170. حشر کا بیان

【1】

حشر کا بیان

حشر کے اصل معنی ہیں جمع کرنا، اکٹھا کرنا، ہانکنا ! چناچہ قیامت کے دن کو یوم الحشر (حشر کا دن) اسی اعتبار سے کہتے ہیں کہ اس دن تمام مردے اپنی قبروں وغیرہ سے زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے اور سب کو اس جگہ پر جمع کیا جائے گا جس کو محشر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ حشر دو ہوں گے، ایک تو مذکورہ بالا معنی میں قیامت آنے کے بعد اور دوسرے حشر کا تعلق قیامت سے پہلے علامات قیامت سے ہے جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے کہ ایک آگ مشرق کی طرف سے نمودار ہوگی جو لوگوں کو گھیر کر زمین شام کی طرف لے جائے گی اور وہاں اکٹھا کر دے گی ! یہاں عنوان باب میں حشر کے پہلے معنی مراد ہیں، اگرچہ اس باب میں بعض ایسی احادیث بھی نقل ہوں گی جو بظاہر دونوں معنی کا احتمال رکھتی ہیں، اسی لئے علماء کے ان کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ بعض حضرات نے ان کو دونوں معنی پر محمول کیا ہے اور بعض نے ان کے خلاف کہا ہے اور زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ ان احادیث کا محمول پہلے ہی معنی ہیں۔

【2】

حشر کا میدان

حضرت سہل ابن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں کو ایسی سرخی مائل سفید زمین پر جمع کیا جائے گا جو ( رنگ اور گولائی کے اعتبار سے چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کے مانند ہوگی اور اس زمین پر کسی ( کے مکان و عمارت وغیرہ) کا کوئی نشان نہیں ہوگا ( بلکہ ہموار چٹیل میدان ہوگا۔ ( بخاری ومسلم )

【3】

اہل جنت کا پہلا کھانا

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ساری زمین ایک روٹی ہوگی جس کو خداوند جبار اپنے ہاتھوں سے اس طرح الٹے پلٹے گا جس طرح تم میں سے کوئی شخص سفر کے دوران الٹ پلٹ کر کے ( یعنی جلدی) روٹی پکاتا ہے اور یہ روٹی جنتیوں کی مہمانی ہوگی آنحضرت ﷺ کے یہ فرمانے کے بعد ایک یہودی آیا اور کہنے لگا کہ اے ابوالقاسم ! خدائے پاک مہربان آپ ﷺ پر برکت نازل کرے کیا میں آپ ﷺ کو بتاؤں کہ قیام کے دن جنتیوں کی مہمانی کے طور پر پہلا کھانا کیا ہوگا ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں بتاؤ ! اس یہودی نے کہا کہ ساری زمین ایک روٹی ہوگی، جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا ( یہ سن کر) آنحضرت ﷺ نے ( تعجب کے اظہار اور ہمیں یہ بتانے کے لئے کہ یہودی ٹھیک کہہ رہا ہے چاروں طرف دیکھا اور ہنس دیئے یہاں تک کہ آپ ؟ ﷺ کی کیچلیاں نظر آنے لگیں، اس کے بعد اس یہودی نے کہا کہ کیا میں آپ ﷺ کو بتاؤں کو جنیتوں کا سالن کیا ہوگا ( جس سے وہ روٹی لگا کر کھائیں گے) وہ بالام اور نون ہے صحابہ ( بالام کا مطلب نہیں سمجھ سکے تھے کیونکہ وہ عبرانی لفظ تھا اس لئے انہوں) نے کہا کہ یہ بالام کیا چیز ہوتی ہے کہا کہ ( بالام کا مطلب) بیل ہے اور نون ( کے بارے میں تم لوگ جانتے ہی ہو کہ مچھلی کو کہتے ہیں) اور ان دونوں یعنی بیل اور مچھلی کے گوشت کے اس ٹکڑے سے جو جگر کا زائد ہوتا ہے، ستر ہزار آدمی روٹی کھائیں۔ (بخاری ومسلم ) تشریح اپنے ہاتھوں سے اس طرح الٹے پلٹے گا کے ذریعہ اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح روٹی پکانے والا شخص روٹی گھڑنے والا اس کو گول ( برابر اور باریک کرنے کے لئے اس کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر پھیرتا ہے پھر توے یا گرم بھوبل پر اس کو الٹ پلٹ کر سینکتا ہے اسی طرح یہ زمین بھی الٹی پلٹی جائے گی اور اس کو روٹی بنادیا جائے گا ! واضح رہے کہ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن یہ روٹی ہوجائے گی اور جنت میں جانے والوں کا کھانا بنے گی کہ وہ جنت میں جانے کے وقت پہلے اس کو کھائیں گے پس حضرات نے حدیث کے الفاظ کو ان کے ظاہر معنی ہی پر محمول کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ بات حق تعالیٰ کی قدرت سے بعید نہیں ہے وہ اس پر قادر ہے کہ اس زمین کو روٹی بنا دے اور اہل جنت کو کھانے کے لئے دے ! لہٰذا زیادہ صحیح یہی ہے کہ حدیث کا یہی ظاہری مفہوم مراد لیا جائے اور اس بارے میں کسی شک وشبہ کو اندر آنے کا موقع نہ دیا جائے۔ ویسے کچھ حضرات نے حدیث کے ان مذکورہ الفاظ کو اس کے ظاہری معنی پر حمل نہ کرکے تاویل و توجیہ کا راستہ اختیار کیا ہے، لیکن ان کی ان تاویلات وتوجیہات کو طوالت کے خوف سے ذکر نہیں کیا جار ہا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ہماری طرف دیکھا اور ہنس دیئے اس یہودی عالم نے جو کچھ بیان کیا وہ تورات میں پڑھ کر بیان کیا تھا اور اس کی وہ باتیں گویا آنحضرت ﷺ کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرتی تھیں علاوہ ازین وہ باتیں صحابہ کرام کے یقین اور قوت ایمان میں اضافہ کا سبب بنی تھیں اس لئے آنحضرت ﷺ ان پر اظہار اطمینان کے لئے ہنسے اور اس طرح ہنسے کہ آپ ﷺ کی کیچلیاں ظاہر ہوگئیں۔ ستر ہزار آدمی سے مراد وہ بندگان خاص ہیں جو حساب ومواخذہ کے مراحل سے گزرے بغیر جنت میں جائیں گے اور جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح روشن وتابناک ہوں گے اور ہوسکتا ہے کہ ستر ہزار سے مخصوص عدد مراد نہ ہو بلکہ محض کثرت مبالغہ مراد ہو۔ زائدہ کبد ( یعنی جگر کا زائد حصہ) اصل میں جگر ہی کے اس چھوٹے ٹکڑے کو کہتے ہیں جو اسی کے ساتھ ایک جانب ہوتا ہے اس حصہ کو بہت لذیذ اور پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک احتمال یہ ہے کہ صحابہ کرام کے پوچھنے پر بالام کے جو معنی بیان کئے گئے وہ اس یہودی عالم نے نہیں بلکہ خود آنحضرت ﷺ نے بیان کئے ہوں اور یہ ہو کہ جب صحابہ اس لفظ کے معنی نہ سمجھے اور انہوں نے اس بارے میں سوال کیا تو اس سے پہلے کہ یہودی عالم جواب دیتا آنحضرت ﷺ کو بذریعہ وحی اس عبرانی لفظ کے معنی بتا دیئے گئے اور آپ ﷺ نے صحابہ کے سامنے بیان فرما دئیے۔

【4】

حشر کا ذکر

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ حشر میں لوگوں کو تین قسموں میں جمع کیا جائے گا ایک قسم کے لوگ تو وہ ہوں گے جو بہشت کے خواشمند ہیں، دوسری قسم کے لوگ وہ ہوں گے جو دوزخ سے ڈرنے والے ہیں اور ان دونوں قسموں میں سے جو لوگ سواری پر ہوں گے ان کی صورت یہ ہوگی کہ) دو ایک اونٹ پر سوار ہوں گے ٠ یعنی جس شخص کا مرتبہ جتنا زیادہ بلند ہوگا وہ اتنے ہی کم آدمیوں کے ساتھ سواری پر ہوگا اور نہایت آرام و کشادگی کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوگا اور جس کا مرتبہ جتنا ادنیٰ ہوگا وہ اتنے ہی زیادہ آدمیوں کے ساتھ سواری پر ہوگا اور تنگی کے ساتھ بیٹھا ہوگا) اور تیسری قسم باقی تمام لوگوں پر مشتمل ہوگی جن کو آگ جمع کرے گی اور وہ آگ ہر وقت ان لوگوں کے ساتھ رہے گی اور کسی وقت بھی ان سے الگ نہیں ہوگی یہاں تک کہ، جہاں وہ لوگ قیلولہ کریں گے ( یعنی استراحت کے لئے رکیں گے، آگ بھی وہیں قیلولہ کرے گی، جہاں وہ لوگ رات گزرایں گے وہیں ان کے ساتھ ہی رات گزارے گی، جہاں وہ لوگ صبح کریں گے وہیں آگ بھی ان کے ساتھ صبح کرے گی اور جہاں وہ لوگ شام کریں کے وہیں آگ بھی ان کے ساتھ شام کرے گی۔ ( بخاری ومسلم) تشریح ملا علی قاری کے مطابق تیں قسموں میں سے ایک یعنی پہلی قسم کے لوگ تو سوار ہوں گے اور باقی دونوں قسموں کے لوگ پیدل اور منہ کے بل چلنے والے ہوں گے جیسا کہ آگے دوسری فصل میں آنے والی حدیث سے واضح ہوگا ! لیکن بعض شارحین نے کہا ہے کہ پہلی دونوں قسموں کے لوگ سواریوں پر ہوں گے اور باقی تمام لوگ پیدل چلتے ہوئے آئیں گے، نیز انہوں نے کہا ہے کہ اونٹ سواریوں کی مذکورہ تعدادوں کا ذکر دراصل ان دونوں قسموں کے لوگ کے فرنی مراتب کی تفصیل کو بطور کنایہ و تمثیل بیان کرنے کے لئے ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ عالی مرتبہ ہوگا وہ اتنی ہی زیادہ راحت و سہولت اور سرعت وسبقت کے ساتھ میدان حشر میں پہنچے گا۔ پہلی دونوں قسموں کا تعلق اہل ایمان سے ہے جن میں سے ایک تو وہ لوگ ہوں گے جو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے امیدوار رہتے ہیں اور اس نے اپنے نیک بندوں کے لئے جنت اور وہاں کی نعمتوں کا جو وعدہ کیا ہے اس کا اشتیاق ان پر غالب رہتا ہے اور یہ وہ بندگان خاص ہیں جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو اس کے اشتیاق میں کی جانے والی طاعت و عبادت اس طاعت و عبادت سے افضل ہے جو اللہ تعالیٰ کے ڈر اور خوف سے کی جائے۔ چار ایک اونٹ پر اور دس ایک اونٹ پر ہوں گے۔ چار اور دس کے درمیان کے دوسرے اعداد کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ ان کو ذکر کردہ اعداد پر قیاس کر کے مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے ! اسی طرح ایک اونٹ پر ایک آدمی کا سوار ہونا ذکر نہیں کیا گیا ہے جب کہ یقینی طور پر محشر میں آنے والوں میں ایسے افراد بھی ہوں گے جو اپنے اپنے اونٹ پر تنہا ہوں گے اور ان کی سواری میں ان کا کوئی شریک نہیں ہوگا ! تو اصل بات یہ ہے کہ وہ انبیاء اور رسولوں کا مرتبہ ہے اور یہاں انبیاء اور رسولوں کے حشرکا نہیں بلکہ لوگوں کے حشر کا ذکر کرنا مقصود ہے ! ایک بات یہ بھی بتادینا ضروری ہے کہ ایک ایک اونٹ پر دو اور دو سے زائد لوگوں کے سوار ہونے کی دونوں صورتیں محتمل ہوسکتی ہیں یا تو یہ ہوگا کہ ایک اونٹ جتنے لوگوں کی سواری کے لئے متعین ہوگا وہ سب لوگ اس پر ایک ساتھ بیٹھیں گے اور یا یہ ہوگا کہ تنادب ( باری متعین کرنے) کے طور پر بیٹھیں گے، کہ ہر شخص باری باری سے سوار ہوتا رہے گا۔ اب آخر میں یہ بات جان لیجئے کہ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ یہاں حدیث میں لوگوں کو محشر میں جمع کئے جانے کا جو ذکر ہے اس کا تعلق کس وقت سے ہے ؟ بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ اس حشر کا ذکر ہے جو قیامت کے دن آخرت میں بڑا ہوگا اور ہر شخص کو دوبارہ زندہ کرکے محشر میں لایا جائے گا، جب کہ بعض دوسرے حضرات کا کہنا ہے کہ یہ آخرت کے حشر کا ذکر نہیں ہے بلکہ وہ حشر مراد ہے جو قیامت کے قریب واقع ہوگا کہ لوگوں کو تمام علاقوں سے اکٹھا کر کے ملک شام کے علاقہ میں ایک جگہ کہ جس کو محشر ہی سے تعبیر کیا گیا ہے جمع کیا جائے گا اور جس کو قیامت کی علامت میں سے کہا گیا ہے، ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ آخرت میں جو حشر ہوگا اس میں تمام لوگ پاپیادہ ہوں گے جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ آخرت میں کئی حشر ہوں گے ایک تو قبر سے نکلتے وقت اور تمام لوگوں کے دوبارہ زندہ کئے جانے کے فورا بعد اور دوسرا حشر اس کے بعد ہوگا ! اس میں بعضوں کو سواریاں ملیں گی اور بعض پیدل اور بعض منہ کے بل چل کر آئیں گے ! بہر حال زیادہ صحیح قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ آخرت کا حشر مراد ہے۔

【5】

میدان حشر میں ہر شخص ننگے بدن، ننگے پاؤں اور غیر مختون آئے گا

اور حضرت ابن عباس (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں ( قیامت کے دن) اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ تم ننگے پاؤں ننگے بدن اور بےختنہ ہوگے اس کے بعد آپ ﷺ نے (بطور دلیل واستشہاد) یہ آیت پڑھی ( كَمَا بَدَاْنَا اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُه وَعْدًا عَلَيْنَا اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ ) 21 ۔ الانبیاء 104) یعنی جس طرح ہم نے ان کو ابتداء پیدائش میں (ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بےختنہ ماں کے پیٹ سے) پیدا کیا تھا اسی طرح ان کو دوبارہ (قیامت کے دن پیدا کریں گے یعنی قبروں سے اٹھائیں گے یہ وعدہ ( کہ ہم ان کو دبارہ پیدا کریں گے) ہم پر لازم ہے اور یقینا ہم ( نے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا) کرنے والے ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ان لوگوں میں سب سے پہلے جس شخص کو لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں (پھر فرمایا) اور (اس وقت جب کہ لوگوں کو میدان حشر سے جنت اور دوزخ کی طرف لے جایا جائے گا، میں دیکھوں گا کہ) میرے کچھ صحابہ کو پکڑ کر بائیں ہاتھ کی طرف ( یعنی دوزخ کی طرف) لے جایا جارہا ہے، میں یہ دیکھ کر بطریق حیرت واستعجاب اور ان کو نجات دلانے کے لئے کہونگا کہ یہ میرے صحابی ہیں یہ میرے صحابی ہیں (ان کو کہاں لے جاتے ہو ؟ ) خداوند تعالیٰ فرمائے گا۔ (بیشک یہ تمہارے صحابی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ) جب سے تم ان سے جدا ہوئے، یہ برابر دین سے برگشتہ اور پھرے رہے (اس لئے ان کو دوزخ میں بھیجا جا رہا ہے) میں ( یہ سن کر) وہی کہوں گا جو بندہ صالح یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ وکنت علیہم شہیدا ما دمت فیہم۔ العزیز الحکیم تک یعنی جب تک میں ان کے درمیان رہا، میں ان کے احوال سے واقف رہا الخ۔ (بخاری ومسلم ) تشریح اور بےختنہ ہوں گے میں اس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے دن جب مردے اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے تو ان کے جسم وبدن کے تمام اجزاء یک جا ہو کر مل جائیں گے اور پورا جسم اسی طرح کا ہوجائے گا جیسا کہ اس دنیا میں تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ ختنہ کی وہ کھال جو کاٹ کر پھینک دی جاتی ہے اور جو اس دنیا میں ضائع کردیئے جانے کے قابل ہے جب وہ قیامت کے دن اپنی جگہ (یعنی ختنہ کے مقام پر) واپس آکر جسم کا حصہ بن جائے گی تو دوسرے اجزاء جیسے بال اور ناخن وغیرہ بطریق روئی پیدا ہوں گے اور اپنی اپنی جگہ لگ جائیں گے ! پس یہ حقیقت نہ صرف یہ کہ حق تعالیٰ کے کمال علم اور کائنات کے ایک ایک جزوکل پر اس کے محیط ہونے کی دلیل ہے بلکہ اشیاء ممکنات کے تعلق سے اس کی قدرت کاملہ کی لامتناہی وسعتوں کی بھی علامت ہے۔ سب سے پہلے جس شخص کو لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ فضیلت محض اس لئے حاصل ہوگی وہ ان لوگوں میں سب سے پہلے شخص ہیں جو فقراء اور ضروت مندوں کو کپڑے پہناتے ہیں اور ان کی ستر پوشی کرتے ہیں یا یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) وہ سب سے پہلے شخص ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بےلباس کیا گیا تھا جب کہ انہیں نمرود کی آگ میں ڈالا گیا تھا بس ان کی یہ مخصوص نوعیت کی فضیلت ہمارے پیغمبر ﷺ پر ان کی آ فضیلت کو ثابت نہیں کرتی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سب سے پہلے لباس پہنایا جانا ان کے اعزازو اکرام کے طور پر ہوگا کہ وہ آنحضرت ﷺ کے روحانی اور دینی باپ ہیں علاوہ ازیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جو اولیت حاصل ہوگی وہ حقیقی ہے یا اضافی ؟ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ اولیت حقیقی نہیں ہے بلکہ اضافی ہے یعنی ان کو آنحضرت ﷺ کے علاوہ اور تمام لوگوں میں سب سے پہلے لباس پہنایا جائے گا ! اس کی تائید اسی روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو جن کپڑوں میں دفن کیا گیا ہے آپ ﷺ قیامت کے دن انہیں کپڑوں میں اٹھ کر ( میدان حشر میں) آئیں گے نیزجامع صغیر میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے ترمذی کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ انا اول من تنشق عنہ الارض فا کسی حلۃ من حلل الجنۃ ثم اقوم عن یمین العرش لیس احد من الخلائق یقوم ذلک المقام غیری۔ ( قیامت کے دن) سب سے پہلے میں زمین سے پھٹ کر اٹھونگا اور جنت کا لباس پہنوں گا اور پھر عرش کے دائیں طرف کھڑا ہوں گا اور اس جگہ مخلوقات میں سے میرے علاوہ کسی اور کو کھڑا ہونا نصیب نہیں ہوگا۔ میں وہی کہوں گا جو بندہ صالح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا الخ یعنی جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنی قوم کی گمراہی اور بدعقیدگی وبد عملی سے اپنی برأت کا اظہار کریں گے اور اپنی گمراہ قوم کے معاملہ کو حق تعالیٰ کے عدل و انصاف پر چھوڑ دیں گے اسی طرح میں بھی یہی کہوں گا کہ پروردگار ! میری امت کے یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں میری موجودگی کے درمیان ایمان وعمل کی سیدہی راہ پر گامزن تھے اور میں ان کا نگہبان وذمہ دار تھا۔ لیکن جب میں بھی دنیا سے اٹھ گیا تو انہوں نے اپنے نفس اور شیطان کے فریب میں مبتلا ہو کر گمراہی کو اختیار کرلیا، اب ان کا معاملہ تیرا اوپر موقوف ہے تیری عادل ومنصف بار گاہ ان کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کرے وہ سراسر عادلانہ اور منصفانہ ہوگا ! آنحضرت ﷺ نے اپنی اس بات کو واضح کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تعلق سے قرآن کریم کی جو آیت پڑھی وہ پوری یوں ہے ( وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ واَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ ١١٧ اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ١١٨) 5 ۔ المائدہ 108-117) یعنی (قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ نصاری کو سنانے اور ان کو شرمندہ کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمائے گا کہ کیا تم نے اپنی قوم کو عقیدہ تثلیث یعنی تین اللہ ماننے کی تلقین و تبلیغ کی تھی تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی برأت کا اظہار کریں گے اور کہیں گے کہ میں نے تو ان کو صرف تیری بندگی کرنے کی تلقین و تبلیغ کی تھی اور) جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا ان پر مطلع رہا ( اور ان کی نگہبانی کرتا رہا کہ یہ لوگ صحیح عقیدہ عمل کی روشنی سے دور نہ جا پڑیں) لیکن جب آپ نے مجھے ( اس دنیا) سے اٹھا لیا ( اور ان کے اوپر سے میری نگہبانی ختم ہوگی تو) پھر صرف آپ ان کے احوال پر مطلع رہے اور آپ ہر چیز کی پوری واقفیت رکھتے ہیں اب اگر ( ان کی بدعقیدگی وبد عملی کے لئے) آپ ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر ان کو معاف فرما دیں تو بیشک زبردست حکمت والے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں حدیث میں صحابہ سے مراد وہ صحابہ نہیں ہیں جن کو آپ ﷺ کی زندگی میں بھی اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی آپ سے نسبت حاصل رہی اور دن کو حقیقت میں صحابہ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے بارے میں یہ یقینی طور پر معلوم ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد ان میں سے کوئی بھی صحابی مرتد نہیں ہوا اور نہ کسی نے عقیدہ وعمل کی کوئی ایسی گمراہی اختیار کی جس کی بنا پر انہیں دوزخی کہا جاسکے لہٰذا صحابہ کرام سے مراد وہ اجڈ دیہاتی ہیں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مشرف باسلام ہوگئے تھے لیکن آپ ﷺ کی وفات کے بعد مسیلمہ کذاب اور اسود وغیر کے اتباع کرنے کے سبب مرتد ہوگئے تھے۔

【6】

میدان حشر میں سب لوگ ننگے ہوں گے

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن ( میدان حشر میں) لوگوں کو ننگے پاؤں اور ننگے بدن جمع کیا جائے گا ( حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ) میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا مردو عورت سب کا یہی حال ہوگا اور وہ آپس میں ایک دوسرے کو عریاں دیکھیں گے ؟ یعنی اس طرح تو عورتیں مردوں کو اور مرد عورتوں کو ننگا دیکھیں گے تو پھر سب کو عریاں حالت میں جمع کرنے میں کیا مصلحت ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا عائشہ اس دن کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ سخت ہولناک ہوگا کہ کوئی کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھے۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن میدان حشر میں گو تمام لوگ ننگے آئیں گے لیکن ہر شخص کی عریانیت ایک دوسرے کی نگاہ سے اوجھل ہوگی اور کوئی کسی کو ننگا نہیں دیکھے گا کیونکہ اس دن کا معاملہ ہی ایسا ہوگا کہ ہر شخص اپنی اپنی فکر میں مستغرق ہوگا ہر طرف نامہ اعمال پھیلے ہونگے اور لوگ حساب ومواخذہ کے مراحل اور قیامت کی ہولنا کیوں میں اس طرح گرفتار ہونگے کہ کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوگی کہ کون کس حال میں ہے اور کسی کو کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے کا موقع نہیں ملے گا جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے۔

【7】

دوزخی منہ کے بل چل کر میدان حشر میں آئینگے

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ ﷺ قیامت کے دن کافر منہ کے بل چل کر کس طرح میدان حشر میں آئیں گے یعنی کسی کے لئے منہ کے بل چلنا کیسے ممکن ہوگا ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ جس ذات ( یعنی اللہ تعالیٰ نے اس (کافر) کو دنیا میں پاؤں کے بل چلایا وہی ذات اس کو قیامت کے دن منہ کے بل چلانے پر بھی قادر ہے۔ (بخاری ومسلم )

【8】

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کا حشر

اور حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ آذر سے اس حال میں ملیں گے کہ آذر کا چہرہ ( غم وفکر کے سبب) سیاہ ہوگا اور غبار آلود ہوگا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ( یہ دیکھ کر حسرت و افسوس کے ساتھ) کہیں گے کہ کیا (دنیا میں) تم سے یہ نہیں کہا کرتا تھا کہ ( میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بتاتا اور تعلیم دیتا ہوں اس میں میری نافرمانی نہ کیا کر ؟ ان کا باپ آذر ان سے کہے گا کہ میں آج کے دن تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا ( خدارا میری شفاعت کرو اور مجھے نجات دلاؤ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ( باپ کی یہ بات سن کر) عرض رسا ہوں گے کہ میرے پروردگار ! تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اس دن جب لوگوں کو دوبارہ زندہ کر کے) اٹھایا جائے گا ( میدان حشر میں) تو مجھ کو ذلیل ورسوا نہ کرے گا پس میرے باپ کی رسوائی وذلت سے بڑی ذلت و رسوائی میرے لئے اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ تیری رحمت سے اسقدر دور رہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ابراہیم آج کے دن تمہارے باپ کے حق میں مغفرت ونجات کی تمہاری درخواست منظور نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ کافر ہے اور ( حقیقت یہ ہے کہ میں نے جنت کو کافروں کے اوپر حرام کردیا ہے پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا جائے گا کہ نیچے دیکھو تمہارے پیروں میں کیا چیز ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ( یہ سن کر) اپنے پیروں کی طرف نگاہ کریں گے تو دیکھیں گے کہ ( ان کا باپ) آذر کفتار یعنی بجو کی شکل میں مٹی اور گوبر میں لتھڑا ہوا پڑا ہے پھر اس ( آذر) کے پاؤں پکڑ کر دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (بخاری) تشریح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ آذر کی صورت کو بجو جیسے حقیر جانور کی شکل و صورت میں اس لئے بدل دیا جائے گا تاکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل سے محبت پدری جاتی رہے اور وہ اس سے علیحدہ ہوجائیں یا اس لئے کہ ان کی سبکی نہ ہو کہ ان کا باپ دوزخ میں ڈالا گیا۔ علماء نے لکھا ہے کہ اگرچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دنیا ہی میں اپنے باپ سے بیزار ہوگئے تھے اور اس سے اپنی برأت کا اظہار کرچکے تھے لیکن جب قیامت کے دن میدان حشر میں اس کو دیکھیں گے تو بےاختیار محبت پدری ان کے دامن گیر ہوجائے گی اور وہ اس کے لئے مغفرت ونجات کی خواہش کریں گے کہ شاید ان کی درخواست و شفاعت قبول ہوجائے مگر جب ان کی دراخوست و شفاعت قبول نہیں ہوگی اور وہ اپنے باپ کو ایک حقیر شکل و صورت میں بدلا ہوا دیکھیں گے تو ناامید ہوجائیں گے اور اس سے ہمیشہ کے لئے اپنی برأت و بیزاری ظاہر کریں گے اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یقین نہیں تھا کہ ان کا باپ آذر کفر کی حالت میں مرا ہے ان کا گمان تھا کہ ممکن ہے وہ پوشیدہ طور پر ایمان لے آیا ہو اور مجھے اس کی اطلاع نہ کی ہو اور شاید وہ قیامت کے دن اپنے اسی گمان کی بناء پر اس کے حق میں شفاعت کریں گے البتہ چونکہ ظاہری طور پر وہ کفر ہی کی حالت میں تھا اس لئے انہوں نے دنیا میں ظاہری احوال کا اعتبار کرتے ہوئے اس سے اپنی برأت و بیزاری کا اظہار کیا اور پھر جب قیامت میں اس کا کفر کی حالت میں مرنا یقین کے ساتھ معلوم ہوجائے گا تو اپنے باپ سے ان کی وہ بیزاری وبرات ( جو انہوں نے ظاہر کی تھی) ہمیشہ کے لئے ہوجائے گی۔

【9】

میدان حشر میں بہنے والا پسینہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ( میدان حشر میں جب حساب کتاب کی ابتداء ہوگی اور نامہ اعمال کھلنے شروع ہوں گے تو) لوگوں کو پسینہ آئے گا اور وہ پسینہ اس قدر بہے گا کہ زمین کے اندر ستر گز تک چلا جائے گا اور ان کے لئے لگام بن جائے گا یہاں تک کہ ان کے کانوں تک پہنچ جائے گا یعنی وہ پسینہ ان کے دہنوں تک پہنچ کر لگام کی طرح ان کے منہ کو جکڑے گا کہ وہ بات چیت کرنے پر بھی قادر نہیں ہوسکیں گے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح لوگوں سے سارے لوگ مراد ہیں ان میں جنات بھی شامل ہیں کہ ان کو بطریق ادنیٰ پسینہ آئے گا اور بہے گا پس جنات کا ذکر نہ کرنا اکتفا کی قبیل سے ہے، نیز ظاہر یہ ہے کہ انبیاء اور اولیاء ان لوگوں سے مستثنی ہوں گے واضح رہے کہ پسینہ کا اتنی شدت کے ساتھ آنا اور بہنا اس سبب سے ہوگا کہ وہ وقت سخت قسم کی ہولناکی کا ہوگا، نامہ، اعمال کھلنے پر حیاوخجالت اور ندامت و ملامت کا غلبہ ہوگا سوج کی تپش اور آگ کی لپک بہت زیادہ ہوگی۔ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ لوگوں کو اتنی کثرت سے پسنہ آئے گا کہ وہ ان کے لئے لگام بن جائے گا تو اس سلسلے میں زیادہ وضاحت آنے والی حدیث سے ہوگی جس سے معلوم ہوگا کہ پسینہ کی کثرت وشدت کے مختلف احوال ہوں گے جن سے لوگ اپنے اپنے مرتبہ اعمال کے اعتبار سے دو چار ہوں گے۔

【10】

میدان حشر میں سورج بہت قریب ہوگا

اور حضرت مقداد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن ( میدان حشر میں) سورج کو مخلوق کے نزدیک کردیا جائے گا یہاں تک کہ وہ ان سے ایک میل کے فاصلہ پر رہ جائے گا پس تمام لوگ اپنے اعمال کے بقدر پسینہ میں شرابور ہوں گے چناچہ ان میں سے بعض لوگ وہ ہوں گے جن کے ٹخنوں تک پسینہ ہوگا بعض لوگ وہ ہوں گے جن کے گھٹنوں تک پسینہ ہوگا بعض لوگ وہ ہوں گے جو کمر تک پسینہ میں ڈوبے ہوں گے اور بعض لوگ وہ ہوں گے جن کے لئے ان کا پسینہ لگام بن جائے گا یعنی ان کے داہنے تک پسینہ ہوگا بلکہ دہانے کے اندر تک پہنچ جائے گا یہ فرما کر رسول کریم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اپنے دہانہ، مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔ ( مسلم ) تشریح میل عرب میں کوس ( یعنی ١٧٦٠ گز کے فاصلہ) کو بھی کہتے ہیں اور سرمہ لگانے کی سلائی کو بھی کہا جاتا ہے، پس بعض حضرات نے تو ان سے ایک میل کے فاصلہ پر رہ جانے سے ایک کوس کے بقدر فاصلہ مراد لیا ہے اور بعض حضرات نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ اس دن سورج سرمہ لگانے کی سلائی بقدر فاصلہ پر ہوگا ! بہر حال اصل مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ میدان حشر میں سورج لوگوں کے بہت نزدیک آجائے گا۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اس دن لوگوں کو جو پسینہ آئے گا وہ ان کے اعمال کے مراتب کے بقدر ہوگا، چناچہ سب سے کم پسینہ جن لوگوں کو ہوگا وہ لوگ ہوں گے جن کے اعمال بہت زیادہ اور اچھے ہوں گے اور وہ لوگ صرف ٹخنوں تک پسینہ میں شرابور ہوں گے، اسی پر دوسروں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ جس شخص کے نیک اعمال جتنے کم اور برے اعمال جتنے زیادہ ہوں گے وہ اتنا ہی زیادہ پسینہ میں غرق ہوگا۔ دو اشکال اور ان کا جواب اس حدیث کے سلسلے میں دو اشکال پیدا ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ ہے کہ اس وقت سورج ہم سے کروڑوں میل کے فاصلہ پر ہونے کے باوجود اتنی زیادہ حرارت رکھتا ہے کہ اس کی براہ رست تمازت کسی انسان کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے، تو جب میدان حشر میں سورج صرف ایک میل کے فاصلہ پر رہ جائے گا تو اس کی حرارت و تمازت نہ صرف یہ کہ قابل برداشت کیسے ہوگی بلکہ اس کی زد میں آنے والے لوگ زندہ کیسے رہیں گے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آخرت کے اجسام دنیا کے اجسام کی طرح نہیں ہوں گے اس لئے وہاں کے اجسام پر گزرنے والے احوال پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، علاوہ ازیں آخرت میں چونکہ موت نہیں ہوگی اس لئے وہاں لوگ سخت سے سخت مشقت و تکلیف اٹھالیں گے دوسرا اشکال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ پسینہ دریا کی موج کی طرح بعض لوگوں کے دہانوں تک پہنچ جائے گا تو یہ کیسے ممکن ہوگا کہ دوسرے لوگوں کے سحل تک پہنچ کر رک جائے گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ ہر شخص کے پسینہ کو اس کے اعمال کے تناسب سے روکے رکھے گی کہ کسی کا پسینہ تو اس کے دہانوں تک پہنچ جائے گا اور کوئی اپنے پسینہ میں صرف ٹخنوں تک غرق رہے گا جیسا کہ اس کا مشاہدہ اس دنیا میں بھی ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریائے نیل کی وہ موجیں جنہوں نے دوسروں کو غرقاب کردیا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے لئے ساکن وجامد ہوگئی تھیں ! علاوہ ازیں وہی بات یہاں بھی کہی جاسکتی ہے کہ آخرت کے معاملات بالکل جداگانہ نوعیت کے ہوں گے ان کو یہاں دنیا کے حالات و معاملات پر قیاس نہیں کرنا چائے، وہاں کے تمام امور عادت اور دنیاوی نظام قدرت کے بالکل خلاف انوکھے طور پر ظاہر ہوں گے، کیا ایسا نہیں ہوتا کہ ایک قبر میں دو مردے ہوتے ہیں اور دونوں پر الگ الگ حالات طاری ہوتے ہیں کہ ان میں سے ایک تو عذاب میں مبتلا رہتا ہے اور دوسرا راحت وچین کے ساتھ ہوتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے احوال سے بیخبر رہتے ہیں اور اس دنیا میں اس کی نظیر یہ ہے کہ دو شخص ایک طرح کی نیند سوتے ہیں اور وہ دونوں الگ الگ نوعیت کے خواب دیکھتے ہیں، ایک تو خواب دیکھ کر رنج وغم محسوس کرتا ہے اور دوسرا خواب دیکھ کر خوش ہوتا ہے اس کو بھی چھوڑئیے، کیا ایسا نہیں ہوتا کہ ایک ہی مکان میں دو آدمی رہتے ہیں، ان میں سے ایک تو صحت و شادمانی کی حالت میں ہوتا ہے اور دوسرا مرض و مصیبت میں مبتلا ہو کر رنج و تکلیف اٹھاتا ہے ؟

【11】

اہل جنت کی سب سے بڑی تعداد امت محمدی پر مشتمل ہوگی

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ (قیامت کے دن میدان حشر میں) اللہ تعالیٰ آواز دے گا کہ اے آدم ! آدم جواب دیں گے کہ میں حاضر ہوں تیری تابعداری کے لئے تیار ہوں ساری بھلائیاں تیرے ہی ہاتھوں میں ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا آگ والوں کے لشکر کو نکال لو یعنی ہمیں تمہاری اولاد میں سے جن لوگو کو دوزخ میں بھیجنا منظور ہے ان کو علیحدہ کرلو۔ آدم عرض کریں گے کہ دوزخیوں کے لشکر کو نکال لو یعنی ہمیں تمہاری اولاد میں سے جن لوگوں کو دوزخ میں بھیجنا منظور ہے ان کو علیحدہ کرلو۔ آدم عرض کریں گے کہ دوزخیوں کے لشکر کی تعداد ( کا تناسب) کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانویں ( یعنی دوزخیوں کا تناسب یہ ہے کہ ہر ہزار میں سے ایک آدمی جنت میں جائے گا اور باقی دوزخ میں ڈالے جائیں گے) ! یہ حکم الٰہی سن کر چھوٹی عمر والا بوڑھا ہوجائے گا اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل ضائع کر دے گی۔ اور اس وقت) تم دیکھو گے کہ لوگ گویا نشہ میں مست ہیں حالانکہ وہ ( شراب جیسے نشہ سے مست نہیں ہوں گے بلکہ عذاب الہٰی بہت سخت ہے ( یعنی لوگوں کی وہ سر مستی ومدہوشی، عذاب الٰہی کے خوف و دہشت کی بناء پر ہوگی) صحابہ کرام نے ( جب یہ سنا کہ جنت میں جائے گا) ہم میں کون ہوگا ؟ آنحضرت ﷺ نے ( ان کو سمجھانے اور تسلی دینے کے لئے) فرمایا اطمینان رکھو غم نہ کھاؤ ( جنت میں جانے والا) ایک شخص تم میں سے ہوگا اور ( دوزخ میں جانے والے ہزار شخص یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے پھر آپ ﷺ نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں امید رکھتا ہوں کہ ( اے میری امت کے لوگو) تم اہل جنت کی مجموعی تعداد میں جنت کے مستحق ہوں گے) آنحضرت ﷺ نے پھر ( اور بڑی بشارت دینے کے لئے) فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کی مجموعی تعداد کا تہائی حصہ ہونگے، ( یہ سن کر) ہم نیے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں۔ ( تم لوگوں یعنی امت محمدی ﷺ کی یہ ایک عظیم فضیلت ہے کہ جنت میں جانے والوں میں سب سے بڑی تعداد اسی امت کی ہوگی جب کہ اس دنیا میں) لوگوں کے درمیان تمہاری تعداد اتنی کم ہے جیسا کہ سفید بیل کے جسم پر ایک سیاہ تل یا ایک کالے بیل کے جسم پر ایک سفید بال ہو۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح ہر ہزار میں سے نو سوننانویں ان الفاظ کے اعتبار سے یہ روایت حضرت ابوہریرہ (رض) کی نقل کردہ اس حدیث کے مخالف ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ہر سو ننانویں لوگ دوزخی ہوں گے ؟ پس کرمانی نے اس کی تاویل یہ کی ہے کہ ان دونوں روایتوں میں کسی خاص عدد کا اعتبار نہیں ہے بلکہ اصل مقصد اہل ایمان کی تعداد کے کم ہونے اور اہل کفر کی تعداد کے زیادہ ہونے کو بیان کرنا ہے ! پس یہاں ہر ہزار میں سے نوسوننانویں کا جو تناسب بیان کیا گیا ہے وہ کافروں کے اعتبار سے ہے اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں ہر سو میں سے ننانویں جو تناسب ذکر کیا گیا ہے وہ گنہگاروں کے اعتبار سے ہے ! اور ابن حجر (رح) نے یہ لکھا ہے کہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت ابوسعید خدری (رض) کی روایت کردہ حدیث کے مفہوم کو تو حضرت آدم (علیہ السلام) کی تمام ذریت پر محمول کیا جائے ( یعنی یہاں حدیث میں اہل دوزخ کے لئے ہر ہزار میں سے نو سو ننانویں کا جو تناسب ذکر کیا گیا ہے وہ از اول تا آخر تمام انسانوں کے اعتبار سے ہے اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں اہل دوزخ کے لئے ہر سو ننانوے کا جو تناسب ذکر کیا گیا ہے اس کو یاجوج ماجوج کے علاوہ دوسرے لوگوں پر محمول کیا جائے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کا ذکر حضرت ابوسعید خدری (رض) ہی کی روایت میں ہے نہ کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں یا یہ کہ حضرت ابوسعید (رض) کی روایت کا تعلق تمام مخلوق سے ہے اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کا تعلق صرف امت محمدی ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے ! اور یا یہ کہ حضرت ابوسعید (رض) کی روایت میں اہل دوزخ کے لشکر سے مراد تمام کفار اور تمام گنہگار ہیں جب کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں اہل دوزخ کے لشکر سے مراد صرف مسلمان گنہگار ہیں ! بہرحال ان تاویلات اور توجہیات سے ان دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں رہتا۔ اور ہر حاملہ اپنا حمل ضائع کر دیگی کے بارے میں زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ بات فرض کرنے کے طور پر بیان کی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر بالفرض اس وقت کوئی چھوٹی عمر کا ہو تو وہ اس صورت حال کی ہیبت اور اس فیصلہ الٰہی کے صدمہ وخوف سے بوڑھا ہوجائے اسی طرح اس وقت اگر کوئی عورت حمل سے ہو تو مارے ہیبت کے اس کا پیٹ گرپڑے اور بعض حضرات نے یہ احتمال بیان کیا ہے کہ جو عورتیں حمل کی حالت میں مری ہوں گی وہ اپنے حمل کے ساتھ اٹھ کر میدان حشر میں آئینگی اور اس وقت وہ حکم الٰہی سن کر مارے ہیبت کے ان کا حمل گرپڑے گا اسی طرح چھوٹی عمر والے اٹھ کر میدان حشر میں آئیں گے وہ مارے ہیبت کے بوڑھے ہوجائیں گے یہ اور بات ہے کہ وہ جنت میں جاتے وقت جوان ہوجائیں گے۔ اطمینان رکھو غم نہ کھاؤ الخ کے ذریعہ حضور ﷺ نے صحابہ کرام سے خوف و خدشہ کو دور فرمایا کہ دراصل یاجوج وماجوج کی قوم کے لوگ اتنی کثرت میں ہوں گے کہ اگر تمہاری اور ان کی تعداد کا تناسب نکالا جائے تو وہ اس طرح ہوگا کہ ان میں سے تو ایک ہزار شخص اور تم میں سے صرف ایک شخص اور اس صورت حال میں بھی اہل جنت کی تعداد کچھ کم نہیں ہوگی بلکہ بہت ہوگی لہٰذا تمہیں اس خدشہ میں نہ پڑنا چاہئے کہ جنت میں جانے والوں کا تناسب دوزخ میں جانے والوں کے تناسب سے اس قدر کم ہوگا تو ہم میں سے بہت ہی کم لوگ جنت میں جائینگے ! تاہم اس بات سے یہ ضرور واضح ہوگیا کہ مجموعی طور پر دوزخ میں جانے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی اور جنت میں جانے والوں کی تعداد کم ! لیکن اگر اہل جنت میں ملائکہ اور حوروں کو بھی شامل کرلیا جائے تو شاید اہل جنت کی تعداد، اہل دوزخ کی تعداد سے زیادہ بڑھ جائے گی اور اس صورت میں حدیث قدسی غلبت رحمتی علی عضبی ( میری رحمت میرے غضب پر غالب ہوئی) کے معنی بھی صحیح ہوں گے۔ واضح رہے کہ آنحضرت ﷺ نے اہل جنت میں امت محمدی ﷺ کا جو تناسب بیان فرمایا اس کو بتدریج ذکر فرمایا یکبارگی ذکر نہیں کیا تاکہ صحابہ کرام کے دل خوشی کے مارے پھٹ نہ جائیں، یا بتدریج ذکر اس بنا پر فرمایا کہ شاید امت محمدی کے لوگ کئی مراحل میں اسی تاسب کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے یعنی پہلے مرحلہ میں جو لوگ جنت میں جائیں گے وہ اہل جنت کی مجموعی تعداد کا تہائی حصہ بنے گا یہاں تک کہ جب سب لوگ جنت میں پہنچ جائینگے تو پھر امت محمدی کے لوگ اہل جنت کی مجموعی تعداد کا آدھا حصہ ہوں گے اور یا یہ کہ اس سلسلہ میں آپ ﷺ پر متعدد بار وحی نازل ہوئی اور مذکورہ تناسب کو اسی تدریج کے ساتھ بتایا گیا، چناچہ جب بھی وحی نازل ہوتی اور اس میں جس نناسب کا ذکر ہوتا آپ ﷺ صحابہ کو بشارت دینے کے لئے اسی کو بیان فرما دیتے ! بہرحال یہ احتمالات مذکورہ تناسب کو بتدریج ذکر کرنے کے سلسلہ میں ہیں جو اصل بات ہے وہ یہ ہے کہ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امت محمدی ﷺ کے لوگ اہل جنت کی مجموعی تعداد کا نصف حصہ ہوں گے حالانکہ زیادہ صحیح بات ہے کہ جنت میں امت محمدی ﷺ کی تعداد کا دو تہائی حصہ ہوگی، چناچہ یہ ثابت ہے کہ اہل جنت کی ایک سو بیس ١٢٠ صفیں ہوں گی، جن میں سے ٨٠ (اسی) صفیں آنحضرت ﷺ کی امت پر مشتمل ہوں گی اور چالیس صفیں باقی تمام امتیوں کی ہوں گی، پس ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جب یہ حدیث ( کہ جس سے امت محمدی ﷺ کا اہل جنت کی مجموعی تعداد کا نصف حصہ ہونا معلوم ہوتا ہے) ارشاد فرمائی تھی اس وقت تک آپ ﷺ کو یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ امت محمدی ﷺ اہل جنت کی کل تعداد کا دو تہائی حصہ ہوگی ! اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ ﷺ نے نصف حصہ والی بات ابتدائی مرحلہ میں جنت میں جانے والوں کے تناسب کے اعتبار سے فرمائی ہو۔

【12】

ریا کاروں کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ۔ ( قیامت کے دن) ہمارا پروردگار اپنی پنڈلی کھولے گا پس تمام مؤمن مرد و عورت اس کو سجدہ کریں گے لیکن وہ شخص نہیں کرے گا جو دنیا میں دکھانے اور سنانے کے لئے سجدہ کرتا تھا ( یعنی اس کا سجدہ اخلاص کی بنا پر نہیں بلکہ ازراہ نفاق اور دنیاوی منفعت وشہرت حاصل کرنے کے لئے ہوتا تھا) گو وہ سجدہ کرنا چاہے گا مگر اس کی پشت ( جھکنے کے وقت مڑ نہ سکنے والی) ایک بےجوڑ ہڈی بن جائے گی جس کی وجہ سے وہ سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہوسکے گا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے، کشف ساق یعنی پنڈلی کھولنا، دراصل عربی کا ایک محاورہ ہے جس کے ذریعہ غم وفکر اور کسی معاملہ کی شدت و سختی کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے اور اس کی ظاہری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایسے وقت میں صاحب معاملہ اپنا دامن یا اپنا پائجامہ وتہبند کا کنارہ پنڈلی پر سے اٹھا لیتا ہے پس اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا کی مراد یہ لی جائے کہ پروردگار اپنے بندوں کے سامنے ایسی صورت حال کو ظاہر کرے گا جس سے وہ سخت رنج وغم اور فکر و خدشہ میں پڑجائیں گے ویسے بعض حضرات اس جملہ کی تاویل نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ جس طرح اور بہت متشابہات ہیں اور ان کا حکم یہ ہے کہ ان کی حقیقی مراد و مفہوم کے پیچھے نہ پڑا جائے بلکہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ ان کا حقیقی مطلب اللہ کے علم میں ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کا اپنی پنڈلی کھولنا بھی ایک ایسی بات ہے جس کی حقیقی مراد بس اللہ ہی کے علم میں ہے ہمیں اس کی جستجو میں نہیں پڑنا چاہئے راہ احتیاط یہی ہے۔ پس تمام مؤمن مرد و عورت اس کو سجدہ کریں گے کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تمام اہل ایمان صورت حال کی شدت و سختی سے بےتاب ہو کر بارگاہ حق میں سجدہ ریز ہوجائیں گے تاکہ اس قربت کے ذریعہ اس وقت کی شدت و سختی سے نجات کے طلب گار ہوں نیز مؤمن مرد و عورت سے مراد مخلص مؤمن ہیں ! اور بعض ضعیف روایتوں میں آیا ہے کہ ایک نور عظیم ظاہر ہوگا جس کو دیکھ کر لوگ سجدہ میں گرپڑیں گے۔

【13】

دنیا میں اترنے والوں کی قیامت کے دن حیثیت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ( میدان حشر میں) جاہ ومال کے اعتبار سے) ایک بڑا اور خوب موٹا تازہ شخص آئے گا لیکن اللہ کے نزدیک وہ مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت اور کوئی قدر ومنزلت نہیں رکھتا ہوگا اور ( اے مؤمنین) تم یہ آیت پڑھا کرو ( تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ وہ دنیا دار جو اپنی دنیاوی حیثیت و وقعت پر نازاں اور مغرور ہیں اور اپنے کردار وعمل کو اچھا سمجھتے ہیں حقیقت کے اعتبار سے وہ بےحیثیت ہیں اور ان کے تمام اعمال و کردار ضائع ونابود ہوجانے والے ہیں اور وہ آیت یہ ہے کہ (فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا) 18 ۔ الکہف 105) قیامت کے دن ہم ان کو کوئی قدرومنزلت نہیں دیں گے۔ اس روایت کو بخاری ومسلم نے نقل کیا ہے۔

【14】

قیامت کے دن زمین ہر شخص کے عمل کی گواہ بنے گی

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (يَوْمَى ِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَا) 99 ۔ الزلزلہ 4) ۔ ( جس روز کہ زمین اپنی خبریں سنائے گی اور فرمایا کہ جانتے ہو ( قیامت کے دن) زمین کی خبریں ( جو وہ سنائے گی، کیا ہوں گی ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا زمین کی خبریں یہ ہوں گی کہ وہ ( زمین) ہر بندے اور ہر لونڈی یعنی ہر مرد و عورت کے ہر اس عمل کی گواہی دے گی جو اس نے اس کی پشت پر کیا ہوگا ( یعنی فلاں شخص نے فلاں وقت فلاں نیک کام کیا ہے اور فلاں وقت فلاں برا کام کیا ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا۔ بس یہی ( گواہی دینا) زمین کی خبریں ہیں اس روایت کو احمد ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

【15】

ہر مرنے والا پیشمان ہوتا ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو مرے اور پشیمان نہ ہو ( یعنی ہر مرنے والا بہر صورت پشیمان ہوتا ہے، پس قبل اس کے کہ موت آئے، اپنی زندگی کو غنیمت جانو اور مرنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ اچھے کام کرلو) صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ندامت و پیشمانی کا سبب کیا ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگر وہ ( مرنے والا) نیکو کار ہوتا ہے تو اس لئے پشیمان ہوتا ہے کہ اس نے زیادہ سے زیادہ نیکی کیوں نہیں کی اور اگر وہ بدکار ہوتا ہے تو اس لئے پشیمان ہوتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو برائی سے کیوں نہیں روکا۔ ( ترمذی)

【16】

میدان حشر میں لوگ تین طرح آئیں گے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میدان حشر میں لوگوں کو تین طرح سے لایا جائے گا ایک قسم کے لوگ تو وہ ہوں گے جو پیدل چل کر آئیں گے، ایک قسم کے لوگ وہ ہوں گے جو سواریوں پر آئیں گے اور ایک قسم کے لوگ وہ ہوں گے جو منہ کے بل چلتے ہوئے آئیں کے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ( پاؤں کے بل چلنے کی عادت کے بالکل خلاف) لوگ منہ کے بل چل کر کس طرح آئیں گے ؟ فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس ذات نے ان کو پاؤں کے بل چلایا ہے وہ ان کو منہ کے بل چلانے پر بھی قادر ہے اور جان لو کہ وہ لوگ منہ کے بل چلنے میں اپنے منہ کو بلندی اور کانٹوں سے بچائیں گے۔ ( ترمذی) تشریح پہلی قسم کے لوگ وہ اہل ایمان ہوں گے جن کے ذخیرہ اعمال میں نیک اور برے دونوں طرح کے عمل ہیں اور وہ خوف ورجاء کے درمیان تردد کی حالت میں رہتے ہوئے حق تعالیٰ کی رحمت کے امیداوار ہیں دوسری قسم کے لوگ وہ کامل الایمان ہوں گے جو نیک اعمال میں سبقت وپیش قدمی اختیار کرتے ہیں اور تیسری قسم اہل کفر وشرک پر مشتمل ہوگی۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں انسان اپنے پاؤں کے بل چلتا ہے تو وہ راستہ کی روکاٹوں اور ایذاء پہنچانے والی چیزوں سے ہاتھ اور پاؤں کے ذریعہ بچتا ہے اسی طرح وہ تیسری قسم کے لوگ) قیامت کے دن جب منہ کے بل چل کر آئیں گے تو ان کے منہ وہی انجام دیں گے جو ہاتھ پاؤں انجام دیتے ہیں اور بغیر کسی فرق کے اپنے منہ کے ذریعہ راستہ نشیب و فراز، کانٹوں اور دوسری ایذاء پہنچانے والی چیزوں سے اپنا بچاؤ کریں گے اور اس دن ان کو منہ کے بل چلانا اس امر کا اعلان ہوگا کہ ان لوگوں نے چونکہ دنیا میں سجدہ اطاعت نہیں کیا اور اللہ کی فرمانبرداری میں اپنی گردن کو نہیں جھکایا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو منہ کے بل چلا کر ذلیل و خوار کیا ہے۔

【17】

اگر اسی دنیا میں قیامت کے دن کے احوال دیکھنا چاہتے ہو

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص قیامت کے دن ( کے احوال) کو اس طرح دیکھنا پسند کرتا ہو جیسے وہ ( ظاہری) آنکھوں سے دیکھ رہا ہو تو اس کو چاہئے کہ سورت اذ الشمس کورت، سورت اذا لسماء انفطرت اور اذالسماء انشقت پڑھے، احمد تشریح ان سورتوں میں قیامت کے احوال کا تفصیلی ذکر ہے، پس پڑھنے والا اگر ان سورتوں کو حضور قلب کے ساتھ پڑھے اور ان کے معانی میں غور فکر کرے تو یہ سورتیں قیامت کے احوال کو اس طرح مستحضر کردیتی ہیں کہ گویا وہ احوال ظاہری آنکھوں کے سامنے پیش آرہے ہیں۔

【18】

لوگوں کو میدان حشر میں کس طرح لایا جائے گا

حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ صادق مصدوق ﷺ نے مجھ سے بیان فرمایا کہ لوگوں کو تین گروہوں میں میدان حشر میں لایا جائے گا، ایک گروہ تو سواریوں پر ہوں گے اور زادراہ کی آسانیوں وسہولتوں کے ساتھ راحت و اطمینان سے آئیں گے، ایک گروہ وہ ہوگا جس کو فرشتے زمین پر منہ کے بل کھینچتے ہوئے لائیں گے اور ہانک کر دوزخ کی طرف لے جائین گے اور ایک گروہ وہ ہوگا جو دوڑتے ہوئے آئے گا ( یعنی وہ لوگ سہولت و اطمینان کے ساتھ نہیں بلکہ بےاطمینانی اور پریشانی کے ساتھ چلتے ہوئے آئیں گے) اور اللہ تعالیٰ ( سواری کے جانوروں کی) پیٹھ پر آفت و ہلاکت مسلط کر دے گا جس کی وجہ سے سواری کے جانور نایاب ہوجائیں گے یہاں تک کہ اگر کسی شخص کے پاس باغ ہوگا تو وہ باغ دیکر اس کے بدلہ میں ایک اونٹ لینا چاہے گا لیکن وہ ( اس قدر اونچی قیمت ادا کرنے کے باوجود) اس اونٹ کو حاصل نہیں کرسکے گا۔ ( نسائی ) تشریح پہلا گروہ ان کامل مؤمنین پر مشتمل ہوگا۔ جنہوں نے اس دنیا میں نیکی و بھلائی کے کاموں میں سبقت اختیار کی ہوگی، دوسرا گروہ کفار و مشرکین پر مشتمل ہوگا اور تیسرا گروہ ان مسلمانوں پر مشتمل ہوگا جنہوں نے گناہ کئے ہوں گے۔ واضح رہے کہ حدیث کا سیاق اور اس حدیث کو اس باب میں ذکر کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ یہاں جس حشر کا ذکر کیا گیا ہے وہ وہی حشر) ہے جو قیامت کے دن بپا ہوگا اور لوگ دوبارہ زندہ ہو کر محشر میں آئیں گے ! لیکن حدیث کے آخری الفاظ اور اللہ تعالیٰ پیٹھ پر آفت و ہلاکت تسلط کر دے گا الخ سے یہ بات صراحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ وہ حشر مراد نہیں ہے، جو قیامت کو بپا ہوگا، اسی طرح ( کھانے پینے والوں) کے الفاظ بھی اسی بات کی تائید کرتے ہیں، چناچہ بعض حضرات نے کہا ہے، کہ یہاں مذکورہ حشر سے قیامت کے دن کا حشر مراد نہیں ہے بلکہ وہ حشرع مراد ہے جس کو قیامت کی علامت میں سے ذکر کیا گیا ہے، اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس حدیث کو یہاں باب الحشر میں نقل کرنا اس طراوی ہے اس کے برخلاف ملاعلی قاری نے علامہ تورپشتی کا قول نقل کرکے، جس میں انہوں نے آیات قرآنی اور احادیث سے استدلال کیا ہے، اس بات کو ترجیح دی ہے کہ یہ وہی حشر ہے جو قیامت کے دن ہوگا، نیز انہوں نے لکھا ہے کہ خطابی نے جو یہ کہا ہے کہ قیامت سے پہلے کا حشر مراد ہے، تو ان کا یہ قول خطاء پر محمول ہے، صحیح قول تور پشتی ہی کا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث میں حشر کی مراد کے تعین کے سلسلہ میں یہ جو ساری بحث اٹھ کھڑی ہوئی ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ حضرت ابوذر نے اس حدیث کو جس طرح روایت کیا ہے اس میں خلط ملط ہوگیا ہے لہٰذا بنیادی طور پر ضروری یہ ہے کہ اس خلط ملط کو دور کیا جائے اور وہ یوں کہ کہا جائے کہ اس حدیث میں دو مختلف حدیثوں کے الگ الگ اجزاء مل گئے ہیں جس سے مفہوم میں تضاد پیدا ہوگیا ہے اور یہ راوی کا تسامح ہے اس صورت میں کوئی خلجان اشکال باقی نہیں رہے گا۔