173. جنت اور اہل جنت کے حالات کا بیان

【1】

جنت اور اہل جنت کے حالات کا بیان

صراح میں لکھا ہے کہ جنت کے معنی ہیں باغ بہشت جنت اصل میں ڈھانپنے کے معنی میں آتا ہے۔ اس مناسبت سے پہلے اس لفظ کا اطلاق سایہ دار درختوں پر ہوتا تھا جو اپنے نیچے کی چیز کو گویا اپنے سائے میں چھپائے اور ڈھانپتے رہتے ہیں، پھر اس لفظ کو باغ کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا جو سایہ دار درختوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور پھر آخر میں یہ لفظ ثواب و انعام ملنے کی جگہ یعنی بہشت کے لئے مخصوص ہو کر رہ گیا، چناچہ بہشت کو جنت اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ وہاں گھنے درخت اور باغات ہیں جو ہر چیز کو اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہیں۔

【2】

جنت کا ذکر

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ! میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ چیز تیار کر رکھی ہے کہ ( آج تک) نہ کسی آنکھ نے اس ( جیسی کسی چیز) کو دیکھا ہے نہ کسی کان نے ( اس جیسی خوبیوں کا) سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں ( اس کی ماہیت کا تصور تک آیا ہے اگر تم اس بات کی تصدیق چاہو تو یہ آیت پڑھو (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ) 32 ۔ السجدہ 17) ( بخاری ومسلم) کوئی بھی شخص نہیں جانتا ( جو بندے شب بیداری کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں) ان کے لئے کیا چیز چھپا رکھی گئی ہے جو آنکھ کی ٹھنڈک کا سبب ہے۔ تشریح ۔۔۔ نہ کسی آنکھ نے الخ کے بارے میں بھی یہ احتمال ہے کہ اس چیز ( یعنی جنت) کے مظاہر شکل و صورت آوازیں اور خاطر داریاں مراد ہوں، مطلب یہ کہ وہاں جو اعلی مناظر ہوں گے اور وہاں جو نظر افروز شکلیں اور صورتیں دکھائی دیں گی ان جیسے مناظر اور جیسی شکلیں اور صورتیں اس دنیا میں نہ دیکھی گئی ہیں اور نہ کبھی دیکھیں جاسکتی ہیں، اسی طرح وہاں کی آوازوں میں جو مٹھاس، نغمگی اور دلکشی ہوگی، ایسی میٹھی، نغمیہ ریز اور دلکش آوازیں اس دنیا میں آج تک نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کبھی سنی جاسکتی ہیں اور ایسے ہی وہاں جو خاطر ومدارت ہوں گی، جو نعمتیں اور لذتیں حاصل ہوں گی، ان کا تصور بھی اس دنیا میں آج تک کسی انسان کے دل میں نہیں آیا ہوگا اور نہ کبھی اس کا کوئی تصور کیا جاسکتا ہے۔ آیت میں جس چیز کو آنکھ کی ٹھنڈک سے تعبیر کیا گیا ہے اس سے فرحت و شادمانی، چین و راحت اور مقصود مراد پانا ہے ! واضح رہے کہ ( آنکھ کی ٹھنڈک) میں لفظ قرۃ دراصل قر سے نکلا ہے جس کے معنی ثبات وقرار کے ہیں۔ چناچہ آنکھ جب اپنی محبوب چیز کو دیکھتی ہے تو قرار پاجاتی ہے اور اس طرح مطمئن ہوجاتی ہے کہ کسی اور طرف مائل نہیں ہوتی اس کے برخلاف جب آنکھ کسی غیر پسندیدہ اور ناگوار چیز کو دیکھتی ہے اور اس کی محبوب شی سامنے نہیں ہوتی تو وہ پریشان اور کھوئی سی رہتی ہے اور کسی ایک سمت قرار پانے کے بجائے ادھر ادھر بھٹکنا شروع کردیتی ہے ایسے ہی فرحت و سرور اور راحت و اطمینان کی حالت میں آنکھوں کو عجیب طرح کا کیف و سکون اور آرام ملتا ہے جب کہ خوف وغم کی حالت میں وہ متحرک ومضطرب ہوجاتی ہیں۔ یا یہ کہ قرۃ کے لفظ قر سے مشق ہے جے جس کے معنی ٹھنڈک اور خشکی کے ہیں اس صورت میں کہا جائے گا کہ آنکھ کی ٹھنڈک سی مراد وہ مخصوص لذت وکیف ہے جو محبوب اور پسندیدہ چیز کو دیکھ کر اور اپنا مقصود و مطلوب پا کر آنکھ محسوس کرتی ہے، اس کے برخلاف آنکھ جب کسی غیر پسندیدہ اور ناگوار چیز اور دشمن کو دیکھتی ہے اور مطلوب و مقصود کے انتظار میں ہوتی ہے تو گویا اس وقت وہ ایک خاص جلن اور سوزش محسوس کرتی ہے ! اسی مناسبت سے پیاری اولاد کو قرۃ العین یعنی آنکھوں کی ٹھنڈک کہا جاتا ہے ! نیز ایک حدیث میں جو یوں آیا ہے کہ جعلت قرۃ عینی فئی الصلوۃ ( حضور ﷺ نے فرمایا میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز رکھی گئی ہے تو اس میں بھی لفظ قرۃ کے دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں ! جیسا کہ اپنے موقع پر اس حدیث کی تشریح میں ذکر ہوچکا ہے۔

【3】

جنت کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں ایک کوڑے کے برابر بھی جگہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب سے بہتر ہے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح سفر کا قاعدہ ہوتا تھا کہ جب سوار کسی جگہ اترنا چاہتا تو اپنا کوڑا وہاں ڈال دیتا تاکہ دوسرا شخص وہاں نہ اترے اور وہ جگہ اس کے ٹھہرنے کے لئے مخصوص ہوجائے پس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جنت کی اتنی تھوڑی سی جگہ اور وہاں کا چھوٹا سا مکان بھی کہ جہاں مسافر سفر میں ٹھہرتا ہے اس پوری دنیا اور یہاں کی تمام چیزوں سے زیادہ قیمتی اور زیادہ اچھا ہے کیونکہ جنت اور جنت کی تمام نعمتیں ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں جب کہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں فنا ہوجانے والی ہیں۔

【4】

حوران جنت کی تعریف

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا صبح کو شام کو ایک بار اللہ کی راہ میں نکلنا دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور اگر جنتیوں میں سے کسی کی عورت ( یعنی کوئی حور) زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق ومغرب کے درمیان کو ( یعنی دنیا کے اس کونے سے لے کر اس کونے تک کی تمام چیزوں کو) روشن ومنور کر دے اور مشرق سے لے کر مغرب تک کی تمام فضاء کو خوشبو سے بھر دے، نیز اس کے سر کی ایک اوڑھنی اس دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ (بخاری ) تشریح صبح اور شام کی تخصیص معمول کا لحاظ رکھتے ہوئے ہے کہ عام طور پر فوج ولشکر کی روانگی میدان جنگ میں معرکہ آرائی اور حملہ وغیرہ کی ابتداء انہی اوقات میں ہوئی ہے۔ ورنہ یہاں نطق مراد ہے خواہ وہ صبح وشام کا وقت ہو یا کوئی اور وقت اللہ کی راہ سے مراد جہاد وغیرہ بھی ہے اور ہجرات بھی، اسی طرح حج، طلب علم اور ہر اس مقصد کے لئے گھر سے نکلنا اور سفر کرنا بھی مراد ہے جس کا مطمع نظر اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا حصول اور بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اسی کے فرمان کی بجا آوری ہو یہاں تک کہ اپنے اہل و عیال کا نقطہ پورا کرنے کے لئے اور عبادت الٰہی اور احکام الہٰی کی بجا آوری میں دلجمی و اطمینان اور حضور قلب کے حصول کی غرض سے رزق حلال کی تلاش میں نکلنا اور سفر کرنا بھی اللہ کی راہ میں نکلنے کا مفہوم رکھتا ہے ! حاصل یہ ہے کہ الہ کی راہ میں گھر بار چھوڑ کر مصروف عمل رہنے والے لوگوں کو جو فضیلت اور مرتبہ حاصل ہوتا ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگا دیا جائے کہ جو شخص محض ایک بار بھی اللہ کی راہ میں نکلتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کو جو اجر وثواب ملتا ہے یا اس کو آخرت میں جو نعمتیں حاصل ہوں گی وہ اس دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہیں ! نیز ذکر چونکہ اللہ کے راستہ میں نکلنے کی فضیلت کا تھا جس کا اجر اللہ کے ہاں جنت ہے اس مناسبت سے جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ( یعنی حور) کی کچھ خوبیاں بھی بیان فرمائی گئیں۔ لفظ بینہما کی ضمیریں مشرق ومغرب کی طرف لوٹائی گئی ہیں، لیکن یہ ضمیریں آسمان و زمین کی طرف یا جنت اور زمین کی طرف بھی لوٹائی جاسکتی ہیں، ویسے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ جنت اور زمین کی طرف راجع ہوں کیونکہ عبارت میں بھی یہی دونوں صریحا مذکور ہیں۔

【5】

جنت کے ایک درخت کا ذکر

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہے ( جس کا نام طوبی ہے) اگر کوئی سوار اس درخت کے سائے میں سو برس تک چلتا رہے تب بھی اس کی مسافت ختم نہ ہوگی اور جنت میں تمہارے کمان کی برابر جگہ ان تمام چیزوں سے بہتر و برتر ہے جن پر آفتاب طلوع یا غروب ہوتا ہے ۔ (بخاری ومسلم ) تشریح جن پر آفتاب طلوح و غروب ہوتا ہے۔ سے مراد تمام دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں ہیں۔ طلوع یا غروب میں حرف یا یا تو راوی کے شک کو ظاہر کرنے کے لئے ہے یا اظہار حیرت کے لئے ہے، یا اور کے معنی میں ہے اس طرح کی پہلے جو حدیث گزری ہے اس میں ایک کوڑے کے برابر جگہ کا ذکر ہے اور یہاں ایک کمان کی برابر جگہ کا ذکر کیا گیا ہے تو دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے اور یہاں بھی وہی وضاحت پیش نظر رہنی چاہئے جو پہلے بیان ہوچکی ہے، التبہ اس فرق کو سامنے رکھنا چاہئے کہ سفر کے دوران سوار تو اترنے کی جگہ اپنا کوڑا ڈال دیا کرتا تھا اور جو شخص پیدل ہوتا تھا وہ جس جگہ ٹھہرنا چاہتا وہاں اپنی کمان ڈال دیتا تھا تاکہ وہ جگہ اس کے ٹھہرنے کے لئے مخصوص ہوجائے۔

【6】

جنت کا خیمہ

اور حضرت ابوموسی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مومن کو جنت میں جو خیمہ ملے گا وہ پورا ایک کھوکھلا موتی ہوگا جس کا عرض ایک اور روایت میں ہے کہ جس کا طول ساٹھ کوس کی مسافت کے بقدر ہوگا، اس خیمہ کے ہر گوشہ میں اس ( مومن) کے اہل خانہ ہونگے اور ایک گوشہ کے آدمی دوسرے گوشہ کے آدمیوں کو نہیں دیکھ سکیں گے۔ ان سب اہل خانہ کے پاس مومن آتا جاتا رہے گا۔ ( مومن کے لئے) دو جنتیں چاندی کی ہوں گی کہ ان جنتیوں کے برتن، باسن ( مکانات ومحلات اور خانہ داری کے دوسرے ضروری وآرائشی سامان تخت کرسی میز پلنگ، جھاڑ، فانوس، یہاں تک درخت وغیرہ) سب چاندی کے ہوں گے اور دو جنتیں سونے کی ہوں گی کہ ان جنتوں کے برتن باسن اور ان میں ہر چیز سونے کی ہوگی اور جنت العدن میں جنتیوں اور پروردگار کی طرف سے ان کے دیکھنے کے درمیان ذات باری تعالیٰ کی عظمت و بزرگی کے پردہ کے علاوہ اور کوئی چیز حائل نہیں ہوگی۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ زیادہ صحیح اس روایت کے الفاظ ہیں جس میں اس خیمہ کا عرض ساٹھ کوس کی مسافت کے بقدر بیان کیا گیا ہے یا اس روایت کے الفاظ زیادہ صحیح ہیں جس میں خیمہ کے طول کو ساتھ کوس کی مسافت کے بقدر بتایا گیا ہے، اصل مقصد اس خیمہ کی وسعت و کشادگی کو بیان کرنا ہے جو دونوں روایتوں سے حاصل ہوجاتا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اس خیمہ کی چوڑائی ساتھ کوس کے بقدر ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی لمبائی کتنی زیادہ ہوگی اور اگر یہ کہا جائے کہ اس کی لمبائی ساٹھ کوس کی مسافت کے بقدر ہے تو اس پر قیاس کر کے اس کی چوڑائی کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اہل خانہ سے مراد بیوی وغیرہ ہیں ! اور ایک شارح نے لکھا ہے کہ اہل سے مراد بیویاں ہیں جو اس مومن کو وہاں ملیں گی اور جن سے وہ جنسی لذت حاصل کرے گا، چناچہ آتا جاتا رہے گا کے الفاظ کے ذریعہ اسی بات کو کنایہ بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ مومن اپنی ان بیویوں کے ساتھ جنسی اختلاط کرتا رہے گا۔ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دو جنتیں خالص چاندی کی اور دو جنتیں خالص سونے کی ہوں گی جب کہ ایک روایت میں جنت کی عمارتوں اور محلات کی تعریف میں بیان کیا گیا ہے کہ ان میں جو اینٹیں لگی ہوں گی ان کی ترتیب یہ ہوگی کہ ایک اینٹ تو سونے کی ہوگی اور ایک اینٹ چاندی کی۔ پس ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہوگی کہ پہلی روایت میں ان چیزوں کا ذکر ہے جو جنت کے اندر ہوں گی، جیسے برتن، باسن اور دیگر اشیاء چناچہ ایک جنت میں تو تمام چیزیں سونے کی ہوں گی اور ایک جنت میں تمام چیزیں چاندی کی ہوں گی اور دوسری روایت میں جنت کی عمارتوں کی خوبی بیان کی گئی ہے کہ جنت کی ہر عمارت و محل کی دیوار میں سونے اور چاندی کی اینٹیں ہوں گی۔ جنتوں کی تعداد اور ان کے نام علامہ بیہقی (رح) نے کہا ہے کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جنتیں چار ہیں، چناچہ اللہ تعالیٰ نے سورت رحمن میں فرمایا ہے۔ (وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّه جَنَّتٰنِ ) 55 ۔ الرحمن 46) اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ( ہر وقت) ڈرتا ہو اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ اس کے بعد کی آیتوں میں ان دونوں جنتوں کی تعریف و توصیف بیان فرمائی گئی ہے اور پھر ارشاد ہوا۔ (وَمِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِ ) 55 ۔ الرحمن 16) اور ان دو جنتوں سے کم درجہ میں دو جنتیں اور ہیں۔ پہلی دو جنتوں کی طرح آگے کی آیات میں ان دو جنتوں کی بھی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے رہی حدیث کی بات تو اوپر حضرت ابوموسی (رض) کی روایت کہ یہ الفاظ جنتان من فضۃ انیتہما وما فیہا وجنتان من ذہب انیتہما وما فیہا اس پر صریح دلالت کرتے ہیں کہ جنتیں چار ہیں اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ جنتان من الذہب للسابقین وجنتان من فضۃ لا صحاب الیمین۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں جنتان ( دو جنتوں) کا جو لفظ ہے اس سے جنت کی دو قسمیں مراد ہوں یعنی ان جنتوں میں سے ایک سونے کی اور دوسری چاندی کی ہوگی۔ حاصل یہ نکلا کہ اصل میں چار جنتیں ہیں، دو سونے کی ہیں جو خاص مقربین کے لئے ہیں اور دو چاندی کی ہیں جو عام مومنین کے لئے ہیں، لیکن یہ بھی واضح رہے کہ جنتان گو تثنیہ کا صیغہ ہے مگر بعض موقعوں پر تثنیہ کا صیغہ ہے مگر بعض موقعوں پر تثنیہ سے کثرت ( یعنی دو سے زائد کی تعداد بھی مراد ہوتی ہے اس لئے ہوسکتا ہے کہ جنتان سے مراد چار چار جنتیں ہوں اور کاملین کو ان دو اصل جنتوں کے علاوہ جو دو جنتیں اور عطا ہوں جو سونے اور چاندی ہی کی ہوں گی اور وہ جنتیں زیبائش و خوشنمائی کے لئے ان کاملین کے محلات کے دائیں بائیں واقع ہوں گی، اس کی تائید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں جنت کے تعلق سے آٹھ نام ذکر ہوئے ہیں اور وہ یہ ہیں (١) جنت العدن (٢) جنت الفردوس (٣) جنت الخلد (٤) جنت النعیم ( ٥) جنت الماوی (٦) دار السلام ( ٧) دار القرار ( ٨) دار المقامہ۔ اور جنت العدن میں جنتیوں اور پروردگار کی طرف ان کو دیکھنے۔۔ الخ۔ کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب جنتی لوگ جنت میں پہنچ جائیں گے تو وہ جسمانی حجاب اور طبعی کدورتیں جو بندے اور پروردگار کے دیدار کے درمیان حائل ہوتی ہیں اٹھ جائیں گی مگر ذات مقدس کی کبریائی و عظمت اور ہیبت و جلال کا پردہ باقی رہے گا تاہم اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی فضل و کرم سے اس پردہ کو بھی اٹھا دے گا یعنی نظروں کو تاب دیدار بخش دے گا اور جنتی لوگ اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔

【7】

جنت کے درجات

اور حضرت عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں سو درجے ہیں ان میں سے ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا کہ زمین وآمسان کے درمیان ہے اور فردوس صورۃ اور معنی وہ اپنے درجات ( کی بلندی) کے اعتبار سے سب جنتوں سے اعلی و برتر ہے اور اسی فردوس سے بہشت کی چاروں نہریں نکلتی ہیں اور فردوس ہی کے اوپر عرش الہٰی ہے پس جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس مانگو ( جو سب سے اعلی و برتر ہے) اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور مجھے یہ حدیث نہ تو صحیین میں ملی ہے اور نہ کتاب حمیدی میں۔ تشریح سو درجے میں سو کا عدد تعین وتحدید کے لئے نہیں بلکہ کثرت کے اظہار کے لئے بھی ہوسکتا ہے اس کی تائید حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی اس مرفوع روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو بیہقی نے نقل کیا ہے اور جس میں جنت کے درجات کی تعداد قرآن کی آیتوں کے برابر بیان کی گئی ہے روایت کے الفاظ یہ ہیں عدد درج الجنت عدد ای القران فمن دخل الجنۃ من اہل القران فلیس فوقہ درجۃ اور یہ بھی ممکن ہے کہ سو سے یہ خاص عدد ہی مراد ہو اور اس کے ذریعہ جنت کے کثیر درجات میں صرف ان سو درجوں کا بیان کرنا مقصود ہو، جن میں سے ہر دو درجوں کا درمیانی فاصلہ مذکور فاصلہ سے کم یا زیادہ ہوگا دیلمی نے مسند فردوس میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ جنت میں ایک درجہ وہ ہے جس تک اصحاب ہموم کے علاوہ اور کوئی نہیں پہنچے گا فردوس جنت کا نام ہے اور یہ نام قرآن کریم میں بایں طور مذکور ہے کہ (اُولٰ ى ِكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ 10 الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 11) 23 ۔ المؤمنون 11-10) یہی ( پاک طینت پاک کردار) لوگ ( جن کا پچھلی آیتوں میں ذکر ہوا) وارث بنیں گے ( یعنی فردوس کی میراث حاصل کریں گے ( اور) اس میں ہمشہ ہمیشہ رہیں گے چاروں نہروں سے مراد پانی، دودھ شہد اور شراب کی وہ نہریں ہیں جن کا ذکر قرآن کریم کی ان آیات میں کیا گیا ہے۔ فیہا انہار من ماء غیر اسن وانہار من لبن لم یتغیر طعمہ وانہار من خمر لذۃ للشاربین وانہار من عسل مصفی۔ جنت میں بہت سی چیزیں تو ایسے پانی کی ہیں جس میں ذرا تغیر نہ ہوگا اور بہت سی نہریں دودھ کی ہیں جن کا ذائقہ ذرا بدلہ ہوا نہ ہوگا اور بہت سی نہریں شراب کی ہیں جو پینے والوں کو بہت لذیذ معلوم ہوں گی اور بہت سی نہریں شہد کی ہیں جو پینے والوں کو بہت لذیذ معلوم ہوں گی اور بہت سی نہریں شہد کی ہیں جو بالکل صاف و شفاف ہوگا۔ فردوس ہی کے اوپر عرش الہٰی ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فردوس سب جنتوں سے افضل اور اوپر ہے کہ اس کے اوپر بس عرش الہٰی ہے۔ اسی لئے حضور ﷺ نے امت کو تلقین فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس مانگو تاکہ سب سے اعلی اور سب سے بہتر جنت تمہیں حاصل ہو۔ روایت کے آخر میں مولف مشکوۃ کے ان الفاظ اور مجھے یہ حدیث نہ تو صحیین میں ملی ہے۔۔ الخ۔ کے ذریعہ دراصل صاحب مصابیح پر یہ اعتراض کیا ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو فصل اول میں نقل کیا ہے جس میں صرف بخاری ومسلم کے متون میں ملی ہے اور نہ ان دونوں کتابوں کے مجموعہ کتاب حمیدی میں ! لہذا اس حدیث کو فصل اول کے بجائے فصل دوم میں نقل کرنا چاہئے تھا۔ صاحب مصابیح پر مؤلف مشکوۃ کا اعتراض تو یہ ہے مگر بعض شارحین نے لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح بخاری میں دو جگہ موجود ہے ایک تو کتاب الجہاد میں اور دوسری کان عرشہ علی الماء کے باب میں اور صحیح مسلم میں بھی فضل جہاد فی سبیل اللہ کے باب میں موجود ہے۔

【8】

جنت کے بازار کا ذکر

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں ایک بازار ہے جس میں ہر جمعہ لوگ جمع ہوا کریں گے اور وہاں شمالی ہوا چلے گی جو جنتیوں کے چہرے اور کپڑوں پر ( طرح طرح کی خوشبوئیں اور مہک) ڈالے گی جس سے وہاں موجود جنتیوں کے حسن و جمال میں اضافہ ہوجائے گا اور پھر جب وہ لوگ بہت زیادہ حسین و جمیل بن کر ( اس بازار سے) اپنے گھر والوں کے پاس واپس آئیں گے تو وہ گھر والے ان سے کہیں گے کہ اللہ کی قسم ہم سے الگ ہو کر تم نے اپنے حسن و جمال کو کتنا بڑھالیا ہے ؟ اس کے جواب میں وہ کہیں گے کہ اور واللہ ! ہمارے جانے کے بعد تم نے بھی تو اپنے حسن و جمال کو بڑھالیا ہے۔ ( مسلم) تشریح بازار سے مراد حسن و جمال کی افزائش کا مرکز ہے جہاں جنتی لوگ جمع ہوا کریں گے اور وہاں طرح طرح کی دلفریب، دیدہ زیب اور خوش جمال صورتیں موجود ہوا کریں گی اور ہر جنتی اپنی پسند و خواہش کے مطابق جو شکل و صورت چاہے گا اختیار کرلیا کرے گا۔ ہر جمعہ سے مراد ہر ہفتہ ہے یعنی ہفتہ میں ایک دن وہاں لوگ جمع ہوا کریں گے اور ہفتہ سے بھی حقیقی ہفتہ مراد نہیں ہے کیونکہ جنت میں نہ سورج ہوگا اور نہ دن رات کی گردش ہوگی، ہمیشہ یکساں وقت رہے گا لہٰذا ہفتہ سے ایک ہفتہ کے بقدر وقت کا عرصہ مراد ہے۔ شمالی ہوا سے مراد عام طور پر وہ ہوا ہوتی ہے جو اگر قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوں تو دائیں ہاتھ کی سمت سے آئے۔ اس کو اتری ہوا بھی کہا جاتا ہے لیکن یہاں حدیث میں اس جیسی ہوا مراد ہے جس کو عرب میں شمال کہا جاتا ہے۔ یہ ہوا چونکہ شمال سے چلتی ہے اور ٹھنڈے ملکوں اور بحر احمر سے ہوتی ہوئی آتی ہے اس لئے کافی ٹھنڈی ہوتی ہے اور شمالی ہوا کہلاتی ہے۔ جنتی لوگ اس تفریح گاہ سے لوٹنے پر اپنے گھر والوں کا حسن و جمال جو بڑھا ہوا پائیں گے تو اس کا سبب یہ ہوگا کہ وہ شمالی ہوا ان گھر والوں تک بھی پہنچے گی اور اس کی وجہ سے ان کا حسن و جمال بھی بڑھ جائے گا یا یہ کہ وہ جنتی لوگ جب اس تفریح گاہ سے اپنے بڑھے ہوئے حسن و جمال کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس آئیں گے تو ان کے حسن و جمال کا عکس ان کے گھر والوں پر پڑے گا جس سے وہ سب بھی پہلے کی بہ نسبت کہیں زیادہ حسین و جمیل نظر آئیں گے۔

【9】

جنت کی نعمتوں کا ذکر

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو لوگ جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے ( یعنی انبیاء علیہم السلام) وہ چودہویں رات کے چاند کی طرح روشن ومنور ہونگے اور ان کے بعد جو لوگ داخل ہوں گے (یعنی علماء، اولیاء، شہدا اور صلحاء) وہ اس ستارے کی مانند روشن وچمکدار ہوں گے جو آسمان پر بہت تیز چمکتا ہے ( اور چاند وسورج سے کم لیکن اور ستاروں سے زیادہ روشن ہوتا ہے) تمام جنتیوں کے دل ایک شخص کے دل کی مانند ہوں گے ( یعنی ان کے درمیان اس طرح باہمی ربط و اتفاق ہوگا کہ وہ سب ایک دل اور ایک جان ہوں گے) نہ تو ان میں کوئی باہمی اختلاف ہوگا اور نہ وہ ایک دوسرے سے کوئی بغض و عداوت رکھیں گے۔ ان میں سے ہر ایک شخص کے لئے حو رعین میں سے دو دو بیویاں ہوں گی ( جو اتنی زیادہ حسین و جمیل اور صاف شفاف ہوں گی گہ) ان کی پنڈلیوں کی ہڈی کا گودا ہڈی اور گوشت کے باہر سے نظر آئے گا۔ تمام جنتی صبح وشام ( یعنی ہر وقت) اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کریں گے وہ نہ تو بیمار ہوں گے، نہ پیشاب کریں گے، نہ پاخانہ پھریں گے، نہ تھوگیں گے اور نہ ( رینٹھ سنکیں گے، ان کے برتن سونے چاندی کے ہوں گے، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی، ان کی انگیٹھیوں کا ایندھن اگر ہوگا۔ ان کا پسینہ مشک کی طرح خوشبودار ہوگا اور سارے جنتی ایک شخص کی سی عادت و سیرت کے ہوں گے ( یعنی سب کے سب یکساں طور پر خوش خلق وملنسار اور ایک دوسرے سے گہرا ربط وتعلق رکھنے والے ہوں گے) نیز وہ سب شکل و صورت میں باپ آدم (علیہ السلام) کی طرح ہوں گے اور ساٹھ گز اونچا قد رکھتے ہوں گے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حور اصل میں حوراء، کی جمع ہے اور حوراء اس حسین و جمیل عورت کو کہتے ہیں جس کی آنکھ کی سفیدی وسیاہی بہت زیادہ سفید و سیاہ ہو، عین عنا ! کی جمع ہے جس کے معنی بڑی بڑی آنکھوں والی ہے آگے دوسری فصل کے آخر میں ایک روایت آئے گی جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ سب سے ادنیٰ درجہ کا جنتی وہ ہوگا۔ جس کے بہتر ٧٢ بیویاں ہوں گی، جب کہ یہاں دو بیویوں کا ذکر ہے ؟ لہٰذا ان دونوں روایتوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے کہا جائے گا کہ یہاں حدیث میں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ حور عین میں سے دو بیویاں ایسی ہونگی جن کا حسن و جمال سب سے زیادہ ہوگا یہاں تک کہ ان کی پنڈلیوں کی ہڈیوں کا گودا باہر سے نظر آئے گا، ظاہر ہے کہ یہ بات اس کے منافی نہیں ہے کہ ہر جنتی کو اس نوعیت کی دو بیویوں کے علاوہ اور بہت سی بیویاں بھی ملیں۔ ان کی انگیٹھیوں کا ایندھن اگر، ہوگا۔ کا مطلب یہ ہے کہ یہاں دنیا میں تو انگیٹھیوں کا ایندھن کوئلہ وغیرہ ہوتا ہے اور یہاں خوشبو حاصل کرنے کے لئے اگر چلایا جاتا ہے لیکن جنت میں انگیٹھیوں کا ایندھن ہی اگر، ہوگا۔ واضح رہے کہ وقود ( واؤ کے پیش کے ساتھ) کے معنی ہیں وہ ایندھن ( یعنی لکڑیاں وغیرہ) جس سے آگ جلائی جائے محامیر اصل میں محمر کے جمع ہے جس کے معنی ہیں وہ چیز جس میں آگ سلگانے کے لئے آگ رکھی جائے یعنی انگیٹھی یا عود سوز، یوں تو یہ لفظ میم کے زیر کے ساتھ ہے لیکن میم کے زبر کے ساتھ بھی منقول ہے۔ الوۃ ( الف کے زبر اور پیش کے ساتھ) آگر کی لکڑی کو کہتے ہیں جس کو دھونی دینے کے لئے جلایا یا سلگایا جاتا ہے۔ علی خلق رجل میں لفظ خلق خ کے پیش کے ساتھ ہے اور ترجمہ میں اسی کا اعبتار کیا گیا ہے۔ اس صورت میں علی صورۃ ابیہم ایک علیحدہ جملہ ہوگا جس کا مقصد جنتیوں کی سیرت کو بیان کرنے کے بعد ان کی شکل و صورت کو بیان کرنا ہے، لیکن بعض روایتوں میں یہ لفظ خ کے زبر کے ساتھ منقول ہے، جس کا بامطلب ترجمہ یہ ہوگا کہ وہ سب ( جنتی لوگ) ایک شخص کی سی شکل و صورت رکھیں گے، حسن و خوبصورتی میں یکساں ہوں گے اور ایک ہی عمر والے ہوں گے، یعنی سب کے سب تیس تیس یا تینتیس تینتیس سال کی عمر کے نظر آئیں گے، اس صورت میں کہا جائے گا کہ علی صورت ابیھم کا جملہ اپنے پہلے جملہ علی خلق رجل واحد کی وضاحت وبیان کے لئے ہے یہ بات ذہن میں رہے کہ پیش والی روایت بھی صحیح ہے اور زبر والی روایت بھی۔

【10】

اہل جنت کو پیشاب وپاخانہ کی حاجت نہیں ہوگی

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنتی لوگ جنت میں ( خوب) کھائیں پئیں گے، لیکن نہ تو تھوکیں گے، نہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ پھریں گے اور نہ ناک سنکیں گے۔ یہ سن کر بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ ( جب جنتی لوگ پاخانہ نہیں پھریں گے، تو پھر کھانے کے فضلہ کا کیا ہوگا ( اور اس کے اخر اج کی کیا صورت ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کھانے کا فضلہ ڈکار اور پسینہ ہوجائے گا جو مشک کی خوشبو کی مانند ہوگا اور جنتیوں کے دل میں تسبیح وتحمید یعنی سبحان اللہ الحمد للہ کا ورد اور ذکر الہٰی ( اس طرح) ڈال دیا جائے گا ( کہ وہ ان کی عادت ومعمول بن جائے گا) جیسے سانس جاری ہے۔ ( مسلم) تشریح کھانے کا فضلہ ڈکار اور پسینہ ہوجائے گا کا مطلب یہ ہے کہ نظام قدرت نے جس طرح اسے دنیا میں کھانے کے فضلہ کا اخراج کے لئے پاخانہ کی صورت رکھی ہے اسی طرح جنت میں جنتیوں کے کھانے کے فضلہ کے اخراج کے لئے ڈکار اور پسینہ کو ذریعہ بنادیا جائے گا کہ تمام فضلہ ہوا اور پسینہ بن کر ڈکار کی صورت میں اور مسامات کے راستے نکل جایا کرے گا اور ڈکار کی صورت میں نکل جائے گا اور بعض اوقات یا بعض اشخاص کا فضلہ پسینہ بن کر مسامات کے راستے خارج ہوجائے گا یا یہ کہ بعض کھانے کا فضلہ تو ڈکار بن کر خارج ہوگا اور بعض کھانے کا فضلہ پسینہ بن کر نکلے گا لیکن اس سلسلے میں زیادہ بہتر اور موزوں یہ کہنا ہے کہ ڈکار تو کھانے کے فضلہ کے اخراج کا ذریعہ بنے گی اور پسینہ پانی کے فضلہ کے اخراج کا ذریعہ ہوگا۔ جیسے سانس جاری ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سانس کی آمدورفت کا سلسلہ کسی تکلف یا سعی کے بغیر از خود جاری رہتا ہے اسی طرح تسبیح تحمید اور ذکر الہٰی کے کلمات اہل جنت کی زبان پر رواں ہوں گے یا یہ مراد ہے کہ جس طرح معمول کے مطابق سانس کی آمد ورفت کی وجہ سے تمہیں کوئی دقت و پریشانی نہیں ہوتی اور تم کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے اسی طرح جنتی لوگ تسبیح وتحلیل اور تحمید کی وجہ سے کوئی دقت و پریشانی اور بوجھ محسوس نہیں کریں گے اور یہ کہ جس طرح تمہیں سانس لینے سے کوئی چیز باز نہیں رکھتی اسی طرح ان لوگوں کے تسبیح وتحلیل اور تحمید میں مشغول ہونے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنے گی۔

【11】

اہل جنت کا دائمی عیش وش

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو بھی شخص جنت میں داخل ہوگا عیش و عشرت میں رہے گا نہ فکر وغم اس کے پاس پھٹکے گا نہ اس کے کپڑے میلے پرانے ہوں گے اور نہ اس کا شباب فناہ ہوگا۔ ( مسلم) تشریح جنت اپنی تمام تر نعمتوں آسائشوں اور راحتوں کے ساتھ دار القرار والثبات ہے یعنی وہاں کسی بھی نعمت و راحت کو نہ زوال وفناہ ہے اور نہ وہاں کی پر آسائش زندگی میں کسی غم وفکر تغیر وتبدل اور نقصان و خرابی کا خوف ہوگا۔

【12】

اہل جنت کا دائمی عیش وش

اور حضرت ابوسعید خدری وحضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں ایک منادی کرنے والا یہ منادی کیا کرے گا ( کہ اے جنتیو ! ) تم صحت و تندرستی کے ساتھ رہو تمہیں کبھی بھی کوئی بیماری لاحق نہیں ہوگی تم ہمیشہ ہمیشہ زندہ سلامت رہو موت کبھی تمہارے پاس بھی نہیں آئے گی، تم سدا جوان رہو بڑھاپا کبھی تمہارے پاس بھی نہیں پھٹکے گا اور تم عیش و عشرت کی زندگی گزارو کسی بھی طرح کے فکر وغم اور رنج والم کا تم تک گزر بھی نہیں ہوگا۔ (مسلم )

【13】

جنت کے بالا خانوں کے مکین

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنتی اپنے اوپر کے بالاخانے والے لوگوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم لوگ اس روشن ستارے کو دیکھتے ہو جو آسمان کے مشرقی یا مغربی افق میں ہوتا ہے اور اس ( بالاخانوں کی بلندی و خوشنمائی) کا تعلق فرق مراتب سے ہوگا جو اہل جنت کے درمیان پایا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! بالاخانے اوپر کے پر شکوہ محلات۔ کیا انبیاء (علیہم السلام) کے مکان ہونگے جن تک انبیاء (علیہم السلام) کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہوگی ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ان بلند وبالا محلات اور بالا خانوں تک ان لوگوں کی بھی رسائی ہوگی جو اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی۔ ( مسلم بخاری ) تشریح لفظ عابر اصل میں عبور سے مشتق ہے جس کے معنی باقی رہنا، ٹھہرنا ہیں اور پھر یہاں وہ روشن ستارہ مراد ہے جو ڈوبنے کے قریب ہو یا طلوع فجر کے بعد آسمان کے کنارے میں باقی رہ گیا ہو، ایک روایت میں غابر منقول ہے جو غور سے ہے اور جس کے معنی نشیب، پست جگہ کے ہیں، لیکن زیادہ صحیح اور مشہور پہلی ہی روایت ہے جس میں غابر منقول ہے۔ اور اس کا تعلق فرق مراتب سے ہوگا الخ کا مطلب یہ ہے کہ جنتیوں میں یہ فرق مراتب ہوگا کہ بعض اعلی مرتبہ کے ہوں گے، بعض درمیانی مرتبہ کے اور بعض ادنیٰ مرتبہ کے اور اسی کے اعتبار سے سب کو محلات ومکانات اور منازل و مراتب بھی اعلی، درمیانی اور ادنیٰ عطا ہوں گے، چناچہ علماء نے لکھا ہے کہ جنت میں منزلیں ہوں گی، اعلی منزل تو سابقین کے لئے درمیانی مقصدین کے لئے اور نیچے کی منزل مختلطین کے لئے ہوگی۔ جو اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی یعنی وہ اولیاء واتقیاء جو ایمان باللہ اور اتباع رسول میں کامل ہیں اور جو اللہ تعالیٰ اور رسولوں کے احکام واوامر کو ماننے والے اور ان کی طرف سے ممنوع قرار دی جانے والی چیزوں سے اجتناب کرنے والے ہیں اور جن کی تعریف قرآن کریم کی ان آیات وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ہونا الایۃ اور رحمن ( اللہ تعالیٰ ) کے خاص بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں الخ میں یہ بات فرمائی گئی ہے اور پھر ان کی مختلف اعلی صفات بیان کرنے کے بعد ان کے حق میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ اولئک یجزون الغرفۃ بما صبروا (الایۃ) ایسے لوگوں کو ( جنت میں رہنے کے لئے) بالا خانے ملیں گے بوجہ ان کے ثابت قدم رہنے کے الخ۔

【14】

چند جنتیوں کا ذکر

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں ایسے لوگوں کی کتنی ہی جماعتیں داخل ہوں گی جن کے دل پرندوں کے مانند ہیں۔ ( مسلم ) تشریح مطلب یہ کہ جنت میں جانے والوں میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہوگی جو اس دنیا میں نرمی ومروت رحم ومہربانی، دل کی صفائی وسادگی اور حسد وبغض سے پاک وصاف ہونے کے اعتبار سے پرندوں جیسی خصلت رکھتے ہیں اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ان لوگوں کا ذکر کرنا اور انہیں جنت کی بشارت دینا مقصود ہے جو اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور ان کے دلوں پر آخرت کا خوف اور وہاں کے احوال کی ہیبت بہت زیادہ طاری رہتی ہے ! ان کے قلوب کو پرندوں سے تشبیہ اس اعتبار سے دی گئی ہے کہ سب سے زیادہ ڈرنے والا جانور پرندہ ہی ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ توکل اختیار کرنے والے مراد ہیں، کیونکہ پرندے توکل کی خاص علامت سمجھے جاتے ہیں اس لئے توکل اختیار کرنے والے بندوں کے قلوب کو پرندوں سے تشبیہ دی گئی ہے جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل ( یعنی کامل اعتماد) رکھو تو یقینا وہ تمہیں رزق دے گا جیسا کہ وہ ان پرندوں کو رزق دیتا ہے جو صبح کو نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے ہوئے واپس آتے ہیں۔

【15】

حق تعالیٰ کی خوشنودی

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جنتیوں کو ( مخاطب کرنے کے لئے) آواز دے گا کہ اے جنتیو ! تمام جنتی ( یہ آواز سن کر) جواب دیں گے کہ ہمارے پروردگار ! ہم حاضر ہیں، تیری خدمت میں موجود ہیں، تمام تر بھلائی تیرے ہی قبضہ قدرت اور ارادے میں ہے ( کہ جس کو چاہے عطا کرے ) ۔ اللہ تعالیٰ فرماے گا ( میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ) کیا تم ( جنت کا انعام پاکر ( مجھ سے راضی وخوش ہو ؟ وہ عرض کریں گے کہ پروردگار ! بھلا ہم آپ سے راضی وخوش کیوں نہیں ہوں گے، آپ نے تو ہمیں وہ بڑی سے بڑی نعمت اور سرفرازی عطا فرمائی ہے جو اپنی مخلوق سے کسی کو بھی عطا نہیں کی اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں اس سے بھی بڑی اور اس سے بھی بہتر نعمت تمہیں عطا نہ کروں ؟ وہ کہیں گے کہ پروردگار ! اس سے بھی بڑی اور اس سے بھی بہتر نعمت اور کیا ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہیں اپنی رضا و خوشنودی عطا کروں گا اور پھر تم سے کبھی نا خوش نہ ہوں گا۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح مولیٰ کریم کا اپنے بندے سے راضی وخوش ہوجانا تمام نعمتوں اور سعادتوں کے حاصل ہوجانے کی ضمانت ہے لہٰذا جب پروردگار اہل جنت کے تئیں اپنی رضا و خوشنودی کا اظہار فرما دے گا تو گویا انہیں تمام ہی نعمتیں اور سرفرازیاں حاصل ہوجائیں گی اور عظیم ترین نعمت دیدار الہٰی، بھی اسی کا ثمرہ و نتیجہ ہے۔ پہلے حق تعالیٰ جنتیوں سے پوچھیں گے کہ آیا تم مجھ سے خوش و راضی ہو ؟ اور جب ان کی طرف سے اثبات میں جواب مل جائے گا تب حق تعالیٰ ان کے تئیں اپنی رضا و خوشنودی کا اظہار فرمائیں گے۔ تاکہ واضح ہوجائے بندے سے اللہ تعالیٰ کے راضی وخوش ہونے کی دلیل و علامت یہ ہے کہ وہ بندہ اللہ تعالیٰ کو راضی وخوش پاتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کا پروردگار بھی اس سے راضی وخوش ہے منقول ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین آپس میں یہ بحث وتمحیص اور غور وفکر کیا کرتے تھے کہ اس بات کو جاننے کا ذریعہ کیا ہوسکتا ہے کہ ہمارا پروردگار ہم سے راضی وخوش ہے ؟ آخر کار انہوں نے اس پر اطلاق کیا کہ خود ہم اپنے رب سے راضی وخوش ہیں تو ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ ہمارا رب بھی ہم سے راضی وخوش ہے۔ اور پھر تم سے کبھی ناخوش نہ ہوگا۔ ظاہر ہے یہ اہل جنت کے حق میں سب سے بڑی سرفرازی کی بشارت ہوگی کہ ان کا پروردگار ہمیشہ ہمیشہ ان سے راضی وخوش رہے گا۔ اس سعادت ونعمت سے بڑی سعادت ونعمت اور کیا ہوسکتی ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی تھوڑی سی بھی رضا و خوشنودی پوری جنت اور جنت کی تمام نعمتوں اور سعادتوں سے بڑھ کر ہے چہ جائیکہ وہ رضا و خوشنودی مستقل طور پر اور ہمیشہ کے لئے حاصل ہوجائے، خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ورضوان من اللہ اکبر لہٰذا ہر صاحب ایمان کو یہی التجا کرنی چاہئے کہ اللہم ارض عنا وارضنا عنک ( اے اللہ ! ہم سے راضی ہوجائیے اور ہمیں اپنے سے راضی کیجئے۔

【16】

معمولی جنتی کا مرتبہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم میں جو شخص سب سے ادنیٰ درجہ اور کمتر مقام کا جنتی ہوگا اس کا یہ مرتبہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا جو آرزو رکھتے ہو بیان کرو اور جو کچھ چاہتے ہو مانگو۔ وہ اپنی آرزوئیں ظاہر کرے گا اور بار بار ظاہر کرے گا یعنی وہ جنتی بھی خواہش رکھے گا بیان کرنے لگے گا اور جس قدر بھی مانگ سکتا ہوگا مانگے کا) اللہ تعالیٰ ( اس کی آرزوئیں اور خواہش سن کر) فرمائے گا کہ کیا تم اپنی آرزوئیں بیان کرچکے ( اور اپنے دل میں جو کچھ خواہش رکھتے ہو سب ظاہر کرچکے ! ) وہ عرض کرے گا کہ ہاں ( میں جو کچھ مانگ سکتا تھا مانگ چکا اور اپنی ایک ایک آرزو بیان کردی ) ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تم نے جو آرزوئیں بیان کیں اور جو کچھ مانگا نہ صرف وہ بلکہ اسی قدر مزید تمہیں عطا کیا گیا۔ ( مسلم ) وہ چار دریا جن کا سرچشمہ جنت میں ہے

【17】

معمولی جنتی کا مرتبہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سبحان، جیحان، فرات اور نیل، ان سب دریاوں کا تعلق جنت کی نہروں اور چشموں سے ہے۔ (مسلم ) تشریح فرات اور نیل تو مشہور دریا ہیں ان کے تعین میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ دریائے فرات، عراق میں اور دریائے نیل مصر میں بہتا ہے۔ لیکن سبحان اور جیحان کے تعین میں اختلاف ہے ایک قول یہ ہے کہ سبحان شام کے دریا کا نام ہے اور جیحان بلخ کا دریا ہے اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ سیحان مدینہ کا دریا ہے، تاہم علماء نے یہ وضاحت کردی ہے کہ یہ جیحان وسیحان ان دریاؤں سے الگ ہیں جن کے نام جیحون اور سیحون ہیں اور جو ترک وبلخ ( وسط ایشیا) کے دریا ہیں۔ علامہ طیبی (رح) نے لکھا ہے کہ یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ جیحان شام کا دریا ہے، جیسا کہ جوہری کا قول ہے، نیز علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دریائے جیحون خراسان کے علاقہ میں بہتا ہے اور سیحون سندھ کا دریا ہے۔ بہرحال تحقیقی بات یہ ہے کہ جیحان اور سیحان شام کے دریا ہیں جو اس ملک کے قدیم شہر طرطوس اور مصیعہ کے قریب سے گزرتے ہیں اور بحر روم میں آکر گرتے ہیں۔ حدیث کی اس بات کہ ان چاروں دریاؤں کا تعلق جنت کی نہروں اور چشموں سے ہے، کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ زیادہ صحیح قول یہ بیان کیا گیا ہے کہ حدیث کے یہ الفاظ اپنے ظاہری معنی پر محمول ہیں یعنی حقیقت میں ان چاروں نہروں کا مادہ جنت میں ہے، چناچہ مسلم کی ایک روایت میں وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ دریائے نیل وفرات جنت سے نکلے ہیں اور بخاری کی روایت یہ ہے کہ سدرۃ المنتہی کی جڑ سے نکلے ہیں اور معالم التنزیل میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان چاروں کا سر چشمہ پہاڑوں کو سونپ دیا ہے اور وہاں سے ان کو زمین پر جاری فرمایا ہے ایک قول یہ ہے کہ جنت کی ان چاروں نہروں کو جو وہاں کی تمام نہروں کا سرچشمہ اور اصل ہیں دنیا کے چاروں دریاؤں کے نام کے ساتھ مشہور ونامزد کیا گیا ہے جو اور دریاؤں کی بہ نسبت بہت زیادہ اہمیت، بہت زیادہ شہرت اور پانی کے مٹھاس و دیگر فوائد کے اعتبار سے بہت خصوصی درجہ رکھتے ہیں اور اس کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ فوائد و منافع حاصل ہیں وہ سب جنت کی نعمتوں اور وہاں کے فوائد و منافع کا نمونہ ہیں۔ ایک اور قول جس کو زیادہ واضح کہا جاسکتا ہے یہ ہے کہ ان سب دریاؤں کا تعلق جنت کی نہروں اور چشموں سے ہے سے مراد یہ ہے کہ ان دریاؤں کا پانی اور پانیوں کی بہ نسبت زیادہ لطیف و شیریں اور اور زیادہ ٹھنڈا و خوشگوار ہے، نیز ان دریاؤں کے پانی سے اتنے زیادہ فوائد اور اتنی زیادہ خصوصیات ہیں کہ جیسے یہ دریا جنت کی نہروں اور چشموں سے نکلے ہوں۔

【18】

دو زخ و جنت کی وسعت

اور حضرت عتبہ بن غزوان کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے یہ ذکر کیا گیا ہے ( یعنی آنحضرت ﷺ سے یہ روایت نقل کی گئی) کہ (آپ ﷺ نے فرمایا) اگر دوزخ کے ( اوپری) کنارے سے کوئی پتھر گرایا جائے تو وہ ستر برس تک نیچے لڑھکتا چلا جائے گا اور دوزخ کی تہ تک نہیں پہنچے گا، اللہ کی قسم دوزخ (اتنی گہری اور وسیع ہونے کے باوجود کافروں سے) پوری بھر جائے گی۔ اور ( حضرت عتبہ کہتے ہیں کہ) ہمارے سامنے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی بھی ذکر کیا گیا کہ جنت کے کسی بھی ایک درزازے کے دونوں بازؤں کے درمیان چالیس برس کی مسافت کا فاصلہ ہے اور ایک دن ایسا ہوگا کہ جنت اتنی وسعت و کشادگی کے باوجود) لوگوں سے بھری ہوئی ہوگی۔ ( مسلم )

【19】

جنت کی تعمیر کا ذکر

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مخلوق کو کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پانی سے۔ پھر ہم نے پوچھا کہ جنت کس چیز سے بنی ہے یعنی اس کی عمارت پتھر یا اینٹ کی ہے یا مٹی اور یا لکڑی وغیرہ کی ؟ فرمایا جنت کی ( تعمیر اینٹوں کی ہے اور اینٹیں بھی اس طرح کی ہیں کہ) ایک اینٹ سونے کی ہے اور ایک اینٹ چاندی کی، اس کا گارا ( یا وہ مصالح جس سے اینٹیں جوڑی جاتی ہیں، تیز خوشبودار خاص مشک کا ہے، اس کی کنکریاں ( رنگ اور چمک دمک میں) موتی اور یاقوت کی طرح ہیں اور اس کی مٹی زعفران ( کی طرح زرد اور خوشبو دار ہے، جو شخص اس ( جنت میں) داخل ہوگا، عیش و عشرت میں رہے گا کبھی کوئی رنج وفکر نہیں دیکھے گا، ہمیشہ زندہ رہے گا مرے گا نہیں، نہ اس کا لباس پرانا اور بوسیدہ ہوگا اور نہ اس کی جوانی فنا ہوگی۔ ( احمد، ترمذی، دارمی ) تشریح شارحین نے حدیث کے پہلے جزء ( یعنی یہ سوال کہ مخلوق کو کس چیز سے پیدا کیا گیا اور آپ ﷺ کا یہ جواب کہ پانی سے کے ضمن میں لکھا ہے کہ حکماء کا اس بارے میں اختلاف رائے ہے کہ اجسام میں سے جو چیز سب سے پہلا عالم وجود میں آئی ہے وہ کیا ہے ؟ اکثر کا کہنا یہ ہے کہ سب سے پہلے پانی کا جو ہر وجود میں آیا، پھر اس جوہر کو کثیف منجمد کر کے زمین پیدا کی گئی اور اسی جوہر کو رقیق ولطیف کر کے آگ ہوا کو پیدا کیا گیا اور آگ کے دھویں سے آسمان وجود میں آیا۔ یہ بات توریت میں آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک جوہر پیدا کیا اور پھر اس پر ہیبت و جلال کی نظر ڈالی تو اس کے اجزاء پگھل کر پانی بن گئے، اس پانی سے ایک بخار بلند ہوا اور دھوئیں کی طرح اوپر کو جا کر پھیل گیا جس سے آسمان وجود میں آیا، پھر پانی کے اوپر جھاگ ظاہر ہوا اور اس سے زمین پیدا ہوئی، اس کے بعد پہاڑ پیدا کر کے ان کو زمین کا لنگر بنایا گیا ( یعنی پہلے زمین کو قرار نہیں تھا ہلتی ڈولتی تھی پھر پہاڑوں کے ذریعہ ان کو ساکن ومنجد کیا گیا۔ بعض شارحین نے یہ لکھا ہے کہ حدیث میں پانی سے مراد نطفہ (منی) ہے اگر اس مراد کو صحیح مانا جائے تو پھر یہ کہا جائے گا کہ مخلوق سے مراد حیوانات ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے وجعلنا من الماء کل شیء حی یعنی ہم نے ہر حیوان کو ( خواہ انسان ہو یا غیر انسان) پانی سے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح ایک موقع پر یوں فرمایا گیا ہے واللہ خلق کل دابۃ من ماء یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے پیدا فرمایا ہے رہی یہ بات کہ نطفہ مادہ تخلق کو پانی سے کیوں تعبیر کیا گیا ہے تو اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے، پہلی بات یہ ہے کہ وہ مادہ تخلیق پانی ہی کی صورت میں ہوتا ہے دوسرے یہ کہ ہر مخلوق (حیوانات) کی بہت بڑی ضرورت پانی ہی ہے اور ہر حیوان ( خواہ انسان ہو یا غیر انسان) سب سے زیادہ فائدہ پانی ہی سے حاصل کرتا ہے۔

【20】

جنت کے درخت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں جو بھی درخت ہے اس کا تنا سونے کا ہے۔ (ترمذی) تشریح جنت کے ہر ایک درخت کا تنا سونے کا ہے البتہ ان درختوں کی ٹہنیاں اور شاخیں مختلف قسموں کی ہیں۔ کسی کی سونے کی ہے، کسی کی چاندی کی، کوئی ٹہنی یاقوت و زمرد کی ہے یا موتی وغیرہ کی اور ہر ٹہنی طرح طرح کے شگوفوں سے مرصح ومزین ہے اور اس پر قسم قسم کے میوے اور پھل لگے ہوئے ہیں نیز جنت کے تمام درختوں کے نیچے نہریں رواں ہیں۔

【21】

جنت کے درجات

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں سو درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان سو برس کی مسافت کا فاصلہ ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حدیث میں درجوں سے مراد بلند مراتب ہیں جو اہل جنت کو ان کے اعمال اور نیکوں کے اعتبار سے ملیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ھم درجات عند اللہ ( اہل جنت اللہ کے نزدیک درجات و مراتب میں مختلف ہوں گے) یعنی ان کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق الگ الگ مرتبہ ودرجہ ملے گا، جس جنتی کے اعمال جتنے زیادہ اچھے ہوں گے اس کو اتنے ہی زیادہ مراتب نصیب ہوں گے، جیسا کہ دوزخیوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے کفر وشرک کے اعتبار سے دوزخ کے نچلے حصوں میں ڈالے جائیں گے کہ جس دوزخی کے کفریہ اعمال و عقائد جتنے زیادہ خراب رہے ہوں گے اس کو دوزخ کے اتنے ہی نچلے حصوں میں پہنچایا جائے گا، اس کی طرف قرآن کریم کے ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار ( یقینا منافقین دوزخ کے نچلے حصوں میں پڑے ہوں گے۔

【22】

جنت کے فرش

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد وفرش موفوعۃ ( اور اونچے اونچے فرش اور بچھونے ہوں گے) کی تفسیر میں فرمایا کہ ان بچھونوں کی بلندی اتنی ہوگی جتنی کہ آسمان اور زمین کے درمیان مسافت ہے یعنی پانچ سو برس کا راستہ۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ جنت کے درجوں میں جو فرش اور بچھونے ہوں گے وہ اتنے اونچے اونچے ہوں گے کہ بظاہر یہ نظر آئے گا کہ وہ آسمان جیسی بلندی تک چلے گئے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت میں جن اونچے اونچے فرش اور بچھونوں کا ذکر ہے وہ جنت کے ان درجات میں بچھے ہوں گے جو زمین سے آسمان تک کی مسافت کے بقدر بلند ہوں گے اور جن کی اس بلندی کے بارے میں یہ حدیث ہے کہ ان للجنۃ مائۃ درجۃ ما بین کل درجتین کما بین السماء والارض ( جنت میں سو درجے ہیں اور ان میں سے ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ فرش وموفوعۃ میں لفظ فرش سے مراد حوران جنت ہیں اور مرفوعۃ سے مراد ان حوران جنت کا حسن و جمال میں دنیا کی عورتوں سے فائق و برتر ہونا ہے، لیکن ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جنت میں مومن عورتیں حوروں سے بھی زیادہ حسین و جمیل ہوں گی اور ان کو حوروں پر فضیلت اس نماز روزہ کے سبب حاصل ہوگی جو وہ دنیا میں کرتی تھیں۔

【23】

اہل جنت کے چمکدار چہرے

اور حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن جنت میں جو لوگ سب سے پہلے داخل ہوں گے ( یعنی انبیاء (علیہ السلام) ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح روشن وچمکدار ہوں گے اور دوسری جماعت کے لوگ ( جو انبیاء کے بعد جنت میں داخل ہوں گے اور وہ اولیاء وصلحا ہیں) ان کے چہرے آسمان کے اس ستارے کی طرح روشن وچمکدار ہوں گے جو سب سے زیادہ چمکتا ہے۔ نیز ان ( جنتیوں) میں سے ہر شخص کے لئے دو بیویاں ہوں گی اور ہر بیوی کے جسم پر ( لباس کے) ستر جوڑے ہوں گے ( اور وہ دونوں بیویاں اتنی صاف و شفاف اور حسین و جمیل ہوں گی کہ) ان کی پنڈلیوں کے اندر کا گودا ستر جوڑوں کے اوپر سے نظر آتا ہوگا۔ تشریح اس حدیث میں ہر جنتی کو دو بیویاں ملنے کا ذکر ہے جب کہ ایک حدیث میں یہ منقول ہے کہ اہل جنت میں جو سب سے کمتر درجہ کا جنتی ہوگا اس کو بھی بہتر بیویاں اور اسی ہزار خادم ملیں گے پس ان دونوں میں مطابقت کے لئے علماء نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں جو دو بیویوں کا ذکر کیا ہے تو وہ اس خصوصیت کی حامل ہوں گی کہ ان کی پنڈلیوں کے اندر کا گودا ان کے لباس کے ستر جوڑوں کے اوپر سے بھی نظر آئے گا اور باقی بیویاں تو دنیا کی عورتوں میں سے ملیں گی اور ستر بیویاں حوران جنت میں سے ملیں گی اور دونوں مل کر بہتر ہوں گی۔

【24】

جنتیوں کی مردانہ قوت کا ذکر

اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جنت میں مومن کو جنسی اختلاط کی اتنی اتنی قوت عطا کی جائے گی عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ایک مرد اتنی عورتوں سے جنسی اختلاط ( مباشرت) کی طاقت رکھے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ( جنت میں ایک مرد کو) سو مردوں کی قوت عطا کی جائے کی ( اور جب اس کو اتنی قوت حاصل ہوگی تو پھر وہ کئی کئی عورتوں سے جنسی اختلاط کی طاقت کیوں نہیں رکھے گا۔ (ترمذی )

【25】

جنت کی اشیاء کا ذکر

اور حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جنت کی چیزوں ( یعنی زینت و آرائش کی اشیاء) میں سے اگر ناخن کے برابر بھی کوئی چیز دنیا میں) آجائے تو آسمان و زمین کی اطراف و جوانب تک کی دنیا کی، ہر چیز رونق پا جائے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر جنتیوں میں سے کوئی شخص دنیا کی طرف، جھانکے اور اس کے ( ہاتھوں کے) کڑے نمایاں ہوجائیں تو ان کی چمک دمک سورج کی روشنی کو ماند کردے جیسا کہ سورج ستاروں کی روشنی کو ماند کردیتا ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

【26】

جنت کے مردوں کا ذکر

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنتی بغیر بالوں کے امرد ہوں گے، ان کی آنکھیں سرمگیں ہوں گی، ان کا شباب کبھی فنا نہ ہوگا اور ان کے کپڑے کبھی پرانے نہ ہوں گے۔ ( ترمذی، دارمی ) تشریح لفظ جرد اصل میں اجرد کی جمع ہے اور اجرد اس شخص کو کہتے ہیں جس کے بدن پر بال نہ ہوں، اسی طرح مرد، امرد کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں بےداڑھی کا جوان نیز لفظ کحلی (فعلی کے وزن پر) مکحول کے معنی میں ہے یعنی وہ شخص جس کی پلکوں کی جڑیں پیدائشی سیاہ ہوں اور ایسا نظر آتا ہو کہ اس نے آنکھوں میں سرمہ لگا رکھا ہے۔

【27】

جنت کے مردوں کا ذکر

اور حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے جنتی جنت میں اس طرح داخل ہوں گے کہ ان کا بدن بالوں سے صاف ہوگا بےداڑہی کے جوان ہونگے ان کی آنکھیں سرمگیں ہوں گی اور تیس یا تینتیس سال کی عمر کے لگیں گے۔ (ترمذی) تشریح تیس یا تینتیس سال کی عمر مکمل جوانی اور طاقت سے بھر پور ہوتی ہے اس لئے جنتی مردوں کو یہی عمر عطا کر کے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ تیس یا تینتیس۔۔۔ میں حرف یا راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے کہ اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے تیس کا ذکر فرمایا تھا یا تینتیس کا۔

【28】

سدرۃ المنتہی کا ذکر

اور حضرت اسماء بنت ابوبکر (رض) کہتی ہیں کہ اس وقت جب کہ رسول کریم ﷺ کے سامنے سدرۃ المنتہی کا ذکر کیا گیا، میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ( سدرۃ المنتہی ایسا درخت ہے کہ) کوئی ( تیز رفتار) سوار اس کی شاخوں کے سائے میں سو سال تک چلتا رہے یا یہ فرمایا کہ اس کے سائے میں بیک وقت سو سوار دم لے سکیں، اس درخت پر سونے کی ٹڈیاں ہیں گویا اس کے پھل مٹکوں کے برابر ہیں۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح سدرۃ المنتہی کے معنی ہیں بیری کا وہ درخت جس پر انتہاء ہے۔ اس درخت کو سدرۃ المنتہی اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ جنت کے اس انتہائی کنارے پر واقع ہے جس کے پرے کسی کو کچھ علم نہیں کیا ہے، اس کے آگے کسی فرشتے تک کو جانے کا حکم نہیں ہے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو آخری رسائی بھی یہیں تک ہے، اس کے آگے وہ بھی نہیں جاسکتے صرف آنحضرت ﷺ معراج کی رات میں اس درخت سے آگے گئے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ درخت چھٹے آسمان پر ہے لیکن مشہور روایت یہ ہے کہ ساتویں آسمان پر۔ اس درخت پر سونے کی ٹڈیاں ہیں۔ سے شاید یہ مراد ہے کہ اس درخت پر جو نوارنی فرشتے ہیں ان کے پر اس طرح چمکتے اور جھلملاتے ہیں جیسے اس کی شاخوں پر سونے کی چمکدار ٹڈیاں ادھر ادھر پھدک رہی ہوں یا یہ کہ اس درخت سے جو انوار اٹھتے ہیں اور شاخوں پر ایک خاص قسم کی روشنی پھوٹتی رہتی ہے اس کو سونے کی ٹڈیاں سے تعبیر فرمایا۔ واضح رہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد اس درخت پر سونے کی ٹڈیاں ہیں۔ دراصل اس آیت کریمہ (اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى) 53 ۔ النجم 16) ( جب اس سدرۃ المنتہی کو ڈھانپ رکھا جو کچھ کہ ڈھانپتا ہے) کی تفسیر ہے، چناچہ بیضاوی نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ فرشتوں کی ایک بہت بڑی جماعت جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہے اس درخت کو ڈھانپے رہتی ہے۔

【29】

حوض کوثر کا ذکر

اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے کوثر کے بارے میں پوچھا گیا ( کہ وہ کیا چیز ہے ؟ ) تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ ایک نہر ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کی ہے یعنی جنت میں ( میرے لئے مخصوص ہے اس نہر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے، اس میں ایسے پرندے ہیں جن کی گردنیں اونٹ کی گردنوں کی طرح لمبی ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے ( یہ سن کر) عرض کیا کہ وہ پرندے تو بہت فربہ اور تنو مند ہوں گے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ان پرندوں کو کھانے والے (یعنی جنتی لوگ ان پرندوں سے بھی زیادہ توانا اور خوشحال ہوں گے۔ (ترمذی) تشریح لفظ نہر کے زبر کے ساتھ بھی ہے اور جزم کے ساتھ بھی منقول ہے ! مطلب یہ ہے کہ کوثر پانی کی ایک نہر ہے جس کے دونوں سروں پر دو حوض ہیں ایک حوض تو موقف ( میدان محشر) میں ہے اور دوسرا حوض جنت میں ہے اور چونکہ اس نہر کا زیادہ حصہ جنت میں ہے اس لئے یعنی فی الجنۃ کے ذریعہ وضاحت کی گئی ہے کہ وہ نہر جنت میں آپ ﷺ کے لئے مخصوص ہے جس سے آپ ﷺ کے امتی سیراب ہوں گے۔ کاعناق الجزر ( اونٹ کی گردن کی طرح، میں لفظ جزر اصل میں جزور کی جمع ہے اور یہ لفظ ایسے اونٹ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو نحر وذبح کے لئے تیار ہو، لہٰذا اس جملہ کے ذریعہ اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ وہ پرندے جو حوض کوثر میں ہوں گے، نحروذبح کے لئے تیار ملیں گے تاکہ حوض کوثر سے سیراب ہونے والے ان کا گوشت کھا سکیں۔

【30】

جنتیوں کو ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ خواہش کریں گے

اور حضرت بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا جنّت میں گھوڑے بھی ہوں گے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں جنّت میں جہاں جانا چاہو گے وہ گھوڑا برق رفتاری کے ساتھ دوڑے گا اور گویا) اڑ کر تمہیں لے جائے گا (اس کے بعد) آپ ﷺ سے ایک شخص نے سوال کیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا جنّت میں اونٹ بھی ہوں گے ؟ حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو وہ جواب نہیں دیا جو آپ ﷺ نے اس کے ساتھی کو دیا تھا (یعنی جس طرح آپ ﷺ نے پہلے شخص کو جواب دیا تھا اس طرح اس شخض کو جواب نہیں دیا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں جنّت میں داخل کیا اور تم نے اونٹ پر سوار ہونے کی خواہش ظاہر کی تو۔۔ الخ۔ بلکہ بطریق کلیہ) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں جنّت میں پہنچادیا تو وہاں تمہیں ہر وہ چیز ملے گی جس کو تمہارا دل چاہے گا اور تمہاری آنکھیں پسند کریں گی۔ (ترمذی) تشریح لفظ فعلت صیغہ خطاب کے ساتھ مجہول اور دونوں طرح پڑھا جاتا ہے لفظی ترجمہ کی صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ مگر یہ کہ تو کیا جائے گا یعنی تو اپنا مقصد و مدعا دیا جائے گا یا مگر یہ کہ تو کرے گا یعنی تو اپنی خواہش میں مطلب یاب ہوگا۔ نیزیہ لفظ فعلت تائے تانیث کے ساتھ بصیغہ مجہول بھی منقول ہے اس صورت میں یہ ترجمہ ہوگا کہ مگر یہ کہ تمہارے لئے ایسا کیا جائے گا یعنی تمہاری خواہش کے مطابق وہ گھوڑا تیار اور مہیا کیا جائے گا۔ واضع رہے کہ عربی میں فرس ( گھوڑا) مذکر اور مونث دونوں آتا ہے بہرحال مطلب یہ ہے کہ جنّت میں ہر شخص کو ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ خواہش کرے گا۔

【31】

جنتیوں کو ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ خواہش کریں گے

اور حضرت ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے گھوڑے بہت پسند ہیں کیا جنّت میں گھوڑے بھی ہوں گے ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر جنّت میں داخل کیا گیا تو تمہیں یاقوت کا ایک گھوڑا دیا جائے گا جس کے دو بازو (پر) ہوں گے پھر تمہیں اس گھوڑے پر سوار کیا جائے گا تم جہاں جانا چاہو گے وہ گھوڑا تمہیں اڑا کرلے جائے گا۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کی اسنادقوی نہیں ہے اور ابوسورہ جو اس حدیث کے روای ہیں کسی سبب سے) فن حدیث میں یا اسناد حدیث میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں نیز میں حضرت محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ابوسورہ منکر الحدیث ہیں وہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔

【32】

اہل جنّت میں امت محمدیہ کا تناسب

اور حضرت بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنّتیوں کی ایک سوبیس صفیں ہوں گی ان میں سے اسیّ صفیں امّت (مسلمانوں) کی ہوں گی اور چالیس صفیں دوسری امتوں کے لوگوں کی۔ اس روایت کو ترمذی دارمی اور بہقی نے کتاب البعث والنشور میں نقل کیا ہے۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امت محمدیہ کے جنّتیوں کی تعداد دوسری امتوں کے مقابلہ میں دو تہائی زائد ہوگی لیکن پیچھے باب الشفاعت میں ایک روایت گزری ہے جس میں آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ مجھے امید ہے تم (مسلمان) اہل جنّت کی مجموعی تعداد کا نصف حصہ ہوگئے۔ ان دونوں روایتوں میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ پہلے تو آنحضرت ﷺ نے حق تعالیٰ کی بارگاہ سے یہی امید قائم کی ہو کہ آپ ﷺ کی امت کے لوگ اہل جنّت کی مجموعی تعداد کا نصف حصہ ہوں مگر بعد میں حق تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے آنحضرت ﷺ کی اس امید کو اور بڑھا دیا ہو اور جنّتیوں میں امت محمدیہ کی تعداد کو دو تہائی تک کرنے کی بشارت عطا فرمائی ہو اور یہ اضافہ و زیادتی یقینا رب کریم کے اس خاص فضل و کرم کا آئینہ دار ہے جو صرف آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کی امت مرحومہ کا نصیب ہے۔ ایک احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسری امتوں کے چالیس صفوں کے مقابلہ میں اہل اسلام کی اسی صفیں اس طرح کی ہوں گی کہ وہ صفوں کے اعتبار سے تو زیادہ ہونگی مگر اشخاص کی تعداد سے چالیس صفوں ہی کے برابر ہوں گی گویا اہل جنّت میں جتنے لوگ دوسری امتوں کی چالیس صفوں میں ہوں گے اتنے ہی لوگ امت محمدیہ کی اسی صفوں میں ہوں گے لیکن یہ احتمال بس یوں ہی ہے صحیح توجیہہ وہی ہے جو پہلے بیان کی گئی۔

【33】

جنّت کے اس دروازے کی وسعت جس سے اہل اسلام داخل ہوں گے

اور حضرت سالم تابعی (رح) اپنے والد محترم (حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ! جنّت کے جس دروازے سے میری امّت کے لوگ داخل ہوں گے اس کی چوڑائی اس سوار کی تین مسافت کے بقدر ہوگی جو گھوڑے کو تیز دوڑانا خوب جانتا ہے پھر بھی وہ لوگ ( یعنی میری امّت کے جنّتی) اس دروازے سے داخل ہوتے نہایت تنگی محسوس کریں گے یہاں تک کہ ان کے کاندھے ایک دوسرے سے رگڑ کھائیں گے یعنی باوجودیکہ وہ دروازہ اس قدر چوڑا ہوگا مگر جب اہل اسلام ہجوم در ہجوم اندر داخل ہوں گے تو وہ دروازہ بھی تنگ معلوم ہوگا اور وہ لوگ ایک دوسرے کے کاندھے سے رگڑ کھاتے ہوئے بڑی دشواری کے ساتھ دروازہ پار کریں گے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، جب میں نے حضرت محمد بن اسماعیل بخاری (رح) سے اس حدیث کے روای کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا اور فرمایا کہ خالد بن ابی بکر منکر روایتیں بیان کرتے ہیں۔ تشریح اس سوار کی تین۔۔۔۔۔۔ مسافت کے بقدر میں تین مراد سے یا تو تین راتوں کی مسافت ہے یا تین سال کی اور یہی ( تین سال کی مسافت مراد لینا، زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس میں زیادہ مبالغہ ہے، پھر تین سال کے مسافت سے بھی کثرت مراد لینا پڑے گی تاکہ یہ روایت اس حدیث کے مخالف نہ پڑے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جنّت کے دروازوں میں سے ہر دروازے کے دونوں بازؤں کا درمیانی فاصلہ چالیس سال کی مسافت کے بقدر ہے اور اگر تین سال کو اس کے حقیقی مفہوم پر محمول کرتے ہوئے کثرت مراد نہ لی جائے تو پھر یہ کہا جائے گا کہ ہوسکتا ہے کہ پہلے آنحضرت ﷺ کو وحی کے ذریعہ اس دروازے کی چوڑائی کم بتائی گئی ہو جس کو آپ ﷺ نے تین سال کی مسافت کے فاصلہ سے تعبیر فرمایا اور پھر بعد میں اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی کا علم آپ ﷺ کو عطا کیا گیا ہو، جس کو آپ ﷺ نے چالیس سال کی مسافت کے ذریعہ واضع فرمایا ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ ان دونوں روایتوں کو جنّت میں داخل ہونے والوں کے اعتبار سے مختلف چوڑائی معلوم ہوگی کہ جس دروازے کے ذریعہ کم لوگ داخل ہوں گے وہ بہت زیادہ چوڑا معلوم ہوگا اور جس دروازے سے بہت زیادہ تعداد میں لوگ داخل ہوں گے وہ بہت زیادہ چوڑا ہوجانے کے باوجود کم چوڑا معلوم ہوگا ترمذی نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے اور مصابیح میں ہے کہ یہ روایت ضعیف منکر ہے ! نیزمصابیح کے شارح نے یہ وضاحت کی ہے کہ اس حدیث کو منکر اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ یہ حدیث ان صحیح احادیث کے خلاف ہے جو مذکورہ مضمون سے متعلق منقول ہیں پھر ترمذی نے اس حدیث کے ضعیف ہونے پر حضرت محمد بن اسماعیل (رح) یعنی امام بخاری سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے اس حدیث سے اپنی ناواقفیت کا اظہار کیا اور یہ اصول ہے کہ جب کوئی ایسا عالم حدیث امام فن جو حدیث کے تمام طرق واسناد کی کامل بصیرت اور پوری معلومات رکھتا ہو، یہ کہے کہ میں فلاں حدیث کی واقفیت نہیں رکھتا تو یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ وہ حدیث ضعیف ہے علاوہ ازیں امام بخاری (رح) کے اس قول کے یخلد ابن ابی بکر، منکر روایتیں بیان کرتے ہیں کے بارے میں سید جمال الدین نے کہا ہے کہ لفظ یخلد صاحب مشکوٰۃ کا سہو ہے اصل نام خالد ابن ابی بکر ہے کیونکہ ترمذی میں خالد ابن ابی بکر ہی منقول ہے اور اسماء رجال کی کتابوں میں بھی اسی طرح ہے۔

【34】

جنّت کا ایک بازار

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنّت میں ایک بازار ہے جس میں خریدو فروخت نہیں ہوگی بلکہ وہاں مردوں اور عورتوں کی (طرح طرح کی حسین و جمیل) صورتیں نظر آئیں گی جو شخص (خواہ مرد ہو یا عورت، وہاں جس صورت کو پسند کرے گا اس میں سما جائے گا اور اسی پسندیدہ شکل و صورت اختیار کرے گا جیسا کہ جن اور فرشتے دنیا میں جس شکل و صورت میں چاہتے ہیں ظاہر ہوتے ہیں۔

【35】

دیدارالہٰی اور جنّت کا بازار

اور حضرت سعید بن مسیب تابعی (رح) سے روایت ہے کہ (ایک دن بازار میں) حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کی ملاقات ہوئی تو حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ (جس طرح آج مدینہ کے بازار میں ہم دونوں کی ملاقات ہوئی ہے اسی طرح جنّت کے بازار میں ہم دونوں کو ملائے۔ حضرت سعید نے (یہ سن کر) کر کہا کہ کیا جنّت میں بازار بھی ہوگا ؟ (حالانکہ بازار تو خریدو فروخت پوری کرنے کے لئے ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ جنّت میں یہ ضرورت پیش نہیں آئے گی) حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا ہاں (جنّت میں بازار بھی ہوگا مگر وہاں کا بازار دنیاوی بازار جیسی ضروریات پوری کرنے کے لئے نہیں ہوگا) مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے بتایا تھا کہ جب جنّتی لوگ جنّت میں داخل ہوں گے تو اپنے اپنے اعمال کی فضیلت و برتری کے لحاظ سے جنّت (کی منزلوں اور درجوں) میں فروکش ہوں گے (یعنی جس کے اعمال جتنے زیادہ اور جتنے اعلی ہوں گے اسی کے اعتبار سے اس کو بلند تر اور خوب تر مکانات ومنازل ملیں گے) پھر ان کو دنیاوی دنوں کے اعتبار سے جمعہ کے دن اجازت دی جائے گی اور وہ سب اس دن اپنے پروردگار کی زیارت کریں گے پروردگار ان کے سامنے اپنا عرش ظاہر کرے گا اور جنّتیوں کو اپنا دیدار کرانے کے لئے جنّت کے ایک بڑے باغ میں جلوہ فرما ہوگا، پس (پروردگار کی زیارت کو آنے والے) جنّتیوں کے لئے اس باغ میں (مختلف درجات کے منبر یعنی) نور کے منبر، موتیوں کے منبر، یاقوت کے منبرسونے اور چاندی کے منبر رکھے جائیں گے جن پر وہ جنّتی (اعمال و افعال اور مراتب و درجات کے تفاوت کے اعتبار) بیٹھیں گے (کہ جو جنّتی جس درجہ مرتبہ کا ہوگا اسی کے مطابق اس کے ان منبروں میں سے ایک منبر مخصوص ہوگا) نیز ان جنّتیوں میں سے جو جنّتی ادنیٰ مرتبہ ودرجہ کا ہوگا (یعنی صرف مرتبہ کے اعتبار سے ادنیٰ ) نہ کہ ان میں کوئی معمولی اور ذلیل ہوگا، وہ مشک وکافور کے ٹیلوں پر بیٹھے گا (گویا منبر اور کرسیاں اعلی مرتبہ والوں کے لئے مخصوص ہوں گی اور ادنیٰ مرتبہ کے لوگ ٹیلوں پر بیٹھیں گے جیسا کہ قاعدہ ہے کہ عام اجتماعات میں اونچی حیثتوں کے لوگ کرسیوں اور شہ نشین پر بیٹھتے ہیں جب کہ کم حیثیت کے لوگ زمین وفرش پر بیٹھتے ہیں) لیکن ٹیلوں پر بیٹھنے والے لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوگا کہ منبر اور کرسیوں پر بیٹھنے والے لوگ جگہ ونشت گاہ کے اعتبار سے اس سے برتر و افضل ہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا اس دن ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں یقینا کیا تم (دن میں) سورج کو اور (اجالی رات میں ١٤ شب کے چاند کو دیکھنے میں کوئی شبہ رکھتے ہو ؟ ہم نے عرض کیا کہ ہرگز نہیں، فرمایا اسی۔ طرح تمہیں اس دن اپنے پروردگار کو دیکھنے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوگا اور دیدار الہٰی کی اسی مجلس میں ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہے گا جس سے پروردگار تمام حجابات اٹھا کر براہ راستہ ہم کلام نہیں ہوگا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ حاضرین میں سے ایک شخص کو مخاطب کرکے فرمائے گا کہ اے فلاں ابن فلاں ! کیا تجھے وہ دن یاد ہے جب تو نے ایسا ایسا کہا تھا (یعنی اپنی زبان سے ایسے الفاظ نکالے تھے یا ایسے کام کئے تھے جو شرعا جائز تھے ؟ وہ شخص یہ سن کر گویا توقف کرے گا اور اپنے کئے ہوئے گنا ہوں کے اظہار میں تامل کرے گا، پس پروردگار اس کو کچھ عہد شکنیاں یاد دلائے گا جس کا اس نے دنیا میں ارتکاب کیا ہوگا (یعنی اس کے دنیا کے وہ گناہ یاد دلائے گا جن کا ارتکاب میں عہد ربوبیت کا توڑنا لازم آتا ہے ) ۔ تب وہ شخص عرض کرے گا کہ میرے پروردگار کیا آپ نے میرے وہ گناہ بخش نہیں دئیے ہیں ؟ (یعنی میرا جنّت میں داخل کیا جانا کیا اس بات کی علامت نہیں ہے کہ میں نے دو وہ گناہ کئے تھے آپ نے ان کو بخش دیا ہے) پروردگار فرمائے گا بیشک میں نے تیرے وہ گناہ بخش دئیے ہیں اور تو میری وسعت بخشش کے طفیل (آج) اس مرتبہ کو پہنچا ہے۔ پھر وہ لوگ اسی حالت اور اسی جگہ پر ہوں گے کہ ایک بادل آکر ان کے اوپر چھا جائے گا اور ان پر ایسی خوشبو برسائے گا کہ انہوں نے اس جیسی خوشبو کبھی کسی چیز میں نہیں پائی ہوگی۔ اس کے بعد ہمارا پروردگار فرمائے گا کہ ( لوگو) اٹھو اور اس چیز کی طرف آؤ جو ہم نے ازقسم عظمت و بزرگی تمہارے لئے تیار کر رکھی ہے اور تم اپنی پسند و خواہش کے مطابق جو چاہو لے لو (آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ سن کر) ہم جنّتی لوگ اس بازار میں پہنچیں گے جس کو فرشتے گھیرے ہوئے ہوں گے اس بازار میں ایسی ایسی چیزیں موجودہ ہوں گی کہ ان جیسی کوئی چیز نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہوگی نہ کسی کان نے سنی ہوگی اور نہ کسی کے دل میں ان کا تصور آیا ہوگا پھر اس بازار میں سے اٹھا اٹھا کر ہمیں وہ چیزیں دی جائیں گی جن کی ہم خواہش کریں گے درآ نحالی کہ اس بازار میں خریدو فروخت جیسا کوئی معاملہ نہیں ہوگا (بلکہ وہ بازار اصل جنّتیوں کو من سند چیزیں عطاکئے جانے کا مرکز ہوگا) نیز اس بازار میں تمام جنّتی آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا (اس بازار میں باہمی ملاقاتوں کے وقت) ایک بلند مرتبہ شخص ایک ایسے شخص کی طرف متوجہ ہوگا اور اس سے ملاقات کرے گا جو (مرتبہ میں) اس سے کمتر ہوگا، لیکن جنّتیوں میں (کسی کا اعلی اور کسی کا کمتر ہونا صرف مرتبہ اور درجہ کے اعتبار سے ہوگا) یہ نہیں کہ کوئی معمولی اور ذلیل خیال کیا جائے گا (گویاذاتی اعتبار سے تو تمام ہی جنّتی بلند حیثیت اور بلند عزت ہوں گے تاہم دنیا میں اختیار کئے جانے والے اعمال و افعال کی نسبت سے کچھ لوگ اعلی مرتبہ کے ہوں گے اور کچھ لوگ ان سے کم مرتبہ کے، بہرحال اس بلند مرتبہ شخص کو وہ لباس پسند نہیں آئے گا جو وہ کمتر درجہ کے اس شخص کو پہنے ہوئے دیکھے گا اور ان دونوں کا سلسلہ گفتگو (یا ان کے خیالات کا سلسلہ ختم بھی نہ ہونے پائے گا کہ وہ بلند مرتبہ شخص محسوس کرے گا کہ میرے مخاطب کا لباس تو میرے لباس سے بھی بہتر ہے اور یہ (یعنی کمتر درجہ والے شخص کے جسم پر اعلیٰ لباس کا ظاہر ہونا اس لئے ہوگا کہ جنّت میں کسی شخص کو غمگین ہونے کا موقع نہیں دیا جائے گا ( آنحضرت ﷺ نے فرمایا) اس کے بعد ہم سب جنّتی اپنے اپنے محلات اور مکانوں کی طرف واپس ہوں گے اور وہاں ہماری بیویاں (یعنی دنیا کی بیویاں اور جنّت کی حوریں، ہم سے ملیں گی تو مرحبا، خوش آمدید کہہ کر ہمارا استقبال کریں گی اور ہر ایک عورت اپنے مرد سے کہے گی کہ تم اس حال میں واپس آئے ہو کہ اس وقت تمہارا حسن و جمال اس حسن و جمال سے کہیں زیادہ ہے جو ہمارے پاس سے جاتے وقت تم میں تھا پس ہم اپنی بیویوں سے کہیں گے کہ آج ہم نے اپنے پروردگار کے ساتھ ہم نشینی کی عزت حاصل کی ہے جو جسم وبدن اور حسن و جمال کی ہر کمی کو پورا کرکے خوب تر بنانے والا ہے، لہٰذا ہم اپنی اس شان کے ساتھ واپس آنے کے لائق ہیں جس شان کے ساتھ کہ ہم آئے ہیں (کیونکہ جس شخص کو اس ذات کی ہم نشینی حاصل ہوجائے کہ تمام ترحسن و جمال اسی کے نور کا پر تو ہے، تو وہ شخص زیادہ سے زیادہ حسن و جمال کیسے نہیں پائے گا) اس روایت کو ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، نیز ترمذی نے کہا ہے یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح جنّت میں چونکہ نہ شب و روز کی گردش ہوگی اور نہ ایام کا وجود، لہٰذا دنیاوی اعتبار سے جمعہ کے دن۔ سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کا عرصہ جتنے وقت پر مشتمل ہوتا ہے جنت میں اسی کا تعین کر کے کچھ وقت جمعہ کا دن قرار دے دیا جائے گا اور اس اعتبار سے وہ وقت کو گویا وہ دن ہوگا جو دنیا میں جمعہ کا ہوتا ہے اور پھر اس وقت جنتیوں کو حکم ہوگا کہ اپنے پروردگار کی زیارت کے لئے اپنے اپنے محلات اور مکانات سے نکل کر فلاں باغ میں پہنچیں، پس جنت میں پروردگار کی زیارت کے لئے جمعہ کے دن کا تعین دراصل اس بات کا نتیجہ اور اجر و انعام ہوگا کہ وہ جنتی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جمعہ کے دن اپنے گھروں سے نکل کر جامع مسجد پہنچتے اور جمعہ کی نماز پڑھتے تھے۔ پروردگار ان کے سامنے اپنا عرش ظاہر کرے گا۔ میں عرش سے مراد پروردگار کا نہایت لطف و کرم اور زیادہ سے زیادہ رحمت و عنایت ہے، ورنہ یہ بات پہلے بتائی جاچکی ہے کہ عرش، جنت کی چھت ہے، لہٰذا جنتیوں کے سامنے عرش کا ظاہر ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ نہ کہ ان میں کوئی معمولی اور ذلیل ہوگا۔ یہ جملہ ماقبل عبارت کی وضاحت ہے گویا حضور ﷺ نے یہ فرمایا کہ میں نے جو یہ کہا ہے کہ۔ ان جنتیوں میں سے جو جنتی ادنیٰ مرتبہ ودرجہ کا ہوگا۔ تو ادنیٰ سے مراد اعلی درجات اور زیادہ سے زیادہ مراتب رکھنے والے جنتیوں کے مقابلہ پر کمتر درجہ اور قلیل مراتب رکھنا ہے نہ کہ ادنیٰ کا لفظ حقارت کی جگہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ذات کے اعتبار سے ذلیل و حقیر اور ادنیٰ ہونا ہے پس واضح رہے کہ جنت میں ذاتی شخصیت کی حد تک ہر جنتی یکساں مرتبہ کا ہوگا، کوئی کسی کے مقابلہ پر ذلیل و حقیر نہیں ہوگا، صرف حیثیت اور مرتبہ کا فرق ہوگا کہ دنیا میں اختیار کئے جانے والے اعمال و افعال کے اعتبار سے کچھ لوگ اعلی درجات اور زیادہ مراتب کے حامل ہوں گے اور کچھ لوگ ان کی بہ نسبت کم درجہ و مرتبہ کے ہوں گے۔ ٹیلوں پر بیٹھنے والے لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ٹیلوں پر بیٹھتے ہونگے وہ کرسیوں اور منبروں پر بیٹھنے والوں کو دیکھ کر احساس کمتری کا شکار نہیں ہوں گے کیونکہ جنت میں ہر شخص اپنے مرتبہ اور اپنی حیثیت پر صابر وشاکر ہوگا، جو لوگ کمتر درجہ کے ہوں گے وہ یہ جانتے ہیں کہ باوجودیکہ ہم کمتر درجہ کے ہیں اور ہمارے مقابلہ پر فلاں لوگ برتر درجہ کے ہیں۔ اپنے طور پر پوری طرح مطمئن ہونگے، نہ وہ بلند مرتبے کی آرزو کریں گے نہ انہیں بلند مرتبہ کی محرومی کا احساس اور غم ہوگا اور نہ انہیں کسی طرح کی غیرت وخجالت محسوس ہوگی۔ فیروعہ مایری علیہ من اللباس اس کی عبارت کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ لفظ روع کے دو معنی آتے ہیں ایک تو ڈرانا دوسرے خوش کرنا پہلے معنی مراد لینے کی صورت میں ( اس عبارت کا ترجمہ ومطلب وہی ہوگا جو اوپر بیان کیا گیا یعنی جب وہ بلند رتبہ شخص اس کم مرتبہ شخص کے بدن کا لباس دیکھے گا تو اس کو ڈر یعنی کراہت محسوس ہوگی کیونکہ وہ لباس اس کے لباس سے کمتر درجہ کا ہوگا۔ دوسرے معنی کی صورت میں ترجمہ ومطلب یہ ہوگا کہ جب وہ بلند مرتبہ شخص اس کم مرتبہ شخص کا لباس دیکھے گا تو اسے اس بات کی بہت خوشی محسوس ہوگی کہ خود ان کے بدن پر اعلی لباس ہے، لیکن زیادہ صحیح معنی پہلے ہی ہیں اور اس عبارت سے متعلق آگے کے جملوں کا ترجمہ بھی اسی پہلے معنی کو بنیاد بنا کر کیا گیا ہے۔

【36】

اہل جنت میں اولاد کی خواہش

اور حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنتیوں میں سب سے کم مرتبہ کا جو شخص ہوگا اس کے اسی ہزار خادم اور بہتر بیویاں ہوں گی، (جن میں سے دو بیویاں دنیا کی عورتوں میں سے اور ستر بیویاں حوران جنت میں سے ہوں گی) اس لئے جو خیمہ کھڑا کیا جائے گا وہ موتی زمرد اور یاقوت سے (بنا ہوگا یا یہ کہ ان چیزوں سے مرصع ومزین) ہوگا۔ اسی اسناد کے ساتھ (حضرت ابوسعید (رض) سے نقل ہونے والی) ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا وہ لوگ جن کو جنت میں داخل کیا جائے گا دنیا میں خواہ چھوٹی عمر میں مریں یا بڑی عمر میں جنت کے اندر تیس تیس سال کی عمر کے ہو کر جائیں گے اور وہ کبھی بھی اس عمر سے زیادہ کے نہیں ہوں گے، یہی معاملہ دوزخیوں کا بھی ہوگا۔ اور اسی اسناد کے ساتھ ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جنتیوں کے سروں پر جو تاج ہوگا اس کا سب سے معمولی موتی بھی ایسا ہوگا کہ مشرق سے مغرب تک کو روشن ومنور کردے۔ اور اسی اسناد کے ساتھ ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر (بالفرض) کوئی مسلمان جنت میں اولاد کا خواہش مند ہوگا تو (اس کی خواہش اس طرح پوری کی جائے گی کہ) بچہ کا حمل قرار پانا، اس کا پیدا ہونا اور اس کا انتہائی عمر (یعنی تیس سال کی عمر) تک پہنچنا سب کچھ ایک ساعت میں عمل پذیر ہوجائے گا۔ حضرت ابواسحاق بن ابراہیم اس آخری روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر کوئی مومن جنت میں اولاد کا خواہش مند ہوگا تو اس کی خواہش ایک ساعت میں پوری تو ہوجائے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی خواہش کوئی بھی نہیں کرے گا اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ ابن ماجہ نے چوتھی روایت نقل کی ہے اور دارمی نے صرف آخرکا حصہ (جوابواسحٰق سے منقول ہے) نقل کیا ہے۔ تشریح یہی معاملہ دوزخیوں کا بھی ہوگا۔ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اہل جنت تیس تیس سال کی عمر کے ہو کر جنت میں داخل ہوں گے خواہ وہ دنیا میں چھوٹی عمر میں مرے ہوں یا بڑی عمر میں، اسی طرح دوزخی بھی تیس تیس سال ہی کی عمر کے ہو کر دوزخ میں جائیں گے اور جنتیوں کی طرح وہ دوزخی بھی ہمیشہ تیس ہی سال کی عمر کے رہیں گے واضح رہے کہ اہل جنت اور اہل دوزخ کے لئے ہمیشہ کی عمر تیس سال مقرر ہونا شاید اس لئے ہو کہ جو مستحق چین و راحت ہوں انہیں کامل راحت نصیب ہوسکے اور جو مستحق عذاب ہوں انہیں کامل عذاب ملے، پس جس طرح اہل جنت دارالقرار میں ہمیشہ ہمیشہ اپنی اس بھری عمر کے ساتھ راحت وچین کا پورا سکھ اٹھاتے رہیں گے اسی طرح اہل دوزخ دار البوار میں ہمیشہ ہمیشہ اپنی بھری عمر کے ساتھ عذاب و سختی کا پورا دکھ جھلیتے رہیں گے۔

【37】

حوروں کا گیت

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جنت میں حوران عین کے اجتماع کی ایک جگہ ہوگی (جہاں وہ حوریں سیر و تفریح اور ایک دوسرے سے ملنے کے لئے جمع ہوا کریں گی) اور وہاں بلند آواز سے گیت گائیں گی (ان کی آواز اس قدر دل کش اور حسین ہوگی کہ) مخلوقات میں سے کسی نے ایسی آواز کبھی سنی نہیں ہوگی، وہ حوریں اس طرح کا گیت گائیں گی ہمیں زندگی میں دوام حاصل ہے، ہم کبھی موت کی آغوش میں نہیں جائیں گی ہم عیش وچین کے ساتھ رہنے والی ہیں ہم کبھی سختی و پریشانی نہیں دیکھیں گی ہم اپنے پروردگار یا اپنے خاوندوں سے راضی وخوش رہنے والی ہیں، ہم کبھی ناخوش نہیں ہوں گی ہر اس شخص کے لئے مبارکبادی ہے جو (جنت میں) ہمارے لئے ہے اور ہم اس کے لئے ہیں۔ (ترمذی)

【38】

جنت کے دریا اور نہریں

اور حکیم ابن معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جنت میں پانی کا دریا ہے اور شہد کا دریا ہے اور دودھ کا دریا ہے اور شراب کا دریا ہے اور پھر (جنتیوں کے داخل ہونے کے بعد) ان دریاؤں سے نہریں نکلیں گی۔ (ترمذی) دارمی نے اس روایت کو معاویہ سے نقل کیا ہے۔ تشریح ظاہر ہے کہ حدیث میں مذکورہ دریاؤں سے مراد ان نہروں کے چشمے اور منبع ہیں جن کا ذکر قرآن کی اس آیت میں کیا گیا ہے۔ ( فِيْهَا اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّا ءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُه وَاَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ ڬ وَاَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى) 47 ۔ محمد 15) اس (جنت) میں بہت سی نہریں تو ایسے پانی کی ہیں جس میں ذرا تغیر نہ ہوگا اور بہت نہ ہوگا اور بہت سی نہریں دودھ کی ہیں جن کا ذائقہ ذرا بدلہ ہوا نہ ہوگا اور بہت سی نہریں شراب کی ہیں جو پینے والوں کو بہت لذیذ معلوم ہوں گی اور بہت سی نہریں ہیں شہد کی جو بالکل صاف شفاف ہوگا۔ یہ نہریں وہ ہوں گی جو حدیث میں مذکورہ دریاؤں سے نکلیں گی اور پھر ان نہروں سے چھوٹی چھوٹی نہریں شاخ در شاخ نکل کر ابرار و اخیار کے خیموں کی طرف جاری ہونگی اور محلات کے نیچے بہیں گیں۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ حدیث میں جن دریاؤں کا ذکر ہے وہ دراصل وہی نہریں ہے جن کو قرآن کی مذکورہ آیت میں نہر ہی کے نام سے ذکر کیا گیا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ حدیث میں ان کو دریا سے تعبیر کیا گیا ہے اور قرآن نے ان کو ان کے معنی جاری ہونے اور بہنے کی مناسبت سے نہر کا نام دیا ہے۔

【39】

حوران جنت کا ذکر

اور حضرت ابوسعید (رض) رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جنتی مرد جزا یافتہ شخص جنت میں ستر مسندوں کا تکیہ لگا کر بیٹھے گا قبل اس کے کہ ایک پہلو سے دوسرا پہلوبدلے پھر جنت کی عورتوں میں سے ایک عورت اس کے پاس آئے گی اور (اس کو اپنی طرف متوجہ ومائل کرنے کے لئے) اس کے کاندھے پر ٹھوکا دے گی، وہ مرد اس طرف متوجہ ہوگا اس کے رخساروں میں جو آئینہ سے زیادہ صاف و روشن ہوں گے اپنا چہرہ دیکھے گا اور حقیقت یہ ہے کہ اس عورت کے (کسی زیور یا تاج میں جڑا ہوا) ایک معمولی ساموتی بھی (اس قدر بیش قیمت اور نظر کو خیرہ کرنے والا ہوگا کہ) اگر وہ دنیا میں آجائے تو مشرق سے مغرب تک (کی ہر چیز) کو روشن ومنور کردے۔ بہرحال وہ عورت اس مرد کو سلام کرے گی اور مرد اس کے سلام کا جواب دے گا اور پوچھے گا تم کون ہو ؟ وہ کہے گی کہ میں مزید میں سے ہوں۔ صورت حال یہ ہوگی کہ اس عورت کے جسم پر ستّر (رنگ برنگ) کپڑوں کا ( تہ درتہ لباس ہوگا اور اس مرد کی نظر عورت کے اس لباس میں سے بھی پار ہوجائے گی (یعنی وہ لباس کے نیچے چھپے ہوئے عورت کے حسن و جمال اور اس کے جسم کی نزاکت ولطافت کا نظارا کرے گا) یہاں تک کہ وہ مرد اس عورت کی پنڈلی کے گودے کو لباس کے پیچھے سے دیکھے گا (گویا اس کی نگاہ اتنی تیز اور صاف ہوگی کہ کوئی بھی چیز اس کے) آگے دیکھنے میں رکاوٹ نہیں بنے گی) اور اس عورت کے سر پر تاج رکھے ہونگے اور ان تاجوں کا معمولی ساموتی بھی ایسا ہوگا کہ اگر وہ (دنیا میں آجائے) تو مشرق سے مغرب تک (کی ہر چیز) کو روشن ومنور کردے۔ (احمد) تشریح قبل اس کے کہ وہ ایک پہلو سے دوسرا پہلو بدلے کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس مرد کے پہلوؤں میں اتنے زیادہ گاؤ تکئے رکھے ہونگے کہ وہ ایک ہی پہلو پر بیٹھا ہوا دوسرا پہلو بدلنے تک طرح طرح کے ستّر تکیوں سے ٹیک لگائے گا۔ میں، مزید، میں سے ہوں۔ یعنی ان نعمتوں میں سے ایک نعمت ہوں جن کا حق تعالیٰ نے تمہاری نیکو کاریوں کے بدلہ وجزاء کے علاوہ خصوصی انعام کے طور پر مزید عطا کرنے کا وعدہ کیا تھا یہ گویا قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہوگا کہ (لَهُمْ مَّا يَشَا ءُوْنَ فِيْهَا وَلَدَيْنَا مَزِيْدٌ) 50 ۔ ق 35) ان (اہل ایمان) کو جنت میں وہ کچھ ملے گا جو ہم (جزاء کے طور پر) دینا چاہیں گے اس کے علاوہ ہمارے پاس اور بھی (خصوصی انعام) ہیں اس مضمون کی ایک آیت یہ بھی ہے (لِلَّذِيْنَ اَحْسَ نُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ) 10 ۔ یونس 26) نیک کاروں کے لئے جنت ہیں مزید برآں۔ ویسے مفسرین نے اس آیت میں زیادۃ (مزیدا برآں) کی تفسیر حق تعالیٰ کا دیدار کیا ہے، تاہم یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ ان مزید نعمتوں (خصوصی انعام) میں سے ایک نعمت بعض حوریں بھی ہیں، رہی یہ بات کہ حوران جنت کی اس نعمت کو مزید یا زیادہ سے کیوں تعبیر فرمایا گیا ہے تو وجہ یہ ہے کہ وہ فضل الٰہی سے بندوں کو ان نیک اعمال کی جزاء میں عطا کی جائیں گی، اب وہ جنت عطا ہونے کے بعد پھر بندوں کو جو کچھ ملے گا وہ خصوصی عنایت و انعام اور فضل بر فضل ہوگا اور ظاہر ہے کہ اصل اجر و بدلہ سے زائد چیز ہوگی۔

【40】

جنت میں زراعت کی خواہش اور اس کی تکمیل

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ( ایک دن) نبی کریم ﷺ کے پاس ایک دیہاتی مسلمان بیٹھا ہوا تھا اور آپ ﷺ یہ حدیث ارشاد فرما رہے تھے کہ جنتیوں میں ایک شخص اپنے پروردگار سے کھیتی کی اجازت طلب کرے گا، خداوند تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ موجود نہیں ؟ (یعنی جب یہاں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی تمہیں خواہش ہو، تو پھر کھیتی کرنے کی کیا ضرورت ہے) وہ شخص عرض کرے گا کہ بیشک یہاں سب کچھ موجود ہے لیکن میری خواہش یہی ہے کہ میں کھیتی کروں۔ (آنحضرت ﷺ نے فرمایا بہرحال اس شخص کو کھیتی کرنے کی اجازت دیدی جائے گی اور وہ زمین میں بیج ڈالے گا اور پلک جھپکتے ہی سبزہ اگ آئے گا اور جب ہی کھیتی بڑھ کر پک کر کٹ جائے گی اور پہاڑ کے برابر انبار لگ جائیں گے، تب اللہ تعالیٰ اس شخص سے فرمائے گا ابن آدم ! دیکھ تیری خواہش پوری ہوگئی، حقیقت یہ ہے کہ تیری حرص کا پیٹ کوئی چیز نہیں بھرتی۔ روای کہتے ہیں کہ (یہ حدیث سن کر) وہ دیہاتی ( جو حضور کے پاس بیٹھا تھا، کہنے لگا اللہ کی قسم، وہ شخص یقینا یا تو قریشی ہوگا یا انصاری (یعنی جنت میں کھیتی کرنے کی خواہش کرنے والا شخص یا تو مکہ والوں میں سے ہوگا یا مدینے والوں میں سے، کیونکہ یہی لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں جہاں تک ہم صحرانشین دیہاتیوں کا تعلق ہے، کھیتی باڑی سے ہمارا کوئی واسطہ ہی نہیں ہے (ہم جنگلوں میں اونٹ بکری چرا کر اور محنت مزدوری کرکے دودھ اور کھجوروں پر گزارہ کرلیتے ہیں ان چیزوں کے علاوہ ہمیں اور کسی چیز کی خواہش نہیں ہے) پس (اس دیہاتی کی یہ بات سن کر) رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے۔ (بخاری) تشریح تیری حرص کا پیٹ کوئی چیز نہیں بھرتی کا مطلب یہ ہوگا کہ آدم زادے ! یہ تو ہوگیا کہ تو نے ایک خواہش ظاہر کی اور ہم نے تیری وہ خواہش آن واحد میں پوری کردی مگر ذرا سوچ کہ جنت میں تجھے ان گنت نعمتیں حاصل ہونے اور تیری خواہش کی ہر چیز تجھے میسر ہونے کے باوجود تو نے کھیتی باڑی کرنے جو عجیب و غریب خواہش ظاہر کی وہ کس بات پر دلالت کرتی ہے کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تیری حرص کا پیٹ کبھی نہیں بھر سکتا اور عیش وتنعم کی آخری سے آخری حد بھی تجھے قناعت تک نہیں پہنچا سکتی اس سے معلوم ہوا کہ حرص اور ترک قناعت انسان کی جبلت میں داخل ہے اور یہ ایک ایسی خصلت ہے جو اس میں سے نکل نہیں سکتی خواہ وہ جنت میں کیوں نہ پہنچا ہوا ہو

【41】

جنت میں زراعت کی خواہش اور اس کی تکمیل

اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ( ایک دن) نبی کریم ﷺ کے پاس ایک دیہاتی مسلمان بیٹھا ہوا تھا اور آپ ﷺ یہ حدیث ارشاد فرما رہے تھے کہ جنتیوں میں ایک شخص اپنے پروردگار سے کھیتی کی اجازت طلب کرے گا، خداوند تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ موجود نہیں ؟ (یعنی جب یہاں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی تمہیں خواہش ہو، تو پھر کھیتی کرنے کی کیا ضرورت ہے) وہ شخص عرض کرے گا کہ بیشک یہاں سب کچھ موجود ہے لیکن میری خواہش یہی ہے کہ میں کھیتی کروں۔ (آنحضرت ﷺ نے فرمایا بہرحال اس شخص کو کھیتی کرنے کی اجازت دیدی جائے گی اور وہ زمین میں بیج ڈالے گا اور پلک جھپکتے ہی سبزہ اگ آئے گا اور جب ہی کھیتی بڑھ کر پک کر کٹ جائے گی اور پہاڑ کے برابر انبار لگ جائیں گے، تب اللہ تعالیٰ اس شخص سے فرمائے گا ابن آدم ! دیکھ تیری خواہش پوری ہوگئی، حقیقت یہ ہے کہ تیری حرص کا پیٹ کوئی چیز نہیں بھرتی۔ روای کہتے ہیں کہ (یہ حدیث سن کر) وہ دیہاتی ( جو حضور کے پاس بیٹھا تھا، کہنے لگا اللہ کی قسم، وہ شخص یقینا یا تو قریشی ہوگا یا انصاری (یعنی جنت میں کھیتی کرنے کی خواہش کرنے والا شخص یا تو مکہ والوں میں سے ہوگا یا مدینے والوں میں سے، کیونکہ یہی لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں جہاں تک ہم صحرانشین دیہاتیوں کا تعلق ہے، کھیتی باڑی سے ہمارا کوئی واسطہ ہی نہیں ہے (ہم جنگلوں میں اونٹ بکری چرا کر اور محنت مزدوری کرکے دودھ اور کھجوروں پر گزارہ کرلیتے ہیں ان چیزوں کے علاوہ ہمیں اور کسی چیز کی خواہش نہیں ہے) پس (اس دیہاتی کی یہ بات سن کر) رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے۔ (بخاری) تشریح تیری حرص کا پیٹ کوئی چیز نہیں بھرتی کا مطلب یہ ہوگا کہ آدم زادے ! یہ تو ہوگیا کہ تو نے ایک خواہش ظاہر کی اور ہم نے تیری وہ خواہش آن واحد میں پوری کردی مگر ذرا سوچ کہ جنت میں تجھے ان گنت نعمتیں حاصل ہونے اور تیری خواہش کی ہر چیز تجھے میسر ہونے کے باوجود تو نے کھیتی باڑی کرنے جو عجیب و غریب خواہش ظاہر کی وہ کس بات پر دلالت کرتی ہے کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تیری حرص کا پیٹ کبھی نہیں بھر سکتا اور عیش وتنعم کی آخری سے آخری حد بھی تجھے قناعت تک نہیں پہنچا سکتی اس سے معلوم ہوا کہ حرص اور ترک قناعت انسان کی جبلت میں داخل ہے اور یہ ایک ایسی خصلت ہے جو اس میں سے نکل نہیں سکتی خواہ وہ جنت میں کیوں نہ پہنچا ہوا ہو

【42】

جنت میں نیند نہیں آئے گی

اور حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ کیا جنتی سوئیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نیند یعنی سونا، موت کا بھائی ہے اور ظاہر ہے کہ جنتی مریں گے نہیں ( اور جب مریں گے نہیں تو سوئیں گے بھی نہیں اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔