168. قیامت صرف برے لوگوں پر قائم ہوگی

【1】

اس بات کا بیان کہ قیامت صرف برے لوگوں پر قائم ہوگی

اس باب میں جو احادیث منقول ہوں گی ان سے یہ واضح ہوگا کہ جب قیامت آنے کو ہوگی تو دنیا میں جتنے بھی نیک لوگ ہوں گے وہ سب مرجائیں گے، صرف بدکار باقی رہیں گے اور پھر انہی پر قیامت قائم ہوگی، لہٰذا جب تک اس دنیا میں نیک لوگوں کا وجود رہے گا قیامت قائم نہیں ہوگی ! جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا عہد ختم ہوجانے کے بعد ایک خوشبودار ہوا چلے گی جس سے تمام مسلمان ومؤمنین مرجائیں گے اور دنیا میں صرف بدکار باقی رہ جائیں گے گدھوں کی طرح آپس میں اختلاط کریں گے اور پھر انہی بدکاروں پر قیامت قائم ہوگی۔

【2】

جب تک روئے زمین پر ایک بھی اللہ کا نام لیوا موجود ہے قیامت نہیں آسکتی

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک روئے زمین پر اللہ اللہ کہنا موقوف نہ ہوجائے۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ فرمایا قیامت اس شخص پر قائم نہیں ہوگی جو اللہ اللہ کہتا ہوگا۔ ( مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب قیامت آئے گی تو اس وقت روئے زمین میں ایسا کوئی شخص باقی نہیں ہوگا جو اللہ کا نام لیوا اور اس کی پرستش کرنے والا ہو بلکہ سب کے سب کافر و بت پرست ہوں گے اس سے معلوم ہوا کہ اس کائنات کو وجود وبقا درحقیقت با عمل علماء وذاکرین و صالحین اور نیکو کاروں کے وجود کی برکت سے ہے، جب ان کو اس دنیا سے اٹھا لیا جائے گا تو دنیا بھی باقی نہیں رہے گی۔

【3】

قیامت صرف برے لوگوں پر قائم ہوگی

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت صرف بدکار لوگوں پر قائم ہوگی۔ ( مسلم) تشریح خلق یعنی مخلوق سے مراد انسان ہیں، کیونکہ شرار یعنی بدکار سے مراد گنہگار ہیں اور ظاہر ہے کہ گناہ و معصیت کا تعلق صرف انسان سے ہوتا ہے نہ کہ ساری مخلوق سے۔ اگر یہاں سوال پیدا ہو کہ اس حدیث اور اس حدیث کے درمیان کہ جو پیچھے گزر چکی ہے یعنی لا یزال طائفۃ من امتی حتی یقاتلون الحق ظاہرین الی القیامۃ مطابقت کی کیا صورت ہے، کیونکہ اس حدیث سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ قیامت قائم ہونے سے پہلے ایک عرصہ ایسا بھی گزر یگا جس میں اس روئے زمین پر کوئی اللہ کا نام لیوا بھی موجود نہیں ہوگا بلکہ سارے لوگ اللہ بیزار اور بدکار ہوں گے اور انہی پر قیامت قائم ہوگی جب کہ پہلی حدیث لا یزال بنا طائفۃ سے بظاہر یہ واضح ہوتا ہے کہ قیامت تک ہمیشہ اس روئے زمین پر اللہ کے نام لیواؤں کی کوئی نہ کوئی جماعت ضرور موجود رہے گی تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی حدیث لا یزال طائفۃ الخ کا تعلق تمام زبانوں سے ہے کہ روئے زمین پر جب تک اسلام کے حاملین کا وجود رہے گا ان میں سے کوئی نہ کوئی جماعت ہمیشہ حق کی سر بلندی کے لئے برسر پیکار رہے گی اس کے برخلاف یہاں نقل کی جانے والی حدیث ( لا تقوم الساعۃ الخ کا تعلق صرف اس مخصوص زمانہ سے ہے جب قیامت آنے ہی والی ہوگی اور اس دنیا سے اللہ کے تمام نام لیواؤں کو اٹھا لیا جائے گا۔

【4】

ایک پیشین گوئی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک قبیلہ دوس کی عورتیں ذوالخلصہ کے گرد اپنے کو گھے نہ مٹکانے لگیں گی۔ ( اور حضرت ابوہریرہ (رض) یا کسی اور راوی نے ذوالخلصہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ) ذوالخلصہ قبیلہ دوس کے ایک بت کا نام ہے جس کو وہ زمانہ جاہلیت میں پوجتے تھے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح دوس یمن کے ایک قبیلہ کا نام ہے اور ذوالخلصہ یمن میں ایک بت خانہ تھا جس کو کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا اس بت خانہ میں ایک بت تھا جس کا نام خلصہ تھا، اسلام سے پہلے کے زمانہ میں یمن کے قبائل دوس خثعم اور بجیلہ اس بت کو پوجتے تھے جب اسلام کا زمانہ آیا تو آنحضرت ﷺ نے حضرت جریر ابن عبداللہ بجلی کو یمن بھیج کر اس بت خانہ کو تباہ کرا دیا تھا بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں پھر اس قبیلہ کے لوگ مرتد اور بت پرست ہوجائیں گے اور ان کی عورتیں اس بت خانہ کے گرد طواف کرتی پھریں گی۔

【5】

قیامت سے پہلے لات وعزی کی پھر پرستش ہونے لگے گی

اور حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ شب وروز کا سلسلہ اس وقت ختم نہیں ہوگا ( یعنی یہ دنیا اس وقت تک فنا کے گھاٹ نہیں اترے گی اور قیامت نہیں آئے گی جب تک لات وعزی کی پوجا نہ کی جانے لگے گی ( حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ جب) میں نے آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی سنا تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (هُوَ الَّذِيْ اَرْسَلَ رَسُوْلَه بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَه عَلَي الدِّيْنِ كُلِّه وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ) 61 ۔ الصف 9) تو چونکہ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام مذاہب باطل میں مذہب اسلام سچا اور غالب ہے اور کم سے کم عرب میں بت پرستی کا رواج ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا، اس لئے یقین کی حد تک) میرا خیال تھا کہ بت پرستی کا خاتمہ ہونے والا ہے ( اور یہ کہ آئندہ کبھی بت پرستی نہیں ہوگی، لیکن اب آپ ﷺ یہ خبر دے رہے ہیں ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا درحقیقت ایسا ہی ہوگا ( یعنی اسلام کی روشنی غالب رہے گی اور کفر وشرک کا چراغ گل رہے گا مگر اس وقت تک کے لئے) جب تک کہ اللہ تعالیٰ چاہے گا ( چناچہ خود اللہ تعالیٰ نے اس بات کو یوں واضح فرمایا ہے کہ) پھر اللہ تعالیٰ ایک خوشبودار ہوا بھیجے گا جس کے ذریعہ ہر وہ شخص مرجائے گا جس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ہوگا اور ( دنیا میں) صرف وہی شخص باقی بچے گا جس میں کوئی نیکی نہیں ہوگی ( یعنی اس وقت روئے زمین پر ایسا کوئی شخص باقی نہیں بچے گا جس میں ایمان واسلام ہو جو قرآن پڑھنے والا، نماز، روزہ، حج اور دوسرے ارکان اسلام ادا کرنے والا ہو اور علم دین کا حامل ہو) پس تمام لوگ اپنے آباء و اجداد کے دین یعنی کفر وشرک کی طرف لوٹ جائیں گے۔ ( مسلم ) تشریح حاصل یہ کہ حکمت الہٰی کے تحت اخیر زمانہ میں ایمان واسلام بالکل اٹھا لیا جائے گا اور تمام روئے زمین پر صرف کفر وشرک بت پرستی اور بدکاری کا چلن رہ جائے گا تاکہ قیامت جو قہر و جلال الہٰی کے ظہور کا موقع ومحل ہوگی، صرف بدکاروں پر قائم ہو نہ کہ نیکو کاروں پر۔

【6】

قیامت سے پہلے کیا ہوگا ؟

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دجال نکلے گا اور چالیس تک رہے گا حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم، اس موقع پر چالیس سے آنحضرت ﷺ کی مراد کیا تھی آیا چالیس دن یا چالیس مہنیے اور یا چالیس سال پس اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجے گا جو گویا عروہ ابن مسعود کی شکل و صورت کے ہوں گے ( یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) شکل و صورت میں عروہ ابن مسعود کے مشابہ ہوں گے) وہ دجال کو تلاش کریں گے اور اس کو مار ڈالیں گے، اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دنیا والوں میں سات سال تک رہیں گے اور اس عرصہ میں دو شخصوں کے درمیان بھی کوئی دشمنی و عداوت نہیں ہوگی پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا ( جو اہل ایمان کو موت کے آغوش میں پہنچادے گی چناچہ اس وقت روئے زمین پر ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہے گا جس کے دل میں رائی برار بھی نیکی یا ایمان میں سے کچھ ہوا اور وہ ہوا اس کی روح قبض نہ کرے یہاں تک کہ اگر تم میں سے کوئی شخص ( بالفرض) پہاڑ کے اندر بھی چلا گیا ہوگا تو وہ ہوا پہاڑ میں داخل ہو کر اس شخص کا پیچھا کریگی اور اس کی روح قبض کر کے چھوڑے گی آپ ﷺ نے فرمایا اس کے بعد ( روئے زمین پر) صرف بدکار و شریر لوگ باقی رہ جائیں گے جو پرندوں کے مانند سبک رو اور تیز رفتار اور درندوں کی مانند مضبوط وسخت ہوں گے وہ نہ تو نیکی و بھلائی سے واقف ہوں گے اور نہ برائی و بدکاری سے اجتناب کریں گے پھر شیطان ( کسی معزز وقابل تکریم انسان کی شکل و صورت اختیار کر کے ان کے پاس آئے گا اور کہے گا کہ ( تم لوگ جس طرح فسق وفجور میں مبتلا ہو اس پر) کیا تم کو شرم وحیا نہیں آتی ہے گویا یہ شیطان کا مکرو تلبیس ہوگا کہ وہ اس حیلے سے ان کو بت پرستی کی طرف لائے گا) وہ لوگ شیطان سے کہیں گے تم بتاؤ ہم کیا کریں ( یعنی ہمارے بارے میں جو تمہارا مقصود ہے اس کو ظاہر کرو تاکہ ہم اس کے مطابق عمل کریں) پس شیطان ان کو بت پوجنے کا حکم دے گا یعنی شیطان ان کو اس فریب میں مبتلا کرے گا کہ تم لوگ وسیلہ اختیار کرنے کے طور پر بتوں کو پوجنے لگو تاکہ اللہ تم سے راضی ہو چناچہ کفار یہی کہا کرتے تھے کہ ہم بتوں کو محض اللہ کو خوش کرنے کے لئے پوجتے ہیں اور قرآن نے ان کی اس خام خیالی کی خبر ان الفاظ میں دی ہے ما نعبد ہم الا لیقربونا الی اللہ زلفا ویقولون ہولاء شفعاؤ نا عند اللہ۔ بہر حال وہ لوگ شیطان کے کہنے کے مطابق بت پرستی کرنے لگیں گے اور ان کے اعمال و اخلاق انتہائی پست ہوجائیں گے لیکن ان کے ان برے اعمال کے باوجود ان کے رزق میں فراوانی اور کثرت ہوگی اور وہ عیش و عشرت کی زندگی گزراتے ہوں گے پھر قیامت قائم کرنے کے لئے) صور پھونکا جائے گا اور جو بھی شخص اس کی آواز سنے گا وہ شخص اپنی گردن کو ایک جانب سے جھکائے گا اور دوسری جانب سے بلند کرے گا اس صور کی آواز کو سب سے پہلے سننے والا وہ شخص ہوگا جو اپنے اونٹ ( کو پانی پلانے) کے حوض کو لیپ پوت رہا ہوگا اور وہ اسی حالت میں مرجائے گا۔ اور دوسرے تمام لوگ بھی اسی طرح اپنے اپنے کام میں مشغولیت کے دوران ہی مرجائیں گے ( یعنی کسی کو بھی اتنی مہلت نہیں ملے گی کہ وہ جس کام میں مشغول ہے اس سے فارغ ہی ہوجائے) اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا جو شبنم کی طرح ہوگی ( یعنی ہلکی بارش جس کو پھوار بھی کہا جاسکتا ہے اور اس بارش کے ذریعہ لوگوں کے بدن اگ آئیں گے ( جو قبروں میں گل چکے ہوں گے) پھر چالیس برس کے بعد) دوسرا صور پھونکا جائے گا جس کو سن کر تمام لوگ ( جو اپنی قبروں اور زمین کے نیچے سے زندہ ہو کر نکلیں گے) یکبارگی اٹھ کھڑے ہوں گے اور قیامت کے ہولناک منظر کو دیکھیں گے پھر ان سب سے کہا جائے گا کہ لوگو ! اپنے پروردگار کی طرف آو اور فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ ان سب کو روکے رکھو، ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا اور ان سے حساب لیا جائے گا پھر ( پروردگار کی طرف سے) فرشتوں کی طرف سے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا جائے گا کہ کتنے لوگوں میں سے کتنے لوگوں کو الگ کیا جائے ؟ یعنی جن لوگوں کو دوزخ میں بھیجا جانا ہے ان کا تناسب کیا ہے اور ان کو کتنے لوگوں میں سے کس مقدار کے حساب سے الگ کیا جائے فرشتوں سے کہا جائے گا ہر ہزار شخص میں سے نو سو نناوے لوگوں کو دوزخ میں بھیجنے کے لئے الگ کرلو یہ کہہ کر آپ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور یہ وہ دن ہے جس میں امر عظیم کو ظاہر کیا جائے گا۔ (مسلم ) اور حضرت معاویہ (رض) کی روایت لا تنقطع الہجرۃ۔ توبہ کے باب میں نقل کی چکی ہے۔ تشریح مجھے نہیں معلوم اسی موقع پر چالیس سے آنحضرت ﷺ کی کیا مراد تھی الخ) کے سلسلہ میں مختصر طور پر اتنا بتادینا کافی ہے کہ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، دجال کی ٹھہرنے کی مدت بعض روایتوں میں چالیس سال اور بعض میں چالیس دن یا چالیس رات آئی ہے اور اسی موقع پر یہ بھی وضاحت کی جا چکی ہے کہ ان روایتوں میں مطابقت کی صورت کیا ہے۔ دو شخصوں کے درمیان بھی کوئی دشمنی و عداوت نہیں ہوگی کے ذریعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس دنیا میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا وہ زمانہ باہمی انس و رواداری، اخوت و محبت اور یگانگت ویک جہتی سے بھر پور ہوگا۔ اس وقت تمام لوگ ایمان و اخلاق کی کامل صفات کے حامل ہوں گے اور پورا معاضرہ اس طرح اعلی انسانی و اخلاقی قدروں پر استوار ہوگا کہ کوئی کسی کا دشمن نہیں ہوگا۔ کوئی کسی کے درپے آزار نہیں ہوگا۔ کسی کے دل میں کوئی بغض وکینہ اور حسد نہیں ہوگا بلکہ تمام لوگ ایک دوسرے کے دوست ورفیق اور ایک دو سے کے ہمدرد اور بہی خواہ ہوں گے ! واضح رہے کہ اس دنیا میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ٹھہرنے کی مدت جو سات سال بیان کی گئی ہے وہ دجال کو قتل کرنے کے بعد اس دنیا میں ان کے ٹھہرنے کی مدت ہے ورنہ یہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس دنیا میں ان کی کل مدت حیات پینتالیس سال ہوگی۔ جو پرندوں کی مانند سبک رو اور تیز رفتار الخ کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ برائی و بدکاری کے کاموں اور جنسی خواہشات کی تکمیل میں اس طرح سبک رو اور تیز رفتار ہوں گے جیسے پرندے ہوتے ہیں اور ظلم وتشدد کرنے، فتنہ و فساد پھیلانے اور لوگوں کے جان ومال کو ہلاک و برباد کرنے میں اس طرح شقی القلب اور سخت مزاج ہوں گے جس طرح درندے ہوتے ہیں ! پس اس جملہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ لوگ علم و دانائی حلم ومروت اور دوسرے انسانی و اخلاقی اوصاف سے بالکل خالی ہوں گے بلکہ ان کے دل و دماغ اور مزاج و طبیعت پر ظلم وشقاوت، دست درازی، وحشت ودرندگی اور ہلاکت خیزی کا غلبہ ہوگا۔ وہ اپنی گردن کو ایک جانب سے جھکالے گا آلخ کا مطلب یہ ہے کہ اس صور کی آواز اتنی زیادہ خوفناک اور ڈراونی ہوگی کہ اس کی دہشت سے لوگوں کے دل پھٹ جائیں گے اور جسمانی قوت وہمت معطل و بیکار ہو کر رہ جائے گی جس کا اثر گردن پر پڑے گا اور وہ ڈھلک جائے گی جیسا کہ خوف و دہشت کے وقت ہوتا ہے کہ سر اس طرح ایک طرف کو ڈھلک جاتا ہے کہ گردن کی ایک جانب تو جھک جاتی ہے اور اس کے مقابل کی دوسری جانب اوپر اٹھ جاتی ہے۔ ہر ہزار شخص میں سے نو سو ننانوے لوگوں کو الخ سے معلوم ہوا کہ ایک ہزار لوگوے میں سے صرف ایک شخص جنت میں جائے گا اور باقی سب دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ گویا جنت میں جانے والوں کا تناسب فی ہزار ایک شخص ہوگا ! نیز زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ہر ہزار شخص میں سے نو سو ننانوے لوگوں سے مراد کافر ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے چناچہ آگے باب الحشر میں حضرت ابوسعید خدری (رض) کی ایک روایت آرہی ہے اس میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ دوزخیوں کی یہ جماعت یاجوج وماجوج کے لوگوں پر مشتمل ہوگی۔ یہ وہ دن ہے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا یہ جملہ دراصل قیامت کے دن کی درازی وطوالت یا اس دن کی شدت وہولنا کی سے کنایہ ہے جیسا کہ مصائب وآلام اور غم وشدائد کے زمانہ میں بوڑھا پا بہت جلد آجاتا ہے۔ اسی طرح یہ وہ دن ہے جس میں امر عظیم کو ظاہر کیا جائے گا بہی سخت ترین خوف وہولنا کی اور شدت و محبت سے کنایہ ہے واضح رہے کہ کشف ساق ( جس کا ترجمہ امر عظیم کو ظاہر کیا جانا) کیا گیا ہے کے معنی اہل عرب میں یہی مشہور ہیں اور اس کی اصل یہ ہے کہ جب کسی شخص پر کوئی بہت سخت مشکل و پریشانی آتی ہے اور اس پریشانی سے نجات پانے کے لئے اس کو بہت زیادہ کوشش اور سعی کرنا ہوتی ہے تو وہ اپنی پنڈلی کے اوپر سے کرتہ کا دامن وغیرہ اٹھالیتا ہے جس کی وجہ سے اس کی پنڈلی کھل جاتی ہے اس اعتبار سے کشف ساق اہل عرب کا ایک محاورہ بنا ہوا ہے جو کسی کام کی اہمیت ونزاکت اور اس کام کے سلسلے میں پیش آنے والی صعوبتوں اور سختیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے ! یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہے کہ یوم یکشف عن ساق۔ کے الفاظ قرآن کریم میں بھی آئے ہیں اور حدیث میں مذکورہ جملہ کی صورت میں قرآن کے انھی الفاظ کو پیش کیا گیا ہے چناچہ اس کی تفسیر کے سلسلہ میں بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن اکثرحضرات کے نزدیک اس کی زیادہ صحیح تاویل یہی ہے جو اوپر ذکر کی گئی۔