169. صور پھونکے جانے کا بیان

【1】

صور پھونکے جانے کا بیان

صور اصل میں نرسنگا ( سنگھ) اور قرنا کو کہتے ہیں جس میں پھونکنے سے ایک بلند آواز پیدا ہوتی ہے اور یہاں وہ مخصوص نر سنگا ( سنگھ) مراد ہے جس کو حضرت اسرافیل (علیہ السلام) پھونکیں گے حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کا یہ صور پھونکنا دو مرتبہ ہوگا ایک بار تو اس وقت جب قیامت آنے کو ہوگی اور اس صور کی آواز سے تمام لوگ مرجائیں گے اور دوسری بار اس وقت جب تمام لوگوں کو میدان حشر میں جمع کرنے کے لئے دوبارہ زندہ کرنا مقصود ہوگا چناچہ اس صور کی آواز سے تمام لوگ زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہوں گے۔

【2】

دونوں نفخوں کے درمیان کتنا وقفہ ہوگا ؟

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دونوں نفخوں ( یعنی ایک مرتبہ مارنے کے لئے اور دوسری مرتبہ جلانے کے لئے دونوں مرتبہ پھونکے جانے والے صور کے درمیان کا وقفہ چالیس ہوگا لوگوں نے ( یہ سن کر) پوچھا کہ ابوہریرہ (رض) ! کیا ( چالیس سے) چالیس دن مراد ہیں ؟ ابوہریرہ (رض) نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم ! پھر لوگوں نے پوچھا کہ کیا چالیس مہینے مر اد ہیں ؟ ابوہریرہ (رض) نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم ان لوگوں نے پھر پوچھا کہ کیا چالیس سال مراد ہیں ؟ ابوہریرہ (رض) نے پھر یہی جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم اس کے بعد حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان حدیث کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ) اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا اور اس پانی سے لوگ ( یعنی انسان اور تمام جاندار) اس طرح اگیں کہ جیسے سبزہ اگتا ہے نیز آپ ﷺ نے فرمایا انسان کے جسم وبدن کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو پرانی اور بوسیدہ نہ ہوجاتی ہو ( یعنی گل سڑ کر ختم نہ ہوجاتی ہو) علاوہ ایک ہڈی کے جس کو عجب الذنب کہتے ہیں اور قیامت کے دن ہر جاندار کی اسی ہڈی سے اس کے تمام جسم کو مرکب کیا جائے گا۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح حضرت ابوہریرہ (رض) کا یہ جواب دینا کہ مجھے نہیں معلوم، اس بنا پر تھا کہ یا تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اس حدیث کو اسی طرح مجملا سنا تھا یا سنا تو مفصل تھا مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ حضور ﷺ چالیس کے بعد کیا فرمایا تھا، چناچہ انہوں نے اپنے مذکورہ جواب کے ذریعہ واضح کیا کہ میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ چالیس سے حضور ﷺ کی مراد چالیس دن تھے، یا چالیس مہینے اور یا چالیس سال بہر حال اس حدیث میں چالیس کا لفظ مجمل نقل ہوا ہے جب کہ ایک دوسری حدیث میں یہ لفظ تفصیل کے ساتھ ہے اور وہ چالیس برس ہے پس دونوں نفخوں کے درمیان جو وقفہ ہوگا وہ چالیس سال کے برابر ہوگا۔ عجب الذنب اس ہڈی کو کہتے ہیں جو ریڑھ کے نیچے دونوں کو لھوں کے درمیان ہوتی ہے جہاں جانور کی دم کا جوڑ ہوتا ہے اور عام طور پر اس کو ریڑھ کی ہڈی سے تعبیر کیا جاتا ہے بعض روایتوں میں عجب الذنب میں عجب کے بجائے عجم کا لفظ ہے ویسے جوڑ ہوتا ہے اس لئے اس کا نام عجب الذنب یا عجم الذنب ہے حاصل یہ کہ ریڑھ کی ہڈی گویا انسان کا بیچ ہے کہ اسی سے ابتدائی تخلیق ہوتی ہے اور قیامت کے دن دوبارہ اسی کے ذریعہ تمام اعضاء جسمانی کو از سر نو ترتیب دیا جائے گا بس مرنے کے بعد انسان یا کوئی بھی جاندار گل سڑ کرنا بود ہوجاتا ہے اور اس کے پورے جسم کی ہڈیوں کو مٹی کھا جاتی ہے مگر ریڑھ کی ہڈی نہ تو گلتی سڑتی ہے اور نہ اس کو مٹی کھاتی ہے واضح رہے کہ یہ ان لوگوں کی حالت کا بیان ہے جن کے بدن گل سڑ جاتے ہیں انبیاء (علیہم السلام) اس سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان کا سارا بدن محفوظ رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام کے جسموں کو کھانا حرام کیا ہے، یہی بات ان لوگوں کے حق میں کہی جاسکتی ہے جو اس بارے میں انبیاء کے حکم میں ہیں یعنی شہداء اور اولیاء اللہ اور وہ مؤذن جو محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اذان دیتے ہیں چناچہ یہ سب لوگ اپنی قبروں میں اسی طرح زندہ ہیں جس طرح اس دنیا میں زندہ لوگ ہیں۔

【3】

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی کبریائی وجبروت کا اظہار

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو اپنے پنجہ میں لے لے گا اور آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا اور پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں ( یعنی بادشاہت میرے علاوہ اور کسی کو سزاوار نہیں میں ہی شہنشاہ ہوں) کہاں ہیں وہ لوگ جو زمین پر اپنی بادشاہی کا دعوی کرتے تھے ؟۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح زمین کو اپنے پنجہ میں لے لینے اور آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لینے سے مراد شاید اللہ تعالیٰ کا ان دونوں ( زمین و آسمان) کو تبدیل کردینا ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یوم تبدل الارض غیر الارض والسموات یا یہ کہ یہ الفاظ دراصل حق تعالیٰ کی عظمت وکبریائی اور جلال سے کنایہ ہیں اور اس طرف اشارہ کرنے کے لئے ہیں کہ وہ عظیم کار نامے اور افعال جن کے سامنے پوری کائنات انسانی کی عقلیں حیران ہیں اللہ رب العزت کی نظر میں بالکل آسان کام ہے اور چونکہ آسمان کو زمین کی نسبت زیادہ شرف و عظمت حاصل ہے اس لئے اس کو دائیں ہاتھ سے زیادہ شرف و فضیلت رکھتا ہے، پس پروردگار زمین کو مٹھی میں لے گا اور آسمانوں کو داہنے ہاتھ پر ( جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے لپیٹ لے گا۔

【4】

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی کبریائی وجبروت کا اظہار

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو لپیٹ لے گا اور پھر ان کو داہنے ہاتھ میں لے کر فرمائے گا کہ بادشاہ میں ہوں ! کہاں ہیں ظلم وجبر کرنے والے، کہاں ہیں ( اپنے جاہ وحشم پر تکبر کرنے والے ؟ پھر زمینوں کو اپنے بائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ زمینوں کو اپنے دوسرے ہاتھ میں لے لے گا اور فرمائے گا۔ بادشاہ میں ہوں کہاں ہیں بادشاہ یعنی وہ لوگ جو اپنے کو بادشاہ کہا کرتے تھے) ؟ کہاں ہیں ظلم وجبر کرنے والے۔ (مسلم )

【5】

قیامت کے دن کی کچھ باتیں یہودی عالم کی زبانی

اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ( ایک دن) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں یہود کا ایک عالم حاضر ہوا اور کہنے لگا اے محمد ﷺ ! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر زمینوں کو ایک انگلی پر پہاڑوں اور درختوں کو ایک انگلی پر پانی اور پانی کے نیچے کی تر مٹی کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوقات کو انگلی پر رکھے گا اور انگلیوں کو ہلاتے ہوئے فرمائے گا، میں ہوں بادشاہ میں ہوں اللہ ( یہ سن کر) رسول کریم ﷺ اس یہودی عالم کی زبانی ان باتوں پر اظہار تعجب کرتے ہوئے مسکرائے اور پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی (وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِه ڰ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُه يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌ بِيَمِيْنِه سُبْحٰنَه وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) 39 ۔ الزمر 67) اور ( افسوس ہے کہ) ان لوگوں نے ( یعنی مشرکوں نے) خدائے تعالیٰ کی کچھ عظمت نہ کی۔۔۔ جیسی عظمت کرنا چاہئے تھی حالانکہ ( اس کی وہ شان ہے کہ) ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپٹتے ہوں گے اس کے داہنے ہاتھ میں ( اور کوئی دوسرا ایسا ہے پس) وہ پاک و برتر ہے ان کے شرک سے ( اس روایت کو بخاری نے نقل کیا ہے۔ تشریح اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا اور ان انگلیوں کو ہلاتے ہوئے فرمائے گا یہ سارے الفاظ بطور کنایہ و تمثیل ہیں اور حق تعالیٰ کی قدرت جلیلہ و عظمت کاملہ کے غلبہ و اظہار کی تصویر کشی کے لئے ہیں، نہ کہ انگلیوں اور انگلیوں کے ہلانے کے حقیقی معنی ملحوظ و مقصود ہیں اس کی نظیر اہل عرب کا اسلوب بیان ہے کہ مثلا وہ جب کسی شخص کو جود وسخاوت جیسے اوصاف کے ساتھ متصف کرنا چاہتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے دونوں ہاتھ فراخ و کشادہ ہیں اگرچہ وہ شخص اپنے دونوں ہاتھوں سے محروم ہی کیوں نہ ہو، کہ اس کے دونوں ہاتھ کسی حادثہ وغیرہ میں کٹ گئے ہوں یا پیدائشی طور پر بےہاتھ والا ہو اسی طرح جب وہ کسی شخص کو سلطنت و حکومت کے وصف کے ساتھ ذکر کرنا چاہتے ہیں تو یوں کہتے ہیں کہ فلاں شخص تخت پر بیٹھا ! اگرچہ اس کے بیٹھنے کے لئے کبھی کوئی تخت یا کوئی بھی چیز نہ رہی ہو پس اگر اہل عرب کے ان محاورات اور اس اسلوب بیان پر نظر ہو تو پھر قرآن و حدیث کے ان متشابہات کو سمجھنے میں بڑی آسانی ہوسکتی ہے جن میں اللہ کی طرف ہاتھ، انگلی اور تخت وغیرہ کی نسبت کی گئی ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہاتھ سے یہ مراد ہے اور تخت سے یہ مراد ہے۔ اس یہودی عالم کی مذکورہ باتیں سن کر آنحضرت ﷺ کا اظہار تعجب کرنا اور مسکرانا اس کی تکذیب کے لئے نہیں تھا بلکہ اس کی تصدیق کے لئے اور اس کو راست گو ظاہر کرنے کے لئے تھا، چناچہ آپ ﷺ نے بعد میں مذکورہ بالا آیت کی تلاوت اسی لئے فرمائی تاکہ یہودی نے جو کچھ کہا ہے اس کی تفصیلی وضاحت ہوجائے۔

【6】

قیامت کے دن زمین و آسمان کی تبدیلی کے متعلق

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے اس آیت (يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ ) 14 ۔ ابراہیم 48) جس روز زمین بدل دی جائے گی اس زمین کو بدل دیا جائے گا اور ان کے علاوہ اور آسمان بھی ( یعنی قیامت کے دن موجودہ زمین و آسمان کو بدل دیا جائے گا اور ان کے بجائے دوسرے زمین و آسمان پیدا کئے جائیں گے) کے بارے میں پوچھا کہ اس دن جب کہ زمین و آسمان کی تبدیلی واقع ہوگی) لوگ کہاں ہوں گے ؟ تو آپ نے فرمایا پل صراط پر۔ ( مسلم ) تشریح لفظ صراط کے اصل معنی راستہ کے ہیں اور یہاں حدیث میں صراط سے مراد پل صراط ہے یعنی وہ پل جس کے بارے میں شارع نے خبر دی ہے کہ وہ دوزخ کی پشت پر بنا ہوا ہے اور جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پل صراط کے بجائے کوئی بھی صراط مراد ہو۔ قیامت کے دن زمین کے تبدیل کئے جانے سے کیا مراد ہے ؟ اس سلسلے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، جس میں سے ایک قول تو یہ ہے کہ قیامت کے دن زمین کو سفید روٹی میں تبدیل کردیا جائے گا، چناچہ اہل ایمان میدان حضر میں حساب سے فارغ ہونے کے وقت تک اپنے قدموں کے نیچے سے یہی روٹی توڑ توڑ کر کھاتے رہیں گے، اس قول کی تائید اسی حدیث سے بھی ہوتی ہے جو آگے آنے والے باب الحشر کی پہلی حدیث ہے، نیز آسمان کے تبدیل کئے جانے سے مراد یہ ہے کہ تارے ٹوٹ پھوٹ کر گرپڑیں گے اور چاند وسورج کو کہن کی صورت میں معطل و بیکار کردیا جائے گا ! اور طیبی نے یہ کہا ہے کہ کسی بھی چیز کی تبدیلی دو صورتوں میں ہوتی ہے ایک تو ذات ( یعنی اصل چیز) کی تبدیلی، جیسے کوئی شخص یوں کہے کہ میں نے سونے کو چاندی میں تبدیل کرلیا ہے، یعنی سونا دیکر چاندی لے لی ہے اور دوسری صورت صفات کی تبدیلی ہے جیسے کوئی شخص یوں کہے کہ میں نے چھلے کو انگوٹھی میں تبدیل کرلیا ہے، یعنی چھلے کو پگھلا کر اس کی انگوٹھی بنوالی ہے، اس صورت میں ذات ( یعنی اصل چیز مثلا سونا یا چاندی، تو ایک ہی رہتی ہے البتہ اس کی حقیقت اور صورت بدل جاتی ہے، پس زمین و آسمان کے دوسری زمین اور دوسرے آسمان میں تبدیل کئے جانے والی بات ان دونوں صورتوں کا احتمال رکھتی ہے کہ اصل زمین و آسمان کی تبدیلی بھی مراد ہوسکتی ہے اور صفات یعنی ہیت و صورت کی تبدیلی بھی مراد ہوسکتی ہے، لیکن سلف کے زیادہ تر اقوال اس طرف ہیں کہ صفات کی تبدیلی مراد ہے، چناچہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ زمین تو یہی زمین رہے گی البتہ اس کی صفات میں تغیر ہوجائے گا، اسی طرح حضرت ابوہریرہ (رض) کا ارشاد ہے کہ زمین کو اس طرح وسیع و کشادہ کردیا جائے گا کہ اس میں کوئی نشیب و فراز باقی نہیں رہے گا تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ذات کی تبدیلی بالکل ناممکن ہے، یقینا اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اس زمین اور ان آسمانوں کی جگہ دوسری زمین اور دوسرے آسمان پیدا کر دے جیسا کہ بعض اقوال اس پر بھی دلالت کرتے ہیں، چناچہ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ حق تعالیٰ ایک ( نئی) زمین پیدا فرمائیں گے جو چاندی کی ہوگی اور جو آسمان پیدا فرمائینگے وہ سونے کا ہوگا، اسی طرح حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی زمین پیدا فرمائیں گے جو سفید و پاکیزہ ہوگی اور اس پر کسی نے کوئی گناہ نہیں کیا ہوگا، خود حدیث کے ظاہری اسلوب سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ تبدیلی سے ذات کا تغیر مراد ہے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا سوال کرنا اور اس پر آنحضرت ﷺ کا جواب اس کی دلیل ہے۔

【7】

قیامت کے دن چاند وسورج بے نور ہوجائیں گے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن سورج اور چاند لپیٹ دئیے جائیں گے۔ ( بخاری)

【8】

حضرت اسرافیل (علیہ السلام) صور پھونکنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا آرام و سکون سے کیسے بیٹھا رہوں جب کہ صور پھونکنے والا حضرت اسرافیل (علیہ السلام) صور کو ( پھونکنے کے لئے) منہ میں دبائے ہوئے ہیں، اپنا کان ( بار گاہ حق جل مجدہ کی طرف) لگائے ہوئے ہیں کہ جب بھی حکم صادر ہو فورا پھونک دیں) اور پیشانی جھکائے ہوئے ( بالکل تیاری کی حالت میں) ہیں اور انتظار کر رہے کہ کب صور پھونکنے کا حکم ملے ( یہ سن کر) صحابہ نے عرض کیا کہ تو پھر آپ ﷺ ہمارے لئے کیا فرماتے ہیں ؟ ( یعنی آپ ﷺ ہمیں کیا تلقین فرماتے ہیں کہ ہم کسی بھی آفت اور سختی کے وقت کیا کریں) آپ ﷺ نے فرمایا ( جب بھی کوئی آفت و مصیبت آئے تو بس حق تعالیٰ ہی کی طرف لو لگاؤ اسی کی بارگاہ میں التجا کرو اور اس کے فضل و کرم پر بھروسہ و اعتماد رکھو، نیز، یہ پڑھا کرو حسبنا اللہ ونعم الوکیل اور ہم کو اللہ ہی کافی ہے اور وہی بہتر کا رساز ہے۔ تشریح حسبنا اللہ ونعم الوکیل پڑھنا ایک ایسا عمل ہے جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ بڑی سے بڑی آفت و مصیبت اور سخت سے سخت مشکل کو دفع کر کے عافیت و سلامتی عطا فرما دیتا ہے، چناچہ جس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نمرود کی آگ میں ڈالا جانا تھا تو آپ کی زبان پر یہی بابرکت کلمہ تھا، اسی طرح ایک غزوہ ( جہاد) کے موقع پر جب کچھ لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے یہ کہا کہ ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوہم۔ یعنی دشمنوں نے آپ لوگوں کے مقابلہ کے لئے بڑا لاؤ لشکر جمع کرلیا ہے اور آپ ﷺ کو ان سے ڈرنا چاہئے تو آپ ﷺ نے یہی پڑھا حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔

【9】

صور کیا ہے ؟

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا صور ایک سینگ ہے جس کو پھونکا جائے گا۔ ( ترمذی) تشریح جس کو پھونکا جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حضرت اسرافیل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم سے دو مرتبہ پھونکیں گے ایک بار تو سب کو مارنے کے لئے اور دوسری بار سب جگانے کے لئے۔ بعض حضرات نے بیان کیا ہے کہ اس سینگ یعنی صور کا وہ سرا جس کو حضرت اسرافیل (علیہ السلام) اپنے منہ میں لگائے پھونکنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں، گول ہے اور اس کی گولائی زمین اور آسمانوں کے برابر ہے۔

【10】

ناقور، راجفہ اور رادفہ کے معنی

حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد فاذا نقر فی الناقور کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ناقور سے مراد صور ہے انہوں نے اس آیت (يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ ۔ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ ۔ ) 79 ۔ الزاریات 6) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے) کہا کہ ( راجفہ سے مراد پہلا صور پھونکا جانا اور رادفہ سے مراد دوسرا پھونکا جانا ہے ( اس روایت کو بخاری نے ترجمۃ الباب میں نقل کیا ہے۔ تشریح دونوں آیتیں مع ترجمہ اس طرح ہیں۔ 1 ۔ (فَاِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُوْرِ ۔ فَذٰلِكَ يَوْمَى ِذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ۔ ) 74 ۔ المدثر 8) پھر جس وقت صور پھونکا جائے گا سو وہ وقت یعنی وہ دن کافروں پر ایک سخت دن ہوگا۔ 2 ۔ (يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ ۔ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ ۔ ) 79 ۔ الزاریات 6) جس دن ہلا دینے والی چیز ( زمین وپہاڑ اور تمام چیزوں کو ہٹا ڈالے گی جس کے بعد ایک پیچھے آنے والی آئے گی۔ راجف اصل میں رجف سے نکلا ہے جس کے معنی ہلنے اور لرزنے کے ہیں اور رادفۃ کا لفظ ردف سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کا کسی چیز کے پیچھے پیچھے پہنچنا۔ نفخ صور کے وقت جبرائیل (علیہ السلام) ومیکائیل (علیہ السلام) حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کے دائیں بائیں ہونگے

【11】

ناقور، راجفہ اور رادفہ کے معنی

حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے صور پھونکنے والے یعنی حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کا ذکر کیا اور فرمایا کہ صور پھونکنے کے وقت) ان کے دائیں جانب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہوں گے اور بائیں جانب حضرت میکائیل (علیہ السلام) ۔

【12】

دوبارہ زندہ کرنے کا ذکر

اور حضرت ابورزین عقیلی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ خداوند تعالیٰ مخلوقات کو دوبارہ کس طرح زندہ کرکے اٹھائے گا ( جب کہ ان کے جسم وبدن گل سڑ کر خاک ہوچکے ہوں گے ؟ ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم کبھی قحط اور خشک سالی کے زمانہ میں اپنی قوم کے جنگل اور کھیتوں کے درمیان سے گزرے ہو، وہاں سبزہ کا نام ونشان تک نظر نہیں آیا ہوگا ( بلکہ ساری زمین بالکل بنجر اور خشک نظر آئی ہوگی) پھر جب تم ( بارش کے بعد وہاں سے گزرے ہوگے تو تمہیں ( پورے علاقہ میں) لہلہاتا ہوا سبزہ نظر آیا ہوگا میں نے عرض کیا کہ ہاں ایسا ہوتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا پس مخلوقات میں قدرت الہٰی کی یہی نشانی ہے اور اللہ تعالیٰ مردوں کو اس طرح زندہ کرے گا ان دونوں روایتوں کو زرین نے نقل کیا ہے۔