165. ابن صیاد کے قصہ کا بیان

【1】

ابن صیاد کے قصہ کا بیان

مشکوٰ ۃ کے اکثر قابل اعتماد نسخوں میں یہاں ابن صیاد ہی لکھا ہے، لیکن بعض نسخوں میں ابن الصیاد نقل کیا گیا ہے۔ ابن صیاد کی حقیقت ابن صیاد کا اصل نام صاف تھا اور بعض حضرات نے عبداللہ کہا ہے وہ ایک یہودی تھا جو مدینہ کا باشندہ تھا یا اصل باشندہ تو کہیں اور کا تھا لیکن مدینہ آکر وہاں کے یہودیوں میں شامل ہوگیا تھا ! ابن صیاد سحر وکہانت کا زبردست ماہر تھا اور اس وجہ سے اس کی شخصیت بڑی پراسرار بن کر رہ گئی تھی اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے اس کی حقیقت کو مختصر طور پر یوں ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک بڑا فتنہ تھا جس میں مسلمانوں کو مبتلا کر کے ان کا امتحان لیا گیا تھا اس کے حالات بڑے مختلف تھے اور اس بنا پر صحابہ کرام کے درمیان بھی اس کی حیثیت کے تعین میں اختلاف تھا، چناچہ کچھ صحابہ کرام کا خیال یہ تھا ابن صیاد وہی دجال ہے جس کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ وہ دنیا میں ظاہر ہوگا اہل ایمان کو گمراہ کرے گا لیکن اکثر حضرات کا کہنا یہ تھا کہ ابن صیاد بڑا دجال تو نہیں ہے لیکن ان چھوٹے دجالوں میں سے ایک ضرور ہے جو مختلف زمانوں میں پیدا ہوتے رہیں گے اور جن کا اصل مقصد فتنہ و فساد پھیلانا اور لوگوں کو گمراہ کرنا ہوگا ! جیسا کہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ اس امت میں دجال پیدا ہوتے رہیں گے، جو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرینگے آخر الذکر حضرات کی دلیل یہ ہے کہ ابن صیاد اگرچہ پہلے کافر وکاہن تھا لیکن آخر میں مسلمان ہوگیا تھا، پھر اس نے حج بھی کیا مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوا، اس کی اولاد بھی ہوئی اور وہ مدینہ و مکہ میں رہا کرتا تھا جب کہ دجال کافر ہوگا اور کفر ہی کی حالت میں مارا جائے گا اس کے اولاد نہیں ہوگی اور مکہ و مدینہ میں اس کا داخلہ تک ممنوع ہوگا چہ جائیکہ وہ ان مقدس شہروں میں بود و باش اختیار کرے حضرت تمیم داری کی اس حدیث کو بھی ان حضرات کی پوری دلیل قرار دیا جاسکتا ہے جو دجال کے سلسلہ میں پیچھے گزر چکی ہے ! بہر حال ابن صیاد کی حیثیت و حقیقت مبہم تھی، اس کے بارے میں تعین و یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے، خود آنحضرت ﷺ پر بھی اس بارے میں کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی اس لئے آپ ﷺ نے بھی اس کی اصل حیثیت پر سے پردہ نہیں اٹھایا بلکہ اس کو مبہم رکھا جیسا کہ اس باب میں منقول احادیث سے معلوم ہوگا۔

【2】

ابن صیاد کے ساتھ ایک واقعہ

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ( ایک دن) حضرت عمر فاروق ابن خطاب (رض) صحابہ کرام کی ایک جماعت میں شامل ہو کر رسول کریم ﷺ کے ساتھ ابن صیاد کے پاس گئے اور انہوں نے اس کو ( یہودیوں کے ایک قبیلہ) بنو مغالہ کے محل میں بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا، وہ اس وقت سن بلوغ کے قریب ہوچکا تھا، ابن صیاد ان سب کی آمد سے بیخبر ( اپنے کھیل میں مصروف) رہا یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ نے اس کی پشت پر ہاتھ مارا اور ( جب وہ متوجہ ہوا تو آپ ﷺ نے اس سے سوال کیا کہ کیا تو اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ ابن صیاد نے ( یہ سن کر بڑی غصیلی نظروں سے) آپ ﷺ کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم امیوں یعنی ناخواندہ لوگوں کے رسول ہو اور پھر اس نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ آنحضرت ﷺ نے اس کو (پکڑ لیا) اور خوب زور سے بھینچا اور فرمایا میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا اس کے بعد آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ ( اچھا یہ بتا) تو کیا دیکھتا ہے یعنی غیب کی چیزوں سے تجھ پر کیا منکشف ہوتا ہے ؟ اس نے جواب دیا کبھی تو میرے پاس سچی خبر آتی ہے اور کبھی تو میرے پاس سچا فرشتہ آتا ہے اور کبھی جھوٹا شیطان رسول کریم ﷺ نے اس کا یہ جواب سن کر) فرمایا کہ تیرا معاملہ سب گڈمڈ ہوگیا پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تیرے لئے اپنے دل میں ایک بات چھپائی ہے اور جو بات آپ ﷺ نے ابن صیاد کے لئے چھپائی تھی وہ یہ آیت (فَارْتَ قِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَا ءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ ) 44 ۔ الدخان 10) تھی اس نے جواب دیا کہ وہ پوشیدہ بات ( جو تمہارے دل میں سے) دخ ہے آنحضرت ﷺ نے ( یہ سن کر) فرمایا دور ہٹ ! تو اپنی اوقات سے آگے ہرگز نہیں بڑھ سکے گا حضرت عمر فاروق (رض) نے ( یہ صورت حال دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اگر آپ ﷺ مجھے اجازت دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابن صیاد اگر وہی دجال ہے ( جس کے آخر زمانہ میں نکلنے کی اطلاع دی گئی ہے) تو پھر تم اس پر مسلط نہیں ہو سکو گے یعنی اس کو قتل کرنے پر قادر نہیں ہو سکو گے کیونکہ اس کو قتل کرنا تو صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے مقدر ہے) اور اگر یہ وہ نہیں ہے تو پھر اس کو قتل کرنے میں تمہارے لئے کوئی بھلائی نہیں) حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد ( ایک دن) رسول کریم ﷺ کھجور کے ان درختوں کے پاس تشریف لے گئے جہاں ابن صیاد تھا اس وقت آپ کے ساتھ حضرت ابی ابن کعب انصاری (رض) بھی تھے، رسول کریم ﷺ ( وہاں پہنچ کر) کھجور کی شاخوں کے پیچھے چھپنے لگے تا ابن صیاد ( اپنے قریب آپ ﷺ کی موجودگی سے) بیخبر رہے اور آپ ﷺ اس کے دیکھنے سے پہلے اس کی کچھ باتیں سن لیں اور اس طرح چھپ کر ابن صیاد کی باتوں کو سننے سے آپ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ خود آپ ﷺ بھی اور صحابہ کرام بھی جان لیں کہ وہ آخر ہے کیا آیا کوئی کاہن ہے یا جادوگر یا کچھ اور ؟ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص سے فتنہ پردازی کا خوف ہو اس کی حقیقت کو ظاہر کرنا اور لوگوں پر اس کے احوال منکشف کرنا جائز ہے) اس وقت ابن صیاد ایک چادر میں لپٹا ہوا لیٹا تھا اور اس چادر کے اندر سے گنگنانے کی آواز آرہی تھی ( جس کا کوئی مفہوم سمجھ میں آتا تھا) ( دیکھ کر) رسول کریم ﷺ نے ( صحابہ سے) فرمایا۔ اگر ابن صیاد کی ماں اس کو نہ ٹوکتی ( اور میری موجودگی سے باخبر نہ کرتی) وہ اپنی حقیقت کو ظاہر کردیتا ( یعنی اس کی باتوں سے یہ معلوم ہوجاتا وہ کون ہے اور کیا ہے) حضرت عبداللہ ( ابن عمر کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب) رسول کریم ﷺ ( خطبہ دینے کے لئے) لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے تو پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی جو اس کو سزاوار ہے، پھر دجال کا ذکر کیا ( بایں احتمال کہ شاید ابن صیاد دجال ہو یا آپ ﷺ نے اس کی فتنہ پردازی اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ اس میں دجال کی بعض خصلتیں پائی جاتی تھیں دجال کا ذکر کرنا اور اس کے احوال سے آگاہ کرنا مناسب جانا) اور فرمایا میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں اور نوح (علیہ السلام) کے بعد کوئی نبی ﷺ ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو اور ( ان انبیاء سے پہلے) نوح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا ہے لیکن میں تم سے دجال کے بارے میں ایک ایسی بات اور ایک ایسی علامت بتاتا ہوں جو کسی اور نبی ﷺ نے اپنی قوم سے نہیں بتائی ہے، سو تم جان لو کہ دجال کا نا ہوگا اور یقینا اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح امیوں سے اس کی مراد اہل عرب تھے، کیو کہ اس زمانہ میں اکثر اہل عرب پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے ! اور اصل بات یہ ہے کہ یہودیوں میں سے ایک طبقہ کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ کی رسالت کے منکر تو نہیں تھے لیکن آپ ﷺ کو صرف اہل عرب کا رسول مانتے تھے بہر حال یہ بات ( یعنی ابن صیاد کا حضور ﷺ کی رسالت کی گواہی اس طرح دینا) اس کی ان لغو باطل باتوں میں سے ایک تھی جو شیطان کاہنوں کو القا کیا کرتا ہے، ویسے منطقی طور پر بھی اس کے یہ الفاظ زبردست تضاد وتناقض کے حامل تھے کیونکہ نبی ہر حال میں سچا ہوتا ہے خواہ وہ کسی ایک قوم و علاقہ میں مبعوث ہوا ہو یا پوری نوع انسانیت کے لئے) اور جب آنحضرت ﷺ نے اپنی نبوت عامہ کا اعلان کیا۔ اور تمام نوع انسان کو اپنی رسالت کی دعوت دی تو آپ ﷺ کی نبوت کو صرف اہل عرب کے ساتھ مخصوص کرنا سراسر باطل ٹھہرا آنحضرت ﷺ نے اس کو خوب زور سے بھینچا میں بھینچا لفظ رص کا ترجمہ ہے جو ر کے زبر اور ص کے ساتھ ہے اور جس کے اصل معنی دو چیزوں کو استوار کرنا اور آپس میں ایک دوسرے سے جوڑنا ملانا ہے اسی لئے مضبوط اور استوار بنیاد کو بنائے مرصوص کہا جاتا ہے حاصل یہ کہ حضور ﷺ نے ابن صیاد کو پکڑ کر اور اس کے اعضاء جسم کو ایک دوسرے سے ملا کر زور سے بھینچا اور علامہ نووی نے یہ لکھا ہے کہ ہمارے علاقہ میں کتاب کے جو صحیح نسخے ہیں ان میں یہ لفظ فرفضہ یعنی ف اور ض کے ساتھ ہے، جو رفض سے ہے اور جس کے معنی چھوڑنے کے ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آپ ﷺ نے اس کے سوال و جواب اور اس کی کٹ حجتی سے صرف نظر کرلیا۔ میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا کا مطلب یہ تھا کہ میں یقینا اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور نبیوں پر ایمان لایا ہوں اور یہ بھی یقینی ہے کہ تو ان میں سے نہیں) ہاں اگر بفرض محال تو بھی ان میں سے ہوتا تو میں تجھ پر بھی ایمان لاتا ! لیکن یہ فرض کرنے والی بات اسی صورت میں جائز ہوگی جب یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ نے یہ بات اپنے خاتم النبیین ہونے کے علم سے پہلے کہی تھی، اگر اس وقت آپ کا خاتم النبیین ہونا آپ ﷺ کے علم میں تھا تو یہ بفرض محال والی بات مراد نہیں لی جاسکتی اس مسئلہ کی نزاکت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص نبوت کا دعوی کرے اور کوئی اور شخص اس سے معجزہ کا مطالبہ کرنے کے باوجود اس کو اس لئے قتل نہیں کیا کہ اول تو وہ بہت چھوٹی عمر کا تھا اور چھوٹی عمر والوں کو قتل کرنا حضور ﷺ کے لئے ممنوع تھا، دوسرے یہ کہ یہودی ان دنوں ذمی تھے اور حضور ﷺ سے انہوں نے اس بات پر صلح کر رکھی تھی کہ ان کے حال پر رہنے دیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ ابن صیاد بھی یہودیوں ہی کا ایک فرد تھا ان کے خلیفوں میں سے تھا، اس لئے اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کبھی تو میرے پاس سچی خبر آتی اور کبھی جھوٹی خبر۔ کے بارے میں بعض شارحین نے کہا ہے کہ ابن صیاد سے حضور ﷺ کے سوال کا حاصل یہ تھا کہ جو شخص تیرے پاس آتا ہے وہ تجھ سے کیا کہتا ہے اور اس کی کہی ہوئی باتیں تیرے لئے کیسی ثابت ہوئی ہیں ؟ ابن صیاد نے مذکورہ جملہ کے ذریعہ اس سوال کا جواب دیا اس کا حاصل یہ تھا کہ ایک آنے والا مجھے کچھ باتیں بتاتا جاتا ہے، ان میں سے کوئی سچی ہوجاتی ہے اور کوئی جھوٹی چناچہ کاہنوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ شیطان ان پر جھوٹی سچی، ہر طرح کی خبریں القا کرتا ہے۔ تیرا معاملہ سب گڈمڈ ہوگیا مطلب یا تو یہ تھا کہ تیرے پاس چیزوں اور اطلاعات کا تو ذخیرہ ہے وہ سب بیکار اور لاحصل ہے کیونکہ ان میں سے سچی باتیں بھی جھوٹی باتوں کے ساتھ مل کر کرنا قابل اعتبار ہوگئی ہیں یا یہ مطلب تھا کہ تیری حیثیت اور تیرے احوال کو ناقابل اعتماد بنادیا گیا ہے کیونکہ تیرے پاس تو شیطان آتا ہے جو تجھے جھوٹی سچی خبریں سنا جاتا ہے اس بات کے ذریعہ گویا حضور ﷺ نے اس کے دعویٰ رسالت کو جھوٹا قرار دیا کیونکہ کسی رسول کے پاس جھوٹی خبریں نہیں آیا کرتیں جب کہ اس نے خود اپنی زبان سے اس کا اقرار کیا، لہٰذا آپ ﷺ نے واضح کردیا کہ تو صرف کاہن ہے اور کاہنوں کا یہی حال ہوا کرتا ہے۔ تو رسول و نبی ہرگز نہیں ہوسکتا۔ میں نے تیرے لئے دل میں ایک بات چھپائی ہے یعنی تجھے اگر یہ دعوی ہے کہ تجھ پر خدائی راز تک منکشف ہوجاتے ہیں اور کوئی شخص آکر تجھے غیب کی باتیں بتا کرجاتا ہے تو ذرا یہ بتا کہ اس وقت میرے دل میں کیا ہے، میں نے تیرے تعلق سے ایک بات اپنے دل میں رکھی ہے ؟ اس بات کے ذریعہ حضور ﷺ نے ابن صیاد کا امتحان لیا تاکہ صحابہ کرام پر اس کی حقیقت واضح ہوجائے اور وہ جان لیں کہ یہ نرا کاہن ہے شیطان اس کے پاس آکر اس کو جھوٹی سچی باتیں سکھا جاتا ہے۔ وہ پوشیدہ بات دخ ہے د کے پیش اور زبر کے اور خ کے تشدید کی ساتھ دخ کے معنی دھوئیں کے ہیں ! ابن صیاد اس پوری آیت کو تو بتانے میں کامیاب نہیں ہوسکا جو آنحضرت ﷺ نے اپنے دل میں سوچ رکھی تھی، البتہ اس نے اس آیت کا ایک ناقص لفظ ضرور بتادیا اس بات سے بھی اس کا کاہن ہونا ثابت ہوگیا کیونکہ کہانت میں یہی ہوتا ہے کہ شیطان کسی بات کا کوئی ایک ادھورا اور ناقص جز اڑا کرلے آتا ہے اور اس کو کاہنوں کے دل میں ڈال دیتا ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس وقت آہستہ سے صحابہ کو بتایا ہو کہ میں نے یہ آیت اپنے دل میں سوچی ہے اور شیطان نے بھی یہ بات سن لی ہو اور پھر اس نے ابن صیاد کو اس کا القا کردیا ہو۔ دور ہٹ تو اپنی اوقات سے آگے ہرگز نہیں بڑھ سکتا دور ہٹ لفظ اخساء کا ترجمہ ہے جس کے ذریعہ اہانت و حقارت کا اظہار کیا جاتا ہے اور عام طور پر کتے اور سور کے لئے اس کا استعمال ہوتا ہے کہ کسی کتے اور سور کو ہانکنے اور لوگوں سے دور ہٹانے کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے بہر حال جب ابن صیاد کی حقیقت واضح ہوگئی کہ اس کا حال وہی ہے جو کاہنوں کا ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے القا کرنے کے سبب کچھ ادھوری باتیں معلوم ہوگئیں، تو بس کاہن ہی ہے اور کاہن ہی رہے گا اس سے آگے تو ہرگز نہیں بڑھ سکتا، اپنی حد میں رہنا اور آئندہ رسالت کا دعوی کرنے کی جرأت نہ کرنا کہ وہ میرا مقام ہے۔ اس کو قتل کرنے میں تمہارے کوئی بھلائی نہیں ہے کا مطلب یہ تھا کہ یہ چونکہ ذمی ہے اور ان یہودیوں میں سے ہے جو اہل ذمہ ہیں، علاوہ ازیں ایک نابالغ اور چھوٹی عمر کا بھی ہے اس لئے اس کو قتل کرنا کوئی فائدہ کی بات نہیں ہے چونکہ بعض قرائن ابن صیاد کے دجال ہونے پر دلالت کرتے تھے اس لئے آپ نے بطور شک یہ بات ارشاد فرمائی کہ یہ واقعی دجال ہے تو تم اس کو قتل کرنے پر قادر نہیں ہو سکو گے اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو پھر اس کو قتل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ اور یقینا اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے یعنی وہ دوسرے سے حاسہ بینائی ہی سے پاک ومنزہ ہے چہ جائیکہ اس کی ذات میں کانے پن جیسا کوئی عیب ہو واضح رہے کہ حضور ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ کسی نبی نے اپنی قوم کو یہ نہیں بتایا کہ دجال کانا ہے تو اس بارے میں یہ احتمال ہے کہ آنحضرت ﷺ کے علاوہ کسی اور نبی کو دجال کے احوال کا اتنا تفصیلی علم ہی نہیں تھا کہ دجال کانا ہوگا یا کیسا ہوگا ؟ یا یہ کہ یہ علم تو ہر نبی کو ہوگا مگر کسی نے اپنی قوم کو یہ نہیں بتایا کہ دجال کانا ہوگا۔

【3】

ابن صیاد کاہن تھا

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق (رض) ان سب کی ملاقات مدینہ کے ایک راستہ میں ابن صیاد سے ہوگئی، رسول کریم ﷺ نے اس سے فرمایا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ ابن صیاد نے جواب میں کہا کہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ رسول کریم ﷺ نے ( یہ سن کر) فرمایا۔ میں اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ( اس کے بعد آپ ﷺ نے پوچھا کہ اچھا یہ بتا) تو کیا چیز دیکھتا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں ایک تخت کو پانی پر دیکھتا ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ تو ابلیس کے تخت کو سمندر پر دیکھتا ہے ! پھر فرمایا۔ اس کے علاوہ اور کیا دیکھتا ہے ؟ ابن صیاد نے کہا کہ دو سچوں کو دیکھتا ہوں ( جو سچی خبریں لایا کرتے ہیں) اور ایک جھوٹے کو دیکھتا ہوں ( جو جھوٹی خبریں لایا کرتا ہے) یا دو جھوٹوں کو دیکھتا ہوں اور ایک سچے کو اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے ( صحابہ سے مخاطب ہو کر) فرمایا اس کے لئے صورت حال ( یعنی کہانت) کو گڈ مڈ کردیا گیا ہے، اس کو چھوڑ دو ( یعنی یہ تو ٹھیک ٹھیک بات کرنے کے بھی قابل نہیں ہے کہ اس کا کوئی جواب دیا جائے۔ ( مسلم) تشریح تو ابلیس کے تخت کو سمندر پر دیکھتا ہے۔ کے ذریعہ حضور ﷺ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا کہ ابلیس پانی کے اوپر اپنا تخت بچھا کر اس پر اپنا دربار قائم کرتا ہے اور وہیں سے اپنے چیلوں اور اپنے ساتھیوں کی ٹولیوں کو دنیا میں بھی فتنہ و فساد پھیلانے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے روانہ کرتا ہے اس کا ذکر کتاب کے شروع میں باب الوسوسہ میں گزر چکا ہے۔ یا دو جھوٹوں کو دیکھتا ہوں اور ایک سچے کو یہ یا تو راوی نے اپنا شک ظاہر کیا ہے کہ اس موقع پر روایت کے الفاظ اس طرح ہیں یا یہ کہ خود ابن صیاد ہی نے اس شک کے ساتھ بیان کیا ہو میں یا تو دو سچوں اور ایک جھوٹے کو دیکھتا ہوں یا دو جھوٹوں اور ایک سچے کو اور یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس کا معاملہ جس طرح خلط و احتمالات میں گرا ہوا تھا اور اس کے احوال جس طرح نظام و استقلال اور استقامت و یقین سے خالی تھے اس کا تقاضا ہی یہ تھا کہ اس کو کسی بھی صورت جزم و یقین حاصل نہ ہوا چناچہ وہ کبھی اس طرح دیکھتا تھا اور کبھی اس طرح۔

【4】

جنت کے بارے میں آنحضرت سے ابن صیاد کا سوال

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ابن صیاد نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ جنت کی مٹی کیسی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ میدہ کی مانند سفید اور مشک خالص کی مانند خوشبودار ہے۔ ( مسلم )

【5】

دجال کے بارے میں ایک پیش گوئی

اور حضرت نافع کہتے ہیں کہ ( ایک دن) حضرت ابن عمر (رض) کی ملاقات مدینہ کے ایک راستہ میں ابن صیاد سے ہوگئی تو انہوں نے اس سے ایک ایسی بات کہہ دی جس سے وہ غضبناک ہوگیا اور جوش و غضب سے اس کی رگیں پھول گئیں اس کے بعد جب ابن عمر ( اپنی بہن) ام المؤمنین حضرت حفصہ (رض) کے ہاں گئے، جن کو اس واقعہ کی خبر پہنچ چکی تھی، تو انہوں نے فرمایا۔ ابن عمر ! اللہ تم پر اپنی رحمت نازل کرے، تم نے ابن صیاد سے کیا چاہا تھا ( کہ اس کو اس قدر غضبناک کردیا) کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا۔ دجال کسی بات پر غضبناک ہو کر نکل پڑے گا۔ (مسلم) تشریح یعنی دجال کسی بات پر غصہ ہوگا اور وہ غصہ اس کو اتنا مشتعل کرے گا کہ وہ نکل پڑے گا اور یکدم نبوت یا خدائی کا دعوی کر بیٹھے گا پس اے ابن عمر ! تم ابن صیاد کو غضبناک ومشتعل نہ کرو اور اس سے کوئی بات نہ کرو تاکہ وہ خروج نہ کرے اور دنیا والے اس کی فتنہ پردازی سے محفوظ رہیں حضرت حفصہ نے ابن عمر (رض) کو جو اس طرح منع کیا تو بظاہر اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ انہوں نے سوچا کہ شاید این صیاد ہی دجال ہو اور آنحضرت ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق کہیں ابن عمر ہی اس کے خروج کا ظاہری سبب نہ بن جائیں، بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت حفصہ (رض) اس کے دجال ہونے کا یقین رکھتی ہوں۔

【6】

ابن صیاد کا دجال ہونے سے انکار

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ) میرا اور ابن صیاد کا مکہ کے سفر میں ساتھ ہوگیا، اس نے مجھ سے اپنی اس تکلیف کا حال بیان کیا جو لوگوں سے اس کو پہنچتی تھی، وہ کہنے لگا کہ لوگ مجھ کو دجال سمجھتے ہیں یا کہتے ہیں، ( اور تم جانتے ہو کہ یہ بات خلاف حقیقت ہے) ابوسعید ! کیا تم نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ دجال کے اولاد نہیں ہوگی، جب کہ میرے اولاد ہے، کیا آنحضرت ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال کافر ہوگا، جب کہ میں مسلمان ہوں، کیا یہ آپ ﷺ کا ارشاد نہیں ہے کہ دجال مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہو سکے گا، جب کہ میں مدینہ سے آرہا ہوں۔ ابوسعید کہتے ہیں کہ ابن صیاد نے آخری بات مجھ سے یہ کہی کہ یاد رکھو ! اللہ کی قسم میں دجال کی پیدائش کا وقت جانتا ہوں اور اس کا مکان جانتا ہوں ( کہ وہ کہاں پیدا ہوگا اور یہ بھی جانتا ہوں وہ ( اس وقت) کہاں ہے اور اس کے ماں باپ کو بھی جانتا ہوں ابوسعید کہتے ہیں کہ میں ابن صیاد کی یہ باتیں سن کر) شبہ میں پڑگیا میں نے کہا، تو ہمیشہ کے لئے ہلاک ہو ابوسعید کہتے ہیں کہ اس وقت موجود لوگوں میں سے) کسی نے ابن صیاد سے کہا کہ کیا تجھ کو یہ اچھا معلوم ہوگا کہ تو خود ہی دجال ہو ابن سعید کہتے ہیں کہ اس نے ( یہ سن کر) جواب دیا کہ ہاں، اگر لوگوں کو گمراہ کرنے، فریب میں ڈالنے اور شعبدہ بازی وغیرہ کی وہ تمام چیزیں مجھے دے دی جائیں جو دجال میں ہیں تو میں برا نہ سمجھوں۔ ( مسلم) تشریح میں شبہ میں پڑگیا کے ذریعہ ابوسعید نے گویا یہ بیان کیا کہ پہلے میں تو یہ یقین رکھتا تھا کہ این صیاد وہی دجال ہے لیکن اب اس نے جو اپنے دجال ہونے سے انکار کیا تو میں شک میں پڑگیا کہ اس کو دجال سمجھا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ یا یہ کہ اس نے پہلے تو دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ میں خود دجال نہیں ہوں لیکن اس نے آخر میں جو یہ کہا کہ میں دجال کا مولد ومسکن وغیرہ جانتا ہوں تو کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس نے یہ بات بطور تعرض کہی ہو اور ان آخری الفاظ سے مراد خود اس کی اپنی ذات ہو تو میں برا نہ سمجھوں کے ذریعہ ابن صیاد نے گویا یہ اقرار کیا کہ ایسی صورت میں دجال بننا میں قبول کرلوں گا اور راضی ہوجاؤں گا پس یہ بات اس کے کفر کی واضح دلیل ہے۔

【7】

ابن صیاد کا ذکر

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن سر راہ) میری ملاقات ابن صیاد سے ہوگئی، اس وقت اس کی آنکھ سوجی ہوئی ( اور ورم آلود تھی، میں نے پوچھا کہ تیری اس آنکھ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں ( یعنی ورم) یہ کب سے ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا کب سے ہے میں نے کہا تجھ کو نہیں معلوم حالانکہ آنکھ تیرے سر میں ہے اس نے کہا کہ اگر اللہ چاہے تو آنکھ کو تمہارے عصا میں پیدا کر دے ابن عمر کہتے ہیں کہ ( اس کے بعد) ابن صیاد نے اپنی ناک سے گدھے کی اتنی سخت آواز کی مانند کہ جو میں نے سنی ہے) ایک آواز نکالی۔ ( مسلم ) تشریح آنکھ کو تمہارے عصا میں پیدا کر دے اس جملہ سے ابن صیاد کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ جمادات ( یعنی بےحس و حرکت اشیاء جیسے پتھر اور لکڑی وغیرہ) میں سے کسی چیز میں آنکھ لگا دے اور پھر اس آنکھ میں درد پیدا ہوجائے تو اس چیز کو نہ آنکھ کا احساس ہوگا اور نہ آنکھ کے اس درد کا تو اسی طرح یہ عین ممکن ہیں کہ کسی ایسے انسان کی آنکھ میں تکلیف کی کوئی علامت پیدا ہوجائے جو ہر وقت ذہنی ( جسمانی طور پر مشغول ومستغرق رہتا ہو تو اس کو کثرت اشتغال اور ہجوم افکار کی وجہ سے اس درد و تکلیف کا احساس نہ ہوگا !۔

【8】

ابن صیاد، دجال ہے

اور حضرت محمد ابن منکدر تابعی (رح) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر ابن عبداللہ (رض) کو دیکھا وہ قسم کھا کر کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے، میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ اللہ کی قسم کھا رہے ہیں ! ( حالانکہ ابن صیاد کا دجال ہونا صرف ظنی ہے نہ کہ یقینی) انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر فاروق (رض) کو سنا، وہ اس بات پر نبی کریم ﷺ کے سامنے قسم کھاتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے اور نبی کریم ﷺ نے اس سے انکار نہیں فرمایا ( اگر یہ بات یقینی نہ ہوتی تو یقینا آنحضرت ﷺ حضرت عمر (رض) کی اس بات کا انکار کرتے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح ہوسکتا ہے کہ حضرت جابر اور حضرت عمر (رض) کا قسم کھانا اس بات پر ہو کہ ابن صیاد، ان دجالوں ( یعنی جھوٹوں اور غریبوں میں سے ایک ہے جو وقتا فوقتا اس امت میں پیدا ہوتے رہیں گے اور اپنی نبوت کا دعوی کرکے لوگوں کو گمراہ کریں گے اور شکوک و شبہات میں مبتلا کریں گے گویا ان دونوں کی قسم کا تعلق اس بات سے نہیں تھا کہ ابن صیاد واقعۃ دجال ہے، کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ابن صیاد کے معاملہ کو مبہم رکھ کر گویا اس بات کی تردید فرما دی تھی کہ وہ یقینی طور پر دجال ہے ! لیکن روایت کے الفاظ میں مطلق دجال کا ذکر ہے اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ان دونوں حضرات کے نزدیک دجال معہود ہی مراد تھا اس صورت میں ان دونوں کی قسم کو غلبہ ظن کے وقت قسم کھا لینے کے جواز پر محمول کیا جائے گا نیز آگے دوسری فصل میں حضرت ابن عمر (رض) کی جو روایت آرہی ہے اس میں انہوں نے صراحۃ بیان کیا ہے کہ ابن صیاد دجال معہود تھا پس ہوسکتا ہے کہ ابن عمر (رض) کا مسلک بھی یہی رہا ہو بہر حال یہ بات پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ ابن صیاد کے سلسلہ میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف و اشتباہ تھا۔

【9】

ابن عمر کے نزدیک ابن صیاد، مسیح دجال تھا

اور حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) کہتے تھے کہ اللہ کی قسم مجھ کو اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیح دجال ابن صیاد ہی ہے اس روایت کو ابوداؤد نے اور بیہقی نے کتاب البعث والنشور میں نقل کیا ہے۔

【10】

ابن صیاد واقعہ حرہ کے دن عائب ہوگیا تھا

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے واقعہ حرہ کے دن ابن صیاد کو غائب پایا تھا۔ ( ابوداؤد) تشریح اگر الفاظ حدیث کے ظاہر معنی مراد ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ ابن صیاد حرہ کے واقعہ میں غائب ہوگیا تھا اور ایسا غائب ہوا کہ پھر کسی کو معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کہاں گیا اور اس کا کیا حشر ہوا اس صورت میں یہ روایت اس روایت کے منافی ومتضاد ہوگی جس میں بیان کیا گیا ہے کہ مدینہ میں اس کا انتقال ہوا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی ! اور اگر اس حدیث میں غائب سے مراد اس کا عام مفہوم ہو کہ جس میں موت بھی شامل ہے تو پھر ان دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں رہے گا اس صورت میں حاصل یہ ہوگا کہ غائب ہوجانے سے مراد اس کا مرجانا ہے یعنی وہ واقعہ حرہ کے دن مدینہ میں مرگیا تھا۔ واقعہ حرہ کے دن سے مراد وہ دن ہے جب ابن معاویہ کی فوج نے اہل مدینہ پر یلغار کردی تھی اور نہایت خونریز جنگ اور جان ومال کی زبر دست تباہی مچا کر ان کو مغلوب کرلیا تھا۔

【11】

ابن صیاد اور دجال

اور حضرت ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ نے فرمایا دجال کے والدین تیس سال اس حالت میں گزاریں گے کہ ان کے کوئی لڑکا نہیں ہوگا پھر ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو بڑے دانتوں والا یعنی کیچلیوں والا ہوگا۔ ( بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دانتوں سمیت پیدا ہوگا۔ وہ بہت کم فائدہ پہنچانے والا ہوگا ( یعنی جس طرح اور لڑکے گھر کے کام کاج میں فائدہ پہنچاتے ہیں وہ کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا) اس کی دونوں آنکھیں سوئیں گی لیکن اس کا دل نہیں سوئے گا۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے ہمارے سامنے اس کے ماں باپ کا حال بیان کیا اور فرمایا۔ اس کا باپ غیر معمولی لمبا اور کم گوشت والا یعنی دبلا ہوگا اس کی ناک مرغ جیسے جانور کی) چونچ کی طرح ( لمبی اور پتلی) ہوگی اور اس کی ماں موٹی چوڑی اور لمبے ہاتھ والی ایک عورت ہوگی۔ ابوبکرہ کہتے ہیں کہ ہم نے مدینہ کے یہودیوں میں ایک ( عجیب و غریب) لڑکے کی موجودگی کے بارے میں سنا تو میں اور زبیر بن العوام ( اس کو دیکھنے چلے گئے) جب ہم اس لڑکے کے والدین کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ بالکل اسی طرح کے ہیں جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے ہم سے ان ( والدین) کے بارے میں بیان کیا تھا، ہم نے ان دونوں سے پوچھا کہ کیا تمہارے کوئی لڑکا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ ہم نے تیس سال اس حالت میں گزارے کہ ہمارے کوئی لڑکا نہیں تھا، پھر ہمارے ہاں ایک کانا لڑکا پیدا ہوا جو بڑے دانتوں والا اور بہت کم فائدہ پہنچانے والا ہے۔ اس کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن اس کا دل نہیں سوتا۔ ابوبکرہ کہتے ہیں کہ ہم دونوں ( ان کی یہ بات سن کر) وہاں سے چل دئیے اور پھر اچانک ہماری نظر اس لڑکے (یعنی ابن صیاد) پر پڑی جو دھوپ میں چادر اوڑھے پڑا تھا اور اس ( کی چادر) میں سے گنگناہٹ کی سی ایک ایسی آواز آرہی تھی جو سمجھ میں نہیں آتی تھے ( ہم نے وہاں کھڑے ہو کر آپس میں اس کے متعلق کوئی بات کہی ہوگی یا کچھ اور کہا ہوگا) اس نے سر سے چادر ہٹا کر ہم سے پوچھا کہ تم نے کیا کہا ہے ؟ ہم نے ( حیرت سے کہا) کہ ( ہم تو سمجھے کہ تو سور ہا ہے) کیا تو نے ہماری بات سن لی ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔ ( ترمذی) تشریح لیکن اس کا دل نہیں سوئے گا۔ کا مطلب یہ ہے کہ وساوس واوہام کی کثرت اور افکار فاسدہ کے مسلسل آتے رہنے کی وجہ سے سوتے وقت بہی وہ افکار فاسدہ اس سے منقطع نہیں ہوں گے بایں طور کہ شیطان اس کو القا کرتا رہے گا جیسا کہ افکار صالحہ کی کثرت اور وحی والہامات کے مسلسل آتے رہنے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کا دل مبارک، نیند کی حالت میں بھی نہیں سوتا تھا۔

【12】

کیا آنحضرت ﷺ بھی ابن صیاد کو دجال سمجھتے تھے ؟

اور حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ مدینہ کی ایک یہودی عورت کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جس کی آنکھ ( یعنی داہنی آنکھ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ بائیں آنکھ) مٹی ہوئی اور ہموار تھی اور اس کی کچلیاں باہر نکلی ہوئی تھیں رسول کریم ﷺ ( کو جب اس طرح کے لڑکے کے بارے میں معلوم ہوا تو آپ ﷺ ڈرے کہ کہیں یہ دجال نہ ہو ( اور امت کے لوگوں کو فتنہ و فساد میں مبتلا کرے) پس ( ایک دن آنحضرت ﷺ اس کو دیکھنے اور اس کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے تشریف لے گئے تو) آپ ﷺ نے اس کو ایک چادر کے نیچے لیٹا ہوا پایا، اس وقت وہ آہستہ آہستہ کچھ بول رہا تھا جس کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا تھا اس کی ماں نے کہا، عبداللہ یعنی ابن صیاد ( دیکھو) یہ ابوالقاسم ( محمد ﷺ کھڑے ہوئے ہیں ( ہوشیار ہوجاؤ اور ان سے بات کرو) وہ ( یہ سنتے ہی) چادر سے باہر نکل آیا، رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اس عورت کو کیا ہوا، اللہ اس کو ہلاک کرے ( کہ اس نے لڑکے کو میری آمد سے خبردار اور ہوشیار کردیا) اگر وہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتی ( اور میری آمد سے آگاہ نہ کرتی) تو یقینا وہ اپنا حال ظاہر کردیتا۔ اس کے بعد حضرت جابر یا روای نے حضرت عمر کی (اس) حدیث کے مطابق بیان کیا ( جو باب کے شروع میں نقل کی جاچکی ہے چناچہ حضرت عمر ابن خطاب نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ﷺ اجازت دیں تو میں اس کو قتل کر ڈالوں حضور ﷺ نے فرمایا۔ اگر یہ ( ابن صیاد) وہی دجال ہے تو اس کے قاتل تم نہیں ہوسکتے بلکہ اس کے قاتل عیسیٰ ابن مریم ہوں گے ( کیونکہ حضرت عیسیٰ کے علاوہ کسی اور شخص کو اس کے قتل کی طاقت وقدرت ہی نہیں دی گئی ہے اور اگر یہ وہ دجال نہیں ہے تو تمہیں ایک ایسے شخص کو قتل کرنے کا کوئی حق نہیں جو اہل ذمہ میں سے ہے ( یعنی ان غیر مسلموں میں سے ہے جن کے جان ومال کی حفاظت ہمارے ذمہ ہوچکی ہے اور جن کو ذمی کہا جاتا ہے) اس کے بعد رسول کریم ﷺ (اپنی امت کے تعلق سے برابر یہ خوف رکھتے تھے کہ ابن صیاد کہیں دجال نہ ہو ( اس روایت کو بغوی نے شرح السنۃ میں نقل کیا ہے۔ تشریح حدیث میں ابن صیاد کے تعلق سے جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس وقت کا ہے جب کہ وہ مسلمان نہیں ہوا تھا اور عام طور پر لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کے خدشات رکھتے تھے اسی لئے حضرت عمر (رض) نے اس کو قتل کردینے کی اجازت چاہی تھی اگرچہ وہ بعد میں مسلمان ہوگیا تھا۔ مگر اسلام لانے کے بعد وہ اپنے فاسد خیالات سے پھرا نہیں تھا جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری کی روایت میں گزرا کہ اس نے مکہ کے سفر کے دوران یہ اقرار کیا تھا کہ اگر مجھے دجال بنادیا جائے تو میں خوش ہوں گا اور ظاہر ہے کہ یہ کفر ہے اور اس کی بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس درجہ کا مسلمان ہوگا۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ ابن صیاد کے بارے میں جو احادیث و روایت منقول ہیں گو ان کے درمیان اختلاف وتضاد ہے اور اس کے متعلق علماء کا کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہے، لیکن اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کے تعلق سے جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ ہمیشہ ابن صیاد کے دجال ہونے کے خوف میں مبتلا رہتے، اس کی یہ توجیہ و تاویل ضروری ہے کہ جب تک آپ ﷺ کو مسیح دجال کے بارے میں پورے حقائق کا علم نہیں ہوا تھا، آپ ابن صیاد کو دجال سمجھتے تھے، لیکن جب تمیم داری کے واقعہ سے اور وحی کے ذریعہ بھی آپ ﷺ کو یہ یقین حاصل ہوگیا کہ دجال کون ہوگا تو آپ ﷺ پر یہ بات واضح ہوگئی ابن صیاد وہ ذات یعنی دجال نہیں ہے جو سمجھا جاتا تھا اس کی تائید حضرت ابوسعیدخدری کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں مکہ کے سفر کے دوران ابن صیاد اور ان کی ملاقات و گفتگو کا ذکر ہے رہی یہ بات کہ آنحضرت ﷺ نے دجال کے والدین کے بارم میں جو کچھ بتایا تھا وہ ابن صیاد کے والدین پر صادق آیا تو اس سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ ابن صیاد ہی دجال تھا کیونکہ دو الگ الگ اشخاص میں پائے جانے والے اوصاف و خصوصیات کا باہم مطابق و یکساں ہوجانا ان دونوں شخصیتوں کے ایک ہونے کو لازم نہیں کرتا ایسے ہی حضرت عمر (رض) وغیرہ کا قسم کھانا کہ ابن صیاد ہی دجال ہے اس پر آنحضرت ﷺ کی طرف سے کسی ممانعت کا نہ ہونا اس وقت کی بات ہے جب کہ دجال کے احوال تفصیل کے ساتھ علم میں نہیں آئے تھے اور چونکہ دجال میں بعض باتیں ایسی ہوں گی جو خوف کا سبب بن سکتی ہیں اس لئے حضور ﷺ اس وقت اپنی امت کے بارے میں احتیاط کرتے تھے کہ کہیں ابن صیاد دجال نہ ہو اور میری امت کے لوگوں کو فتنہ و فساد میں نہ مبتلا کرے۔