171. حساب قصاص اور میزان کا بیان

【1】

حساب، قصاص اور میزان کا بیان

حساب کے معنی ہیں گننا، شمار کرنا ! اور یہاں سے مراد ہے قیامت کے دن بندوں کے اعمال و کردار کو گننا اور ان کا حساب کرنا ! واضح رہے کہ حق تعالیٰ کی علیم وخبیر ذات کو سب کچھ معلوم ہے اور بندہ اس دنیا میں جو بھی عمل کرتا ہے وہ اس پر روشن وعیاں ہے لیکن قیامت کے دن بندوں کے اعمال و کردار کا حساب اس لئے ہوگا تاکہ ان پر حجت قائم ہو اور تمام مخلوق پر روشن ہوجائے کہ دنیا میں کس نے کیا کیا ہے اور کون کس درجہ کا آدمی ہے ! پس قیامت کے دن کا یہ حساب قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہے اور اس کا عقیدہ رکھنا واجب ہے۔ قصاص کے معنی بدلہ ومکافات کے ہیں یعنی جس شخص نے جیسا کیا ہے اس کے ساتھ ویسا ہی کرنا ! مثلا اگر کسی شخص نے کسی شخص کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلہ میں اس کو بھی قتل کرنا اور اگر کسی شخص نے کسی شخص کو زخمی کیا ہے تو اس کے بدلہ میں اس کو بھی زخمی کرنا قصاص کہلاتا ہے قیامت کے دن، جان کا بدلہ جان، زخم اور تکلیف ہوگا اور دنیا میں جس نے جس کے ساتھ جو کچھ بھی کیا ہوگا کہ خواہ اس کو آزردہ کیا ہو اور خواہ کوئی بھی جسمانی اور روحانی اذیت پہنچائی ہو اور وہ چیونٹی یا مکھی ہی کیوں نہ ہو، تو قیامت کے دن اس سے اس کا بدلہ لیا جائے گا اگرچہ وہ مکلف نہ ہو چناچہ تمام حیوانات کو بھی قیامت کے دن اسی لئے اٹھایا جائے گا تاکہ ان کو بھی ایک دوسرے کا بدلہ دلوایا جاسکے مثلا اگر کسی سینگ والی بکری نے کسی بےسینگ بکری کو مارا ہوگا تو اس دن اس کو قصاص یعنی بدلہ دینا ہوگا۔ میزان اس چیز سے تعبیر ہے جس کے ذریعہ بندوں کے اعمال کی مقدار و حیثیت جانی جاسکے اور جمہور علماء کا قول ہے کہ وہ چیز میزان یعنی ترازو ہی کی شکل میں ہوگی جس کے دو پلے ہوں گے اور ایک زبان ہوگی اور دونوں پلوں کے درمیان مشرق ومغرب جیسا فاصلہ ہوگا اس میزان کے ذریعہ بندوں کے اعمال تو لے جائیں گے یعنی ایک پلے میں نیکیوں کے اعمال نامے اور دوسرے پلے میں برائیوں کے اعمال نامے رکھے جائیں گے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ حسنات یعنی نیک اعمال کو اچھی صورتوں میں اور سیأت یعنی برے عمل کو بری صورتوں میں ڈھال دیا جائے گا اور ان دونوں کو تولا جائے گا لیکن بعض روایتوں میں پہلا قول ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں جو نصوص ہیں ان کا ظاہری مفہوم اسی پر دلالت کرتا ہے۔

【2】

آسان حساب اور سخت حساب ؟

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن جس سے حساب لیا جائے گا وہ تباہ ہوجائے گا ( یعنی جو بھی شخص سخت حساب اور دار وگیر سے دوچار ہوگا اس کا بچ نکلنا ممکن نہیں ہوگا نیز یہاں تباہ ہونے سے مراد عذاب میں مبتلا ہونا ہے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ ( جب میں نے یہ آپ ﷺ کا اشاد ایک کلیہ کے طور پر سنا تو میرے ذہن میں اشکال پیدا ہوا اور اسی اشکال کو دور کرنے کے لئے) میں نے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اہل نجات کے حق میں یہ نہیں فرمایا کہ ( فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا) 84 ۔ الانشقاق 8) یعنی ( جس شخص کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا پس قریب ہوگا کہ اس کا حساب آسان ہو ( اور جب حساب آسان ہوگا او اس کے تباہ ہونے کے کیا معنی ہوں گے ؟ ) آپ ﷺ نے ( میرے اس اشکال کو دور کرنے کے لئے) فرمایا۔ یہ آسان حساب صرف پیش کرنا اور بیان محض ہے لیکن جس سے حساب میں مناقشہ کیا جائے گا ( یعنی جس کو سخت باز پرس اور داروگیر سے گزرنا پڑے گا) اور وہ یقینا تباہ ہوگا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح آسان حساب صرف پیش کرنا اور بیان محض ہے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن شریف میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ پس قریب ہوگا کہ اس کا حساب آسان ہو۔ تو آسان حساب ہونے سے مراد ہے کہ اس کے اچھے اور برے اعمال اس کو بتلا دیئے جائیں گے مثلا اس سے کہا جائے گا کہ تو نے یہ کیا ہے، وہ کیا ہے اور برے اعمال پر مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جس شخص کے حساب میں داروگیر اور باز پرس کا دخل ہوجائے گا، اس سے ایک ایک چیز اور ہر چھوٹے بڑے عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اس پر محاسبہ ومواخذہ کی سخت کاروائی نافذ کی جائے گی تو اس شخص کا عذاب سے بچنا ممکن نہیں ہوگا پس وہ تباہ ہوجائے گا اور حقیقت میں حساب یہی ہے۔ اس بات کو ایک دوسرے نقطہ نظر سے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ حضور ﷺ نے مذکورہ بالا حدیث میں جو کچھ فرمایا ہے وہ اس کلیہ کو ظاہر کرتا ہے کہ جو بھی شخص حساب کے مرحلہ سے گزرے گا وہ یقینا عذاب میں مبتلا ہوگا لیکن قرآن کی مذکورہ آیت میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حساب کے مرحلہ سے گزرنے والوں میں سے بعض لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا اس سے گویا قرآن کی آیت اور حضور ﷺ کے مذکورہ بالا ارشاد گرامی میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے ؟ لہذا اس ظاہری تضاد کو رفع کرنے کے لئے خود حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس آیت کریمہ میں حساب سے مراد صرف عرض ہے یعنی ان لوگوں کے سامنے ( کہ جن کو نجات یافتہ قرار دینا مقصود ہوگا ان کے اعمال کی فہرست کھول کر رکھ دی جائے گی، چناچہ انہوں نے جو برے اعمال کئے ہوں گے وہ ان کا اعتراف و اقرار کریں گے اور حق تعالیٰ اپنا فضل و کرم ظاہر کرتے ہوئے ان کے ساتھ درگزر کا معاملہ فرمائے گا اس کے برخلاف حدیث میں حساب سے مراد واقعی محاسبہ ومواخذہ اور داروگیر ہے جس کو حساب میں مناقشہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس محاسبہ وداروگیر کی بنیاد اظہار عدل ہوگا۔ بزار وغیرہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص نے یہ تین اچھی باتیں ہوں گی اس سے اللہ تعالیٰ آسان حساب لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرے گا ( اور وہ تین اچھی باتیں یہ ہیں کہ تم اس شخص کو ( اخلاقی جسمانی اور مالی مدد پہنچاؤ جو تمہیں اپنی مدد سے محروم رکھے تم اس شخص کے ساتھ درگزر کا معاملہ کرو جو تمہارے اوپر ظلم کرے اور تم اس شخص کے ساتھ حسن سلوک کرو جو تمہارا مقاطعہ کرے۔

【3】

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بلا کسی واسطہ کے ہر شخص سے ہمکلام ہوگا

اور حضرت عدی ابن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن) تم میں سے کوئی شخص ایسا نہ ہوگا جس سے اس کا پروردگار ( کسی رابطہ کے بغیر) ہم کلام نہ ہوگا، اس وقت اس کے پروردگار کے درمیان نہ کوئی ترجمان ہوگا ( کہ جو ہر ایک کو دوسرے کا مفہوم سمجھائے) اور نہ کوئی حجاب ہوگا ( کہ جو بندے کو اس کے پروردگار کے سے چھپائے) جب بندہ اپنی داہنی طرف نظر ڈالے گا تو اس کو وہ چیز نظر آئے گی جو اس نے آگے بھیجی ہوگی ( یعنی نیک اعمال جو ظاہری صورتوں میں نمایاں ہوں گے یا ان اعمال کی جزاء و انعامات) اور جب بائیں جانب دیکھے گا تو اس کو وہ چیز نظر آئے گی جو اس نے آگے بھیجی ہوگی یعنی برے اعمال اور جب وہ اپنے آگے دیکھے گا تو اس کو اپنے منہ کے سامنے آگ نظر آئے گی، پس ( اے لوگو) تم آگ سے بچو اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی سے کیوں نہ ہو۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح جب بندہ اپنی داہنی طرف نظر ڈالے گا الخ یعنی یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی سخت صورت حال سے دوچار ہوتا ہے اور کسی مشکل میں پڑجاتا ہے تو دائیں بائیں دیکھنے لگتا ہے، پس اس وقت چونکہ ہر بندے کے لئے ایک سخت ترین مرحلہ درپیش ہوگا اس لئے وہ دائیں بائیں دیکھے گا اور دائیں طرف اس کو وہ نیک اعمال نظر آئیں گے جو اس نے دنیا میں کئے ہوں گے اور بائیں طرف اس کے برے اعمال دکھائی دیں گے اور سامنے کی طرف آگ نظر آئے گی، لہذا اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ وہ اس وقت اپنے نیک اعمال کی طرف دیکھ کر اطمینان و سکون حاصل کرے اور سامنے کی طرف نظر آنے والی آگ سے نجات پائے تو اس کو چاہئے کہ اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کرے اور برے اعمال سے اجتناب کرکے اپنے آپ کو اس آگ سے بچانے کی راہ نکالے۔ اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی سے کیوں نہ ہو اس جملہ کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ اپنے آپ کو دوزخ کی آگ میں جانے سے بچاؤ اور کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو اگرچہ وہ ظلم و زیادتی کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کی صورت میں یا اس کے برابر کیوں نہ ہو ! دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر دوزخ کی آگ سے بچنا چاہتے ہو تو ضرورت مندوں اور محتاج لوگوں کی مدد واعانت اور اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرو اگرچہ تم صرف کھجور کا ایک ٹکڑا ہی خرچ کرنے کی استطاعت کیوں نہ رکھتے ہو اس لئے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا یعنی صدقہ و خیرات تمہارے اور آگ کے درمیان پردہ بنے گا۔

【4】

قیامت کے دن مؤمن پر رحمت خداوندی

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ( قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ مؤمن کو اپنے ( فضل و کرم اور اپنی رحمت کے) قریب کرے گا اور ( پھر) اس کو اپنی حفاظت اور اپنی عنایت کے سائے میں چھپائے گا تاکہ وہ اہل محشر پر اپنے گناہوں اور اپنی بداعمالیوں کے کھل جانے کی وجہ سے شرمندہ اور رسوا نہ ہو) پھر اللہ تعالیٰ اس ( مؤمن) سے پوچھے گا کہ کیا تو اس گناہ کو جانتا ہے، کیا تو اس گناہ کو جانتا ہے، یعنی کیا تجھے یاد اور اعتراف ہے کہ تو نے دنیا میں فلاں فلاں گناہ کئے تھے ؟ وہ ( مؤمن) عرض کرے گا کہ ہاں اے پروردگار ( مجھے اپنا وہ گناہ یاد ہے اور اپنی بدعملی کا اعتراف کرتا ہوں غرضیکہ اللہ تعالیٰ اس ( مؤمن) سے اس کے تمام گناہوں کا اعتراف و اقرار کرائے گا اور وہ ( مؤمن) اپنے دل میں کہتا ہوگا کہ ( ان گناہوں کی پاداش) میں اب ہلاک ہوا، اب تباہ ہوا ! لیکن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے ان گناہوں اور ان عیوب کی پردہ پوشی کی اور آج بھی میں تیرے ان گناہوں کو بخش دوں گا پس اس ( مؤمن) کو اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ دے دیدیا جائے گا ( اور برائیوں کا اعمالنامہ کالعدم کردیا جائے گا) اور جہاں تک کافروں اور منافق لوگوں کا تعلق ہے تو ان کو تمام مخلوق کے سامنے طلب کیا جائے گا اور پکار کر کہا جائے کا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ( کفر وشرک کے ذریعہ) اپنے رب پر بہتان باندھا تھا، جان لو ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔ ( بخاری ومسلم) تشریح مؤمن کا لفظ یا تو بطور نکرہ ہے کہ غیر متعین طور پر کسی بھی مؤمن کے بارے میں یہ بشارت دی گئی ہے اور یہ بھی بعید نہیں ہے مؤمن سے جنس مؤمن مراد ہو یعنی تمام مؤمنوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کا یہی معاملہ فرمائے گا ! اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہ بشارت ان مؤمن بندوں کے حق میں ہے جو اس دنیا میں کسی کی غیبت نہیں کرتے، کسی پر عیب نہیں لگاتے کسی کو ذلیل ورسوا نہیں کرتے، کسی مسلمان کی فضحیت سے خوش نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور لوگوں میں کسی کی آبروریزی کا باعث نہیں بنتے ! پس اللہ تعالیٰ ان کے اوصاف کی جزا کے طور پر قیامت کے دن ان کی پردہ پوشی فرمائے گا اور ان کو اپنی حفاظت ورحمت کے سایہ میں چھپائے گا۔

【5】

مسلمانوں کے دشمن ان کے لئے دوزخ سے نجات کا عوضانہ ہوں گے

اور حضرت ابوموسی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب قیامت کا دن آئے گا ( اور لوگوں کی ابدی نجات و عذاب کا فیصلہ سنایا جائے گا) تو اس وقت اللہ تعالیٰ ہر مسلمان ( مرد اور عورت) کو ایک یہودی یا ایک نصرانی کے حوالہ کر دے گا اور فرمائے گا کہ یہ شخص دوزخ سے تیری چھڑائی ہے یعنی دوزخ کی آگ سے تیری نجات کا سبب ہے۔ ( مسلم ) تشریح فکک کے معنی ہیں گروی رکھی ہوئی چیز کو چھپانا ! اور اسی سے فکاک ( ف کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں وہ چیز جس کے ذریعہ گروی رکھی ہوئی چیز کو چھڑایا جائے ! پس یہ شخص تیرا فکاک یعنی تیری چھڑائی ہے کا مطلب یہ ہوا کہ گویا مسلمان دوزخ کی آگ میں گروی ہے اور قیامت کے دن اس یہودی یا نصرانی کو اس ( مسلمان) کے بدلہ میں آگ میں بھیج کر اس کو اس آگ سے چھڑایا جائے گا اب اس بات کی تاویل یوں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مکلف کے لئے، کہ خواہ کافر ہو یا مؤمن جنت اور دوزخ میں ایک ایک جگہ مقرر کر رکھی ہے، لہذا جو شخص ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا اس کی وہ جگہ کہ جو دوزخ میں تھی اس شخص کی جگہ کے ساتھ کہ جو جنت میں ہے بدل دی جائے گی اور جو شخص ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت نہیں ہوا اس کا معاملہ اس کے برعکس ہوگا، پس اس اعتبار سے یہ کافر لوگ گویا دوزخ کی آگ سے مؤمنوں کی نجات کا سبب ہوں گے اس سے واضح ہوا کہ مذکورہ بالا جملہ کی یہ مراد قطعا نہیں ہے کہ کافروں کو مؤمنوں کے گناہوں کے بدلہ میں دوزخ کے سپرد کیا جائے گا کیونکہ حق تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ کردیا ہے کہ ولا تزروازرۃ وزراخری واضح رہے کہ یہودی و نصاری کی تخصیص محض علامتی ہے یعنی یہاں اصلی مراد تو کافر ہیں اور یہود و نصاری کا ذکر صرف اس بنا پر ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کی عداوت و دشمنی زیادہ مشہور ہے۔

【6】

قیامت کے دن امت محمد ﷺ حضرت نوح کی گواہ بنے گی

اور حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت کے دن ( میدان حشر میں) حضرت نوح (علیہ السلام) کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے ( اپنی امت تک اللہ تعالیٰ کے احکام وہدایت) پہنچائے تھے ؟ وہ عرض کریں گے کہ بیشک اے میرے پروردگار میں نے تیرے احکام دین و ہدایت اپنی امت کے لوگوں تک پہنچائے تھے) پھر حضرت نوح (علیہ السلام) کی امت ( کے ان لوگوں سے کہ جن تک حضرت نوح نے اللہ تعالیٰ کے احکام دین و ہدایت پہنچائے تھے) پوچھا جائے گا کہ کیا ( نوح (علیہ السلام) نے) تم تک ہمارے احکام پہنچائے تھے ؟ وہ لوگ انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی بھی ڈرانے والا ( خواہ وہ نوح ہوں یا اور کوئی نبی) نہیں آیا تھا اور پھر حضرت نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے گواہ کون ہیں ؟ یعنی اگرچہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہوگا کہ نوح نے جو کچھ کہا ہے بالکل درست کہا ہے لیکن ان کی منکر امت کو قائل کرنے کے لئے حضرت نوح (علیہ السلام) سے ان کے اس دعوے پر گواہ طلب کرے گا کہ انہوں نے منصب تبلیغ و رسالت کی ذمہ داریوں کو پورا کیا تھا) چناچہ حضرت نوح کہیں گے کہ میرے گواہ حضرت محمد ﷺ اور ان کی امت کے لوگ ہیں اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے ( صحابہ سے) فرمایا کہ تب تمہیں پیش کیا جائے گا اور تم یہ گواہی دو گے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے امت کو احکام الٰہی پہنچائے تھے پھر رسول کریم ﷺ نے ( اس صورت واقعہ کی تصدیق وتثویب کے لئے یہ آیت پڑھی ( جس میں حق تعالیٰ امت محمد ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے) کہ۔ (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَا ءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُ وْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا) 2 ۔ البقرۃ 143) اور اسی لئے ہم نے ( اے مسلمانوں) تمہیں نیک و عادل اور افضل امت بنایا ہے تاکہ تم ان لوگوں گے بارے میں ( کہ جو تم سے پہلے گزرے ہیں اور کفر وشرک پر قائم رہے ہیں) گواہی دو اور تمہارے گواہ پیغمبر ﷺ ہوں گے۔ اس روایت کو بخاری نے نقل کیا ہے۔ تشریح حضرت نوح (علیہ السلام) کا یہ کہنا کہ بیشک اے پروردگار ! میں نے تیرے احکام اپنی امت کے لوگوں تک پہنچائے تھے، قرآن کریم کی اس آیت کے منافی نہیں ہے جس میں یوں ہے کہ۔ یوم ( يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَا اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ) 5 ۔ المائدہ 109) اس دن ( میدان حشر میں) اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کرے گا اور پھر ان سے پوچھے گا کہ تمہیں ( تمہاری مت کی طرف سے تمہاری دعوت و تبلیغ دین کا) کیا جواب ملا تو وہ کہیں گے کہ ہمیں علم نہیں، بلا شبہ پوشیدہ باتوں کو آپ ہی بہت زیادہ جاننے والے ہیں۔ کیونکہ اس آیت کی مراد تو یہ کہ اجابت کا سوال ہوگا جس کے بارے میں وہ رسول اپنی لا علمی ظاہر کریں گے، جب کہ یہاں حدیث میں حضرت نوح (علیہ السلام) سے جس سوال کا ذکر ہے وہ دعوت و تبلیغ کے بارے میں ہوگا اور ظاہر ہے کہ اجابت اور دعوت و تبلیغ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) یہ کہیں گے کہ میرے گواہ حضرت محمد ﷺ اور ان کی امت کے لوگ ہیں یعنی اصل گواہ تو امت محمدی ﷺ کے لوگ ہیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے دعوے کی گواہی وہی دیں گے اور حضرت محمد ﷺ ان کے مز کی ہوں گے، اس صورت میں کہا جائے گا کہ اصل گواہ یعنی امت محمد ﷺ کے لوگوں سے پہلے مز کی یعنی آنحضرت ﷺ کا ذکر کرنا آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر کے اظہار کے لئے ہوگا اور ویسے یہ بھی بعید نہیں کہ خود آنحضرت ﷺ بھی نوح (علیہ السلام) کی گواہی دیں کیونکہ وہ وقت اور جگہ یہ ایسی ہوگی جہاں زیادہ سے زیادہ مدد ونصر پہنچانے کی ضرورت ہوگی رسول کریم ﷺ نے ( صحابہ سے) فرمایا کہ تب تمہیں پیش کیا جائے گا ان الفاظ کا اسلوب بیان بتاتا ہے کہ اس وقت جب کہ دربار الہٰی میں لوگوں کی سب سے بڑی پیشی ہوگی، آنحضرت ﷺ حاضر وناظر ہوں گے یعنی آپ ﷺ کو پیش کیا جائے گا اور پھر ان کے گواہوں یعنی امت محمدی ﷺ کے لوگوں کو لایا جائے گا۔ اور تم یہ گواہی دو گے کہ الخ یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کے کہنے کے مطابق تم ان کی گواہی دوگے اور تمہارے نبی ﷺ تمہارے مز کی ہوں گے یا یہ کہ تم گواہی دو گے اور تمہارے ساتھ نبی بھی گواہی دیں گے۔ اس آیت کریمہ (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا) 2 ۔ البقرۃ 143) میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ مسلمان قیامت کے دن گزشتہ امتوں کے بارے میں گواہی دیں گے اور ان ( مسلمانوں) کی گواہی ان کے پیغمبر ﷺ دیں گے، تو ان گزشتہ لوگوں کے بارے میں مسلمانوں کی گواہی کی مثال تو یہی ہے کہ وہ ( مسلمان) حضرت نوح (علیہ السلام) کے بارے میں گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنی امت کے لوگوں تک اللہ کے احکام پہنچائے تھے اور ان ( مسلمانوں کے بارے میں ان کے پیغمبر کی طرف سے گواہی کی صورت یہ ہوگی کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب قیامت کے دن گزشتہ انبیاء اور رسولوں کی امتیں انکار کرتے ہوئے کہیں گی کہ ہم تک کسی نبی نے کچھ نہیں پہنچایا اور ہمیں اللہ کے احکام نہیں بتائے تو وہ رسول اور انبیاء امت محمدی کے لوگوں کو اپنا گواہ بنائیں گے اور جب مسلمان ان کی گواہی دیں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ ( تم لوگ تو ان امتوں کے بعد دنیا میں آئے تھے) تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ ان انبیاء نے اپنی امت کے لوگوں کو اللہ کے احکام پہنچائے تھے اور تم یہ گواہی کس بنا پردے رہے ہو ؟ تو وہ ( مسلمان) جواب دیں گے کہ اس سلسلہ میں ہم نے کتاب اللہ کو ناطق پایا تھا ( یعنی قرآن مجید نے ہمیں اس بارے میں بالک سچی خبر دی تھی چناچہ اسی کی بنا پر ہم یہ گواہی دے رہے ہیں ! اس کے بعد ان رسولوں کی امتوں کے لوگ مسلمانوں کی صداقت و عدالت یعنی ان کے معتبر ہونے کی اور ان کی سچائی کے بارے میں جرح کریں گے تب آنحضرت ﷺ مسلمانوں کا سچا اور معتبر ہونا ثابت کریں گے اور گواہی دینے کے یہی معنی ہیں اور اسی اعتبار سے آپ ﷺ کو اپنی امت کا گواہ کہا گیا ہے کہ جب آپ ﷺ نے اپنی امت کو سچا اور گزشتہ امتوں کے بارے میں ان کی گواہی کو معتبر ثابت کیا تو گویا آپ ﷺ نے بھی گواہی دی ! اور اسی لحاظ سے حضرت نوح (علیہ السلام) یہ کہیں گے کہ میرے گواہ حضرت محمد ﷺ اور ان کی امت کے لوگ ہیں۔

【7】

قیامت کے دن جسم کے اعضاء شہادت دینگے

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک دن) ہم رسول کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ یکایک ہنسنے لگے اور پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو میں کیوں، ہنس رہا ہوں ؟ حضرت انس کہتے ہیں کہ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا میں ( قیامت کے دن) بندہ اور اللہ کے درمیان منہ در منہ گفتگو ہونے کا خیال کرکے) ہنس رہا ہوں ! ( اس دن) بندہ کہے گا کہ اے پروردگار کیا تو نے مجھ کو ظلم سے پناہ نہیں دی ہے ؟ ( یعنی کیا تو نے نہیں فرمایا کہ میں اپنے بندوں پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا) آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( یہ سن کر) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہاں تجھ کو ( میں نے پناہ دی ہے اور میں یقینا بندوں پر ظلم نہیں کرتا) تب بندہ کہے گا کہ اگر تو نے مجھ کو ظلم سے پناہ دی ہے تو) میں اپنے متعلق اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتا کہ میرے بارے میں گواہی دینے والا مجھ ہی میں سے ہو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( بندے کی یہ بات سن کر) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ( مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے) آج کے دن تیرے بارے میں خود تیری ذات کی گواہی دیں گے آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر بندے کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی ( یعنی اس کی قوت گویائی کو معطل کردیا جائے گا) اور اس کے بعد اس کے تمام اعضاء وجسم کو حکم دیا جائے گا کہ بولو، چناچہ اس کے جسم کے اعضاء اس کے (ان) اعمال کو بیان کریں گے جو اس نے ان اعظاء کے ذریعہ کئے تھے پھر اس بندے اور اس کی گویائی کے درمیان سے ( پردہ) اٹھا دیا جائے گا ( یعنی اس کے منہ کو جو مہر لگائی گئی تھی اس کو توڑ دیا جائے گا اور اس کی قوت گویائی بحال ہوجائے گی جس سے وہ پہلے کی طرح باتیں کرنے لگے گا) آنحضرت ﷺ نے فرمایا بندہ ( یہ صورت حال دیکھ کر اپنے اعضاء جسم سے) کہے گا کہ دور ہو بدبختو اور ہلاک ہو، میں تو تمہاری ہی طرف سے اور تمہاری ہی نجات کے لئے لڑ جھگڑ رہا تھا۔ ( مسلم ) تشریح میرے بارے میں گواہی دینے والا مجھ ہی میں سے ہو یعنی مجھے یہ گوارہ نہیں ہے کہ میرے اعمال و کردار اور میری دنیاوی زندگی کے بارے میں گواہی دینے والا کوئی دوسرا ہو، میں تو صرف اس گواہ کو تسلیم کروں گا جو میری ذات کے اندر سے پیدا ہوگو یا بندہ تو یہ خیال کرے گا کہ میری ذات کے اندر سے گواہی دینے والا کون ہوسکتا ہے کیونکہ کوئی ذات خود اپنے کو ضرر و نقصان پہنچانے کے لئے گواہی نہیں دیا کرتی، لیکن اس کو یہ خیال نہیں آئے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر بھی پوری طرح سے قادر ہے کہ وہ اس بندے کی ذات میں سے ایسا گواہ پیدا کردے جو اس کے خلاف گواہی دے اور اس کو اللہ کے حکم کے خلاف انکار کی مجال اور دم مارنے کی گنجائش نہ ہو ! پس آنحضرت ﷺ کے ہنسنے کا سبب یہی تھا کہ حق تعالیٰ کے سامنے بندہ کا اس طرح کلام کرنا کہ خود اپنے جال میں پھنس جائے اس کی کس درجہ کی مضحکہ خیز حرکت ہوگی۔ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ کے منہ کو مہر لگانا ان اعضاء جسم کا اعمال کے بارے میں گواہی دینا جن کے ذریعہ بندے نے وہ عمل کئے ہوں گے اور پھر اس بندے کا اپنی نادانی پر جھنجھلاہٹ کی وجہ سے اپنے ان اعضاء جسم کو برا بھلا کہنا اور ان کو بددعا دینا جیسے عجیب و غریب امور کا خیال کرکے آپ ﷺ ہنسے۔ خود بندے کی درخواست اور خواہش کے مطابق خود اسی کے اعضاء جسم کو اس کے بارے میں گواہ بنانے کے بعد پھر نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو بھی گواہ بنانا مقصود سے زائد بات۔۔۔۔ اور اس کا سبب یہ ہوگا کہ اعضاء جسم جو گواہی دیں گے اس کی تصدیق و توثیق ہوجائے اور بندے کو یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ یہ اعضاء جسم درست گواہی نہیں دے رہے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ صرف فرشتوں کو گواہ بنائے گا تو یہ بات اس قرارداد کے خلاف ہوگی جو اس کے اور بندے کے درمیان طے پائی گی حاصل یہ کہ اصل گواہ تو بندے کے اعضاء جسم ہی ہوں گے جن کو خود بندے کی غرض و خواہش کے مطابق گواہ بنایا جائے گا اور ان اعضاء جسم کی گواہی ثابت کرنے کے لئے نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو بطور زائد گواہ پیش کیا جائے گا، لہذا یہ اعتراض پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ بندے کی غرض و خواہش کو مان کر اس کی ذات کے اندر سے، یعنی اسی کے اعضاء جسم کو گواہ بنائے گا تو فرشتوں کو گواہ بنانے کی کیا ضررت ہوگی۔ دور ہٹو بدبختو اور ہلاک ہو الخ یعنی جب وہ بندہ دیکھے گا کہ یہ میرے اعضاء جسم تو میرے ہی خلاف گواہی دے رہے ہیں، ادھر ان اعضاء جسم کا اس کے خلاف گواہ بننا خود اس کی درخواست و خواہش کے مطابق ہوگا، تو وہ اس صورت حال سے جھنجلا جائے گا اور اپنے اعضاء جسم کو برا بھلا کہنے لگے گا کہ کمبختو، میں تمہاری ہی طرف سے لڑجھگڑ رہا تھا تاکہ تمہیں اعمال بد کی سزا نہ بھگتنی پڑے، لیکن اپنے خلاف خود تم ہی گواہی دے رہے ہو اور اپنے آپ کو عذاب و ہلاکت میں ڈال رہے ہو یا یہ کہ میں دنیا میں تمہاری ہی وجہ سے بندوں سے لڑتا جھگڑتا تھا، تمہیں نقصان وضرر سے بچانے کے لئے دوسروں کو نقصان پہنچایا کرتا تھا، تمہاری راحت اور تمہارے کام کی وجہ سے فلاں فلاں پر عمل کیا کرتا تھا، ہر وقت تمہاری ہی حفاظت اور تمہاری ہی مدد میں لگا رہتا تھا اور تمہیں ہی اپنا دوست وغم خوار مانتا تھا مگر آخر کو تم ہی میرے دشمن اور میرے بدخواہ نکلے اور مجھے عذاب خداوندی کے حوالہ کئے جانے کا سبب بنے ! حدیث میں ان اعضاء جسم کا وہ جواب ذکر نہیں کیا گیا ہے جو وہ آخر میں بندے کی یہ بات سن کردیں گے، لیکن قرآن کی ایک آیت میں ان کے اس جواب کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے۔ (وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا قَالُوْ ا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْ اَنْ طَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَّهُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ) 41 ۔ فصلت 21) اور وہ اپنی جلدوں سے ( یعنی اپنے اعضاء جسم سے) کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ؟ تو وہ جلدیں کہیں گی کہ ہمیں اس اللہ نے بلایا ہے جس نے ہر ایک کو بلایا ہے اور اس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اور اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

【8】

قیامت کے دن دیدار الہٰی

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کے ( ایک دن) صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا قیامت کے دن ( اپنی آنکھوں سے) اپنے اللہ کا دیدار کریں گے ؟ آپ نے فرمایا کیا دوپہر کے وقت جب کہ ابر نہ ہو، تو سورج کو دیکھنے میں کوئی شک رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے جس طرح تم سورج اور چاند کو دیکھنے میں کوئی شک وشبہ نہیں رکھتے اسی طرح ( قیامت کے دن) اپنے پروردگار کو دیکھیں گے تو اللہ تعالیٰ ایک بندے کو خطاب کرکے فرمائے گا کہ اے بندے ! کیا میں نے تجھے (جنس حیوان اور دیگر مخلوقات پر) فضیلت وشرف نہیں بخشا تھا، کیا میں نے تجھے تیری بیوی عطا نہیں کی تھی ( جو میں نے تیری ہی جنس اور تیری ہی نوع سے پیدا کی تھی اور پھر تیرے اور اس کے درمیان انس و محبت اور پیار کا رشتہ قائم کیا تھا) کیا میں نے تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ ( اور دیگر کار آمد جانوروں اور چیزوں) کو تیرا مطیع نہیں بنایا تھا۔ اور کیا میں نے تجھے یہ موقع نسیب نہیں کیا تھا کہ تو اپنی قوم کا سربراہ اور سردار ہو اور چوتھائی مال غنیمت حاصل کرے ؟ ( واضح رہے کہ یہ زمانہ جاہلیت میں بھی رواج تھا کہ کسی بھی قوم و قبیلہ کا سربراہ حاصل ہونے والے مال غنیمت میں سے اپنے لئے چوتھائی حصہ لیتا تھا اور باقی مال پوری قوم کے لئے چھوڑ دیتا تھا) وہ بندہ ( یہ سن کر) عرض کرے گا کہ میرے پروردگار ! بیشک ایسا ہی ہوا تھا ( یعنی تو نے اپنے جن انعامات کا ذکر فرمایا ہے وہ سب مجھے دنیا میں حاصل ہوئی تھیں) آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس کے بعد پروردگار فرمائے گا کہ کیا تجھے یہ بھی خیال تھا کہ ( ایک دن) تو مجھ سے ملے گا ؟ بندہ عرض کرے گا نہیں ! ( مجھے یہ خیال نہیں رہا تھا اور میں ایسی غفلت میں پڑگیا تھا کہ اس بات کو بھول ہی گیا) پس پروردگار فرمائے گا کہ تو میں بھی تجھے فراموش کروں گا ( یعنی آج میں بھی تجھے اپنی رحمت سے دور کر دوں گا) جیسا کہ تو نے دنیا میں میری اطاعت اور میری یاد کو فراموش کردیا تھا پھر پروردگار دوسرے بندے سے ملاقات اور خطاب فرمائے گا اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ اور اس بندے کے درمیان اسی سوال و جواب کا ذکر کیا جو پہلے بندے کے سلسلے میں منقول ہوا پھر پروردگار تیسرے بندے سے ملاقات وخطاب فرمائے گا اور اس سے وہی فرمائے گا جو اس نے پہلے بندہ سے فرمایا تھا اور وہ ( تیسرا بندہ) یہ جواب دے گا میرے پروردگار ! میں تجھ پر تیری کتاب پر اور تیرے پیغمبروں پر ایمان لایا تھا میں نے نماز پڑھی روزے رکھے اور صدقہ دیا ( یعنی زکوٰۃ ادا کی ) اور اس طرح جس قدر ہو سکے گا وہ اپنی نیکیوں کے بارے میں تعریف و توصیف بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ( اس کی یہ تمام باتیں سن کر) فرمائے گا کہ تم یہیں ٹھہرو ہم ابھی تمہارے بارے میں گواہ پیدا کئے دیتے ہیں ( یعنی تو نے اپنی نیکیوں کے بارے میں جو دعوی کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کوشش کی ہے کہ تو نے ہماری نعمتوں کی شکر گزاری میں اپنی دنیاوی زندگی کو اعمال خیر سے معمور کر رکھا تھا تو ذرا ٹھہر جا ہم گواہوں کے ذریعہ ابھی بتائے دیتے ہیں کہ تو اپنے دعوے میں کہاں تک سچا ہے) بندہ ( یہ سن کر) اپنے دل میں سوچے گا کہ بھلا اس وقت میرے خلاف کون گواہی دے گا لیکن جبھی اس کے منہ کو مہر لگادی جائے گی اور اس کی ران سے کہا جائے گا کہ بول چناچہ اس کی ران اس کا گوشت اور ہڈی (یعنی ران کے سب حصے اس کے ( ان) اعمال کے بارے میں جو اس نے دنیا میں واقعۃ کئے ہونگے) بیان دیں گے اور یہ سب کچھ ( یعنی مذکورہ سوال و جواب بندہ کے منہ کو مہر لگانا اور اس کے اعضاء کے ذریعہ گواہی دلوانا) اس لئے ہوگا تاکہ بندہ کی بداعمالیاں ثابت ہوجائیں اور وہ کوئی عذر نہ کرسکے ( یا یہ معنی ہیں کہ یہ سب کچھ اس لئے ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ خود صاحب عذر ہو یعنی اس بندے کو عذاب میں مبتلا کرنے کی ذمہ داری اسی پر ڈال سکے) اور یہ تیسرا بندہ ( جو اپنی نیکیوں کے بارے میں دعوی کرے گا لیکن خود اس کے اعضاء جسم اس کے دعوے کی تردید کریں گے) درحقیقت منافق ہوگا اور یہ وہ بندہ ہے جس سے حق تعالیٰ غصہ و ناراض ہوگا۔ ( مسلم ) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت یدخل من امتی الجنۃ حضرت ابن عباس کی روایت سے توکل کے باب میں ذکر کی جا چکی ہے۔ تشریح اسی طرح تم اپنے پروردگار کو دیکھنے میں کوئی شک وشبہ نہیں کروگے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تمہیں سورج اور چاند کو دیکھنے میں کوئی تکلف نہیں ہوتا، کوئی دقت نہیں اٹھانا پڑتی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، اسی طرح تم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو بھی بلا تکلف دیکھو گے ! واضح رہے کہ لفظ تضارون ( جس کا آزاد ترجمہ شک وشبہ کرنا کیا گیا ہے) ت کے پیش اور ر کی تشدید کے ساتھ منقول ہے اور ر کی تشدید کے بغیر بھی نقل کیا گیا ہے اور یہ لفظ ر کی تشدید کے ساتھ ہو تو اس کی اصل مضارت ہوگی جس کے معنی ضرر و نقصان کے ہیں اور اگر یہ لفظ ر کی تشدید کے بغیر ہو تو پھر اس کی اصل ضیر ہوگی اور اس کے معنی بھی ضرر و نقصان کے ہیں پس لفظی ترجمہ کے اعتبار سے لا تضارون کے معنی یہ ہوں گے کہ پروردگار کے دیدار کے وقت تم آپس میں لڑائی جھگڑے، دھکم پیل، مخالفت وموافقت اور تصدیق و تکذیب کے ذریعہ ایک دوسرے کو نقصان و تکلیف نہیں پہنچاؤ گے کیونکہ اس کا دیدار اس طرح واضح وعام اور ہر ایک کے لئے عیاں ہوگا کہ ہر شخص بڑی آسانی اور اطمینان کے ساتھ اس کو دیکھے گا بعض حضرات نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ اس کے دیدار کے وقت تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے لئے پردہ اور رکاوٹ نہیں بنے گا اور مجمع البحار میں یہ لکھا ہے کہ تضارون کا لفظ مضارت سے ہے) اور مضارت کے معنی کسی کے دیدار کے وقت اجتماع واژدہام کا ہونا ( اور اس کی وجہ سے ایک دوسرے کو تکلیف و پریشانی اٹھانا) مراد ہیں اسی طرح قاضی عیاض مالکی نے یہ کہا ہے کہ مضارت کے معنی مضایقت یعنی ایک دوسرے کو تنگ گیری میں مبتلا کرنا مراد ہیں اور یہ معنی اجتماع واژدہام کے قریب ہیں نیز انہوں نے کہا ہے کہ مضایقت یعنی آپس میں ایک دوسرے کو تنگ گیر ہونے کا اطلاق کسی ایسی چیز کو دیکھنے کے موقع پر ہوتا ہے جو بالکل مخصوص نوعیت اور خاص انداز سے کسی ایک محدود جگہ پر ہو اور مجمع وہجوم کی وجہ سے ہر شخص آسانی کے ساتھ اس کے ساتھ اس کو نہ دیکھ سکتا ہو پس اس صورت میں لا تضارون کا مطلب یہ ہوگا کہ تم پروردگار کے دیدار کے وقت ایک دوسرے سے ملے اور جڑے ہوئے اور تنگ گیری میں مبتلا نہیں ہوں گے جیسا کہ محدود جگہ پر مجمع وہجوم کے وقت کسی چیز کو دیکھنے کی صورت میں ہوتا ہے بلکہ جس طرح تم سب اپنی اپنی جگہ پر رہتے ہوئے اطمینان و فراغت کے ساتھ سورج اور چاند کو دیکھتے ہو اسی طرح قیامت کے دن تم سب اپنی اپنی جگہ پر بہ فراغت اپنے پروردگار کا دیدار کروگے۔ ایک روایت میں یہ لفظ تضارون کے بجائے تضامون ہے یعنی ر کی جگہ م ہے، پھر تضامون کا لفظ بھی دونوں طرح منقول ہے یعنی ت کے پیش اور م کی تشدید کے ساتھ بھی آیا ہے اور م کی تشدید کے بغیر بھی، تشدید کی صورت میں یہ لفظ ضم سے مشتق ہوگا اور بغیر تشدید کی صورت میں ضیم سے ! ضم اجتماع واژدہام کے معنی میں ہے اور ضیم ظلم و زیادتی کرنے کے معنی میں ہے ! لیکن دونوں صورتوں میں مفہوم وہی ہوگا تضارون) کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ تو میں بھی تجھے فراموش کر دوں گا الخ کا حاصل یہ ہے کہ جب میں نے تجھ کو دنیا میں اپنے ان انعامات سے نوازا اور تجھ پر اتنے بڑے بڑے احسانات کئے تو تیرا فرض تھا کہ تو میری اطاعت و عبادت اور میرے احکام کی اتباع و پیروی کے ذریعہ میرا شکر ادا کرتا اور میرے دیدار کا امیداوار رہتا تاکہ میں تجھے اور زیادہ انعام وجزا دیتا اور دنیا کی طرح آج کے دن بھی تجھے سر بلند وسرخ رو کرتا پس جب کہ تو نے دنیا میں میری ان نعمتوں اور میرے ان احسانات کے باوجود مجھے فراموش کردیا تھا اور میری طرف سے غافل ہوگیا تھا تو اب میں بھی احسان اور اچھا سلوک نہ کرکے تیرے ساتھ وہی معاملہ کروں گا جو کسی غافل اور احسان فراموش شخص کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اس طرح میں تجھے اپنی رحمت سے دور کر دوں گا واضح رہے کہ یہی مضمون اس آیت کریمہ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى) 20 ۔ طہ 126) ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ایسا ہی ( چاہیے تھا) تیرے پاس ( دنیا میں) ہماری آیتیں آئیں تو نے ان کو بھلا دیا اسی طرح آج ( یہاں قیامت کے دن ہم تجھ کو بھلا دیں گے۔ چناچہ اس کی ران، اس کا گوشت اور اس کی ہڈی الخ کے بارے میں یہ بتادینا ضروری ہے کہ قرآن کریم میں ہاتھ، پاؤں، زبان اور کھال کا بولنا اور بندے کے اعمال کے سلسلے میں گواہی دینا مذکور ہے، جب کہ یہاں ران، گوشت اور ہڈی کے بولنے اور گواہی دینے کا ذکر ہے، تو زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حدیث کے اس جملہ کا اصل مقصد بھی یہی بیان کرنا ہے کہ بندے کے تمام اعضاء جسم بولیں گے اور اس کے اعمال کے بارے میں گواہی دیں گے جن میں ہاتھ اور پاؤں وغیرہ بھی شامل ہیں جیسا کہ پیچھے حضرت انس (رض) کی روایت میں گزرا۔ اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کا مطلب یہ ہے کہ صاحب مصابیح نے یدخل من امتی الخ کی حدیث حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے یہاں اس باب میں نقل کیا تھا لیکن صاحب مشکوۃ نے اس حدیث کو حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے اور اس باب کی بجائے باب التوکل میں ذکر کیا ہے لیکن واضح رہے کہ یہ حدیث حضرت ابن عباس (رض) سے ان الفاظ میں منقول ہے یدخل الجنۃ من امتی سبعون الفا بغیر حساب ہو الذین لا یسترقون ولا یتطیرون وعلی ربہم یتوکلون۔ پس صحیح بات تو یہ تھی کہ یہاں یدخل من امتی الجنۃ الخ کے بجائے) یوں کہا جاتا کہ یدخل الجنۃ امتی الخ !

【9】

امت محمدی ﷺ میں سے حساب کے بغیر جنت میں جانے والوں کی تعداد

حضرت ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میرے پروردگار نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگوں کو حساب اور عذاب کے بغیر جنت میں داخل کرے گا اور ( ان ستر ہزار میں سے) ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار اور میرے پروردگار کے چلوں میں سے تین چلو بھر کر لوگ جنت میں جائیں گے۔ ( احمد، ترمذی، ابن ماجہ ) تشریح حساب و عذاب کے بغیر سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں کو اس سخت حساب کے مرحلہ سے گزرنا نہیں پڑے گا جس میں بندہ پرسش ومواخذہ، داروگیر اور سخت پوچھ گچھ سے دوچار ہونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار الخ کا مطلب یہ ہے کہ ستر ہزار لوگ تو حساب و عذاب کے مرحلہ سے گزرے بغیر جنت میں جائیں ہی گے لیکن ان میں سے بھی ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار لوگ ہوں گے اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے تین چلو بھر کر اور لوگ ان کے ساتھ کر دے گا ! اب رہی یہ بات کہ ستر ہزار سے کیا مراد ہے تو ہوسکتا ہے کہ یہ خاص عدد ہی مراد ہو اور یا یہ کہ اس عدد سے کثرت مراد ہے نیز تین چلووں کے الفاظ بھی کثرت و مبالغہ سے کنایہ ہیں پس حاصل یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ میری امت کے اتنے زیادہ لوگوں کو کہ جو شمار بھی نہیں کئے جاسکتے حساب عذاب کے بغیر جنت میں داخل کرے گا۔

【10】

قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں لوگ تین مرتبہ پیش ہونگے

اور حضرت حسن بصری، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں کو ( اللہ تعالیٰ کے سامنے) تین مرتبہ پیش کیا جائے گا اور دو مرتبہ تو بحث وجرح اور عذر آرائی ہوگی اور جب تیسری مرتبہ پیش ہوں گے تو اس وقت ( چونکہ حساب، کتاب اور پوچھ گچھ کا مرحلہ نمٹ چکا ہوگا اس لئے) اعمال نامے اڑ اڑاکر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ جائیں گے پس ان میں سے کچھ لوگ ( کہ جو اہل سعادت اور خوش نصیب ہوں گے اپنے دائیں ہاتھوں میں اعمال نامے لیں گے اور کچھ لوگ ( کہ جو اہل شقاوت اور بدبخت ہوں گے) اپنے بائیں ہاتھوں میں اعمال نامے لیں گے اس روایت کو امام احمد اور ترمذی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ روایت اس اعتبار سے صحیح نہیں ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے حضرت حسن بصری کا سماع ثابت نہیں ہے بعض محدثین نے اس روایت کو حضرت حسن بصری سے اور انہوں نے ابوموسی اشعری سے نقل کیا ہے۔ تشریح دو مرتبہ تو بحث وجرح اور عذر آرائی ہوگی۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب لوگ پہلی مرتبہ پیش ہوں گے تو اس وقت وہ اپنے گناہ و معصیت اور اپنی بد عملیوں کا اقرار و اعتراف نہیں کرینگے اور اپنے آپ کو مستوجب عذاب ہونے سے بچانے کی کوشش کریں گے یعنی حق تعالیٰ کے سامنے بحث و مباحثہ کریں گے اور کہیں گے کہ ہم تک کسی بھی نبی نے آپ کے احکام نہیں پہنچائے اور نہ کسی نے ہمیں یہ بتایا کہ ہمارا کون سا عمل درست ہے اور کون سا عمل نا درست ! اور جب ہم تک ہدایت پہنچی ہی نہیں اور ہمارے سامنے برائی اور بھلائی کے راستوں کو واضح ہی نہیں کیا گیا تو ہمارے خلاف بدعملیوں اور گناہوں کی فرد جرم کیوں عائد ہو ؟ لیکن جب اللہ تعالیٰ مختلف دلائل اور گواہوں کے ذریعہ یہ ثابت فرمادے گا کہ ان تک ہدایت کا پیغام پہنچایا تھا اور مختلف زمانوں میں اس کے پیغمبر اور رسول ان کے پاس اللہ کے احکام پہنچاتے رہے تھے جن کو انہوں نے یا تو قبول نہیں کیا یا ان پر صحیح طرح سے عمل نہیں کیا تو دوسری مرتبہ کی پیشی کے وقت وہ اپنے گناہوں اور اپنی بدعملیوں کا اقرار و اعتراف کریں گے اور پھر عذر آرائی کرنے لگیں کے مثلا کوئی تو یوں کہے گا کہ میں نے ازراہ سہو خطاکاروں کا راستہ اختیار کرلیا تھا، کوئی یوں کہے گا کہ میں جہالت و غفلت کے اندھیروں میں کھو گیا تھا اور اس کی وجہ سے ہدایت کے راستہ پر نہیں چل سکا اور کوئی یوں کہے گا کہ میں تیری رحمت کی امید پر کوتاہ عمل اور غفلت کا شکار ہوگیا تھا، غرض کہ ہر ایک اسی طرح کے عذر بیان کرے گا ! اور پھر تیسری مرتبہ جب لوگوں کے تمام معاملات منقح ہو کر سامنے آجائیں گے اور ہر ایک کے عقیدہ وعمل کی چھان بین پوری ہوجائے گی تو پھر آخری فیصلہ ظاہر ہوجائے گا اور سب کے سامنے اہل ہدایت اور ضلالت کے درمیان فرق و امتیاز بالکل واضح ہوجائے گا جس کی صورت یہ ہوگی کہ جو لوگ جنت کی سعادت سے نوازے جانے والے ہوں گے ان کے نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں پہنچ جائیں گے اور جن کو دوزخ میں ڈالا جانا ہوگا ان کے نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں پہنچادئیے جائیں گے۔ اس حدیث کے بارے میں ترمذی نے جو کچھ کہا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ چونکہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے حضرت حسن بصری کا حدیث سننا ثابت نہیں ہے اس لئے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کی اس روایت کی سند منقطع اور غیر متصل ہوئی جس کی بناء پر اس حدیث کو مذکورہ سند و روایت کے ساتھ صحیح نہیں کہا جاسکتا لیکن جزری نے تصحیح المصابیح میں کہا ہے کہ بخاری نے اپنی صحیح ( یعنی بخاری شریف) میں حضرت حسن بصری (رح) کی ایسی تین حدیثیں نقل کی ہیں جن کو انہوں نے ( یعنی حسن بصری نے) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے البتہ صحیح مسلم میں حضرت حسن بصری (رح) کی ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے جس کو انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہو بہر حال جزری کی بات سے قطع نظر بھی کرلیا جائے تو بھی اصل حدیث کی صحت پر اثر نہیں پڑتا کیونکہ بعض محدثین نے اس روایت کو حضرت حسن بصری (رح) سے اور انہوں نے حضرت ابوموسی اشعری (رض) سے نقل کیا ہے اور اس طریق سے اس روایت کی سند متصل ہوگی جس سے اصل حدیث کا صحیح ہونا ثابت ہوجاتا ہے ! بعض حضرات نے کہا ہے کہ حضرت حسن بصری (رح) نے اس حدیث کو متعدد صحابہ کرام جیسے حضرت ابوموسی اشعری، حضرت انس ابن مالک اور حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ سے روایت کیا ہے۔

【11】

خدا کے نام کی برکت

اور حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ( میدان حشر میں) اللہ تعالیٰ میری امت میں سے ایک شخص کو تمام مخلوقات کے سامنے طلب کرے گا اور اس کے سامنے ننانویں رجسڑ کھول کر ڈال دے گا جن میں کا ہر رجسٹر حد نظر تک پھیلا ہوا نظر آئے گا) پھر اس شخص سے فرمائے گا کہ ان رجسٹروں میں جو کچھ لکھا ہوا ہے کیا تو اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے ( اور یہ کہنے کی جرأت رکھتا ہے کہ ان رجسٹروں سے میرے جن برے اعمال کا پتہ چلتا ہے وہ میں نے نہیں کئے ہیں) اور کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ میرے لکھنے والوں نے ( یعنی نامہ اعمال لکھنے والے ان فرشتوں نے جو تیرے افعال و احوال کے نگہبان تھے) تیرے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے وہ شخص عرض کرے گا کہ میرے پروردگار ! نہیں ( نہ تو میں ان رجسٹروں میں لکھے ہوئے اپنے نامہ اعمال سے انکار کرسکتا ہوں اور نہ یہ سمجھتا ہوں کہ نامہ لکھنے والے فرشتوں نے ان رجسٹروں میں غلظ اندراجات کے ذریعہ میرے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے) پھر پروردگار فرمائے گا کیا تو کوئی عذر رکھتا ہے ( یعنی تو نے دنیا میں جو برے اعمال کئے اور جو ان رجسٹروں میں لکھے ہوئے ہیں کیا تو ان کی معذرت میں کچھ کہنا چاہتا ہے کہ میں نے سہوا یا جہلا یا خطاء اور یا کسی بھی فلاں وجہ سے برا کام کیا تھا ؟ ) وہ بندہ عرض کرے گا کہ نہیں ! میرے پروردگار ! ( میں کوئی عذر بیان نہیں کرسکتا) تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہاں ( ہمارے پاس ایک چیز ہے جو تیرے عذر کے قائم مقام ہے یعنی) ہمارے یہاں تیری ایک بہت بڑی) نیکی ہے ( جو ہماری بارگاہ میں قبول کی جاچکی ہے اور جو تیرے تمام گناہوں کو مٹا دے گی) اور یقینا آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا ( یعنی نہ تو تیری اس نیکی کے ثواب کو گھٹایا جائے گا اور نہ تجھے عذاب دینے کے لئے تیرے گناہوں کو بڑھایا جائے گا) پھر ایک پر چہ نکالا جائے گا جس میں اشہد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ لکھا ہوگا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس شخص سے فرمائے گا کہ جاؤ اپنے اعمال ( کے تولے جانے کی جگہ یا اعمال تو لے جانے کے وقت اور یا اعمال تو لے جانے کی چیز یعنی میزان) کے پاس پہنچ جا ( تاکہ جب تیری نیکی کا یہ چھوٹا سا پر چہ تیرے گناہوں سے بھرے ہوئے ننانوے رجسٹروں کے ساتھ تولا جائے تو تجھ پر ظاہر ہوجائے کہ ہمارا عدل و انصاف کسی طرح ظاہر ہوتا ہے اور تجھ پر کسی ظلم و زیادتی کی بجائے ہمارے فضل و احسان کا سایہ کسی طرح سایہ فگن ہوا ہے ) وہ بندہ ( حیرت واستعجاب کے ساتھ) عرض کرے گا کہ میرے پروردگار ! بھلا اس ایک چھوٹے سے پر چہ کو اتنے بڑے بڑے اور اتنے زیادہ رجسٹروں کے ساتھ کیا مناسبت ہے ؟ ( کہاں میری ایک نیکی کا یہ ایک چھوٹا سا پر چہ اور کہاں میرے تمام گناہوں پر مشتمل یہ دفتر کے دفتر ؟ اس صورت میں اس پر چہ کو ان رجسٹروں کے مقابلہ میں تولنے کا کیا فائدہ ؟ ( پروردگار فرمائے گا کہ ( تو جا کر دیکھ تو سہی) یقینا تیرے ساتھ ظلم نہیں کیا جائے گا ! (یعنی اس پر چہ کو معمولی مت جان یہ بہت عظیم القدر اور بہت بھاری ہے اس کا تولا جانا ضروری ہے تاکہ تجھ پر ظلم نہ ہوجائے۔ اور ملا علی قاری (رح) نے یقینا تیرے ساتھ ظلم نہیں کیا جائے گا کا مطلب یہ لکھا ہے کہ اس ایک نیکی کا پر چہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت عظیم القدر اور بہت بھاری ہے، کیونکہ اللہ کے نام کے مقابلہ پر کوئی بھی چیز بھاری نہیں ہے اور اگر اس کے نام سے بھی بھاری کوئی چیز ہوگی تو تجھ پر ظلم ہوجائے گا یعنی پھر تو اپنے گناہوں کی پاداش میں مارا جائے گا) آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر ان رجسٹروں کی پوٹ کی پوٹ تراوز کے ایک پلے میں رکھی جائے گی اور اس پر چہ کو دوسرے پلے میں پس وہ رجسٹر ہلکے پڑجائیں گے اور وہ پر چہ بھاری ہوجائے گا ( یعنی ان رجسٹروں کا پلا اوپر اٹھ جائے گا اور اس پر چہ کا پلا نیچے جھک جائے گا) حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام سے زیادہ وزن دار کوئی چیز نہیں ہوگی کیونکہ اللہ کا نام سب سے بڑا اور سب سے بھاری ہے اگرچہ گناہوں کے بڑے سے بڑے پہاڑ جیسے رجسٹر کیوں نہ ہوں۔ ( ترمذی، ابن ماجہ) تشریح سجل ( جس کا عام ترجمہ رجسٹر کیا گیا ہے) کے خاص معنی وسیع وضخیم کتاب کے ہیں اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ سجل اصل میں طومار کو کہتے ہیں یعنی کاغذات کا مٹھا جس کو لپیٹ کر اس میں لکھتے ہیں اور بعضوں نے یہ کہا ہے کہ۔ سجل فرشتے کا نام ہے جو بندوں کے اعمال لکھتا ہے بہرحال یہاں حدیث میں سجل سے مراد وہ کتاب یا رجسٹر اور یا طومار ہے جس میں بندوں کے اعمال لکھے ہوں گے۔ پھر ایک پر چہ نکالا جائے گا جس میں اشہدان لا الہ الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ لکھا ہوگا کے بارے میں ایک احتمال تو یہ ہے کہ یہ کلمہ وہ ہوگا جو اس نے دنیا میں پہلی مرتبہ اپنی زبان سے ادا کیا ہوگا اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس نے کسی اور مرتبہ یہ کلمہ پڑھا ہوگا جو حق تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوگیا ہوگا اور یہی احتمال زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔

【12】

قیامت کے دن کے تین ہولناک موقعے

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ( ایک دن) وہ یعنی حضرت عائشہ دوزخ کی آگ کا خیال کرکے رونے لگیں یعنی اچانک ان کے دل میں دوزخ کا خیال آگیا تو اس کی دہشت سے ان پر گریہ طاری ہوگیا رسول کریم ﷺ نے ( ان کو اس طرح اچانک روتے دیکھا تو) پوچھا کہ یہ تمہیں کیا ہوا کیوں رو رہی ہو ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے دوزخ کی آگ کا خیال آگیا تھا ؟ ( اس کی دہشت اور خوف سے) رونے لگی ہوں) اور ہاں کیا آپ ﷺ قیامت کے دن اپنے اہل و عیال کو بھی یاد رکھیں گے ؟ رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ ویسے تو اہل بیت ہی کیا قیامت کے دن اپنی پوری امت کا خیال وفکر ہوگا لیکن) صورت حال یہ ہے کہ اس دن تین موقعے ایسے ہوں گے کہ وہاں کسی کو کسی کا خیال نہیں ہوگا یعنی مخصوص طور پر کسی کا خیال نہیں ہوگا۔ البتہ شفاعت عظمی عمومی طور پر تمام خلائق کے لئے ہوگی) ایک موقع تو وہ ہوگا جب ( اعمال و کردار کو تولنے کے لئے میزان سامنے ہوگی تاآنکہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس کی میزان بھاری رہی یا ہلکی یعنی جب تک اعمال تل نہ لیں گے اور یہ پتہ نہ چل جائے گا کہ نیک اعمال کا پلا جھک گیا ہے یا اوپر کو اٹھ گیا ہے تب تک ہر شخص اپنی اپنی فکر میں گرداں رہے گا دوسرا موقع وہ ہوگا جب اعمال نامے ( ہاتھوں میں) حوالے کئے جائیں گے یہاں تک یہ نہ کہا جانے لگے کہ آؤ میرا اعمال نامہ پڑھو اور جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ پیٹھ کے پیچھے سے اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا ہے، یا بائیں ہاتھ میں دیا گیا ہے۔ یعنی دوسرا ہولناک موقع وہ ہوگا جب ہر ایک کے بارے میں نجات یا عذاب کا فیصلہ ہونے کو ہوگا اور لوگوں کے اعمال نامے ان کی پیٹھ کے پیچھے سے ان کے ہاتھوں میں تھما دئیے جائیں گے چناچہ جو شخص نجات یافتہ ہوگا اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں آئے گا اور جو شخص مستوجب عذاب گردانا جائے گا اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں ہوگا اور اس طرح اس وقت جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ کس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں اور کس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دوبارہ ہے اور جس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں آئے گا وہ مارے خوشی کے یہ نہ کہہ اٹھے کہ آؤ میرا عمال نامہ پڑھ لو تب تک ہر شخص فکر وتردد میں رہے گا اور کسی کو اس کا ہوش و خیال نہیں رہے گا) اور تیسرا موقع وہ ہوگا جب لوگ پل صراط ( پر سے گزرنے) کے قریب ہوں گے اور وہ پل صراط جہنم کی پشت پر ( یعنی اس کے دہانے پر) رکھا جائے گا ( یہاں تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس پر سے عافیت کے ساتھ گزر کر نجات پالی ہے یا جہنم میں گرپڑا ہے۔ ( ابوداؤد) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو آنحضرت ﷺ کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن خاص طور پر تین موقعے ایسے ہوں گے جن کی دہشت وہولنا کی سب کو اس طرح حیران دور ماندہ اور وحشت زدہ بنا دے گی کہ کسی کو کسی فرد کی خبر نہیں ہوگی اور نہ کوئی کسی کو یاد کرنے اور اس کا حال جاننے کی مہلت پائے گا، ہر شخص اپنی ہی فکر میں رہے گا اور اس کو ہر لحمہ یہ دھڑکا لگا رہے گا کہ نہ معلوم میرا کیا حشر ہو اور مجھے کسی انحام سے جو چار ہونا پڑے۔ جیسا کہ پہلے بھی تبایا جا چکا ہے اور یہاں ترجمہ کے دوران بھی واضح کردیا گیا ہے، جب ہر شخص کے فرک و عقیدہ اور اعمال و کردار کی چھان بین ہوچکے گی، میزان میں اعمال نامے تولے جا چکے ہوں گے اور وہ بارگاہ الٰہی سے ہر شخص کی سعادت و شقاوت کا فیصلہ ہوجائے تو سب کے اعمال نے مے ان کے ہاتھوں میں پہنچ جائین گے، جن لوگوں کے اعمال نامے ان کے داہنے میں پہنچیں گے وہ نجات یافتہ ہوں گے اور جن لوگوں کے اعمال نامے ان کے بائیں میں پہنچیں گے وہ اہل عذاب ہوں گے ! نیز لوگوں کے ہاتھوں میں ان کے اعمالناموں کے پہنچنے کی صورت یہ ہوگی کہ دائیں ہاتھ کو گردن میں ڈال کر پشت کی طرف سے نکالا جائے گا اور بائیں ہاتھ کو بغل کے نیچے سے نکال کر پشت کی طرف لے جایا گا اور پھر پشت کی طرف سے ہاتھوں میں اعمال نامے دیدیئے جائیں گے۔ پل صراط بال سے زیادہ تاریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوگا، اس کو جہنم کی پشت پر یعنی اس کے دہانے پر قائم کیا جائے گا اور پھر ہر ایک کو اس کے اوپر سے گزرنے کا حکم دیا جائے گا، اہل ایمان کہ جو نجات یافتہ ہوں گے اپنے اعمال و مراتب کے اعتبار سے اس کے اوپر سے گزر جائیں گے اور جنت میں پہنچ جائیں گے، چند اہل کفر، جو مستوجب عذاب ہوں گے اس پر سے گر کر دوزخ میں جا پڑیں گے عافانا اللہ الکریم۔

【13】

حساب کتاب کا خوف

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آکر بیٹھ گیا اور عرض کرنے لگا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میرے پاس غلام ہیں جو مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں، میرے مال میں خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں، چناچہ میں ( از راہ تادیب و تنبیہ) ان کو برا بھلا کہتا ہوں اور ان کو مارتا ہوں تو ان کی وجہ سے قیامت کے دن ( اللہ تعالیٰ کے ہاں) میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا ( یعنی کیا مجھے ان کو برا بھلا کہنے ڈانٹنے ڈپٹنے اور مارنے پیٹنے کا حساب دینا ہوگا اور ان چیزوں کی وجہ سے میرا مواخذہ ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا) اور ہر شخص کے ایک ایک عمل اور ایک ایک چیز کی پوچھ گچھ ہوگی) تو غلاموں نے تمہارے مال میں جو خیانت کی ہوگی، تمہاری جو نافرمانی کی ہوگی اور تمہارے ساتھ جو جھوٹ بولا ہوگا، ان سب کا حساب ہوگا، اسی طرح تم نے ان کو جو کچھ سزا دی ہوگی اس کا بھی حساب ہوگا پس اگر تمہاری دی ہوئی سزا ( رائج ضابطہ اخلاق و قانون اور عام عادت معمول کے مطابق) ان کے جرائم کے بقدر ثابت ہوئی تو تمہارا برابر سرابر رہے گا کہ نہ تمہیں کوئی ثواب ملے گا اور نہ تم پر کئی عذاب ہوگا کیونکہ اس صورت میں کہا جائے گا کہ تم نے ان کے ساتھ حالات کے مطابق اور مباح معاملہ کیا ہے جس پر تم کسی مواخذہ و عذاب کے مستوجب نہیں ہوگے) اور تم نے ان کو سزا دی ہوگی وہ اگر ان کے جرائم سے کم ثابت ہوگی تو وہ تمہارا زائد حق ہوگا ( یعنی تمہارا ان کو ان کے جرائم سے کم سزا دینا ان پر تمہارے لئے ایک ایسے حق کو واجب کر دے کہ اگر تم چاہو گے تو اس کے عوض تمہیں انعام دیا جائے گا ورنہ نہیں) اور تمہاری دی ہوئی سرزا ان کے جرائم سے زیادہ ہوگی تو پھر ان کے لئے تم سے اس زیادتی کا بدلہ لیا جائے گا ( یعنی اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرے گا کہ تم نے چونکہ اپنے ان غلاموں کو ان کے جرائم سے زیادہ سزا دی تھی جس کا تمہیں کوئی حق نہیں تھا لہذا اب تم اپنے ان غلاموں کو اس زیادتی کا بدلہ دو ) وہ شخص ( آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد سن کر) الگ جا بیٹھا اور رونے چلانے لگا پھر رسول کریم ﷺ نے اپنے اس ارشاد کو مؤ کد اور ثابت کرنے کے لئے) فرمایا کہ کیا تم ( قرآن کریم میں) اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھتے ہو کہ ونضح الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیأ وان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا وکفی بنا حاسبین۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اور قیامت کے دن ہم عدل و انصاف کی میزان کھڑی کریں گے ( جس کے ذریعہ سب کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک وزن کیا جائے گا) پس کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا ( یعنی جس کا بھی حق ہوگا وہ اس کو یقینًا دلوایا جائے گا اور اگر ( کسی کا) عمل رائی کے دانہ کے برابر ہوگا تو ( اس سے صرف نظر نہیں کی جائے گا بلکہ) ہم اس کو (بھی وہاں) حاضر کریں گے اور ہم حساب لینے ولے کافی ہیں ( یعنی ہمارے وزن اور حساب کے بعد حساب کتاب کی اور کسی مرافعہ کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ ہم سے بڑھ کر عدل و انصاف کرنے والا اور کوئی نہیں ہے اور اس وقت ہمارا فیصلہ بالکل آخری فیصلہ ہوگا جس پر کسی کو شک وشبہ کرنے کی ہم گنجائش ہی نہیں چھوڑیں گے) اس شخص نے ( یہ سن کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میں اپنے اور ان غلاموں کے حق میں ان کی جدائی سے بہتر اور کوئی بات نہیں جانتا ( یعنی اس صورت میں میرا خیال ہے کہ قیامت کے دن کے محاسبہ ومواخذاہ سے بچنے اور وہاں کی جواب دہی سے محفوظ رہنے کی خاطر میرے اور میرے ان غلاموں دونوں کے حق میں سب سے بہتر بات یہی ہے کہ وہ مجھ سے الگ ہوجائیں بایں طور کہ میں ان کو آزادی دے دوں) لہٰذا میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ وہ سب غلام آزاد ہیں۔ ( ترمذی) تشریح میرے پاس غلام ہیں کے بارے میں احتمال ہے کہ اس شخص کے پاس غلام اور باندی، دونوں ہوں گے پس یہاں صرف غلام کا ذکر تغلیبا ہے۔ ط کان کفافا ( تو تمہارا معاملہ برابر رہے گا اصل میں کفاف اس چیز کو کہتے ہیں جو ضرورت و حاجت کے بقدر ہو، پس اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے ان غلاموں کو ان کے جرائم کے برابر سزا دی ہوگی تو تمہارا اور ان غلاموں کا معاملہ برابر سرابر رہے گا کہ قیامت کے دن نہ تو ان غلاموں پر تمہارا کوئی حق واجب ہوگا اور نہ تمارے اوپر ان غلاموں کا کوئی حق آئے گا۔ کان فضلا لک ( تو وہ تمہارا زائد حق ہوگا) فضل اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں جو واجب حق سے زیاد ہو ! پس اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا ان غلاموں کو ان جرائم سے کم سزا دینا قیامت کے دن تمہارے حق میں ایک ایسی خوبی بن جائے گا کہ اگر تم چاہو گے تو تمہیں اس کا اجر و انعام ملے گا لیکن واضح رہے کہ اجروانعام سے مراد حسن ثواب، قربت ونزدی کی اور درجہ و مرتبہ کی بلندی ہے نہ کہ نفس فعل کی جزاء کیونکہ بعض خوبی یا یوں کہہ لیجئے کہ بعض سچا عمل اجروثواب کے حسن و اضافہ اور درجہ و مرتبہ کی بلندی کے اعتبار سے تو مفید ہوتا ہے مگر نفس فعل کے اعتبار سے کسی الگ اجر وثواب کو واجب نہیں کرتا کہ عمل اختیار کرنے والا خواہ طالب ہو یا نہ ہو اس کو بہر صورت اجروثواب ملے، پس اس شخص کا اپنے غلاموں کو ان کے جرائم سے کم سزا دینا بھی اسی درجہ کی خوبی ہوگی کہ اگر وہ چاہے گا تو اس کی اس خوبی کو اس کے اجروثواب میں حسن و اضافہ اور اس کے مرتبہ ودرجہ کی بلندی کا سبب بنادیا جائے گا اور اگر وہ نہیں چاہے گا تو پھر اس کے نامہ اعمال میں اس خوبی کا کوئی الگ ثواب نہیں لکھا جائے گا۔ اس حدیث کے ذریعہ مالک و غلام اور آقاوخادم کے باہمی تعلق اور ان کے درمیان معاملات کی نزاکت کا اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو لوگ اپنے غلام اپنے خادم اور اپنے نوکروں کے ساتھ جانوروں کا ساسلوک کرتے ہیں، ان کو چھوٹی چھوٹی باتوں اور معمولی معمولی خطاؤں پر جس طرح بڑی بڑی سزائیں دیتے ہیں اور ان کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ان کو سخت جسمانی اور روحانی اذیت و تکلیف پہنچاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے حق میں کانٹے بوتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چائے کہ وہ دن یقینا آنے والا ہے جب احکم الحاکمین کی بارگاہ میں انہیں اپنے غلاموں اپنے نوکرچاکر اور اپنے خادموں کے تعلق سے اپنے ایک ایک فعل وعمل، ایک ایک برتاؤ اور ایک ایک زیادتی کی جواب دہی کرنی پڑے گی اور سخت حساب ومواخذہ سے دوچار ہونا پڑے گا۔ رہی ان صحابی کی بات جنہوں نے یہ حدیث سن کر، قرآن کی آیت سن کر اپنے حق میں یہی بہتر جانا کہ وہ اتنا بڑا دنیاوی نقصان برداشت کرکے اپنے غلاموں کو آزاد کردیں، تو ان کا تقوی، ان کا کمال احتیاط اور خوف اللہ سے ان کے دل کا معمور ہونا پوری طرح ظاہر ہوتا ہے اور یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ کمال عبدیت یہی ہے کہ انسان اس چیز کے سائے سے بھی اجتناب کرے جو کسی بھی درجہ میں مولیٰ کی ناراضگی اور آخرت کے نقصان کا خدشہ وواہمہ رکھتی ہو۔

【14】

آسان حساب اور سخت حساب

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو بعض نماز میں یہ دعا مانگتے سنا کہ اللہم حاسبنی حسابا یسیرا اللہ ! میرے اعمال کا آسان حساب لیجیو ! ( حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ) میں ( یہ سنا تو) عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی ﷺ ! آسان حساب کا کیا مطلب ہے اور اس کی کیا صورت ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا آسان حساب کی یہ صورت ہوگی کہ بندہ اپنے اعمال نامے کو دیکھ لے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمادے گا اور عائشہ (رض) ! حقیقت یہ کہ اس دن جس شخص کے حساب میں مناقشہ یعنی کاوش کی گئی تو ( بس سمجھ لو کہ) وہ برباد ہوگیا، یعنی وہ مستوجب عذاب ہونے سے بچ نہیں سکتا۔ ( احمد) تشریح بعض نماز سے یا تو یہ مراد ہے کہ آپ نے یہ دعا بس نماز میں مانگی تھی، وہ فرض نمازوں میں سے کوئی نماز تھی، یا نوافل میں سے کوئی نفل نماز تھی اور یا یہ کہ آپ ﷺ نے یہ دعا نماز کے کسی ایک حصہ یعنی ابتداء قیام میں، یا رکوع میں، یا قومے میں، یا سجدے میں اور یا قعدے میں مانگی تھی۔ آنحضرت ﷺ کا مذکورہ دعا مانگنا یا تو امت کی تعلیم کے لئے تھا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ سے آسان حساب کی دعا مانگا کریں تاکہ وہ اصل حساب کی سختیوں اور مواخذہ کی ہولناکی وشدت سے بچ جائیں اور ان پر اللہ کا فضل و احسان ہوجائے، یا آپ ﷺ نے یہ دعا لوگوں کو خواب غفلت سے ہوشیار کرنے کے لئے مانگی، کہ دیکھو چین و اطمینان کی چادر تان کر مت سو جاؤ، اس دن کا خیال کرو جب اپنے اعمال کے ساتھ خدائے جبار وقہار کی عدالت میں پیش ہونا ہے، اگر وہاں سخت مواخذہ میں گرفتار ہوگئے تو پھر عدل خداونی کسی حال میں معاف نہیں کرے گا، عذاب میں مبتلا ہو کر رہوگے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ابھی سے اپنے اعمال کی دنیا کو سنوار لو، اتنا تو کرلو کہ کچھ منہ لے کر اس کی بارگاہ میں پیش ہو سکو اور اس کے فضل و احسان کے مستحق بن سکو ! اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ پر خوف الہٰی کا غلبہ ہوا، احوال قیامت اور حساب کتاب کی ہولناکی کے خیال نے خشیت الٰہی اور خوف الہٰی سے دل وجان کو لرزاں کردیا، اس لئے آپ ﷺ نے یہ دعا مانگی۔ مناقشہ کے معنی ہیں جانچ کر حساب لینا، کوڑی کوڑی کا جھگڑا کرنا پس حساب میں مناقشہ کرنا یہ ہے ایک ایک عمل اور ہر عمل کے ایک ایک جزو کی پوری پوری چھان بین ہو، ہر فعل کی اچھی طرح جانچ پڑتال ہو اور رتی رتی کا حساب لیا جائے ظاہر ہے کہ اصل حساب یہی ہے اور اس حساب میں کوئی بھی بندہ پورا نہیں اتر سکتا، جو بھی شخص اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے محروم رہا اور اس کو آسان حساب کے بجائے اس سخت حساب سے دوچار کیا گیا تو وہ عذاب میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بندہ اپنے اعمال نامے کو دیکھ لے گا الخ یعنی جو بندے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے سائے میں ہوں گے ان کے ساتھ حساب کی صورت یہ ہوگی کہ ان کے سامنے ان کے اعمال نامے کھول ڈال دیئے جائیں گے اور اس کو دکھا دیا جائے گا کہ دیکھ تو نے یہ فلاں فلاں گناہ کا ارتکاب کیا بندہ ندامت و شرمندگی کے ساتھ گناہوں کا اعتراف و اقرار کرے گا۔ اور تب اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں سے درگزر فرما دے گا اور اس کو اپنی عنایت سے بخشش و مغفرت کا پروانہ عطا فرما دے گا اور اگر لفظ ینظر کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع کی جائے تو یہ بھی ہوسکتا ہے، اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اعمال نامے کو ایک نظر دیکھ لے گا اور پھر اس سے درگزر فرمادے گا۔

【15】

مؤمن پر قیامت کا دن آسان ہوگا

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ وہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ( یا رسول اللہ ﷺ مجھے یہ تو بتائیے، قیامت کے دن کہ جس کے بارے میں خدائے بزرگ و برتر یہ فرماتا ہے (يَّوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) 83 ۔ المطففین 6) ( جس دن کہ تمام لوگ ایک ایک جہان کے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوں گے، کس شخص کو ( حساب کے لئے) اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کی تاب ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کا دن مؤمن کے لئے آسان کردیا جائے گا یہاں تک کہ وہ دن اس پر فرض نماز ( کی ادائیگی کے وقت) کے بقدر رہ جائے گے۔ تشریح حضرت ابوسعید خدری (رض) نے آنحضرت ﷺ سے سوال کرتے ہوئے قرآن کے جن الفاظ کا حوالہ دیا، وہ دراصل پارہ عم کی سورت متطففین ( ویل للمطففین) کی ایک چھوٹی سی آیت ہے، اس سورت میں قیامت کے دن کے احوال اور اس دن اعمال کی جزاء و سزا دیئے جانے کا ذکر ہے اور چونکھ وہ دن اللہ کے عدل و انصاف کے اظہار کا دن ہوگا اس مناسبت سے اس سورت میں خاص طور سے بعض ان اعمال پر وعید مذکورہ ہے جو حقوق العباد سے تعلق رکھتے ہیں اور سماجی زندگی میں نہایت قابل نفرت سمجھتے ہیں جیسے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو ان الفاظ میں تہدید کی گئی ہے کہ الا یظن اولئک انہم مبعوثون لیوم عظیم یوم یقوم الناس لرب العلمین کیا ان لوگوں کو ( جو ناپ تول میں کمی کر کے حقوق العباد کو نقصان پہنچاتے ہیں) اس کا یقین نہیں ہے کہ وہ ایک بڑے سخت دن میں زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے جس دن کہ تمام لوگ ایک ایک جہاں کے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوں گے ( پس اس دن سے ڈرنا چائیے اور ہر اس برائی سے اجتناب کرنا چاہئے جس سے بندوں کے حقوق پر اثر پڑتا ہو، جس سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہو اور جس سے سماجی زندگی باہمی اطمینان و اعتماد سے محروم ہوتی ہو، جیسے کم ناپنا اور کم تولنا ! منقول ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اس سورت کی تلاوت شروع کی اور جب اس آیت (يَّوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) 83 ۔ المطففین 6) پر پہنچے تو خوف و خشیت الہٰی سے بےحال ہوگئے اور ان پر گریہ طاری ہوگیا اور پھر اس طرح روئے کہ اس کے بعد کی آیتوں کی تلاوت جاری رکھنے پر قادر نہیں ہوسکے۔ بہر حال حضرت ابوسعید خدری (رض) کے سوال کا حاصل یہ تھا کہ ایک تو قیامت کا دن خود اپنے اندر ہول و دہشت اور خوف و پریشانی کے صد ہزار عالم لئے ہوگا اور اس پر اپنے اعمال کا کچا چٹھا لے کر خداوند ذوالجلال کی پرہیبت بارگاہ میں پیش ہوگا، اس کے عدل و انصاف کی ہیبت اور اس کے لئے اس کی عدالت میں، اس کی پر جلال بارگاہ میں کھڑا ہو سکے ؟ لہٰذا آنحضرت ﷺ نے یہ بشارت عطا فرمائی کہ مسلمانوں کو بہر حال اطمینان رکھنا چاہئے کہ وہ دن اپنی تمام ہولنا کیوں کے باوجود ان کے حق میں ایک آسان دن ہوگا وہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کے سائے میں رہیں گے، اس لئے قیامت کا وہ پورا دن بس اتنے عرصہ میں گزر جائے گا جتنے عرصہ میں کوئی شخص فرض نماز پڑ لیتا ہے پس اس سلسلے میں ایک بات تو یہ ذہن میں رہنی چائے کہ مسلمان سے مراد کامل مسلمان ہے، یعنی عقیدہ وفکر کے اعتبار سے پختہ و صالح، اعمال و کردار کے اعتبار سے پاکباز و متقی اور پروردگار کی اطاعت و عبادت میں کامل ! اسی طرح فرض نماز کے بقدر سے مراد وہ عرصہ ہے جس میں فرض نماز کہ جس کی نہایت چار رکعتیں ہیں، ادا کی جاتی ہیں یا یہ کہ فرض نماز کا پورا وقت مراد ہے، یعنی جتنی دیر تک ایک فرض نماز ادا کرنے کا وقت رہتا ہے، اتنی دیر میں قیامت کا پورا دن گزر جائے گا رہی یہ بات کہ مسلمانوں کے حق میں قیامت کے دن کا فرض نماز کی ادائیگی کے وقت کے بقدر ہونے سے کیا یہ مراد ہے کہ ان کے حق میں قیامت کا دن واقعۃ اتنے مختصر سے عرصہ پر محیط ہوگا، یا یہ مراد ہے کہ وہ دن ہوگا تو بہت زیادہ لمبا طویل لیکن مسلمانوں کو وہ اتنا بڑا دن بس ایسا محسوس ہوگا جیسے ایک فرض نماز کے وقت بقدر ہو کر گزر گیا ہو ؟ تو اس سلسلہ میں یہی دوسرا پہلو مراد ہے یعنی وہ دن اپنی اتنی طوالت اور اتنی شدت وسختیوں کے باوجود مسلمانوں کے لئے اتنا ہلکا بنادیا جائے گا کہ ان کو وہ پورا دن ایک فرض نماز کے مختصر ترین عرصہ کے بقدر گزرتا ہوا معلوم ہوگا جب کہ کافروں کے حق میں اس کے برعکس ہوگا، چناچہ یہ تو اس دنیا میں بھی عام طور پر دیکھا جانا ہے کہ وقت اور مقدار کے اعتبار سے شب وروز کی گردش ہر شخص کے لئے یکساں ہوتی ہے لیکن جو لوگ عیش و راحت اور خوشحالی کے ساتھ ہوتے ہیں ان کے لئے چوبیس گھنٹوں کے وہی دن و رات لمحوں کے برابر گزرتے محسوس ہوتے ہیں جو مصائب وآلام اور پریشان حالی میں مبتلا لوگوں کے لئے سالوں کے برابر گزرتے معلوم ہوتے ہیں اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ قیامت کے دن کا مسلمانوں کے حق میں آسان وہلکا ہونا یکساں نوعیت نہیں رکھے گا بلکہ ہر مسلمان کے عقیدہ وعمل کے مراتب کے اعتبار سے الگ الگ نوعیت رکھے گا کہ جو شخص دنیا میں اپنے عقیدہ وعمل کے اعتبار سے زیادہ کامل رہا ہوگا وہ اس دن کو اور وہاں کے احوال کو اتنا ہی زیادہ آسان وہلکا مسحوس کرے گا اور دنیا میں جس شخص کا عقیدہ وعمل جتنا زیادہ کمزور رہا ہوگا وہ اس دن کو اتنا ہی کم آسان وہلکا محسوس کرے گا یہاں تک کہ کفار کو وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر معلوم ہوگا، چناچہ قرآن کریم کے ان الفاظ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ (تَعْرُجُ الْمَلٰ ى ِكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُه خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَ نَةٍ ۔ فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيْلًا۔ اِنَّهُمْ يَرَوْنَه بَعِيْدًا۔ ) 70 ۔ المعارج 6-5-4) فرشتے اور ( اہل ایمان کی) روحیں اس کے پاس ( علام بالا میں چڑھ کر جاتی ہیں ( اور وہ عذاب) ایسے دن میں ہوگا جس کی مقدار دنیا کے) پچاس ہزار سال کے برابر) ہے تو آپ ﷺ ( اہل کفر کی مخالفت پر) صبر کیجئے اور صبر بھی ایسا جس میں شکایت کا نام نہ ہو یہ لوگ ( یعنی اہل کفر) اس دن کو ( بد عقیدگی کی وجہ سے بعد ازو قوع دیکھ رہے ہیں اور ہم اس کو ( وقوع سے) قریب دیکھ رہے ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں اس دن سے مراد قیامت کا دن ہے جو اپنی درازی اور سختی کے اعتبار سے کفر کو اتنا لمبا معلوم ہوگا اور جس طرح ایمان کے مراتب میں تفاوت ہونے کی وجہ سے وہ ان اہل ایمان میں سے کچھ کو بہت آسان اور ہلکا معلوم ہوگا اور کچھ کو کم آسان اور ہلکا معلوم ہوگا، اسی اعتبار سے ایک آیت میں اس دن کو ایک ہزار سال کے برابر فرمایا گیا ہے پس بعض کافروں کو ہزار سال کے برابر اور بعض کافروں کو پچاس ہزار سال کے برابر معلوم ہوگا۔ (فَاِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُوْرِ ۔ فَذٰلِكَ يَوْمَى ِذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ۔ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ غَيْرُ يَسِيْرٍ 10) 74 ۔ المدثر 10-9-8) پھر جس وقت صور پھونکا جائے گا سو وہ وقت ( یعنی وہ دن کافروں پر ایک سخت دن ہوگا جس میں ذرا آسانی نہ ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اہل ایمان پر وہ دن بہت ہلکا اور آسان ہوگا اور وہ ہلکا وآسان ہونا ان کے ایمان وعمل کے اعتبار سے تفاوت رکھے گا۔ بہر حال اس حدیث میں مسلمانوں کے لئے واضح طور پر یہ ہدایت ہے کہ اگر وہ قیامت کے دن کو اپنے حق میں زیادہ سے زیادہ آسان وہلکا اور جلد گزر جانے والا بنانا چاہتے ہیں تو ان کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمان و عقیدہ کو زیادہ سے زیادہ پختہ بنائیں اور اپنی عملی زندگی کو زیادہ سے زیادہ طاعت و عبادت اور رضاء الہٰی کے کاموں سے مامور کریں۔

【16】

کمال ایمان رکھنے والے لوگ حساب کتاب کے بغیر جنت میں جائیں گے

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے اس دن ( قیامت کے دن) کے بارے میں پوچھا گیا جو پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا کہ اس کی درازی کیا ہوگی ( یعنی جب وہ دن اتنا زیادہ لمبا ہوگا تو لوگوں کا کیا حال ہوگا، کیا وہ حساب کتاب اور اپنا فیصلہ سننے کے لئے اس دن کھڑے رہ سکیں گے ؟ ) آنحضرت ﷺ نے ( یہ سن کر) فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے وہ دن کامل مسلمان پر آسان اور ہلکا کردیا جائے گا یہاں تک کہ وہ دن اس ( کامل مسلمان کے لئے اس فرض نماز ( کے وقت) سے بھی زیادھ آسان اور ہلکا ہوجائے گا جس کو وہ دنیا میں پڑھتا تھا ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے کتاب البعث والنشور میں نقل کیا ہے۔ تشریح یہ حدیث بھی پہلی حدیث کی طرح اہل ایمان کے حق میں بشارت ہے کہ اگر وہ ایمان کامل کے حامل ہیں اور ان کی دنیاوی زندگی اعمال صالح سے معمور ہے تو انہیں قیامت کے دن کی طوالت اور سختی سے مضطرب ہونے کی ضرورت نہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بےپایاں رحمتوں کے سائے میں ہوں گے اور وہ دن تمام درازی و سختی کے باوجود ان کے حق میں اس طرح گزر جائے گا جیسے انہوں نے کوئی فرض نماز پڑھ لی ہو

【17】

کمال ایمان رکھنے والے لوگ حساب کتاب کے بغیر جنت میں جائیں گے

اور اسماء بنت یزید (رض) ( ابن سکن) رسول کریم ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں کو ایک فراخ وہموار میدمان میں جمع کیا جائے گا، پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جن کے پہلو بستروں اور خواب گاہوں سے جدا رہتے تھے ( یہ اعلان سن کر) اہل محشر میں سے بہت تھوڑے لوگ ( جو اہل اسلام میں ہوں گے اٹھیں گے ( یعنی مجمع سے نکل کر باہر آئیں گے) اور حساب کتاب کے ( مرحلہ سے گزرے) بغیر جنت میں چلے جائیں گے، پھر باقی لوگوں سے حساب کا حکم دیا جائے گا ( اس روایت کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ تشریح (تَ تَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ) 32 ۔ السجدہ 16) ( جن کے پہلو بستروں اور خواب گاہوں سے جدا رہتے تھے) سے مراد یا تو وہ بندگان اللہ ہیں جو رات میں اپنی پر سکون نیند کی راحت سے صرف نظر کر کے اور اپنے آرام دہ بستروں اور خواب گاہوں کو چھوڑ کر اپنے خالق کی بارگاہ میں حاضری دیتے ہیں اور نماز تہجد پڑھتے ہیں ! اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ شاید وہ لوگ مراد ہوں جو صلوۃ الاوابین پڑھتے ہیں ! نیز یہ بھی احتمال ہے کہ ان سے وہ لوگ مراد ہوں جو عشا اور فجر کی نماز پڑھتے ہیں بہرحال حدیث کے ان الفاظ سے قرآن کریم کی ان آیتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے عبادت گزار اور پاکباز بندوں کو یوں متعارف کرایا ہے کہ (اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ 15 تَ تَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّمِ مَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ 16 فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ جَزَا ءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 17) 32 ۔ السجدہ 17-16-15) بس ہماری آیتوں پر تو وہ لوگ ایمان لائے ہیں کہ جب ان کو وہ آیتیں یاد دلائی جاتی ہیں تو وہ سجدے میں گرپڑتے ہیں اور اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرنے لگتے ہیں اور وہ لوگ ( ایمان لانے اور اللہ کے احکام ماننے سے) تکبر نہیں کرتے ( جیسا کہ کافر لوگ تکبر کرتے ہیں اور از راہ خوف اللہ کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہیں) نیز ( رات کو ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ رہتے ہیں ( خواہ عشاء فجر کی نماز یا تہجد کی نماز اور خواہ صلوۃ الاوبین پڑھنے کے لئے اور ان کے پہلو خواب گاہوں سے صرف علیحدہ ہی نہیں رہتے بلکہ وہ لوگ اپنے رب کو ثواب کی) امید اور ( عذاب کے) خوف سے پکارتے ہیں اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے ( ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں، پس کسی شخص کو خبر نہیں جو جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ایسے لوگوں کے لئے خزانہ غیب میں موجود ہے، یہ ان کو ان کے نیک اعمال کا صلہ ملا ہے پس ان آیات میں ان صفات اور خوبیوں کا ذکر ہے جو اہل ایمان کا خاصہ ہیں اور جن میں سے بعض صفات تو ایسی ہیں جن پر خود ایمان ہی موقوف ہے اور بعض صفات ایسی ہیں جن پر ایمان کا کامل ہونا موقوف ہے نیز مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان وعمل کا کمال رکھنے والے بندگان خاص قیامت کے دن حساب کتاب کے مرحلہ سے محفوظ رہیں گے ان پر کوئی سختی نہیں ہوگی ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا اور وہ اپنے رب کی بےپایاں عنایتوں اور رحمتوں کے سائے میں رہتے ہوئے حساب کتاب کے بغیر سیدھے جنت میں پہنچادیئے جائیں گے۔ الا الذین امنوا وعملوا الصلحت وقلیل ما ہم۔ مگر ہاں جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں ! اور ایک موقع پر یوں اراشاد ہوا ہے۔ وقلیل من عبادی الشکور۔ اور میرے بندوں میں ( طاعت و عبادت کے ذریعہ میرا) شکر ادا کرنے والے کم ہی ہوتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ اہل ایمان اور اہل حق کا اقلیت میں ہونا اور اس اقلیت میں ہونے کی وجہ سے ان کا مختلف قسم کے سماجی، معاشرتی اور سیاسی مصائب وآلام میں مبتلا ہونا اور طرح طرح کے ظلم وجور سہنا ان کے لئے کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے وہ تنگ دل اور مایوسی کا شکار ہوں بلکہ حقیقت میں ان کے اللہ کی طرف سے ان کے لئے ایک اعزاز اور ایک سعادت ہے اور آخر کار جس کا صلہ انہیں ابدی راحتوں اور نعمتوں کی صورت میں ملنے والا ہے اللہ کے ان بندگان خاص یعنی ایمان وعمل کا کمال رکھنے والوں کو حساب کتاب کے بغیر جنت میں اس لئے داخل کیا جائے گا کہ انہوں نے دنیا میں ہدایت کے راتسہ کو اختیار کیا، اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی فرمانبرداری کی، دین کی راہ پر استقامت و استقلال کے ساتھ چلے، اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے طاعت و عبادت کی مشقت برداشت کی، دنیا کی لذتوں اور راحتوں کو ترک کیا اور اس طرح انہوں نے صبر کا مقام اختیار کیا تو پھر ان کو اللہ کے یہاں کی سعادتوں اور بےپایاں راحتوں کا مستحق ہونا ہی ہے اور ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں یوں بشارت دیتا ہے کہ قل یعبادی الذین امنوا اتقوا ربکم للذین احسنوا فی ہذہ الدنیا حسنۃ وارض اللہ واسعۃ انما یوفی الصابرون اجرہم بغیر حساب ( اے محمد ﷺ آپ ﷺ ( مؤمنین کو میری طرف سے) کہیں کہ اے میرے ایمان والے بندو ! تم اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو ( یعنی طاعت پر دوام اور گناہوں سے پرہیز کرو) جو لوگ اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک صلہ ہے اور اللہ کی زمین فراخ ہے ( یعنی اگر تمہیں دین کر راہ میں اپنا وطن بھی چھوڑنا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کرو اور ہجرت کر کے دوسری جگہ چلے جاؤ) اور ( ہم وعدہ کرتے ہیں کہ دین کی راہ میں) اسقلال اختیار کرنے والوں ( اور ہر طرح کی مشقت و تکلیف پر صبر کرنے والوں کو) ان کا صلہ بےحسب ملے گا۔ میزان اور پل صراط کے بارے میں کچھ باتیں اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میدان حشر میں ( ترازو) کھڑی کرے گا جس کے دو پلے اور ایک چوٹی ہوگی اور اس ترازو کے ذریعہ بندوں کے نیک اور برے اعمال کو وزن کرے گا معتزلہ، مرجیہ اور فارجیہ فرقے کے لوگوں کو ترازو کے وجود سے انکار ہے وہ کہتے ہیں کہ ترازو سے مراد میزان عدل ہے، اعمال کا تولنا اور وزن کرنا مراد نہیں ہے لیکن قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی رو سے یہ لوگ جھوٹے ہیں خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ۔ ونضع الموازین القسط لیوم القیمۃ فلا تظلم نفس شیأ وان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا وکفی بنا حاسبین۔ اور وہاں ہم قیامت کے دن عدل کے لئے ترازو رکھیں گے ( اور سب کے اعمال کا وزن کریں گے) پس کسی پر کسی بات کا ظلم نہ ہوگا اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی کسی کی نیکی ہوگی تو اسے دی جائے گی ( یعنی اس نیکی کو وہاں حاضر کرکے میزان عدل میں رکھا جائے گا) اور ہم ہی حساب کے لئے کافی ہیں ایک موقع پر یوں فرمایا ہے۔ فاما من ثقلت موازینہ فہو فی عیشۃ راضیۃ واما من خفت موازینہ فامہ ہاویۃ۔ ( پھر اعمال کے وزن کے بعد) جس شخص ( کے ایمان وعمل) کا پلہ بھاری ہوگا وہ ہمیشہ عیش و راحت میں رہے گا اور جس شخص ( کے ایمان وعمل) کا پلہ ہلکا ہوگا وہ دوزخ میں جائے گا۔ پس عدل کی تعریف سب کی اور گرانی درست نہیں، بلکہ ظہار عدل کے لئے درحقیت ترازو میں اعمال کو تولنا مراد ہے اور علماء نے لکھا ہے کہ یہ ترازو اللہ تعالیٰ کے اپنے دست قدرت میں ہوگی کیونکہ بندوں کا حساب اللہ تعالیٰ بلند کرے گا اور ایک کو پست کرے گا۔ بیان کیا گیا ہے کہ بندوں کی نیکیاں رائی کے دانہ اور چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کے برابر ہوں گی جو بہت خوبصورت ہونگی، انہیں نور کے پلے میں رکھا جائے گا، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ پلہ بھاری ہوجائے گا برائیوں کی شکل بہت بھونڈی ہوگی اور انہیں ظلمت کے پلے میں رکھا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ پلہ ہلکا ہوجائے گا اعمال کے تلنے میں لوگوں کا حال تین طرح سے ہوگا بعض وہ ہوں گے جن کے نیک اعمال کا پلہ برے اعمال کے پلہ کی نسبت سے بھاری ہوگا، ایسے لوگ بہشت میں جائیں گے، دوسرا اگر وہ ان لوگوں کا ہوگا جن کے نیک اعمال کی نسبت ان کے برے اعمال کا پلہ بھاری ہوگا ایسے لوگ دوزخ میں جائیں گے، تیسرا گروہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہوگا جن کے نیک اعمال اور برے اعمال کے دونوں پلے برابر ہوں گے، ایسے لوگوں کو اعراف میں پہنچایا جائے گا اور پھر خواہ شفاعت کی وجہ سے سزا سے پہلے ہی خواہ سزا کے بعد ان کو بھی جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ اہل سنت کے نزدیک پل صراط پر ایمان لانا بھی واجب ہے، یہ وہ پل ہے جو دوزخ کی پیٹھ پر سے گزرتا ہے اور جو بال سے زیادہ باریک اور آگ سے زیادہ گرم اور تلوار سے زیادہ تیز ہے، قیامت کے دن تمام مخلوق کو اس پل پر سے گزارا جائے گا، جو اہل جنت ہوں گے وہ اپنے ایمان وعمل کے مراتب کے مطابق آسانی یا پریشانی کے ساتھ پل پر سے گزر کر جنت میں چلے جائیں گے اور جو اہل دوزخ ہوں گے وہ اس پر سے گر کر دوزخ میں جا پڑیں گے اہل ایمان کو ان کے عمل کے مطابق نور عطا کیا جائے گا جس کی روشنی میں وہ اس پل کے راستہ کو طے کریں گے ان میں سے بعض سوار ہو کر اور دوڑنے کر برابر ہوجائیں گے بعض گھٹنوں کے بل اور بعض سرین کے بل رینگتے ہوئے جائیں گے پل صراط کی مسافت آخرت کے سالوں کے حساب سے تین ہزار سال ہے ! ایک روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ دوزخ پر سات پل ہیں اور ہر پل کے درمیان ستر برس کی مسافت جتنا فاصلہ ہے اور ہر پل تلوار کی دھار جتنا تیز ہے اس کے اوپر سے گزرنے والے گروہوں میں سے پہلا گروہ آنکھ جھپکتے ہی گزر جائے گا دوسرا گروہ اس طرح گزرے گا جس طرح بجلی اچک لے جاتی ہے تیسرا گروہ تیز ہوا کہ طرح گزر جائے گا، چوتھا گروہ پرندوں کی سی تیزی کے ساتھ گزر جائے گا پانچواں گروہ گھوڑوں کی طرح دوڑ کر گزر جائے گا چھٹا گروہ دوڑتے ہوئے آدمیوں کی طرح سے عبور کرے گا اور ساتواں گروہ پیدل چلنے والے لوگوں کی طرح سے گزر جائے گا، ان سب کے بعد آخر میں ایک گروہ وہ باقی رہ جائے گا جب انہیں گزرنے کے لئے کہا جائے گا تو وہ اپنا پاؤں پل صراط پر رکھیں گے، مگر ان کے پاؤں لرزنے لگیں گے، چناچہ وہ گھٹنوں کے بل چلنے لگیں گے اور دوزخ کی آگ کی چنگاریاں ان کے پاؤں اور پوست تک پہنچیں گی، تب یہ لوگ پیٹ کے بل گھسیٹے چلیں گے پھر ہاتھوں کے ذریعہ پل کے ساتھ لپٹ جائیں گے، آگ بھی ان سے لپٹ جائے گی، تب آگ سے چھٹکارا پانے کے لئے وہ پیٹ کے بل گھسٹنے لگیں گے یہاں تک کہ دوزخ کو عبور کرلیں گے، عبور کرنے کے بعد پلٹ کر دوزخ کی طرف نگاہ دوڑائیں گے اور کہیں کے جس اللہ نے اس ( دوزخ) سے ہمیں پار کردیا ہے وہ پاک ہے، بیشک اس نے اپنے لطف و کرم سے میرے حال پر مہربانی فرمائی ہے، آج تک از اول تا آخر اس نے میرے سوا اور کسی پر فضل نہیں کیا، مجھے اپنے فضل سے پل صراط کے پنجہ سے رہائی دلائی۔