھ پانی ہوگا میں پانی سے مراد اسباب عیش و راحت میں سے وہ چیز ہے جس کا بظاہر بہت قریبی تعلق پانی سے ہوگا اور جس کے ذریعہ وہ لوگوں کو اپنی اتباع کی طرف مائل کرے گا، اسی طرح آگ سے مراد وہ چیز ہے جو بظاہر اذیت و تکلیف میں مبتلا کرنے والی ہوگی ورنہ حقیقت کے اعتبار سے ان لوگوں کو کوئی تکلیف واذیت نہیں پہنچائے گی جو اس (دجال) کو جھٹلائیں گے اور اس کی اتباع کرنے سے انکار کردیں گے۔ لوگ جس چیز کو پانی سمجھیں گے الخ کا مطلب یہ ہے کہ دجال جن چیزوں کو ان لوگوں کی نظر میں عیش و راحت کی چیزیں کر کے دکھائے گا یا جن چیزوں کو وہ اذیت و تکلیف پہنچانے والے اسباب ظاہر کرے گا وہ حقیقت کے اعتبار سے برعکس ہوں گی مثلا جن کو اپنی اتباع کرنے کے صلہ میں اس پانی سے نوازے گا آخر الامر وہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آگ میں جلیں گے اسی طرح وہ جن لوگوں کو اپنی نافرمانی کی سزا کے طور پر آگ کے سپرد کرے گا اس آگ کو اللہ تعالیٰ ٹھنڈک اور راحت پہنچانے کے لئے، پانی کی تاثیر عطا کر دے گا جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے نمرود کی آگ کو ٹھنڈا اور باعث راحت بنادیا گیا تھا پس حاصل یہ نکلا کہ جو چیزیں دجال کے ذریعہ ظاہر ہوں گی اور فتنہ کا باعث بنیں گی ان کی حقیقت وہ نہیں ہوگی جو بظاہر نظر آئے گی بلکہ وہ طلسماتی اور خیالی چیزیں ہوں گی جیسا کہ طلسم جاننے والے شعبدہ باز اپنے کرتب دکھاتے ہیں لیکن جیسا کہ پہلے بتایا گیا، یہ بھی احتمال ہے کہ اس کے دریعہ ظاہر ہونے والی چیزیں حقیقی ہی ہوں گی مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے حکم سے ان کی تاثیر الٹی ہوجائے گی کہ پانی تو جلائے گا اور آگ ٹھنڈک پہنچائے گی۔ کیونکہ وہ نہایت شیریں اور پسندیدہ پانی ہوگا۔ یعنی بظاہر آگ نظر آنے والی چیز یا تو حقیقت کے اعتبار سے یا ماہیت کے بدل دیئے جانے کے اعتبار سے اور یا آخری مآل و انجام کے اعتبار سے، پانی ہوگا جو ٹھنڈک و راحت پہچانے کا باعث بنے گا ! واضح رہے کہ حدیث میں اس موقع پر اختصار سے کام لیا گیا ہے اور صرف ایک ہی جزء کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے، ورنہ حقیقت میں یہاں اس دوسرے جزء کا مفہوم بھی پوشیدہ ہے کہ اور اس کو چاہئے کہ وہ اس کے پانی (یعنی اس کے اسباب عیش و راحت کی طرف مائل ہو کر اس (دجال) کی تصدیق و اتباع نہ کرے کیونکہ حقیقت میں وہ پانی نہیں ہوگا بلکہ ایک طرح کا عذاب و حجاب ہوگا۔ دجال ممسوح العین ہوگا الخ کے سلسلہ میں، جیسا کہ ترجمہ کے دوران وضاحت کردی گئی ہے، یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ناخنہ کا تعلق اسی آنکھ سے ہے جس کو ممسوح فرمایا گیا ہے حالانکہ یہ بات موزوں نہیں ہے کیونکہ) ممسوح العین کے معنی ہی یہ ہیں کہ معنی لا محالہ یہی کہا جائے گا کہ ناخنہ اس کی آنکھ پر ہوگا جو دوسری جانب ہوگی، ہاں اگر ممسوح سے مراد محض عیب لیا جائے تو اس صورت میں حدیث کے الفاظ اپنے ظاہری معنی پر محمول ہوسکتے ہیں۔

【12】

دجال کی پہچا ن

اور حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ دجال کی بائیں آنکھ کانی ہوگی، اس کے بہت کثرت سے بال ہوں گے اور اس کے ساتھ اس کی جنت ہوگی اور اس کی آگ ہوگی، لیکن اس کی آگ حقیقت میں جنت ہوگی اور اس کی جنت حقیقت میں آگ ہوگی۔ (مسلم) تشریح اس حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ دجال کی بائیں آنکھ کانی ہوگی جب کہ اس سلسلے میں پہلے حدیث گذری ہے اس میں یہ ذکر ہے کہ وہ دائیں آنکھ سے کانا ہوگا اور اس کی ایک آنکھ بالکل غائب اور سپاٹ ہوگی۔ لہٰذا ان دونوں حدیثوں کے درمیان جو ظاہری تضاد ہے اس کو ختم کرنے کے لئے یہ کہا جائے گا کہ اس کی آنکھ بالکل غائب ہوگی اور دوسری جانب کی آنکھ عیب دار ہوگی، اس اعتبار سے زیادہ صحیح یہ ہے کہ اس کی ہر ایک آنکھ کو اعور کہا جائے کیونکہ اعور کے اصل معنی عیب کے ہیں بعض حضرات نے ان احادیث کے درمیان یہ کہہ کر مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ دجال کا اعور ہونا لوگوں کے فرق کی نسبت سے ہوگا یعنی کچھ لوگ تو اس کو بائیں آنکھ کا عیبی دیکھیں گے اور کچھ لوگ دائیں آنکھ کا عیب دار دیکھیں گے اور یہ اس لئے ہوگا تاکہ اس کا جھوٹا اور فریب ہوجانا بالکل ظاہر ہوجائے کیونکہ جب تمام لوگوں کی نظر میں اس کی اصل حیثیت وحالت نہیں آئے گی بلکہ وہ آنکھوں کے اعتبار سے کبھی کسی طرح کا اور کبھی کسی طرح کا دکھائی دے گا تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ یہ جادوگر اور شعبدہ باز ہے اور اپنی کرتب بازیوں کے ذریعہ مختلف روپ اختیار کرتا رہتا ہے۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ان دونوں حدیثوں میں سے کسی ایک حدیث کے راوی کو سہو ہوگیا ہو کہ اس نے دائیں آنکھ کے بجائے بائیں آنکھ یا بائیں آنکھ کے بجائے دائیں آنکھ کا ذکر کردیا ہو۔

【13】

دجال کے طلسماتی کارناموں اور یاجوج موج کا ذکر

اور حضرت نو اس ابن سمعان (رض) کہتے کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے دجال (کے نکلنے) اس کی فریب کاریوں اور اس کے فتنہ میں لوگوں کے مبتلا ہونے) کا ذکر فرمایا اگر دجال نکلے اور (بالفرض) میں تمہارے درمیان موجود ہوں تو میں اس سے تمہارے سامنے جھگڑوں اور دلیل کے ذریعہ اس پر غالب آؤں) اور اگر دجال اس وقت نکلا جب میں نہ ہوں گا تو پھر تم میں سے ہر شخص اپنی ذات کی طرف سے اس سے جھگڑنے والا ہوگا اور میرا وکیل و خلیفہ ہر مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ ہے دجال جوان ہوگا اس کے بال گھونگریالے ہوں گے اور اس کی آنکھ پھولی ہوگی گویا میں اس کو قطن کے بیٹے عبد العزی سے تشبیہہ دے سکتا ہوں پس تم میں سے جو شخص اس کو پائے اس کو چاہیے کہ وہ اس کے سامنے سورت کہف کی ابتدائی آیتیں پڑھے اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے یہ الفاظ ہیں کہ اس کو چاہئے کہ وہ۔۔۔ اس کے سامنے سورت کہف کی ابتدائی آیتیں پڑھے کیونکہ وہ آیتیں تمہیں دجال کے فتنہ سے مامون و محفوظ رکھیں گی (جان لو) دجال اس راستہ سے نمودار ہوگا جو شام اور عراق کے درمیان ہے اور دائیں بائیں فساد پھیلائے گا ( پس) اے اللہ کے بندو ! ( اس وقت جب کہ دجال نکلے) تم (اپنے دین پر) ثابت قدم رہنا راوی کہتے ہیں کہ) ہم نے (یہ سن کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! وہ کتنے دنوں زمین پر رہے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا چالیس دن، ( اور زمانہ کی طوالت کے اعتبار سے ان میں سے) ایک دن تو ایک سال کے برابر ہوگا اور ایک دن ایک مہینے کے برابر ہوگا اور ایک دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا اور باقی دن تمہارے دونوں کے مطابق (یعنی ہمیشہ کے دنوں کی طرح) ہوں گے ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ان دنوں میں سے جو ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا کیا اس روز ہماری ایک دن کی نماز کافی ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ نماز پڑھنے کے لئے ایک دن کا حساب لگانا ہوگا۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! زمین پر کتنا زیادہ تیز چلے گا (یعنی اس کی رفتاری کی کیا کیفیت ہوگی ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا وہ اس مہینہ یعنی ابر کی مانند تیز رفتار ہوگا جس کے پیچھے ہوا ہو ! وہ ایک ایک قوم کے پاس پہنچے گا اور اس کو اپنی دعوت دے گا (یعنی اپنی اتباع کی طرف بلائے گا اور برائی کے راستہ پر لگائے گا) لوگ اس پر ایمان لے آئیں گے یعنی اس کے فریب میں آکر اس کی اتباع کرنے لگیں) پھر وہ ( اپنے تابعداروں کو نوازنے کے لئے) ابر کو بارش برسانے کا حکم دیگا تو ابر بارش برسائے گا اور زمین کو سبزہ اگانے کا حکم دے گا تو زمین سبزہ اگائے گی۔ پھر جب شام کو اس قوم کے ( وہ) مویشی آئیں گے جو چرنے کے لئے صبح کے وقت جنگل وبیابان گئے تھے تو ان کے کوہان بڑے بڑے ہوجائیں گے اور ان کی کو کھیں (خوب کھانے پینے کی وجہ سے) تن جائیں گی پھر اس کے بعد دجال ایک اور قوم کے پاس پہنچے گا اور اس کو اپنی دعوت دے گا (یعنی اپنی خدائی کی طرف بلائے گا اور کہے گا کہ مجھے اپنا پروردگار تسلیم کرو) لیکن اس قوم کے لوگ اس کی دعوت کو رد کردیں گے (یعنی وہ اس کی بات کو قبول نہیں کریں گے اور اس پر ایمان لانے سے انکار کردیں گے اور وہ ان کے پاس سے چلا جائے گا (یعنی اللہ تعالیٰ اس کو اس قوم کی طرف سے پھیر دے گا) پھر اس قوم کے لوگ قحط وخشک سالی اور تباہ حالی کا شکار ہوجائیں گے یہاں تک کہ وہ مال و اسباب سے و بالکل خالی ہاتھ ہوجائیں گے، اس کے بعد دجال ایک ویرانہ پر سے گزرے کا اور اس کو حکم دے گا وہ اپنے خزانوں کو نکال دے چناچہ وہ ویرانہ دجال کے حکم کے مطابق اپنے خزانوں کو اگل دے گا اور) وہ خزانے اس طرح اس کے پیچھے پیچھے ہو لیں گے جس طرح شہد کی مکھیوں کے سردار ہوتے ہیں، پھر دجال ایک شخص کو جو جوانی سے بھر پور یعنی نہایت قوی و توانا جوان ہوگا اپنی طرف بلائے گا اور ( اس بات سے غصہ ہو کر کہ وہ اس کی الوہیت سے انکار کر دے گا، یا محض اپنی طاقت وقدرت ظاہر کرنے اور اپنے غیر معمولی کارناموں کی ابتداء کے لئے) اس پر تلوار کا ایسا ہاتھ مارے گا کہ اس کے دو ٹکڑے ہوجائیں گے جیسا کہ تیر نشانے پے پھینکا جاتا ہے (یعنی اس کے جسم کے وہ دونوں ٹکڑے ایک دوسرے سے اس قدر فاصلہ پر جا کر گریں گے جتنا فاصلہ تیر چلانے والے اور اس کے نشانے کے درمیان ہوتا ہے اور بعض حضرات نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ اس کی تلوار کا ہاتھ اس کے جسم پر اس طرح پہنچے گا جس طرح تیر اپنے نشانے پر پہنچتا ہے) اس کے بعد دجال اس نوجوان (کے جسم کے ان ٹکڑوں) کو بلائے گا، چناچہ وہ زندہ ہو کر دجال کے طرف متوجہ ہوگا اور اس وقت اس کا چہرہ نہایت بشاش، روشن اور کھلا ہوا ہوگا غرضیکہ دجال اسی طرح کی فریب کاریوں اور گمراہ کرنے والے کاموں میں مشغول ہوگا کہ اچانک اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم (علیہ السلام) کو نازل فرمائے گا جو دمشق کے شرقی جانب کے سفید منارہ پر سے اتریں گے، اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) زردرنگ کے دو کپڑے پہنے ہوں گے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دو فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوئے ( آسمان سے نازل ہونگے وہ جس وقت اپنا سر جھکائیں گے تو پسینہ ٹپکے گا اور جب سر اٹھائیں گے تو ان کے سر سے چاندی کے دانوں کی مانند قطرے گریں گے جو موتیوں کی طرح ہوں گے، یہ ناممکن ہوگا کہ کسی کافر تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سانس کی ہوا پہنچے اور وہ مر نہ جائیں (یعنی جو بھی کافر ان کے سانس کی ہوا پائے گا مرجائے گا) اور ان کے سانس کی ہوا ان کی حد نظر تک جائے گی پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ وہ اس کو باب لد پر پائیں گے اور قتل کر ڈالیں گے، اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس وہ لوگ آئیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے مکرو فریب اور فتنہ سے محفوظ رکھا ہوگا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں کے چہروں سے گردوغبار صاف کریں گے اور ان کو ان درجات ومراب کی بشارت دیں گے جو وہ جنت میں پائیں گے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اسی حال میں ہوں گے کہ اچانک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے پاس یہ وحی آئے گی کہ میں نے اپنے بہت سے ایسے بندے پیدا کئے ہیں جن سے لڑنے کی قدرت و طاقت کوئی نہیں رکھتا۔ لہٰذا تم میرے بندوں کو جمع کر کے کوہ طور کی طرف لے جاؤ اور ان کی حفاظت کرو، پھر اللہ تعالیٰ یاجوج وماجوج کو ظاہر کرے گا جو ہر بلند زمین کو پھلانگتے ہوئی اتریں گے اور دوڑیں گے، ( ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوگی کہ جب ان سب سے پہلی جماعت بحیرہ طبریہ کو خالی دیکھ کر) کہے گی کہ اس میں کبھی پانی تھا اس کے بعد یاجوج ماجوج آگے بڑھیں گے یہاں تک کہ جبل خمر تک پہنچ جائیں گے اور پھر کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کو ختم کردیا ہے، چلو آسمان والوں کا خاتمہ کردیں، چناچہ وہ آسمان کی طرف اپنے تیر پھینکیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے تیروں کو خون آلود کر کے لوٹا دے گا ( تاکہ وہ اس بھرم میں رہیں کہ ہمارے تیر واقعۃ آسمان والوں کا کام تمام کر کے واپس آئے ہیں، گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ڈھیل دے دی جائے گی اور یہ احتمال بھی ہے کہ وہ تیر فضا میں پرندوں کو لگیں گے اور ان کے خون سے آلودہ ہو کر واپس آئیں گے، پس اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ دجال کا فتنہ زمین ہی تک محدود نہیں رہیں گا بلکہ زمین کے اوپر بھی پھیل جائے گا) اس عرصہ میں اللہ کے نبی اور ان کے رفقاء یعنی حضرت عیسیٰ اور اس وقت کے مؤمن کوہ طور پر روکے رکھے جائیں گے اور (ان پر اسباب معیشت کی تنگی وقلت اس درجہ کو پہنچ جائے گی کہ) اس کے لئے بیل کا سر تمہارے آج کے سو دیناروں سے بہتر ہوگا ( جب یہ حالت ہوجائے گی تو) اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی یاجوج ماجوج کی ہلاکت کے لئے دعا وزاری کریں گے، پس اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں نغف یعنی کیڑے پڑجانے کی بیماری بھیجے گا جس کی صورت میں ان پر اللہ کا قہر اس طرح نازل ہوگا کہ سب کے سب ایک ہی وقت موت کے گھاٹ اتر جائیں گے) اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی ( اس بات سے اگاہ ہو کر) پہاڑ سے زمین پر آئیں گے اور انہیں زمین پر ایک بالشت کا ٹکڑا بھی ایسا نہیں ملے گا جو یاجوج ماجوج کی چربی اور بدبو سے خالی ہو ( اس مصیبت کے دفعیہ کے لئے) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تب اللہ تعالیٰ بختی اونٹ کی گردن جیسی لمبی لمبی گردنوں والے پرندوں کو بھیجے گا جو یاجوج ماجوج کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ کی مرضی ہوگی وہاں پھینک دیں گے اور مسلمان یاجوج ماجوج کی کمانوں، تیروں اور ترکشوں کو سات سال تک چلاتے رہیں گے، پھر اللہ تعالیٰ ایک زور دار بارش بھیجے گا جس سے کوئی بہی مکان خواہ وہ مٹی کا ہو یا پتھر کا اور خواہ صوف کا ہو، نہیں بچے گا وہ بارش زمین کو دھو کر آئینہ کی مانند صاف کر دے گی پھر زمین کو حکم دیا جائے گا کہ اپنے پھلوں یعنی اپنی پیداوار کو نکال اور اپنی برکت کو واپس لا، چناچہ ( زمین کی پیداوار اس قدر بابرکت اور باافراط ہوگی کہ) دس سے لے کر چالیس آدمیوں تک کی پوری جماعت ایک انار کے پھل سے سیر ہوجائے گی اور اس انار کے چھلکے سے لوگ سایہ حاصل کریں گے، نیز دودھ میں برکت دی جائے گی، (یعنی اونٹ اور بکریوں کے تھنوں میں دودھ بہت ہوگا) یہاں تک کہ دودھ دینے والی ایک اونٹنی لوگوں کی ایک بڑی جماعت کے لئے کافی ہوگی، دودھ دینے والی ایک گائے لوگوں کے ایک قبیلہ کے لئے کافی ہوگی اور دودھ دینے والی ایک بکری آدمیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کے لئے کافی ہوگی۔ بہر حال لوگ اسی طرح کی خوش حال اور امن وچین کی زندگی گزار رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک خوشبو دار ہوا بھیجے گا جو ان کی بغل کے نیچے کے حصہ کو پکڑے گی (یعنی اس ہوا کی وجہ سے ان کی بغلوں میں ایک درد پیدا ہوگا) اور پھر وہ ہوا ہر مؤمن اور ہر مسلمان کی روح قبض کرلے گی اور صرف بدکار شریر لوگ دنیا میں باقی رہ جائیں گے جو آپس میں گدھوں کی طرح مختلط ہوجائیں گے اور ان ہی لوگوں پر قیامت قائم ہوگی۔ اس پوری روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے علاوہ دوسری روایت کو ان الفاظ تطر حہم بالنہبل تاسبع سنین کے کہ اس کو ترمذی نے نقل کیا ہے۔

【14】

دجال کے طلسماتی کارناموں اور یاجوج موج کا ذکر

تشریح تو میں اس سے تمہارے سامنے جھگڑوں۔ میں اس طرف اشارہ ہے کہ بالفرض اگر آنحضرت ﷺ کی حیات میں دجال کا ظہور ہوتا تو آنحضرت ﷺ دلیل وحجت کے ذریعہ اس پر غالب آنے کے لئے اپنی امت میں سے کسی معاون و مددگار کی مدد کا محتاج نہیں تھے ! بہر حال مذکورہ بالا جملہ کی وضاحت کے سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چائے کہ یہ بات خود حضور ﷺ کو معلوم تھی کہ دجال کا ظہور زمانہ نبوی کے بعد ہوگا جیسا کہ دوسری احادیث اور دیگر دلائل وقرائن سے واضح ہے لیکن اس کے باوجود حضور ﷺ کا مذکورہ جملہ ارشاد فرمانا دراصل دجال کے ظاہر ہونے کی حقیقت کو زیادہ یقین کے ساتھ بیان کرنے اور موکد کرنے، اس کے ظہور کے وقت مبہم ہونے کی طرف اشارہ کرنے اور جن لوگوں کا دجال سے سابقہ پڑنے والا ہے ان کو اس کے فتنہ سے چوکنا کرنے کے پیش نظر تھا۔ تو پھر تم میں سے ہر شخص اپنی ذات کی طرف سے اس سے جھگڑنے والا کا مطلب یہ ہے کہ دجال کے ظاہر ہونے کے وقت جو مسلمان اس دنیا میں ہوں گے ان میں سے ہر ایک کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس کے شر سے بچنے کے لئے شرعی وقطعی اور عقلی دلائل کے ذریعہ اس سے بحث و مباحثہ کرے اور اس پر غالب آئے لیکن یہ بات فرض کرلینے کے بعد کہ دجال بحث و مباحثہ کو سننے اور دلائل کو تسلیم کرنے والا ہوگا ورنہ اس جملہ کے اصل معنی یہ ہوں گے کہ اس وقت ہر مؤمن کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ دجال کی تکذیب کرے، اس کی بات کو قبول کرنے اور اس کو تکلیف واذیت پہنچانے کی صورت اختیار کر کے اس کے شر سے اپنے کو بچائے۔ میرا وکیل و خلیفہ ہر مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ ہے میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ میرے بعد اللہ تعالیٰ ہر مومن و مسلمان کا حافظ وناصر ہوگا اور دجال کے فتنہ سے بچنے میں مدد دے گا پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کامل یقین رکھنے والا مومن ہمیشہ مدد ونصرت پاتا ہے اگرچہ ان کے درمیان نبی ﷺ و امام موجود نہ ہو، اس اعتبار سے حدیث فرقہ امامیہ کے خلاف مضبوط دلیل ہے۔ دجال جوان ہوگا۔ سے یہ ثابت ہوا کہ ابن صیاد پر دجال کا اطلاق کرنا صحیح نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے، ان الفاظ سے اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ سفید بالوں کی صورت میں کسی شخص کو جو وقار حاصل ہوتا ہے اس سے دجال محروم ہوگا۔ عبد العزی ابن قطن ایک یہودی کانا تھا اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی مشرک تھا کیونکہ عزی ایک بت کا نام ہے۔ اس کی طرف عبد یعنی بندہ کی نسبت رکھنے والا مشرک ہی ہوسکتا ہے، اس کی تائید بعض حضرات کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ اس عبد العزی قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص تھا جو زمانہ جاہلیت میں مرچکا تھا آنحضرت ﷺ نے دحال کو عبد العزی کے ساتھ تشبیہ دی تو اس میں جزم کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ گویا کا لفظ اظہار شک کے لئے نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جس شخص کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے یعنی عبد العزی، اس کا تعارف آپ ﷺ کو عالم کشف یا خواب میں حاصل ہوا تھا اس لئے اس کے ساتھ دجال کو تشبیہ دیتے وقت آپ ﷺ نے کانے کا لفظ استعمال فرمایا جیسا کہ کسی خواب کو بیان کرنے کا یہی اسلوب معتبر ہے۔ سورت کہف کی ابتدائی آیتوں سے مراد شروع سے ان یقولون الا کذبا تک کی آیتیں ہیں آیتوں کو دجال کے سامنے پڑھنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ ان میں جو مضامین مذکورہ ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت، اس کی کتاب اور آیات بینات کے ثبوت اس کے رسول ﷺ کی صداقت اور رسول کی اس اعجازی شان پر دلالت کرتے ہیں جس کی برکت سے دجال کے محیر العقول کارنامے ملیامیٹ ہو کر رہ جائیں گے اور اس کی اتباع کرنے والے ہلاکت و تباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں پائیں گے ! طیبی (رح) نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ سورت کہف کی ابتدائی آیتیں یہ خاصیت رکھتی ہیں کہ ان کا پڑھنے والا دجال کے فتنہ سے امن و حفاظت میں رہے گا جیسا کہ اصحاب کہف نے اپنے زمانے کی سب سے بڑی طاقت سے شروفتنہ سے امان ونجات پائی تھی واضح رہے کہ بعض احادیث میں ان آتیوں کو رات میں سوتے وقت بھی پڑھنا منقول ہے ! مسلم کی دوسری روایت میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ فانھا جو ارکم من فتنۃ ( کیونکہ وہ آیتیں تمہیں دجال کے فتنہ سے محفوظ ومامون رکھیں گی) تو اکثر صحیح نسخوں میں جوار کا لفظ جیم کے زیر اور آخر میں ر کے ساتھ ہے، جس کے معنی اس پروانہ راہ داری کے ہیں جس کی بنیاد پر کوئی شخص سفر کرتا ہے اور راستہ میں اس کو کوئی روک ٹوک نہیں کرتا پھر بعض شروح میں جوار جیم کے زبر اور پیش کے ساتھ بیان کیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لفظ جیم کے زیر کے ساتھ ہی فصیح ہے اس موقع پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ حصن حصین میں سورت کہف کے تعلق سے متعدد روایتیں منقول ہیں مثلا ایک روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے سورت کہف پڑھ لی اس کو اس کے پاس سے لے کر مکہ مکرمہ تک کی نورانیت حاصل ہوتی ہے اور دس شخصوں نے اس سورت کی آخری دس آیتیں پڑھیں اور پھر اس کے زمانہ میں دجال نکل آئے تو دجال اس پر تسلط پانے میں ناکام رہے گا ایک اور روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے سورت کہف کی ابتدائی تین آیتیں پڑھ لیں وہ دجال سے محفوظ ہوگیا ان آخری دونوں روایتوں میں دس آیتوں اور تین آیتوں کی صورت میں جو ظاہری تضاد ہے اس کو ختم کرنے کے لئے یوں تو بہت سے اقوال ہیں لیکن زیادہ واضح قول یہ ہے کہ سورت کہف کا کم سے کم حصہ کہ جس کا پڑھنا دجال کے شر سے محفوظ رکھے گا تین آیتیں ہیں اور ان تین آیتوں کو حفظ کرلینا اولی ہے لہٰذا یہ بات زیادہ حصہ مثلا دس آیتوں کے پڑھنے یا اس کو حفظ کرنے کے منافی نہیں ہے۔ اور وہ دائیں بائیں فساد پھیلائے گا۔ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ دجال جن شہروں اور علاقوں سے گزرے گا صرف انہی جگہوں پر فتنہ و فساد پھیلانے پر اکتفا نہیں کرے گا بلکہ وہ اپنے دائیں بائیں اور ادھر ادھر، جہاں خود نہیں جاسکے گا اپنے لشکر اور اپنے تابعداروں کی جماعت بھیجے گا، اس طرح اس کے فتنہ وشر سے کوئی مومن امن میں نہیں ہوگا اور ایسی کوئی جگہ باقی نہیں بچے گی جہاں اس کا فتنہ نہ پہنچے۔ اے اللہ کے بندوں، تم ثابت قدم رہنا۔ یہ خطاب ان مومنین سے ہے جو دجال کے زمانہ میں ہوں گے، یا آپ ﷺ نے یہ بات اپنے صحابہ کرام سے فرمائی کہ اگر بالفرض تم دجال کا زمانہ پاؤ تو اس وقت دین پر مضبوطی سے قائم رہنا۔ چالیس دن کے سلسلے میں یہ ملحوظ رہے کہ یہاں مسلم کی روایت میں تو دجال کی مدت قیام چالیس دن فرمائی گئی ہے جب کہ آگے آنے والی ایک حدیث میں یہ مدت چالیس سال بیان کی گئی ہے پس بغوی نے شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ چالیس سال بیان کرنے والی حدیث صحت واسناد کے اعتبار سے اس درجہ کی نہیں ہے کہ اس کو مسلم کی اس روایت کے معارض قرار دیا جاسکے اور بالفرض اس کو اس درجہ کی صحیح حدیث بھی تسلیم کرلیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ ان دونوں حدیثوں میں جو الگ الگ دو مدتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک مدت تو وہ ہے جس میں دنیا والوں پر اس کا ظہور ہی نہیں ہوگا بلکہ اس دنیا میں اس کی موجودگی غیر معلوم ہوگی اور دوسری مخصوص مدت ہے جس کے دوران دنیا والوں پر ظاہر رہے گا اور انہیں تعین کے ساتھ اس کی موجودگی کا علم ہوگا۔ نماز پڑھنے کے لئے ایک دن حساب لگانا ہوگا۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب طلوع فجر کے بعد اتنا وقت گزر جائے جو عام دنوں کے اعتبار سے فجر اور ظہر کے درمیان ہوتا ہے تو اس وقت ظہر کی نماز پڑھی جائے اور جب ظہر کے بعد اتنا وقت گزر جائے جو عام دنوں میں ظہر اور عصر کے درمیان ہوتا ہے تو اس وقت عصر کی نماز پڑھی جائے اور جب عصر کے بعد اتنا وقت گزر جائے، جو عام دنوں میں عصر، مغرب کے درمیان ہوتا ہے تو اس وقت مغرب کی نماز پڑھی جائے۔ اسی حساب سے عشاء وفجر کی نماز پڑھی جائے۔ غرضیکہ پانچوں نمازیں اس اندازے اور حساب سے پڑھی جائیں گی یہاں تک کہ وہ دن، ایک برس کے برابر ہو کر گزر جائے نیز یہی اندازہ اور حساب ان دنوں میں اختیار کیا جائے گا جو ایک مہینہ اور ایک ہفتہ کے برابر ہوں گے واضح رہے کہ مذکورہ دنوں کی طوالت کا جو ذکر کیا گیا ہے وہ حقیقت میں اتنے ہی طویل ہوں گے اور یقینا اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ شب وروز کی گردش کو مختصر سے مختصر اور طویل سے طویل کرسکتا ہے اس بارے میں بعض حضرات نے جو یہ کہا ہے کہ وہ دن حقیقت میں اس قدر طویل نہیں ہوں گے بلکہ ہجوم افکار اور کثرت آلام کی بنا پر اس قدر طویل معلوم ہوں گے تو یہ بات بالکل صحیح نہیں ہے اس کی سب سے بڑی دلیل صحابہ کرام کا آنحضرت ﷺ سے مذکورہ سوال کرنا اور آنحضرت ﷺ کا انہیں یہ جواب دینا کہ نماز پڑھنے کے لئے ایک دن کا حساب لگانا ہوگا نیز بعض حضرات جو یہ اشکال ظاہر کرتے ہیں کہ نماز تو وقتوں یعنی سورج کے طلوع و غروب وغیرہ کے اعتبار سے مقرر ہوتی ہے اور جب اس طلوع و غروب وغیرہ کا وقت ہی نہیں ہوگا تو نمازیں کس طرح پڑھی جائیں گی ؟ تو یہ اشکال بالکل لغو ہے، حقیقت یہ ہے کہ اصل چیز شارع کا حکم ہے جب شارع (علیہ السلام) نے اس مخصوص دن کے لئے مذکورہ حکم ارشاد فرمایا دیا ہے تو پھر کسی کو چون وچرا کی کیا گنجائش ہے علامہ تورپشتی وغیرہ نے اس موقع پر مذکورہ اشکال کے اور جواب بھی لکھے ہیں، اہل علم مرقات میں دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے کوہان بڑے بڑے ہوجائیں گے۔ میں کوہان ذری کا ترجمہ ہے جو ذروہ کی جمع ہے، جس کے اصل معنی بلندی، بلند جگہ کے ہیں، اسی اعتبار سے اونٹ کے کوہان پر بھی ذروۃ کا اطلاق ہوتا ہے اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ جو جانور چرنے کے لئے جنگل گئے ہوں گے وہ بہت فربہ ہو کر واپس آئیں گے۔ پھر اس قوم کے لوگ قحط وخشک سالی اور تباہ حالی کا شکار ہوجائیں گے کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مومن چونکہ دجال کی بات کو قبول کرنے اور اس کی پیروی سے انکار کردیں گے اس لئے وہ دجال کی طرف سے طرح طرح کی سختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا کئے جائیں لیکن وہ ان تمام سختیوں اور مصائب کو صبر وشکر کے ساتھ برداشت کریں گے اور اپنے دین و عقیدہ پر قائم رہیں گے اور یہ اس وجہ سے ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب نبی ﷺ کی برکت سے ان مؤمنوں کو اولیاء کاملین کی صفات و خصوصیات عطاء فرما دے گا۔ فتتبعہ کنوزہا کیعاسیب النخل ( وہ خزانے اس طرح اس کے پیچھے پیچھے ہو لیں گے جس طرح شہد کی مکھیوں کے سردار ہوتے ہیں یعاسیب اصل میں یعسوب کی جمع ہے جس کے معنی ہیں شہد کی مکھیوں کا سردار، حاصل یہ کہ جس طرح یعسوب آگے ہوتا ہے اور شہد کی مکھیاں اس کے ساتھ پیچھے پیچھے ہوتی ہیں اس طرح دجال کے ساتھ خزانے اس کے پیچھے پیچھے ہوں گے اور سردار کے تعلق کی مناسبت سے قوم و جماعت کے سربراہ کو بھی یعسوب کہا جاتا ہے، جیسا کہ دیلمی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں یہ مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ علی یعسوب المؤمنین والمال یعسوب المنافقین یعنی علی مؤمنوں کے سردار ہیں کہ تمام مؤمن ان کی اتباع کرتے ہیں اور ان کی امان و پناہ میں رہتے ہیں) اور مال منافقوں کا سردار ہے ( کہ منافق مال وزر کے پیچھے رہتا ہے اور اس کی امان و پناہ میں رہنا چاہتا ہے) نیز حضرت ابوبکر کی مدح میں بھی منقول ہے کہ حضرت علی نے ان کے مرثیہ میں فرمایا تھا کنت للدین یعسوب (یعنی اے ابوبکر آپ تو دین کے ریئس سردار تھے۔ جو دمشق کے مشرقی جانب کے سفید منارہ پر اتریں گے۔ اس روایت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دمشق میں اتریں گے، لیکن ایک روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ بیت المقدس میں، ایک روایت میں اردن میں اترنا منقول ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مسلمانوں کی اجتماع گاہ میں اتریں گے واضح رہے کہ جس روایت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بیت المقدس میں اترنا منقول ہے وہ ابن ماجہ کی ہے اور اسی کو راجح قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ حقیقت میں یہ دوسری روایتوں کے منافی نہیں ہے اس وجہ سے کہ بیت المقدس، دمشق کے جانب مشرق میں واقع ہے، بیت المقدس مسلمانوں کا اجتماع گاہ بھی ہے اور بیت المقدس اردن ہی کا علاقہ ہے، صرف ایک چیز رہ جاتی ہے وہ یہ کہ بیت المقدس میں سفید منارہ نہیں ہے، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اترنے سے پہلے المقدس میں منارہ بھی بن سکتا ہے۔ بین مہزدتین ( اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) زردرنگ کے کپڑے پہنے ہوں گے) لفظ مہزدتین دال سے بھی منقول ہے اور ذال سے بھی اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ آسمان سے اترنے کے وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے جسم پر جو دو کپڑے ہوں گے وہ زعفران سے یا عصفر ( زردرنگ کی ایک گھاس) سے رنگے ہوئے ہوں گے۔ واذا رفعہ تحدر منہ مثل جمان اللؤ لؤ۔ ( اور جب سر اٹھائیں گے تو ان کے بالوں سے چاندی کے دانوں کی مانند قطرے گریں گے جو موتیوں کی طرح ہوں گے) کا مطلب یہ ہے کہ ان سے ٹپکنے والے پسینہ کے قطرے اس قدر صاف اور سفید ہوں گے جیسا کہ موتیوں کی طرح چاندی کے دانے ہوتے ہیں۔ نہایہ میں لکھا ہیں کہ لفظ جمان عذاب کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں چاندی کے بنے ہوئے بڑے بڑے موتی اس کا واحد جمانتہ ہے ! طیبی (رح) کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پسینہ کے قطروں کو پہلے تو بڑائی میں جمان کے ساتھ تشبیہ دی اور پھر صفائی اور خوشنمائی کے اعتبار سے جمان کو موتی کے ساتھ تشبیہ دی ! اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ لفظ جمان میم کی تشدید کے ساتھ تو چھوٹے موتی کو کہتے ہیں اور جمان جیم کی تشدید کے بغیر، ان دانوں کے کہتے ہیں جو چاندی کے بنائے گئے ہوں اور یہاں یہی دوسرے معنی مراد ہیں اور حاصل یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب اپنا سر جھکائیں گے تو ان کے سر کے بالوں میں نورانی قطرے ظاہر ہونگے اور جب سر اٹھائیں گے تو وہ قطرے ٹپک پڑیں گے یہ گویا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شادابی وتازگی اور ان کے جمال واطراوت سے کنایہ ہے۔ یہ ناممکن ہوگا کہ کسی کافر تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سانس کی ہوا پہنچے اور وہ مر نہ جائے اس جملہ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس حکم میں خود دجال شامل کیوں نہیں ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دجال کو اس حکمت و مصلحت کے پیش نظر اس حکم سے مستثنی رکھا گیا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں قتل ہو اور وہ اس کے خون سے آلود اپنا نیزہ لوگوں کو دکھائیں تاکہ مؤمنین کے ذہن میں دجال کا ساحر و فریب کار ہونا ظاہر ہو اور اپنی آنکھوں سے اس کے فریب کا پردہ چاک ہوتے دیکھ لیں یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی سانس کی ہوا سے کافروں کا مرجانا ان کی ایک ایسی کرامت ہوگی جو ان کے آسمان سے اترنے کے وقت یا اس کے کچھ بعد تک ظاہر رہے گی اور پھر جب وہ دجال کی طرف متوجہ ہوں گے تو یہ کرامت اٹھا لی جائے گی، چناچہ کسی کرامت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ اور ہر وقت ظاہر رہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ کرامت ان کے معمول کے مطابق ہر آنے والے سانس کی نہیں ہوگی بلکہ اس کا تعلق صرف اس مخصوص سانس سے ہوگا جس سے کسی کافر کو مارنا مقصود ہوگا سبحان اللہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اعجازی شان کے کیا کہنے، ایک وہ وقت تھا جب وہ اپنی پھونک سے مردہ کو زندہ کردیتے تھے اور ایک وقت ہوگا کہ ان کے سانس کی ہوا سے زندہ لوگ موت کے گھاٹ اتریں گے۔ لد (لام کے پیش اور دال کی تشدید کے ساتھ) شام کے ایک پہاڑ کا نام ہے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ لد بیت المقدس کے ایک گاؤں کا نام ہے اور بعض حضرات کے نزدیک وہ فلسطین کے ایک گاؤں کا نام ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں کے چہروں سے گردوغبار صاف کریں گے ہوسکتا ہے کہ چہروں سے گردوغبار کا صاف کرنا اپنے ظاہری معنی پر محمول ہو، کہ واقعۃ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ازراہ لطف و کرم ان لوگوں کے چہروں سے گردوغبار صاف کریں گے، یا اس جملہ کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں کے دلوں سے دجال کا خوف دور کریں گے اور ان کو راحت و اکرام کے اسباب فراہم کرکے ان کی تعب وکلفت کو ختم کریں گے۔ بحیرہ طبریہ اضافت کے ساتھ ہے اور لفظ بحیرہ اصل میں بحرۃ کی تصغیر ہے جس کے معنی اس جگہ کے ہیں جہاں پانی جمع ہوتا ہے جیسے سمندر یا بڑا دریا، چناچہ بحیرہ کے معنی چھوٹے دریا یعنی جھیل کے ہیں، بحیرہ طبریہ اس جھیل کو کہتے ہیں جو دس کوس لمبی ہے اور شام کے علاقہ طبریہ میں واقع ہے۔ جبل خمر ایک پہاڑ کا نام ہے خمر اصل میں گھنی جھاڑی کو کہتے ہیں یا اس زمین کو کہتے ہیں جو درختوں اور جھاڑیوں میں چھپی ہوئی ہو، چناچہ اس پہاڑ پر درخت اور گھنی جھاڑیاں بہت ہیں اس لئے اس کو جبل خمر کا نام دیا گیا۔ ان کے لئے بیل کا سر تمہارے آج کے سو دیناروں سے بہتر ہوگا کے ذریعہ اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ لوگوں کو اشیاء کی قلت اور بےتحاشا گرانی اس طرح گھیرے گی کہ معمولی چیز بڑی سے بڑی قیمت پر مشکل سے دستیاب ہوگی۔ مثلا جانور کے تمام اعضاء میں سب سے سستا کلہ کا گوشت سمجھا جاتا ہے مگر اس وقت ان لوگوں کے نزدیک اسی کلہ کا گوشت ایک سو دینار میں بھی بہت غنیمت معلوم ہوگا اس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ دوسرے اجزاء کے گوشت کی اہمیت ان کے نزدیک کیا ہوگی اور وہ کس قدر بیش قیمت ہوں گے۔ وہ پرندے ان کی لاشوں کو نہبل میں ڈالدیں گے) یہ لفظ نون کے زبر ہ کے جزم اور ب کے زبر کے ساتھ نہبل ہے اور مشکوٰۃ کے اکثر نسخوں میں اسی طرح منقول ہے، یہ دراصل ایک جگہ کا نام ہے جو بیت المقدس کے علاقہ میں واقع ہے، لیکن مجمع البحار میں کو مانی سے منقول ہے کہ یہ لفظ میم کے ساتھ منہل ہے جس کے معنی زمین میں گہرے گڑھے کے ہیں ! قاموس میں لام کے باب اور میم کی فصل میں لفظ منھل کی معنی پہاڑ سے گرپڑنے کے لکھے ہیں نیز کہا ہے کہ ترمذی نے دجال سے متعلق حدیث میں فطرحہم بالنہبل (یعنی نھبل کا لفظ ذکر کیا ہے جب کہ زیادہ صحیح میم کے ساتھ منہل ہے۔ جس سے کوئی بھی مکان خواہ وہ مٹی کا ہو یا پتھر اور صوف کا ہو نہیں بچے گا۔ میں مٹی اور پتھر کے مکان سے شہری علاقے اور صوف ( یعنی خیموں اور چھپر) کے مکان سے دیہاتی اور جنگلی علاقے مراد ہیں، حاصل یہ کہ وہ بارش ہر جگہ اور ہر علاقہ میں بر سے گی، ایسی کوئی جگہ نہیں ہوگی جہاں اس بارش کا پانی نہ پہنچے اور کوئی دیوار و خیمہ وغیرہ اس پانی کو کسی بھی جگہ سے روک نہیں سکے گا ! واضح رہے کہ لفظ لا یکن ی کے زبر اور کاف کے پیش کے ساتھ کن سے بھی منقول ہے اور ی کے پیش کاف کے زبر کے ساتھ اکنان سے بھی نقل کیا گیا ہے، ویسے دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی حفاظت وپوشیدگی۔ اور اس انار کے چھلکے سے لوگ سایہ حاصل کریں گے۔ کے بارے میں ایک شارح نے کہا ہے کہ چھلکے سے انار کے اوپر کا آدھا چھلکا مراد ہے اصل میں قحف اس گول ہڈی (یعنی کھوپڑی) کو کہتے ہیں جو دماغ کے اوپر ہوتی ہے اور لکڑی کے پیالہ کو بھی قحف کہتے ہیں لہذا اس مشابہت کی وجہ سے حدیث میں انار کے چھلکے کو قحف سے تعبیر کیا گیا ہے۔ الفأام من الناس ( لوگوں کی ایک بڑی جماعت) میں لفظ فأام دجال کے وزن پر ہمزہ کے ساتھ ہے اور عام بول چال میں ہمزہ کو ی سے بدل دیتے ہیں، بہر حال یہ لفظ آدمیوں کی جماعت۔ کے معنی ہیں ہے اور یہاں اس سے مراد لوگوں کی اتنی بڑی جماعت ہے جس پر قبیلہ سے زیادہ لوگوں کا اطلاق ہو، جیسا کہ قبیلہ کا اطلاق، لوگوں کی اس جماعت پر ہوتا ہے جو فخذ سے زیادہ ہو اور فخذ یہاں ف کے زبر اور خ کے جزم کے ساتھ ہے، جس کے معنی صرف عزیر واقربا کی جماعت کے ہیں اور اس کا اطلاق لوگوں کی اس جماعت پر ہوتا ہے جو بطن سے کم ہو اور بطن کا اطلاق قبیلہ، سے بھی کم جماعت پر ہوتا ہے ! ویسے فخذ خ کے زیر کے ساتھ بلکہ خ کے جزم کے ساتھ بھی) کے معنی ران کے آتے ہیں۔ اور پھر وہ ہوا ہر مومن ہر مسلمان کی روح قبض کرلے گی میں ہوا کی طرف روح قبض کرنے کی نسبت مجازی ہے، حقیقت میں روح کو قبض کرنے کا کام ملک الموت ( یعنی موت کے فرشتے) کا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ارواح قبض کرتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ بیان ہوچکی ہے کہ مؤمن اور مسلم دونوں ایک ہی ہیں، جو مؤمن ہے وہ مسلمان ہے اور جو مسلمان ہے وہ مؤمن ہے، البتہ ان دونوں کے درمیان جو لطیف فرق علماء نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ مؤمن تو تصدیق قلبی کے اعتبار سے کہتے ہیں جس کا تعلق باطن سے ہوتا ہے اور مسلمان ظاہری انقیاد اطاعت کے اعتبار سے کہتے ہیں، لہذا یہاں ان دونوں کو الگ الگ بیان کرنے سے مراد تاکید بھی ہے اور تعمیم بھی اس حکم کے دائرے سے کوئی بھی باہر نہ رہے۔ جو آپس میں گدھوں کی طرح مختلط ہوجائیں گے کے بارے میں بعض شارحین نے کہا ہے کہ یہاں اختلاط سے مراد جماع کرنا یعنی وہ لوگ بےحیاء اور بےلحاظ ہو کر علانیہ لوگوں کے سامنے جماع کریں گے جیسا کہ گدھے کرتے ہیں چناچہ ھرج کا لفظ جماع کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اور انہی لوگوں پر قیامت قائم ہوگی کا مطلب یہ ہے کہ جب قیامت آئے گی تو اس وقت اس دنیا میں صرف وہی بدکار واشرار لوگ ( یعنی کفار وفجار ہوں گے، ان کے برعکس لوگ یعنی مؤمنین و صالحین نہ اس وقت اس دنیا میں موجود ہوں گے اور نہ ان پر قیامت قائم ہوگی چناچہ آگے ایک حدیث آرہی ہے اس میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ روئے زمین پر اللہ اللہ کہنا بند نہ ہوجائے ( یعنی قیامت اسی وقت آئے گی جب روئے زمین پر ایک بھی اللہ کا نام لیوا باقی نہیں رہے گا۔

【15】

دجال کے کارناموں کا ذکر

اور ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دجال نکلے گا تو مسلمانوں میں سے ایک شخص ( اس کا شر رفع کرنے کے لئے) اس کی طرف روانہ ہوگا ( راستہ میں) اس شخص کو کچھ مسلح لوگ ملیں گے جو دجال کے محافظ ہوں گے، یہ لوگ اس مسلمان سے پوچھیں گے کہ کہاں جارہے ہو ؟ وہ کہے گا کہ میں اس شخص کی طرف جارہا ہوں جو وہاں (فتنہ و فساد پھیلانے کے لئے) نکلا ہے یعنی دجال ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( یہ سن کر) دجال کے محافظ اس سے کہیں گے کہ تو ہمارے رب ( دجال) پر ایمان کیوں نہیں لے آتا وہ شخص جواب دے گا کہ ہمارے پروردگار کی صفات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں دجال کے آدمی ( یہ سن کر آپس میں کہیں گے کہ اس شخص کو مار ڈالو ( جو ہمارے رب پر ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہے) لیکن بعض لوگ آپس ہی میں پھر یہ کہیں گے کہ کیا ہمارے رب دجال نے اس سے منع نہیں کیا کہ ہم کسی کو اس کے حکم کے بغیر نہ ماریں آخر کار وہ لوگ اس مسلمان شخص کو دجال کے پاس لے جائیں گے) اور وہ علامات کے ذریعہ اس کو پہچان لے گا) تو کہے گا کہ لوگو ! جان لو، یہ وہی دجال ہے جس کا ذکر رسول کریم ﷺ نے ( اپنی احادیث کے ذریعہ) فرمایا تھا ( کہ فلاں فلاں علامتوں کے ساتھ آخر زمانے میں نکلے گا) آنحضرت نے فرمایا دجال اس شخص کی بات سنتے ہی آگ بگولا ہوجائے گا اور اس کو چت لٹانے کا حکم دے گا ( اور بعض حضرات نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ زمین پر پیٹ کے بل یعنی اوندھا لٹانے کا حکم دے گا جیسا کہ مجرم کو سزاء مارنے کے لئے اوندھا لٹا دیا جاتا ہے) چناچہ اس شخص کو چت لٹا دیا جائے گا کہ اس کی پیٹھ اور پیٹ پر پلپلا ہوجائے گا اور پھیل جائے گا آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس کے بعد دجال کہے گا کہ کیا تو اب بھی مجھ پر ایمان نہیں لائے گا ؟ وہ شخص کہے گا کہ ( ہرگز نہیں) تو جھوٹا ہے پھر (دجال کی طرف سے اس شخص کو چیرنے اور ٹکڑے ٹکڑے کردینے) کا حکم دیا جائے گا اور ( اس حکم کے مطالق) اس کو آرے سے سر کی طرف سے چیرا جائے گا یہاں تک کہ اس کے دونوں ٹکڑوں کے درمیان سے اس کے دو ٹکڑے کر دئیے جائیں گے آنحضرت ﷺ نے فرمایا دجال ( اپنے کارنامہ پر اتراتا ہوا، ان دونوں ٹکڑوں کے درمیان ٹہلتا پھرے گا اور پھر کہے گا کہ کھڑا ہوجا، وہ مسلمان شخص ( زندہ ہو کر) بالکل سیدھا کھڑا ہوجائے گا تب دجال کہے گا کہ اب تو مجھ پر ایمان لے آئے گا ؟ وہ شخص جواب دے گا کہ ( ہرگز نہیں) اب تو میرا یقین اور پختہ ہوگیا اور میری بصیرت اور زیادہ بڑھ گئی ہے (یعنی تو نے جس طرح مجھے پہلے تو قتل کیا اور پھر دوبارہ زندہ کردیا اس سے مجھے کامل یقین ہوگیا ہے تو جھوٹا دجال ہی ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ اس کے بعد وہ مسلمان شخص ( وہاں موجود لوگوں کو مخاطب کر کے) کہے گا کہ لوگو ! اچھی طرح جان لو) اس دجال نے جو کچھ میرے ساتھ کیا ہے (یعنی پہلے قتل کرنا اور پھر دوبارہ زندہ کردینا) اب کسی دوسرے آدمی کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر دجال اس شخص کو پکڑ کر ذبح کرنا چاہے گا مگر ہنسلی کی ہڈی تک اس کی گردن کو تانبے کا بنادیا جائے گا ( یعنی اس کی پوری گردن تانبے کی طرح سخت اور ٹھوس ہوجائے گی تاکہ اس پر تلوار وغیرہ اثر انداز ہی نہ ہو سکے، شرح السنہ میں معمر کا یہ قول ہے کہ مجھ تک جو روایت پہنچی ہے اس میں یوں ہے کہ اس شخص کی گردن پر تانبے کا تختہ رکھدیا جائے گا) جس کی وجہ سے وہ اس کو قتل نہیں کرسکے گا، اس کے بعد جھنجھلا کر) اس شخص کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر پکڑ کر اس کو اٹھائے گا اور ( اپنی آگ میں) پھینک دے گا، لوگ تو یہی خیال کریں گے کہ اس کو آگ میں پھینکا گیا ہے لیکن حقیقت میں وہ جنت میں پھینکا گیا ہوگا ( یہ بیان کرنے کے بعد) رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ شخص اللہ رب العلمین کے نزدیک شہادت کے اعتبار سے بہت بڑے درجہ کا حامل ہوگا۔ ( مسلم ) تشریح مسلمانوں میں سے ایک شخص، کے بارے میں بعض حضرات کا کہنا ہے کہ وہ حضرت خضر (علیہ السلام) ہوں گے ! اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں اور اس دنیا میں موجود ہیں، تاہم اس مسئلہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، چناچہ فقہاء و محدثین کی اکثریت اور بعض صوفیا کا قول یہ ہے کہ وہ مرچکے ہیں، جب کہ صوفیاء کی اکثریت اور بعض فقہا کا کہنا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور نووی نے کہا ہے کہ یہی بات صحیح ہے۔ لفظ مسالح ( میم کے زبر اور لام کے زیر کے ساتھ) اصل میں مسلحۃ کی جمع ہے جس کے لغوی معنی سرحد دیدبانی کی جگہ کے ہیں اور عرف عام میں اس کا اطلاق ان ہتھیار بند اور مسلح لوگوں پر ہوتا ہے جو اپنی سرحدوں اور آقاؤں کی حفاظت کرتے ہیں، چناچہ یہاں یہی معنی مراد ہیں۔ ہمارے پروردگار کی صفات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں کا مطلب یہ ہے کہ اس کے رب ہونے کی دلیلیں بالکل ظاہر اور واضح ہیں جیسے پیدا کرنا اور رزق دینا وغیرہ، نیز وہ تمام کمال کی صفات رکھتا ہے کہ ان میں کسی بھی طرح کے نقص اور عیب کا ذرہ برابر شائبہ تک نہیں جب کہ دجال میں نقص وعیب کی چیزیں ہیں اور اس کا ناقص وعیب دار ہونا بالکل ظاہر ہے، لہٰذا جس ذات میں ربوبیت اور کمال کی واضح دلیلیں موجود ہوں اور اس کا شریک بندہ ناقص کیسے ہوسکتا ہے اور اس اعتبار سے رب ہونا صرف اسی ذات پاک کو سزاوار ہے نہ کہ اس کے علاوہ کسی اور کو۔ فیشج فیقول خذوہ شجوہ فیوسع ظہرہ وبطنہ ضربا۔ ( چناچہ اس شخص کو چت لٹا دیا جائے گا الخ) میں لفظ یوسع واو کے جزم اور سین کے تخفیف کے ساتھ) وسع سے ہے اور بعض نسخوں میں اس لفظ کو واؤ کے زبر اور سین کی تشدید کے ساتھ توسیع سے مشتق ہونا صحیح قرار دیا گیا ہے اسی طرح یشج کا لفظ تشییج سے مجہول کا صیغہ ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کو چوڑا کرنے کے ہیں، اسی مناسبت سے اس کا ترجمہ چت یا پیٹ کے بل لٹانا کیا گیا ہے، نیز لفظ شجوہ ( جیم کی تشدید کے ساتھ امر کا صیغہ ہے جس کے معنی سر کو زخمی کرنا ہیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی شرح میں کہا گیا ہے یہ قول زیادہ صحیح ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ جس طرح یشج کے لفظ تشییج سے مشتق کہا گیا ہے اس طرح شجوہ بھی اسی باب سے امر کا صیغہ ہے اور تیسرا قول یہ ہے کہ یشج اور شجوہ دونوں لفظ شج سے مشتق ہیں جو سر کے زخم irman کے معنی میں ہے۔ اس کے دونوں پیروں کے درمیان سے اس کے دو ٹکڑے کر دئیے جائیں گے یعنی اس کو سر سے لے کر پیر تک چیر کر پورے جسم کے دو ٹکڑے کر دئیے جائیں گے ! واضح رہے کہ لفظ فیوشر کے بارے میں احتمال ہے کہ ہمزہ کے ساتھ ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ واؤ کے ساتھ ہو اسی طرح میشار کا لفظ ہمزہ کے ساتھ منقول ہے اور ی کے ساتھ بھی دونوں صورتوں میں اس کے معنی آرہ کے ہیں یعنی وہ آلہ جس کے ذریعہ کسی چیز کو چیر کر ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا ہے، ویسے منشار یعنی نون کے ساتھ بھی نقل کیا گیا ہے ! لفظ مفرق کے معنی ہیں سر کا وہ حصہ جو بیچوں بیچ ہو جس کو مانگ کہتے ہیں۔ اب کسی دوسرے آدمی کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتا۔ یہ گویا اس بات کی اطلاع ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے اس ( دجال) کو ڈھیل دینے کے لئے جو اتنی زبردست طاقت وقدرت عطا کردی تھی کہ وہ جس کو چاہے مار دے اور پھر دوبارہ اس کو زندہ کر دے تو وہ طاقت وقدرت اس سے سلب کر لئی گئی ہے لہٰذا اب کسی کو اس سے ڈرنے اور خوف زدہ رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ جنت میں پھنکا گیا ہوگا میں جنت سے مراد یا تو دنیاوی و جسمانی راحت و سکون کی جگہ ہے جیسے کوئی باغیچہ وآرامگاہ وغیرہ، یا یہ مراد ہے کہ دجال اس شخص کو اس آگ میں پھینکے گا جو وہ اپنے ساتھ لئے پھرے گا لیکن وہ آگ اس شخص کے لئے ٹھنڈی ہوجائے گی اور سلامتی کا باعث بن جائے گی جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے نمرود کی آگ ٹھنڈک و راحت پہنچانے کا ذریعہ بن گئی تھی، بہر صورت مطلب یہ ہے کہ دجال کے ہاتھوں اس شخص کی دوبارہ موت واقع نہیں ہوگی خواہ وہ کتنی ہی کوشش کرے۔ یہ شخص اللہ رب العلمین کے نزدیک شہادت کے اعتبار سے بہت بڑے درجہ کا حامل ہوگا میں اس شخص کو شہید اس کی پہلی موت کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے جو دجال کے ہاتھوں ( آرہ سے چیرے جانے کی صورت میں) واقع ہوگی اگرچہ بعد میں وہ زندہ ہوجائے گا یا وہ اس اعتبار سے شہید ہوگا کہ دجال اس کو ذبح کرنے کا قصد کرے گا اگرچہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ نیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شہادت حق تعالیٰ کے نزدیک حاضر ہونا اور گواہی دینا مراد ہو۔

【16】

دجال کے خوف سے لوگ پہاڑوں پر بھاگ جائیں گے

اور حضرت ام شریک کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا لوگ دجال ( کے مکر و فریب اور فتنہ و فساد کے خوف) سے بھاگ کر پہاڑوں میں جا چھپیں گے ام شریک کہتی ہیں کہ میں نے ( یہ سن کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ان ایام میں عرب کہاں ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ( ان دنوں) عرب بہت کم ہوں گے اور دجال سے جہاد و مقابلہ کرنے کی طاقت وقدرت نہیں رکھیں گے۔ ( مسلم) تشریح فاین ( کہاں ہوں گے) میں حرف ف شرط محذوف کی جزا ہے، یعنی پورا جملہ گویا یوں ہے کہ جب لوگ دجال کے خوف سے بھاگتے اور چھپتے پھریں گے تو اس وقت اہل عرب کہاں ہوں گے، جن کا کام اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور دین کو نقصان پہنچانے والے ہر فتنہ و فساد کو دفع کرنا ہے۔

【17】

دجال کے تابعدار یہودی ہوں گے

اور حضرت انس رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اصفہان کے ستر ہزار یہودی دجال کی اطاعت و پیروی اختیار کریں گے جن کے سروں پر طیلسائیں ہوں گی۔ ( مسلم) تشریح لفظ یتبع ی کے زبر، ت کے جزم اور ب کے زیر کے ساتھ ہے جس کے معنی ہمراہ ہونے کے ہیں۔ لیکن ایک شارح نے کہا ہے کہ یہ لفظ اتباع ( ت کی تشدید کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں پیروی کرنا ! اصفہان ( الف کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ ایک مشہور شہر کا نام ہے جو ایران میں واقع ہے ایک روایت میں ستر ہزار کے بجائے نوے ہزار کے الفاظ ہیں لیکن مشہور روایت کے مطابق زیادہ صحیح ستر ہزار ہی ہے ! لفظ طیالستہ اصل میں طیلسان کی جمع ہے جو عرب میں ایک مشہور کپڑے کا نام ہے اور یہ چادر کی صورت میں ہوتا ہے۔ عیاض وغیرہ نے یہ نقل کیا ہے کہ طیلسان کا لفظ معرب ہے، یعنی اصل میں یہ لفظ تالسان تھا جس کو عربی میں طیلسان کردیا گیا ہے واضح رہے کہ بعض علماء نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ طیلسان اوڑھے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ یہ لوگ خیبر کے یہودی جیسے معلوم ہوتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ طیلسان میں کوئی برائی نہیں ہے اور اس کو استعمال کرنا کوئی قباحت نہیں رکھتا بلکہ سر کو چادر سے ڈھانکنے کے طور پر طیلسان کا استعمال مسنون بھی ہے چناچہ اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام سے متعلق بہت سی حدیثیں منقول ہیں گو یہ ہوسکتا ہے کہ کسی زمانہ میں طیلسان صرف یہودیوں کے مخصوص لباس سے تعلق رکھتی ہو اور حضرت انس (رض) اسی اعتبار سے اس کے استعمال کو پسندیدہ نظر سے نہ دیکھا ہو، یا انہوں نے اس سبب سے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہو کہ ان لوگوں نے اس وقت جو طیلسان اوڑھ رکھی تھی ان کا رنگ زرد تھا اس موقع پر یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ طیلسان کے سلسلہ میں علماء کے درمیان جو اختلاف ہے وہ صرف اس کے چادر کے طور پر اس طرح اوڑھنے کے متعلق ہے کہ اس کا پلہ سر کے اوپر اوڑھا جائے اور اس کے کناروں کو کاندھے پر ڈال لیا جائے جس کو تقنع اور قناع بھی کہا جاتا ہے ! بہر حال جو حضرات طیلسان کے استعمال کے خلاف ہیں ان کا کہنا ہے کہ طیلسان اوڑھنے کے بارے آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام سے جو کچھ منقول ہے اس کا تعلق خاص حالات اور ضرورت سے ہے، کہ حضور ﷺ اور صحابہ کرام نے کسی خاص ضرورت کے تحت مثلا کسی وقت دھوپ سے بچنے کے لئے طیلسان کو اپنے سر پر ڈال لیا ہوگا لیکن جمہور علماء نے طیلسان کے اوڑھنے اور استعمال کرنے کو بلا کراہت مطلق جائز قرار دیا ہے، چناچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ سر کو طیلسان سے ڈھانکو، کیونکہ چادر اوڑھنا اہل عرب کا پہناوا ہے اور اقتناع ( یعنی طیلسان کو مذکورہ بالا طریقہ سے اوڑھنا) اہل ایمان کا پہناوا ہے ایک اور حدیث میں یوں ہے کہ طیلسان سے سر کو ڈھانکنا، دن میں نفقہ ہے اور رات میں زینت نیز ایک روایت میں حضرت انس (رض) سے منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ قناع کو بہت اختیار فرماتے ہیں۔ اسی طرح صحابہ کرام سے بھی تقنع کا اختیار کرنا منقول ہے اور اس بارے میں کافی آثار واخبار ثابت ہیں۔

【18】

دجال مدینہ میں داخل نہیں ہوگا

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دجال ( جب دنیا میں) آئے گا یعنی ظاہر ہوگا ( تو مدینہ منورہ کی جانب بھی رخ کرے گا تاکہ اس شہر مقدس میں داخل ہو کر فتنہ و فساد پھیلائے) لیکن مدینہ کے راستوں میں اس کا داخل ہونا ممنوع ہوجائے گا ( یعنی اللہ تعالیٰ اس شہر کی حفاظت فرمائیں گے اور دجال اس میں داخل ہونے پر قادر نہیں ہو سکے گا) آخر وہ مدینہ کے قریب کی کھاری زمین میں ٹھہر جائے گا پھر اس کے پاس ایک شخص آئے گا ( جو اس زمانہ کے) بہترین لوگوں میں سے ہوگا وہ شخص ( دجال سے) کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کی خبر ہمیں رسول کریم ﷺ نے اس کے احوال و علامات بیان کرنے کے ذریعہ دی ہے دجال (یہ سن کر اپنے ارد گرد کے لوگوں سے) کہے گا کہ بتاؤ اگر میں اس شخص کو قتل کرکے دوبارہ زندھ کر دوں تو کیا پھر بھی تم میرے ( خدا ہونے) کے بارے میں شک وشبہ کرو گے وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہم کو پھر کوئی شک وشبہ نہیں رہے گا ! پس دجال اس شخص کو جان سے مار ڈالے گا اور پھر اس کو زندہ کر دے گا ( اور وہی سوال کرے گا جو گزشتہ حدیث میں گزرا) تب وہ شخص کہے گا کہ اللہ کی قسم تیرے بارے میں بصیرت اور میرا یقین اب پہلے سے بھی زیادہ پختہ ہے ( یعنی پہلے تو صرف علم وخبر کی بنیاد پر تیرے دجال ہونے کا یقین تھا مگر اب اس تجربہ سے کہ تو نے مجھے پہلے جان سے مارا اور پھر زندہ کردیا یہ یقین اور زیادہ بڑھ گیا ہے کہ تو جھوٹا دجال ہی ہے اور تیرا خدائی دعویٰ سراسر باطل ہے دجال ( یہ سن کر) چاہے گا کہ اس کو قتل کر دے مگر وہ اس پر قادر نہیں ہو سکے گا۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح تو وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہم کو پھر کوئی شک وشبہ نہیں رہے گا۔ اس جملہ میں لوگوں سے مراد اگر وہ لوگ ہیں جو دجال کے گرویدہ وتابعدار ہوں گے تو یہ جملہ بالکل واضح ہے اور اپنے اصل معنی ہی پر محمول ہے لیکن اگر لوگوں سے اہل ایمان کو بہی مراد لیا جائے تو پھر اس جملہ کی تاویل یہ ہوگی کہ ان لوگوں کا مذکورہ جواب دینا دراصل ازراہ خوف اور دافع الوقتی کی بناء پر ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد بطریق توریہ اور کنایہ دجال کے جھوٹ اور فریب کاری شک وشبہ نہ کرنا ہو۔ مگر وہ اس پر قارد نہیں ہو سکے گا میں اس بات کی دلیل ہے کہ دجال کو ڈھیل دینے کے لئے جو مافوق الفطرت طاقت وقدرت دی جائے گی وہ صرف شروع میں کچھ عرصہ کے لئے ہوگی، بعد میں اس سے وہ طاقت وقدرت سلب کرلی جائے گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو اس پر قادر نہیں پائے گا کہ جو چاہے کر گزرے۔

【19】

دجال مدینہ میں داخل نہیں ہوگا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا مسیح دجال مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے ارادہ سے مشرق کی طرف سے آئے گا یہاں تک کہ وہ احد پہاڑ کے پیچھے ( جو مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے) آکر رکے گا، پھر ( مذکورہ شخص کے واقعہ کے بعد) فرشتے اس کا منہ شام کے علاقہ کی طرف پھیر دیں گے تاکہ جہاں سے آیا ہے وہیں چلا جائے) اور وہ دجال وہاں ( یعنی شام میں) ہلاک کردیا جائے گا ( جیسا کہ پیچھے گزرا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دجال کو شام کے ایک گاؤں باب لد میں قتل کریں گے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح فرشتے اس کا منہ شام کے علاقہ کی طرف پھیر دیں گے یہ بات دجال کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ایک بڑی دلیل بنے گی اور اس کے عجزونقصان کی علامت ہوگی کہ وہ اپنی اتنی زبردست طاقت وقدرت کے دعوے کے باوجود اس شہر مقدس میں داخل ہونے پر قادر نہیں ہو سکے گا جس میں سید الوری آرام فرما ہیں اس سے یہ بہی ظاہر ہوا کہ دجال جب مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہو سکے گا تو حرم پاک مکہ مکرمہ میں بدرجہ اولی داخل نہیں ہو پائے گا۔

【20】

دجال مدینہ میں داخل نہیں ہوگا

اور حضرت ابوبکرہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اہل مدینہ دجال کے رعب وخوف سے محفوظ رہیں گے، اس دن جب کہ دجال مدینہ میں داخل ہونے کے ارادہ سے آئے گا) مدینہ کے سات دروازے ہونگے اور ہر دروازے پر دو فرشتے مامور ہوں گے ( جو دجال کو مدینہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ ( بخاری) تشریح سیوطی نے کہا ہے کہ لوگوں میں جو یہ مشہور ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا روئے زمین پر آنا موقوف ہوگیا ہے تو یہ بالکل بےاصل بات ہے، اس غلط خیال کی تردید کے لئے وہ روایت کافی ہے جس کو طبرانی نے نقل کیا ہے، کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہر اس مؤمن کی موت کے وقت تشریف لاتے ہیں جو طہارت و پاکیزگی کی حالت میں ہوتا ہے ایک اور روایت ابونعیم نے نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا جب دجال مدینہ کے قریب سے گزرے گا تو اس وقت اچانک اس کی مڈبھیڑ ایک بہت عظیم ہستی سے ہوگی، دجال پوچھے گا کہ تو کون ہے وہ ہستی جواب دے گی کہ میں جبرائیل (علیہ السلام) ہوں مجھ کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے تاکہ میں تجھے اس کے رسول ﷺ کے حرم سے دور رکھوں۔

【21】

دجال کا ذکر

اور حضرت فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں کہ ( ایک دن) میں نے رسول کریم ﷺ کے مؤذن کی یہ آواز الصلوۃ جامعۃ نماز جمع کرنے والی ہے) سن کر مسجد پہنچی اور پھر میں نے رسول کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی آنحضرت ﷺ نماز سے فارغ ہونے کے بعد منبر پر تشریف فرما ہوئے اس وقت ( حسب عادت آپ کے لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ کی قسم میں نے تمہیں نہ تو کسی مرغوب چیز کے لئے جمع کیا ہے اور نہ کسی دہشت ناک کے لئے یعنی تمہیں یہاں روکنے کا مقصد نہ تو تمہیں کوئی چیز دینا ہے اور نہ کسی دشمن وغیرہ سے ڈرانا ہے بلکہ میں نے تمہیں اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری، جو ایک نصرانی (عیسائی) شخص تھا، آیا اور مسلمان ہوا اور اس نے مجھ کو ایک ایسا واقعہ سنایا جو مسیح دجال کے بارے میں ان باتوں کے مطابق ہے جو میں تمہیں بتایا کرتا ہوں چناچہ میں نے مناسب جانا کہ تمیم داری کا وہ واقعہ تمہیں بھی سنا دوں تاکہ دجال کے بارے میں تمہارا یقین اور زیادہ پختہ ہوجائے اور میری بتائی ہوئی باتیں مشاہدہ کے قرین ہوجائیں تو سنو مجھ سے تمیم داری نے بیان کیا کہ وہ ایک ( دن) قبیلہ جذام کے تیس آدمیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہو کر روانہ ہوا تو پانی کی موج ایک مہینہ تک کشتی کے سواروں سے کھیلتی رہی ( یعنی کشتی سمندر کی ایک ایسی موج میں گھر گئی جو مسلسل ایک مہینہ تک اس کو ادھر ادھر لئے پھری اور اس نے سواروں کو منزل مقصود تک نہ پہنچنے دیا) یہاں تک کہ اس موج نے کشتی کو ( ایک دن) غروب آفتاب کے وقت ایک جزیرہ کے قریب پہنچایا دیا اور سارے سوار ان چھوٹی کشتیوں میں کہ جو بڑی کشتی کے ساتھ تھیں بیٹھ کر اس جزیرہ میں پہنچ گئے، وہاں انہیں ایک ایسا چوپایہ ملا جو بالوں والا تھا اور ان کی کثرت کی وجہ سے لوگوں کو اس کا پیچھا معلوم نہیں ہوتا تھا یعنی اس چوپایہ کے جسم پر اتنے زیادہ بال تھے کہ پورا جسم چھپ کر رہ گیا تھا اور ان کی کثرت کی وجہ سے لوگوں کو اس کا اگلا حصہ کونسا ہے اور پچھلا کونسا) لوگوں نے ( اس کو دیکھ کر بڑی حیرت سے) کہا کہ تجھ پر افسوس، تو کون ہے اور کیا ہے ؟ یعنی آخر تیری اصل و ماہیت کیا ہے تو کوئی جن ہے یا انسان ہے ؟ ) اس چوپابہ نے جواب دیا کہ میں جاسوس اور خبر رساں ہوں تم لوگ میرے ساتھ اس شخص کے پاس چلو جو دیر میں ہے کیونکہ اسے تمہاری خبریں سننے کا بہت شوق ہے تمیم داری نے بیان کیا کہ جب اس چوپایہ نے ہم سے ایک شخص کا ذکر کیا ( اور ہمیں اس کے پاس چلنے کو کہا) تو ہمیں بڑا ڈر لگا کر وہ شخص کہیں انسان کی شکل و صورت میں شیطان نہ ہو، بہر حال ہم تیزی کے ساتھ چل پڑے اور جب دیر میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک سب سے بڑی ڈیل ڈول والا اور نہایت خوفناک آدمی موجود ہے، اسی جیسی شکل و صورت کا آدمی ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا، وہ نہایت مضبوط اس طرح بندھا ہوا تھا کہ اس کے ہاتھ گردن تک اور گھٹنوں کے درمیان سے ٹخنوں تک لوہے کی زنجیر سے جکڑے ہوئے تھے ہم نے (اس کو دیکھ کر بڑی حیرت کے ساتھ) کہا کہ تجھ پر افسوس ہے، تو کون ہے اور کیا ہے ؟ اس نے جواب میں کہا کہ جب تم نے مجھ کو پالیا اور معلوم کر ہی لیا ہے ( اور یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہو تو اب میں تم سے اپنے بارے میں کچھ نہیں چھپاؤں گا اور سب کچھ بتادوں گا لیکن پہلے) مجھے اپنے بارے میں بتاؤ ( اور جو کچھ تم سے پوچھوں اس کا جواب دو ) کہ تم کون ہو ( اور کہاں سے آئے ہو ؟ ) ہمارے لوگوں نے اسے بتایا کہ ہم عرب کے لوگ ہیں بحری کشتی میں سوار ہوئے تھے۔ ( اور اپنی منزل مقصود کی طرف جارہے تھے) کہ سمندری طوفان نے ہمیں ایک مہینہ تک گھیرے رکھا ( اور ہماری کشتی کو یہاں لا چھوڑا ہم اس جزیرہ پر اتر گئے، یہاں ہمیں ایک بالوں والا چوپایہ ملا اور اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں تم لوگ اس شخص کے پاس جاؤ جو دیر یعنی بڑے محل میں موجود ہے چناچہ ہم بڑی تیزی کے ساتھ تیرے پاس چلے آئے اس نے کہا کہ اچھا مجھے یہ بتاؤ کہ بیسان میں کھجوروں کے دو درخت ہیں ان پر پھل آتے ہیں یا نہیں ؟ ہم نے کہا کہ ہاں پھل آتے ہیں ! اس نے کہا کہ جان لو جلد ہی وہ زمانہ آنے والا ہے جب بیسان کے کھجور کے درختوں پر پھل نہیں آئیں گے (گویا اس نے اس طرف اشارہ کیا کہ قیامت جلد ہی آنے والی ہے) اس نے کہا کہ اب مجھے بحیرہ طبریہ کے بارے میں بتاؤ کہ آیا اس میں پانی ہے یا نہیں ؟ ہم نے کہا کہ اس میں تو بہت پانی ہے اس نے کہا کہ اس میں تو بہت پانی ہے اس نے کہا یقینا عنقریب اس کا پانی ختم ہوجائے گا پھر اس نے پوچھا کہ مجھے یہ بتاؤ کہ رغر کے چشمہ میں پانی ہے یا نہیں اور وہاں کے لوگ اس چشمہ کے پانی کے ذر یعہ کھیتی باڑی کرتے ہیں ؟ ہم نے کہا کہ ہاں اس چشمہ میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اسی پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں اس کے بعد اس نے کہا کہ اب مجھے امیوں یعنی اہل عرب کے نبی ﷺ کے بارے میں بتاؤ اس نے کیا کیا ؟ ہم نے کہا کہ انہوں نے مکہ کو چھوڑ دیا ہے اور اب یثرب ( یعنی مدینہ) کو ہجرت کر گئے ہیں اس نے پوچھا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے ہیں ؟ ہم نے کہا کہ ہاں ! پھر اس نے پوچھا کہ انہوں نے اہل عرب سے کیا معاملہ کیا ؟ ہم نے اس کو بتایا کہ وہ نبی ﷺ ان عربوں پر غالب آگئے ہیں جو ان کے قریب ہیں اور انہوں نے ان کی اطاعت اختیار کرلی ہے اس نے کہا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہے کہ ان لوگوں کا ان کی اطاعت کرنا ہی ان کے لئے بہتر ہے اور اب میں تمہیں اپنے بارے میں بتاتا ہوں، میں درحقیت مسیح یعنی دجال ہوں، وہ زمانہ جلدہی آنے والا ہے جب مجھ کو نکلنے کی اجازت مل جائے گی، اس وقت میں نکلوں گا اور چالیس دنوں تک زمین پر پھروں گا یہاں تک کوئی آبادی ایسی نہیں چھوڑوں گا جس میں داخل نہیں ہوں گا، سوائے مکہ اور طیبہ یعنی مدینہ اور مکہ کے یہ دونوں شہر مجھ پر حرام قرار دیئے گئے ہیں یعنی ان دونوں میں داخل ہونا چاہوں گا تو میرے سامنے ایک فرشتہ آجائے گا جس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہوگی وہ فرشتہ مجھ کو اس شہر میں داخل ہونے سے روک دے گا، حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک شہر کے تمام راستوں پر فرشتے مامور ہیں جو اس شہر کی نگہبانی کرتے ہیں راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (تمیم داری کا یہ پورا واقعہ بیان کرنے کے بعد صحابہ پر اپنی یہ خوشی ظاہر کرنے کے لئے کہ دیکھو دجال کے بارے میں تمہیں جو کچھ بتایا کرتا تھا اس کی پوری پوری تصدیق و تائید اس واقعہ سے ہوجاتی ہے، نیز آپ ﷺ نے تمام شہروں پر مدینہ کی فضیلت و بڑائی کو ظاہر کرنے کے لئے جوش میں) اپنا عصاء مبارک منبر پر مار کر ( تین مرتبہ) یہ فرمایا کہ یہ ہے طیبہ، یہ ہے طبیہ یعنی مدینہ ( پھر فرمایا) یاد رکھو، کیا میں تمہیں یہی بات نہیں بتایا کرتا تھا (جو دجال کے بارے میں اس واقعہ سے ظاہر ہوتی ہے ؟ ) صحابہ نے کہا کہ ہاں ( آپ ﷺ ہمیں اسی طرح کی بات بتایا کرتے تھے اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا دجال شام کے سمندر میں ہے یا یمن کے سمندر میں، نہیں بلکہ وہ مشرق کی جانب سے نکلے گا، یہ فرما کر آپ ﷺ نے ہاتھ سے مشرق کی جانب اشارہ کیا۔ (مسلم ) تشریح الصلوۃ جامعۃ کا جملہ لوگوں کو متوجہ کرنے اور نماز کے لئے بلانے کے واسطے ہے تاکہ لوگ یہ سن کر ایک جگہ پہنچ جائیں اور جمع ہوجائیں جیسا کہ زمانہ نبوی ﷺ میں کسوف اور خسوف کی نماز کے لئے لوگوں کو جمع کرنے کے لئے اس جملہ کے ذریعہ پکارا جاتا تھا ! سفینۃ کو بحریۃ کی اضافت کے ساتھ ذکر کرنے کا مقصد اس بات سے احتراز کرنا ہے کہ ذہن خشکی کی کشتی یعنی اونٹ کی طرف منتقل نہ ہو کیونکہ اونٹ کو سفینۃ البر ( خشکی کی کشتی) کہا جاتا ہے، ویسے بعض حضرات نے کہا ہے سفینہ بریہ سے مراد بڑی سمندری کشتی ہے جس کو پانی کا جہاز بھی کہا جاسکتا ہے۔ لفظ اقرب اصل میں قا رب کی جمع ہے اور قا رب اس ڈونگی یعنی چھوٹی کشتی کو کہتے ہیں جو بڑی سمندری کشتی ( پانی کے جہاز) میں رکھی رہتی ہے اور ساحل پر آنے جانے اور ان کاموں میں استعمال ہوتی ہے جو بڑی کشتی یا جہاز کے ذریعہ انجام نہیں پاسکتے۔ اس عجیب الخلقت جانورنے اپنا نام جساستہ یعنی جاسوسی کرنے والا اس اعتبار سے بتایا کہ وہ دجال کو خبریں اور معلومات پہنچایا کرتا تھا، واضح رہے کہ قرآن شریف میں جس دابۃ الارض کا ذکر آیا ہے وہ یہی جانور ہے۔ دیر اصل میں عیسائیوں کی عبادت گاہ یعنی گرجا کو کہتے ہیں ویسے لغت کی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ دیر راہبوں کے رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں، بہر حال یہاں حدیث میں دیر سے مراد وہ بڑی عمارت ہے جس میں دجال تھا۔ بیسان ملک شام میں ایک بستی کا نام ہے یا یمامہ میں ایک جگہ کا نام ہے، لیکن مشرق الانور میں لکھا ہے کہ حدیث جسار میں ( جو یہاں نقل ہوئی ہے) مذکور بیسان حجاز کے ایک شہر کا نام ہے اور دوسرا بیسان شام کے علاقہ میں واقع ہے۔ جیسا کہ پیچھے بھی ایک موقع پر بیان کیا جا چکا ہے بحیرہ اصل میں بحر کی تصغیر ہے یعنی چھوٹا سمندر، جس کو جھیل سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے اور طبریہ اردن کے ایک قصبہ کا نام سے، فن حدیث کے مشہور امام طبرانی اس قصبہ کے رہنے والے تھے۔ زغر ایک شہر کا نام ہے جو ملک شام میں واقع ہے، اس علاقہ میں رویئدگی بہت کم ہوتی ہے۔ مجھے امیوں یعنی اہل عرب کے نبی کے بارے میں بتاؤ میں دجال نے حضور ﷺ کی نسبت صرف اہل عرب کی طرف ازراہ طنز کہ وہ خاص طور پر اہل عرب کے نبی ہیں یا یہ کہ جملہ تعزیمی پیرا یہ بیان ہے یعنی اس جملہ کے ذریعہ اس ملعون دجال کی اس باطل خیال کی ترجمانی مقصود تھی کہ آپ ﷺ نادانوں اور جاہلوں کے نبی ہیں۔ ان لوگوں کا ان کی اطاعت کرنا ہی ان کے لئے دجال کی زبان سے اس بات کا نکلنا گویا اس کی طرف سے حضور ﷺ کی عظمت و فضیلت کا اقرار تھا۔ گویہ اقرار اضطرار بہی تھا اور اس کے سبب سے بھی تھا کہ اس وقت کفر کے اظہار اور دین سے انکار کی کوئی غرض بھی اس کے سامنے نہیں تھی، لہٰذا اس نے اپنے کفر وعناد کو پوشیدہ رکھنا ہی مناسب سمجھا، یا یہ بہی کہا جاسکتا ہے کہ اس جملہ میں بہتری سے اس کی مراد دنیاوی بھلائی و بہتر اور امن و سلامتی ہو۔ لا بل من قبل المشرق ماہو ( نہیں بلکہ وہ مشرق کی جانب سے نکلے گا) میں حرف ما، نفی کے لئے نہیں ہے بلکہ زائد ہے ! اس جملہ کی وضاحت یہ ہے کہ قیامت آنے کا وقت چونکہ اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے اور تعین کے ساتھ نہیں بتایا کہ قیامت کب آئے گی بلکہ قیامت کی علامتوں اور نشانیوں کے ظاہر ہونے کے زمانوں اور اوقات کو بھی متعین نہیں فرمایا اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے بھی متعین طور پر وہ جگہ نہیں بتائی جہاں دجال مقید ہے، صرف ترد و ابہام کے طور پر مذکورہ تین مقامات کی طرف اشارہ فرمایا البتہ آخری مقام کو ظن غالب کے ذریعہ ظاہر فرمایا لیکن اس کو بھی متعین نہیں کیا سوائے اس کے کہ کسی خاص جگہ و علاقہ کے تعین کے بغیر اس سمت کی طرف اشارہ فرما کر چھوڑ دیا۔ پس مذکورہ جملہ سے پہلے دو احتمال کی نفی اور تیسرے احتمال کا جو اثبات ہوتا ہے اس کے یہی معنی ہیں ! ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے پہلی دو جگہوں کا ذکر فرما کر پہر ان کی جو نفی فرمائی تو اس کا سبب یہ تھا کہ دجال کا قید خانہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہتا ہوگا ! اور تورپشتی نے بلکہ وہ مشرق کی جانب سے نکلے گا کی وضاحت میں کہا ہے کہ احتمال ہے کہ یہ جملہ خبر دینے کے طور پر ہو، یعنی دجال مشرق کی جانب سے نکلے گا نیز اشرف نے کہا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ دجال کے قید خانے کی جگہ کی تعین میں شک رکھتے تھے، آپ ﷺ کے گمان میں تھا کہ وہ ان جگہوں میں سے کسی نہ کسی جگہ مقید ہے، چناچہ جب آپ ﷺ نے اپنے اس شک کی بنا پر جب شام کے سمندر اور یمن کے سمندر کا ذکر کیا تو اسی وقت وحی کے ذریعہ آپ ﷺ کو یقین کے ساتھ معلوم ہوگیا یا آپ ﷺ کو ظن غالب ہوا کہ اس کا قید خانہ مشرق میں کسی جگہ واقع ہے، اس وجہ سے آپ ﷺ نے پہلی دونوں جگہوں کی نفی فرما دی اور ان سے اعراض کرکے تیسری جگہ یعنی مشرق کا اثبات فرمایا۔

【22】

دجال کا حلیہ

اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں نے آج کی رات اپنے آپ کو (خواب میں یا کشف کی حالت میں) کعبہ کے پاس دیکھا، وہاں مجھ کو ایک ایسا گندم گوں شخص نظر آیا جو کسی ایسے آدمی کی طرح تھا جس کو تم گندمی رنگ کا سب سے بہتر اور خوبصورت دیکھتے ہو، اس کے ( سر پر) بہت بال تھے جو کاندھوں تک لٹکے ہوئے تھے اور بالوں کے اعتبار سے بھی وہ کسی ایسے شخص کے مشابہ تھا جس کو تم اس قسم کے بال رکھنے والوں میں سے سب سے خوبصورت دیکھتے ہو، اس کے بالوں میں کنگھی کی گئی تھے اور بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے وہ شخص دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا ! میں نے ( اس شخص کو دیکھ کر طواف کرنے والوں سے) پوچھا کہ یہ کون ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں ! اسی کے بعد رسول کریم ﷺ نے فرمایا پھر اچانک میری نظر سے ایک شخص گزرا جس کے بال گھونگریالے اور بہت کھڑے تھے، وہ داہنی آنکھ سے کانا تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اس کی آنکھ انگور کا پھولا ہوا دانہ یا بےنور ہے، جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سے وہ ابن قطن کے بہت مشابہ تھا، وہ شخص بھی دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا، میں نے اس کے بارے میں بھی پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ تو لوگوں نے جواب دیا کہ یہ مسیح دجال ہے بخاری ومسلم) ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضور ﷺ نے دجال کے بارے میں فرمایا کہ وہ ایک شخص ہے جس کی آنکھیں سرخ ہیں، سر کے بال گھونگریالے ہیں، داہنی آنکھ سے کانا ہے، مشابہت کے اعتبار سے لوگوں میں ابن قطن اس کے بہت قریب ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث لا تقوم الساعۃ حتی تطلع الشمس من غربہا الخ باب الملاحم میں نقل کی جا چکی ہے نیز حضرت ابن عمر (رض) کی اس روایت قام رسول اللہ ﷺ فی الناس۔۔ الخ۔ کو انشاء اللہ ہم ابن صیاد کے قصہ کے باب میں نقل کریں گے۔ تشریح بالوں سے پانی ٹپک رہے تھے۔ میں پانی سے مراد یا تو وہ پانی ہے جو نہانے کے بعد بالوں میں لگا رہتا ہے اور کنگھی کرنے کے بعد بالوں سے ٹپکنے لگتا ہے اور وہ پانی بھی مراد ہوسکتا ہے جس میں کنگھی کو بھگو کر بال سنوراتے ہیں، یا پانی کے قطرے ٹپکنے سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی انتہائی پاکیزگی ولطافت اور ترو تازگی کو کنایۃ بیان کرنا ہے۔ جیسے اس کی آنکھ انگور کا پھولا ہوا دانا ہے۔ کے بارے میں قاضی عیاض نے یہ لکھا ہے کہ دجال کی داہنی آنکھ تو بالکل سلپٹ یعنی ہموار ہوگی ( کہ اس جگہ آنکھ کا نام ونشان بھی نہیں ہوگا) اور بائیں آنکھ موجود تو ہوگی لیکن اس میں بھی پھولا ہوا ٹینٹ ہوگا۔ ابن قطن سے مراد عبد العزی ابن قطن یہودی ہے جس کے بارے میں پیچھے بیان ہوچکا ہے ! لفظ کا شبہ میں کاف زائد ہے جو اظہار مبالغہ کے لئے استعمال ہوا ہے ! دجال کو ابن قطن کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ شاید ابن قطن کا جسمانی حلیہ کچھ اس طرح کا رہا ہوگا جیسا کہ دجال کا ہوگا یا اس اعتبار سے تشبیہ دی گئی ہے کہ اس کی آنکھ بھی ٹینٹ یعنی پھلی تھی۔ دجال جن دو آدمیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے طواف کرتا نظر آیا تھا بظاہر ان سے مراد وہ دو شخص ہیں جو اس (دجال) کے رفیق و مددگار ہوں گے جیسا کہ ان دو شخصوں سے مراد کہ جن کے کاندھے پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہاتھ رکھے ہوئے طواف کرتے ہوئے نظر آئے تھے، وہ دو شخص ہیں جو حق کے راستہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معین و مددگار ہوں گے اور شاید وہ دونوں حضرات خضر (علیہ السلام) اور حضرت مہدی (رض) ہوں ! اس موقع پر اشکال واقع ہوتا ہے کہ دجال کافر ہے، اس کو طواف کی حالت میں دکھایا جانا کیا معنی رکھتا ہے ؟ اس کا جواب علماء کرام نے یہ دیا ہے کہ مذکورہ واقعہ آنحضرت ﷺ کے مکاشفات میں سے ہے، جس کا تعلق خواب سے ہے اور اس کی تعبیر یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اس خواب میں گویا یہ دیکھایا گیا کہ ایک وہ دن آئے گا جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دین اور مرکز دین کے اردگرد رہیں گے تاکہ دین کو قائم کریں اور فتنہ و فساد سے اس کی حفاظت کریں اور دجال بھی دین اور مرکز دین پر منڈلاتا پھرے گا تاکہ گھات لگا کر دین کو نقصان پہنچائے اور فتنہ و فساد پھیلانے میں کامیاب ہوجائے بعض حضرات نے ایک جواب یہ دیا ہے کہ مکہ مکرمہ پر اسلام کا غلبہ ہونے اور مشرکوں کو مسجد حرام کے قریب جانے کی مخالفت نافذ ہونے سے پہلے بہر حال کافر و مشرک بھی خانہ کعبہ کا طواف کیا کرتے تھے، پس اگر دجال بھی طواف کرتا ہو تو اس میں اشکال کی بات کیا ہے ایک یہ بات بھی ہے کہ حضور ﷺ کے اس مکاشفہ یا خواب سے، موجودات کی دنیا میں کسی کافر کا طواف کرنا ہرگز لازم نہیں آتا، جب کہ کفار اور مشرکین کے لئے خانہ کعبہ کے طواف کی ممانعت کا تعلق موجودات کی اس دنیا سے ہے۔

【23】

دجال کا ذکر

حضرت فاطمہ بنت قیس تمیم داری کی حدیث کے سلسلہ میں بیان کرتی ہیں کہ تمیم داری نے کہا کہ ( جب میں جزیرہ میں داخل ہوا تو اچانک میرا گزر ایک عورت پر ہوا جو اپنے بالوں کو گھسیٹتی تھی ( یعنی اس کے بال بہت بڑے بڑے تھے جو زمین پر گھسٹتے رہتے تھے) تمیم نے کہا ( میں نے اس عورت کو دیکھ کر پوچھا کہ) تو کون ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں جاسوسی کرنے والی ہوں ( اور دجال کو خبریں پہنچاتی ہوں) تو اس محل کی طرف چلا جا ! تمیم کا بیان ہے کہ میں اس محل میں آیا تو وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص ہے جو اپنے بالوں کو گھسیٹتا ہے۔ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور طوق پڑے ہوئے ہیں اور آسمان و زمین کے درمیان اچھلتا کودتا ہے میں نے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں دجال ہوں۔ ( ابوداؤد) تشریح روایت کے جزء کا حاصل یہ ہے کہ تمیم داری کے مذکورہ واقعہ کے سلسلہ میں مسلم نے جو حدیث حضرت فاطمہ (رض) سے نقل کی ہے اور جو پیچھے گزری ہے، اس میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تمیم داری اور ان کے ساتھی اس جزیرہ میں داخل ہوئے تو فلقیتہم الدابۃ یعنی وہاں ان کو ایک چوپایہ ملا لیکن انہیں فاطمہ کی جو روایت ابوداؤد نے نقل کی ہے اس میں چوپایہ کے بجائے ایک عورت کے ملنے کا ذکر ہے پس ان دونوں روایتوں میں تو یہ تضاد ہوا کہ مسلم کی روایت میں تو جساسہ کو دابہ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس کو عرف عام میں چوپایہ کہتے ہیں اور یہاں ابوداؤد کی روایت میں عورت کہا گیا ہے ؟ اس تضاد کو دور کرنے کے لئے کہی جاتی ہیں، ایک تو یہ کہ شاید دجال کے دو جاسوس ہونگے، ایک دابہ اور دوسری، عورت، یا یہ کہ دابہ کے اصل لغوی معنی چلنے والے یعنی زمین پر چلنے والے کے ہیں، اس لفظ کا اطلاق جو صرف چوپایہ پر کیا جاتا ہے وہ عرف عام کے اعتبار سے ہے، قرآن مجید میں لفظ دابہ کا زیادہ استعمال اس کے اصل لغوی معنی ہی میں ہوا ہے، جیسے وما من دابۃ فی الارض الاعلی اللہ رزقہا ( یعنی روئے زمین پر چلنے والا ایسا کوئی جاندار نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو پس اس معنی میں دابہ کا اطلاق عورت پر بھی ہوسکتا ہے کہ مسلم کی روایت میں جو دابہ کی صورت میں ظاہر ہوا اور کبھی عورت کی صورت میں ! یہ بات زیادہ قرین قیاس بھی ہے اور موزوں تر بھی کیونکہ جاسوسی کا جو اصل مقصد ہوسکتا ہے یعنی دنیا بھر کی خبریں جمع کرنا اور دجال تک پہنچایا اس کا انجام پانا کسی دابہ، یا عورت کی ذات سے بعید ہے، الاّ یہ کہ جاسوسی اور خبریں حاصل کرنے کا تعلق دنیا بھر سے نہ ہو بلکہ صرف ان جہازوں اور کشتیوں سے ہو جو اس جزیرے کے آس پاس سے گزرتے ہوں۔ ان دونوں روایتوں کے درمیان ایک اور تضاد بھی نظر آتا ہے، وہ یہ ہے کہ مسلم کی روایت میں سائل اور مخاطب کے طور پر شخص واحد کا نہیں بلکہ پوری جماعت کا ذکر ہے، جب کہ ابوداؤد کی روایت میں سوال و جواب شخص واحد یعنی صرف تمیم داری کی ذات کے ساتھ مختص رکھا گیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے، کہ سائل اور مخاطب پوری جماعت تھی لیکن اس جماعت میں چونکہ تمیم داری بھی شامل تھے اس لئے سوال و جواب کی نسبت صرف ان کی طرف کرنا بھی درست ہے یا یہ کہ سوال و جواب کرنے والے صرف تمیم داری ہی ہوں گے لیکن انہوں نے وہ سوال و جواب چونکہ پوری جماعت کے ترجمان کی حیثیت میں کیا ہوگا اس لئے اس سوال و جواب کی نسبت پوری جماعت کی طرف کرنا بھی درست ہے، چناچہ عرف عام میں رائج ہے کہ جب کسی جماعت کا کوئی فرد کوئی کام کرتا ہے تو کبھی اس کی نسبت صرف اسی شخص کی طرف کی جاتی ہے اور کبھی پوری جماعت کی طرف مثلا کہا جاتا ہے کہ فلاں گروہ نے فلاں شخص کو مار ڈالا تو اگرچہ مارنے والا ایک ہی شخص ہوتا ہے مگر اس کی نسبت پورے گروہ کی طرف کی جاتی ہے۔

【24】

دجال کا حلیہ

اور حضرت عبادہ بن صامت رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ میں نے تم لوگوں سے دجال کا حال اس اندیشہ سے ( بار بار) بیان کیا ہے کہ کہیں تمہاری سمجھ میں نہ آئے، ( تو اچھی طرح سمجھ لو کہ) دجال پستہ قد ہے، پھڈا ہے، اس کے بال مڑے ہوئے ہیں ( ایک آنکھ سے) کانا ہے اور ( دوسری) آنکھ سلپٹ یعنی بالکل مٹی ہوئی ہے، اس کی آنکھ نہ ابھری ہوئی ہے اور نہ اندر کو دھنسی ہوئی۔ اس کے بعد بھی اگر تم شبہ میں پڑجاؤ ( یعنی میں نے دجال کا جو حلیہ بیان کیا ہے وہ بھول جانے کے سبب اور اس کے ما فوق الفطرت کے کارناموں کی وجہ سے اس کا دعوی الوہیت اگر تمہیں کسی درجہ میں شبہ میں مبتلا بھی کردیں تو) اتنی بات یاد رکھنا کہ تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے۔ ( ابوداؤد) تشریح کہ کہیں تمہاری سمجھ میں نہ آئے۔ کا مطلب یہ ہے کہ میں جو بار بار اور مختلف انداز میں دجال کا حال تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دجال کی حیثیت و حقیقت تمہارے ذہن میں میں نے بتائی ہیں یا تمہارا دل و دماغ اس کی حقیقت سے نا آشنا رہے۔ ! اور طیبی نے کہا ہے کہ انی حدثتکم عن الدجال حتی حشیت الخ میں لفظ حتی دراصل حدثتکم کی غایت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے دجال کے سلسلہ میں اتنی زیادہ اور اس قدر متفرق طور پر احادیث بیان کی ہیں کہ مجھے یہ خدشہ ہوگیا ہے کہ کہیں تم التباس کا شکار نہ ہوجاؤ اور تمہارا ذہن اس طرح نہ الجھ جائے کہ دجال کی حیثیت و حقیقت اور اس کے احوال کی تفصیل تمہارے فہم و ادراک کی گرفت سے باہر ہوجائے، پس تم پر لازم ہے کہ دجال کے احوال کو خوب اچھی طرح سمجھ لو اور اپنے آپ کو اس بارے میں شکوک وشہبات اور التباس سے بچاؤ۔ دجال پستہ قد ہے، یہ بات بظاہر اس روایت کے مخالف ہے جس میں دجال کو سب سے بڑے ڈیل ڈول والا بتایا گیا ہے لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ان دونوں باتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ پستہ قد ہونا بڑے ڈیل ڈول والا ہونے کے منافی نہیں ہے، چناچہ ہوسکتا ہے کہ دجال ٹھگنے قد کا بھی ہو اور پٹیل بھاری جسم والا بھی اور یہ بات اس کے اتنا بڑا فتنہ پرواز ہونے کے اعتبار سے اس کی فطرت اور اس کی حقیقت کے مطابق بھی ہے ! اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے خروج کے وقت اس کو متغیر کر دے یعنی اس وقت تو وہ بہت بڑے ڈیل ڈول والا ہے لیکن جب اس کے ظاہر ہونے کا وقت آئے گا او ٹھگنا ہوجائے گا۔ پھڈا افحج کا ترجمہ ہے، یعنی ایسا شخص یا جانور جس کے چلنے کا یہ غیر معمولی انداز ہو کہ پاؤں کے سرے یعنی پنجے تو زمین پر قریب قریب پڑیں مگر دونوں ایڑیاں، پھیلی ہوئی پنڈلیوں کے ساتھ ایک دوسرے سے دور پڑیں اور نہایہ میں یہ لکھا ہے کہ افحج کے معنی ہیں دونوں رانوں کے درمیان معمول سے زیادہ فاصلہ ہونا۔ اس کی آنکھ نہ ابھری ہوئی ہے اور نہ اندر کو دھنسی ہوئی۔ یہ جملہ منفیہ موکدہ ہے جس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اس کی ایک آنکھ بالکل مٹی ہوئی ہوگی، پس یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ اس کی دوسری آنکھ انگور کے دانہ کی طرح پھولی ہوئی ہوگی اس کی وضاحت پیچھے کی جا چکی ہے۔ اتنی بات یاد رکھنا کہ تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے۔ یعنی ایک مسلمان ومؤمن کی حیثیت سے تمہارے اوپرصفات ربوبیت میں سے جس چیز کا سب سے پہلے پہچاننا واجب ہے وہ یہ ہے کہ وہ ( تمہارا رب) حدوث وعیوب اور خصوصا ظاہری نقائص سے بالکل پاک ہے پس اگر یہ بنیادی عقیدہ تمہارے دل و دماغ میں مستحضر رہے گا تو تم دجال کو کانا دیکھ کر فورا سمجھ جاؤ گے کہ یہ عیب دار ذات ہرگز اللہ نہیں ہوسکتی خواہ وہ اپنی خدائی کے اظہار کے لئے تمہیں شک وشبہ میں ڈالنے والے کتنے ہی مافوق الفطرت کارنامے کیوں نہ دکھائے۔

【25】

ایمان پر ثابت رہنے والوں کو دجال سے کوئی خوف نہیں ہوگا۔

اور حضرت عبیدہ بین الجراح کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا حقیقت یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) کے بعد ایسا کوئی نبی نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو اور میں بھی ( بار بار مختلف مواقع پر دجال کے احوال مکر وتلبیس اور اس کی حقیقت و حیثیت کو بیان کرکے) تمہیں اس سے ڈراتا رہتا ہوں اس کے بعد حضور ﷺ نے ہمارے سامنے دجال کے ( کچھ) احوال بیان کئے اور پھر فرمایا شاید ان لوگوں میں سے کہ جنہوں نے مجھے دیکھا ہے یا میرا کلام سنا ہے، کوئی شخص اس ( کے زمانہ) کو پائے، صحابہ کرام نے ( یہ سن کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اس وقت ہمارے قلوب کی ( یعنی اہل ایمان کے قلوب کی) کیا حالت ہوگی ؟ فرمایا بالکل ایسی ہی جیسے آج کے دن ہے یا اس سے بھی بہتر۔ ( ترمذی، ابوداؤد) تشریح یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا تھا ! پس نوح (علیہ السلام) کے بعد سے مراد یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے بھی ڈرایا اور ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء نے بھی ڈرایا۔ ان لوگوں میں سے کہ جنہوں نے مجھے دیکھا ہے الخ، یہ بات حضور ﷺ نے یہ فرض کرکے فرمائی کہ دجال کا ظہور اگر جلد ہی ہوجائے ! اور بعض لوگوں نے اس جملہ کا مشار الیہ حضرت خضر (علیہ السلام) کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ خضر (علیہ السلام) کے اس دنیا میں موجود ہونے کی دلیل ہے ! یا میرا کلام سنا ہے اس کے حکم میں ہر وہ اہل ایمان آجاتا ہے جس تک دجال کے بارے میں آنحضرت ﷺ کی احادیث پہنچیں، اگرچہ اس کا زمانہ آنحضرت کے زمانہ سے کتنے ہی بعد کیوں نہ ہو بہر حال اس پورے جملہ کا مطلب گویا یہ تھا کہ دجال کا وجود اور اس کا ظاہر ہونا یقینی امر ہے، البتہ اس وقت کا تعین کے ساتھ علم نہیں ہے کہ وہ کب ظاہر ہوگا، لہٰذا اگر ایسا ہو کہ میرے صحابہ میں سے کوئی اس کا زمانہ پائے تو فبہا ورنہ جو اہل ایمان بعد میں آئیں گے وہ دجال کا زمانہ پائیں گے ان تک چونکہ میری احادیث پہنچیں گی اور میں نے دجال کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے اس کو وہ سنیں اور پڑھیں گے اس لئے ان کو چاہیے کہ وہ یقین پر قائم رہیں اور دجال کے مکر و فریب میں نہ آئیں۔ جیسے آج کے دن ہے یا اس سے بھی بہتر کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ( یعنی اہل ایمان) اپنے ایمان و عقیدہ پر ثابت وقائم رہے گا اس کا دل بھی اپنی جگہ مضبوط رہے گا کہ اس میں دجال کے خوف کا گزر تک نہیں ہوگا اور اس کے مکروفریب سے کوئی خدشہ نہیں رہے گا، جس طرح کوئی اہل ایمان اس وقت کا منکر و مخالف ہے اسی طرح اس وقت بھی منکر و مخالف ہوگا بلکہ اس کے احوال اور اس کے مکروفریب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے سبب اس انکار و مخالفت میں کہیں زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔

【26】

دجال خراسان سے نکلے گا

اور حضرت عمر و ابن حریث، سید نا ابوبکر صدیق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے ہم سے بیان کیا اور فرمایا کہ دجال روئے زمین کے ایک ایسے حصہ سے نکل گا جو مشرق میں واقع ہے اور جس کو خراسان کہا جاتا ہے، اس کے ساتھ لوگوں کے کتنے ہی گروہ ہوں گے اور ان لوگوں کے چہرے تہہ بہ تہہ پھولی ہوئی ڈھال کی مانند ہوں گے۔ ، (ترمذی) تشریح خراسان ایک مشہور شہر ہے جو ماوراء النہر کے علاقہ میں واقع ہے اور ایران کی مملکت میں شامل ہے اور ان لوگوں کے چہرے الخ کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے چہرے چوڑے چکلے اور رخسار ڈھال کی طرح ابھرے ہوئے ہوں گے لفظ مطرقۃ کی وضاحت کتاب الفتن میں تفصیل سے بیان ہوچکی ہے۔

【27】

دجال سے دور رہنے کی تاکید

اور حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص دجال کے نکلنے کی خبر سنے اس کو چاہیے کہ وہ اس سے دور رہے اللہ کی قسم، آدمی دجال کے پاس آئے گا اور اس کا گمان تو یہ ہوگا کہ میں مؤمن ہوں لیکن وہ ان چیزوں کی وجہ سے شبہات میں پڑ کر جو دجال کو دی گئی ہوں گی ( جیسے سحر و شعبد بازی اور مردہ کو زندہ کردینے کی قدرت وغیرہ اس کی اطاعت قبول کرے گا اور اس پر ایمان لے آئے گا۔ ( ابوداؤد) تشریح اس کو چاہیے کہ اس سے دور رہے کا حاصل یہ ہے کہ برائی کے قریب جانا خطرہ وخوف سے خالی نہیں ہونا جب کہ اس سے دور رہنا بہتری و بھلائی کا ضامن ہوتا ہے، حق تعالیٰ نے فرمایا ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار۔ لہٰذا جب دجال ظاہر ہو تو اس وقت جو بھی اہل ایمان ہو اس کو چاہیے کہ وہ دجال سے دور رہے۔

【28】

ظاہر ہونے کے بعد روئے زمین پر دجال کے ٹھہرنے کی مدت

اور حضرت اسماء بنت یزید بن سکن کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا روئے زمین پر دجال چالیس سال تک رہے گا (اس وقت) سال مہینہ کے برابر ہوگا مہینہ ہفتہ کے برابر اور ہفتہ ایک دن کے برابر ہوگا اور ایک دن اتنی دیر کا ہوگا جتنی دیر میں کھجور کی خشک شاخ آگ میں جل جاتی ہو اس روایت کو بغوی نے شرح السنہ میں نقل کیا ہے تشریح پہلے ایک حدیث گزرچکی ہے جس میں روئے زمین پر دجال کے پھر نے کی مدت چالیس رات بتائی گئی ہے اور یہاں چالیس سال کی مدت بیان کی گئی ہے ؟ پس ان دونوں حدیثوں کے درمیاں مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ کہا جائے گا کہ پہلی حدیث میں جس مدت کو بیان کیا گیا ہے اس سے وہ مخصوص مدت مراد ہے جس کے دوران وہ روئے زمین پر فتنہ و فساد پھیلائے گا اور لوگوں کو گمراہ کرے گا اور یہاں جو مدت بیان کی گئی ہے اس سے وہ مطلق مدت مراد ہے جس میں روئے زمین پر رہے گا۔ سال مہینہ کے برابر ہوگا الخ سے مراد وقت کی تیز رفتاری کو ظاہر کرنا ہے کہ اس وقت دن بہت جلد جلد گزریں گے رہی اس حدیث کی بات جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اس وقت ایک دن ایک سال کے برابر گزرے گا تو اس سے مراد تعلق و شدت کو بیان کرنا ہے کہ اس وقت فتنہ و فساد کی کثرت اور دینی و دنیاوی مصائب و آلام کی زیادتی کی وجہ سے ایسا معلوم ہوگا کہ جیسے زمانہ کی رفتار دھیمی ہوگئی ہے اور دن پہاڑوں کی طرح کٹ رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ دن تیز رفتاری کے ساتھ گزریں گے۔ اور ایک دن اتنی دیر کا ہوگا الخ۔ کا مطلب یہ کہ جس طرح کسی سوکھی پتی کو آگ میں جلایا جائے تو وہ آگ بھک سے جل کر ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔

【29】

دجال کی اطاعت کرنے والے

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے ستر ہزار افراد کہ جن کہ سروں پر سیجان پڑے ہوں گے دجال کی اطاعت اختیار کرلیں گے ( اس روایت کو بغوی نے شرح السنتہ میں نقل کیا ہے ) ۔ تشریح سیجان اصل میں ساج کی جمع ہم جیسا کہ تاج کی جمع تیجان آتی ہے اور ساج بھی طیلسان کی طرح سبز سیاہ چادر کو کہتے ہیں۔ میری امت میں امت سے مراد امت اجابت یعنی ملت اسلامیہ بھی ہوسکتی ہے اور امت دعوت یعنی غیر مسلموں کی قوم بھی ہوسکتی ہے لیکن زیادہ صحیح، آخری مراد یعنی غیر مسلموں کی قوم ہی ہے، جیسا کہ پیچھے کی ایک حدیث میں بیان ہوچکا ہے کہ دجال کے اطاعت کرنے والے ستر ہزار لوگ، اصفہان کے یہودی ہوں گے۔

【30】

دجال اور قحط سالی

اور حضرت اسماء بنت یزید ابن سکن کہتی ہیں کہ ( ایک دن) نبی کریم ﷺ ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے کہ آپ ﷺ نے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا۔ دجال کے ظاہر ہونے سے پہلے تین سال ایسے ہوں گے کہ ( ان میں برکت جاتی رہے گی اور لوگوں کے معاشی حالات میں ابتری پیدا کرنے والے مختلف حالات رونما ہوں گے چنانچہ) پہلے سال تو آسمان تہائی بارش کو اور زمین تہائی پیداوار کو روک لے کی ( یعنی اور سالوں کے معمول کے خلاف اس سال بارش ایک تہائی کم ہوگی اسی طرح زمین کی پیداوار میں بھی ایک تہائی کمی ہوجائے گی اگرچہ بارش کے پانی کے علاوہ دوسرے طریقوں سے زمین کی آبپاشی کی جائے گی) پھر دوسرے سال آسمان دو تہائی بارش کو اور زمین دو تہائی پیداوار کو روک لے گی اور پھر تیسرے سال آسمان تمام بارش کو اور زمین اپنی تمام پیداوار کو روک لے گی یہاں تک کہ جس وقت دجال ظاہر ہوگا تو تمام روئے زمین پر قحط پھیل چکا ہوگا صرف انسان سخت ترین معاشی وغذائی بحران میں مبتلا ہونگے بلکہ مویشوں اور چوپایوں میں بھی بھکری پھیل چکی ہوگی) چناچہ نہ تو کوئی گھر والا جانور باقی رہے گا اور نہ وحشی جانوروں میں سے کوئی دانت والا بلکہ سب ہلاک ہوجائیں گے اور اس کے برعکس اور وقت خزینے اور دفینے دجال کے تسلط میں ہوں گے اور غذائی ضروریات کی تکمیل اور آسائش و خوشحالی کے دوسرے ذرائع اس کے پاس ہوں گے، اس طرح لوگوں میں اپنی خدائی کا سکہ جمانے اور گمراہی کا سخت ترین فتنہ پھیلانے کے لئے وہ ان چیزوں کو استعمال کرے گا) چناچہ اس کا سخت ترین فتنہ یہ ہوگا کہ وہ علم و دانائی سے بےبہرہ ایک دیہاتی کے پاس آئے گا اور اس سے کہے گا کہ مجھے بتا، اگر میں تیرے ان اونٹوں کو زندہ کر دوں (جو قحط کی وجہ سے مرگئے ہیں) تو کیا تو یہ تسلیم کرے گا کہ میں تیرا پروردگار ہوں دیہاتی جواب دے گا کہ ہاں میں تجھے اپنا پروردگار مان لوں گا) تب دجال اس دیہاتی کے اونٹوں کی مانند شکل و صورت بنا کر لائے گا ( یعنی اپنے تابعدار جنات اور شیاطین کو حکم دے گا کہ وہ اونٹوں کی شکل و صورت میں اس دیہاتی کے سامنے آجائیں، چناچہ شیاطین اونٹ بن کر سامنے آجائیں گے) اور وہ اونٹ تھنوں کی درازی اور کوہانوں کی بلندی کے اعتبار سے اس کے اونٹوں سے بہتر معلوم ہوں گے آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ( دجال کا اسی طرح کا ایک سخت ترین فتنہ یہ ہوگا کہ) پھر وہ ایک شخص کے پاس آئے کا جس کا باپ اور بھائی مرگئے ہوں گے۔ اور اس سے کہے گا کہ مجھے بتا، اگر میں تیرے ( مرے ہوئے) بھائی اور باپ کو زند کر دوں تو کیا تو تسلیم کرے گا کہ میں تیرا پروردگار ہوں ؟ وہ شخص جواب دے گا کہ ہاں ! ( میں تجھے اپنا پروردگار مان لوں گا) تب دجال ( شیاطین کو) اس شخص کے بھائی اور باپ کی شکل و صورت میں پیش کر دے گا۔ حضرت اسماء کہتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ یہ فرما کر کسی ضرورت سے باہر تشریف لے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد مجلس میں تشریف لے آئے اس وقت حاضرین مجلس ( دجال کے یہ حالات سن کر) فکر وغم کی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے حضرت اسماء کہتی ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے تو ( دجال کا ذکر کر کے) ہمارے دل نکال لئے ہیں ( یعنی اس کا یہ حال سن کر ہمارے دل سخت مرعوب زدہ ہوگئے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا اگر ( دجال نکلے اور فرض کرو) میں زندہ رہوں تو دلائل وحجت سے اس کو رفع کردوں گا اور اگر وہ اس وقت نکلا جب میں دنیا میں موجود نہ ہونگا تو یقینا میرا پروردگار ہر مؤمن کے لئے مرا وکیل و خلیفہ ہوگا ( یعنی اس وقت اللہ تعالیٰ ہر صاحب ایمان کا حامی و مددگار ہوگا اور اس کے فتنہ و فساد سے محفوظ رکھے گا) پھر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ، بھوک کے وقت انسان کی بےصبری کا عالم تو یہ ہوتا ہے کہ ہم آٹا گوندھتے ہیں اور اس کی روٹی پکا کر فارغ بھی نہیں ہوتے ہیں کہ بھوک سے ہم بےچین ہوجاتے ہیں، تو ( ایسی صورت میں اس وقت جب کہ قحط سالی پھیلی ہوئی ہوگی، غذائی اشیاء دجال کے تسلط میں ہوں گی اور کھانے پنیے کی چیزیں صرف وہی شخص پا سکے گا جو دجال کی ابتاع کرے گا) آخر مؤمنین کا کیا حال ہوگا ( یعنی وہ اپنی بھوک پر کسی طرح قابو پائیں گے اور انہیں صبرو اقرار کس طرح ملے گا ؟ ) حضور ﷺ نے فرمایا۔ ان کے لئے وہی چیز کافی ہوگی جو آسمان والوں یعنی فرشتوں کو کافی ہوتی ہے یعنی حق تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس۔ تشریح فاخذ بلحمتی الباب آنحضرت ﷺ نے دروازے کے دو جانب پکڑ لئے) میں لفظ لحمۃ مشکوۃ اور مصابیح کے تمام نسخوں میں ل کے زبر اور ح کے جزم کے ساتھ منقول ہے جو جانب کے معنی میں لیا کیا ہے لیکن صحاح وقاموس اور لغت کی دوسری کتابوں میں یہ لفظ اس معنی میں مذکور نہیں ہے چناچہ طیبی نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ملجفتی الباب ہے یعنی ح کی جگہ ج ہے اور م چونکہ مشکوۃ ومصابیح کے تمام نسخوں میں یہ لفظ اسی طرح منقول ہے جس طرح یہاں حدیث میں نقل کیا گیا ہے لہٰذہ لازم ہے کہ بلجمتی الباب ہی کو صحیح مانا جائے اور اس معنی کے سلسلہ میں یہ تاویل کی جائے کہ چونکہ قاموس میں لحمہ کے معنی گوشت کا ٹکڑا لکھے ہیں اس لئے اس معنی میں سے صرف ٹکڑے کو اختیار کیا جائے کہ بلحمتی الباب میں دونوں ٹکڑوں سے مراد بند ہونے کی صورت میں) مل کر ایک ہوجاتے ہیں اور کبھی دروازہ کھلنے کی صورت میں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجاتے ہیں ! یہ تاویل یقینا اس بات سے زیادہ بہتر اور مناسب ہے کہ حدیث کے الفاظ میں کتابت کی غلطی یا روایت کے سہو کا احتمال نکالا جائے۔ ان کے لئے وہی چیز کافی ہوگی الخ کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اس قدر صبر و استقامت اور نفس پر قابو عطا فرما دے گا کہ وہ کھانے پنیے کی احتیاج ہی محسوس نہیں کریں گے جیسا کہ فرشتے کھانے پینے کے محتاج نہیں ہوتے اور ان کی اصل غذا تسبیح ہوگی جیسا کہ فرشتوں کی غذا تسبیح و تقدیس ہے واضح رہے کہ بعض حضرات نے حضرت اسماء (رض) کے ان الفاظ یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے تو ہمارے دل نکال لئے الخ کے یہ معنی بیان کے ہیں کہ دجال سے ہمارا تو واسطہ بھی نہیں پڑا ہے، اس کا صرف ذکر ہی سن کر ہمارا یہ عالم ہے کہ ہم روٹی پکانے کے لئے آٹا گوندھتے ہیں اور جونہی دجال کی ان باتوں کا خیال آجاتا ہے جو آپ ﷺ نے ذکر فرمائی ہیں اور جو ہمارا دل نکالنے لگتی ہیں تو خوف و دہشت اور فکر و صدمہ کی وجہ سے ہم روٹی پکانا چھوڑ دیتے ہیں اور بھوکے رہ جاتے ہیں، تو آخر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو اس زمانہ کے سخت ترین حالت سے دوچار ہوں گے اور جن کا واسطہ دجال سے پڑے گا لیکن طیبی نے اس معنی کو بعید قرار دیا ہے ویسے اگر یہ معنی مراد لئے جائیں تو اس صورت میں حضور ﷺ کے جواب کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تسبیح و تقدیس کی برکت سے ان کو صبرو استقامت اور ان حالات کا مقابلہ کرنے کو قوت و طاقت عطا فرما دیگا ! نیز احتمال تو یہ ہے کہ حضرت اسماء نے یہ بات اس مجلس کے بعد کسی وقت خدمت نبوی میں حاضر ہو کر عرض کی ہوگی ویسے فقلت میں حرف ف بظاہر اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ انہوں نے یہ بات اسی مجلس میں دجال کا ذکر سن کر کہی تھی اور ان کے الفاظ جن میں آٹا گوندھنے اور بھوک کا ذکر ہے، یہ انہوں نے زمانہ آئندہ کے اعتبار سے کہی۔ مشکوۃ کے اصل نسخہ میں رواہ کے بعد چھوٹی ہوئی ہے، لیکن پھر بعد میں کسی نے احمد وابو داؤد والطیالی کے الفاظ کا الحاق کیا ہے اور بعض حضرات نے اس طرح کہا ہے رواہ احمد عن عبد الرزاق عن معمر عن قتادۃ عن شہر بن خوشب عنہا وانفردبہ عنہا

【31】

اہل ایمان کو دجال سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں

اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ دجال کے بارے میں جس قدر میں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا ہے اتنا کسی اور نے نہیں پوچھا ! چناچہ (ایک دن) آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ دجال تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گا یعنی تمہارے اوپر چونکہ حق تعالیٰ کی عنایت و حمایت کا سایہ ہوگا اس لئے دجال تمہیں گمراہ نہیں کرسکے گا میں نے عرض کیا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ روٹیوں کا پہاڑ ( یعنی پہاڑ کے بقدر غذائی ضروریات کا ذخیرہ) ہوگا اور پانی کی نہر اس وقت جب کہ لوگ قحط سالی کا شکار ہوں گے اگر کوئی شخص بھوک و پیاس سے اضطرار کی حالت کو پہنچ جائے تو وہ کیا کرے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دجال اللہ تعالیٰ کی نزدیک اس سے زیادہ ذلیل ہے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح اس سے زیادہ ذلیل ہے کا مطلب یہ ہے کہ دجال اپنی طاقت وقوت کے جو مظاہر پیش کرے گا وہ سب بےحقیقت ہونگے کہ ان چیزوں کی حیثیت شعبدہ بازی، فریب کاری اور نظر بندی سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوگی وہ اللہ کے نزدیک اس قدر ذلیل و بےحیثیت ہے کہ حقیقت کے اعتبار سے اس کو اتنی زیادہ طاقت وقدرت عطا نہیں ہوسکتی اور وہ اس بات پر قادر ہی نہیں ہوسکتا کہ اپنے عقیدہ وعمل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اہل ایمان کو گمراہ کرسکے لہٰذا اہل ایمان دجال کی اس مافوق الفطرت طاقت کو دیکھ کر کہ جو صرف ظاہر میں طاقت نظر آئے گی اور حقیقت میں دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا ! ہرگز خوفزدہ نہیں ہوں گے بلکہ وہ تو اس کی شعبدہ بازیوں اور اس کے محیر العقول کارناموں کو دیکھ کر اس کے دجل و فریب اور جھوٹ پر اپنے یقین کو اور زیادہ پختہ کریں گے۔

【32】

دجال کی سواری گدھا ہوگا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا دجال ایک سفید گدھے پر سوار ہو کر نکلے گا اور اس گدھے کے دونوں کانوں کے درمیان ستر باع چوڑا فاصلہ ہوگا اس روایت کو بیہقی نے کتاب البعث والنشور میں نقل کیا ہے۔ تشریح باع دونوں ہاتھوں کے پھیلانے کی مقدار کو کہتے ہیں ! حاصل یہ کہ دجال کی سواری کا وہ گدھا اتنا بڑا ہوگا کہ اس کے دونوں کانوں کے درمیان کا فاصلہ دونوں ہاتھوں کے ستر پھیلاؤ کے بقدر ہوگا۔