166. حضرت عیسی علیہ السلام کے نازل ہونے کا بیان

【1】

حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والتسلیم کے نازل ہونے کا بیان

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے سے مراد ان کا آسمان سے زمین پر اترنا ہے، چناچہ یہ بات صحیح احادیث کے ذریعہ با تحقیق ثابت ہے کہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے اتر کر دنیا میں تشریف لائیں گے، محمد رسول اللہ ﷺ کے دین کا اتباع کریں گے اور اپنے تمام احکام و فرامین شریعت محمدی کے مطابق جاری ونافذ کریں گے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بعض ایسے احکام جاری کریں گے جو شریعت محمدی میں نہیں ہونگے جیسے جزیہ کو اٹھا دینا وغیرہ تو وہ بیان مدت کے قبیل سے ہے جیسا کہ نسخ کا مسئلہ ہے اور اس اعتبار سے اس زمانہ میں وہ احکام بھی شریعت محمدی ﷺ ہی کا ایک جزء ہوں گے۔

【2】

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کا ذکر

اور ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقینا عیسیٰ ابن مریم ( آسمان سے تمہارے درمیان اتریں گے جو ایک عادل حاکم ہوں گے وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے۔ سور کو مار ڈالیں گے ( یعنی اس کو پالنا اور کھانا مطلق حرام و ممنوع اور اس کو مار ڈالنا مباح کردیں گے) جزیہ کو اٹھا دیں گے ( ان کے زمانہ میں) مال و دولت کی فراوانی ہوگی یہاں تک کہ کوئی اس کا خواہشمند نہ رہے گا۔ اور اس وقت ایک سجدہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہوگا ( اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد) حضرت ابوہریرہ (رض) کہا کرتے تھے کہ اگر تم اس بات میں کوئی شک و شبہ رکھتے ہو اور دلیل حاصل کرنا) چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو (وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِه قَبْلَ مَوْتِه) 4 ۔ النساء 159) یعنی کوئی اہل کتاب ( خواہ وہ یہودی ہو یا عیسائی) ایسا باقی نہیں رہے گا جو عیسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی وفات سے پہلے ایمان نہ لے آئے گا۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح صلیب اصل میں دو مثلث لکڑیوں کا نام ہے جو جمع کی شکل میں ہوتی ہیں اور یہ شکل ایسا ظاہر کرتی ہے جیسے کسی شخص کو سولی پر لٹکا رکھا ہو۔ عیسائیوں کا عقیدہ چونکہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی پر چڑھا دیا گیا تھا اور پھر اللہ نے ان کو زندہ کر کے اپنے پاس آسمان پر بلا لیا اس اس لئے انہوں نے سولی کی اس شکل کو اپنا مذہبی نشان بنا لیا ہے اور یہ مذہبی نشان ان کی ہر چیز میں نمایاں رہتا ہے اور جس طرح اہل ہنود اپنے گلے میں زنار ڈالتے ہیں اسی طرح عیسائی بھی سولی کا یہ نشان اپنے گلے میں لٹکاتے ہیں بعض تو اس نشان پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصویر تک بنوا لیتے ہیں تاکہ ان کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی پر چڑھائے جانے کی یاد گار مکمل صورت میں رہے لہٰذا وہ صلیب کو توڑ ڈلایں گے سے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ، نصرانیت ( یعنی عیسائی مذہب) کو باطل اور کالعدم قرار دیدیں گے اور شریعت محمدی ہی کو جاری ونافذ قرار دیں گے کہ ان کا ہر حکم و فیصلہ ملت حنفیہ کے مطابق ہوگا۔ جزیہ کو اٹھا دیں گے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی نظام حکومت اور اس کے شرعی دستور کی جو ایک شق یہ ہے کہ اس کی حدود مملکت میں اگر کوئی غیر مسلم رہنا چاہے تو وہ ایک مخصوص ٹیکس جس کو جزیہ کہتے ہیں ادا کرکے جان ومال کی حفاظت کے ساتھ رہ سکتا ہے اور اس کو ذمی کہا جاتا ہے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جزیہ کی یہ شق ختم کردیں گے اور یہ قانون نافذ کریں گے کہ ان کی مملکت اسلامی کا شہری صرف مسلمان ہوسکتا ہے چناچہ وہ حکم دیں گے کہ جتنے ذمی ہیں وہ سب مسلمان ہوجائیں ان کی حکومت کسی سے بھی دین حق کے علاوہ اور کوئی چیز قبول نہیں کرے گی اور چونکہ اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی برکت سے ہر شخص کا ذہن وفکر خیر کی طرف مائل ہوگا اس لئے تمام غیر مسلم ایمان لے آئیں گے پس اس جملہ کا حاصل بھی یہی ہے کہ وہ عیسائیت اور اس کے احکام وآثار کو بالکل مٹا دیں گے اور صرف اسلامی شریعت کو جاری ونافذ قرار دیں گے ! اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ذمیوں سے جزیہ اس لئے اٹھائیں گے کہ ان کے زمانہ میں مال و دولت کی فراوانی اور اہل حرص کی کمی کی وجہ سے ایسا کوئی محتاج وضروتمند نہیں رہے گا جو ان سے جزیہ کا مال لینے والا ہو اس کی تائید آگے کی عبارت ( ان کے زمانہ میں) مال و دولت کی فراوانی ہوگی الخ سے ہوتی ہے۔ حتی لا بقیلہ احد حتی تکون السجدۃ الخ میں پہلا حتی تو یفیض المال سے متعلق ہے اور دوسرا حتی ان تمام مضامین سے متعلق ہے جو پہلے مذکور ہوئے ہیں یعنی صلیب توڑ ڈالنا وغیرہ ! پس مطلب یہ ہے کہ دین اسلام اس طرح پھیل جائے گا اور اطاعت و عبادت کے ذریعہ آپس میں میل و محبت اس طرح پیدا ہوجائے گی کہ ایک سجدہ دنیا کی تمام متاع سے بہتر اور قیمتی سمجھا جائے گا ! یوں تو ہر زمانہ میں اور ہر وقت ایک سجدہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہوتا ہے یہ صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کی خصوصیت نہیں ہے لیکن یہ بات صرف اسی لئے کہی گئی ہے کہ اس زمانہ میں عبادت و اطاعت دراصل انسان کی طبیعت کا جز اور نفس کا تقاضا بن جائے گی اور لوگ طبعی طور پر بھی ایک سجدہ کو دنیا کی تمام متاع سے زیادہ پسندیدہ اور بہت سمجھنے لگیں گے ! تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ دوسرا حتی بھی یفیض سے متعلق ہو، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اس وقت مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہوگی اور ہر شخص اس طرح مستغنی وبے نیاز ہوجائے گا کہ کسی کو اس ( مال و دولت) کی کوئی رغبت و خواہش ہی نہیں رہے گی اور جب یہ صورت حال ہوگی تو مال کو خرچ کرنے کی فضیلت و پسندیدگی بھی جاتی رہے گی اور اصل ذوق ولگاؤ نماز سے باقی رہے گا کہ لوگ ایک سجدہ میں جو کیف و بھلائی محسوس کریں گے وہ دنیا کی کسی بھی چیز میں نہیں پائیں گے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جس آیت کریمہ کا ذکر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے کے بعد جب ایک ہی ملت اور ایک ہی دین کا دور دورہ ہوجائے گا اور تمام لوگوں کے درمیان سے دینی ومذہبی اختلاف ومنافرت کا خاتمہ ہوجائے گا تو یہود و نصاری کا وہ اختلاف ونفرت بھی کالعدم ہوجائے گا جو وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تئیں رکھتے ہیں۔ اور وہ ( یہود ونصاری) بھی اس ایمان و عقیدے کے حامل ہوجائیں گے جو مسلمان کا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی ایک بندی مریم کے بیٹے ہیں واضح رہے کہ اہل کتاب یعنی یہودونصاری سے مراد وہ یہود و نصاری ہیں جو اس زمانہ میں ہوں گے ! اس آیت کی ایک تفسیر تو یہ ہے جو بیان کی گئی اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے اسی اعتبار سے اس آیت کو حدیث کے مضمون کی دلیل قرار دیا ہے۔ دوسری جو تفسیر بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے ایسا کوئی شخص نہیں جو اپنے مرنے سے پہلے ( نزع کی حالت میں) ایمان نہ لاتا ہو لیکن اس وقت کا ایمان لانا کوئی اعتبار نہیں رکھتا اس تفسیر کی روشنی میں ایک احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الا لیؤمنن بہ میں بہ کی ضمیر آنحضرت ﷺ یا اللہ سبحانہ کی طرف راجع ہو اگر آیت کی یہی تفسیر مراد لی جائے تو پھر حاصل یہ نکلے گا کہ ہر کافر مرنے سے پہلے ( نزع کی حالت) اضطراری طور پر ایمان لاتا ہے لیکن اس وقت کا ایمان چونکہ کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا اس لئے چاہئے کہ وہ ( کافر اس وقت سے پہلے ہی بقصد واختیار ایمان قبول کرنے پر آمادہ ہو۔

【3】

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کی برکتیں

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا واللہ حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) اس حالت میں نازل ہونگے کہ وہ ایک عادل حاکم ہونگے صلیب کو توڑ دیں گے سور کو مار ڈالیں گے زمیوں سے جزیہ کو اٹھا دیں گے اور جوان اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا کہ اس سے سواری اور باربرداری کا کام نہیں لیا جائے گا اور یقینا لوگوں کے دلوں سے کینہ بعض اور حسد جاتا رہے گا ( کیونکہ یہ سب برائیاں دنیا کی محبت و لالچ سے پیدا ہوتی ہیں جب دنیا اور دنیا کی چیزوں کی طرف کوئی رغبت ہی نہیں رہ جائے گی تو یہ برائیاں کہاں سے پیدا ہونگی) اور یقینا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں کو مال و دولت سے نوازنے کے لئے بلائیں گے لیکن ( استغنا و بےنیازی کی وجہ سے کوئی بھی مال و دولت لینے والا نہیں ہوگا۔ ( مسلم) اور بخاری ومسلم کی روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا ( یعنی تم کتنا سکون وکیف محسوس کرو گے) جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ( یعنی اہل قریش میں سے یا تمہاری ملت کا کوئی بھی فرد) ہوگا۔ تشریح جوان اونٹینوں کو چھوڑ دیا جائے کا الخ کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت سواری اور باربرداری کے لئے ایسے آرام دہ اور تیز رفتاری ذرائع مہیا ہوں گے اور ان کی اتنی کثرت ہوگی کہ نقل وحمل کے مقاصد کے لئے کسی کو انٹنیوں جیسے جانوروں کی ضرورت نہیں ہوگی یا اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کسی کو یہ حکم نہیں دیں گے کہ وہ زکوٰۃ میں دینے کے لئے اپنی اونٹنیوں کو ان کے پاس لانے کی زحمت برداشت کرے کیونکہ اس زمانہ میں زکوٰۃ کا مال قبول کرنے والا کوئی نہیں ہوگا ! اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ جملہ دراصل اس بات سے کنایہ ہے کہ اس زمانہ میں لوگ اپنی معاش و ضروریات سے اس قدر مستغنی وبے نیاز ہوں گے کہ اشیاء ضرورت اور مال و اسباب حاصل کرنے کے لئے تجارت اور زمین پر سفر وغیرہ کا سلسلہ تقریبا موقوف ہوجائے گا۔ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا الخ کا مطلب علما نے دو صورتوں میں بیان کیا ہے ایک تو یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے کے بعد بھی تمہاری نماز کا امام تم ہیں میں سے ایک فرد ہوگا اور وہ امام مہدی ہیں اور خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کی اقتداء کریں گے۔ اور یہ بات اس امت محمدی کی تعظیم و تکریم کے پیش نظر ہوگی جیسا کہ آگے والی حدیث میں اس کی تصریح بھی ہے ! لہذا اس زمانہ میں حاکم و خلیفہ اور خیر و بھلائی کی تعلیم و تلقین کرنے کے ذمہ دار تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی ہوں گے لیکن نماز کی امامت کا شرف حضرت امام مہدی کو حاصل رہے گا ! لیکن بعض روایتوں میں یہ منقول ہے کہ جس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے اتریں گے حضرت امام مہدی مسلمانوں کے ساتھ نماز کی حالت میں ہوں گے اور چاہیں گے کہ امامت کے مصلے سے پیچھے ہٹ جائیں تاکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) امامت کریں مگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس وقت کی نماز کی امامت نہیں کریں گے بلکہ خود امام مہدی ہی کے پیچھے پڑھیں گے، البتہ اس وقت کی نماز کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی امامت کریں گے کیونکہ وہ بہر حال حضرت امام مہدی سے افضل ہونگے۔ دوسری صورت میں اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اور تمہارا مام تم ہی میں سے ہوگا۔ امام سے مراد خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات ہے یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) چونکہ مسلمانوں ہی کی شریعت کے مطابق حکم احکام جاری کیا کریں گے نہ کہ انجیل کی تعلیمات کے مطابق اور ان کا سارا نظام دین و دنیا قرآن کریم اور احادیث رسول کے منہاج پر استوار اور ان کے تمام معاملات مسلمانوں کے دین وملت کے مطابق ہوں گے جیسا کہ ایک روایت میں منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تمہارے پروردگار کی کتاب ( قرآن) اور تمہارے پیغمبر کی سنت کے مطابق تمہاری امامت کریں گے۔ اس اعتبار سے وہ مسلمانوں کی ملت کے ایک فرد ہوں گے اور وہ جب مسلمانوں کو نماز پڑھائیں گے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ان ہی میں کا ایک فرد ان کا امام ہے۔

【4】

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا امامت سے انکار

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میری امت میں سے ہمیشہ کوئی جماعت حق کے واسطے لڑتی رہے گی اور ( اپنے دشمنوں پر) غالب آئے گی قیامت ( کے قریب) تک یہ سلسلہ جاری رہے گا پھر آپ ﷺ نے فرمایا۔ جب حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) ( آسمان سے اتریں گے اور اس وقت مسلمان نماز کی حالت میں ہوں گے) تو امت کے امیر ( یعنی امام مہدی) عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہیں گے کہ آئیے ہمیں نماز پڑھائیے ( کیونکہ امامت کا حق اسی شخص کو ہوتا ہے جو افضل ہو اور ظاہر ہے کہ آپ کامل رسول و نبی ہونے کی حیثیت سے اس وقت سب سے افضل ہیں) لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) ان کو جواب دیں گے کہ امامت نہیں کروں گا ( کیونکہ میری امامت کی وجہ سے یہ گمان ہوسکتا ہے کہ تمہارا دین منسوخ ہوگیا) اور بلاشبہ تم میں سے بعض لوگ بعض پر امام و امیر ہیں بایں سبب کے اللہ تعالیٰ نے اس امت محمدیہ کو بزرگ و برتر قرار دیا ہے ( مسلم) اور اس باب میں دوسری فصل نہیں ہے۔

【5】

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انحضرت ﷺ کے روضئہ اقدس میں دفن کئے جائیں گے

حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم زمین پر اتریں گے تو وہ نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی دنیا میں ان کی مدت قیام پینتالیس برس ہوگی پھر ان کی وفات ہوجائے گی اور وہ میری قبر یعنی میرے مقبرہ میں میرے پاس دفن کئے جائیں گے ( چناچہ قیامت کے دن) میں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دونوں ایک مقبرہ سے ابوبکر اور عمر (رض) کے درمیان اٹھیں گے اس روایت کو ابن جوزی نے کتب الوفا میں نقل کیا ہے۔ تشریح ان کی مدت قیام پینتالیس برس ہوگی۔ یہ بات بظاہر اس قول کے منافی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر اٹھائے گئے ان کی عمر تینتیس سال تھی اور پھر آسمان سے زمین پر اترنے کے بعد وہ سات سال دنیا میں رہیں گے اسی طرح دنیا میں ان کی کل مدت قیام چالیس ہوتی ہے ؟ واضح رہے کہ آسمان سے اترنے کے بعد دنیا میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رہنے کی مدت سات سال مسلم نے نقل کی ہے لہذا ایک یہ بات تو طے ہے کہ اوپر حدیث میں جو پینتالیس سال کی مدت نقل کی گئی ہے وہ دنیا میں ان کی مجموعی مدت قیام ہے کہ اس مدت میں ان کے آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے کا عرصہ قیام بھی شامل ہے اور آسمان سے اترنے کے بعد کی بھی مدت قیام رہا چالیس اور پینتالیس کا فرق تو اس سلسلہ میں یا تو یہ کہا جائے کہ چالیس سال والے قول میں کسور یعنی پانچ کو حذف کرکے پوری مدت مراد لی گئی ہے یا یہ کہ اس روایت کو راجح قرار دیا جائے جو صحیح یعنی مسلم میں منقول ہے۔ ابوبکر وعمر (رض) کے درمیان اٹھیں گے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حدیث میں قبر سے مراد مقبرہ یعنی روضہ مطہرہ ہے روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے روضہ اقدس میں ایک قبر کی جگہ خالی ہے اور وہ جگہ کسی کو بھی میسر نہیں ہوسکی چناچہ حضرت امام حسن کا انتقال ہوا تو لوگوں نے چاہا کہ ان کی قبر اس خالی جگہ بنائی جائے اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) جن کا وہ مکان تھا اس کے لئے راضی بھی ہوگئی مگر بنو امیہ کی شدید مخالفت کی وجہ سے حضرت حسن کو روضہ اقدس میں دفن نہیں کیا جاسکا پھر اس جگہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی تدفین کے لئے بھی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راضی ہوگئی تھیں مگر ان کی قبر بھی وہاں نہیں بن سکی یہاں تک کہ خود حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے بھی لوگوں نے کہا کہ آپ کا گھر ہے ہم آپ کو اسی میں دفن کریں گے مگر انہوں نے کہا کہ میری مرضی یہ نہیں ہے تم لوگ مجھے میری سوکنوں کے قریب جنت البقیع میں دفن کرنا اس سے معلوم ہوا کہ وہ خالی جگہ جو کسی کو نصیب نہیں ہوسکی تو اس کے پیچھے قدرت کی یہ حکمت و مصلحت کار فرما تھی کہ وہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قبر بنے گی۔