172. حوض اور شفاعت کا بیان

【1】

حوض اور شفاعت کا بیان

حوض کے معنی لغت میں حوض کے معنی ہیں پانی جمع ہونا اور بہنا۔ اسی لئے جو گندا خون عورتوں کو ہر مہینہ آتا ہے۔ حیض کہلاتا ہے اور یہ لفظ بھی حوض ہی سے مشتق ہے یہاں حوض سے وہ حوض ( ہز) مراد ہے جو قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کے لئے مخصوص ہوگا اور جس کی صفات و خصوصیات اس باب میں نقل ہونے والی احادیث سے معلوم ہوں۔ قرطبی (رح) نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے لئے دو حوض ہوں گے۔ ایک حوض تو میدان محشر میں پل صراط سے پہلے عطا ہوگا اور دوسرا حوض جنت میں ہوگا اور دونوں کا نام کوثر ہوگا۔ واضح رہے کہ عربی میں کوثر کے معنی ہیں خیر کثیر یعنی بیشمار بھلائیاں اور نعمتیں ! پھر زیادہ صحیح یہ ہے کہ میدان حشر میں جو حوض عطا ہوگا وہ میزان کے مرحلہ سے پہلے ہی ہوگا پس لوگ اپنی قبروں سے پیاس کی حالت میں نکلیں گے اور پہلے حوض پر آئیں گے۔ اس کے بعد میزان ( یعنی اعمال کے تولے جانے) کا مرحلہ پیش آئے گا۔ اسی طرح میدان حشر میں ہر پیغمبر کا اپنا حوض ہوگا جس پر اس کی امت آئے گی چناچہ اس وقت تمام پیغمبر آپس میں فخر کا اظہار کریں گے کہ دیکھیں کس کے حوض پر زیادہ لوگ آتے ہیں ہمارے حضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں امید رکھتا ہوں کہ میرے حوض پر آنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔ شفاعت کے معنی شفاعت کا مطلب ہے گناہوں کی معافی کی سفارش کرنا ! چناچہ حضرت محمد ﷺ قیامت کے دن بارگاہ رب العزت میں گنہگار اور مجرم بندوں کے گناہوں اور جرموں کے معاف کئے جانے کی درخواست پیش کریں گے اس لئے عام طور پر شفاعت کا لفظ اسی مفہوم کے لئے استعمال ہوتا ! ویسے شفاعت کا لفظ شفع سے نکلا ہے جس کے اصل معنی جوڑا ( جفت) کرنے، کسی چیز کو کسی چیز کے ساتھ ملانے کے ہیں وتر ( بمعنی طاق) کے مقابلہ پر شفع ( بمعنی جفت) کا لفظ آتا ہے وہ اس معنی کے اعتبار سے ہے۔ اسی طرح زمین یا مکان میں ہمسائیگی کی وجہ سے جو حق خرید حاصل ہوتا ہے اس کو بھی شفعہ اسی معنی کی مناسبت سے کہا جاتا ہے۔ پس شفاعت میں بھی یہ معنی اس اعتبار سے موجود ہیں کہ شفاعت کرنے والا جرم و گناہ کرنے والے کی معافی کی درخواست پیش کر کے گویا خود کو اس مجرم و گناہ گار) کے ساتھ ملاتا ہے۔ شفاعت کی دو قسمیں جن لوگوں نے اس دنیا میں کبیرہ اور صغیرہ گناہ کیئے ہونگے ان کے حق میں آنحضرت ﷺ کی شفاعت کا قبول ہونا اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ واضح رہے کہ شفاعت کی مختلف نوعیتیں ہوں گی۔ اور وہ تمام نوعیتیں آنحضرت ﷺ کی ذات کے لئے ثابت ہیں چناچہ ان میں سے بعض تو ایسی ہیں جو صرف آنحضرت ﷺ کی ذات سے مخصوص ہوں گی اور بعض ایسی ہیں جن میں دوسروں کے ساتھ مشارکت ہوگی لیکن شفاعت کا دروازہ چونکہ سب سے پہلے آپ ﷺ ہی کھولیں گے اس لئے حقیقت میں تمام شفاعتیں لوٹ کر آپ ﷺ ہی کی طرف منسوب ہوں گی اور علی الاطلاق تمام شفاعتوں کے والی آپ ﷺ ہی ہیں۔ شفاعت کی سب سے پہلی قسم شفاعت عظمی ہے اور یہ وہ شفاعت ہے جو تمام مخلوق کے حق میں ہوگی۔ اور یہ شفاعت کرنے کا شرف صرف ہمارے حضرت محمد ﷺ کو حاصل ہوگا۔ انبیاء کرام صلواۃ اللہ علیہم اجمعین میں سے بھی کسی کو اس شفاعت کی مجال وجرأت نہیں ہوگی اور اس شفاعت عظمی سے مراد ہے تمام میدان حشر کے لوگوں کو راحت دینے، وقوف کی طوالت وشدت کو ختم کرنے، حساب کتاب اور پروردگار کے آخری فیصلے کو ظاہر کرنے اور تمام لوگوں کو محشر کی ہولنا کیوں، شدتوں اور سختیوں سے چھٹکارا دینے کی سفارش کرنا اس کی تفصیل احادیث سے معلوم ہوگی ! شفاعت کی دوسری قسم وہ ہے جس کے ذریعہ ایک طبقہ کو حساب کتاب کے بغیر جنت میں پہنچانا مقصود ہوگا۔ آنحضرت ﷺ کی ذات کے لئے اس شفاعت کا ثبوت بھی منقول ہے بلکہ بعض حضرات کے نزدیک یہ شفاعت بھی آنحضرت ﷺ ہی کی ذات کے لئے مخصوص ہے۔ شفاعت کی تیسری قسم وہ ہے جس کی مدد سے ان لوگوں کو جنت میں پہنچانا مقصود ہوگا جن کے نامہ اعمال میں ثواب اور گناہ مساوی طور پر ہوں گے۔ شفاعت کی چوتھی قسم وہ ہے جس کے ذریعہ ان لوگوں کو جنت میں پہنچانا مقصود ہوگا جو اپنے گناہ اور جرائم کی سزا بھگتنے کے لئے دوزخ کے مستوجب قرار پائیں گے۔ چناچہ آنحضرت ان لوگوں کے حق میں شفاعت کریں گے اور ان کو جنت میں داخل کرائیں گے ! شفاعت کی پانچویں قسم وہ ہے جس کے ذریعہ کچھ لوگوں کے درجات و مراتب اور ان کے اعزازو اکرام میں ترقی اور اضافہ کرنا مقصود ہوگا شفاعت کی چھٹی قسم وہ ہے جو ان گناہ گاروں کے حق میں ہوگی جنہیں دوزخ میں ڈالا جائے گا اور وہ اس شفاعت کے بعد وہاں سے نکال کر جنت میں پہنچائے جائیں گے، اس شفاعت کا حق مشترکہ ہوگا یعنی آنحضرت ﷺ کے علاوہ دوسرے انبیاء، ملائکہ، علماء اور شہدا بھی اپنے اپنے طور پر اور اپنے اپنے لوگوں کے لئے یہ شفاعت کریں گے۔ شفاعت کی ساتویں قسم وہ ہے جس کے ذریعہ ان لوگوں کے عذاب میں تخفیف کرانا مقصود ہوگا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب و دوزخ کے مستوجب قرار دئیے جا چکے ہوں گے۔ شفاعت کی نویں قسم وہ ہے جو صرف اہل مدینہ کے حق میں ہوگی اور شفاعت کی دسویں قسم وہ ہے جو امتیاز واختصاص کے طور پر صرف ان لوگوں کے حق میں کی جائے گی۔ جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے روضہ اقدس کی زیارت کا شرف حاصل کیا جائے گا۔ علماء نے کہا ہے کہ شفاعت کے متعدد مواقع ومحل ہوں گے، شفاعت کا سب سے پہلا موقع تو وہ ہوگا جب لوگوں کو درگاہ رب العزت میں پیش کرنے کے لئے میدان محشر میں لا کھڑا کردیا جائے گا۔ اس وقت لوگ خوف وخجالت کے پسینے میں غرق ہوں گے، ہر ایک پر ہیبت و دہشت چھائی ہوگی ہر شخص مواخذہ و عذاب کے خوف سے کانپ رہا ہوگا اس وقت شفیع المذنبین ﷺ شفاعت کریں گے تاکہ لوگوں کو کچھ اطمینان و راحت مل جائے اور وہ بیٹھ کر دم لے سکیں پھر جب درگاہ رب العزت سے حکم ہوگا کہ ان سب کو لے جایا جائے اور حساب لیا جائے تو اس موقع پر بھی آپ ﷺ درخواست کریں گے کہ ان کو حساب سے مستثنی قرار دیا جائے اور یوں ہی معاف فرما دیا جائے اور اگر سب کا حساب ضروری لیا جانا ہو تو سرسری حساب پر اکتفا کرلیا جائے، حساب میں سختی وشدت اور سخت باز پرس نہ کی جائے، کیونکہ جو بھی سخت حساب سے دوچار ہوگا، اس کا عذاب سے بچنا ممکن ہی نہیں ہوگا۔ پھر حساب کے بعد جو لوگ مستوجب عذاب قرار پائیں گے، ان کو دوزخ میں بھیجا جائے گا تو یہ موقع بھی شفاعت کا ہوگا تاآنکہ ان کو دوزخ میں بھیج دیا جائے گا تو آنحضرت ﷺ شفاعت کریں گے اور ان کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں پہنچوائیں گے۔ غرضیکہ ان ہولناکی مواقع پر شروع سے لے کر آخر تک رسول مختار ﷺ کی شفاعت اور غفار وکریم پروردگار کی رحمت و عنایت سے عفو و کرم کی بہت کچھ امید رکھنی چاہئے۔ ویسے جو کچھ بھی فیصلہ صادر ہو۔

【2】

حوض کوثر کے دونوں کناروں پر بڑے بڑے موتیوں کے قبے ہونگے

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ میں ( معراج کی رات میں) جنت کی سیر کر رہا تھا کہ اچانک میرا گزر ایک نہر پر ہو ! جس کے دونوں طرف موتیوں کے گنبد تھے میں نے پوچھا کہ جبرائیل (علیہ السلام) یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یہ حوض کوثر ہے جو آپ ﷺ کو آپ کے پروردگار نے عطا کیا ہے۔ پھر جو میں نے دیکھا تو اس کی مٹی مثل مشک تیز خوشبودار تھی۔ ( بخاری) تشریح مجوف کے معنی ہیں کھوکھلا ! مجوف موتی کے گنبدے سے مراد یہ ہے کہ حوض کوثر کے دونوں کناروں پر جو گنبد اور قبے ہیں وہ اینٹ پتھر اور چونے گارے جیسی چیزوں سے تعمیر شدہ نہیں ہیں بلکہ ہر گنبد دراصل ایک بہت بڑا موتی ہے جو اندر سے کھوکھلا ہے اور جس میں نشست ورہائش کی جملہ آسائشیں موجود ہیں جو آپ ﷺ کو آپ ﷺ کے پروردگار نے عطا کیا ہے۔ کے ذریعہ آیت کریم انا اعطینک الکوثر کی طرف اشارہ ہے جس کی تفسیر میں بہت سے مفسروں نے کہا ہے کہ اس آیت کریمہ میں کوثر سے مراد خیر کثیر یعنی بیشمار بھلائیاں اور نعمتوں کی کثرت ہے جو پروردگار نے آنحضرت ﷺ کو عطا فرمائی ہے، اس میں نبوت و رسالت، قرآن کریم اور علم و حکمت کی نعتیں بھی شامل ہیں اور امت کی کثرت اور وہ تمام مراتب عالیہ بھی شامل ہیں جن میں ایک بہت بڑی نعمت آپ ﷺ کو آخرت میں مقام محمود، لوائے ممدود اور مذکورہ حوض کا عطا کیا جانا ہے۔ اس اعتبار سے اس بارے میں کوئی منافات نہیں ہے کہ کوثر سے مراد حوض کوثر ہے یا خیر کثیر مراد ہونے کی صورت میں بشمول حوض کوثر، تمام ہی نعمتیں اور بھلائیاں اس میں شامل ہوجائیں گی اس طرح حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے مذکورہ جواب کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو جو کوثر عطا کیا ہے اسی میں کی ایک چیز یہ حوض کوثر ہے ! بعض مفسرین نے کوثر کی مراد اولاد اور علماء امت لکھا ہے، لیکن یہ قول بھی خیر کثیر کے قول کے منافی نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں ( یعنی اولاد اور علماء امت) بھی خیر کثیر ہی میں داخل ہیں۔

【3】

حوض کوثر کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ یعنی حوض کوثر، ایک ماہ کی مسافت کے بقدر دراز ہے اور اس کے چاروں کنارے برابر ہیں ( یعنی لمبائی چوڑائی میں وہ مربع ہے) اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور اس کی بومشک سے زیادہ خوشبودار ہے اور اس کے آب خورے ( اپنی چمک ودمک اور کثرت و زیادتی کے اعتبار سے آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں اور جو شخص اس کا پانی پی لے گا اس کو پھر کبھی پیاس نہ لگے گی۔ ، ( بخاری ومسلم ) تشریح اس کو پھر کبھی پیاس نہ لگے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنت میں پانی یا کسی بھی مشروب کا پینا پیاس کی وجہ سے نہیں بلکہ حصول لذات کے لئے ہوگا جیسا کہ جنت میں کوئی چیز کھانا، بھوک کی بنیاد پر نہیں بلکہ ازراہ تنعم ہوگا کیونکہ جنت تو وہ نظام ہے جہاں کسی کو نہ بھوک لگے گی اور نہ پیاس، قرآن کریم میں اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ فرمایا گیا ہے، وان لک ان لا تجوع فیہا ولا تعری وانک لا تظموأ فیہا ولا تضحی یعنی یہاں جنت میں تو تمہارے لئے ( یہ آرام) ہے کہ تم نہ کبھی بھوکے رہو گے اور نہ ننگے ہوگے بلا شبہ تم نہ یہاں پیاسے ہوگے اور نہ دھوپ میں تپوگے۔

【4】

حوض کوثر کی درازی اور اس کی خصوصیات

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میرے حوض یعنی حوض کوثر کے دونوں سروں کے درمیان کا فاصلہ ایلہ اور عدن کے درمیانی فاصلہ سے بھی زیادہ ہے اور بلاشبہ اس حوض کا پانی برف سے بھی زیادہ سفید اور شہد سے بھی زیادہ شیریں ہے جس میں دودھ ملا ہوا ہے اور اس کے آبخورے آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں اور یقینا میں دوسری امتوں کے لوگوں کو اس حوض پر آنے سے اس طرح روکوں گا اور بھگاؤں گا جس طرح کوئی شخص غیر لوگوں کے اونٹوں کو اپنے حوض پر آنے سے روکتا ہے ( اور یہ روکنا اس وجہ سے ہوگا تاکہ امت محمدی ﷺ کی اس فضیلت وخصوصیت میں دوسرے لوگ شریک نہ ہوں اور اس امت کے لوگ دوسری امتوں کے لوگوں سے ممتاز ومنفرد ہیں) صحابہ نے ( یہ سن کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ( اس وقت) آپ ہمیں پہچان لیں گے ؟ ( یعنی تمام مخلوق کے اتنے زبردست ازدحام میں کیا آپ کے لئے ممکن ہوگا کہ اپنی امت اور دوسری امتوں کے لوگوں کے درمیان امتیاز کرلیں اور وہ کونسی علامت ہوگی جس کو دیکھ کر آپ ﷺ اپنے امتیوں کو پہچان کر حوض کوثر پر آنے دیں گے اور غیر امتیوں کو وہاں آنے سے روکیں گے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں میں تمہیں ( بڑی آسانی کے ساتھ) پہچان لوں گا دراصل تمہاری ایک خاص علامت ہوگی، جس سے دوسری امت کے لوگ محروم ہوں گے اور وہ علامت یہ ہوگی کہ جب تم میری طرف آؤ گے تو اس وقت تمہاری پیشانیاں اور تمہارے ہاتھ پاؤں، وضو کی نورانیت کے سبب روشن اور چمکدار ہوں گے۔ ( مسلم) اور مسلم کی ایک اور روایت میں جو حضرت انس (رض) سے منقول ہے، یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اس حوض میں سونے چاندی کے آبخوریے ہوں گے جو ( اپنی چمک دمک اور) تعداد کے اعتبار سے آسمان کے ستاروں کی طرح دکھائی دیں گے۔ اور مسلم ہی کی ایک اور روایت میں حضرت ثوبان سے یوں منقول ہے کہ انہوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ سے اس حوض کے پانی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے۔ اس حوض کو لبریز رکھنے کے لئے اس میں دو زوردار پر نالے گرتے ہیں جو جنت ( کی اس ہز) سے آتے ہیں ( جس کا نام بھی کوثر ہے) ان میں کا ایک نالہ سونے کا ہے اور چاندی کا۔ تشریح ایلہ ایک شہر کا نام ہے جو ملک شام کا ایک ساحلی علاقہ تھا اور آج کل اسرائیل کی حدود میں واقع اور اس کی ایک بندگاہ ہے جس کا موجودہ نام ایلات ہے یہ شہر بحر احمر ( جس کو بحیرہ قلزم اور انگریزی میں ریڈسی کہتے ہیں) کے شمالی سرے پر واقع ہے۔ اور عدن، بحر احمر کے جنوبی سرے پر واقع ایک مشہور جزیرہ نما کا نام ہے جو کبھی یمن کا ایک شہر اور اس کی بندرگاہ تھا حضور ﷺ کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ ایلہ اور عدن کے درمیان جتنا فاصلہ ہے اتنا ہی فاصلہ میرے حوض کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا ہے ! واضح رہے کہ اس سلسلہ میں جو روایات منقول ہیں ان میں حضور ﷺ نے اپنے حوض کے دونوں سروں کے درمیانی فاصلے کو ظاہر کرنے کے لئے متعدد شہروں اور علاقوں کا ذکر فرمایا ہے، مثلا اس حدیث میں مابین صنعاء اور مدینہ کا ذکر ہے، تو ان تمام حدیثوں میں مفہوم کی مطابقت ویکسانیت پیدا کرنے کے لئے یہ کہا جائے گا کہ مذکورہ شہروں کے درمیانی فاصلوں کے ذریعہ حوض کوثر کے دونوں سروں کے درمیانی فاصلہ اور اس کی درازی کو ظاہر فرمانا تحدید یعنی حد بندی کے طور پر نہیں ہے بلکہ تمثیلا اور تقریبا ہے۔ مطب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس سلسلہ کی جو بھی حدیث ارشاد فرمائی اور جو اشخاص اس وقت آپ ﷺ کے مخاطب تھے ان کی سمجھ بوجھ اور ان کی ذاتی معلومات کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے سامنے محض تمثیل کے طور پر بیان فرمایا کہ میرے حوض کے دونوں سروں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہے جتنا فلاں شہروں کا درمیانی فاصلہ ہے۔

【5】

مرتدین کو حوض کوثر سے دور رکھا جائے گا

اور حضرت سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میں حوض کوثر پر تمہارا امیر سامان ہونگا ( یعنی وہاں تم سب سے پہلے پہنچ کر تمہارا استقبال کروں گا) جو شخص بھی میرے پاس سے گزرے گا وہ اس حوض کوثر کا پانی پئے گا اور جو شخص بھی اس کا پانی پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہیں رہے گا۔ وہاں میرے پاس ( میری امت کے) کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچان لوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے لیکن پھر میرے اور ان کے درمیان کوئی چیز حائل کردی جائے گی ( تاکہ وہ مجھ سے اور حوض کوثر سے دور رہیں ) ۔ میں ( یہ دیکھ کر) کہوں گا کہ یہ لوگ تو میرے اپنے ہیں ! ؟ ( یعنی یہ لوگ میری امت کے افراد ہیں، یا یہ کہ یہ وہ لوگ ہیں جو میرے صحابی رہے ہیں، پھر ان کو میرے پاس آنے سے کیوں روکا جارہا ہے ! ؟ ) اس کے جواب میں مجھے بتایا جائے گا کہ آپ ﷺ کو نہیں معلوم، انہوں نے آپ ﷺ کے بعد کیا کیا نئی باتیں پیدا کیں ہیں ( یہ سن کر) میں کہوں گا کہ وہ لوگ دور ہوں مجھ سے اللہ کی رحمت سے دور، جنہوں نے میری وفات کے بعد دین وسنت میں تبدیلی کی۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح حدیث میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ حوض کوثر کی طرف آئیں گے لیکن ان کو آنحضرت ﷺ اور حوض کوثر سے دور رکھا جائے گا، ان کے بارے میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ وہ کون لوگ ہوں گے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ مراد ہیں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مسلمان ہوگئے تھے اور جب تک آپ ﷺ اس دنیا میں رہے مسلمان ہی رہے، لیکن آپ ﷺ کی وفات کے بعد وہ مختلف گمراہ کن تحریکوں جیسے مسیلمہ کذاب کے جھوٹے دعوی نبوت وغیر کا شکار ہو کر اسلام سے پھرگئے اور مرتد ہوگئے ت ہے پس حدیث کا مضمون گزشتہ باب الحشر کی چوتھی حدیث، جو حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے، کے مضمون کی طرح ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن میدان حشر میں جب میں اپنے کچھ لوگوں کو دوزخ کی طرف لیجاتے ہوئے دیکھوں گا تو کہوں گا کہ یہ تو میرے صحابہ ہیں، یہ تو میرے صحابہ ہیں ؟ ! لیکن پھر مجھے بتایا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آپ ﷺ کے سامنے مسلمان تھے لیکن آپ ﷺ کے بعد اسلام سے پھرگئے تھے۔ لہذا اس حدیث کے ضمن میں جو تشریح و تاویل کی گئی ہے اس کو یہاں بھی پیش نظر رکھا جائے۔ ایک احتمال یہ ہوسکتا ہے کہ اس حدیث میں مذکورہ لوگوں سے مراد اہل بدعت ہوں جو دین میں نئی باتیں نکالتے ہیں لیکن یہ بات چونکہ ثابت ہے کہ اس امت کا کوئی بھی گناہ گار خواہ اس کا گناہ کتنا ہی بڑا ہو، حوض کوثر پر آنے اور اس کا پانی پینے سے روکا نہیں جائے گا، اس لئے یہ احتمال سرے سے رد ہوجاتا ہے ہاں اگر بدعت کا تعلق دین وملت میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرنے سے ہو جس سے اصول دن کی نفی ہوتی ہو اور نبوت و شریعت پر براہ راست اس طرح کی زد پڑتی ہو کہ اس پر کفر کا اطلاق ہوجائے تو اس درجہ کے اہل بدعت یقینا مرتد ہی کہلائیں گے اور ان لوگوں کو اس حدیث کا محمول قرار دیا جاسکتا ہے۔

【6】

شفاعت سے تمام انبیاء کا انکار

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت کے دن ( میدان حشر میں) مؤمنین کو روک دیا جائے گا ( یعنی سب کو کسی ایک جگہ اس طرح محصور کردیا جائے گا کہ کوئی شخص بھی کسی طرح کی نقل و حرکت نہیں کرسکے گا اور ہر شخص سکتے کی سی کیفیت میں ٹھہرا رہے گا) یہاں تک کہ سارے لوگ اس ( محصور ہوجانے) کی وجہ سے سخت فکر وتردد میں پڑجائیں گے، پھر وہ آپس میں تذکرہ کریں گے کہ کاش ہمیں کوئی ایسا شخص مل جاتا جو ہمارے پروردگار سے ہماری شفاعت کرتا اور ہمیں اس سختی و پریشانی سے چھٹکارا دلاتا اور پھر ( کچھ لوگ سب کی نمائندگی کرتے ہوئے) حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ آدم (علیہ السلام) ہیں، تمام لوگوں کے باپ، آپ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ( بلا کسی واسطہ وسیلہ کے) اپنے ہاتھ سے ( یعنی اپنی قدرت کاملہ سے) پیدا کیا، آپ (علیہ السلام) کو جنت کی سکونت عطا فرمائی اپنے فرشتوں سے ( تحیہ کا) سجدہ آپ (علیہ السلام) کو کرایا اور آپ (علیہ السلام) کو ہر چیز کے نام سکھائے براہ کرام آپ (علیہ السلام) اپنے پروردگار سے ( کہ جس نے آپ (علیہ السلام) کو اتنی زیادہ فضیلتیں اور اعزاز بخشے ہیں) ہماری سفارش کر دیجئے کہ وہ ہم کو اس ( سخت ہولناک اور پریشان کن) جگہ سے نکال کر راحت و اطمینان بخشے حضرت آدم (علیہ السلام) ( یہ سن کر کہیں گے) کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں ( یعنی میں یہ مرتبہ ( درجہ نہیں رکھتا کہ آج کے دن بارگاہ کبریائی میں شفاعت کرنے کا حوصلہ کروں) پھر حضرت آدم (علیہ السلام) اپنی اس لغزش کا ذکر کریں گے جو انہوں نے ( گیہوں کا) درخت کھانے کی صورت میں کی تھی درآنحالیکہ ان کو اس درخت کے قریب جانے سے بھی منع کردیا گیا تھا، ( اس کے بعد وہ کہیں گے کہ) تم لوگوں کو نوح (علیہ السلام) کے پاس جانا چاہئے ( وہ تمہاری شفاعت کرسکتے ہیں) کیونکہ وہ پہلے نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا والوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا تھا) وہ لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے ( اور ان سے شفاعت کے لئے درخواست کریں گے) حضرت نوح (علیہ السلام) جواب دیں گے کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں ! اور وہ اپنی اس لغزش کا ذکر کریں گے جو انہوں نے بےجانے بوجھے اللہ تعالیٰ سے ( اپنے بیٹھے کو غرق ہونے سے بچانے کی درخواست کرنے کی صورت میں کی تھی ( پھر وہ مشورہ دیں گے کہ) تم لوگوں کو ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جو اللہ تعالیٰ کے خلیل ( دوست ہیں، جانا چاہئے ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا وہ لوگ ( یہ سن کر) ابراہیم خلیل اللہ کے پاس آئیں گے ( اور ان سے شفاعت کی درخواست کریں گے) حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) جواب دیں گے کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں اور وہ دنیا میں تین مرتبہ اپنے جھوٹ بولنے کا ذکر کریں گے (پھر وہ مشورہ دیں گے کہ) تم لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ جو اللہ کے ایسے بندے ہیں جن کو اللہ نے ( اپنی عظیم الشان کتاب) توریت عطا کی) اور بنی اسرائیل کے تمام انبیاء کو ان کا تابع بنایا اور جن کو اللہ نے براہ راست اپنی ہم کلامی کے شرف سے نوازا اور ان کو اپنا کمال قرب عطا فرما کر اپنا محرم اسرار بنایا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا وہ لوگ ( یہ سن کر) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے ( اور ان سے شفاعت کے لئے درخواست کریں گے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کو جواب دیں گے کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں ! اور وہ اپنی اس لغزش کا ذکر کریں گے جو ایک قبطی کو قتل کرنے کی صورت میں سرزد ہوگئی تھی ( یعنی انہوں نے طیش میں آکر ایک قبطی کو مکا مار دیا تھا جس سے اس کا کام تمام ہوگیا تھا۔ پھر وہ مشورہ دیں گے کہ تمہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جانا چائے جو اللہ کے بندے اور رسول (علیہ السلام) ہیں۔ وہ سراسر روحانی ہیں ( کہ جسمانی مادہ کے بغیر محض اللہ کی قدرت سے پیدا ہوئے تھے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا وہ لوگ ( یہ سن کر) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئینگے ( اور ان سے شفاعت کے لئے کہیں گے) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جواب دیں گے کہ میں اس مرتبہ کا سزاوار نہیں ہوں ! البتہ تم لوگ محمد ﷺ کے پاس جاؤ جو اللہ کے ایسے بندے ہیں جن کے اگلے پچھلے سارے گناہ اللہ تعالیٰ نے بخش دیئے ہیں ( یقینا وہی تم لوگوں کی شفاعت کریں گے ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا تب لوگ ( شفاعت کی درخواست لے کر) میرے پاس آئیں گے اور میں ( ان کی شفاعت کے لئے تیار ہوجاؤں گا اور مقصد کی خاطر) در رب العزت پہنچ کر اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا، اللہ تعالیٰ مجھے اپنی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت مرحمت فرمائے گا ! میں جب اس کے حضور میں پہنچ کر اس کو دیکھوں گا تو اس کی ہیبت وخوف کے مارے اور اس کی تعظیم کرنے کے لئے) سجدہ میں گر پڑوں گا اور اللہ تعالیٰ جتنا عرصہ مناسب سمجھے گا اتنے عرصہ کے لئے مجھے سجدہ میں پڑا رہنے دے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ محمد ﷺ ! سر اٹھاؤ، جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو، تمہاری بات سنی جائے گی، تم ( جس کے حق میں چاہو) شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، اس کے بعد میں ( درگاہ رب العزت سے) باہر آؤں گا اور اس ( متعینہ) جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا پھر ( دوسری جماعتوں کے حق میں شفاعت کرنے کے لئے) میں دوبارہ در رب العزت پر حاضر ہو کر اس کی خدمت میں پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا مجھے اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت عطا کی جائے گی اور جب میں اس کے حضور میں پہنچ کر اس کو دیکھوں گا تو سجدہ میں گر پڑونگا اور اللہ تعالیٰ جب تک چاہئے گا مجھے سجدہ میں پڑا رہنے دے گا، پھر فرمائے گا کہ محمد ﷺ اپنا سر اٹھاؤ، جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو، تمہاری بات سنی جائے گی، شفاعت کے ساتھ کہ جو پروردگار مجھے سکھلائے گا اس کی حمد وثنا بیان کروں گا پھر میں شفاعت کروں گا اور میرے لئے شفاعت کی ایک حد مقرر کردی جائے گی، اس کے بعد میں ( درگاہ رب العزت سے) باہر آؤں گا اور اس متعینہ) جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا اور پھر میں تیسری مرتبہ بارگاہ رب العزت پر حاضر ہو کر اس کی خدمت میں پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا، مجھے اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت عطا کی جائے گی اور جب میں پروردگار کے حضور پہنچ کر اس کو دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا اور اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے سجدہ میں پڑا رہنے دے گا۔ پھر فرمائے گا محمد ﷺ اپنا سر اٹھاؤ، جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو، تمہاری بات سنی جائے گی۔ شفاعت کرو میں قبول کروں گا اور مانگو میں دوں گا۔ ( یہ سن کر) میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اس حمد و تعریف کے ساتھ کہ جو پروردگار مجھے سکھلائے گا اس کی حمد وثنا بیان کروں گا پھر میں شفاعت کروں گا اور میرے لئے شفاعت کی ایک حد مقرر کردی جائے گی۔ اس کے بعد میں ( درگاہ رب العزت سے) باہر آؤں گا اور اس ( متعینہ) جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا، یہاں تک کہ دوزخ میں ان کے علاوہ اور کوئی باقی نہیں رہ جائے گا جن کو قرآن نے روکا ہوگا ( یعنی اس آخری شفاعت کے بعد دوزخ میں وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جن کے بارے میں قرآن نے خبر دی ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے، چناچہ حدیث کے اس جملہ کی وضاحت حضرت انس کے نیچے کے روای حضرت قتادہ جو جلیل القدر تابعی ہیں ان الفاظ میں کی ہے کہ) اس کا مطلب یہ ہے کہ بس وہ لوگ دوزخ میں باقی رہ جائیں گے جو ( قرآن کے حکم کے بموجب) ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب دوزخ کے مستوجب قرار پاچکے ہیں ( اور وہ کفار ہیں) پھر آنحضرت ﷺ نے (یا حضرت انس یا حضرت قتادہ نے اس بات کو مستند کرنے کے لئے) قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی (عَسٰ ي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) 17 ۔ الاسراء 79) امید ہے کہ آپ ﷺ کا رب آپ ﷺ کو مقام محمود میں جگہ دے گا۔ اور پھر ( آنحضرت ﷺ نے یا حضرت انس نے یا حضرت قتادہ نے) یہ فرمایا کہ ( یہی وہ مقام محمود ہے، جس کا وعدہ اللہ نے تمہارے نبی ﷺ سے کیا ہے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح وہ پہلے نبی ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے۔۔ الخ۔ کے سلسلہ میں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے پہلے تین نبی حضرت آدم (علیہ السلام) ، حضرت شیث (علیہ السلام) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) دنیا میں آچکے تھے۔ تو حضرت نوح (علیہ السلام) دنیا والوں کی طرف آنے والے پہلے نبی کیونکر ہوئے ! ؟ اس کا واضح جواب یہ ہے کہ پہلے تینوں نبی جب دنیا میں آئے تو تمام روئے زمین صرف اہل کفر کی آماجگاہ نہیں تھی بلکہ اس دنیا میں اہل ایمان بھی موجود تھے اور گویا ان تینوں نبیوں کے مخاطب اہل ایمان اور اہل کفر دونوں تھے، ان کے برخلاف جب جضرت نوح (علیہ السلام) دنیا والوں میں آئے تو تمام روئے زمین پر صرف کافر ہی کافر تھے اہل ایمان کا وجود نہیں تھا، اس اعتبار سے حضرت نوح (علیہ السلام) دنیا میں آنے والے پہلے نبی ہیں جن کا واسطہ صرف کافروں سے تھا، اس اشکال کے کچھ اور جواب بھی علماء نے لکھے ہیں لیکن وہ زیادہ مضبوط نہیں ہیں۔ اس مقام پر خاص نکتہ کی طرف اشارہ کردینا ضروری ہے یہ جو فرمایا گیا ہے کہ جب تمام لوگ ابتدائی اور سب سے پہلے حضرت آدم کے پاس اور پھر یکے بعد دیگرے ایک ایک نبی کے پاس جائیں گے یہاں تک کہ آخر میں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کی درخواست کریں گے اور آپ ﷺ ان کی درخواست قبول کرلیں گے تو سوال یہ ہے کہ جب سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوگا کہ وہی ان لوگوں کے دلوں میں کسی شفاعت کرنے والے کے پاس جانے کا خیال ڈالے گا اور پہلا خیال حضرت آدم (علیہ السلام) کے بارے میں ہوگا کہ وہی ان کے دلوں میں آنحضرت ﷺ کا خیال ڈال دے اور وہ ایک ایک نبی کے پاس جانے کے بجائے صرف آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچ کر شفاعت کی درخواست کریں اور آپ ﷺ ان کی شفاعت کردیں تو یہ احتمال باقی رہے گا کہ دوسرے بھی شفاعت کرنے جرأت رکھتے ہوں گے اور اگر کسی اور نبی سے بھی شفاعت کی درخواست کی جاتی تو وہ بھی شفاعت کردیتا، لیکن جب وہ لوگ ایک ایک نبی کے پاس جا کر ان سے شفاعت کی دراخوست کریں گے اور ہر ایک شفاعت سے انکار کر دے گا اور پھر آخر میں آنحضرت ﷺ سے درخواست کی جائے گی جس کو آپ ﷺ قبول کرکے ان کا مقصد پورا کردیں گے تو آنحضرت ﷺ کا سب سے عالی مرتبہ ہونا اور بارگاہ کبریائی میں کمال قرب رکھنا واضح طور پر ثابت ہوجائے گا اور ہر ایک پر یہ عیاں ہوجائے گا کہ آپ ﷺ کے مرتبہ ودرجہ کا کوئی اور نہیں ہے۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہمارے حضرت محمد ﷺ تمام مخلوق، حتی کہ انسانوں فرشتوں اور تمام انبیاء تک پر فضیلت رکھتے ہیں کیونکہ شفاعت جو اتنا بڑا درجہ اور اتنا اہم کام ہے کہ کوئی بھی، خواہ وہ فرشتہ یا پیغمبر ہی کیوں نہ ہو اس کی جرأت و حوصلہ نہیں کرے گا صرف آنحضرت ﷺ کریں گے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی جس لغزش کا ذکر کیا، اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت نوح کو مسلسل جھٹلانے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی سزا میں دنیا والوں پر پانی کا عذاب نازل ہوا اور تمام روئے زمین پر ہلاکت خیز پانی ہی پانی پھیل گیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں اور اپنے ماننے والوں کی ایک مختصر تعداد کو لے کر ایک کشتی میں بیٹھ گئے تاکہ وہ سب طوفانی سیلاب کی ہلاکت خیزی سے محفوظ رہیں، اس وقت انہوں نے اپنے بیٹے کو جو کافروں کے ساتھ تھا، بلایا اور کہا کہ کافروں کے ساتھ وہ بھی غرق ہوگیا، اس موقع پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے اس بیٹے کے حق میں غرقابی سے نجات کی دعا مانگی تھے اور بارگاہ رب العزت میں یوں عرض کیا تھا کہ۔ رب ان ابنی من اہلی وان وعدک الحق وانت احکم الحاکمین۔ میرے پروردگار ! میرا یہ بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے، ( اس کو نجات دے) بیشک آپ کا وعدہ بالکل سچا ہے اور آپ احکم الحاکمین ہیں۔ (جاری)

【7】

شفاعت سے تمام انبیاء کا انکار

بقیہ) اللہ تعالیٰ سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی یہ درخواست چونکہ ایک ایسا امر تھا جس کو انہوں نے جانے بوجھے بغیر ظاہر کیا تھا اور اس بات کی تحقیق نہیں کرلی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ سے اس طرح کی دعا مانگنی چاہئے یا نہیں، اس لئے ان پر بارگاہ الٰہی سے عتاب نازل ہوا کہ نوح ہم سے وہ چیز نہ مانگو جس کی حقیقت کا تمہیں علم نہیں ہے اور جس کے بارے میں تم نہیں جانتے کہ وہ چیز مانگی جانی چاہئے یا نہیں۔ اور وہ دنیا میں تین مرتبہ جھوٹ بولنے کا ذکر کریں گے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی جن باتوں کو جھوٹ سے تعبیر کریں گے حقیقت میں ان پر جھوٹ کا اطلاق نہیں ہوسکتا، گو ظاہری حیثیت کے اعتبار سے وہ جھوٹ کی سی صورت رکھتی ہوں، لیکن انبیاء جس عالی مرتبہ کے ہوتے ہیں اور ان کا جو اونچا مقام ہوتا ہے اس کے پیش نظر ان کی اس طرح کی باتوں کو بھی جو ان کے مقام سے فروتر ہوں، بارگاہ رب العزت میں نظر انداز نہیں کیا جاتا اسی لئے یہ کہا گیا ہے کہ حسنات الا برار سئیات المقربین ( بعض باتیں نیکوں کے حق میں تو نیکیاں ہوتی ہیں لیکن مقربین کے حق میں برائیاں ہوتی ہیں۔ رہی یہ بات کہ وہ تین باتیں کیا تھیں جن کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جھوٹ کے طور پر اپنی لغزش بتائیں گے، تو ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ ایک دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم اپنے کسی میلہ میں تماشہ دیکھنے آبادی سے باہر جانے لگی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ارادہ کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ نہیں جاؤں گا اور جب یہ سب لوگ چلے جائیں گے تو ان کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر ان کے بت توڑ دوں گا جن کو یہ پوجتے ہیں اور میری باربار کی تلقین و تنبیہ کے باوجود بت پرستی سے باز نہیں آتے، چناچہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگوں کو جانا ہو تو جاؤ میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتا کیونکہ میں بیمار ہوں، ظاہر ہے کہ وہ دیکھنے میں جسمانی طور پر بیمار نہیں تھے اور ان کا یہ کہنا کہ میں بیمار ہوں بظاہر جھوٹ سمجھا جاسکتا ہے، لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ان کی یہ بات جھوٹ میں شمار نہیں کی جاسکتی کیونکہ جب انہوں نے یہ بات کہی تھی تو یہ مراد رکھ کر کہی تھی کہ تمہارے کفر وشرک اور تمہاری غلط حرکتوں نے میرے دل کو دکھی کردیا ہے اور میں تمہارے غم میں اندورنی طور پر بیمار ہوں، دوسری بات یہ تھی کہ قوم کے لوگوں کے میلے میں چلے جانے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا اور جب ان لوگوں نے واپس آکر دیکھا کہ آپ نے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ ان کا یہ جواب بھی اپنی ظاہری حیثیت میں ایک جھوٹ نظر آتا ہے، لیکن یہاں بھی وہی صورت حال ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات اس مراد کے ساتھ کہی تھی کہ یہ جو بڑا بت ہے یہ تمہاری عبادات و تعظیم کے لئے ایک ممتاز ومنفرد حیثیت رکھتا ہے لہٰذا اس کا وجود اس بات کا باعث بنا کہ میں دوسرے چھوٹے چھوٹے بتوں کو توڑ دوں یا اس بات سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقصد ان لوگوں کا مذاق اڑانا اور ان کو شرمندہ کرنا تھا کہ جس بت کو تم سب سے بڑا مانتے ہو اور سب سے زیادہ اس کی عبادت کرتے ہو، اس کی لاچاری اور بےوقعتی کا یہ عالم ہے کہ اس کے ساتھی بتوں کو توڑ پھوڑ ڈالا گیا مگر وہ کسی بت کو بچا نہیں سکا ایسی صورت میں کیا یہ بت تمہاری پرستش کا مستحق ہوسکتا ہے ! اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسا کہ ایک شخص تو بہت زیادہ خوشخط ہو اور اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا شخص بہت زیادہ بد خط ہو اور وہ بدخط شخص خوشخط شخص کی کسی لکھی ہوئی تحریر کو دیکھ کر کہے کہ کیا یہ تحریر تم نے لکھی ہے اور خوشخط شخص اس کے جواب میں کہے کہ جی نہیں، یہ تو تم نے لکھی ہے، ظاہر ہے کہ اس جواب کے ذریعہ وہ یہی واضح کرتا ہے کہ تم تو اتنی اچھی تحریر ہرگز نہیں لکھ سکتے، پھر یہاں میرے علاوہ اور کون لکھنے والا ہوسکتا ہے ! تیسری بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنی بیوی یعنی حضرت سارہ کو ایک بدکار کافر کے ہاتھوں سے بچانے کے لئے کہا تھا کہ یہ عورت میری بہن ہے یہ بات بھی بظاہر جھوٹ کے دائرہ میں آتی ہے، لیکن اگر اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ ایک مؤمن کی مؤمنہ بیوی بہرحال اس کی دینی بہن ہوتی ہے اور یہ بات کہنے سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مراد بھی یہی تھی کہ یہ عورت میری دینی بہن ہے، تو اس پر جھوٹ کا اطلاق کیسے ہوسکتا ہے، ویسے یہ بھی ملحوظ رہے کہ حضرت سارہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی چچازاد بہن بھی تھیں، اس اعتبار سے بھی ان کا سارہ کو بہن کہنا کوئی جھوٹ نہیں تھا۔ اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف آئے، دوسرے انبیاء کے برخلاف حضرت عیسیٰ شفاعت کی درخواست لے کر آنے والوں کے سامنے اپنے کسی عذر کو بیان نہیں کریں گے اور نہ اپنی کسی لغزش کا ذکر کریں گے، اس کی وجہ علماء نے یہ لکھی ہے کہ حضرت عیسیٰ اس وقت اپنا عذر بیان کرنے میں توقف شاید اسی لئے کرینگے کہ وہ اس تہمت کی وجہ سے جو عیسائیوں کی طرف سے ان کو اللہ کا بیٹا کہے جانے کی صورت میں ان پر تھوپی گئی ہے، اس درجہ شرمندہ ونادم ہوں گے کہ وہ اپنی خاموشی ہی کو زبان حال سے عذر بنالیں گے ویسے بعض روایتوں میں ان کے کچھ عذر نقل بھی کئے گئے ہیں، بہر حال اصل بات یہ ہے کہ شفاعت کا درجہ صرف ہمارے حضرت محمد ﷺ کو حاصل ہوگا جو سید المرسلین اور امام النبین ہیں، آپ ﷺ کے علاوہ دوسرے تمام انبیاء اور رسول صلوت اللہ علیہم اجمعین شفاعت کے مقام پر کھڑا ہونے اور بارگاہ رب العزت میں شفاعت کرنے سے عاجز و قاصر ہیں، ان کو یہ بلند بالا مرتبہ عطا ہی نہیں ہوا ہے، لہٰذا شفاعت کی درخواست لے کر آنے والوں کے سامنے انہیں کونسی عذر بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی اور وہ سب یا ان میں سے کچھ انبیاء کوئی عذر بیان کئے بغیر یہی کہیں گے کہ ہم اس عظیم الشان امر کے اہل نہیں ہیں۔ جن کے اگلے پچھلے سارے گناہ اللہ تعالیٰ نے بخش دیئے ہیں۔ اس جملہ کے سلسلہ میں واضح رہے کہ تمام ہی انبیاء معصوم عن الخطا یعنی گناہوں سے محفوظ ہیں چہ جائیکہ رسول کریم ﷺ کی ذات گرامی کہ آپ ﷺ تو بدرجہا اولی اس سے پاک ومنزہ ہیں کہ کسی گناہ کی نسبت بھی آپ ﷺ کی طرف ہو، پس یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کے سارے اگلے پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے بخش دیئے ہیں۔ یہ معنی رکھتا ہے ؟ اس کے بارے میں علماء نے مختلف باتیں کہی ہیں اور اس جملہ کی متعدد تاویلیں منقول ہیں، لیکن زیادہ واضح تاویل یہ ہے کہ یہ جملہ دراصل بارگاہ رب العزت کی جانب سے سید المرسلین ﷺ کی عظیم اعزاز اور آپ ﷺ کی برتر فضیلت کے اظہار کا ذریعہ ہے قطع نظر اس امر کے کہ آپ ﷺ سے کوئی گناہ سرزد ہوا اور اس کی بخشش کی جائے ! اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ جب کوئی امر مطلق اور بادشاہ اپنے کسی خاص مصاحب کو ہر حالت میں اپنا مطیع و فرمانبردار پرکھ لیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے تو اپنے دوسرے مصاحبوں اور رعایا کے لوگوں کے درمیان اس خاص مصاحب کی امتیازی اور مخصوص حیثیت کو ظاہر کرنے کے لئے اس سے یہ کہتا ہے کہ ہم نے تمہیں معاف کیا خواہ تم نے کچھ ہی کیا ہو اور آئندہ تم جو کرو وہ بھی معاف، تم پر کوئی مواخذہ اور گرفت نہیں۔ اور میں در رب العزت پر پہنچ کر اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا۔ یہ جملہ حدیث کی اس عبارت۔ کا آزاد ترجمہ ہے اگر اس عبارت کا لفظی ترجمہ کیا جائے تو وہ یوں ہوگا کہ پس میں اپنے پروردگار کے پاس اس کے مکان میں داخل ہونے کی اجازت طلب کروں گا۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس کے مکان سے مراد اس کی طرف سے عطا ہونے والے اجروثواب کی جگہ یعنی جنت ہے۔ لیکن یہ مراد گنجلک ہے، زیادہ واضح تاویل وہ ہے جو علامہ تورپشتی نے بیان کی ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ پروردگار کے پاس اس کے مکان میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے یہ اجازت مانگیں گے کہ وہ آپ ﷺ کو اس مقام میں داخل ہونے کی اجازت عطا کرے جہاں کسی کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے جہاں پہنچ کر جو بھی عرض ودعا کی جائے، اس کا منظور و مقبول ہونا یقینی ہے اور جہاں پہنچ کر کھڑے ہونے والے اور پروردگار کے درمیان کوئی حجاب حائل نہیں ہے اور یہ وہ مقام ہے جس کو مقام محمود سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی کو مقام شفاعت بھی کہتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ پروردگار تو مکان ولامکان کی قید سے پاک ہے۔ اس کو جہاں بھی پکارا جائے اور جس جگہ بھی اس سے عرض ودعا کی جائے وہ وہیں موجود ہے اور وہیں سنتا اور دیکھتا ہے تو پھر اس کی کیا ضرورت ہوگی کہ آنحضرت ﷺ میدان حشر میں جس جگہ لوگوں کی شفاعت کی درخواست قبول کریں گے وہاں سے چل کر اس مقام خاص پر بارگاہ رب العزت میں پیش ہونے کی اجازت طلب کریں گے اور پھر عرض ومعروض کریں گے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مؤقف ( یعنی میدان حشر کہ جہاں لوگ ٹھہرے ہوں گے) دراصل ایک ایسے ملکی نظام کی طرح ہوگا جو کسی باقاعدہ اور مہذب حکومت کے تحت ہو، جہاں ہر شخص کے مرتبہ ودرجہ کے مطابق طریق کار اور نظم عمل کا ( اصول کار فرما ہو، چناچہ اس وقت آنحضرت ﷺ شافع کی حیثیت رکھیں گے اور شافع کا یہ حق ہے کہ وہ اعزازو اکرام کی جگہ آکر کھڑا ہو، لہٰذا اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے دل میں یہ بات ڈالے گا کہ وہ اس جگہ سے چل کر جو خوف وہولنا کی اور وحشت و گھبراہٹ سے گھری ہوگی، اس جگہ آئیں جو آپ ﷺ کے اعزازو اکرام کا مقام ہے، تاکہ آپ وہاں اطمینان اور دلجمی کے ساتھ عرض ومعروض کرسکیں۔ اور اس حمد و تعریف کے ساتھ کہ جو پروردگار مجھے سکھلائے گا۔۔ الخ۔ سے حضور نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ اس وقت میں جن الفاظ، جس اسلوب اور جس انداز میں اللہ رب العزت کی تعریف و توصیف بیان کروں گا وہ کیا ہوگا۔ اس وقت اس کا علم مجھے بھی نہیں ہے وہ سب کچھ مجھے اسی وقت سکھایا اور بتایا جائے گا اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدوتعریف اس موقع اور اس مقام کی مناسبت سے جس قدر وسعت وگہرائی رکھ سکتی ہے اس کا ادراک یہاں کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اسی اعتبار سے اس مقام کو مقام حمد اور مقام محمود کہتے ہیں۔ حدیث کے اس جزو سے یہ بات ہوئی کہ جو شخص کسی سے سفارش کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ پہلے اس ( اس سفارش قبول کرنے والے کی تعریف و توصیف کرے تاکہ اس کا قرب اور اس کی توجہ حاصل کرسکے اور قبول سفارش سے نوازا جائے۔ پھر میں شفاعت کروں گا کے ضمن میں قاضی نے لکھا ہے کہ حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ (رض) ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی خوب خوب حمد و ثنا کریں گے اور پھر اس حمدو ثناء کے بعد شفاعت کی اجازت پا کر امتی امتی کہنا شروع کریں گے۔ اور میرے لئے شفاعت کی ایک حد مقرر کردی جائے گی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے سامنے یہ متعین فرما دے گا کہ ایسے ایسے گنہگاروں کی شفاعت کرو، مثلا وہ فرمائے گا کہ اپنی امت کے ان لوگوں کی شفاعت کرو جو زنا کار تھے، یا جو بےنمازی تھے اور یا جو شراب نوش تھے، چناچہ میں اسی تعین کے ساتھ شفاعت کروں گا اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے زانیوں کے حق میں تمہاری سفارش قبول کی، پھر فرمائے گا کہ میں نے بےنمازیوں کے حق میں تمہاری شفاعت قبول کی۔ اسی پر دوسرے طبقوں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اور اس جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا اس موقع پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حدیث کے شروع میں تو یہ مذکور ہے کہ شفاعت کی درخواست کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جن کو میدان حشر میں محصور کیا گیا ہوگا اور وہاں کی تنگی و سختی اور کرب وہولنا کی سے تنگ آکر آپ ﷺ کی سفارش چاہیں گے تاکہ آپ ﷺ انہیں اس جگہ کی پریشانیوں اور ہولنا کیوں سے نجات دلائیں لیکن یہاں حدیث کے اس جزو میں جب بارگاہ الٰہی میں حضور ﷺ کی شفاعت کرنے اور آپ ﷺ کی شفاعت قبول ہونے کا ذکر آیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس جماعت کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کراؤں گا تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کسے شفاعت کی درخواست کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جنہیں دوزخ میں بھیجا جا چکا ہوگا ! ؟ اس کے دو جواب ہیں، ایک تو یہ کہ شاید اہل ایمان کے دو طبقے ہونگے ایک طبقہ کو تو ( جو اپنے گناہوں کے سبب سزا کا مستوجب ہوگا) میدان حشر میں محصور کئے بغیر دوزخ میں بھیج دیا جائے گا اور یہی طبقہ آنحضرت ﷺ سے شفاعت کی درخواست کرے گا، چناچہ آپ ﷺ شفاعت کے ذریعہ اس طبقہ کو اس بدترین حالت سے کہ جس میں وہ گرفتار ہوگا نجات دلا کر جنت میں پہنچوائیں گے اور پھر اس کے بعد آپ ﷺ اس طبقہ کے حق میں جماعت جماعت کر کے شفاعت فرمائے گے جو دوزخ میں ڈالا جا چکا ہوگا اور متعدد دفعوں میں ان کو دوزخ سے نکلوا کر جنت میں داخل کروائیں گے ! اس جواب کا حاصل یہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے اس حدیث میں یہاں صرف اسی ایک طبقہ کا ذکر فرمایا اور اختصار کلام کے طور پر دوسرے طبقہ کے ذکر کو حذف فرما دیا کیونکہ اس ایک طبقہ کو نجات دلانے کے ذکر سے دوسرے طبقہ کو نجات دلانے کے ذکر سے دوسرے طبقہ کو نجات دلانا بطریق اولی مفہوم ہوجاتا ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ حدیث میں یہاں نار ( یعنی آگ) کا لفظ منقول ہے جس کا ترجمہ دوزخ کیا گیا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ نار یعنی آگ سے مراد دوزخ نہ ہو بلکہ وہ سخت حبس، تپش اور گرمی مراد ہو جو میدان حشر میں سورج کے بہت قریب آجانے کی وجہ سے وہاں محسوس کی جائے گی اور نکلوانے سے مراد اس سخت تپش اور گرمی سے لوگوں کو چھٹکارا دلانا ہو، اس صورت میں حدیث کی اس عبارت فاخرجہم من النار وادخلہم الجنۃ کا مفہوم یہ ہوگا کہ میں شفاعت قبول ہونے کے بعد درگاہ رب العزت سے باہر آؤں گا اور لوگوں کو سخت ترین تپش اور گرمی سے چھٹکارا دلا کر جنت تک پہنچواؤں گا یہ جواب اگرچہ ایک ایسی وضاحت ہے جس پر مجازی اسلوب کا اطلاق ہوسکتا ہے، مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہی جواب حقیقت امر کے بہت قریب ہے اور حدیث کے اصل موضوع کے نہایت مناسب ہے، کیونکہ اس ارشاد گرامی میں جس شفاعت کا ذکر ہو رہا ہے اس سے شفاعت عظمی مراد ہے جس کو آنحضرت ﷺ کے ایک ارشاد ادم ومن دونہ تحت لوائی یوم القیامۃ۔ کے بموجب مقام محمود اور لوائے ممدود سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس شفاعت عظمی کا اصل مقصد تمام مخلوق کو میدان حشر کی پریشانیوں اور ہولنا کیوں سے چھٹکارا دلانا، جہاں وہ حساب کے انتظار میں کھڑے ہوں گے اور ان کا حساب جلد کرنا ہوگا، نیز یہی وہ شفاعت ہے جو صرف آنحضرت کے لئے مخصوص ہے، اس کے بعد پھر خود آنحضرت ﷺ ، دوسرے انبیاء، اولیاء علماء، صلحا، شہدا اور فقراء کی طرف سے متعدد شفاعتیں ہوں گی جن کی تفصیل ابتدائے باب میں بیان ہوچکی ہے۔ یہی وہ مقام محمود ہے۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اس آیت میں حضور کے لئے جس مقام محمود کا وعدہ کیا ہے وہ اسی شفاعت عظمی کا مقام ہے جو آپ ﷺ کے سوا کسی اور کو عطا نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ اس مقام کی صفت لفظ محمود کے ساتھ یا تو اس اعتبار سے ہے کہ اس مقام پر کھڑا ہونے والا اس کی تعریف کرے گا اور اس کو پہچانے گا، یا اس اعتبار سے ہے کہ آنحضرت ﷺ اس مقام پر کھڑے ہو کر اللہ سبحانہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کریں گے اور یا اس اعتبار سے ہے کہ وہ مقام عطا ہونے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کی تعریف و توصیف تمام اولین وآخرین مخلوق کی زبان پر ہوگی۔

【8】

آنحضرت ﷺ کی شفاعت

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو (میدان حشر میں) لوگ ایک دوسرے کے ساتھ عجب اضطراب افراتفری کی حالت میں ہوں گے (یعنی وہاں کی سختی وتنگی اور ہولناکی سے بیتاب ہو کر ادھر ادھر بھاگے پھریں گے اور آپس میں صلاح و مشورہ کریں گے کہ اس ہولناکی سے چھٹکارے کی کیا راہ نکالی جائے) چناچہ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے کہ آپ (علیہ السلام) اپنے پروردگار سے شفاعت کر دیئجے ( کہ وہ ہمارے حساب و کتاب کا حکم جاری فرما دے اور ہمیں اجرو ثواب یا عذاب دے کر ہمارے معاملہ ایک طرف کرے) حضرت آدم (علیہ السلام) جواب دیئے گے کہ میں شفاعت کا اہل نہیں ہوں، البتہ تم لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ وہ اللہ کے دوست ہیں ( اور تمہاری شفاعت کرسکتے ہیں) وہ لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی انہیں جواب دیں گے کہ میں شفاعت کا اہل نہیں ہوں، البتہ تم لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ وہ اللہ کے کلیم ہیں ( اور تمہاری شفاعت کرسکتے ہیں) وہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی یہی جواب دیں گے کہ میں شفاعت کا اہل نہیں ہوں، البتہ تم لوگوں کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جانا چاہئے جو اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں ( اور تمہاری شفاعت کرسکتے ہیں) وہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی یہی جواب دیں گے کہ میں شفاعت کا اہل نہیں ہوں اور تمہیں محمد ﷺ کے پاس جانا چاہئے ( وہی تمہاری شفاعت کرسکتے ہیں ) ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تب لوگ میرے پاس آئیں گے ( اور مجھ سے شفاعت کی درخواست کریں گے) میں ان سے کہوں گا کہ ہاں بیشک میں شفاعت کا اہل ہوں ( کہ یہ کام میں ہی کرسکتا ہوں، کسی اور کے بس میں کا نہیں ہے پھر میں بارگاہ رب العزت میں پیش ہونے کی اجازت طلب کروں گا، مجھے پیش ہونے کی اجازت عطا کی جائے گی اور ( اس کے ساتھ ہی) اللہ تعالیٰ میرے دل میں اپنی حمد وثنا کے الفاظ ڈالے گا جس کے ذریعہ ( اس وقت) میں اس کی حمد وثنا کروں گا اور وہ حمد وثنا ( کن الفاظ اور کس اسلوب میں ہوگی اس وقت مجھے معلوم نہیں ہے، بہر حال ( جب میں اس کی بارگاہ میں پیش ہوں گا اور اس کو دیکھوں گا تو) سجدہ میں گر پڑوں گا اور اس کی وہی حمد وثنا بیان کروں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ محمد ! اپنا سر اٹھاؤ، جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی، جو مانگنا چاہتے ہو مانگو میں دوں گا اور جو شفاعت کرنا چاہتے ہو کرو میں قبول کروں گا۔ میں ( سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد یا سجدہ ہی میں) عرض کروں گا کہ میرے پروردگار ! میری امت کو بخش دیجئے، میری امت پر رحم فرمائیے ( یا یہ مطلب ہے کہ میرے پروردگار میں اپنی امت کے بارے میں شفاعت کرتا ہوں) مجھ سے کہا جائے گا کہ جاؤ ہر اس شخص کو ( دوزخ سے) نکال لو جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے، پس میں جاؤں گا اور پروردگار کے حکم کے مطابق عمل کروں گا، اس کے بعد میں پھر بارگاہ رب العزت میں حاضر ہونگا اور انہیں الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرتا ہوا سجدہ میں گر پڑوں گا پھر مجھ سے کہا جائے گا محمد ! اپنا سر اٹھاؤ کہنا چاہتے ہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی جو مانگنا چاہتے ہو مانگو میں دوں گا اور جو شفاعت کرنا چاہتے ہو کرو میں قبول کروں گا میں عرض کروں گا میرے پروردگار ! میری امت کو بخش دیجئے، میری امت پر رحم فرمائیے ! مجھ سے کہا جائے گا کہ جاؤ اور ہر اس شخص کو دوزخ سے) نکال لو جس کے دل میں ذرے یا رائی کے برابر بھی ایمان ہے پس میں جاؤں گا اور پروردگار کے حکم کے مطابق عمل کروں گا، اس کے بعد پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوں گا اور انہی الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کرتا ہوا سجدہ میں گرپڑوں گا۔ پھر مجھ سے کہا جائے گأ کہ محمد ! اپنا سر اٹھاؤ جو کہنا چاہتے ہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی جو مانگنا چاہتے ہو مانگو میں دوں گا اور جو شفاعت کرنا چاہتے ہو کرو میں قبول کروں گا میں عرض کروں گا کہ میرے پروردگار ! میری امت کو بخش دیجئے، میری امت پر رحم فرمائیے مجھ سے کہا جائے گا کہ جاؤ اور ہر اس شخص کو ( دوزخ سے) نکال لو جس کے دل میں رائی کے ادنیٰ دانہ برابر بھی ایمان ہے۔ پس میں جاؤں گا اور پروردگار کے حکم کے مطابق عمل کروں گا۔ اس کے بعد پھر میں چوتھی مرتبہ بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوں گا اور انہیں الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرتا ہوا سجدہ میں گر پڑونگا، پھر مجھ سے پوچھا جائے گا کہ محمد ! اپنا سر اٹھاؤ جو کہنا چاہتے ہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی جو مانگنا چاہتے ہو مانگوں میں دوں گا اور جو شفاعت کرنا چاہتے ہو کرو میں قبول کروں گا۔ میں عرض کروں گا میرے پروردگار (اب) مجھے اس شخص کی بھی شفاعت کی اجازت مرحمت فرما دیجئے جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو پروردگار فرمائے گا کہ نہیں، اس کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اپنے عزت و جلال اور اپنی ذاتی وصفاتی عظمت و بڑائی کی قسم، اس شخص کو میں خود دوزخ سے نکالوں گا جس نے لاالہ الا اللہ کہا ہوگا۔ (بخاری ومسلم ) تشریح جس کے دل میں جو برابر بھی ایمان ہو۔ واضح رہے کہ اس طرح کے جملوں، یعنی جس کے دل میں جو برابر یا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر اور یا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر اور یا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو کی توضیح و تاویل میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں اور یہ اختلاف اقوال پر مبنی ہے جو اصل ایمان کی بحث کے سلسلہ میں ان کے درمیان پایا جاتا ہے، یہ ایک لمبی چوڑی بحث ہے اور کتاب الایمان وغیرہ میں مختلف مواقع پر گزر بھی چکی ہے اس موقع پر صرف اتنا بتادینا ضروری ہے کہ مذکورہ جملوں میں جس چیز کو جو یا رائی یا ذرہ کے برابر فرمایا گیا ہے اس سے حقیقی ایمان مراد نہیں ہے بلکہ از قسم خود خیرو بھلائی وہ چیز مراد ہے جو ایمان کے ثمرات و نتائج، ایقان کی روشنی اور عرفان کے نور سے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اس چیز پر حقیقت ایمان کا اطلاق اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ اصل ایمان جو تصدیق قلبی ( یعنی خاص دل سے ماننے) اور ایسے ہی قرار لسانی ( زبان سے سچا اقرار کرنے) کا نام ہے، ایک ایسا جوہر ہے جس کو اجزاء اور حصوں میں تقسیم ہی نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس پر کسی قسم کی زیادتی کا اجراء ہوسکتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل ایمان ( یعنی نفس تصدیق قلبی اور یقین دلی، نہ تو گھٹتا ہے اور نہ اس کو کسی مقدار یا حصہ میں بانٹا جاسکتا ہے۔ پس جو علماء یہ کہتے ہیں کہ ایمان گھٹتا بڑھتا ہے اور اس پر کمی وبیشی کا اطلاق ہوسکتا ہے اگر ان کے اس قول کو اچھے اور برے اعمال کے اعتبار سے ایمان کے ثمرات و درجات میں کمی و زیادتی پر محمول کیا جائے تو اس صورت میں معلوم ہوگا کہ مذکورہ مسئلہ سے متعلق علماء کے درمیان درحقیقت کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ ان کے اختلافی اقوال محض لفظی اختلاف اور صوری نزاع ہے۔ جس کے دل میں رائی کے ادنیٰ دانہ کے برابر بھی ایمان ہے۔ یہ دراصل حق تعالیٰ کی طرف سے انتہائی فضل و کرم کا اظہار ہوگا کہ اس شخص کو بھی دوزخ سے نکال لو جو ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کا مؤمن ہے۔ جس نے لاالہ الا اللہ کہا۔ کا مطلب یہ ہے کہ میں ان لوگوں کی بھی شفاعت کرنا چاہتا ہوں جن کے نامہ اعمال میں اس کلمہ طیبہ کے علاوہ اور کوئی بھی نیکی نہیں ہے اور ملا علی قاری کی وضاحت کے مطابق اگرچہ انہوں نے اپنے ایمان کی حالت میں یا ایمان لانے کے بعد اپنی پوری زندگی میں کلمہ طیبہ بھی صرف ایک ہی مرتبہ کیوں نہ زبان سے ادا کیا ہو ! حاصل یہ کہ آنحضرت ﷺ آخری مرتبہ جن لوگوں کی شفاعت کریں گے وہ اس درجہ کے مؤمن ہوں گہ ان کا نامہ اعمال میں کوئی بھی نیکی اور کوئی بھی اچھا کام نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کبھار اپنی زبان سے کلمہ طیبہ ادا کیا ہوگا بلکہ بعض تو ایسے بھی ہوں گے جن کی زبان پر پوری عمر میں صرف ایک ہی مرتبہ یہ کلمہ آیا ہوگا اور ان کے بارے میں یہ شفاعت بھی آپ ﷺ اس امید پر کرنا چاہیں گے کہ زبان سے لا الہ الا اللہ کہنا بھی بہر حال ایک نیکی ہے اور اللہ تعالیٰ کسی بھی نیکی خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی اور کتنی ہی کم درجہ کی کیوں نہ ہو، ضائع نہیں جانے دیئے گا بلکہ اول یا آخر اس کا اجر ضرور دے گا، جیسا کہ ایک حدیث میں یوں فرمایا گیا ہے کہ من قال لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ ( یعنی جس نے لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں جائے گا) طیبی نے کہا ہے کہ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوجاتی ہے کہ اس حدیث میں جو اور رائی وغیرہ کی مقدار کے برابر کے ذریعہ جس چیز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے وہ اصل ایمان مراد نہیں ہے جس کو تصدیق قلبی سے تعبیر کیا جاتا ہے بلکہ اس ایمان کے علاوہ کچھ اور مراد ہے اور وہ کچھ اور از قسم نیکی و بھلائی وہ چیز ہے جو ایمان کے ثمرہ کے طور پر دل میں پیدا ہوتی ہے۔ نہیں اس کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے الخ کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ جس شخص کے نامہ اعمال میں لا الہ الا اللہ کہنے کے علاوہ اور کوئی بھی نیکی، نہیں ہے اس کو دوزخ سے نکالنے کی شفاعت کا حق بھی گو آپ ﷺ کو حاصل ہے اور آپ ﷺ شوق سے ایسے شخص کی شفاعت بھی کیجئے ہم اس کو قبول کریں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کو دوزخ سے نکلوانا آپ ﷺ کے ذمہ نہیں ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ بیشک ہم اس شخص کو بھی دوزخ سے نکالیں گے مگر ایسا ہم آپ کی شفاعت کی وجہ سے نہیں کرینگے بلکہ اس وجہ سے کریں گے کہ اپنے فضل و کرم کو ظاہر کرنے کے لئے ہم خود اس کو دوزخ سے نکالنا پسند کرتے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس مؤمن کے دوزخ سے نکالے جانے کا معاملہ کہ جس نے اپنی پوری عمر میں کوئی نیکی و بھلائی نہیں کی ہے، شفاعت کے دائرہ سے باہر ہوگا بلکہ وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے متعلق ہوگا۔ اس صورت میں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ آگے حضرت ابوہریرہ (رض) کی جو روایت اسعد الناس الخ آرہی ہے پھر اس کا کیا مفہوم ہوگا اور مذکورہ مطلب مراد لینے کی صورت میں اس روایت اور اس حدیث کے درمیان تطبیق کیا ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہاں پہلا مطلب مراد لیا جائے تو ان دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تعارض ہی نہیں رہے گا کیونکہ مذکورہ شخص کو اللہ تعالیٰ بہر حال آنحضرت ﷺ کی شفاعت ہی کے سبب دوزخ سے نکالے گا اور اگر دوسرا مطلب مراد لیا جائے تو پھر یہ کہا جائے گا کہ یہاں حدیث میں جس شخص نے لا الہ الا اللہ کہا ہو سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے نبی پر ایمان تو لائے تھے لیکن کوئی بھی عمل خیر نہ رکھتے اور اپنی بد عملیوں کی بنا پر دوزخ کے مستوجب قرار دے دئیے گیئے ہوں گے اور آگے آنے والی حضرت ابوہررہ (رض) کی روایت میں آنحضرت ﷺ کے امت کے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے اپنے نیک اعمال کو اپنے برے اعمال کے ساتھ اس طرح خلط ملط کیا ہوگا ان کی نیکیاں ہلکی اور برائیاں بھاری پڑگئی ہوں گی اور وہ دوزخ کے مستوجب قرار دے دئیے گئے ہوں گے۔

【9】

نصیبہ والا شخص

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میری شفاعت کے لئے نصیبہ والا شخص وہ ہوگا، جس نے ( دنیا میں) خلوص تہ دل سے، یا یہ فرمایا کہ خلوص تہ نفس سے لا الہ الا اللہ کہا ہوگا۔ (بخاری ومسلم) تشریح من قلبہ او من نفسہ میں حرف او کے ذریعے راوی نے اپنے شک کا اظہار کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہاں من قلبہ کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے یا من نفسہ کے، بہر حال دونوں کے معنی ایک ہی ہیں کیونکہ نفس سے مراد بھی دل ہی ہے نیز خالصا من قلبہ ( خلوص تہ دل) ترکیب تاکیدی ہے، کیونکہ خلوص کی جگہ تہ دل یعنی دل کی گہرائی ہی ہے نہ کہ کچھ اور، اس اعتبار سے تہ دل کا دوسرانام خلوص ہے پس کہنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے میں نے فلاں چیز کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے یا میں نے فلاں بات اپنے کان سے سنی ہے۔ حدیث میں اسعد کا لفظ سعید کے معنی میں ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اہل توحید میں سے نہیں ہوگا وہ آنحضرت کی شفاعت سے فیض یاب نہیں ہوگا یا من قال سے مراد وہ شخص ہے جس کے نامہ اعمال میں ایسا کوئی بھی عمل نہ ہو جس کے سبب وہ رحمت کا مستحق قرار پاسکے اور دوزخ کی آگ سے نجات پانے کا سزا وار ہوسکے، اس صورت میں ظاہر ہے کہ شفاعت کا سب سے زیادہ ضرورت مند وہی شخص ہوگا اور شفاعت اسی کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچائے گی۔

【10】

حضور ﷺ کی شفاعت کا ذکر

اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ( ایک دن) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ( پکا ہوا) گوشت لایا گیا اس میں سے دست کا گوشت آپ کو پیش کیا گیا جو آپ ﷺ کو بہت پسند اور مرعوب تھا، آپ ﷺ نے اس میں سے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھایا اور پھر فرمانے لگے کہ میں قیامت کے دن، جب کہ لوگ دوجہان کے پروردگار کا فیصلہ سننے کے انتظار میں کھڑے ہوں گے، تمام لوگوں کا سردار ہوں گا، اس دن سورج ( لوگوں کے سروں کے) بہت قریب ہوگا اور لوگوں کی حالت ( مسلسل کھڑے رہنے، گرمی کی تپش و سختی اور وہاں کے ہولناک ماحول کے اثر سے) اس قدر کربناک اور غم وفکر سے بوجھل ہوگی کہ وہ ہمت ہار بیٹھیں گے، یعنی صبر و استقامت پر قادر نہیں ہوں گے اور نہایت حیرانی و پریشانی کے عالم میں) ایک دوسرے سے کہتے پھریں گے کہ آخر تم کسی ایسے شخص کی تلاش کیوں نہیں کرتے جو تمہارے پروردگار سے تمہاری سفارش کردے ( اور وہ تمہیں اس کرب واذیت کی حالت سے نجات عطا کر دے) چناچہ لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے۔ اس کے بعد حضرت ابوہریرہ (رض) نے یا خود آنحضرت ﷺ نے شفاعت کے سلسلے میں حدیث کے ( وہی) اجزاء بیان کئے ( جو پہلے ایک حدیث میں بیان ہوچکے ہیں، کہ لوگ یکے بعد دیگرے تمام انبیاء کرام کے پاس جا کر شفاعت کی درخواست کریں گے اور وہ سب جواب دیں گے کہ ہم اس کام کی اہلیت نہیں رکھتے اور پھر وہ لوگ شفاعت کی درخواست لے کر میرے پاس آئیں گے یہ ذکر کرنے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا پس میں لوگوں کے پاس سے روانہ ہوں گا اور عرش کے نیچے آؤں گا اور وہاں ( بارگاہ رب العزت میں) اپنے پروردگار کے سامنے سجدہ میں گر پڑوں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور بہترین ثناء کے وہ الفاظ و اسلوب منکشف کر دے گا جو مجھ سے پہلے اس نے کسی پر منکشف نہیں کئے ہوں گے (یعنی اس موقع کے لئے میرے دل میں اپنی حمد و ثنا کے وہ الفاظ اور کو رنش وآداب حضوری کے وہ طریقہ القاء فرمائے گا جو اس نے مجھ سے پہلے کسی اور کو القاء نہیں کئے ہوں گے بلکہ اس وقت سے پہلے مجھ کو ان کا کوئی علم نہیں ہوگا، جیسا کہ پہلے ایک حدیث میں اس طرف اشارہ کیا جا چکا ہے پھر پروردگار فرمائے گا محمد ! اپنا سر اٹھاؤ، جو چاہتے ہو مانگوں میں دوں گا اور جو شفاعت کرنا چاہتے ہو تو کرو میں قبول کروں گا ( یہ سن کر) میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا کہ میرے پروردگار ! میری امت کو بخش دیجئے، تب کہا جائے گا کہ اے محمد ! آپ ﷺ اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جن سے حساب نہیں لیا جائے گا ( اور جو حساب کے بغیر جنت کے مستحق ہیں) جنت کے دائیں طرف کے دروازہ سے جنت میں داخل کر دیجئے اور وہ لوگ اس دروازہ کے علاوہ دوسرے ( اطراف کے، دروازوں کے استعمال کے حق میں بھی لوگوں کے ساتھ شریک ہیں اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کی دست قدرت میں میری جان ہے، جنت کے دروازوں میں سے ہر ایک دروازہ کے دونوں کو اڑوں کے درمیان کا فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا کہ مکہ اور ہجر کے درمیان ہے ( بخاری ومسلم ) تشریح میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں گا۔ میں لوگوں کا اطلاق پوری نوع انسانی پر ہے جس میں انبیاء کرام بھی شامل ہیں ! اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا انا سید ولد ادم یوم القیامۃ الخ یعنی قیامت کے دن میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا ! اور یہ بات آپ ﷺ نے اس اعتبار سے ارشاد فرمائی کہ اس تو قیر وعزت کی بنا پر کہ جو آپ ﷺ کو بارگاہ الٰہی میں سب سے زیادہ قرب و محبوبیت کی وجہ سے حاصل ہوگی، اس دن ہر ایک آپ ﷺ کی شفاعت کا محتاج ہوگا، جب سب لوگ نہایت مضطرب و پریشان ہوں گے تو آخر میں آپ ﷺ ہی کے پاس شفاعت کی درخواست لے کر آئیں گے اور صرف آپ ﷺ ہی ان کی شفاعت کا حوصلہ کریں گے۔ عرش الہٰی کے نیچے آؤں گا۔ یہ جملہ پیچھے حضرت انس (رض) سے نقل کی جانے والی اس حدیث کے خلاف ہے جس میں اپنے پروردگار کے گھر میں آنے ، کے الفاظ ہیں، پس ان دونوں کے درمیان تطبیق یوں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کا گھر جنت ہے اور جنت عرش الہٰی کے نیچے ہی ہے، لہٰذا دونوں حدیثوں کے الفاظ میں مفہوم کے اعتبار سے کوئی تعارض نہیں ہے۔ میرے پروردگامیری امت کو بخش دیجئے۔ ان الفاظ کو تین بار کہنا یا تو اپنی عرض کو زیادہ سے زیادہ اہم اور قابل توجہ بنا کر پیش کرنے کے لئے ہوگا جیسا کہ جب کوئی شخص اپنے حاکم وآقا کے کسی اہم مقصد کی بارآوری چاہتا ہے تو وہ اپنی عرض کو اس کے سامنے بار بار دہراتا ہے یا ان الفاظ کو بار بار دہرانے سے گناہگاروں کے طبقوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوگا، جیسا کہ پیچھے گزرنے والی حدیث میں بیان ہوا کہ آپ ﷺ کی ایک دفع کی شفاعت کسی ایک طبقہ کے ساتھ مختص ہوگی اور پھر دوسری مرتبہ کی شفاعت کسی دوسرے طبقہ کے ساتھ اور اس طرح متعدد دفعوں میں سب کی شفاعت پوری ہوگی۔ جنت کے دائیں طرف کے دروازے سے۔۔ الخ۔ یعنی ان لوگوں کے اعزازو تکریم کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ازراہ عنایت جنت کے دائیں طرف کا دروازہ انہی لوگوں کے لئے مخصوص، ہوگا، ان کے علاوہ کسی اور کو اس دروازہ سے داخلہ کی اجازت نہیں ہوگی، اس دروازہ کے علاوہ باقی اور جو تمام دروازے ہوں گے وہ دوسرے سب لوگوں کے لئے مشترک ہوں گے اور مذکورہ لوگ بھی ان دروازوں کو استعمال کرنے کا حق رکھیں گے۔ ہجر ایک جگہ کا نام ہے جو جزیرہ نما عرب کے مشرقی ساحل پر ( سعودی عرب کے) اس علاقہ میں واقعہ ہے جس کو اب احساد کہا جاتا ہے اور پہلے زمانہ میں بحرین اسی علاقہ کو کہتے تھے۔ بہر حال اس جملہ کا مقصود جنت کے دروازوں کی چوڑائی اور وسعت کو بیان کرنا ہے کہ جنت کے ہر دروازے کی چوڑائی اس فاصلہ کے بقدر ہے جو مکہ اور ہجر کے درمیان ہے، لیکن اس سے مراد تحدید وتعبین ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ تخمی نا فرمایا گیا ہے تاکہ دروازے کی چوڑائی ووسعت کا اندازہ ہوجائے حہاں تک حقیقت حال کا تعلق ہے وہ کچھ اور ہی ہے۔

【11】

امانت اور قرابت داری کی اہمیت

اور حضرت حذیفہ (رض) نے رسول کریم ﷺ سے شفاعت کے سلسلہ کی ( تفصیلی) حدیث نقل کرتے ہوئے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے ( پھر بعد میں یہ بھی) فرمایا کہ امانت اور رحم یعنی قرابت داری کو بھیجا جائے گا اور وہ دونوں پل صراط کے دائیں بائیں جانب کھڑی ہوجائیں گی۔ (مسلم ) تشریح امانت یعنی لوگوں کے مال و اسباب اور حقوق کی حفاظت کرنا اور رحم یعنی ناتا کہ جس کو قرابت داری بھی کہتے ہیں، یہ دونوں باتیں چونکہ نہایت اہمیت اور بہت زیادہ فضیلت رکھتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کا اہتمام کرنا اور ان کی رعایت کو ملحوظ رکھنا بندوں پر لازم ہے۔ اس لئے قیامت کے دن ان کو صورت دے کر پل صراط کے دونوں طرف کھڑا کردیا جائے گا تاکہ یہ امانت دار اور خیانت دار، ناتا جوڑنے والے اور ناتا توڑنے والے کے حق میں گواہی دیں اور اس کے خلاف احتجاج کریں چناچہ جس شخص نے اپنی دنیاوی زندگی میں امانت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہوگی اور قرابت داری کے تمام حقوق پوری طرح ادا کئے گئے ہوں گے، یہ دونوں اس کے حق میں مظاہرہ کریں گے اور اس کی نیکی پر زور و شور سے گواہی دیں گے اور جس شخص نے امانت کی ادائیگی میں کوتاہی اور بددیانتی کی ہوگی اور قرابتداری کا حق ادا نہیں کیا ہوگا، یہ دونوں اس کے خلاف احتجاج کریں گے اور ان کی برائی کو زور وشور سے بیان کریں گے تاکہ دونوں طرح کے لوگوں کے درمیان امتیاز ہوجائے اور ہر شخص آسانی کے ساتھ پہچان لیا جائے کہ اس نے ان دونوں کے سلسلہ میں کیا عمل کیا تھا۔ پس اس حدیث میں اس امر کی ترغیب ہے کہ ان دونوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی بہر صورت ملحوظ رکھنے کا پورا پورا اہتمام رکھنا چاہئے۔

【12】

حضور ﷺ کی شفاعت قبول کرنے کا وعدہ خداوندی

اور عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) روایت کرتے ہیں کہ ( ایک دن) رسول کریم ﷺ نے ( اپنی مجلس میں لوگوں کے سامنے) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں (یہ بیان کرنے کے لئے کہ وہ قیامت کے دن اپنی امت کے متعلق بارگاہ رب ذوالجلال میں کیا عرض کریں گے) یہ آیت پڑھی، (رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِيْ فَاِنَّه مِنِّىْ وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 14 ۔ ابراہیم 36) اور پوری آیت کا ترجمہ یوں ہے کہ میرے پروردگار ! یہ بت بہت سے لوگوں کی گمراہی کا سبب بنے ہیں، پس ان لوگوں میں سے جنہوں نے میری اطاعت قبول کی ہے، یعنی تو حید، اخلاص اور توکل کو اختیار کیا وہ میرے اپنے اور میرے تابعدار ہیں اور جنہوں نے میری نافرمانی کی ہے تو، تو معاف کرنے والا رحیم ہے) پھر آپ ﷺ نے ( اسی سلسلہ میں) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تعلق سے یہ آیت پڑھی ( جس میں یہ بیان ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنی امت کے حق میں پروردگار سے کیا عرض کریں گے) (اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ) 5 ۔ المائدہ 118) ( اور آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) پوری آیت کا ترجمہ یوں ہے اگر تو ان کو عذاب میں مبتلا کرے تو بہرحال وہ تیرے ہی بندے ہیں یعنی تو ان کا مطلق مالک ہے وہ تیرے حکم کے خلاف کر ہی کیا سکتے ہیں اور ان کو عذاب میں مبتلا کرنے سے تجھے کون روک سکتا ہے۔ اگر تو ان کو بخش دے تو بیشک تو غالب حکمت والا ہے۔ یعنی تجھ پر کوئی غالب نہیں ہے، تو جو چاہے حکم کرسکتا ہے، کوئی بھی تیرے حکم کو پس پشت ڈالنے کی طاقت نہیں رکھتا پھر یہ کہ تیری حکمت و دانائی میں بھی ذرہ برابر شبہ نہیں، تو ہر ایک کے بارے میں وہی حکم کرتا ہے جس کا وہ مستحق ومستوجب ہوتا ہے اور ہر چیز کو وہی جگہ دیتا ہے جہاں کا وہ سزاوار ہے) اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ پروردگار میری امت کو بخش دے، میری امت پر رحم فرما اور ( یہ دعا کرتے ہوئے) آپ ﷺ رونے لگے۔ ( فورا) اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ محمد ﷺ کے پاس جاؤ اور حالانکہ اے جبرائیل تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے ( اس کو کچھ مطلق دریافت کرنے کی ضرورت نہیں ہے) مگر محمد ﷺ کی دلجوئی اور پروردگار کی عنایت و توجہ کے اظہار کی خاطر) ان سے پوچھو کہ آپ ﷺ کیوں روتے ہیں ( یہ حکم سنتے ہی) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ سے رونے کا سبب پوچھا، آپ ﷺ نے آپنے الفاظ میں انہیں بتادیا ( کہ اپنی امت کے بارے میں خوف الٰہی نے مجھ پر رقت طاری کردی ہے) پھر (حضرت جبرائیل (علیہ السلام) بارگاہ کبریائی میں واپس گئے اور صورت حال عرض کی اور تب) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ محمد ﷺ کے پاس جاؤ اور کہو کہ ( جب وقت آئے گا تو) ہم یقینًا آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی امت کے بارے میں راضی وخوش کردینگے اور آپ ﷺ کو ہرگز رنجیدہ نہیں ہونے دیں گے۔ ( مسلم) تشریح ( یہ دعا کرتے ہوئے) آپ ﷺ رونے لگے۔ یعنی آپ ﷺ نے اپنی اپنی امت کے حق میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شفاعت کو یاد کیا اور اس کا ذکر کیا تو پھر فورا آپ ﷺ کو خود اپنی امت کا خیال آگیا اور اس خوف سے آپ ﷺ پر رقت طاری ہوگئی کہ نامعلوم میری امت کے لوگوں کا کیا حشر ہوگا کہیں ان کو تو عذاب الٰہی میں مبتلا نہیں کیا جائے گا، چناچہ آپ ﷺ نے بارگاہ الٰہی میں اپنی امت کی بخشش و مغفرت کی دعا فرمائی۔ آپ ﷺ کو اپنی امت کے بارے میں راضی وخوش کردیں گے۔ اور آپ ﷺ راضی وخوش کس صورت میں ہوں گے، اس کے متعلق روایتوں میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ میں اس وقت تک راضی وخوش نہیں ہونگا جب تک اللہ تعالیٰ میری امت کے ایک ایک فرد کو بخش نہیں دے گا۔ سبحان اللہ اس امت کے لئے اس سے بڑی سعادت کی بات اور کیا ہوسکتی ہے، ضرورت صرف یہ ہے کہ حقیقی معنی میں آپ ﷺ کا امتی بنا جائے آپ ﷺ کے ساتھ ایمان کے عقیدے کو ہر حالت میں درست رکھا جائے، مشکل جو ہے صرف یہی ہے اور کچھ نہیں۔ خاک اوپاش بادشاہی کن آن او پاش ہر چہ خواہی کن اس حدیث سے کئی اہم باتیں ظاہر ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ آنحضرت ﷺ کو اپنی امت سے کس درجہ کا تعلق ہے اور آپ ﷺ اپنی امت پر کتنے زیادہ شفیق و مہربان ہیں، نیز آپ ﷺ اپنی امت کے لوگوں کی صلاح و فلاح کی طرف کس طرح ہر وقت متوجہ رہتے تھے، دوسری اور سب سے بڑی بات اس امت مرحومہ کے لئے بشارت عظمی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے وعدہ فرما لیا ہے کہ ہم آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی امت کے بارے میں راضی وخوش کردیں گے اور تیسری بات آنحضرت ﷺ کا عظیم المرتبیت ظاہر ہونا ہے۔

【13】

قیامت کے دن شفاعت وغیرہ سے متعلق کچھ اور باتیں

اور حضرت ابوسعیدخدری (رض) سے روایت ہے کہ ( ایک دن مجلس نبوی ﷺ میں) کچھ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا قیامت کے دن ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں دیکھو گے۔ ( پھر آپ ﷺ نے دیدار الہٰی کے ثبوت کو واضح کرنے کے لئے لوگوں سے سوال کیا کہ) کیا تم لوگ دوپہر کے وقت جب کہ آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا بھی نہ ہو، سورج کو دیکھنے میں کوئی رکاوٹ و تکلیف محسوس کرتے ہو ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہرگز نہیں یا رسول اللہ ﷺ ! فرمایا تو پھر قیامت کے دن تم اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں بھی کوئی رکاوٹ و تکلیف محسوس نہیں کروگے، ہاں جیسا کہ تم ان دونوں ( یعنی سورج و چاند) میں سے کسی کو دیکھنے میں رکاوٹ و تکلیف محسوس کرتے ہو۔ ( اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا) جب قیامت کا دن برپا ہوگا ( اور تمام مخلوق میدان محشر میں جمع ہوگی، تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ جو طبقہ ( دنیا میں) جس چیز کی عبادت کرتا تھا وہ اسی کے پیچھے رہے، چناچہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے بجائے بتوں اور انصاب کو پوجتے تھے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی باقی نہیں بچے گا اور سب کے سب دوزخ میں جا گریں گے۔ کیونکہ انصاب اور بت کہ جن کی پوجا ہوتی تھی، دوزخ میں پھینکے جائیں گے، لہٰذا ان کے ساتھ ان کی پوجا کرنے والے بھی دوزخ میں ڈالے جائیں گے) یہاں تک کہ جب ان لوگوں کے سوا کوئی موجود نہیں رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے وہ خواہ نیک ہوں یا بد، تو تمام جہانوں کا پروردگار ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا کہ تم کس کے منتظر ہو ؟ ہر طبقہ اس چیز کے پیچھے پیچھے چلا جارہا ہے جس کی وہ عبادت کرتا تھا ( تو تم پھر یہاں کیوں کھڑے ہو، تم بھی کیوں نہیں چلے جاتے وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہمارے پروردگار ! ہم نے دنیا میں ان لوگوں سے کہ جو دنیا میں غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے اور اب اپنے معبودوں کے پیچھے پیچھے دوزخ میں چلے جائیں گے) پوری طرح جدائی اختیار کر رکھی تھی حالانکہ ہم ( اپنی دنیاوی ضرورتوں میں) ان لوگوں ( کی مددواعانت) کے ضرورت مند تھے لیکن ہم نے کبھی ان کی صحبت وہمنشینی کو گوارا نہیں کیا ( اور نہ کبھی ان کی اتباع کی بلکہ ہمیشہ ان کے مدمقابل رہے اور صرف تیری رضا کی خاطر ان سے جنگ وجدال کرتے رہے، پس اب جب کہ ہم ان کے کسی طرح سے ضرورت مند بھی نہیں ہیں اور ان سب کی منزل بھی دوزخ ہے، تو ہم ان کے ساتھ کیسے چلے جاتے) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں یہاں یوں نقل کیا گیا ہے کہ وہ لوگ ( جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے۔ یہ کہیں گے کہ ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک ہمارا پروردگار ہمارے پاس نہیں آئے گا یعنی جب تک وہ ہم پر اس طرح سے تجلی نہ فرمائے جس کے سبب ہم اس کو پہچان لیں کہ یہی ہمارا پروردگار ہے اور جب ہمارا پروردگار ( اپنی تجلی وصفات کے اظہار کی صورت میں کہ جس کے سبب ہم اس کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں) ہمارے پاس آئے گا تو ہم اس کو ( اچھی طرح) پہچان لیں گے اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ کیا تمہارے پروردگار کے درمیان نشانی ہے جس کے ذریعے تم اس کو پہچان لوگے ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں نشانی ہے تب اللہ کی پنڈلی کھولی جائے گی اور اس موقع پر اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو سجدہ کی اجازت و توفیق عطا فرمائے گا جو ( دنیا میں کسی کو دکھانے سنانے اور کسی خوف اور لالچ کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنے نفس کے تقاضے یعنی اخلاص وعقیدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا تھا اور ہر وہ شخص کہ ( جو دنیا میں) کسی خوف سے یا لوگوں کو دکھانے سنانے کے لئے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا تھا اللہ تعالیٰ اس کی کمر کو ایک پورا تختہ بنا دے گا ( یعنی اس کو پیٹھ وکمر کی ہڈیوں کے جوڑ بالکل ختم کر دئیے جائیں گے اور اس کی پوری پیٹھ ایک تختہ بن جائے گی تاکہ وہ جھک نہ سکے اور نہ سجدہ کرسکے) چناچہ وہ سجدہ میں جانے کے لئے جھکنا چاہے گا تو چت گرپڑے گا پھر دوزخ کے اوپر ( اس کے بیچوں بیچ) پل صراط کو رکھا جائے گا اور شفاعت کی اجازت عطا کی جائے گی، چناچہ تمام انبیاء (علیہم السلام) ( اپنی اپنی امتوں کے حق میں طلب استقامت و سلامتی کے لئے) یہ دعا کریں گے کہ اے اللہ ! ان کو پل صراط کے اوپر سے) سلامتی سے گزار دے، ان کو دوزخ میں گرنے سے محفوظ رکھ۔ پس مسلمان لوگ ( پل صراط کے اوپر سے اس طرح) سے گزریں گے کہ بعض تو پل جھپکتے ہی گزر جائیں گے، بعض کو ندے کی طرح نکل جائیں گے، بعض ہوا کے جھونکے کی مانند بعض پرندوں کی اڑان کی مانند، گزریں گے پس ان میں سے کچھ مسلمان تو وہ ہونگے جو دوزخ کی آگ سے بالکل سلامتی اور نجات پائے ہونگے ( یعنی پل صراط کے اوپر سے گزرنے کے وقت ان کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا) اور کچھ مسلمان وہ ہونگے جو زخم کھا کر نکلیں گے اور ( دوزخ کی آگ سے نجات پالیں گے، تو قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی بھی شخص ظاہر ثابت شدہ حق کے حصول میں اتنی شدید جدوجہد اور سختی نہیں کرتا جتنی شدید جدوجہد مؤمن قیامت کے دن اپنے ان بھائیوں کی نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں کریں گے جو دوزخ میں ہوں گے وہ مؤمن کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ! یہ لوگ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ حج کرتے تھے ( یعنی ان کی نماز ہماری نمازوں کی طرح ہوتی تھی اور ان کا حج ہمارے ہی حج کی طریقہ سے ہوتا تھا پس تو ان کو بھی دوزخ سے نجات دیدے ) ان سے کہا جائے گا کہ جاؤ اور جن لوگوں کو تم ( اپنی مذکورہ شہادت کی روشنی میں) پہچانتے ہو انہیں ( دوزخ) سے نکال لو، پس دوزخ کی آگ پر ان کی صورتوں کو حرام کردیا جائے گا۔ چناچہ وہ مؤمن بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لیں گے۔ پھر کہیں گا کہ ہمارے پروردگار ! جن لوگوں کو تو نے ( دوزخ) سے نکالنے کا حکم دیا تھا ( یعنی اہل نماز، اہل زکوٰۃ اور اہل حج وغیرہ) ان میں سے اب دوزخ میں کوئی باقی نہیں رہا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا پھر جاؤ اور ہر اس شخص کو بھی دوزخ سے نکال لو جس کے دل میں تم دینار برابر بھی نیکی پاؤ پس وہ مؤمن ( جائیں گے اور بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا اور اب ہر شخص کو دوزخ سے نکال لو جس کے دل میں آدھے دینار برابر بھی نیکی پاؤ، پس وہ مؤمن جائیں گے اور بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ جاؤ اور اب اس شخص کو دوزخ سے نکال لو جس کے دل میں تم از قسم نیکی ذرہ برابر بھی کوئی چیز پاؤ پس وہ مؤمن جائیں گے اور بہت سے لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے اور کہیں گے کہ پروردگار ! ہم نے دوزخ میں بھلائی کو باقی نہیں رہنے دیا ہے ( یعنی دوزخ میں اب ایسا کوئی شخص باقی نہیں بچا ہے جس کے دل میں اصل ایمان کے علاوہ ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کی اور ذرہ برابر بھی بلکہ ذرہ سے کمتر کوئی نیکی ہو خواہ اس نیکی کا تعلق اعمال سے ہو یا افعال قلب سے) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فرشتوں نے شفاعت کرلی اور پیغمبروں نے بھی شفاعت کرلی) اور مؤمنوں نے بھی شفاعت کرلی) اور ان سب کے شفاعت کا تعلق ان لوگوں سے تھا جن کا نامہ اعمال میں کوئی نہ کوئی نیکی ضرور تھی خواہ وہ نیکی ذرہ کے برابر یا اس سے کمتر درجہ ہی کیوں نہ ہو اور اس طرح، اب کوئی ایسی کوئی ذات باقی نہیں رہ گئی ہے ( جو خود بھلائی پہنچانے یا بھلائی پہنچانے والے سے سفارش و شفاعت کے ذریعہ کسی کے ساتھ رحم ومروت اور عنایت وہمدردری کا معاملہ کرے لیکن ابھی ارحم الراحمین کی ذات باقی ہے ( جس کی رحمت جس کا کرم اور جس کی عنایت ہر ایک پر سایہ فگن ہے اور اس کی رحمت و عنایت کے اثرات کے مقابلہ ہر ایک کی رحمت و عنایت ہیچ ہے اور ( یہ فرما کر) اللہ تعالیٰ دوزخ میں سے اپنی مٹھی بھر کر ( ان) لوگوں کو نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھی کوئی ( چھوٹی یا بڑی) نیکی کی ہی نہیں ہوگی، یہ لوگ دوزخ میں ( جلتے رہنے کی وجہ سے) کوئلہ بن چکے ہوں گے، چناچہ ان کو اس نہر میں ڈالے گا جو جنت کے دروازوں کے سامنے ہے اور جس کو نہر حیات کہا جائے گا اور پھر یہ لوگ اس نہر سے اس طرح تروتازہ نکلیں گے جیسے دانہ سیلاب کے کوڑے کچرے میں اگتا ہے ( یعنی جس طرح سیلابی کوڑے کچرے میں پڑا ہوا دانہ بہت جلد اگ آتا ہے اور خوب ہرا بھرا معلوم ہوتا ہے، اس طرح یہ لوگ بھی اس نہر میں غوطہ دلائے جانے کے بعد نہایت تیزی کے ساتھ بہتر جسمانی حالت میں واپس آجائیں گے اور خوب تروتازہ اور توانا معلوم ہوں گے) نیز یہ لوگ ( اس نہر سے) موتی کی مانند پاک و شفاف باہر آئیں گے ان کی گردنوں میں مہریں لٹکی ہوئی ہوں گی چناچہ ( جب اہل جنت ان لوگوں کو ( ان کی امتیازی علامتوں کے ساتھ) دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ وہ ( خوش نصیب) لوگ ہیں جو خدائے رحمان کے آزاد کئے ہوئے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ نے ( اپنے خاص فضل و کرم کے تحت، اس امر کے باوجود جنت میں داخل کیا ہے کہ انہوں نے ( دنیا میں) کوئی نیک عمل کیا تھا اور نہ انہوں نے (کم سے کم افعال قلب ہی کی صورت میں، کوئی نیکی کرکے آگے بھیجی تھی اور پھر ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ان نو آزاد لوگوں سے کہا جائے گا کہ) بلکہ جنت میں تم جو کچھ دیکھ رہے ہو ( یعنی تمہاری حد نظر تک تمہیں جو اعلی سے اعلی نعمتیں نظر آرہی ہے) نہ صرف یہ بلکہ ان ہی جیسی اور بہت سی نعمتیں بھی، سب تمہارے لئے ہیں۔ ( بخاری) تشریح ہاں دیکھوگے۔ سیوطی نے اپنی تالیفات میں لکھا ہے کہ قیامت کے دن موقف میں ( میدان حشر میں کہ جہاں ساری مخلوق کھڑی ہوگی) مرد و عورت ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا، جہاں تک کہ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ کو تو دیدار منافقوں اور کافروں کو بھی نصیب حاصل ہوگا، لیکن پھر فورا ہی ان کو محجوب کردیا جائے گا تاکہ وہ ہمیشہ اس دیدار کی حسرت اور اپنی محرومی کے غم میں مبتلا رہیں تاہم منافقوں اور کا قروں کو دیدار حاصل ہونے کی یہ بات زیادہ واضح نہیں ہے، بلکہ اس میں کلام ہے کیونکہ قرآن کریم میں یہ آیا ہے کہ (کلا انہم عن ربہم یومئذ لمحجوبون) ( یعنی ہرگز نہیں، یقینا کفار اس دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے) اور جہاں تک جنت میں حق تعالیٰ کے دیدار کا سوال ہے تو اس بارے میں علامہ سیوطی (رح) نے کہا ہے کہ اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ وہاں حق تعالیٰ کا دیدار ہر امت کے نبیوں، رسولوں، صدیقوں اور اس امت محمدی کے افراد میں سے تمام مؤمن مردوں کو حاصل ہوا کرے گا، امت محمدی کی عورتوں کے سلسلے میں تین قول ہیں، ایک تو یہ کہ ان کو وہاں دیدار نصیب نہیں ہوگا، دوسرا یہ کہ ان کو بھی دیدار نصیب ہوا کرے گا مگر تمام دنوں میں نہیں بلکہ چند مخصوص دنوں مثلا عید وغیرہ کے دنوں میں فرشتوں کے بارے میں بھی دو قول ہیں، ایک قول تو یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو نہیں دیکھیں گے اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ بھی اپنے رب کا دیدار کیا کریں گے، اسی طرح جنات کے بارے میں بھی اختلافی اقوال ہیں۔ کیا تم لوگ دوپہر کے وقت۔۔ الخ۔ اس سوال کے ذریعہ آپ ﷺ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ جو چیز عام طور پر مشکل سے نظر آتی ہے اور لوگ اس کے دیدار کے تمنائی ہوتے ہیں، اس کو دیکھتے ہیں دھکاپیل اور مشقت وضرر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن جس طرح آفتاب وماہتاب کو دیکھنے میں کسی قم کی مشقت وضرر اور تکلیف رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دیدار کے وقت کسی طرح کی دھکاپیل اور مشقت وضرر کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ہاں جیسا کہ تم ان دونوں میں سے کسی کو دیکھنے میں رکاوٹ و تکلیف محسوس کرتے ہو۔ یہ جملہ دراصل تعلق بالمحال کے طور پر پچھلے جملہ کو زیادہ سے زیادہ ( زور دار) بنانے کے لئے ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر تم سورج و چاند کو دیکھنے میں کوئی رکاوٹ و تکلیف محسوس کرتے ہو تو یقینًا اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں بھی رکاوٹ تکلیف محسوس کرو گے، لیکن جب یہ بات طے ہے کہ ان دونوں ( سورج و چاند) میں سے کسی کو بھی دیکھنے میں کسی ادنیٰ سے ادنیٰ رکاوٹ و تکلیف کا سامنا کرنا نہیں پڑتا تو جان لو کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں کوئی ادنیٰ سی وکاوٹ و تکلیف پیش نہیں آئے گی ! ضمنی طور پر یہ بات ذکر کردینا ضروری ہے کہ علماء کرام نے لکھا ہے کہ یہاں جس دیدار الہٰی کے بارے میں ذکر ہے وہ اس دیدار الہٰی کے علاوہ ہے جو جنت میں اہل ایمان کو بطور اعزاز واجر نصیب ہوگا، یہ دیدار تو محض امتحان و آزمائش کے طور پر ہوگا تاکہ دنیا میں جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تھی اور جن لوگوں نے غیر اللہ کو اپنا معبود بنایا، ان دونوں قسم کے لوگوں کے درمیان فرق و امتیاز ہوجائے اس سے معلوم ہوا کہ آخرت میں بھی بندوں کو امتحان و آزمائش میں مبتلا کرنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ حساب و کتاب کے بعد ہر ایک کے حق میں آخری فیصلہ نہ ہوجائے گا کہ کون اجر وجزا کا سزا وار ہے اور کون عذاب کا مستوجب ! پس آخرت اگرچہ دار جزا ( بدلہ کا گھر) لیکن کبھی کبھی وہاں امتحان و آزمائش کا مرحلہ بھی پیش آئے گا جس طرح کہ یہ دنیا اگرچہ امتحان و آزمائش کا گھر ہے لیکن یہاں کبھی کبھی اجروبدلہ بھی مرتب ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا۔ آیت (وَمَا اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ) 42 ۔ الشوری 30) اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہیں وہ دراصل تمہارے اعمال ہوتے ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے بجائے بتوں اور انصاب کو پوجتے تھے۔ میں انصاب دراصل نصب کی جمع ہے اور نصب اس پتھر کو کہتے ہیں جو کسی خاص جگہ پر خاص اس مقصد کے لئے گاڑا اور نصب کیا جائے کہ اس کی پوجا ہو، اس کو ڈنڈوت کیا جائے اور اس کے سامنے قربت ونی کی ( جیسے منت اور چڑھاوے) کی نیت سے جانور ذبح کیا جائے، پس ہر چیز کہ جو اس مقصد کے لئے نصب کی جائے اور اس کی پرستش و تعظیم کا عقیدہ رکھا جائے خواہ وہ پتھر ہو یا لکڑی اور یا کوئی دوسری چیز وہ نصب ہی کہلائے گی۔ تو تمام جہانوں کا پروردگار ان کے پاس آئے گا۔ یعنی اپنے کمال قرب کے ساتھ ان پر اپنی بجلی ڈالے گا یہ تو اس جملہ کی سیدھی سی تاویل ہے ویسے حقیقت یہ ہے کہ آنا پروردگار کی صفات میں سے ہے جس کو اس نے اپنے کلام پاک میں اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے اور حدیث مقدسہ میں بھی اس کا اسی طرح (اس کی ذات کی طرف منسوب ہونا) ذکر ہے نیز ہم اس کی حقیقت و کیفیت جانے بغیر جوں کے توں اس پر عقیدہ رکھتے ہیں اور اس بات کا بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس کی ذات پاک اس نقل و حرکت سے منزہ ہے جو آنے میں ہوتی ہے پس یہ بات متشابہات میں سے ہے اور ہم پر ضروری ہے کہ اس مسئلہ میں زیادہ نہ الجھیں بلکہ حقیقت حال کا علم بس اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں، اس جملہ کی کچھ تاویلیں کی گئی ہیں، مثلا یہ کہ آنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں میں سے کوئی فرشتہ آئے گا۔ یا یہ کہ ان لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کا حکم آئے گا جیسا کہ اگلے جملہ سے اشارۃ یہ بات مفہوم بھی ہوتی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ کی پنڈلی کھولی جائے گی۔ کے بارے میں بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ پنڈلی کے کھلنے سے مراد خوف و دہشت اور گبھراہٹ وہول کا جاتا رہنا ہے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ پنڈلی کھلنے سے مراد خوف و دہشت اور گبھراہٹ وہول کا جاتا رہنا ہے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ پنڈلی کھلنے) سے مراد ایک عظیم نور کا ظاہر ہونا ہے یا یہ کہ فرشتوں کی جماعت کا ظاہر ہونا مراد ہے لیکن سب سے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس بارے میں بھی توقف ہی کیا جائے اور اس جملہ کی کوئی تاویل کرنے کی بجائے اس کا حقیقی علم اللہ کے سپرد کردیا جائے۔ حدیث میں جہاں اللہ تعالیٰ کی پنڈلی کھلنے، لوگوں کو سجدہ کا حکم ملنے اور پھر کچھ لوگوں کے سجدہ کرنے اور کچھ لوگوں کے سجدہ پر قادر نہ ہونے کا حکم ہے وہاں پر علامہ نووی (رح) نے اپنی شرح مسلم میں یہ لکھا ہے کہ حدیث کے اس جزو سے بظاہر یہ گمان ہوتا ہے کہ آخرت میں منافقین بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے، لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گمان کوئی بنیاد نہیں رکھتا، کیونکہ حدیث کے مذکورہ الفاظ میں یہ صراحت نہیں ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے اس دیدار سے منافقین بھی مشرف ہوں گے، بلکہ اس موقع پر صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان لوگوں کے سامنے کہ جن میں مخلص مؤمن بھی ہوں گے اور منافق بھی اپنا حجاب مٹا دے گا اور پھر امتحان و آزمائش کے لئے سب کو سجدہ کا حکم دے گا، پس جو شخص مخلص ہوگا سجدہ کرے گا اور جو شخص منافق ہوگا سجدہ نہیں کرسکے گا۔ اس بات سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ منافق بھی اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ پس مسلمان لوگ گزریں گے۔ یعنی اس پل صراط کے اوپر سے تمام مسلمان اس طرح گزریں گے کہ دنیا میں جو شخص عقیدہ و ایمان عمل و کردار اور دین و شریعت پر استقامت کے اعتبار سے جس درجہ کا رہا ہوگا اس کے مطابق آسانی کے ساتھ یا دشواری کے ساتھ اس مرحلہ کو پار کرے گا جس کی طرف حدیث کے اگلے جملہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ پس وہ پل صراط گویا دین و شریعت کے صراط مستقیم اس قدر روشن اور واضح ہے کہ جو صدق نیت اور اخلاص قلب کے ساتھ اس پر چلنا چاہے اس کے لئے کوئی دشواری نہیں ہے۔ اور کچھ مسلمان وہ ہوں گے جو زخم کھا کر نکلیں گے اور دوزخ کے آگ سے نجات پائیں گے۔ کا مطلب ایک تو یہ ہے کہ جو مسلمان گناہگار ہوں گے وہ اس پل صراط پر سے گزرنے میں سخت دشواری اور تکلیف واذیت کا شکار ہونگے، مثلا پل صراط کے دونوں طرف جو فولادی آنکڑے ہوں گے وہ ان کو زخمی کریں گے ان کا راستہ روکیں گے اور ان کے جسم کو چھلیں گے لیکن وہ مسلمان زخمی ہو کر اور چل چلا کر کسی نہ کسی طرح پل کو پار کر ہی لیں گے اور جنت میں پہنچ جائیں گے، اس طرح وہ لوگ دوزخ میں نہیں گریں گے، بلکہ پل صراط کے اوپر ہی تکلیف اور مشقت اٹھا کر نجات پاجائیں گے۔ یہ مطلب ظاہر حدیث کے اسلوب کے زیادہ مطابق ہے اور ترجمہ میں اسی کا لحاظ رکھا گیا ہے دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ پہلے تو پل صراط پر اس کے آنکڑوں کی وجہ سے زخمی ہوں گے سخت پریشانیوں سے دوچار ہوں گے اور پھر دوزخ میں گرادئیے جائیں گے جہاں وہ اپنے گناہوں کے بقدر سزا پانے کے لئے ایک مدت تک رہیں گے اور پھر ان کو دوزخ کی آگ سے نجات دے کی جنت میں پہنچادیا جائے گا۔ و مکدوش فی نار جہنم ( نیز کچھ مسلمان وہ ہوں گے جو پارہ پارہ کئے جائیں گے اور دوزخ میں دھکیل دئیے جائیں گے۔ یہ ان گناہ گار مسلمانوں کا ذکر ہے جن کو اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لئے بہرحال دوزخ کے سپرد کیا جائے گا، چناچہ یہ لوگ نہ صرف پل صراط پر گزرتے وقت سخت زخمی، تباہ حال اور مصیبت زدہ ہوں گے بلکہ ان کو دوزخ میں بھی گرا دیا جائے گا تاکہ وہ وہاں اس وقت تک عذاب پاتے رہیں جب تک ان کا اللہ چاہے مکدوش کا لفظ شین کے ساتھ منقول ہے ویسے یہ لفظ مکدوس یعنی سین کے ساتھ بھی مذکور معنی میں نقل ہوا ہے اور بعض روایتوں میں مکدوس منقول ہے، اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ ان سب کو باندھ باندھ کر ہاتھوں اور پیروں میں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال کر دوزخ میں اس طرح اکٹھا پھینکا جائے گا کہ وہ ایک دوسرے پر جا کر گریں گے۔ یہاں تک کہ جب مؤمن دوزخ کی آگ سے نجات پالیں گے۔۔ الخ۔ میں لفظ حتی ( یہاں تک کہ) اس مرحلہ کے ذکر کی غایت ہے جس میں تمام مؤمن پل صراط پر سے گزریں گے اور پھر ان میں سے کچھ لوگ تو پل کو پار کر جائیں گے اور کچھ لوگ دوزخ میں جا گریں گے لیکن طیبی (رح) یہ کہتے ہیں کہ لفظ حتی دراصل مکدوش فی نار جہنم ( وہ لوگ جو پارہ پارہ ہو کر جہنم میں گرجائیں گے کی غایت ہے اس صورت میں پوری عبارت کا ترجمہ یوں ہوگا کہ نیز کچھ مسلمان وہ ہوں گے جو پارہ پارہ کئے جائیں گے اور دوزخ میں دھکیل دئیے جائیں گے اور پھر آخر کار ان کو بھی ( اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد یا کسی کی شفاعت سے اور یا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے) دوزخ سے نجات مل جائے گی، پس قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔۔ الخ۔ اس سے معلوم ہوا کہ گناہ گار مؤمن ہمیشہ کے لئے دوزخ کے عذاب میں مبتلا رہیں گے اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد آخر کار دوزخ سے نجات مل جائے گی، پس قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔۔ الخ۔ اس سے معلوم ہوا کہ گناہ گار مؤمن ہمیشہ کے لئے دوزخ کے عذاب میں مبتلا نہیں رہیں گے اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد آخر کار دوزخ سے نکال کر جنت میں پہنچا دئیے جائیں گے بلکہ وہ جنت میں پہنچنے کے بعد ان دوسرے مؤمنوں کی بھی شفاعت کریں گے اور بارگاہ رب العزت میں ان کو عذاب سے چھٹکارا دلانے کی سخت ترین جدوجہد کریں گے جو اپنے گناہوں کی زیادتی کی وجہ سے اس وقت تک دوزخ سے چھٹکارا نہیں پا سکے ہوں گے جیسا کہ حضور ﷺ نے اپنے ارشاد پس قسم ہے اس ذات کی۔۔ الخ۔ کے ذریعہ واضح فرمایا۔ تم میں سے کوئی بھی شخص ظاہر وثابت شدہ حق کے اصول میں۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص پر تمہارا کوئی حق بالکل ظاہری دلائل و شواہد کے ذریعہ واجب ہوتا ہے اور تم اس حق کو پانے کا بہر صورت استحقاق رکھتے ہو تو اس شخص سے اپنا وہ حق حاصل کرنے کے لئے تم جتنا شدید مطالبہ و تقاضا کرتے ہو اور اس کے حصول کی جدوجہد میں جس طرح سعی و کوشش کی آخری سے آخری حد تک چلے جاتے ہو، اس سے بھی زیادہ شدید تمہارا مطالبہ اس دن بارگاہ رب العزت میں اپنے ان مسلمان بھائیوں کی نجات کے لئے ہوگا جو دوزخ میں پڑے ہوں گے اور تم ان کو وہاں سے نکلوانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے عرض ومعروض اور درخواست و شفاعت میں سعی اور کوشش کی آخری سے آخری حد تک چلے جاؤ گے۔ پس دوزخ کی آگ پر ان کی صورتوں کو حرام کردیا جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ دوزخ کی آگ کو اس بات سے منع کردیا جائے گا کہ وہ ان نااہل ایمان کو اس طرح جلائے یا نقصان پہنچائے کہ ان کے چہرے مسخ ہوجائیں اور وہ پہچان میں نہ آسکیں۔ حاصل یہ کہ اس وقت تک جو اہل ایمان دوزخ میں ہوں گے ان کے چہرے نہ تو جلیں گے اور نہ سیاہ ہوں گے، لہٰذا ان کی شفاعت کرنے والے مؤمن اس علامت کے ذریعہ ان کو آسانی کے ساتھ پہچان لیں گے اور دوزخ سے نکلوا لیں گے۔ جس کے دل میں تم دینار کے برابر بھی نیکی پاؤ یہاں اور اسی طرح آگے کے جملہ میں نیکی سے مراد وہ چیز ہے جو اصل ایمان سے زائد ہوگی۔ کیونکہ اصل ایمان کہ جس کو تصدیق کہتے ہیں ایک ایسا جوہر ہے جو اجزاء اور حصوں میں ناقابل تقسیم ہے اور اس پر کمی بیشی وغیرہ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جس نیکی کو اجزا اور حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے یا جس پر کمی بیشی کا اطلاق ہوتا ہے وہ اصل ایمان سے زائد اور ایمان کے نتیجہ وثمرہ کے طور پر ایک الگ چیز ہوتی ہے پس دل میں دینار برابر یا آدھے دینار برابر نیکی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جن کے پاس معمولی درجہ کا بھی ایسا عمل صالح ہو کے جس کے فعل کا تعلق دل سے ہے جیسے ذکر خفی ( دل میں اللہ کو یاد کرنا) یا کسی غریب و مسکین پر شفقت کرنا یا خوف الہٰی اور نیت صادقہ وغیرہ تو ان کو دوزخ سے نکلوا لو۔ جنہوں نے کبھی بھی کوئی نیکی کی ہی نہیں ہوگی، یہاں بھی ( نیکی) سے مراد وہ چیز ہے جو اصل ایمان سے زیادہ ہو، پس یہ لوگ کہ جن کو ارحم الراحمین محض اپنی خصوصی رحمت کے تحت دوزخ سے نکالے گا اپنے پاس افعال قلب میں سے بھی کوئی چھوٹی یا بڑی نیکی نہیں رکھتے ہوں گے البتہ اصل ایمان ( یعنی تصدیق) کے حامل ضرور ہوں گے اور ان لوگوں کی شفاعت کی اجازت کسی کو حاصل نہیں ہوگی۔ ان کی گردنوں میں مہریں لٹکی ہوئی ہوں گی میں مہر سے مراد سونے وغیرہ کا وہ زیور ہے جو گلے میں لٹکایا جاتا ہے، حاصل یہ کہ علامت کے طور پر ان کے گلوں میں کچھ مخصوص قسم کے ہار پڑے ہونگے جن کے ذریعہ وہ دوسرے لوگوں سے ممتاز نظر آئیں گے۔

【14】

وہ لوگ جن کو دوزخ میں سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب جنتیوں کو جنت میں اور دوزخیوں کو دوزخ میں پہنچایا جائے گا ( اور ہر شخص اپنے اپنے عمل کے مطابق جنت یا دوزخ میں اپنی جگہ پہنچ جائے گا، تو اللہ تعالیٰ ( انبیاء سے یا شفاعت کرنے والوں سے اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ فرشتوں سے) فرمائے گا کہ جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ( یعنی نیکی و بھلائی) ہو تو اس کو دوزخ سے نکال لو، چناچہ ان لوگوں کو دوزخ سے باہر لایا جائے گا اور اس وقت ان کی یہ حالت ہوگی کہ وہ جل جلا کر کوئلہ کی طرح ہوگئے ہوں گے پھر ان کو نہر حیات میں ڈالا جائے کا اور وہ ( اس نہر سے) اس طرح تروتازہ نکلیں گے جیسے سیلاب کے کوڑے کچرے میں گھاس کا دانہ اگتا ہے، کیا تم نے دیکھا نہیں وہ دانہ کس طرح لپٹا ہوا زرد نکلتا ہے ( یعنی کتنا زیادہ تروتازہ اور کتنی جلدی باہر آتا ہے۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو۔ اس حدیث سے یہ واضح ہوگیا کہ پچھلی حدیث میں جو یہ فرمایا گیا تھا کہ آخر میں ارحم الراحمین اپنی مٹھی بھر کر ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھی کوئی نیکی نہیں کی ہوگی۔ تو وہاں وہی لوگ مراد ہیں جن کا تعلق اہل ایمان سے ہوگا، یہ اور بات ہے کہ ان کے نامہ اعمال میں کوئی بھی نیکی یا بھلائی نہیں ہوگی۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ اس موقع پر حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ وہم ہوسکتا ہے کہ وہ کافر لوگ ہوں گے چناچہ اس بات پر پوری امت کا اجماع ہے کہ کوئی بھی کافر کسی بھی صورت میں دوزخ سے نہیں نکالا جائے گا۔

【15】

دوزخیوں کی نجات کا ذکر

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ( ایک دن) لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے ؟ اس کے بعد حضرت ابوہریرہ (رض) نے مضمون کے اعتبار سے وہی حدیث بیان کی جو پیچھے حضرت ابوسعید (رض) سے نقل کی گئی ہے ( گو دونوں روایتوں میں الفاظ کا اختلاف ہے) ہاں حضرت ابوہریرہ (رض) نے پنڈلی کھلنے) کا ذکر نہیں کیا اور پھر کہا ہے کہ ( آنحضرت ﷺ نے فرمایا) جب دوزخ کے اوپر پل صراط کھڑا کیا جائے تو تمام رسولوں میں اس پل کے اوپر سے اپنی امت کے ساتھ گزرنے والا سب سے پہلا رسول میں ہوں گا اور اس وقت ( رسولوں کے علاوہ) کوئی بھی شخص زبان سے بات نکالنے کی جرأت نہیں کرے گا اور رسول بھی صرف اتنا کہیں گے کہ اے اللہ ! سلامتی کے ساتھ نیز ( اس پل کے دونوں طرف جہنم میں سعدان کے کانٹوں جیسے آنکڑے ہوں گے، ان آنکڑوں کی لمبائی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، وہ آنکڑے لوگوں کو ان کے برے اعمال کے سبب اچک لیں گے، پس ان لوگوں میں سے بعض تو وہ ہوں گے جو اپنے اعمال کی پاداش میں ہلاک ہوں گے ( یعنی دوزخ میں جا گریں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب میں مبتلا رہیں گے جیسے کافر) اور بعض وہ ہونگے جو ( ان آنکڑوں کی گرفت کی وجہ سے پاش پاش ہوجائیں گے لیکن پھر نجات پاجائینگے ( یعنی آنکڑوں کے اچکنے کی وجہ سے ان کے جسم کا گوشت جگہ جگہ سے کٹ جائے گا اور پورا بدن بری طرح زخمی ہوجائے گا اور پھر وہ اسی حالت میں کسی نہ کسی طرح پل کو پار کر ہی لیں گے یا اگر دوزخ میں جا گریں گے تو وہاں کچھ عرصہ تک اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد آخر کار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات پاجائیں گے پس یہ گناہ گار وفاسق مسلمانوں کا حال بیان کیا گیا ہے) پھر جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلہ سے فارغ ہوجائے گا ( کہ اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے جو جنت کا مستحق ہوگا اس کو جنت میں بھیج دیا جائے گا اور جو دوزخ کا مستوجب ہوگا اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا) اور یہ ارادہ کرے گا کہ جن لوگوں نے لا الہ الا اللہ ( محمد رسول اللہ ﷺ کی گواہی دی ہے ان میں سے جن کو وہ چاہے دوزخ سے نکال لے تو فرشتوں کو حکم دے گا ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لیا جائے جو اللہ تعالیٰ کو معبود مانتے تھے ( اور اس کے علاوہ کسی اور کی معبودیت پر ایمان نہیں رکھتے تھے) چناچہ فرشتے ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لیں گے اور ان کی پیشانیوں پر سجدہ کے نشانات کے ذریعہ ان کو شناخت کرینگے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی آگ پر حرام کردیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشان کو کھالے اس لئے دوزخ سے اس حالت میں باہر لائے جائیں گے کہ وہ آگ میں جل کر سیاہ ہوچکے ہوں گے، پس ان پر آب حیات چھڑکا جائے گا اور وہ ( اس وقت ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی ہوگا کہ) ایک شخص جو دوزخیوں میں سے جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہوگا، جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا رکھا جائے گا اس کا منہ دوزخ کی طرف ہوگا، وہ عرض کرے گا کہ میرے پروردگار ! ( بس اتنا کرم کر دے کہ) میرا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے، دوزخ کی آگ کی بدبو نے مجھے سخت اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس کے شعلوں کی تیزی و گرمی مجھے بھسم کئے دے رہی ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اگر میں ایسا کر دوں ( یعنی تیرا منہ دوزخ کی طرف پھیر دوں) تو ہوسکتا ہے کہ تو پھر کچھ اور مانگنے لگے۔ وہ شخص عرض کرے گا کہ تمہیں، تیری عزت کی قسم میں اور کچھ نہیں مانگوں گا پھر وہ کچھ اور عہد و پیمان کرے گا جو اللہ تعالیٰ چاہے گا اور اللہ تعالیٰ اس کا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے گا، مگر جب اس کا منہ ( دوزخ کی طرف سے جنت کی طرف پھیر دے گا اور وہ جنت کی زیبائش و آرائش اور تروتازگی دیکھے گا تو ( پہلے تو) اس وقت تک خاموش (کھڑا دیکھتا) رہے گا جب تک اللہ چاہے گا اور پھر عرض کرے گا کہ میرے پروردگار ! مجھے جنت کے دروازہ تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نے یہ عہدوپیمان نہیں کیا تھا کہ تو اپنی اس درخواست کے علاوہ ( کہ میرا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دیجئے، کوئی درخواست پیش نہیں کرے گا وہ گڑگڑائے گا کہ میرے پروردگار ! تو مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ بنا ( کہ تیری یہ ساری مخلوق تو جنت کے اند رہے اور میں اتنا حرماں نصیب ہوں کہ جنت کے دروازہ تک نہ پہنچ سکوں، مگر جب وہ جنت کے دروازہ تک پہنچے گا اور جنت کی چمک دمک اور اس کے اندر کی چیزوں ( جیسے عالیشان محلات، عیش و عشرت کے اسباب، حوروغلمان اور جوت میں رہنے والوں) کے ٹھاٹ باٹ دیکھے گا تو پہلے اس وقت تک خاموش (کھڑا دیکھتا) رہے گا، جب تک اللہ چاہے گا اور پھر عرض، کرے گا کہ میرے پروردگار ! مجھے جنت کے اندر پہنچا دیجئے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، ابن آدم ! افسوس تو کس قدر عہد شکن اور وعدہ فراموش ہے ؟ کیا تو نے عہدوپیمان نہیں کیا تھا کہ تو اپنی اس درخواست کے علاوہ جو تیری خواہش کے مطابق منظور کرلی گئی تھی، کوئی اور درخواست پیش نہیں کرے گا۔ وہ عرض کرے گا کہ میرے پروردگار ! ( بیشک میں نے عہدوپیمان کیا تھا لیکن جب میں نے تیری شان عفو اور تیری بیکراں رحمت کی طرف دیکھا اور اس بات پر غور کیا کہ خود تو نے اپنے کلام مجید میں فرمایا ہے (لا تایئسوا من رحمۃ اللہ الخ) تو مجھے معلوم ہوا کہ میں ان کافروں کی طرح نہیں ہوں جو تیری رحمت سے ناامید ہوگئے ہیں، میں تیرے کرم اور تیری وسعت رحمت سے ہر لمحہ امید رکھنے والا ہوں، پس تیرا دامن رحمت تھام کر عرض کرتا ہوں کہ) مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ بنا غرضیکہ وہ اسی طرح گڑگڑاتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ( اس کی گڑگڑا ہٹ اور طلب صادق دیکھ کر) اس سے راضی ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ جب راضی ہوجائے گا تو اس کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دے گا، پھر فرمائے گا کہ تو اور جو کچھ آرزو اور خواہش رکھتا ہو تو اس کو ظاہر کر اور جو کچھ مانگنا چاہتا ہے مانگ لے چناچہ وہ ( دل کھول کر) اپنی آرزوئیں بیان کرے گا اور جب اپنی آخری سے آخری آرزو بھی پوری کرالے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ( ارے نادان) فلاں فلاں چیز کی بھی خواہش کیوں نہیں ظاہر کرتا ! گویا پروردگار اس کو یاد دلانا چاہے گا کہ تو نے فلاں فلاں چیز تو مانگی ہی نہیں، ان چیزوں کو بھی مانگ لے، میں آج تجھے ہر چیز عطا کروں گا یہاں تک کہ جب وہ آرزوئیں بھی پوری ہوجائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ نہ صرف یہ تمام چیزیں ( جو تیری خواہش پر تجھے عطا ہوئی ہیں) تیرے لئے ہیں بلکہ ( ازراہ تفصیل) ان ہی جیسی مزید نعمتیں تجھے عطا کی جاتی ہیں اور حضرت ابوسعید (رض) کی روایت میں یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا نہ صرف یہ تمام چیزیں تیرے لئے ہیں بلکہ ان کے ساتھ دس گناہ اور نعمتیں تجھے عطا کی جاتی ہیں۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح مگر سجدوں کے نشان کو نہیں کھاجائے گی۔ کے ضمن میں علامہ نووی (رح) نے لکھا ہے کہ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دوزخ کی آگ جسم کے ان اعضاء کو نہیں جلائے گی جن سے سجدہ کیا جاتا ہے اور وہ جسم کے سات حصے ہیں، یعنی پیشانی، دونوں ہاتھ، دونوں زانوں اور دونوں پاؤں، جب کہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ مگر سجدوں کے نشان کو نہیں کھائے گی۔ صرف پیشانی نہ جلایا جانا ہے لیکن علماء نے علامہ نووی (رح) کے قول کو زیاد پسند کیا ہے۔ چناچہ ان پر آب حیات چھڑکا جائے گا۔ یہ بات بظاہر پچھلی حدیث کے مخالف ہے جس میں یہ ذکر فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں کو نہر حیات میں ڈالا جائے گا لیکن حقیقت میں ان دونوں باتوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو نہر حیات میں غوطہ دلوایا جائے گا اور کچھ لوگوں پر اس نہر کا پانی چھڑکنا ہی کافی قرار دیا جائے گا۔ تیری عزت کی قسم میں کچھ نہیں مانگوں گا۔ اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص جب اپنی قسم اور اپنے عہد و پیمان کی خلاف ورزی کرے گا تو اس پر قسم وعہد توڑ نے کا عتاب کیوں نہیں ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس شخص کا حال ایک مجنون اور از خود رفتہ شخص کا سا ہوگا اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص معذور سمجھا جاتا ہے، یا یہ کہ بات جس جگہ سے تعلق رکھتی ہے وہ ایک ایسی جگہ ( یعنی آخرت) ہے جہاں کے کسی عمل کا کوئی شخص مکلف نہیں ہوگا، پس اس سے مواخذہ کس بنا پر کیا جائے گا۔

【16】

جنت میں سب سے بعد جانے والے شخص کا ذکر

اور حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والا جو شخص ہوگا وہ جب ( دوزخ سے باہر نکل کر) روانہ ہوگا تو ایک مرتبہ یعنی ایک قدم آگے چلے گا اور دوسری مرتبہ ( یعنی دوسرے قدم پر) منہ کے بل گرپڑے گا اور تیسری قدم پر) دوزخ کی آگ ( کی گرمی اور تپش) اس کے جسم کو جھلس ڈالے گی ( جس کی وجہ سے اس کے بعض اعضاء جسم جل جائیں گے اور اس کی جلد کا رنگ بدل جائے گا) پھر جب وہ ( اسی طرح گرتا پڑتا اور جھلستا ہوا) دوزخ ( کی گرمی وتپش کی زد) سے آگے گزر جائے گا تو مڑ کر ( دوزخ کی طرف) دیکھے گا اور کہے گا کہ بزرگ و برتر ہے اللہ کی ذات، جس نے مجھے تجھ سے چھٹکارا دلایا، اللہ کی قسم میرے پروردگار نے تو مجھے وہ چیز عطا کی ہے جو اس نے اگلے پچھلے لوگوں میں سے کسی کو عطا نہیں کی، پھر اس کی نظر کے سامنے ایک درخت کھڑا کیا جائے گا ( جس کے نیچے پانی کا چشمہ ہوگا) وہ ( درخت اور چشمے کو دیکھ کر) عرض کرے گا کہ میرے پروردگار ! مجھے اس درخت کے قریب پہنچا دے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کرسکوں اور اس کے چشمہ سے پانی پیوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا ابن آدم ! اگر میں تیری یہ آرزو پوری کر دوں تو ہوسکتا ہے کہ تو مجھ سے کچھ اور مانگنے لگے ! وہ عرض کرے گا کہ میرے پروردگار ایسا نہیں ہوگا، اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے اس بات کا عہد کرے گا کہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگے گا ! چونکہ وہ شخص ایک ایسی چیز دیکھے گا جو اس کو بےصبر کر دے گی، اس لئے اس کا پروردگار اس کو معذور جان کر اس سے درگزر کرے گا اور اس کو درخت کے پاس پہنچا دے گا ! وہ شخص اس درخت کے سایہ میں بیٹھے گا اور اس کے چشمے سے پانی پئیے گا پھر ( اس کو اور زیادہ آگے بڑھنے کے لئے) اس کی نظر کے سامنے ایک درخت کھڑا کیا جائے گا جو پہلے درخت سے زیادہ اچھا ہوگا، وہ شخص ( اس درخت کو دیکھ کر) کہے گا کہ میرے پروردگار مجھ کو اس درخت کے پاس پہنچا دیجئے تاکہ اس کا سایہ حاصل کرسکوں اور اس کے چشمے سے پانی پیوں، نیز میں اب اس درخت کے علاوہ تجھ سے کچھ اور نہیں مانگوں گا، حق تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ ابن آدم ! کیا تو نے مجھ سے یہ عہد نہیں کیا تھا کہ تو اس ( پہلے) درخت کے علاوہ کچھ اور مجھ سے نہیں مانگے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا گر میں تجھے اس درخت کے پاس بھی پہنچا دوں تو ہوسکتا ہے کہ تو مجھ سے کچھ اور مانگنے لگے، پس اس کا پروردگار اس کو معذور جان کر اس سے درگزر کرے گا کیونکہ وہ ایک ایسی چیز دیکھے گا جو اس کو بےصبر کر دیگی اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے پاس پہنچا دے گا، وہ شخص اس درخت کے سایہ میں بیٹھے گا اور اس کے چشمہ کا پانی پیئے گا اور ( تیسرا) اور درخت اس کے سامنے کھڑا کیا جائے گا جو جنت کے دروازہ کے قریب اور پہلے دونوں درختوں سے زیادہ اچھا ہوگا، وہ شخص ( اس درخت کو دیکھ کر) کہے گا کہ میرے پروردگار ! مجھے اس درخت کے پاس پہنچا دیجئے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کرسکوں اور اس کے چشمے میں سے پانی پیوں، حق تعالیٰ اس سے فرمائے گا، ابن آدم ! کیا تو نے مجھ سے یہ عہد نہیں کیا تھا کہ اس کے علاوہ کچھ اور مجھ سے نہیں مانگے گا۔ وہ عرض کرے گا کہ ہاں ( میں نے بیشک عہد کیا تھا لیکن اب یہ میرا آخری سوال ہے) اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ پس اس کا پروردگار اس کو معذور جان کر اس سے درگزر کرے گا کیونکہ وہ شخص ایک ایسی چیز دیکھے گا جو اس کو بےصبر کردے گی اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے پاس پہنچا دے گا۔ اور جب وہ اس درخت کے پاس پہنچ جائے گا اور اس کے کان میں وہ ( دلچسپ اور مزے دار) باتیں آئیں گی جو جنتی لوگ اپنی بیویوں اور اپنے دوست و احباب سے کریں گے تو وہ شخص ( بےاختیار ہو کر) عرض کرے گا کہ میرے پروردگار ! اب مجھے جنت میں بھی پہنچا دیجئے اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ابن آدم ! کیا کوئی ایسی چیز ہے جو تجھ سے ( یعنی تیرے بار بار خواہش و آرزو کرنے سے) میرا پیچھا چھڑا دے ؟ کیا تو اس سے بھی خوش ہوگا یا نہیں کہ میں تجھے جنت میں دنیا بھر کی مسافت کے برابر اور اسی قدر مزید جگہ تجھے دے دوں ؟ وہ شخص ( انتہائی خوشی ومسرت کے عالم میں) کہے گا کہ پروردگار کہیں آپ مجھ سے مذاق تو نہیں کررہے ہیں، حالانکہ آپ تو تمام جہانوں کے پروردگار ہیں ! ؟ ( حدیث کے یہ الفاظ بیان کرنے کے بعد م) حضرت ابن مسعود (رض) ہنسے اور پھر حدیث سننے والوں سے) بولے کہ کیا تم یہ نہیں پوچھو گے کہ میں کیوں ہنسا ؟ لوگوں نے پوچھا کہ ہاں بتائیے) آپ کیوں ہنسے تھے فرمایا اسی طرح رسول اللہ ﷺ بھی ہنسے تھے اور جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ ہنسے کیوں ؟ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں اس وجہ سے ہنسا کہ جب وہ شخص کہے گا کہ پروردگار ! کہیں آپ مجھ سے مذاق تو نہیں کررہے ہیں، حالانکہ آپ تمام جہانوں کے پروردگار ہیں ؟ تو پھر پروردگار عالم اس پر ہنس پڑے گا ! بہر حال اللہ تعالیٰ ( اس شخص کی یہ بات سن کر) فرمائے گا کہ نہیں میں تجھ سے مذاق نہیں کررہا ہوں، ( اور خوب جانتا ہوں کہ تو اس عطاء و بخشش کا مستحق نہیں ہے) لیکن ( یہ سب تجھ کو اس لئے دے رہا ہوں کہ) میں جو چاہوں کرسکتا ہوں ( کہ ہر چیز کا مالک و مختار اور قادر مطلق میں ہی ہوں) اس روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے ! اور مسلم ہی میں ایک اور روایت حضرت ابوسعید خدری (رض) سے اسی طرح کے الفاظ میں منقول ہے، لیکن اس روایت میں فیقول یا ابن ادم ما یصر ینی منک سے آخر تک کے الفاظ تو نہیں ہیں البتہ یہ الفاظ اور نقل کئے گے ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ اس شخص کو یاد دلائے گا اور بتائے گا کہ فلاں فلاں چیز مانگ اور جب ( وہ تمام چیزیں مانگ چکے گا اور) اس کی آرزوئیں تمام ہولیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ نہ صرف یہ تمام چیزیں ( جن کو تو نے خواہش و آرزو کی ہے) بلکہ ان کی دس گنی اور چیزیں بھی تجھے عطا کی جاتی ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ! اس کے بعد وہ شخص جنت میں اپنے گھر میں داخل ہوگا، وہاں اس کے پاس حورعین میں سے اس کی دو بیویاں آئیں گی اور کہیں گی کہ تمام تعریف اللہ بزرگ و برتر کے لئے ہے جس نے ( اس عالیشان محل میں کہ جہاں عیش و راحت جاودانی کے سوا نہ کوئی غم وفکر ہے اور نہ موت کا خوف، تمہیں ہمارے لئے اور ہمیں تمہارے لئے پیدا کیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ! وہ شخص ( فرط خوشی سے) کہے گا کہ ( یہاں سب سے زیادہ خوش نصیب میں ہی ہوں کیونکہ) جتنا مجھے عطا کیا گیا ہے اتنا کسی اور کو نہیں دیا گیا ( یہ بات وہ اس بناء پر کہے گا کہ اس وقت تک اسے دوسروں کو حاصل ہونے والی نعمتوں کا علم ہی نہیں ہوگا۔ وہ یہی سمجھے گا کہ یہاں سب سے زیادہ نوازا جانے والا بندہ بس میں ہی ہوں۔ تشریح اللہ کی قسم مجھے میرے پروردگار نے وہ چیز عطا کی ہے۔۔ الخ۔ اس موقع پر اس شخص کا قسم کھانا اور یہ بات کہنا دراصل اس کے اندر بدرجہ غایت امنڈ آنے والی خوشی ومسرت کا غماز ہوگا، کیونکہ اس وقت وہ اسی چیز کو سب سے بڑی نعمت جانے گا کہ دوزخ کی آگ سے باہر آنے کا موقع مل گیا اور پھر ہوسکتا ہے کہ وہ دوزخ سے نکلنے کے وقت کسی اور کو اپنے ساتھ نہ دیکھے اور یہ نہ جانے کہ کتنی زیادہ مخلوق جنت کی نعمتوں اور وہاں کے عیش و راحت میں ہے، اس لئے وہ یہی سمجھے گا کہ اس وقت میرے پروردگار نے دوزخ سے باہر لانے کی صورت میں مجھے جو نعمت عطا کی ہے اتنی بڑی نعمت اس نے اگلے پچھلے لوگوں میں سے کسی کو عطا نہیں کی۔ اس شخص کو یہ کہنے پر کہ پروردگار ! کہیں آپ مجھ سے مذاق تو نہیں کررہے ہیں۔۔ الخ۔ حق تعالیٰ کے ہنسنے سے مراد بندے سے اس کا بہت زیادہ خوش ہونا ہے اور اس بات کو بیان کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ کا ہنسنا اس عجب و سرور کی بنا پر تھا جو ایک گناہ گار بندے پر اللہ تعالیٰ کے کمال لطف و مہربانی کو دیکھ کر آپ ﷺ کے اندر پیدا ہوا تھا، رہی حضرت ابن مسعود کی بات تو وہ بیان حدیث کے وقت ان الفاظ پر پہنچ کر آنحضرت ﷺ کی اتباع میں اور خود اپنی بھی مسرت کے اظہار کے لئے ہنسے۔ وہاں اس کے پاس حور عین میں سے اس کی دو بیویاں آئیں گی حور اصل میں حوراء کی جمع ہے جس سے گورے رنگ اور حسین چہرے والی عورت مراد ہوتی ہے عین اصل میں عیناء کی جمع ہے جو بڑی اور کالی آنکھ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

【17】

دوزخ سے جنت میں پہنچأئے جانے والے لوگ جنت میں |" جہنمی |" کہلائیں گے

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ مسلمانوں کے کتنے ہی گروہ ایسے ہوں گے جنہیں ان کے ان گناہوں کی پاداش میں جو انہوں نے کئے ہونگے دوزخ کی آگ کے شعلے جھلس دیں گے اور ان کے حلیوں کو بدل دیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم اور رحمت کے تحت ان کو (دوزخ سے چھٹکارا دلا کر) جنت میں پہنچائے گا اور ان لوگوں کو جہنمی کہا جائے گا۔ ( بخاری) تشریح اور ان لوگوں کو جہنمی کہا جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں ان لوگوں کو اس اعتبار سے کہ وہ پہلے دوزخ میں گئے ہوں گے اور وہاں سے جنت میں آئے ہوں گے جہنمی کے نام سے تعبیر اور یاد کیا جائے گا لیکن ان کو جنت میں جہنمی کا نام دینا ان کی تحقیر و تذلیل کے لئے نہیں ہوگا ان کو خوش کرنے اور نعمت یاد دلانے کے طور پر ہوگا تاکہ وہ لوگ شکر نعمت کریں اور وہ شکر نعمت انہیں دوزخ سے نجات ملنے اور جنت میں پہنچ جانے کی مسرت و شادمانی کا احساس دلاتا رہے۔ ١٦ اور حضرت عمران بن حصین کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بہت سے لوگوں کو محمد ﷺ کی شفاعت کے نتیجہ میں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا اور ان کا نام جہنمی رکھا جائے گا۔ ( بخاری) اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میری امت میں کے بہت سے لوگ میری شفاعت کے نتیجہ میں دوزخ سے نکالے جائیں گے اور ان کا نام جہنمی رکھا جائے گا۔ ١٧ اور حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ! میں یقینا اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکالا جائے گا اور سب سے آخر میں جنت میں پہنچایا جائے گا یہ ایک شخص ہوگا جو گھٹنوں کے بل چل کر دوزخ سے باہر آئے گا، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے کأ کہ جا اور جنت میں داخل ہوجا، وہ شخص جب وہاں ( جنت کے اندر یا جنت کے دروازے پر) پہنچے گا تو اس کو جنت اس حال میں دکھائی دے گی کہ گویا وہ بالکل بھر گئی ہے اور اس میں مزید کسی کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے) وہ شخص عرض کرے گا کہ میرے لئے کوئی جگہ نظر نہیں آرہی ہے ؟ ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا ! تو جا اور جنت میں داخل ہو، وہاں تیرے لئے دنیا ( کی مسافت) کے بقدر اور اس سے دس گنی مزید جگہ تیرے لئے ( مخصوص کردی گی) ہے ! وہ شخص ( انتہائی تحیر واستعجاب کے عالم میں) کہے گا کہ ( پروردگار ! ) کیا آپ مجھ سے مذاق کررہے ہیں یا یہ کہے گا کہ آپ مجھ سے۔۔۔ ہنسی کر رہے ہیں حالانکہ آپ تو ( بادشاہوں کے بھی) بادشاہ ہیں ! ؟ حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول کریم ﷺ یہ بات فرما کر ہنسے یہاں تک کہ آپ ﷺ کی کچلیاں نظر آنے لگیں۔ اور کہا جاتا تھا کہ یہ شخص جنیتوں میں سب سے چھوٹے درجہ کا آدمی ہوگا۔ (بخاری ومسلم) ١٨ اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ! میں یقینا اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جنت میں داخل کیا جائے گا اور سب سے آخر میں جو زخ سے نکالا جائے گا، یہ ایک ایسا شخص ہوگا جس کو قیامت کے دن جب ( پروردگار کے حضور میں) پیش کیا جائے گا تو ( فرشتوں سے) کہا جائے گا کہ اس کے چھوٹے گناہوں پر مشتمل فرد جرم اس کے آگے کرد اور اس کے بڑے بڑے گناہوں کی فرد جرم) کو ابھی ہی اس پر ظاہر نہ کرو۔ چناچہ اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کی فرد جرم اس کے آگے کر دے جائے گی اور پھر اس سے کہا جائے کہ ( بتا) کیا تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں ( برے کام کئے تھے اور فلاں فلاں دن طاعت کو ترک کیا تھا، وہ اقرار کرے گا کہ ہاں ( میں نے فلاں فلاں دن اس اس طرح کیا تھا) وہ اپنے ان گناہوں سے انکار نہیں کرسکے گا کیونکہ وہ اپنے بڑے بڑے گناہوں کے خوف میں مبتلا ہوگا ( اور سوچے گا، اگر کہیں ان کے بڑے گناہوں کی فرد جرم سامنے آگئی تو پھر بہت سی سخت پرستش ورمواخذہ سے دوچار ہونا پڑے گا پس اس سے کہا جائے گا کہ ( جاہم نے نہ صرف تجھے معاف کیا بلکہ ہماری خصوصی رحمت اور کمال فضل و کرم کے تحت تجھے ہر برائی کے بدلہ میں ایک نیکی عطا کی جاتی ہے وہ شخص کہے گا کہ میرے پروردگار ! میں نے اور بھی بہت سے برے کام (یعنی بڑے گناہ) کئے تھے جو مجھے یہاں ( فرد جرم میں) نظر ہی نہیں آرہے ہیں حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا، رسول کریم ﷺ یہ بیان کر کے ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ ﷺ کی کچلیاں نظر آنے لگیں۔ ( مسلم )

【18】

ایک دوزخ سے نکالے جانے والے شخص کا واقعہ

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ( آخر میں دوزخ سے جن لوگوں کو نکالا جائے گا ان میں سے) چار آدمی وہ ہوں گے جن کو جب دوزخ سے نکالا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کیا جائے گا ان کے بارے میں یہ حکم ہوگا کہ ان کو دوزخ میں بھیج دیا جائے۔ اس کے بعد جب ان کو دوزخ کی طرف لے جایا جائے گا تو ان میں سے ایک شخص مڑ کر دیکھے گا اور ( بڑی حسرت کے ساتھ) کہے گا کہ میرے پروردگار ! میں تو یہ امید رکھتا تھا کہ جب آپ مجھے دوزخ سے باہر بلوالیں گے تو دوبارہ مجھے نہیں بھیجیں گے ! ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ! اللہ تعالیٰ (یہ بات سن کر) اس کو دوزخ سے نجات دے دے گا۔ ( مسلم ) تشریح ان لوگوں کو دوزخ سے نکالنا پھر دوبارہ دوزخ میں بھیجنے کا حکم دینا اور پھر نجات دے دینا دراصل ان کے امتحان و آزمائش اور ان کو ممنون کرم کرنے کے لئے ہوگا ! واضح رہے کہ آخر میں ان میں سے صرف ایک شخص کا حال بیان کیا گیا ہے اور باقی تینوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ایک شخص پر قیاس کرکے باقی سب کا حال خود بخود مفہوم ہوجاتا ہے کہ وہ سب بھی اسی طرح نجات پائیں گے۔ نیز یہاں چار لوگوں کا ذکر صرف تمثیل کے طور پر ہے اور اصل میں اس طرح کے لوگوں کی ایک پوری جماعت اور ایک بڑا طبقہ مراد ہے۔

【19】

اہل ایمان کو عذاب میں مبتلا کرنے کی اصل وجہ

اور حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ! جب اہل ایمان کو دوزخ سے چھٹکارا ملے گا تو ان کو ( جنت میں پہنچانے سے پہلے) اس پل پر روک لیا جائے گا جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہوگا اور پھر ان سے ایک دوسرے کو ان حقوق ومطالبات کا بدلہ دلوایا جائے گا جو دنیا میں وہ ایک دوسرے پر رکھتے تھے ( یعنی جو بھی شخص دنیا میں اپنے ذمے کسی کا حق رکھتا ہو اور اس کو ادا کرنے سے پہلے مرگیا ہوگا تو اس موقع پر اس سے وہ حق، حقدار کو دلوایا جائے گا) یہاں تک کہ جب وہ لوگ ( ہر طرح کے گناہ اور برائیوں کی آلائش سے) بالکل پاک وصاف ہوجائیں گے تو ان کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دیدی جائے گی۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے ( جب وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے تو ( ان میں سے ہر شخص اپنے اس مکان کو، جو اس کے لئے جنت میں مخصوص ہوگا اپنے دنیا کے مکان سے زیادہ پہنچاننے والا ہوگا۔ (بخاری) تشریح جب وہ لوگ بالکل پاک وصاف ہوجائیں گے۔۔ الخ۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہ گار اہل ایمان کو دوزخ کے سپرد کرنا اور عذاب میں مبتلا کرنا ان کو پاک وصاف کرنے کے لئے ہوگا تاکہ وہ پوری طرح کندن ہو کر جنت میں، کہ جو ان کے ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے، داخل ہوں، نہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے ان مؤمن بندوں کو کسی نفرت و عداوت اور قہر وغضب کے تحت دوزخ کی آگ میں جھونکے گا ! اور اس کا یہی حکم اس دنیا میں بھی کار فرما ہے کہ وہ اپنے بندوں کو بیماریوں حادثوں اور مختلف تکالیف و مصائب میں مبتلا کر کے ان کے گناہوں کو دھوتا رہتا ہے۔ اہل تحقیق نے کہا ہے کہ مختلف اوقات میں بندوں سے جو گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں ان میں بعض گناہ تو حق کی خاطر برداشت کی جانے والی مشتوں اور مختلف مصائب وآفات میں مبتلا ہونے کی وجہ سے دھل جاتے ہیں، بعض گناہ وہ ہوتے ہیں جن کو سکرات الموت کی شدت و سختی پاک و صاف کردیتی ہے، بعض گناہ وہ ہوتے ہیں جو عذاب قبر سے ختم ہوجاتے ہیں اور بعض گناہ وہ ہوتے ہیں جو دوزخ کی آگ کے علاوہ کسی اور چیز سے صاف نہیں ہوں گے جیسا کہ سونے اور چاندی کو بھٹی میں ڈال کر پگھلائے بغیر کندن نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے ہر شخص اپنے مکان کو۔۔ الخ۔ سے قلب کی اس قوت و نورانیت اور ہدایت کی طرف اشارہ ہے جو گناہوں سے پاک وصاف ہونے کی صورت میں حاصل ہوتی ہے، نیز اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جب ان لوگوں ( یعنی اہل ایمان) نے دنیا میں نور توفیق اور نور قلب کی روشنی میں ایمان، عمل صالح اور تعلق مع اللہ کے راستہ کو پالیا تھا اور ہدایت یافتہ ہوگئے تھے تو آخرت میں بھی جنت کے اندر اپنی منزل اور اپنے مقام کا راستہ آسانی کے ساتھ پالیں گے۔

【20】

ہر بندہ کے لئے جنت ودوزخ میں جگہیں مخصوص ہیں

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ! کوئی بھی شخص ( کہ جنت کا مستحق قرارپاچکا ہوگا) اس وقت تک جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا جب تک اس کو دوزخ میں وہ جگہ نہ دکھا دی جائے گی جو اس کا ٹھکانا ہوتا، اگر وہ برے کام کرتا ( یعنی اس کو وہ جگہ دکھا کر بتایا جائے گا کہ اگر تم دنیا میں برے کام کرتے تو دوزخ میں اس جگہ تمہارا ٹھکانا ہوتا) اور یہ اس لئے ہوگا تاکہ وہ دنیا میں برے کام سے بچنے کی توفیق ملنے اور دوزخ میں جانے کے بجائے جنت میں داخل کئے جانے پر) زیادہ سے زیادہ شکر ادا کرسکے اور کوئی بھی شخص ( کہ جو عذاب دوزخ کا مستوجب قرار دیا جا چکا ہوگا) اس وقت تک دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا جب تک کہ اس کو جنت میں وہ جگہ نہ دکھاوی جائے گی جو اس کے لئے مخصوص تھی اگر وہ نیک کام کرتا ( یعنی اس کو وہ جگہ دکھا کر بتایا جائے گا کہ اگر تم دنیا میں برائی کے راستے پر نہ لگے رہتے اور نیک کام کرتے تو جنت میں تمہیں یہ مقام عطا ہوتا) اور یہ اس لئے ہوگا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ حسرت و ندامت میں مبتلا رہے۔ (بخاری)

【21】

جب موت کو بھی موت کے سپرد کردیا جائے گا

اور حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں ( اپنی اپنی جگہ) جالیں گے تو موت کو لایا جائے گا ( اور بعض روایتوں میں یہ ہے کہ موت کو ایک دنبہ کی شکل میں لایا جائے گا) اور اس کو جنت و دوزخ کے درمیان ڈال کر ذبح کردیا جائے گا، پھر اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ اے جنتیوں ! ( سن لو) اب موت کا کوئی وجود نہیں رہا ( جو بھی شخص جہاں اور جس حالت میں ہے، اس پر کبھی موت کا سایہ نہیں پڑے گا، ہر ایک کو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی حاصل ہوگئی ہے) اور اے دوزخیو ! ( تم بھی سن لو) اب موت کا کوئی وجود نہیں رہا۔ ( یہ اعلان سن کر) اہل جنت کی فرحت ومسرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہے گا اور اہل دوزخ رنج وغم کے دریا میں اور زیادہ ڈوب جائیں گے۔ (بخاری ومسلم )

【22】

حوض کو ثر پر سب سے پہلے آنے والے فقراء مہاجرین ہوں گے

حضرت ثوبان نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میرے حوض کوثر کی لمبائی عدن بلقاء کے درمیانی فاصلہ کے بقدر ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے، اس کے آب خورے ( پانی پینے کے برتن) آسمان کے ستاروں سے زیادہ ہیں۔ جو شخص بھی ایک مرتبہ اس کا پانی پی لے گا پھر اس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی، اس حوض پر پانی پینے کے لئے سب سے پہلے آنے والے لوگ فقراء مہاجرین ہوں گے، وہی فقراء مہاجرین جو ( اس دنیا میں اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے) پراگندہ بال اور پریشان حال اور پھٹے پرانے حال اور پھٹے پرانے کپڑوں میں نظر آتے ہیں جو خوشحال گھرانوں کی لڑکیوں سے ( اگر اپنے نکاح کا پیغام بھیجیں تو ان سے) نکاح کے قابل نہیں سمجھے جاتے اور جن کے لئے ( گھروں کے) دروازے نہیں کھولے جاتے۔ اس روایت کو احمد، ترمذی نے روایت کیا ہے اور ابن ماجہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح جیسا کہ پہلے بھی اسی طرح کی ایک حدیث کی تشریح میں گزر چکا ہے، عدن ایک چھوٹے جزیرہ نما کا نام ہے جو پہلے یمن کی بندرگاہ تھا کچھ عرصہ پہلے تک اس جزیرہ پر انگریزوں کا قبضہ رہا ہے مگر اب خود مختار ریاست کی حیثیت رکھتا ہے، عدن بحر احمر کے جنوبی سرے پر واقع ہے۔ جہاں خلیج عدن، بحر احمر اور بحیرہ عرب ( بحر ہند) کو ملاتی ہے۔ اسی طرح عمان بھی ایک شہر کا نام ہے جو بحر احمر کے شمالی سرے پر پہلے ملک شام کا ایک حصہ تھا اور اب ملک اردن کا دار السلطنت ہے۔ بلقاء اصل میں ایک قدیم شہر کا نام ہے جو کبھی ملک شام کے دار السلطنت ومشق کے قرب و جوار میں آباد تھا۔ اور عمان اسی شہر کے بلقاء سے متعلق ایک دیہاتی علاقہ تھا، اسی بناء پر حدیث میں عمان بلقاء فرمایا گیا ہے ! حاصل یہ کہ آخرت میں مجھے جو حوض کوثر عطا ہوگا اس کی لمبائی کا فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا فاصلہ عمان بلقاء اور عدن کے درمیان ہے ( موجودہ دور میں اس فاصلہ کو پورے بحر احمر کی لمبائی پر قیاس کیا جاتا ہے کہ حوض کوثر، بحر احمر جتنا لمبا ہوگا) اور یہ بات بھی پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ حوض کوثر کی وسعت بیان کرنے کے لئے مختلف حدیثوں میں مختلف شہروں اور علاقوں کے درمیانی فاصلہ کا ذکر کیا گیا ہے مثلا اس حدیث میں عدن اور عمان بلقاء کے درمیانی فاصلہ کا ذکر ہے، ایک حدیث میں یہ ہے کہ حوض کوثر کی لمبائی ایلہ ( ایلات) اور صنعا، ( یمن) کے درمانی فاصلہ کے بقدر ہوگی اور ایک حدیث میں دو مہینے کی مسافت کے بقد ر فاصلہ کا ذکر ہے وغیرہ وغیرہ تو حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی حدیث میں حوض کی وسعت و زیادتی کو ظاہر کرنا ہے، پس جس موقع پر جو مقصود نہیں ہے بلکہ ان سب حدیثوں کا اصل مقصد صرف حوض کے طول وعرض کی وسعت وزیادت کو ظاہر کرنا ہے، پس جس موقع پر جو مخاطب وسامع جن علاقوں و شہروں کے درمیانی فاصلوں اور جس مسافت کی سمجھ اور معلومات رکھتا تھا اسی کے مطابق تمثیل کے طور پر شہروں اور علاقوں اور مسافت کا ذکر فرمایا۔ اس حوض پر پانی پینے کے لئے سب سے پہلے آنے والے لوگ فقراء مہاجرین ہوں گے۔ فقراء مہاجرین کو یہ شرف خصوصی اس لئے حاصل ہوگا کہ دنیا میں دین کی خاطر انہوں ہی نے سب سے زیادہ بھوک پیاس کی صعوبت برداشت کی ہے سب سے زیادہ پریشانی اور تباہ حالی کا شکار یہی لوگ ہوئے ہیں، اس لئے، آخرت میں سب سے پہلے انہی لوگوں کو کوثر پر سیراب کیا جائے گا اور سب سے پہلے انہی کو وہاں خوش آمدید کہا جائے گا۔ اسی مفہوم کو ایک دوسری حدیث میں یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ۔ اجوعکم فی الدنیا اشبعکم فی الاخرۃ۔ اور تم میں سے جو لوگ دنیا میں سب سے زیادہ بھوکے رہتے ہیں وہی آخرت میں سب سے زیادہ شکم سیر ہوں گے۔ نیز اللہ تعالیٰ جنت میں ایسے ہی لوگوں کو حکم دے گا۔ کلو واشربوا ہنیأ بما اسلفتم فی الایام الخالیۃ۔ خوب مزے سے کھاؤ اور پیوں۔ اس صورت حال کے صلہ میں جس سے تم گزشتہ ایام ( یعنی دنیاوی زندگی) میں دو چار تھے۔ واضح رہے کہ مہاجرین سے مراد وہ لوگ ہیں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آگئے تھے اور آنحضرت ﷺ ان کے قائد تھے، نیز انہی کے حکم میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے دین کی خاطر اپنے وطن اصلی سے ہجرت اختیار کرلی اور مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ جا کر بس گئے اور اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے راحت وچین اور خوشحالی کی زندگی پر فقروافلاس کو اور شہرت وناموری پر گم نامی وگوشہ گیری کو ترجیح دے کر اختیار کیا اور رضائے الہٰی کے لئے جاہ ومال کے حصول کی جدوجہد کو ترک کرکے علم وعمل کے حصول میں منہمک ہوئے۔ اور جن لوگوں کے لئے دروازے نہیں کھولے جاتے یعنی اگر وہ لوگ بفرض محال کس ضرورت کے تحت یا بلا ضرورت ہی کسی دنیا دار کے دروازے پر جائیں تو ان کی ظاہری شکستہ حالی کی بنا پر وہ ( دنیادار) ان کو اس قابل بھی نہ سمجھے کہ اپنے یہاں گھسنے دے اور اپنے پاس آنے دے یہ گویا اس بات سے کنایہ ہے کہ یہ لوگ اپنی ظاہری حالت کی وجہ سے دنیا داروں کے یہاں کسی دعوت و ضیافت میں بلائے جانے کے قابل نہیں سمجھے جاتے اور سماجی ومجلسی تعلقات میں ان کی طرف کوئی التفات نہیں کیا جاتا۔

【23】

حوض کوثر پر آنے والے لوگوں کا کوئی شمار نہیں ہوگا

اور حضرت زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ ( ایک سفر میں) ہم لوگ رسول کریم ﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک جگہ ہمارا پڑاؤ ہوا، وہاں آنحضرت ﷺ نے ( اس وقت موجود صحابہ سے) فرمایا کہ ( آخرت میں) جو لوگ میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے ان کی تعداد کے اعتبار سے تم لاکھ جزوں میں سے بھی نہیں ہو۔ حضرت زید بن ارقم (رض) سے سوال کیا گیا کہ اس موقع پر آپ لوگوں کی تعداد کیا تھی ؟ انہوں نے کہا کہ سات سو یا آٹھ سو۔ ( ابوداؤد) تشریح اس سے تحدید وتعین مراد نہیں ہے بلکہ حوض کوثر پر آنے والے لوگوں کی کثرت وبہتات کو بیان کرنا مراد ہے، کہ وہاں پانی پینے کے لئے آنے والے لوگوں کی تعداد بیشمار ہوگی۔ ہر نبی کو ایک حوض عطا ہوگا

【24】

حوض کوثر پر آنے والے لوگوں کا کوئی شمار نہیں ہوگا

اور حضرت سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ( آخرت میں) ہر نبی کو حوض عطا ہوگا ( اور ہر امت اپنے اپنے نبی ﷺ کے حوض پر آکر پانی پئیں گے، پس تمام انبیاء کرام آپس میں اس پر فخر کریں گے کہ کس کے حوض پر زیادہ آدمی آتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ سب سے زیادہ آدمی میرے حوض پر آئیں گے۔ ( ترمذی) تشریح مطلب یہ کہ آنحضرت ﷺ کی امت کے لوگوں کی تعداد چونکہ دوسری تمام امتوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوگی۔ اس لئے آپ ﷺ کے حوض پر پانی پینے کے لئے آنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہوگی ! اور یہ بات بالکل یقینی ہے جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں، پس آپ کا یہ کہنا کہ مجھے امید ہے اور جس سے شک وتردد کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے) محض تواضح و انکساری کی بنا پر ہے۔

【25】

قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کہاں کہاں ملیں گے

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ﷺ قیامت کے دن ( عام شفاعت کے علاوہ خاص طور پر الگ سے بھی، میری شفاعت فرمائیں، آپ ﷺ نے فرمایا ! اچھا شفاعت کردوں گا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ کو کہاں تلاش کروں اور آپ ﷺ مجھے کہاں ملیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ! سب سے پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا میں نے عرض کیا کہ اگر آپ ﷺ پل صراط پر نہ مل پائیں ؟ فرمایا ! تو پھر میزان کے پاس تلاش کرنا۔ میں نے عرض کیا کہ اگر آپ ﷺ میزان کے پاس بھی نہ ملیں ؟ فرمایا ! (اگر ان دونوں جگہ پر نہ مل پاؤں) تو پھر حوض پر مجھے تلاش کرنا میں ان تینوں جگہوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔ اس حدیث کو امام ترمذی (رح) نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح حضور ﷺ کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ قیامت کے دن یہ تین موقعے اور یہ تین مقام ایسے ہوں گے جہاں لوگوں کو بہت زیادہ پریشانی اور ہولناکی سے دوچار ہونا پڑے گا اور یہی وہ مقام ہوں گے جہاں پیش آنے والے حالات ومعاملات، سفارش و شفاعت کے طلب گارہوں گے، پس میں ان تینوں جگہوں پر باری باری موجود رہوں گا، کبھی یہاں کبھی وہاں اور اس طرح میں اس دن انہیں مقامات پر لوگوں کی دیکھ بھال رکھنے اور ان کے معاملات نمٹوانے میں مصروف رہوں گا۔ اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ یہ حدیث بظاہر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی اس حدیث کے خلاف ہے جو باب الحساب کی دوسری فصل میں گزری ہے اور جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ ﷺ قیامت کے دن اپنے اہل و عیال کو یاد رکھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس دن ان تینوں موقعوں پر کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) والی حدیث غائبین پر محمول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس دن ان تینوں موقعوں جو لوگ آپ ﷺ کے سامنے نہیں ہوں گے اور آپ ﷺ سے کوئی رابطہ قائم نہیں کریں گے آپ ﷺ از خود ان کو یاد نہیں کریں گے اور یہ حضرت انس (رض) والی حدیث حاضرین پر محمول ہے، یعنی آپ ﷺ کی امت میں جو لوگ ان موقعوں پر آپ ﷺ کی خدمت پر حاضر ہوں گے اور اپنی طرف متوجہ کریں گے تو آپ ﷺ ان کی طرف توجہ دیں گے اور ان کی خصوصی شفاعت فرمائیں گے۔ اور علامہ طیبی (رح) نے ان دونوں حدیثوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو مذکورہ جواب اس لئے دیا کہ وہ آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں اور یہ خدشہ تھا کہ کہیں وہ مخصوص حضور ﷺ کی شفاعت اور خصوصی توجہ پر اعتماد و بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائے اور عمل و ریاضت کی طرف سے بےفکر ہوجائیں ! چناچہ آپ ﷺ اپنے اہل بیت اور قرابتداروں سے یہی فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو ! میں تمہارے اخروی معاملات کا ذمہ دار نہیں ہوں محض میرے اوپر اعتماد کر کے نہ بیٹھ جانا، آخرت میں تمہارا عمل ہی فائدہ پہنچائے گا، اس کے برخلاف آپ ﷺ نے حضرت انس (رض) کو یہ جواب اس لئے دیا کہ وہ ناامید نہ ہوجائیں اور انہوں نے جس قلبی تعلق و اخلاص کی بنا پر یہ درخواست کی تھی اس کا تقاضہ یہی تھا کہ انہیں جواب بھی اس طرح کے محبت وتعلق کو ظاہر کرنے والا دیا جائے۔ بہر حال یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ وہ دن اپنی ہولناکی، شدت و سختی اور زحمت ومشقت کے اعتبار سے نہایت سخت ہوگا، اگرچہ آنحضرت ﷺ کو شفاعت کا مقام حاصل ہوگا اور آپ ﷺ کا شفاعت کرنا برحق ہے لیکن اس دن نجات پانے کے لئے اس دنیا میں عملی زندگی کو سوار نے اور درست کرنے کی ضرورت بھی مسلم ہے، محض حضور ﷺ کی شفاعت پر اعتماد کافی نہیں اور صرف اعمال پر اعتماد کر کے حضور ﷺ کی شفاعت سے بےنیازی کوئی معنی نہیں رکھتی، پس آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور حضرت انس (رض) کو جو الگ الگ جواب دئیے وہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر صحیح تھے اور ہر جواب میں مخاطب کے حال کی رعایت ملحوظ تھی۔

【26】

مقام محمود اور پروردگار کی کرسی کا ذکر

اور حضرت ابن مسعود (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ مقام محمود اور اس کی اہمیت وخصوصیت) کیا ہے ؟ جس کا اس آیت میں آپ ﷺ سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (عَسٰ ي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) 17 ۔ الاسراء 79) تو آپ ﷺ نے فرمایا اس دن ( کہ جب مجھے یہ مقام محمود عطا ہوگا) اللہ تعالیٰ اپنی کرسی پر نزول جلال فرمائے گا اور وہ کرسی چرچرائے گی جیسا کہ نئے چمڑے کی تنگ زین چرچراتی ہے اور اس کرسی کی کشادگی ووسعت اتنی ہے جتنی کہ زمین و آسمان کی درمیانی فضا، پھر تم سب کو برہنہ پاؤ ننگے بدن اور بےختنہ ( میدان حشر) میں لایا جائے گا اور اس دن سب سے پہلے جس شخص کو لباس پہنا جائے گا وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہوں گے چناچہ اللہ تعالیٰ ( فرشتوں کو) حکم دے گا کہ میرے دوست کو لباس پہناؤ اور جنت کی چادروں میں سے ملائم کتان کی دو سفید چادریں لا کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پہنائی جائیں گی، ان کے بعد مجھ کو لباس پہنایا جائے گا اور پھر میں اللہ تعالیٰ کے دائیں جانب کھڑا ہوں گا اور ( یہ اعزاز ملنے پر) اگلے پچھلے تمام لوگ مجھ پر رشک کریں کریں۔ (دارمی) تشریح اس حدیث میں پروردگار کی کرسی کی کشادگی و وسعت کو بیان کرنے کے لئے زمین و آسمان کی درمیانی فضا کی مثال دی گئی ہے جب کہ ایک حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ (وسعت و کشادگی میں) اس کرسی کے مقابلہ پر ساتوں آسمان اور ساتوں زمین کی مجموعی حیثیت بس اتنی ہی ہے جتنی کہ کسی بہت بڑے جنگل وبیابان میں پڑے ہوئے ایک چھوٹے سے چھلے کی اور اس کرسی کے مقابلہ پر عرش کی وہی حیثیت ہے جو اس چھلے کے مقابلہ پر پورے جنگل و بیابان کی ! پس اس حدیث میں کرسی کی جو وسعت و کشادگی بیان کی گئی ہے وہ بطریق تعین وتحدید نہیں ہے بلکہ عام لوگوں کے ذہن وفہم کے مطابق محض تمثیل کے طور پر ہے جیسا کہ جنت کی وسعت و کشادگی بیان کی گئی ہے وہ بطریق تعین وتحدید نہیں ہے بلکہ عام لوگوں کے ذہن وفہم کے مطابق محض تمثیل کے طور پر ہے جیسا کہ جنت کی وسعت و کشادگی کو محض تمثیل کے طور پر بیان کرنے کے لئے یہ فرمایا گیا ہے کہ عرضہا السموت والارض علاوہ ازیں اس وسعت و کشادگی کو بیان کرنے کا ایک خاص مقصد بھی تھا وہ یہ کہ آپ ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزول و جلال فرمانے کی وجہ سے کرسی اس طرح چرچرائے گی جس طرح نئے چمڑے کی تنگ زین سوار کے نیچے چرچراتی ہے تو اس سے یہ وہم ہوسکتا ہے کہ وہ کرسی تنگ اور چھوٹی ہونے کی وجہ سے چرچرائے گی، لہٰذا آپ ﷺ نے یہ واضح کرنا ضروری جانا کہ کرسی کے چرچرانے کی بات اور نئے چمڑے کی تنگ زین کی مشاہبت سے یہ نہ سمجھ لینا کہ وہ کرسی بھی چھوٹی اور تنگ ہوگی بلکہ وہ کرسی اتنی عظیم اور کشادہ ہے کہ اس کا ہلکا سا اندازہ کرنے کے لئے تم زمین و آسمان کی درمیانی فضا کا تصور کرلو بہرحال یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کے حدیث کے الفاظ ان متشابہات میں سے ہیں جن کے حقیقی معنی و مراد تک انسانی علم وذہن کی رسائی تیقّن کے ساتھ ممکن نہیں لہٰذا مفردات عبادت جیسے کرسی پر حق تعالیٰ کے بیٹھنے، کرسی کے چرچرانے اور اس کرسی کے زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ بقدر وسیع و کشادہ ہونے وغیرہ کی حقیقی معنی تک پہنچنے کی کوشش کئے بغیر صرف مفہوم حدیث کے خلاصہ کو اختیار کرنا چاہئے جو یہ ہے کہ اس حدیث کے ذریعہ قیامت کے دن حق تعالیٰ کی عظمت وکبریائی اس کے جاہ و جلال اور اس کی بادشاہت وحاکمیت کا اظہار کرنا مقصود ہے۔ اس دن سب سے پہلے جس شخص کو لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہوں گے الحشر کی پہلی فصل کی ایک حدیث میں بھی گزر چکا ہے اور یہ بات بھی وہاں بتائی جا چکی ہے کہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، آنحضرت ﷺ پر فضیلت رکہتے ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سب سے پہلے لباس پہنائے جانے کا شرف و اعزاز بھی اسی وجہ سے حاصل ہوگا کہ وہ آنحضرت ﷺ کے روحانی باپ ہیں اور آپ ﷺ کے دین اور آپ ﷺ کی ملت کا سلسلہ نسب انہی سے چلتا ہے ! علاوہ ازیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حاصل ہونے والے اس شرف و اعزاز کو زیادہ سے زیادہ آنحضرت ﷺ پر جزوی فضیلت ملنا ہی کہا جاسکتا ہے اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ جزوی فضیلت، کلی فضیلت کے منافی نہیں ہوتی جب کہ اس دن بھی آنحضرت ﷺ کا بالعموم اور علی الاطلاق پوری نوع انسانی بشول تمام پیغمبر و انبیاء سے افضل و برتر ہونا خود اسی حدیث کے آخری الفاظ ثم اقوم عن یمین اللہ الخ سے ظاہر وثابت ہے۔ اس کے بعد مجھ کو لباس پہنایا جائے گا۔ یہ ارشاد اس روایت کے منافی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ قیامت کے دن اپنی قبر سے لباس میں اٹھیں گے ! لیکن اگر یہ وضاحت پیش نظر رہے تو پھر دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد معلوم نہیں ہوگا کہ اگرچہ آنحضرت ﷺ اپنی قبر سے لباس میں اٹھیں گے لیکن میدان حشر میں آپ ﷺ کو تمام انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ دوبارہ لباس پہنایا جائے گا اور یہ آپ ﷺ کے کامل وشرف احترام کے اظہار کے لئے ہوگا۔ حدیث کو آخر تک دیکھنے کے بعد ایک بڑا سوال ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے کئے جانے والے سوال اور آپ ﷺ کی طرف سے دئیے جانے والے جواب کے درمیان مطابقت وموزونیت کیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پوچھنے والوں نے مقام محمود کے بارے میں پوچھا تھا کہ اس کی نوعیت و صورت کیا ہوگی، آپ ﷺ نے اس کا جواب براہ راست نہیں دیا بلکہ پہلے اس دن کے پرہیبت اور پر حول ماحول کا ذکر کیا تاکہ لوگوں کے ذہن میں اس چیز کی بڑائی اور اہمیت راسخ ہوجائے جس کے بارے میں انہوں نے سوال کیا ہے بعد میں آپ ﷺ نے ان الفاظ ثم اقوم عن یمین اللہ الخ ( پھر میں اللہ تعالیٰ کے دائیں جانب کھڑا ہوں گا الخ) کے ذریعہ ان کے سوال کے جواب کی طرف اشارہ کیا گویا آنحضرت ﷺ نے بالواسطہ طور پر یہ جواب دیا کہ مقام محمود وہ جگہ ہے جہاں میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے دائیں طرف کھڑا ہوں گا اور وہ سب سے بڑا شرف و اعزاز ہوگا جو میرے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوگا اور الاول تا آخر پوری کائنات مجھے عطا ہونے والے اس شرف و اعزاز پر رشک کرے گی۔ پس یہ ارشاد گرامی اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ ہمارے حضرت محمد ﷺ پوری کائنات حتی کہ انبیاء (علیہم السلام) رسول اور تمام مقربین پر فضیلت رکھتے ہیں۔

【27】

پل صراط پر اہل ایمان کی شناخت

اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن پل صراط پر سے گزرتے وقت اہل ایمان کی علامت، یہ الفاظ ہوں گے رب سلم سلم۔ ( پروردگار بچائیو، پروردگار بچائیو) اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح شعار جس کا ترجمہ علامت کیا گیا ہے) دراصل اسی مخصوص اصطلاحی لفظ یا جملہ کو کہتے ہیں جو فوج والے آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کے لئے، یا سفر کرنے والے دوران سفر ایک دوسرے کو شناخت کرنے کے لئے استعمال کریں، چناچہ قیامت کے دن پل صراط پر گزرتے وقت اہل ایمان کی شناخت و پہچان کے لئے رب سلم رب سلم ( پروردگار بچائیو) کے الفاظ ان کی زبان پر ہوں گے اور ہر امت کے لوگ جو اپنے پیغمبر اور رسول کے متبع اور تابعدار تھے، یہ الفاظ کہتے ہوئے آگے بڑھیں گے، تاہم زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس طرح کے شناختی الفاظ صرف مؤمنین کاملین کا شعار ہوں گے۔ یعنی با عمل علماء، شہدا اور صالحین کہ جن کو انبیاء اور رسولوں کی اتباع کے صدقہ شفاعت کا مرتبہ حاصل ہوگا۔ ابن مردویہ نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے بطریق مرفوع یہ نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن جب لوگوں کو قبروں سے اٹھایا جائے گا تو اس وقت اہل ایمان کا شعار لا الہ الا اللہ وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون ہوگا نیز شیرازی نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ہی کی یہ روایت نقل کی ہے کہ قیامت کے دن اس دن کے ہولناکی اندھیروں میں اہل ایمان کا شعار لا الہ الا انت ہوگا۔

【28】

گناہ کبیرہ کی شفاعت صرف اسی امت کے لئے مخصوص ہوگی

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا گناہ کبیرہ کرنے والوں کے حق میں میری شفاعت صرف امت کے لوگوں کے لئے مخصوص ہوگی ( ترمذی، ابوداؤد) اور ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت جابر (رض) سے نقل کیا ہے۔ تشریح مطلب یہ کہ کبیرہ گناہوں کی معافی میری شفاعت صرف میری امت کے لوگوں کے حق میں مخصوص ہوگی، دوسری امتوں کے لوگوں کے لئے نہیں ہوگی۔ علامہ طیبی (رح) نے کہا ہے کہ یہاں جس شفاعت کا ذکر ہے اس سے وہ شفاعت مراد ہے عذاب سے نجات اور خلاصی دلانے کے لئے ہوگی، ورنہ وہ شفاعت جو درجات کی بلندی و اعزاز واکرامات میں اضافہ کے لئے ہوگی اتقیاء اولیاء اور صلحاء کے حق میں بھی ثابت ہے۔ شفاعت کا ثبوت اور اس کی قسمیں شفاعت کے بارے میں جو اصولی باتیں ابتداء باب میں بھی گزر چکی ہیں، کچھ یہاں بھی نقل کردینا موزوں معلوم ہوتا ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک قیامت کے دن شفاعت و سفارش کا ہونا اس آیت سے ثابت ہے۔ (يَوْمَى ِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِيَ لَه قَوْلًا) 20 ۔ طہ 109) اس دن کسی کی سفارش کچھ فائدہ نہ دے گی مگر اس شخص کی جسے اللہ اجازت دے اور اس کی بات کو پسند فرمائے۔ نیز اس بارے میں اتنی زیادہ احادیث منقول ہیں کہ وہ سب مل کر حد تواتر کو پہنچتی ہیں اس لئے تمام سلف صالحین ( صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین وغیرہ) اور تمام اہل سنت کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے، ہاں خوارج اور معتزلہ کے بعض طبقے اس کے منکر ہیں اور وہ قیامت کے دن شفاعت کے قائل نہیں ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ شفاعت کی پانچ قسمیں ہیں پہلی قسم وہ ہے جو صرف آنحضرت ﷺ کے واسطے مخصوص ہے، اس شفاعت کا حق و اذن کسی اور کو حاصل نہیں ہوگا اور یہ شفاعت وہ ہوگی جس کا تعلق تمام لوگوں کو موقف ( میدان حشر میں کھڑے رہنے، کی ہولنا کیوں اور پریشانیوں سے چھٹکارا دلا کر حساب و کتاب جلد شروع کرانے سے ہوگا۔ دوسری قسم وہ ہے جو کچھ لوگوں کو حساب کے بغیر جنت میں داخل کردینے کے لئے ہوگی اور اس شفاعت کا ثبوت بھی صرف ہمارے حضور ﷺ کے لئے منقول ہے۔ تیسری قسم وہ ہے جوان لوگوں کے لئے ہوگی جنہیں دوزخ کا مستوجب قرار دیا گیا۔ چناچہ ان میں سے جن لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ چاہے گا ان کی شفاعت ہمارے حضرت ﷺ کریں گے چوتھی قسم وہ ہے جو ان لوگوں کے لئے ہوگی جنہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں دوزخ میں ڈالا جا چکا ہوگا، پس ان لوگوں کی شفاعت کے سلسلے میں جو حدیثیں منقول ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ آنحضرت ﷺ ، فرشتوں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی جانب سے کی جانے والی شفاعت کے نتیجہ میں دوزخ سے نکال کر جنت میں پہنچائے جائیں گے اور پھر آخر میں خود اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت کے تحت ان لوگوں کو عذاب دوزخ سے نجات عطا فرمائے گا، جنہوں نے لا الا الہ اللہ کہا ہوگا اور پانچویں قسم وہ ہے جس کا تعلق جنت میں اہل جنت کے درجات میں بلندی اور اعزازو کر امات میں اضافہ سے ہوگا۔

【29】

رحمت عالم کی شان رحمت

اور حضرت عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے فرمایا ! ( اللہ تعالیٰ کے پاس سے) ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور اس نے ( بارگاہ رب العزت کی جانب سے) مجھے ان دو باتوں میں سے ایک بات چن لینے کا اختیار دیا کہ تو میری آدھی امت جنت میں داخل ہوجائے یا ( سب کے حق میں) شفاعت کا حق مجھے حاصل ہو۔ پس میں نے اپنی پوری امت کے حق میں، شفاعت کا حق حاصل ہونے کو چن لیا ( تاکہ بلا استثناء سب ہی مؤمن و مسلمان اس سے فیضیاب ہوں اور کوئی بھی محروم نہ رہے) چناچہ میری شفاعت ( میری امت میں سے) ہر اس شخص کے لئے طے شدہ ہے جس نے اس اس حال میں اپنی جان آفرین کے سپرد کی ہو کہ اللہ کے شرک میں مبتلا نہیں تھا حاصل یہ کہ قیامت کے دن تمام اہل ایمان کو میری شفاعت نصیب ہونا یقینی ہے۔ ( ترمذی، دارمی، ابن ماجہ )

【30】

شفاعت کا ذکر

حضرت عبداللہ بن ابی جدعاء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ! میری امت کے ایگ برزگ و صالح، شخص کی شفاعت سے بنی تمیم کے آدمیوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ ( ترمذی، دارمی، ابن ماجہ) تشریح بنو تمیم ایک بہت بڑے قبیلے کا نام تھا، جس کے افراد کثرت و زیادتی کے اعتبار سے بطور مثال پیش کئے جاتے تھے۔ حاصل یہ کہ جب اس امت کے ایک اچھے آدمی کی شفاعت کے نتیجہ میں اتنے زیادہ لوگ جنت میں داخل کئے جائیں گے تو اندازہ کرنا چاہئے کہ اس امت میں اچھے لوگوں کی کتنی زیادہ تعداد ہوگی اور ان میں سے ہر ایک شفاعت کرے گا، پس ان سب کی شفاعتوں کے نتیجہ میں امت محمدی کے لوگوں کی کتنی بڑی تعداد جنت میں داخل کی جائے گی۔ بعض حضرات نے میری امت کے ایک شخص کو متعین کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے حضرت عثمان (رض) کی ذات مراد ہے، بعض نے حضرت اویس قرنی (رح) کا نام لیا ہے اور کچھ نے کہا ہے کہ یہ تعین مشکل ہے اور کوئی بھی شخص مراد ہوسکتا ہے، اسی قول کو زین العرب نے حدیث کے مفہوم سے زیادہ قریب قرار دیا ہے۔

【31】

شفاعت کا ذکر

اور حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے ( جن لوگوں کو شفاعت کا حق و اذن حاصل ہوگا، جیسے علماء شہدا اور صلحاء ان میں سے) کوئی تو ( اپنے متعلقین) کی کئی جماعتوں کی شفاعت کرے گا کوئی ایک عصبہ (کے لوگوں کے برابر اپنے متعلقین) کی شفاعت کرے گا اور کوئی اپنے متعلق) صرف ایک ہی آدمی کی سفارش کرے گا، غرضیکہ اسی طرح ہر ایک کی شفاعت کے نتیجہ میں ساری امت جنت میں داخل ہوجائے گی۔ ( ترمذی) تشریح قبیلہ ویسے تو بڑے خاندان، یا ایک باپ کی کئی پشتوں کے بیٹوں کو کہتے ہیں، لیکن عام طور پر اس لفظ کا اطلاق بہت زیادہ لوگوں پر ہوتا ہے اور عصبہ دس سے چالیس تک افراد کی ٹولی کو کہتے ہیں۔

【32】

حساب و کتاب کے بغیر جنت میں جانے والے

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل نے مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے چار لاکھ آدمیوں کو بلا حساب و کتاب ( اور مواخذہ و عذاب میں مبتلا کئے بغیر) جنت میں داخل کرے گا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ( یہ سن کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہماری اس تعداد میں اضافہ کر دیجئے ( یعنی اللہ تعالیٰ سے اس تعداد میں اور اضافہ کرنے کی درخواست کیجئے، یا یہ کہ پروردگار نے آپ ﷺ سے جس چیز کا وعدہ کیا ہے اس کو بڑھا کر بیان کیجئے) کیونکہ آپ ﷺ رحمت الٰہی پر اعتماد کر کے ہم سے جتنا زیادہ سے زیادہ بیان کردیں گے اللہ تعالیٰ اس کو پورا فرمائے گا) آپ ﷺ نے فرمایا اچھا، اتنا اور زیادہ ( یہ کہہ کر) آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کو یکجا کر کے چلو بنایا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہماری اس تعداد و مقدار میں اور اضافہ کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے پھر ( چلو بنا کر) کہا کہ اچھا اتنا اور زیادہ حضرت عمر (رض) بھی اس مجلس میں موجود تھے، انہوں نے محسوس کر کے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ( بس اب) ہمیں ہمارے حال پر رہنے دیجئے ( یعنی اتنی رعایت نہ کرائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے کرم عنایت ہی پر اعتماد کر کے پیٹھ جائیں اور عذاب الٰہی کے خوف سے اس طرح بےفکر ہوجائیں کہ عمل کرنا ہی ترک کردیں، حضرت ابوبکر (رض) نے ( یہ سن کر) کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم سب کو ( بغیر حساب ومواخذہ کے) جنت میں بھیج دے تو تمہارا کیا نقصان ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے جواب دیا کہ اگر اللہ عزوجل اپنی ساری مخلوق کو جنت میں داخل کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ( پھر بار بار اضافہ کی درخواست کرنے کی کیا ضرورت ہے) نبی کریم ﷺ نے ( حضرت عمر (رض) کی یہ بات سن کر) فرمایا عمر نے بالکل سچ کہا۔ اس روایت کو بغوی نے شرح السنۃ میں نقل کیا ہے۔ تشریح ( یہ کہہ کر) آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو یکجا کر کے چلو بنایا یعنی ابوبکر صدیق (رض) کی درخواست پر آنحضرت ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چلو بنا کر گویا ان کے آگے کیا اور فرمایا کہ اتنے اور لوگوں کا اضافہ کرتا ہوں ! اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ آپ ﷺ کا چلو بنانا اور یہ کہنا کہ اچھا اتنا اور زیادہ دراصل حق تعالیٰ کے فعل کی حکایت کے طور پر تھا یعنی یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ میں نے بلا حساب جنت میں جانے والوں کی مذکورہ کی تعداد متعین طور پر بیان نہیں کی ہے بلکہ اس تعداد سے کثرت مراد ہے، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ اس طرح چلو بھر کر یعنی بیشمار اور بےتعداد لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا اس لئے حدیث کے شارحین نے کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر چلو بنانے کی تمثیل اس حقیقت کے پیش نظر اختیار کی کہ دل کھول کردینے والے کی شان یہی ہوتی ہے کہ جب اس سے زیادہ دینے کی درخواست کی جاتی ہے تو وہ تعداد و مقدار سے صرف نظر کر کے چلو بھر بھر کر بےحساب دیتا ہے۔ پس چلو بھر کردینا دراصل ایک تمثیل ہے جو زیادہ سے زیادہ دینے کی شان کو ظاہر کرتی ہے۔ اس حدیث میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عمر فاروق (رض) کے تعلق سے جو کچھ ذکر ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مذکورہ مسئلہ میں ان دونوں کے درمیان کوئی ذہنی وفکری اور نیاز مندی اور درخواست گزاری کے قبیل سے تھا اور حضرت عمر فاروق (رض) نے جو کچھ کہا وہ اظہار عجزوبیچارگی، رحمت خداوندی کے تئیں بھر پور امیدواری اور نیاز مندی اور درخواست گزاری کے قبیل سے تھا اور حضرت عمر فاروق (رض) نے جو کچھ کہا وہ مصلحت و حکمت اور تسلیم ورضا کے قبیل سے تھا، اسی لئے آنحضرت ﷺ نے دونوں کی رعایت ملحوظ رکھی کہ پہلے تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی درخواست کو قابل اعتناء قرار دیا اور ان کو وہ جواب نہیں دیا جو حضرت عمر فاروق (رض) کی تصدیق کر کے ان کو بھی مزید پسندیدگی عنایت فرما دی ! اس بات کو ایک دوسرے نکتہ نظر سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی درخواست کا مثبت جواب دے کر گویا یہ ظاہر فرمایا کہ عمل کے راستہ پر لگنے اور دین شریعت کی طرف متوجہ رہنے میں ایک بڑا دخل بشارت کا بھی ہے لہٰذا آپ ﷺ نے اس بشارت کو ( کہ اللہ تعالیٰ ایک بہت بڑی تعداد کو بلا حساب جنت میں داخل کرے گا) اور زیادہ وسعت عطا فرمائی پھر آپ ﷺ نے حضرت عمر فاروق (رض) کے قول کی تصدیق کر کے اس طرف اشارہ کیا کہ۔۔۔ عمر (رض) نے جو بات کہی ہے وہ بشارت ہی ہے بلکہ پہلی بشارت سے بھی بڑی بشارت ہے۔ اس اعتبار سے دونوں کا مافی الضمیر ایک ہی تھا۔

【33】

گناہ گار لوگ کس طرح اپنی شفاعت کرائیں گے

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ! اہل ایمان میں سے) جو لوگ ( اپنے گناہوں کے سبب) دوزخی قرار دئیے جاچکے ہوں گے وہ اہل جنت یعنی علماء ( اخیار اور صلحاء و ابرار کے راستوں میں) صف باندھ کر کھڑے رہتے ہیں) اور پھر جب ایک جنتی ان کے سامنے سے گزرے گا تو ان دوزخیوں میں سے ایک شخص ( اس جنتی کا نام لے کر) کہے گا اے فلانے ! کیا تم مجھے نہیں پہنچاتے ؟ میں وہ شخص ہوں جس نے ایک مرتبہ تمہیں پانی پلایا تھا انہیں میں کوئی شخص یہ کہے گا کہ میں وہی آدمی ہوں جس نے ایک مرتبہ تمہیں وضو کے لئے پانی دیا تھا وہ جنتی ( یہ سن کر) اس کی شفاعت کرے گا اور اس کو جنت میں داخل کرائے گا۔ ( ابن ماجہ ) ۔ تشریح اس سے معلوم ہوا کہ فاسق و گناہ گار اگر اس دنیا میں اہل دین اور ارباب طاعت وتقوی کی کوئی خدمت و امداد کریں گے تو اس کا بہتر ثمرہ عقبیٰ میں پائیں گے اور ان کی مدد و شفاعت سے جنت میں داخل کئے جائیں گے۔ مظہر نے کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعہ گویا اس امر کی ترغیب دی ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں اور خصوصًا بزرگ ونیک لوگوں کے ساتھ حسن و سلوک اور مروت و احسان کا برتاؤ کرنا چاہئے اور جب بھی ان کی ہم نشینی و صحبت میسر ہوجائے اس کو اختیار کرنے کا موقع گنوانا نہ چاہئے کیونکہ ان کی صحبت اور محبت دنیا میں حصول زینت و پاکیزگی اور آخرت میں حصول نور کا باعث ہے۔

【34】

رحمت خداوندی کے دو مظاہر

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ! ( اہل ایمان میں سے) جو لوگ اپنے گناہوں کی پاداش میں) دوزخ میں داخل ہوں گے ان میں سے دو آدمی بہت زیادہ شور مچائیں گے ( یعنی رونا دھونا اور آہ و فریاد شروع کردیں گے اور خوب چیخیں چلائیں گے) پروردگار ( دوزخ کے فرشتوں کو) حکم دے گا کہ ان دونوں کو باہر نکالو اور جب وہ باہر آئیں گے تو) ان سے فرمائے گا کہ کیوں اس قدر چیخ چلا رہے تھے ؟ وہ کہیں گے کہ ہم اس لئے چیخ چلا رہے تھے تاکہ آپ کی رحمت ہماری طرف متوجہ ہوجائے ( اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ آپ اس شخص کو پسند کرتے ہیں جو آپ کے آگے روئے دھوئے اور آہ و فریاد کرے) اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہارے حق میں میری رحمت یہی ہے کہ تم واپس جاؤ اور دوزخ میں جہاں تھے وہیں پڑے رہو۔ ان میں سے ایک شخص تو ( یہ سنتے ہی کامل اطاعت اور رضائے الہٰی کی طلب میں) واپس ہوجائے گا اور خود کو دوزخ کی آگ میں ڈال دے گا اور اللہ تعالیٰ اس آگ کو اس کے لئے ٹھنڈا کر دے گا ( کہ جیسا کہ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے آگ کو گل و گلزار بنادیا تھا) اور دوسرا شخص ( اپنے کو اس معاملہ میں بالکل بےبس پاتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم پر کامل یقین رکھتے ہوئے) وہیں کھڑا رہے گا اور خود کو آگ میں نہیں ڈالے گا ! اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تو نے خود کو آگ میں کیوں نہیں ڈالا جب کہ تیرا ساتھی ( میرا حکم سنتے ہی چلا گیا اور) آگ میں کود پڑا ؟ وہ عرض کریے گا کہ پروردگار میں تو اسی امید پر قائم ہوں کہ آپ نے جب مجھے دوزخ سے باہر بلوا لیا تو اب دوبارہ وہاں نہیں بھیجیں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا ! تو نے جو امید قائم کی ہے وہ تیرے حق میں پوری کی جاتی ہے۔ چناچہ وہ دونوں شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کے صدقہ میں ایک ساتھ جنت میں داخل کر دئیے جائیں گے۔ (ترمذی) تشریح تمہارے حق میں میری رحمت یہی ہے کہ تم واپس جاؤ۔۔ الخ۔ کے سلسلے میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ دوزخ میں واپس جا کر سپرد آگ ہونے کو رحمت پر کس اعتبار سے حمل کیا گیا ہے ؟ اس کا مختصر جواب یہ ہوگا کہ یہ ارشاد اصل سبب کو سبب پر حمل کرنے کے اسلوب سے تعلق رکھتا ہے ! وضاحت کے ساتھ اس بات کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں کو دوزخ میں ان کے اس قصور کی پاداش میں داخل کیا جائے گا کہ انہوں نے اس بات کی اطاعت کے حکم کے ذریعہ کہ وہ دوزخ میں واپس جا کر اپنے آپ کو آگ کے سپرد کردیں اس امر پر تنبیہ کی جائے گی کہ رحمت الٰہی کا مستحق وہی شخص ہوتا ہے جو ہر حالت میں اس کے حکم کی اطاعت و فرمانبرداری کرے۔ تو نے جو امید قائم کی ہے وہ تیرے حق میں پوری کی جاتی ہے۔ سے یہ ثابت ہوا کہ بندہ کا پروردگار پر امید باندھنا اس کے عطاء و کرم کے حصول میں بہت موثر ہے، خواہ وہ بندہ اپنے عجز ونا تو انی کے سبب اطاعت و فرمانبرداری کے دائرہ سے باہر ہی نکلا ہوا کیوں نہ ہو۔

【35】

پل صراط پر سے گزرنے کا حکم

اور حضرت ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا لوگ یعنی اہل ایمان ( پل صراط کے اوپر سے گزرنے کے وقت کہ جو دوزخ کے اوپر رکھا ہوگا آگ پر حاضر ہوں گے ( یعنی اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے) اور پھر اپنے اپنے اعمال کے مطابق اس سے نجات پائیں کے ( اور پل صراط کو آسانی کے ساتھ یا پریشانی سے عبور کرلیں گے) چناچہ ان میں اول اور سب سے افضل لوگ وہ ہوں گے جو ( پل صراط پر سے بجلی) کو ندے کی طرح گزر چائیں گے۔ پھر ( وہ لوگ ہوں گے جو) ہوا کے جھونکے کی طرح، پھر ( وہ لوگ ہوں گے جو) گھوڑے کی دوڑ کی مانند، پھر ( وہ لوگ ہوں گے جو) اپنے اونٹ پر سوار کی مانند پھر ( وہ لوگ ہوں گے جو) آدمی کے دوڑنے کی مانند اور پھر ( وہ لوگ ہوں گے جو) آدمی کے ( معمول کے مطابق) پیدل چلنے کی مانند (گزریں گے) ۔ اس روایت کو ترمذی اور دارمی نے نقل کیا ہے۔

【36】

حوض کوثر کی وسعت

اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے آگے ( قیامت کے دن) میرا حوض کوثر ( ظاہر ہونے والا) ہے جس کے دونوں کناروں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہے جتنا جربا اور اذرح کا درمیانی فاصلہ ہے۔ کسی راوی کا کہنا ہے کہ جربا اور اذرح ملک شام میں دو بستیاں ہیں جن کے درمیان تین دن کی مسافت ہے۔ اور ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ( اس حوض) کے دونوں کناروں پر آب خورے رکھے ہوں گے جو ( چمک دمک اور کثرت کے اعتبار سے) آسمان کے ستاروں کی مانند ہوں گے، جو شخص اس حوض پر آئے گا اور اس کا پانی پیئے گا وہ پھر کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ ( بخاری ومسلم) تشریح بعض محققین نے لکھا ہے کہ ملک شام میں جربا ایک بستی کا نام ہے جو دراصل اذرح کے بالکل قریب واقع ہے لہذا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ جربا اور اذرح کے درمیان تین دن کی مسافت ہے ! اس صورت میں چونکہ حدیث کا مہفوم گنجلک ہوجاتا ہے اس لئے محدثین نے یہ تحقیق کی ہے کہ اس حدیث کے کسی راوی کے وہم میں مبتلا ہوجانے کی وجہ سے وہ الفاظ نقل نہیں ہوئے جن سے حوض کوثر کی وسعت کو ظاہر کرنا مقصود تھا، چناچہ دار قطنی کی روایت دیکھنے سے اس بات کی تائید ہوتی ہے جو یوں ہے۔ یعنی میرے حوض کے دونوں کناروں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہے جتنا کہ مدینہ اور جربا واذرح کے درمیان فاصلہ ہے۔

【37】

شفاعت اور پل صراط کا ذکر

اور حضرت حذیفہ و حضرت ابوہریرہ (رض) دونوں نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن) بابرکت وبلند قدر پروردگار ( میدان حشر میں) لوگوں کو جمع کرے گا اور پھر تمام مؤمن ( حساب و کتاب اور آخری فیصلہ کے انتظار میں) کھڑے ہوں گے کہ جنت کو ان کے قریب کردیا جائے گا پس ( ہر امت کے خاص خاص) مومن حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے باپ ! ہمارے لئے جنت کو کھول دیجئے ( تاکہ ہم اپنی اس ابدی آرام گاہ میں داخل ہوجائیں) حضرت آدم (علیہ السلام) ان کو جواب دیں گے کہ ( کیا تم نہیں جانتے) تمہیں جنت سے تمہارے باپ ہی کے گناہ نے نکلوایا تھا ( لہٰذا) اس کام ( یعنی تمارے حق میں شفاعت کرنے اور جنت کھلوانے) کا اہل میں نہیں ہوں، تم لوگ میرے بیٹے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ جو اللہ کے دوست اور اللہ کے رسولوں میں افضل اور خاتم الانبیاء کے جد اعلی ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( لوگ میرے بیٹے ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے ان سے وہی عرض کریں گے جو انہوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے عرض کیا تھا) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی ان کو یہی جواب دیں گے کہ اس کام کا اہل میں نہیں ہوں، میں اللہ کا دوست، آج سے پہلے پہلے ہی تھا، تم لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ جن کو اللہ تعالیٰ نے ہم کلامی کے شرف سے نوازا ہے چناچہ وہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ اس کام کا اہل میں نہیں ہوں، تم لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ جو اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں ! چناچہ ( وہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی یہی جواب دیں گے کہ اس کام کا اہل میں نہیں ہوں آخر کار ( اس وقت یہ بات واضح ہوجائے گی کہ شفاعت کا انحصار صرف خاتم الانبیاء محمد ﷺ پر ہے کیونکہ بارگاہ رب العزت میں سب سے زیادہ قرب وعزت انہی کو حاصل ہے اور تمام انبیاء و رسولوں میں سے سب سے زیادہ ممتازومشہور انہی کی ذات ہے، چناچہ وہ لوگ محمد ﷺ کے پاس آئیں گے اور محمد ﷺ ( عرش الہٰی کے دائیں جانب) کھڑے ہو کر تمام نوع انسانی کو میدان حشر کی سختیوں اور پریشانیوں سے راحت دلانے کی شفاعت کرنے کی اجازت طلب کریں گے، پس آپ ﷺ کو اجازت عطا کی جائے گی ( اور جیسا کہ پیچھے گزرا آپ ﷺ بارگاہ رب العزت میں پیش ہو کر سجدہ میں گرپڑیں گے اور پھر حکم الٰہی پر سر اٹھائیں گے اور عرض ومعروض کریں گے) پھر جب حساب و کتاب کا مرحلہ گزر جائے گا اور تمام لوگ پل صراط کے اوپر سے گزرنے والے ہوں گے تو امانت دار اور رحم ( ناطے) کو ( صورت دے کر) لایا جائے گا اور یہ دونوں ( اپنا حق اور انصاف مانگنے کے لئے) پل صراط کے دائیں بائیں دونوں طرف کھڑے ہوجائیں گے پھر ( پل صراط سے لوگوں کا گزرنا شروع ہوگا تو ایک طبقہ جو تم میں سب سے افضل ہوگا اور سب سے پہلے گزرے گا بجلی کی طرح ( نہایت سرعت سے) پل پار کر جائے گا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ( یہ سن کر) عرض کیا کہ ( یا رسول اللہ ﷺ ! ) آپ ﷺ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، بجلی کی طرح گزرنے کی صورت کیا ہوگی ! آپ ﷺ نے فرمایا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ بجلی کی چمک کس طرح گزر جاتی ہے اور پل چھپکتے ہی واپس آجاتی ہے ( مطلب یہ ہے) کہ یہ لوگ پل صراط پر سے بس اسی طرح گزریں گے اور ان کو ان کے اعمال کی طاقت ونورانیت اور پاگیزگی آگے بڑھائے گی ( یعنی جس کے اعمال جس درجہ کے ہوں گے اس کے گزرنے کی رفتار بھی اسی درجہ کی ہوگی) اور اس وقت جب کہ مسلمان پل صراط کے اوپر سے گزر رہے ہوں گے) تمہارے نبی ﷺ پل صراط پر کھڑے ہوئے یہ کہے جار ہے ہوں گے کہ۔ ( یعنی پروردگار ! ان کو سلامتی کے ساتھ گزار دے ان کو دوزخ میں گرنے سے محفوظ رکھ) اور پھر کچھ بندوں کے اعمال عاجز ہوں گے، یعنی جن بندوں کے اعمال ناقص وکمتر ہوں گے یا وہ ایسے اعمال نہ رکھتے ہوں گے جن کی بنا پر انہیں پل پار کرنے میں مدد ملے تو وہ لوگ پل پر سے گزرتے وقت سخت قسم کی پریشانیوں اور رکاوٹوں میں گھر جائیں گے) یہاں تک کہ ایک شخص ( جو اپنے اعمال کی بہت زیادہ خرابی کی وجہ سے چلنے پر بالکل ہی قادر نہیں ہوگا) گھسیٹتا ہوا اور کو لہوں کے بل سرکتا ہوا آئے گا۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا اور پل صراط کے دونوں طرف آنکڑے لٹکے ہوں گے اور ان کو ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے) یہ حکم دیا گیا ہوگا کہ وہ ہر اس شخص کو گرفت میں لے لیں جو قابل گرفت قرار پاچکا ہے، چناچہ وہ آنکڑے ایسے ہونگے کہ لوگوں کو پکڑیں گے اور پھر) ان میں سے کچھ لوگ تو ان آنکڑوں کی مصیبت جھیل کر اور زخمی ہو کر ( دوزخ کی آگ سے) نجات پاجائیں گے اور کچھ لوگوں کو ہاتھ پاؤں باندھ کر دوزخ میں پھینک دیا جائے گا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں ابوہریرہ (رض) کی جان ہے دوزخ کا گھیراو ستر برس کی مسافت کی راہ کے برابر ہے۔ ( مسلم ) تشریح جنت کو ان کے قریب کردیا جائے گا۔ کے دریعہ سورت تکویر کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ (وَاِذَا الْجَنَّةُ اُزْلِفَتْ 13 عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا اَحْضَرَتْ 14) 81 ۔ التکویر 79) اور قیامت کے دن میدان حشر میں جنت جب قریب لائی جائے گی تب ہر شخص معلوم کرے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی ان کو یہی جواب دیں گے کہ اس کام کا اہل میں نہیں ہوں۔۔ الخ۔ کے ضمن میں ایک شارح نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ بات اظہار تواضح و انکسار کے طور پر کہیں گے کہ اس بلند درجہ کا لائق میں نہیں ہوں گویا ان کا مطلب یہ ہوگا کہ پروردگار کی جانب سے مجھے جو بھی فضیلت وخصوصیت اور عزت عطا ہوئی ہے وہ حضرت جرائیل (علیہ السلام) کے واسطہ سے مجھ تک پہنچی ہے، لہٰذا تمہیں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جانا چاہئے کیونکہ ان کو عطا ہونے والی فضیلت وخصوصیت۔ اور عزت یعنی پروردگار سے ہم کلامی کی سعادت بغیر کسی واسطہ کے براہ راست حاصل ہوئی ہے۔ وہ لوگ محمد ﷺ کے پاس آئیں گے اس موقع پر یہ کہنے کے بجائے کہ وہ لوگ میرے پاس آئیں گے آپ ﷺ نے اپنا اسم شریف محمد ﷺ ذکر کیا اور فرمایا کہ وہ لوگ محمد ﷺ کے پاس آئیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ محمد میں حمد کے معنی ہیں اور اس کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ آپ ﷺ اس دن مقام محمود پر کھڑے ہوں گے جو مقام شفاعت ہے۔ ایک طبقہ جو تم میں سب سے پہلے گزرے گا۔۔ الخ۔ کے بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس طبقہ سے انبیاء (علیہم السلام) کا طبقہ مراد ہے تاہم یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس امت کے اولیاء وصلحاء کا طبقہ مراد ہو۔

【38】

دوزخ سے نکال کر جنت میں پہنچائے جانے والے لوگ کس طرح جلد تروتازہ اور توانا ہوجائیں گے

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ وہ لوگ جو شفاعت کی بناء پر دوزخ سے نکالیں جائیں گے ان کی مثال ایسی ہوگی وہ ثعاریر ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ ! ثعاریر سے کیا مراد ہے ! آپ ﷺ نے فرمایا۔ وہ کھیرے ککڑیاں ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح کھیرے ککڑیاں ضغابیس کا ترجمہ کیا گیا ہے ! مطلب یہ ہے کہ جب ان لوگوں کو دوزخ کی آگ سے باہر لایا جائے گا تو وہ جل کر کوئلہ ہوگئے ہوں گے، لیکن جب انہیں نہر حیات میں غوطہ دلایا جائے گا تو وہ اس طرح جھٹ پٹ تروتازہ اور توانا ہوجائیں گے جس طرح کھیرے ککڑیاں اسی طرح کی دوسری سبزیوں کے درخت بہت جلد بڑھتے اور ہرے بھرے ہوجاتے ہیں۔

【39】

کون کون لوگ شفاعت کریں گے ؟

اور حضرت عثمان ابن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن تین طرح کے لوگ شفاعت کریں گے، اول انبیاء، پھر (با عمل) علماء اور پھر شہداء۔ ( ابن ماجہ ) تشریح اور پھر شہداء میں جو عطف ہے اس سے صراحت کے ساتھ یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ با عمل علماء، شہدا سے افضل ہیں، اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس کو شیرازی (رح) نے نقل کیا ہے۔ یوزن یوم القیامۃ مداداللعلماء ودم الشہداء فترجح مدادالعلماء علی دم الشہداء۔ قیامت کے دن علماء کی روشنائی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا تو شہداء کے خون پر علماء کی روشنائی بھاری پڑجائے گی۔ واضح رہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں شفاعت کرنے والے صرف تین طرح کے لوگوں کی تخصیص محض ان کی برتر فضیلت و بزرگی کی بنا پر ہے ویسے مسلمانوں میں تمام ہی نیک لوگوں کو شفاعت کا حق حاصل ہوگا، جیسا کہ اس سلسلہ میں منقول متعدد مشہور احادیث سے ثابت ہے، خواہ اس شفاعت کا تعلق گناہوں کی مغفرت سے ہو یا مراتب و درجات کی بلندی سے نیز شفاعت سے انکار صریح بدعت و گمراہی ہے، جیسا کہ خوارج اور بعض معتزلہ نے اختیار کیا ہے۔