17. عیدین کا بیان

【1】

عیدین کی نماز کا بیان

شوال کہ مہینہ کی پہلی تاریخ کو عیدالفطر (عید) اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عیدالاضحی (بقر عید) اور دونوں کے مجموعے کو عیدین کہتے ہیں۔ یہ دونوں تاریخیں اسلام میں عید اور خوشی کے دن ہیں جس میں دو دو رکعت نماز بطور شکر کے پڑھی جاتی ہے۔ عیدین کی نماز حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے ہاں واجب ہے جب کہ حضرت امام شافعی (رح) اور دوسرے علماء عیدین کی نماز کو سنت مؤ کدہ کہتے ہیں۔ عید لفظ عود سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں باربار آنا چناچہ اس دن کو عید اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ دن بار بار یعنی ہر برس آتا ہے چناچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس دن کا نام عید اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ عود کرتا ہے یعنی بندوں پر اپنی رحمت اور بخشش کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے عید کے بارے میں یہ عارفانہ جملے بیان کئے جاتے ہیں کہ لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ لَبِسَ الْجَدِیْدَ اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ اٰمَنَ مِنَ الْوَعِیْدِ لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ تَنَجَّرَ بِالْعُوْدِ اَنَّمَا الْعِیْدُ الِلتَّائِبِ الَّذِی لَا یَعُوْدُ لَیْسَ الْعَیْدُ لِمَنْ تَزَیَّنَ بِزِیْنَۃِ الدُّنْیَا اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ تَزَوَّدَ بِزَادِ التَّقْویٰ ۔ لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ رَکِبَ الْمَطَایَ اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ تَرَکَ الْخَطَایَا لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ بَسَطَ الْبِسَاطَ اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ جَاوَزَ الصِّرَاطَ ۔ عید اس آدمی کے لئے نہیں ہے جو نئے کپڑے پہنے بلکہ اس کے لئے ہے جو عید سے امن میں (یعنی برے کاموں سے بچتا رہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا مستحق ہوا ور اس کے عتاب سے امن میں رہے) عید اس آدمی کے لئے نہیں ہے جو عود کی خوشبو سے معطر ہو بلکہ اس کے لئے ہے جو توبہ کرنے والا ہو کہ پھر گناہ نہ کرے عید اس آدمی کے لئے نہیں ہے جو آرائش دنیا کی زینت اختیار کرے بلکہ اس کے لئے ہے جو تقوی (پرہیزگاری) کو آخرت کے لئے زاد راہ بنائے۔ عید اس آدمی کے لئے نہیں ہے جو سواریوں پر سوار ہو بلکہ اس کے لئے ہے جو گناہوں کو ترک کرے۔ اور عید اس آدمی کے لئے نہیں جو ( آرائش و زیبائش کے) فرش بچھائے بلکہ اس کے لئے ہے جو پل صراط سے گذر جاے گا ۔

【2】

عیدین کی نماز

حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ( جب) عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نماز کے لئے تشریف لاتے تو وہاں سب سے پہلا یہ کام فرماتے کہ خطبے سے پہلے نماز ادا فرماتے، پھر نماز سے فارغ ہوتے اور لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے اور لوگ اپنی صفوں پر بیٹھتے رہتے چناچہ آپ ان کو وعظ و نصیحت فرماتے، وصیت کرتے اور احکام صادر فرماتے، اگر (جہاد کے لئے) کہیں کوئی لشکر بھیجنا ہوتا تو اس کی روانگی کا حکم فرماتے اس طرح اگر (لوگوں کے معاملات و مقدمات کے بارے میں کوئی حکم دینا ہوتا تو حکم صادر فرماتے پھر (گھر) واپس تشریف لے آتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مدینہ منورہ کی عیدگاہ شہر سے باہر ہے، جس کا فاصلہ کہتے ہیں کہ حجرہ شریف سے ایک ہزار قدم ہے وہ جگہ انتہائی متبرک اور مقدس ہے اب اس کے اردگرد چار دیواری بنادی گئی ہے۔ بہر حال شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ امام وقت کے لئے ضروری ہے کہ وہ عیدین کی نماز کے لئے عید گاہ جائے۔ ہاں اگر کوئی عذر مانع ہو تو پھر شہر کی مسجد ہی میں نماز پڑھائے ابن ہمام فرماتے ہیں کہ امام وقت کے لئے مسنون ہے کہ وہ خود تو عید کی نماز کے لئے عید گاہ جائے اور کسی ایسے آدمی کو اپنا قائم بنا دے جو شہر میں ضعیفوں کو نماز پڑھائے لیکن حضرت علامہ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ عید گاہ جانے کا مسئلہ مسجد حرام اور بیت المقدس کے علاوہ دوسری جگہوں کے لئے ہے کیونکہ نہ صرف ان دونوں مقدس مسجدوں کی عظمت و تقدس کے پیش نظر بلکہ صحابہ اور تابعین کی اتباع میں بھی مسجدوں میں تمام نمازیں پڑھنی افضل ہیں۔ فیقوم کا مطلب یہ ہے کہ آپ نماز سے فراغت کے بعد خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے لوگوں کے سامنے زمین پر کھڑے ہوتے تھے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں عید گاہ میں منبر نہیں تھا۔ اس کے بعد جب مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی تو عید گاہ میں منبر کا انتظام کیا گیا اس لے کہ منبر پر کھڑے ہو کر پڑھے گئے خطبے کی آواز دور دور تک پہنچتی ہے۔ نصیحت کرتے یعنی مسلمانوں کو آپ اس موقع پر دنیا سے زہد اختیار کرنے اور آخرت کے طرف دھیان رکھنے کی نصیحت فرماتے، نیز آپ ﷺ لوگوں کے سامنے ثواب کی عظمت و فضائل بیان کرتے اور گناہوں سے ڈراتے تاکہ لوگ اس دن کی خوشیوں اور مسرتوں میں مشغول ہو کر اطاعت سے غافل اور گناہوں میں مبتلا نہ ہوجائیں جیسا کہ آجکل لوگوں کا حال ہے۔ اور وصیت کرتے یعنی لوگوں کو تقوی یعنی پرہیز گاری اختیار کرنے کی وصیت فرماتے۔ تقوی کے تین درجے ہیں۔ ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ شرک سے بچا جائے۔ وسط درجہ یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے اور ممنوع چیزوں سے بچا جائے۔ اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہمہ وقت حضور قلوب کے ساتھ متوجہ اور ماسوا اللہ سے بےغرض رہا جائے۔ احکام صادر فرماتے یعنی لوگوں کے معاملات کے بارے میں جو احکام دینے ہوتے تھے وہ صادر فرماتے نیز عید الفطر میں فطرہ کے احکام اور عیدالاضحی میں قربانی کے احکام بیان فرماتے۔

【3】

عیدین کی نماز

اور حضرت جابر ابن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ عید و بقر عید کی نماز بغیر اذان و تکبیر کے ایک دو مرتبہ نہیں (بلکہ بہت مرتبہ) پڑھی ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے اکثر اہل علم کا یہی مسلک تھا کہ عید و بقر عید کی نماز میں نہ تو اذان مشروع ہے اور نہ تکبیر، اسی طرح دوسرے نوافل میں بھی اذان و تکبیر نہیں ہے بلکہ کتاب ازہار میں تو یہ لکھا ہے کہ مکروہ ہے۔

【4】

عیدین کا خطبہ نماز کے بعد پڑھنا چاہیے

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ سرتاج دو عالم ﷺ حضرت ابوبکر اور عمر (رض) عید کی نماز خطبہ سے پھلے پڑھتے تھے۔ تشریح ابن منذر کا قول ہے کہ فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عید و بقر عید کا خطبہ نماز کے بعد پڑھنا چاہیے۔ نماز سے پہلے خطبہ پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن اگر کسی آدمی نے نماز سے پہلے ہی خطبہ پڑھ لیا تو تمام علماء کے نزدیک نماز جائز ہوجائے گی منقول ہے کہ مروان ابن حکم جب مدینہ کا حاکم ہوا اور اس نے خطبہ نماز سے پہلے پڑھا تو اس کے اس فعل کو صحابہ کرام نے بہت برا جانا۔

【5】

عیدین کی نماز کے لئے اذان و تکبیر مشروع نہیں ہے

(مروی ہے کہ ایک مرتبہ) حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے پوچھا گیا کہ کیا آپ سر تاج دو عالم ﷺ کے ہمراہ عید میں شریک ہوئے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں (پھر آپ نے یہ تفصیل بیان کی کہ) رسول اللہ ﷺ (عیدگاہ) تشریف لے گئے چناچہ آپ ﷺ نے وہاں عید کی نماز پڑھی پھر خطبہ ارشاد فرمایا حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے (رسول اللہ ﷺ کی نماز تفصیل سے بیان کرنے کے دوران) تکبیر و اذان کا ذکر نہیں کیا (پھر انہوں نے فرمایا کہ) اس کے بعد آپ ﷺ عورتوں کی جماعت کی طرف آئے، ساتھ حضرت بلال (رض) بھی تھے، ان عورتوں کو نصیحت فرمائی، دین کے احکام یاد کرائے۔ ثواب و عذاب کے بارے میں بتایا اور ان کو صدقہ (یعنی فطرانہ و زکوٰۃ یا محض اللہ کے نام پر) دینے کا حکم فرمایا چناچہ میں نے عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ کانوں اور گلوں کی طرف (زیور اتارنے کے لئے) بڑھاتی تھیں اور کانوں اور گلوں کے زیور (اتار اتار کر) حضرت بلال (رض) کے حوالہ کر رہی تھیں (تاکہ وہ ان کی طرف سے فقراء و مساکین میں تقسیم کردیں) پھر اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اور حضرت بلال اپنے گھر تشریف لے آئے۔ (صحیح البخاری ) تشریح جیسا کہ حضرت جابر ابن سمرہ (رض) نے بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس روایت سے بھی ثابت ہو رہا ہے کہ نماز عید و بقر عید کے لئے اذان و تکبیر مشروع نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ کے حکم سے عورتیں بھی نماز عید و بقر عید میں عید گاہ جاتی تھیں۔ چناچہ جب آپ ﷺ مردوں کو وعظ و نصیحت فرما چکے تو علیحدہ سے عورتوں کے پاس بھی انہیں پند و نصیحت کرنے کے لئے تشریف لے گئے کیونکہ عورتیں مردوں سے الگ ایک طرف بیٹھی ہوتی تھیں اس لئے جب آپ مردوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آواز ان تک اچھی طرح نہیں پہنچتی تھی۔

【6】

نماز عیدین سے پہلے یا بعد میں نفل نماز پڑھنے کا مسئلہ

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عید الفطر کے دن (نماز عید کی) دو رکعتیں پڑھیں نہ تو آپ ﷺ نے ان سے پہلے (نفل) نماز پڑھی اور نہ بعد میں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح علامہ ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ یہ نفی عید گاہ سے متعلق ہے کیونکہ حضرت ابوسعید خدری (رض) کی یہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عید سے پہلے (نفل) نماز نہیں پڑھتے تھے ہاں جب (عید گاہ) سے اپنے گھر تشریف لے جاتے تو دو رکعتیں پڑھتے چناچہ در مختار میں لکھا ہے کہ نماز عید سے پہلے نفل نماز پڑھنی مطلقاً مکروہ ہے یعنی عیدگاہ میں بھی مکروہ ہے اور گھر میں بھی۔ البتہ نماز عید کے بعد عیدگاہ میں نفل نماز پڑھنی مکروہ ہے مگر گھر میں جائز ہے۔

【7】

عیدگاہ میں عورتوں کے جانے کا مسئلہ

اور حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم عید و بقرہ عید کے دن ان عورتوں کو (بھی) جو ایام والی ہوں (یعنی جو ایام سے ہوں یا یہ کہ جو بالغ ہوں) اور (بھی جو پردہ نشین ہوں (گویا یا تمام عورتوں کو) عید گاہ لے چلیں اور یہ سب مسلمانوں کی جماعت اور دعا میں شریک ہوں۔ نیز جو عورتیں ایام سے ہوں وہ نماز پڑھنے کی جگہ سے الگ رہیں ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم میں سے جس کے پاس چادر نہیں (وہ کیا کرے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے ساتھ والی چادر اڑھا دے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح خطابی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تمام عورتوں کو عید گاہ جانے کا حکم فرمایا تاکہ جن عورتوں کو کوئی عذر نہیں ہے وہ تو نماز پڑھیں اور جن عورتوں کو کوئی عذر ہے انہیں نماز اور دعا کی برکت پہنچے گویا اس طرح لوگوں کو ترغیب دلائی جا رہی ہے کہ وہ نمازوں میں شریک ہوں۔ وعظ و ذکر کی مجالس میں حاضر ہوں اور علماء و صلحا کا قرب حاصل کریں تاکہ انہیں اللہ کے ان نیک و مقدس بندوں کی برکت حاصل ہو اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے مقدس زمانے میں عورتوں کے لئے عید گاہ جانا ممنوع نہیں تھا مگر آجکل کے زمانے میں فتنہ و فساد کے خوف سے عورتوں کے لئے عیدہ گاہ جانا مستحب نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عورتوں کے عید گاہ جانے کی توجیہہ امام طحاوی نے یہ بیان فرمائی ہے کہ چونکہ اس وقت اسلام کا ابتدائی دور تھا مسلمان بہت کم تھے اس لئے رسول اللہ ﷺ کا یہ مقصد تھا کہ اگر تمام عورتیں بھی عیدگاہ جائیں گی تو مسلمانوں کی تعداد زیادہ معلوم ہوگی جس سے کفار پر رعب پڑے گا۔ لہٰذا آجکل نہ صرف اس کی ضرورت ہے بلکہ عورتوں کی موجودگی چونکہ بہت زیادہ محرمات و مکروہات کا ذریعہ بن سکتی ہے اس لئے علماء نے عورتوں کو عید گاہ جانے سے روک دیا ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی عورت کے پاس ایسی کوئی چادر اور کوئی کپڑا نہ ہو جسے اوڑھ کر وہ عید گاہ جاسکے تو اس کی ساتھ والی کو چاہیے کہ یا تو اس کے پاس کئی چادریں ہوں تو ایک چادر عاریتا اس عورت کو دے جسے وہ بعد میں واپس کر دے گی یا پھر یہ کہ اگر اس کے پاس کئی نہیں بلکہ ایک ہی چادر ہے تو اپنی چادر کا ایک حصہ اس کو اڑھا دے اور دونوں ایک جگہ بیٹھ جائیں۔

【8】

نغمہ و سرور کا مسئلہ

ام المومنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایام منیٰ میں (یعنی جن دونوں میں حجاج منیٰ میں قیام کرتے ہیں اور جو ایام تشریق کہلاتے ہیں انہیں میں سے بقر عید کے دن یا اس کے بعد کے دنوں میں) حضرت ابوبکر صدیق میرے پاس تشریف لائے جب کہ اس وقت میرے پاس (انصار کی لڑکیوں میں سے) دو چھوکریاں بیٹھی ہوئی دف بجا رہی تھیں ایک دوسری روایت میں ان الفاظ کی بجائے یا یہ کہ مزید) یہ الفاظ ہیں کہ چھوکریاں (وہ اشعار) گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے متعلق کہے تھے اور رسول اللہ ﷺ اس وقت منہ پر کپڑا ڈالے ہوئے لیٹے ہوئے تھے حضرت ابوبکر صدیق ان چھوکریوں کو دھمکانے لگے یعنی انہیں گانے بجانے سے منع فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اپنا منہ کھولا اور فرمایا کہ ابوبکر انہیں چھوڑ دو کچھ نہ کہو کیونکہ یہ عید یعنی خوشی کے دن ہیں ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابوبکر ! ہر قوم کی عید ہوتی ہے یہ ہماری عید ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح لفظ تضربان گویا تدفعان کی تاکید کے لئے استعمال کیا گیا ہے لیکن بعض حضرات نے اس کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ وہ لڑکیاں اچھلتی کودتی تھیں اور دف بجاتی تھیں دف بجانے کا مسئلہ دف باجے کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں۔ ایک قول تو یہ ہے کہ دف بجانا مطلقاً مباح ہے یعنی کسی بھی وقت اور کسی بھی موقعہ پر بجایا جاسکتا ہے اس کے برخلاف دوسرا قول یہ ہے کہ مطلقاً حرام ہے۔ اس سلسلے میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ بعض مواقع پر مثلاً نکاح، ولیمہ یا اس قسم کی دوسری تقریبات میں کہ جو انہیں دونوں کے حکم میں ہوں، نیز عیدین میں دف بجانا مباح ہے۔ پھر علماء نے دف میں فرق کیا ہے یعنی اگر دف جھانجدار ہے تو اس کا بجانا مکروہ ہے اور اگر جھانجدار نہ ہو تو مکروہ نہیں ہے۔ اگرچہ جھاندار دف کے بارے میں بھی علماء نے اختلاف کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ تغنیان (گارہی تھی) کا مطلب یہ ہے کہ لڑکیاں وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جن میں شجاعت و بہادری کے مضمون مذکور تھے اور جو انصار نے بعاث پر چڑھائی اور وہاں کی جنگ کے متعلق کہے تھے جیسا کہ بہادروں کی عادت ہے کہ جنگ کے وقت اپنی شجاعت و بہادری پر مشتمل اشعار بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں۔ بعاث ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ سے دو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ بعض حضرات کی تحقیق یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں انصار کے دو قبیلوں اوس اور خزرج کے درمیان سخت جنگ ہوئی تھی جس میں قبیلہ اوس کا میاب رہا تھا اسی جنگ کو جنگ بعاث کہا جاتا ہے۔ بہر حال لڑکیاں جو اشعار گا رہی تھیں وہ فواحش اور حسن و عشق کے ان مضامین کے حامل نہیں تھے جن کا پڑھنا معیوب اور ممنوع ہے بلکہ وہ اشعار جنگ و جدل کے کارناموں، معرکہ آرائیوں کی پر شجاعت داستانوں اور میدان جنگ کی گرم کہانیوں پر مشتمل تھے جن کے پڑھنے سے اشاعت دین میں مدد ملتی تھی بایں طور کہ وہ کفار سے جہاد کرنے کے لئے مومنین کو ترغیب دلاتے تھے ورنہ ان لڑکیوں کی کیا مجال کہ عائشہ صدیقہ (رض) کی موجودگی میں اور سرکار دو عالم ﷺ کے سامنے وہ برے اور معیوب اشعار کی جرات بھی کرتیں۔ چنانچہ صحیح البخاری کی ایک روایت میں لفظ تغنیان کے بعد یہ الفاظ بھی مذکور ہیں کہ ولیستا بمغنیتین یعنی لڑکیاں اشعار گا رہی تھیں اور گانا ان لڑکیوں کا کسب و پیشہ نہیں تھا کہ کوئی زیادہ اچھا گاتی ہوں اور گانے بجانے کے فن میں مشہور ہوں یا یہ کہ وہ اپنے اشعار کے ذریعہ خیالات فاحشہ و خواہشات نفسانی کے ہیجان و اشتیاق کا سبب بنتی ہوں جو فتنہ و فساد کا باعث ہوتا بلکہ وہ بالکل اسی انداز میں اشعار پڑھ رہی ہیں جیسا کہ اکثر شریف زادیاں اپنے گھروں میں پاکیزہ خیالات کے حامل اشعار گنگنایا کرتی ہیں۔ فانتھر ھما ابوبکر (حضرت ابوبکر ان چھو کریوں کو دھمکانے لگے) یعنی جیسا کہ صحیح البخاری میں مذکور ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ان لڑکیوں سے کہا کہ سرکار دو عالم ﷺ کے قریب مز مار شیطان (یعنی شیطانی باجا) بجاتی ہو ؟ گویا حضرت ابوبکر نے انہیں تنبیہ کی اور اس فعل سے منع فرمایا اصطلاحاً مزمار ہر اس باجے کو کہتے ہیں جو گویے بجاتے ہیں مثلاً بانسری، دف رباب ( سارنگی) حضرت ابوبکر نے لڑکیوں کے باجے کو شیطانی باجا اس لئے کہا کہ جس طرح شیطان اپنی ذات سے انسانوں کی عملی زندگی کو نیک کاموں سے ہٹا کر برے کاموں میں مشغول کردیتا ہے اسی طرح باجا بھی انسانی قلوب کو یاد الہٰی کے مقدس راستے سے ہٹا کر لہو و لعب و ناجائز خواہشات کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح گذشتہ امتوں اور غیر مسلموں کے ہاں خوشی و مسرت اور عید کا ایک خاص دن ہوتا ہے جیسے قوم مجوس کے ہاں نوروز ایک خاص دن ہے جس میں وہ اپنی عید مناتے ہیں اسی طرح مسلمانوں کے لئے بھی خوشی و مسرت اور شادمانی کے دو دن ہیں اور وہ عید و بقر عید کے دن ہیں یہ مشابہت صرف تمیثل کی حد تک ہے ان کے معتقدات و افعال کے ساتھ مشابہت مقصود نہیں ہے یعنی اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ جس طرح غیر مسلم اپنے خوشی و تہواروں کے دن غلط کام کرتے ہیں اسی طرح غلط کام مسلمان بھی ان دنوں میں کرسکتے ہیں۔ چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ عید و بقر عید کے دن غیر مسلموں کے تہوار کی مشابہت اختیار کرنا کفر ہے مثلا غیر شرعی اور غیر مناسب زیبائش و آرائش کرنا، انڈے لڑانا، مردوں کا مہندی لگانا، ناچ گانوں میں مشغول ہونا وغیرہ وغیرہ۔ حدیث سے اہل سماع کا غلط استدلال اس حدیث سے اہل سماع کو بڑی زبردست غلط فہمی ہوگئی ہے۔ ان لوگوں نے اس حدیث کی بنیاد پر ڈھولک وہارمونیم جیسے ساز کے ساتھ قوالی کے مباح ہونے اور اس کے سننے کو جائز قرار دیا ہے حالانکہ اس حدیث کا قطعی طور پر وہ مفہوم و مطلب نہیں ہے جو اہل سماع نے مراد لیا ہے بلکہ بنظر انصاف اور بغیر کسی تعصب و ہٹ دھرمی کے اگر معقولیت پسند قلب و دماغ کے ساتھ اس حدیث کے حقیقی مفہوم کو دیکھا جائے تو وہ پوری وضاحت کے ساتھ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر نے ان لڑکیوں کو گانے اور دف بجانے سے اس لئے منع کیا اور انہیں دھمکایا کہ ان کے نزدیک گانا بجانا مطلقاً معیوب و ممنوع تھا۔ نیز انہوں نے یہ گمان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لڑکیوں کو ان کے گانے بجانے سے اس لئے منع نہیں فرمایا کہ آپ ﷺ سوئے ہوئے تھے اور آپ ﷺ کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے ؟ حالانکہ حضرت ابوبکر کو یہ معلوم نہیں تھا آپ ﷺ نے اس دن بہت معمولی طریقے پر اشعار پڑھنے کی اجازت دی تھی جس کا شمار حقیقی گانے بجانے اور لہو و لعب میں نہیں تھا۔ حاصل یہ کہ حضرت ابوبکر کو اس فرق اور تفصیل کا علم نہیں تھا اس لئے انہوں نے لڑکیوں کو اشعار پڑھنے سے روکا جس پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ وہ لڑکیوں کو کچھ نہ کہیں۔ لہٰذا اس حدیث سے صرف اس قدر ثابت ہوا کہ عید کے روز یا ایسے کسی موقع پر جہاں خوشی منانی مباح ہے شریعت کی حدود کی اندر رہتے ہوئے کچھ اشعار پڑھ لینا مباح ہے پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس واقعہ کا تعلق ایک مخصوص جگہ اور مخصوص وقت سے ہے جس سے گانے بجانے کا مطلقاً مباح ہونا لازم نہیں آتا۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی خاص موقع پر ایک آدھ مرتبہ دف بجانا اور سماع ممنوع نہیں ہے لیکن اس پر مداومت کرنا مکروہ ہے کیونکہ مستقل طور پر گانا بجانا وصف تقوی اور اخلاق فاصلہ کو ختم کردیتا ہے جس کی وجہ سے ایسا آدمی شریعت کی نظر میں اپنا اعتماد کھو دیتا ہے۔ ابن مالک فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ دف جائز ہے جب کہ اس میں چھانج نہ ہو اور کبھی کبھی ایک آدھ دفعہ بجایا جائے۔ نیز ایسے اشعار پڑھنے جائز ہیں جس میں کسی کی برائی ومذمت نہ بیان کی گئی ہو اور جو فحش مضامین پر مشتمل نہ ہوں۔ فتاوی قاضیخاں میں لکھا ہے کہ سننا گناہ ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ باجوں کا سننا گناہ، اس کی مجلس میں شرکت فسق اور اس سے لطف انداوز ہونا شعار کفر سے ہے۔ نیز مسئلہ یہ ہے کہ اگر غیر اختیاری طور پر باجے کی آواز کان میں پڑجائے تو کوئی گناہ نہیں۔ باجوں کی آواز سے حتی الامکان بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ ایسے موقعہ پر آپ ﷺ کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے تھے۔ علماء لکھتے ہیں کہ زمانہء جاہلیت کے ایسے عربی اشعار پڑھنا کہ جن میں فحش مضامین مثلاً شراب و کباب اور حسن و عشق کے تذکرے ہوں مکروہ ہے۔ ایک جلیل القدر محدث نے اس حدیث کے فائدے میں سماع و غنا کا مسئلہ پوری وضاحت کے ساتھ لکھا ہے اس موقعہ پر اس کا خلاصہ نقل کردینا مناسب ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دف بجانا اور گانا ممنوع ہے ہاں کچھ مواقع پر مثلاً عید یا اسی قسم کی کسی دوسری خوشی کی تقریب میں یعنی نکاح وغیرہ میں اس کی ایک حد تک اجازت ہے، کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق کی صحابہ میں سب سے زیادہ فضیلت ہے۔ انہیں احکام دین خوب اچھی طرح معلوم تھے انہوں نے گانے کو مزمار شیطان کہا رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر جواباً انہیں منع فرمایا تو اس بات سے منع نہیں فرمایا تھا کہ گانے کو مزمار شیطان کہا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں عید کے دن کے لئے منع فرمایا کہ آج کے دن اس میں اتنی شدت اختیار نہ کرو۔ گویا رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مقصد گانے بجانے کی ممانعت کے سلسلے میں حضرت ابوبکر کے قول کی تردید نہیں تھا بلکہ مراد یہ تھی کہ گانے بجانے کا صرف اتنا معمولی درجہ کہ جس میں یہ لڑکیاں مشغول ہیں آج کے دن ممانعت کے حکم سے مستثنیٰ ہے اگر لڑکیاں شرعی و اخلاقی حدود میں رہ کر شجاعت و بہادری کی تعریف و توصیف پر مشتمل اشعار ترنم کے ساتھ پڑھ رہی ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے صرف یہ کہ خود لڑکیوں کے اس فعل سے کوئی دلچسپی نہیں لی (جیسا کہ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ آپ ﷺ اس وقت سو رہے تھے بلکہ حضرت ابوبکر کو بھی اس کی ترغیب نہیں دلائی بلکہ آپ ﷺ نے ایک طرح اس سے لا پروائی بھی برتی، گویا آپ ﷺ نے اپنے اس فعل کے ذریعے بھی اس دن اس کے ناجائز ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔ لہٰذا یہ حدیْث مطلق طور پر سماع و غنا اور گانے بجانے کی اباحت کی دلیل قرار نہیں دی جاسکتی۔ جیسا کہ بعض حضرات اس حدیث کے دور از حقیقت مفہوم کا سہارا لے کر سماع و غنا کے مطلقاً جواز کو ثابت کرتے ہیں۔ سماع کی حرمت و کراہت یہ تو حدیث کی وضاحت اور اس کی تشریح تھی۔ اب اصل مسئلے کی طرف آئیے اور دیکھئے کہ اس بارے میں سلف کی رائے کیا ہے۔ سماع و غنا کا مسئلہ ہمیشہ سے علماء و فقہا کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے۔ صحابہ وتابعین کی بھی اس سلسلے میں مختلف رائیں تھیں۔ لیکن جلیل القدر صحابہ اس کی حرمت و کراہت کے قائل تھے۔ چناچہ انہوں نے آیت کریمہ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ ) 31 ۔ لقمان 6) کی مراد غنا (نغمہ و سرور) بیان کی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس و حضرت عبداللہ ابن مسعود تو اس مراد کے تعین کے سلسلہ میں قسم تک کھاتے اور کہا کرتے تھے کہ یہاں غنا مراد ہے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس اور مجاہد کے نزدیک آیت کریمہ (وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْ تَ طَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ ) 17 ۔ الاسراء 64) میں شیطان کی آواز سے مراد غنا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر کے بارے میں منقول ہے کہ وہ گانے سے اور گانا سننے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد منقول ہے کہ اگر کوئی ایسا آدمی مرجائے جس کے پاس گا ئن (گانے والی عورت) ہوں تو اس کی نماز جنازہ مت پڑھو۔ حضرت ابوامامہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ گا ئن (گانے والی عورت) کی نہ تو خریدو فروخت کرو اور نہ انہیں تعلیم دو (یعنی ان سے مکمل مقاطعہ رکھو) اس ارشاد کے مثل یہ آیت کریمہ من یشتری لھو الحدیث نازل ہوئی تھی۔ چناچہ اسی وجہ سے بعض علماء فرماتے ہیں کہ جو احادیث نغمہ سرور کی اباحت پر دلالت کرتی ہیں ان کا تعلق اس ممانعت سے قبل کے زمانے سے ہے۔ جب یہ آیت شریفہ نازل ہوئی اور غنا کی ممانعت واضح ہوئی تو احادیث منسوخ قرار دے دی گئیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) یہ ارشاد منقول ہے کہ غنا نفاق کو اسی طرح اگاتا ہے جیسے پانی سبزہ کو اگاتا ہے۔ حضرت جابر سے یہ الفاظ منقول ہیں کہ جس طرح پانی کھیتی کو اگاتا ہے یوں ہی غنا نفاق کو اگاتا ہے حضرت انس (رض) سے یہ الفاظ منقول ہیں کہ غناء اور لہو و لعب دل میں نفاق کو اس طرح اگاتے ہیں جیسے پانی گھاس کو اگاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) یہ الفاظ منقول ہیں کہ غنا کی محبت دل میں نفاق کو اس طرح اگاتی ہے جیسے پانی گھاس کو اگاتا ہے ان ارشادات میں نفاق سے مراد وہ عملی نفاق ہے جو ظاہری احوال کے برخلاف گناہ کی خواہش کو پوشیدہ رکھتا ہو۔ حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں کہ غنا زنا کا منتر ہے بہر حال۔ اس سلسلے میں صحابہ اور تابعین کے اس قسم کے اور بہت سے ارشادات منقول ہیں۔ جہاں تک فقہاء کا تعلق ہے انہوں نے بھی اس کی حرمت اور کراہت کو بہت زیادہ شدت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ چناچہ چاروں اماموں کا متفقہ طور پر جو مشہور اور صحیح قول ہے وہ یہ ہے کہ غنا مکروہ ہے اگرچہ اس کی حرمت کا اطلاق بھی منقول ہے۔ چنانچہ قاضی ابولطیف نے شعبی، سفیان ثوری، حماد، نخعی اور فاکہی سے اس کا حرام ہونا نقل کیا ہے۔ علامہ بغوی نے بھی تفسیر معالم النزیل میں یہی لکھا ہے کہ چاروں ائمہ کے ہاں غنا حرام ہے۔ علامہ قرطبی نے فرمایا ہے کہ غنا کی حرمت کے بارے میں اختلاف نہیں ہے کیونکہ وہ لہو و لعب کے قبیل سے ہے جو متفقہ طور پر سب کے یہاں مذموم ہے۔ ہاں جو غنا محرمات سے محفوظ ہو وہ تھوڑا بہت شادی بیاہ، عید اور اسی قسم کی دوسری تقریبات میں جائز ہے۔ علماء کی ایک جماعت کا رجحان غنا کی اباحت کی طرف ہے۔ اس سلسلے میں اتنی بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہاں جس غنا اور نغمہ اور سرور کے بارے میں بحث کی جا رہی ہے اور جو حرمت و اباحت کا محل اختلاف ہے اور وہ اس قسم کا غنا ہے جسے گویے اور گلوکار بطور فن اور پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں چناچہ وہ صرف لوگوں کی طبیعتوں میں انتشار و ہیجان اور کیف و نشاط پیدا کرنے کے لئے ایسے اشعار گاتے ہیں جو محض محرمات کے ذکر پر مشتمل ہوتے ہیں ! ہاں وہ غنا مباح ہیں جو ایسے پاکیزہ اشعار پر مشتمل ہوں جن سے قلوب روحانی استنباط محسوس کریں اور جو محرمات و مکروہات کے ذکر پر مشتمل نہ ہوں مثلاً خدا تعالیٰ کی حمد، رسول اکرم ﷺ کی نعت، حرمین شریفین یا دوسری مقدس چیزوں کی منقبت، جہاد اور میدان جہاد کے اوصاف جیسے حدا نصب، رکبانی بچوں کو خوش کرنے یا انہیں سلانے کے لئے ماؤں بہنوں کی لوریاں، بزرگان دین کی جائز توصیف و تعریف، قطع مسافت کے لئے مسافروں کی وابستگی، خوشی و مسرت کے اظہار اور اسی قسم کے دوسرے مضامین کے حامل اشعار ترنم کے ساتھ پڑھنا یہ جائز نہیں ہے بلکہ ایک حد تک یہ مستحب ہے کیونکہ یہ نیک و بامقصد اعمال کے لئے موجب نشاط ہے۔ جو لوگ غنا کی اباحت کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ غنا اور سماع اکثر صحابہ، تابعین، محدثین اور علماء دین سے جو اصحاب زہد وتقوی ہیں، سے منقول ہے۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ غنا کی حرمت و کراہت کے سلسلے میں ائمہ یا بعض اکابر سے جو سخت الفاظ منقول ہیں وہ دراصل اس غنا پر محمول ہیں جس میں فحش مضامین یا ان سے غیر شرعی چیزوں مثلاً مزامیر وغیرہ کا ارتباط ہوتا ہو۔ یہ بات ان حضرات کی جانب سے اسی لئے کہی جاتی ہے تاکہ ائمہ اور علماء کے قول و فعل میں تطبیق ہوجائے کیونکہ ان سے بھی غنا کا سننا منقول ہے۔ پہلے زمانے کے بزرگوں اور مشائخ اور بعد کے بزرگوں اور مشائخ کے اقوال و افعال کے درمیان بھی اختلاف ہے چناچہ پہلے زمانے کے مشائخ جو راہ طریقت کے پیش رو اور راہنما ہیں اس سے اجتناب کرتے تھے مگر بعد کے بعض مشائخ سے سماع کی ابتدا ہوئی ہے اس سلسلے میں پہلے زمانے کے مشائخ کے قول و فعل کے بارے میں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت شیخ حماد و یاس جو اپنے وقت کے امام طریقت اور سلسلہ قادر یہ کے ایک جلیل القدر شیخ تھے۔ ایک مرتبہ جمعے کی نماز کے لئے جا رہے تھے۔ کہ راستے میں اچانک ان کے کان میں گانے کی آواز پہنچی فوراً رک گئے اور فرمایا کہ آج مجھ سے کون سا ایسا گناہ سرزد ہوا ہے جس کی سزا میں مجھے اس میں مبتلا کیا گیا ہے ؟ بہت دیر تک غور کرتے رہے مگر ایسی کوئی بات محسوس نہیں ہوئی جس سے یہ سمجھتے کہ فلاں گناہ ہوا ہے۔ جب گھر واپس آئے تو پھر تحقیق شروع کی۔ بہت دیر کے بعد معلوم ہوا کہ ایک تصویر دار پیالہ خرید لیا تھا۔ فرمایا یہی سبب ہے جس کی وجہ سے میں اس سزا میں گرفتار ہوا (کہ گانے کی آواز میرے کان میں پہنچی) حضرت غوث الاعظم کے قول و ارشادات دیکھنے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موصوف بھی اس کو مکروہ جانتے تھے حضرت شبلی کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ غنا جائز ہے ؟ انہوں نے پوچھا کہ کیا غنا حق ہے ؟ (یعنی اس میں غیر شرعی وغیر اخلاقی مضامین مذکور نہیں ہیں) لوگوں نے کہا کہ نہیں ! فرمایا کہ اگر وہ حق نہیں ہے تو پھر گمراہی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے اور پھر فرمایا کہ اس کے مکروہ ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ اس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ طبیعت میں انتشار، خواہشات نفسانی میں ہیجان اور عورتوں کی طرف میلان ہوتا ہے بلکہ اس میں نفس امارہ کی رعونت و خوشی عقل کی سبکی اور دنائت کا اظہار بھی ہے۔ البتہ اللہ کے ذکر اور اس کی یاد میں مشغول ہوجانا ہر اس آدمی کے لئے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا ہے سب سے بہتر ہے حضرت شیخ ابوالحسن شازلی جو سلسلہ شاذلیہ کے امام اور پیشوا ہیں فرماتے ہیں کہ جو لوگ سماع میں مشغول ہوتے ہیں اور ظالموں کے ہاں کھانا کھاتے ہیں ان میں یہودیت کا ایک حصہ شامل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ سَمَّا عُوْنَ لِلْکَذِبِ اکَّالُوْنَ لِلْسُّحْتِ حضرت امام غزلی فرماتے ہیں کہ سماع کے کئی درجے ہیں (١) نوجوانوں کے لئے حرام محض ہے کیونکہ نوجوانوں کے مزاج و طبیعت پر خواہشات نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے سماع ان کے لئے بجائے کوئی اچھا اثر مرتب کرنے کے ان کی خواہشات نفسانی میں اور زیادہ انتشار و ہیجان پیدا کرتا ہے۔ (٢) اس آدمی کے لئے مکروہ ہے جو اکثر اوقات بطریق لہو و لعب کے سماع میں مشغول رہے۔ (٣) اس آدمی کے لئے مباح ہے جو محض ترنم اور خوش گلوئی سے دلچسپی رکھتا ہے۔ (٤) اس آدمی کے لئے مندوب ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی محبت کا غلبہ ہو اور سماع اس کے لئے صرف اچھے اثرات مرتب کرے مشائخ چشتیہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ سماع سے دلچسپی رکھتے تھے مگر ان کی دلچسپی آداب و شرائط کے حدود کے اندر ہوتی تھی چناچہ وہ حضرات اکثر و بیشتر خلوت میں سماع سنتے تھے جہاں نہ تو غیر ہوتے تھے اور نہ غیر محرم۔ حضرت شیخ المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی سماع سنتے تھے لیکن ان کی مجلس سماع مزامیر و قوالی جیسی لغویات سے پاک ہوتی تھی۔ بہر حال مطلب یہ ہے کہ جو صوفیہ سماع کے قائل ہیں ان کے ہاں یہ کلیہ مقرر ہے کہ سماع صرف اہل دل کے مباح ہے۔ چناچہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ سماع کے آداب و شرائط مقرر کئے ہیں بلکہ یہ بھی بتادیا ہے کہ سماع سننے کا اہل کسے کہا جاسکتا ہے۔ اور ایسے ہی سماع کی ممانعت کے سلسلے میں فقہاء اور اکابر اولیاء اللہ کے جو الفاظ منقول ہیں ان کا تعلق اس نغمہ سرور سے ہے جس کے ساتھ غیر مشروع چیزیں مثلاً مزامیر وغیرہ کی آمیزش ہو اور جس کی بنیاد محض خواہشات نفسانی اور لہو و لعب ہو ورنہ تو فی نفسہ خوش گلوئی ممنوع نہیں ہے کیونکہ وہ مباح الاصل ہے۔ پھر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح خوش گلوئی کے اندر مفاسد ہیں اسی طرح مصالح خیر بھی ہیں مثلاً نغمہ و ترنم سخت دل کو نرم کرتا ہے اور عبادت میں ذوق و شوق اور حلاوت و خشوع پیدا کرتا ہے تاہم اس کے باوجود نغمے پر مداومت اکابر سلف کے طریقہ اتباع سے بعید ہے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جو آدمی اس پر مداومت کرے گا وہ اس کی دلچسپی کو عبادت و ریاضت پر ترجیح دینے لگے اور شیطان کا مکر و فریب اسے اس راستے سے اپنے جال میں پھنسا کر اطاعت و شریعت کی اہمیت کو اس کی نظر سے کم کر دے جس کی وجہ سے وہ غلط راستے پر بھٹکنے لگے۔ لہٰذا سماع بذاتہ تو مباح ہے لیکن غلط عوارض جیسے عورت و شراب کے ذکر، نامحرم عورتوں اور مرد کے گانے، مزامیر یعنی ڈھول وہارمونیم وغیرہ کی آمیزش، نفسانی خواہشات، سماع کی نااہلیت اور اس پر مداومت کی وجہ سے ممنوع ہے۔ چنانچہ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جو لوگ معرفت و حقیقت اور محبت و حال کے مدعی ہو کر اپنے ایک خاص جذبے کی تسکین کی خاطر سماع میں مشغول ہو کر حقیقی ذکر اللہ اور تلاوت قرآن کریم وغیرہ سے محروم رہتے ہیں وہ اپنے نفس کے دھوکے اور شیطان کے فریب میں مبتلا ہیں کہ وہ درحقیقت راہ راست سے ہٹ کر غلط راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ روز بروز دین و شریعت سے دور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی حالت یہ ہے کہ وہ دیگر عبادات میں کیا مشغول رہتے کہ ان کی نمازیں بھی بےروح ہو کر محض، نشست و برخاست کا ایک مجموعہ بن کر رہ گئی ہیں۔ اور نمازیں بھی جبراً ریاء کی وجہ سے یا اللہ کی مخلوق کی نظروں میں بظاہر اپنی دینی و مذہبی زندگی کو نمایاں کرنے کے لئے پڑھتے ہیں۔ کاش انہیں سماع سے اس قدر دلچسپی نہ ہوتی صرف وہ نماز روزے اور دیگر فرائض خلوص نیت کے ساتھ ادا کرتے تو ان کا دین تو کم سے کم بنا رہتا۔ اس سلسلے میں یہ صورت بھی ہے کہ آجکل جو لوگ سماع کے قائل ہیں ان کا مطمح نظر یہ ہے کہ فلاں بزرگ سماع سنتے تھے یا ہمارے فلاں پیشوا اس کے قائل تھے لہٰذا جب انہوں نے اسے اختیار کیا تو ہم بھی ان کی پیروی کرتے ہیں اور ان کی اتباع میں سماع کو جائز قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ بھی محض فریب نفس ہے کیونکہ اگر بزرگوں نے سماع کو اختیار کیا اور اس سے دلچسپی رکھی تو وہ ان کی حالت بےخودی اور غلبہ حال تھا، انہوں نے اگر سماع سنا ہے تو اس پر مداومت نہیں کی بلکہ کبھی کبھی مصلحت کے پیش نظر سنا ہے۔ پھر یہ کہ ان کے ہاں مجالس سماع کی یہ جلوہ نگاری نہیں تھی بلکہ انہوں نے خلوت میں اور خلوص نیت کے ساتھ سنا ہے نیز انہوں نے ضرورت قرار دے کر کوئی طریقہ مقرر نہیں کیا کہ بہر صورت اس پر عمل کیا جائے۔ پھر یہ کہ کہاں ان بزرگوں کا جذبہ حال و بےخودی اور اور اخلاص نیت اور کہاں ہمارے دور کی دنیاوی و نفسانی خواہشات اور فریب نفس ؟ اب تو ان بزرگوں کی صرف اس بات کی تقلید ہے نہ ان کے صالح افکار کی اطاعت ہے اور ان کے نیک اعمال و مقدس زندگیوں کی پیروی۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ بد نام کنندہ نکونامے چند۔ حقیقت یہ ہے کہ ان بزرگوں سے نہ تو ان لوگوں کو کوئی حقیقی نسبت ہے اور نہ ان بزرگوں کا کوئی ان سے تعلق ہے۔ اور جو لوگ ان امور کو باپ دادا کی روایت سمجھ کر بغیر اہلیت کے اختیار کئے ہوئے ہیں ان کے حال پر یہ آیت کریمہ صادق آتی ہے کہ (اِنَّهُمْ اَلْفَوْا اٰبَا ءَهُمْ ضَا لِّيْنَ 69 فَهُمْ عَلٰ ي اٰثٰرِهِمْ يُهْرَعُوْنَ 70) 37 ۔ الصفت 69) حاصل یہ ہے کہ آجکل جو یہ طریقہ رائج ہے کہ اولیاء اللہ کے مزارات پر عرس کے نام پر محض نمودو نمائش اور حب جاہ و شہرت کے جذبے سے جشن منایا جاتا ہے مجالس رقص و سرور منعقد ہوتی ہیں، قوالوں اور گویوں کی جماعت اپنی قوالی اور سازوسامان کے ساتھ بلائے اور بغیر بلائے صرف شہرت اور مال حاصل کرنے کے لئے آتی ہے۔ ماشا اللہ ! کہ پہلے زمانے کے کسی بزرگ کا یہ طریقہ رہا ہو اور کسی بزرگ نے آجکل کی طرح یہ ڈھونگ رچائے ہوں ؟ اور پھر غصب یہ کہ ان چیزوں کو مشائخ کے عرسوں میں قرب اللہ کا ذریعہ سمجھا جانے لگا ہے ایسے لوگ غور کریں کہ انہوں نے گمراہی و ضلالت کا کیسا راستہ اختیار کر رکھا ہے یہ کون سی مذہبی اور دینی زندگی ہے ؟ کاش یہ لوگ اپنے آپ کو متقی و پرہیزگار اور بزرگان دین کے شیدائی نہ کہتے اور اپنے جسم آزاد پر نام نہاد زہد وتقوی کا یہ جامہء تنگ مزین نہ کرتے۔ خوب اچھی طرح جان لیجئے کہ ایسے لوگوں کی شرعا ودیانۃ نہ تو اطاعت واجب ہے اور نہ ان کی تعظیم ضروری ہے اس لئے کہ اگر ان لوگوں کی عزت و توقیر کی جائے گی تو اس طرح ان کے ان اعمال و افعال کی تائید و مدد ہوگی۔ اللہ ہم سب کو بھی اسی راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس نے اپنے پیغمبر رسول اکرم ﷺ کے ذریعے ہمیں دکھایا ہے۔ آمین۔

【9】

رسول اللہ ﷺ عید گاہ جانے سے پہلے کھجور تناول فرماتے تھے

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھجوریں تناول فرمائے بغیر عید گاہ تشریف نہیں لے جاتے تھے اور کھجوریں طاق کھاتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح آپ ﷺ عید کے روزعید گاہ جانے سے بیشتر کھجوریں نوش فرما کر گویا کھانے میں جلدی کرتے تھے تاکہ پہلے دنوں یعنی ایام رمضان میں امتیاز پیدا ہوجائے کیونکہ جس طرح رمضان میں نہ کھانا واجب ہے اسی طرح عید کے روز کھانا واجب ہے۔ آپ ﷺ کھجوریں طاق یعنی تین، پانچ، سات یا اس سے کم اور زیادہ تناول فرماتے تھے چونکہ ہر کام میں طاق کی رعایت رکھنا بہتر ہے اس لئے آپ ﷺ اس معاملہ میں بھی طاق کا لحاظ فرماتے تھے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اِنَّ ا وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرِ یعنی اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق کو پسند فرماتا ہے۔ عید کے روز آپ ﷺ کھجوریں اس لئے نوش فرماتے تھے کہ وہی اس وقت موجود ہوتی تھیں۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ کھجوریں کھانے میں حکمت یہ تھی کہ وہ شیریں ہوتی ہے اور شیرینی تقویت بصر کا ذریعہ بنتی ہے خاص طور پر خالی معدہ کے وقت تو نگاہوں کی تقویت کے لئے یہ بڑی زود اثر ہوتی ہے لہٰذا روزوں کی وجہ سے جو ضعف ہوجاتا تھا کھجوریں اپنے اثرات سے اسے ختم کرتی تھیں۔ پھر یہ کہ شیرینی مقتضاء ایمان کے موافق ہے۔ چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ جو آدمی خواب میں شیرنی کھاتے دیکھے اسے حلاوت ایمان نصیب ہوگی۔ نیز شیرینی دل کو نرم کرتی ہے اس سبب سے شیرینی کے ساتھ افطار کرنا فضل ہے۔

【10】

رسول اللہ ﷺ عید گاہ ایک راستے سے جاتے اور دوسرے راستے سے واپس آتے

حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ جب عید کا روز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ راستوں میں فرق کرتے۔ (صحیح البخاری ) تشریح یعنی عید گاہ ایک راستے سے تشریف لے جاتے اور دوسرے راستے سے واپس آتے اور اس کی حکمت یہ تھی تاکہ دونوں راستے اور دونوں راستوں پر رہنے والے جن و انس عبادت کی گواہی دیں۔ اس کے علاوہ اور کئی وجوہ بھی علماء نے لکھی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب احتمال کے درجے میں ہیں۔ علماء نے اپنے اپنے فہم کے مطابق اس کی وجہیں بیان کی ہیں۔ اصل حقیقت اور وجہ کیا تھی ؟ یہ اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں۔