167. قرب قیامت اور جو شخص مرگیا اس پر قیامت قائم ہوگئی کا بیان

【1】

قرب قیامت اور اس بات کا بیان کہ جو شخص مر گیا اس پر قیامت قائم ہوگئی

زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ قرب قیامت یعنی قیامت کا نزدیک آجانا اس معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی بقا و وجود کی جو مدت متعین فرمائی ہے اس کا اکثر حصہ گزر چکا ہے اور اب جو حصہ باقی رہ گیا ہے وہ بہت کم ہے۔ یہ جملہ وان من مات فقد قامت قیامتہ ( جو شخص مرگیا اس پر قیامت قائم ہوگئی) دراصل ایک حدیث کے الفاظ ہیں جن کو مولف کتاب نے یہاں باب کا عنوان قرار دیا ہے اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مرجاتا ہے اس پر ان حالات اور ہولناک مراحل کا کچھ علامتی حصہ گزر جاتا ہے جو قیامت کے دن پیش آنے والے ہیں۔ قیامت کی قسمیں علامہ تورپشتی نے کہا ہے کہ قیامت تین طرح کی ہے ایک قیامت کبری کہ جب پوری کائنات کو زیر وزبر کردیا جائے گا اور پھر تمام لوگوں کو جزا اور سزا کے لئے دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا دوسری قیامت وسطی یعنی ایک نسل کا اٹھ جانا اور اس کی جگہ دوسری نسل کا آجانا جس کو قرآن کہتے ہیں گویا عہد کا اس طرح بدل جانا کہ ایک نسل کے تقریبا ہم عمر لوگ وفات پاجائیں اور ان کے بعد کی نسل کے لوگ ان کی جگہ لے لیں ایک طرح کی قیامت ہے اور تیسری قیامت صغری کہ وہ کسی آدمی کا مرجانا ہے اور یہاں یعنی ان من مات فقد قامت قیامتہ میں یہی آخری قسم مراد ہے لیکن ساعۃ کے بارے میں زیادہ واضح بات یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کبری ہے خواہ اس کا تعلق پہلی قیامت ( یعنی پہلا صور پھونکے جانے اور اس کائنات کے زیر وزبر ہوجانے) سے ہو جیسا کہ ارشاد گرامی لا تقوم الساعۃ الا علی اشرار الناس سے ثابت ہے اور خواہ اس کا تعلق دوسری قیامت ( یعنی دوسری مرتبہ صور پھونکے جانے اور تمام لوگوں کے دوبارہ زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہونے وغیرہ) سے ہو جس کو طامہ کبری سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ! آگے باب کی جو پہلی حدیث آرہی ہے اس کے الفاظ بعث انا والساعۃ کھاتین میں ساعۃ کا لفظ قیامت کے ان دونوں معنی کا احتمال رکھتا ہے، البتہ کچھ اور آگے حضرت عائشہ (رض) کی جو روایت آئے گی اس میں ساعۃ سے مراد قیامت وسطی ہے۔

【2】

قرب قیامت کا ذکر

حضرت شعبہ حضرت قتادہ (رض) سے اور وہ حصرت انس (رض) سے روایت کر کے کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میں اور قیامت، ان دو انگلیوں ( یعنی شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی) کی مانند بھیجے گئے ہیں حضرت شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قتادہ (رض) سے سنا انہوں نے ( آنحضرت ﷺ کی بعثت کو قیام قیامت کے ساتھ دو انگلیوں سے تشبیہ دینے کی مراد بیان کرتے ہوئے) اپنے وعظ میں کہا کہ جس طرح ان دونوں میں سے ایک انگلی دوسری انگلی سے بڑھی ہوئی ہے یعنی مذکورہ مشابہت سے حضور ﷺ کی مراد یہ تھی کہ جس طرح بیچ کی انگلی شہادت کی انگلی سے کچھ بڑھی ہوئی ہے اسی طرح میری بعثت کا زمانہ قیامت کے وقت سے کچھ ہی آگے ہے کہ میں قیامت سے پہلے آیا ہوں اور قیامت میرے پیچھے پیچھے چلی آرہی ہے) بہر حال ( شعبہ کہتے ہیں کہ) مجھے نہیں معلوم اور یہ مراد حضرت قتادہ نے خود بیان کی یا انہوں نے اس کو حضرت انس (رض) سے سنا تھا ( اور اگر یہ متعین بھی ہوجائے کہ قتادہ نے یہ مراد از خودبیان نہیں کی تھی بلکہ اس کو حضرت انس (رض) سے سنا تھا تو پھر یہ احتمال رہے گا کہ یہ مراد از خود حضرت انس (رض) نے بیان کی تھی یا آنحضرت ﷺ ہی نے اپنی یہ مراد بیان کی تھی اور اس کو حضرت انس (رض) نے آنحضرت ﷺ سے نقل کیا تھا ویسے حضرت مستورد ابن شداد کی ایک روایت آرہی ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اپنی یہ خود آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی تھی۔ ( بخاری ومسلم )

【3】

قیامت کا وقت کسی کو معلوم نہیں

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کو وفات سے ایک مہینہ پہلے یہ فرماتے ہوئی سنا کہ تم لوگ مجھ سے قیامت کا وقت پوچھا کرتے ہو ( کہ پہلا صور کب پھونکا جائے گا اور دوسرا کب) تو حقیقت یہ ہے کہ اس کا متعین وقت صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس وقت روئے زمین پر ایسا کوئی شخص موجود نہیں ہے جس پر سو سال کا عرصہ گزرے اور وہ اس کے بعد بھی زندہ رہے۔ ( مسلم ) تشریح اس کا متعینہ وقت صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کے ذریعہ حضور ﷺ نے یہ واضح فرمایا کہ تم لوگ قیامت کبری کے آنے کا وقت مجھ سے کیا پوچھتے ہو، مجھے تو خود اس کا متعینہ وقت معلوم نہیں ہے کسی کو بھی اس سے باخبر نہیں کیا ہے، صرف وہی جانتا ہے کہ وہ قیامت کب آئے گی ہاں قیامت صغری اور وسطی کے بارے میں جو کچھ مجھے معلوم ہے وہ تمہیں بتائے دیتا ہوں اس کے بعد آپ ﷺ نے اسی کے بارے میں آگاہ فرمایا۔ اس وقت روئے زمین پر ایسا کوئی شخص موجود نہیں ہے الخ کے ذریعہ آپ ﷺ نے قیامت وسطی کی طرف اشارہ فرمایا کہ اس وقت میرے زمانہ میں جو لوگ موجود ہیں اور نسل ہمارے سامنے ہے اس کا خاتمہ سو برس کی مدت میں ہوجائے گا اس مدت کے بعد ان میں سے کوئی زندہ نہیں بچے گا اس نسل کے خاتمہ کے ساتھ گویا ایک عہد ختم ہوجائے گا اور ایک نئے عہد ( قرآن) کی ابتداء ہوگی جو آنے والی نسل کا عہد ہوگا۔ پس پرانی نسل اور پرانے عہد کے خاتمہ اور اس کے بعد نئی نسل اور نئے عہد کی ابتداء کا نام قیامت وسطی ہے اور اسی طرح ہر انسان کی موت اس کے اعتبار سے قیامت صغری ہے ! واضح رہے کہ حضور ﷺ نے اپنے عہد کی نسل کے خاتمہ کے ذریعہ طبقہ صحابہ کی مدت حیات کی طرف اشارہ فرمایا کہ میرے صحابہ۔ جیسے حضرت انس (رض) اور سلمان وغیرہ سو برس سے بھی زائد تک حیات رہے ! اور اگر یہ کہا جائے، جو زیادہ صحیح بھی ہے کہ حضور ﷺ نے جس سو سال کی مدت کا ذکر فرمایا اس کی ابتداء حضور ﷺ کے اس ارشاد گرامی کے وقت سے مانی جانی چاہیے) جیسا کہ آگے آنے والی حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے تو اس اعتبار سے اکثر و غالب کی قید کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہے گی چناچہ بعض حضرات نے اپنی یہ تحقیق بیان کی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے وقت جتنے صحابہ حیات تھے یا اس زمانہ میں جو دوسرے اولیاء اللہ پیدا ہوئے وہ سب اس وقت سے ١٠٠ سال پورے ہونے سے پہلے وفات پا گئے تھے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) اس دنیا میں زندہ ہیں یا نہیں بعض اکابر علماء نے اس حدیث سے حضرت خضر (علیہ السلام) کی موت پر استدلال کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس ارشاد گرامی کے وقت روئے زمین پر جو لوگ موجود اور حیات تھے ان میں حضرت خضر (علیہ السلام) بھی تھے لہذا مخبر صادق ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق یہ ضروری ہے کہ وہ دو سو سال کی اس مدت کے بعد اس دنیا میں زندہ نہ رہے ہوں اور وفات پاگئے ہوں۔ لیکن دوسرے علماء اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کا معاملہ بالکل خصوصی نوعیت کا ہے اور ان کی ذات مذکورہ اور ارشاد گرامی کے دائرہ سے باہر ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے تو اپنی امت کے بارے میں یہ خبر دی تھی کہ میری امت کے وہ لوگ جو اس وقت موجود وحیات ہیں ١٠٠ سو سال کے اندر وفات پاجائیں گے اور ظاہر ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کا تعلق اس امت سے نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی نبی کسی دوسرے نبی کی امت میں سے نہیں ہوتا بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں علی الارض ( روئے زمین پر) کی قید نے حضرت الیاس (علیہ السلام) کو مذکورہ مفہوم کے دائرے سے باہر کردیا تھا کیونکہ یہ دونوں اس وقت روئے زمین پر نہیں تھے بلکہ پانی پر تھے۔ امام بغوی نے تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) میں سے چار حضرات زندہ ہیں اور ان میں سے دو یعنی حضرت خضر (علیہ السلام) اور حضرت الیاس (علیہ السلام) تو روئے زمین پر ہیں اور دو یعنی حضرت ادریس (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر ہیں ! یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ مشائخ سے تواتر کے ساتھ بعض ایسے واقعات منقول ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) اس دنیا میں زندہ موجود ہیں اگرچہ بعض حضرات نے یہ تاویل کی ہے کہ خضر دراصل ایک منصب ہے جس پر ہر زمانہ میں کوئی نہ کوئی ہستی فائز رہتی ہے اور اس کے فرائض میں مخلوق اللہ کو مدد و فائدہ پہنچاتا ہے لیکن اولیاء کاملین کے منقولات و حالات سے انہی خضر (علیہ السلام) کا زندہ موجود ہونا ثابت ہوتا ہے جو بنی اسرائیل میں سے ایک نبی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی ومصاحب تھے۔

【4】

حضور ﷺ کی ایک پیش گوئی

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس وقت جو لوگ ( یعنی صحابہ کرام) حیات ہیں ان میں سے کوئی بھی شخص سو سال کے بعد روئے زمین پر زندہ موجود نہیں رہے گا۔ مسلم

【5】

قیامت کے بارے میں ایک سوال اور اس کا جواب

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ کچھ دیہاتی لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا کرتے اور یہ پوچھا کرتے تھے کہ قیامت کب آئے گی ؟ آنحضرت ﷺ نے ( یہ سن کر) اس بچھ کی طرف دیکھتے جو ان پوچھنے والوں کے ساتھ ہوتا تھا اور پھر فرماتے کہ اگر یہ بچہ زندہ رہا تو یہ بڑھاپے کی عمر تک پہنچنے نہیں پائے گا کہ تم پر تمہاری قیامت ہوجائے گی۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح اگر یہ بچہ زندہ رہا الخ کا مطلب یہ تھا کہ اس بچہ کے بڑھاپے کی عمر تک پہنچنے سے پہلے تم سب وفات پا جاؤ گے اس طرح آپ ﷺ نے گویا مذکورہ مدت کے عرصہ کے بعد ایک نسل کے خاتمہ اور ایک قرن یعنی عہد کے اختتام پذیر ہوجانے کی طرف اشارہ فرمایا اور یہ ایک پوری نسل کا ختم ہوجانا اور ایک زمانہ کا اپنی مدت کو پہنچ کر اختتام پذیر ہوجانا) ایک طرح سے قیامت ہی ہے اس لئے آپ ﷺ نے اس حقیقت کو ساعتکم تمہاری قیامت سے تعبیر فرمایا اس حدیث کے سلسلہ میں زیادہ واضح بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ پوچھنے والوں نے قیامت کبری کے بارے میں پوچھا اور چونکہ ان کا یہ سوال ایسا تھا جس کا صحیح جواب دینا ممکن ہی نہیں تھا اس لئے آپ ﷺ نے حکیمانہ اسلوب میں مذکورہ جواب عنایت فرمایا۔ ساعتکم ( تمہاری قیامت) اس مراد بعض حضرات کے نزدیک قیامت صغری یعنی پوچھنے والوں کا مرجانا ہے اور بعض شارحین نے اس سے قیامت وسطی مراد لی ہے، جس کا مطلب ان جیسی عمر رکھنے والے سب لوگوں کا مرجانا ہے اور یہ طے ہے کہ یہ بات اکثر و غالب کے اقرار کے اعتبار سے فرمائی گئی ہے۔

【6】

قرب قیامت کا ذکر

حضرت مستورد ابن شداد نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں قیامت کی ابتداء میں بھیجا گیا ہوں ( یعنی میری بعثت ایسے زمانہ میں ہوئی ہے حس میں قیامت کی علامت کا آغاز ہوگیا ہے اور میں قیامت سے بس اتنا ہی آگے آیا ہوں جس قدر کہ یہ ( بیچ کی) انگلی اس ( شہادت کی) انگلی سے آگے ہے یہ فرما کر آپ ﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں یعنی شہادت کی انگلی اور بیچ کی طرف اشارہ فرمایا۔ ( ترمذی) تشریح مطلب یہ کہ جس طرح بیچ کی انگلی شہادت کی انگلی سے کچھ تھوڑی سی بڑھی ہوئی ہے اسی طرح میری بعثت کا زمانہ قیامت آنے کے وقت سے کچھ ہی پہلے ہے میں کچھ آگے آگیا ہوں قیامت میرے پیچھے پیچھے چلی آرہی ہے۔

【7】

دنیا میں امت محمدیہ کے باقی رہنے کی مدت

اور حضرت سعد ابن ابی وقاص نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا یقینا میں امید رکھتا ہوں کہ میری امت اپنے پروردگار کی نظر میں اتنی عاجز وبے حقیقت نہیں ہوجائے گی کہ اس کا پروردگار اس کو آدھے دن کی بھی مہلت عطا نہ کرے حضرت سعد ابن ابی وقاص (رض) سے یہ پوچھا گیا کہ یہ آدھا دن کتنا ہوتا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ پانچ سو سال۔ ( ابوداؤد) تشریح آدھے دن کو پانچ سو سال کے بقدر قرار دینا اس آیت کے پیش نظر ہے کہ وان یوما عند ربک کا لف سنۃ مما تعدون۔ یعنی اللہ کے نزدیک اس کا دن اتنا ہوتا ہے جتنا کہ تمہارے ( شب وروز کے) حساب سے ایک ہزار سال ہوتے ہیں پس جب وہ دن ہمارے شب وروز کی گردش کے حساب کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہو تو آدھا دن یقینا پانچ سو سال کے برابر ہوگا۔ بہرحال آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی کا مطلب کہ میری یہ امت اللہ تعالیٰ کے نزدیک جس قدر قرب اور جتنا بلند مرتبہ رکھتی ہے وہ اس بات کا یقین رکھنے کے لئے کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو کم سے کم پانچ سو سال تک تو ضرور ہی امن و حفاظت میں رکھے گا اس کو ہلاک نہیں کرے گا اور دنیا میں اس کی بقا و قیام کی مدت کو اس سے کم نہیں کرے گا اس سے زیادہ چاہے جتنی کر دے پس اس ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا آپ ﷺ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ اب سے پانچ سو سال پہلے تو قیامت آئے گی اور اس امت کا خاتمہ نہیں ہوگا ہاں اس مدت کے بعد اللہ تعالیٰ جو چاہے گا کرے گا۔ اور بعض حضرات نے اس ارشاد گرامی کی مراد یہ بیان کی ہے اللہ تعالیٰ کم سے کم پانچ سو سال تک تو ضرور اس امت کو شدائد وعقوبات سے محفوظ ومامون اور سلامت رکھے گا اور اس کو ایسی آفات میں مبتلا نہیں کرے گا جس سے پوری امت ہلاک و ختم ہوجائے۔۔۔ اس موقع پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ حضرت شیخ جلال الدین سیوطی نے اپنی بعض کتابوں میں ثابت کیا ہے کہ دنیا میں امت کی بقا و قیام آنحضرت ﷺ کے وصال سے ایک ہزار سال کے بعد پانچ سو سال سے آگے متجاوز نہیں ہوگا۔

【8】

قرب قیامت کی مثال

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اس دنیا ( کے فنا کے قریب پہنچ جانے اور قیامت کے نزدیک آجانے) کی مثال اس کپڑے کی سی ہے جس کو شروع سے آخر تک پھاڑ ڈالا گیا ہو اور اس کے ٹکڑے آخر میں صرف ایک دھاگے سے جڑے ہوئے لٹکے ہوں اور وہ دھاگا بھی ٹوٹ جانے کے قریب ہو پس دنیا بھی اپنی ٹوٹ پھوٹ اور خاتمہ کے اتنے ہی قریب پہنچ چکی ہے، اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔